اتوار، 31 مئی، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1401 (Surah Momin Ayat 05 Part-1/2)درس قرآن س...

فرض عبادات کا فلسفہ

فرض عبادات کا فلسفہ

سلام   نے کئی عبادات کو فرض قرار دیا ہے تو بندگی کے اظہار کو انھیں تک محدود نہیں کردیا بلکہ انکے ذریعے سے اطاعت اور فرماںبرداری کا ایک مزاج تشکیل پاتا ہے۔ اور انسانی شخصیت کی ساخت پر داخت ایسے زاویوں پر ہونے لگتی ہے۔ جو اسکی پوری زندگی کو حسن عمل میں ڈھال دیتے ہیں ۔ ’’عام طور پر مشہور ہے کہ شریعت میں چار عبادتیں فرض ہیں، یعنی نماز ،روزہ ،زکوٰ ۃ اور حج ۔ اس سے یہ شبہ نہ ہوکہ ان فرائض کی تخصیص نے عبادت کے وسیع مفہوم کو محدود کردیا ہے۔ درحقیقت یہ چاروں فریضے عبادت کے سینکڑوں وسیع معنوں اور انکے جزئیات کے بے پایاں دفتر کو چار مختلف بابوں میں تقسیم کردیتے ہیں ،جن میں سے ہر ایک فریضہ عبادت اپنے افراد اور جزئیات پر مشتمل اور ان سب کے بیان کا مختصر عنوانِ باب ہے، جس طرح کسی وسیع مضمون کو کسی ایک مختصر سے لفظ یا فقروں میں ادا کرکے اس وسیع مضمون کے سر ے پر لکھ دیتے ہیں، اسی طرح یہ چاروں فرائض درحقیقت انسان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو چار مختلف عنوانوں میں الگ الگ تقسیم کردیتے ہیں، اس لئے ان چار فرضوں کو بجاطور سے انسان کے اچھے اعمال اور کاموں کے چار اصول ہم کہہ سکتے ہیں۔۱۔ بندوں کے وہ تمام اچھے کام اور نیک اعمال جن کا تعلق تنہا خالق اور مخلوق سے ہے ایک مستقل باب ہے جس کا عنوان نماز ہے، ۲۔ وہ تمام اچھے اور نیک کام جو ہر انسان دوسرے کے فائدہ اور آرام کیلئے کرتا ہے ،صدقہ اور زکوٰۃ ہے۔ ۳۔ خدا کی راہ میں ہر قسم کی جسمانی اور جانی قربانی کرنا کسی اچھے مقصد کے حصول کیلئے تکلیف اور مشقت جھیلنا ، اور نفس کو اس تن پروری اور مادی خواہشوں کی نجاست اور آلودگی سے پاک رکھنا جو کسی اعلیٰ مقصد کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ، روزہ ہے، یا یوں کہوکہ ایثار وقربانی کے تمام جزئیات کی سرخی روزہ ہے۔۴۔ دنیائے اسلام میں ملّتِ ابراہیمی کی برادری اوراخوت کی مجسم تشکیل وتنظیم ، مرکزی رشتہء اتحاد کا قیام ،اور اس مرکزی آبادی اورحلال کسبِ روزی کیلئے ذاتی کوشش اور محنت کے باب کا سِر عنوان حج ہے۔ آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے۔ توحید ورسالت کا اقرار کرنا ۔ نماز پڑھنا ،روزہ رکھنا ، زکوٰۃدینا اور حج کرنا ،پہلی چیز میں عقائد کا تمام دفتر سمٹ جا تاہے،اور بقیہ چار چیزیں ایک مسلمان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو محیط ہیں، انہیں ستونوں پر اسلام کی وسیع اور عظیم الشان عمارت قائم ہے‘‘۔ (سیرت النبی)

ہفتہ، 30 مئی، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1400 (Surah Momin Ayat 01 Part-3)درس قرآن سُو...

