ہفتہ، 30 جنوری، 2021

Bandagi Kya Hay?-بندگی کیا ہے؟

ہم دین میں اخلاص کیسے یپدا کریں؟

عفووحلم کے پیکر(۲)

 

عفووحلم کے پیکر(۲)

غزوہ احد میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید کردیے گئے اوررُخ انور کو زخمی کردیاگیا توصحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو ازحد تکلیف ہوئی ،انہوں نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان موذیوں اوربدکاروں کے لئے اگر آپ ضرر اورنقصان کی دعافرمادیتے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کاغضب ان کا نام ونشان تک مٹادیتا ۔حضور رحمت مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخلص وجانثار صحابہ کو یہ ارشادفرمایا:’’اے میرے صحابہ! میں لعنت بھیجنے کے لیے مبعوث نہیں کیا گیا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے حق کا داعی اورسراپا رحمت بناکر بھیجا ہے‘‘۔

اس ارشادگرامی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک دعا کے لئے بارگاہِ رب العالمین میں پھیلائے اوران ظالموں اورجفاکاروں کی تباہی کی بجائے یہ التجاء کی ’’اے اللہ میری قوم کو ہدایت عطافرما (ساتھ ہی ان کی عذر خواہی کرتے ہوئے عرض کی)یا اللہ ان کی یہ ظالمانہ حرکتیں اس لئے ہیں کہ وہ مجھے جانتے نہیں اگر وہ مجھے پہچان لیتے تو ایسا ہر گز نہ کرتے ۔(بخاری،مسلم)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ میری دونوں آنکھوں نے دیکھا اورمیرے دونوں کانوں نے سنا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ   میں تشریف فرماتھے ،حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی چادر میں چاندی تھی،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے تقسیم فرمارہے تھے ایک (بدبخت)شخص نے کہا ، یارسول اللہ !تقسیم میں عدل فرمایئے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوفرمایا: تیرا خانہ خراب ہو اگرمیں عدل نہیں کرونگا توکون عدل کرے گا۔اگر میں عدل نہ کروں تو میں خائب وخاسر ہوں یہ گفتگو سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت مرحمت فرمائیے کہ میں اس منافق کا سرقلم کردوں۔ حضور سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :معاذ اللہ، لوگ میرے بارے میں یہ گفتگو کرنے لگیں گے کہ اب میں نے اپنے صحابہ کو قتل کرنا شروع کردیا ہے۔پھر اس منافق کے بارے میں ارشادفرمایا :یہ (گستاخ )شخص اوراس کی جماعت کے لوگ وہ ہیں جو قرآن کی تلاوت توکرتے ہیں لیکن قرآن ان کے گلے سے نیچے نہیں اُترتا یہ لوگ دین سے اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح تیراپنے ہدف سے ۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم)


جمعرات، 28 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1641 ( Surah Muhammad Ayat 16 Part-2 ) درس قر...

Insaan Kamyab Kaisay Ho Sakta Hay?انسان کامیاب کیسے ہوسکتا ہے؟

Kya Hum Fazool Paida Keay Geay Hain?

عفووحلم کے پیکر(۱)

 

عفووحلم کے پیکر(۱)

اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد گرامی ہے: خطاکاروں سے معذرت قبول کیجئے ، نیک کاموں کا حکم دیجئے اورنادانوں کی طرف سے رُخ انور پھیر لیجئے ۔ (الاعراف:۱۹۹)’’اس آیۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی تادیب وتربیت کرتے ہوئے تین مکارمِ اخلاق کو اپنانے کا حکم دیا ہے۔(۱)جو قصوروار معذرت طلب کرتا ہواآپ کے پاس آئے آپ اسے کمال فراخدلی اورشفقت سے معاف کردیجئے بدلہ اورانتقام لینے پر اصرار نہ کیجئے ،صاحب روح المعانی لکھتے ہیں یعنی آپ گناہگاروں کو معاف فرمادیں۔ (۲)مفید اورعمدہ چیز وں کے کرنے کا آپ لوگوں کو حکم دیں، لفظ عرف کی تشریح کرتے ہوئے علامہ بیضاوی فرماتے ہیں جو باتیں اچھی اورمستحسن ہیں انہیں اپنا لیجئے۔ (۳)جاہل اورناسمجھ لوگ اگر آپ کو بُرا بھلا کہیں توان سے اُلجھیئے نہیں، امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قرآن کریم میں اخلاقِ حسنہ کے متعلق یہ جامع ترین آیت ہے۔(ضیاء القرآن )امام جلال الدین سیوطی ابن جریر اورابن ابی حاتم کی تفاسیر کے حوالے سے لکھتے ہیں ، جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اس کے مفہوم کے بارے میں دریافت کیا انہوں نے عرض کی میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوچھ کر اس کامفہوم بیان کرسکتا ہوں ۔چنانچہ وہ اجازت لیکر بارگاہِ رب العزت میں حاضر ہوئے وہاں سے وہ یہ پیغام لے کر آئے اورعرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے جو آپ سے قطع رحمی کرے اُس سے آپ صلہ رحمی کریں جو آپ کو محروم رکھے اس کو آپ عطاکریں اورجو آپ پر ظلم کرے اس سے آپ عفوو درگزر کریں۔(دُرِّمنثور)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خصائل حسنہ کے بارے میں ارشادفرمایا ہے:مجھے میرے پاک پروردگارنے نو باتوں کا حکم دیا ہے۔

٭ظاہر وباطن میں اخلاص کو اپنا شعار بنائوں۔ ٭خوشنودگی اورناراضگی دونوں حالتوں میں عدل کروں۔٭خوشحالی اورتنگدستی میں میانہ روی اختیار کروں۔٭جو مجھ پر ظلم کرے اس کو معاف کردوں۔

٭جو مجھ سے قطع رحمی کرے اس سے صلہ رحمی کروں۔٭جو مجھے محروم رکھے اس کو میں عطاکروں ۔

 ٭جب میں گفتگو کروں تومیری زبان ذکر الہٰی سے معمور ہو۔٭اور خاموشی کی حالت میں ا سکی آیتوں میں غور وفکر کروں۔٭ میرے دیکھنے میں عبرت پذیری ہو۔(سبل الھدٰی)

بدھ، 27 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1640 ( Surah Muhammad Ayat 16 Part-1 ) درس قر...

Insaan Ki Meraaj Kya Hayانسان کی معراج کیا ہے؟

Shaikh Say Mohabbat Ki Zaroorat Kya Hay?

ایثارووفاء

 

ایثارووفاء

حضرت ابوعمر وجریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ شروع دن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ کچھ لوگ ننگے پائوں، ننگے جسم، وھاری دارچادر پہنے اورتلواریں لٹکائے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔یہ لوگ قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے اس فقروفاقہ اورخستہ حالی کو دیکھ کر آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ پریشانی میں آپ کبھی اندرتشریف لے جاتے اورکبھی باہر تشریف لے آتے ۔پھر آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا۔نماز کے بعدآپ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔خطبے میں آپ نے سورۃ النساء کی ابتدائی آیت کریمہ اورسورۃ الحشر کی آیت پڑھ کر لوگوں کو اپنے مفلس اورحاجت مند بھائیوں کی مدد کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:ہر آدمی چاہے اس کے پاس ایک ہی دینار ہو، ایک ہی درہم ہو، ایک ہی کپڑا ہو ، ایک ہی صاع گندم کا یا ایک صاع کھجور کا ہو، اس میں سے صدقہ کرے حتیٰ کہ اگر اسکے پاس ایک کھجور ہے توکھجورکے ٹکرے سے بھی اپنے بھائیوں کی مددکرے۔آپ کا فرمانا تھا کہ لوگ گھروں کو دوڑکھڑے ہوئے اور دھڑادھڑحسب توفیق چیزیں لانے لگے۔راوی بیان کرتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں کپڑوں اورکھانے کے دوڈھیر لگ گئے۔ صحابہ کرام کے اس جذبہ ہمدردی اورمواخات کو دیکھ کر اوردوسرے فقراء کی ضرورت کو اس طرح پورا ہوتے دیکھ کر ’’میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انورخوشی سے یوں کھل اٹھا کہ گویا وہ چمکتا ہوا سونے کا ٹکڑا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس طرز عمل کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک جہاں خوشی سے کھل اٹھا، وہاں آپ نے تعلیم امت کے لیے یہ بھی ارشادفرمایا کہ :’’جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ (نیک کام)شروع کرے، جس پر اس کے بعدبھی عمل کیاجاتا رہے، توایجاد کنندہ کے لیے بھی اتنا ہی اجر وثواب لکھاجائے گا،جتنا اسکے کرنے والوں کو ملے گا۔اوران(عمل کرنے والوں)کے ثواب میں کسی چیز کی کمی نہیں کی جائے گی اوراس کے برعکس جس آدمی نے اسلام میں کوئی غلط طریقہ (گناہ کا کام)ایجاد کیا جس پر اس کے بعد بھی عمل کیا گیا تو اس آدمی(ایجاد کنندہ )کے کھاتے میں اتناہی گناہ لکھاجائے گا جتنا کرنے والوں کو ملے گا اورگناہ کا ارتکاب کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کسی چیز کی کمی نہیں کی جائے گی۔(صحیح مسلم،بحوالہ : حب رسول اورصحابہ کرام)

منگل، 26 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1639 ( Surah Muhammad Ayat 15 Part-3 ) درس قر...

Insaan Say Mohabat Kyon Zaroori Hay? Aur Iss Ki Alamaat Kya Hain?

Dunya Main Insaan Apni Meraaj Kaisay Pa Sakta Hay?دنیا میں انسان اپنی مع...

دعوت وتربیت

 

دعوت وتربیت 

حضرت ابوتمیمہ ؓ، اپنی قوم کے ایک فرد کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ شخص حضور ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اورآپ سے استفسار کیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے ارشادفرمایا ، ہاں ! اس نے پوچھا : آپ کس ہستی کو پکارتے ہیں، ارشادہوا، اللہ وحدہٗ لاشریک کو، جس کا وصف یہ کہ اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے اورتم اس کو آواز دوتو وہ تمہارے نقصان کو رفع کردیگا، اورجب تم پر قحط سالی مسلط ہوجائے اورتم اس کو پکارو تو وہ تمہارے لیے گلہ اگادیگا اورجب تم کسی لق ودق صحرا میں ہو اور تمہاری سواری بھاگ جائے اورتم اس سے التجاء کروتو وہ تمہاری سواری تمہیں واپس کردے ، یہ گفتگو سن کر وہ شخص مسلمان ہوگیااورعرض کی کہ یارسول اللہ مجھے کچھ وصیت فرمائیے ، حضور ہادی عالم ﷺنے ارشاد فرمایا کسی چیز کو کبھی گالی نہ دینا ۔وہ صحابی فرمایا کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصیت فرمانے کے بعد میں نے آج تک کبھی کسی اونٹ یا بکری کو بھی گالی نہیں دی۔(حنبل) بشیر بن خصاصیہ ؓبیان فرماتے ہیں کہ میں جناب رسول ﷺکی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوا ، آپ نے مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ، آپ نے مجھ سے پوچھا ، تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا نذیر، آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ آج سے تمہارا نام بشیر ہے ، آپ نے مجھے صفہ کے چبوترہ پر ٹھہرادیا، آپ کا معمولِ مبارک یہ تھا جب آپکے پاس کوئی ہدیہ آتا تو اسے خود بھی استعمال فرماتے اورہمیں بھی اس میں شریک کرتے اورجب صدقہ آتا وہ تمام ہمیں عنایت فرمادیتے ، ایک رات آپ اپنے کاشانہء اقدس سے باہرنکلے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہولیا،آپ جنت البقیع میں تشریف لے گئے اوروہاں جاکر یہ کلمات ادافرمائے، السلام علیکم دارقومِ مومنین وانابکم لاحقون وانا للہ وانا الیہ راجعوناورارشادفرمایا تم لوگوںنے بہت بڑی خیر حاصل کرلی اوربہت بڑے فتنہ وشر سے بچ کر آگے نکل گئے، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے اورفرمایا :یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی ، بشیر! آپ نے فرمایا !اچھا تو تم عمدہ نسل کے گھوڑوں کو کثرت سے پالنے والے قبیلہ ربیعہ کے فرد ہو، جو (ازرہِ تکبر)یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اپنے باسیوں سمیت الٹ جاتی ، کیا تم اس نعمت پر راضی نہیں ہو کہ اس قبیلہ سے تعلق کے باوجود اللہ کریم نے تمہارے، قلب وسمع اوربصارت کو اسلام کی طرف پھیر دیا، میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! میں ہمہ تن راضی ہوں، آپ نے فرمایا : یہاں کیسے آنا ہوا میں نے عرض کی مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ آیکو راستے میں کوئی گزندنہ پہنچ جائے یا زہریلا جانور آپکو کاٹ نہ لے۔(ابن عساکر، بیہقی )

پیر، 25 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1638 ( Surah Muhammad Ayat 15 Part-2 ) درس قر...

Main Nay Jana Kahan Hay?-میں نے جانا کہاں ہے؟

حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

 

حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کا تعلق ازدشنوہ قبیلہ سے تھا، یہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ مکرمہ آئے، وہاں انھوں نے ایک مجلس میں روساء قریش سے نبی کریم ﷺکی شخصیت اوران کی دعوت کا تذکرہ سنا، امیہ بن خلف نے آپ پر (نعوذ باللہ) دیوانہ ہونے کا اتہام لگا دیا ، ضماد نے کہا میں پاگل پن، دیوانگی اورجنات کے اثرات کا جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کرتا ہوں، یہ شخص کہا ں ہے؟ شاید اللہ تعالیٰ اس کو میرے ہاتھوں سے شفاء عطاء فرما دے ، دوسرے دن ضماد نے حضور اکرم ﷺ کو مقام ابراہیم پر نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ضماد نے کہا : اے ابن عبدالمطلب ! آپکی قوم آپکے بارے میں گمان کررہی ہے کہ آپ جنوں میں مبتلا ہوگئے ہیں آپ انکے دیوتائوں میں عیب نکالتے ہیں، انھیں بے وقوف گردانتے ہیں، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کا علاج کرسکتا ہوں، آپ اپنی بیماری کو گراں نہ سمجھیں کیونکہ میں آپ سے بھی زیادہ شدید بیمار وں کا علاج کرچکا ہوں، یہ سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ مسنونہ کے ابتدائی کلمات تلاوت فرمائے، ضماد کہنے لگے میں نے تو ایسا کلام پہلے کبھی نہیں سنا، اس میں تو سمندر سے زیادہ گہرائی ہے، ازہ کرم اسے دوبارہ ارشادفرمائیے ، آپ نے یہ کلمات مبارکہ دو ہرا دیے۔ ضماد نے استفسار کیا، آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں۔ ارشادہوا ، ایک اللہ پر ایمان لے آئو جس کا کوئی شریک نہیں، اورخود کو بتوں کی غلامی سے آزاد کرلو اوراس بات کی گواہی دو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، ضماد نے کہا: اگر میں ایسا کر لوں تو مجھے کیا ملے گا، فرمایا : جنت ! ضماد نے کہا : اپنا دست اقدس بڑھائیے۔ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔ آپ نے انھیں بیعت کرلیا ،اورارشادفرمایا یہ بیعت تمہاری قوم کیلئے بھی ہے، حضرت ضماد ؓنے کہا : بہت اچھا میری قوم کیلئے بھی۔ایک عرصے بعد مسلمانوں کے ایک لشکر کا گزر انکی قوم پر سے ہوا، لشکر کے امیر نے اپنے ساتھیوںسے پوچھا : کہیں تم نے اس قوم کی کوئی چیز تو نہیں لی، ایک لشکر ی نے کہا میں نے ان کا ایک لوٹا اٹھا لیا ہے، امیر نے کہا : فوراً واپس لوٹا دو، کیوں کہ یہ حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کی قوم ہے، دوسری روایت میں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی قیادت میں ایک لشکر کا بھی وہاں سے گزرہوا، لشکریوں کو وہاں بیس اونٹ الگ تھلک ملے تو انھوں نے ساتھ لے لیے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی کہ یہ تو حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کی قوم کے ہیں تو انھوں نے وہ اونٹ واپس فرمادئیے ۔ (ماخوذاز: مسلم ، بیہقی)

جمعرات، 21 جنوری، 2021

جذبہء محبت

 

جذبہء محبت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (اپنا چشم دیدواقعہ بیان کرتے ہوئے)کہتے ہیں کہ انصار کا ایک (مخلص محب اور جاں نثار)آدمی بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو (آقا علیہ السلام کی رنگت دیکھ کر)اس نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے کہ میں جناب کے رنگ میں تبدیلی محسوس کررہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(رنگت میں تبدیلی کی بڑی وجہ ہے)بھوک۔یہ معلوم کرکے وہ انصاری اپنی قیام گاہ (گھر)پر آیا، مگر اپنے گھرمیں بھی اس نے کوئی چیز نہ پائی(جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوک کا سامان کرکے دلی مسرت وسکون حاصل کرتا) چنانچہ وہ کھانے پینے کی کسی چیز کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑا ہوا ، تو اس دوران اس نے دیکھا کہ ایک یہودی اپنے باغ کو (کنویں سے ڈول نکال نکال کر)پانی دے رہا ہے۔مذکور صحابی نے پوچھا کیا میں تمہارے باغ کو سینچ (پانی لگا)دوں ؟اس نے کہا ہاں۔انصاری نے کہا تو سن لو ایک ڈول کے بدلے ایک کھجور ہوگی۔علاوہ ازیں اس نے یہ شرط بھی لگائی کہ وہ معاوضے میں نہ اندرسے سیاہ (خراب )کھجورلے گا نہ خشک کھجوراورنہ گری پڑی کھجور بلکہ وہ اس سینچائی کے بدلے میں موٹی تازی کھجور وصول کرے گا۔ اس معاہدہ کیمطابق اس نے تقریباً وہ ساع کھجور کے برابر۔ یہودی کے باغ کی سینچائی کی (پانی لگایا)اورمزدوری سے حاصل شدہ کھجور وں کایہ نذرانہ بارگاہِ محبوب ﷺمیں پیش کردیا۔ (ابن ماجہ)

بعض روایات میں ا س پر یہ اضافہ ہے کہ جب اس نے کھجوریں لاکر حضور ﷺکے سامنے رکھیں اور عرض کیا کہ تناول فرمائیے ۔اس پر آپ ﷺنے پوچھا:تم یہ کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟اس نے سارا واقعہ بتایا تو آپ ﷺنے فرمایا:میرا خیال ہے کہ تم اللہ اوراس کے رسول ﷺسے محبت کرنیوالے ہو۔اس نے عرض کیا:ہاں!بے شک آپ ﷺکی ذات گرامی میرے نزدیک میری جان،میری اولاد، میرے اہل وعیال اور میرے مال سے بھی زیادہ محبوب ہے۔

آپ ﷺ نے (محبت رسول ﷺکی قیمت بتاتے ہوئے ) فرمایا: اگر یہ بات ہے تو پھر فقروفاقہ پر صبر کرنا اورآزمائشوں کیلئے اپنی کمر کس لینا ۔اس ذات کی قسم !جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے، جو شخص میرے ساتھ (سچی محبت رکھتا ہے تو یہ دونوں مذکورہ چیزیں(فقروفاقہ اورآزمائشیں )اسکی طرف اس پانی سے بھی زیادہ تیز دوڑ کر آتی ہیں جو پہاڑکی چوٹی سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔(الاصابہ، مجمع الزوائد: بحوالہ ،حب رسول اورصحابہ کرام)

بدھ، 20 جنوری، 2021

Insaan Ki Meraaj - انسان کی معراج

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1633 ( Surah Muhammad Ayat 11 ) درس قرآن سُوۡ...

