منگل، 28 فروری، 2023

حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج(۲)

 

حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج(۲)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضور اکرم ﷺسے حطیم کے بارے میں استفسار کیاکہ کیا وہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے یا نہیں تو آپ نے فرمایا : ہاں۔(وہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے)میں نے عرض کی : کیا وجہ تھی کہ قریش نے اسے بیت اللہ میں شامل نہیں کیا ؟فرمایا :تمہاری قوم کو سرمائے کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا ۔ میں نے عرض کی: خانہ کعبہ کا دروازہ اٹھا ہوا کیوں ہے؟ فرمایا : تمہاری قوم نے ایسا اس لیے کیا تھا کہ جس کو چاہیں کعبہ کے اندر آنے دیں اورجس کو چاہیں روک دیں۔ اگرتمہاری قوم زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی اورمجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ انکے دلوں پر یہ بات ناگوار گزرے گی تو میں حطیم کو خانہ کعبہ میں شامل کردیتا اور اسکے دروازے کو زمین کے برابر کردیتا ۔(صحیح بخاری)حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضور نبی محتشم ﷺ سواری پر تھے اورحضرت معاذ رضی اللہ عنہ آپکے پیچھے بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا : اے معاذ بن جبل! انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ (ﷺ )! میں اطاعت اورخدمت کیلئے حاضر ہوں ۔ آپ نے (پھر)فرمایا : اے معاذ! انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! میں اطاعت اورخدمت کیلئے حاضر ہوں ۔ آپ نے تین بار ان کو خطاب فرمایا ، پھر فرمایا : جوکوئی سچے دل سے یہ شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں اورحضرت محمد ﷺاللہ تعالیٰ کے (سچے ) رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کو آگ پر حرام کردیتا ہے ۔ حضرت معاذ ؓنے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ)کیا میں یہ بات لوگوں کو نہ بتاﺅں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ فرمایا:(نہیں ) ایسا کرنے سے لوگ اسی (کلمے )پر بھروسہ کرنے لگیں گے (اوراعمال صالحہ سے بے نیاز ہوجائینگے )حضر ت معاذ ؓنے یہ حدیث اپنی موت سے پہلے روایت کردی کہ کہیں اس کو روایت نہ کرنے سے گنہگار قرار نہ پائیں۔(صحیح بخاری)حضرت ابوالعالیہ البراءسے روایت ہے کہ حاکم وقت ابن زیاد نے نماز کو اپنے وقت سے مو¿ خر  کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن صامت میرے ہاں تشریف لائے ۔ میں نے ان کیلئے کرسی رکھی۔ وہ کرسی پرتشریف فرماہوئے ۔ میں نے انکے سامنے ابن زیاد کی اس حرکت کا ذکر کیا ۔ انہوں نے اپنے ہونٹ بھینچے ، میری ران پر ہاتھ مارا اورفرمایا : جس طرح تم نے مجھ سے سوال کیا ہے میں نے اسی طرح حضرت ابوذرؓ سے سوال کیا تھا۔ انہوں نے میری ران پر اسی طرح ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے اورفرمایا : میں نے حضور ﷺسے اسی طرح پوچھا تھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے اورآپ نے اسی طرح میری ران پراپنے دست اقدس سے ضرب لگا ئی تھی،جس طرح میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے اورفرمایا تھا: تم نماز کو اسکے (صحیح ) وقت میں اداکرو۔ اوراگر ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی نوبت آجائے تو (دوبارہ )نماز پڑھ لو اوریہ نہ کہو کہ میں پہلے نماز پڑھ چکا ہوں ، اس لیے اب نماز نہیں پڑھوں گا۔(صحیح مسلم)

Shortvideo - کیا ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے؟

پیر، 27 فروری، 2023

حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج

 

حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج

حضور اکرم ﷺ،اللہ رب العزت کے فرستادہ رسول ہیں ، آپ ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں تشریف لائے جس میں جاہلیت کی روایتیں مکمل طور پر راسخ ہوچکی تھیں ، صرف وہی معاشرہ نہیں پوری دنیا کے احوال پراگندہ ہوچکے تھے ، ایسے میں اللہ رب العزت کے احکام کو نافذ کرنا اورمعاشرے کو اس پر آمادہ کرناکوئی سہل کام نہیں تھا۔اللہ رب العزت نے اپنے رسول کر حکمت اوربصیرت سے بہرورفرمایا اورحضور نے بتدریج پورے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام بھی اسی شعور اورتدبر کے حامل تھے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی بناکر بھیجا اورفرمایا: آپ ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہیں جو اہل کتاب ہیں۔ تم سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ (پر ایمان اوراس )کی عبادت کی دعوت دو۔ جب وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں تو ان کو بتاﺅ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن اوررات میں، پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اس حکم کی تعمیل کرلیں تو ان کو بتاﺅ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰة فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگو ں سے وصول کرو اورلوگوں کے عمدہ ترین مال کو (بطور زکوٰة )وصول کرنے سے اجتناب کرو۔ (صحیح بخاری )حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں ان ہدایات کا ذکرہے جو حضور ﷺ کسی امیرلشکرکو کسی مہم پر بھیجتے وقت دیا کرتے تھے۔اس حدیث پاک میں یہ الفاظ بھی ہیں: اگر وہ چاہیں کہ تم ان سے خدا اور خدا کے رسول کے عہد پر صلح کرو توانہیں خدا اور رسول خدا کی طرف سے عہد نہ دوبلکہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے عہد دو۔ کیونکہ اگر تم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد کی خلاف ورزی کربیٹھو تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم خدا اور رسول خد ا کے عہد کو توڑو(یہ آپ کی حکیمانہ پیش بندی ہے ناکہ عہد شکنی کی تحریک)اور اگر تم کسی قلعے کامحاصرہ کرو اور اہل قلعہ چاہیں کہ(وہ اس شرط پر ہتھیارپھینکنے کو تیار ہیں کہ)تم ان میں خدا کا حکم نافذ کرو گے تو تم انکی یہ شرط نہ مانوبلکہ ان کو اپنے حکم کیمطابق ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرو۔کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تم ان میں خدا کے حکم کو نافذکر پاﺅ گے یا نہیں۔(جامع ترمذی) حضرت وہب رحمة اللہ علیہ بیان فرما تے ہیں:میں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قبیلہ بنوثقیف کی بیعت کے متعلق پوچھاتو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: انہوں (بنو ثقیف)نے(اسلام قبول کرتے وقت )یہ شرط رکھی تھی کہ وہ نہ زکوٰةدیں گے اور نہ جہاد کریں گے۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہاانہوں نے بعد میں حضور ﷺکو یہ فرماتے بھی سنا:جب وہ اسلام لے آئیں گے تو (یقینا)زکوٰة بھی دینگے اور جہاد بھی کریں گے۔(سنن ابی داﺅد)


Shortvideo - کیا ہم زندگی فضول گزار رہے ہیں؟

اتوار، 26 فروری، 2023

رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم

 

رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم 

حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے ۔ سامنے سے ایک اعرابی آرہا تھا، جب وہ قریب آیا تو نبی کریم ﷺنے اس سے پوچھا: تم کہا ں جارہے ہو؟ اس نے کہا: اپنے اہل کے پاس ، آپ فرمایا : کیا تم کوئی خیر حاصل کرو گے ؟ اس نے پوچھا: وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم یہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ وحدہ لاشریک ہے اورمحمد(ﷺ) اللہ کے بندے اوراسکے رسول ہیں ، اس نے کہا : آپ کے اس قول پر کون گواہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ درخت ، وہ درخت وادی کے کنارے تھا، رسول اللہ ﷺنے اس درخت کو بلایا تو وہ زمین کوپھاڑ تا ہوا نبی کریم ﷺ کے سامنے کھڑا ہوگیا، آپ نے اس سے تین مرتبہ اپنی رسالت پر شہادت طلب کی اوراس نے اسی طرح شہادت دی جس طرح آپ نے کلمہ شہادت پڑھا تھا، پھر وہ درخت اپنی جگہ واپس چلا گیا ، وہ اعرابی اپنی قوم کی طرف چلا گیا اوراس نے کہا : اگر قوم نے میری بات مان لی تو میں ان کو لے کر آﺅ ں گا ورنہ خود حاضر ہوجاﺅں گا۔ (طبرانی) حضرت عمر بن الخطاب ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺاپنے اصحاب کے ساتھ ایک محفل میں تشریف فرما تھے، اتنے میں بنوسلیم کا ایک اعرابی آیا، اس نے ایک گوہ شکار کرکے اپنی آستین میں رکھی ہوئی تھی، اس نے جب یہ جماعت دیکھی تو لوگوں سے پوچھا: اس جماعت کا امیر کون ہے؟ لوگوں نے بتایا : وہ شخص ہیں جو خود کو نبی گمان کرتے ہیں ، وہ رسول اکرم ﷺکے پاس آکر کہنے لگا: اے محمد (ﷺ)! تم سے بڑھ کر جھوٹا کوئی نہیں ہے اورمیرے نزدیک تم سے بڑھ کر مبغوض کوئی نہیں ہے(معاذ اللہ ) اوراگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میری قوم مجھ کو جلد باز کہے گی تو میں تم کو قتل کردیتا اوراس پر سب لوگ خوش ہوتے ، حضرت عمر نے کہا:یا رسول اللہ ﷺ! مجھ کو اجازت دیں میں اس کو قتل کردوں ! رسول اللہ نے فرمایا : تم کو معلوم نہیں کہ نبی بردبار ہوتا ہے ، اس اعرابی نے کہا: اگریہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو لات اورعزیٰ کی قسم! میں آپ پر ایمان لے آﺅں گا اوراس نے آستین سے گوہ نکال کر رسول اللہ کے سامنے پھینک دی، رسول اللہ ﷺنے گوہ سے کہا: اے گوہ ! اس نے فصیح عربی میں کہا: اے رب العلمین کے رسول ! لبیک میں حاضر ہوں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا کس کی عبادت کی جاتی ہے ؟ اس نے کہا : جس کا آسمان میں عرش ہے اور زمین میں اسکی سلطنت ہے، سمندر میں جس کی سبیل ہے ، جنت میں جس کی رحمت ہے اوردوزخ میں جس کا عذاب ہے ، آپ نے فرمایا:اے گوہ ! میں کون ہوں؟ اس نے کہا آپ رب العلمین کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں ، جس نے آپ کی تصدیق کی وہ کامیاب ہے اورجس نے آپکی تکذیب کی وہ ناکام ہے ، پھر اس اعرابی نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سواکوئی عبادت کا مستحق نہیں اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے برحق رسول ہیں، بے شک جس وقت میں آیا تھا تو میرے نزدیک آپ سے بڑھ کر مبغوض کوئی نہیں تھا ، اور اب آپ سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں ہے۔ (طبرانی )

Shortvideo - نجات کا واحد راستہ

ہفتہ، 25 فروری، 2023

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم

 

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت ابن عباس اورحضرت انس رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ نبی الصلوٰة والسلام نے احد پہاڑ کے متعلق فرمایا :

 احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

میں مکہ میں ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو اعلان نبوت سے پہلے مجھ پر سلام عرض کرتا تھا، میں اب بھی اس کوپہچانتا ہوں۔(صحیح مسلم)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حجراسود اوررکن یمانی کو اس حال میں اٹھائے گا کہ ان کی دوآنکھیں ، زبان اوردوہونٹ ہوں گے ، اورجس نے ان کی پوری تعظیم کی وہ اس کے حق میں گواہی دیں گے ۔(طبرانی )

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات یا نو کنکریاں اپنے ہاتھ میں لیں تو وہ تسبیح کرنے لگیں ، شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح ان کی آواز سنائی دیتی تھی ۔ (مجمع الزوائد)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

جب مجھ پر وحی کی گئی تو میں جس پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتا تھا وہ کہتا تھا : السلام علیک یا رسول اللہ ! ۔(مجمع الزوائد)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر نکلا، آپ جس پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تھے وہ آپ کو سلام عرض کرتا تھا۔ (طبرانی ، مجمع الزوائد)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کے کسی راستہ میں جارہا تھا کہ آپ کے سامنے جو بھی پہاڑ یا درخت آتا وہ کہتا:السلام علیک یا رسول اللہ ! ۔(ترمذی)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر بناکر لایا گیا تو جس کھجور کے ستون کے ساتھ آپ ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے ، وہ اس طرح چیخ مارکر رورہا تھا جیسے اونٹنی اپنے بچے کے فراق میں روتی ہے۔ (صحیح بخاری)

اے مسیحا ! ترے تلوﺅں میں اثر ہے کیسا 

خشک لکڑی میں پڑے جان تو پتھر جاگے

Shortvideo - اطاعت الٰہی

جمعہ، 24 فروری، 2023

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

 

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کررہا ہو پس تم (سجدہ میں )بہت دعاکیا کرو۔(صحیح مسلم،سنن داﺅد )

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جس سے اللہ مجھے جنت میں داخل کردے یا میںنے عرض کیا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے پھر سوال کیا، آپ خاموش رہے ، جب میں نے تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے لیے کثرت سے سجدے کیا کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرو گے تو اللہ اس سجدہ کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹادے گا۔ (صحیح مسلم، ترمذی)

حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، میں آپ کے وضو اورطہارت کے لیے پانی لایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: سوال کرو، میں نے عرض کیا میںآپ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : اورکسی چیز کا ؟میں نے عرض کیا مجھے یہ کافی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر کثرت سے سجدے کرکے اپنے نفس کے اوپر میری مددکرو۔ (صحیح مسلم ، سنن ابوداﺅد )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب ابن آدم سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ جاکر روتا ہے اورکہتا ہے ہائے میرا عذاب !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا سواس کو جنت ملے گی، اورمجھے سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا سومجھے دوزخ ملے گی۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعضاءسجود کے جلانے کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔(صحیح بخاری، سنن نسائی)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ کا جو حال اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے اوراس کا چہرہ مٹی میں لتھڑا ہواہو۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں افلح نامی ہمارا ایک غلام تھا، جب وہ سجدہ کرتا تو مٹی کو پھونک مارکر اڑاتا، آپ نے فرمایا : اے افلح! اپنے چہرے کو خاک آلودہ کرو۔(سنن الترمذی)


Shortvideo - محبت خالص کس کے ساتھ؟

جمعرات، 23 فروری، 2023

Shortvideo - مخلوق سے محبت کیوں اور کیسے؟

محافظ فرشتے

 

محافظ فرشتے

کنانہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، جناب رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ایک فرشتہ تمہاری دائیں جانب تمہاری نیکیوں پر مقرر ہوتا ہے اوریہ بائیں جانب والے فرشتے پر امیر(حاکم)ہوتا ہے، جب تم ایک نیکی کرتے ہو تو اسکی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اورجب تم ایک برائی کرتے ہوتو بائیں جانب والا فرشتہ دائیں جانب والے فرشتے سے پوچھتا ہے ، میں لکھ لوں؟وہ کہتا ہے نہیں !ہوسکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اورتوبہ کرلے !جب وہ تین مرتبہ پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے ہاں لکھ لو!ہمیں اللہ تعالیٰ اس سے راحت میں رکھے، یہ کیسا برا ساتھی ہے یہ اللہ کے متعلق کتنا کم سوچتا ہے ! اوریہ اللہ سے کس قدر کم حیاکرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”وہ زبان سے جو بات بھی کہتا ہے تو اسکے پاس ایک نگہبان لکھنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔“(ق: ۱۸)اوردو فرشتے تمہارے سامنے اورتمہارے پیچھے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”اس کیلئے باری باری آنے والے محافظ فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کے سامنے سے اوراسکے پیچھے سے اسکی حفاظت کرتے ہیں “ (الرعد:۱۱) اورایک فرشتہ ہے جس نے تمہاری پیشانی کو پکڑا ہوا ہے جب تم اللہ کیلئے تواضع کرتے ہوتو وہ تمہیں سربلند کرتا ہے اورجب تم اللہ کے سامنے تکبر کرتے ہوتو وہ تمہیں ہلاک کردیتا ہے ، اوردوفرشتے تمہارے ہونٹوں پر ہیں وہ تمہارے لیے صرف محمد(ﷺ) پر صلواة کی حفاظت کرتے ہیں اورایک فرشتہ تمہارے منہ پر مقرر ہے وہ تمہارے منہ میں سانپ کو داخل ہونے نہیں دیتا، اوردوفرشتے تمہاری آنکھوں پر مقررہیں، ہر آدمی پر یہ دس فرشتے مقرر ہیں، رات کے فرشتے دن کے فرشتوں پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ رات کے فرشتے دن کے فرشتو ں کے علاوہ ہیں ، ہر آدمی پر یہ بیس فرشتے مقرر ہیں اورابلیس دن میں ہوتا ہے اوراس کی اولاد رات میں ہوتی ہے۔(جامع البیان :طبری ،تفسیر ابن کثیر )
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے، جو نیند اور بیداری میں اس کی جنات، انسانوں اورحشرات الارض سے حفاظت کرتا ہے، سوااس چیز کے جو اللہ کے اذن سے اس کو پہنچتی ہے ۔ (جامع البیان )ابومجاز بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مراد(ایک جگہ ) سے حضرت علی ؓکے پاس آیا، وہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اس نے کہا : آپ اپنی حفاظت کرلیں کیونکہ مراد کے لوگ آپکے قتل کی سازش کررہے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کےساتھ دوفرشتے ہیں جو ان مصائب سے تمہاری حفاظت کرتے ہیں جو تمہارے لیے مقدر نہیں کیے گئے اور جب تقدیر آجاتی ہے تو وہ مصائب کا راستہ چھوڑدیتے ہیں اورموت بہت مضبوط ڈھال ہے۔(طبری)

