اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
جمعرات، 31 جولائی، 2025
نماز اور تعمیر شخصیت(۲)
نماز اور تعمیر شخصیت(۲)
نماز کسی بھی فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اس کی معاشرتی شخصیت کو بھی سنوارتی ہے۔ جب ایک شخص مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اسے برادری ، اخوت و مساوات اور اتحاد کا سبق ملتا ہے۔ امیر و غریب ، حاکم اور محکوم ،عالم اور جاہل سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب برابر ہیں۔ یہی تاثر اس کی معاشرتی رویوں کو نرم اور متواز ن بناتا ہے۔
نماز کی وجہ سے انسان میں خود احتسابی کی خوبی پیدا ہوتی ہے۔ ہر نماز کے بعد انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعمال پر نظر ثانی کرے اور اپنا محاسبہ کرے کہ اس نے دن بھر میں کیا اچھا کیا اور کیا برْا کیا۔ جب انسان اپنا احتساب کرتا ہے تو اس کے فیصلوں میں بہتری آتی ہے ، اس کا رویہ بہتر ہوتا ہے اور وہ بْرے اعمال کو چھوڑ کر اچھے اعمال کی طرف راغب ہوتا ہے۔ جب انسان نماز کی پابندی کرتا ہے تو وہ کبھی بھی لاپرواہ ، خود غرض اور غیر سنجیدہ نہیں رہتا۔
نماز میں رکوع سجود حقیقت میں اللہ تعالی کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار ہے۔ جب انسان دن میں کئی مرتبہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر سجدہ ریز ہوتا ہے تو اس کے اندر سے غرور ، انانیت اور برتری کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہی عجز و انکساری اسے دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور اچھے اخلاق سے پیش آنے والا اور نرم دل باوقار انسان بنا دیتی ہے۔
آج اس پْر فتن اور جدید دور میں جب نوجوان سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے منسلک ہو کر بے راہ روی اور بے سکونی کا شکار ہیں۔ اس کا علاج صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے نماز کی پابندی کرنا ہے۔ نماز ان کے نفس کو کنٹرول کرنا سکھاتی ہے۔انسان کے جذبات کو معتدل بناتی ہے اور انہیں جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ جو نوجوان نماز کا پابند ہو وہ وقت کا پابند ہوتا ہے ، اور اس کا اخلاق بھی بلند ہوتا ہے۔ ایسا شخص نظریاتی طور پر مضبوط اور سماجی طور پر مفید بن جاتا ہے۔
تعمیر شخصیت کے تمام پہلو ئوں کا احاطہ کرنے والی عبادت اگر کوئی ہے تو وہ نماز ہے۔ یہ عبادت انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط بناتی ہے۔ جس سے انسان اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ بندہ ، مخلوق کا خیر خواہ اور اپنے نفس کا نگہبان بن جاتا ہے یعنی کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے۔ اگر ہم اپنی نوجوان نسل کی شخصیت میں انقلاب دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں نماز کا پابند بنانا ہو گا یہی وہ نسخہ ہے جس سے فرد بھی سنور جائے گا اور معاشرہ بھی۔اللہ تعالیٰ ہمیں پانچ وقت نماز با جماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین !
بدھ، 30 جولائی، 2025
نماز اور تعمیر شخصیت(۱)
نماز اور تعمیر شخصیت(۱)
انسانی شخصیت کی تعمیر قوم کی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔ ایک فرد کی سیرت،اخلاق، رویے، فیصلے اور مقصد ِ زندگی ہی اس کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ انسان کی ظاہری اور باطنی اصلاح کے لیے اسلام نے جو جامع نظام عطا کیا ہے اس کا مرکزی ستون نماز ہے۔ نمازمحض ایک عبادت نہیں بلکہ یہ ایک تربیتی نظام ہے جو انسان کو روحانی بلندی، اخلاقی پاکیزگی، نظم و ضبط پیدا کرتی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط بناتی ہے۔ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں سب سے پہلا کام بے حیائی اور برائی سے رکنا ہے اور یہ کام نماز کے ذریعے ممکن ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘ اس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نماز انسان کی فکری، نفسیاتی اور عملی زندگی کو مثبت سمت دیتی ہے۔ نماز وہ ذریعہ ہے جس سے انسان روزانہ پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا ہے جس سے بندے کا اپنے خالق حقیقی سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور اس کے دل میں محبت الٰہی اور خوف خدا پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان کے دل میں یہ احسا س پیدا ہو جائے کہ اس نے اپنے مالک کی بارگاہ میں حاضری دینی ہے تو وہ اپنے اعمال، خیالات اور ارادوں کو درست سمت میں لے کر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، میرے صحابہ، اگر تمھارے گھر کے سامنے ایک نہر ہو اور تم دن میں پانچ مرتبہ اس نہر میں نہائو تو کیا تمھارے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گی؟ صحابہ نے عرض کیا، بالکل بھی نہیں۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہی مثال نماز کی ہے جب بندہ پانچ مرتبہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ نماز انسان کو صبر ، شکر ، بردباری ، توکل اور حیا جیسی اعلیٰ صفات سکھاتی ہے۔ جب انسان فجر کو نیند سے جلدی بیدار ہوتا ہے، ظہر کو کام چھوڑ کر نماز کے لیے آتا ہے، مغرب کے بعد جلدی کرتا ہے تو یہ سب اسے نظم و ضبط، وقت کی پابندی اور ذمہ داری کا احساس دلاتے ہیں۔ جب یہ اوصاف انسان کی شخصیت میں نمایاں ہو جائیں تو اس کی شخصیت مثالی بن جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’صبر اور نماز سے مدد چاہو‘، یعنی نماز مشکل وقت میں انسان کو حوصلہ دیتی ہے اسے ٹوٹنے نہیں دیتی بلکہ اسے سنبھلاتی ہے جس سے ایک مضبوط اور باوقار شخصیت جنم لیتی ہے۔ نماز پڑھنے والا شخص اپنی ذات کی قیادت کرنا سیکھتا ہے، اپنی خواہشات پر قابو پاتا ہے، خود کو وقت کے مطابق ڈھالتا ہے اور کوئی بھی فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے کہ کہیں میرا رب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔
منگل، 29 جولائی، 2025
نیت کی اصلاح
نیت کی اصلاح
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ لی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ ہی کے لیے ہے۔ اورجس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہو تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ ( صحیح بخاری شریف )۔
