اتوار، 28 فروری، 2021

Para-03.کیا ہم صاحب ایمان لوگ ہیں

الکتاب (۲)

 

الکتاب (۲)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کتاب اللہ سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اورایک نیکی کا دس گنااجر ہے، اورمیں یہ نہیں کہتا کہ ’’الم ‘‘ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے ، اورلام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے۔ (جامع ترمذی )حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن قرآن پڑھنے والا آئے گا تو قرآن کہے گا: اے رب ! اس کو مزین کر، تب اس کو عزت کا تاج پہنا یا جائے گا، پھر قرآن کہے گا: اے رب ! اسکو اورمزین کر، تو اس کو عزت والے حلے پہنائے جائیں گے، پھر قرآن کہے گا: اے رب ! اس سے راضی ہوجا، تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا، پھر اس شخص سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جااور(جنت کے درجوں میں )چڑھتا جااورہر آیت کے بدلہ میں اس کو نیکی دی جائیگی ۔(جامع ترمذی)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے سینے میں قرآن نہ ہو وہ ویران گھر کی مانند ہے ۔ (جامع ترمذی)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماروایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن پڑھنے والے سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جا اورجنت کے درجوں میں چڑھتا جا، اورجس طرح دنیا میں آہستہ آہستہ قرآن پڑھتا تھا، اسی طرح پڑھ ، جہاں تو آخری آیت پڑھے گا وہی تیری منزل ہوگی۔(جامع ترمذی)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے: علانیہ قرآن پڑھنے والا ، علانیہ صدقہ کرنے والے کی مانند ہے اورپوشیدگی سے قرآن پڑھنے والا پوشیدگی سے صدقہ دینے والے کی مثل ہے۔ (جامع ترمذی)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : جو شخص قرآن پڑھنے میں مشغولیت کی وجہ سے سے میرا ذکر نہ کرسکا اورمجھ سے دعانہ کرسکا ، میں اس کو دعا کرنے والوں سے زیادہ عطا فرمائوں گا، اوراللہ کے کلام کی فضیلت باقی کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت مخلوق پر ہے۔(جامع ترمذی)حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے ۔’’الحمد للہ رب العلمین ‘‘پڑھتے ، پھر توقف فرماتے ، پھر ’’الرحمن الرحیم ‘‘پڑھتے ، پھر ٹھہرتے ، پھر ’’مالک یوم الدین ‘‘پڑھتے ۔(جامع ترمذی)

الکتاب (۳)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ کی مخلوق سے کچھ لوگ اہل اللہ ہیں ، صحابہ نے عرض کی : یارسول اللہ ! وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا : اہل قرآن ، وہ اہل اللہ ہیں اوراللہ کے خاص بندے ہیں۔ (سنن کبریٰ )حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : صرف دو شخصوں میں حسد (رشک )کرنا جائز ہے ، ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مادل دیا اوروہ دن رات اس مال و(اللہ کی راہ میں )خرچ کرتا ہے اوردوسرا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا اوروہ دن رات قیام میں قرآن پڑھتا ہے۔(سنن کبریٰ)حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے قرآن مجید پڑھا اوراس کو حفظ کیا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کردے گااوراس کو اس کے گھر کے دس ایسے افراد کی شفاعت کرنے والا بنائے گا جن میں سے ہر ایک کے لیے جہنم واجب ہوچکی ہو۔(سنن ابن ماجہ) حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن مجید پڑھانے کا حکم دیا اوراس پر برانگیختہ کیا، اورفرمایا: قیامت کے دن جب قرآن پڑھنے والے کے گھر والوں کو بہت سخت حاجت ہوگی تو قرآن ان کے پاس آئے گا اورمسلمان سے کہے گا مجھے پہچانتے ہو؟ وہ شخص کہے گا : تم کون ہو؟ وہ کہے گا: میں وہ ہوں جس سے تم محبت کرتے تھے اوراس سے جدائی کو ناپسند کرتے تھے، جو تم کو کھینچتا تھا اورتم کو قریب کرتا تھاوہ شخص کہے گا: شاید تم قرآن ہو، پھر قرآن اس کو اس کے رب کے پاس لے جائے گا، اس کے دائیں طرف فرشتہ ہوگا اوربائیں طرف جنت ہوگی، اس کے سرکے اوپر سکینہ کو رکھا جائے گا، اور اس کے ماں باپ کو تمام دنیا سے قیمتی حلے دئیے جائیں گے ، وہ کہیں گے کہ ہمارے اعمال تواس انعام کے لائق نہیں ، یہ کس چیز کا صلہ ہیں ؟ قرآن کہے گا: یہ تمہارے بیٹے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے ہے۔ (مجمع الزوائد )

کیا انسان کو مرشد کی ضرورت ہے؟

جمعہ، 26 فروری، 2021

Para-03.کیا ہمیں جنت کی خوشخبری مل چکی ہے

ابتلا وآزمائش ضروری ہے؟

الکتاب (۱)

 

الکتاب (۱)

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن مجید کا علم حاصل کرے اورلوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دے۔(صحیح بخاری)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص سورہ کہف پڑھ رہا تھا ، اس کے گھر میں ایک جانور تھا، اچانک وہ جانور بدکنے لگا، اس نے دیکھا کہ ایک بادل نے اس کو ڈھانپا ہوا ہے ، اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا آپ نے فرمایا: اے شخص ! پڑھتے رہو، یہ سکینہ ہے جو قرآن مجید کی تلاوت کے وقت نازل ہوتی ہے۔(صحیح مسلم)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قرآن مجید میں ماہر ہو وہ معزز اوربزرگ فرشتوں کے ساتھ رہتا ہے اورجس شخص کو قرآن مجید پڑھنے میں دشواری ہوتی ہو اوروہ اٹک اٹک کر قرآن پڑھتا ہو اس کو دواجر ملتے ہیں ۔(صحیح بخاری )

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سنو! عنقریب فتنے برپا ہوں گے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! ان فتنوں سے نکلنے کی کیا صورت ہے؟ آپ نے فرمایا : کتاب اللہ ! اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں ہیں اور تمہارے بعد والوں کیلئے پیش گوئیاں ہیں اوریہ تمہارے درمیان حکم ہے، یہ (حق اورباطل کے درمیان)فیصل ہے ، بے فائدہ نہیں ہے ، جس متکبر نے اس کو ترک کردیا اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک کردے گا، جس نے اس کے علاوہ کسی اورچیز میں ہدایت کو تلاش کیا اللہ تعالیٰ اس کو گمراہی میں رہنے دے گا، یہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے ، یہ حکمت آمیز نصیحت ہے ، یہ صراط مستقیم ہے، اس کی وجہ سے خواہشات میں کجی نہیں آئے گی ، کسی زبان کا کلام اس کے مشابہ نہیں ہوسکتا ، علماء اس سے کبھی سیر نہیں ہوں گے، باربار پڑھنے کے باوجود اس سے اکتاہٹ نہیں ہوگی، اسکے اسرار کبھی ختم نہیں ہوں گے، جنوں نے جب اس کو سنا تواس پر ایمان لانے میں بالکل توقف نہیں کیا ، اوربے ساختہ کہا : بے شک ہم نے حیرت انگیز کلام سنا جو صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے ، ہم اس پر ایمان لے آئے ، جس نے اس کے مطابق کہا اس نے سچ کہا، جس نے اس پر عمل کیا اس کو اجر دیاگیا ، جس نے اس کے مطابق حکم کیا اس نے عدل کیا ، جس نے اس کی دعوت دی وہ صراط مستقیم پر ہدایت یافتہ ہے۔ (جامع ترمذی)

جمعرات، 25 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1669 ( Surah Al-Fath Ayat 11 - 12 ) درس قرآن ...

