جمعرات، 31 اگست، 2023

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(۳)


 

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(۳)

حضور داتا صاحب کی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب ہے۔کشف المحجوب علوم تصوف پر فارسی زبان میں ایک عظیم تصنیف ہے جسے تصوف کے آئین کا درجہ دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ یہ تصوف کے ارتقائی منازل کی ایسی پر تاثیر اور نادر اسرار و رمواز اور صوفیانہ فکرو و نظر کے متعلق ہر دور میں عظیم تخلیق قرار دی گئی ہے۔ اس گنجینہ رشدو ہدایت کے بارے میں حضرت نظام الدین اولیا ء کا ارشاد ہے کہ ’’ اگر کسی کا پیر نہ ہو تو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے تو اسے پیر مل جائے گا ‘‘۔ داتا صاحب نے یہ کتاب اپنی عمر کے آخری حصے میں لکھی۔ کشف المحجوب کی ترتیب یہ ہے کہ حضور داتا صاحب نے اپنے ہم وطن ابو سعید ہجویری کا ایک سوال نقل کیا ہے۔ اس میں سائل نے طریقت تصوف کی تحقیق کا بیان داتا صاحب سے چاہا ہے۔ اور صوفیوں کے مقامات ، ان کے مذاہب و مقالات اور ان کے رموز واشارات کی تشریح آپ سے طلب کی ہے۔ محبت خدا اور اس کی دلوں میں ظاہر ہونے والی کیفیت پوچھی ہے۔ اس کی کنہ و ماہیت سمجھنے میں عقلوں پر جو حجاب چھا جاتے ہیں ان کا سبب دریافت کیا ہے۔ داتا صاحب نے یہ ساری کتاب اس سوال کے جواب میں لکھی ہے۔انہوں نے ابتدائے اسلام سے شروع کر کے تصوف کا پورا حال بیان کیا ہے۔ صحابہ کرام ، اہلبیت،تابعین ، تبع تابعین اور متاخرین ، صوفی اماموں کو اور پھر عرب وعجم کے صوفیاں کوگِنا ہے۔ اس کے بعد کتاب کا اہم ترین باب صوفی فرقوں کا فرق ، ان کے مذہب وآیات و مقامات و حکایات اور اس باب میں گیارہ فرقوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اور اکثر فرقوں کا حال بیان کرنے میں تصوف کے 
ایک یا زیادہ نکتوں کی مفصل تشریح کی ہے۔ اس باب کے بعد کشف وحجاب کے گیارہ باب لکھے ہیں جن میں تصوف کے نقطہ نظر سے ارکان اسلام کی تشریح کی ہے۔ صحبت کے آداب و احکام بیان کیے ہیں۔ صوفیوں کی اصلاحات کی تشریح کی ہے اور آخر میں سماع اور اس کے نواع پر لکھا ہے۔یوں تو صوفیائے کرام کے حالات اور اصول تصوف کے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گئیں ہیں لیکن یہ کتابیں عربی میں ہیں۔ ’’کشف المحجوب‘‘ فارسی زبان میں تصوف کی پہلی کتاب ہے۔ مگر اس میں تصوف کی تمام اصطلاحیں عربی میں ہیں حضور داتا صاحب اصول تصوف کے ماہر ہیں اسی حیثیت سے انہوں نے یہ کتاب لکھی اور ان کا انداز مؤرخانہ نہیں ہے۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ ’’ یہ کتاب راہ حق بتاتی ہے ، کلمات کی شرح کرتی ہے اور مختلف پردے کھولتی اور ہٹاتی ہے ‘‘۔

Surah Al-Tawba ayat 90-93.کیا ہم مخلص مومن ہیں

Surah Al-Tawba ayat 88-89.اللہ تعالی نے جنت ہمارے لئے بنائی ہے

بدھ، 30 اگست، 2023

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ(۲)

 

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ(۲)

حضرت داتا صاحب کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔ پانچویں صدی ہجری میں پنجاب میں محمود غزنوی کے متواتر حملوں کی وجہ سے اگرچہ مسلمانوں کی سطوت و جبروت کا سکہ دلوں میں بیٹھ چکا تھا لیکن ان حملوں کی وجہ سے اور کچھ دوسری وجوہات سے غیر مسلموں کا رد عمل مسلمانوں کے خلاف سخت تھا اور ان کے دل اسلام دشمنی کے جذبات سے لبریز تھے۔
ایسے حالات میں اس ملک میں پہنچ کر ان لوگوں کے درمیان اسلام کی تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس کام کے لیے ایسے شخص کی ضرورت تھی جو عالم وعارف ہو، جس کا یقین اور ایمان پہاڑ کی طرح محکم ہو ، جس میں تاریک روحوں کو نور اسلام سے منور کرنے کا بے پناہ جذبہ ہو جو آہنی عزم کا مالک ہو اور حالات کا غلام نہ ہو، جس کی روحانی قوت ایسی ہو کہ دشمن کو دوست بنا لے اور جسے اپنے بلند مقصد کے حصول کے مقابلے میں اپنے آرام و سکون کی کوئی پرواہ نہ ہو۔ ایسا پیر کامل اور کاملوں کا رہنما جلیل القدر اور عظیم الشان بزرگ حضرت داتا صاحب ہی تھے۔رائے راجو کا سورج بنسی کثری راجپوت رائے خاندان سے تعلق رکھتا تھا خاندانی خصائل کے علاوہ علم نجوم ، ریاضی اور مذہبی علوم میں ایک ممتاز مقام رکھتا تھا اور غیر مسلم اقوام میں بہت اثرو رسوخ کا مالک تھا۔ جب اس کا سامنا حضرت داتا صاحب سے ہوا تو آپ کے ہاتھوں حلقہ بگوش اسلام ہوا اور یہ پہلا ہندو راجپوت تھا جس نے اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے بعد آپ نے اس کا نام عبد اللہ رکھا اور ظاہری اور باطنی تربیت فرمائی۔اس کے علاوہ سینکڑوں ہندوں اور دوسرے غیر مسلموں نے آپ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔
جب حضرت خواجہ معین الدین چستی اجمیری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو خواب میں حضور نبی کریم ﷺنے لاہور کے راستے سے ہوتے ہوئے اجمیر شریف میں ڈیرہ لگانے کا کہا تو حضرت خواجہ غریب نواز نے لاہور میں حضور داتا صاحب کے مزار پر قیام کیا اور تقریبا ً چھ ماہ تک ذکر و فکر کرتے رہے اور فیوض و برکات سمیٹتے رہے جب آپ حضرت داتا صاحب سے فیضیاب ہو کر جانے لگے تو آپ نے فرمایا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا 
ناقصاں را پیر کامل کا ملاں را رہنما
داتا صاحب نے اپنی زندگی کے آخری سال لاہور میں گزارے۔ یہ غزنویوں کا دور تھا۔ آ پ نے یہاں اپنا وقت اشاعت اسلام ، تلقین اور تدریس علوم میں صرف کیا اور یہی آپ نے انتقال فرمایا۔

منگل، 29 اگست، 2023

Surah Al-Tawba ayat 86-87.کیا ہمارے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے

Surah Al-Tawba ayat 83-25.کیا ہم مال و اولاد کی فراوانی پر خوش ہوتے ہیں

Shortvideo - Mujahid koon hay?

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ (1)

 

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ (1)

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا نام علی اور اْ ن کے والد کا نام عثمان تھا۔ اْن کا پورا نسب علی بن عثمان بن علی الجلابی ثم الہجویری الغزنوی ہے اور آپ کی کنیت ابو الحسن ہے۔
 ’’حدائق الخفیہ‘‘ میں ہے کہ آپ کا شجرہ نسب حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچتاہے۔آپ کا تمام گھرانہ زہد و تقوی کا گھرانا تھا۔ ’’سفینۃ الا ولیاء " میں ہے کہ حضرت داتا گنج بخش کی اصل افغانستان کے شہر غزنوی سے ہے۔ جلاب اور ہجویر غزنی کے دو محلے ہیں۔ آپ پہلے ایک محلے میں رہتے تھے پھر دوسرے محلے میں رہے اس لیے آپ کو کبھی جلابی اور کبھی ہجویری کہا جاتا ہے۔
کشف المحجوب میں ہے کہ طریق تصوف پر گامزن ہونے سے پہلے آپ پر ایسا دور بھی گزراہے کہ جب آپ عراق میں مقیم اور دنیا طلبی اور فنا اموال میں بے چینی کے ساتھ مصروف تھے اس زمانے میں آپ نے قرض بھی بہت لے لیا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہر کسی کی بے ہودہ فرمائش مجھے پورا کرنا پڑتی تھی۔ لوگ میری طرف رخ کرتے تھے اور میں ان کی خواہشات کو سر انجام دینے کی مشکل میں گرفتار تھا۔ 
اس وقت سیدانِ وقت میں سے ایک نے مجھے خط لکھا اور کہا دیکھو بیٹا ! جو دل ہوا ہوس میں مشغول ہے اس کی خاطر تم اپنے دل کو اللہ تعالی سے نہ ہٹائو۔ وہاں اگر تم ایسے دل کو پائو جو تمہارے دل سے گرامی تر ہو تو اس دل کو راحت دینے کی خاطر تم بیشک اپنے آپ کو مشغول کرو ورنہ رک جائواس لیے کہ بندوں کے لیے خدا خود کافی ہے۔ داتا صاحب لکھتے ہیں اس بات سے مجھے فوری دل کو سکون حاصل ہوا۔
ویسے تو داتا صاحب نے بہت سے مشائخ سے فیض پایا ہے لیکن حضرت ابو العباس السقانی کی نسبت سے آپ لکھتے ہیں کہ مجھے ان سے کمال انس تھا اور وہ بھی مجھ سے سچی شفقت فرماتے تھے۔بعض علوم میں وہ میرے استاد تھے۔ یہ بزرگ نہ صرف اہل تصوف کے بزرگان اجل میں سے تھے بلکہ مختلف اصولی اور فروعی علموں میں امام بھی تھے۔ علم باطن میں داتاصاحب نے شیخ ابو الفضل محمد بن حسن سے فیض پایا۔
جناب ختلی کے بار ے میں داتا صاحب فرماتے ہیں کہ طریقت میں میں ان کا پیرو ہوں وہ علم تفسیر و روایات کے عالم تھے۔ داتا صاحب فرماتے ہیں میں نے ان سے سنا ہے’’ دنیا ایک دن کی چیز ہے اور ہم اس میں روزے سے ہیں‘‘۔یعنی اس میں سے کوئی حصہ قبول نہیں کرتے اور اسکے بند میں نہیں پھنستے اس لیے کہ اس کی آفت کو دیکھ چکے ہیں اور اس کے حجابوںسے واقف ہیں۔

پیر، 28 اگست، 2023

Surah Al-Tawba ayat 82.کیا ہم نے اللہ تعالی کے حکم کے سامنے اپنا سر جھکا...

Surah Al-Tawba ayat 81. کیا ہم جہنم کی گرمی کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں

Shortvideo - Mujahida kya hay?

قرآن

 

قرآن

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کی حقیقی معنوں میں فلاح کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ کتابیں تو اور بھی بہت ہیں بڑی ضخیم، بڑی ادق  اور بڑی دل آویز لیکن اس کتاب کی شان ہی نرالی ہے ۔ یہ صحیفہ بیک وقت کتاب بھی ہے اور علم و معرفت کا آفتاب بھی ، جس میں زندگی کی حرارت اور ہدایت کا نور دونوں یک جاں ہیں ۔اس کا حسن و جمال قلب اور نگاہ کو یکساں متاثر کرتا ہے ۔ اس کی تجلیات سے دنیا و عقبی دونوں جگمگارہے ہیں ۔ اس کا فیض ہر پیاسے کو اس کی پیاس کے مطابق سیراب کرتا ہے ۔ اس کا پیغام اگر عقل و خرد کو لذت بخشتا ہے تو قلب و روح کو بھی شوق فراداں سے مالا مال کرتا ہے ۔ اس کی تعلیم نے انسان کو خود شناس بھی بنایا اور خدا شناس بھی ۔ 
یہ کتاب مقدس ہر لحاظ سے سراپا اعجاز ہے ۔ اس کا ہر پہلو اتنا دلرُبا ہے کہ اپنے پڑھنے والے کو مسحور کر دیتا ہے ۔ اس لیے جب اس کا نزول ہوا اس نے اپنی فطری جاذبیت سے ، نوع ِ انسانی کے ہر طبقہ سے سنجیدہ اور ذہین افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ 
قرآن مجید کا مقصد اولین انسان کی اصلاح ہے ۔ تربیت پہیم سے اس کے نفس امارہ کو نفس مطمئنہ بنانا ہے ۔ ہوا و ہوس کے غبار سے آئینہ دل کو صاف کر کے اسے انوار ربانی کی جلوہ گاہ بنانا ہے ۔ انا نیت و غرور ، تمر دو سر کشی کی بیخ کنی کر کے انسان کو اپنے مالک حقیقی کی اطاعت و انقیاد کا خو گر کرنا ہے ۔ یہی کام سب سے اہم بھی ہے اور سب سے مشکل بھی اور کٹھن بھی ۔
 قرآن مجید نے اسی اہم ترین اور مشکل ترین کام کو سر انجام دیا اور  اس حسن خوبی سے دنیا کا نقشہ بدل دیا ۔قرآن مجید کی ہدایت سے بگڑا ہوا انسان سدھر  جاتا ہے اور ساری کائنات کے لیے یہ رحمت بن جاتا ہے ۔ 
قرآن مجید اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے ۔ اور یہ ضابطہ اتنا وسیع ہے جتنی زندگی اپنے بو قلموں تنوع کے ساتھ وسیع ہے ، بلکہ بلا مبالغہ اس سے بھی وسیع تر ۔انسان کیا ہے ؟ اس کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے اور مخلوق سے کیسا ہونا چاہیے ؟ اگر وہ حاکم ہے تو اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ اگر وہ رعا یا ہے تو اس کے فرائض کیا ہیں ؟ اگر وہ دولت مند ہے تو زندگی کیسے گزاری اور اگر فقیر ہے تو کس طرح باوقار زندگی بسر کر سکتا ہے ؟ عبادات ، سیاسیات ، معاشیات اور نظام اخلاق وغیرہ تمام امور کا قرآن مجید میں جواب موجود ہے ۔  

اتوار، 27 اگست، 2023

Surah Al-Tawba ayat 79-80 .کیا ہم نے اللہ تعالی اور اس کے رسول سے کفر کا...

Surah Al-Tawba ayat 75-78 . کیا ہم نے اللہ تعالی سے کوئی وعدہ کیا ہوا ہے

Shortvideo - Akhir nabi kay rastay par hee kyoon?

جسم کا حق

 

جسم کا حق

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عبادت کی کثرت اور مشقت سے اپنے نفس کو تکلیف نہ پہنچائے نہ ساری رات جاگے اور نہ ہمیشہ روزہ رکھے نفس کو آرام بھی پہنچائے ۔ ( مسلم شریف)ایک حدیث میں آتا ہے کہ اپنے نفس کے متعلق یہ نہ کہے ’’میرا نفس خبیث ہو گیا ہے ‘‘ بلکہ یہ کہے ’’ میرا نفس کاہل ہو گیا ہے ‘‘َ ( بخاری شریف) ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اپنے نفس کو ایسی آزمائش میں نہ ڈالے جو اس کے لیے نا قابل برداشت ہو ( ابن ماجہ ) ۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا  اپنے نفس سے جہاد کرے یعنی اپنے نفس کو اللہ کے حکم کے تابع بنائے ۔ ( مسند احمد) دنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے ہیں ان میں سے اکثر میں معاشرتی حقوق کو اہمیت دی گئی ہے اور سب سے زیادہ اہمیت ہر مذہب نے والدین کے حقوق کو دی ہے ۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اسلام بھی والدین کے حقوق کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ مگر حقوق کے معاملے میں اسلام نے یہ امتیاز قائم کیا ہے کہ اس نے انسانی حقوق کی درجہ بندی کے ساتھ تٖفصیل بھی مہیا کر دی ہے اور حقوق کی فہرست میں تمام ممکنہ جزئیات کو اس طرح اکٹھا کیا ہے کہ کوئی نقطہ باقی نہیں رہا ۔ انسانوں کے حقوق جو انسانوں پر ہیں ان کے علاوہ حیوانات اور نباتات اور جمادات کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے ۔ انسان پر نفس کاجو حق ہے اس کو بھی بدرجہ کمال اہمیت دی گئی ہے ۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر انسان کا خود اپنے اوپر بھی حق ہے ۔ بلکہ اس کے ایک ایک عضو کا اس کے اوپر حق ہے ۔ بخاری شریف میں ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک تیری جان کا تجھ پر حق ہے ۔ ایک حدیث میں ابن آدم کو تین اشیاء کے علاوہ کسی چیز پر حق نہیں ۔ رہنے کے لیے مکان ، پہننے کے لیے کپڑا اور کھانے کے لیے کھانا ۔ اس حدیث میں بھی نفس کی اہمیت اور اس کی حق بندی کا درس ملتا ہے ۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’تیرے بدن کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری آکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے ۔ بعض مذاہب میں اس بات کو تقوی اور پرہیز گاری سمجھا جاتا تھا کہ انسان اپنے جسم کے اعضا کو زیادہ سے زیادہ مشقت میں ڈالے رکھے ۔ نفس کی خواہشات کو مختلف غیر فطری طریقے سے ہلاک کرنے کی کوشش کرے ۔مگر اسلام نے پوری قطعیت کے ساتھ ان غیر فطری اصولوں پر پابندی لگا دی اور اسلام نے یہ تعلیم دی کہ رہبانیت اور تقشف یعنی اوپر سختیاں عائد کرنا اسلام کی نگاہ میں مطلوب طریقہ عبادت نہیں بلکہ اسلام اس کا مخالف ہے ۔

Surah Al-Tawba ayat 73-74 .کیا اس وقت ہم عذاب الہی میں گرفتار ہیں

Surah Al-Tawba ayat 71-72 Part-02.کیا ہم یقینی طور پر جنتی ہیں

Shortvideo - Akhir islam hee kyoon?

