منگل، 13 اکتوبر، 2020

حرمت ِ رسول ﷺ

 

 حرمت ِ رسول ﷺ

اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید پر ایمان کے ساتھ اللہ رب العزت کے آخری رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپکی نبوت دائمی اور عالمی ہے اور آپ خاتم النبین ہیں۔ اس اعتقاد کے بغیر انسان نہ تو مومن کہلا سکتا ہے اور نہ ہی وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے۔ آپکی مطلق وغیر مشروط اطاعت اور اتباع بھی شرعاً لازم وواجب ہے اور آپ کی تعظیم وتوقیر بھی ۔ آپکی حرمت وناموس کا پاس اور لحاظ اور اسکی خاطر جان و مال قربان کر دینے کا جذبہ ایمان کی اسا س ہے۔ ایمان کاحقیقی ذوق اور اسکی حلاوت اسی شخص کو حاصل ہوسکتی ہے، جسے ’’اللہ اور اس کا رسول تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجائیں۔‘‘ (بخاری) ٭ امام نووی ’’حلاوۃِ ایمان ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: انسان کو طاعت (اعمال صالحہ ) بجالانے اور اللہ اور اسکے رسول کی رضاء کی خاطر مشقّت اٹھانے میں لذت محسوس ہواور وہ اسے دنیا کے مال ومتاع پر ترجیح دے۔ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کیلئے بندے کی محبت یہ ہے کہ اسکی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت ترک کر دے، اسی طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا معنی بھی یہی ہے آپکے احکام کی فرما ں برداری کرے اور اس کی مخالفت سے مجتنب رہے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’ تم لوگ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لائو اور  اطاعت کرو اور آپ کی تعظیم بجا لائو۔(الفتح :۹)٭دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: ’’ اے حبیب ! آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے والدین اور تمہاری اولادیں اور تمہارے بھائی اورتمہارے کنبے اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور جو تجارت جس کے نقصان سے تم ڈر رہے ہو اور وہ آشیانے جنہیں تم پسند کرتے ہو ۔یہ (سب) تم کو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ سے اور اسکی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ِ(خاطر) ہیں۔تو منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (التوبہ : ۲۴)٭علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’اس آیت میں اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ محبت کے واجب ہونے کی دلیل ہے اور اس مسئلے میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺکے ساتھ تھے۔ آپ حضرت عمر بن خطاب کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے آپ کی خدمت میں اپنی قلبی کیفیت کا اظہار کیا اور کہا یا رسول اللہ آپ اپنی جان کے سو ا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں ۔آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک اپنی جان سے بھی زیادہ محبو ب نہ ہوجائوں تم مومن نہیں ہوسکتے ۔حضرت عمرنے عرض کیا : اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تر ہیں ۔ ارشاد ہوا : اے عمر ! اب تمہارا ایمان کامل ہوگیا ہے۔ (صحیح بخاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں