بدھ، 31 جنوری، 2024

Kya humain shaikh-e-kamil ki koi zaroorat hay?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 01-03 Part-06.کیا ہم سوئی ہوئی قوم ہیں

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 01-03 Part-05 .الہ کا اصل معنی کیا ہے

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ(۲)

 

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ(۲)

  طریقت کے علم و عمل کے پیشوا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ ایک شخص  حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا امیر المئو منین مجھے کچھ وصیت فرمائیں ۔ آپ ؓنے فرمایا : اپنا سب سے بڑا مشغلہ صرف بیوی بچوں کی خدمت ہی نہ سمجھو کیونکہ اگر تیرے اہل وعیال اللہ تعالی کے مقبول بندے ہیں تووہ اپنے مقبول بندوں کو کبھی ضائع نہیں فرمائے گا ، اور اگر وہ اللہ تعالی کے نافرمان ہوئے تو تمہیں اللہ کے دشمنوں سے کیا واسطہ ؟ اس مسئلہ کا تعلق غیر اللہ سے دل کے قطع تعلق سے ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جس طرح چاہتا ہے رکھتا ہے ، مگر اس راہ میں یقین صادق شرط اولین ہے ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے انتہائی مشکل وقت میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کو خدا کے حوالے کر دیا اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے جا کر غیرآباد صحرا میں اللہ تعالی کے سپرد کر دیا انہوں نے اپنے اہل عیال کو اپنا بڑا مشغلہ و مقصد نہ بننے دیا ، اور مکمل طورپر اپنے دل کو حق تعالی کی طرف پھیردیا اپنے تمام امور اللہ کو سونپ دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بظاہر ان کا اپنے اہل و عیال کو جنگل میں چھوڑ دینا دونوں جہا ں میں مراد حاصل کرنے کا سبب بن گیا۔ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کی کہ سب سے پاکیزہ چیز کونسی ہے ؟ آپ نے فرمایاوہ دل جو اللہ تعالی کے تعلق کی وجہ سے ہر چیز سے بے نیاز ہو گیا ہے یہاں تک کہ دنیا کا نہ ہونا اسے فقیر نہ بناسکے اور اس کا ہونا اسے خوشی نہ دلا سکے۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے اقوال اور فیصلے پُر از حکمت اور قوت استدلال کے اعلی ترین درجے میں شمار ہوتے ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے چند اقوال یہ ہیں کہ :۱: توفیق الٰہی بہترین راہنما ہے ۔ ۲: سب سے بڑی دولت عقل مندی اور سب سے بڑا افلاس حماقت ہے ۔ ۳: گناہوں کی دنیا میں سزا یہ ہے کہ عبادت میں سستی اور معیشت میں تنگی پیدا ہو جاتی ہے ۔ ۴: حلال کی خواہش اس شخص میں پیدا ہوتی ہے جو حرام کو چھوڑ دینے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے ۔ ۵: کامل فقیہہ وہ ہوتا جو لوگوںکو اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور نہ ہی گناہ کرنے کی ڈھیل دے ۔ 
جمال عشق و مستی نے نوازی 
جلا ل عشق ومستی بے نیازی 
کمال عشق و مستی ظرف حیدر 
زوال عشق ومستی بے نیازی 

منگل، 30 جنوری، 2024

Momin ki alamaat

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 01-03 Part-02.کیا ہم شرک عملی میں م...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 01-03 Part-01 .کیا ہم دنیا کے بندے ہیں

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ(۱)

 

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ(۱)


باب مدینۃ العلم، غواص بحر بلا، سوختہ آتش ولاء، مقتدائے اولیا ء و اصفیا، امیر المومنین ابو الحسن علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی ولادت باسعادت بعثت نبوی سے دس سال قبل ماہ رجب میں ہوئی ۔ آپؓ کی کنیت ابو تراب و ابو الحسن تھی جبکہ حید ر کرار آپ کا لقب تھا ۔ آپؓ نجیب الطرفین ہاشمی تھے۔آپؓ حضور نبی کریمﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ روایات کے مطابق، حضور نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ کی پرورش کی ذمہ داری اٹھائی ۔ حضرت علیؓ نے حضور نبی کریمﷺ کے دامن محبت و شفقت میں پرورش پانے کا اعزاز حاصل کیا ۔
آپؓنے  بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا ۔ جب اللہ تعالی کے حکم کے مطابق علانیہ تبلیغ کا آغاز ہوا تو مشکلات و مصائب کے باوجود اور انتہائی تکلیف دہ اور آزمائشی مرحلے میں بھی حضورﷺ کا ساتھ دیا۔ یہ حضرت علیؓ ہی تھے جنھیں ہجرت مدینہ کے وقت خاتم النبینﷺ نے حکم فرمایا، اے علی، میرے بستر پر لیٹ جائیں اور صبح امانتیں ان کے اصل مالکان تک پہنچا دینا۔ حضور نبی کریمﷺ نے آپؓ کو اپنا داماد بنایا اور اپنی لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمۃ الز ہرہؓ کے ساتھ آپ کا نکاح کیا۔ آپؓ کو تمام اہم ترین غزوات میں شامل ہو نے کا اعزاز حاصل ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہونے والے معاہدے کے کاتب آپ ہی تھے۔ اکثر غزوات میں حضور نبی کریمﷺ نے پرچم اسلام آپ ہی کو عطا کیا۔ غزوہ خیبر آپ ﷺنے حضرت علیؓ کے ہاتھ میں پرچم دے کر فتح کی بشارت سنائی۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : اے مسلمانو، تم میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے مالک حضرت علیؓ ہیں ۔ 
حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کا ارشاد ہے کہ اگر مجھے حضرت علیؓ کی رفاقت حاصل نہ ہوتی تو امور سلطنت میں عمر برباد ہو جاتا۔ طریقت میں حضرت علیؓ بہت اونچی شان اور بلند ترین مقام کے مالک تھے ۔ اصول حقائق کے مشکلات کے حل پر آپؓ کو جو قدرت تھی اس کے بارے میں حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: ’اصول طریقت اورمصائب برداشت کر نے میں ہمارے پیر علی المرتضیؓ ہیں ــ‘۔

پیر، 29 جنوری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 01-02 Part-02.کیا ہم آخرت کے وجود س...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 01-02 Part-01 .کیا ہم سب راستہ بھٹک...

تکبر کے نقصانات

 

 تکبر کے نقصانات

تکبر ایک برا خلق ہے ۔تکبر کی حقیقت یہ ہے کہ  انسان خود کو دوسروں سے اعلی سمجھے ۔ اس سے انسان میں تکبر کی ہوا پیدا ہوتی ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مولا میں تکبر کی ہوا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ جب انسان میں یہ ہوا پیدا ہو جاتی ہے تو وہ  دوسروں کو خود سے کمتر سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ وہ  اپنے سے کمترکو اپنا خادم سمجھتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے خادم بھی نہ سمجھے اور کہے کہ یہ اس قابل کہاں جو میری خدمت بجا لائیں ۔ جس طرح خلفا ء ہر ایک کو اپنا آستانہ چومنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ یہ بہت بڑاتکبر ہے اللہ تعالی کی کبریائی سے بھی بڑھ کر کیوں کہ اللہ تعالی ہر ایک کی بندگی قبول فرما لیتا ہے ۔ 
اگر متکبر اور احمق اس درجے تک نہ پہنچے تو پھر وہ چلنے اور بیٹھنے میں تقدم کا چاہتا ہے اور اپنی تعظیم و توقیر کا امیدوارہوتا ہے ۔ متکبر شخص اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اگر کوئی اس کو نصیحت کر ے تو وہ اس کی نصیحت کو قبول نہیں کرتا ۔اور جب خود دوسروں کو نصیحت کرتا ہے تو سخت رویہ اختیار کرتا ہے ۔ متکبر شخص لوگوں کو جانوروں کی طرح دیکھتا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی گئی یارسول اللہ ﷺ تکبر کیا ہے ۔ ’’ آپ ﷺ نے فرمایا :تکبر یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے لیے اپنی گردن کو نہ جھکائے اور لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھے ۔یہ عادت متکبر اور اللہ تعالی کے درمیان بہت بڑا حجاب ہے ۔ اسی سے کئی برے اخلاق جنم لیتے ہیں ۔ تکبر تمام اچھے اخلاق سے انسان کو روک لیتا ہے ۔ جس پر خواجگی ، خود پسندی اور اپنی فضیلت غالب آ جائے وہ مسلمانوں کے لیے وہ چیز پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند نہیں کرتا ۔ 
یہ مومن کی صفت نہیں ہے ۔ وہ کسی سے عاجزی نہیں کرتا یہ متقین کی صفت نہیں وہ کینہ اور حسد سے ہاتھ نہیں روک سکتا ۔ اپنا غصہ پی نہیں سکتا اور اپنی زبان کو غیبت سے محفوظ نہیں رکھ سکتا اور دل کو مکرو فریب سے محفوظ نہیں رکھ سکتا ۔متکبر شخص ہر اس شخص کے لیے دل میں کینہ رکھتا ہے جو اس کی تعظیم نہیں کرتا ۔ تکبر کرنے والا ہر وقت اپنی تعریف میں مگن رہتا ہے ۔ کو ئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود کو فراموش نہ کر دے بلکہ دنیا کا سکون و راحت بھی نہ پائے ۔ ایک ولی کامل کا قول ہے ’’اگر جنت کی خوشبوسونگھنا چاہتے ہو تو خود کو سب سے کم تر سمجھو ۔ 

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 90-99 .کیا ہم زبان حال سے ہدایت خدا...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 87-89 . کیا ہم نے قرآن عظیم کو نظر ...