بدھ، 22 فروری، 2023

دشمنانِ رسالت کا انجام

 

دشمنانِ رسالت کا انجام

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اربد بن قیس ، اورعامر بن الطفیل نجد سے مدینہ منورہ میں آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس وقت آپ بیٹھے ہوئے تھے، وہ دونوں آپ کے سامنے آکر بیٹھ گئے، عامر بن الطفیل نے کہا: اگر میں اسلام لے آﺅں تو کیا آپ اپنے بعد مجھے خلیفہ بنائیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، لیکن تم گھوڑوں پر بیٹھ کر جہاد کرنا۔ اس نے کہا : میرے پاس تو اب بھی نجد میں گھوڑے ہیں، پھر اس نے کہا: آپ دیہات میرے سپرد کردیں اورشہر آپ لے لیں، آپ نے فرمایا : نہیں ! جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھنے لگے تو عامر نے کہا : اللہ کی قسم ! میں آپکے خلاف گھوڑے سواروں کو اورپیادوں کو جمع کروں گا۔ آپ نے فرمایا :اللہ تم کو اس اقدام سے باز رکھے گا۔ جب وہ دونوں وہاں سے واپس لوٹے تو کچھ دور جاکر عامر نے(چپکے سے)کہا : اے اربد، میں (سیدنا )محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو باتوں میں لگاتا ہوں تم تلوار سے ان کا سراڑا دینا، اورجب تم نے (سیدنا)محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو قتل کردیا تو زیادہ سے زیادہ یہ لوگ دیت کا مطالبہ کریں گے،اورہم سے جنگ کرنے کو ناپسند کریں گے، ہم ان کو دیت ادا کردیں گے ، اربد نے کہا : ٹھیک ہے !پھر وہ دونو ں دوبارہ آپ کے پاس آئے، عامر نے کہا :یا محمد (صلی اللہ علیک وسلم )اٹھیں میں آپ کے ساتھ کچھ بات کرنا چاہتا ہوں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اوردونوں باتیں کرتے ہوئے دیوار کے پاس چلے گئے۔ وہاں اورکوئی نہیں تھا۔ عامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باتیں کرنے لگا اوراربد تلوار سونتنے لگا۔ جب اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھا تو اسکا ہاتھ مفلوج ہوگیا، اوروہ تلوار نہ نکال سکا۔ جب اربد نے دیر لگادی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑکردیکھا اورآپ نے دیکھ لیا کہ اربد کیا کرنے والا تھا، پھر آپ واپس چلے آئے۔ جب عامر اوراربد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے، اورحرئہ واقم میں پہنچے تو ان کو حضرت سعد بن معاذ اوراسید بن حضیر ملے ، انہوں نے کہا : اے اللہ کے دشمنو !ٹھہر جاﺅ! عامر نے پوچھایہ کون ہے؟حضرت سعد نے کہا :یہ اسید بن حضیر کا تب ہے ،حتیٰ کہ جب وہ مقام رقم پر پہنچے تو اللہ نے اربد پر بجلی گرادی جس سے اربد ہلاک ہوگیا۔اورعامر جب آگے گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم میں چھالے اورپھوڑے پیداکردیئے ۔ اس نے بنو سلول کی ایک عورت کے ہاں رات گزاری ، اس کے حلق تک پھوڑے ہوگئے اوران کی تکلیف کی وجہ سے وہ موت کی خواہش کرنے لگا، اورپھر مرگیا۔(طبرانی)


Shortvideo - رشتہ داری کیسے نبھائیں؟

منگل، 21 فروری، 2023

معاف کرنے کی عادت

 

معاف کرنے کی عادت

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ”اورجب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں ، اوربرائی کا بدلہ اسکی مثل برائی ہے ، پھر جس نے معاف کردیا اوراصلاح کرلی تو اسکا اجر اللہ (کے ذمہ¿ کرم )پر ہے“۔ (الشوریٰ:۴۰) ”اورجس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے“۔(الشوریٰ : ۴۳)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ، اوربرائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اورآپ کو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔(جامع الترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور الصلوٰة والسلام کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم ﷺنے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابوداﺅد)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، میں نے ابتداً آپ کا ہاتھ پکڑلیا ، اورمیں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺمجھے فضیلت والے اعمال بتائیے، آپ نے فرمایا : اے عقبہ ، جوتم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو ، جو تم کو محروم کرے ، اس کو عطاکرو، اورجو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو۔(مسند احمدبن حنبل)

میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لے کر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ، ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اوران پر وہ شوربا گرگیا، میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا، تو باندی نے کہا اے میرے آقا، اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے ، والکاظمین الغیظ ، میمون نے کہا:میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا)اس نے کہا :اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجئے والعافین عن الناس میمون نے کہا :میں نے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی: واللّٰہ یحب المحسنین میمون نے کہا :میں تمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اورتم کو آزاد کردیتا ہوں۔(الجامع الاحکام :تبیان القرآن)

Shortvideo - ظالم کون ہے؟

Shortvideo - ظالم کون ہے؟

پیر، 20 فروری، 2023

توبہ کیا ہے؟

 

توبہ کیا ہے؟

 امام غزالی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں : جاننا چاہیے کہ توبہ کی ابتداءاس طرح ہوتی ہے کہ دل میں معرفت اور شناسائی کا ایک نور پیدا ہوتا ہے اوراس نور کی روشنی میں انسان کو یہ دکھائی دیتا ہے کہ گناہ ایک زہر قتل ہے جو اس کے رگ وپے میں سرایت کرچکا ہے اورجب اسے یہ ادراک ہوتا ہے کہ اس نے تو یہ زہر بہت ہی بڑی مقدار میں کھا لیا ہے اوراب ہلاکت اورتباہی سامنے دکھائی دے رہی ہے تو یقینا خوف وندامت اس پر غالب آجاتی ہے جس طرح زہر کھانے والا انسان پشیمانی اورخوف کی حالت میں حلق میں انگلی ڈال کر خوراک کو باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قے آجائے اوروہ زہر کو اگل دے ، اس کا یہ اقدام زہر کے خوف اورہراس کی وجہ سے ہوتا ہے ،اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح زہر کا اثر زائل ہوجائے ، اسی طرح توبہ کی طرف مائل ہونے والا جب محسوس کرتا ہے کہ میری تمام شہوانی اورنفسانی خواہشات دراصل اس شہد کی مانند تھیں جس میں زہر ملا ہوا تھا، جو نوش جاں کرتے وقت تو بہت ہی لذیذ اورشیریں معلوم ہوتا رہا لیکن انجام کار سانپ کے ڈنک کی طرح زہر سے بھرپور نکلا یہ جان کر اس گنہگار کی پشیمانی اسے مضطرب کردیتی ہے اوراس کے اندر بے قراری کی ایک آگ سے بھڑک اٹھتی ہے ، گناہ کی خواہش توبہ کی حسرت کی صورت اختیار کرلیتی ہے اوراپنے کیے ہوئے گناہوں کی معافی اورتلافی کا ارادہ دل میں بیدار ہوجاتا ہے اوراس کی زبان سے باربار یہی الفاظ نکلتے ہیں کہ اے اللہ کریم ! مجھے معاف فرمادے ، میں آئندہ کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا ،یہ کہتے ہوئے وہ جور وجفا کے لبادے کو تار تار کردیتا ہے اورخلوص ووفا کی بساط بچھادیتا ہے، اس کی تمام حرکات وسکنات میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے ۔ پہلے وہ فخرو تکبر اورغفلت و تساہل کا پتلا تھا تو اب اشک ندامت اسے حسرت وارمان اورغم اندوہ کا مجسمہ بنا دیتے ہیں ، پہلے اہل غفلت کی صحبت اسے بہت مرغوب تھی تو اب اہل علم ومعرفت اورصاحبانِ تقویٰ و طہارت کی صحبت اس کے لیے مایہ ءسرور اورراحت جاں بن جاتی ہے اورصحبت بد سے اسے وحشت ہونے لگتی ہے ۔پس یہی پشیمانی ، یہی ندامت اوریہی بے قراری حقیقت میں ”توبہ“ ہے ، یعنی احساس ندامت ، اپنے کیے پرپچھتاوا اوراصلاح کی طرف میلان ”توبہ “کہلاتاہے، اس کی جڑ وہ نور ہے جسے نورِ ایمان یا نورِ معرفت سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس کی شاخیں وہ حالات ہیں جو بدل چکے ہیں ، وہ مخالفت ہے جو بندئہ مومن کے دل میں گناہ اورسرکشی کے بارے میں جنم لیتی ہے اوروہ جذبہ ہے جو بدن کے تمام اعضاءکو گناہ اوربدی سے بازرہنے کی تلقین کرتا ہے اوراسے حق تعالیٰ کے حکم کی موافقت ،مطابعت اورعبادت و اطاعت پر مجبور کردیتا ہے۔

