پیر، 31 مئی، 2021

Allah Ki Mulaqaat Ka shoak Kaisay Paida Hota Hay? اللہ کی ملاقات کا شوق ...

نماز کی تاکید

 

نماز کی تاکید

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور نماز قائم رکھو اورتم مشرکوں میں سے نہ ہوجائو‘‘۔(الروم : ۳۱)’’(جنتی مجرموں سے سوال کریں گے )تم کوکس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟وہ کہیں گے : تم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔(المدثر: ۴۳۔۴۲)

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص اوراس کے کفر اورشرک کے درمیان (فرق)نمازکو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)یعنی نماز کو ترک کرنا کافروں اورمشرکوں کا کام ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے ، اگر وہ مکمل ہوئی تو مکمل لکھی جائے گی اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو کہا جائے گا دیکھو کیا اس کی کچھ نفلی نمازیں ہیں جن سے اس کے فرض کی کمی کو پورا کردیا جائے ، پھر باقی اعمال کا اسی طرح حساب لیا جائے گا۔(سنن نسائی )

 حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل)

 ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، انہوںنے ایک خشک شاخ پکڑ کر اس کو ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے گرنے لگے، پھر انہوںنے کہا: اے ابو عثمان ! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا:آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا، میں آپ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے ایک شاخ کو پکڑکر اسے ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے جھڑنے لگے ، آپ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میںنے ایسا کیوں کیا؟ میںنے عرض کیا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے اورپانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گررہے ہیں ،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اوردن کے دونوں کناروں اوررات کے کچھ حصوں میں نماز کوقائم رکھو، بے شک نیکیاں ، برائیوں کو مٹادیتی ہیں ، یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں ‘‘۔(ھود: ۱۱۴)(مسند احمد)

Shortclip . کیا واقعی دنیا کی زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1731 ( Surah Adh-Dhariyat Ayat 12-13 Part-1) ...

اتوار، 30 مئی، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1730 ( Surah Adh-Dhariyat Ayat 07 - 11 ) درس ...

Darsulquran Para-03.کیا ہم اسلام اور کفر کو ملا کر زندگی گزار رہے ہیں

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا(۳)

 

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا(۳)

جملہ امہات المومنین رضی اللہ عنہم کی سیرت مبارکہ میں زہد و اتقاء ، تلاوت ونوافل ، اورسخاوت کا پہلو بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بھی اپنا اکثر وقت عبادت وریاضت میں گزارتی تھیں،حافظ ابن عبداللہ نے ’’الاستعیاب ‘‘میں یہ حدیث ان کی شان میں بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ جبریل امین نے حضرت حفصہ کے بارے میں یہ الفاظ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کہے۔’’وہ بہت عبادت کرنے والی، بہت روزے رکھنے والی ہیں(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ ہیں‘‘(بحوالہ تذکار صحابیات )یہ معمول عمر بھر جاری رہا ، جب آپ کا وصال ہوا تواس وقت بھی آپ روزے سے تھیں۔ دنیا سے بے رغبتی ان کا شعار تھا، اورسخاوت معمولات میں شامل تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے انھیں ایک جائیداد ملی، جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے برادر عزیز حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ارشادفرمایا کہ میرے بعد اس جائیداد کو فروخت کرکے صدقہ کردینا ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے آپ کو بہت قربت اورمحبت تھی اس کا محرک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حوالہ بھی تھا اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذوق علمی بھی، روزمرہ کے اکثر معاملات ان کی باہمی مشاورت سے طے پاتے اورگھریلو امور میں بالعموم دونوں کی رائے ایک ہواکرتی تھی، ان کے باہمی پیار وتعلق میں بسااوقات خوش طبعی کی صورت حال بھی پیداہو جاتی ۔ ایک بار دونوں نبی   کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محوسفر تھیں، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم رات کے سفر میں بالعموم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہوتے اوران سے گفتگو فرماتے ایک بارحضرت حفصہ نے حضرت عائشہ سے کہا کہ آج رات آپ میرے اونٹ پر سفر کریں اورمیں آپ کے اونٹ پر سفرکروں گی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس پر راضی ہوگئیں اوریوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس رات گفتگو کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا۔ جب منزل پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ نہ پاکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے پائوں کو اذخر (گھاس)کے ڈھیر کے درمیان لٹکالیا اوربے ساختہ کہا یا اللہ کسی بچھو یا سانپ کو مجھ پر متعین کردے جو مجھے ڈس جائے۔ (صحیح بخاری)

Sakoon-e-Dil Kaisay Hasil Ho Ga ? سکونِ دل کیسے حاصل ہوگا؟

Shortclip - کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف ظاہر کے لئے پیدا کیا ہے؟

ہفتہ، 29 مئی، 2021

Darsulquran Para-03 . کیا ہم یکسو مسلمان ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1729 (Surah Adh-Dhariyat Ayat 1 - 6 Part-3 ) ...

کیا اللہ تعالٰی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ضروری ہے؟

Shortclip - دنیا کی زندگی کی حقیقت

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا(۲)

 

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا(۲)

حضرت عمر بن خطاب ؓ قریش کے ان معدودے چند افراد میں سے ایک تھے، جنہیں لکھنے پڑھنے سے آشنائی تھی، آپ قبول اسلام سے پہلے بھی شعروادب سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے اوردیگر مروجہ علوم سے بھی اچھی طرح آشنا تھے، قبول اسلام کے بعد آپ کا علمی شغف بہت بڑھ گیا ، آپ اکتساب علم کے ساتھ ،دوسروں کو بھی تعلیم وتعلیم کی تحریک دیا کرتے تھے ، آپ کی اولاد میں آپکا یہ ذوق پوری طرح منتقل ہوا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی حصول علم کا بہت شوق تھا، آپکے اس اشتیاق کو دیکھ کر نبی کریم ﷺنے آپکی تعلیم کا خاص اہتمام فرمایا ، آپ نے ایک انصاریہ صحابیہ حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا کومامور فرمایا ، جنہوںنے حضرت ام المومنین کو لکھنا پڑھنا سکھایا بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر انھوں نے آپ کو چیونٹی کاٹنے کا دم بھی سکھایا ۔حضرت ام المومنین کے مزاج میں تفقہ اورغور وفکر ایک خاص ملکہ موجود تھا آپ اپنے والد گرامی کی طرح قرآن مجید کی آیات میں غور فکر فرماتی رہتیں اوران سے مختلف نکات بھی اخذ کرتیں، رسول اکرم ﷺکا مزاج گرامی دیکھ کرسوال بھی پوچھ لیا کرتیں ، ام مبشر انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں، کہ میں ایک مرتبہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھی تھی کہ جناب رسالت مآب ﷺ وہاں تشریف فرماہوگئے ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا : میں (اللہ کے فضل وکرم سے )امید کرتا ہوں کہ اصحاب بدر وحدیبیہ جہنم میں نہیں جائینگے، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے مودبانہ استفسار فرمایا :(یارسول اللہ) قرآن مجید میں اللہ رب العزت توفرماتا ہے، تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو، یہ تیرے رب پر لاز م ہے جو ضرور پورا ہوکر رہے گا، (مریم ۷۱)حضور معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ہاں‘‘لیکن اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشادفرمایا ہے ’’پھر ہم پرہیز گاروں کو نجات دینگے اورظالموں کو اس میں زانوئوں پر گراہوا چھوڑ دینگے(مریم ۷۲)(مسند احمد)یعنی جہنم پر سے گزرنے سے مراد پل صراط پر گزرنا ہے، اہل تقویٰ اس پر سے سرخرو ہوکر گزرجائینگے اورظالم جہنم کی نذر ہوجائیں گے۔آپ نے تدوین حدیث میں بھی حصہ لیا حضرت عمر بن رافع آپ کیلئے مصحف لکھاکرتے تھے، آپ سے ساٹھ احادیث منقول ہیں جن میں سے چار متفق علیہ ہیں چھ صحیح مسلم میں اورباقی دوسری معتبر کتب احادیث میں درج ہیں ۔ آپکے علمی سرمایہ کو اخلاف تک منتقل کرنیوالوں میں حضرت عبداللہ بن عمر ، حمزہ ابن عبداللہ صفیہ بنت ابو عبید (زوجہ حضرت عبد اللہ بن عمر)، حارثہ بن دہب ، مطلب بن ابی وداعہ،ام مبشر، عبداللہ بن صفوان ، عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔(سیرالصحابہ)

جمعہ، 28 مئی، 2021

Darsulquran Para-03 . کیا ہم شرک صفاتی میں مبتلا ہیں

Sirf Allah Hee Mabood Kyoon ? صرف اللہ ہی معبود کیوں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1728 ( Surah Adh-Dhariyat Ayat 1-6 Part-2 ) د...

