نور بصیرت

 

زادِ سفر ،کم سے کم

حضرت سالم بن عبد اللہ کہتے ہیں جب حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ والے وظیفہ پر اکتفاء کیا۔ یہ وظیفہ ان کی ضروریات سے کافی کم تھا۔اس لیے ان کی گزر اوقات میں تنگی رہنے لگی۔اس پر صحابہ کرام (حضرت عثمانؓ ،حضرت علیؓ ، حضرت طلحہؓ، حضرت  زبیر رضی اللہ عنہم )نے باہم مشورہ کیا کہ آپ کا وظیفہ بڑھا دینا چاہیے ،لیکن اس سے بیشتر آپ کی رائے معلوم کرلی جائے ۔آپکی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے گزارش کی گئی کہ وہ آپ کی رائے معلوم کریں ۔جب ام المومنین نے یہ تجویز آپکی خدمت میں پیش کی، آپ نے ان سے پوچھا میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم بتائو کہ تمہارے گھر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے عمدہ لباس کون ساتھا۔ انہوں نے کہا گیروے رنگ کے دوکپڑے جنہیں آپ اس وقت استعمال فرماتے جب کوئی وفد آپکی خدمت میں  حاضر ہوتا یا پھر خطبہء جمعۃ المبارک کیلئے زیب تن فرماتے ۔حضرت عمر نے پوچھا  آقاعلیہ السلام نے تمہارے گھر میں سب سے عمدہ کھانا کیا کھایا ،فرمانے لگیں، ایک مرتبہ ہم نے جو کی روٹی پکائی ،اس گرم گرم روٹی پر گھی کے ڈبے کی تلچھٹ الٹ کر اسے چپڑدیا جس سے وہ روٹی خو ب چکنی چپڑی اورنرم ہوگی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بڑی رغبت سے تناول فرمایا، وہ روٹی آپکو بہت بھائی تھی۔ حضرت عمر نے پوچھا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تمہارے گھر میں سب سے زیادہ نرم بستر کون ساتھا انہوں نے کہا ہمارے پاس ایک موٹا کپڑا تھا ۔گرمی میں اس کو چوہر اکرکے بچھا لیتے اورسردی میں آدھے کو بچھا لیتے اورآدھے کو اوڑھ لیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا اے حفصہ میرے ان خیرخواہ دوستوں تک یہ بات پہنچا دو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرزعمل سے ہر چیز میں ایک اندازا مقرر فرمایا ہے اور ضرورت سے زائد چیزوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھا ہے (آپ ان میں مشغول نہیں ہوئے) اور کم سے کم پر گزارہ کیا۔ میں نے بھی ہر چیز کا اندازا مقررکیا ہے اورقسم بخدا  !  میں بھی ضرورت سے زائد چیزوں کو ان کے مقامات پر رکھوں گا اورمیں بھی کم سے کم پر گزر بسر کرلوں گا۔ میری اورمیرے دوساتھیوں کی مثال ان تین افراد کی ہے جوایک رہگزر پر چلے ان میں پہلا فر د توشہ لے کر چلا اوراپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ پھر دوسرے نے بھی اس کا اتباع کیا اور اسی کے راستہ پر چلا تو وہ بھی اسی منزل مقصود تک پہنچ گیا ۔پھر تیسرے کی باری آئی ۔اگر وہ ان دونوں کی روش پر چلے گا اورانہی جیسا زادِ سفر رکھے گا تو ان کے ساتھ جاملے گا اور انکے ساتھ رہے گا۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو پھر کبھی بھی وہ انکے ساتھ نہیں مل سکے گا۔ (ابن عساکر ،طبرانی)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں