منگل، 31 اگست، 2021

Shortclip - مومن پر اللہ تعالیٰ کا اکرام

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1822 ( Surah Al-Waqia Ayat 12 - 26 ) درس قرآ...

کامیابی کا راز

وصیت کا صحیح اسلوب

 

وصیت کا صحیح اسلوب 

حضرت سعد ابن ابی وقاص ؓسے روایت ہے : میں (فتح مکہ کے ایام میں) مکہ مکرمہ میں سخت بیمار ہوگیا۔ حضور اکرم ﷺمیری عیادت کو تشریف لائے۔ (مجھے یہ تشویش تھی کہ کہیں ان ایام میں میری موت نہ واقع ہوجائے کیونکہ) میں اس سر زمین میں مرنے کو پسند نہیں کر رہاتھا ۔جہاں سے میں (اللہ اور اسکے رسول کی خاطر) ہجرت کر چکا تھا۔ جناب رسالت مآبﷺ نے (دعا کے طور پر مجھے تسلی دیتے ہوئے ) فرمایا:’’اللہ عفراء (والدہ حضرت سعد) کے بیٹے سعد پر رحمت فرمائے ‘‘۔ میں نے آپکی خدمت عالیہ میں گزارش کی میں اپنا سارا مال ودولت اللہ کے راستے میں خیرات کرنے کی وصیت کردوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا ۔ نہیں! ایسا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا ،تو کیا آدھی دولت کے بارے میں وصیت کردوں۔ آپ نے ارشادفرمایا نہیں اس طرح بھی نہیں۔ میں نے عرض کیا تو پھر تہائی کیلئے وصیت کردوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا ،ہاں ! تہائی کی وصیت کردواور یہ تہائی بھی بہت ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا ۔تمہارے لیے یہ امرکہ تم اپنے وارثوں کو خوشحال چھوڑ کے جائو،اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو مفلس ونادار چھوڑ کر جائو اور وہ اپنی ضروریات کیلئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں (یادرکھو)تم (اللہ کی رضا کیلئے ثواب کی نیت سے ) جو کچھ بھی خرچ کروگے(اگر چہ وہ اپنے عزیزواقارب اور وارثوں پر ہو) وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہوگا۔ حتیٰ کہ جو لقمہ تم اپنے ہاتھ سے اٹھاکر اپنی اہلیہ کے منہ میں ڈالوگے (وہ بھی کار خیر شمار ہوگا)۔آخر میں آپ نے ارشاد فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ (کے فضل وکرم ) سے امید ہے کہ وہ (تمہیں اس مرض سے شفاء دے گا) اور آنے والے دنوں میں تمہیں بلند مرتبہ پر پہنچائے گا۔ پھر تم سے بہت سے بندگانِ خدا کو نفع پہنچے گا، اور بہت سے لوگوں کو نقصان ۔اس حدیث کو حضرت سعد سے روایت کرنیوالے انکے صاجزادے عامر بن سعد کہتے ہیں جس زمانے کا یہ واقعہ ہے۔ اس زمانے میں حضرت سعید کی صرف ایک بیٹی تھی (اس کے علاوہ کوئی اور اولاد ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی)۔(بخاری ،مسلم)
حضرت سعد ابن ابی وقاص جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ایک ہیں ۔ ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہے ۔ اسلام سے ان کی وابستگی کا کیا عالم ہے ۔ وہ اس حدیث سے ظاہر ہے ۔ انکے ذریعے مسلمانوں کو یہ درس ملا کہ مالی اور خانگی معاملات میں حکمت وتدبر کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ انسان دوسروں کا بھلا تو سوچے لیکن اپنے محروم رہیں۔ حضور اکرم ﷺکی بشار ت پوری ہوئی ۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص نہ صرف صحت یاب ہوئے، بلکہ اسکے بعد تقریباً ۵۰ سال حیات رہے ۔ وہ ایران کے فاتح ہیں اور ان کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کو قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی ۔ 

Darsulquran Para-05 - کیا ہم شرکیہ کاموں میں مصروف ہیں

Shortclip - مومنانہ صفات کیا ہوتی ہیں؟

پیر، 30 اگست، 2021

کیا ہمیں بے مقصد پیدا کیا گیا ہے؟

دین خیر خواہی ہے

 

دین خیر خواہی ہے 

قرآن مقدس اور احادیث مبارکہ کے مطالعے کی روشنی میں اعمال کی مقبولیت کی کچھ علامات واضح ہوتی ہیں۔(۱)اعمال باقاعدہ نیّت کرکے انجام دیے گئے ہوں ۔انکے پیچھے کرنے والے کاشعور ، نیّت اور ارادہ موجود ہو محض اتفاق سے یا بے سوچے سمجھے سرزدنہ ہوگئے ہوں ۔(۲)اعمال کی انجام دہی کرتے ہوئے کوئی ذاتی غرض ، نفسانی خواہش شامل حال نہ ہو بلکہ تمام اعمال اللہ رب العزت کی رضا ء کیلئے انجام دیے گئے ہوں اور انکے پیچھے اللہ کے حکم کی اطاعت کا جذبہء صادقہ کارفرما ہو ۔ بندہ یہ شعور رکھتا ہو کہ یہ اللہ کا حکم ہے اوراس کا بندہ ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں اس کو تسلیم کروں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کروں تاکہ وہ مجھ سے راضی ہوجائے،اور میرا شمار اس کے فرماں بردار بندوں میں ہونے لگے (۳) ان اعمال میں ریاکاری اور دکھاوے کا عمل دخل نہ ہو ۔ جو عمل مخلوق میں اپنے آپ کو پاک باز ،عابد ،زاہد یاسخی کی حیثیت سے مشہور ہونے کیلئے کیاجائے وہ نیکی کے زمرے سے خارج ہوجاتاہے ۔ بلکہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ عمل دنیاو آخرت میں خسارے کا باعث نہ بن جائے ۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات میں بندوں کو اپنے دل میں خلوص اور خیر خواہی پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اگر دل میں خلوص پیدا ہوجائے تو نیّت بھی درست ہوجاتی ہے ،عمل بھی اللہ کیلئے خالص ہوجاتاہے اور ریاکاری کا امکان بھی ختم ہوجاتاہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت فرماتے ہیں حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : الدین النصیحۃ  دین تو بس خیر خواہی کانام ہے۔ حدیث پاک کے مبارک الفاظ میں الدین اور النصیحۃ، دونوں کو معرفہ ( اسم خاص) ذکر کیاگیاہے ۔ مبتداء اور خبر دونوں معرفہ ہوں تو عربی اسلوب کلام کے مطابق اس میں ’’ حصرـــ‘ ‘کا معنی پایا جاتا ہے ۔ یعنی اچھی طرح سمجھ لو کہ دین توصرف خلوص اور نصیحت کانام ہے۔ اگر کسی کے دل میں اخلاص نہیں ہے ، دوسروں کیلئے خلوص و محبت نہیں ہے ۔ وہ اوروں کا بھلا نہیں چاہتا ، اسے مخلوق کی خیر خواہی سے کوئی سروکار نہیں ہے تو وہ لاکھ خود کو دین دار سمجھے اور خود کو بڑا پرہیز گار گردانے وہ دین کی روح سے ناآشناہے۔النصیحۃ (نصح ، ینصح ، نصوحاً ) کا لغوی معنی ہے سوزن (سوئی) کے ساتھ سیناپھٹی ہوئی چیز کو جوڑنااورملانا ۔ نصیحت کرنے والا اپنی حکمت اور سوزنِ تدبیر سے چاک دامن کو رفو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ذہنی انتشار کے خاتمے کی تدبیر کرتا ہے۔اس لیے اسے ناصح کہتے ہیں ۔ نصیحت اور خیرخواہی ہر مسلمان کا فرض منصبی ہے ۔ 

شرابِ روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی

سکھایا اس نے مجکو مست بے جام وسبورہنا

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے 

کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے 

(اقبال) 


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1821 ( Surah Al-Waqia Ayat 10 - 11 ) درس قرآ...

اتوار، 29 اگست، 2021

Darsulquran Para-05 - عبادت کا مطلب کیا ہے

Shortclip - مومن کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟

جسم اور روح کی حقیقت

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1820 ( Surah Al-Waqia Ayat 01 - 09 Part-4 ) ...