Para-03.کیا ہم اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے سے عملا انکاری ہیں

ہمہ آفتاب است

 

ہمہ آفتاب است

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میری زوجیت میں دی اورمجھے سوار کراکے دار الہجرات لے گئے اوراپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا اوراسلام میں کسی کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے ۔ وہ حق کی کڑواہٹ کے باوجود حق ہی کہتے ہیں ۔ حق گوئی کی وجہ سے اس کا کوئی دوست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اس نے جیش العسرۃ کو سازو سامان سے آراستہ کیا اور ہماری مسجد میں اضافہ کیا جس سے ہمیں وسعت حاصل ہوئی ، اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ جہاں علی جائے حق اسکے ساتھ ہو‘‘۔ (ترمذی) حضرت زید بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : دس آدمی جنتی ہیں یعنی نبی ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر ، سعد بن مالک ، عبدالرحمان بن عوف اورسعید بن زید۔(سنن ابودائود، احمد بن حنبل)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چارآدمیوں کی محبت منافق کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اورنہ ہی مومن کے سوا، کوئی ان سے محبت کرتا ہے یعنی ابوبکر ، عمر ، عثمان اورعلی سے۔(ابن عساکر)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کھڑا ہونے والا جنتی ہے اورجو اسکے بعد کھڑا ہوگا وہ جنت میں ہوگا۔ تیسرا اورچوتھا بھی جنت میں ہوگا۔(ابن عساکر)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر ، عمر، ابوعبیدہ بن الجراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس، معاذ بن جبل ، معاذ بن عمر و بن الجموح اورسہیل بن بیضاء کیا ہی اچھے آدمی ہیں۔ (بخاری ، نسائی، ترمذی) حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم حجۃ الوداع سے تشریف لائے تو منبر پر چڑھ کر حمد وثنا ء کے بعد فرمایا : اے لوگو ! ابوبکر نے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں دی اس بات کو اچھی طرح جان لو، اے لوگو! میں ابوبکر ، عمر ، عثمان علی ، طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمن بن عوف، مہاجرین اوراولین سے راضی ہوں ان کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لو۔ (طبرانی)

بدھ، 24 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1668 ( Surah Al-Fath Ayat 10 Part-4 ) درس قرآ...

Para-03.کیا ہم سب گمراہی کے راستے پر چل رہے ہیں

Anna Aur Khudi Main Farq Part-1-انا اور خودی میں فرق پارٹ نمبر1

زندگی میں کامیابی کیسے؟

صبر کی جزاء

 

صبر کی جزاء

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میں اپنے بندے کی دونوں آنکھیں واپس لے کر اسے آزمائش میں ڈالتا ہوں اوروہ صبر سے کام لیتا ہے تومیں ان کے عوض اسے جنت عطا کرتا ہوں۔

٭ حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوفرشتے بھیجتا ہے اورحکم فرماتا ہے کہ دیکھو یہ اپنی تیمارداری کرنے والوں سے کیا کہتا ہے؟اگر وہ ان آنے والوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرتا ہے تووہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی روئیدادکو پیش کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حال کو خوب جانتا ہے تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے ذمہء کرم پر ہے اگرمیں اپنے بندے کو اپنے پاس بلائوں گا تو اسے جنت میں داخل کروں گا اوراگر اسے شفاء کروں گا تو اس کے گوشت اورخون کے بدلے بہتر گوشت اورخون عطاکروں گا اوراس کے گناہوں کو مٹادوں گا۔

٭ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر پرجاتا ہے تواس حالت میں اس کا اجر وثواب تندرست اورمقیم ہونے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ 

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ ایک شخص راستے پر چل رہاتھا کہ اچانک اس کے سامنے ایک کانٹے دار شاخ آگئی ،جسے اس نے راستے سے علیحدہ کردیا اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کی اوراسے معاف فرمادیا ۔آپ ہی کا ارشادہے کہ شہداء پانچ ہیں طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے ہلاک ہونے والا ،پانی میں ڈوبنے والا، دیوار کے نیچے آکر جان دینے والا اورشہید فی سبیل اللہ ۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہو وہ شہید ،جو پیٹ کی مرض سے مراوہ شہید،جو پانی میں ڈوب گیاوہ شہید اور حالتِ نفاس میں مرنے والی عورت بھی شہید ۔ حضرت عمر بن الحکم نے بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ راہِ حق اپنی سواری سے گرکر مرنے والا بھی شہید، راہِ حق میں نمونیہ سے مرنے والا بھی شہید ۔

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جب تم سے کسی کوکوئی تکلیف پہنچے تووہ موت کی تمنانہ کرے اوراگر کچھ کہنا چاہتا ہے تو یوں کہے۔اللھم احینی ماکانت الحیاۃ خیرالی وتوفنی اذا کانت الوفاۃ خیرالی۔’’اے اللہ جب تک میرے لیے حیات بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اورجب میرے لیے وفات بہتر ہے تو مجھے اپنے پاس بلالے۔‘‘(الآداب،بیہقی)


منگل، 23 فروری، 2021

Para-03.کیا دین کو قبول کرنے میں زبردستی ہو سکتی ہے

Insaan Apni Anna Ko Kaisay Chor Sakta Hay?-انسان اپنی اَنا کو کیسے چھوڑ ...

اطاعتِ الٰہی کیوں؟

حکمت

 

حکمت 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابو الحسن ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا : آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اسکی تلاش میں اس طرح اوراتنا منہمک نہ ہوں کہ گویا آپ کواس میں کچھ شک ہے) ،اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتاوہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں )اوراپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حتمی نہ سمجھیں )اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے روانہ کردیایا تقسیم کرکے برابرکر دیا یا پہن کر پرانا کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے ابوالحسن ! آپ نے سچ کہا۔(ابن عساکر)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوںاورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بردباری کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)

پیر، 22 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1666 ( Surah Al-Fath Ayat 10 Part-2 ) درس قر...

Para-03.کیا ہم نے غیر اللہ کے سامنے سر جھکا دیا ہے

Zabt-e-Nafs Ki Aehmiat - ضبطِ نفس کی اہمیت

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم کیوں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1665 ( Surah Al-Fath Ayat 10 Part-1 ) درس قرآ...

امر بالمعروف ونہی عن المنکر(۲)

 

امر بالمعروف ونہی عن المنکر(۲)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب بنو اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو ان کے علماء نے ان کو منع کیا، وہ باز نہ آئے، وہ علماء ان کی مجالس میں بیٹھتے رہے ، اوران کے ساتھ مل کر کھاتے پیتے رہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے دل ان جیسے کردئیے ، اورحضرت دائود اورحضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی زبانوں سے ان پر لعنت کی، کیونکہ انہوںنے نافرمانی کی تھی اوروہ حد سے تجاوز کرتے تھے ، پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے تھے پھر آپ اُٹھ کر بیٹھ گئے اورفرمایا نہیں ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے حتیٰ کہ وہ اپنے نفس کو اتباع حق پر لازم کرلیں۔(امام ترمذی)حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی قوم میں رہ کر گناہ کر رہا ہو اوروہ لوگ اس کو گناہ سے روکنے پر قادر ہوں اورنہ روکیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا کرے گا۔(امام دائود ، ابن ماجہ، ابن حبان)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو:’’اے ایمان والو ! تم اپنی جانوں کی فکر کروجب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتی‘‘۔(المائدہ ۱۰۵) اور میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جب لوگ کسی شخص کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اس کے ہاتھ کو نہ پکڑیں تو عنقریب اللہ ان سب پر عذاب نازل فرمائے گا۔(ترمذی ، ابو دائود )حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے فرمایا : جب تم میری امت میں ان لوگوں کو دیکھو جو ظالم کو ظالم کہنے سے ڈریں تو تم ان سے الگ ہوجائو۔ (امام حاکم )حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اورنیکی کا حکم نہ دے اوربرائی سے نہ روکے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (جامع ترمذی، صحیح ابن حبان) حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ضرور نیکی کا حکم دیتے رہنا اوربرائی سے منع کرتے رہنا ورنہ تم پر تم ہی میں سے برے لوگ مسلط کردئیے جائیں گے پھر تمہارے نیک لوگ دعاکریں گے تو ان کی دعاقبول نہیں ہوگی۔( بزار)امام ترمذی کی روایت میں ہے : ورنہ اللہ تم پر عذاب نازل فرمائے گا پھر تم اللہ سے دعاکرو گے تو تمہاری دعاقبول نہیں ہوگی۔ (طبرانی نے یہی روایت حضرت ابوہریرہ ؓسے کی ہے) 

اتوار، 21 فروری، 2021

Para-03.کائنات کا واحد معبود برحق کون ہے

اَدب کیسے؟

امر بالمعروف ونہی عن المنکر(۱)

 


امر بالمعروف ونہی عن المنکر(۱)

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جس شخص نے برائی کو دیکھا وہ اپنے ہاتھ سے برائی کو مٹائے ، اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے مٹائے اوراگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اوریہ ایمان کاسب سے کمزور درجہ ہے۔(صحیح مسلم)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سلطان یا ظالم امیر کے سامنے حق بات کہنا سب سے افضل جہا د ہے ۔ (سنن ابودائود، جامع الترمذی)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا : سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب ہیں، اوروہ شخص جس نے ظالم حاکم کے سامنے کھڑے ہوکر نیکی کا حکم دیا اوربرائی سے روکا اوراس ظالم حاکم نے اسے قتل کردیا ۔ (ترمذی، مستدرک امام حاکم)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ نے جس نبی کو بھی مجھ سے پہلے کسی امت میں مبعوث فرمایا اس نبی کے اس امت میں حواری ہوتے تھے ، اوراسکے اصحاب ہوتے تھے جو اسکی سنت پر عمل کرتے تھے اوراسکے حکم پر عمل کرتے تھے، پھر انکے بعد ایسے برے لوگ آئے جو ایسی باتیں کرتے تھے جس پر خود عمل نہیں کرتے تھے اورایسے کام کرتے تھے جن کا انہیں حکم نہیں دیاگیا تھا ، سوجو ان کے ساتھ ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے، اورجو ان کے ساتھ زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے ، اسکے علاوہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔(صحیح مسلم) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم نیکی کا حکم دیتے رہو اوربرائی سے روکتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تم پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا تم اس سے دعاکرو گے اورتمہاری دعاقبول نہیں ہوگی۔ (امام ترمذی) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر نہ جانے صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے کوئی شخص کیسے اپنے آپ کو حقیر جانے گا؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ گمان کرے گا کہ اس کے اوپر کلام کی گنجائش ہے پھر وہ کلام نہیں کرے گا ، اللہ قیامت کے دن اس سے فرمائے گا تمہیں میرے متعلق کس چیز نے کلام سے روکا تھا؟ وہ کہے گا لوگوں کے خوف نے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تم مجھ سے خوف کھاتے ۔ (ابن ماجہ) 

ہفتہ، 20 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1664 ( Surah Al-Fath Ayat 09 ) درس قرآن سُوۡر...

Para-03.کیا صرف اللہ تعالی کے علاوہ کوئی ہستی قابل محبت ہے

Insaan Apni Meraaj Ko Kaisay Hasil Kar Sakta Hay? -انسان اپنی معراج کو ک...

اَدب کیوں؟

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

 

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کررہا ہو پس تم (سجدہ میں )بہت دعاکیا کرو۔(صحیح مسلم،سنن دائود )

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جس سے اللہ مجھے جنت میں داخل کردے یا میں نے عرض کیا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے پھر سوال کیا، آپ خاموش رہے ، جب میں نے تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے لیے کثرت سے سجدے کیا کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرو گے تو اللہ اس سجدہ کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹادے گا۔ (صحیح مسلم، ترمذی)

حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، میں آپ کے وضو اورطہارت کے لیے پانی لایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: سوال کرو، میں نے عرض کیا میں آپ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : اورکسی چیز کا ؟میں نے عرض کیا مجھے یہ کافی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر کثرت سے سجدے کرکے اپنے نفس کے اوپر میری مددکرو۔ (صحیح مسلم ، سنن ابودائود )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب ابن آدم سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ جاکر روتا ہے اورکہتا ہے ہائے میرا عذاب !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا سواس کو جنت ملے گی، اورمجھے سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا سومجھے دوزخ ملے گی۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعضاء سجود کے جلانے کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔(صحیح بخاری، سنن نسائی)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ کا جو حال اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے اوراس کا چہرہ مٹی میں لتھڑا ہواہو۔

جمعہ، 19 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1663 ( Surah Al-Fath Ayat 7 - 8 ) درس قرآن سُ...

Para-03. آیت الکرسی کی اہمیت

Kya Zindagi Hum Apni Marzi Say Guzar Saktay Hain?-کیا زندگی ہم اپنی مرضی...

انسان کیا ہے؟

محافظ فرشتے

 

محافظ فرشتے

کنانہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ایک فرشتہ تمہاری دائیں جانب تمہاری نیکیوں پر مقرر ہوتا ہے اوریہ بائیں جانب والے فرشتے پر امیر(حاکم)ہوتا ہے، جب تم ایک نیکی کرتے ہو تو اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اورجب تم ایک برائی کرتے ہوتو بائیں جانب والا فرشتہ دائیں جانب والے فرشتے سے پوچھتا ہے ، میں لکھ لوں؟وہ کہتا ہے نہیں !ہوسکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اورتوبہ کرلے !جب وہ تین مرتبہ پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے ہاں لکھ لو!ہمیں اللہ تعالیٰ اس سے راحت میں رکھے، یہ کیسا برا ساتھی ہے یہ اللہ کے متعلق کتنا کم سوچتا ہے ! اوریہ اللہ سے کس قدر کم حیاکرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’وہ زبان سے جو بات بھی کہتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان لکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔‘‘(ق: ۱۸)اوردو فرشتے تمہارے سامنے اورتمہارے پیچھے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اس کے لیے باری باری آنے والے محافظ فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کے سامنے سے اوراس کے پیچھے سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘(الرعد:۱۱)اورایک فرشتہ ہے جس نے تمہاری پیشانی کو پکڑا ہوا ہے جب تم اللہ کے لیے تواضع کرتے ہوتو وہ تمہیں سربلند کرتا ہے اورجب تم اللہ کے سامنے تکبر کرتے ہوتو وہ تمہیں ہلاک کردیتا ہے ، اوردوفرشتے تمہارے ہونٹوں پر ہیں وہ تمہارے لیے صرف محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلواۃ کی حفاظت کرتے ہیں اورایک فرشتہ تمہارے منہ پر مقرر ہے وہ تمہارے منہ میں سانپ کو داخل ہونے نہیں دیتا، اوردوفرشتے تمہاری آنکھوں پر مقررہیں، ہر آدمی پر یہ دس فرشتے مقرر ہیں، رات کے فرشتے دن کے فرشتوں پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ رات کے فرشتے دن کے فرشتو ں کے علاوہ ہیں ، ہر آدمی پر یہ بیس فرشتے مقرر ہیں اورابلیس دن میں ہوتا ہے اوراس کی اولاد رات میں ہوتی ہے۔(جامع البیان :طبری ،تفسیر ابن کثیر )
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے، جو نیند اور بیداری میں اس کی جنات، انسانوں اورحشرات الارض سے حفاظت کرتا ہے، سوااس چیز کے جو اللہ کے اذن سے اس کو پہنچتی ہے ۔(جامع البیان )

جمعرات، 18 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1662 ( Surah Al-Fath Ayat 06 ) درس قرآن سُوۡر...

Humari Kamyabi Ka Rasta -ہماری کامیابی کا راستہ

Para 03 -کیا ہمارے معبود ایک سے زیادہ ہیں

انسان کی حقیقت

حکمت

 

حکمت

 حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابو الحسن ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا : آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اوراتنا منہمک نہ ہوں کہ گویا آپ کواس میں کچھ شک ہے) ،اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتاوہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں )اوراپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حتمی نہ سمجھیں )اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے روانہ کردیایا تقسیم کرکے برابرکر دیا یا پہن کر پرانا کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے ابوالحسن ! آپ نے سچ کہا۔(ابن عساکر)

 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوںاورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بردبادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا:اسے مت دیکھو کہ کون بات کررہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا بات کہہ رہا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہر بھائی چارہ ختم ہوجاتا ہے صرف وہی بھائی چارہ باقی رہتا ہے جو لالچ کے بغیر ہو۔ (ابن السمعانی )

بدھ، 17 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1661 ( Surah Al-Fath Ayat 4 - 5 Part - 2 ) در...