Shortvideo - انسان کیوں پریشان ہے؟

اتوار، 19 فروری، 2023

توبہ : رجوع الی اللہ

 

توبہ : رجوع الی اللہ

گناہوں سے نادم ہوکر حق تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا نام توبہ ہے ،انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے نہ فرشتہ اورنہ شیطان۔ اپنی تخلیق کی ابتداءسے گناہوں سے کنارہ کش رہنا اورہمہ وقت اطاعت الٰہی میں مشغول رہنا ، فرشتوں کا خاصہ ہے ، دائمی سرکشی ، بغاوت اورمخالفتِ حق ،کار شیطان ہے۔ انسان سے غلطی کا صدور ہوجاتا ہے ، لیکن اسے گناہوں کو ترک کرنے، توبہ کرنے اوررجوع الی الحق کی صلاحیت سے نواز اگیا ہے۔ توبہ کرنا شیوئہ آدمیت ہے ، جو شخص توبہ کرتا ہے وہ گویا کہ اپنے جدا مجد حضرت آدم علیہ السلام سے اپنی نسبت کودرست کرلیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بدقسمت انسان ہمیشہ گناہوں پر اصرار کرے تو گویا، اس نے اپنا تعلق شیطان سے استوار کرلیا ہے ، ایک عام انسان کے لیے ایسا بھی ممکن نہیں ہوتا کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ غفلت سے پاک ،عبادت وریاضت اوراطاعت وبندگی سے معمور ہوجائے اوروہ دنیا میں رہتے ہوئے فرشتوں کی سی زندگی بسرکرے۔ انسان کے وجود میں لغزش ونسیان اورنفسیانی خواہشات کامادہ بھی موجود ہے، امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کے وجود میں پہلے شہوت وخواہشات کو پیداکیاگیا ہے اورجب یہ اس کے وجود میں رچ بس گئی تو اسے جو ہرِ عقل سے نوازا گیا، عقل کوشہوت کا دشمن بنایا گیا اوریہ خالص فرشتوں کا جوہر ہے ، عقل کو یہ ہدف دیاگیا کہ وہ اپنی خداداد صلاحیت سے کام لے کر خواہش وشہوت کے اس قلعہ میں رخنہ ڈالے اورتو بہ اورمجاہدہ کی قوت سے اسے فتح کرے اوراسے شیطان کی غلامی اورنفس کی بالادستی سے نجات دلائے ۔
گویا کہ توبہ ہر شخص کی ضرورت ہے اوراللہ رب العزت کی معرفت کے جویاں افراد کے لیے قدمِ اولین ہے۔جب انسان کو توبہ کی توفیق نصیب ہوجائے تو پھر انسان شرح سے اکتساب کرتے ہوئے اوراپنی فراست مومنانہ کو استعمال کرتے ہوئے، صحیح راستے کا تعین کرسکتا ہے ، گویا توبہ ایک ایسا اہم ترین فریضہ ہے، جو تمام فرائض وواجبات کی جان ہے، اس لیے کہ اس کا مطلب ہی گمراہی کو ترک کرکے سیدھے راستے کو اختیار کرنا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے ہر بندے کو توبہ کرنے کا حکم دیا ہے ، سورة نور میں ارشاد ربانی ہوتا ہے ۔”اے ایمان والو! تم سب اللہ کے حضور میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاجاﺅ“۔(النور : ۳۱) سورة ہود میں ارشاد ہوتاہے ”اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو اورپھر اس کی طرف رجو ع کرو“(ہود : ۳) سورة التحریم میں حکم ہوا ”اے ایمان والو! اللہ کی جناب میں سچے دل سے توبہ کرو“(التحریم :۸)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے جو شخص توبہ کرے گا اس کی توبہ قبول کرلی جائےگی۔(صحیح مسلم)

Shortvideo - پریشانی سے چھٹکارا کیسے ؟

ہفتہ، 18 فروری، 2023

اذیت کے سلسلے

 

اذیت کے سلسلے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : حضور اکرم ﷺ مسجد حرام میں جلوہ گر تھے اورنماز کی ادائیگی میں مصروف تھے اور نماز میں طویل سجدے فرمارہے تھے ، اس وقت کفار کے کچھ سرکردہ افراد بھی حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے ان میں ابو جہل ، شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ ، عقبہ ابن ابی معیط ، امیہ بن خلف اوردومزید افراد یعنی کل سات افراد شامل تھے، ابوجہل نے کہا تم میں سے کون ایسا ہے جو فلاں جگہ جائے، جہاں کچھ قبائل نے جانور ذبح کیے ہوئے ہیں اوروہ جانور کی اوجھڑی ہمارے پاس اٹھالائے ، ہم وہ اوجھڑی محمد (ﷺ)پر ڈال دیں ، ان میں سب سے بدبخت وکور دماغ عقبہ ابن ابی معیط اٹھا اوراس نے وہ اوجھڑی لاکر پیکرِ نظافت ولطافت حضور انور ﷺکے کاندھوں پر ڈال دی آپ اس وقت حالتِ سجدہ میں تھے، میں وہاں قریب ہی کھڑا تھا ،مجھے کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی ، میں تواسوقت اپنی حفاظت پر بھی قادر نہیں تھا، میں کسی کو خبر کرنے کیلئے وہاں سے جانے ہی والا تھا کہ اسی اثنا میں حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ عنہا )تک یہ خبر پہنچ گئی آپ دوڑی ہوئی آئیں اورحضور ﷺکی پشت مبارک سے اوجھڑی کو اتار دیا، پھر قریش کی جانب متوجہ ہوکر (بلاخوف خطر) انھیں ملامت فرمانے لگیں، لیکن کافروں نے انھیں کچھ جواب نہ دیا، آنحضور علیہ الصلوٰة والتسلیم نے (اس اذیت کے باوجود )اپنی عادت مبارکہ کے مطابق سجدہ پورا کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو تین مرتبہ یہ دعافرمائی ، اے اللہ ! قریش کی گرفت فرما، عتبہ ، عقبہ ، ابوجہل اورشیبہ کی پکڑ فرما، اسکے بعد آپ مسجد حرام سے باہر تشریف لے گئے، راستے میں آپ کی ملاقات ابوالبختری سے ہوئی ، جس کی بغل میں کوڑا دبا ہوا تھا، اس نے اکے چہر ہ انور پر ملال کے آثار دیکھے تو پوچھا کیا ہوا، آپ نے فرمایا مجھے جانے دو اس نے کہا نہیں میں آپ کو نہیں جانے دوں گا، جب تک آپ مجھے ساری بات نہیں بتادینگے مجھے محسوس ہورہا ہے کہ آپ کوکوئی بڑی تکلیف پہنچی ہے ، اسکے اصرار پر آپ نے تمام ماجراکہہ سنایا، اس نے کہا آئیے میرے ساتھ مسجد چلئے ، حضور علیہ الصلوٰة والسلام اسکے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے، ابوالبختری نے ابوجہل کے سرپر وہ کوڑا رسید کردیا، اس پر کافروں میں آپس میں ہاتھا پائی شروع ہوگئی، ابوجہل چلایا ، او!تم لوگوں کا ناس ہو، تمہاری اس آپ کی ہاتھا پائی سے محمد (ﷺ)کا فائدہ ہورہا ہے، یہ تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہمارے درمیان مخاصمت پیدا ہوجائے، اوروہ اوران کے ساتھی محفوظ رہیں ، صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم پر اوجھڑی ڈالنے کے بعد وہ لوگ زور زور سے ہنسنے لگے اورہنسی کے مارے ایک دوسرے پر گرنے لگے، امام احمد کی روایت میں کہ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ ساتوں کافر میدان بدر میں قتل کردیے گئے ۔(بزار ، طبرانی ، مجمع الزوائد )

Shortvideo - سکونِ دل کیسے حاصل کریں؟

جمعہ، 17 فروری، 2023

پیدائشی ایمان پر شکر کرو

 

