جمعہ، 30 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1550 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 36 - 40 Part-2 )...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 152 ( Surah Al-Baqara Ayat 177 Part-03 ) درس...

879کیا ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے؟

Hum Quran Ki Zarorat Kyoon Mehsos Nahi Kartay?ہم قرآن کی ضرورت کیوں محسو...

حرمت ِ رسول ﷺ

 

حرمت ِ رسول ﷺ

اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید پر ایمان کے ساتھ اللہ رب العزت کے آخری رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپ کی نبوت دائمی اور عالمی ہے اور آپ خاتم النبین ہیں۔ اس اعتقاد کے بغیر انسان نہ تو مومن کہلا سکتا ہے اور نہ ہی وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے۔ آپ کی مطلق وغیر مشروط اطاعت اور اتباع بھی شرعاً لازم وواجب ہے اور آپ کی تعظیم وتوقیر بھی۔ آپ کی حرمت وناموس کا پاس اور لحاظ اور اس کی خاطر جان و مال قربان کر دینے کا جذبہ  ایما ن کی اسا س ہے۔ایمان کاحقیقی ذوق اور اس کی حلاوت اسی شخص کو حاصل ہوسکتی ہے ،جسے ’’ اللہ اور اس کا رسول تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجائیں۔‘‘(بخاری)  
٭امام نووی ’’ حلاوۃِ ایمان ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : انسان کو طاعت (اعمال صالحہ ) بجالانے اور اللہ اور اس کے رسول کی رضاء کی خاطر مشقّت اٹھانے میں لذت محسوس ہواور وہ اسے دنیا کے مال ومتاع پر ترجیح دے۔ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کے لیے بندے کی محبت یہ ہے کہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت ترک کر دے، اسی طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا معنی بھی یہی ہے ،آپ کے احکام کی فرما ں برداری کرے اور اس کی مخالفت سے مجتنب رہے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: 

’’ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور آپ کی اطاعت کرو اور آپ کی تعظیم بجا لائو۔(الفتح :۹)

٭دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: ’’ اے حبیب ! آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے والدین اور تمہاری اولادیں اور تمہارے بھائی اورتمہارے کنبے اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور جو تجارت جس کے نقصان سے تم ڈر رہے ہو اور وہ آشیانے جنہیں تم پسند کرتے ہو ۔

یہ (سب) تم کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیزِ(خاطر) ہیں۔ تو منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (التوبہ : ۲۴)

٭علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت کے واجب ہونے کی دلیل ہے اور اس مسئلے میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ حضرت عمر بن خطاب کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔حضرت عمر نے آپ کی خدمت میں اپنی قلبی کیفیت کا اظہار کیا اور کہا یا رسول اللہ آپ اپنی جا ن کے سو ا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں ۔

 آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک اپنی جان سے بھی زیادہ محبو ب نہ ہوجائوں تم مومن نہیں ہوسکتے ۔ حضرت عمرنے عرض کیا : اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تر ہیں ۔ ارشاد ہوا : اے عمر ! اب تمہارا ایمان کامل ہوگیا ہے۔ (صحیح بخاری)

یہ زندگی کا ہنر آپ نے سکھایا مجھے 

خیال و فکر میں عقل وشعور آپ سے ہے

جمعرات، 29 اکتوبر، 2020

Kya Zabani Kalma Parh Lena Kafi Hay?کیا زبانی کلمہ پڑھ لینا کافی ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 151 ( Surah Al-Baqara Ayat 177 Part-02 ) درس...

Humain Quran Ki Zaroorat Kya Hay?ہمیں قرآن کی ضرورت کیا ہے؟

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلم

 


حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلم

حضرت براء بن عازب ؓ  فرماتے ہیں ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت بھی تمام انسانوں سے زیادہ حسین تھی اورآپکے اخلاق بھی سب انسانوں سے اچھے تھے ‘‘۔(صحیح بخاری)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ’’(میرے والد ماجد) حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ انکے ذمہ (کافی)قرضہ تھا۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مددکی درخواست کی کہ آپ قرض خواہوں کوارشادفرمائیں کہ وہ کچھ قرض معاف کردیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرض خواہوں سے قرض معاف کرنے کی سفارش کی لیکن انہوں نے قرض معاف نہ کیا‘‘۔(صحیح بخاری)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اوراس مطالبے میں اس نے سختی کی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے اسکی گستاخی کی سزا دینے کاارادہ کیاتو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے چھوڑدو کیونکہ حقدار کو بات کرنے کا حق ہوتا ہے‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اس شخص کو اونٹ خرید کر دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہمیں اس کو دینے کیلئے جو اونٹ مل رہا ہے وہ اسکے اونٹ سے بہتر اورعمر میں بڑا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے وہی اونٹ خرید کر دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرض کی ادائیگی عمدگی سے کرتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری) حضرت عبداللہ ؓسے مروی ہے ، فرماتے ہیں:غزوہ حنین کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال غنیمت کی تقسیم میں ترجیح دی، آپ نے اقرع بن حابس کو سواونٹ عطا کیے۔ عیینہ کو بھی اسی قدر مال عطاکیا۔ آپ ﷺ نے اس روز کچھ سرکردہ عربوں کو مال عطافرمایا اورتقسیم میں ان کوترجیح دی۔ (یہ دیکھ کر)ایک آدمی نے کہا:یہ ایسی تقسیم ہے جس میں انصاف نہیں کیاگیا یا جس میں رضائے خداوندی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے اپنے دل میں تہیہ کیا کہ قسم بخدا میں ضرور حضور ﷺکو اس کی اطلاع دوں گا۔ میں نے وہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :اگر اللہ تعالیٰ اوراسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف نہیں کرینگے توکون انصاف کریگا؟ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ، انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی لیکن انہوں نے صبرکیا۔(صحیح بخاری)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1549 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 36 -37 Part-1 ) ...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 150 ( Surah Al-Baqara Ayat 177 Part-01 ) درس...

بدھ، 28 اکتوبر، 2020

Allah Kay Aehkamaat Ki Takzeeb Ka Matlab Kya Hay?اللہ تعالٰی کی احکامات ...

Kya Nakami Humara Muqaddar Hay? کیا ناکامی ہمارا مقدر ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1548 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 33 - 35 Part-2 )...

جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۴)

 

 جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۴)

حضرت انس ؓ ،حضور اکرم ﷺکے جما ل صورت وسیرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ حضور نبی کریم ﷺسب انسانوں سے زیادہ حسین ، سب سے زیادہ سخی اورسب سے زیادہ بہادرتھے‘‘۔ (صحیح بخاری)

حضرت براء بن عازب ؓنے اپنی ایک حدیث میں حضور ھادی عالم ﷺکا حلیہ مبارک بیان کیا اور اپنے بیان کو ان الفاظ پر ختم کیا’’میں نے حضور اکرم ﷺکو سرخ حلہ زیب تن کیے ہوئے دیکھا۔ میں نے آپ ﷺسے زیادہ حسین وجمیل کوئی شے کبھی نہیں دیکھی‘‘۔(صحیح بخاری)حضور اکرم ﷺ، حالت مرض میں ، تین دن باہر تشریف نہ لائے، تین دن کے بعد جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نماز کیلئے صف بندی کررہے تھے تو دلنواز آقا نے حجرے کا پردہ سرکا کر اپنے غلاموں کی طرف دیکھا۔ غلاموں کیلئے یہ منظر کتنا روح پرورتھا، حضرت انس ؓکی زبانی سنیے ’’جب نبی کریم ﷺکا رخ انور ہمارے سامنے جلوہ افروز ہوا تو یہ منظر اتناروح پرور تھا کہ ہم نے اس منظر سے زیادہ حسین منظر کبھی دیکھا ہی نہیں‘‘ ۔(صحیح مسلم)حضرت براء بن عازب ؓکی ایک حدیث پہلے گزرچکی ہے ، ایک دوسری جگہ انہوں نے اپنے احساسات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے، فرماتے ہیں ’’کسی زلفوں والے سرخ حلہ پوش کو میں نے اتنا خوبصورت نہیں دیکھا جتنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا ہے‘‘۔(صحیح مسلم)

حضرت براء بن عازب ؓنے ایک اور مقام پر اپنے احساسات محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے، فرماتے ہیں ’’میں نے حضور اکرم ﷺکی زیارت کی، آپ ﷺ نے سرخ حلہ پہن رکھا تھا اورآپ نے اپنے مبارک بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی۔میں نے نہ آپ سے پہلے اورنہ آ پکے بعدکسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو آپ ﷺسے زیادہ خوبصورت ہو‘‘۔(سنن نسائی)

حضرت انس ؓ،حضور اکرم ﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’حضور نبی کریم ﷺکا قددرمیانہ تھا، آپ نہ تو بہت زیادہ طویل القامت تھے اورنہ بہت زیادہ پست قد، آپ کا رنگ بڑا صاف تھا۔ آپ ﷺ کا رنگ نہ تو بہت زیادہ سفید تھا نہ ہی بہت زیادہ گندم گوں، آپکے بال نہ تو بہت زیادہ گھنگریالے تھے اورنہ بہت زیادہ ہموار۔ چالیس سال کی عمر میں آپ ﷺپر نزول وحی کا آغاز ہوا۔ دس سال آپ مکہ میں تشریف فرمارہے، اس عرصہ میں آپ ﷺپر وحی نازل ہوتی رہی اوردس سال آپ مدینہ منورہ میں قیام فرما رہے۔جب آپ ﷺکا انتقال ہواتو آپکے سراور داڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے‘‘۔(صحیح البخاری)

منگل، 27 اکتوبر، 2020

Hum Islam Ki Haqeeqat Ko Kyoon Janain?-ہم اسلام کی حقیقت کو کیوں جانیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 149 ( Surah Al-Baqara Ayat 176 ) درس القرآن ...

Aaj Ka Insaan Nakam Hay آج کا انسان ناکام ہے؟

جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۳)

 

 جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۳)

خادم رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت حمید کے سوال پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات بیان کیے اورآخر میں جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کابیان ان محبت بھر الفاظ میں کیا:’’نہ کسی ایسے ریشم کو چھونے کا اتفاق ہواہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم ہواورنہ ہی کوئی ایسی خوشبو سونگھی ہے جوحضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے زیادہ معطر ہو‘‘۔(صحیح بخاری)

حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرب میں گزری ہوئی مقدس ساعتوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’نماز کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اورانہوں نے سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست انور کو پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھا۔ آپ کا دست اقدس برف سے زیادہ خنک اورکستوری سے زیادہ خوشبودار تھا‘‘۔(صحیح البخاری )حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، نمازفجر کے بعد اپنے کاشانہء اقدس کی طرف روانہ ہوئے ۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں چل دیا۔ راستے میں بچوں نے آپ کی زیارت کا شرف حاصل کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک کرکے ان کے رخساروں پر دست اقدس پھیرتے جارہے تھے ۔ آپ نے میرے رخساروں پر بھی دست اقدس پھیرا،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس میں ایسی ٹھنڈک اورخوشبو کو محسوس کیا گویا آپ نے اپنے دست اقدس کو ابھی عطار کے صندوقچے سے نکالاہو۔(صحیح مسلم)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں :’’حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے گھر تشریف لائے اور ہمارے ہاں قیلولہ فرمایا، قیلولے کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آگیا، میری والدہ ایک شیشی لائیں اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عرق مبارک کو اس میں ڈالنا شروع کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی ۔ آپ نے پوچھا: ام سلیم ! یہ کیا کررہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : ’’یہ آپ کا پسینہ ہے ہم اس کو خوشبو میں ملائیں گے ۔آپ کا یہ پسینہ تمام خوشبوئوں سے زیادہ خوشبودار ہے‘‘۔(صحیح مسلم) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ ،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے حسن کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عشاء میں سورئہ والتین والزیتون پڑھتے ہوئے سنا ۔میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے زیادہ اچھی آواز کسی کی نہیں سنی‘‘۔(صحیح مسلم)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1547 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 33 - 35 Part-1 )...

پیر، 26 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 148 ( Surah Al-Baqara Ayat 174 - 175 ) درس ا...

Islam Darasal Kya Hay?اسلام دراصل کیا ہے؟

Insaan Ki Kamyabi Ka Raaz - انسان کی کامیابی کا راز

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1546 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 30 - 32 ) درس قر...

دلجوئی کی عادت

 

دلجوئی کی عادت 

   حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ریشم کی کچھ قبائیں پیش کی گئیں جن کو سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبائوں کو کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تقسیم کردیا اوران میں سے ایک قبا حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کے لیے علیحدہ کرلی۔ جب حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے فرمایا : یہ (قبا)میں نے تمہارے لیے چھپارکھی تھی۔ (صحیح بخاری)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی ، جب آپ فارغ ہوئے تو بنوسلمہ کا ایک شخص حاضر خدمت ہوا اورعرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہم (دعوت کے لیے) اونٹ ذبح کرنا چاہتے ہیں اورہماری خواہش ہے کہ آپ اونٹ ذبح کرنے کے موقع پر موجود ہوں۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے، پھر نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اورہم بھی آپ کے ساتھ چل دیے ۔ ہم نے دیکھا کہ اونٹوں کو ابھی ذبح نہیں کیا گیا تھا، پھر اونٹوں کو ذبح کیاگیا، ان کو گوشت کاٹا گیا ، اسے پکایا گیا اورپھر غروب آفتاب سے پہلے ہم نے ان کا گوشت تناول کیا۔(صحیح مسلم)

 حضرت ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ خطبہ ارشادفرمارہے تھے ، میں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ایک مسافر حاضر خدمت ہوا ہے، وہ دین کے بارے میں پوچھنے آیا ہے ، اسے کچھ خبر نہیں کہ اس کا دین کیا ہے ،(اس پر)حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے ، آپ نے خطبہ چھوڑ دیا اورمیرے پاس تشریف لے آئے، آپ کی خدمت میں کرسی پیش کی گئی، میرے خیال میں اس کرسی کے پائے لوہے کے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کرسی پر جلوہ افروز ہو گئے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو علم عطافرمایا تھا اس میں سے مجھے بھی تعلیم فرمانے لگے ، پھر آپ خطبے کے لیے تشریف لے گئے اورخطبے کو مکمل کیا۔ (صحیح مسلم)

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھ سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! (صحیح مسلم)


اتوار، 25 اکتوبر، 2020

Hum Koon Hain? ہم کون ہیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 147 ( Surah Al-Baqara Ayat 172 - 173 ) درس ا...

Insaan Ki Kamyabi - انسان کی کامیابی

جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۲)


 

 جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۲)

حضور نبی محتشم ﷺایک دن خوشی کے عالم میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے حجرے میں داخل ہوئے تو حضرت صدیقہ ؓنے اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:’’حضور اکرم ﷺحالت سرور میں میرے پاس تشریف لائے تو آپکے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے ‘‘۔(سنن النسائی )حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب بذریعہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اوران کے رفقاء کی توبہ کی قبولیت کا علم ہواتو آپ کی خوشی کا عالم قابل دید تھا ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب حضور ﷺکے طلب کرنے پر حاضر خدمت ہوئے توانہوں نے آپ کو جس حالت میں دیکھا، اس کا بیان ان الفاظ میں کیا:’’جب میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کیا ، اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور فرحت وانبساط سے جگمگا رہا تھا۔ حضور اکرم ﷺجب بھی مسرور ہوتے ، آپ کا رخ انور یوں لگتا گویا وہ چاند کا ٹکڑا ہے اورحضور اکرم ﷺ کی اس کیفیت سے ہم آشنا تھے‘‘۔(صحیح بخاری)
حضرت ابوحجیفہ ؓ،نبی کریم ﷺکی خدمت میں اپنی ایک حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پھر حضور اکرم ﷺ باہر تشریف لائے گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی مجھے اب بھی نظر آرہی ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)حضرت انس ؓنے حضور ﷺ کے ایام علالت میں آپکے دیدار کی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیاہے: ’’حضور اکرم ﷺنے حجر ے کا پردہ اٹھایا اورکھڑے ہوکر ہماری طرف نظر فرمائی ، یوں محسوس ہوتا تھا، گویا آپکا رخ انور قرآن حکیم کا ورق ہو‘‘۔(صحیح مسلم) حضرت جریر ؓنے حضور اکرم ﷺ کو حالت انبساط میں دیکھا تو اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا:’’میں نے حضور ﷺکے رخ انور کو چمکتے ہوئے دیکھا گویا اس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہو‘‘۔ (سنن نسائی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محبت کی ایک یاد کو تازہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں:’’گویا مجھے حضور کی مانگ میں خوشبو کی چمک نظرآرہی ہے‘‘۔(صحیح بخاری )

حضرت جابر بن سمرہ ؓ  فرماتے ہیں:’’میں نے حضور اکرم ﷺ کوایک ایسی رات میں دیکھا جب چاند کی چاندنی اپنے عروج پر تھی ، میں کبھی حضور اکرم ﷺ کے رخ انور کی طرف دیکھتا اورکبھی ماہ منیر کی طرف، اس رات حضور ﷺ سرخ رنگ کے حلے میں ملبوس تھے، میری نظر میں حضور اکرم ﷺ چاند سے زیادہ حسین تھے‘‘۔(جامع ترمذی)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1545 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 21 - 30 ) درس قر...

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 146 ( Surah Al-Baqara Ayat 170 - 171 ) درس ا...

Qalb-e-Saleem Kaisay Hasil Kya Ja Sakta Hay?قلب سلیم کیسے حاصل کیا جاسک...

Jannat Ki Qeemat Kya Hay? - جنت کی قیمت کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1544 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 21 ) درس قرآن سُ...

جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۱)

 


 جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۱)

حضرت سعید الجریری کا بیان ہے کہ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے ان سے ذکر کیا کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ سعید نے عرض کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تم نے کیسا پایا تو انہوں نے جواب دیا’’یعنی آپ کی رنگت سفیدتھی اورسفید بھی ایسی جس میں ملاحت اورخوبصورتی اپنے جوبن پر تھی‘‘۔(سنن ابی دائود) حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی تدفین کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا ۔وہ صحابی اس پتھر کو نہ اٹھا سکے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خودتشریف لے گئے ، بازوئوں سے کپڑا پیچھے کیا اور پتھر کوخود اٹھالائے ، جس صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو روایت کیا، اس کے الفاظ یہ ہیں :’’گویا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوئوں کی سفیدی کو اب بھی دیکھ رہا ہوں‘‘۔ (سنن ابی دائود )حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منبر پر خطبہ ارشادفرماتے ہوئے ہاتھوں کو بلند کیا، ایک صحابی نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’پھر آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے حتیٰ کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی کا مشاہدہ کیا‘‘۔(سنن ابی دائود)حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ،آپ کے دائیں بائیں سلام پھیرنے کی کیفیت کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں سلام پھیرتے ہوئے دیکھتا حتی کہ مجھے آپ کے رخ انور کی سفیدی نظر آتی‘‘۔(صحیح مسلم) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی آپ کے سلام پھیر نے کی کیفیت کو اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا ہے ، فرماتے ہیں :’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپ کے رخساروں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی اور آپ بائیں جانب سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپ کے رخساروں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی ‘‘۔(سنن النسائی)حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک بیان کررہے تھے کہ ایک صحابی نے عرض کیا:’’ آپ کا رخ انور تلوار کی طرح چمک دار تھا‘‘۔حضرت جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ نے فوراً ان سے اختلاف کیااور فرمایا: ’’نہیں بلکہ آپ کا رخ انور شمس وقمر کی طرح روشن تھا‘‘۔ (صحیح مسلم)حضرت ابوہریرہ ؓ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال جہاں آراکا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حسین ترکوئی چہر ہ نہیں دیکھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا سورج آپکے رخ انور میں رواں دواں ہے‘‘۔(جامع ترمذی)

جمعہ، 23 اکتوبر، 2020

Humain Jannat Kaisay Millay Ge? ہمیں جنت کیسے ملے گی؟

.کیا ہم اپنے دل کو قلب سلیم بنانے پر آمادہ نہیں ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 145 ( Surah Al-Baqara Ayat 168 - 169 ) درس ا...