ہفتہ، 26 اگست، 2023

دعوت دین (۲)


 

دعوت دین (۲)

امت مسلمہ کا ہر فرد انفرادی طور پر دین کا داعی ہے اور اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بساط ، استعداد اور صلاحیت کے مطابق کام کرے اور اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہے۔ اس ضمن میں انبیاء کرام علھم السلام کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ اور نمونہ عمل ہیں۔ انہوں نے جس طرح دعوت کاکام اولاً انفرادی سطح پر بطور داعی سر انجام دیا۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس انفرادی داعیانہ کردار کا تذکرہ موجود ہے۔ قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کے دعوت حق دینے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پا ک فرماتاہے : ’’نوح (علیہ السلام ) نے عرض کیا : اے میرے رب ! بیشک میں اپنی قوم کو رات دن بلاتا رہا۔(سورۃ نوح)حضرت موسی علیہ السلام کے داعیانہ کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :’’ اور اے میری قوم ! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہو ں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلاتے ہو‘‘۔(سورہ المومن)حضور نبی کریم ﷺ کو منصب دعوت پر فائز کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:’’ اور اس کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منور کرنے والا آفتا ب (بناکر بھیجا ہے)‘‘ (سورۃ الاحزاب)۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : (اے رسول ؐ) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف بلائیے ‘‘۔(سورۃ النحل)
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :’’ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں ‘‘۔(سورۃ التوبہ) اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو انفرادی طور پر دعوت دین آگے پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیاہے۔اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے ہر مرد داعی بن کر دعوت دین کا فریضہ سر انجام دے۔اور آقا دو جہاںؐ کی سنت دعو ت کو زندہ کرنے والا بن جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، جس پر سخت مزاج طاقتور فرشتے (مقرر) ہیں جو کسی بھی امر میں جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام انجام دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ‘‘۔(سورۃ التحریم)
اس کے علاوہ اجتماعی طور پر بھی دعوت دین کا حکم دیا گیا ہے : ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ‘‘۔(سورۃ آل عمران)ان احکام کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ ہم انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی دعوت دین کا فریضہ سرانجام دیں۔

Surah Al-Tawba ayat 71 Part-01.کیا ہم میں مومنانہ صفات پائی جاتی ہیں

Surah Al-Tawba ayat 70.کیا ہم پر لازمی عذاب الہی وارد ہوگا

جمعہ، 25 اگست، 2023

دعوت دین (۱)


 

دعوت دین (۱)

اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کی پہچان اور نیکی اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کی خواہش ودیعت فرما دی ہے۔ اس اعتبار سے انسان ایک اعلی خلقت اور ایک بلند فطرت لے کر دنیا میں آیا ہے۔ انسان اس بات کا اہل ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ سے نیکی کو قبول اور بدی کو رد کر کے اللہ تعالی کے ہاں انعام کا،  اور خیر کی جگہ شر کا راستہ اختیار کر کے اپنے اس خلاف فطرت کام پر سزا کا مستوجب قرار پائے۔ لیکن اگر ایک طرف انسان میں یہ پہلو خوبی اور کمال کا ہے تو بعض اعتبارات سے خلا اور نقص بھی ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالی نے نہ دنیا میں انسان کی ہدایت و ضلالت کے معاملہ کو تنہا اس کی فطرت پر چھوڑا ہے ، نہ صرف آخرت میں اس کو جزا اور سزا دینے کے لیے اس کی فطری رہنمائی کو کافی قرار دیا ہے۔ بلکہ فطرت کے تقاضوں کے مطابق اس کی مخفی قابلیتوں کو آشکار کرنے اور خلق پر اپنی حجت تمام کرنے کے لیے اللہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا تا کہ لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور قیامت کے دن لوگ یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ ان کو نیکی اور سچائی کا راستہ بتانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس وجہ سے وہ گمراہی کی راہوں میں بھٹکتے رہے۔ 
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے۔"رسول جو خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے تھے ( اس لیے بھیجے گئے ) تا کہ (ان) پیغمبروں (کے آ جانے) کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی عذر باقی نہ رہے ، اور اللہ بڑا غالب حکمت والا ہے ‘‘۔(سورۃ النسائ) ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
’’ اے اہل کتاب ! بیشک تمہارے پاس ہمارے رسول ﷺ پیغمبروں کی آمد (کے سلسلے ) کے منقطع ہونے (کے موقع) پر تشریف لائے ہیں۔ جو تمہارے لیے (ہمارے احکام )خوب واضح کرتے ہیں ، (اس لیے) کہ تم کہہ دو گے کہ ہمارے پاس نہ کوئی خوشخبری سنانے والا آیا ہے اور نہ ہی ڈر سنانے والا۔ بلا شبہ تمہارے پاس خوشخبری سنانے والا اور ڈرسنانے والا آگیا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے ‘‘۔ (سورۃ المائدہ)
 اللہ تعالی نے ہر قوم کی ہدایت کے لیے رسول اور انبیاء بھیجے تا کہ لوگوں پر حق کو اچھی طرح واضح کر دیں اور کوئی عذر باقی نہ رہے۔ انبیاء کرام نے اپنی ذمہ داریوں میں سے جس ذمہ داری پر سب سے زیادہ زور دیا وہ دعوت کی ذمہ داری تھی۔ یہ دعوت انفرادی بھی ہے اور معاشرتی بھی ، قومی بھی اور بین الاقوامی بھی ہے۔ اصلاح معاشرہ اور ریاست کا آغاز فرد سے ہوتا ہے اس لیے دعوت دین کا پہلا ہدف بھی فرد ہے۔

جمعرات، 24 اگست، 2023

اذکار


 

اذکار

قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر ’’ذکر ‘‘ کی تلقین کی گئی ہے ۔ بعض جگہوں پر اللہ تعالی نے قرآن 
کو ذکر سے تعبیر کیا ہے ۔ یعنی ہر آیت ذکر کا مفہوم پیش کرتی ہے ۔ 
ذکر اور راہ فلاح : قرآ ن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :’’اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تا کہ تم فلاح پائو ‘‘۔
ذکر اور معاشیات : ’’ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو (اپنے کاموں کی طرف ) زمیں میں پھیل جائو اور اللہ 
کا فضل تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تا کہ تم فلاح پائو ‘‘۔
ذکر سے غفلت کا نتیجہ معاش: ارشاد باری تعالی ہے : اور جو میرے ذکر سے منہ موڑ ے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت اسے اندھا اٹھایا جائے گا ‘‘۔  
ذکر اور تسکین قلب : ارشاد باری تعالی ہے :’’ (یہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل یاد خدا
 سے مطمئن ہو جاتے ہیں یاد رکھو ! ذکر خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے ‘‘۔ 
ذکرِ کثیر : ارشاد باری تعالی ہے :’’ اے ایمان والوں ! اللہ کو بہت کثرت سے یاد کیا کرو ‘‘۔
ہر کیفیت میں ذکر کرنے کا حکم : ’’ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :’’ جو اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں ‘‘۔
ذکر اور اسلوب یزداں :ارشاد باری تعالی ہے:’’ لہذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا ‘‘۔ ’’پس جو چاہے اسے یاد رکھے ‘‘۔ 
ذکر اور توبہ : ارشاد باری تعالی ہے : ’’اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سر زد ہو جائے یا وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھیں تو اسی وقت خدا کو یاد کرتے ہیں ‘‘۔
ذکر اور نماز : ارشاد باری تعالی ہے ’’ اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں ‘‘۔
ذکر اور حج : ارشاد باری تعالی ہے : ’’ پھر جب تم عرفات سے چلو تو مشعرالحرام (مزدلفہ) کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے ، حالانکہ اس سے پہلے تم راہ گم کئے ہوئے تھے ‘‘۔
ذکر اور زکوۃ :زکوۃ کا قرآن مجید میں جہاں بھی ذکر آیا ہے وہاں عموما ً نماز کا بھی حوالہ ملتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں‘‘۔
ذکر اور درود : ارشاد باری تعالی ہے :’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے ‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : ’’ بیشک اللہ اور اس کے فرشتے آ پ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو ! (تم بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو‘‘۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے کہ ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے ۔( بخاری شریف ) 

بدھ، 23 اگست، 2023

خیر التابعین حضرت سیدنااویس قرنی ؓ (۳)

 

خیر التابعین حضرت سیدنااویس قرنی ؓ (۳)