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا (۱)

 

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا (۱)

جن عالی مرتبت ہستیوں کو نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت وزوجیت کا شرف حاصل ہوا اوروہ ام المومنین کہلائیں، ان میں حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔ آپکا سلسلہ نسب اس طرح ہے ، حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباع بن عبداللہ بن قرط بن زراع بن کعب بن لوی، آپکی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی زینب بنت مظعون ہے جو خود بھی بہت عظیم المرتبت صحابیہ ہیں،نامور صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ، آپکی والدہ کے حقیقی بھائی ہیں ۔وہ اپنے زہدء ورع اورتقویٰ پارسائی کے حوالے سے ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں اور پہلے صحابی ہیں جو جنت البقیع میں مدفون ہوئے ، نبی کریم ﷺانکے فراق میں بہت آزردہ رہے ۔آپکا تولّد بعثت نبوی سے پانچ سال قبل ہوا، سن شباب میں پہنچنے سے پہلے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے حوالے سے آپ بھی اسلام کے نورء تجلی سے بہرہ ور ہوگئیں۔آپکا پہلا نکاح حضرت خنیس بن خذافہ رضی اللہ عنہ سے ہوا، حضرت خنیس ؓاسلام کی خاطر شدت وصعوبت برداشت کرنیوالے ، صاحبانِ عزم واستقامت میں سے ایک ہیں، انھیں ہجرت حبشہ کی سعادت حاصل ہوئی اوروہ حضور اکرم ﷺکے دیگر صحابہ کرام کی طرح ہجرت مدینہ سے بھی شرف یاب ہوئے ، عزوہ بدر میں معرکہ آزما ہوئے اوربڑھ چڑھ کر راہ شجاعت دی،بے خوف وخطر دشمنوںپر حملہ آور ہوتے رہے ، انکے بدن پر بہت سے زخم آگئے ، غز وہ بدر سے واپس تو لوٹے ،لیکن انھیں زخموں کی وجہ سے شہادت سے سرخرو ہوگئے ۔انکے وصال کے بعد جب حضرت حفصہ ؓکی عدت گزرگئی توحضرت عمر ؓ  کو انکے نکاح کی فکر وامن گیر ہوئی ، حضور اکرم ﷺکی لخت جگر حضرت رقیہ ؓ  بھی غزوہ بدر کے ایام میں دنیا سے رحلت فرماگئیں تھیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی ؓسے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ حضرت حفصہؓ سے نکاح کرلیں انھوں نے جواب دینے میں تامل کیا اورغوروفکر کا وعدہ کیا، پھر کچھ دنوں کے بعد معذرت کرلی ، حضرت عمر ؓنے حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں یہی تجویز پیش کی، لیکن انھوں نے سکوت اختیار کیا، حضرت عمر نے رنجیدہ خاطر ہوکر اپنے دوستوں کا معاملہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا توآپ نے فرمایا: حفصہ کا نکاح اس شخص سے ہوگا جو عثمان سے بہتر ہے اورعثمان کا نکاح اس ہستی سے ہوگا جو حفصہ سے بہتر ہے ۔یوں اللہ کے حکم سے آپ مومنوں کی ماں بن گئیں ، حضرت صدیق اکبر نے کچھ عرصہ بعد اپنے سکوت کی بھی وضاحت کردی کہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فیصلے سے مطلع تھا لیکن میں نے آپ کا راز افشاء کرنا مناسب نہ سمجھا ۔(بخاری)

Shortclip . دل کب سخت ہوجاتا ہے؟

Darsulquran Para-03.کیا ہم حق کو عملاً تسلیم کرنے سے انکاری ہیں

جمعرات، 27 مئی، 2021

اللہ کی عدالت

 

اللہ کی عدالت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے آنحضرت ﷺ کویہ فرماتے سنا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ایک ایسے شخص کیخلاف فیصلہ سنایا جائیگا ، جس نے شہادت پائی ہوگی ، اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرکیاجائیگا ۔ خدا اسے اپنی تمام نعمتیں یاد دلائے گا ۔ وہ انہیں تسلیم کریگا ۔ تب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تونے میری نعمت کے بدلے کیا کام کیا ؟ وہ عرض کریگا میں نے تیری خوشنودی کی خاطر جہاد کیا ، یہاں تک اپنی جان قربان کردی ۔ خدا اس سے کہے گا تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی ، تونے صرف اس لیے لڑائی میں حصہ لیاکہ لوگ تجھے بہادر اورشجاع تسلیم کرلیں ۔ سو دنیامیں تجھے اس کاصلہ مل گیا ۔ پھر حکم ہو گا اس (نامراد ) کو منہ کے بل گھسیٹے لے جائو اور جہنم میں ڈال دو ۔ پھر ایک اورشخص کوخدا کی عدالت میں پیش کیاجائیگا جو دین کا عالم ومتعلم ہوگا ۔ خدا اسے اپنے انعامات یاد دلائے گا ۔ وہ انہیں تسلیم کریگا ۔ تب اس سے کہے گا ان نعمتوں کویاد کرکے تونے کیاعمل کیے ۔وہ عرض کریگا اے پروردگار ، میں نے تیری خاطر دین سیکھا اورتیری خاطر دوسروں کواسکی تعلیم دی اور تیری خاطر درس قرآن دیااللہ فرمائے گا تم نے جھوٹ کہا تم نے تو اس لیے علم سیکھاتھاکہ لوگ تمہیں عالم کہیں اور قرآن مجید کادرس محض اس لیے دیتے رہے کہ یہ قرآن کاقاری ہے (اوراسکے رموز سے آشنا ہے ) سو تمہیں دنیامیں اس کا صلہ مل گیا ۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو جہنم میں پھینک دو ۔ تیسرا آدمی وہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مال ومنال اور آسودگی سے شاد کام کیاہوگا ۔
 ایسے شخص کو بارگاہ ربوبیت میں پیش کیا جائیگا ۔ اللہ اسے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے مطلع کریگا وہ اقرار کریگا کہ یہ سب نعمتیں اسے دی گئیں ۔ تب اس سے سوال ہو گا کہ تو نے ان نعمتوں کا کیاکیا ۔ وہ جواب میں کہے گا ۔ وہ تمام راستے جن پر خرچ کرنا تجھے پسند تھامیں نے ان سب راستوں پر تیری خوشنودی کی خاطرخرچ کرنا (کبھی ) ترک نہیں کیا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا ، یہ سارا مال تونے اس لیے لٹادیا کہ لوگ سخی کہیں سو تجھے دنیامیں یہ لقب مل گیا ( اب آخرت میں تیرا کوئی حصہ نہیں ) پھرحکم ہوگا کہ اسے ( بھی)چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو سو اسے بھی جہنم رسید کردیا جائیگا (مسلم شریف) ۔ بیان کردہ روایات اسلامی ماحول اور معاشرے میں حسن نیت اور اخلاص کی فضاء پیدا کرنے کی تلقین کرتی ہیں بلکہ اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ مومن جہاں بھی ہواسکے ہر کام کی غرض محض اورمحض اللہ کی رضاء کا حصول ہوناچاہیے ۔ دنیاکی شہرت ، نیک نامی ، صلہ و ستائش عارضی اورفانی چیزیں ہیں جن کی بازار ِ آخرت میں کوئی قدروقیمت نہیں ۔ 

Kya Humara Maqsood Hi Humara Mabood Hay?کیا ہمارا مقصود ہی ہمارا معبود ہے؟

Shortclip - قرآن سے ہدایت کیوں اور کیسے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1727 ( Surah Adh-Dhariyat Ayat 1-6 Part-1 ) د...

بدھ، 26 مئی، 2021

اخلاص نیت

 

اخلاص نیت

حضرت ابو ہریرہ بن عبد الرحمن بن صحر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ  ﷺ نے فرمایااللہ تعالیٰ نہ تمہارے جسموں کودیکھتاہے اورنہ ہی تمہاری صورتوں کو بلکہ وہ تمہارے دلوں کو دیکھتاہے (مسلم) حضرت ابو موسیٰ عبداللہ قیس اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : حضوراکرم  ﷺ سے پوچھاگیاکہ ایک شخص بہادری دکھانے کی غرض سے جنگ کرتاہے ۔ ایک حمیت اور غیرت کے اظہار کیلئے لڑتا ہے اورایک وہ ہے جو محض دکھلاوے کی خاطر جنگ کرتاہے یارسول اللہ  ﷺ !ان میں سے کس کی جنگ اللہ کی راہ میں ہے ؟ حضور انور  ﷺ نے فرمایا: جو اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ کاکلمہ سربلندہو ، سو اسی کی جنگ اللہ کی راہ میں ہے (بخاری ) حضرت ابوبکر ہ نفیع بن حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جب دومسلمان اپنی تلواروں سے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائینگے ۔میں نے عرض کیا یارسول اللہ  ﷺ قاتل کاجہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مقتول (کاکیاقصور) اور اس کیلئے یہ حکم کیسے ؟ ارشاد ہوا وہ بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرناچاہتاتھا( اس کابس نہ چلااور دوسرے کوپہلے موقع مل گیاگھرسے تو وہ بھی تو فساد اورقتل کی نیت سے ہی نکلاتھا( بخاری ومسلم) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ  ﷺ جس وقت مجھے یمن کے علاقے میں بھیج رہے تھے میں نے گزارش کی اے اللہ کے رسول مجھے کچھ نصیحت فرمایئے آپ نے فرمایااپنی نیت کو ہرکھوٹ سے پاک رکھو جو عمل کرو خدا کی خوشنودی کے لیے کرو ،تو تھوڑا عمل بھی تمہاری نجات کے لیے کافی ہوگا ( الترغیب والترہیب )حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاباجماعت نماز ادا کرنے سے بازار یاگھر میں نماز اداکرنے کی نسبت تیئس (۲۳) سے تیس (۳۰) گناتک ثواب زیادہ ملتاہے ۔ اور یہ اس لیے جب ایک شخص وضوکرتاہے ، پھرمسجد میں آ جاتا ہے اوراسکی نیت صرف نماز اداکرنے کی ہوتی ہے وہ صرف نماز ہی کیلئے اُٹھتاہے وہ ( مسجد کی طرف ) جوقدم بھی اُٹھاتاہے اُ سکاایک درجہ بلند کردیاجاتاہے اور ایک گناہ معاف کردیاجاتاہے ۔یہاں تک کہ وہ مسجد میں پہنچ جاتاہے ۔اورجب وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو جب تک نماز کے انتظار میں بیٹھارہتاہے (گویاکہ عنداللہ) نماز میں ہی ہوتاہے تم میں سے کوئی شخص جب تک اس جگہ پر بیٹھارہتاہے ۔ جہاں اس نے نماز اداکی فرشتے اس پر سلام بھیجتے رہتے ہیں اورکہتے ہیں اللہ اس پررحم فرمااے اللہ اس کو بخش دے اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما( اور یہ سلسلہ جاری رہتاہے ) یہاں تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے یاوہ کسی کوتکلیف نہ دے (بخاری ومسلم ) 

Humain Dunya Main Kyoon Bhejwaya Gya Hay? - ہمیں دنیا میں کیوں بجھوایا گ...

Shortclip - کیا سرکشی اور بغاوت قابل معافی ہے؟

Darsulquran para-03. کیا ہم نے حق کو جھٹلا دیا ہے

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1726 ( Surah Qaf Ayat 39 - 45 ) درس قرآن سُوۡ...

منگل، 25 مئی، 2021

اخلاص

 

اخلاص 

فرمان خداوندی ہے ۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے حضور (قربانیوں ) کے گوشت اور انکے خون نہیں پہنچتے ۔ البتہ اسکے حضور میں تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچ جاتاہے ۔ (الحج ۳۷)(اے پیغمبر ) کہہ دیجیے جوکچھ تمہارے سینوں میں ہے تم اسے چھپائو یاظاہرکرو اللہ تعالیٰ اسے جانتاہے ۔ (آل عمران ۲۹) حالانکہ نہیں حکم دیاگیا تھا انہیں مگر یہ کہ دین کواسکے لیے خالص کرتے ہوئے بالکل یک سو ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اورنماز قائم کرتے رہیں اورزکوۃ اداکرتے رہیں۔ اور یہی دین نہایت سچاہے ( البینہ آیۃ۵) امیرالمومنین حضرت عمر ابن خطاب سے مروی ہے ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ نے فرمایا’’ اعمال کادارومدار نیتوں پرہے ہرشخص کو وہی کچھ ملے گاجس کی اس نے نیت کی ۔ پس جوشخص اللہ اور اسکے رسول کیلئے ہجرت کی نیت کرے تواس کی ہجرت اللہ اوراسکے رسول کی طرف ہوگی ۔ اورجس شخص کی ہجرت دنیاکی طرف ہوکہ اسے حاصل کرے یاکسی عورت کی نیت سے ہو کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی طرف ہے جہاں کی اس نے نیت کی ہے ۔ (بخاری) مذکورہ بالاحدیث مبارکہ تعلیمات اسلامیہ میں بڑی اہمیت کی حامل حدیث ہے ۔ بہت سے محدثین نے مجموعہ احادیث کا آغاز حصول ِ برکت کیلئے اس حدیث پاک سے کیاہے تاکہ ان کے کام میں اخلاص پیداہو اور ان کی تمام محنت و مشقت کاقبلہ درست سمت میں رہے۔ اس حدیث مبارکہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ حضوراکرم  ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام کو مکہ معظمہ سے ہجرت کاحکم ہوگیاسب نے نہایت اخلاص و آمادگی سے اپنے جنم بھومی کو چھوڑدیا، اپنے عزیزو اقارب کوخیر آبادکہہ دیا، اپنے اپنے کاروبار اوردیگرمفادات سے دست کش ہوگئے، اور محض اللہ پرتوکل کرتے ہوئے ایک دوسرے شہر کی طرف چل پڑے جہاں امکانات کی ایک نئی دنیاان کی منتظر تھی، اسی زمانے میں مکہ کے مسلمانوں میں ایک صاحب ایسے تھے ۔جن کے رشتے کی بات چیت مدینہ منورہ (اُس وقت یثرب ) میں قیام پذیر ایک خاتون سے چل رہی تھی جس کانام اُ مِ قُبیس تھا ۔ اُ مِ قُبیس نے یہ شرط عائد کردی کہ آپ ہجرت کرکے یہاں آجائیں تو میں آپ سے شادی کرلوں گی ۔انہوں نے اس شرط کو قبول کرلیا اورمدینہ منورہ منتقل ہو گئے اوروہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ۔ صحابہ کرام ازرہ خوش طبعی انہیں’’ مہاجرام قبیس‘‘ کہہ کرپکارتے اورکہتے ہماری ہجرت تواللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کیلئے تھی جبکہ آپکی ہجرت اُمِ قبیس کیلئے، اس لیے آپ توٹھہرے ’’ مہاجر ام قبیس ‘‘ انہیں یہ بات پسند نہ آتی۔ معاملہ جناب رسول اللہ  ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا آپ نے تمام احوال سن کرجو تاریخی ارشاد فرمایاوہ مدار دین و ایمان بن گیا ۔


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1725 ( Surah Qaf Ayat 38 ) درس قرآن سُوۡرَةُ قٓ

Shortclip - عذاب اور آزمائش میں فرق

Darsulquran Para-03.کیا ہم نے اسلام کا عملی نمونہ دنیا کے لوگوں کے سامنے...

پیر، 24 مئی، 2021

Darsulquran Para-03.کیا ہم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر رہے ہیں

مجاہد کا اجر

 

مجاہد کا اجر 

 حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا: آج کی رات ہمارا پہرہ کون دے گا؟حضرت انس بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ ! یہ سعادت میں حاصل کروں گا۔آپ نے ارشادفرمایا:تو پھر سوار ہوجائو چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔آپ نے فرمایا : سامنے والی گھاٹی کی طرف رخ کرواوراس کی سب سے بلند چوٹی پر چلے جائو، خوب چوکس ہوکر پہرہ دینا ایسا نہ ہو کہ تمہاری غفلت یا لاپرواہی کی وجہ سے ہمارا لشکر دشمن کے کسی فریب کا شکار ہوجائے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ تعمیل ارشادمیں وہاں چلے گئے ۔جب صبح ہوئی تو آقا علیہ السلام جائے نماز پر تشریف لائے اوردورکعتیں ادافرمائیں پھر آپ نے صحابہ سے استفسار فرمایا:تمہیں اپنے سوارکی کچھ خبر ہے ؟ انھوں نے عرض کی ہمارے پاس ابھی تو کوئی اطلاع نہیں ہے۔اتنے میں فجر کی اقامت شروع ہوگئی صحابہ دیکھ رہے تھے کہ حضور اس دوران بھی گھاٹی کی طرف متوجہ رہے۔نماز کی ادائیگی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشادفرمایا تمہیں مبارک ہوکہ تمہارا سوار آگیا ہے۔
 ہم لوگوں نے وادی کی طرف دیکھنا شروع کیا جلدہی درختوں کے درمیان سے انس بن مرثد آتے ہوئے دکھائی دیے ۔وہ قریب آئے اورگھوڑے سے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں سلام عرض کیا۔حضور نے ان سے ان کی ڈیوٹی کے احوال پوچھے ۔انھوںنے عرض کیا یارسول اللہ میں آپ کے حکم کے مطابق یہاں سے چلا اورچلتے چلتے وادی کی سب سے اونچی گھاٹی پر پہنچ گیاجہاں پر آپ نے مجھے مامور فرمایا تھا۔میں رات بھر وہاں پہرہ دیتا رہا، جب صبح ہوئی تومیں نے اطراف واکناف کی گھاٹیوں پر بھی چڑھ کر اچھی طرح معائنہ کیا۔مجھے کسی طرف سے بھی کسی دشمن کا کوئی سراغ نہیں ملا۔پوری طرح مطمئن ہوکر آپ کے پاس واپس آگیا ہوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے استفسار فرمایا کیا تم رات کو کسی وقت اپنی سواری سے اترے اورمحواستراحت ہوئے انھوں نے عرض کی یارسول اللہ !نہیں،صرف نماز کی ادائیگی اورطہارت کی غرض سے اتراتھا اوراس کے فوراً بعد سوار ہوکر اپنی ڈیوٹی شروع کردی تھی۔
 آپ نے ارشادفرمایا:تم نے آج کی رات اللہ رب العزت کے راستے میں پہرہ دے کر اپنے لیے جنت واجب کرلی ہے لہٰذا اس عمل کے بعد اگر تم کبھی کوئی بھی( نفل)عمل نہ کرو تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔(ابودائود)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1724 ( Surah Qaf Ayat 36 - 37 ) درس قرآن سُوۡ...

اتوار، 23 مئی، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1723 ( Surah Qaf Ayat 31 - 35 Part-4 ) درس ق...

Darsulquran Para-03 . کیا آج اسباب کے علاوہ ہماری مدد ہو سکتی ہے

اعتدال کی تلقین

 

اعتدال کی تلقین

حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص عبادت وریاضت کے بڑے خوگر تھے ۔ آپ اپنے احوال بیان کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ روزے سے رہتا اور ہر رات (نوافل میں ) پورے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا ۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی نے میری اس عبادت وریاضت کا ذکر کردیا۔ آپ ؐنے مجھے پیغام بھیجا میں آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔آپ نے فرمایا مجھے خبر ملی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات قرآن پڑھتے ہو۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے پیارے نبی اسی طرح ہے لیکن اس سے میرا مقصود طلب خیر ہے ریاکاری ہر گز نہیں ۔آپ نے فرمایا تمہارے لیے اتنا بہت ہے کہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو۔میں نے عرض کیا ۔یانبی اللہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ۔آپ نے فرمایا تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے۔ تمہارے احباب کا تم پر حق ہے، اور تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لیے تم صومِ داؤدی اختیار کرلو، حضرت داؤد اللہ کے نبی اور لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔ میں نے گزارش کی یارسول اللہ صوم داؤدی کیسا ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا ۔پھر آپ نے فرمایا ہر ماہ میں ایک قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ارشاد فرمایا پھر بیس دن میں ختم کرلیا کرو، عر ض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایادس دنوں میں کرلیا کرو۔ عر ض کیا اے نبی اللہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ۔آپ نے فرمایا سات روز میں ختم کرواس سے زیادہ نہ پڑھو کیونکہ تمہاری اہلیہ کا تم پر حق ہے ، تمہارے ملا قاتیوں کا تم پر حق ہے۔ اور تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے۔حضر ت عبداللہ فرماتے ہیں میں نے اپنے آپ پر خود تشدد کیا سومیر ے اوپر تشد د ہوا۔ آپ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ بھی فرمایا کہ تم یہ نہیں جانتے کہ شاید تمہاری عمر دراز ہو یعنی تم اپنے لیے عبادت ریاضت اور مجاہدے کا یہ راستہ چن لو گے۔اور اپنے معمولات متعین کرلو گے ۔ جب بوڑھے ہو جائو گے تو ضعف اور ناتوانی کی وجہ سے اپنے اسباقِ (عبادت وریاضت ) پورے نہیں کر پائو گے،یا پھر بڑی دشواری کے ساتھ مکمل کروگے۔ اللہ کے راستے کے مسافروں کیلئے اپنے معمولات کا ناغہ کرنا اور اختیا ر کے بعد انھیں ترک کردینا پسندیدہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں ویسا ہی ہو ا جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا۔ جب میں بوڑھا ہوگیا تو آرزو کر تا کہ اے کاش میں اپنے روف وکریم آقا ء کی دی ہوئی رخصت قبول کرلیتا آپ یہ بھی فرماتے تھے’’اگرمیں تین دنوں کی وہ رخصت قبول کر لیتا جو مجھے آنحضور  ﷺنے عطا فرمائی تھی تو یہ مجھے اہل وعیال اور تمام مال سے زیادہ محبوب ہوتا۔

Shortclip کیا ہم مومن ہیں؟

جمعہ، 21 مئی، 2021

فاتحۃالکتاب

 

فاتحۃالکتاب

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم ایک سفر میں تھے ، ہم نے سفر کے دوران ایک جگہ پڑائو کیا ، ہمارے پاس ایک بچی آئی اوراس نے کہا :ہمارے قبیلے کے سردار کو ایک بچھو نے ڈس لیا ہے اور ہمارے تمام لوگ موجود نہیں ہیں کیا تم میں سے کوئی شخص دم کرسکتا ہے ، ہم میں سے ایک شخص اٹھا اوراس کے ساتھ ہو لیا ،ہمیں اس کے بارے میں اس سے پہلے یہ علم نہیں تھا کہ وہ کوئی دم وغیرہ جانتا ہے ، اس شخص نے سردار کو دم کیا، جس سے وہ شفاء یاب ہوگیا ، سردارنے اس شخص کو تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اورہم سب کی دودھ سے تواضع کی ۔ واپسی کے بعد ہم نے اس شخص سے پوچھا کیا تم پہلے بھی دم کیا کرتے تھے،اس نے کہا: نہیں!میں نے تو صرف اُ م الکتاب (سورۃ فاتحہ ) پڑھ کر دم کیا ہے ، ہم نے کہا :کہ اب ان بکریوں کے بارے میں کوئی بات نہ کروحتیٰ کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے متعلق پوچھ لیں،ہم مدینہ منورہ پہنچے تو ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق پوچھا :حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، اس شخص کو کیسے علم ہواکہ یہ دم (برائے شفاء ) ہے ، ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کرلو اور ان میں سے میرا حصہ بھی نکالو ۔(صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،حضرت جبریل علیہ السلام ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے اوپر کی جانب سے ایک چرچراہٹ کی آواز سنی ، حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا:یہ آسمان کا ایک ایسا دروازہ ہے جو آج ہی کھولا گیا ہے اورآج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا ہے ، حضرت جبریل نے کہا : یہ فرشتہ جو زمین کی طرف نازل ہوا ہے یہ بھی آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا تھااس فرشتے نے آکر خدمت اقدس میں سلام عرض کیا اورکہا آپ کو دُونوروں کی بشارت ہو جو آپ کو عطاکیے گئے ہیں اورآپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے ایک نورفاتحۃ الکتاب ہے اوردوسرا سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں ہیں ان میں سے جس حرف کو بھی آپ پڑھیں گے وہ آپ کودے دیا جائے گا ۔(سنن نسائی)

حضرت ابو زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کے کسی راستے میں جا رہا تھا آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو تہجد کی نماز میں اُم القرآن (سورۃ فاتحہ )پڑھ رہا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اس سورت کو سماعت فرماتے رہے حتیٰ کہ اس نے وہ سورت ختم کردی  آپ نے فرمایا:قرآن میں اسکی مثل (اورکوئی سورت) نہیں ہے۔(مجمع الزوائد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس دن فاتحۃ الکتاب نازل ہوئی ، اس دن ابلیس بہت رویا تھا ۔ (مجمع الزوائد)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1721 ( Surah Qaf Ayat 31 - 35 Part-2 ) درس قر...

جمعرات، 20 مئی، 2021

Darsulquran Para-03. کیا ہم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں

ایک عظیم سورت

 

ایک عظیم سورت

حضرت ابوسعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حالتِ نماز میں تھا کہ داعی برحق علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے مجھے آواز دی، میں اپنی نماز مکمل کرکے حاضر ہوا اورگزارش کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ نے فرمایا:کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اوراس کا رسول تمہیں بلائیں تو تعمیل ارشادکرو،اس کے بعد آپ نے ارشادفرمایا : کیا تمہارے مسجد سے باہر جانے سے پہلے میں تمہیں قرآن حکیم کی عظیم ترین سورۃ کے متعلق نہ بتائوں ، پھر آپ نے میرا ہاتھ تھا م لیا، جب ہم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کی، یارسول اللہ!آپ نے فرمایا تھا کہ آپ مجھے قرآن حکیم کی عظیم ترین سورۃ کے متعلق آگاہ فرمائیں گے، ارشادہوا : یہ سورہ الحمد ہے ، یہ باربار دہرائی جانے والی سات آیات ہیں اورقرآن عظیم جو مجھے عطاء ہوا ہے۔ (صحیح بخاری)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایا :یا اُبیّ! وہ نماز میں تھے، وہ آپ کی آواز دلنواز کی طرف متوجہ تو ہوئے لیکن اس کا جواب نہ دیا۔نماز کو مختصر کیا اوراس کی تکمیل کے بعد حاضر خدمت ہوئے اورعرض کی السلام علیک یارسول اللہ !حضور نے فرمایا:وعلیک السلام ، اے ابی!جب میں نے تمہیں بلایا تھا تو کس مشغولیت نے تمہیں میرے بلاوے کا جواب دینے سے باز رکھا؟ انھوں نے عرض کی یارسول اللہ ! میں حالت نماز میں تھا، آپ نے ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو کلام مجھ پر وحی فرمایا ہے کیا اس کلام میں تمہیں یہ حکم نہیں ملا کہ جب اللہ تعالیٰ اوراس کارسول تمہیں اس دعوت کی طرف بلائیں جو تمہاری زندگی کا باعث ہے توحاضر ہوجایا کرو؟ انھوں نے عرض کی یارسول اللہ !کیوں نہیں یہ حکم ہمیں ملا ہے ،اورمیں انشاء اللہ آئندہ کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات کے خواستگار ہو کہ میں تمہیں وہ سورۃ سکھائوں جو نہ تورات میں نازل ہوئی، نہ انجیل میں نازل ہوئی، نہ زبور میں نازل ہوئی اورنہ ہی اس جیسی کوئی اورسورۃ قرآن حکیم میں نازل ہوئی ہے ، حضرت ابی نے عرض کی :یارسول اللہ ، آپ نے ارشاد فرمایا: اس  ذات کی قسم! جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے، اس جیسی سورت نہ تورات میں نازل ہوئی، نہ انجیل میں نہ زبور میں اورنہ ہی قرآن حکیم میں،یہ باربار دہرائی جانیوالی سات آیتیں ہیں، (یعنی سورۃ فاتحہ )اورقرآن عظیم ہے ، جو مجھے عطاء ہوا ہے۔(صحیح بخاری) عبدالملک بن عمیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:فاتحۃ الکتاب سے ہر بیماری کی شفاء ہے ۔(سنن دارمی )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1720 ( Surah Qaf Ayat 31 - 35 Part-1 ) درس قر...

بدھ، 19 مئی، 2021

بشارت

 

بشارت

٭حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ’’جبریل علیہ السلام میر ی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے چل رہے تھے ،جب میں ایک ہموار زمین پر پہنچا تو انھوں نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا(اے اللہ کے نبی)خوشخبری سنیئے اور اپنی امت کو بھی سنایئے کہ جس شخص نے ’’لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ‘‘کا اقرار کرلیا ،وہ جنت میں داخل ہوگیا ۔تو میں خوشی سے مسکرایا اور میں نے اللہ اکبر کہا،کچھ دور آگے جاکر جبریل علیہ السلام دوبارہ میری طرف متوجہ ہوئے اورکہا ،آپ خود بھی خوشخبری سنیئے اور اپنی امت کو بھی سنائیے کہ جس شخص نے ’’لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ‘‘کا اقرار کرلیا ،وہ جنت میں داخل ہوگیا اور اللہ نے اُس پر آگ حرام فرمادی ۔تو میں پھر خوشی سے مسکرادیا اور اللہ اکبر کہا،اوراپنی امت کے لیے اس پر شاداں وفرحاں ہوگیا ‘‘۔ (الطبرانی ،ابن عساکر)

’’محدثِ کبیر علامہ علی متقی بن حسام الدین ارشادفرماتے ہیں یہ حدیثِ حسن ہے ‘‘۔

٭حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’جس شخص نے یہ شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں ،نماز قائم کی ،رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اُس کی مغفر ت فرما دیں۔خواہ وہ شخص ہجرت کرے یا اُسی جگہ مقیم رہے جہاں اُس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ (اس پر )آپ کے ایک صحابی نے عرض کیا،یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں میں اس بشارت کا علان نہ کردوں ،آپ نے ارشادفرمایا :نہیں ! لوگوں کو عمل کرنے دو۔بیشک جنت کے سو درجے ہیں ،ہر دودرجوں کے درمیان زمین وآسمان کے فاصلے جتنی مسافت ہے۔اور سب سے اعلیٰ درجہ جنت الفردوس ہے۔اسی پر عرشِ الہٰی قائم ہے اور یہ جنت کے وسط میں ہے۔سو ! جب تم اللہ رب العزت سے کسی چیز کا سوال کروتو جنت الفردوس ہی کاسوال کرو۔‘‘(الطبرانی)

٭حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’جس کی آرزو ہوکہ وہ جہنم سے بچ جائے اورجنت میں داخل ہوجائے تو اس کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا ہو اور وہ لوگوں سے بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لیے چاہتا ہو۔‘‘(الطبرانی) 

Darsulquran Para-03 . کیا ہم اللہ تعالی کی ناراضگی سے نہیں ڈرتے

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1719 ( Surah Qaf Ayat 29 - 30 ) درس قرآن سُوۡ...