صحبتِ صالحہ کے نتائج

 

صحبتِ صالحہ کے نتائج

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کے حاملین نے ہر دور میں دین مبین کی خدمت کی اوران کا فیض عام ہو۔اپنے زمانے کے ماحول اور معاشرے پر خواجہ نظام الدین اولیاء کے روشن اورمثبت اثرات کے مزید مطالعہ کے لیے ضیا الدین برنی کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔ ’’علاقہ کے اکثر لوگ عبادت، تصوف اورترک وتجرید کی طرف مائل ہوگئے تھے۔شیخ کے حلقہ ارادت سے تعلق رکھتے تھے ۔سلطان علاء الدین بھی اپنے خاندان والوں کے ساتھ شیخ کا معتقد ہوگیا تھا۔ خاص وعام کے دلوں میں خیرکا جذبہ بیدار ہوگیا تھا۔ اس مبارک عہد مین جو عہد علائی کے آخری چند برسوں پر مشتمل تھا ،کسی بھی مسلمان کی زبان پر شراب وشاہد،فسق وفجور ،قماربازی یا فحش حرکات کا نام بھی نہیں آتا تھا۔ لوگ بڑے جرائم اورکبیرہ گناہوں کو کفر کی طرح سمجھنے لگے تھے۔مسلمان سود اورذخیرہ اندوزی سے تائب ہوگئے تھے۔ دکاندار دجل ،فریب، کم لولنے ، دھوکے بازی اورسادہ لوحوں کی رقمیں مار لینے سے پرہیز کرنے لگے تھے۔ مکاری اوردغا بازی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ 

علم حاصل کرنے والے، اشراف اوراکابر جو شیخ کی خدمت میں حاضر ہوتے ۔زیادہ تر توحید وسلوک کی کتابوں اوران رسالوں کا مطالعہ کرتے رہتے ،جن میں طریقت کے احکام ہوتے تھے۔ لوگ کتاب فروشوں سے زیادہ ترسلوک اورحقائق کی کتابوں کے بارے میں دریافت کرتے رہتے تھے۔ کوئی رومال ایسا نظرنہ آتا جس میں مسواک اورکنگھا لٹکا ہوا نہ ہو۔ خریداری کی کثرت سے افتابے اورطشت مہنگے ہوگئے تھے۔ 

درحقیقت اللہ نے شیخ نظام الدین کو اس زمانے میں جنیدؒ اوربایزید ؒ کی حیثیت دے دی تھی اور انہیں عشق ومعرفت کے اس کمال سے آراستہ کیاتھا جس کی کیفیت کو سمجھنا عقل انسانی کی حدود سے ماوراء ہے۔ (تاریخ فیروز شاہی، بحوالہ دبستانِ نظام)دلی کے عوام وامراء پر اس قدر گہرے اثرات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے خلفاء ومبلغین کی ایک جلیل القدر جماعت بھی تیارکی، جن میں سے ہر ایک گویا کہ منتخب روزگار تھا، اورانھیں دوردرازدیاروامصار میں تبلیغ وتربیت کیلئے بھیجا ۔آپکے ایک خلیفہ چین کے صوبہ سنگیانگ میں بھی تشریف لے گئے۔ ان خلفاء کے وجود سے پورا برصغیر اسلام سے آشنا ہوا۔ ان حضرات کیلئے علم سے آراستہ ہونے کو ازحد ضروری قرار دیا گیا ۔ اورانھیں بے رغبتی دنیا کی سختی سے تاکید کی گئی۔ترک دنیا پر بڑا زوردیا گیا۔ لیکن بے رغبتی دنیا اورترک دنیا کے مفہوم کی اپنی مجلسوں میں باربار وضاحت فرمائی تاکہ اس سے رہبانیت کا تصور کسی صورت میں پیدا نہ ہو۔


منگل، 19 جنوری، 2021

صبر

 

صبر 

 صبر کا معنی ہے : کسی چیز کو تنگی میں روکنا ، نیز کہتے ہیں کہ نفس کو عقل اورشریعت کے تقاضوں کے مطابق روکنا صبر ہے۔ مختلف مواقع اورمحل استعمال کے اعتبار سے صبر کے مختلف معانی ہیں، مصیبت کے وقت نفس کے ضبط کرنے کو صبر کہتے ہیں ، اس کے مقابلہ میں جزع اوربے قراری ہے اورجنگ میں نفس کے ثابت قدم رہنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں بزدلی ہے، حرام کاموں کی تحریک کے وقت حرام کاموں سے رکنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں فسق ہے، عبادت میں مشقت جھیلنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں معصیت ہے ، قلیل روزی پر قناعت کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں حرص ہے ، دوسروں کی ایذارسانی برداشت کرنے کوبھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں انتقام ہے۔ 

 حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صبر کی دوقسمیں ہیں، مصیبت کے وقت صبر اچھا ہے، اوراس سے بھی اچھا صبر ہے اللہ کے محارم سے صبر کرنا(یعنی نفس کوحرام کاموں سے روکنا)۔(ابن ابی حاتم)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہواتھا، آپ نے فرمایا : اے بیٹے ! کیا میں تم کو ایسے کلمات نہ سکھائوں جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں نفع دے ، میں نے کہا: کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : اللہ کو یاد رکھو ، اللہ تمہیں یاد رکھے گا اللہ کو یاد رکھو تم اس کو اپنے سامنے پائو گے ، اللہ تعالیٰ کو آسانی میں یادرکھو وہ تم کو مشکل میں یادرکھے گا، اورجان لو کہ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے وہ تم سے ٹلنے والی نہیں تھی اورجو مصیبت تم سے ٹل گئی ہے وہ تمہیں پہنچنے والی نہیں تھی اوراللہ نے تمہیں جس چیز کے دینے کا ارادہ نہیں کیا تمام مخلوق بھی جمع ہوکر تمہیں وہ چیز نہیں دے سکتی اورجو چیز اللہ تمہیں دینا چاہے تو سب مل کر اس کو روک نہیں سکتے قیامت تک کی تمام باتیں لکھ کر قلم خشک ہوگیا ہے ، جب تم سوال کرو تو اللہ سے کرو اورجب تم مدد چاہو تو اللہ سے چاہو اورجب تم کسی کا دامن پکڑ وتو اللہ کا دامن پکڑواورشکر کرتے ہوئے اللہ کے لیے عمل کرو اورجان لو کہ ناگوار چیز پر صبر کرنے میں خیر کثیر ہے اورصبر کے ساتھ نصرت ہے اورتکلیف کے ساتھ کشادگی ہے اورمشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ حضرت ابوالحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے خوشی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بہ قدر حاجت رزق دیا اوراس نے اس پر صبر کیا ۔(امام بیہقی )

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو مسلمان لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اوران کی ایذاء پر صبر کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے مل جل کر نہیں رہتا اوران کی ایذاء پر صبر نہیں کرتا۔(امام بخاری ، ترمذی ، ابن ماجہ )


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1632 ( Surah Muhammad Ayat 08 - 10 ) درس قرآن...

پیر، 18 جنوری، 2021

طیب وطاہر وجود

 

طیب وطاہر وجود 

قاضی عیاض مالکی تحریر کرتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کی نظافت بطن اقدس اوراس کے سینے کی خوشبو اوراس کا ہر قسم کی آلودگی اورعیوبات جسمانیہ سے پاک صاف ہونا یہ ہے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ خصوصیت عطافرمائی ہے کہ آپ کے سوا کسی میں پائی ہی نہیں جاتی۔مزید براں یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو شرعی نفاست وپاکیزگی اوردس فطری خصلتوں سے بھی مزین فرمایا ہے،چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دین کی بنیاد پاکیزگی پر ہے۔ (ترمذی)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سی خوشبو سے بڑھ کر کسی عنبر ،کستوری اورکسی بھی چیز کی خوشبو کو نہ پایا۔(صحیح مسلم)

حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رخسار کو چُھواتو میں نے آپ کے دست اقدس کو ایسا ٹھنڈا اورمعطر پایا کہ گویا ابھی آپ نے عطارکے صندوقچے سے اپنے دست مبارک کو باہر نکالاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ سے مروی ہے کہ خواہ آپ نے خوشبو لگائی ہوتی یا نہیں لیکن آپ جس شخص سے بھی مصافحہ فرماتے تو وہ ساران دن اُس کی خوشبو سے معطر رہتا ،اگر آپ کسی بچے کے سر پر اپنا دست شفقت پھیردیتے تو وہ بچہ خوشبو کی وجہ سے پہچانا جاتا۔(صحیح مسلم)

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کے گھر میں قیام فرمایا، آپ کو پسینہ آگیاحضرت انس کی والدہ ایک شیشی لے آئیں اورآپکے پسینے کو جمع کرنے لگیں، آپ نے وجہ دریافت فرمائی توعرض کیا میں اس کو اپنی خوشبو میں رکھوں گی یہ سب سے عمدہ اورطیب خوشبو ہے۔(صحیح مسلم)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس کوچہ وبازار سے گزرفرماتے اس کے بعد کوئی شخص اس طر ف سے گزرتا تو وہ خوشبو سے محسوس کرلیتا کہ آپ ادھر سے گزرے ہیں۔(بخاری فی التاریخ)اسحاق بن لاہویہ نے ذکر کیا ہے کہ آپ خوشبو نہ بھی استعمال فرماتے تو آپ کے جسم سے خوشبو پھوٹتی تھی۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں ایک دفعہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کو چومنے کا موقع ملا تواس میں سے کستوری کی خوشبو محسوس ہورہی تھی۔(ابن عساکر)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1631 ( Surah Muhammad Ayat 07 ) درس قرآن سُوۡ...