Shortvideo - seedhay rastay ki haqeeqat

اتوار، 28 جنوری، 2024

تکبر کے اسباب (۲)

 

تکبر کے اسباب (۲)

زہد اور عبادت تکبر کا دوسرا سبب ہے ۔ عابد ، زاہد اور صوفی بھی تکبر سے تہی نہیں ہوتے ۔ وہ خود کو لوگوں کی زیارت اور خدمت کے قابل سمجھتے ہیں اور وہ اپنی عبادت دوسروں پر احسان سمجھتے ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دوسروں کو ہلاک اور خود کو مرحوم و مغفور سمجھیں  اورکوئی انہیں ستائے اور وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے وہ اسے بھی اپنی کرامت سمجھیں ۔ یہی خیال کریں کہ اس پر یہ آفت انہی کی وجہ سے آئی ۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ کسی مسلمان کو خود سے کمتر یا حقیر سمجھنا ایک مکمل گنا ہ ہے ‘‘۔ اس کے اور اس شخص کے درمیان بہت فرق ہے جو اس سے برکت حاصل کرتا ہے اور اسے اپنے سے بہتر سمجھتا ہے اسے اللہ تعالی کے لیے محبت کرتا ہے ۔ جو خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے ممکن ہے کہ اللہ تعالی اس کادرجہ دوسرے لوگوں کو عطا کر دے اور اسے اس کی عبادت سے محروم کر دے۔
بنی اسرائیل میں ایک بہت عبادت گزار شخص تھا اور ایک شخص بہت زیادہ فاسق تھا ۔ عابد ایک جگہ مکین تھا اور بادل کا ایک ٹکڑا اس کے اوپر سایہ کیے ہوئے تھا۔ فاسق نے سوچا کہ میں اس عابد کے پاس جاتا ہوںاس کے پاس بیٹھتا ہو ں ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اس کی برکت سے مجھ پر رحم فرمائے اور میرے گناہ معاف کر دے۔جب فاسق اس عابد کے پاس پہنچا تو عابد نے خود سے کہا یہ تو سب سے زیادہ فاسق و فاجر ہے جو میرے دروازے پر بیٹھ گیا ہے اور میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہوں ۔ اس نے اس فاسق سے کہا کہ اٹھو یہاں سے چلے جائو ۔ فاسق وہاں سے اٹھ کر چلا گیا اور اب بادل کا ٹکڑا اس پر سایہ کیے ہو ا تھا ۔ اللہ تعالی نے اس وقت کے پیغمبر کی طرف وحی نازل فرمائی کہ ان دونوں سے کہیں اپنے اعمال کا دوبارہ سے آغازکریں ۔فاسق کے گناہ اس کی نیک خصلت کی وجہ سے معاف کر دیے ہیں اور عابد کے نیک اعمال اس کے تکبر کی وجہ سے بر باد کر دیے ہیں ۔ مومن تقوی کے راستے پر گامزن رہتا ہے مگر خوفزدہ رہتا ہے جبکہ احمق عابد ظاہراً عمل کرتا ہے دل میں تکبرکی ناپاکی رکھتا ہے مگر کوئی خوف نہیں رکھتا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس نے یہ خیال کیا کہ وہ دوسرے سے بہتر ہے اس نے اپنی جہا لت کی وجہ سے اپنی عبادت برباد کر لی ۔ کوئی معصیت جہالت سے بڑھ کر نہیں۔

ہفتہ، 27 جنوری، 2024

1789لا اِلَا اللہ کا معنی

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 85-86.کیا صرف انسان ہی مقصود کائنات ہے

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 80-84 Part-02 . کیا ہم نے تمام رسول...

تکبر کے اسباب (۱)

تکبر کے اسباب (۱)

علم تکبر کا پہلا سبب ہے جب عالم خود کو کمال سے آراستہ دیکھتا ہے تو دوسروں کو حیوانات کی طرح سمجھتا ہے۔تکبر کا اس پر غلبہ آجاتا ہے ۔ وہ لوگوں سے مراعات ، خدمت ، تعظیم اور تقدم کی تمنا کرتا ہے ۔ عالم اپنے علم کی وجہ سے مخلوق پر احسان جتلاتا ہے ۔ آخرت میں بھی خود کو ان سے بہتر سمجھتا ہے اور اپنے کام کی وجہ سے جنت کا زیادہ امید وار ہوتا ہے ۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : خود کو عظیم سمجھنا علما ء کی آفت ہے۔ایک عالم کو آخرت کے خطرات پیش نظر رکھنے چاہیے ۔ حقیقی علم وہ ہے جو اسے آخرت کے خطرات سے آگاہ کر دے اور صراط مستقیم کی باریکیوں سے واقفیت حاصل کر لے اور ہمیشہ خود کو تکبر سے دور رکھے ۔  عالم اپنی آخرت کے انجام اور اس کے خوف ہ ہراس کی وجہ سے تکبر کے قریب بھی نہ جا ئے گا۔
حضرت ابو دردا ء رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :’’ جتنا علم زیادہ ہوتا ہے اتنا درد فزوں ہوتا ہے ‘‘۔اگر علم زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ تکبر میں بھی اضافہ ہو جائے اس کا مطلب ہے کہ اس نے حقیقی علم ، علم دین نہیں سیکھا۔علم دین سے ہی انسان خود کو پہچان سکتا ہے یہ علم درد و سوز کو بڑھاتا ہے ۔ تکبر میں اضافہ نہیں کرتا ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہو سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرماہا ’’ ایک قوم قرآن پڑھے گی مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ وہ کہیں گے کون ہے جو ہم جیسا قرآن پڑھے ۔ کون ہے جو وہ سب کچھ جانتا ہو جس سے ہم آگاہ ہیں ‘‘پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضو ان اللہ علیہم اجمعین کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’ یہ یا تو تم میں سے ہی ہوں گے یا میری امت سے ہی ان کا تعلق ہو گا یہ سب دوزخ کا ایندھن ہوں گے ‘‘۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے’’ متکبرین علما ء میں سے نہ ہونا ورنہ تمہارا علم تمہاری جہالت سے وفا نہ کر سکے گا‘‘ ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تکبر سے بہت زیادہ ہراساںرہتے تھے ۔ 
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک دفعہ امامت کی ۔ پھر فرمایا ’’ کسی اور کو امام بنا لو ۔ میرے دل میں خیال آیا ہے کہ میں تم سے بہتر ہوں ۔‘‘ جب صحابہ کرام تکبر کے خیال سے اتنا خوفزدہ تھے تو دوسروں کو کیوں نہیں ڈرنا چاہیے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرما یا اے صحابہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں تمہارے اعمال کے دسویں حصے پرعمل کرنے والا بھی نجات پا لے گا ۔اس زمانہ میں کم عمل کرنے والے بہت ہیں ۔کیونکہ اب عمل صالح پر کوئی معاون نہیں ۔

 

جمعہ، 26 جنوری، 2024

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 80-84 Part-01 .کیا ہم سب راستہ بھٹک...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 78-79.کیا ہم اپنے اوپر بہت بڑا ظلم ...