خیر التابعین حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ دعا میں مشغول تھے کہ حضرت عمر اور حضرت علی آپ کے سامنے آ گئے حضرت اویس قرنی نے کہا اگر آپ لوگ جلدی نہ کرتے تو میں حضور ﷺ کی ساری کی امت بخشش کروا لیتا ۔ اب میری شفارش پر اللہ تواللہ تعالی نے بنو ربیعہ اور بنو مضر کے بکروں کے بالوں کے برابر امت کی بخشش فرما دی ہے یہ کہہ کر آپ نے پیراہن مبارک پہن لیا ۔
حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ اور ملا علی قاری بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت آیا تو حضرت سیدنا اویس قرنی حضرت علی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور حضرت علی کی صحبت میں رہے ۔ پھر حضرت علی کے لشکر میں شامل ہو ئے اور جنگ صفین میں حصہ لیا اور جام شہادت نوش فرمایا ۔
خیر التابعین حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے اقوال و ملفوظات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔آپ فرماتے ہیں 
:(۱)میں نے بلندی طلب کی اور اس کو تواضع میں پایا ۔ (۲) میں نے سرداری طلب کی اور اس کو عوامی خیر خواہی میں پایا ۔ (۳) میں نے مروت کو طلب کیا اور اس کو سچائی میں پا یا۔ (۴) میں نے فخر کو طلب کیا اور اس کو فقر میں پایا ۔ (۵) میں نے نام و نسب کو طلب کیا اور اس کو پرہیز گاری میں پایا ۔(۶) میں نے بزرگی طلب کی اور اسے قناعت میں پایا ۔ (۷) میں نے راحت کو طلب کیا اور اسے زہد میں پایا ۔(۸)حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں جس شخص کو ان تین باتوں سے محبت ہو وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے : اچھا کھانا ، اچھا پہننا اور امیروں کی صحبت میں بیٹھنا ۔(۹) جن لوگوں کے دلوں میں شک ہوتا ہے وہ قبول حق سے محروم رہتے ہیں (۱۰) جو شخص اللہ تعالی کو پہچان لیتا ہے اللہ تعالی اس سے کوئی چیز مخفی نہیں رکھتا ۔(۱۱) اپنے آپ کو عبادت الہی کے لیے وقف کر دو لیکن جب تک عبادت پر یقین نہیں ہو گا عبادت قبول نہیں ہو گی ۔ (۱۲) لوگوں کے لیے غائبانہ دعا کرنا ان کی ملاقات سے بہتر ہے کیونکہ اس سے ریا پیدا ہوتا ہے ۔(۱۳)اپنے رب کی طرف دوڑتے رہو اور قوت بسری کا خیال دل میں مت لائو۔ (۱۴)میری نصیحت تم لوگوںکے لیے اللہ کتاب ، رسول پاک ﷺ کی سنتیں اور نیک و کار اہل ایمان کا وجود ہے ۔(۱۵) جب تک زندہ ہو تھوڑے پر قناعت کرو اور خوشی اطمینان سے رہو اور جو کچھ عطا ہو اس پر خدا کا شکر ادا کرو ۔ 

Surah Al-Tawba ayat 64-65-کیا ہم اپنے دین کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہے ہیں

منگل، 22 اگست، 2023

خیر التابعین حضرت سیدنااویس قرنیؓ (۲)

 

خیر التابعین حضرت سیدنااویس قرنیؓ (۲)

حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ بعض اوقات یمن کی طرف روئے مبارک کر کے فرماتے کہ میں یمن کی طرف سے محبت کی خوشبو پاتا ہو ں ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یمن میں آ پ کا کون عاشق ہے ۔ فرمایااویس قرنی اس کا نام ہے۔صحابہ نے عرض کی ہم میں سے ان کی ملاقات کا کوئی شرف حاصل کر سکے گا آپ ﷺ نے فرمایا عمر وعلی کی ان سے ملاقات ہو گی اور ان کی پہچان یہ ہے کہ ان کے پورے جسم پر بال ہیں اور ہتھیلی کے بائیں پہلو پر ایک درہم کے برابر سفید رنگ کا داغ ہے ۔ 
حضور ﷺ کے دنیا سے وصال فرمانے کے بعدحضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں حضرت عمر اور حضرت علی نے اہل یمن سے دریافت کیا کہ آپ میں سے کوئی اویس قرنی کو جانتا ہے ۔ تو ان میں سے کسی آدمی نے کہا میں ان سے پوری طرح تو واقف نہیں لیکن ایک دیوانہ آبادی سے باہر دور اونٹ چرا رہا ہے ۔ خشک روٹی اس کی غذا ہے ، اگر لوگ ہنستے ہیں تو روتا ہے اور اگر کسی کو روتا دیکھتا ہے تو وہ ہنستا ہے ۔
 حضرت عمر اور حضرت علی جب وہاں پہنچے تو حضرت اویس قرنی نماز پڑھ رہے تھے جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کا نام دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا عبدا للہ یعنی اللہ کا بندہ تو حضرت عمر نے کہا عبداللہ تو سب ہی ہیں آپ اپنا اصلی نام بتائیں ۔ تو آپ نے فرمایا اویس ۔پھر حضرت عمر نے کہا کہ اپنا ہاتھ دکھائیں آپ نے ہاتھ دیکھایا تو جو نشانی نبی اکرم ﷺ نے بتائی تھی وہ نشانی موجود تھی ۔
 حضرت عمر نے جب وہ نشانی دیکھی تو نبی کریم ﷺ کا پیراہن مبارک دیا اور حضو ر ﷺکا سلام بھی پیش کیا ۔اور حضور ﷺ کی امت کے حق میں دعا کرنے کا پیغام دیا ۔ 
حضرت اویس قرنی نے عرض کیا کہ اچھی طرح دیکھ بھال کر لو شاید کوئی دوسرا آمی ہو ۔ حضرت عمر نے فرمایا جو نشانی حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمائی ہے وہ آپ میں ہی ہے ۔ پھر حضرت اویس قرنی نے کہا اے عمر تمہاری عمر مجھ سے بہتر ہے اور فرمایا کہ میں تو دعا کرتا ہی رہتا ہو ۔
 حضرت عمر نے فرمایا لیکن آپ کو دعا کرنے کا حکم ملا ہے ۔ حضرت اویس قرنی حضور ﷺ کا جبہ مبارک تھوڑی دور لے جا کر اللہ تعالی سے دعا کی اے اللہ تعالی میں اس وقت تک حضور ﷺ کا جبہ مبارک نہیں پہنوں گا جس وقت تک ساری امت کی بخش نہیں ہو جاتی ۔ 

Surah Al-Tawba ayat 62-63-کیا ہم اس وقت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے احک...

Surah Al-Tawba ayat 61-کیا ہم اپنے اعمال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ...

پیر، 21 اگست، 2023

خیر التابعین حضرت سیدنااویس قرنیؓ (۱)

 

خیر التابعین حضرت سیدنااویس قرنیؓ (۱)

حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو سید التابعین اور خیر التابعین کے القاب سے یا د کیا جاتا ہے ۔ آپ کو سرور دو عالم ﷺ کی ظاہری مجلس نصیب نہ ہو سکی اس لیے صحابیت کے درجہ پر فائز نہ ہو سکے ۔ روایات میں ہے کہ آپ کی والدہ ضعیف اور کمزور تھیں اور چلنے پھرنے سے معذور تھیں ۔ انہیں چھوڑ کر طویل سفر پر روانہ نہ ہو سکے تھے ۔ اس لیے حضور ﷺ کی بار گاہ میں حاضر نہ ہو سکے ۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! یمن کی طرف سے ایک شخص آئے گا جس کا نام اویس ہو گا ۔ اس کے جسم پر پھلبہری  کے داغ ہوں گے ، جس میں سے صرف ایک داغ درہم کے برابر رہے جائے گا ۔ اس کی والدہ بھی ہیں ، جن کا وہ بے حد خدمت گزار ہے ۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب بھی وہ اللہ کی قسم کھاتا ہے تو اللہ تعالی اسے پورا کر دیتا ہے ۔ 
حضرت خواجہ اویس قرنی اکثر روزے سے رہتے ۔ پرانے کپڑوں کے ٹکڑے دھو کر اور پاک صاف کرنے کے بعد انہیں جوڑ کر سی لیتے اور اس سے پیراہن تیار کر لیتے ۔ اس وضع قطع کو دیکھ کر بچے آپ پر ہنستے ، آوازیں کستے اور پتھر مارتے تھے ۔ لیکن آپ صبر و استقامت کا ایک پہاڑ تھے ، قطعا ناراض نہ ہوتے ۔
غیرت اور خودداری کا یہ عالم تھا کہ معاشی طور پر کبھی کسی پر بوجھ نہ بنے ۔ شتر بانی کے ذریعے رزق حلال کما کر کھاتے ۔حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ شہرت اور نام و نمود سے کنا رہ کش رہتے اور اپنا روحانی حال اور مقام لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ۔ والدہ کے وصال کے بعد حالت یہ تھی کہ اگر ایک جگہ آپ کے روحانی مقامات اور کمالات کا دنیا کو پتا چل جاتا تو وہاں سے نقل مکانی کر جاتے ، اور چھپتے پھرتے ۔
آپ اس حدیث قدسی کا مصداق تھے ’’ میرے دوست میری قبا کی نیچے ہیں ، جنہیں میرے سوا کوئی نہیں پہنچاتا ‘‘۔حضرت امام غزالی کی مشہور کتاب کیمیائے سعادت میں ہے کہ حضرت خواجہ اویس قرنی بعض راتیں رکوع میں اور بعض راتیں سجدے میں گزار دیتے اور فرماتے یہ رات رکوع والی اور یہ رات سجدے والی ہے ۔ کسی نے آپ سے پوچھا حضرت اس قدر قوت آپ میں کیسے آ گئی ہے کہ اتنی لمبی راتیں رکوع اورسجدے میں گزار دیتے ہیں ۔آپ نے فرمایا کاش ازل تا ابد ایک ہی رات ہوتی اور میں رکوع اور سجدے میں گزار دیتا ۔ 

اتوار، 20 اگست، 2023

Shortvideo - Tuheed kya hay?

تزکیہ نفس(۲)


 

تزکیہ نفس(۲)

 دعا کرنا : نبی اکرم ﷺ یہ دعا پڑھاتے تھے : ’’اے اللہ میں پنا ہ مانگتا ہوں تجھ سے بری عادتوں اور برے اعمال اور بری خواہشات سے ‘‘۔ (جامع ترمذی ) 
’’اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی اور بخیلی اور  نا مردی اور بڑھاپے اور قبر کے عذاب سے ۔یا اللہ میرے نفس کو پرہیز گاری دے اور اس کو پاک کر تو بہتر پاک کرنے والا ہے ۔ تو مالک و مختار ہے۔  اس کا( یعنی نفس کا) یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس نفس سے جو میسر نہ ہو اور اس دل سے جس میں ڈر نہ ہو اللہ کا اور اس علم سے جو فائدہ نہ دے اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو ‘‘۔ ( سنن نسائی ) ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے ’’ اللہ رحم کر ہمارے (نفس) پر اور عاد کے بھائی پر ‘‘۔ 
۹: ذکراللہ : حضرت ابو دردہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کہ کیا نہ خبر دو ں میں تم کو سب عملوں سے بہتر کام کی اور نہایت تزکیہ کرنے والے کی اپنے مالک کے نزدیک اور بہت بلند کرنے والا تمہارے درجات کو اور بہتر تمہارے لیے سونا اور چاندی خرچ کرنے سے اور بہتر تم کو اس سے کہ ملو تم اپنے دشمن سے او ر تم گردنیں مارو ان کی اور وہ گردنیں ماریں تمہاری انہوں نے کہا۔ ہاں ۔ آپ نے فرمایا : وہ ذکر ہے اللہ کا : معاذ نے کہا کوئی چیز نہیں اللہ کے عذاب سے نجات دلانے والی اللہ کے ذکر سے بڑھ کر ۔ ( جامع رمذی )
۱۰:روزہ : حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہم جوان تھے قدرت اور مقدور نکاح کا نہ رکھتے تھے ۔ سو آپ نے فرمایا اے گروہ جوانوں کے تم ضرور نکاح کرو اس لیے کہ وہ آنکھوں کو نیچا رکھتا ہے ۔ یعنی جھانک تاک سے بچاتا ہے ۔ سو جو شخص تم میں سے نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھنا اختیار کرے کہ روزہ اس کے حق میں گویا خصی کرنا ہے (ابو دائود)
حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں تم اپنے آپ کا محاسبہ کیا کرو پہلے اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے اور نفسوںکا وزن کیا کرو پہلے اس کے کہ تمہارا وزن بروز حشر کیا جائے ۔ کیوں کہ آج کا حساب کر لینا آسان ہے ۔ قیامت کے دن حساب دینے سے اور خود کو بڑی پیشی کے لیے سنوار لو جس دن تم پیش کیے جائو گے ۔ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : اپنی خواہشات سے اس طرح بچو جیسے اپنے دشمنوں سے بچتے ہو کوئی شے انسان کے لیے خوہشات کی پیروی اور زبان کا زخم لگانے سے زیادہ دشمن نہیں ۔ ( اصول کافی ) 

Shortvideo - Shirk kya hay?

ہفتہ، 19 اگست، 2023

تزکیہ نفس(۱)

 

تزکیہ نفس(۱)

وہ اصول جن کے ذریعے نفس کو پاک و صاف کر کے نفسانی خواہشات کو پاء مال کیا جا سکتا ہے تزکیہ نفس باطنی صفائی کا نام ہے ۔تزکیہ نفس  اللہ کی طرف سے فضل ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :’’ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے ایک شخص بھی کبھی پاک نہ ہو تا مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے ‘‘(سورۃ النور)  سو رہ نجم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ’’پس اپنے نفس کی پاکیزگی نہ جتائو ، اللہ پر ہیز گار کو خوب جانتا ہے ‘‘۔ سورۃ الشمس میں ارشاد باری تعالی ہے : جس نے اسے (یعنی نفس ) کا تزکیہ کر لیا وہ فلاح پاگیا ‘‘۔
سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالی ہے :’’ ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے ‘‘۔درج ذیل ذرائع سے تزکیہ نفس کیا جا سکتا ہے 
۱:خوف خدا اور نماز : سورۃ الفاطر میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے :’’آپ تو صرف انہیں ڈراسکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو صرف اپنے لیے ہی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے ‘‘۔
۲:صدقات و خیرات :سورۃ اللیل میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :’’ جو اپنا مال پاکیزگی کے لیے دیتا ہے ‘‘۔
۳: صلہ رحمی و صلح : اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکے اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں اپنے (مجوزہ) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ جائز طور پر ازودواج پر باہم راضی ہوں ، یہ نصیحت اس شخص کے لیے ہے جو تم میں سے خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، تمہارے لیے نہایت شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہ ہی ہے‘‘۔
۴:شریعت کی سرا پا پیروی : اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ’’ اور اگر تم سے لوٹ جانے کے لیے کہا جائے تو لوٹ جائو ، اسی میں تمہاری پاکیزگی ہے ‘‘۔( سورۃ النور) 
۵: نگاہ شرمگاہ کی محافظت:  سورۃ النور میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : آپ مومن مردوں سے کہ دیجیے :وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں ۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے ‘‘۔
۶: اعمال صالح :ـ ’’اور تمہارے اعمال (صالح ) سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ ( سنن ابن ماجہ )
۷: موت کو یاد کرنا : بہت یاد کرو لذتوں کو مٹانے والی کو یعنی موت کو ۔ ( جامع ترمذی )

Surah Al-Tawba ayat 50-52 Part-02-کیا مومن کو کوئی غم پہنچ سکتا ہے

جمعہ، 18 اگست، 2023

Surah Al-Tawba ayat 50 Part-01-دین اسلام کیا اور کیوں

نفس اور قرآن

 

نفس اور قرآن

نفس کے معانی روح ، خون ، بدن ، عظمت ، ہمت کے ہین۔ نفس انسان میں وہ مدرک بالحواس عنصر ہے جو جذبات ، احساسات اور سوچ کا مرکز ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف اشکال میں نفس کا ذکر آیا ہے۔سورۃ الانفطار میں ارشاد باری تعالی ہے : ’’اس دن کسی کو کسی کے لیے کچھ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا‘‘۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالی ہے :’’ہر جاندار کو اس کی وسعت جتنی تکلیف دی جاتی ہے ‘‘۔ سورۃ العنکبوت میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے : ’’ ہر نفس کو مو ت کا ذائقہ چکھنا ہے ‘‘۔ارشاد باری تعالی ہے :’’ اور جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے اور نفس کو خواہشات سے روکتا ہے۔ اس کا ٹھکانا یقینا جنت ہے۔‘‘ قرآن مجید میں انسانی نفس کی تین اقسام کا تذکرہ کیا گیا ہے :(۱) نفس لوامہ ، (۲) نفس امارہ اور (۳) نفس مطمئنہ۔
(۱) نفس امارہ: یہ نفس کی وہ قسم ہے جو انسان کو برائی کی ترغیب دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے۔ یہ اسی کی ایک شکل ہے یا انسانی روح میں شامل شر کی مثل ہے۔ جو رغبت برائی وجھوٹ پر امادہ کرتا ہے۔ سورۃ یوسف میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:’’ کیونکہ (انسانی ) نفس برائی پر اکساتا ہے مگر یہ کہ میرا رب رحم کرے ‘‘۔رسول اللہؐ نے نفس امارہ سے پناہ مانگی ’’ اے اللہ میں اس علم سے پناہ مانگتا ہو ں جو فائدہ نہ دے اور اس دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو سنی نہ جائے اور اس دل سے پناہ مانگتا ہوں جس میں اللہ کا خوف نہ ہو اور اس نفس سے بھی پناہ مانگتا ہو ں جو کبھی سیر نہ ہوتا ہو۔( ابن ماجہ)
(۲) : نفس لوامہ :نفس لوامہ نفس کی وہ قسم ہے جو انسان کو برائی کرنے پر ملامت کرے روکے اور رکاوٹ پیدا کرے یہ بمثل انسان کے ساتھ فرشتہ کے ہے۔ یا انسانی روح میں شامل خیر کے ہے۔
 جو رغبت حق و بھلائی دیتا رہتا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :’’ قسم کھاتا ہو ں ملامت کرنے والے نفس (زندہ ضمیر ) کی‘‘۔
(۳)نفس مطمئنہ :یہ نفس کی وہ قسم ہے جس میں انسان کو فعل حق کرنے اور فعل کے روکنے پر اطمینان ملتا ہے۔ یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا داعی ہے۔ یہ گویا انسان کی جبلت کا خاصہ ہے اور ایمان کی علامت رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ جب تمہیں نیکی پر اطمینان ہو اور برائی پر کھٹکا تو ایمان کی علامت ہے۔ یہ نفس اطمینان نیکی کے ہو چکنے کا اشارہ ہے۔ یہیں سے ہی ایمان و ایقان کی کیفیات کا تعارف ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے :’’ اے اطمینان والی جان۔  اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آکہ تو اس سے راضی ہو، وہ تجھ سے راضی ہو ‘‘۔

جمعرات، 17 اگست، 2023

Shortvideo - Kya humara yaqeen sirf dunya par hay?

نماز تہجد کے فضائل

 

نماز تہجد کے فضائل

قرآن مجید میں کئی آیات ایسی ہیں جن سے نماز کی فضیلت ثابت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک تیرا رب جانتا ہے کہ تو دو تہائی رات کے قریب کھڑا ہوتا ہے ‘‘۔ سورۃ المزمل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ تحقیق رات کا اٹھنا نفس کو کچلنے کے لیے سخت ہے اور کام کا بہت درست کرنے والا ہے ‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :’’ اور وہ لوگ جو اپنے رب کے لیے رات کو سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں ‘‘۔
احادیث مبارکہ میں بھی نماز تہجد کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی شخص سو جاتا ہے تو شیطان اس کے سر کے پیچھے گدی میں تین گرہ لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھوک لگا دیتا ہے و ہ کہتا ہے کہ بہت لمبی رات باقی ہے ابھی کچھ دیر اور سو لے۔ پھر جب وہ شخص جاگ کر اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب نماز پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح جاگنے سے آدمی چا ک وچو بند اور ہشاش بشاش ہو جا تا ہے۔ ورنہ سست اور بد دل بوجھل طبیعت والا بن جاتا ہے اور اسے بھلائی نہیں ملتی ‘‘۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ رات میں بندے کا دو رکعتیں نماز پڑھنا دنیا اور آخرت کی تمام اشیاء سے بہتر ہے۔ اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں یہ دو رکعتیں ان پر فرض کر دیتا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ رات میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا کر دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ بندہ دنیا وآخرت کی جو بھی بھلائی مانگتا ہے اللہ اسے عطا کرتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات میں ہوتی ہے۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پائے مبارک رات میں عبادت کے لیے کھڑے ہونے کے سبب ورم ہو گئے۔ آپ ﷺ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی خلاف اولیٰ باتوں کو معاف نہیں فرما دیا ؟ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزاربندہ نہ بنو۔
 حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فر مایا کہ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم پر زندگی ، موت ، قبر اور حشر میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہو ، فرمایا جب رات کا کچھ حصہ باقی ہو اور تم رب کی رضا کے حصول کے لیے اٹھ کر عبادت کرو۔ اے ابو ہریرہ ! گھر کے کونوں میں نماز پڑھا کرو ، تمہارا گھر آسمان سے چمکتا ہوا نظر آئے گا جیسے کہ زمین والوں کو چمکتے ہوئے ستارے نظر آیا کرتے ہیں۔

Surah Al-Tawba ayat 42- کیا ہم اپنے دعوی ایمان میں جھوٹے ہیں

Surah Al-Tawba ayat 40-41- کیا ہم اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کے لیے تیار...

Shortvideo - Kya hum emaan walay hain?

بدھ، 16 اگست، 2023

بڑھاپے سے سبق سیکھنا

 

 بڑھاپے سے سبق سیکھنا

انسانی زندگی کا ایک ظاہر وہ ہے جس کو بڑھاپا کہا جاتا ہے۔ بڑھاپا کو ئی غیر مطلوب چیز نہیں۔ بڑھاپے کی عمر میں انسان کے لیے ایک موقع موجود ہو تا ہے یعنی نصیحت لینا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا۔(سورة فاطر) روایت میں آتا ہے کہ جس آدمی کو لمبی عمر یا بڑھاپے کی عمر ملے اس کے پاس اللہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی عذر نہیں رہا۔ بڑھاپے کا دور دنیا میں موجود کسی بھی انسان کے لیے آخری دور ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد جو مرحلہ آتا ہے وہ موت کا مرحلہ ہے۔انسان اس دنیا میں محدود عمر کے لیے آتا ہے۔ چناچہ پیدا ہوتے ہی انسان کا کاﺅنٹ ڈاﺅن شروع ہو جاتا ہے۔ تقریباً 35 سال تک انسان کا گراف اوپر کی طرف جاتا ہے اس کے بعد وہ نیچے جانا شروع ہو جاتا ہے۔
 ادھیڑ عمر ، بڑھاپا اور پھر آخر میں موت۔ اس دروان آدمی کو مختلف قسم کے نقصان اور مصائب پیش آتے ہیں۔ مثلاً بیماری ، حادثہ اور طرح طرح کے مسائل۔ اس طرح آدمی سے ایک ایک چیز چھنتی رہتی ہے۔ پہلے جوانی ، پھر صحت ، پھر سکون وغیرہ۔ یہاں تک کہ موت واقع ہو جاتی ہے۔ اور ہر وہ چیز جس کو آدمی اپنا سمجھتا ہے یہاں تک کہ اس کا اپنا جسمانی وجود بھی اس سے چھن جاتا ہے۔ 
بڑھاپا گویا کہ موت کی پیشگی اطلاع کی حثیت رکھتا ہے۔ بڑھاپے میں جسم کے بہت سارے اعضاءکمزور ہو جاتے ہیں حتی کہ بعض اعضا ئکام کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہیں گویا کہ موت قریب ہے۔اگر آدمی کا ذہن بیدار ہو تو وہ بڑھاپے کی عمر میں سوچنے لگے گا کہ اب وہ وقت جلد آنے والا ہے جب میری موت واقع ہو جائے گی اور میں اللہ تعالی کے سامنے حساب کتاب کے لیے حاضر کر دیا جاﺅں گا۔
بڑھاپے کے تجربات آدمی کو جھنجھوڑتے ہیں ، وہ اس کو آخرت کی یادہانی کرواتے ہیں۔ بڑھاپا آدمی کو بتاتا ہے کہ دنیا میں اب تمہارا سفر ختم ہو نے والا ہے۔ اب تمہیں لازمی اگلے دور میں داخل ہونا ہے اور حشر میں اللہ تعالی کی عدالت کا سامنا کرنا ہے۔ دوسرے مرحلے میں آدمی کے کام صرف وہ چیز آئے گی جو اس نے عمل صالح کی صورت میں آگے بھیجی ہے۔ سورة الحشر میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ” اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا “۔ سورة المک میں اللہ تعالی فرماتا ہے :”وہ جس نے زندگی اور موت پیدا کی تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے “۔ بڑھاپا برائے سبق ہے برائے شکایت نہیں۔

Shortvideo - Aam momin aur aam musalman ka farq

منگل، 15 اگست، 2023

اخلاص

 

اخلاص

اللہ تعالی قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتا ہے : ـ’’ مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی  وہ سنور گئے اور انہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خا لص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے ‘‘۔ (سورۃ التوبہ)
 اللہ تعالی فرماتا ہے کہ بندگی صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کے لیے ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’ بیشک ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تو آپ اللہ کی عبادت اس کے لیےاطاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کریں ۔ سن لو !ا طاعت و بندگی خالصۃ ً اللہ ہی کے لیے ہے ‘‘۔ (سورۃ الزمر) 
حضرت سہل بن حنیف ر ضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ تعالی سے صدق دل کے ساتھ شہادت طلب کی تو اللہ تعالی اسے شہید کا مقام عطا فرمائے گا خواہ اسے بستر پر ہی موت آئی ہو ۔ ( امام مسلم ) 
حضرت ابو محمد حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے حضور نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد یاد ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : شک و شبہ والی چیز چھوڑ کر شک سے پاک چیز کو اختیار کرو ، بیشک سچ سکون اور جھوٹ شک و شبہ ہے ۔ (ترمذی شریف ،  نسائی شریف ) 
 حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ وحدہ لا شریک کے لیے کامل اخلاص پر اور بلا شرک اس کی عبادت پر ، نماز قائم کرنے پر اور زکوۃ  دینے پر ہمیشہ عمل پیرا رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گا اس کی موت اس حال میں ہو گی کہ اللہ تعالی اس سے راضی ہو گا ۔ ( ابن ماجہ ) حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ اگر کوئی شخص لالچ اور طمع کی خاطر یا نام آوری کے لیے جہاد کرے تو اسے کیا ملے گا ؟ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا ۔ بعد ازاں اس نے تین بار یہ ہی سوال کیا اور حضور  ﷺ نے یہ ہی جواب دیا کہ اسے کچھ ثواب نہیں ملے گا ۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی صرف وہ ہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے ہو اور اسے کرنے سے محض اللہ تعالی کی رضا مندی مقصود ہو ۔ ( انسائی شریف ) 
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا گیا تو انہوں نے بارگاہ رسالت  ﷺمیں عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! مجھے نصیحت فرمائیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : دین میں اخلاص پیدا کر ، تجھے تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا ۔ ( مستدرک حاکم )  

Shortvideo - Kya hum apnay rab kay samnay akar khan banay huway hain?