اتوار، 17 جنوری، 2021

ایک روحانی انقلاب

 

ایک روحانی انقلاب

حضرت بابافرید الدین گنج شکر کے حسن تربیت سے بہرہ ور ہونے کے بعد خواجہ نظام الدین اولیاء دلی میں فروکش ہوئے ،دلی کی فضا میں انکی تعلیم وتربیت سے کیسا خوش گوار انقلاب آگیا۔اسکی ایک جھلک اس دور کے نامور مؤرخ ضیاء الدین برنی کے بیان سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :۔’’شیخ الاسلام حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے اصلاح عوام وخواص اوربیعت عام کا دروازہ کھول رکھا تھا۔ گناہ گار لوگ ان کے سامنے گناہوں کا اقبال کرتے،توبہ کرتے ۔شیخ ان کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کرلیتے ۔خواص وعوام ، مفلس ،امیر ،فقیر عالم جاہل شریف ،رذیل ،شہر ی دیہاتی ،غازی ،مجاہد، غلام شیخ سب سے توبہ کراتے ، طاقیہ (ٹوپی)عطاء فرماتے صفائی کیلئے مسواک دیتے۔ ان لوگوں میں سے کثیر تعداد بہت سے ایسے کاموں سے پرہیز کرنے لگی تھی،جو نامناسب تھے۔ شیخ کی خانقاہ میں حاضر ہونے والوں میں سے اگر کسی سے کوئی لغزش ہوجاتی تو اس کو بیعت کی تجدید کرنے پڑتی۔شیخ اس سے ازسرنو اقبال گناہ کرواتے اورتوبہ کراتے‘‘۔
آپکے حلقہ تربیت میں شامل ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ ظاہری اورباطنی گناہوں سے باز رہتے عام لوگ اپنے اعتقاد کی وجہ سے یا دوسروں کی اتباع میں عبادت اوربندگی کی طرف راغب ہوچکے تھے۔ مرد، عورتیں ،بوڑھے ،جوان سوداگر ،عام لوگ ،غلام نوکر کم عمر بچے سب نمازی ہوگئے تھے۔ آپ کے ارادت مندوں کی اکثریت نماز چاشت اوراشراق کی پابندہوگئی تھی۔مخیر حضرات نے دلی شہر سے قصبہ غیاث پور (جہاں شیخ کا قیام تھا)جا بجا لکڑیوں کے چبوترے بنوادیے تھے، چھپر ڈالوادئیے تھے۔کنویں کھدوادیے تھے،یہاں مٹکے ،کھڑے اور لوٹے رکھے رہتے تھے۔ چھپروں میں بوریے بچھے رہتے ۔چبوتروں اورچھروں میں حفاظ اورخدام مقر ر تھے۔ یہ سب اس لیے تھا کہ شیخ کے مرید، تائبوں اوردوسرے نیک لوگوں کو شیخ کے آستانے پر جاتے اورآتے ،وقت پر وضو کرنے اور بروقت نماز ادا کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ ان چبوتروں اورچھپروں میں نفل پڑھنے والوں کا ہجوم رہتا۔گناہوں کے ارتکاب اورانکے متعلق کوئی بات چیت نہیں ہوتی تھی بلکہ اکثر وبیشتر جو گفتگو ہوتی ،وہ چاشت اوراشراق کی نماز وں کے بارے میں ہوتی۔ لوگ یہی دریافت کرتے رہتے کہ زوال،اوابین اورتہجد کی نمازوں میں کتنی رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ہر رکعت میں قرآن مجید کی کون سی سورت پڑھنی چاہیے۔پانچوں وقت نمازوں میں نفلوں کے بعد کون سی دعائیں ہیں ۔(تاریخ فیروز شاہی بحوالہ دبستانِ نظام)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1630 ( Surah Muhammad Ayat 06 ) درس قرآن سُوۡ...

ہفتہ، 16 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1629 ( Surah Muhammad Ayat 04 Part-2 ) درس قر...

تمدن آفریں

 

تمدن آفریں

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی سرگرمیوں کا محور یہ تھا کہ ان کے حلقہ تربیت میں آنے والے افراد ایک مکمل اسلامی کردار کے حامل بن جائیں۔ اسکے ساتھ ساتھ اس زمانے کا ماحول اورمعاشرت بھی اسلامی رنگ میں رنگ جائے ۔ برصغیر کا معاشرہ ہندو مذہب کے رسوم رواج میں رنگا ہوا تھا۔ برہمن کا اقتدار اس معاشرے پر بڑا مضبوط تھا۔ اسکے علاوہ بے شمار توہمات وروایات کو یہاں بڑا تقدس حاصل تھا، ہندوفلسفہ ، ادب اورثقافت کی بنیادیں معاشرے میں بہت گہری تھیں۔

ایسے میں مسلم تہذیب وثقافت اورمسلم تمدن کی آبیاری کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے لیے اصول پر مضبوطی سے قائم رہنا بھی بہت ضروری تھا اور ایک بھر پور تمدنی شعور کے ساتھ بڑے لچک دار حکیمانہ رویے کی بھی ازحد ضرورت تھی۔ اصول پراس طرح مستحکم رہنا کہ انسان کاخُلْق اورفراخ دلی بھی قائم رہے اوررویے میں ایسی لچک کہ مستحکم اصولوں پر ہی لرزش نہ آئے بڑا مشکل کام ہے۔ اس پیچیدہ اوردشوار مرحلے سے گزرنے کے لیے ایک ایسے وجود کی ضرورت تھی جو علم،عشق اوربصیرت کاجامع ہو۔ اوربرصغیر کی مسلم تاریخ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ تاریخ کے اس معنی خیز مرحلے پر خواجہ نظام الدین اولیاء کی شخصیت اپنی پوری ،علمی ،روحانی اورفکری توانائی کے ساتھ موجود تھی۔ 

آپ قرآن وحدیث سے گہر اشغف رکھتے تھے۔ امام غزالی ؒ جیسے حکیم کی تفسیر کا بلاناغہ مطالعہ فرماتے، دیگر متداول تفسیر یں بھی پیشِ نظر رکھتے، زیرکفالت تمام افراد کو قرآن حفظ کروایا، اوراپنی مجلس میں لطیف قرآنی نکات بیان کرتے، حدیث کے نادر نکات کی نشان دہی کرتے۔قرآنی اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے بڑی ایمان افروز حکایات کے ذریعے مخاطب کو اپنی بات سمجھاتے ،سنت کا گہر اشعور رکھتے اورمعاشرتی آداب کی بڑے حکیمانہ انداز میں ترویج وتبلیغ فرماتے۔ اسلامی اخلاقیات کا شعور آپ کے پورے حلقے میں بہت اچھی طرح راسخ ہوگیا۔ 

اس طرح آپ کی توجہ سے جہاں بڑے جلیل القدر لوگوں کی ایک جماعت نظر آتی ہے جنہوں نے پورے خطے کو اپنے علم اورروحانیت سے معمور کردیا ان میں حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلی، مولانا شمش الدین محمد ،شیخ قطب الدین منور،مولانا فخرالدین زرادی، مولانا حسام الدین ملتانی،مولانا شہاب الدین امام، خواجہ ابوبکر مندہ،مولانا برھان الدین غریب،مولانا علاء الدین نیلی، مولانا عثمان المعروف اخی سراج وغیر ہ جیسے عظیم المرتبت لوگ شامل ہیں۔ 


جمعہ، 15 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1628 ( Surah Muhammad Ayat 04 Part-1 ) درس قر...

اوصافِ حمیدہ

 

اوصافِ حمیدہ

بابافرید الدین گنج شکر نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کو دلی میں بیٹھ کر مخلوق کی تعلیم وتربیت کا حکم دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اطہر ہمیں بتاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال عرفان کی بلند یوں پر فائز ہونے کے باوجودتادم واپسیں ،عبادت ،ریاضت ، عاجزی اورانکساری کوترک نہیں کیا۔ تاریخ اسلام میں تبلیغ تربیت اورتزکیہ کے حوالے سے جتنے بھی اہم نام سامنے آتے ہیں ،ان سب میں سیرت رسول کا یہ اتباع نمایاں نظر آتا ہے۔ انسان اپنے تزکیہ اورتربیت میں جتنی کوشش کرے اس کے اردگرد کے ماحول میں بھی اسی قدر اجالا ہوگا۔ مبلغ ومربّی جتنا حسنِ نیت اوراخلاص کو بر وئے کار لاتا ہے۔ اتنا ہی اس کا کارِ دعوت وتربیت بابرکت اورموثر ہوتاہے۔ 

صفائی باطن ،حسنِ نیت ،اخلاق اور شفقت کے ساتھ مبلغ ومربی کے لیے ضروری ہے کہ ضروری علم وفضل سے آراستہ ہو،زمانے کے حالات پر گہری نظر رکھتا ہواور حکمت ودانائی سے بھی متصف ہو۔

خواجہ نظام الدین اولیاء کی ساری زندگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکیمانہ اسلوب کی پیروی سے روشن نظر آتی ہے۔ آپ نے مقبول عوام وخوص ہونے کے باوجود ساری زندگی عبادت، ریاضت ، ذکر وتسبیح ،شب بیداری اورنوافل کا التزام رکھا ،سال کے اکثر ایام روزے سے رہے۔ اپنی ذاتی زندگی کو بہت سادگی اورقناعت سے بسرکیا۔ پاکپتن میں عرصہ تربیت کے دوران ایک بار آپ لنگر کے لیے نمک ادھار لے آئے تھے اوروہ لنگر بھی ابلے ہوئے ڈیلوں پر مشتمل تھا۔ باباصاحب نے اس پر آپ کو تلقین فرمائی کہ درویش کو اپنے نفس کی تسکین کے لیے ادھار نہیں لینا چاہیے ۔اورذاتی آسائش کے لیے کبھی کسی سے سوال نہیں کرنا چاہیے ۔آپ عمر بھر اس نصیحت پر کاربندرہے۔ 

بادشاہ کی طرف سے کئی بار جاگیر نذر کرنے کی خواہش کا اظہار کیاگیا لیکن آپ نے ہر بار معذرت فرما ئی ،اورنہ کسی بادشاہ سے جاگیر قبول کی اورنہ کبھی بادشاہ کے دربار میں حاضر ی کے لیے گئے۔اس پاداش میں بسااوقات آپ کو دربار کی طرف سے بڑی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا ،لیکن آپ کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ بے شمار ہدیے آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے لیکن آنے والوں کو ان کے ھدیوں سے زیادہ دے کر بھیجتے ۔ 

جمعرات، 14 جنوری، 2021

Deen Ki Haqeeqat Kya Hay?