Darsulquran Para-03 - کیا ہم اللہ تعالی سے شدید محبت کرتے ہیں

منگل، 18 مئی، 2021

’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘

 

’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘

٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’سب سے پہلی بات جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے پہلی کتاب میں تحریر فرمایا ،وہ یہ ہے !میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں ،میری رحمت میرے غضب سے سبقت کر گئی ہے۔جو گواہی دے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اُس کے بندے اور رسول ہیں اُس کے لیے جنت ہے۔‘‘(الدیلمی )

٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جنت کا نرخ گراں مایہ ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘ ہے ،اور نعمت کا ہدیہ ’’الحمد اللّٰہ‘‘ہے۔‘‘(الدیلمی)

٭حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’مجھ سے جبریل نے بیان کیا ،کہ اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘میرا قلعہ ہے اور جو میرے قلعے میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے مامون ہوگیا۔‘‘(ابن عساکر )

٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ’’جب موسیٰ علیہ السلام کو ان کے پروردگار نے ’’توریت‘‘ عطافرمائی تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العز ت کی بارگاہ میں عرض کیا : اے میرے پاک پروردگار مجھے کوئی ایسی دعا مرحمت فرمادے،جس سے میں تجھے پکارا کروں۔ارشاد ہوا،تم ہمیں ’’لاالہ الا   اللّٰہ‘‘کے ساتھ یاد کیا کرو۔موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پاک پروردگار یہ کلمہ تو ساری ہی مخلوق جپتی ہے ۔میں تو ایسے کلمے کا طلب گار ہوں جو میرے لیے ہی مخصو ص ہو،اور جس سے میں تجھے یاد کیا کروں۔ ارشادہوا: اے موسیٰ ! تمام آسمانوں اور ان کے اندر بسنے والی تمام مخلوق اورتمام سمندوں اور ان کے اندر رہنے والی تمام مخلوق کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے ،تو اس کلمہ طیبہ والا پلڑا بھاری ہوجائے گا۔ ‘‘(مسند ابی یعلیٰ )

٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ـ’’میں (آخرت میں) اپنے پروردگار سے سفارش کرتا رہوں گا،حتیٰ کہ عرض کروں گااے میرے پروردگار ! ہر اس شخص کے بارے میں میری سفارش قبول کرلے جس نے ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘کہا ہو،اللہ رب العزت ارشادفرمائے گا(اے میرے محبوب )محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )،نہیں یہ تمہارا حق نہیں ہے یہ میرا حق ہے ۔ میری عزت کی قسم ! میرے حلم کی قسم!میری رحمت کی قسم! میں آج جہنم میں کسی بھی ایسے شخص کو نہ رہنے دوں گاجس نے ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘کہاہو۔‘‘(مسند ابی یعلیٰ)

٭حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا :’’جس شخص نے  ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘کی شہادت دی ،فجر کی نماز کی محافظت کی،اور ناجائز خون ریزی سے اپنے ہاتھ آلودہ نہ کیے،تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ‘‘(کنزالعمال) 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1718 ( Surah Qaf Ayat 27 - 28 ) درس قرآن سُو...

Darsulquran Para-03.کیا ہم دنیا دار لوگ ہیں

پیر، 17 مئی، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1717 ( Surah Qaf Ayat 23 - 2 6 Part-5 ) درس ق...

Darsulquran Para-03. کیا ہم نے اللہ تعالی سے اپنا رخ پھیر لیا ہے

اَلْصَّلَوۃُ

 

اَلْصَّلَوۃُ

’’عبادت ‘‘کی تشریح سے ہم پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی کہ یہ اللہ کے سامنے اعتراف عجز ہے۔ اپنی ذات کی خیالات کی، رائے کی نفی ہے۔جب انسان اپنے خالق کا حکم مان لیتا ہے اور اس کی مرضی اختیار کرلیتا ہے ،اور اس کے بتائے ہوئے طرززندگی کو اپنا لیتا ہے تو وہ عبادت کی شاہراہ پر گامزن ہوجاتاہے۔ 

اس خالق کی حکمت نے اپنے محمود اعمال میں درجہ بندی فرمائی،کچھ اعمال ایسے ہیں جو مسلمانی کا خاص شعار قرارپائے، انکے بغیر ایمان اور اسلام کا تعارف ہی دشوار ہے۔ان میں اہم ترین ،نمایاں ترین اور سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی عمل ’’الصلوۃ ‘‘یعنی نماز ہے۔ ’’صلوٰۃ ‘‘کا لفظی معنی دعاء ،تسبیح ،رحمت یا رحم وکرم کی تمنا ہے درود پاک کو بھی صلوٰ ۃ کہا جاتا ہے کہ یہ بھی رحمت وکرم کی تمنا کا اظہار ہے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق صلوٰۃ ایک مخصوص اور معروف عمل ہے جو خاص اوقات میں اور مخصوص انداز سے ادا کیا جاتا ہے۔ صلوٰ ۃ یعنی نماز ارکانِ اسلام میں دوسرا اور عبادات میں پہلا رکن ہے۔ اس کی بجا آوری ہر باشعور ،بالغ مسلمان (عورت ہو یا مرد) پر فرض ہے۔‘‘(عقائد ارکان )

’’نماز کیاہے مخلوق کا اپنے دل زبان اور ہاتھ پائوں سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار ، اس رحمان اور رحیم کی یا داور اس کے بے انتہاء احسانات کا شکریہ ،حسنِ ازل کی حمد وثنا ء اور اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار ،یہ اپنے آقاء کے حضور میں جسم وجان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرضِ نیاز ہے۔ یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے۔ یہ بے قرار روح کی تسکین مضطرب قلب کی تشفی اورمایوس دل کی آس ہے۔یہ فطرت کی آواز ہے اور یہ زندگی کا حاصل اور ہستی خلاصہ ہے۔ کسی غیر مرئی طاقت کے آگے سرنگوں ہونا ، اسکے حضور میں دعاء فریا د کرنا اور اس سے مشکل میں تسلی پانا۔ انسان کی فطرت ہے ۔قرآن نے جابجاانسانوں کی اسی فطری حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوچھا ہے کہ جب تمہارا جہاز بھنور میں پھنستا ہے تو خدا کے سوا کون ہوتا ہے جس کو تم پکارتے ہو۔ غرض انسان کی پیشانی کو خودبخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے۔ جس کے سامنے وہ جھکے ۔اندرونِ دل کی عرض نیاز کرے اور اپنی دلی تمنائوں کو اس کے سامنے پیش کرے ۔غرض عبادت روح کے اسی فطری مطالبہ کا جواب ہے‘‘۔ (سیرت النبی)

اسلام کا اعجاز یہ ہے کہ اس نے انسان کو در در پر بھٹکنے سے بچا لیا ۔ توحید کا واضح اور غیر مبہم سبق پڑھایا بندگی کا خوبصورت طریقہ سکھایا، جسے کو نماز کہتے ہیں۔ 

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

 (اقبال)

ہفتہ، 15 مئی، 2021

Darsulquran Para-03. کیا دنیا میں آکر ہماری نیت خراب ہوگئی ہے

عید سعید

 

عید سعید 

انسان مدنی الطبع ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے ،ایک دوسرے کی خوشی اورغم میں شریک ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کی اعانت کرتا ہے ، زندگی اپنے ذیل میں مختلف تقاضے رکھتی ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص دنیا میں رہے اوربالکل یکہ وتنہا رہے، اپنے تمام کام خود ہی سرانجام دے اوردوسروں سے بالکل بھی سروکار نہ رکھے، زندگی ایک دوسرے کے تعاون سے ہی آگے بڑھتی ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ فطرت کے تمام تقاضوں کا احصاء وحی الٰہی کے علاوہ کوئی علم کر ہی نہیں کرسکتا ، کیوں کہ اللہ کریم انسان کا خالق ہے اس سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اس کی اس تخلیق کی ندرت کیا ہے اوراسکے ظاہر اورباطن کو کیسے استوار کیا جاسکتا ہے۔ اسلام نے اپنے نظام فکر میں اس کی اجتماعی زندگی کے تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھا۔ اسلام کے نظام عبادات کا ایک سرسری جائز ہ بھی لیا جائے تو انسان محسوس کرسکتا ہے کہ اللہ کریم کے احکام پر عمل پیرا ہونے سے جہاں انسان کے ظاہر و باطن میں حسن وتوازن پیدا ہوتا ہے وہیں اسکے نظم اجتماعی میں بھی اس کی برکتیں ظاہر ہوتی ہے۔ نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ جہاں فرد کی انفرادی زندگی کو سنوارتے ہیں وہیں پر اس کے ماحول اورمعاشرے کو بھی ایک پاکیزہ روحانی سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے توآپ اہل مدینہ کے دوایسے دنوں کے بارے میں مطلع ہوتے جن میں وہ مسرت وشادمانی کا اظہار کرتے، کھیل کود میں مصروف ہوتے، جشن وضیافت کا اہتمام کرتے آپ نے استفسار فرمایا کہ یہ دن کس نوعیت کے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم ان دنوں میں زمانہ جاہلیت سے کھیل کود کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ کے ان دودنوں کو دوایسے دنوں سے بدل دیا ہے جو ان سے بہتر ہیں ، عیدالاضحی کا دن اورعیدالفطر کا دن۔(سنن ابودائود) دنیا کی دیگر قومیں بھی اپنے تہوار مناتی ہیں ۔ لیکن اسلام نے اجتماعیت کے فطری میلان کو بھی ایک تقدس عطاکردیا ہے۔ عیدا لفطر رمضان المبارک کی خیر وعافیت سے تکمیل پر اظہار مسرت بھی ہے اوراللہ کریم کی بارگاہ میں ہدیہ ء تشکر بھی۔ عید مسرت و شادمانی کا دن ہے لیکن یہ کسی جنگ یا معرکے کی یاد نہیں ، یہ اپنے آباء واجداد پر فخر وتکبر کیلئے بھی نہیں ہے۔ یہ تو اس اطاعت وتسلیم پر طمانیت اور مسرت کا دن ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندگی میں رمضان المبارک کی نعمت عطافرمائی ۔ یہ مہینہ روحانی تربیت کا مہینہ بھی ہے اورایک آزمائش بھی ہے کہ کوئی روکنے والا بھی نہیں اورکوئی دیکھنے والا بھی نہیں۔ لیکن بندہ محض اپنے رب کریم کی خوشنودی اوررضاء کیلئے روزہ رکھ رہا ہے۔عید اس امتحان سے بخوبی گزرنے کی خوشی ہے۔

جمعہ، 14 مئی، 2021

صدقۂ فطر


 