ایک مربوط علمی تحریک

 

 ایک مربوط علمی تحریک

بغداد کے مدرسہ قادریہ اور عالم اسلام کے دیگر بڑے مدارس اس نتیجے پر پہنچے کہ القدس کی بازیابی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسلامی روح اور جذبہ سے سرشار ایک نسل نو سامنے نہ آئے۔اس مقصد کیلئے انھوں نے ایک مربوط کوشش کا آغاز کیا ۔اس کاوش کی ایک جھلک ام القری یونیورسٹی (مکہ مکرمہ) کے استاذ ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی نے اپنی کتاب’’ھکذا ظہرَ جیل صلاح الدین وھکذا عادت القدس‘‘میں بیان کی ہے۔ ’’546تا 550ھ (1151ء تا 1155ء )کے درمیانی عرصہ میں مدارس اصلاح کے باہمی ربط و اتصال کی تحریک جاری ہوئی،جس کا مقصد یہ تھا کہ تمام کوششوں کو متحد کیاجائے اور باہمی تعاون کو منظم کیا جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے متعدد اجتماعات منعقد کیے گئے جن کے تنطیمی اورنظریاتی سطح پر اہم نتائج بر آمد ہوئے۔ تنظیمی سطح پر باہمی ربط کی کوشش ،مدارس اصلاح کیلئے متحدہ قیادت کی صورت میں سامنے آئیں۔ اس میں پورے عالم اسلام کی سطح پر اتحاد کی صورت پیدا ہوئی۔ قیادت کے مذکورہ اتحاد کے مقصد کیلئے پہلا اجتماع مدرسہ قادریہ کی رباط میں منعقد ہوا، یہ رباط ،بغداد کے محلہ ’’حلہ‘‘ میں واقع تھی۔جہاں عراق اور بیرون عراق سے پچاس سے زیادہ شیوخ حاضر ہوئے۔دوسرا اجتماع موسم حج کے دوران ہوا، جس میں عالم اسلامی کے مختلف کونوں سے اصلاحی مدارس کے شیوخ جمع ہوئے۔ اس اجتماع میں عراق سے حضرت شیخ عبدالقادر ،حضرت شیخ عثمان مرزوق (جن کی شہرت مصر میں پھیل چکی تھی)شیخ المدین مغربی(جو المغرب میں اشاعت زہد کے قائد تھے)نے شرکت کی، اس طرح یمن سے متعدد شیوخ اجتماع میں شامل ہوئے جن کے امورمنظم کرنے کیلئے حضرت شیخ نے اپنا ایک نمائندہ ان کے ساتھ روانہ کیا۔ اس دوران شیخ عبدالقادر اور شیخ رسلان دمشقی کے درمیان روابط جاری رہے۔اسکے بعد وسیع پیمانے پر اجتماع منعقد ہوا جس میں عالم اسلام کے مختلف علاقوں سے مدارس اصلاح کی نمائندگی کرنیوالے تمام بڑے شیوخ شامل تھے۔ا س اجتماع کا اہم ترین نتیجہ یہ تھا کہ ایک متحدہ قیادت عالم وجود میں آئی ۔ (جس کی سربراہی جناب شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد تھی)اس متحدہ قیادت کافرض تھاکہ وہ مدارس اصلاح کی سرگرمیوں کو مربوط کرے اور انکا رخ اشاعت زہد اور نئی نسل کی تربیت کی طرف موڑ دے اور اس بات کا خیال رکھے کہ انکاکردار اس عہد کے اسلامی معاشرے کے ان امراض کے علاج کے محور کے گرد گھومتا رہے جن امراض سے چیلنجوں کے سامنے اسے کمزور کردیا ہے۔ اور اندرونی فرائض کی ادائیگی میں بے بس کردیا ہے۔ (عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1543 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 20 ) درس قرآن سُ...

جمعرات، 22 اکتوبر، 2020

بغداد کا مرکز علمی

 

 بغداد کا مرکز علمی 

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی نے مدرسہ مخزومیہ بغداد کی تنظیم نو کی جو جلد ہی آپ کے اسم گرامی سے منسوب ہوگیا۔اس (مدرسہ)نے تحریک اصلاح وتجدید کی باگ ڈور سنبھالی،اس کی سرگرمیاں متعدد میدانوں پر مرکوز ہوئیں۔(۱)عملِ اسلامی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پیغام پھیلانے کیلئے مستقل قیادت کا فارغ التحصیل کرنا۔(۲)عملِ اسلامی کیلئے مختلف مدارس کے درمیان مطابقت پیدا کرنا۔(۳)تعلیم اور دعوت کے عمل کا طریقِ کار وضع کرنا اور اسکی منصوبہ بندی اور پروگرام مرتب کرنا ۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مدرسہ قائم کیا اور نصف صدی کی مدت تک اسکی سرگرمیوں کی قیادت کی۔یہاں تک کہ ساری عالم اسلام میں اسکی اشاعت اور روابط پھیل گئے۔جب زنگی سلطنت (نورالدین زنگی) قائم ہوئی۔تو اس مدرسہ کے فارغ التحصیل افراد اس نئی سلطنت کے ساتھ مل گئے اور چیلنجوں کا سامنا کرنے کی ذمہ داریوں میں شریک ہوگئے۔ ’’مدرسہ سے متعلق معلومات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس نے ملک شام میں صلیبی خطرہ کا سامنا کرنے کی عرض سے ایک نسل کی تیاری میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ مدرسہ ان مہاجر ین کے بیٹوں کو خوش آمدید کہتا تھا۔ جو صلیبی قبضہ کی وجہ سے بے گھر ہو گئے تھے۔ انہیں پوری طرح تیار کیا جاتا تھا،اور پھر انہیں ان علاقوں میں واپس بھیج دیا جاتا تھا۔ جو زنگی قیادت کے تحت صلیبیوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔بعد میں ان طلبہ میں سے بعض نے بڑی شہرت پائی، ان میں ایک ابن نجا الواعظ تھے۔ جو بعد میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے سیاسی وعسکری مشیر بن گئے۔ اسی طرح الحافظ الرہادی اور موسیٰ بن شیخ عبدالقادر جیلانی جو شام منتقل ہوگئے تاکہ فکری سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ اسی طرح موفق الدین (کتاب المغنی کے مصنف اور سلطان صلاح الدین کے مشیر)اور انکے قریبی الحافظ عبدالغنی تھے۔ یہ دونوں اس وقت حضرت شیخ کے مدرسہ میں داخلہ کیلئے آئے جب انکے خاندانوں نے نابلس کے علاقہ میں واقع جماعیل سے نقل مکانی کی‘‘ ۔ (عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی)جناب شیخ نے اپنے اوقات کا بڑا حصہ مدرسہ کیلئے وقف کردیا۔آپ ایک دن میں تیرہ علوم کی تدریس فرمایا کرتے تدریس کے عمل کو بڑی فضیلت کا حامل سمجھتے تھے۔ آپ نے صرف مدرسہ قادریہ پر توجہ نہیں دی، بلکہ تیس کے قریب بڑے مدرسے قائم کروائے جنکی ذیلی شاخیں سینکڑوں کی تعداد میں تھیں۔ ان سے فارغ التحصیل ہوکر طلبہ جامعہ قادریہ میں آجاتے۔ جہاں جناب شیخ انکی تربیت فرماتے اور ایک سال میں ۳ ہزار سے زیادہ طلبہ آپ سے دستاد فضیلت حاصل کرتے۔

Qalb-e-Saleem Ki Haqeeqat قلبِ سلیم کی حقیقت

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 144 ( Surah Al-Baqara Ayat 166 - 167 ) درس ا...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1542 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 15 -19 Part-2 ) ...

بدھ، 21 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 143 ( Surah Al-Baqara Ayat 165 Part-03 ) درس...

Baiat Ki Haqeqat Kya Hay? بیعت کی حقیقت کیا ہے؟

Qalb-e-Saleem . قلبِ سلیم

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1541 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 15-19 Part-1 ) د...