Para-03 -کیا ہم حق پر ایمان لے آئے ہیں

Hum Dunya Main Kyoon Ayeay Hain?-ہم دنیا میں کیوں آئے ہیں؟

توحید کیا ہے؟

دشمنانِ رسالت کا انجام

 

دشمنانِ رسالت کا انجام

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اربد بن قیس ، اورعامر بن الطفیل نجد سے مدینہ منورہ میں آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس وقت آپ بیٹھے ہوئے تھے، وہ دونوں آپ کے سامنے آکر بیٹھ گئے، عامر بن الطفیل نے کہا: اگر میں اسلام لے آئوں تو کیا آپ اپنے بعد مجھے خلیفہ بنائینگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، لیکن تم گھوڑوں پر بیٹھ کر جہاد کرنا۔ اس نے کہا : میرے پاس تو اب بھی نجد میں گھوڑے ہیں، پھر اس نے کہا: آپ دیہات میرے سپرد کردیں اورشہر آپ لے لیں، آپ نے فرمایا : نہیں ! جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھنے لگے تو عامر نے کہا : اللہ کی قسم ! میں آپکے خلاف گھوڑے سواروں کو اورپیادوں کو جمع کروں گا۔ آپ نے فرمایا :اللہ تم کو اس اقدام سے باز رکھے گا۔ جب وہ دونوں وہاں سے واپس لوٹے تو کچھ دور جاکر عامر نے(چپکے سے)کہا : اے اربد، میں (سیدنا )محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو باتوں میں لگاتا ہوں تم تلوار سے ان کا سراڑا دینا، اورجب تم نے (سیدنا)محمد (ﷺ)کو قتل کردیا تو زیادہ سے زیادہ یہ لوگ دیت کا مطالبہ کرینگے،اورہم سے جنگ کرنے کو ناپسند کرینگے، ہم ان کو دیت اداکردیں گے ، اربد نے کہا : ٹھیک ہے !پھر وہ دونو ں دوبارہ آپ کے پاس آئے، عامر نے کہا :یا محمد (صلی اللہ علیک وسلم) اٹھیں میں آپکے ساتھ کچھ بات کرنا چاہتا ہوں! رسول اللہ ﷺاٹھے اوردونوں باتیں کرتے ہوئے دیوار کے پاس چلے گئے۔ وہاں اورکوئی نہیں تھا۔ عامر رسول اللہ ﷺکے ساتھ باتیں کرنے لگا اوراربد تلوار سونتنے لگا۔ جب اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھا تو اسکا ہاتھ مفلوج ہوگیا، اوروہ تلوار نہ نکال سکا۔ جب اربد نے دیر لگادی تو رسول اللہ ﷺنے مڑکردیکھا اورآپ نے دیکھ لیا کہ اربد کیا کرنے والا تھا، پھر آپ واپس چلے آئے۔ جب عامر اوراربد، رسول اللہ ﷺکے پاس سے چلے گئے، اورحرئہ واقم میں پہنچے تو ان کو حضرت سعد بن معاذ اوراسید بن حضیر ملے ، انہوں نے کہا : اے اللہ کے دشمنو !ٹھہر جائو! عامر نے پوچھایہ کون ہے؟حضرت سعد نے کہا :یہ اسید بن حضیر کا تب ہے ،حتیٰ کہ جب وہ مقام رقم پر پہنچے تو اللہ نے اربد پر بجلی گرادی جس سے اربد ہلاک ہوگیا۔اورعامر جب آگے گیا تو اللہ تعالیٰ نے اسکے جسم میں چھالے اورپھوڑے پیداکردیئے ۔ اس نے بنو سلول کی ایک عورت کے ہاں رات گزاری ، اسکے حلق تک پھوڑے ہوگئے اورانکی تکلیف کی وجہ سے وہ موت کی خواہش کرنے لگا، اورپھر مرگیا۔(طبرانی)

منگل، 16 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1660 ( Surah Al-Fath Ayat 4 - 5 Part - 1 ) در...

معاف کرنے کی عادت

 

معاف کرنے کی عادت

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ’’اورجب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں ، اوربرائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے ، پھر جس نے معاف کردیا اوراصلاح کرلی تو اسکا اجر اللہ (کے ذمہء کرم )پر ہے‘‘۔ (الشوریٰ: ۴۰) ’’اورجس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔(الشوریٰ : ۴۳)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺبے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ، اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کر دیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺپر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اورآپکو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔ (جامع الترمذی)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور الصلوٰۃ والسلام کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ انکا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابودائود) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺسے ملا، میں نے ابتداً آپ کا ہاتھ پکڑلیا ، اورمیں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺمجھے فضیلت والے اعمال بتائیے، آپ نے فرمایا : اے عقبہ ، جوتم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو ، جو تم کو محروم کرے ، اس کو عطاکرو، اورجو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو۔( احمدبن حنبل) میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لیکر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ، انکے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اوران پر وہ شوربا گرگیا، میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا، تو باندی نے کہا اے میرے آقا، اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے ، والکاظمین الغیظ ، میمون نے کہا:میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا)اس نے کہا :اسکے بعد کی آیت پر عمل کیجئے والعافین عن الناس میمون نے کہا :میں نے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی: واللّٰہ  یحب المحسنین میمون نے کہا :میں تمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اورتم کو آزاد کردیتا ہوں۔(الجامع الاحکام :تبیان القرآن)

پیر، 15 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1659 ( Surah Al-Fath Ayat 1 - 3 Part - 4 ) د...

Insaan Ko Allah Tallah Nay Kyoon Paida Kay?انسان کو اللہ تعالیٰ نے کیوں ...

توبہ کیا ہے؟

 

توبہ کیا ہے؟

امام غزالی ؒرقم طراز ہیں : جاننا چاہیے کہ توبہ کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے کہ دل میں معرفت اور شناسائی کا ایک نور پیدا ہوتا ہے اوراس نور کی روشنی میں انسان کو یہ دکھائی دیتا ہے کہ گناہ ایک زہر قتل ہے جو اس کے رگ وپے میں سرایت کرچکا ہے اورجب اسے یہ ادراک ہوتا ہے کہ اس نے تو یہ زہر بہت ہی بڑی مقدار میں کھا لیا ہے اوراب ہلاکت اورتباہی سامنے دکھائی دے رہی ہے تو یقینا خوف وندامت اس پر غالب آجاتی ہے جس طرح زہر کھانے والا انسان پشیمانی اورخوف کی حالت میں حلق میں انگلی ڈال کر خوراک کو باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قے آجائے اوروہ زہر کو اگل دے  اسکا یہ اقدام زہر کے خوف اورہراس کی وجہ سے ہوتا ہے، اسکی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح زہر کا اثر زائل ہوجائے ، اسی طرح توبہ کی طرف مائل ہونیوالا جب محسوس کرتا ہے کہ میری تمام شہوانی اورنفسانی خواہشات دراصل اس شہد کی مانند تھیں جس میں زہر ملا ہوا تھا، جو نوش جاں کرتے وقت تو بہت ہی لذیذ اورشیریں معلوم ہوتا رہا لیکن انجام کار سانپ کے ڈنک کی طرح زہر سے بھرپور نکلا یہ جان کر اس گنہگار کی پشیمانی اسے مضطرب کردیتی ہے اوراسکے اندر بے قراری کی ایک آگ سے بھڑک اٹھتی ہے ، گناہ کی خواہش توبہ کی حسرت کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اپنے کیے ہوئے گناہوں کی معافی اورتلافی کا ارادہ دل میں بیدار ہوجاتا ہے اوراسکی زبان سے باربار یہی الفاظ نکلتے ہیں کہ اے اللہ کریم ! مجھے معاف فرمادے ، میں آئندہ کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا ،یہ کہتے ہوئے وہ جور وجفا کے لبادے کو تار تار کردیتا ہے اورخلوص ووفا کی بساط بچھا دیتا ہے، اسکی تمام حرکات وسکنات میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے ۔ پہلے وہ فخرو تکبر اورغفلت و تساہل کا پتلا تھا تو اب اشک ندامت اسے حسرت وارمان اورغم اندوہ کا مجسمہ بنا دیتے ہیں ، پہلے اہل غفلت کی صحبت اسے بہت مرغوب تھی تو اب اہل علم ومعرفت اورصاحبانِ تقویٰ و طہارت کی صحبت اس کیلئے مایہ ء سرور اورراحت جاں بن جاتی ہے اورصحبت بد سے اسے وحشت ہونے لگتی ہے ۔پس یہی پشیمانی ، یہی ندامت اوریہی بے قراری حقیقت میں ’’توبہ‘‘ ہے ، یعنی احساس ندامت ، اپنے کیے پرپچھتاوا اوراصلاح کی طرف میلان ’’توبہ ‘‘ کہلاتا ہے، اسکی جڑ وہ نور ہے جسے نورِ ایمان یا نورِ معرفت سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراسکی شاخیں وہ حالات ہیں جو بدل چکے ہیں ، وہ مخالفت ہے جو بندئہ مومن کے دل میں گناہ اور سرکشی کے بارے میں جنم لیتی ہے اوروہ جذبہ ہے جو بدن کے تمام اعضاء کو گناہ اوربدی سے بازرہنے کی تلقین کرتا ہے اوراسے حق تعالیٰ کے حکم کی موافقت ،مطابعت اورعبادت و اطاعت پر مجبور کردیتا ہے۔ (کیمیائے سعادت)

اتوار، 14 فروری، 2021

Dunya Main Insaan Ki Kamyabi-دنیا میں انسان کی کامیابی

توبہ : رجوع الی اللہ

 

توبہ : رجوع الی اللہ

گناہوں سے نادم ہوکر حق تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا نام توبہ ہے ،انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے نہ فرشتہ اورنہ شیطان۔ اپنی تخلیق کی ابتداء سے گناہوں سے کنارہ کش رہنا اورہمہ وقت اطاعت الٰہی میں مشغول رہنا ، فرشتوں کا خاصہ ہے ، دائمی سرکشی ، بغاوت اورمخالفتِ حق ،کار شیطان ہے۔ انسان سے غلطی کا صدور ہوجاتا ہے ، لیکن اسے گناہوں کو ترک کرنے، توبہ کرنے اوررجوع الی الحق کی صلاحیت سے نواز اگیا ہے۔ توبہ کرنا شیوئہ آدمیت ہے ، جو شخص توبہ کرتا ہے وہ گویا کہ اپنے جدا مجد حضرت آدم علیہ السلام سے اپنی نسبت کودرست کرلیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بدقسمت انسان ہمیشہ گناہوں پر اصرار کرے تو گویا، اس نے اپنا تعلق شیطان سے استوار کرلیا ہے ، ایک عام انسان کے لیے ایسا بھی ممکن نہیں ہوتا کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ غفلت سے پاک ،عبادت وریاضت اوراطاعت وبندگی سے معمور ہوجائے اوروہ دنیا میں رہتے ہوئے فرشتوں کی سی زندگی بسرکرے۔ انسان کے وجود میں لغزش ونسیان اورنفسیانی خواہشات کامادہ بھی موجود ہے، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کے وجود میں پہلے شہوت وخواہشات کو پیداکیاگیا ہے اورجب یہ اسکے وجود میں رچ بس گئی تو اسے جو ہرِ عقل سے نوازا گیا، عقل کوشہوت کا دشمن بنایا گیا اوریہ خالص فرشتوں کا جوہر ہے ، عقل کو یہ ہدف دیاگیا کہ وہ اپنی خداداد صلاحیت سے کام لے کر خواہش وشہوت کے اس قلعہ میں رخنہ ڈالے اورتو بہ اورمجاہدہ کی قوت سے اسے فتح کرے اوراسے شیطان کی غلامی اورنفس کی بالادستی سے نجات دلائے ۔
گویا کہ توبہ ہر شخص کی ضرورت ہے اوراللہ رب العزت کی معرفت کے جویاں افراد کے لیے قدمِ اولین ہے۔جب انسان کو توبہ کی توفیق نصیب ہوجائے تو پھر انسان شرح سے اکتساب کرتے ہوئے اوراپنی فراست مومنانہ کو استعمال کرتے ہوئے، صحیح راستے کا تعین کرسکتا ہے ، گویا توبہ ایک ایسا اہم ترین فریضہ ہے، جو تمام فرائض وواجبات کی جان ہے، اس لیے کہ اس کا مطلب ہی گمراہی کو ترک کرکے سیدھے راستے کو اختیار کرنا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے ہر بندے کو توبہ کرنے کا حکم دیا ہے ، سورۃ نور میں ارشاد ربانی ہوتا ہے ۔’’اے ایمان والو! تم سب اللہ کے حضور میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاجائو‘‘۔(النور : ۳۱)سورۃ ہود میں ارشاد ہوتاہے ’’اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو اورپھر اس کی طرف رجو ع کرو‘‘(ہود : ۳) سورۃ التحریم میں حکم ہوا ’’اے ایمان والو! اللہ کی جناب میں سچے دل سے توبہ کرو‘‘ (التحریم :۸)

ہفتہ، 13 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1657 ( Surah Al-Fath Ayat 1 - 3 Part - 2 ) در...

Kamyabi Asal Main Kya Hay?-کامیابی اصل میں کیا ہے؟

کامیابی کی معراج کیسے؟

احساس

 

احساس

 سن۹ ہجری میں جب رومیوں کی جانب سے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ سلطنتِ مدینہ پر یورش کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایاکہ آگے بڑھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے ۔ مسلمانوںنے اس لشکر کی تیاری میں بے سروسامانی کے باوجود بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جو لوگ جنگی مہم میں شریک ہوسکتے تھے سب کو ساتھ چلنے کا حکم ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ شامل نہ ہوسکے ۔ 

 ایک روز شدید گرمی کا عالم تھا ،حضرت ابوخثیمہ اپنے اہل خانہ کے پاس آئے ، انھوںنے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویاں ان کے باغ میں اپنے اپنے چھپڑ میں ہیں، انھوںنے چھپڑ میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکائو کر رکھا ہے، لذیذ کھانے تیار کیے ہوئے ہیں اورپینے کے لیے ٹھنڈا پانی بھی فراہم کررکھا ہے۔ حضرت خثیمہ چھپڑوں کے پاس آکر رک گئے، اپنی بیویوں کودیکھا انھوں نے انکی آرام و آسائش کا جو اہتمام کیا ہوا تھااسے بھی ملاحظہ فرمایاتو ان کی زبان سے بے اختیار نکلا’’اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیارا حبیب تو اس وقت دُھوپ اورلو کے عالم میں ہے اورابو خثیمہ اس خنک سائے میں ہے جہاں ٹھنڈا پانی موجود ہے ،لذیذ اوراشتہا ء انگیز کھانا تیار ہے ، خیال رکھنے والی خوبرو بیویاں ہیں یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے‘‘پھر اپنی خواتین خانہ کو مخاطب کیا اورفرمایا :میں تم میں سے کسی کے چھپڑکھٹ میں قدم نہیں رکھوں گا بلکہ اپنے پیارے آقا کے پاس جائوں گا،میرے لیے فوراً زادِ سفر تیارکرو‘‘۔ان نیک بخت خواتین نے فوراً اہتمام کیا اورآپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر لشکر اسلام کی جستجو میں نکل کھڑے ہوگئے ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے مقام پر پہنچے تو یہ بھی پہنچ گئے ۔حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بھی پیچھے رہ گئے تھے ۔راستے میں ان سے بھی ملاقات ہوگئی تھی ، جب دونوں ایک ساتھ لشکر کے قریب پہنچے تو ابو خثیمہ نے حضرت عمیر سے کہاکہ مجھ سے ایک بڑی کوتاہی سر زد ہوگئی ہے اگر آپ کچھ دیر توقف کرلیں تو میں آپ سے پہلے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضری لگوالوں ۔

جمعہ، 12 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1656 ( Surah Al-Fath Ayat 1 - 3 Part - 1 ) در...