صدقۂ فطر

پروفسیر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی رقم طراز ہیں :’’رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جہاں شوق عبادت پوری جولانی پر ہوتا ہے ، مسلسل روزہ، روزہ دار کے اندر تقویٰ کا جوہر پیداکردیتا ہے ، دل حسنات کی تلاش میں رہتا ہے اورروزہ دار کے اندر آخری آیام میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کرنے کا ذوق پیداہوتا ہے، ایک ماہ کی مشق اپنا اثر دکھاتی ہے، نجات کی امید، قلب ودماغ میں سرخوشی کاسماں بنتی ہے ، ایسے خوش کن لمحات میں حسنات کا دائرہ وسیع کردیاگیا اورامت مسلمہ کے محروم اورنادار افرادکو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا حکم دیا گیا، ایک خاص مقدار کا صدقہ جسے روزوں کے شکرانے اورمجبور انسانوں کی فلاح کا کفیل بنایا گیا صدقہ فطرکہلاتا ہے ، یہ چونکہ عیدالفطر کی خوشیوں کی خیرات ہے اس لئے اسی مناسبت سے صدقہ فطریا مقامی زبان میں فطرانہ کہلاتا ہے۔
صدقہ فطرکی اہمیت اوراس کی معاشرتی قدروقیمت کا اندازہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادسے عیاں ہے: ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو لازم قرار دیا تاکہ روزہ دار کیلئے لغو وبیہودہ کلام وحرکات سے پاک ہوجانے کا ذریعہ بنے اور مساکین کیلئے خوراک کا سبب بنے ، جس نے اس صدقہ کو نماز عید سے قبل اداکردیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اورجس نے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔ (سنن ابی دائود)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ فطر کیلئے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مقرر فرمائے ، مسلمانوں میں ہر غلام ، آزاد ، مرد، عورت ، چھوٹے ، بڑے پر اورحکم دیا کہ یہ صدقہ، عید الفطر کی نماز کیلئے روانہ ہونے سے قبل اداکردیا جائے ‘‘۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو عید سے ایک دوروز قبل ہی صدقہ فطر ادا کر دیتے تھے۔(صحیح البخاری ) صدقہ فطر ، رمضان المبارک  کے روزوں کی کوتاہیوں کاازالہ بھی ہے کہ اگر مکمل پاسداری نہ ہوسکی تو یہ لغو گفتگو، بے ہودہ وناپسند یدہ اعمال کیلئے بخشش کا زینہ بنتا ہے کہ اعمال کو آلودگیوں سے پاک کرتاہے۔صدقہ فطر ہر صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے، جو عید کے روز تک زندہ تھا، اس پر بھی اور جو اس روز پیدا ہوااس معصوم پر بھی ، کہ یہ گھر کے سربراہ کو اداکرنا ہے، اسے تو اپنے گھر کے تمام افراد، مرد ، عورت، صغیر ،کبیر ، آزاد حتیٰ کہ اپنے غلام کا فطرانہ بھی اداکرنا ہے‘‘۔(عقائد وارکان)

جمعرات، 13 مئی، 2021

حسن زکوٰۃ

 

حسن زکوٰۃ

 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک مرتبہ مجھے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے مامور فرمایا:میں اپنے فریضہ کی انجام دہی کے دوران ایک صاحب کے پاس گیا، انھوں نے اپنے گلے کے تمام اونٹ میرے سامنے پیش کئے تاکہ میں ان کی مقدار شمار کروں اورنصاب شریعت کے مطابق زکوٰۃ کا تعیّن کروں میں نے حساب لگایا کہ ان میں ایک سال کی اونٹنی بطور زکوٰۃ واجب ہے میں نے ان سے کہا کہ میاں ایک سالہ اونٹنی دے دو، وہ کہنے لگے، بھئی ایک سالہ اونٹنی کس کام آئے گی ، یہ نہ تو سواری کے قابل ہے، اورنہ ہی وہ دودھ دے گی، پھر انھوں نے اپنے ریوڑ سے ایک نہایت عمدہ ،فربہ اورتوانا اونٹنی الگ کی اورکہنے لگے یہ لے جائو ، میں نے کہا میں تواس کو قبول نہیں کرسکتا (کیونکہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے عاملین زکوٰۃ کو ہدایت فرمائی تھی کہ زکوٰۃ وصول کرتے ہوئے لوگوں کے عمدہ مال نہ وصول کرنا، بلکہ عام سی نوعیت کے جانور وصول کرنا،اورنصاب سے زائد نہ لینا)البتہ میں تمہیں مطلع کرتا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں خود بھی محوِ سفر ہیں ، اوران کا پڑائو بھی تمہارے قریب ہے، اگر تم یہ عمدہ اورنفیس مال بطور زکوٰۃ اداکرنا چاہتے ہوتو اسے براہ راست آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی خدمت عالیہ میں پیش کردو، اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اجازت مرحمت فرمادی تو میں بھی اسے وصول کرلوں گا، وہ صاحب اس اونٹنی کی مہار تھام کر میرے ساتھ چل دیئے ، جب ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں پہنچے تو انھوں نے (بڑے احسن انداز میں)آپ کی خدمت میں گزارش کی ،یارسول اللہ ! آج آپ کے قاصد میرے پاس تشریف لائے تاکہ مجھ سے زکوٰۃ وصول کریں، واللہ !اب سے پہلے یہ سعادت مجھے کبھی حاصل نہیں ہوئی کہ حضور نے یا حضور کے کسی قاصد نے مجھے سے مال طلب کیا ہو، میں نے آپ کے قاصد کے سامنے اپنے اونٹ پیش کردے ، انھوں نے فرمایا ان میں سے ایک سال اونٹنی واجب ، حضور !ایک سال اونٹنی نہ تو دودھ دے سکتی اورنہ ہی سواری کے کام آسکتی ہے، اس لیے میں نے ایک بہترین اونٹنی ان کی خدمت میں پیش کردی ، جو میرے ساتھ حاضر ہے، لیکن انھوں نے اسے قبول نہیں فرمایا: اس لیے میں آپ کی خدمت میں لایا ہوں، یارسول اللہ ، اسے قبول فرمائیے ، آپ نے فرمایا : تم پر واجب تو وہی ہے جو ابی نے بتایا ، اگر تم نفل کے طور پر زیادہ عمر کی عمدہ اونٹنی دیتے ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کااجر دے گا، انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ میں اسی لیے ساتھ لایا ہوں اس کو قبولیت سے سرفراز فرمالیں ، آپ نے اجازت مرحمت فرمادی۔(ابودائود)

منگل، 11 مئی، 2021

Dunya Ki Haqeeqat Kya Hay? - دنیا کی حقیقت کیاہے

زکوٰۃ (۵)

 

زکوٰۃ (۵)

حضرت کعب بن عیاض رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺکو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا، ہر امت کیلئے ایک فتنہ (آزمائش) ہے اورمیری امت کا فتنہ مال ہے ۔ (ترمذی) حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جو قوم بھی زکوٰۃ کو روک لیتی ہے، اللہ رب العزت اسے قحط میں مبتلا کردیتا ہے۔ (طبرانی، کنزالعمال) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ایک مرتبہ ارشادفرمایا : اے مہاجرین کی جماعت پانچ باتیں ایسی ہیں اگرتم ان میں مبتلاء ہوجائو گے (تر بڑی آفت میں پھنس جائو گے)جس قوم میں بھی علی الاعلان اورکھلم کھلا بدکاری فروغ پاجائے گی اس قوم میں ایسی نئی نئی بیماریاں پیدا ہوجائیں گی جواس سے پیشتر کبھی سننے میں نہ آئی ہوں ،اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں گے ان پر قحط مشقت اور(ظالم) حکمران کا ظلم مسلط ہو جائے گااورجو قوم زکوٰۃ کو روک لے گی ان پر بارش روک لی جائے گی اگر جانور نہ ہوں تو ایک قطرہ بارش بھی نہ ہو(جانور بھی چونکہ اللہ کی مخلوق ہیں اوربے قصور ہیں لہٰذا انکی خاطر تھوڑی سی بارش ہوجاتی ہے )جو لوگ معاہدوں اور(باہم عہد و پیمان) کی خلاف ورزی کرینگے ان پر دوسری قوموں کا تسلط ہوجائیگا جوان کی مال ومتاع کو لوٹ لیں گے اورجو لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قانون کیخلاف حکم جاری کرینگے ان میں خانہ جنگی ہوجائیگی ۔(الترغیب والترہیب) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی محتشم ﷺکا ارشادگرامی ہے جس مال کے ساتھ زکوٰۃ کا مال خلط ملط ہوجاتا ہے وہ اس مال کو ہلاک کئے بغیر نہیں رہتا ۔(بخاری فی التاریخ ، بیہقی ، بزار)
اس حدیث گرامی کے دومعانی بیان کیے گئے ایک یہ کہ جس مال میں زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو اوراس میں سے زکوٰۃ ادانہ کی گئی ہو تو یہ سارا مال زکوٰۃ کے ساتھ خلط ملط ہے اورزکوٰۃ کی یہ واجب مد اورباقی مال بھی ہلاک کردیگی، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص خود صاحب نصاب ہو لیکن خود کو مستحق زکوٰۃ اورضرورت مند باور کرواکے زکوٰۃ بھی وصول کرے تو یہ مال اسکے پہلے مال کو بھی ضائع کردے گا، فی زمانہ بہت سی خبریں ایسی سنائی دیتی ہیں کہ امیر کبیر اور آسودہ حال اہلکار، بیت المال ،زکوٰۃ اوراوقاف کا مال بلاتکلف اپنے استعمال میں لے آتے ہیں ، اسے اپنی آسائش، سہولت اورعلاج معالجہ پر خرچ کردیتے ہیں انھیں ان روایات پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنا چاہیے، غبن اوربددیانتی کسی بھی صورت میں جائز نہیں کجا کہ اسے بیت المال ، زکوٰۃ اوراوقاف کے مال میں بروئے کار لایا جائے۔

Shortclip - انسان کی اصل کامیابی

Shortclip - اللہ تعالٰی کی ملاقات کیوں اور کیسے؟

پیر، 10 مئی، 2021

Zindagi Ki Haqeeqat Kya Hay? - زندگی کی حقیقت کیاہے

Darsulquran Para-03. کیا ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دے دی ہے

زکوٰۃ (۴)

 

زکوٰۃ (۴)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس شخص کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال ودولت سے سرفراز فرمایا ہو، اوروہ اس کی زکوٰۃ نہ اداکرتا ہوتو وہ مال قیامت کے دن ایک ایسا سانپ بنادیا جائے گاجو گنجاہو اوراس کی آنکھوںپر دوسیاہ نقطے ہوں پھر وہ سانپ اس کی گردن میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا، جو اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑلے گا، اورکہے گا، میں تیرا مال ہوں ، تیرا خزانہ ہوں۔(بخاری ، مشکوٰۃ )