پیدائشی ایمان پر شکر کرو

حضرت نفیر تابعی رحمة ا للہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ اکتسابِ فیض کیلئے صحابی رسول حضرت مقدار بن اسود ؓکے پاس حاضر تھے ، اسی اثناءمیں ایک شخص کا وہاں سے گزرہوا، اس کی نظر حضرت مقدار کے چہرے پر پڑی تو اس نے کہا کتنی خوش بخت ہیں یہ دونوں آنکھیں جنہیں جناب رسالت مآب ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، اللہ رب العزت کی قسم ہمیں تو یہ تمنا ہی رہی کہ جو کچھ آپ نے مشاہدہ کیا وہ ہم نے بھی دیکھا ہوتا اورجن مجلسوں میں آپ کو حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہم بھی ان مبارک مجلسوں میں حاضر ہوتے اورانکی برکتوں سے بہرہ مند ہوتے ، حضرت نفیر کہتے ہیں کہ اس شخص کی بات سن کر حضرت مقدار پر غصے کے آثا ر نمودار ہوئے ، مجھے اس بات پر تعجب کہ اس شخص نے تو محبت وعقیدت پر مبنی ایک اچھی بات ہی کہی ہے پھر صحابی رسول اس پر عضب ناک کیوں ہوگئے ہیں ؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت مقدار ؓاس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اورارشاد فرمایا جس مجلس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں شریک نہیں ہونے دیا، تم اس مجلس میں شریک ہونے کی تمنا ہی کیوں کررہے ہو، تمہیں کیاخبر کہ اگر تم اس زمانے میں اوراس مجلس میں ہوتے تو تمہارا اس وقت کیا حال ہوتا ، اللہ ذوالجلال والاکرام کی قسم !بہت سے لوگوں نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو دیکھا، لیکن انکی بدبختی اورشامت اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں منہ کے بل جہنم میں ڈال دیا، کیونکہ انھوں نے ہادی عالم ﷺکی دعوت کو قبول نہیں کیا، اورآپکی تصدیق نہیں کی، کیا تم اس نعمت پر اپنے پاک پروردگار کا شکر نہیں بجالاتے کہ اس نے تمہیں جس وقت پیدا کیا تو تم اپنے خالق ومالک کو پہچانتے تھے اورجو کچھ حضور اکرم ﷺلے کر تشریف لائے ہیں تم اسے سچا مانتے تھے اورکفروایمان کی جو آزمائش دوسرے لوگوں پر آئی تم اس سے بچ گئے ، قسم بخدا!حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو ایسے زمانے میں بھیجا گیا جس میں کفر اورضلالت اتنے جوبن پر تھی کہ کسی اورنبی کے زمانے میں بھی اتنے زوروں پر نہ تھی ، مدت دراز سے انبیائے کرام کی آمد کا سلسلہ منقطع تھا اور جاہلیت کا ایسا دور دور ہ تھا کہ بتوں کی پرستش کو سب سے بہترین دین سمجھا جاتا تھا، آپ ایسی کتاب فرقان لیکر مبعوث ہوئے جس نے حق اورباطل میں امتیاز کردیا، (مسلمان)والد اور(کافر)بیٹے کے درمیان جدائی کردی ، چنانچہ جب ایک بندئہ مومن یہ دیکھتا ہے کہ اس کا والد یا فرزند یا بھائی کافر ہے لیکن اسکے دل کا قفل اللہ نے کھول کر ایمان سے بھردیا ہے اوراسے یقین ہے کہ اس کا یہ خاص تعلق دار جہنم رسید ہوگا ا ور اسے یہ بھی خبر ہے کہ جو جہنم میں گیا وہ برباد ہوگیا تو اپنوںکی ہمدردی میں اسے نہ چین آتا تھا اورنہ اسکی آنکھ ٹھنڈی ہوتی تھی جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے ”اے رب ہم کو اپنی عورتوں اوربچوں کی طرف سے آنکھوںکی ٹھنڈک عطافرما“۔(ابونعیم ، طبرانی الزوائد)

Shortvideo - دُنیا آخرت کے لئے کیوں؟

جمعرات، 16 فروری، 2023

اطاعت گزاروں کی مثال

 

اطاعت گزاروں کی مثال

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ سلم محواستراحت تھے کہ چند فرشتے آپ کے پاس آگئے ، اورآپس میں گفتگو کرنے لگے ، ایک نے کہا تمہارے ان صاحب (علیہ الصلوٰة والسلام ) کے لیے ایک مثال ہے اس کو بیان کرو، بعض فرشتوں نے کہا یہ تو سورہے ہیں ، دوسروں نے کہا ان کی آنکھیں تو سو جاتی ہیں لیکن ان کا قلبِ مقدس بیدار رہتا ہے ، فرشتوں نے کہا ، ان کی مثال ایک ایسے انسان کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اوراس گھر میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا، اور ایک شخص کو اس ضیافت میں مدعو کیا ، اس نے اس دعوت کو قبول کرلیا ،گھر میں داخل ہوگیا، اورکھانا تناول کرلیا ، لیکن ایک ایسا شخص بھی ہے جس نے نہ تو اس دعوت کو قبول کیا، نہ اس گھر میں داخل ہو اورنہ ہی اس دعوت میں سے کچھ کھایا ، دوسرے فرشتوں نے کہا اس مثال کی وضاحت انکے سامنے کروتاکہ یہ اس کا مطلب سمجھ جائیں، اس پر بعض فرشتوں نے کہا، یہ تو سورہے ہیں لیکن دوسرے فرشتوں نے کہا انکی آنکھیں سوتی ہیں مگر دل بیدار رہتا ہے ، پھر ان ملائکہ نے اس تمثیل کا یہ مطلب بیان کیا، کہ وہ گھر جنت ہے ، اوردعوت دینے والے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ، لہٰذا جس نے محمد علیہ الصلوٰة والتسلیم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اورمحمد علیہ الصلوٰة والسلام کی وجہ سے انسانوں کی دوقسمیں ہوگئیں ، جس نے آپ کی بات مانی اس کی اللہ کی بات مانی وہ تو جنت میں جائے گا، اوراس نے آپ کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اوروہ جنت میں نہیں جائے گا۔(صحیح بخاری، دارمی ، مشکوٰة )
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : میری اوراس دین کی جسے اللہ نے مجھے دے کر مبعوث فرمایا، مثال اس ایک انسان جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اوران سے کہا، اے میری قوم میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کے ایک لشکر جرار کو تمہاری طرف آتے ہوئے دیکھا ہے اورتمہیں بہت بے غرض ہوکر اس آفت سے ڈر ا رہا ہوں، جلدی کرو! جلدی کرو! چنانچہ اس قوم کے کچھ افراد نے تو اس کی بات مان لی، سرشام کی وہاں سے (محفوظ پناہ گاہوں کی طرف)چل دیے اورآرام سے چلتے رہے اوربچ گئے، لیکن اس قوم میں کچھ افراد نے اس خبردار کرنیوالے کوجھوٹا گردانا، اوروہیں پر مقیم رہے، دشمن کے لشکر نے ان پر علی الصبح ہی حملہ کردیا، ان کو ہلاک کرکے ان کانام ونشان تک مٹا ڈالا، یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے میری بات مانی اورجو دین حق میں لیکر آیا ہوں اس پر عمل پیرا ہوئے اوران لوگوں کی جنہوں نے میری نافرمانی کی اور میرے لائے ہوئے دین حق کو جھٹلادیا۔(بخاری ومسلم) 

shortvideo ہم کیوں آخرت کے لئے زندگی گزاریں؟

بدھ، 15 فروری، 2023

Shortvideo - دنیا کے دھوکے سے کیسے بچا جائے؟

تبلیغ وتلقین

 

