بدھ، 30 نومبر، 2022

Darsulquran surah al-qadr ayat 01-05 part-03.قرآن سراسر خیر و برکت والی ...

Shortvideo - نجات کا واحد راستہ

مصائب اور کفارہ

 

مصائب اور کفارہ

٭حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں میں زیادہ بلاء مشقت والے کون ہیں؟تو آپ نے فرمایا:أنبیاء کرام پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ ان کے پیروکار حتیٰ کہ انسان کو اس کے دین کے درجہ اورمقدار کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ اگر اس کا دین مضبوط ہوتو اسکی آزمائش اوربلا بھی اسی قدرزیادہ ہوتی ہے اوراگر اس کے دین میں نرمی اورکچھ کمی ہوتو اسکے حساب سے ہی اس کی آزمائش کی جاتی ہے ۔اللہ کے بندے پر بلاء وآزمائش گزرتی رہتی ہے حتیٰ کہ جب ختم ہوتی ہے تووہ گناہوں سے پاک ہوکر زمین پر چلتا ہے ۔ 
٭حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسو ل اللہ ﷺآیہ مبارکہ من یعمل سوئً ا یجزبہ۔’’جس نے جو بھی براکام کیا اسے اس کی جزادی جایگی۔‘‘کے بعد ہمارا کیا بنے گا کہ ہمیں ہمارے بُرے کام کی سزاملے گی تورسول اللہ ﷺنے تین مرتبہ کہاغفراللہ لک یا أبا بکر۔ ’’ابوبکر!اللہ تجھے معاف کرے‘‘کیا تو مریض نہیں ہوتا ؟کیا تجھے غم وملال نہیں پہنچتا؟تجھے تھکن اورمشقت نہیں ہوتی ؟تجھے پیٹ وغیرہ کا درد نہیں ہوتا؟میں نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ!تو آپ نے فرمایا:یہی تمہاری غلطیوں کی وہ پاداش ہے جو تمہیں دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انسان کا ایک مرتبہ کو نہیں پاسکتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے کسی آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ اس مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ ٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مؤمن اورمؤمنہ کے مال وجان اوران کی اولاد کے سلسلے میں ان پر بلاء وآزمائش جاری رہتی ہے حتیٰ کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتے ہیں توان پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔ ٭حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ بخار دوزخ کی دھونکنی ہے توجس مؤمن کواس سے کچھ حضہ پہنچا ،وہ دوزخ کی آگ سے اس کا نصیب تھا۔

٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے ارشاد فرمایا کہ توبخار کو گالی نہ دے کیونکہ یہ اولادِ آدم کے گناہوں کو یوں ختم کردیتا ہے ،جیسے لوہارکی دھونکنی لوہے کی میل کچیل کو۔

٭حضرت عبدالرحمن بن ازھر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مؤمن بندہ کی مثال جب اسے بخار آتا ہے ،اس لوہے کے ٹکڑے کی سی ہے جسے آگ میں ڈالا جاتا ہے وہ اس کی میل کچیل کو دور کرکے اسے خالص بنادیتی ہے۔(الآداب،بیہقی)


Darsulquran surah al-araf ayat 102 part-03.کیا خلیفہ اللہ بننا بہت آسان ہے

منگل، 29 نومبر، 2022

الحمدا للہ کہنے کا معمول

 