بندگی کیا ہے؟ - Bandagi Kya Hay

عبادت اور تقویٰ

عبادت اور تقویٰ


اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:۔اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے (انسانوں )کو پیدا کیا تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو۔(البقرۃ)یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عبادت کی غر ض وغایت یہ ہے کہ وہ انسان کو منزلِ ’’تقویٰ ‘‘کی طرف پہنچا دے۔اس آیۃ مبارکہ میں اللہ رب العز ت کے دو اوصاف کا بیان ہوا (۱)وہ تمہارا رب ہے(۲) اسی نے تمہیں تخلیق کیا۔رب وہ ذات ہے جس کی تربیت سے کوئی چیز اپنی استعداد کے مطابق ارتقاء کے تمام مراحل طے کر تی ہوئی درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ گویا کہ انسان بلکہ پوری کائنات ہر ہر مرحلے پر اور ہر لمحے لمحے میں اسکی نگہداری سے پروری پار ہی ہے اور اس کا وجود وارتقاء اور اسکے جملہ کمالات کا حصول اسی کا رھین منت ہے۔ وہ تخلیق نہ کرتا تو انسان پیدا ہی نہ ہوتا اور وہ تربیت نہ کرے تو زندگی کا سفر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے۔

ابتداء سے کرتا ہے کوئی تربیت ورنہ

آدمی اذّیت کے موسموں میں مرجائے

جب ہم اسی کا دیا ہوا کھا رہے ہیں اور اسی کاعطاء کردہ اثاثہ استعمال کررہے ہیں تو پھر زندگی کے ایک ایک لمحے پر اس کا اختیار تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ اور اس کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں کیوں نہیں ڈالتے؟

بیضاوی علیہ الرحمۃ نے یہ بڑی خوبصورت بات کی ہے۔ فرماتے ہیں اللہ نے اپنی عبادت کاحکم دیا تو اس کی علّت (وجہ)یہ بیان کی کہ وہ تمہارا خالق ہے اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ گویا ہم اپنی عمر بھر کی عبادت اور اطاعت کا صلہ اسی وقت وصول کرچکے ہیں۔ جب اس نے ہمیں ’’انسان ‘‘بناکر تخلیق کردیا ،جو مزدور اپنا معاوضہ پیشگی وصول کرچکا ہو۔ وہ اپنا کام مکمل کرنے کا پابند ہو جاتا ہے۔ ہم بھی عمر بھر اس کا حکم ماننے کے پابند ہوچکے ہیں۔ تقویٰ قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے جس سے برے کاموں سے اجتناب اورنیک کاموں کے انتخاب کا میلان پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ایک اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ۔تقویٰ کی جگہ یہ ہے(مسلم)جملہ عبادات سے مقصود اس کیفیت کاحصول ہے۔نماز،روزہ ،حج ،زکوٰۃتمام کی غرض وغایت لفظ تقویٰ سے بیان کی گئی اور ہر وہ کام جو خدا کی رضاء لیے ہیں چاہے وہ اسکے نام کی تسبیح پڑھنا ہو،جو چاہے اسکی ذات کی عبادت کرنا، چاہے اسکی خاطر اسکی مخلوق کی خدمت کرنا سب اسی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔

جمعہ، 29 مئی، 2020

Kya Nakami Humara Muqaddar Hay? کیا ناکامی ہمارا مقدر ہے؟

حقیقی دعا کیا ہے؟ - Haqeeqi Dua Kya Hay

وسعتِ عبادت

وسعتِ عبادت


’’ اسلام میں عبادت کا مفہوم چند مخصوص افعال میں منحصر نہیں اسلامی نقطہ نظر کیمطابق جس طرح نماز ادا کرنا عبادت ہے ایسے ہی امانت داری سے تجارت کرنا بھی عبادت ہے حضور سید عالم ﷺ کا فرمان ذیشان ہے ’’امانت داری سے تجارت کرنیوالا قیامت کے دن انبیاء اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔‘‘جس طرح حج کرنے سے انسان کو اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے ایسے ہی روز ی کمانے کیلئے محنت ومشقت کرنا بھی عبادت ہے۔حضور ﷺ کا فرمان ہے الکاسب حبیب اللہ ’’مزدوری کرنیوالا اللہ کا دوست ہے۔‘‘جیسے قرآن مجید کی تلاوت کرنا عبادت ہے ایسے ہی کسی کی حاجت پوری کرنا بھی عبادت ہے پیغمبر اسلام ﷺفرماتے ہیں : ’’جب تک ایک بندہ کسی بندے کی مشکل حل کرنے میں لگا رہتا ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی مشکلیں آسان فرماتا رہتا ہے۔‘‘ جہاں شرک ظلم عظیم ہے وہاں جھوٹی قسم کھانا اور جھوٹی گواہی دینا بھی بہت بڑا ظلم ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا کیا میں تمہیں سب بڑے گناہ نہ بتائوں ہم نے عرض کیا کیوں نہیں رسول اللہ! ﷺنے فرمایا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا حضور سید عالم ﷺ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خبر دار جھوٹی گواہی دینا بھی شدید ترین گناہوں میں سے ہے اور آپ اس بات کو باربار دھراتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگیں کہ کاش آپ خاموش ہوجائیں۔(ریاض الصالحین ، ص 594) ایک بدو حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! ﷺسب سے بڑا گناہ کون سا ہے تو آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اس نے عرض کیا پھر تو فرمایا جھوٹی قسم کھانا۔(ریاض الصالحین ،ص 650) جیسے روزہ توڑنا گناہ ہے ایسے ہی کسی لالچ یا خوف سے کسی بات کو چھپانا بھی گناہ ہے ۔رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ۔ جس سے کوئی بات پوچھی گئی لیکن اس نے وہ بات چھپائی اسے قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائیگی۔(ریاض الصالحین ،ص528) جیسے اللہ کی عظمت کو نہ ماننا جرم ہے ایسے ہی غرباء فقراء کی مدد نہ کرنا بھی جرم ہے قیامت کے دن ایک مجرم کے متعلق فرمایا جائیگا۔ ’’اسے پکڑواسکے گلے میں طوق ڈالو۔ پھر اسے جہنم میں داخل کردو پھر اسے ایسی زنجیر میں جکڑوجس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے۔ بے شک وہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دیتا تھا۔‘‘(الحاقہ : 30:33)(روح عبادت)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1399 (Surah Momin Ayat 01 Part-2)درس قرآن سُو...

جمعرات، 28 مئی، 2020

Aaj Ka Insaan Nakam Hay آج کا انسان ناکام ہے؟

دعا کی حقیقت - Dua Ki Haqeeqat

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1398 (Surah Momin Ayat 01 Part-1)درس قرآن سُو...

عبادت، اعترافِ عجز

عبادت، اعترافِ عجز


کتاب اللہ میں لفظ عبادت ’’تکبر‘‘کے متضاد کے طور پر استعمال ہواہے۔ ٭(ملائکہ ) جو اس کے پاس ہیں ،وہ اُ سکی عبادت سے غرور نہیں کرتے ۔(الا نبیائ۔ ۲۰) ٭میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیات سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں،اور اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے ۔(السجدہ)٭غرور ،تکبر اور استکبار کے معنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ،احساس ذات ، خدا کے سامنے سرکشی ، اوراسکی بارگاہِ جلالت میں گردن جھکانے سے عاروانکار کے ہیں۔تو اسکے مقابلے میں عبادت اللہ کے سامنے سرجھکانے اور عاجزی اور بندگی کا اعتراف کرنے اور اسکے احکام کے سامنے اظہار اطاعت کے ہیں ۔ اسی طرح کسی شخص سے بظاہر اچھے کام کا صدور تو لیکن اس اچھے کام سے اس مقصد اظہارِ عبودیت یا اطاعتِ خداوندی نہ ہو تو وہ کام عبادت میں شمار نہیں ہوگا۔ کسی بھی اچھے کام کو عبادت میں شمار ہونے کیلئے اسکی نیت کا خالص اور پاک ہونا بے حد ضروری ہے اور یہی وہ نشانِ امتیاز ہے جو عبادت اور غیر عبادت کے درمیان فرق کرتا ہے۔  ارشاد اتِ خداوندی ملاحظہ فرمائیے۔

٭اس پرہیز گار کو دوزخ سے بچا لیاجائے گا جو اپنا مال دل کی پاکیزگی (حاصل کرنے ) کیلئے دیتا ہے۔ اس پر کسی کا احسان باقی نہیں،جس کا بدلہ اس کو دینا ہو،بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات اسکا مقصود ہے۔وہ عنقریب خوش ہوجائیگا۔ (اللیل ۔۱۰) ٭پس خرابی ہے ایسے نمازیوں کیلئے جو اپنی نماز (کی ادائیگی )سے غافل ہیں،وہ جو ریا کاری کرتے ہیں،اور (مانگے بھی)نہیں دیتے روز مرّہ استعمال کی چیزیں۔(الماعون )

’’آنحضرت ﷺنے عبادت کا جو مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا اس میں پہلی چیز دل کی نیت اور اخلاص ہے۔ اس میں کسی خاص کام اور طرزوطریقہ کی تخصیص نہیں ہے، بلکہ انسان کا ہر وہ جائز کام جس سے مقصود خدا کی خوشنودی اور اسکے احکام کی اطاعت ہے۔ وہ ’’عبادت‘‘ ہے۔

اگر تم اپنی شہرت کیلئے کسی کو لاکھوں دے ڈالو،تو وہ عبادت نہیں لیکن خدا کی رضا جو ئی اور اسکے حکم کی بجا آوری کیلئے چند کوڑیا ں بھی کسی کو دو تو یہ بڑی عبادت ہے۔ تعلیم محمد ی کی اس نکتہ رسی نے عبادت کو درحقیقت دل کی پاکیزگی، روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کی غرض وغایت بنادیا ہے اور یہی عبادت سے اسلام کا اصلی مقصود ہے۔‘‘ (سیرت النبی )

بدھ، 27 مئی، 2020

نور بصیرت

عبادت

قرآن مقدس کی رو سے انسان کی تخلیق بے مقصد نہیں ہے۔ بلکہ اسکی زندگی کا ایک واضع اور غیر مبہم مقصد ہے،اور وہ ہے ’’عبادت‘‘۔لفظ ’’عبادت‘‘سے ذہن فوراً کچھ ایسے معمولات کی طرف جاتا ہے ۔ جو عام طور پر عبادت کے حوالے سے ’’متعارف‘‘ہیں ۔ان معمولات کے عبادت میں ہوتے ہیں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں تصور عبادت ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔لغتِ عرب میں انتہائی انکساری اور عاجزی کو ’’عبادت‘‘کہاجاتا ہے۔ امام راغب اضفہانی کہتے ہیں عبادت کا معنی ہے غایۃُ التذلل یعنی انتہاء درجہ کی انکساری ،صاحب لسان العرب ابن منظور لکھتے ہیں :معنی العباد ۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع۔عبادت کے معنی ایسی اطاعت کے ہیں جس میں خضوع پایا جائے۔ گو یا کہ لفظ’’ عبادت‘‘ اپنی ذیل میں انتہائی عاجزی ،انکساری اور اظہار فروتنی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مقدس میں عبادت کا متضاد لفظ ’’تکبر‘‘استعمال ہواہے۔ ٭جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ سب جہنم میں داخل ہونگے۔ (المومن 60)٭اور جسے اللہ کی عبادت سے عار ہو اور وہ تکبر کرے تو اللہ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کریگا۔ (النساء 172) عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لیکن جب اسکی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت والفت کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ یعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے ،جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت الفت میں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں : عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں ۔ کہتے ہیں ’’طریق معبد ‘‘یعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔’’ بعیر معبد ‘‘وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع وفرمابردار بن گیا ہو۔ شریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے ۔ جس میں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر )علامہ ابن قیم لکھتے ہیں ۔ ’’عباد ت کے دوجز ہیں ۔انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ ‘‘۔ گویا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی یاانکساری کا نام نہیں بلکہ دل کے میلان کا نام ہے،جو پورے شعور سے ایک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے ، اسکے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اسکے جلال کی ہیت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اسکے سامنے سر تسلیم خم کردے اور یہ جذبہء تسلیم ورضا ء چند معمولات ورسومات تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محیط ہے۔ ہروہ عمل جو اللہ کے عطاء فرمودہ ضابطے کیمطابق ہو اور جس کا منشاء ومقصود رضا ئے الٰہی ہو ’’عبادت‘‘ ہے۔