پیر، 14 اگست، 2023

حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ(۳)

 

حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ(۳)

حضرت بلا ل روضہ رسول پر حاضر ہوئے اور رو رو کر عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ غلام کو یہ فرما کر بلایا کہ ہم سے مل جائو اور اب جب بلال زیارت کے لیے حاضر ہوا ہے تو آپ ﷺ پردہ میں چھپ گئے ہیں۔ یہ کہتے ہی آپ بے خود ہو کر قبر انور کے پاس گر گئے ۔ کافی دیر کے بعد جب ہو ش سنبھلی تو لوگ آپ کو باہر اٹھاکر لائے ۔ حضرت بلال کی مدینہ منوہ آمد کی خبر پورے مدینہ میں پھیل چکی تھی ۔بے شمار لوگ اکھٹے ہو ئے اور مئو ذن رسول ﷺ سے اذان سنانے کی درخواست کرنے لگے ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے اے دوستو! یہ بات میری طاقت سے باہر ہے کیو نکہ حضور ﷺ کی ظاہری زندگی میں جب میں اذان دیتا تھا تو جس وقت اشھد ان محمد رسول اللہ کہتا تو  سامنے حضور ﷺ کودیکھ لیتا تھا ۔ اب بتائو کیسے دیکھو ںگا ۔ مجھے اس خدمت سے معاف رکھو ۔لوگوں کے اصرار پر حضرت بلال انکار ہی کرتے رہے ۔ حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما کو بلایا گیا ۔حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے آ کر حضرت بلال کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اے چچا جان آج ہمیں بھی وہ اذان سنا دو جو ہمارے نانا جان کو سنایا کرتے تھے ۔حضرت بلال نے حضرت حسین کو گود میں اٹھا یا اور کہنے لگے آپ میرے محبوب کے نواسے ہو ۔ لے چلو جہاں کہوں گے اذان کہہ دوں گا ۔ حضرت حسین رضی للہ تعالی عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑ کر مسجد کی چھت پر کھڑا کر دیا ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے اذان کہنا شروع کر دی ، مدینہ منورہ میں یہ بڑا عجیب اور غم کا وقت تھا حضو ر ﷺ کو وصال فرمائے ایک عرصہ گزر چکا تھا ۔ حضرت بلال کی اذان سن کر لوگ مدینہ منورہ کی گلی کوچوں سے مسجد میں جمع ہونے شروع ہو گئے ۔ پردے والی عورتیں رونے لگیں ۔ بچے اپنی مائو ں سے پوچھتے تھے کہ حضرت بلال موذن رسول تو آ گئے ہیں ۔
حضور نبی کریم ﷺ کب تشریف لائیں ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ جب اشھد ان محمد رسول اللہ زبان مبارک سے نکالا اور حضور ﷺ کو آکھوں سے نہ دیکھ سکے تو غم ہجر میں بیہوش ہو کر گر گئے اور کافی دیر کے بعد ہوش آیا تو روتے روتے ملک شام چلے گئے ۔حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا وصال مبارک بیس ہجری کو ہوا اس وقت آپ کی عمر مبارک ساٹھ سال تھی ۔ آپ کا مزار مبارک دمشق میں با ب الصغیر کے قریب ہے اور ان کا مزار مبارک آج بھی مر جع خلائق ہے ۔

Surah Al-Tawba ayat 34-35-کیا ہم اپنے عمل سے لوگوں کو اللہ تعالی کے راست...

Surah Al-Tawba ayat 32-33 Part-03-کیا ہم ہی دنیا میں اسلام کا غلبہ نہیں ...

اتوار، 13 اگست، 2023

حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ (۲)

 

حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ (۲)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا گھر بھی اسی محلے میں تھا۔ وہ آتے جاتے آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر ظلم و ستم ہوتے دیکھتے تو بیتاب ہو جاتے۔
 ایک دن آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور آپ امیہ کے گھر تشریف لے گئے اور کہا تم بے کس غلام پر اتنا ظلم نہ کرو تمہار ا اس میں کیا نقصان ہے کہ وہ خدائے واحد کی عبادت کرتا ہے۔ امیہ نے کہا تم اس غلام پر اتنے ہی مہربان ہو تو خرید کیوں نہیں لیتے۔
 حضرت ابو بکر صدیق نے کہا میں تیار ہوں۔ امیہ نے کہا تم اپنا غلام فسطاس رومی مجھے دے دو اور اسے لے لو۔فسطاس بڑا کار گزار غلام تھا اور اہل مکہ کے نزدیک اس کی بہت زیادہ قیمت تھی حضرت ابو بکر صدیق رضا مند ہو گئے۔ جب امیہ نے حضرت ابو بکر صدیق کی حضرت بلال میں دلچسپی دیکھی تو کہنے لگا فسطاس کے ساتھ چالیس اوقیہ چاندی بھی لو گا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضا مند ہو گئے۔
 امیہ نے اپنی طرف سے بڑے نفع کا سودا کیا تھا۔ جب آپ حضرت بلال کو لے کر جانے لگے تو امیہ ہنس کر کہنے لگا اے ابن ابی قحافہ حضرت بلال کی قیمت تم نے خود بڑھائی اگر میں تمہارے شوق کو نا دیکھتا تو میں اسے چند درموں میں بیچ دیتا۔
 آپ نے جواب دیا تمہاری نظر میں بلال کی قیمت کیا تھی ؟ تمہاری نظر اس کے رنگ پر تھی اور میری نظر اس کی روح پر تھی میں ارادہ کر کے آیا تھا کہ اگر تْو آج لاکھوں درہم ہی کیوں نہ مانگ لے میں حضرت بلال کو لے کر ہی جائوں گا۔
حضرت ابو بکر صدیق نے یہ سارا واقع آپ کو سنایا تو آپ  بہت خوش ہوئے اور فرمایا اس کار خیر میں مجھے بھی شریک کر لو۔ آپ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اسے آزاد کر دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت بلال نے شام میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ بلال ابھی وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کے لیے آئو۔ آپ خواب دیکھتے ہی یہ کہتے ہوئے اٹھے لبیک یا سیدی اور اسی وقت رات کو اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ منورہ کی طرف چل پڑ ے۔ رات دن برابر سفر کر کے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ پہلے سیدھے مسجد نبوی پہنچے اور حضور   ؐ کو نا دیکھا تو حجروں میں تلاش کیا جب وہاں بھی نہ ملے تو مزار پر انوار پر حاضر ہوئے۔

Surah Al-Tawba ayat 32-33 Part-02-کیا ہم اللہ تعالی کے دین کے مددگار بنن...

Surah Al-Tawba ayat 32-33 Part-01-کیا ہم نور الہی سے فائدہ حاصل کرنا نہی...

ہفتہ، 12 اگست، 2023

Shortvideo - Sajida ki haqeeqat

حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ (۱)

 

 حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ (۱)

حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ امیہ بن خلف کے غلام تھے جو مکہ کا رہنے والا تھا اور سخت مشرک تھا۔ آپ نے زندگی کے اٹھائیس سال اس کی غلامی میں گزار دیے۔ 
حضرت بلا ل رضی اللہ تعالی عنہ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔ شروع میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا سلام چھپائے رکھا اور چھپ کر عبادت الہی میں مصروف رہے۔
 امیہ بن خلف کے کانوں میں آپ کے اسلام لانے کی خبر پڑی تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے آپ کو بلایا اور پوچھا سچ سچ بتائو تم کس معبود کی پرستش کرتے ہو ؟ آپ نے بے دھڑک جواب دیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے خدا کی۔امیہ کی آنکھیں غصے سے لال پیلی ہو گئیں۔ اس نے کہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی پرستش کرنے کا مطلب ہے کہ تو لات و عزٰ ی کا دشمن ہو گیا ہے۔ سیدھی طرح راہ راست پہ آ جا ورنہ ذلت کے ساتھ مارا جائے گا۔آپ نے جواب دیا میرے جسم پر تمہارا زور چل سکتا ہے لیکن میں اپنا دل و جان حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے خدا کے پاس رہن رکھ چکا ہو ں۔ اب اللہ تعالی کی عبادت ہی میری زندگی کا اصل مقصد ہے۔
 امیہ بن خلف نے حضرت بلا ل رضی اللہ تعالی عنہ پر ظلم وستم کرنا شروع کر دیا۔ مکہ مکرمہ میں حرہ کی زمین گرمی کے سبب بہت مشہور ہے یہ دھوپ میں تانبے کی طرح گرم ہو جاتی ہے۔ 
امیہ حضرت بلا ل رضی اللہ تعالی عنہ کو حرہ کی تپتی ریت پر لٹا کرسینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیتا تاکہ آپ حرکت نہ کر سکیں۔ پھر کہتا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے باز آ جا اور لات و عزٰی کے معبود ہونے کا اقرا ر کر لے ورنہ اسی طرح پڑا رہے گا۔ لیکن آپ کی زبان سے احد احد ہی کی آواز آتی۔ 
حضرت علامہ ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ امیہ آپ کے گلے میں رسی ڈال کر انہیں لڑکوں کے حوالے کر دیتا جو انہیں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھر جلتی ریت پر لٹا دیتے اور ان پر پتھروں کا ڈھیر لگا دیتے لیکن آپ احد احد ہی کہتے جاتے۔ 
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں زمانہ جاہلیت میں مکہ گیا تو لڑکو ں کو دیکھا جو آپ کے گلے میں رسی باندھ کر گھسیٹ رہے تھے۔ لیکن آپ یہ ہی کہ رہے تھے کی میں لات و عزٰی اور ہبل اور اساف اور نائلہ سب سے بیزار ہوں اور ان سب کا انکار کرتا ہو ں۔

Surah Al-Tawba ayat 30-31-کیا ہم نے خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنا لیا ہے

Surah Al-Tawba ayat 28-29 Part-02.کیا ہمیں اللہ تعالی اور یوم آخرت پرکام...