سیّد جیلان کی مجلس وعظ

 

 سیّد جیلان کی مجلس وعظ

حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے جن حالات میں عوام وخواص کی تربیت کا آغاز کیا ان حالات کے بارے میں تاریخ دعوت وعزیمت کے مصنف رقم طراز ہیں۔مسلمانوں کی بڑی تعداد علمی شبہات کی بجائے عام اخلاقی کمزوریوں ،عملی کوتاہیوں اور غفلت وجہالت کاشکار تھی۔اور اس کا جلد مداوا ضروری تھا،اس لیے فوری طور پر ایک سحر بیان خطیب اور ایک ایسی بلند روحانی شخصیت کی ضرورت تھی جس کا عوام سے زیادہ رابطہ ہو۔اور جو اپنی دعوت ،مواعظ ،تزکیہ واصلاح سے جمہور اہل اسلام میں دینی روح اور نئی ایمانی زندگی پیدا کردے، مطلق العنان حکومت نے چارسو برسوں تک مسلمانوں کے اخلاق کو متاثر کیا تھا اور بڑی تعداد میں ایک ایسا طبقہ پید اہوگیا تھا جس کا مقصد زندگی حصولِ دولت یا جاہ وعزت تھا ۔ جو اگرچہ اعتقادی طور پر خدا اور آخرت کامنکر نہ تھا مگر عملاً خدا فراموش ،آخرت سے غافل اور عیش میں مست تھا ۔ عجمی تہذیب و معاشرت نے اسلامی زندگی میں اپنے پنجے گاڑھ رکھے تھے۔ا ور عمجی عادات اور جاہلی رسوم جزوزندگی بن گئی تھیں ۔زندگی کا معیار بہت بلند ہوگیا تھا۔ حکام رس ،مزاج شناس موقع پر ست لوگوں کی ایک مستقل قوم پیدا ہوگئی تھی۔ متوسط طبقہ امراء کے نقشِ قدم پر تھا۔ اور عوام اور محنت کش انکے اخلاق وعادات سے متاثر ہورہے تھے۔ اہل دولت ایثار و ہمدردی ،اور جذبہء شکر سے خالی اور تنگ حال اور محنت کش ،صبر وقناعت اور یقین وخود داری سے محروم ہوتے جارہے تھے۔ اس طرح زندگی ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا تھی اس وقت ایک ایسی دعوت کی ضرورت تھی جو دنیا طلبی کے بحران کو کم کرے ،ایمان کو بیدار کرے اور آخرت کے یقین کو ابھارے ،خداطلبی کا ذوق پیدا کرے۔اللہ تعالیٰ کی سچی معرفت ،اسکی بندگی اور رضا مندی میں عالی ہمتی اور بلند حوصلگی سے کام لے، توحید کامل کو واشگاف بیان کیا جائے۔اہل دنیا اور اربابِ دولت کی بے وقعتی اور اسباب کی کمزوری کو طاقت اور وضاحت سے بیان کیا جائے۔جناب شیخ نے وعظ واصلاح کی مجلس آراستہ کی جو جلد ہی پر ہجوم اجتماع میں تبدیل ہوگئی۔ایک ایک وعظ میں سترستر ہزار افراد شریک ہوئے۔ چا ر چار سو دواتوں کا شمار کیا گیا۔ جن کے ذریعے لوگ آپکے ارشادات عالیہ قلم بند کرتے، لاکھوں مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی۔پانچ ہزار سے زیادہ غیر مسلموں نے ان مجالس سے متاثر ہوکر ایمان قبول کیا، ایک لاکھ سے زیادہ جرائم پیشہ حضرات اپنے گناہوں سے تائب ہوئے۔ بغدادکی آبادی کا بڑا حصہ آپ کے ہاتھ پر توبہ سے مشرف ہوا۔

منگل، 20 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 142 ( Surah Al-Baqara Ayat 165 Part-02 ) درس...

Allah Ki Mulaqaat Ka shoak Kaisay Paida Hota Hay? اللہ کی ملاقات کا شوق ...

شیخ عبد القادر جیلانی میدان عمل میں

 

 شیخ عبد القادر جیلانی میدان عمل میں

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی عازم بغدار ہونے کے بعد تقریباً سات سال تک پوری تندہی سے حصول علم میں مشغول رہے۔ تکمیل علوم کے بعد اس زمانے کے رحجان کیمطابق ،منصب قضا،تدریس ،یا وعظ وخطابت کی طرف مائل نہیں ہوئے بلکہ اصلاحِ باطن کی طرف متوجہ ہوئے۔ عبادت ریاضت ،اور مجاہدات کا ایک طویل دور گزارا جو کم وبیش ۲۵ سال کے عرصے پر محیط ہے۔ پہلے شدید علمی انہماک اور پھر عبادت و ریاضت کے اس طویل سفر اور انتھک محنت نے آپ کی شخصیت کو ایک ایسا پارس بنادیا۔ جس کی کشش پورے عالم اسلام نے محسوس کی۔ ۴۸۸ ہجر ی میں جب کہ جناب شیخ بغداد میں تشریف لائے امام غزالی کی زندگی میں ایک انقلاب انگیز تبدیلی ہوئی۔انھوں نے جامعہ نظامیہ کی سربراہی سے کنارا کشی اختیار کرلی اور تزکیہ باطن میں مشغول ہوگئے۔امام غزالی نہ صرف خود تبدیل ہوئے ، بلکہ انھوں نے اس دور کی تصانیف کے ذریعے سے عالم اسلام کے فکری اور نظریاتی دھارے کو بھی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ انھوں نے ایک حکیم دانا کی طرح زندگی کے ایک ایک شعبہ کا مطالعہ کیا۔ انفرادی زندگیوںمیں در آنیوالے امراض کی نشاندہی بھی کی اور نظمِ اجتماعی میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا سراغ لگایا۔ صرف سراغ لگانے پر اور شدید تنقید پر ہی اکتفاء نہیں کیا، امکانی حد تک ان خامیوں اور کوتاہیوں کے تدارک کی تدابیر بھی پیش کیں۔اب ضرورت اس امر کی تھی کہ امام غزالیؒ کا یہ فکری اور نظریاتی کام ایک عملی منہاج اختیار کرے۔ یہ ایک ایسی شخصیت کا تقاضا کررہا تھا جوہر اعتبار سے ایک جامع الکمالات شخصیت ہو۔ جس کا علمی تبحر بھی مسلّم ہو اور جس کی روحانی عظمت سے بھی کوئی انکاری نہ ہوسکے ، جس کے کلام کا معیار بھی بلند ہو اور جس کی زبان کی تاثیر بھی مسلّم ہو۔اللہ رب العزت نے اس عظیم اصلاحی کارنامے کی توفیق سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کو عطاء فرمائی۔ آپ نے اپنے زمانہ پر ایک گہری نظر ڈالی اور اصلاح وتبلیغ اور تعلیم وتربیت کا ایک ہمہ جہتی کام شروع کیا۔ آپ نے (۱) عوام کیلئے مجلسِ وعظ کا انعقاد کیا۔(۲) علوم اسلامیہ کی تدریس کیلئے المدرستہ المخزومیہ کی ازسر نو تنظیم کی خود بھی نہایت دلجوئی کے ساتھ تدریس کی اور قابل ترین مدرسین کو اس مجلس میں شریک کیا۔(۳) آپ نے صرف اپنے مدرسہ پر اکتفاء نہیں بلکہ تعلیم وتربیت کے اس عمل کو ایک اجتماعی نظم میں منسلک کیا جس کا مرکز آپ کا اپنا ادارہ تھا۔ (۴) فارغ التحصیل طلبہ کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا اہتمام بھی کیا اور صالحین کی ایک بڑی جماعت تیار کردی۔

Dunya Main Kamyabi Ka Matlab Kya Hay?دنیا میں کامیابی کا مطلب کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1540 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 12 - 14 ) درس قر...

پیر، 19 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 141 ( Surah Al-Baqara Ayat 165 Part-01 ) درس...

Sakoon-e-Dil Kaisay Hasil Ho Ga ? سکونِ دل کیسے حاصل ہوگا؟

Kya Humain Rehnumai Ki Zarorat Hay? کیا ہمیں رہنمائی کی ضرورت ہے؟

ذوقِ عبادت

 

ذوقِ عبادت

حضرت سالم بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں ، ایک شخص نے ، جوراوی کے گمان کے مطابق بنوخزاعہ سے تھا کہا: کاش میں نماز میں مشغول ہوتا اوراس سے مجھے راحت ملتی۔ لوگوں نے گویا اس کے قول کو معیوب سمجھا تواس نے کہا: میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ فرماتے سنا ہے : اے بلا ل! نماز کے لیے اقامت کہو اوراس طرح ہمیں راحت پہنچائو۔(صحیح مسلم)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، ہم رات (کے کسی حصہ )میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھنا چاہتے تو نماز پڑھتے دیکھ سکتے تھے اوراگرآپ کو ہم (رات کے کسی حصہ میں)سوتے دیکھنا چاہتے تو سوتے بھی دیکھ سکتے تھے۔(صحیح بخاری)

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے تھے ، (یا فرمایا)نماز پڑھتے تھے حتیٰ کہ آپ کے قدم مبارک یا پنڈلیاں سوج جایا کرتی تھیں، آپ کی خدمت میں اس صورت میں حال کے متعلق کچھ عرض کیاجاتا تو آپ فرماتے : کیا میں (اللہ تعالیٰ کا)شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(سنن نسائی)

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : جب (رمضان کا )آخری عشرہ شروع ہوتا تھا توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (عبادت کے لیے)کمر کس لیتے تھے ،آپ رات بھر جاگتے تھے اوراہل خانہ کو بھی جگاتے تھے۔(سنن نسائی)

 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! آپ (کبھی )روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں تویوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ روزوں کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے، اور(کبھی)آپ افطار کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ دوبارہ روزے شروع نہیں کریں گے، سوائے دودنوں کے کہ اگروہ آپ کے معمول کے روزوں کے درمیان آجائیں تو ٹھیک ورنہ آپ ان ایام میں ضرور روزہ رکھتے ہیں ، فرمایا: وہ دن کون سے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : پیر کا دن اورجمعرات کا دن ، فرمایا:یہ دونوں دن ایسے ہیں جن میں اعمال بارگاہ خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں ، اورمیں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال جب بارگاہ خداوندی میں پیش ہوں تو اس وقت میں روزے کی حالت میں ہوں۔(سنن نسائی)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1539 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 11 ) درس قرآن سُ...