اس مفہوم کی احادیث حضرت عبداللہ ابن مسعود ، حضرت عبداللہ ابن عمر اورحضرت ثوبان رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں۔(الترغیب والترہیب)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے ، کوئی شخص سونے یا چاندی کا مالک ہو، اوراس کا حق یعنی زکوٰۃ ادانہ کرے تو قیامت کے دن اس سونے چاندی کے پترے بنائے جائیں گے اوران کو جہنم کی آگ میں اس طرح تپایا جائے گا، گویا کہ وہ خود آگ کے پترے ہیں، پھر ان سے اس شخص کا پہلو ، پیشانی اورکمرداغ دی جائے گی اوربار بار اسی طرح تپاتپا کر داغے جاتے رہیں گے ، قیامت کے پورے دن میں جس کی مقدار دنیا کے حساب سے پچاس ہزار برس ہوگی، اس کے بعد اس کو جہاں جانا ہوگا، جنت میں یا جہنم میں چلاجائے گا۔(مسلم، مشکوٰۃ )شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سانپ بن کر پیچھے لگنے میں اورپترے بن کر داغ دینے میں فرق اس وجہ سے ہے کہ آدمی کو اگر مجملاً مال سے محبت ہو، اس کی تفاصیل سے خصوصی تعلق نہ ہو تو اس کا مال ایک شئی واحد یعنی سانپ بن کر اس کے پیچھے لگ جائے گا، اورجس کا تفاصیل سے بھی بڑا تعلق خاطر ہواور وہ روپیہ اوراشرفی وغیرہ کو گن گن کر اور سینت سینت کررکھتا ہو ،جو مل جائے تواس سے سکے ڈھال کر رکھتا ہو تو اس کا مال پترے بناکر داغ دیاجائے گا۔(حجۃ اللہ البالغہ)حضرت علی ابن ابی طالب کر م اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے اغیاء پر ان کے اموال میں اتنی مقدار میں زکوٰۃ کو فرض کردیا ہے جو ان کے فقراء کو کافی ہے ، اور فقراء کو بھوک اورننگ اسی وقت مشقت میں ڈالتی ہے جب کہ (معاشرے کے )دولت مند افراد اپنا فریضہ (زکوٰۃ )کو روکتے ہیں یعنی اسے کماحقہ ٗ ادانہیں کرتے غور سے سن لو کہ اللہ رب العزت ان دولت مند وںسے سخت محاسبہ فرمائے گا اور انھیں (فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی وجہ سے )سخت عذا ب میں مبتلا کرے گا۔(طبرانی ، الترغیب والترہیب)


Darsulquran Para-03.کیا ہمارا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو چکا ہے

Kya Humari Zindagi Ka Koi Maqsad Hay?کیا ہماری زندگی کا کوئی مقصد ہے

زکوٰۃ (۳)

 

زکوٰۃ (۳)

حضرت عبداللہ بن معاویہ الغاضری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص تین کام کرے ، وہ ایمان کی ذائقہ چکھ لے گا، (محض) اللہ کی عبادت کرے اوراس (بات) کو اچھی طرح جان لے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر سال زکوٰۃ کو خوش دلی سے اداکرے، اور(زکوٰۃ کی مد میں)بوڑھا جانور یا خارش زدہ جانور یا بیمار اورگھٹیا قسم کا جانور نہ دے بلکہ درمیانی قسم کاجانور دے، اللہ تمہارا بہترین مال نہیں چاہتا لیکن وہ گھٹیا مال کا حکم بھی نہیں دیتا۔ (ابودائود ، الترغیب والترہیب)

مسلم بن شعبہ کا بیان ہے کہ (گورنر )حضر ت نافع بن علقمہ رضی اللہ عنہ نے میرے والد کو ہماری قوم کا امیر مقرر کیاتھا انھوں نے میرے والد کو حکم دیا کہ ساری قوم کی زکوٰۃ جمع کریں، میرے والد نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے اورجمع کرنے پر مامور کردیا، میں ایک مرد بزرگ کے پاس پہنچا جن کا نام ’’سعر‘‘ تھا انھوں نے مجھ سے استفسار کیا: بھتیجے !کس طرح کامال وصول کروگے، میں نے کہا اچھے سے اچھا لوںگا، حتیٰ کہ بکر ی کے تھن تک دیکھوں گا کہ بڑے ہیں یا چھوٹے ، (یعنی بڑی باریک بینی سے جائزہ لوں گا)انھوں نے فرمایا : پہلے میں تمہیں ایک حدیث پاک سناتا ہوں ، میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد ہمایوں میں اسی جگہ مقیم تھا ، میرے پاس دوافراد تشریف لائے اورفرمایا: ہمیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا ہے ،میں نے اپنی بکریاں ان کو دکھائیں اوران سے دریافت کیا کہ ان میں کیا چیز واجب ہے ، انھوںنے ملاحظہ کرکے بتایا کہ ان میں ایک بکری واجب ہے میں نے ایک نہایت عمدہ بکری جو چربی اوردودھ سے لبریز تھی نکالی کہ اسے زکوٰۃ کی مدمیں دے دوں ، لیکن ان صاحبان نے اسے دیکھ کرکہا، بھئی یہ میمنے والی بکری ہے، ہمیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایسی بکری وصول کرنے کی اجازت نہیں ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ پھر کیسی بکری لینا چاہوگے، انھوںنے کہا کہ چھ مہینہ کا مینڈھا یا ایک سال کی بکری ، میں نے ایک ششماہا بچہ نکال کران کو دے دیا اوروہ اسے (بخوشی )لے کر چل دیے ۔(ابودائود)

حضر ت علقمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب ہمارا وفد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو آپ نے ارشادفرمایا : تمہارے اسلام کی تکمیل اس (امر)میں ہے کہ اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو۔(البزار ، الترغیب والترہیب)

Shortclip - انسان کیوں پریشان ہے؟

Shortclip - کیا ہمارا رسمی اور پیدائشی اسلام ہمیں آخرت میں کوئی فائدہ دے...

اتوار، 9 مئی، 2021

Darsulquran Para-03. کیا ہم نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے

زکوٰۃ (۲)

 

زکوٰۃ (۲)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ (سورۃ توبہ کی)یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: ’’جو لوگ سونا اورچاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ، آپ ان کو بڑے دردناک عذاب کی خبر سنادیجئے ، وہ اس دن ہوگا جس دن اس (سونے ،چاندی کو اولاً) جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں ، پسلیوں اورپشتوں کو داغ دیا جائے گا اورکہا جائیگا کہ یہ وہ ہے جس کو تم نے اپنے لیے جمع کرکے رکھا تھا ، اب اس کا مزہ چکھو ، جس کو جمع کرکے رکھا تھا‘‘۔تو اس آیت کے نزول نے صحابہ کرام کو بہت بوجھل(اورخوف زدہ ) کردیا ( کیونکہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ تھوڑی مقدار میں سونا چاندی پس انداز کرنا بھی قابل سزاہے) حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں اس اشکال کو دورکرنے کی کوشش کرتا ہوں، وہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم   کی بارگاہ اقدس میں         حاضر ہوئے اورگزارش کی یارسول اللہ ! یہ آیت تولوگوں کو بہت بوجھل کررہی ہے ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لئے فرض کی ہے تاکہ بقیہ مال کو عمدہ اورطیب بنادے اور(آخر میں)میراث بھی تو اسی وجہ سے فرض ہوئی ہے کہ بعد میں باقی رہے، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وفور مسرت سے (بے ساختہ )کہا ’’اللہ اکبر‘‘حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشادفرمایا میں تمہیں خزانہ کے طورپر رکھنے کی بہترین چیز بتائوں ،وہ اہلیہ جو ایسی نیک خصلت ہو کہ جب خاوند اس کو دیکھے تواس کی طبیعت خوش ہوجائے اورجب وہ اسے کوئی حکم کرے تو وہ اطاعت کرے اورجب وہ کہیں چلاجائے تووہ خاتون (خاوند کی اشیاء کی ) حفاظت کرے۔ (ابودائود، مشکوٰۃ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (آیت مذکورہ کا )یہ حکم زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے ، جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوگیا اللہ جل شانہٗ نے زکوٰۃ کی ادائیگی کو بقیہ مال کے پاک ہوجانے کا سبب قرار دے دیا ۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو ہم حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے صحابہ کرام میں سے کسی نے آپ کی بارگاہ اقدس میں عرض کی یارسول اللہ! سونا چاندی جمع کرنے کا تو یہ انجام ہے اگر ہمیں یہ علم ہوجائے کے بہترین مال کیا ہے تو ہم اسے خزانہ کے طورپر جمع کرکے رکھیں آپ نے ارشادفرمایا: اللہ کا ذکر کرنے والی زبان ،اللہ کا شکر اداکرنے والا دل، اورنیک بیوی جو آخرت کے کاموں میں مدددیتی رہی۔
ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سوال کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔(تفسیر درمنشور)

Zindagi Ka Maqsad - زندگی کا مقصد

Shortclip - کیا ہماری منزل صرف دنیا ہے؟

Shortclip - کیا ہماری زندگی فضول ہے؟

جمعہ، 7 مئی، 2021

زکوٰۃ (۱)


 

زکوٰۃ (۱)

زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، تزکیہ کو عام فہم انداز میں یوں سمجھئے کہ جیسے باغ یا باغیچہ کو گوڈی کی جاتی ہے، گوڈی کرنے سے فالتو جڑی بوٹیاں اورجھاڑ جھنکار صاف ہوجاتا ہے اورزمین کی توانائی بڑھ جاتی ہے، اس کی قوت نمومیں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس میں اصل مقصد یعنی پھل پھول پیدا کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے ۔اسی طرح زکوٰۃ اداکرنے سے بھی مال ودولت کی توانائی میں اضافہ ہوجاتا ہے اس میں برکت اوروسعت پیداہوجاتی ہے۔امام ابودائود رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے اموال کو زکوٰۃ کے ذریعے سے محفوظ بنائو اوراپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو اوربلا اور مصیبت کی امواجِ (بلاخیز)کا سامنا دعاء اوراللہ رب العزت کے حضور میں عاجزی سے کرو۔ (ابودائود ، بیہقی، طبرانی)
اسی طرح ایک اورحدیث مبارکہ میں قدرے تفصیل سے بیان کیاگیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں حطیم کے اندر تشریف فرماتھے ، کسی نے تذکرہ کیا کہ فلاں افراد کا بڑا نقصان ہوگیا ہے ، سمندر کی سرکش موجیں ان کے مال کو بہا کرلے گئیں، آپ نے ارشادفرمایا ، جنگل ہویا سمند کسی بھی مقام پر جو مال ضائع ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے ضائع ہوتا ہے، اپنے اموال کی ادائیگیِ زکوٰۃ سے حفاظت کیاکرو، اپنے بیماروں کی صدقہ سے (علاج)کرو، اوربلائوں کے نزول کو دعائوں سے دور کیا کرو، دعااس بلاکو بھی زائل کردیتی ہے جو نازل ہوگئی ہواوراس بلا کو روک دیتی ہے، جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو، جب اللہ جل شانہٗ کسی قوم کی بقاء چاہتا ہے اورا س کی نموچاہتا ہے ، تواس قوم میں گناہوں سے عفت اورجودوبخشش کی خصلت عطاء کردیتا ہے اورجب کسی قوم کو نابود کرنا چاہتا ہے تواس میں خیانت پیدا کردیتا ہے۔(کنزالعمال)
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : زکوٰۃ اسلام کا (بہت بڑا اورمضبوط )پل ہے ۔(الترغیب والترہیب)پل ایک جگہ سے دوسرے مقام تک پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے اسی طرح زکوٰۃ بھی اللہ رب العزت کی بارگاہ عالیہ تک رسائی کا ذریعہ ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے حضرت عبدالعزیز بن عمیر علیہ الرحمۃ کا ارشادہے کہ نماز تجھے آدھے راستے تک پہنچادے گی ، روزہ بادشاہ کے دروازے تک رسائی بخش دے گا، اورصدقہ تجھے بادشاہ کی بارگاہ میں باریاب کردے گا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :جو شخص (اپنے)مال کی زکوٰۃ اداکردے تو اس کے مال سے شر (نقصان دوپہلو)جاتا رہتا ہے (طبرانی ، ابن خزیمہ، مستدرک )امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم شریف کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔

Shortclip - مومن کون ہے؟

Shortclip - گناہ کی معافی کیسے ہوگی؟

Kya Humara Jenay Ka Maqsad Batil Hay? - کیا ہمارا جینے کا مقصد باطل ہے

روزہ اورتربیت

 

روزہ اورتربیت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ سے روایت کیا کہ : ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے روزے کے سواہر عمل اپنے لیے کیا ہے مگر روزہ ۔کیونکہ وہ یقینامیرے لیے ہی ہے اسکی جزا میں ہی دوں گا اورروزہ ڈھا ل ہے جب تم میں سے کوئی شخص روزہ دار ہوتو وہ بے ہودہ گوئی اورفحش گوئی سے اجتناب کرے اگرکوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے میں روزہ دار ہوں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (ﷺ ) کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار ہوگی۔ روزہ دارکو دوخوشیاں حاصل ہوں گی جن سے وہ خوش ہوگاجب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو افطار سے خوش ہوتا ہے اورجب وہ اپنے رب سے ملاقات کریگا تو روزے سے خوش ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم)روزہ ، تربیت اخلاق کا وسیلہ ہے ، اس میں بعض حلال اشیاء سے اور بعض جائز اعمال سے رکنے کی شعوری مشق کرائی جاتی ہے ، ایک ماہ کے مسلسل عمل سے انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ خود محسوس کرنے لگے کہ جب جائز خواہشات واشیاء سے رکنے کا کہاگیا ہے اوراس نے اس ممانعت کو اپنا لیا ہے تو پھر وہ ان خواہشات واشیاء کو کیوں کر اپنائے گا جن سے ہمیشہ کیلئے رکنے کا حکم دیا گیا ہے ، وہ سوچتا ہے کہ حکم دینے والی ذات تو ایک ہے کبھی اورکسی وقت اس کا حکم مان لیا جائے اور کبھی انکار کردیا جائے، یہ کیسی بے ترتیبی ہے، وہ خالق ومالک ہے اورہر وقت ہر جگہ اورہر آن ہے تو اسکے احکام کو جزوی طور پر ماننا کیسے مناسب ہے؟سچی بات یہ ہے کہ جب حکم کی عظمت دل پر نقش ہوجاتی ہے تو خواہشات کیسی شدید بھی ہوں، اطاعت پسندی اور نیک نفسی کے مضبوط حصار کو نہیں توڑ سکتیں ، بدی کی پسپائی کا عمل جو روزہ سے شروع ہوتا ہے آہستہ آہستہ انسانی طبیعت کا مستقل عمل بن جاتا ہے، اس سے باطنی استحکام ہی نہیں ظاہری استقامت بھی پیدا ہوجاتی ہے ، پھر زندگی میں متانت ، جذبوں میں ٹھہرائو اوراعمال میں نظم پیدا ہوتا ہے، روزہ دراصل تربیت کردار کا سالانہ ریفریشر کورس ہے جس سے بے راہ روی کی گرد دھل جاتی ہے، جسم پاک وتوانا اور روح تابندہ وبیدار ہو جاتی ہے۔ روزہ کا جوہر داخلی انقیاد ہے، اس سے اطاعت کے جذبوں کو فروغ ملتا ہے اور خالق پر اعتماد کا عملی اظہار ہوتاہے۔ یہ ایمان باللہ کی نمایاں ترصورت ہے، بے پناہ اعتماد ، بھر پور یقین اورکامل ایمانی رویے روزے کے مظاہر ہیں، روزہ دار اپنے خالق سے وفاشعاری اورپر خلوص بندگی کا عہد باندھتا ہے، ایسا عہد جس میں پورے وجود کی شرکت ہوتی ہے، یہ ہمہ گیر تو انائیوں کو سلیقہ مندی کے ساتھ بروئے کار لاکر عبدیت کا اعلان ہے۔ یہ عہد کی عملی پاسداری ہے جو ہر سال تجدید عہد کے اجلے پن سے مضبوط ہوتی ہے۔(عقائد وارکان)

جمعرات، 6 مئی، 2021

Darsulquran Para-03 - کیا خواہشات نفسانی کو ہم نے اپنا حقیقی معبود سمجھ ...

Shortclip - جنت میں کون جائے گا؟

Kya Hum Zindagi Ko Zaya Kar Rahay Hain? کیا ہم زندگی کو ضائع کر رہے ہیں

روزہ داروں کو بشارت

 

روزہ داروں کو بشارت

 جنت میں بات الریان روزہ داروں کے لیے ہی خاص ہے ،حضرت سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ، کہاجائے گا روزہ دار کہاں ہیں۔ وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے، اس دروازے سے ان کے سواکوئی داخل نہ ہوسکے گا جب وہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا اوراس میں اورکوئی داخل نہ ہوگا۔‘‘(صحیح بخاری)

 روزہ احکام الٰہی کی تعمیل میں کھانے ،پینے اورشہوات سے بچے رہنے اورتمام خواہشات کو پابند آداب بنانے کا نام ہے، یہ حقیقت ہے کہ نفس انسانی پر ہمہ وقت خواہشات کی یلغار ہوتی ہے، یہ چوبائی حملہ ہوتا ہے اس کی گرفت سے بچنا اوراس کی لذات کے حملوں سے محفوظ رہنا، بہت محنت کا کام ہے، روزہ اس دفاعی جنگ میں انسان کا معاون ہے ، یہ برائی کے سامنے حفاظتی ڈھال ہے ، اس ڈھال کو مضبوط رہنا چاہیے اس لئے کہ محارم کی خواہش اوربداعمالیوں کی چمک بڑی منہ زورہوتی ہے ، کبھی توحفاظتی دیوار پر بھی حملہ آور ہوتی ہے، یہ انسان کے اپنے مفاد میں ہے کہ اس دفاع کو مضبوط اورناقابل تسخیر بنائے تاکہ سلامتی کی تسکین حاصل رہے۔

 روزہ ، دیگر عبادات سے اس لئے بھی منفرد ہے کہ اس میں فرض کی ادائیگی، داخل کا معاملہ ہے ، یہ ضمیر کا عمل ہے قانون کی حکمرانی اورضابطوں کی پابندی زیادہ تر خارجی عمل پر ہوتی ہے ، انسان کو مجبور کیاجاتاہے کہ وہ حکم مانے اور قانون کے مطابق زندگی گزارے، اس تسلیم ومطابقت کے لئے ضابطے بنائے جاتے ہیں، ان کی پاسداری کے لئے طاقت استعمال کی جاتی ہے اورکوتاہی پر سزادی جاتی ہے ، اس کڑے انتظام کے باوجود ،انسان احکامات کو بجالانے میں خوش دلی کا اظہار کم ہی کرتا ہے بلکہ اپنے اوپر جبر محسوس کرتا ہے اورجب بھی موقع ملے تو حکم توڑنے پر دلیر ہوجاتا ہے،سوچئے اگر خارج کا یہ حکم داخل کا تقاضا بن جائے توا س کی بجا آوری کا ذوق کیسا ہوگا؟ کیا اس سے اطاعت کی روح ہی نہ بدل جائے گی؟ 

 سچی بات یہ ہے کہ اگر عمل کا محرک، خارج کے حکم سے زیادہ اندر کا جذبہ ہوتو تعمیر سیرت کی فضا مختلف ہوگی کہ حسن کردار کی نمود ہونے لگے گی ، روزہ اسی داخلی فضا کو قائم کرنے کا ذریعہ ہے ، یہ خالق ومخلوق کا وہ رابطہ ہے جس سے دل کی دنیا میں انقلاب آتاہے ، نیکی حکم نہیں ، خواہش بن جاتی ہے اورضمیر نیکیوں کا متلاشی ہوجاتاہے ، ایسے وجود پر کوئی خارجی حکم سے گناہ طاری کرنے کا دبائو بھی ڈالے تو اندر کا ایقان اورداخل کا جذبہ ، خارج کے عمل کو غیر مستقیم نہیں ہونے دیتا، زندگی یوں مربوط اورمنضبط ہوجائے تو ذات کی روشنی اوراندر کا ٹھہرائو پورے معاشرے کو منور اورمستحکم بناتا ہے۔(عقائد وارکان)


حکمت و دانش

  حکمت و دانش حکمت کا ایک کلمہ انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔ دانش کی کہی ہوئی ایک بات انسانی فکر کو تبدیل کر دیتی ہے اوربصیرت بھرا ایک ج...