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1627 ( Surah Muhammad Ayat 02 Part-2 ) درس قر...

علم اورصحابہ کرام

 

علم اورصحابہ کرام

سرخیل علماء حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں علم حاصل کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے علم حاصل کرنا اللہ سے ڈرنا ہے۔علم کی تلاش عبادت ہے،اس کا باہم مذاکرہ کرنا تسبیح ہے ، اس میں بحث کرنا جہاد ہے، بے علم کو تعلیم دینا صدقہ ہے جو لوگ علم کی استعداد رکھتے ہیں ان پر علم خرچ کرنا اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے کیونکہ علم کے ذریعے سے حلال اورحرام کی شناخت ہوتی ہے، علم اہل جنت کے لیے مینار (لائٹ ہائوس)ہے، وحشت میں انس ہے اور سفر میں رفیق ، تنہائی میں باہم کلام کرنے والا ، نفع اورخسارے کی نشاندہی کرنے والا ہے ، دشمنوں کے خلاف ہتھیار اوردوستوں کے نزدیک انسان کی زینت کا سامان ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ علم کے ذریعے کچھ لوگوں کا مرتبہ بلند کرتے ہیں اوران کوخیر کے کاموں میں لوگوں کا پیشوا اورامام بناتے ہیں۔وہ ان کے طریقوں کو اختیار کرتے ہیں جملہ امور میں ان کی اتباع کرتے اوران کی اصابت رائے اورفیصلے پر سب مطمئن ہوجاتے ہیں ، فرشتے ان کی دوستی اوررفاقت کا اشتیاق رکھتے ہیں اورحصول برکت کے لیے اپنے پر ان کے جسم سے مس کرتے ہیں۔اللہ کی ہر طرح کی مخلو ق ان کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اوردیگر جانور ،خشکی کے درندے ، چوپائے اورحشرات العرض بھی ان کے لیے بخش کی دعا کرتے ہیں کیونکہ علم دلوں کو جہالت سے نکال کر حیات دوام بخشتا ہے اوراندھیرے میں نگاہ کو بصیرت عطاکرتا ہے انسان علم کے ذریعے اعلیٰ افراد کے مراتب اوردنیا و آخرت کے بلند درجات کو حاصل کرلیتا ہے۔

 علم میں غور وفکر کرنے سے روزہ اوراس کے پڑھنے پڑھانے سے عبادت شبانہ کا ثواب ملتا ہے ، علم کی وجہ سے انسان صلہ رحمی کرتا ہے، حلا ل وحرام کا فرق جانتا ہے ، علم عمل کا امام ہے ، عمل اس کے تابع ہے ، خوش بخت انسانوں کے دلوں میں علم کا الہام ہوتا ہے اوربدنصیب لوگ علم کے نور سے محروم رہتے ہیں۔(ابونعیم)

 حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم عالم بنو یا طالب علم بنو، علماء سے محبت کرنے والے اوران کے اتباع کرنے والے بنو، ان چار کے علاوہ کچھ نہ بنوورنہ ہلاک ہوجائو گے ۔ حمیدی کہتے ہیں کہ میں نے حسن بصری سے پوچھا :پانچویں قسم کے افراد کون ہیں؟انھوں نے فرمایا:اپنی طرف سے دین میں نئی نئی باتیں ایجاد کرنے والے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ تم اس حال میں صبح کرو یا تو تم سکھانے والے ہو یا سیکھنے والے اورایسے انسان نہ بنو جس کی اپنی کوئی رائے ہی نہ ہواوروہ ہر ایک کے پیچھے چل پڑے۔حضرت ابودرداء فرماتے ہیں جو شخص بھی علی الصبح تعلیم یا تحصیل کے لیے نکلتا ہے اس کے لیے مجاہد کا اجر لکھا جاتا ہے اورجو شخص یہ سمجھے کہ صبح وشام علم کے لیے جانا جہاد نہیں ہے وہ کم فہم اورناقص رائے والا ہے۔(عبد البر)

بدھ، 13 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1626 ( Surah Muhammad Ayat 02 Part-1 ) درس قر...

Deen Asal Main Kya Hay?

آفتاب وماہتاب

 

آفتاب وماہتاب

خواجہ نظام الدین کو دلی میں تحصیل علم کرتے ہوئے چارسال ہوگئے۔ ان چارسالوں میں وہ مسلسل بابافرید الدین گنج شکر کا تذکرہ اور شہرہ سنتے رہے ۔انکی علم وروحانیت ،کی بناپر خلقت انکی جانب امڈ امڈ کر آرہی تھی۔خواجہ نظام بھی وہاں جانا چاہتے تھے لیکن سفرکی دشواری اور اسباب سفر کی کم یابی راستے میں رکاوٹ بنتی۔ ایک دن صبح کی اذان کے بعد موذن نے نہایت خوش الحانی سے قرآن کی آیت پڑھی۔ ’’کیا اہل ایمان کیلئے ابھی تک وہ دن نہیں آیا کہ انکے دل اللہ کے ذکر سے گداز ہوں‘‘۔یہ سننا تھا کہ بے قرار ہوگئے ، سارے اندیشوں اوراسباب ووسائل کے خیال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باباصاحب کی طرف روانہ ہوگئے۔جیسے ہی وہاں پہنچے بابافرید نے مسکراکر آپ کا استقبال کیااور آپ کو دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا۔

اے آتشِ فراقت دل ہا کباب کردہ 

سیلاب اشتیاقت جاں ہا خراب کردہ

خواجہ نظام وفورِ اشتیاق ،پاسِ ادب اور شیخ کبیر کی بزرگی کی وجہ سے کلام نہیں کرپارہے تھے۔ باباصاحب نے بڑی لطافت اور خوش طبعی سے فرمایا ’’لکل داخلٍ دھشۃ ‘‘(ہر نیا آنے والا کچھ مرعوب ضرور ہوتا ہے)

باباصاحب زہد ،تقویٰ ،توکل ،استغناء ، فقر ودرویشی اور تزکیہ وتربیت میں فرد تھے۔ لیکن اس وبستانِ فکر سے تعلق رکھتے تھے جو علم کو ازحد ضروری گردانتے تھے ،لہذا آپ نے سب سے پہلے خواجہ نظام سے انکی علمی استعداد کے بارے میں استفسار فرمایا۔ابتداء قرآن سے ہوئی اور پوچھا کہ کچھ قرآن بھی پڑھا ہے،تو سنائو آپ نے قرآن سنایا اگر چہ آپ نے بڑے اچھے قراء سے تحصیل فرمائی تھی لیکن باباصاحب مطمئن نہیں ہوئے فرمایا قرآن پاک ہم تمہیں خود پڑھائیں گے۔آپ نے خواجہ نظام کو چھ سپارے قرآت وتجوید کے اصولوں کے مطابق پڑھائے۔ آپ فرماتے ہیں لفظ ضاؔد کا مخرج جس خوبصورتی سے باباصاحب ادافرماتے تھے میں نے اپنی زندگی میں کسی اور سے اس طرح نہیں سنا۔

قرآن پاک کے ساتھ آپ نے باباصاحب سے مشہور کتاب عوارف المعارف کے پانچ ابواب پڑھے۔ اور عقائد میں ابوشکور شالمی کی کتاب’’تمہید المبتدی‘‘پڑھی ۔شیخ کبیر کے پڑھانے کا انداز انتہائی دلکش تھا۔آپ فرماتے ہیں کہ وہ ایسے عمدہ اور دلکش انداز سے پڑھاتے تھے کہ آدمی انکے لطف بیان میں کھو جاتا تھا اور اتنا محوہوجاتا کہ جی چاہنے لگتا کہ کاش اس سماعت میں دم ہی نکل جائے۔ علم کے ساتھ باباصاحب نے آپ کی روحانی تربیت فرمائی ۔ 


منگل، 12 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1625 ( Surah Muhammad Ayat 01 Part - 2 ) درس ...