Shortvideo - Kalma-e-tayyaba ka matlab

خواہشات نفس کی پیروی(۲)

 

 خواہشات نفس کی پیروی(۲) 

نفسانی خواہشات کی پیروی ہر بیماری اور تمام مصائب کی جڑ ہے۔ ہوا کے معنی پستی کی طرف اترنا ہے۔ جب انسان ہوائے نفس کی پیروی شروع کر دیتا ہے تو انتہائی گہرائیوں میں گرتا چلا جاتا ہے اور آخر کار یہ راستہ اسے جہنم میں لے جاتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : سب سے زیادہ خوفناک جوچیز ہے جس کے باعث میں اپنی امت کے لیے ڈرتا ہوں اور وہ نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا اور لمبی تمنا ہے۔ انسان اپنے ظاہری دشمنوں سے بچنے کی تدابیر بنا لیتا ہے لیکن اس کا باطنی دشمن اس کو اتنا نقصان پہنچا جاتا ہے کہ اسے خبر تک نہیں ہوتی۔ ظاہر ی دشمن تو صرف انسان کی جان کے دشمن ہوتے ہیں لیکن باطنی دشمن انسان کے ایمان تک کو برباد کر دیتا ہے جو جان سے بہت زیادہ قیمتی اور عزیز ہے۔ انسان کے باطنی دشمن دو ہیں ‘ایک شیطان اور دوسرا نفس امارہ۔شیطان سے تو لاحول پڑھنے سے پناہ مل جاتی ہے لیکن اندرونی دشمن نفس امارہ جو ہے وہ احساس تک نہیں ہونے دیتا۔ فرشتوں میں سب سے زیادہ برگزیدہ شخصیت عزازیل کی تھی۔لیکن اس کے نفس نے اسے عزازیل سے شیطان اور ابلیس بنا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کی صورت بنائی تو فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کو سجدہ کرو۔تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے۔ شیطان میں یہ تکبر اور غرور کس نے پیداکیا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کیوں کی۔ اس کی وجہ صرف اس کا اندرونی دشمن نفس تھا۔جس نے اس کے دل میں وسوسہ پیدا کیا۔ جس کی وجہ سے اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔
حدیث قدسی ہے کہ اپنے نفس کو دشمن رکھ کیونکہ وہ میری دشمنی میں کھڑا ہے۔ پس نفس کی مرادوں یعنی جاہ و عزت ، بلندی و تکبر وغیرہ کے حاصل کرنے کے ذریعے نفس کی تربیت کرنا حقیقت میں اس کو خدا تعالیٰ کی دشمنی میں مدد دینا اور تقویت دینا ہے، اس امر کی برائی کو اچھی طرح معلوم کر لینا چاہیے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں۔ پہلی خواہش نفس جس کی پیروی کی جائے دوسری بخل اور کنجوسی جس کی اطاعت کی جائے اور تیسری خود بینی اور یہ سب سے بری ہے۔ ( بہیقی)۔

جمعرات، 25 جنوری، 2024

Shortvideo - Bandagi kya hay?

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 72-77 .کیا ہم اپنی سرکشی میں اندھے ...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 67-71 .کیا ہم اپنے پیغمبر کی تعظیم ...

خواہشات نفس کی پیروی(۱)

 

خواہشات نفس کی پیروی(۱)

انسان نا سمجھی میں خواہشات نفس کی پیروی کرتا رہتا ہے اور اسے اس بات کا اندازہ تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا بڑا گناہ کر رہا ہے اور اس سے اللہ تعالی کی نا فرمانی ہو تی ہے ۔ سورۃ الجاثیہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :’’ بھلا دیکھو تو وہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا ٹھہرا لیا اور اللہ نے اسے با وصف علم کے گمراہ کیا اور اس کے کان اور دل پر مُہر لگا دی اوراس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا تو اللہ کے بعد اسے کون راہ دکھائے تو کیا تم دھیان نہیں کرتے‘‘۔
آیت مبارکہ میں خواہشات نفس کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی اس حد تک کرنے لگ جائے کہ اللہ تعالی کے احکام کو بھول جائے اور جو کام کرنے کو دل کرے اسے کر ڈالے بیشک اس کام کو اللہ نے حرام ہی کیوں نہ کہا ہو ۔ اور جس کام کو اس کا دل نہ چاہتا ہو اس کو نہ کرے بیشک اللہ تعالی نے اس کام کو فرض قرار دیا ہو ۔ جب انسان خواہش نفس کا اس حد تک فرمانبردار بن جاتا ہے کہ جدھر اس کا نفس کہے اس طرف چل پڑے اس کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اسے علم رکھنے کے باوجود گمراہی میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔ اور اس کے کانوں اور دل پر مہرلگا دی جاتی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں اوراللہ کے سوا کوئی بھی انہیں ہدایت نہیں دے سکتا ۔ لہذا ہمیں اس بات پر غور و فکر کرنا چا ہیے کہ انسان کے لیے اس سے زیادہ بد بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے نفس کی پیروی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی اسے ہدایت سے محروم کر دیتا ہے اور ان کے دلوں سے عرفان صداقت ختم کر دیتا ہے اور نور حق دیکھنے والی بینائی ختم کر دی جاتی ہے ۔ 
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسو ل خدا ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ زیر آسمان دنیا میں جتنے معبودوں کی عبادت کی گئی ہے ان میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے نزدیک ہوا ہے یعنی خواہش نفس ۔(طبرانی)
حضرت شدا د بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دانشمند وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور ما بعد الموت کے واسطے عمل کرے اور فاجر وہ ہے جو اپنے نفس کو اس کی خواہش کے پیچھے چھوڑ دے اور اس کے باوجود اللہ تعالی سے آخرت کی بھلائی کی توقع کرے ۔حضرت سہل بن عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمہاری بیماری تمہاری نفسانی خواہشات ہیں ۔ ہاں اگر تم ان کی مخالفت کرو تو یہ بیماری میں تمہاری دوا بھی ہے ۔

بدھ، 24 جنوری، 2024

Surah Al-Hijr سُوۡرَةُ الحِجر Ayt 65-66 Pt-2.کیا اللہ تعالی نے ہماری جڑ ...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 65-66 Part-01.کیا ہم نے اپنے رب کو ...

مجاہدہ نفس

 

مجاہدہ نفس

 لفظ جہاد اور مجاہدہ کسی مقصد کی تکمیل میں اپنی پوری طاقت صرف کرنے اور اس کے لیے مشقت برداشت کرنے کے معنوں میں آتا ہے ۔ اور اس میں پورا اخلاص اللہ کے لیے ہو اور نمود و نمائش بالکل بھی نہ ہو ۔ 
نفس امارہ جو ہر وقت انسان کو برائی کی طرف راغب کرتا ہے اور انسان کو اللہ تعالی کی نا فرمانی کے لیے پوری کوشش کرتا ہے ۔ 
ایک مرتبہ جنگ سے واپسی پر حضور نبی کریم ﷺ نے مجاہدین سے فرمایا : 
’’ خوش آمدید تم ایک چھوٹے جہادکی طرف سے بڑے جہا د کی طرف آ گئے ہو ۔ صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ وہ بڑا جہاد کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا بندے کا اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا ۔ 
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین سے دریافت کیا تم پہلوان کسے کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا جس کو لوگ بچھاڑ نہ سکیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں پہلوان وہ ہے جو غصے میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے ۔ 
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت ، طویل قراء ت کے ساتھ نماز کا ادا کرنا اور کلمہ طیبہ کی تکرار کرنا ان تین چیزوں میں سے ایک میں ضرور مشغول رہیں ۔ اور کلمہ لا سے اپنے نفس کی خواہشات کے معبودوں کی نفی کرنی چاہیے اور اپنی تمام مرادوں اور مقاصد کو دور کرنا چاہیے ۔ اپنی مراد کا دعوی کرنا اپنی الوہیت کا دعوی کرنا ہے سینہ کی وسعت میں کسی مراد کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اور کوئی ہوس قوت خیالیہ میں نہیں رہنی چاہیے  تا کہ بندگی کی حقیقت حاصل ہو جائے ۔ اپنی مراد کا طلب کرنا گویا اپنے مولی کی مراد کو دفع کرنا اور اپنے مالک کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اس امر میں اپنے موالیٰ کی نفی اور خود مولیٰ بننے کا اثبات ہے اس امر کی برائی اچھی طرح معلوم کر کے اپنی الوہیت کے دعوی کی نفی کرو تا کہ تمام ہوا و ہوس سے کامل طور پر پاک ہو جائو اور طلب مولیٰ کے سوا تمہاری کوئی مراد نہ رہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ’’ اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے ‘‘۔ اللہ تعالی اپنا قرب تلاش کرنے والے کی راہنمائی فرماتا ہے اور پھر اس کی خامیاں اور عیب اس پر واضح کر دیتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالی اپنے بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے نفس کے عیوب اس پر ظاہر کر دیتا ہے ۔

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 51-64 Pt-2.کیا ہم نے اپنے نبی کی دع...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 57 Part-01.کیا ہم ایک نافرمان قوم ہیں

منگل، 23 جنوری، 2024

معوذتین(۲)

 

معوذتین(۲)

جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے فوری حضرت علی ، حضرت عمار ابن یاسر اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہما کو کنویں کی طرف بھیجا انہوں نے پتھر کے نیچے سے وہ غلاف نکالا تو اس میں کنگھی کا ٹکڑا اور چندموئے مبارک جو تانت کے ایک ٹکڑے میں باندھے ہوئے تھے اور اس میں گیارہ گرہیں لگیں ہوئیں تھیں ۔ حضور ﷺ جب وہاں پہنچے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی تشریف لے آئے اور یہ دونوں سورتیں پڑھ کر سنائیں اور فرمایا کہ ایک ایک آیت پڑھتے جائیں اور ایک ایک گرہ کھولتے جائیں ۔
 آپ ﷺ ایک ایک آیت کی تلاوت کرتے گئے اورایک گرہ کھولتے گئے اور ایک سوئی نکالتے گئے ۔ جیسے ہی تما م گرہیں کھلیں تو آپ ﷺ کی طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی ۔ اور جادو کا سارا اثر ختم ہو گیا ۔صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ اگر آپ اجازت دیں تو اس یہودی کا سر قلم کر دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اللہ نے شفاء دی ہے میں اپنے لیے لوگوں میں فتنہ نہیں بھڑکانا چاہتا۔ان دونوں سورتوں کے بہت زیادہ فضائل و برکات ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ کے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہو جاتا تو آپﷺ معوذتین یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ کراس پر دم فرماتے۔( مسلم)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ نبی مکرم ﷺ جب کوئی تکلیف محسوس کرتے تو اپنے آپ پرمعوذتین کی تلاوت فرماتے اور دم کر لیتے اور جب زیادہ تکلیف میں ہوتے تو آپ پر یہی تلاوت میں کیا کرتی تھی اور ان دونوں سورتوں کی برکت کی امید رکھتے ہوئے آپ کے دست مبارک آپ کے جسم پر پھیر دیتی تھی ۔(بخاری)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہیں پناہ طلب کرنے والے جن چیزوں سے پناہ طلب کرتے ہیں ان میں سب سے افضل چیز نہ بتائوں ۔ میں نے عرض کی کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتائیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ہیں ۔(السنن الکبر ی للنسائی)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہر نماز کے بعد معوزتین پڑھ لیاکرو۔(سنن ابی دائود)
حضرت عقبہ بن عامر ؓ  فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے دو آیتیں نہیں دیکھیں جو آج کی رات نازل کی گئی ہیں ۔وہ ایسی آیتیں ہیں کہ ان جیسی آیتیں کبھی نہیں دیکھی گئیں وہ ’’قل اعوذ برب الفلق ‘‘ اور ’’قل اعو ذبرب الناس ‘‘ ہیں ( صحیح مسلم) 

Shortvideo - Ebdat-e-elahi hi akhir kyoon?

پیر، 22 جنوری، 2024

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 49-50 Part-02.کیا ہم خواب غفلت سے ج...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayt 49-50 Pt-1.کیا ہم عَذابِ اَلِیم سے غ...

معوذتین(۱)

 

 معوذتین(۱)

ترجمہ: تم فرمائو میں اس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اس کی سب مخلوق کے شر سے ۔ اوراندھیری ڈالنے والے کے شر سے جب وہ ڈوبے ۔ اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں ۔
اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔ (سورۃ الفلق)
ترجمہ: تم کہو میں اس کی پناہ میں آیا جو سب لوگوں کا رب ۔ سب لوگوں کا بادشاہ ۔ سب لوگوں کا خدا ۔ اس کے شر سے جو دل میں برے خطرے ڈالے اور دبک رہے ۔ وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتی ہیں ۔ جن اور آدمی ۔ ( سورۃ الناس ) 
یہ دونوں سورتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں اس کی وجہ یہ تھی کہ یثرب کے یہودی حضور ﷺ سے بلاوجہ عداوت اور حسد رکھتے تھے ۔ جیسے جیسے آپ ﷺ کی شان بلند ہوتی گئی اور آپ ﷺ کی فتوحات بڑھتی گئیں ویسے ویسے یہودیوں کی بھی آپ ﷺ کے ساتھ عداوت برھتی گئی ۔ جب حدیبیہ سے آپ ﷺخیر وعافیت کے ساتھ واپس آئے تو یہودیوں کا ایک وفد مدینہ کے ایک مشہور جادو گر لبید ابن اعصم کے پاس آیا ۔
 اس وفد نے اپنی ساری فریاد اس کو سنائی کہ آپ ﷺ نے آکر ہماری ساری عزت خاک میں ملا دی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بڑی سازشیں کیں ، مشرک قبائل کو ان کے خلاف بھڑکایا لیکن ناکام رہے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے ماہر جادو گر بھی ہار مان گئے ہیں ۔
 یہودیوں نے اس کو کافی مال دیا اور وہ ان کی بات مان گیا ۔ انہوں نے حضور ﷺ کی کنگھی کا ایک ٹکڑ ااور آپ ﷺ کے چند موئے مبارک ایک یہودی لڑکے کے ذریعے جو آپ ﷺ کی خدمت میں رہتا تھا حاصل کر لیے ۔ اس نے اور اس کی بیٹیوں نے جادو کیا اور ان چیزوں کو نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر بنی زریق کے ایک کنویں کی تہہ میں ایک بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا ۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد تھوڑا تھوڑا اس کا اثر محسوس ہونے لگا۔ آخری چالیس دن تو زیادہ تکلیف ہونے لگی اور آخری تین دن تو تکلیف انتہا کو پہنچ گئی ۔
 اما م جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کی طبیعت گھٹنے لگی نقاہت بڑھنے لگی لیکن بظاہر اس کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوتی۔جب تکلیف زیادہ بڑھی تو آپ ﷺ نے اللہ تعالی سے دعا کی تو اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو ساری حقیت حال سے آگاہ فرمایا کہ کس طرح ایک یہودی نے آپ ﷺ پر جادو کیا ہے ۔ 

اتوار، 21 جنوری، 2024

Shortvideo - Kya ebadat-e-elahi ki zarorat bilkul nahi hay?

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 43-48 .کیا ہم پکے جنتی ہیں

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 43-48 .کیا ہم پکے جنتی ہیں

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 42 .کیا ہم شیطان کے پیروکار ہیں

حضور ﷺ کی اشیاء سے برکت

 

حضور ﷺ کی اشیاء سے برکت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ سب سے پہلا بچہ جو دار السلام میں پیدا ہوا  وہ حضرت عبد اللہ بن زبیر ہیں ۔ انہیں حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں لایا گیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے ایک کھجور لے کر چبائی اور اسے حضرت عبد اللہ کے منہ میں رکھ دیا ۔ پس جو با برکت چیز حضرت عبد اللہ کے پیٹ میں سب سے پہلے گئی وہ حضور نبی کریم ﷺ کا مبارک لعاب دہن تھا ۔ (بخاری شریف) 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ مریض کے لیے فرمایا کرتے تھے : اللہ تعالی کے نام سے شفاء طلب کر رہا ہو ں ، ہماری زمین کی مٹی (یعنی شہر مدینہ کی مٹی کی برکت سے) اور ہم میں سے بعض کے ( یعنی خود میرے ہی) لعاب دہن کی برکت سے اللہ تعالی کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا مل جاتی ہے ۔ (متفق علیہ)
حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ تعالی سے روایت ہے یہ وہی بزرگ ہیں کہ جب یہ بچے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے کنویں کے پانی سے ان کے چہرے پر کلی فرمائی تھی اور عروہ نے حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسروں سے روایت کی جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی تصدیق کرتا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ جب وضو فرماتے تو قریب ہوتا کہ لوگ برکت کے حصول کے لیے اس وضو کے پانی پر آپس میں لڑ پڑیں ۔ 
حضرت یزید بن ابی عبید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ کی پنڈلی پر زخم کا ایک نشان دیکھا تو دریافت کیا اے ابو مسلم یہ نشان کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : یہ زخم مجھے غزوہ خیبر میں لگا تھا ۔ لوگ کہنے لگے سلمہ زخمی ہو گئے تو میں حضور  ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو گیا ۔ آپ ﷺ نے اس پر تین مرتبہ پھونک مار کر دم کیا ، چنانچہ اس کے بعد مجھے آج تک اس ٹانگ میں کبھی تکلیف محسوس نہیں ہوئی ۔(بخاری) 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ اپنی والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺجب ان کے گھر تشریف لاتے تو وہاں قیلولہ فرماتے تھے ۔ وہ آپ ﷺ کے لیے چمڑے کا گدا بچھا دیتی تھیں ۔آپ ﷺ کو جب پسینہ مبارک آتا تو وہ آپ ﷺ کے پسینہ مبارک کو جمع کر کے خوشبو والی بوتل میں ڈال لیتیں ۔آپ ﷺ نے پوچھا اے ام سلیم یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ یہ آپ کا پسینہ مبارک اسے میں خوشبو میں ملا دیتی ہوں تا کہ خوشبو بھی زیادہ آئے اور برکت بھی ہو ۔ (امام مسلم)

Shortvideo - Yaqeen ki zaroorat

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 36-42.کیا ہم شیطان کے بہکاوے میں آ ...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 30-35 Part-02.اس وقت کیا ہم اللہ تع...

ہفتہ، 20 جنوری، 2024

حضور ﷺ کے آثار مبارکہ کی برکت

 

حضور ﷺ کے آثار مبارکہ کی برکت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا تو اس وقت میرے گھر میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے کوئی جاندار کھا سکتا ، مگر آپ ﷺ کے چھوڑے ہوئے کچھ جُو تھے جنہیں میں نے ایک الماری میں ڈال رکھا تھا ۔ ایک طویل مدت تک میں ان میں سے ہی کھاتی رہی تھی مگر آپ ﷺکی برکت کبھی ختم نہ ہوئی ۔ پھر ایک روز میں نے انہیں ماپ لیا تو وہ ختم ہو گئے ۔ ( متفق علیہ ) 
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ام مالک رضی اللہ تعالی عنہا حضور  ﷺ کی خدمت میں ایک چمڑے کے برتن میں گھی بھیجا کرتی تھیں ۔ ان کے بیٹے آکر ان سے سالن مانگتے اور ان کے پا س کوئی چیز نہیں ہوتی تھی تو جس برتن میں وہ حضور  ﷺ کے پاس گھی بھیجا کرتی تھیں اس کا رخ کرتیں تو اس میں انہیں گھی مل جاتا ۔ کافی عرصہ تک ان کے گھر سالن کا مسئلہ اسی طرح حل ہوتا رہا یہاں تک کہ ایک دن انہوںنے اس برتن کو نچوڑ لیا تو اس میں سے گھی ختم ہو گیا ۔پھر وہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اورساری بات عرض کی ۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم نے چمڑے کے برتن کو نچوڑ دیا تھا ؟ انہوں نے عرض کی جی ہاںیارسول اللہ ﷺ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم اس کو ایسے ہی رہنے دیتی تو ہمیشہ اس میں سے گھی ملتا رہتا۔( مسلم)
عروہ بن مسعود قبول اسلام سے پہلے جب بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں کفار کے وکیل بن کر آئے تو صحابہ کرام کا بغور مشاہدہ کرتے رہے ۔ راوی بیان کرتے ہیں جب بھی آپ ﷺ اپنا لعاب دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ۔ جب آپ ﷺ کسی بات کاحکم دیتے تو فوری اس کی تعمیل کرتے ۔ جب آپ ﷺ وضو کرتے تو آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ۔ جب آپ ﷺ کوئی بات کرتے تو صحابہ ادب کے ساتھ اپنی آوازوں کو پست کر لیتے اور تعظیم کی وجہ سے آپ کی طرف نظریں جما کر نہیں دیکھا کرتے تھے ۔اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوںکی طرف لوٹ گئے اور کہا اے قوم !اللہ کی قسم میں بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں ۔ میں قیصروکسری ٰ  اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے دربار میں گیاہوں ۔لیکن خدا کی قسم ! میں نے کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا جس کے درباری اس کی تعظیم اس طرح کرتے ہوں جیسے آپ ﷺ کے صحابہ آپ ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں (بخاری )

Shortvideo - Aazmaish imtehaan kyoon aur kaisay?

جمعہ، 19 جنوری، 2024

ولایت(۳)

 

 ولایت(۳)

انہیں طبعی آفات سے پاک اور نفس کی پیروی سے بلند کر دیا ہے ۔ اب ان کی ہمتیں اور ارادے سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کچھ نہیں ۔ یہ اللہ کے بندے پہلے بھی موجود تھے اب بھی ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گے ۔ حضرت ابو علی جر جانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولی وہ ہے جو اپنے حال سے فانی اور مشاہدہ حق میں باقی ہو ، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذات کی کوئی بات کرے ۔ یا پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے آرام و سکون پائے ۔ 
حضرت ابو یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ولی کون ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ولی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے امر ونہی پر قائم رہے ۔ اس لیے کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہوگی اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی عظمت بھی زیادہ ہوگی ۔
حضرت ابو سعید کی خدمت میں ایک شخص آیا اس نے مسجد میں پہلے بایاں پائوں رکھا ۔آپ نے فرمایا اسے واپس بھیج دو جو محبوب کے گھر میں داخل ہونے کے اداب نہیں جا نتا وہ ہمارے کس کام کا۔
حضرت ابو یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے کسی نے بتایا کہ فلاں شہر میں اللہ کا ولی موجود ہے ۔ میں بھی اس کی زیارت کے لیے روانہ ہوا اس کی مسجد میں پہنچا تو وہ بھی گھر سے مسجد میں آیا اور آتے ہی اس نے مسجد میں تھوک دیا ۔میں وہی سے بغیر سلام و کلام کے واپس ہو گیا اور کہا کہ ولی کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی پابندی کرے تا کہ اللہ تعالیٰ اس کی ولایت کی حفا ظت کرے اگر یہ شخص اللہ کا ولی ہوتا تو مسجد میں نہ تھوکتا ۔ مسجد کی عز ت و حرمت کا خیال کرتا یا اللہ تعالی اسے اس بات سے محفوظ رکھتا ۔ 
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا تم ولی اللہ بننا چاہتے ہو اس نے کہا  ہاں ۔آپ نے فرمایا: دنیا و آخرت کی رغبت چھوڑ دے اس لیے کہ دنیا کی رغبت ایک فانی چیز کی خاطر خدا تعالیٰ سے روگردانی کرنا ہے اور آخرت کی رغبت ایک باقی رہنے والی چیز کی خاطر اللہ تعالی سے رو گردانی کرنا ہے ۔اگر فانی چیز سے اعراض ہے تو فانی کے فنا ہونے کے ساتھ یہ اعراض بھی باقی نہیں رہے گا ۔لیکن اگر باقی رہنے والی چیز سے اعراض ہے تو اس پر فنا نہیں ہو گی ۔ لہٰذا اپنے آپ کو دونوں جہانوں سے فارغ کر کے اللہ تعالی کی دوستی کے لیے تیار کرو اوردنیا و آخرت کو اپنے دل میں راہ نہ دو اور خدا کی طرف دلی توجہ کرو ۔ تیرے اندر یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تو ولایت دور نہیں ۔

Surah Al-Hijr Ayat 32-37 Part-01.کیا ہم اللہ تعالی کو مقصود حیات بنانے ک...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 26-31 Part-02.انسان کیسے کامیاب ہو ...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 26-31 Part-01. انسان کی حقیقت/ منزل

جمعرات، 18 جنوری، 2024

Shortvideo - Humain wada-e-alast kyoon bhool gya hay?

ولایت(۲)

 

ولایت(۲)

 یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کو اطاعت پر قائم ہو جانے کی وجہ سے ولایت عطا فرما دے ۔ پھر اسے اپنی حفاظت و عصمت کی پناہ میں لے لے یہاں تک کہ وہ اس کی اطاعت پر مستقل کا ر بند ہو جائے اور مخالفت الٰہی سے پر ہیز کرے اور شیطان اس کے حواس سے دور بھاگ جائے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی کو ولایت کے اس منصب پر فائز کر دے کہ وہ ملک الٰہی کے سیاہ و سفید کا مالک ہو اس کی دعائیں مستجاب اور اس کے انفاس مقبول ہوں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بہت سے ایسے گرد آلودکپڑوںاور بکھرے ہوئے بالوں والے لوگ ہیں جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اگر وہ کسی معاملے میں اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ ان کی
قسم ضرور پوری کرتا ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں دریائے نیل حس عادت خشک ہو گیا ۔ زمانہ جاہلیت میں ہر سال ایک خوبصورت لڑکی اس میں ڈالتے پھر پانی جاری ہوتا ۔ حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کاغذ پر ایک تحریر لکھی :’’ اے پانی ! اگر تو خود بخود خشک ہوگیا ہے تو خشک رہ لیکن اگر تو اللہ کے حکم سے ٹھہر گیا ہے تو تجھے عمر کہتا ہے کہ تو جاری ہو جا ‘‘ ۔جس وقت آپ کا یہ رقعہ پانی میں ڈالا گیا تو پانی فوری جاری ہو گیا ۔ یہ امارت حقیقی امارت تھیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم ‘‘۔( سورۃ یونس)
سورۃ حم سجدہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ’’ ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں ‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اللہ مدد گار ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے ‘‘۔ ( سورۃ البقرۃ ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ کے بندوں میں کچھ بندے ایسے ہیں جن پر انبیاء اور شہدا ء رشک کرتے ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہیں ہمیں ان کے اوصاف بتائیں تا کہ ہم بھی ان سے محبت کریں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو مال و محنت کی بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے محبت رکھتے ہیں ان کے چہرے منور ہیں اور وہ خود نور کے منبروں پر جلوہ فگن ہیں جب لوگ خوف زدہ ہوں گے انہیں کوئی خوف نہیں ہو گا اور جب مخلوق غمگین ہو گی انہیں کوئی غم نہیں ہو گا ۔اللہ تعالیٰ کے ولی وہ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنی دوستی اور ولایت سے مخصوص کیا ہے وہ اس کے قلمرو کے مالک ہیں ۔ اس لیے کہ انہیں اس نے منتخب کر کے اپنے فعل کے ظہور کا مظہر بنایا ہے اور انہیں بہت سے فضائل وکرامات سے نوازا ہے ۔ 