الحمدا للہ کہنے کا معمول

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے ارشادفرمایا ، جب تم میں سے کوئی شخص خوش گوار خواب دیکھے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور(اسے چاہیے کہ )وہ اس پر ’’الحمد للہ ‘‘کہے ۔ (صحیح بخاری)٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو وہ ’’الحمد للہ ‘‘ کہے ۔(صحیح بخاری) ٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ (اپنے )بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ کی حمد کرے اور کچھ پیئے تو اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم)٭حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺکا ارشادہے : پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ ’’الحمد للہ ‘‘میزان کو بھردیتا ہے، سبحان اللہ اورالحمد للہ آسمان اورزمین کے درمیان (خلا )کو بھر دیتے ہیں ۔ (صحیح مسلم)٭حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور انور ﷺجب کھاناتناول فرماتے یا (کوئی مشروب)نوش فرماتے تو دعاء کرتے ’’الحمد اللّٰہِ الَّذِیْ اطعمناوسقانا وجعلنا من المسلمین تمام تعریفیں اللہ کیلئے جس نے ہمیں کھلایا ، پلایااور مسلمان بنایا ۔ (جامع ترمذی) ٭حضرت معاذ بن انس ؓسے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، جس شخص نے کھانا کھاکر کہا: تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اورمجھ کو بغیر کوشش اورطاقت کے یہ رزق دیا، تو اسکے تمام سابقہ گناہ معاف کردئیے جائینگے۔(ترمذی) ٭حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضوراکرم ﷺنے ارشادفرمایا : جس کلام کی ابتداء ’’الحمد للہ ‘‘سے نہیں کی جائیگی وہ ناتمام رہے گا۔(سنن ابودائود)٭حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : مجھے تعجب ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بندئہ مومن کا کیسا (اچھا)نصیب رکھا ہے! اگر اس کو بھلائی پہنچتی ہے تواپنے رب کی حمد کرتا ہے ، اسکاشکر بجالاتا ہے اوراگر اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو(بھی )اپنے رب کی حمد کرتا ہے اور(اس پر)صبر کرتا ہے۔ (مسند امام احمد) ٭حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا : قرآن پاک کے بعد چار کلام افضل ہیں اوروہ بھی قرآن میں سے ہیں ، تم ان میں سے جس سے بھی ابتداء کروکوئی مضائقہ نہیں (وہ ہیں ) سبحان اللہ ، الحمد اللہ ، لاالہ الااللہ ، اللہ اکبر ۔(مسند امام احمد) ٭حضرت  حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سونے کا ارادہ  فرماتے تو دعاکرتے، اے اللہ میں تیرے نام سے مرتا ہوں اورزندہ ہوتا ہوں، اورجب بیدار ہوتے تو دعاکرتے تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے میرے نفس پر موت وارد کرنے کے بعد اس کو زندہ کیا اوراسی کی طرف اٹھنا ہے۔(جامع ترمذی)

Darsulquran surah al-qadr ayat 01-05 part-02.کیا قرآن کی ہماری نظر میں ک...

Shortvideo کیا آخرت پر ہمارا یقین صِفر ہے؟

پیر، 28 نومبر، 2022

شیوئہ صبرو تحمل

 

شیوئہ صبرو تحمل

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادرزیب تن فرمائے ہوئے ایک دراز گوش پر سوارتھے ۔ آپ بنو خزرج کے امیر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جارہے تھے ، یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے، آپ ایک مجلس کے قریب سے گزرے جس میں عبداللہ ابن ابی بھی موجود تھا، یہ اس وقت تک (ظاہر اً بھی)اسلام نہیں لایا تھا، اس مجلس میں مسلم، یہود اورمشرکین کے بہت سے افراد تھے اورحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی وہیں تھے، آپ کی سواری کے گزرنے سے گرد اڑی توابن ابی نے اپنی ناک پر چادر رکھ لی اورکہا ہم پر گرد نہ ڈالو، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں ٹھہر گئے ، سلام ارشادفرمایااور(سب کو)اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دی اورقرآن پاک کی آیات پڑھیں عبداللہ بن ابی نے یہ سن کر کہا ، اے شخص اس کلام سے بہتر کوئی چیز بھی نہیں ہے ، اگریہ حق ہے تو آپ ہمیں ، ہماری مجلس میں ایذاء نہ دیں، اوراپنی سواری پر واپس تشریف لے جائیں ،اورجو خود آپ کے پاس حاضر ہو، اسے سنائیے ۔حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی ، یا رسول اللہ ! آپ ہماری مجلس میں ٹھہریں ،ہم تو اس بات کو بہت مرغوب رکھتے ہیں ، اس پر مسلمان ، یہود اورمشرک ایک دوسرے سے تکرار کرنے لگے، حتیٰ کہ لڑائی کے آثار نظر آنے لگے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی تاکید کی، سب لوگ خاموش ہوگئے ، توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی سواری پر تشریف فرماہوکر وہاں سے روانہ ہوگئے ، جب آپ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو فرمایا، اے سعد! کیا تم نے بھی سنا کہ ابو حباب (عبداللہ ابن ابی)نے کیا کہا ہے، اس نے یہ ،یہ کہا ہے ، حضرت سعد نے عرض کی یا رسول اللہ !اس کو معاف فرمادیجئے ، اوراس سے درگزر فرمائیے اس ذات والا تبار کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے، بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر جو کتاب نازل فرمائی ہے، وہ حق ہے ،(بات یہ ہے کہ )اس شہر کے باسیوں نے اس فیصلے سے اتفاق کرلیا تھا کہ وہ عبداللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے ، لیکن جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو حق دے کر بھیج دیا، تویہ بات درمیان میں ہی رہ گئی، اوراسے شہر کی حکمرانی کا موقع نہیں ملا، تو وہ غصے میں ہے ، اسی وجہ سے وہ اس حرکت کا مرتکب ہواہے جو آپ نے ملاحظہ فرمائی ، اس پر آپ نے اسے معاف کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب ، اللہ کے حکم کے مطابق اہل کتاب اوریہودیوں کو معاف کردیتے اوران کی ایذاء پر صبر کرتے تھے۔ (بخاری ، مسلم ، احمدبن حنبل)