ہر ایک کے لیے خلوص

 

ہر ایک کے لیے خلوص

امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ حدیث الباب کے طور پر حضور اکرم ﷺکا ارشاد گرامی نقل فرماتے ہیں ۔ ’’ دین اللہ تعالیٰ ، اسکے رسول ، سر بر اہا نِ امت اور عوام الناس کیلئے دل میں خلوص رکھنے کا نام ہے۔ ‘‘ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی دینِ اسلام کے خوبصورت اور حسین مزاج کا عکاس ہے۔ اور وہ مزاج ہے ،خلوص اور خیر خواہی۔ مومن کا وجود سراپا خیر ہونا چاہیے ۔ اسکی ذات کو ہمیشہ دوسروں کیلئے نفع بخش اور فیض رساں ہونا چاہیے ۔ اسلام دینِ محبت ہے ۔ جو خلوص کو حاصل دین قرار دیتا ہے اور خالق سے مخلوق تک ، حکمران سے رعایا تک سب سے خیر خواہی کی تلقین کرتا ہے ۔ 
٭اللہ کیلئے خلوص: اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے اخلاص یہ ہے کہ انسان پوری آمادگی اور جذبہء تسلیم ورضا ء کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے ۔ اس کا ایمان نفاق سے بھی مبرّا ہونا چاہیے اور دنیاوی حرص و لالچ سے بھی ۔عظمت توحید اسکے دل میں راسخ ہو وہ اللہ کی بندگی اللہ کیلئے کر ے نہ کہ ریاکاری اور شہرت کیلئے اللہ کی عبادت اور اطاعت کو اپنا شعار بنائے ، اسکے احکام کو حق سمجھے ۔ معصیت سے کنارہ کش رہے ۔اسکے دوستوں سے محبت کرے اور اسکے دشمنوں سے دور رہے ۔ہمیشہ اللہ رب العز ت کی رضا کا جویاں رہے اور اس کے قرب کے ذرائع تلاش کرتا رہے۔ 

رسول کریم ﷺکیلئے خلوص: رسول اکر م ﷺ کیلئے اخلاص یہ ہے کہ آپکی رسالت پر دل سے ایمان لائے۔ آپکی محبت سے سرشار ہو اور آپکی اطاعت پر کار بند ہو۔ آپکی سنتِ مطہرہ کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائے اور آپکے لائے ہوئے دین پر کا ربند رہے ۔ آپکی پاکیزہ اور بے داغ زندگی کو ہدایت کا سر چشمہ سمجھے اور پورے یقین وآگہی سے آپکے احکام کی بجاآوری کی کوشش کرے۔

 سربراہانِ مِلّت کے ساتھ خلوص: مسلمان حکمران اگر وہ شریعت مطہرہ پر عمل کریں تو ان کا دست وبازو بنا جائے۔ ان کے احکام کی پیروی کی جائے ۔ بغاوت اور سرکشی سے اجتناب کیا جائے۔ مسلمانوں کی اجتماعیت کی حفاظت کی جائے اور مسلم معاشرے کو انتشار و افتراق اور ٹکڑ ے ٹکڑے ہونے سے بچایا جائے ۔ حکمرانوں کو اچھے مشورے دیے جائیں ۔ 

عوام کیلئے خلوص: مسلمان ایک دوسرے سے محبت کریں ۔ صلہ رحمی کو فروغ دیں ۔ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دیں ۔ مسلمان نہ تو ایک دوسرے پر ظلم کریں اور نہ دوسرے مسلمان پر ظلم وجور کے آلہ کا ر بنیں ۔ رشوت، سفارش اقربا پروری کے ذریعے حق دار کو اسکے حق سے محروم نہ کریں ۔ معاشرے کے تونگر اور صاحب اختیار لوگ ایسی حکمت اور تدابیر اختیار کریں کہ معاشرے میں عدل وانصاف اور آسودگی کی فضاء پیدا ہو۔


جمعہ، 27 اگست، 2021

انسان زندگی کے مقصد میں کامیاب کیسے ہوسکتا ہے؟

خیر خواہی کی عملی مثال

 

خیر خواہی کی عملی مثال

۵۰
؁ہجری میں حضرت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کے گورنر تھے۔ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ ایک امیر کی عدم موجودگی کی وجہ سے شہر میں انتشار اور بدامنی پیدا ہوجائے گی ۔ایسے میں صحابی رسول حضرت جریر بن عبداللہ آگے بڑھے ، منبر پر کھڑے ہوکر اللہ کی حمد وثنا کی اور لوگوں سے یوںمخاطب ہوئے۔’’ اے لوگو ! اللہ وحدہٗ لاشریک سے ڈرو ، باوقار اور پُر سکون رہو۔ یہاں تک کہ نیا امیر آجائے ،سو وہ آنے ہی والا ہے۔ پھر فرمایا : اپنے اس (مرحوم ) امیر کیلئے عفوودرگذر اور مغفرت کی دعا کرو کیونکہ وہ خود بھی عفوودرگذر کو بہت پسند کرتے تھے ۔ پھرآپ نے اپنے ایمان لانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : اما بعد! میں رسول اللہ ﷺکی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں، آپ نے اسکے ساتھ ہر مسلمان کے ساتھ خلوص برتنے کی (اور خیر خواہی سے پیش آنے کی) شرط بھی لگا دی ۔چنانچہ میں نے یہ شر ط قبول کی اور بیعت کرلی۔ اس مسجد کے رب کی قسم میں تمھارے لئے قطعی ناصح، مخلص اور خیر خواہ ہوں۔پھر انھوں نے دعائے مغفرت کی اور منبر سے نیچے اُتر آئے۔‘‘ (بخاری) مقصود یہ تھا کہ میری یہ نصیحت کسی لالچ یا حرص پر مبنی نہیں نہ ہی میں اہل اقتدار سے کسی صلہ وستائش کا تمنائی ہوں بلکہ محض یہ چاہتا ہوں کہ مسلم معاشرے میں انتشار ، افتراق اور بدامنی نہ ہو،کیونکہ میں نے جناب رسالت مآب سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ہر مسلمان کی خیر خواہی چاہوں گا۔حضرت جریر بن عبداللہ ؓبڑی حسین وجمیل اور دل آویز شخصیت کے مالک تھے۔ جو بھی انکے حسن وجمال کو دیکھتا انگشت بدنداں رہ جاتا۔ لوگ آپ کو ’’یوسف امت‘‘کہا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے آپ سے بیعت اسلام لی تواس میں نماز ،زکوۃ کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی عائد کی کہ حضرت جریر ہر مسلمان کے ساتھ خلوص اور خیر خواہی برتیں گے۔(بخاری)شاید اس میں انکے جمال ظاہری کی وجہ سے ان کی روحانی اور نفسیاتی تربیت کا پہلو تھا۔ بہر حال آپ نے ساری زندگی اس عہد کو نبھایا ۔اپنا نقصان کر لیتے ،لیکن کسی مسلمان کے مفاد پر کوئی آنچ نہ آنے دیتے۔ایک مرتبہ آپ کا غلام ایک نہایت خوبصورت اور قیمتی اصیل عربی گھوڑا تین سودرہم میں خرید لایا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اسکے مالک نے کسی مجبوری کی بنا پر اسے اونے پونے داموں فروخت کردیاہے۔ آپ نے گھوڑے کا قد کاٹھ اور خوبصورتی کو دیکھا تو خوش ہونے کی بجائے پر یشان ہوگئے ۔ گھوڑے کے مالک کا پتہ پوچھا ، اس کے گھر تشریف لے گئے اور اسے پانچ سودرہم مزید عطا کیے اور فرمایا : تیرا گھوڑا کسی طرح آٹھ سو درہم سے کم قیمت کانہیں ہے اس لیے میں تیری مجبوری سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتا۔ کیونکہ یہ جذبہ خیرخواہی کے منافی ہے۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1818 ( Surah Al-Waqia Ayat 01 - 03 Part-2 ) ...

جمعرات، 26 اگست، 2021

Darsulquran Surah An-Nisa - کیا ہم اپنا تزکیہ نفس کروا چکے ہیں

Shortclip - ہم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی آرزو کیسے پیدا کریں؟

ہم دین میں اخلاص کیسے یپدا کریں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1817 ( Surah Al-Waqia Ayat 01 - 03 Part-1 ) ...

ناموسِ رسول اور صحابہ

 

ناموسِ رسول اور صحابہ

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم (اپنی کم عمر ی کا ایک واقعہ )روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا ،قریش نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر رکھا تھا ۔ کوئی آپکو پکڑ کر کھینچتا ،کوئی دھکا دینے کی جسارت کرتا اور سب کہتے جاتے تھے ۔ تم وہی ہوجس نے سب خدائوں کو ملا کر ایک کردیا ہے۔ یہ منظر اس قدر بھیانک تھا کہ (فوری طور پر ) کسی کو حضور کے پاس جا نے کی ہمت نہ ہوئی ۔ایسے میں ابو بکر آگے بڑھے ،انہوں نے قریشیوں میں سے کسی کو مارا، کسی کو دھکا دیا ، کسی کو پیچھے ہٹایا یہ سب کچھ کرتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ۔کیا تم اس شخص کو (محض اس پاداش میں ) قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔ یہ کہہ کر جناب علی مرتضیٰ نے اپنی چادر اٹھائی اورزار و قطار رونے لگے، یہاں تک کہ ان کی ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی ۔اس حالت میں آپ نے لوگوں سے استفسار فرمایا۔ بتائو ! آل فرعون کا مومن اچھا تھا یا ابو بکر صدیق ، لوگ (آپ کے احترام میں) خاموش رہے۔ آپ نے دریافت فرمایا ۔کیاتم مجھ کو جواب نہیں دو گے۔ اس کے بعد ارشاد ہواکہ بخدا ابو بکر کا ایک لمحہ آل فرعون کے مومن جیسے شخص کے ہزاروں لمحوں سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ وہ شخص اپنا ایمان پوشیدہ رکھتا تھا اور ابوبکر اپنے ایمان کا (برملا ) اظہار کرتے تھے۔ (مجمع الزوائد )
 ٭حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کی جناب رسول اللہ ﷺ سے محبت کی کیفیت کیاتھی، آپ نے ارشاد فرمایا ۔ اللہ کی قسم آپکی ذاتِ گرامی ہمارے نزدیک ،ہمارے اموال ، اولاد ، ماں باپ اور پیاسے کو جس قدر ٹھنڈا پانی مرغوبہوتا ہے اس سے بھی زیادہ محبو ب تر تھی۔ (الشفائ) ٭صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ کے والد گرامی حضرت عبداللہ بن عمر وبن حزام الانصاری کو غزوہ احد میں شہادت کا اعزاز نصیب ہوا۔ (ایک بار)جنابِ رسالت مآب ﷺنے حضرت جابر سے ارشاد فرمایا : میں تمہیں ایک خوشخبر ی نہ سنائوں ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیوں نہیں آپ مجھے ضرور خوش خبر ی سے سر فراز فرمایے ۔اللہ تعالیٰ آپکو ہمیشہ خوشخبر یوں سے فیض یاب فرماتا رہے۔ ارشادہوا: شہادت سے سرخروہونے کے بعد اللہ کریم نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور انہیں اپنے سامنے بٹھا کر ارشادفرمایا ،اے میرے بند ے جو چاہو طلب کرو ،میں تمہیں ہر چیز عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا :اے میر ے پاک پروردگار میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا ۔ میری تمنا ہے کہ تو مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ میں ایک مرتبہ پھر تیرے محبو ب کریم ﷺکے ساتھ جنگ کرتا ہوا جامِ شہادت نوش کروں۔ ارشاد الٰہی ہوا۔ میری طرف سے فیصلہ ہوچکا ہے کہ تو دنیا میں دوبارہ لوٹ کر نہیں جائے گا۔ (ترمذی)

Darsulquran Para05 - ہمیں اللہ تعالی کا فضل یقینی طور پر کیسے مل سکتا ہے

بدھ، 25 اگست، 2021

Ikhlas fiddeen Ka Matlab?

Shortclip - ہم قرآن سے تعلق کیسے بنائیں؟

ایمان اور اعمال صالحہ (۱)

 

ایمان اور اعمال صالحہ (۱)

ایمان اور اعمالِ صالحہ لازم وملزوم ہیں۔ اسی طرح جس طرح پھول اور خوشبو، آفتاب اور روشنی، ایمان بنیاد ہے اور اعمالِ صالحہ اس بنیاد پر کھڑی ہونے والی عمارت، صرف بنیاد رکھ دینا عمارت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح مضبوط ومستحکم بنیاد کے بغیر عمارت کی پائیداری اور استحکام بھی تصور میں نہیں آسکتا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں بھی اہل ایمان کا تعارف کروایا گیا ہے۔ وہ عمل صالح کا ذکر بھی ضرور نظر آتا ہے۔ الذین امنو اوعملوالصلحت (جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے) ۴۵ مقامات پر یکجا ذکر کیاگیا ہے۔ قرآن کریم کا منشاء ہے کہ مسلمان صرف اعتقاد کا نام نہ ہو بلکہ مومن اورمسلم کو ایک روشن کردار کا مالک اور پختہ سیرت وکردار کا حامل بھی ہونا چاہئے اس لئے کہ انسان کے ظاہر و باطن اور ا سکے ماحول اور معاشرے میں انقلاب کردار عمل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ ’’سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)‘‘ کے مصنف رقم طراز ہیں ۔’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو ہمارے ماد ی علل واسباب کے تابع فرمایا ہے، یہاں کی کامیابی اور فوز و فلاح بھی صرف ذہنی عقیدہ اور ایمان سے حاصل نہیں ہوسکتی، جب تک اس عقیدہ کے مطابق عمل بھی نہ کیا جائے، صرف اس یقین سے کہ روٹی ہماری بھوک کا قطعی علاج ہے۔ ہماری بھوک دفع نہیں ہوسکتی ، بلکہ اس کیلئے ہم کو جدوجہد کرکے روٹی حاصل کرنا اور اسکے چبا کر اپنے پیٹ میں نگلنا بھی پڑیگا۔ یہی صورت ہمارے دوسرے دنیاوی اعمال کی ہے۔ اس طرح اس دنیا میں عمل کے بغیر تنہا ایمان کامیابی کے حصول کیلئے بے کا رہے۔ البتہ اس قدر صحیح ہے کہ جو ان اصولوں کو صرف صحیح باور کرتا ہے، وہ اس سے بہرحال بہتر ہے۔ جو ان کو سرے سے نہیں مانتا کیوں کہ اول الذکر کے کبھی نہ کبھی راہ راست پر آجانے اور نیک عمل بن جانے کی امید ہو سکتی ہے۔ اور دوسرے کیلئے اوّل پہلی ہی منزل باقی ہے اس لئے آخرت میں بھی وہ منکر کے مقابلے میں شاید اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا زیادہ مستحق قرار پائے کہ کم ازکم وہ اس کے فرمان کو صحیح باور کرتا ہے۔‘‘ (سیرت النبی) عمل صالح کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اسکے اندرانسانی اعمال کے تمام جزئیات شامل ہیں تاہم ان کی جلی تقسیمات حسب ذیل ہیں، عبادات، اخلاق، معاملات۔ لفظ عبادت بڑی وسعت کا حامل ہے۔ اخلاق اور معاملات بھی حسن نیت سے انجام دئیے جائیں تو وہ بھی عبادت میں داخل ہیں۔ لیکن بالعموم اصطلاحاً ان اعمال کو جن کا تعلق خاص خداسے ہے، عبادت کہتے ہیں۔ اور وہ جن کا تعلق بندوں سے ہے۔ انہیں اخلاق و معاملات ’’اخلاق‘‘ وہ اعمال جو صرف انسانی فرض کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ’’معاملات ‘‘ وہ جن میں قانونی ذمہ داری کی حیثیت بھی ملحوظ ہوتی ہے۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1816 ( Surah Ar-Rahman Ayat 62 - 78 ) درس قرآ...

منگل، 24 اگست، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1814 ( Surah Ar-Rahman Ayat 48 - 61 ) درس قرآ...

Darsulquran Para05 - ہم کیا واقعی اللہ تعالی کو معبود واحد نہیں سمجھتے

Shortclip ہمیں دین اسلام کی کیا ضرورت ہے؟

Kya Hum Fazool Paida Keay Geay Hain?

انبیائے کرام کی دعوت توحید

 

انبیائے کرام کی دعوت توحید

کائنات کی ابتداء کب ہوئی، اس کا پیدا کرنے والا کون ہے؟اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اس کا انتظام وانصرام کس طرح ترتیب پانا ہے۔ اسے کب تک برقرار رہنا ہے؟ موت و حیات کس کے اختیار میں ہے؟ انسان کیا ہے؟ اس عظیم تر اور وسیع تر کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ ایسے بے شمار سوالات انسان کو اپنی گرفت میں لئے رہتے ہیں۔کچھ انسانوں نے مادیت کا سہارا لیکر ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کچھ لوگوںنے اپنی خود ساختہ و ریاضات سے نروان کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی،جبکہ کائنات کے خالق اور مالک نے ان سوالوں کا جواب دینے کیلئے اپنی رحمت سے انبیاء ورسل کا سلسلہ جاری کیا۔ ’’انبیاء کرام علہیم السلام نے انسان کو یقین دلایا یہ ساری کائنات اللہ نے پیدا فرمائی ہے کہ وہی خالق ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے کائنات کو کب پیدا فرمایا کہ سلسلہء تخلیق کی ابتداء انسانی مہم کے احاطے میں نہیں آتی، مخلوق کی تخلیق اسکی خالقیت کا اظہار ہے اور جو کچھ موجود ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے۔ اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ نظم کائنات اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب تک چاہے گا اسے برقرار رکھے گا۔ ٭مناظر فطرت جیسے چمکتا سورج، دمکتا چاند، ٹمٹماتے تارے، پھوٹتے چشمے کھلتے ہوئے پھول، گردش لیل و نہار روشنیوں کی چکا چوند اور اندھیروں کا محیط سا یہ سب اسکی خالق کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ انسان خود اسی کی تخلیق ہے۔ یہ شہکار وجود ہے، اسکو پروردگار نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔آنکھ،کان، ناک، دل و دماغ اسکی عطا کا اظہار ہیں کہ ان سے وہ دیکھتے، سنتے، سونگھتے محسوس کرنے اور سوچنے کا کام لیتا ہے۔ رب کائنات نے ہی وجود عطاء کیا اور اسی نے اس کو قائم رہنے کی صلاحیت اور سہولت بخشی، نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا شعور دیا، تلاش و محنت سے ایجادات و انکشافات کی صلاحیت دی اور یہ کہ دیگر تمام مخلوق پر فضیلت دی عقل و شعور سے مخفی خزانوں کی دریافت کا حوصلہ دیا اور زندگی کو پر بہار و باوقار بنانے کی ہمت دی۔ انسان صرف جسم کا نام نہیں بلکہ جسم کی رونق اسکی قوت سے ہے، جسے روح کہا جاتا ہے ،جسم کی حفاظت و قوت اور برداشت سے زیادہ ضروری روح کا استحکام وجلا ہے۔ احکام خالق کو تسلیم کرنے سے دنیا بھی پر بہار رہتی ہے اور آخرت کی زندگی بھی کامیاب ہوتی ہے‘‘۔ (عقائد و ارکان)
ہدایت و رہنمائی کا یہ سلسلہ انسان اوّل یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوگیا، اور اللہ کی رحمت کاملہ نے ہر قوم اور ہر عہد میں رسول مبعوث کئے۔ حتیٰ کہ انسانیت اس قابل ہوگئی کہ اب اسے دائمی صحیفہ ہدایت اور عظیم تر داعی محمد مصطفیٰ ﷺسے نوازا جائے۔ الہامی رہنمائی کی تکمیل ہوئی اور تمام انسانوں کو اسی ہادی اور ہدایت کا پابندکر دیا گیا۔ 

پیر، 23 اگست، 2021

Shortclip - دینِ اسلام کوفالو کرنے کی ضرورت کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1813 ( Surah Ar-Rahman Ayat 46 - 47 Part-2 ) ...

Darsulquran para-05 - آج کیا دین اسلام پر عمل کرنا ناممکن ہے

Shaikh Say Mohabbat Ki Zaroorat Kya Hay?

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

 

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کررہا ہو پس تم (سجدہ میں )بہت دعاکیا کرو۔(صحیح مسلم،سنن دائود )

 حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جس سے اللہ مجھے جنت میں داخل کردے یا میں نے عرض کیا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے پھر سوال کیا، آپ خاموش رہے ، جب میں نے تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے لیے کثرت سے سجدے کیا کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرو گے تو اللہ اس سجدہ کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹادے گا۔ (صحیح مسلم، ترمذی)

 حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، میں آپ کے وضو اورطہارت کے لیے پانی لایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: سوال کرو، میں نے عرض کیا میں آپ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : اورکسی چیز کا ؟میں نے عرض کیا مجھے یہ کافی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر کثرت سے سجدے کرکے اپنے نفس کے اوپر میری مددکرو۔ (صحیح مسلم ، سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب ابن آدم سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ جاکر روتا ہے اورکہتا ہے ہائے میرا عذاب !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا سواس کو جنت ملے گی، اورمجھے سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا سومجھے دوزخ ملے گی۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعضاء سجود کے جلانے کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔(صحیح بخاری، سنن نسائی)

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ کا جو حال اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے اوراس کا چہرہ مٹی میں لتھڑا ہواہو۔

 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں افلح نامی ہمارا ایک غلام تھا، جب وہ سجدہ کرتا تو مٹی کو پھونک مارکر اڑاتا، آپ نے فرمایا : اے افلح! اپنے چہرے کو خاک آلودہ کرو۔(سنن الترمذی)

اتوار، 22 اگست، 2021

Shortclip - ہم کس دین کو فالو کررہے ہیں؟

Insaan Say Mohabat Kyon Zaroori Hay? Aur Iss Ki Alamaat Kya Hain?

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1812 ( Surah Ar-Rahman Ayat 46 - 47 Part-1 )...

کلام الامام (۲)

 

کلام الامام (۲)

٭دولت کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اس سے عزت وآبروکو قائم رکھا جائے۔

٭زمانہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردے تو تب بھی تو مخلوق کی طرف مائل نہ ہو۔ 

٭لوگوں کی حاجتوں کو تم سے متعلق ہونا یہ تمہارے اوپر خداکی بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا نعمتوں (صاحبان حاجت) کو رنج نہ پہنچائو،کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ وہ عطاء بلا سے بدل جائے۔

 ٭جس نے سخاوت کی اس نے سیادت حاصل کی، جس نے بخل کیا وہ ذلیل ہوا۔

 ٭جس کا مددگار خدا کے علاوہ کوئی نہ ہو،خبردار! اس پرظلم نہ کرنا۔

٭جو تم کو دوست رکھے گا (برائیوں سے) روکے گا، اور جو تم کو دشمن رکھے گا (برائیوں پر) ابھارے گا۔

 ٭عقل صرف حق کی پیروی کرنے سے ہی کامل ہوتی ہے۔ ٭اہل فسق و فجور کی صحبت بھی فسق و فجور میں داخل ہے۔ ٭جس فعل پر عذر خواہی کرنا پڑے وہ کام ہی نہ کرو، اس لئے کہ مومن نہ برا کام کرتا ہے اور نہ ہی عذر خواہی کرتا ہے، جبکہ منافق روز بروز برائی اور عذر خواہی کرتا ہے۔ ٭غیر اہل فکر سے بحث و مباحثہ اسباب جہالت کی علامت ہے۔ 

٭جب زمانہ تجھے تکلیف دے تو تو مخلوق کی طرف مائل نہ ہو بلکہ اپنے خالق سے رجوع کر۔

٭اللہ کے سوا کبھی بھی کسی سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہئے۔ ٭جب اذیت کے لئے کوئی شخص کسی سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرنے والے بھی اسی جیسے ہیں ۔ 

٭اس قوم کو کبھی بھی فلاح حاصل نہیں ہو سکتی جس نے خدا کو ناراض کرکے مخلوق کی مرضی خرید لی ۔

 ٭قیامت کے دن اس کو امن و امان ہوگا جو دنیا میں خدا سے ڈرتا رہا ہو۔

 ٭لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین ان کی زبانوں کے لئے  ایک چٹنی ہے، جب تک (دین کے نام پر) معاش کا دارومدار ہے دین کا نام لیتے ہیں، لیکن جب وہ آزمائش میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر دین دار بہت ہی کم ہو جاتے ہیں۔ 

٭کیا تم نہیں دیکھ رہے ہوکہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے، اور باطل سے دوری اختیار نہیں کی جا رہی ہے، ایسی صورت میں مومن کوحق ہے کہ وہ لقائے الہٰی کی رغبت کرے۔ 

٭میں موت کو سعادت اورظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں۔

 ٭اگرمال کا جمع کرنا چھوڑ جانے کے لئے ہے تو پھر شریف آدمی چھوڑ جانے والے مال کے لئے کیوں بخل کرتا ہے۔ 


Darsulquran Para-05 - کیا ہم ایک گمراہ قوم ہیں

ہفتہ، 21 اگست، 2021

کلام الامام (۱)

 

کلام الامام (۱)

٭ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود ایک جرم ہے۔ 

٭عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ 

٭طاقت وقوت کینے کو ختم کر دیتی ہے۔ 

٭غیرت مندکبھی بے غیرتی کا کام نہیں کرتا! 

٭حکمرانوں کی بری عادات میں سے دشمنوں کے روبرو بزدلی، ضعیف وناتواں کے سامنے جرأت اور عطا کرنے میں بخل وکنجوسی ہیں۔

 ٭حاجت مند نے سوال کرنے سے پہلے اپنے چہرے کو محترم و مکرم نہیں سمجھا، لہٰذا تو اپنے چہرے کو سوال نہ کرنے سے محترم و مکرم قرار دے

٭غیبت کرنے سے رک جا، کیونکہ  غیبت جہنم کے کتوں کا سالن ہے۔

 ٭جنت کی چاہ میں عبادت تاجرانہ ہے، جہنم کے خوف سے عبادت غلامانہ ہے اور ادائے شکر کے لئے عبادت آزادانہ اور باعث فضیلت ہے۔

 ٭حق قبول کرنے کی علامات میں سے ایک علامت اہل عقل کے پاس بیٹھنا ہے۔

 ٭اپنے اقوال وافعال کی جانچ پر کھ اور فکر ونظر کے حقائق جاننا عالم کی نشانیوں اور دلائل میں سے ہے۔ 

٭جو شخص اللہ کی عبادت ایسے کرے کہ جیسے اس کا حق ہے تو اللہ اسے امیدوں اور قدر کفایت سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا! 

٭جس کام کو پورا کرنے کی ہمت نہ ہو اسے اپنے ذمہ مت لو۔ ٭جس چیز کو تم سمجھ سکتے ہو اور نہ ہی حاصل کر سکتے ہو اس کے درپے کیوں ہوتے ہو۔ ٭جب تم جان لو کہ تم حق پر ہو تو پھر نہ جان کی پروا کرو نہ مال کی ۔

٭جلد بازی حماقت ہے اور انسان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ۔٭جو کوئی اپنے مذہب کو قیاس کے ترازو میں تولتا ہے وہ ہمیشہ شکوک و شبہات میں پڑا رہتا ہے۔ 

٭اپنے کام کے صلے کی واجب سے زیادہ امید نہ رکھو!