تبلیغ وتلقین

صحابی رسول حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کی داستان سناتے ہوئے فرماتے ہیں، میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوا، میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی خدمت اقدس میں اب تک اس لیے نہیں حاضر ہوا کہ میں نے اپنے ہاتھوں کے پوروں کی تعداد سے زیادہ مرتبہ یہ قسم اٹھائی تھی کہ نہ تو میں کبھی آپ کے پاس آﺅں گا ، اورنہ ہی آپ کے دین کو اختیار کروں گا، (انھوں نے یہ بات بیان کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھتے ہوئے پوروں کی تعداد کی طرف اشارہ بھی کیا)لیکن اب اللہ رب العزت نے مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی توفیق عطاءفرمادی ہے اورمیری حالتِ زاریہ ہے کہ میرے پاس دین کا بہت ہی تھوڑا ساعلم ہے ، میں آپ کواللہ تبارک وتعالیٰ کی ذاتِ عظیم کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ ہمارے پاک پروردگار نے آپ کو کیا دے کر ہمارے پاس بھیجا ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دین اسلام دے کر تمہاری طرف بھیجا ہے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا ، اے اللہ کے مبارک رسول یہ دین اسلام کیا ہے؟ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا : دین اسلا م یہ کہ تم یہ کہوکہ میں نے اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرماں بردار بنادیا اورمیں اللہ رب العزت کا علاوہ باقی سب سے بے نیاز ہوگیا، نماز قائم کرو اورزکوٰة اداکرو، (یادرکھو ) ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے قابل احترام ہے، دونوں مسلمان آپس میں بھائی بھائی بھی ہیں، اورایک دوسرے کے مددگار ومعاون بھی اورایک مشرک انسان جب مسلمان ہوجائے، تو اسلام کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ اسکے عمل کو اس وقت قبول فرمائے گا، وہ مشرکوں کی معاشرت سے جداہوجائے۔ مجھے کیا ضرورت تھی کہ میں  پکڑپکڑکر تمہیں جہنم کی آگ سے بچاﺅں، مگر سنو!بات یہ ہے کہ یہ پاک پروردگار مجھے بلائے گااورمجھ سے پوچھے گا کہ کیا تم نے میرا دین میرے بندوں تک پہنچادیا تومیں یہ عرض کرسکوں گا کہ اے میرے رب ذوالجلال ! ہاں میں نے تیرے دین کی دعوت تیرے بندوں تک پہنچادی ہے، غورسے سنو! تم میں سے جو لوگ یہاں حاضرہیں وہ ان لوگوں تک یہ دعوت پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ، غور سے سنو! تمہیں قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ تم مہربلب ہوگے اورسب سے پہلے انسان کی ران اورہتھیلی اسکے اعمال کی خبر دے گی ، معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہی ہمارا دین ہے آپ نے فرمایا ہاں یہی تمہارا دین ہے تم جہاں بھی رہ کر اس پر اچھی طرح عمل کروگے یہ دین تمہارے لیے کافی ہوجائے گا۔(الاستعیباب : ابن عبدالبد)

منگل، 14 فروری، 2023

Shortvideo - ہمیں بُرا عمل کیوں اچھا لگتا ہے؟

لایعنی باتوں سے بچو(۴)

 

لایعنی باتوں سے بچو(۴)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہواسے چاہیے کہ یا تو خیر کی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔(صحیح بخاری)

حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:مجھے مختصر بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔کیونکہ مختصر بات کرنا ہی بہتر ہے۔(ابوداﺅد)

حضر ت ابوذر غفاری رض اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوااور گزارش کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم مجھے وصیت فرمائیے ۔حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا:زیادہ وقت خاموش رہا کرویہ عادت شیطان کو دور کرتی ہے۔اورامور دین میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے ۔میں نے عرض کی مجھے کچھ اوربھی تلقین فرمائیے ، آپ نے فرمایا: زیادہ ہنسنے سے گریز کرتے رہنا کیونکہ یہ عادت دل کو مردہ کردیتی ہے اور چہرے کے نور کو ختم کردیتی ہے۔(بیہقی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان (بسااوقات) کوئی بات کہہ دیتا ہے اوراس کے کہنے میں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا لیکن اس بات کی پاداش میں ستر سال کی ساخت کے برابر جہنم میں جاگرتا ہے۔(ترمذی)

حضرت مغیرہ بن ثبعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین باتوں کو ناپسند فرمایا ہے۔(۱)ادھر اُدھر کی بے مقصد ہانکنا،(۲)مال کو بے جا ضائع کرنا (۳) اورسوالات کی کثرت کرنا۔(صحیح بخاری)(بعض لوگوں کے سوالات تحصیل علم کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اپنی علمیت کے اظہار یا مس ﺅل  کو زچ کرنے کے لیے ہوتے ہیں)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو، کیونکہ اس کی وجہ سے دل میں سختی اوربے حسی پیدا ہوتی ہے،اور(یاد رکھو )اللہ تبارک وتعالیٰ سے زیادہ دور وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔(ترمذی)

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:جس شخص کے دنیا میں دوچہرے ہوں (یعنی مختلف افراد سے مختلف باتیں کرتا ہو)تو وہ قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دوزبانیں ہوں گی۔(ابوداﺅد)

حضرت سفیان بن اسیر الحضرمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے جھوٹ بولو، حالانکہ وہ (تمہارا اعتبار کرتے ہوئے)تمہاری بات کو سچ سمجھتا ہو۔(ابوداﺅد)

پیر، 13 فروری، 2023

Shortvideo - کامیابی کا واحد راستہ

لایعنی باتوں سے بچو(۳)

 

لایعنی باتوں سے بچو(۳)

حضرت عمران بن حطان علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں کہ میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب صحابی حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ وہ مسجد کے ایک گوشے میں کالی چادر لپیٹے ہوئے اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں ۔میں نے عرض کی :حضرت یہ تنہائی اوریکسوئی کیسی ہے؟انھوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا ہے کہ :’’برے ساتھی کے ساتھ بیٹھنے سے اکیلارہنا بہترہے‘‘۔اورنیک دوست کے ساتھ مجلس کرنا تنہائی سے بہترہے اورکسی کو اچھی باتیں بتانا خاموشی اختیار کرنا زیادہ اچھا ہے۔(بیہقی)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جوخاموش رہا وہ نجات پاگیا۔(ترمذی)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خادم اسلم علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم کی نظر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر پڑی توآپ نے دیکھا کہ وہ اپنی زبان کو کھینچ رہے ہیں۔حضرت عمر نے پوچھا:اے خلیفہ رسول!آپ یہ کیا کررہے ہیں؟ انھوں نے ارشادفرمایا:یہی وہ زبان ہے جو مجھے ہلاکت کے مقامات پر لے آتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتھا کہ(انسان کے)جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو زبان کی تیزی اوربدگوئی کی شکایت نہ کرتا ہو۔ (بیہقی)

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے اس بندے پر رحمت فرمائیں جو اچھی بات کرے اوردنیا وعقبی میں اس کا فائدہ اٹھائے، یا پھر خاموش رہے اورزبان کی لغزشوں سے محفوظ ومامون رہے۔(بیہقی)

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:انسان کی خوش بختی اوربدبختی اس کے دونوںجبڑوں کے درمیان ہے۔یعنی زبان کو حسنِ استعمال نیک بختی کا ذریعہ اورغلط استعمال بدبختی کا سبب ہے۔(بیہقی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:انسا ن (بسااوقات) اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی کوئی ایسی بات کردیتا ہے جس کو وہ اہم بھی نہیں سمجھتا لیکن اس کی وجہ سے اللہ کریم اس کے درجات بلند فرمادیتا ہے۔اورکبھی ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کی وہ پرواہ بھی نہیں کرتا لیکن اسی بات کی وجہ سے وہ جہنم میں جاگرتا ہے۔(صحیح بخاری)


اتوار، 12 فروری، 2023

Shortvideo - کیاہم بھٹکی ہوئی قوم ہیں؟

لایعنی باتوں سے بچو(۲)

 

لایعنی باتوں سے بچو(۲)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن اعضاءکی برائیوں سے بچالیا وہ دونوں جبڑوں اورٹانگوں کے درمیان ہیں یعنی زبان اورشرمگاہ تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔(ترمذی)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اورعرض کی کہ مجھے وصیت فرمائیے آپ نے چند وصیتیں فرمائیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی زبان کو خیر کی بات کے سواءہر قسم کی بات سے محفوظ رکھو ، اس کی (برکت ) تم شیطان پر قابو پالو گے۔(ابویعلی ، مجمع الزوائد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیاگیا کہ کس عمل کی وجہ سے لوگ جنت میں زیادہ داخل ہوں گے۔آپ نے ارشادفرمایا:تقویٰ اورعمدہ اخلاق کی بدولت ،آپ سے پوچھا گیا کہ کس عمل کی وجہ سے لوگ جہنم میں زیادہ جائیں گے،آپ نے ارشادفرمایا: منہ اور شرمگاہ کے غلط استعمال کی وجہ سے ۔(ترمذی)

حضرت اسود بن اَصرم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں میں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گزارش کی کہ یارسول اللہ علیک وسلم مجھے وصیت فرمادیجئے ، آپ نے ارشادفرمایا:اپنے ہاتھ کو سنبھال کررکھو(یعنی کسی کو تکلیف نہ پہنچاﺅ) میں نے عرض کیا، اگر میرا ہاتھ میرے قابو میں نہ رہے توپھر اورکیاچیز قابو میں رہ سکتی ہے۔آپ نے فرمایا :اپنی زبان قابو میں رکھو، میں نے عرض کیا : اگر میری زبان ہی میرے قابو میں نہ رہے تو پھر اورکیا چیز میرے قابو میں رہ سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا:تم اپنے ہاتھ کو اچھے کام کے لئے ہی بڑھاﺅ اوراپنی زبان سے اچھی بات ہی کہو۔

(طبرانی، مجمع الزوائد)

حضرت راءبن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بادیہ نشین صحابی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اورعرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم مجھے کوئی ایسا عمل تعلیم فرمادیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چند اعمال ارشاد فرمائے جس میں غلام کو آزاد کرنا،قرض دار کو قرض کے بوجھ سے نجات دلانا اورجانور کے دودھ سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا کے علاوہ چند اور مفید کام بھی تلقین فرمائے پھر ارشادفرمایا:اگر یہ سب کچھ نہ ہوسکے تو یہ ضرور کروکہ اپنی زبان کو اچھی بات کے علاوہ گفتگو سے روکے رکھو۔(بیہقی)

ہفتہ، 11 فروری، 2023

Shortvideo - کیا ہم نے قرآن پاک کی ہدایت سے منہ موڑ لیا ہے؟

لایعنی باتوں سے بچو(۱)

 

لایعنی باتوں سے بچو(۱)

آپ میرے بندوں سے فرمادیجئے کہ وہ ایسی بات کیا کریں جو بہتر ہو(اس میں کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو) کیونکہ شیطان دل آزار بات کی وجہ سے آپس میں تنازعہ کروادیتا ہے۔واقعی شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔(بنی اسرائیل : ۵۳)

اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی یہ صفت ارشادفرمائی ہے ”وہ لوگ بے کار لایعنی باتوں سے اعراض کرتے ہیں“ (مومنون:۳) اوروہ بے ہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے،اگر اتفاق سے کسی بے ہودہ مجلس کے پاس سے گزریں تو سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ گزرتے ہیں۔(الفرقان:۷۲)اورجب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیں تواس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔(القصص:۵۵)

انسان جو کوئی لفظ بھی زبان سے نکالتا ہے تواس کے پاس ایک فرشتہ انتظار میں بیٹھا ہے (جو اسے فوراًتحریر کرلیتا ہے۔ (ق:۱۸)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :”کسی شخص کے اسلام کی خوبی اورکمال یہ ہے کہ وہ فضول کاموں اورباتوں کو چھوڑدے۔(ترمذی)

حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوںںے رسول اللہ ﷺسے گزارش کی کہ وہ مجھے ایسی کوئی بات بتادیں جسے میں مضبوطی سے تھامے رہوںآپ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا اسکواپنے قابو میں رکھو۔(طبرانی اورمجمع الزوائد) حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے سب خاموش رہے کسی نے جواب نہ دیاتو آپ نے ارشاد فرمایا:سب سے زیادہ پسندیدہ عمل زبان کی حفاظت کرنا ہے۔ (بیہقی)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں عرض کی یارسول اللہ !نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے۔آپ نے ارشادفرمایا:اپنی زبان کو قابو میں رکھو،اپنے گھر میں رہو،(بلا ضرورت باہر نہ گھومو پھر و)اوراپنے گناہوں پر آنسو بہایا کرو۔(ترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :بندہ جب تک اپنی زبان کی حفاظت نہ کرے وہ ایمان کی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاءزبان سے کہتے ہیں کہ تو ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خوف کرکیونکہ ہمارا معاملہ تجھ سے ہی وابستہ ہے اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بے ٹیڑھے ہوجائیں گے۔(ترمذی)

جمعہ، 10 فروری، 2023

حکمتِ صالحین

 

حکمتِ صالحین

حضرت ابوبکر ورّاق رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ”انسان تین طرح کے ہوتے ہیں، علماء، امراء،فقراءجب علماءخراب ہوجاتے ہیں توخلق کے طاعت اور احکام تباہ ہوجاتے ہیں ،جب امراءخراب ہوجاتے ہیں تو لوگوں کی معیشت تباہ وبرباد ہوجاتی ہے اورجب فقراءخراب ہوجاتے ہیں تو لوگوں کے اخلاق بگڑجاتے ہیں“۔”مخدوم سید علی بن عثمان الہجویری رحمة اللہ علیہ اس قول کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں “۔ امراءوسلاطین کی خرابی ظلم وستم ، علماءکی حرص وطمع اورفقراءکی خرابی جاہ ومنصب کی آرزو میں رونما ہوتی ہے۔جب تک حکمران (مخلص وبے لوث )اہل علم (کی مشاورت سے)منہ نہ موڑیں تباہ وخراب نہیں ہوتے ۔جب تک علماءحکمرانوں کی بے جا (صحبت اورچابلوسی) سے اجتناب کریں خراب وبرباد نہیں ہوتے اورجب تک فقراء(معلمین اخلاق) میں جاہ وحشم کی خواہش پیدا نہیں ہوتی تباہ وخراب نہیں ہوتے اس لئے کہ حکمرانوں میں ظلم بے عملی کی وجہ سے علماءمیں لالچ بددیانتی کی وجہ سے اورفقراءمیں جاہ وحشم کی خواہش بے توکلی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا بے علم حکمران ،بددیانت علماءاوربے توکل فقیر بہت برے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں میں خرابیوں کا ظہوراور برائیوں کا صدور ان ہی تین گروہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ حضرت ابوسعید عیسی خرازی رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں، ”جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے دل کو اس خاصیت پر پیدا کیا ہے کہ جو اس پر احسان کرتا ہے انسان کا دل محبت کے ساتھ اسکی طرف مائل ہوتا ہے ، مجھے ایسے دل پر تعجب ہوتا ہے جو یہ دیکھنے کے باوجود کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سواءکوئی احسان کرنے والانہیں ہے، خلوص کےساتھ، اپنے رب کریم کی طرف مائل نہیں ہوتا۔
حضرت مخدوم علیہ الرحمة اس قول کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ وہی احسان کرتا ہے جو جانوں کا حقیقی مالک ہو۔احسان کی تعریف یہ ہے کہ حاجت مندکےساتھ بھلائی کی جائے اورجو خود دوسرے کا احسان مند ہے وہ بھلاکسی دوسرے پر کیا احسان کریگا؟چونکہ حقیقی ملکیت اورحقیقی بادشاہت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کو حاصل ہے اورصرف وہی ایک ذات ایسی ہے ،جو کسی دوسرے کے احسان سے بے نیاز ہے جب اللہ رب العزت کے دانا اوربینا بندے اپنے منعم اورمحسن پروردگار کے اس معنی کو دیکھتے اورسمجھتے ہیں تو ان کے صاف اورپاکیزہ دل اسکی محبت سے لبریز ہوجاتے ہیں اوروہ اللہ کے ہر غیر سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا گیا کہ سب سے اچھا عمل کون ساہے ؟آپ نے ارشادفرمایا ، غناءالقلب باللہ تعالیٰ ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ دل کو غنی بنالینا۔جو دل اللہ کے ساتھ غنی ہوتا ہے اسے دنیا کی نیستی پریشان اورہستی خوش نہیں کرتی ۔(کشف المحجوب )

Shortvideo - گناہ کا مطلب

جمعرات، 9 فروری، 2023

Shortvideo - انسان اپنی منزل کو کیسے آسانی سے حاصل کر سکتا ہے؟

مجاہد کا اجر

 

مجاہد کا اجر 

حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا: آج کی رات ہمارا پہرہ کون دے گا؟حضرت انس بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ ! یہ سعادت میں حاصل کروں گا۔آپ نے ارشادفرمایا:تو پھر سوار ہوجاﺅ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔آپ نے فرمایا : سامنے والی گھاٹی کی طرف رخ کرواوراس کی سب سے بلند چوٹی پر چلے جاﺅ، خوب چوکس ہوکر پہرہ دینا ایسا نہ ہو کہ تمہاری غفلت یا لاپرواہی کی وجہ سے ہمارا لشکر دشمن کے کسی فریب کا شکار ہوجائے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ تعمیل ارشادمیں وہاں چلے گئے ۔جب صبح ہوئی تو آقا علیہ السلام جائے نماز پر تشریف لائے اوردورکعتیں ادافرمائیں پھر آپ نے صحابہ سے استفسار فرمایا:تمہیں اپنے سوارکی کچھ خبر ہے ؟ انھوں نے عرض کی ہمارے پاس ابھی تو کوئی اطلاع نہیں ہے۔اتنے میں فجر کی اقامت شروع ہوگئی صحابہ دیکھ رہے تھے کہ حضور اس دوران بھی گھاٹی کی طرف متوجہ رہے۔نماز کی ادائیگی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشادفرمایا تمہیں مبارک ہوکہ تمہارا سوار آگیا ہے۔ہم لوگوں نے وادی کی طرف دیکھنا شروع کیا جلدہی درختوں کے درمیان سے انس بن مرثد آتے ہوئے دکھائی دیے ۔وہ قریب آئے اور گھوڑے سے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں سلام عرض کیا۔حضور نے ان سے ان کی ڈیوٹی کے احوال پوچھے ۔انھوںنے عرض کیا یارسول اللہ میں آپ کے حکم کے مطابق یہاں سے چلا اورچلتے چلتے وادی کی سب سے اونچی گھاٹی پر پہنچ گیا جہاں پر آپ نے مجھے مامور فرمایا تھا۔میں رات بھر وہاں پہرہ دیتا رہا، جب صبح ہوئی تومیں نے اطراف واکناف کی گھاٹیوں پر بھی چڑھ کر اچھی طرح معائنہ کیا۔مجھے کسی طرف سے بھی کسی دشمن کا کوئی سراغ نہیں ملا۔پوری طرح مطمئن ہوکر آپ کے پاس واپس آگیا ہوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے استفسار فرمایا کیا تم رات کو کسی وقت اپنی سواری سے اترے اورمحواستراحت ہوئے انھوں نے عرض کی یارسول اللہ !نہیں،صرف نماز کی ادائیگی اورطہارت کی غرض سے اتراتھا اوراس کے فوراً بعد سوار ہوکر اپنی ڈیوٹی شروع کردی تھی۔
آپ نے ارشادفرمایا:تم نے آج کی رات اللہ رب العزت کے راستے میں پہرہ دے کر اپنے لیے جنت واجب کرلی ہے لہٰذا اس عمل کے بعد اگر تم کبھی کوئی بھی( نفل)عمل نہ کرو تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔(ابوداﺅد)