اتوار، 18 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1538 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 05 - 10 ) درس قر...

کیا اللہ تعالٰی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ضروری ہے؟

کیا اللہ تعالٰی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ضروری ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 140 ( Surah Al-Baqara Ayat 164 Part-02 ) درس...

شانِ عفو

 

 شانِ عفو

شعب ابی طالب میں تین سالہ محصوری کے دوران قریش کی کوشش یہ رہی کہ مسلمانوں تک کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پہنچے ۔مکہ میں غلہ یمامہ سے آتا تھا۔ یمامہ کے رئیس ثمامہ بن اثال نے ایسا انتظام کیا کہ یمامہ کے غلے کا ایک دانہ بھی شعب ابی طالب تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ہجرت کے بعد ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ثمامہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اسے رسول اللہ ﷺکے سامنے پیش کیاگیا ۔آپ نے حکم دیا کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دیا جائے۔ ثمامہ نے بڑی لجاجت سے کہا:اے محمد (ﷺ)اگر تم مجھے قتل کروگے تو یہ غلط نہ ہوگا ۔بلاشبہ میں اسی کا مستحق ہوں ۔ اگر احسان کرو گے تو ایک شکر گزار پر احسان ہوگا۔ اورفدیہ کے بدلے میری رہائی ہوسکتی ہے ،تو میں زرِ فدیہ اداکرنے کیلئے بھی تیار ہوں۔ حضور اکرم ﷺنے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اورمسجد سے تشریف لے گئے۔ دوسرے دن ثمامہ نے پھر یہی بات کی لیکن آپ نے سکوت اختیار فرمایا۔تیسرے دن جب اس نے یہ بات کی توآپ نے حکم دیا،’’اسے آزاد کردو۔‘‘ ثمامہ کو اپنی اسلام دشمنی ، ظلم اورزیادتی کا اچھی طرح علم تھا۔ اسے بڑی سخت سزا کا اندیشہ تھا۔ لیکن خلاف تو قع رہائی سے اسے بڑی حیرت ہوئی اس لطف وکرم اورعفو ودرگزر سے بڑا متاثر ہوااور اسی وقت سچے دل سے کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا اورگریہ کناں ہوکر حضور علیہ الصلوۃ التسلیم کی خدمت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ!آج سے پہلے مجھ سے بڑھ کرآپ کا دشمن کوئی نہیں تھا، لیکن اب آپ سے بڑھ کر مجھے کوئی اورمحبوب نہیں ہے۔ اسلام کو میں بدترین مذہب سمجھتا تھا ،لیکن آج یہ میرے نزدیک بہترین دین ہے۔ مجھے مدینہ سے سخت نفرت تھی لیکن آج اس سے زیادہ پسندیدہ شہر میرے نزدیک کوئی اور نہیں ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعدحضرت ثمامہ ؓمکہ معظمہ گئے تو قریش نے انھیں بڑا لعن طعن کیا کہا، شاید تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی، جو تونے محمد (ﷺ )کا دین اختیار کرلیا ہے۔ ثمامہ نے یہ سنا تو بڑے غضب ناک ہوئے اور کہا اچھا یہ بات ہے تو سنو! خد ا کی قسم اب رسول اللہ ﷺ کی اجازت کے بغیر غلہ کا ایک دانہ بھی یمامہ سے یہاں نہیں آئیگا۔ انھوں نے مکہ والوں کو غلہ کی ترسیل روک ، کچھ ہی دنوں میں وہاں غلے کا کال پڑگیا۔قریش کی طبیعت صا ف ہوگئی،انھوں نے ایک وفد سرکار دوعالم ﷺکی خدمت میں بھیجااور گزارش کی کہ سب مرد وزن بچے بوڑھے دانے دانے کو ترس گئے ہیں، آپ مہربانی فرمائیں،اورثمامہ کوغلے کی ترسیل کھولنے کا حکم دیں۔حضور رحمت عالم ﷺنے انکی درخواست قبول فرمالی اورثمامہ کو بندش اٹھانے کا حکم دے دیا۔ 

ہفتہ، 17 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 138 ( Surah Al-Baqara Ayat 163 ) درس القرآن ...

Sirf Allah Hee Mabood Kyoon ? صرف اللہ ہی معبود کیوں؟

Murshid Ki Zaroorat - مرشد کی ضرورت

نصر تِ الٰہیہ

 

 نصر تِ الٰہیہ 

حضور سیّد عالم ﷺاورآپکے ساتھیوں نے شعب ابی طالب میں محصوری اوردشواری کے تین سال گزارے، تین سال گزرے تو قدرتِ خداوندی کاایک خوبصورت اظہار سامنے آیا۔ قریش نے قطعِ تعلقی کے جس معاہدے پر اتفاق کیاتھا،اسے بڑی حفاظت سے خانہ کعبہ کے اندر آویزاں کردیا تھا تاکہ وہ لوگوں کی دسترس سے محفوظ رہے ،لیکن وہ اسے اللہ قادروقدیر کی قدرت واختیار سے محفوظ نہیں رکھ سکے ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پر دیمک کو مسلط کردیا جس نے ظلم وستم کی تمام دفعات کو چاٹ لیالیکن جہاں جہاں اللہ کا اسم مبارک تھا، وہ صحیح اور سلامت رہا ۔اللہ رب العزت نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو اس راز سے آگاہ فرمادیا۔ آپ جناب ابو طالب کے پاس تشریف لے گئے اور انھیں مطلع فرمایا کہ جو معاہدہ قوم نے بحفاظت کعبہ کے اندر آویزاں کیا ہے اسکی ساری دفعات کو دیمک نے چاٹ کر صاف کردیا ہے، لیکن جہاں جہاں اللہ کریم کا اسم گرامی درج ہے وہ جگہ محفوظ ہے ،جناب ابو طالب کو یہ بات سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ جو دستاویزیہاں سے بہت دور بڑی احتیاط سے غلافوں میں لپٹی ہوئی رکھی ہے اورجس کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔ اسکے بارے میں آپ کو کیسے اطلاع مل گئی انھوں نے بڑے استعجاب سے پوچھا کیا یہ بات آپکے رب نے بتائی ہے۔ حضور نے ارشاد فرمایا :بے شک! چچانے کہا قسم ہے ،آسمان پر تابندہ تاروں کی آپکے کلام میں کبھی غلط بیانی نہیں پائی گئی۔ چنانچہ وہ قبیلہ کے چند افراد کو ہمراہ لیکر سیدھے حرم میں پہنچے ۔ قریش سمجھے کہ یہ طویل محاصرے سے تنگ آگئے ہیں اورصلح صفائی کیلئے آئے ہیں ۔جناب ابوطالب نے کہا ’’اے گروہ قریش اس طویل مدت میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں ، جن کے بارے میں ہم تمہیں نہیں بتاسکتے ،تم اس صحیفہ کو باہرلے آئے ممکن ہے، ہمارے اور تمہارے درمیان مصالحت کی کوئی صورت سامنے آجائے۔ قریش فوراً اٹھے اورکعبہ کے اندر گئے اوراس دستاویزکو لے آئے اور جناب ابوطالب سے کہا اب وقت آگیا ہے کہ تم لوگ محمد(ﷺ)کی اعانت سے باز آجائو ۔جناب ابو طالب نے کہا آج میں ایک حل لے آیا ہوں۔ میرے بھتیجے نے مجھے ایک خبر دی ہے اور وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتاکہ جو دستاویز تمہارے ہاتھ میں ہے اسے دیمک نے چاٹ لیا ہے سوائے اسم ’’اللہ ‘‘ کے۔ سنو اگر اسکی یہ بات غلط ہوئی ہم اسے تمہارے حوالے کردینگے لیکن اگر سچ ہوئی تو تمہیں اپنے طرزعمل پر نظرِثانی کرنی ہوگی۔جب اس صحیفہ کو کھولا گیا توحضور کی بات حرف بحرف صحیح نکلی ۔ لیکن وہ بدبخت کہنے لگے اے طالب ! یہ تمہارے بھتیجے کے جادو کا کرشمہ ہے۔ لیکن اللہ نے چند سعید لوگوںکو توفیق دی اورانھوں نے یہ معاہدہ چاک کردیا۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1537 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 04 ) درس قرآن سُ...

جمعہ، 16 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 139 ( Surah Al-Baqara Ayat 164 Part-01 ) درس...