خواجہ نظام کا ورودِ دلی

 

خواجہ نظام کا ورودِ دلی 

حضرت نظام الدین اولیاء نے بدایوں میں رہتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کرلی اس وقت انکی عمر 16بر س تھی۔ مزید تحصیل علم کا شوق فراواں موجود تھا۔ اپنی والدہ اور ہمشیرہ کے ساتھ دلی آگئے۔ دلی اس وقت حکومت واقتدار کا مرکز تھا اور اس شہر میں بڑے بڑے صاحبانِ کمال موجود تھے۔ تاتاریوں کی بڑھتی ہوئی یورشوں کی وجہ سے مملکت اسلامیہ کے بہت سے علاقوں کے، چنیدہ افراد ہندوستان کا رخ کررہے تھے۔ اہل کمال کے اس ہجوم میں ’’بابانظام‘‘ نے جلد ہی ایک محنتی، ذہین اورعلم کا شدید اشتیاق رکھنے والے طالب علم کی حیثیت سے اپنا مقام منوالیا اپنی ذہانت برحبستہ گوئی اور استدلال و طریقِ گفتگو کی وجہ سے نظام الدین بحاث اور نظام الدین محفل شکن کے القابات سے مشہور ہوگئے۔انہوں نے اپنے عہد کے تمام علوم سے شناسائی حاصل کی مقامات حریری عربی ادب کی ایک مشکل اور ادّق کتاب ہے۔ اسکے چالیس ابواب زبانی یادکرلیے۔ مولانا شمس الملک، مولانا کمال الدین زاہد اور مولانا امین الدین محدث جیسے باکمال اساتذہ سے علم حاصل کیا، خواجہ شمس الملک تو اپنے شاگرد کا اس درجہ احترام کرتے کہ انھیں اپنے برابر میں بٹھاتے۔مولانا کمال الدین زاہد حدیث کے زبر دست عالم تھے انہوں نے علم حدیث، نامور محدث مولانا رفیع الدین صغانی صاحب ’’مشارق الانوار‘‘ کے شاگرد مولانا برہان الدین محمود اسعد بلخی سے حاصل کیا تھا۔ مزاج میں زہد، تقویٰ اور قناعت پاکیزگی کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ جب بادشاہ غیاث الدین بلبن نے ان کا شہرہ سنا تو انہیں دربار میں طلب کیا۔ اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ ہماری نمازوں کی امامت کروائیں۔ مولانا نے جواباً، بڑی بے باکی سے کہا ’’ہمارے پاس نماز کے سواء اور ہے کیا، کیا بادشاہ اسے بھی ہم سے چھین لینا چاہتا ہے‘‘ بلبن یہ سن کر چپ ہوگیا اور دوبارہ اصرار نہیں کیا۔’’مشارق الانوار‘‘ بخاری اور مسلم کا ایک خوبصورت انتخاب ہے۔ خواجہ نظام نے آپ سے اس کتاب کا نہ صرف یہ کہ درس لیا بلکہ پوری کتاب کو حرفاً حرفاً حفظ بھی کر لیا۔دلی میں خواجہ نظام الدین کو حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کا پڑوس میسر آیا۔ آپ حضرت بابافرید الدین گنج شکر کے چھوٹے بھائی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ میں نے اتنا پڑھ لیا کہیں قاضی لگ جائوں میں نے حضرت متوکل سے دعا کیلئے عرض کیا تو انھوں نے مسکرا کر کہاقاضی نہ بنو کچھ اور چیز ہی بنو، خواجہ نظام بچپن میں بابا فرید الدین کا ذکر سنتے تو اپنے دل میں ان کیلئے بڑی محبت محسوس کرتے۔ اور وہ باباصاحب کی ملاقات کیلئے پاکپتن روانہ ہوگئے۔

Asal Deen Kya Hay?

پیر، 11 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1624 ( Surah Muhammad Ayat 01 Part - 1 ) درس ...

Ebadat Kya Hay?

خواجہ نظام الدین اولیاء

 

خواجہ نظام الدین اولیاء

برصغیر کے اسلامی تمدن اور تہذیب وثقافت پر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے اثرات بہت ہی گہرے اور ناقابل فراموش ہیں۔خواجہ نظام الدین اولیاء بڑی استقامت ،اور حکمت کے ساتھ تقریباً 70سال تک دلی میں کارِ تعلیم وتربیت میں مشغول رہے اور آپکے اثرات سے پورا برصغیر مستفید ہوا۔جہاں عوام آپکے والہ وشیفتہ تھے وہیں پر آپکی ہمہ گیر شخصیت نے وقت کے زرخیز دماغوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ شاہ محمدغوثی رقم طراز ہیں۔خواجہ نظام الدین اولیاء کے سات سوتربیت یافتہ خلفاء تھے جن میں سے ہر ایک کے سینے سے گویا کہ عرفان کا آفتا ب طلوع ہوتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔آپ 27صفر636ہجری بروز بدھ بدایوںمیں پیدا ہوئے ،پیدائشی نام محمد ہے اپنے لقب نظام الدین سے شہرت پائی۔آپکے والد گرامی سید احمد اور والدہ بی بی زلیخا ہیں ۔دونوں سادات حسینی میں سے ہیں۔ آپکے دادا سید علی اور نانا سید عرب بخارا سے ہجرت کرکے بدایوں تشریف لائے تھے۔یہ دونوں حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے نسبت ارادت وخلافت کے حامل تھے اور دونوں نہایت متقی پرہیز گار اوراخلاق حسنہ سے متصف تھے۔ آپکے والد گرامی خواجہ سید احمد تمام علوم ظاہری میں عالم متبحر اور فاضل اجل تھے۔اور نہایت صاحب امانت ودیانت تھے۔حکومت کے اصرار پرکچھ عرصہ قاضی رہے لیکن جلدہی اس منصب کوترک کرکے عبادت،ریاضت اور تبلیغ وتربیت میں مشغول ہوگئے۔والدہ ماجدہ اپنی عبادت وریاضت ،اور زہدو ورع میں رابعہ عصرتھیں اس کے ساتھ صبر وشکر اورتسلیم ورضا میں آپ کا مقام نہایت بلند تھا۔ والد گرامی اس وقت وصال فرماگئے جب ابھی آپ ۵سال کے تھے۔تربیت وکفالت کی تمام ذمہ داری والدہ پر آگئی۔آپ نے اپنے نونہال کو صبروتوکل کا عادی بنادیا۔ گھرمیں فاقہ کی نوبت آجاتی تو فرماتیں ۔ بابانظام !آج ہم اللہ کے مہمان ہیں۔ سو یہ اس ضیافت روحانی کو بڑے مزے سے گزارتے یہاں تک اس لذت کے خوگر ہوگئے کہ اگر کافی دنوں تک فاقہ کی نوبت نہ آتی تو بڑے بے چین ہوکر والدہ سے پوچھتے کہ ہم اللہ کے مہمان کب بنیں گے۔ بدایوں میں اس وقت مرکز علم ودانش تھا۔ بڑے قابل اساتذہ وہاں موجود تھے۔آپ نے قرآن پاک کی تعلیم مولانا شادی مقری سے حاصل کی اور علوم متداولہ کیلئے مولانا علائوالدین اصولی کی خدمت میں زانوئے تلمذطے کیا جو علم ،تقویٰ توکل اور استغناء میں اپنی مثال آپ تھے۔

اتوار، 10 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1623 ( Surah Al-Ahqaf Ayat 35 ) درس قرآن سُوۡ...

Humari Kamyabi Ka Package Kya Hay ?

اقوالِ سید جیلان (۲)

 

اقوالِ سید جیلان (۲)

٭اگر ہمارا گناہ صرف یہی ہو کہ ہم دنیاسے محبت کرتے ہیں تب بھی ہم جہنم کے حق دار ہیں۔

٭اگر تو اونچی آواز میں اللہ بھی کہے تو حساب ہوگاکہ یہ اخلاص سے تھا یا ریاء سے ۔٭جس کا انجام موت ہو اس کے لیے خوشی کا کون سا مقام ہے۔٭مومن اپنے اہل وعیال کو اللہ کے سپرد کرتا ہے اور منافق اپنے مال کے۔

٭اخلاص اس کا نام ہے کہ لوگوں کی تعریف یا مذمت کا کچھ خیال نہ کیا جائے۔٭مخلوق کے ساتھ محبت یہ ہے کہ تو ان کی خیر خواہی کرے۔٭قول صورت ہے اورعمل اس کی روح ۔٭جو مخلوق کا ادب نہیں کرتا وہ خالق کے ادب کا دعویٰ نہ کرے ۔٭جو اپنے نفس کو تعلیم نہیں دے سکتا وہ دوسروں کو تعلیم دینے کی سعی نہ کرے۔اللہ کا تقویٰ اور اطاعت اختیار کرو اور شریعت کے پابند رہو۔٭اپنے سینے کوخواہشات سے محفوظ کرلو۔ ٭خلق خدا کو آزار نہ دو اور آداب درویشان کو ملحوظ خاطر رکھو۔٭مجھے دوچیزیں بنیادی اور پسندیدہ نظر آتی ہیں،حسن اخلاق اور بھوکوں کو کھانا کھلانا۔ ٭میرے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوتے تو میں بھوکوں کو کھانا کھلاتا ۔٭بزرگی کی بنیاد صدق گوئی اور راست بیانی پر ہے۔٭پہلے علم حاصل کرو پھر گوشہ نشین بنو۔٭اللہ ہی سے سب کچھ مانگو اور اسی پر بھروسہ کرو۔٭توحید پر مضبوطی سے قائم رہو کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے ۔٭جب لوگ فصل کاٹ رہے ہوں اس وقت بیج اور کھیتی کی باتیں بے فائدہ ہیں۔٭تم اسباب اور تمام مخلوق سے منقطع ہوجائو تمہارے دل کو مضبوط کردے گا۔

٭جو شخص اللہ کی معیت کا طالب ہواسے چاہیے کہ صدق کو اپنا شعار بنائے ۔٭ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنی تمام ضروریات کو اللہ کے سپر دکردو ۔٭اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص کی خوراک حرام ہو وہ خطرات میں تمیز نہیں کرسکتا ۔٭فقیر وہ ہے جس کے استغناء کا سبب ذات باری کے سوا کچھ نہ ہو۔٭جس نے صدق اخلاص اور تقویٰ کو اختیار کیا وہ ماسوا اللہ سے منقطع ہوگیا۔ ٭جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے اللہ اس کے علم کووسیع کردیتا ہے۔

٭اپنے ہاتھ میں شریعت چراغ لو پھر عبادت الہٰی کرو۔٭یہ حرص دنیا ہے جو تمہیں عجلت میں مبتلا کرکے ہلاک کرتی ہے۔ 

٭اگر متوکل ، متقی اور صاحب یقین بننا چاہتے ہو تو صبر پر کار بند رہو۔٭عمل پر غرور نہ کر کیونکہ اعمال کا دار ومدار خاتمے پر ہے۔

ہفتہ، 9 جنوری، 2021

اقوالِ سید جیلان (۱)

 

اقوالِ سید جیلان (۱)