ولایت(۱)

 

ولایت(۱)

 ولایت ’’و‘‘ کی زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو لغت میں تصرف کرنے اور نصرت کے معنی میں آتا ہے اور اگر’’و‘‘ کی زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو امارت کے معنی میں آتا ہے یہ دونوں فعل ولیت کے مصدر ہیں اس صورت میں یہ ولایت  دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور ولایت ربوبیت کے معنی میں بھی آتا ہے ارشاد باری تعالی ہے :’’ یہاں کھلتا ہے کہ اختیار سچے اللہ کا ہے ‘‘۔( سورۃ الکہف) 
یعنی قیامت کے دن کافر اسی کے ساتھ دوستی اور تعلق کا اظہار کریں گے اور اسی سے گرویدہ ہو کر اپنے معبودوں سے برات کا اظہار کریں گے ۔ اور ولایت محبت کے معنی میں بھی آتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ولی فعیل کے وزن پر بمعنی مفعول ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ وہ نیکوں کو دوست رکھتا ہے ‘‘۔ (سورۃ الاعراف)
اس لیے کہ اللہ تعالی نے بندے کو اس کے افعال و اوصاف کے رحم و کرم پرنہیں چھوڑا بلکہ اسے اپنی حفاظت کی پناہ میں رکھتا ہے ۔ اور ولی فعیل کے وزن پر فاعل کے معنی میں مبالغہ کا صیغہ ہو ، کیونکہ بندہ اس کی اطاعت کو دوست رکھتاہے اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں مداومت کرتا ہے ۔ اور اس کے غیر سے اعراض کرتا ہے ۔ لہذا پہلا جوبمعنی مفعول ہے مرید ہو گا اور دوسرا جو بمعنی فاعل ہے مراد ہو گا ۔ یہ تمام معانی اللہ تعالی سے بندے اور بندے سے اللہ تعالی کے لیے جائز ہیں ۔ اللہ تعالی اپنے دوستوں کا مدد گار اور ناصر ہے اور اللہ تعالی نے اپنے دوستوں کے ساتھ اس کا وعدہ کیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے ‘‘۔( سورۃ البقرۃ)۔ ’’ اور کافروں کا کوئی مولی نہیں ۔ ( سورۃ محمد) 
جب کفار کا کوئی مدد گار اور ناصر نہیں تو اللہ تعالی لامحالہ مومنوں کا مدد گار اور ناصر ہے جو ان کی نصرت کرتا ہے، کہ ان کے عقل و ادراک ، آیات و علامات قدرت سے استدلال کرتے ہیں ۔ ان کے قلوب پر حقائق کا نزول ہوتا ہے اوران کے باطن پر براہین و آیات اپنی نقاب کشائی کرتی ہیں ۔اور نفس اور اس کی خواہشات کی مخالفت پر بھی ان کی مددکرتا ہے ۔ شیطان کی موافقت اور نفس کی پیروی سے بھی ان کی حفاظت کرتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ انہیں اپنی دوستی کے لیے مخصوص فرما کر عداوت کی جگہ سے انہیں محفوظ رکھے ۔سورۃ المائدہ میں ارشاد باری تعالی ہے :’’ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا ‘‘ یعنی اس کو اس کی دوستی کی وجہ سے محبوب رکھتے ہیں اور وہ مخلوق سے منہ پھیر لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ ان کا دوست ہوجاتا ہے اور یہ اس کے دوست بن جاتے ہیں ۔

Shortvideo - Kya hum faasiq qaum hain?

منگل، 16 جنوری، 2024

سورۃ الکوثر

 

سورۃ الکوثر

ترجمہ :’اے محبوب ہم نے تمھیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ۔ تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔بے شک جو تمھارا دشمن ہے وہ ہی ہر خیر سے محروم ہے ‘۔
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محبوب، ہم نے تمھیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں اور کثیر فضائل عنایت کر کے تمھیں تمام مخلوق پر افضل کیا ، آپﷺ کو حسن ظاہر بھی دیا اور حسن باطن بھی عطا کیا ، شفاعت بھی ، حوض کوثر بھی ، مقام محمودبھی،امت کی کثرت بھی ، دین کے دشمنوں پر غلبہ بھی ، فتوحات کی کثرت بھی اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا کیں جن کی انتہا نہیں ۔ 
حضور نبی کریمﷺ فرماتے ہیں جب میں معراج کی رات جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک نہر دیکھی اس کے دونوں کناروں پر موتیوں کے خیمے نصب تھے ۔ میں نے جب اس کے پانی میں ہاتھ مارا تو اس سے خالص کستوری کی مہک اٹھنے لگی ۔ اس کے بارے میں جب میں جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا یہ نہر کوثر ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا فر مائی ہے ۔
’تم اپنے رب کی نماز پڑھو اور قربانی دو‘ یعنی اے محبوبﷺ اللہ تعالی نے آپﷺ کو دونوں جہانوں کی بے شمارخوبیاں عطا فرمائیں ہیں اور آپ کو وہ خاص رتبہ عطا کیا ہے جو آپ سے پہلے کسی اور کو عطا نہیں کیا ، تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھتے رہیں جس نے آپﷺ کو کوثر عطا کر کے عز ت و شرافت دی تا کہ بتوں کی پوجا کر نے والے ذلیل ہوں اور بتوں کے ناموں کی قربانیاں کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے رب کے لیے اور اس کے نام پر قربانی کریں ۔’بے شک جو تمھارا دشمن ہے وہ ہی ہر خیر سے محروم ہے‘۔ جب حضور نبی کریمﷺ کے شہزادے حضرت قاسمؓ کا وصال ہو ا تو کفار نے آپﷺ کو ابتر کہا یعنی نسل ختم ہو جانے والا کہا اور یہ کہا کہ اب آپﷺ کی نسل نہیں رہی اوراب آپﷺ کا ذکر بھی نہیں رہے گا ۔
جب کفار نے یہ بات کہی تو اللہ تبارک وتعالی نے یہ سورہ نازل فرمائی ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اے محبو بﷺآپ کے دشمن ہی ہر بھلائی سے محروم ہیں اور آپﷺ کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ آپﷺ کی اولاد کی بھی کثرت ہو گی اور آپﷺ کی پیروی کرنے والے اس دنیا کے کونے کونے میں ہوں گے اور سب سے زیادہ ہوں گے ۔ اے محبوب، اللہ تعالی نے آپﷺ کا ذکر قیامت تک کے لیے بلند کر دیا ہے اور آخرت میں آپﷺ کو وہ کچھ ملے گا جس کا کو وصف ہی بیان نہیں کر سکتا ۔

پیر، 15 جنوری، 2024

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 23-25.آج دین اسلام کا سب سے بڑا مجر...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 22.کیا ہم اللہ تعالی سے رابطہ جوڑنا...

Shortvideo - Insaan akhir kaisay apna rukh Allah TAllah ki taraf kar sak...

حضرت سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ

 

 حضرت سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے غلام تھے ۔ ایک دن حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت سفینہ ؓ سے کہا کہ میں آپ کو اس شرط پر آزاد کروںگی کہ جب تک آپ زندہ ہیں تب تک حضورنبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرینگے۔حضرت سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ اس شرط کی ضرورت نہیں میں جبتک زندہ ہوں حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت کروں گا اور آپ ﷺ سے کبھی جدا نہیں ہوں گا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مجھے آزاد کر دیا اورحضور نبی کریم ﷺ کی خدمت کی شرط مجھ پر لگا دی۔ ( مشکوۃ شریف)
رحمت دو عالم ﷺ نے کچھ عرصہ بعد حضرت سفینہ کو بغیر کسی شرط کے آزاد کر دیا لیکن آپ نے آزادی کے بعد بھی ساری زندگی آپ ﷺ کی خدمت کا شرف حاصل کیا۔
ایک مرتبہ سرکار دو عالم ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ سفر پر تھے کہ جب کو ئی صحابی تھک جاتا تو اپناسامان میرے اوپر رکھ دیتا اس طرح میرے اوپر کافی سامان جمع ہو گیا ۔حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں اس حالت میں دیکھاتو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سفینہ ہو ۔ سفینہ کشتی کو کہتے ہیں اس طرح آپ کا یہ نام مشہور ہو گیا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل نام کوئی اور تھا بعض آپ کا نام مہران ، بعض رومان اور بعض عبس لکھتے ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سفینہ سے کسی نے ان کے نام کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا میرا یہ نام حضور نبی کریم ﷺ نے رکھا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سرکار دو عالم ﷺ کے ساتھ سفرپرجا رہے تھے ۔ تو صحابہ کرام پر اپنا سامان بھاری پڑ رہا تھا اور اسے اٹھانے میں مشکل آ رہی تھی ۔ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تم اپنا کمبل بچھائو ۔ میں نے اپنا کمبل بچھا دیا ۔ آپ ﷺ نے سب صحابہ کرام کا سامان اس پر رکھ دیا اور پھر مجھے اس سامان کو اٹھا نے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم سفینہ ہو ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس روز مجھ پر ایک ، دو یا پانچ یا چھ اونٹوں کا بوجھ بھی رکھ دیا جاتا تو مجھے اسے اٹھانے میں بالکل بھی مشکل نہ آتی ۔
 حضرت سفینہ ؓ  کو اپنا یہ لقب اتنا پسند اور محبوب تھا کہ آپ نے اپنا اصل نام ترک کر دیا تھا ۔ اور کوئی آپ سے اصل نام کے بارے میں پوچھتا تو آپ فرماتے کہ میں نہیں بتائو ںگا ۔ آپ فرماتے کہ حضور  ﷺ نے میرا نام سفینہ رکھا ہے اور مجھے اس کے علاوہ کوئی نام نہیں پسند ۔

اتوار، 14 جنوری، 2024

Shortvideo - Zindagi kay imtehan main kamyabi magar kaisay?