بدھ، 8 فروری، 2023

عفووحلم کے پیکر(۵)

 

عفووحلم کے پیکر(۵)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے اونٹ خرید ے اوریہ طے فرمایا کہ اسکے عوض دخیرہ کے مقام پر پیدا ہونے والی عمدہ کھجوریں دی جائیں گی۔ آپ واپس تشریف لائے لیکن اتفاق یہ ہوا کہ اس وقت فوری طور پر دخیرہ کی کھجوریں میسر نہ آسکیں۔آپ اس اعرابی کے پاس واپس تشریف لے گئے اوراسے فرمایا:اے اللہ کے بندے ہم نے تیرے اونٹوں کے عوض دخیرہ کی کھجوریں طے کی تھیں لیکن ہمیں وہ کھجوریں مل نہیں سکیں۔اس اعرابی نے شور مچادیا وَاَغَد±رَاہ وَاَغَد±رَاہ ، ہائے یہ تو دھوکہ بازی ہے ،یہ تو دھوکہ بازی ہے۔صحابہ کرام نے اسے جھڑکا ،لیکن آپ نے صحابہ کرام کو منع فرمایااورکہا کہ اسے کچھ نہ کہو، حقدار کو بات کرنے کی پوری اجازت ہے ۔آپ نے یہ بات تین بار دہرائی ۔ پھر جب آپ نے دیکھا کہ وہ اعرابی اس عذر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کررہاتو آپ نے اپنے ایک صحابی کو حکم دیا کہ وہ خولہ بنت حکیم بن امیہ کے پاس جائے اورانھیں کہے کہ اگردخیرہ کی کھجوروں کا وسق (ایک پیمانہ)ہو تو ہمیں مستعار دے دو۔جس وقت ہمارے پاس اس قسم کی کھجوریں آئیں گی ہم تمہیں اداکردیں گے۔
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کو پیغام ملا توانہوں نے عرض کی کہ اس قسم کی کھجوریں میرے پاس ہیں۔آپ اس شخص کو میرے پاس بھیج دیں میں اس کے حوالے کردوں گی۔آپ نے اس صحابی کو فرمایا:اس شخص کو اپنے ساتھ لے جاﺅ اوراس کا جتنا بھی حق بنتا ہے اسے ادا کردو۔ چنانچہ انھوںنے حضرت خولہ سے کھجوریں لے کر اس شخص کے سپرد کردیں۔کھجوریں لینے کے بعد وہ شخص واپس لوٹا ۔اس نے دیکھا کہ آنجناب اپنے صحابہ کرام کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اس نے بے ساختہ بلند آوازسے کہا:”اللہ تعالیٰ آپ کو جرائے خیر عطاءفرمائے بے شک آپ نے میرا حق پورا پورا اداکردیا ہے اوربڑی ہی عمدگی کے ساتھ اداکردیا ہے“۔(سبل الھدی)ابوسفیان نے بڑی شدومد سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ۔ہمیشہ اسلام دشمنی میں پیش پیش رہا ،ہجرت مدینہ کے بعد بھی اس نے پوری کوشش کی کہ مسلمانوں کے قدم جم نہ سکیں ،لیکن وہ خائب وخاسر ہوا۔فتح مکہ کے بعد اسے گرفتار کرکے آپ کی بارگاہ میں پیش کیاگیاتو آپ اسے کڑی سزا دینے کی بجائے بڑی شفقت سے پوچھا:”اے ابوسفیان تیرا بھلاہو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تو اللہ کومان لے“اس نے انتہائی شرمسار ہوکر کہا”میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے حلم والے ہیں آپ کتنے صلہ رحمی کرنے والے ہیں آپ کتنے کریم ہیں کہ مجھ جیسے مجرم کو بھی اپنی شان رحمت سے نواز رہے ہیں۔(السیرة النبویہ،زینی دحلان)

منگل، 7 فروری، 2023

عفووحلم کے پیکر(۴)

 

عفووحلم کے پیکر(۴)

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ، زید بن سعنہ یہود کا ایک جید عالم تھا، اس نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی جتنی علامات ہماری کتابوں میں بیان کی گئی ہیں میں نے ان سب کا آپ کی ذاتِ والا تبار میں مشاہدہ کرلیا۔مگر دو علامات ایسی تھیں جس کے بارے میں آزمائش کرنا چاہتا تھا،(۱)ان کا حلم جہل سے سبقت لے جاتا ہے (۲)اُنکے سامنے جہالت اورحماقت کا جتنا اظہار کیا جائے اُن کے حلم میں اتنا ہی اضافہ ہوجاتا ہے۔

میں نے ایک حیلہ اختیار کیا ، آپ سے ایک خاص نوعیت کی کھجوروں کا سودا کیا ،قیمت نقد اداکردی اورکھجوروں کی وصولی کے لیے ایک تاریخ مقرر کردی، ابھی اس میعاد کو دودن باقی تھے کہ میں آپ کے پاس پہنچا اوراپنی کھجوروں کا مطالبہ شروع کردیا، میں نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی قمیض اورچادر کو زور سے پکڑلیا اوربڑا غضب ناک چہرہ بناکر آپ کی طرف دیکھنا شروع کیا،میں نے کہا:اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)!کیا تم میرا حق ادانہیں کرو گے، اے عبدالمطلب کی اولاد بخدا تم بہت ٹال مٹول کرنے والے ہو،مجھے تمہاری اس عادت کا پہلے بھی تجربہ ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میری یہ حرکت دیکھی تو بڑے برافروختہ ہوکر کہنے لگے : ”اے اللہ کے دشمن !تم اللہ تعالیٰ کے رسول کے بارے میں میری موجودگی میں یہ یاوہ گوئی کررہے ہو،تمہیں شرم نہیں آتی “۔حضور علیہ الصلوٰة والسلام اس گفتگو کو بڑے سکو ن وتحمل سے سنتے رہے اورمسکراتے رہے پھر آپ نے حضرت عمر سے فرمایا : اے عمر !جو بات تم نے اسے کہی ہے ،مجھے تو اس سے بہتر بات کی توقع تھی تمہیں چاہیے تھا کہ مجھے کہتے کہ میں حسن خوبی سے اسکی کھجوریں اسکے حوالے کردوں اوراسے کہتے کہ وہ اپنے حق کا مطالبہ ذرا شائستگی سے کرے، عمر جاﺅاور اس کا حق اسکے حوالے کردواورجتنا اس کا حق ہے اس سے بیس صا ع (ایک پیمانہ) کھجوریں زیادہ اداکروکیونکہ تم نے اسے خوفزدہ کیا ہے تاکہ اس کا بدلہ بھی ہوجائیگااوراسکی دلجوئی بھی ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اورحکم کی تعمیل کرتے ہوئے میری کھجوریں بھی میرے حوالے کردیں اوربیس صاع مجھے زیادہ بھی دے دیے، میں نے حضرت عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:اے عمر! حضور اکرم ﷺکی حقانیت کی جتنی علامتیں ہماری کتابوں میں موجود تھیں میں نے ان سب کا مشاہدہ آپ کی ذات میں کرلیا تھا،مگر دونشانیاں ایسی تھیں جنھیں میں ابھی آزما ءنہیں پایا تھااب میں نے انھیں بھی دیکھ لیا ہے، اے عمر !آج میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس بات پر راضی ہوگیا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ میرا رب ہو ، اسلام میرا دین ہواور محمد مصطفی ﷺمیرے نبی ہوں۔(ابونعیم، بیہقی،مجمع الزوائد)