Kya Humara Maqsood Hi Humara Mabood Hay?کیا ہمارا مقصود ہی ہمارا معبود ہے؟

Murshid Koon , Kyoon - مرشد کون، کیوں

شانِ استقلال

 

 شانِ استقلال 

حضور اکرم ﷺ کو مکی زندگی میں بڑے سخت اور جاں گسل مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ نبوت کے ساتویں سال کفار مکہ نے باہم مل کر معاہدہ کیا کہ جب تک بنو ہاشم محمد (ﷺ )کو قتل کیلئے ہمارے حوالے نہ کردیں ،کوئی شخص ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے ،نہ انکے ساتھ رشتہ کرے ، نہ سلام وکلام کرے، نہ انکے ساتھ خرید وفروخت کرے ، نہ اس سے ملے اورنہ انکے پاس کھانے پینے کا سامان جانے دے۔ جب سب لوگ اس معاہدے پر متفق ہوگئے تو انہوں نے اسے ایک صحیفہ میں قلم بندکیا پھر اس کی پابندی کا پختہ وعدہ کیا اور اسے کعبہ مقدسہ کے اندر آویزاں کردیا تاکہ ہر شخص اسکی پابندی کرے۔ یہ معاہد ہ منصور بن عکرمہ نے لکھا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسکی انگلیوں کو شل کردیا ۔ نہ وہ حرکت کرسکتی تھیں نہ ان سے لکھا جاسکتا تھا۔ کفارومشرکین کی سازشیوں کے پیشِ نظر جناب ابو طالب بنو ہاشم اوربنو مطلب کی معیت میں ایک گھاٹی میں منتقل ہوگئے جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی۔یہ گھاٹی انھیں ورثہ میں ملی تھی اور آپکی ملکیت تھی۔ بنوہاشم میں سے ابو لہب وہ بدبخت تھا،جس نے اپنی قوم کا ساتھ دینے کی بجائے کفارومشرکین کا ساتھ دیا۔ شعب ابی طالب کا مرحلہ بڑا ہی سخت اوردشوار تھا، مکہ کے بازار اور منڈیاں تو ان لوگوں پر بند کر ہی دی گئیں تھیں۔ اگر کوئی قافلہ تجارت باہر سے مکہ مکرمہ آتا تو اس پر بھی پابندی تھی کہ وہ بنوہاشم کے ہاتھ کسی قسم کوئی سامان فروخت نہ کریں مکہ کے تاجر آگے بڑھ کر ان سے سارا سامان خرید لیتے۔ اگر مسلمان کسی طرح ان تاجروں تک پہنچ جاتے تو ابو لہب انھیں تاکید کرنا کہ انھیں اتنی زیادہ قیمت بتائو کہ یہ خرید ہی نہ سکیں اگر تمہیں خسارہ ہوا تو اسے میں پورا کرونگا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ محصور ین کو بسااوقات درختوں کے پتے کھا کر گزارا کرنا پڑتا۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان ایّا م میں ایک دفعہ مجھے خشک چمڑے کاایک ٹکڑا ہاتھ آیا ،میں نے اسے دھویا اورجلاکر نرم کرلیا اورپانی کے گھونٹ کے ساتھ نگل کراپنی بھوک مٹائی۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے بلکتے رہتے لیکن کفار کو کوئی رحم نہ آتا اوروہ خوراک کاایک دانہ بھی وہاں تک نہ پہنچنے دیتے اورانھوں نے اس کام کیلئے باقاعدہ پہریدار مقررکردیے تھے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پکڑا جاتا تو اسکے خلاف سخت کاروائی کی جاتی، ان تمام شدتوں اورتکلیفوں کے باوجود نہ حضور سید عالم ﷺکے پائے ثبات میں کوئی لغزش آئی اورنہ ہی آپکے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے بھی کسی کمزوری کا مظاہرہ بلکہ حضور اس حال میں بھی قبائل کو پیغام اسلام پہنچاتے رہے اورپورے جوش وخروش سے تبلیغِ اسلام کو جاری رکھا۔  

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1536 ( Surah Az-Zukhruf Ayat 1 - 3 ) درس قرآن...

جمعرات، 15 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 137 ( Surah Al-Baqara Ayat 159-162 ) درس الق...

Humain Dunya Main Kyoon Bhejwaya Gya Hay? - ہمیں دنیا میں کیوں بجھوایا گ...

Qalb Ke Safai Kay Leay Kya Karin? قلب کی صفائی کے لئے کیا کریں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1535 ( Surah Ash-Shura Ayat 51 - 53 Part-2 )د...

صحابہ اور جاں نثاری

 

 صحابہ اور جاں نثاری

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم (اپنی کم عمر ی کا ایک واقعہ )روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا ،قریش نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر رکھا تھا ۔ کوئی آپ کو پکڑ کر کھینچتا ،کوئی دھکا دینے کی جسارت کرتا اور سب کہتے جاتے تھے ۔ تم وہی ہوجس نے سب خدائوں کو ملا کر ایک کردیا ہے۔ یہ منظر اس قدر بھیانک تھا کہ (فوری طور پر ) کسی کو حضور کے پاس جا نے کی ہمت نہ ہوئی ۔ایسے میں ابو بکر آگے بڑھے ،انہوں نے قریشیوں میں سے کسی کو مارا، کسی کو دھکا دیا ،کسی کو پیچھے ہٹایا یہ سب کچھ کرتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ۔کیا تم اس شخص کو (محض اس پاداش میں ) قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔ یہ کہہ کر جناب علی المرتضیٰ نے اپنی چادر اٹھائی اورزار و قطار رونے لگے، یہاں تک کہ ان کی ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی ۔اس حالت میں آپ نے لوگوں سے استفسار فرمایا۔ بتائو ! آل فرعون کا مومن اچھا تھا یا ابو بکر صدیق ، لوگ (آپ کے احترام میں) خاموش رہے۔ آپ نے دریافت فرمایا ۔کیاتم مجھ کو جواب نہیں دو گے۔ اس کے بعد ارشاد ہواکہ بخدا ابو بکر کا ایک لمحہ آل فرعون کے مومن جیسے شخص کے ہزاروں لمحوں سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ وہ شخص اپنا ایمان پوشیدہ رکھتا تھا اور ابوبکر اپنے ایمان کا (برملا ) اظہار کرتے تھے۔ (مجمع الزوائد )٭صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ کے والد گرامی حضرت عبداللہ بن عمر وبن حزام الانصاری کو غزوہ احد میں شہادت کا اعزاز نصیب ہوا۔ (ایک بار)جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر سے ارشاد فرمایا : میں تمہیں ایک خوشخبر ی نہ سنائوں  انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیوں نہیں آپ مجھے ضرور خوش خبر ی سے سر فراز فرمایے ۔اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوشخبر یوں سے فیض یاب فرماتا رہے۔ ارشادہوا: شہادت سے سرخروہونے کے بعد اللہ کریم نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور انہیں اپنے سامنے بٹھا کر ارشادفرمایا ،اے میرے بند ے جو چاہو طلب کرو ،میں تمہیں ہر چیز عطا کروں گا۔انہوں نے عرض کیا :اے میر ے پاک پروردگار میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا ۔ میری تمنا ہے کہ تو مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ میں ایک مرتبہ پھر تیرے محبو ب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرتا ہوا جامِ شہادت نوش کروں۔ ارشاد الہٰی ہوا۔ میری طرف سے فیصلہ ہوچکا ہے کہ تو دنیا میں دوبارہ لوٹ کر نہیں جائے گا۔ (ترمذی)

مرنے کے بعد زندگی دیتا ہے تیرا عشق 

فانی جہاں میں تیری محبت کو ہے ثبات

بدھ، 14 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 136 ( Surah Al-Baqara Ayat 157 - 158 ) درس ا...

Dunya Ki Haqeeqat Kya Hay? - دنیا کی حقیقت کیاہے

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1534 ( Surah Ash-Shura Ayat 51 Part-1 )درس قر...

Qalb Ki Safai - قلب کی صفائی

Qalb Ki Safai - قلب کی صفائی

معاف کرنے کی عادت

 

معاف کرنے کی عادت

 اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ’’اورجب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں ، اوربرائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے ، پھر جس نے معاف کردیا اوراصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہء کرم )پر ہے‘‘۔(الشوریٰ:۴۰)’’اورجس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔(الشوریٰ : ۴۳)

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ، اوربرائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔

  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اورآپ کو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔(جامع الترمذی)

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور الصلوٰۃ والسلام کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابودائود)

 میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لے کر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ، ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اوران پر وہ شوربا گرگیا، میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا، تو باندی نے کہا اے میرے آقا، اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے ، والکاظمین الغیظ ، میمون نے کہا:میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا)اس نے کہا :اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجئے والعافین عن الناس میمون نے کہا :میں نے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی: واللّٰہ یحب المحسنین میمون نے کہا :میں تمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اورتم کو آزاد کردیتا ہوں۔(الجامع الاحکام :تبیان القرآن)


منگل، 13 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1533 ( Surah Ash-Shura Ayat 48 - 50 )درس قرآن...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 135 ( Surah Al-Baqara Ayat 155-157 Part3 ) د...

Zindagi Ki Haqeeqat Kya Hay? - زندگی کی حقیقت کیاہے

Qalb Kya Hay?قلب کیا ہے؟

حرمت ِ رسول ﷺ

 

 حرمت ِ رسول ﷺ

اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید پر ایمان کے ساتھ اللہ رب العزت کے آخری رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپکی نبوت دائمی اور عالمی ہے اور آپ خاتم النبین ہیں۔ اس اعتقاد کے بغیر انسان نہ تو مومن کہلا سکتا ہے اور نہ ہی وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے۔ آپکی مطلق وغیر مشروط اطاعت اور اتباع بھی شرعاً لازم وواجب ہے اور آپ کی تعظیم وتوقیر بھی ۔ آپکی حرمت وناموس کا پاس اور لحاظ اور اسکی خاطر جان و مال قربان کر دینے کا جذبہ ایمان کی اسا س ہے۔ ایمان کاحقیقی ذوق اور اسکی حلاوت اسی شخص کو حاصل ہوسکتی ہے، جسے ’’اللہ اور اس کا رسول تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجائیں۔‘‘ (بخاری) ٭ امام نووی ’’حلاوۃِ ایمان ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: انسان کو طاعت (اعمال صالحہ ) بجالانے اور اللہ اور اسکے رسول کی رضاء کی خاطر مشقّت اٹھانے میں لذت محسوس ہواور وہ اسے دنیا کے مال ومتاع پر ترجیح دے۔ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کیلئے بندے کی محبت یہ ہے کہ اسکی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت ترک کر دے، اسی طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا معنی بھی یہی ہے آپکے احکام کی فرما ں برداری کرے اور اس کی مخالفت سے مجتنب رہے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’ تم لوگ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لائو اور  اطاعت کرو اور آپ کی تعظیم بجا لائو۔(الفتح :۹)٭دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: ’’ اے حبیب ! آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے والدین اور تمہاری اولادیں اور تمہارے بھائی اورتمہارے کنبے اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور جو تجارت جس کے نقصان سے تم ڈر رہے ہو اور وہ آشیانے جنہیں تم پسند کرتے ہو ۔یہ (سب) تم کو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ سے اور اسکی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ِ(خاطر) ہیں۔تو منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (التوبہ : ۲۴)٭علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’اس آیت میں اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ محبت کے واجب ہونے کی دلیل ہے اور اس مسئلے میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺکے ساتھ تھے۔ آپ حضرت عمر بن خطاب کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے آپ کی خدمت میں اپنی قلبی کیفیت کا اظہار کیا اور کہا یا رسول اللہ آپ اپنی جان کے سو ا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں ۔آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک اپنی جان سے بھی زیادہ محبو ب نہ ہوجائوں تم مومن نہیں ہوسکتے ۔حضرت عمرنے عرض کیا : اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تر ہیں ۔ ارشاد ہوا : اے عمر ! اب تمہارا ایمان کامل ہوگیا ہے۔ (صحیح بخاری)

پیر، 12 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 134 ( Surah Al-Baqara Ayat 155-157 Pt-02 ) د...