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر)Ayat 20-21.کیا ہم اللہ تعالی کو عملی طور ...

Surah Al-Hijr Ayat 19 part-02.کیا ہم عملی طور پر اللہ تعالی کو اپنا رب ...

حضرت ہرم بن حیان رحمۃاللہ علیہ

 

  حضرت ہرم بن حیان رحمۃاللہ علیہ

حضرت ہرم بن حیان رحمۃ اللہ علیہ کا شمار مشائخ طریقت میں ہوتا ہے آپ صاحب حال تھے۔ آپ کو اکابر صحابہ کرام کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہو ا اور ان کی صحبت میں رہے۔ حضرت ہرم بن حیان رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کی زیارت کے ارادے سے قرن تشریف لائے مگر حضرت سیدنا اویس قرنیؓ وہاں سے جا چکے تھے۔ واپس مکہ مکرمہ پہنچے تو پتہ چلا کہ حضرت اویس قرنی ؓ کوفہ میں ہیں حضرت ہرم بن حیان کوفہ پہنچے مگرحضرت اویس قرنی ؓ سے ملاقات نہ ہو سکی۔
 کافی عرصہ وہاں مقیم رہے۔ جب کوفہ سے بصرے کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کی زیارت نصیب ہوئی۔ دیکھا کہ آپ فرات کے کنارے وضو کر رہے ہیں اور آپ نے گدڑی پہن رکھی ہے ۔جب آپ وضو کرکے اٹھے تو ریش مبارک میں کنگھی کرنے لگے۔ حضرت ہرم نے آگے بڑھ کر سلام کیا ۔
حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا وعلیکم السلام اے ہرم بن حیان! حضرت ہرم  نے پوچھا آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا کہ میں ہرم بن حیان ہوں۔ حضرت سیدنا اویس قرنی ؓ نے کہا میری روح نے تیری روح کی شناخت کر لی ہے۔ حضرت ہرم بن حیان تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھے پھر انہیں واپس کر دیا ۔
حضرت اویس قرنی ؓ نے فرمایا کہ مجھے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور نبی کریم ﷺکی ایک حدیث سنائی۔ ’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی، جس شخص کی ہجرت اللہ اور اسکے رسول کی خاطر ہے تو اس کی ہجرت انہیں کے لیے ہی ہے۔
حضرت ہرم بن حیان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے فرمایا: ’’اپنے دل کی حفاظت کرو‘‘۔
 اس بات کے دو مفہوم ہیں ایک یہ کہ دل کو مجاہدے کے ذریعے حق کے تابع بنائو اور دوسری یہ کہ مشاہد ے کے ذریعے خود کو دل کے تابع رکھو۔ اور دونوں اہم اصول ہیں دل کو حق کے تابع کرنا مریدوں کا کام ہے تاکہ اسکے ذریعے شہوت کے غلبے، ہوا و ہوس کی موافقت اور غلط قسم کے خیالات سے اس طرح اپنی جان چھڑالیں کہ سوائے حق تعالی کی یاد کے ان کے خیال میں کچھ باقی نہ رہے۔ اور خود کو دل کے تابع کرنا کاملوں کا کام ہے کیونکہ ان کے دل اللہ تعالی نے اپنے نور جمال سے منور کر رکھے ہوں اور وہ تمام اسباب اور تعلقات سے کٹ چکے ہوں ۔

ہفتہ، 13 جنوری، 2024

Shortvideo - Zindagi ki haqeeqat

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 19 part-01.ہمیں کیا کرنا چاہیے

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 16-18.کیا ہم نے اپنے مقصد تخلیق کے ...

سورۃ العصر

 

سورۃ العصر

ترجمہ’’:زمانہ کی قسم ۔ بیشک ہر انسان ضرور نقصان میں ہے ۔ سوا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور انہوں نے ایک دوسرے کو دین حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی ‘‘۔
 امام طبرانی اپنی سند کے ساتھ حضرت عبیداللہ بن حفص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے جب بھی کوئی دو صحابی آپس میں ملتے اور ملاقات کرنے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے دونوںاس سورت کی تلاوت کر کے ایک دوسرے کو سناتے اور پھر سلام کر کے جدا ہو جاتے ۔ ( المعجم الاوسط)
اس سورۃ کی آیت نمبر دو اور تین کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قسم اٹھا کر یہ ارشاد فرمایا کہ آدمی ضرور نقصان میں ہے کیونکہ کہ انسان کی عمر جو اس کا سرمایہ اور اصل پونجی ہے وہ کم ہو رہی ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو اچھے کام کرنے کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو ان تکلیفوں اور مشکلات میں صبر کرنے کی نصیحت کی جو دین کی راہ میں پیش آتی ہیں تو یہ لوگ اللہ تعالی کے فضل سے خسارے میں نہیں ہیں کیونکہ کہ انہوں نے اپنی ساری عمر نیکی اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزاری ۔ 
سورۃ فاطر میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امید وارہیں جو کبھی تباہ نہیں ہو گی ۔ انسان کی زندگی اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور انسان اس سرمائے سے صرف اسی صورت میں فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری میں گزارے۔
 اگر انسان اپنی زندگی اللہ تعالی کی نافرمانی اور گناہوں میں خرچ کرتا ہے تو اس سے اسے کوئی نفع حاصل نہیں ہو گا۔دوسری بات یہ کہ انسان کی زندگی کا جو حصہ اللہ تعالی کی عبادت اور اس کے احکامات کے مطابق گزارے گا وہ ہی سب سے بہتر ہے ۔  دنیا سے بے رغبتی کرنا اور آخرت کی طلب میں اور اس سے محبت کرنے میں مشغول ہونا انسان کے لیے سعادت کا باعث ہے ۔
اللہ تعالی سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے :’’ اور جو آخرت چاہتا ہے اس کے لیے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی ۔ 

جمعہ، 12 جنوری، 2024

Shortvideo - Zindagi kya hay?

Surah Al-Hijr Ayat 10-15.کیا ہم نے اللہ تعالی کے حکم کے سامنے سر جھکانے ...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 06-10.کیا ہم اپنی زندگی میں خیانت ک...

نماز چھوڑنے پر وعید

 