جمعہ، 11 اگست، 2023

Shortvideo - Kya hum gumrah hain?

نماز میں خشوع وخضوع (۲)


 

   نماز میں خشوع وخضوع (۲)

بعض لوگ رکوع مکمل طریقے سے نہیں کرتے۔ مکمل کھڑے نہیں ہوتے تو سجدہ میں چلے جاتے ہیں سجدے سے تھوڑااٹھے اور دوسرے سجدہ میں چلے گئے. نماز پڑھنے کا یہ طریقہ با لکل غلط ہے۔ جو نماز حضور قلب اور خشوع خضوع کے ساتھ ادا نہ کی جائے اس کی قبولیت کی امید عبث ہے۔بلکہ ایسی نماز تو نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو نماز اور تلاوت سے اس قدر محبت تھی کہ جب آپ نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے تو قریش کے بیوی بچے فرط اثر سے کھینچ کر آپ کے پاس جمع ہو جاتے اور آپ کا نماز کے ساتھ یہ ذوق و شغف تمام عمر رہا اکثر دن کو روزہ رکھتے اور راتیں نماز میں گزارتے۔ خشوع خضوع کا یہ حال تھا کہ نماز میں لکڑی کی طرح بے حس و حرکت نظر آتے۔ اتنا روتے کہ ہچکی بند جاتی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بڑے با رعب جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ رات بھر جاگ کر بڑے خشوع خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے۔ جب صبح ہوتی تو اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔ آپ نماز میں ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر یا خدا کی عظمت و جلالت کا بیان ہوتا۔ اور آپ اتنا روتے کہ ہچکی بندھ جاتی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بڑی انکساری اور خضوع سے نماز پڑھتے۔ جب آپ نماز میں ہوتے تو ہر چیز سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی ران میں تیر لگا لوگوں نے نکالنے کی بڑی کوشش کی مگر نہ نکال سکے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ جب آپ نماز میں مشغول ہو ں اس وقت تیر نکالا جائے۔ جب آپ نماز میں مشغول ہوئے اور سجدے میں گئے تو لوگوں نے آپ کی ران سے تیر کھینچ لیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ارد گرد لوگوں کو دیکھا فرمایا کیا تم میرا تیر نکالنے کے لیے آئے ہو۔ لوگوں نے عرض کیا وہ تو ہم نے نکا ل بھی لیا ہے۔ آپ نے فرمایا مجھے خبر تک نہیں ہوئی۔ خشوع سے مراد قلب اور جوارح کی یکسوئی اور انہماک ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ تعالی خشوع کی نعمت ہر مسلمان نمازی کو عطا فرمائے۔ کیونکہ جب خشوع کی دولت مل جاتی ہے تو انسان کا دل وسوسوں کے ہجوم سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی کی عظمت و جلالت کا نقش اس کے دل پر بیٹھ جاتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ پوری توجہ اور یکسوئی سے نماز ادا کیا کریں۔

Surah Al-Tawba ayat 28 Part-01-کیا شرک کرنے والے ناپاک ہوتے ہیں

Surah Al-Tawba ayat 25-27 Part-02.مشکل حالات میں اللہ تعالیٰ ضرور مدد فر...

Shortvideo - Seedhay rastay ki inteha koon?

جمعرات، 10 اگست، 2023

نماز میں خشوع وخضوع (۱)


 

نماز میں خشوع وخضوع (۱)

طمانیتِ قلب اور خشوع و خضوع کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو نماز سے والہانہ لگاﺅ محبت اور عشق ہو۔نماز مومن کے لیے معراج کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلام ہونے کی سعادت حاصل ہو تی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کی نماز میں اتنی عاجزی اور خشوع و خضوع ہوتا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔خشوع نماز کی روح ہے اور حضور نبی کریمﷺ سے زیادہ خاشع کون ہو سکتا ہے ؟ حضرت عبداللہ اپنے والد حضرت شخیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک روز نبی اکرم ﷺ کے ہاں گیا اس وقت حضور ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور فرط گریہ سے حضور ﷺ کے اندر سے ایسی آوزآ رہی تھی جیسے دیگ جوش کرنے کی آواز۔نماز کا وقت آتا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ اے امیر المو منین آپ کا یہ حال کیا ہو جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جسے اللہ تعالی نے آسمان و زمین اور پہاڑ پر پیش کیا تو ان سب نے اس بار کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ 
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا میری اتنی عمر اسی تمنا میں گزر گئی کہ کوئی نماز اس خشوع کے ساتھ ادا کروں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قابل قبول ہو مگر اب تک ادا نہ ہو سکی۔ سورة مومن میں اللہ تعالیٰ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : ” بے شک دونوں جہاں میں بامراد ہو گئے ایمان والے ، وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں “۔آیت میں ان مومنوںکو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں۔ علماءحق خشوع کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نماز میں خشوع کا مطلب یہ ہے کہ انسان ساری توجہ نماز میں لگا دے۔ اللہ تعالی کے علاوہ ہر کسی سے منہ پھیر لے اور وہ اپنی زبان سے جو تلاوت اورذکر کرتا ہے ان کے معانی میں غور و تدبر کرے مفسرین فرماتے ہیں کہ نماز میں خشوع و خضوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہو اور دنیا سے توجہ ہٹی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشہ چشم سے کسی طرف نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوئے اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں۔

Surah Al-Tawba ayat 25 Part-01.کیا ہم صرف اللہ تعالی پر مکمل اعتماد کر س...

بدھ، 9 اگست، 2023

حضور پر درود و سلام بھیجنے کے فضائل (2)

 

 حضور پر درود و سلام بھیجنے کے فضائل (2)

حضرت ابو دردا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کرو ، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن ) ہے ، اس دن فرشتے (خصوصی طور پر میری بارگاہ میں ) حاضر ہوتے ہیں ، کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے فارغ ہونے تک اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے ۔ حضرت ابودردا کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اور (یارسول اللہ)آپ کے وصال کے بعد (کیا ہوگا ) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں وصال کے بعد بھی (اسی طرح پیش کیا جائے گا) اللہ تعالی نے زمین کے لیے انبیاءکرام علیھم السلام کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے ۔ پس اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق بھی دیا جاتا ہے ۔ (اما م ابن ماجہ)
 حضرت ابوو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناﺅ (یعنی اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو انہیں قبرستان کی طرح ویران نہ رکھو) اور نہ ہی میری قبر کو عید گاہ بناﺅ (کہ جس طرح عید سال میں دو مرتبہ آتی ہے اس طرح تم سال میں ایک یا دو دفع میری قبر کی زیارت کرو بلکہ میری قبر کی جس قدر ممکن ہو کثرت سے زیارت کرو ) اور مجھ پر درود بھیجا کرو پس تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے ۔( امام ابو داود) 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا ، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے دس گناہ ختم کرے گا اوردس درجے بلند کرے گا ۔(امام نسائی ) 
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالی کی زمین میں بعض گشت کرنے والے فرشتے ہیں وہ مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں ۔( امام نسائی )
 قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ واضح ہونا چاہیے کہ حضور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنا فی الجملہ فرض ہے ۔ یہ کسی خاص وقت کے ساتھ محدود و معین نہیں ہے ، کیونکہ اللہ نے آپ ﷺ پر علی الاطلاق درود بھیجنے کا حکم دیا ہے اور دورد شریف پڑھنے کو آئمہ و علماءنے واجب قرار دیا ہے اور اس کے وجوب پر سب کا اجماع ہے ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ دعا زمین و آسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے 
اور اوپر کی طرف نہیں جاتی ( یعنی قبول نہیں ہوتی ) جب تک تو اپنے نبی مکرم ﷺ پر درود شریف نہ بھیجے ۔ ( اما م ترمذی )