نیت کی درستگی سے مراد یہ ہے کہ نیک کام محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے ، کسی کے خوف سے یا کسی کی خوشنودی کے لیے نہ ہو اور اس میں لوگوں میں شہرت ، نیک نامی یا دنیاوی لالچ بھی نہ ہو۔ اور اگر کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کی بجائے کسی شخص کی خوشنودی یا لوگوں میں شہرت اور نام کمانے کے لیے کیا جائے یا پھر دنیاوی مقصد کے لیے کیا جائے تو اس میں خرابی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بلکہ اسے تو تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔ (سورۃالحج)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری شکل و صورت اور مال و دولت کو نہیں دیکھتابلکہ وہ تو تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔ ( مسلم شریف)۔
کسی بھی عمل کے لیے نیت کا خالص ہونا بہت ضروری ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی نیک عمل کرنے کاارادہ کرے تو اسے ایک نیکی کا ثواب مل جاتا ہے۔ اور اگر نیت کے بعد اس عمل کو کر بھی لے تو اسے کم از کم دس گناثواب ملتا ہے اور بعض صورتوں میں سات گنا تک ثواب ملتا ہے۔ (بخاری )۔
اوس بن حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : جو شخص رات کو سوتے وقت تہجد کی نیت کر لے لیکن وہ بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس عمل کا ثواب مل جاتا ہے جس کی اس نے نیت کی اور نیند اس پر اس کے رب کی طرف سے صدقہ ہے۔ (سنن نسائی )۔
اگر کوئی عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نہ کیا جائے بلکہ دکھلاوے کے لیے جا ئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک قرار پاتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص لوگوں کے دکھلاوے کی خاطر نماز پڑھے، روزے رکھے یا صدقہ کرے تو وہ شرک کا مرتکب ہے۔ ( مسند احمد )۔
کھانے کے آداب
کھانے کے آداب
حضرت عمرو بن ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں جب میں چھوٹا تھا رسول خدا ﷺ کی آغوش میں تھا ۔ میرا ہاتھ پیالے میں ہر سمت گھومتا تھا ۔ تو مجھے آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا نام لو یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھو ۔ اور اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ کھائو ۔ اور اپنی طرف سے کھائو ۔
( بخاری و مسلم )
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے اور اگر آغاز میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ بسم اللہ اولہ وآخرہ کہے ( ابو دائود ، ترمذی ) ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : شیطان اس کھانے کو حلال سمجھتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر نہ کیا جائے ۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول خدا ﷺ کو تین انگلیوں کے ساتھ کھاتے ہوئے دیکھا جب فارغ ہوئے تو انہیں چاٹ لیا ( مسلم شریف) ۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے چاہیے کہ اسے اٹھا لے اور جو آلودگی لگی ہے اسے جھاڑ لے اور اسے چاہیے کہ اسے کھا لے۔ اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور ہاتھ رومال سے نہ پونچھے یہاں تک کہ انگلیاں چاٹ لے ۔ کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے ۔ ( مسلم شریف )
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کھانا ٹھنڈا کرکے کھائو کیونکہ گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی اور کھانا سونگھو نہیں کیونکہ یہ چار پایوں کا کام ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں سے عیب نہیں نکالا ۔ اگر چاہا تو کھا لیتے اور پسند نہ ہوتا تو چھوڑ دیتے (بخاری و مسلم ) ۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺنے اپنے اہل خانہ سے کھانا طلب فرمایا ۔ عرض کی گئی کہ اور کچھ نہیں صرف سرکہ ہے ۔ آپ ﷺ نے وہی طلب فرمایا اور کھانے لگے اور فرمایا کیا اچھا سالن سرکہ ہے کیا ہی اچھا سالن سرکہ ہے ۔( مسلم )
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’ اور کھائو پیو اور اسراف نہ کرو ۔‘‘
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’کسی آدمی نے پیٹ سے زیادہ تن نہیں بھرا ۔ ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے وہ اپنی پشت سیدھی رکھے ۔ اگر بھرے بغیر چارہ نہیں تو ایک تہائی طعام کے لیے ، ایک تہائی مشروب کے لیے اور ایک تہائی اپنی سانس کے لیے ۔‘‘
پیر، 28 جولائی، 2025
اتوار، 27 جولائی، 2025
قرآن مجید میں عقل و تدبر کی اہمیت
قرآن مجید میں عقل و تدبر کی اہمیت
قرآن مجید فرقان حمید انسانیت کے لیے ہدایت ، نور اور فلاح کا کامل ذریعہ ہے۔ اللہ جل شانہ نے جہاں قرآن مجید میں ایمان ، اخلاق اور عبادت کا ذکر کیا ہے وہیں انسان کو بار بار مخاطب کر کے عقل استعمال کرنے اور تدبر کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔
سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ افلا تعقلون ‘‘ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا : بیشک اس میں نشانیا ں ہیں عقل والوں کے لیے۔ قرآن مجید یہ انداز دعوت اور تربیت کا انمول نمونہ ہے۔ بار بار انسان کو عقل سے کام لینے اور کائنات پر غورو فکر کرکے تاریخ سے سبق حاصل کرنے اور قرآن مجید کی آیات پر تدبر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ محمد )۔
اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کی صرف تلاوت کافی نہیں بلکہ اس کی آیات پر غورو فکر کرنا بھی ضروری ہے تا کہ انسان اس کی ہدایت کو اپنے قلب و عمل میں اتار سکے۔ سابقہ اقوام قوم لوط ، قوم ثمود ، قوم فرعون اور قوم عاد کی تباہی کی یہی وجہ تھی کہ عقل و بصیرت کی راہ کو چھوڑ کر اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید کرتے ہوئے تکبر ، جمود اور جہالت کے راستے پر چل پڑے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو بہرے گونگے ہیں جن کو عقل نہیں ‘‘۔ ( سورۃ الانفال )۔
اس آیت میں واضح ہو گیا کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ جسمانی طور پر تو زندہ ہیں لیکن روحانی طور پر مردہ ہیں۔ اللہ کے نزدیک وہ لوگ بہرے نہیں جن کو سنائی نہیں دیتا اور وہ گونگے نہیں جو بول نہیں سکتے بلکہ جو لوگ اپنی عقل کا استعمال نہیں کرتے وہ حقیقت میں گونگے اوربہرے وہ ہیں۔
سورۃ ص آیت ۲۹ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ یہ ایک کتاب ہے ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں پر تدبر کریں اور عقل مند نصیحت مانیں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ قرآن مجید ایک با برکت کتاب ہے لیکن اس سے نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور جو اس کی آیت پر غورو فکر کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :بیشک رات اور دن کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ( سورۃ آل عمران)