ہمارا تزکیہ نفس کیسے ہوگا؟

اذیت کے سلسلے


اذیت کے سلسلے

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ  کا بیان ہے : حضور اکرم ﷺ مسجد حرام میں جلوہ گر تھے اورنماز کی ادائیگی میں مصروف تھے اور نماز میں طویل سجدے فرمارہے تھے ، اس وقت کفار کے کچھ سرکردہ افراد بھی حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے ان میں ابو جہل ، شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ ، عقبہ ابن ابی معیط ، امیہ بن خلف اوردومزید افراد یعنی کل سات افراد شامل تھے، ابوجہل نے کہا تم میں سے کون ایسا ہے جو فلاں جگہ جائے، جہاں کچھ قبائل نے جانور ذبح کیے ہوئے ہیں اوروہ جانور کی اوجھڑی ہمارے پاس اٹھالائے ، ہم وہ اوجھڑی محمد (ﷺ)پر ڈال دیں ، ان میں سب سے بدبخت وکور دماغ عقبہ ابن ابی معیط اٹھا اوراس نے وہ اوجھڑی لاکر پیکرِ نظافت ولطافت حضور انور ﷺکے کاندھوں پر ڈال دی آپ اس وقت حالتِ سجدہ میں تھے، میں وہاں قریب ہی کھڑا تھا ،مجھے کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی ، میں تواسوقت اپنی حفاظت پر بھی قادر نہیں تھا، میں کسی کو خبر کرنے کیلئے وہاں سے جانے ہی والا تھا کہ اسی اثنا میں حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ عنہا )تک یہ خبر پہنچ گئی آپ دوڑی ہوئی آئیں اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پشت مبارک سے اوجھڑی کو اتار دیا، پھر قریش کی جانب متوجہ ہوکر (بلاخوف خطر) انھیں ملامت فرمانے لگیں، لیکن کافروںنے انھیں کچھ جواب نہ دیا، آنحضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے (اس اذیت کے باوجود )اپنی عادت مبارکہ کے مطابق سجدہ پورا کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو تین مرتبہ یہ دعافرمائی ، اے اللہ ! قریش کی گرفت فرما، عتبہ ، عقبہ ، ابوجہل اورشیبہ کی پکڑ فرما، اسکے بعد آپ مسجد حرام سے باہر تشریف لے گئے، راستے میں آپ کی ملاقات  ابوالبختری   سے ہوئی ، جس کی بغل میں کوڑا دبا ہوا تھا، اس نے آپکے چہر ہ انور پر ملال کے آثار دیکھے تو پوچھا کیا ہوا، آپ نے فرمایا مجھے جانے دو اس نے کہا نہیں میں آپ کو نہیں جانے دوں گا، جب تک آپ مجھے ساری بات نہیں بتادینگے مجھے محسوس ہورہا ہے کہ آپ کوکوئی بڑی تکلیف پہنچی ہے ، اسکے اصرار پر آپ نے تمام ماجراکہہ سنایا، اس نے کہا آئیے میرے ساتھ مسجد چلئے ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسکے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے، ابوالبختری نے ابوجہل کے سرپر وہ کوڑا رسید کردیا، اس پر کافروں میں آپس میں ہاتھا پائی شروع ہوگئی، ابوجہل چلایا ، او!تم لوگوں کا ناس ہو، تمہاری اس آپکی ہاتھا پائی سے محمد (ﷺ)کا فائدہ ہورہا ہے، یہ تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہمارے درمیان مخاصمت پیدا ہو جائے، اوروہ اورانکے ساتھی محفوظ رہیں ، صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضور انور ﷺپر اوجھڑی ڈالنے کے بعد وہ ہنسنے لگے۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ وہ ساتوں کافر میدان بدر میں قتل کردیے گئے ۔(بزار ، طبرانی)

جمعرات، 11 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1655 ( Surah Muhammad Ayat 36 - 38 Part - 2 )...

Akhrat Ki Taraf Kaisay Maeel Huwa Jeay?آخرت کی طرف کیسے مائل ہوا جائے؟

ہم اپنے دل کو قلبِ سلیم کیسے بنائیں؟

اطاعت گزاروں کی مثال

 

اطاعت گزاروں کی مثال

حضرت جابر ؓبیان فرماتے ہیں ، حضور اکرم ﷺ محواستراحت تھے کہ چند فرشتے آپکے پاس آگئے ، اور آپس میں گفتگو کرنے لگے ، ایک نے کہا تمہارے ان صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام ) کیلئے ایک مثال ہے اس کو بیان کرو، بعض فرشتوں نے کہا یہ تو سورہے ہیں ، دوسروں نے کہا انکی آنکھیں تو سو جاتی ہیں لیکن انکا قلبِ مقدس بیدار رہتا ہے ، فرشتوں نے کہا ، ان کی مثال ایک ایسے انسان کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اوراس گھر میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا، اور ایک شخص کو اس ضیافت میں مدعو کیا ، اس نے اس دعوت کو قبول کرلیا ،گھر میں داخل ہوگیا، اورکھانا تناول کرلیا ، لیکن ایک ایسا شخص بھی ہے جس نے نہ تو اس دعوت کو قبول کیا، نہ اس گھر میں داخل ہو اورنہ ہی اس دعوت میں سے کچھ کھایا ، دوسرے فرشتوں نے کہا اس مثال کی وضاحت انکے سامنے کروتاکہ یہ اس کا مطلب سمجھ جائیں، اس پر بعض فرشتوں نے کہا، یہ تو سورہے ہیں لیکن دوسرے فرشتوں نے کہا انکی آنکھیں سوتی ہیں مگر دل بیدار رہتا ہے ، پھر ان ملائکہ نے اس تمثیل کا یہ مطلب بیان کیا، کہ وہ گھر جنت ہے ، اوردعوت دینے والے محمد (ﷺ) ہیں ، لہٰذا جس نے محمد علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، جس نے محمدﷺکی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اورمحمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے انسانوں کی دوقسمیں ہوگئیں ، جس نے آپ کی بات مانی اسکی اللہ کی بات مانی وہ تو جنت میں جائیگا، اوراس نے آپکی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور وہ جنت میں نہیں جائیگا۔(صحیح بخاری، دارمی ، مشکوٰۃ ) حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا : میری اوراس دین کی جسے اللہ نے مجھے دے کر مبعوث فرمایا، مثال اس ایک انسان جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اوران سے کہا، اے میری قوم میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کے ایک لشکر جرار کو تمہاری طرف آتے ہوئے دیکھا ہے اور تمہیں بہت بے غرض ہوکر اس آفت سے ڈرا رہا ہوں، جلدی کرو! جلدی کرو!چنانچہ اس قوم کے کچھ افراد نے تو اس کی بات مان لی، سرشام کی وہاں سے (محفوظ پناہ گاہوں کی طرف)چل دیے اورآرام سے چلتے رہے اوربچ گئے، لیکن اس قوم میں کچھ افراد نے اس خبردار کرنیوالے کوجھوٹا گردانا، اوروہیں پر مقیم رہے، دشمن کے لشکر نے ان پر علی الصبح ہی حملہ کردیا، ان کو ہلاک کرکے ان کانام ونشان تک مٹا ڈالا، یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے میری بات مانی اورجو دین حق میں لیکر آیا ہوں اس پر عمل پیرا ہوئے اوران لوگوں کی جنہوں نے میری نافرمانی کی اورمیرے لائے ہوئے دین حق کو جھٹلادیا۔(بخاری)

بدھ، 10 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1654 ( Surah Muhammad Ayat 36 - 37 Part - 1 )...

درس القرآن سُوۡرَةُ البَقَرَة - کیا ہم بے ایمان لوگ ہیں

تبلیغ وتلقین

 

تبلیغ وتلقین

صحابی رسول حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کی داستان سناتے ہوئے فرماتے ہیں، میں حضور اکرم ﷺکی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوا، میں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺمیں آپکی خدمت اقدس میں اب تک اس لیے نہیں حاضر ہوا کہ میں نے اپنے ہاتھوں کے پوروں کی تعداد سے زیادہ مرتبہ یہ قسم اٹھائی تھی کہ نہ تو میں کبھی آپکے پاس آئوں گا ، اورنہ ہی آپکے دین کو اختیار کروں گا، (انھوں نے یہ بات بیان کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھتے ہوئے پوروں کی تعداد کی طرف اشارہ بھی کیا)لیکن اب اللہ رب العزت نے مجھے آپکی خدمت میں حاضر ہونے کی توفیق عطاء فرمادی ہے اورمیری حالتِ زاریہ ہے کہ میرے پاس دین کا بہت ہی تھوڑا ساعلم ہے ، میں آپ کواللہ تبارک وتعالیٰ کی ذاتِ عظیم کا واسطہ دیکر پوچھتا ہوں کہ ہمارے پاک پروردگار نے آپکو کیا دے کر ہمارے پاس بھیجا ہے ، حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دین اسلام دے کر تمہاری طرف بھیجا ہے ، حضرت معاویہ ؓنے پوچھا ، اے اللہ کے مبارک رسول یہ دین اسلام کیا ہے؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا : دین اسلا م یہ کہ تم یہ کہوکہ میں نے اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرماں بردار بنادیا اورمیں اللہ رب العزت کا علاوہ باقی سب سے بے نیاز ہوگیا، نماز قائم کرو اورزکوٰۃ اداکرو، (یادرکھو ) ہر مسلمان دوسرے مسلمان کیلئے قابل احترام ہے، دونوں مسلمان آپس میں بھائی بھائی بھی ہیں، اورایک دوسرے کے مددگار ومعاون بھی اورایک مشرک انسان جب مسلمان ہوجائے، تو اسلام کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ اسکے عمل کو اس وقت قبول فرمائے گا، وہ مشرکوں کی معاشرت سے جدہوجائے (یعنی ہجرت کرکے مسلمانوں کے ماحول اورمعاشرے میں آجائے) مجھے کیا ضرورت تھی کہ میں تمہاری کر پکڑپکڑکر تمہیں جہنم کی آگ سے بچائوں، مگر سنو!بات یہ ہے کہ یہ پاک پروردگار مجھے بلائے گااورمجھ سے پوچھے گا کہ کیا تم نے میرا دین میرے بندوں تک پہنچادیا تومیں یہ عرض کرسکوں گا کہ اے میرے رب ذوالجلال ! ہاں میں نے تیرے دین کی دعوت تیرے بندوں تک پہنچادی ہے، غورسے سنو! تم میں سے جو لوگ یہاں حاضرہیں وہ ان لوگوں تک یہ دعوت پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ، غور سے سنو! تمہیں قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں اٹھایا جائیگا کہ تم مہربلب ہوگے اورسب سے پہلے انسان کی ران اورہتھیلی اسکے اعمال کی خبر دیگی ، معاویہ ؓکہتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہی ہمارا دین ہے آپ نے فرمایا ہاں یہی تمہارا دین ہے تم جہاں بھی رہ کر اس پر اچھی طرح عمل کروگے یہ دین تمہارے لیے کافی ہوجائیگا۔(الاستعیباب : ابن عبدالبد)

منگل، 9 فروری، 2021

Dunya Main Kamyabi Kaisay Mumkin Hay?دنیا میں کامیابی کیسے ممکن ہے؟

درس القرآن سُوۡرَةُ البَقَرَة - کامیابی کا راستہ

لایعنی باتوں سے بچو(۴)

 

لایعنی باتوں سے بچو(۴)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہواسے چاہیے کہ یا تو خیر کی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔(صحیح بخاری)

حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:مجھے مختصر بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔کیونکہ مختصر بات کرنا ہی بہتر ہے۔(ابودائود)

حضر ت ابوذر غفاری رض اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوااور گزارش کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم مجھے وصیت فرمائیے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا:زیادہ وقت خاموش رہا کرویہ عادت شیطان کو دور کرتی ہے۔اورامور دین میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے میں نے عرض کی مجھے کچھ اوربھی تلقین فرمائیے ، آپ نے فرمایا: زیادہ ہنسنے سے گریز کرتے رہنا کیونکہ یہ عادت دل کو مردہ کردیتی ہے اور چہرے کے نور کو ختم کردیتی ہے۔(بیہقی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان (بسااوقات) کوئی بات کہہ دیتا ہے اوراس کے کہنے میں میں کوئی مضائقہ   نہیں سمجھتا لیکن اس بات کی پاداش میں ستر سال کی ساخت کے برابر جہنم میں جاگرتا ہے۔(ترمذی)

حضرت مغیرہ بن ثبعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا ، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین باتوں کو ناپسند فرمایا ہے۔(۱)ادھر اُدھر کی بے مقصد ہانکنا،(۲)مال کو بے جا ضائع کرنا (۳) اورسوالات کی کثرت کرنا۔(صحیح بخاری)(بعض لوگوں کے سوالات تحصیل علم کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اپنی علمیت کے اظہار یا مسئول کو زچ کرنے کے لیے ہوتے ہیں)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ جل مجدٗہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو، کیونکہ اس کی وجہ سے دل میں سختی اوربے حسی پیدا ہوتی ہے،اور(یاد رکھو )اللہ تبارک وتعالیٰ سے زیادہ دور وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔(ترمذی)

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:جس شخص کے دنیا میں دوچہرے ہوں (یعنی مختلف افراد سے مختلف باتیں کرتا ہو)تو وہ قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دوزبانیں ہوں گی۔(ابودائود)

حضرت سفیان بن اسیر الحضرمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے جھوٹ بولو، حالانکہ وہ (تمہارا اعتبار کرتے ہوئے)تمہاری بات کو سچ سمجھتا ہو۔(ابودائود)

پیر، 8 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1652 ( Surah Muhammad Ayat 34 ) درس قرآن سُوۡ...

Dil Ko Arsh-e-Elahi Kaisay Banain?دل کو عرشِ الٰہی کیسے بنائیں؟

- درس القرآن سُوۡرَةُ البَقَرَة - کیا ہم ایک ناشکری قوم ہیں

لایعنی باتوں سے بچو(۳)

 

لایعنی باتوں سے بچو(۳)

حضرت عمران بن حطان علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں کہ میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب صحابی حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ وہ مسجد کے ایک گوشے میں کالی چادر لپیٹے ہوئے اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں ۔میں نے عرض کی :حضرت یہ تنہائی اوریکسوئی کیسی ہے؟انھوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا ہے کہ :’’برے ساتھی کے ساتھ بیٹھنے سے اکیلارہنا بہترہے‘‘۔ اور نیک دوست کے ساتھ مجلس کرنا تنہائی سے بہترہے اورکسی کو اچھی باتیں بتانا خاموشی اختیار کرنا زیادہ اچھا ہے۔(بیہقی)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جوخاموش رہا وہ نجات پاگیا۔(ترمذی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خادم اسلم علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم کی نظر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر پڑی توآپ نے دیکھا کہ وہ اپنی زبان کو کھینچ رہے ہیں۔حضرت عمر نے پوچھا:اے خلیفہ رسول!آپ یہ کیا کررہے ہیں؟ انھوں نے ارشادفرمایا:یہی وہ زبان ہے جو مجھے ہلاکت کے مقامات پر لے آتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتھا کہ(انسان کے)جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو زبان کی تیزی اوربدگوئی کی شکایت نہ کرتا ہو۔ (بیہقی)حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے اس بندے پر رحمت فرمائیں جو اچھی بات کرے اوردنیا وعقبی میں اس کا فائدہ اٹھائے، یا پھر خاموش رہے اورزبان کی لغزشوں سے محفوظ ومامون رہے۔(بیہقی)

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:انسان کی خوش بختی اوربدبختی اس کے دونوںجبڑوں کے درمیان ہے۔یعنی زبان کو حسنِ استعمال نیک بختی کا ذریعہ اورغلط استعمال بدبختی کا سبب ہے۔(بیہقی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:انسا ن (بسااوقات) اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی کوئی ایسی بات کردیتا ہے جس کو وہ اہم بھی نہیں سمجھتا لیکن اس کی وجہ سے اللہ کریم اس کے درجات بلند فرمادیتا ہے۔اورکبھی ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کی وہ پرواہ بھی نہیں کرتا لیکن اسی بات کی وجہ سے وہ جہنم میں جاگرتا ہے۔(صحیح بخاری)

اتوار، 7 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1651 ( Surah Muhammad Ayat 33 ) درس قرآن سُوۡ...