 ٭بہترین سکون یہ ہے کہ خداکی اطاعت پر خوش رہو۔

 ٭عظمت و بزرگی کا بہترین ذریعہ سخاوت اور نیک عمل ہے۔ 

٭بے آسرا اور مایوس لوگوں کی مدد کرنے والا ہی اعلیٰ درجے کا فیاض ہے۔ 

٭انسانی اقدار کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرواور (معنوی) خزانوں کے لئے جلدی کرو!

Deen Ki Haqeeqat Kya Hay?

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1811 ( Surah Ar-Rahman Ayat 39 - 45 ) درس قرآ...

Darsulquran Para-05 - اللہ تعالی کیا اپنے بندوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں

جمعرات، 19 اگست، 2021

Asal Deen Kya Hay?

Shortclip - دنیا میں کیا ہم جنت کو خرید سکتے ہیں؟

حسین ابن علی جانِ اولیاء

 

حسین ابن علی جانِ اولیاء

برصغیر پاک وہند کی مصروف علمی و روحانی شخصیت حضر ت مخدوم علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ امام عالی مقام سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں ۔ 

٭آئمہ اہلِ بیت اطہار میں سے شمع آل محمد (ﷺ)  تمام دنیاوی علائق سے پاک و صاف، اپنے زمانہ کے امام و سردار ابوعبداللہ سیدنا امام حسین بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما ہیں ۔آپ اہل ابتلاء کے قبلہ و رہنما ہیں اور شہید دشتِ کرب وبلا ہیں اور تمام اہل طریقت آپکے حال کی درستگی پر متفق ہیں اس لئے کہ جب تک حق ظاہر وغالب رہا آپ حق کے فرمانبردار رہے اور جب حق مغلوب ومفقود ہوا تو تلوار کھینچ کر میدان میں نکل آئے، اور جب تک راہ خدا میں اپنی جان عزیز قربان نہ کردی ،چین وآرام نہ لیا۔ آپ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیشتر نشانیاں تھیں جن سے آپ مخصوص ومزین تھے، چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور اکرم ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ نے (امام) حسین کو اپنی پشت مبارک پر سوار کر رکھا ہے۔ میں نے جب یہ حال دیکھا تو کہا، اے حسین کتنی اچھی سواری ہے آپکی، حضور اکرم ﷺنے ارشاد  فرمایا: اے عمر! یہ سوار بھی تو کتنا عمدہ ہے۔ سیدنا امام عالی مقام سے طریقت میں بکثرت کلامِ لطیف اور اسکے رموز و اسرار و معاملات منقول ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: اشفق الاخوان علیک دینک‘‘ تمہارے لئے سب سے زیادہ رفیق و مہربان تمہارا دین ہے اس لئے کہ بندے کی نجات دین کی پیروی میں ہے، اور اسکی ہلاکت ،اسکی مخالفت میں ہے، صاحبِ عقل وخرد وہی شخص ہے جو مہربان کے حکم کی پیروی کرے، اسکی شفقت کو ملحوظ رکھے اور کسی حالت میں اسکی متابعت سے روگردانی نہ کرے، برادرمشفق وہی ہوتا ہے جو اسکی خیر خواہی کرے اور شفقت و مہربانی کا دروازہ اس پر بند نہ کرے۔ ایک روز ایک شخص نے حا ضر ہوکر آپ سے عرض کیا اے فرزندِ رسول ! میں ایک مفلس و نادار ہوں اور صاحب اہل وعیال ہوں مجھے اپنے پاس سے رات کے کھانے میں سے کچھ عنایت فرمائیے، آپ نے فرمایا: بیٹھ جائو، میرا رزق ابھی راستے میں ہے کچھ دیر بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دینار کی پانچ تھیلیاں آئیں اور پیغام آیا کہ میں معذرت خواہ ہوں فی الحال انہیں اپنے خدّام پر خر چ فرمائیے، جلد ہی مزید حاضر خدمت کئے جائیں گے۔ آپ نے وہ تھیلیاں اس نادار شخص کو عنایت کر دیں اور فرمایا: تمہیں بہت دیر انتظار کرنا پڑا اگر مجھے انداز ا ہوتا کہ اتنی قلیل مقدار ہے تو تمہیں انتظار کی زحمت ہی نہ دیتا، مجھے معذور سمجھنا،  ہم اہل ابتلاء ہیں۔ ہم نے دوسروں کیلئے اپنی تمام دنیاوی ضرورت کو چھوڑ دیا ہے اور راحت کو فنا کر دیا ہے۔ (کشف المحجوب )


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1809 ( Surah Ar-Rahman Ayat 33 - 34 ) درس قرآ...

Darsulquran para-04 - یتیم پوتے کو دادا کی وراثت میں کیا ملے گا

بدھ، 18 اگست، 2021

Ebadat Kya Hay?

تلقین بوترابی

 

تلقین بوترابی

  ٭ کمینوں کی دوستی سے پرہیز رکھو اور ان شرفاء کے پاس آمدورفت رکھنا جو شرفاء کی اولاد ہیں۔٭ زمانے پر کبھی بھی اعتماد نہ کرنا اس لئے کہ اس کا نظام درہم برہم ہونے والا ہے۔ کسی قوم کی نعمت پرحسد کا شکار نہ ہونا بلکہ ان سے اخوت تمہیں دارالسلام کا حق دار بنا دے گی۔ ٭بیٹا!اپنے اللہ پر اعتماد کر جو تیرا بلند مرتبہ رب ہے اور بڑے بڑے احسانا ت اور عظیم نعمتوں کا مالک ہے۔٭علم کی خاطر دامن طلب دراز کر اور اس میں بحث کر  اور حلال وحرام کی (ہر ممکن) تحقیق کر۔ ٭بیہودہ باتوں کو زبان پر نہ نہ لائیو۔ بلکہ ایسے (پاکیزہ )کلام کو اپنا شعار بنائو جس سے اللہ راضی ہو۔ ٭ کوئی دوست خیانت کا مرتکب ہو تو جواباً خیانت نہ کرنا بلکہ باربار درگزر کرنا تاکہ تمہیں گناہوں سے نجات مل سکے۔٭دوستوں سے کینہ اختیار نہ کرنا باربار درگزر سے تم (بہت سے )گناہوں سے چھٹکارا پا لوگے۔ ٭اے حسین! جب تم کسی شہر میں اجنبی کی حیثیت  سے رہو تو اس کے آدابِ (معاشرت)کو ملحوظ خاطر رکھو۔ انکے سامنے اپنے فہم و بصیرت پر فخر نہ جتائو اس لئے کہ ہر جماعت کی عقل الگ الگ نوعیت کی ہوتی ہے اور (ہر ایک کا طرز فکر منفرد ہوتا ہے)۔ تم بے شک اپنے عذر خواہوں اور قابل اعتماد مددگاروں سے استفادہ کرو لیکن (اصل وثوق) اس خدا پر ہو جو تمہیں دنیا  بھرکی خیرو برکت عطاء فرماتا ہے۔ نہ دنیا کے اسباب سے اترنا اور نہ ہی اسکے مصائب سے گھبرانا۔ ٭آنے والے کل کو گزرے ہوئے کل پر قیاس کر لو تاکہ تم آرام واستراحت پا سکو دنیا کی طرف رغبت کرنے والوں کی طرح سعی وکاوش نہ چاہو۔ گویا کہ اس وقت میں اپنی اولاد سمیت کربلا اور اس کے میدان جدال میں موجود ہوں ۔ ٭ہماری ڈاڑھیاں دلہن کے کپڑوں کی طرح لہو میں  رنگی ہوئی ہیں۔ (عزیز من) میں اس واقعہ کو (واضح انداز میں ) دیکھ رہا ہوں لیکن ان ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ مجھے (حقائق کے) دروازوں کی کنجیاں ودیعت کی گئی ہیں۔  ٭یہ مصائب تم پر ضرور آئیں گے سو تم ان کے پہنچنے سے پہلے پوری طرح تیاری کر لو۔ اے حسین وہی (اللہ) ہمارا انتقام لے گا تمہارا بھی سوتم صبر کا دامن ہاتھ سے ہر گز نہ چھوڑنا ۔ ہر خون کے عوض ہزار خون ہوں گے اور ا س کی جماعت کے قتل میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔ اس وقت ظالموں کی عذر خواہی اورخوشامد کچھ بھی نفع بخش نہ ہوگی۔ ٭اے حسین جدائی سے گھبرانا مت اس لئے کہ تمہاری یہ دنیا پیدا ہی ویرانی کے لئے گئی ہے۔ ان مکانوں سے تو پوچھو اور یہ کیا خوب وضاحت کرنے والے ہیں (یہ زبان حال سے کہیں گے)کہ ارباب دنیا کے لئے (کوئی) بقا نہیں۔ 

Shortclip - جنت کی قیمت کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1808 ( Surah Ar-Rahman Ayat 29 - 32 Part-2 ) ...

منگل، 17 اگست، 2021

Humari Kamyabi Ka Package Kya Hay ?

سعادتِ ایمان اور آزمائش

 

سعادتِ ایمان اور آزمائش 

حضور اکرم ﷺکی بعثت مبارکہ کے بعد سب سے پہلے آپکی تصدیق کا شرف ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا، اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق،حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم اس سعادت سے مشرف ہوئے ان حضرات کے بعد اسلام کی نعمتِ عظمیٰ حضرت عثمان ؓکے مقدر میں آئی ۔ اس طرح آپ السابقون الاوّلون میں نمایاں مقام کے حامل ٹھہرے۔ 

قبولِ اسلام کے بعد انھیں دوسرے مسلمانوں کی طرح ابتلاء اور آلام کے مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا ۔ آپکے خاندان نے آپکے قبولِ اسلام کی سخت مخالفت کی اور آپ کو عملاً بھی بڑے جبر وتشد د کا نشانہ بنایا گیا ۔ لیکن آپکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی، اور آپ اپنے موقف پر بڑی استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ’’آپکے چچا کا یہ معمول تھا کہ جانور کے کچے بدبودار چمڑے میں انہیں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیتا ۔ نیچے سے تانبے کی طرح تپتی ریت اوپر سے عرب کے سورج کی آتشیں کرنیں۔ اس پر کچے چمڑے کی بدبو ایک عذاب میں اس بڈھے نے بیسوئوں عذابوں کو یکجا کردیا تھا۔ اس طرح اپنے سگے بھتیجے پر وہ دل کی بھڑاس نکالتا پھر بھی دل سیر نہ ہوتا۔‘‘(ضیاء النبی ) مکہ میں آپ کو حضور اکرم ﷺکی دامادی کا شر ف حاصل ہوا۔ بعثت سے قبل حضور کی دوصاحبزادیوں حضرت رقیہ ؓاور حضرت ام کلثوم ؓکا نکاح ابو لہب کے بیٹوں سے ہوگیا تھا۔ جبکہ رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی۔ آپکی دعوت رسالت کی خبر اس تک پہنچی تو اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ حضور ﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دے دیں ۔ اس طلاق کے بعد حضور اکرم ﷺنے اپنے صاجزادی حضرت رقیہ ؓ کا نکاح حضرت عثمان غنی سے کردیا۔ کہاجاتا ہے کہ یہ مکہ کاخوبصورت ترین ازدواجی جوڑا تھا اور لوگ ان کے باہمی تعلق پر رشک کیا کرتے تھے۔ خود حضور انور ﷺ کو اس جوڑے کی روحانی اور جمالیاتی اہمیت کا بڑا احساس تھا ۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے مجھے ایک دیگچے میں گوشت دیا اور فرمایا کہ یہ عثمان کے گھر پہنچادو۔ میں انکے گھر میں داخل ہوا ۔وہاں حضرت رقیہ بھی تشریف فرماتھیں۔ میں نے زوجین میں ان سے بہتر کوئی جوڑا نہیں دیکھا۔ میں کبھی حضرت عثمان کے چہرے کودیکھتا اور کبھی ان کی باوقار اور پرانور اہلیہ کو(اور اس جوڑے کے ملکوتی حسن وتقدس کودیکھ کر حیران ہوتا)جب واپس آئے تو حضور اکرم ﷺنے (اشتیاق سے ) مجھ سے پوچھا کیاتم وہاں گئے تھے۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں،آپ نے فرمایا: کیا تم نے ان سے اچھا کوئی جوڑا دیکھا ہے میںنے عرض کیا۔ یارسول اللہ نہیں۔ میں کبھی حضرت عثمان کی طرف دیکھتا اور کبھی حضرت رقیہ کی طرف۔(ابن عساکر)بعثت مبارکہ کے پانچویں سال ماہ رجب میں یہ گھرانہ حبشہ کی طرف ہجرت کرگیا۔


Shortclip - کیا ہم زندگی فضول گزار رہے ہیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1807 ( Surah Ar-Rahman Ayat 29 - 32 Part-1 ) ...

Shortclip - انسان کی کامیابی کا راستہ

پیر، 16 اگست، 2021

Humain Apnay Maqsad-e-Hayat Ki Parwah Kyoon Nahi Hay?

حکمت

 

حکمت

 حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابو الحسن ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا : آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اوراتنا منہمک نہ ہوں کہ گویا آپ کواس میں کچھ شک ہے) ،اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتاوہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں )اوراپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حتمی نہ سمجھیں )اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے روانہ کردیایا تقسیم کرکے برابرکر دیا یا پہن کر پرانا کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے ابوالحسن ! آپ نے سچ کہا۔(ابن عساکر)

 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوںاورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بربادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1806 ( Surah Ar-Rahman Ayat 26 - 28 ) درس قرآ...

Darsulquran para-04 - کیا ہم ایک باغی قوم ہیں

اتوار، 15 اگست، 2021

Kya Hum Bena Kisi Maqsad Kay Zindagi Guzar Saktay Hain?

تلقین بوترابی(۲)

 

تلقین بوترابی(۲)

٭ (اے عزیز) جب تم ایسی نشانیوں کے پاس سے گزرو جن کے بیان میں وسیلہ اور حیرت فزاء نعیم جنت کا وصف کیا گیا ہے۔ تو اپنے اللہ سے اخلاص اورتوجہ کے ساتھ جنت کی دعا اور اس شخص کا سا سوال طلب کرو جو تقرب کا خواستگار ہے اور طلب میں کوشاں رہو شاید تمہیں اس ارض ابد تاب میں نزول کا موقع مل جائے اور ان دائمی مسرتوں سے ہم کنار ہو سکو جن کی تخریب ممکن نہیں ۔

٭ تمہیں ایسی حیات جادوانی مل جائے، جس کے زمانہ میں انقطاع نہیں اور ایسی باکرامت ملکیت سے نوازے جائو جو تم سے کبھی سلب نہ ہوگی۔

٭ جب نیک کام کا ارادہ کرو تو اپنی خواہش نفسانی پر جلدی سبقت لے جائو وسوسوں کے خوف سے، کہ یہ بھی آنے جانے والے ہیں۔ اور برائی کی طرف رغبت ہوتو اس سے آنکھ بند کرلو ۔ جس کام سے اجتناب ضروری ہو اس سے مجتنب رہنے ہی میں عافیت ہے۔ اپنے دوست کے لئے منکسر ہوجائو اور ایسا سلوک رواء رکھو جیسا کہ مہربان باپ اپنی اولاد سے رکھتا ہے۔ ٭مہمان کی اس قدر تعظیم کرو کہ وہ تمہیں اپنا وارث نسبی خیال کرنے لگے۔

٭ اپنا دوست اس نیک خوکو بنائو کہ جو بنائے اخوت استوار ہونے کے بعد اس مواخات کی محافظ کرے اور اس خاطر جنگ (سے بھی گریز نہ) کرے۔٭ ایسے دوستوں کی طلب یوں کرو،  جس طرح مریض شفاء (کاملہ)کا طالب ہوا کرتا ہے، اور جھوٹے کی صحبت ترک کر دو کہ اس کی مصاجت میں کچھ (خیر) نہیں۔ ٭ہر موقع پر اپنے دوست کی حفاظت کرو اور اس مرد حق گو کی رفاقت تلاش کرو جو جھوٹ سے مجتنب رہنے والا ہو۔

٭ جھوٹے سے دشمنی رکھو اور اس کے قرب وجوار سے بچو (حق یہ ہے )کہ دروغ گو اپنے ہم جلیس کو بھی آلودہ کردیتا ہے۔ جھوٹا آدمی زبانی کلامی تو تمہیں امیدوں اور تمنائوں  سے بھی (کہیں بڑھ کر) عطاء کر دیتا ہے لیکن (وقت پڑنے پر) لومڑی کی طرح کنّی کترا جاتا ہے۔٭چاپلوسوں اورکمینہ خصلت لوگوںسے بھی بچ کر رہنا اس قماش کے لوگ (مصائب کی) آگ میں مزید ایندھن جھونکنے لگتے ہیں۔ جب تک ان کی طمع پوری ہوتی رہتی ہے وہ اردگرد رہتے ہیںاور اگر (خدا نخواستہ) زمانہ ناموافق ہو جائے تو تتر بتر ہوجاتے ہیں۔

٭ فرزند عزیز!  میں نے تمہیں (مقدور بھر) نصیحت کردی ہے، اگر تم میرے پند و نصائح کو قبول کر لو تو یہ تمہارے لئے بیع وہبہ کی تمام اشیاء سے زیادہ ارزاں (اورگرانمایہ) ثابت ہوگی۔

Shortclip - دنیا کے دھوکے سے کیسے نکلیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1805 ( Surah Ar-Rahman Ayat 24 - 25 ) درس قرآ...