Kya Humari Zindagi Ka Koi Maqsad Hay?کیا ہماری زندگی کا کوئی مقصد ہے

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1532 ( Surah Ash-Shura Ayat 46 - 47 )درس قرآن...

Dil Ki Safaai Ka Tareeqa. دل کی صفائی کا طریقہ

خلقِ رسالت

 

 خلقِ رسالت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ ایک واقعہ کی روداد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں ایک غزوہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ غزوہ کے اختتام پر میں اپنے اونٹ پر سوار ہوا۔ میں نے محسو س کیا کہ یہ بہت زیادہ تھک چکا ہے اور چند قدم بھی چلنے کے قابل نہیں ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات محسوس کی، آپ میرے قریب تشریف لائے اور مجھ سے استفسار فرمایا تمہارے اونٹ کو کیا ہوا؟میں نے عرض کیا کہ یہ تھک گیا ہے ۔ یہ سن کر آپ قدرے پیچھے ہٹے اور میرے اونٹ کو ڈانٹا اور پھر اس کیلئے دعا فرمائی ۔اس اونٹ کے رگ و پے میں ایک توانا ئی سی دوڑ گئی۔ اور بہت چستی اور طاقت سے چلنے لگا بلکہ ’’ دوسرے تمام اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ اثنائے راہ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: اب تمہارے اونٹ کا کیا حال ہے۔ میں نے عرض کیا ، یارسول اللہ بہت ہی اچھا ، اور یہ یقیناً آپکی دعا اور برکت کا اثر ہے کہ اس میں اتنی طاقت و توانائی آگئی ہے۔ آپ نے ارشافرمایا : تم اسے میر ے ہاتھ فروخت کردو میں نے عرض کیا جو آپکی منشائ، اسے آپ خرید لیجئے ۔لیکن ازراہِ کرم مجھے اس پر مدینہ منورہ تک سوار رہنے دیجئے اور یہ بھی کہ مجھے دوسروں سے ذرا پہلے جا نے کی اجازت مرحمت فرمادیجئے ۔کیونکہ ابھی حال ہی میں میری شادی ہوئی ہے ۔ چنانچہ آپ نے میری دونوں درخواستیں قبول فرمالیں اور مجھے اجازت عطا فرمادی ۔میں دوسرے لوگوںسے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گیا ۔ مدینہ پہنچ کر میری ملاقا ت میر ے ماموں سے ہوئی ۔ انھوں نے مجھ سے اونٹ کے بارے میں سوال کیا ،میں نے ساری روداد ان کے گوش گزار کردی ۔اور انھیں اس بات سے بھی مطلع کر دیا کہ میں نے یہ اونٹ جناب رسالت مآب ﷺکے ہاتھ فروخت کردیا ہے ۔ انھوں نے مجھے بڑی ملامت کی اور کہا کہ ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا۔ تو نے وہ بھی فروخت کردیا ۔اب ہم سواری اور بار برداری کیلئے کیا انتظام کر ینگے۔ جب رسول اللہ ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے۔ تو میں صبح کے وقت وہ اونٹ لے کر آپ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اس اونٹ کی قیمت ادا فرمادی۔ جب میں نے وہ قیمت وصول کر لی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ بھی مجھے واپس فرمادیا۔ (گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود ہی انکی اعانت اور دستگیر ی تھا) ۔(بخای)

وہ ؐ ابرِ کرم ہیں تو برستے ہی رہیں گے

تبدیل کسی طور بھی فطرت نہیں ہوتی 

اتوار، 11 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1531 ( Surah Ash-Shura Ayat 45 )درس قرآن سُوۡ...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 133 ( Surah Al-Baqara Ayat 155-157 Pt-1 ) در...

Zindagi Ka Maqsad - زندگی کا مقصد

Hum Pareshan Kyoon Hain? ہم پریشان کیوں ہیں؟

سادہ لوح دیہاتیوں سے محبت

 

سادہ لوح دیہاتیوں سے محبت  

دیہا ت میں رہنے والے افراد اکثر اوقات سادہ مزاج اور سادہ لوح ہوتے ہیں۔ انھیں شہر کے تمدن ، آداب روایات کازیادہ ادراک نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات وہ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے شہریوں کے مذاق بلکہ طنزوتمسخر کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ لیکن حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم دیہات سے آنے والے ان بادیہ نشینوں کے لیے سراپا رحمت اورسراپا شفقت تھے۔ انھیں بڑی بشاشت اورکشادہ روئی سے ملتے، بڑی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کرتے، تحمل سے ان کی بات سنتے اورمسکراتے ہوئے بڑی وضاحت سے انکا جواب مرحمت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے صحرانشین بھی آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ 
حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی زاہر بن حرام الاشجی تھے ،جو ایک صحرا میں قیام پذیر تھے۔ ان کا معمول تھا کہ جب بھی بارگاہ رسالت میں حاضری کے لئے آتے ،اپنے ہمراہ صحرا کی عمدہ سبزیاں اور لذیذ پھل لے کرآتے اورآپ کی خدمت میں ہدیہ خلوص پیش کرتے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اب میں انھیں شہر کی مرغوب اورقیمتی اشیاء بطور تحفہ عنایت فرماتے ۔ حضور بڑی خوش طبعی سے فرمایا کرتے تھے کہ زاہر ہمارا صحرا ہے اورہم اس کے شہر ہیں۔ حضور زاہر سے اورزاہر حضور سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ ایک روز حضور بازار تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ زاہر اپنا سامان فروخت کررہے ہیں،حضور ان کی پشت کی طرف سے آئے،ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور خوب بھینچا۔زاہر نے مشام جاں کی خوشبو سے پہچان لیا کہ یہ اللہ کے محبوب ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں حصولِ برکت کے لیے اپنی پشت کو دیر تک آپ کے صدرمبارک سے مس کرتا رہا۔ (ترمذی)دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے انھیں عقب سے اپنے بازوئوں میں کس لیا، اس نے کہا مجھے چھوڑ دوتم کون ہو، پھر توجہ ہوئی کہ یہ تو اس کے آقاء ہیں، جو اس پر لطف وکرم فرمارہے ہیں۔ یہ ادراک ہونے کے بعد وہ بڑی دیر تک آپ کے مبارک لمس سے شاد کام ہوتے رہے ۔آپ نے ان کے ساتھ خوش طبعی فرماتے ہوئے کہا :ہے کوئی جو اس غلام کو خرید لے؟زاہر نے عرض کیا حضور اگر آپ مجھے فروخت کریں گے تو مجھے کھوٹا پائیں گے ۔ قدرشنا س رسول نے ارشاد فرمایا :نہیں تم کھوٹے نہیں ہو بلکہ اللہ کی بارگاہ میں بڑے گراں قیمت ہو۔(السیرۃ النبویہ)

ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 132 ( Surah Al-Baqara Ayat 154 ) درس القرآن ...

Zindagi Kya Hay? - زندگی کیا ہے

سب سے محبت

 