لایعنی باتوں سے بچو(۲)

 

لایعنی باتوں سے بچو(۲)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن اعضاء کی برائیوں سے بچالیا وہ دونوں جبڑوں اورٹانگوں کے درمیان ہیں یعنی زبان اورشرمگاہ تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔(ترمذی)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اورعرض کی کہ مجھے وصیت فرمائیے آپ نے چند وصیتیں فرمائیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی زبان کو خیر کی بات کے سواء ہر قسم کی بات سے محفوظ رکھو ، اس کی (برکت )تم شیطان پر قابو پالو گے۔(ابویعلی ، مجمع الزوائد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیاگیا کہ کس عمل کی وجہ سے لوگ جنت میں زیادہ داخل ہوں گے۔آپ نے ارشادفرمایا:تقویٰ اورعمدہ اخلاق کی بدولت ،آپ سے پوچھا گیا کہ کس عمل کی وجہ سے لوگ جہنم میں زیادہ جائیں گے،آپ نے ارشادفرمایا: منہ اور شرمگاہ کے غلط استعمال کی وجہ سے ۔(ترمذی)

حضرت اسود بن اَصرم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں میں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گزارش کی کہ یارسول اللہ علیک وسلم مجھے وصیت فرمادیجئے ، آپ نے ارشادفرمایا:اپنے ہاتھ کو سنبھال کررکھو(یعنی کسی کو تکلیف نہ پہنچائو)میں نے عرض کیا، اگر میرا ہاتھ میرے قابو میں نہ رہے توپھر اورکیاچیز قابو میں رہ سکتی ہے۔آپ نے فرمایا :اپنی زبان قابو میں رکھو، میں نے عرض کیا :اگر میری زبان ہی میرے قابو میں نہ رہے تو پھر اورکیا چیز میرے قابو میں رہ سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا:تم اپنے ہاتھ کو اچھے کام کے لئے ہی بڑھائو اوراپنی زبان سے اچھی بات ہی کہو۔ (طبرانی، مجمع الزوائد)حضرت راء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بادیہ نشین صحابی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اورعرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم مجھے کوئی ایسا عمل تعلیم فرمادیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چند اعمال ارشادفرمائے جس میں غلام کو آزاد کرنا،قرض دار کو قرض کے بوجھ سے نجات دلانا اورجانور کے دودھ سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا کے علاوہ چند اورمفید کام بھی تلقین فرمائے پھر ارشادفرمایا:اگر یہ سب کچھ نہ ہوسکے تو یہ ضرور کروکہ اپنی زبان کو اچھی بات کے علاوہ گفتگو سے روکے رکھو۔(بیہقی)


ہفتہ، 6 فروری، 2021

کیا ہم زندہ قوم بن سکتے ہیں

کیا ہم ایک مردہ قوم ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1650 ( Surah Muhammad Ayat 32 ) درس قرآن سُوۡ...

کامیابی کا راز

Allah Tallah Ki Mohabat Kaisay Paida Karain?اللہ تعالیٰ کی محبت کیسے پید...

انوکھا سخی۔۔۔

 

انوکھا سخی۔۔۔

 ایک دفعہ دو بادیہ نشین مدینہ منورہ آکر یہ سوال کرنے لگے :کہ کون ہے جو ہمیں فی سبیل اللہ سواری عطاکرے؟لوگوں نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کانام لیا ،وہ دونوں اُن کے گھر چلے آئے ۔آپ نے اُن سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی احتیاج کے بارے میں بتا دیا،آپ نے فرمایا:کچھ دیر ٹھہرو ، میں ابھی تمہارے پاس آتا ہوں ۔واپس آئے تو مصر کا بنا ہواہلکے اورپتلے کپڑے کا ایک سستا سا لباس پہنے ہوئے تھے جس کی قیمت محض چار درہم تھی۔ہاتھ میں ایک لاٹھی لیے ہوئے تھے،اوران کے غلام بھی ان کے ساتھ تھے ۔وہ دونوں سوالیوں کو لے کر بازار کی طرف روانہ ہوئے ،راستے میں جب کسی کوڑا کرکٹ کے پاس سے گزرتے اوراس میں ان کو کوئی کپڑا نظر آتا جو اونٹوں کے سامان کی مرمت میں کام آسکتا تو اسے اپنی لاٹھی کے کنارے سے اٹھا لیتے ،اسے جھاڑتے ،پھر اپنے غلاموں سے کہتے اسے اونٹوں کے سامان کی مرمت کے لیے رکھ لو۔ حضرت حکیم بن حزام اسی طرح ایک کپڑے کا ٹکڑا اٹھا رہے تھے کہ ان میں سے ایک دیہاتی نے اپنے ساتھی سے کہا ،تیرا ناس ہو،ان سے جان چھڑائو اوریہاں سے کھسکو، اللہ کی قسم !ان کے پاس تو صرف کوڑے سے اٹھائے ہوئے چیتھڑے ہی ہیں،یہ ہمیں سواری کے جانور کیسے دے سکیں گے۔اس کے ساتھی نے کہا :میاں !عجلت نہ کرو، تھوڑی دیر توقف کرو،دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کرتے ہیں۔حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ان دونوں کو لے کر بازار پہنچے ، وہاں انھیں دو بڑی صحت مند ، موٹی تازی گابھن اونٹنیاں نظر آئیں ،انھوںنے دواونٹنیاں خرید لیں اورساتھ ہی ان کا متعلقہ سامان بھی خرید لیا ،پھر اپنے غلاموں سے کہا جس سامان کی مرمت درکار ہو اس کی مرمت کپڑوں کے ان ٹکڑوں سے کرلو۔اس کے بعد دونوں اونٹنیوں پر کھانا ، گندم اورچربی خرید کر لدوادی ، ان دونوں دیہاتیوں کو اخراجات کے لیے رقم بھی دی اورکہا کہ یہ دونوں اونٹنیاں اپنے ساتھ لے جائو ۔اس پر اس دیہاتی نے بڑی حیرت سے اپنے ساتھی سے کہا میں نے آج تک کوئی کپڑے اُٹھانے والا ایسا سخی نہیں دیکھا۔(طبرانی ،مجمع الزوائد)

جمعہ، 5 فروری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1649 ( Surah Muhammad Ayat 31 ) درس قرآن سُوۡ...

Batin Ka shock Kaisay Paida Hoo?باطن کا شوق کیسے پیدا ہو؟

جسم اور روح کی حقیقت

لایعنی باتوں سے بچو(۱)

 

لایعنی باتوں سے بچو(۱)

آپ میرے بندوں سے فرمادیجئے کہ وہ ایسی بات کیا کریں جو بہتر ہو(اس میں کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو) کیونکہ شیطان دل آزار بات کی وجہ سے آپس میں تنازعہ کروادیتا ہے۔واقعی شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔(بنی اسرائیل : ۵۳)اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی یہ صفت ارشادفرمائی ہے’’وہ لوگ بے کار لایعنی باتوں سے اعراض کرتے ہیں‘‘ (مومنون:۳)اوروہ بے ہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے،اگر اتفاق سے کسی بے ہودہ مجلس کے پاس سے گزریں تو سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ گزرتے ہیں۔(الفرقان:۷۲)اورجب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیں تواس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ (القصص :۵۵) انسان جو کوئی لفظ بھی زبان سے نکالتا ہے تواس کے پاس ایک فرشتہ انتظار میں بیٹھا ہے (جو اسے فوراً تحریر کرلیتا ہے۔ (ق:۱۸)حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا :’’کسی شخص کے اسلام کی خوبی اورکمال یہ ہے کہ وہ فضول کاموں اور باتوں کو چھوڑدے۔(ترمذی)حضرت حارث بن ہشامؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں   ںے    رسول اللہ ﷺسے گزارش کی کہ وہ مجھے ایسی کوئی بات بتادیں جسے میں مضبوطی سے تھامے رہوںآپ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا اسکواپنے قابو میں رکھو۔ (طبرانی اورمجمع الزوائد)حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺنے اپنے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے سب خاموش رہے کسی نے جواب نہ دیاتو آپ نے ارشاد فرمایا:سب سے زیادہ پسندیدہ عمل زبان کی حفاظت کرنا ہے۔ (بیہقی) حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت عالیہ میں عرض کی یارسول اللہ !نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے۔آپ نے ارشادفرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو،اپنے گھر میں رہو،(بلا ضرورت باہر نہ گھومو پھر و)اوراپنے گناہوں پر آنسو بہایا کرو۔ (ترمذی) حضرت انس بن مالک ؓروایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺنے ارشادفرمایا :بندہ جب تک اپنی زبان کی حفاظت نہ کرے وہ ایمان کی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔حضرت ابوسعید خدری ؓبیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:انسان جب صبح کرتا ہے تو اسکے جسم کے تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں کہ تو ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خوف کرکیونکہ ہمارا معاملہ تجھ سے ہی وابستہ ہے اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بے ٹیڑھے ہوجائیں گے۔(ترمذی)