ہفتہ، 14 اگست، 2021

Darsulquran para-04 - کیا ہم نے حدوداللہ کو توڑ دیا ہے

تلقین بوترابی (۱)

 

تلقین بوترابی  (۱)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم عرصہ حکمت و بلاغت کے شہسوار تھے نظم ونثر میں آپ کا کلام معجز نظام اپنی مثال آپ ہے۔ ذیل میں آنجناب کے کچھ اشعار کے مفاہیم درج کئے جاتے ہیں ، جو آپ نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائے ۔ ایسے عظیم المرتبت مربی نے جو کچھ تلقین کیا یقیناً اس کا عکس جمیل امام عالیٰ مقام رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں منعکس ہوا،گویا کہ یہ اشعار آپ کی سیرت اطہر کا خوب صورت تعارف ہیں۔٭اے حسین! میں تمہیں نصیحت کر رہا ہوں اور ادب سکھا رہا ہوں، سو میری باتوں پر تامل کرو اس لئے کہ (درحقیقت ) عقلمند وہی ہے جو ادب پذیر ہو۔ ٭اور اپنے اس پدر مہربان کی وصیت کو بھول نہ جانا، جو تمہاری پرورش (بہترین )آداب سے کرتا ہے تاکہ تم ہلاکت کا شکار نہ ہوجائو۔٭اے فرزند عزیز! تم جو کچھ بھی طلب کرو حسن وخوبی سے طلب کرو اس لئے کہ روزی کی کفالت کر لی گئی ہے۔٭ فقط مال وزرہی کو اپنی کمائی قرار نہ دو بلکہ خدا خوفی اور تقویٰ کو اپنا اکتساب بنائو۔ (اور دیکھو) اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کے رزق کا کفیل ہے جبکہ مال تو عاریت اور آنے جانیوالی شے ہے اور (روزی کی فکر نہ کرو) جب اسباب کا ظہور ہو جائے تو روزی پلک جھپکنے سے پہلے انسان تک پہنچ جاتی ہے۔٭ (ہاں ہاں) سیل رواں کے قرار گاہ تک پہنچنے اور پر ندوں کے آشیانوں سے نزول سے بھی بیشتر (رزق انسان تک پہنچ جاتا ہے)۔ ٭بیٹے لاریب قرآن میں نصیحتیں ہیں۔ پس وہ کون (خوش بخت)  ہے، جو اسکی نصیحتوں سے ادب آشنا ہونا چاہتا ہے اپنی پوری (ذہنی و فکری توانائی) سے اس کتاب کو پڑھو اور ان لوگوں میں ہوکر اسکی تلاوت کرو جو اس کو اپنے ذمے لئے ہوئے ہیں اور اسکے فہم میں پوری طرح کوشاں ہیں۔ کامل تفکر اورکمال فروتنی و انکساری، اور محض حصول تقریب کیلئے (مصروف عمل ہیں) بے شک مقرب وہی ہوا ہے جو تقرب کا خواستگار ہو۔ ٭کمال اخلاص سے اپنے بزرگیوں والے اللہ کی عبادت کرو اور عبرت و موعظت کیلئے (جو امثال بیان کی جائیں انہیں پوری توجہ سے سنو)٭اور جب کبھی ایسی ڈرائونی نشانی کے پاس سے گزرو جو کہ عذاب کو ظاہر کرتی ہوں تو ذرا دیر ٹھہر جائو اور اشک (ہائے عبر ت) بہا لو۔ 
٭(اور دعاکرو) اے وہ کہ جو اپنے عدل انصاف سے جسے چاہتا ہے، مبتلاء عذاب کرتا ہے۔ مجھے ان (بدنصیبوں) میں سے نہ فرمانا جنہیں تو عذاب دے گا۔ بے شک میں اپنی لغزش اور خطاء کا اعتراف کرتا ہوں اور ان سے بھاگ کر (تیری پناہ طلب کرتا ہوں) اور کیا  تیری (بارگاہ بے کس پناہ)کے سواء اور کوئی جائے مراجعت ہے۔

Shortclip - ہم مومن بننے کی ضرورت کیسے محسوس کریں گے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1804 ( Surah Ar-Rahman Ayat 13 - 21 ) درس قرآ...

جمعہ، 13 اگست، 2021

Shortclip - ہم مسلمان سے مومن کیسے بن سکتے ہیں؟

سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

 

سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم 

اسلام کی تاریخ اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی تاریخ ہے۔ خدمت و مئودت کی تاریخ ہے۔ایثار وقربانی کی تاریخ ہے۔ جاں فروشی وجاں سپاری کی تاریخ ہے۔ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے اور ماتھے پر یہ جھومر سجانے کی تاریخ ہے۔ قومیں اپنی تقویم کو قاعدے اور ضابطے میں رکھنے کے لئے مختلف اسالیب اختیار کرتی ہیں ۔ بالعموم ہر قوم  نے اپنی سہولت کے لئے کسی نہ کسی انداز کا ایک کیلنڈر ضرور اختیار کیا ہے۔ ہر قوم اپنے سال کے آغاز واختتام کو یادگار بنانے کا کوئی نہ کوئی اہتمام بھی ضرور کرتی ہے۔ اس اہتمام کا تصور عام طور پر مسرت ، شادمانی ، جشن رنگ و طرب ، اہتمام ھائوو ھو سے وابستہ ہوتا ہے۔ لیکن   ؎ خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی، اسلام کا کیلنڈر ہجری تقویم کے مطابق ہے۔ ہجرت بذاتِ خود ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ وہ زمین جہاں انسان پیدا ہواہو۔وہ ماحول اور معاشرہ جہاں اس کی جڑیں بہت گہرائی تک اور تعلقات و مفادات کی شاخیں بہت وسعت تک پھیل چکی ہوں، اس زمین کو یک لخت خیرآباد کہنا پڑجائے اور امکانات کی ایک نئی دنیا کی تلاش میں نکلنا پڑے تو یہ کام قطعاً آسان نہیں ہوتا ۔ آبائی وطن سے محبت انسان کی شرست میں داخل ہے اور ہمیشہ دل میں موجود رہتی ہے۔ عربی کا مشہور شاعر ابو تمام کس کیفیت میں کہہ گیا ہے۔

کم منزلٍ فی العمر یالف الفتیٰ

وحنینہٗ ابداً لِاَوّلِ منزلٖ

 ’’ایک جواں مقاصد کی جستجو میں کتنی ہی منزلیں طے کرتا ہے ۔ لیکن اس کا رحجان طبع ہمیشہ اپنی جنم بھومی کی طرف رہتا ہے۔‘‘

سال ہجری ہمیشہ مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ کرام کی عظیم الشان قربانی کی یاد دلاتا ہے۔سال کا آخری مہینہ ایک ’’ذبح عظیم ‘‘کو قولاً نہیں عملاً یاد دلاتا ہے۔ ایک جلیل القدر پیغمبر نے صرف اور صرف اپنے پروردگار کو راضی کرنے کے لئے  اپنے جان سے پیارے لخت جگر کے حلقوم پر تیز دھار کی چھری رکھی اور آفرین ہے اس فرزندِ وفاء شعار پر جس نے سرتسلیم خم کردیا ۔  ذرا آگے بڑھئے۔حسن وحیاء کا ایک پیکر شہادت کو گلے سے لگا رہا اور اعلان کر رہا ہے کہ عثمان اپنی جان تو قربان کرسکتا ہے لیکن شہر رسول میں خون ریزی پسند نہیں کرسکتا ۔ سال ہجرت ختم ہو رہا ہے اور نئی سال کا سورج طلوع ہو رہا ہے تو اس کے ماتھے پر فاروق اعظم کی شہادت کا جھومر سجا ہوا ہے، اور شہادت وجاں فروش کی یہ روایت میدان کربلا میں پہنچتی ہے تو گویا اپنی معراج کو چھو لیتی ہے۔

غریب وسادہ رنگیں ہے داستانِ حرم 

نہایت اس کی حسنِ ابتداء ہے اسماعیل 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1803 ( Surah Ar-Rahman Ayat 10 -12 ) درس قرآن...

بدھ، 11 اگست، 2021

Daraulquran para-04 - کیا ہم بے ہوش قوم ہیں

Hum Koon Hain?

عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ

 

عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ

امیر المومنین مرادِ رسول حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخ اسلام کے ایک آفتاب ِنیم روز ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تعلق بنو عدی سے ہے ۔ عدی کی طرف منسوب ہونے کی بنا پرحضرت عمر کو’’ العدوی‘‘ کہا جاتاہے ۔ قریش مختلف قبیلوں میں منقسم ہوئے ان میں دس قبائل بڑے ممتاز گردانے جاتے تھے۔قبیلہ بنو عدی بھی ان میں شامل تھا ، حضرت عمر کے شجرہ نسب میں آٹھویں پشت پر عدی کانام ملتا ہے، عمربن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی۔ کعب بن لوئی پر حضرت عمر کا سلسلہ نسب حضور اکرم ﷺ سے مل جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کے اہم قبائل کوکچھ خاص مناصب موروثی طور پر سپردکردیے گئے تھے قبیلہ بنو عدی کے حصے میں ’’سفارت ‘‘اور ’’فیصلہ منافرہ‘‘ کے منصب تھے ۔ جب کبھی قریش کہیں کوئی سفارت بھیجنا چاہتے یا قریش کی کسی ایک یا متعدد قبیلوں سے جنگ چھڑ جاتی تو مذکرات کیلئے اورمعاملات طے کرنے کیلئے قریش خاندان بنو عدی کے سربراہ کو یااسکے نامزد نمائندے کو سفیر بناکر بھیجتے تھے ۔ جب بنو ہاشم کے سربراہ عبدالمطلب اوربنو امیہ کے رئیس حرب بن امیہ کے درمیان منافرہ کی صورت پیدا ہوئی تو حضرت عمر کے دادا نفیل حکم مقرر ہوئے اور انہوں نے فریقین کے دلائل سن کرحضرت عبدالمطلب کے حق میں فیصلہ کیا۔
 حضرت عمر کے والد خطاب قبیلہ کے سردار تھے, جو سیادت و قیادت کی اعلی صلاحیتوں کیساتھ ساتھ شاعری اورنسب دانی کے حوالے سے بھی بڑی شہرت کے حامل تھے قبیلہ بنو عدی کے ایک اور نامور فرزند زید بن عمرو بن نفیل ہیں ۔ جنہوںنے دورجاہلیت میں غور وفکر اور اپنی فطرت سلیمہ کے باعث بت پرستی سے بیزاری کا اظہار کردیا، یہ حضوراکرم ﷺکی بعثت سے پہلے کی بات ہے اس پر انہیں بڑی اذیتیں اٹھانا پڑی اوروہ شام کی طرف ہجرت کرگئے جہاں انہیں عیسائیوں نے قتل کردیا۔ حضرت سعید بن زید ؓجو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں انہی کے لختِ جگر ہیں۔ حضرت عمر کے بھائی زید بن خطاب ؓ کاشمار ممتاز صحابہ میں کیاجاتاہے ۔ حضرت عمرکی والدہ حنتمہ کا تعلق بنو مخزوم سے ہے ،جو قریش کی جنگی تیاریوں کے ذمہ دار تھے، حنتمہ حضرت خالد بن ولیدکی چچازاد بہن تھیں۔سفارت اور منافرہ کے مناصب اپنے زمانے کے سیاسی، معاشی، عمرانی اور جغرافیائی حالات سے مکمل واقفیت کا تقاضہ کرتے ہیں۔ حضرت عمر کی شخصیت میں معاملہ فہمی ،شجاعت ، ذوقِ شعری اور نسب دانی کے خواص یکجاہوئے ۔ دور دراز کے تجارتی سفروں نے انہیں حقائقِ زندگی سے آشناکیا ۔ حضوراکرم ﷺکی نظر اس باصلاحیت شخص پر پڑی ،قدر دان اور قدر شناس پیغمبر نے اپنے پروردِگار سے انہیں اسلام کیلئے مانگ لیا۔

Shortclip - کیا دین اور دنیا میں فرق ہے؟

Shortclip - کیا دین اور دنیا میں فرق ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1801 ( Surah Ar-Rahman Ayat 01 - 06 ) درس قرآ...

منگل، 10 اگست، 2021

Hum Dunya Main Kyoon Ayeay Hain?

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1800 ( Surah Ar-Rahman Ayat 01 - 04 Part-6 ) ...

Shortclip - اسلام کا حُسن کیا ہے؟پارٹ2

فراستِ مومنانہ

 

فراستِ مومنانہ

پیغمبر علم وآگہی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی صحبت وتربیت ،حکمت قرآن پرگہراغوروفکر ، زندگی کے عملی تجربات اور پھر خلوص اور حسنِ نیت نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ’’فراستِ مومنانہ‘‘کا شہکار بنادیاتھا۔ آپ کی زبانِ فیض ترجمان سے جو گہر پارے نکلتے وہ حکمت ودانائی کے انمول شہپارے ہوتے ، آپ ارشاد فرماتے ہیں۔ ٭اے انسان اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنے لیے پیدا کیا ہے اور تو دوسروں کا ہونا چاہتا ہے۔ ٭تعجب ہے اس شخص پر جو اللہ تعالیٰ کو حق جانتا ہے اور پھر غیروں کا ذکر کرتا ہے۔ ٭زبان کی لغزش قدموں کی لغزش سے زیادہ خطرناک ہے۔ ٭کسی سے کوئی امید نہ رکھو بجز اپنے رب کے اور کسی چیز سے خوف زدہ نہ ہوبجز اپنے گناہ کے ۔٭اپنابوجھ خلقت میں سے کسی پر نہ ڈالو خواہ کم ہو یا زیادہ ۔ ٭عقل مند کہتا ہے میں کچھ نہیں جانتا لیکن بے وقوف کہتا ہے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ ٭حقیر سے حقیر پیشہ ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے۔ ٭دنیا جس کے لیے قید ہے قبراس کے لیے قرار گاہ ہے۔ ٭بعض اوقات جرم معاف کردینا مجرم کو زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔ ٭تعجب ہے اس شخص پر جو حساب کو حق جانتا ہے اور پھر مال بھی جمع کرتا ہے۔ ٭تعجب ہے اس شخص پر جو جہنم کو حق سمجھتا ہے اور پھر گناہ کاارتکاب بھی کرتا ہے۔ ٭حاجت مند غرباء کا تمہارے پاس آنا تم پر خدا کا انعام ہے۔ ٭خاموشی غصے کا بہترین علاج ہے۔ ٭اگرآنکھیں بینا ہیں تو ہر روز روزِ محشر ہے۔ ٭متواضع ومنکسرشخص دنیا اورآخرت میں جو چیز بھی چاہے گا اسے مل جائے گی۔ ٭عیال دار کے اعمال مجاہدین کے اعمال کے ساتھ آسمان پر جاتے ہیں۔ ٭(خوشامد کے متمنی )دولت مندوں سے عالموں اور زاہدوں کی دوستی ریا کاری کی دلیل ہے۔ ٭جس نے دنیا کو جس قدر پہچانا ،اسی قدر اس سے بے رغبت ہوگیا۔ ٭دنیا کی محبت دل کا اندھیرا اور دین کی محبت دل کا نور ہے۔٭مسلمان کی ذلت اپنے دین سے غفلت میں ہے نہ کہ بے زر ہونے میں ۔ ٭اللہ کے سچے بندے کی پہچان یہ ہے کہ اسکے دل میں خدا کا خوف اور اسکے رحم کی امید ہو، زبان پر حمد وثنا ء ہو، آنکھوں میں شرم وحیاء ہو، دنیا اوراہلِ دنیا سے بے نیازی اور اپنے مولا کی طلب ہو۔ ٭دس چیزیں کا ر آمد نہیں ہیں ، عالم جس سے (سوال )پوچھا نہ جائے، علم جس پر عمل نہ کیا جائے، صحیح رائے جسے قبول نہ کیا جائے، ہتھیار جس سے (وقت پڑنے پر )کام نہ لیا جائے، مسجد جس میں نماز نہ پڑھی جائے،قرآن جس کی تلاوت نہ کی جائے ، مال جس میں فی سبیل اللہ خرچ نہ ہو، گھوڑا جس پر سواری نہ کی جائے، زہد کا علم جو طالب کے سینہ میں ہو(عمل میں نہ ہو)،لمبی عمر جس میں آخرت کیلئے کوئی توشہ نہ ہو۔ 

Darsulquran Para-04 - کیا ہمیں اپنے رب کا احساس ہے

پیر، 9 اگست، 2021

Allah Tallah Ki Mulaqaat Ki Talab Ki Aehmiat?

Shortclip - اسلام کا حُسن کیا ہے؟ پارٹ1

اہل تقویٰ کی علامات

 

اہل تقویٰ کی علامات

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا تناجش (کسی کو پھنسانے کے لیے زیادہ قیمت لگانا)نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اللہ کے بندوں بھائی بھائی بن جائو، مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر ظلم نہ کرے، اس کو رسوانہ کرے ، اس کو حقیر نہ جانے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، کسی شخص کے برے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو براجانے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر مکمل حرام ہے اس کا خون اس کا مال اوراس کی عزت ۔(صحیح مسلم)

 حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک متقین میں سے شمار نہیں ہوگا جب تک کہ وہ کسی بے ضرر چیز کو اس اندیشے سے نہ چھوڑدے کہ شاید اس میں کوئی ضرر ہو۔(جامع ترمذی)

 حضرت میمون بن مہران نے کہا : بندہ اس وقت تک متقی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا اس طرح حساب نہ کرے، جس طرح اپنے شریک کا محاسبہ کرتا ہے کہ اس کا کھانا کہاں سے آیا اوراس کے کپڑے کہاں سے آئے۔(جامع ترمذی)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب یہ فرماتا ہے کہ میں ہی اس بات کا مستحق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، سو جو شخص مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اس کو بخش دوں ۔(سنن دارمی)

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسی آیت کا علم ہے کہ اگر لوگ صرف اسی آیت پر عمل کرلیں تو وہ ان کے لیے کافی ہوجائے گی’’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے‘‘۔ (سنن دارمی )

 ابو نضر ہ بیا ن کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایام تشریق کے وسط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ سنا اس نے یہ حدیث بیان کی ، آپ نے فرمایا : اے لوگو! سنو! تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے ، سنو ! کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے، مگر فضیلت صرف تقویٰ سے ہے۔(مسنداحمدبن حنبل)