قرآن مجید کا پیغام صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک فکری اور شعوری انقلاب ہے جو عقل و تدبر کے بغیر ممکن نہیں۔ آج امت مسلمہ کے زوال کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے قرآن مجید کی آیات پر تدبر کرنا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔
ہفتہ، 26 جولائی، 2025
جمعہ، 25 جولائی، 2025
عبادت کی وسعت (2)
عبادت کی وسعت (2)
اگر ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے ، ایک استاد ایمانداری کے ساتھ طلبہ کو سبق پڑھا رہا ہے ، ایک آفیسر ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ، کسان کھیت میں ہل چلا رہا ہے کہ حلال رزق کما سکے تو یہ سب عبادت ہے۔ اگر یہ سب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا جائے، اگر اس میں ریاء کاری اور دکھاوے کا عنصر پایا جائے تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے دوسروں کو نفع پہنچانا بھی عبادت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔
جس طرح نماز ، روزہ ، زکوۃ کو ترک کرنا اور استطاعت ہونے کے با وجود حج نہ کرنا اور شرک کرنا گناہ ہے اسی طرح جھوٹی گواہی دینا یا قسم دینا بھی گناہ ہے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتائوں؟۔ ہم نے عرض کی جی حضور ﷺ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، والدین کی نا فرمانی۔ نبی کریم ﷺ ٹیک لگاکر بیٹھے تھے پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خبر دار جھوٹی گواہی دینا بھی بہت بڑ ا گناہ ہے۔یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ اس بات کو دہراتے رہے۔ ( ریاض الصالحین )۔
اسی طرح استطاعت ہونے کے باوجود غریب کی مدد نہ کرنا اور زکوۃ ادا نہ کرنا بھی گناہ اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔ جنتی دوزخیوں سے سوال کریں گے۔
’’تمہیں کون سی چیز دوزخ میں لے گئی وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ‘‘۔ ( سورۃ مدثر)۔
اس سے واضح ہو گیا کہ جس طرح نماز چھوڑنا گناہ ہے اسی طرح غریب کو کھانا نہ کھلانا بھی گناہ ہے۔ ایک بندہ پانچ وقت نماز کے ساتھ تہجد گزار بھی ہو لیکن وہ لوگوں پر ظلم و ستم ڈھا تا ہو اور لوگ اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو اس کی عبادت محض عادت ہے۔اسلام میں عبادت کا تصور انتہائی وسیع ہے اور ہمہ گیر ہے۔ یہ انسان کی پوری حیاتی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ اگر ایک مسلمان خالص نیت اور شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کام کرے تو اس کا ہر عمل عبادت بن جاتا ہے۔
عبادت صرف مساجد تک محدود نہیں بلکہ گھر ، بازار ، دفتر ، کھیت ، عدالت ، مدرسہ ، سکول ، ہسپتال ہر جگہ انسان جو بھی کام خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرے گا وہ عبادت کہلائے گا۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ہر کام کو اللہ تعالی کی رضا کے لیے سر انجام دیتے ہوئے اپنی زندگیوں کو عبادت میں ڈھال لیں۔
جمعرات، 24 جولائی، 2025
عبادت کی وسعت (۱)
عبادت کی وسعت (۱)
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے، تو باقی نہیں ہے
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک اعلی اور خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور میں نے جن اور انسان اس ہی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں ‘‘۔ (سورۃ الذاریٰت)۔
اس آیت مبارکہ سے کہ انسان کے دنیا میں آنے کا حقیقی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ لیکن کیا عبادت کا مفہوم صرف نماز ، روزہ ، زکوۃاور حج جیسے اعمال تک محدود ہے یا پھر عبادت کا دائرہ کار اس سے کہیں وسیع ہے۔ اسلام میں عبادت کا تصور نہایت وسیع ، ہمہ گیر اور جامع ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ لغت میں عاجزی و اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو عبادت کہتے ہیں۔ اصطلاح میں ہر وہ قول و فعل جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سر انجام دیا جائے عبادت کہلاتا ہے۔ چاہے وہ عمل ظاہری ہو یا پھر باطنی۔ لیکن عبادت میں عاجزی و انکساری ضروری ہے کیونکہ اللہ کو تکبر پسند نہیں۔
سورۃ المومن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ سب جہنم میں جائیں گے ‘‘۔
اسی طرح سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ اور جسے اللہ کی عبادت سے عار ہواور وہ تکبر کرے تو اللہ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کرے گا ‘‘۔
عبادت کا تعلق صرف نماز ، روزہ ، زکوۃ یا حج تک محدود نہیں بلکہ اخلاق ، معاملات ، معاشرت اور معیشت سمیت زندگی کے تمام پہلوئوں سے ہے۔ اگر انہیں خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور لوگوں کی بھلائی کے لیے سر انجام دیا جائے۔ جس طرح نماز ادا کرنا عبادت ہے اسی طرح ایک تاجر امانت داری کے ساتھ کوئی چیز بیچے تو یہ بھی عبادت ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔
جس طرح اپنا مال خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کے گھر کا حج کرنا عبادت ہے اسی طرح محنت مزدوری کر کے حلال اور جائز ذرائع سے روزی کمانا بھی عبادت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک مزدور کو بوسہ دے کر فرمایا کہ اس ہاتھ سے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم محبت کرتا ہے۔ جیسے روزہ رکھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا عبادت ہے بالکل اسی طرح کسی حاجت مند کی حاجت کو پورا کر دینا بھی عبادت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جب تک ایک بندہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کو آسان فرماتا رہتا ہے۔
بدھ، 23 جولائی، 2025
اسلام اور ہم
اسلام اور ہم
آج اس دور میں کچھ لوگ ا پنے مسائل اور پریشانیوں کا حل تلاش کرنے کے لیے مختلف لوگوں کی کتابیں پڑھتے ہیں اور ان کے اقوال سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن بطور مسلمان اللہ کے فضل اور اس کی عنایت سے ہمارا ماننا یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کا اعلان آپ ؐ نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا :
’’ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لیے پسند فرمایا ‘‘۔
اگر ہمارے پاس احکام الٰہی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات موجود ہیں تو ہم دوسرے لوگوں کی کتب پڑھ کر زندگی میں کیوں کامیابی تلاش کریں۔ ہمیں قرآن مجید اور حضور ؐ کی تعلیمات میں زندگی کے تمام معاملات میں رہنمائی ملتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگیوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق بسر کریں تو ہماری دینی اور دنیوی زندگی میں انقلاب پیدا ہو جائے۔ آج بد قسمتی سے ہم نے سرکار دو عالم ؐ کی تعلیمات کو صرف دینی اور اخروی زندگی تک محدود کر دیا ہے اور دنیا اور دین کو الگ الگ چیز سمجھنا شروع کر دیا ہے۔
دوسرے مذاہب اور اسلام میں یہ ہی فرق ہے کہ دوسرے مذاہب اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی نہیں کرتے لیکن اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام معاملات چاہے وہ معاشرتی ہوں یا پھر معاشی ہر طرح کی رہنمائی موجود ہے۔ آج ہم مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو پوری طرح اسلام کے سانچے میں نہیں ڈھالا۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :’’ دین میں پورے کے پورے داخل ہو جائو ‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگی کو دینی اور دنیوی طور پر مکمل احکام الٰہی اور سیرت نبوی ؐ کی تعلیمات کے مطابق بسر کریں تو ہم زندگی میں پیش آنے والی تمام مشکلات سے نکل آئیں گے۔
علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ بھی اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آج دنیا میں مسلمانوں کی ذلیل و رسوا ہونے کی وجہ قرآن پاک سے دوری ہے۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
آج ہم مالی اور معاشی لحاظ سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشی مسائل کا حل احکام الٰہی اور تعلیمات نبوی ؐ میں تلاش کریں گے تو ہم معاشی لحاظ سے بہت بہتر ہو جائیں گے اسلام ہمیں محنت کرنے ، میانہ روی اختیار کرنے اور سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے : انسان کو وہی کچھ ملتا جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
منگل، 22 جولائی، 2025
ملازمین کے ساتھ حسنِ سلوک
ملازمین کے ساتھ حسنِ سلوک
انسان جب اپنے ہم مرتبہ لوگوں سے بات چیت کرتا ہے تو اخلاقی قدروں کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اور جب اپنے ماتحت لوگوں سے معاملہ کرتا ہے تو ان کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے اور تمام اخلاقی قدروں کو پامال کر دیتا ہے اور اس کی عزت و نفس کا بھی خیال نہیں رکھتا ۔ حضور نبی کریمﷺ نے اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا اور اپنے سے بڑے اور چھوٹے سب کے ساتھ ایک جیسے معاملات رکھنے کا حکم فرمایا۔
حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے غلام سے کسی بات پر ناراض ہو گیا اور اسے درے سے مارنے لگا ۔ اتنے میں میرے پیچھے سے آواز آئی۔ اے ابو مسعود، جان لو ! مگر میں شدید غصے کی وجہ سے آواز پہچان نہ سکا۔ جب آواز دینے والا میرے قریب آ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ رسول کریمﷺ ہیں اور آپؐ فرما رہے تھے ۔ اے ابو مسعود ! جان لو تمھیں اس غلام پر جتنا قابو حاصل ہے اس سے زیادہ قابو اللہ تعالیٰ کو تمھارے اوپر حاصل ہے ۔یہ سن کر میرے ہاتھ سے کوڑا گر گیا اور میں نے کہا کہ میں کبھی بھی اس غلام کو نہیں ماروں گا۔ میں اس غلام کو اللہ کے لیے آزاد کر تا ہوں۔ یہ سن کر حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، ہاں اگر تم ایسا نہ کرتے تو تمھیں آگ چھو لیتی۔ (جامع الاصول)
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضورﷺ سے پوچھا، ہم ملازم کو ایک دن میں کتنی بار معاف کر دیا کریں؟ آپؐ خاموش رہے۔ اس نے دوسری مرتبہ پوچھا، آپؐ خامو ش رہے۔ اس نے پھر یہ ہی سوال پوچھا تو آپؐ نے فرمایا اسے ہر روز ستر مرتبہ معاف کر دیا کرو۔ (ابی دائو د)
حضور نبی کریمﷺ نے غلاموں کے متعلق ارشاد فرمایا، وہ تمھارے بھائی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے تمھارے ماتحت کر دیا ہے تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو اسے چاہیے کہ جو خود کھاتا ہے اسے بھی وہ ہی کھلائے جو خود پہنتا ہے اس کو بھی پہنائے اور اس سے اس کی طاقت سے زیادہ کوئی کام نہ کروائے۔ اگر اسے کوئی ایسا کام کہہ دے تو خود بھی اس کی مدد کرے۔
آخری ایام میں حضورﷺ نے نماز کے ساتھ ماتحت لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جس وقت آپؐ کا وصال ہوا تو آپؐ آخری دم تک یہی فرما رہے تھے، اے لوگو ! نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کا خیال رکھنا۔ ( ابن ماجہ )
پیر، 21 جولائی، 2025
عزت و آبرو کاتحفظ
عزت و آبرو کاتحفظ
حضور نبی کریم ﷺ نے انسانیت کے جو تقاضے ارشاد فرمائے ہیں ان میں سے ایک دوسرے کی عزت و آبرو کا تحفظ کرنا بھی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی عزت و آبرو کا تحفظ نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ انسانیت کے اصولوں سے نا واقف ہے کوئی شخص چھوٹا ہو یا بڑا ، امیر ہو یا غریب ، بادشاہ ہو یا پھر گدا گر ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے جس کی حفاظت کر نا انسانیت کا تقاضا ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں ، اس کا جوتا خوبصورت ہو کیا یہ تکبر ہے ؟ حضور ﷺنے فرمایا : اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر تو یہ ہے کہ حق کو جھٹلایا جائے اور لوگوں کو حقیر جانا جائے ‘‘۔ ( ریاض الصالحین )۔
اچھا کپڑا ، اچھا جوتا پہننا اور اچھا گھر بنا نا یہ تکبر نہیں ہے بلکہ تکبر یہ ہے کہ بندہ حق کو نہ مانے اور دوسروں کو حقیرسمجھے۔ اور دوسروں کو حقیر سمجھنے والا کبھی بھی کسی کی عزت و آبرو کا محافظ نہیں ہو سکتا۔ ہر اس بات سے حضور نبی کریمﷺ نے منع فرمایا ہے جس سے کسی انسان کی عزت و آبرو مجرو ح ہو۔ اس لیے حضور نبی کریم ﷺ نے غیبت ، تجسس اور دوسروں کی عیب جوئی کرنے سے منع فرمایا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ اس سے خیانت نہیں کرتا ، اس سے جھوٹ نہیں بولتا ، اسے ذلیل نہیں کرتا ، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حرام ہے اس کی عزت اور اس کا مال اور تقوی یہاں ( دل میں ) ہے۔ کسی آدمی کے بْرا ہونے کے لیے یہی کا فی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (ترمذی)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی اکرم ؐ سے عرض کیا کہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تو ایسی ایسی ہیں (یعنی ان کے قد کے چھوٹے ہو نے کی طرف اشارہ کیا ) ، آپ نے فرمایا : تم نے ایک ایسی بات کہی ہے اگر وہ سمندر یعنی پانی کے بہت بڑے ذخیرہ میں پھینک دی جائے تو وہ پانی کڑوا ہو جائے۔ ( تفسیر الخازن )۔
حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حج کے موقع پرحضورﷺ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وجہ سے عرفات سے جانے میں دیر کر دی۔ پھر ایک لڑکا آیا جو کالے رنگ کا اور چپٹی ناک والا تھا تو اہل یمن نے ( حقارت سے ) کہا ہمیں اس لڑکے کے لیے روکا گیا تھا۔۔ آپ فرماتے ہیں اسی وجہ سے بعد میں یہ لوگ مرتد ہو گئے ( تاریخ الاسلام )۔
اتوار، 20 جولائی، 2025
قرآن مجید میں عقل و تدبر کی اہمیت
قرآن مجید میں عقل و تدبر کی اہمیت
قرآن مجید فرقان حمید انسانیت کے لیے ہدایت ، نور اور فلاح کا کامل ذریعہ ہے۔ اللہ جل شانہ نے جہاں قرآن مجید میں ایمان ، اخلاق اور عبادت کا ذکر کیا ہے وہیں انسان کو بار بار مخاطب کر کے عقل استعمال کرنے اور تدبر کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔
سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ افلا تعقلون ‘‘ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا : بیشک اس میں نشانیا ں ہیں عقل والوں کے لیے۔ قرآن مجید یہ انداز دعوت اور تربیت کا انمول نمونہ ہے۔ بار بار انسان کو عقل سے کام لینے اور کائنات پر غورو فکر کرکے تاریخ سے سبق حاصل کرنے اور قرآن مجید کی آیات پر تدبر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ محمد )۔
اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کی صرف تلاوت کافی نہیں بلکہ اس کی آیات پر غورو فکر کرنا بھی ضروری ہے تا کہ انسان اس کی ہدایت کو اپنے قلب و عمل میں اتار سکے۔ سابقہ اقوام قوم لوط ، قوم ثمود ، قوم فرعون اور قوم عاد کی تباہی کی یہی وجہ تھی کہ عقل و بصیرت کی راہ کو چھوڑ کر اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید کرتے ہوئے تکبر ، جمود اور جہالت کے راستے پر چل پڑے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو بہرے گونگے ہیں جن کو عقل نہیں ‘‘۔ ( سورۃ الانفال )۔
اس آیت میں واضح ہو گیا کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ جسمانی طور پر تو زندہ ہیں لیکن روحانی طور پر مردہ ہیں۔ اللہ کے نزدیک وہ لوگ بہرے نہیں جن کو سنائی نہیں دیتا اور وہ گونگے نہیں جو بول نہیں سکتے بلکہ جو لوگ اپنی عقل کا استعمال نہیں کرتے وہ حقیقت میں گونگے اوربہرے وہ ہیں۔
سورۃ ص آیت ۲۹ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ یہ ایک کتاب ہے ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں پر تدبر کریں اور عقل مند نصیحت مانیں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ قرآن مجید ایک با برکت کتاب ہے لیکن اس سے نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور جو اس کی آیت پر غورو فکر کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :بیشک رات اور دن کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ( سورۃ آل عمران )
قرآن مجید کا پیغام صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک فکری اور شعوری انقلاب ہے جو عقل و تدبر کے بغیر ممکن نہیں۔ آج امت مسلمہ کے زوال کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے قرآن مجید کی آیات پر تدبر کرنا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔
ہفتہ، 19 جولائی، 2025
قرآن مجید اور تربیتِ اولاد
قرآن مجید اور تربیتِ اولاد
تربیتِ اولاد ایک نہایت اہم اور نازک معاملہ ہے جس کی بنیاد قرآن مجید فرقان حمید میں واضح انداز میں رکھی گئی ہے۔قرآن مجید معاشرے کی تشکیل اور معاشرے کی بہتری کے لیے ایک جامع ہدایت نامہ ہے۔والدین کی ذمہ داری صرف اولاد کی جسمانی نشو و نما کر نا نہیں بلکہ روحانی ، اخلاقی ، فکری اور سماجی تربیت بھی شامل ہے تا کہ اولاد نیک سیرت اور صالح ہو۔
قرآن مجید میں حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتیں والدین کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو سب سے پہلے توحید پر ایمان رکھنے اور شرک سے بچنے کی تلقین کی۔سورۃ القمان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اے میرے بیٹے اللہ کا کسی کو شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا ظلم ہے‘‘۔(آیت:۱۳)۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اولاد کی سب سے پہلی اور بنیادی تربیت عقیدہ توحید پر ہونی چاہیے تاکہ بچے کے دل میں اللہ کی معرفت ، محبت اور خوف پیداہو۔
سورۃ القمان کی آیت نمبر ۱۷ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اے میرے بیٹے نماز قائم رکھ اور اچھی بات کا حکم دے اور بْری بات سے منع کر اور جو مصیبت تجھ پر آئے اس پر صبر کر بیشک یہ ہمت کا کام ہے ‘‘۔
تربیت اولاد میں دوسری ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ بچے کو نماز پنجگانہ کا عادی بنائے اور اسے نیک کام کرنے اور بْرے کاموں سے باز رہنے اور اگر کبھی کوئی مشکل وقت آجائے تو اس پر صبر کرنے کی تلقین کرے۔تا کہ بچے میں عبادات کی پابندی کے ساتھ ساتھ اخلاقی جرأت‘ سماجی فلاح اور صبر و برداشت پیدا ہو۔ اسکے بعد حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ ’’اور کسی سے بات کرتے وقت اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کر اور زمین پر اکڑتے ہوئے نہ چل بیشک اللہ کو ہر اکڑ نے والا ، تکبر کرنے والا نا پسند ہے ‘‘۔( سورۃ لقمان آیت : ۱۸)۔
اولاد کو یہ بات سمجھائیں کہ جب تم کسی سے بات کرو تو تکبر کرنے والوں کی طرح انہیں حقیر جان کر ان سے رْخ نہ پھیرو بلکہ مالدا ر اور فقیر سب کے ساتھ عاجزی سے پیش آنا کیونکہ تکبر اللہ کو پسند نہیں۔ اس کے بعد اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت لقمان علیہ السلام نے کہا :’’ اور میانہ چل اور اپنی آواز کچھ پست کر بیشک سب آوازوں میں بْری آواز گدھے کی آواز ہے ‘‘۔ ( سورۃ لقمان آیت : ۱۹)۔
اپنی اولاد کو نصیحت کریں کہ جب چلیں تو نہ زیادہ تیز چلیں اور نہ ہی زیادہ سست بلکہ درمیانی چال میں چلیں اور کسی سے بھی زیادہ اونچی آواز سے بات نہ کریں کیونکہ شور مچانا اور آواز بلند کرنا ایک مکروہ عمل ہے۔اگر قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اولاد کی پرورش کی جائے تو نہ صرف ایک فرد بلکہ پورا معاشرے سنور جائے گا اور ہر طرف امن و سکون نظر آئے گا۔
جمعہ، 18 جولائی، 2025
خدمت ِوالدین (2)
خدمت ِوالدین (2)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے دس باتوں کا بڑی تاکید سے حکم فرمایا : ان میں ایک یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانا اگرچہ تجھے قتل کر دیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے۔ اور اپنے والدین کے ساتھ کی نا فرمانی نہ کرنا اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو اپنے گھر اور مال سے الگ ہو جا۔ ( مسند احمد )۔
حضرت ابو الطفیل فرماتے ہیں کہ میں نے جعرانہ کے مقام پر نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ گوشت تقسیم فر ما رہے تھے۔اتنے میں ایک عورت آئی نبی کریم ﷺ نے اس کے لیے چادر بچھا دی تو وہ عورت اس چادر پر بیٹھ گئی۔ آپ فرماتے ہیں میں نے لوگوں سے پوچھا یہ عورت کون ہے تو انہوں نے کہا یہ نبی کریم ﷺ کی رضاعی ماں ہے جس نے نبی کریم ﷺ کی بچپن میں پرورش کی تھی۔ ماں کی عظمت و وقار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اما م الانبیاء نے معجزات و کمالات اور نبوت کے عظیم منصب کے سربراہ ہونے کے باوجود اپنی رضاعی والدہ کے لیے اپنی چادر بچھا دی۔ اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے باوجود نبی کریم ﷺ نے اپنی رضاعی والدہ کی اس قدر تعظیم کر کے دکھائی تو خود ہی سمجھ جانا چاہیے کہ حقیقی والدہ کا ادب و احترا م کس قد ر ضروری ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔
بیٹا چاہے جتنا بڑا بھی افسر ہو ، عالم ، شیخ الحدیث یا مفسر ہو اس کی جنت اس کے ماں کے قدموں کے نیچے ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا والد کی رضا سے ہی حاصل ہو گی۔ والدین کی حیاتی میں ان کی بے شمار برکات ہوتی ہیں لیکن ان کے مرنے کے بعد بھی ان کی یہ برکات جاری رہتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو بھی اپنے والدین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی قبر پر جمعہ کے دن جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اسے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں میں لکھ دے گا۔ ( المعجم الاوسط )۔
والدین کی خدمت محض ایک اخلاقی تقاضا نہیں بلکہ یہ ایک شرعی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ اس فریضہ کو احسن طریقے سے ادا کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور جو اس میں کوتاہی برتیں گے وہ دنیا و آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ آج کی نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا اور دیگر کاموں سے نکل کر کچھ وقت اپنے والدین کی خدمت کریں تاکہ دارین کی برکتیں سمیٹ سکیں۔
خدمت ِوالدین (۱)
خدمت ِوالدین (۱)
والدین کی خدمت بہت بڑی نیکی اور سعادت کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ والدین اپنی اولاد کی خاطر دن رات محنت کرتے اور بہت سی قربانیاں دیتے ہیں کہ ان کا مستقبل سنور جائے اور وہ معاشرے کے بہترین فرد بن کر اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن بعض لوگ والدین کی خدمت کو بھی ایک مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس سے اکتاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن والدین کی خدمت مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کا حل ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں ، بیوی بچوں اور والدین کے درمیان اعتدال کی راہ اپنائے تاکہ وہ سبھی کے حقوق کو احسن طریقے سے ادا کر سکے۔ والدین کی خدمت ایک اخلاقی عمل نہیں بلکہ ایک عظیم عبادت بھی ہے اس کا اندازہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۲۳ سے لگایا جا سکتا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے : ’’ اور تیرے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے سامنے اْف تک نہ کہنااور انہیں نا جھڑکنا۔ اور ان سے تعظیم سے بات کرنا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ مبارکہ میں اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد یہ حکم فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور ایجاد ہے اور اس کا ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دینے کے بعد اس کے ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا ہے۔جس طرح والدین کا بچوں پر احسان عظیم ہے کہ وہ انتہائی احسن اندازسے اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتے ہیں اسی طرح اولاد کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی اپنے والدین کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کریں۔
بعض اوقات انسان دنیاوی معاملات اور الجھنوں میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ والدین کی خدمت اس کی ترجیحات میں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ لیکن انسان کے نزدیک جس چیز کی اہمیت ہوتی ہے وہ اس کے لیے وقت نکال ہی لیتا ہے اور جس کی اہمیت نہ ہو اس کے لیے سو حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔ لیکن وقت کوئی چیز نہیں سارے کے سارے معاملات آپ کی ترجیحات پر منحصر ہیں۔
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسن سلوک کا حق دار کون ہے آپؐ نے فرمایا تمہاری ماں ، اس صحابی کے تین بار پوچھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں اور جب چوتھی بار پوچھا تو فرمایا تمہارا باپ۔ ( بخاری )۔
جمعرات، 17 جولائی، 2025
بدھ، 16 جولائی، 2025
قرآن اور انسانی نفسیات
قرآن اور انسانی نفسیات
قرآن مجید میں صرف عبادات کاہی ذکرنہیں بلکہ انسان کے ظاہر کے ساتھ اسکے باطن مثلاً احساسات، جذبات رجحانات اور نفسانی کیفیات کا بھی کامل اور بھرپور طریقے کے ساتھ تجزیہ پیش کرتا ہے۔انسان کی شخصیت میں ایک نمایا ں پہلو خوف ہے جس کی وجہ سے انسان کی توجہ روز مرہ کے معاملات سے ہٹ جاتی ہے۔
سورۃ البقرہ آیت 551میں ارشاد باری تعالی ہے :’’اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو ‘‘ لیکن اگر انسان خوف کے مقابلے میں توکل علی اللہ اور صبر کو اختیار کرے تو اس خوف سے نجات حاصل کر کے اپنے معاملات کو احسن طریقے سے سر انجام دے سکتا ہے۔
حرص اور طمع انسان کی فطرت میں شامل ہے۔انسان کی دنیاوی محبت اور لالچ کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔
سورۃ الفجرآیت ۲۰ میں ارشادباری تعالیٰ ہے:’’ اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو۔ اور مال کی نہایت محبت رکھتے ہو ‘‘۔ یہی دنیاوی مال کی محبت اور حرص انسان کو حسد ،خود غرضی اور ناانصافی کی طرف لے جاتا ہے۔جس کی وجہ سے پورے معاشرے کا امن و امان خراب ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اسلام ہمیں قناعت ، انفاق فی سبیل اللہ اور زہد و تقوی کی تعلیم دیتا ہے۔ غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان بعض اوقات نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔
قرآن مجید میں غم اور مایوسی کا علاج پیش کیا گیا ہے کہ ’’ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘‘ جب انسان کا اللہ کی رحمت پر پختہ یقین ہو جاتا ہے تو وہ ڈپریشن اور احساس محرومی سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ حسد ایک خطر ناک بیماری ہے اس سے انسان کی نیکیاں ختم اورگناہوں میں اضافہ ہوتا ہے۔اور حاسدین کے حسد سے پناہ مانگنی چاہیے۔