٭صدق کی حقیقت یہ ہے کہ تم وہاں سچ بولو جہاں تمہیں جھوٹ کے بغیر نجات نظر نہ آتی ہو۔ 

٭دوسروں کی رہنمائی تو کوئی صاحب علم وبصیرت ہی کرسکتا ہے تم خود اندھے ہوکر دوسروں کی رہنمائی کیسے کرسکتے ہو،کوشش کرو کہ دائیں ہاتھ کے صدقے کی بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ کل آئے اورتم خود محتاج ہو۔٭علماء (ربانیین ) کی خدمت میں حسن ادب ، ترک اعتراض اورحصولِ فوائد کے لیے حاضری دو۔٭پہلے اپنے آپ کو نصیحت کرو پھر دوسروں کو ۔٭اگر حقیقی کامیابی مقصود ہے تو اطاعت رب میں نفس کی مخالفت کرو۔٭جو فاسق کے ساتھ مجالست کرتا ہے وہ گناہ پر دلیر ہوجاتا ہے اور اسے توبہ کرنے کی توفیق نہیں ملتی۔٭جو بادشاہوں کے ساتھ مصاحبت کرتا ہے اس کا دل سخت اور وہ مغرور ہوجاتا ہے ۔٭جو علماء ربا نیین سے رفاقت اختیار کرتا ہے ۔وہ متقی اور عالم ہوجاتا ہے۔ ٭جو عورتوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اس کی جہالت اور بری خواہش بڑھ جاتی ہے۔ ٭جو اتقیاء کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ اطاعت الہیٰ سے سرشار ہوجاتا ہے۔٭فقر کی حقیقت یہ ہے کہ تو اپنے جیسے انسان کا محتاج نہ رہے۔٭اے مالدار اپنی دولت کی بنا پر آنے والے کل سے روگردانی نہ کر ۔٭تیرا دل اللہ کا گھر ہے غیر کو اس سے نکال دے۔٭صادق وہ ہے جو اقوال ،افعال، اور احوال میں صداقت کو پیشِ نظر رکھے۔ ٭جو اللہ کا ہو کررہے اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے۔ 

٭ دنیا کو دل سے نکال دو اور ہاتھ میں لے لو۔٭نہ کسی سے محبت میں جلدی کرو اور نہ عداوت ونفرت میں عجلت سے کام لو۔٭دولت حاصل کرو مگر وہ تمہارے ہاتھ میں رہے دل پر قبضہ نہ کرے۔٭حسنِ خلق یہ ہے کہ تم پر جفائے خلق کا مطلق اثر نہ ہو۔٭تم نفس کی خواہش پوری کرنے میں لگے ہواور وہ تمہیں برباد کرنے میں مصروف ہے۔٭کوشش یہی کرنی چاہیے کہ بات جواباً ہو ابتداء اپنی طرف سے نہ ہو۔٭مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو لوگوں کی عیب جوئی میں مشغول ہے اور اپنے عیوب سے غافل ہے۔٭غربت اور بیماری صبر کے بغیر عذاب ہیں اور صبر کے ساتھ عزت۔

٭اپنی خوشی کو گھٹائو اور رنج ومحن کو بڑھائو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایسی ہی تھی۔٭دنیا نے تجھ جیسے ہزاروں کو پالا پوسا ، موٹا تازہ کیا اور پھر خود ہی کھالیا۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1622 ( Surah Al-Ahqaf Ayat 34 ) درس قرآن سُوۡ...

جمعہ، 8 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1621 ( Surah Al-Ahqaf Ayat 33 ) درس قرآن سُوۡ...

آئینہ خلقِ رسالت

 

آئینہ خلقِ رسالت

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سیرت کردار میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار وعمل کا آئینہ تھے۔انتہائی خلیق ، مواضع اور منکسر المزاج تھے،کوئی بچہ اور بچی بھی بات کرنے لگتی تو کھڑے ہو کراس کا مسئلہ سنتے اور اسکی اعانت کرتے ۔غریبوں ،مسکینوں کی صحبت میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے جبکہ امراء ،وزراء حتیٰ کہ حکمرانِ وقت کی مصاحبت سے بھی گریز کرتے ۔صاحبان علم وتقویٰ آپ کے پاس آتے تو کھڑے ہو کر انھیں خوش آمدید کہتے لیکن کسی بھی امیر آدمی یا اراکین سلطنت کی تعظیم کیلئے کھڑے نہ ہوتے۔ کبھی کبھی کسی وزیر یا سلطان کے دروازے پر نہیں گئے آپکے احباب میں سے کوئی غیر حاضر ہوتا تو اسکے حالات دریافت فرماتے ، کوئی بیمار ہوجاتا تو عیادت کیلئے تشریف لے جاتے ،خواہ سفر ہی اختیار کرنا پڑے، ایک مرتبہ حضرت شیخ علی ہیتی بیمار ہوگئے تو آپ ان کی بیمار ی پر سی کیلئے انکی بستی زرہران میں تشریف لے گئے جو بغداد سے قدرے فاصلے پر واقع ہے۔طبیعت میں حلم اور برباری غالب تھی، کسی ذاتی یا خانگی معاملے میں کبھی غصہ نہ فرماتے ، عوام یا خواص سے کوئی لغزش ہوجاتی تو اسے معاف فرمادیتے ۔ شیخ ابو عبد اللہ بغدادی کہتے ہیں:’’آپکے اخلاق نہایت محبوب اور اوصاف ازحد پاکیزہ تھے ۔ ہر رات عام دسترخوان بچھتا،مہمانوں کے ساتھ کھاتے، کمزوروں کے ساتھ بیٹھتے ،طلبہ سے خاص انس رکھتے آپ سے زیادہ صاحب حیا میں نے کوئی نہ دیکھا بڑے رقیق القلب ،خدا سے بہت ڈرنے والے،بڑی ہیبت والے ازحد کریم الاخلاق اور پاکیزہ طبع تھے ۔ محارم الہی کی بے حرمتی کے وقت سخت گیر تھے مگر اپنی ذات کیلئے انتقام نہ لیتے۔‘‘ امام محمد بن یوسف البرزالی فرماتے ہیں:۔’’آپ مستجاب الدعوات تھے، آنکھوں میں بڑی جلدی آنسو آجاتے ، ہمیشہ ذکروفکر میں مشغول رہتے ۔بڑے رقیق القلب ،خندہ پیشانی کے خوگر، شگفتہ رو،کریم النفس فراخ دست،وسیع العلم ،بلند اخلاق تھے۔عبادات اورمجاہدات میں آپ کا پایہ بلند تھا‘‘۔ سخاوت ،جو دوکرم اور بھوکوں کو کھانے کھلانے کاخاص ذوق تھا۔ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ساری دنیا کی دولت میرے قبضہ میں ہو تو بھوکوں کو کھانا کھلادوں یہ بھی فرماتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری ہتھیلی میں سوراخ ہے۔کوئی چیز اس میں ٹھہرتی نہیں۔ فرمایا کرتے تھے میں نے تمام اعمالِ صالحہ کی چھان بین کی ہے۔ ان میں سب سے افضل عمل بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے۔ صبر وصداقت اور استقلال اورصدق میں آپ کی شخصیت یکتائے روزگار تھی۔

بدھ، 6 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1619 ( Surah Al-Ahqaf Ayat 28 - 30 ) درس قرآن...

Insaan Ki Haqeeqat - انسان کی حقیقت

Humain Apnay Maqsad-e-Hayat Ki Parwah Kyoon Nahi Hay?

فضیلت علم

 

فضیلت علم

 اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مقدس میں ارشادفرماتے ہیں:۔

٭ اے اولادِ آدم بے شک ہم نے تمہارے لیے (ایسا )لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور(اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی )تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے ۔یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب )اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔(اعراف ۲۶)

 امام غزالی ؒ کہتے ہیں’’اس آیہ مبارکہ میں لباس سے مراد علم ، ریش سے مراد یقین اورلباس تقویٰ سے حیاء مراد ہے‘‘۔ انسان کو جب علم اوربصیرت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ حزم واحتیاط اورتقویٰ سے آراستہ ہوجاتا ہے اور اُس کی سیرت و کردار میں حیاء پیدا ہوجاتی ہے۔

٭ اوربے شک ہم ان کے پاس ایسی کتاب لائے جسے ہم نے اپنے علم کی بناء پر واضح کیا اوروہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اوررحمت ہے۔(اعراف۵۲)

٭ پھر ہم ان پر علم کے ساتھ ضرور بیان کریں گے ۔(اعراف ۷)

٭ بلکہ وہ روشن آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن کو علم دیا گیا ۔(عنکبوت ۴۹)

٭ اوراللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایااوراسے بیان سکھایا ۔(رحمن ۴،۳)

٭ اورجس کے پاس علم تھا اُس نے کہا میں اسے (تخت بلقیس کو) تیرے پاس لے آئوں گاآنکھ جپکنے سے پہلے۔(نمل ۴۰)

٭ توکیوں نہ نکلے ہر قبیلے میں سے چند افراد تاکہ دین میں تفقہ (سمجھ حاصل کریں)۔(توبہ ۱۲۲)

٭ پس اہل علم سے پوچھو اگر تم خود نہیں جانتے ۔(نحل ۴۳)

٭ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی عطافرمااورآخرت میں بھی بھلائی عطافرمااورہمیں آگ کے عذاب سے بچا ۔ (بقرہ ۲۰۱)حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں دنیا میں بھلائی علم اورعبادت ہے اورآخرت میں جنت ۔

٭ اوراللہ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے ،پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا:مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں)سچے ہو۔فرشتوںنے عرض کیا تیری ذات(ہر نقص سے )پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔(البقرہ ۳۲،۳۱)


منگل، 5 جنوری، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1618 ( Surah Al-Ahqaf Ayat 27 ) درس قرآن سُوۡ...