سب سے محبت

اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات میں اس کے پیارے محبوب محمد مصطفیٰ علیہ التحتہ والثنا ء سے بڑھ کر کوئی بھی صاحبِ فضیلت نہیں۔لیکن اس کے باوجود آپ کے مزاج مبارک میں انتہائی عاجزی ،انکساری اور فروتنی تھی، ہر ایک کی عزت افزائی فرماتے اورہر ایک سے محبت کرتے۔ ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے جعرانہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جلوئہ افروز دیکھا میں ابھی اس وقت نوعمر تھا، اس اثنا میں ایک خاتون وہاں آئیں اورحضور کے قریب ہوئیں، آپ نے اپنی چادر مبارک بچھا دی اورانھیں اس پر بٹھا دیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کون ہیں؟انہوں نے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ (حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا)ہیں۔جنہوں نے حضور کو دودھ پلایا ہے۔(ابودائود )امام ابودائود روایت کرتے ہیں ایک روز سرکار دوعالم تشریف فرماتھے کہ آپ کے رضاعی والد حاضر ہوئے۔ آپ نے اپنی چادر کا ایک گوشہ ان کے لئے بچھا دیا وہ اس پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد آپ کی رضا عی والدہ تشریف لائیں ،حضور نے اپنی چادر کا دوسرا گوشہ ان کے لئے بچھا دیا وہ بھی اس پر بیٹھ گئیں پھر آپ کے رضاعی بھائی بھی آگئے ،حضور کھڑے ہوگئے اورانھیں اپنے سامنے بٹھا لیا۔(ابودائود)
آپ اپنے صحابہ سے کس طرح محبت سے پیش آئے اورکسی بھی بات پر ناگواری کا اظہار نہ فرماتے (الایہ کہ وہ خلافِ شریعت ہو) اس کا اندازا درج ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ننگی پشت والے گدھے پر سوار ہوکر قبا کی طرف روانہ ہوئے ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ چل پڑے ، حضور علیہ السلام نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا میں تمہیں اپنے ساتھ سوار نہ کرلوں ۔عرض کیا یا رسول اللہ جیسے حضور کی مرضی ۔آپ نے فرمایا: میرے ساتھ سوار ہوجائو۔ انہوں نے سوار ہونے کیلئے چھلانگ لگائی۔ وہ سوار نہ ہوسکے اور بے ساختہ حضور کو پکڑ لیا، یہاں تک کہ وہ دونوں زمین پر آگئے۔ حضور پھر سوار ہوگئے۔ اورحضرت ابوہریرہ سے دوبارہ فرمایا کہ تم بھی سوار ہوجائو۔انھوں نے پھر کوشش کی لیکن اس بار بھی سوار نہ ہوسکے۔ اورحضور کو پکڑ لیا اوردونوں پھر زمین پر آگئے۔حضور تیسری بار سوار ہوئے تو آپ نے حضرت ابوہریرہ کو پھر اپنے ساتھ سوار ہونے کی پیش کش فرمائی۔لیکن انھوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ اب مجھ میں سوار ہونے کی ہمت نہیں۔ میں آپ کو تیسری بار نیچے لانے کا سبب نہیں بن سکتا۔ (محب طبری)

Depression Kyoon hota Hay? ڈپریشن کیوں ہوتا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1530 ( Surah Ash-Shura Ayat 44 Part-2 )درس قر...

جمعہ، 9 اکتوبر، 2020

خلقِ پیغمبر

 

 خلقِ پیغمبر

حضرت انس بن مالک ؓروایت فرماتے ہیں اگرکوئی شخص نبی کریم ﷺسے سرگوشی کرتا تو آپ اپنا گوش مبارک اس سے نہ ہٹاتے ،جب تک کہ وہ سرگوشی سے فارغ نہ ہوجاتا ۔اگر کوئی آپ کا دست مبارک پکڑتا تو جب تک وہ دستِ مبارک کو پکڑے رہتا حضور خود اپنے دستِ اقدس کو نہ کھینچتے ۔اپنی مجلس میں بیٹھنے والوں سے اپنے گھٹنوں کو آگے نہ کرتے۔ جو شخص بھی آپ سے شرف ملاقات حاصل کرتا ،آپ اسے سلام کہنے میں پہل فرماتے ، اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مصافحہ فرماتے ، اپنے ملاقاتیوں کی عزت افزائی کیا کرتے، بسااوقات ان کیلئے اپنی چادرمبارک بچھا دیتے اوران سے اصرار فرماتے کہ اسکے اوپر بیٹھیں ۔ اگر تکیہ ہوتا تو اپنے مہمان کو پیش فرماتے اوراسے مجبور کرتے کہ وہ اس سے ٹیک لگائے۔ اپنے صحابہ کو ان کی عزت افزائی کہ خاطر کنیت سے مخاطب فرماتے اگرکسی صحابی کے متعدد نام ہوتے تو اسے اس نام سے یاد کرتے جواسے زیادہ پسند ہوتا۔ اگر کوئی شخص گفتگو کررہا ہوتا تو درمیان میں بات نہ کاٹتے ،اگر آپ نماز میں مصروف ہوتے اورکوئی شخص ملاقات کیلئے حاضر ہوتا تو اپنی نماز کو مختصر کردیتے ،اور اس سے ازرہِ لطف ودریافت کرتے کہ وہ کیوں آیا ہے ،جب اسکی حاجت براری سے فارغ ہوجاتے تو دوبارہ نماز میں مشغول ہوجاتے۔ (السیرۃ النبویہ ) قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺاپنے صحابہ کرام کے دلوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور انھیں ایک دوسرے سے متنفر نہیں کیاکرتے تھے۔ اگر کسی قبیلہ کا سردار حاضر خدمت ہوتا تو حضور اکرم ﷺاسکی تکریم فرماتے اور اس کو (قبول اسلام کے بعد) اسی قبیلے کا سردار مقرر فرماتے ۔ آپ اپنے تمام ہم نشینوں کے ساتھ برابر کا سلوک روارکھتے ۔آپ کے پاس بیٹھنے والا کوئی شخص بھی یہ گمان نہ کرتا کہ فلاں شخص حضور کی نظر وں میں مجھ سے زیادہ معزز ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ضرورت کیلئے حاضر ہوتا اورحاضر ین کے ہجوم میں قریب ہونے کی کوشش کرتا توحضور اس کو اپنے قریب کرتے اور بڑے صبروتحمل سے اسکی ساری کھتا سنتے ،یہاں تک کہ وہ خود (بات کرکے سیر ہوجاتا اور)واپس چلا جاتا ۔ اگر کوئی شخص آپ سے کوئی حاجت طلب کرتا تو حضور اسے خالی ہاتھ واپس نہ بھیجتے ،اگر (کسی وجہ سے)اس کی حاجت براری ممکن (یا مناسب )نہ ہوتی تو اسکے ساتھ بڑے پیار سے گفتگو فرماتے رہتے یہاں تک کہ وہ خوش وخرم (اورمطمئن ) ہوکر واپس ہوتا۔ (الشفائ)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1529 ( Surah Ash-Shura Ayat 44 Part-1 )درس قر...

Shaitani Waswason Say Nejat Kaisay Mumkin Hay?شیطانی وسوسوں سے نجات کیسے...

منگل، 6 اکتوبر، 2020

Kya Hum Zindagi Ko Zaya Kar Rahay Hain? کیا ہم زندگی کو ضائع کر رہے ہیں

Kya Dunya Ki Zindagi Waqai Sirf Khel Tamasha Hay? - کیا دنیا کی زندگی و...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 130 ( Surah Al-Baqara Ayat 153 Part-01 ) در...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 129 ( Surah Al-Baqara Ayat 152 Part-04 ) درس...

Humari Zindagi Main Shaitan Ka Kirdaar .ہماری زندگی میں شیطان کا کردار

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1526 ( Surah Ash-Shura Ayat 37 )درس قرآن سُوۡ...

شانِ انکساری

 

 شانِ انکساری

حضرت انس بن مالک ؓروایت فرماتے ہیں: ایک روزحضور سیّد العرب والعجم ﷺاپنے گھر سے صحابہ کی معیت میں ایک راستے سے تشریف لے جارہے تھے۔ سامنے سے ایک خاتون آگئی۔ اس نے عرض کیا۔ اے اللہ کے پیارے رسول میں ایک ضرورت کی غرض سے آپکی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :اے مادرِ فلاں ،تم اس گلی میں جس جگہ مناسب سمجھو بیٹھ جائو ،میں تمہارے پاس بیٹھوں گا۔ چنانچہ وہ ایک جگہ بیٹھ گئی۔ حضور ﷺبھی وہیں تشریف فرما ہوگئے اوراس وقت تک بیٹھے رہے جب تک وہ خاتون اپنی معروضات پیش کرکے فارغ نہ ہوگئی۔ (ابونعیم )

عدی بن حاتم ؓارشاد فرماتے ہیں کہ ایک دن وہ بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں حاضر ہوئے۔ کیادیکھا کہ ایک خاتون اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ حضور اکرم ﷺکے بالکل نزدیک بیٹھی ہے اوراپنے احوال بیان کررہی ہے۔ عدی کہتے ہیں یہ منظر دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ حضور قیصر وکسریٰ کی طرح کے بادشاہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے سچے نبی ہیں (بخاری)

کہتے ہیں کہ مدینہ طیبہ کی کمسن بچیاں اپنے کریم وشفیق ،مہربان اورمشفق آقا کی خدمت میں حاضر ہوتیں  اگر کسی بچی کوکوئی کام ہوتا تو وہ اپنے آقا کا دستِ مبارک پکڑ کر آپ کو اپنے ساتھ لے جاتی ،حضور اپنادست مبارک اسکے ہاتھ سے  اس وقت تک نہیں کھینچتے تھے جب تک اس کامقصد پورا نہ ہوجاتا۔ ایک مفلوک الحال مسکینہ بیمار ہوگئی۔ حضور رسالت مآب ﷺمیں اطلاع دی گئی کہ آپکی فلاں خادمہ بیمار ہے حضور اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔ آپ کا معمول تھا کہ فقراء ومساکین کی عیادت فرمایا کرتے تھے اور ان کا حال دریافت کیاکرتے تھے۔حضرت معاذ بن جبل ایک دن بکری کی کھال اُتاررہے تھے ،حضور اکرم ﷺ کا وہاں سے گزر ہوا آپ نے محسوس کیا کہ انہیں کھال اتارنے کا صحیح طریقہ نہیں آتا۔ حضور نے فرمایا: معاذ ذرا ہٹ جائو میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ کھال کس طرح اتاری جاتی ہے۔ حضور سرکارِ دوجہاں علیہ التحتہ والثنا ء نے بکر ی کی کھال اتار کردکھائی اورفرمایا ۔اے نوجوان! اس طرح کھال اتاراکرو۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو مدینہ کے بچے حضور کے استقبال کے لیے دوڑ کرآتے حضور انھیں اپنے ساتھ سوار کرلیتے اگر کچھ بچے رہ جاتے تو صحابہ کو حکم دیتے کہ انھیں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔(السیرۃ النبویہ۔زینی دحلان)