حسد انسان کے دل کو کالا اور زندگی کو بے سکون کر دیتا ہے۔ اس کا علاج قناعت اوردوسروں کی چیزوں کو دیکھ کر جلنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں پر شکر ادا کرنا ہے۔ خود پسندی اور تکبر بھی انسان کی فطرت میں ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :بیشک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اتراتا فخر کرتا ‘‘۔ اسلام انسان کو عاجزی و انکساری ، تواضع و حلم اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔
قرآن مجید انسان کو صبر اور شکر کی تلقین کرتا ہے۔یعنی جب کسی مشکل میں ہو تو صبر کرے کیوں کہ صبر والوں کے لیے اجر عظیم ہے اور جب اللہ کی نعمت ملے تو شکر کرے کیوں کہ شکر کرنے سے اللہ اور دیتا ہے۔ اگر ہم قرآن مجید کی ان تعلیمات پر عمل کریں تو زندگی پْر سکون اور گناہوں سے پاک ہو جائے۔
منگل، 15 جولائی، 2025
قرآن اور اصولِ رزق
قرآن اور اصولِ رزق
رزق انسان کی زندگی اور بقاء کے لیے انتہائی ضروری اور اہم جزو ہے ۔یہ چیز انسانی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر رزق اور ذرائع کی تلاش کرتا ہے ۔حقیقی رازق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا اور قدرت والا ہے‘۔ (سورۃ الذٰریٰت)
اس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رزق کا دارو مدار صرف ظاہری اسباب یا منصوبہ بندی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور برکت پر منحصر ہے ۔ قرآن مجید میں رزق کے حصول کے لیے حلا ل اور جائز طریقے کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’اے لوگوں جو کچھ حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھائو ‘۔ (سورۃ البقرۃ) ہمیں رزق کے حصول کے لیے دو اصول بتائے گئے ہیں: نمبر ایک، حلال ہو نا اور دوسرا طیب ہونا، یعنی کہ صرف کمائی کا ذریعہ جائز نہ ہو بلکہ رزق روح اور جسم دونوں کے لیے مفید ہو۔ قرآن مجید ہمیں رزق کے حوالے سے قناعت کو اختیار کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے: ’اور اے سننے والے ہم نے مخلوق کے مختلف گروہوں کو دنیا کی زندگی کی جو ترو تازگی فائدہ اٹھانے کے لیے دی ہے تا کہ ہم انھیں آزمائیں تو اس کی طرف تو اپنی آنکھیں نہ پھیلا‘۔اس آیت مبارکہ میں انسان کی باطنی بیماری حسد کی طرف اشارے کر کے اس کا علاج بتایا گیا ہے کہ سب سے بہتر رازق اللہ ہے اس لیے جو کچھ ملا ہے اس پر قناعت کرو ۔قناعت انسان کو دلی سکون اور نفس کی پاکیزگی دیتی ہے۔ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے میں سے راہ خدا میں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ فرمادیتا ہے اور یہ حیران کن اور سچا اصول ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’اور اس کی کہاوت ہے جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں ہر بال میں سودانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے‘ ۔ ( سورۃ البقرہ ) رزق میں حقیقی برکت اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہوتی ہے ۔جب بندہ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتا ہے تو وہ ختم نہیں بلکہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اللہ کے احکام کی پیروی اور تقوی اختیار کرنے سے بھی رزق میں اجافہ ہوتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’اور اسے وہاں سے روزی دی جائے گی جہاں اس کاگمان نہ ہو جو اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے ‘۔( سورۃ الطلاق ) یعنی اگر انسان اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھال لے تواللہ تعالیٰ اسے غیب سے رزق دے گا ۔ قرآن مجید رزق کو محض دنیاوی دوڑ یا معاشی سر گرمی تک محدود نہیں کرتا بلکہ اسے اخلاق ، تقویٰ، قناعت ، انفاق ،محنت ، اخلاص اور اللہ پرتوکل کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتا ہے۔
پیر، 14 جولائی، 2025
قرآن اور حسن اخلاق
قرآن اور حسن اخلاق
قرآن مجید عبادات ، عدل و انصاف ، اخلاق حسنہ اور دیگر انسانی زندگی کے ہر پہلو کی بہترین اور احسن طریقے سے رہنمائی کرتا ہے۔ان میں اہم پہلو حسن اخلاق بھی ہے۔ قرآن مجید صرف ظاہری اعمال کی اصلاح نہیں کرتا بلکہ انسان کے باطن اور اس کے کردار کو بھی سنوارنے کی تعلیمات دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کو خلق عظیم کا ایک بہترین نمونہ قرار دیا۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:’’اور بیشک تمہاری خوبی (خلق)بڑی شان کی ہے ‘‘۔
قرآن مجید میں اخلاقیات کی بنیاد تقوی ، رحم ، صبر ، تواضع ، عفو ، سچائی ، حلم،عدل ، احسان اور ایثار کو قرار دیا ہے۔جب تک ہم ان اوصاف کو اپنی زندگیوں کا حصہ نہیں بنا لیتے معاشرہ امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے۔ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تم دھیان کرو۔ ( النحل)
یعنی معاشرے میں عدل قائم کرنا ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے بچنا انسان کے اعلی اخلاق میں سے ہے۔
قرآن مجید ہمیں نرمی ، عفو در گزر ، وعدے کی پاسداری ، سچ بولنے ، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے ،رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک ہمسائیوں اور یتیموں کے حقوق کی ادائیگی جیسی اعلی اخلاقی اقدار کو اپنانے کا حکم دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اللہ کے سوا کسی کو نہ پْوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانی اخلاق کو عبادات کے ساتھ بیان کر کے حسن اخلاق کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے۔
نبی کریم رئوف الرحیم ﷺ نے قرآن کی اخلاقی تعلیمات کو عملی طور پر نافذ کر کے دکھایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے پوچھا گیا کہ نبی کریم ﷺ کا اخلاق کیسا تھا۔آپ نے فرمایا :سارے کا سارا قرآن نبی کریم ﷺ کااخلاق تھا ‘‘
اگر آج ہم قرآن حکیم سے اپنا تعلق مضبوط کر لیں اور اخلاقی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کر لیں تو نہ صرف ہماری زندگی سنور جائے گی بلکہ پورامعاشرہ ظلم و نا انصافی ،بد اخلاقی اور نفرت سے پاک ہو جائے گا۔ حسن اخلاق انسان کی پہچان اور دین کی روح ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن مجید کو صرف تلاوت اور ثواب تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کی اخلاقی تعلیمات کو بھی اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔
سیدہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہا (۲)
سیدہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہا (۲)
سیدہ زینب ؓاپنے نانا جان نبی کریم ﷺ اور والدہ سید فاطمہ اور والد سیدنا علی المرتضی کی طرح نہایت کشادہ دل ،فیاض اور رحم دل تھیں۔آپ کے دروازے سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ نہ جاتا تھا اور ہر مصیبت زدہ کی خبر گیری کرتیں اور ان کی مدد فرماتیں۔
سیدہ زینب ؓ کا نکاح چچا زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن جعفر طیار ؓسے ہوا۔حضرت عبد اللہ بن جعفر طیار ؓ کے والد حضرت جعفر طیارؓ کی شہادت کے بعد آپ کی پرورش نبی کریمﷺ کے زیر سایہ ہوئی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر پاکیزہ کردار ، سیرت اور صورت میں تمام قبیلے سے ممتاز تھے۔ جب سیدنا امام عالی مقام امام حسینؑ نے سفر کربلا پر جانے کا ارادہ کیا تو سیدہ زینبؓ بھی ساتھ تھیں اور میدان کربلا میں جب جنگ شروع ہوئی تو اپنے دو بیٹے عون و محمد کو اپنے بھائی سیدنا امام حسین ؑ کی خدمت میں پیش کیا۔ دونوں بیٹوں نے میدان کربلامیں بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
سیدہ زینب ؓ کے سامنے آپ کے بھائی ، بھتیجے اور بیٹے شہید ہوئے سیدنا امام عالی مقام کا سر مبارک نیزے پر چڑھایا گیا،شہدا کی لاشوں پر گھوڑے دوڑا کر ان کا تقدس پامال کیا گیا لیکن آپ نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور رضائے الٰہی پر قائم رہیں۔جب کربلا کے بعد اسیران کربلا کو قیدی بنا کر لے جایا گیا تو آپ نے نہایت عمدگی کے ساتھ مستورات اور بچوں کی حفاظت کی اور کوفہ و شام سے گزرتے اہل بیت اطہار کا جو تعارف کرایا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پھر جب یزید کے دربار میں پہنچیں تو یزید نے کہاکہ معاذ اللہ آج اللہ نے مجھے عزت بخشی اور میرے مخالفین کا کیا حشر کیا۔
جب سیدہ زینب نے یہ سنا تو گرج دار آواز میں فرمایا آج تو حاکم ہے تونے اپنے جاہ و جلا ل کی وجہ سے وقتی عزت حاصل کی تیری عزت چند دن کی ہے اس کے بعد قیامت تک لوگ تجھ پہ لعنت کریں گے اور میرے بھائی حسین ؑ کی عظمت و شجاعت کے قصے قیامت تک سنائے جائیں گے۔ یزید کے دربار میں صحابی رسول ؐ نعمان بن بشیر کے ساتھ ایک نابینا شخص بیٹھا تھا وہ پوچھتا ہے کیا علی آ گیا ہے تو آپ نے فرمایا نہیں یہ زینب بنت علیؓ ہیں۔ سیدہ زینب ؓ نے یزید کے دربار میں ایسا شاندار خطبہ دیا جس نے پورے منظر کو بدل کر رکھ دیا۔
علی کی جاہ و جلالت نمود کرتی ہے
زبان پہ جب کبھی زینب کا نام آتا ہے
حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓنے مال و دولت سے اسلام کو استحکام دیا اور سیدہ زینبؓ نے اپنے کردار سے اسلام کو استحکام اور سہارا دیا۔ سیدہ زینب ؓ عصمت و حیا کا پیکر تھیں۔ آپ ؓ کی زندگی کا ہر پہلو درس حیات ہے اور آپ کا کردار ہماری عورتوں کے لیے ایک مینارہ نور ہے۔
اتوار، 13 جولائی، 2025
سیدہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہا (۱)
سیدہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہا (۱)
حدیثِ عشق دو باب است کر بلا و دمشق یکے حسین ؑرقم کرد و دیگر ے زینب
خاندان نبوت کی شیر دل خاتون ، نور عین نبی کریم ؐ ، راحت قلب حیدر ، ثانی زہرہ بتول ، بحر عفت و عصمت ، عابدہ ، زاہدہ ، صابرہ ، عاقلہ ،عاملہ ام المصائب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیہا اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ، نبی کریمﷺکی نواسی اور امام حسن و حسینؑ کی پیاری بہن تھیں۔ آپ کی سیرت مبارکہ کسی خطے تک محدود نہیں قیامت تک آنے والی نسلوں اور پوری کائنات کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا علم ، حلم ، صبر ، غیرت ایمانی ، شجاعت ، فصاحت و بلاغت اور عفت و حیا کی زندہ تفسیر تھیں۔
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی جب پیدائش ہوئی تو نبی کریم ﷺ مدینہ پاک میں موجود نہ تھے جب سفر سے واپس آئے تو اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ ؓکے گھر تشریف لے گئے اور سیدہ زینبؓ کو گود میں لے کر اپنے دہن مبارک سے کھجور چبا کر آپ کے منہ میں ڈالی اور آپ کا نام زینب رکھا۔ آپ سید ہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہم شکل تھیں۔
نبی کریمﷺ سیدہ زینبؓ سے بے حد پیا ر فر مایا کرتے تھے کئی مرتبہ نبی کریم ؐ امام حسن ؑ اور امام حسینؑ کی طرح سیدہ زینب کو بھی اپنے کندھوں پر سوار فرما لیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ جب حجۃ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ گئے توسیدہ زینب بھی آپ کے ساتھ تھیں اس وقت آپ کی عمر مبارک پانچ سال تھی اور یہ آپ کا پہلا سفر تھا۔ پانچ سال کی عمر میں سیدہ زینب کو حج کے تمام ارکان یاد تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت وصال جب قریب آیا تو آپ رو رہی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنے پاس بلا کر اپنے سینہ مبارک پر آپ کا سر رکھا اور سر پر دست شفقت رکھ کرپیشانی کو بوسہ دے کر سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو دلاسہ دیا۔
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی پرورش کائنات کے سب سے عظیم گھرانے میں ہوئی۔آپ کے نانا جان مدینۃ العلم ،والد باب مدینۃ العلم کے زیر سایہ پرورش پانے کی وجہ سے آپ علم و فضل ، زہد و تقوی ، حق گوئی ، عقل و فراست ، عبادت و ریاضت میں اپنے نانا جان ، والد اور والدہ کی تربیت کا جیتا جاگتا نمونہ بن گئیں۔علم و عمل کی وجہ سے آپ قریش کی تمام عورتوں میں ممتاز تھیں اور مدینہ کی خواتین اکثر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہو تیں اورواعظ و نصیحت سے مستفیض ہوتیں۔ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے آپ کو قرآن پاک کی تفسیر بیان کرتے سنا تو بیان ختم ہونے کے بعد آپ نے بڑی خوشی کے ساتھ ارشاد فرمایا مجھے سن کر خوشی ہوئی آپ اتنی خوبصورتی کے ساتھ قرآن مجید کے معانی مطالب بیان کرتی ہیں۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱)
زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱) انسانی شخصیت کی خوبصورتی اور کمال میں زبان اورکلام کا بہت گہرا تعلق ہے۔ جس طرح زبان کے غلط استعمال سے معا...

-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
حضور ﷺ کی شان حضور ﷺ کی زبان سے (۱) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ ن...
-
دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۱) اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا فرمایا ہے۔دنیا کی یہ زندگی ایک کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک سن...