Insaan Ki Tareekh , Maqsad, Nejaat - انسان کی تاریخ ،مقصد، نجات

Kya Hum Bena Kisi Maqsad Kay Zindagi Guzar Saktay Hain?

حضرت ابوالدرداء کا ذوقِ علمی

 

حضرت ابوالدرداء کا ذوقِ علمی

حضرت ضحاک علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں، حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اہل دمشق سے ارشادفرمایا :اے دمشق والو! تم میرے دینی بھائی ہو، خطے میں میرے ہمسائے ہواوردشمنوں کے خلاف میرے مددگار بھی ہولیکن کیا وجہ ہے کہ تم مجھ سے دوستی نہیں رکھتے حالانکہ میرے اخراجات بھی تمہارے ذمہ نہیں ہیں بلکہ انھیں بھی دوسروں نے اٹھارکھا ہے،میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ تمہارے علماء اٹھتے جارہے ہیں اورتمہارے ناخواندہ لوگ ان سے علم حاصل نہیں کررہے ، میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ اللہ نے جس رزق کا خود ذمہ لے رکھا ہے تم اسکے پیچھے پڑے ہوئے ہو، جبکہ اللہ نے تمہیں جن کاموں کا حکم دیا ہے تم نے انھیں ترک کر رکھا ہے، غور سے سنو !کچھ لوگوں نے بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں ،بہت دولت جمع کی اور بڑی دور کی امیدیں لگائیں لیکن پھر بھی ان کی عمارتیں گر کر قبرستان بن گئیں،انکی امیدیں دھوکہ ثابت ہوئیں اورایسے لوگ خود بھی ہلاک ہوگئے ،غور سے سنو !علم سیکھواورعلم سکھائو، علم سیکھنے والا اورسکھانے والا دونوں اجر میں برابر ہیں اوراگر یہ دونوں نہ ہوں تو پھر لوگوں میں کوئی خیر نہیں ۔حضرت حسان علیہ الرحمۃ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء نے اہل دمشق سے فرمایا:کیا تم اس بات پر رضاء مند ہوگئے ہو کہ سال ہا سال گندم کی روٹیاں پیٹ بھر کر کھاتے ہولیکن تمہاری مجلسوں میں اللہ کا نام نہیں لیا جاتا ، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تمہارے علماء جارہے ہیں لیکن تمہارے جاہل علم حاصل نہیں کررہے ، اگر تمہارے علماء چاہتے تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا تھا اوراگر تمہارے ان پڑھ افراد علم کو تلاش کرتے تو وہ اسے ضرور پالیتے ،اے لوگو!نقصان دہ چیزوں کی بجائے نفع دینے والی چیزیں اختیار کرو۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، جو امت بھی ہلاک ہوئی اسکی ہلاکت کے دوہی اسباب تھے ،ایک تووہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے چل رہے تھے اوردوسرے وہ اپنی تعریف خود کیا کرتے تھے ۔ایک اورموقع پر حضرت ابوالدرداء نے ارشاد فرمایا:اگر تین کام نہ ہوتے تو میں کبھی یہ بات پسند نہ کرتا کہ اس دنیا میں قیام پذیر رہوں ، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے استفسار کیا کہ وہ تین کام کون سے ہیں ؟انھوں نے ارشادفرمایا:ایک تو یہ کہ دن اوررات کی ساعتوں میں اپنا سرنیاز اپنے خالق ومالک کے سامنے زمین پر رکھناجو میری آخرت کی زندگی کے لیے میرا اثاثہ بن رہا ہے ،دوسرا موسم گرما کی سخت حدت میں روزہ رکھ کر پیاسا رہنا اورتیسرا ایسا لوگوں کے ساتھ ہم مجلس ہونا جو عمدہ کلام کو اس طرح ذوق وشوق سے چنتے ہیں جیسے خوش ذائقہ پھل چنا جاتا ہے۔(ابونعیم)

پیر، 4 جنوری، 2021

بخشش کے راستے

 


بخشش کے راستے

 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:میں نے جبرئیل علیہ السلام کو خواب میں دیکھاکہ وہ میرے سرہانے کی طرف کھڑے ہیں اورمیکائیل علیہ السلام میری پاینتی کی طرف کھڑے ہیں،اُن میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا ہے !ان کی کوئی مثال بیان کرو۔۔۔۔دوسرے نے مجھے مخاطب ہوکر کہا!سماعت فرمائیے آپ کے گوشِ انور سنتے رہیں اورآپ کاقلب منور سمجھتا رہے!کہ آپ کی مثال اورآپ کی امت کی مثال ایک ایسے بادشاہ کی طرح ہے جس نے ایک گھر بنوایااوراس میں ایک کمرہ بنوایااورپھر ایک قاصد بھیجاجو لوگوں کو دعوت پر بلالائے ،پس کچھ لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیااورکچھ نے اسے ترک کردیا،پس (اس مثال کی تشریح یہ ہے) کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بادشاہ ہے وہ گھر اسلام ہے اوراس میں آراستہ کیا گیا کمرہ جنت ہے اوراے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ اللہ کے قاصد ہیں لہٰذا آپ کی دعوت پر جس نے لبیک کہا وہ اسلام میں داخل ہوگیا،اورجو اسلام میں داخل ہوا،وہ جنت میں داخل ہوگیااورجو جنت میں داخل ہوگیا وہ وہاں کی نعمتوں سے شادکام ہوگا۔(بخاری،ترمذی)

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ تبارک وتعالیٰ کسی مومن کی نیکی کم نہیں فرماتابلکہ دنیا میں بھی اس کا بدلہ عطاکرتا ہے،آخرت میں بھی اس پر ثواب مرحمت فرماتا ہے،مگر کافر کو اس کی نیکیوں کا صلہ دنیا میں نمٹادیتا ہے اورجب وہ آخرت میں پہنچتا ہے ،اس کے پاس ایسی کوئی نیکی نہیں ہوتی ،جس کا وہ اچھا اجر پائے ۔(مسلم،احمد)

 حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو عذاب نہیں دیتا مگر اُس سرکش اور اللہ پر جسارت کرنے والے کو جو لاالہ الااللہ کہنے سے انکارکردے۔ ( ا بن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لایا،نماز قائم کی،زکوٰۃ اداکی،رمضان کے روزے رکھے ،تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کرے خواہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اسی سرزمین پر بیٹھا رہے جہاں اس کی ماں نے اس کوجنم دیا تھا۔(بخاری ،احمد)

اتوار، 3 جنوری، 2021

Mulaqaat-E-Rab (Pashto)

تعلیم اورارشاداتِ نبوی

 

تعلیم اورارشاداتِ نبوی

٭اللہ تبار ک وتعالیٰ نے مجھے جس ہدایت اورعلم کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اس کی مثال ابر کثیر جیسی ہے کہ وہ زمین کے ایک ایسے ٹکڑے پر برستا ہے ، جو اسے قبول کرتا ہے اوراس سے بہت زیادہ ہریالی اگالیتا ہے اورزمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جو پانی کو روک لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو بھی نفع فرماتا ہے۔وہ اس سے خود بھی سیراب ہوتے ہیں مویشیوں کو پلاتے ہیں اورکھیتی باڑی بھی کرتے ہیں اور ایک ایسا (بدنصیب) خطہ بھی ہے جس میں نہ تو پانی ٹھہرتا ہے اورنہ ہی اس سے کوئی سبزہ پیدا ہوتا ہے ۔(بخاری شریف)

امام غزالی فرماتے ہیں، آپ نے پہلی مثال اُن لوگوں کے بارے میں ارشادفرمائی ہے جو اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں دوسری مثال اُن لوگوں کی ہے جو اپنے علم سے دوسروں کو بھی نفع پہنچاتے ہیں اورتیسری مثال اُن محروم لوگوں کی ہے جو اپنے علم سے نہ تو خود فائدہ اٹھاتے ہیں اورنہ دوسروں تک اس کا فیض پہنچاتے ہیں۔٭بہترین عطیہ اورسب سے اچھا تحفہ کیا ہے؟دانائی کی وہ ایک بات جسے تم سنوپھر اسے محفوظ رکھ کر اپنے دوسرے بھائی کے پاس لے جائو اوراسے سکھادو(تمہارایہ عمل)ایک سال کی عبادت کے برابر ہے۔(مجمع الزوئد) ٭بے شک اللہ تعالیٰ اس کے ملائکہ آسمانوں اورزمینوں کی مخلوق حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اورمچھلی دریا میں لوگوں کو نیکی سکھانے والوں کیلئے رحمت کی دعا مانگتے ہیں۔(جامع ترمذی)

٭ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاشانہ اقدس سے باہر تشریف لائے تو آپ نے دو مجلسیں دیکھیں ، ان میں سے ایک مجلس والے اللہ تبار ک وتعالیٰ سے دعا مانگ رہے تھے اوراُس کی طرف متوجہ تھے اوردوسری مجلس والے اہل حلقہ کی تعلیم وتلقین میں مصروف تھے۔آپ نے ارشادفرمایا:یہ لوگ اللہ تبار ک وتعالیٰ سے سوال کرتے ہیں اگر وہ چاہے تو ان کو عطا کرے ، اگر چاہے تو روک دے، لیکن وہ گروہ لوگوں کو تعلیم دے رہا ہے اوربے شک مجھے بھی معلم بناکر بھیجا گیا ہے پھر آپ ان کی طرف تشریف لے گئے اوران کے درمیان بیٹھ گئے ۔(سنن ابن ماجہ)

٭دوقسم کے انسانوں پر رشک کیا جاسکتا ہے ، ایک وہ شخص جس کو اللہ تبار ک وتعالیٰ نے دین کی بصیرت عطافرمائی اوروہ اسکے ساتھ فیصلہ بھی کرتا ہے اوراسے لوگوں کو سکھاتا بھی ہے اوردوسرا وہ شخص جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال کی فراوانی عطافرمائی اوراس کو خیر کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی نصیب ہوئی ۔(بخاری)