 نماز چھوڑنے پر وعید

نماز اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک اہم ترین ستون ہے جو ایک مومن کو کافر سے ممتاز کرتاہے ۔ قرآن و حدیث میں جہاں نماز پڑھنے کا حکم اور اس کے اجرو ثواب کاذکر کیا گیا ہے وہیں نماز ترک کرنے پر بڑی سخت وعید کی گئی ہے ۔جب اہل دوزخ سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں دوزخ میں کون سی چیز لے آئی ۔’’وہ کہیں گے ہم نماز نہ پڑھتے تھے ۔ ہم محتاجوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ۔ اور بے ہودہ مشاغل والوں کے ساتھ ہم بھی بے ہودہ مشاغل میں پڑے رہتے تھے ۔ ‘‘۔ ( سورۃ المدثر ) ۔
 سورۃ الماعون میں ارشاد باری تعالی ہے ’’ تو ان نمازیوں کے لیے خرابی ہے ۔ جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں ۔ وہ جو دکھاوا کرتے ہیں ۔
 اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے ان کو روز محشر ذلت و رسوائی سے دوچار ہو نا پڑے گا ۔ ارشادباری تعالی ہے : ’’جس دن ایک ساق کھولی جائے گی اور جب (لوگوں) کو سجدہ کے لیے بلایا جائے گا تو وہ سجدہ نہ کر سکیں گے۔نیچی نگاہیں کیے ہوئے ان پر خواری چڑھ رہی ہو گی اور بیشک دنیا میں سجدہ کے لیے بلائے جاتے تھے جب تندرست تھے۔  (سورۃ القلم)
احادیث مبارکہ میں بھی نماز ترک کرنے والوں کو بڑی سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ حضرت جابر بن عبدا للہ رضی اللہ تعالی عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : انسان اور اس کے کفرو شرک کے درمیان نماز نہ پڑھنے کا فرق ہے ۔( مسلم شریف)
حضرت ابودردا رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی: کوئی فرض نماز جان بوجھ کر ترک نہ کرنا پس جس نے ارادۃًنماز چھوڑی اس نے کفر کیا اور اس سے (اللہ) بری الذمہ ہو گیا ۔ ( ابن ماجہ ) 
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے نماز کی حفاظت کی اس کے لیے روز قیامت نور روشن دلیل اور نجات ہو گی اور جس نے نماز کی حفاظت نہ کی اس کے لیے نہ نور ہو گا اور نہ ہی دلیل اور نجات اورقیامت کے دن وہ قارون ، فرعون ، ہامان اور ابی بن حلف کے ساتھ ہو گا ۔ ( احمد بن حنبل) 
حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں وہ دنیا میں بے نماز ی کو ملنے والی سزائوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ ۱: ایسے شخص کو صالح نہیں کہا جاتا ۔ ۲: اس کی زندگی سے برکت اٹھا لی جاتی ہے ۔ ۳: اس کی روزی میں برکت نہیں ہوتی ۔ ۴: اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی ۔ ۵: اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ ۶: نیک لوگوں کی دعائوں میں اس کے لیے حصہ نہیں ہوتا ۔ 

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 04-05.کیا ہم اپنی زندگی کے مقصد میں...

Surah Al-Hijr Ayat 01-03 Part-03.کیا ہم سے اللہ تعالی حق سے روگردانی ک...

Shortvideo - Zahir ka faida

جمعرات، 11 جنوری، 2024

نماز میں دل لگانے کا طریقہ

 

 نماز میں دل لگانے کا طریقہ 

جب بندہ نماز میں داخل ہوتا ہے تو ایسے وسوسے اور خیال آنا شروع ہو جاتے ہیں جن سے توجہ نماز سے ہٹ جاتی ہے اور نماز میں یکسوئی نصیب نہیں ہوتی ۔ امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نما ز میں دل لگانے ، شیطانی وسوسوں سے بچنے ، خشوع خضوع برقرار رکھنے اور حضور قلبی حاصل کرنے کے لیے درج ذیل تدابیر بیان کرتے ہیں ۔ ۱: جیسے ہی انسان اذان کی آواز سنے تو دل میں تصور کرے کہ مجھے میرے خالق و مالک کی بارگاہ اقدس میں حاضری کا بلاوا آیا ہے اور اب میں اس ہر کام پر اس حاضری کو ترجیح دوں گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی لوگ ہیں جنہیں تجارت اور خریدو فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے‘‘۔ (سورۃ النور) ۔
سورۃ الجمعہ میں ارشاد باری تعالی ہے : ’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فورا ً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت ترک کر دو‘‘۔ ۱:خشوع خضوع کے لیے ضروری ہے کہ مئوذن کی صدا سننے کے بعد نماز کے سوا کوئی بھی کام دل کو بھلا نہ لگے ۔ دل بار بار اپنے خالق و مالک کی طرف متوجہ ہو اور خوش ہو کہ مالک نے اسے بلایا ہے اور میں حاضر ہو کر اسے اپنی تمام مناجات عرض کرو ں گا ۔اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا ۔ شوق اور محبت کے ساتھ قیام ، رکوع اور سجود کے ذریعے سے دلی سکون حاصل کرو ں گا ۔ اور اپنے تمام غموں اور صدمات ہجر و فراق کا ازالہ کروں ۔ میں اپنے مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونے کے لیے طہارت کروں گا ، اچھے کپڑے پہنوں گا اور خوشبو لگائوں گا ۔ 
۲: نماز میں دل لگانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ نماز کے معانی و مفہوم انسان کو یاد ہو۔جیسے ہی نماز شروع کرے تو اس کا دل ان معانی کی طرف مائل ہو جائے ۔ مثلا جیسے ہی لفظ ’’ سبحان ‘‘ ادا کرے تو خدا کی بڑائی ، پاکیزگی اور تقدس کاتصور دل و دماغ میں ٹھہر جائے اور نما زی پر یہ خٰیال حاوی ہو جائے کہ وہ سب سے بڑے باد شاہ کے دربار میں حاضرہے جو ہر عیب اور نقص سے اس طرح پاک ہے کہ اس سے زیادہ پاکیزگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ 
۳:جب اللہ تعالی کی کبریائی کا ذکر آئے تو آسما ن اور زمین میں موجود کائنات کی ہر شے سے اسے بڑا جانے اور ساری مخلوق کواس کی عظمت کے آگے حقیر جانے ۔ 
۴: نماز شروع کرنے سے پہلے نمازی کا دل باقی تما م چیزوں سے بیگانہ ہو کر اپنے رب کی طرف مائل ہو جائے ۔

Shortvideo - Kya Quran ka tarjuma aur iss ko samajhna aik jaisa hay?

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 01-03 Part-02.کیا ہم احکامات الہی ...

Surah Al-Hijr (سُوۡرَةُ الحِجر) Ayat 01-03 Part-1. کیا ہم مسلمان ہیں

بدھ، 10 جنوری، 2024

نماز کے معاشرتی فوائد(۲)


 

نماز کے معاشرتی فوائد(۲)

       صبح خیزی : رات کو جلدی سونا اور صبح کو سورج طلوع ہونے سے پہلے جاگنا انسان کی صحت کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔جو لوگ نماز کی پابندی کرتے ہیں وہ لوگ اس اصول کی خلاف ورزی کبھی نہیں کر سکتے ۔ جب تک ہم رات کو جلدی نہیں سوئیں گے اس وقت تک صبح جلدی آنکھ نہیں کھل سکتی ۔ اس لیے حضور نبی کریم ﷺ نے رات کو بے کار باتیں کرنے سے منع فرمایا تا کہ انسان وقت پر سوئے اور صبح وقت پر جاگے اور صبح جلدی جاگنے کی مسلمانوں کو عادت ہو جائے ۔ مئوذن اذان میں بھی پکارتا ہے ۔ سونے سے نماز بہتر ہے ۔ 
خوف خدا : مسلمان جو نماز پڑھتا ہے جب غلطی یا کمزوری کی وجہ سے اس کا قدم ڈگمگا جائے تو رحمت الہی اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے ۔ انسان کو اپنے فعل کی وجہ سے ندامت ہوتی ہے اور خدا کے حضور پیش ہونے سے شرم آتی ہے اس کا ضمیر اس کو ملامت کرتا ہے اور لوگوں سے بھی شرماتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ نمازی ہو کر کس طرح کے کام کر رہا ہے ۔نمازی کے پائوں بدی کی طرف جانے سے کانپتے ہیں اور انسان برائیوں سے بچ جاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : بیشک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے ۔ 
ہشیاری : نماز عقل ، ہوش ، بیداری اور آیات الہی میں غورو فکر کرنے ، خدا کی تسبیح و تہلیل اور اپنے لیے دعائے مغفرت کرنے کا نام ہے ۔ اس لیے وہ تمام چیزیں جو انسان کی عقل و ہوش اور فہم و احساس کو کھو دیں نماز کی حقیقت کے منافی ہے ۔ اس لیے جب شراب کی ممانعت نہیں ہوئی تھی تب بھی نشہ کی حالت میں نماز پڑھنا جائزنہیں تھا ۔
 ارشاد باری تعالی ہے : ’’نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو جو کچھ تم کہتے ہو‘‘ ۔ اس لیے نمازی ان تمام چیزوں سے جو اس کے ہوش کو گم کر دے پرہیز کرتا ہے اور ان کے قریب تک نہیں جاتا ۔الفت و محبت : نماز مسلمانوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے ۔ محلہ کے تمام مسلمان جب کسی ایک جگہ دن میں پانچ مرتبہ جمع ہوتے ہیں باہم ایک دوسرے سے ملیں گے تو ان کی ایک دوسرے سے پہچان ہو گی اور آپس میں الفت ومحبت پیدا ہو گی ۔
 ارشاد باری تعالی ہے :’’ خدا سے ڈرتے رہو اور نما ز کھڑی رکھو ، اور مشرکین میں سے نہ بنو ، ان میں سے جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی اور بہت سے جتھے ہو ں گے ‘‘۔ (سورۃ الروم) ۔
 اس سے معلوم ہوا کہ نمازکا اجتماع مسلمانوں کو جتھا بندی اور فرقہ آرائی سے بھی روک سکتا ہے ۔ جب ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی رہے گی تو غلط فہمیوں کا موقع کم ملے گا۔