Shortvideo - دین اسلام ہی کیوں؟

Darsulquran aurah al-qadr ayat 01-05 part-01.کیا ہم اپنے آپ کو جانتے ہیں

اتوار، 27 نومبر، 2022

Darsulquran surah al-araf ayat 101.کیا ہم نے حق سے منہ موڑ لیا ہے

Darsulquran surah al-alaq ayat 06-19.کیا ہم سرکش ہیں

امتحانِ نعمت

 

امتحانِ نعمت

حضور اکرم ﷺنے فرمایا :بنی اسرائیل میں تین افراد  تھے ایک برص کا مریض ،دوسرا گنجا اور تیسرانابینا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انھیں آزمانا چاہا ۔انکی طرف ایک فرشتہ بھیجا گیا۔فرشتہ برص والے کے پاس آیا اور کہا تیری کوئی خواہش ہے وہ بولا اچھا رنگ اور اچھی جلد، کیونکہ لوگ مجھ سے گِھن کھاتے ہیں ۔فرشتے نے کہا مال کونسا پسند ہے اس نے کہا اونٹ فرشتے نے اسے دس ماہ کی گابھن اونٹنی دی اور کہا (اللہ تجھے درست کردے اور اس میں برکت عطا فرمائے ۔اور اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ درست ہوگیا پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور پوچھا تجھے سب سے زیادہ کیا بات پسند ہے ۔اس نے کہا اچھے بال اور اس بیماری کا خاتمہ کیونکہ لوگ میر ا مذاق اڑاتے ہیں ۔ فرشتے نے اپنا ہاتھ اسکے سر پر رکھا تو وہ اسکا گنج ختم ہوگیا۔  فرشتے نے پوچھا تیرا پسندیدہ مال کیا ہے۔ اس نے کہا گائے فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے عطا کی اور برکت کی دعا کی ،پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے اسکی حاجت کے بارے میں پوچھا، اسکی بینائی بھی آئی اور اسکی درخواست پر اسے ایک بکر ی دیدی اور برکت کی دعا بھی۔ اللہ نے ان تینوں کو فراوانی عطا کردی اور تینوں کے پاس انکے پسندیدہ جانوروں کا اتنا ریوڑ بن گیا کہ پوری وادی ان سے بھر گئی ۔کچھ عرصہ کے بعد فرشتہ برص کے مریض کے پاس بالکل اسکی سابقہ شکل وصورت میں مجسم ہوکر آیا اور کہامیں مسکین آدمی ہوں ۔ میرے سفر کے اسباب ضائع ہوگئے ہیں  اور آج خدا کے بعد تمہارے علاوہ  میرا کوئی سہارا نہیں ہے ۔ میں تجھ سے اس ذات کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں جس نے تجھے اتنا اچھا رنگ اور اتنی اچھی شکل وصورت ،اور اونٹوں کی صورت میں اتنا وافر مال بخشا ہے۔ مجھے کچھ زاد سفر عطا کر تاکہ میرا سفر بخیر ہو۔ اس نے کہا حقو ق بہت زیادہ ہیں میں کچھ نہیں کرسکتا ۔ فرشتے نے کہا ،شاید میں تجھے پہنچانتا ہوں کیا تو وہی شخص تو نہیں جو برص میں مبتلا تھا اور جس سے لوگ بڑی نفرت کرتے تھے ۔توحقیر اور تنگ دست تھا، پھر اللہ نے تجھے کشادگی عطا کردی ۔وہ کہنے لگا، میاں ! سب کچھ تو میں نے اپنے بڑوں سے وراثت میں پایا ہے ۔فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھے پہلے کی طرح کردے ، پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے بھی مسکین بن کر سوال کیا۔ اس نے بھی وہی معاملہ کیا جو برص کے مریض نے کیا تھا ۔ فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو تجھے بھی اللہ پہلے ہی کی طرح کردے ۔ اسکے بعد وہ اس شخص کے پاس آیا جسے اندھے پن سے شفاء مل گئی تھی ۔کہاکہ میں مسکین آدمی ہوں اور اس وقت حالتِ سفر میں ہوں۔ میر ے اسبابِ سفر ختم ہوگئے  ہیں  مجھے خدا کے بعد تمہارے سواء کوئی پرسانِ حال نظر نہیں آتا سو نامِ خدا میری مدد کرو،مجھے ایک بکری دے دو تاکہ میں اپنی ضروریات پوری کروں ۔اس نے کہا : میں نابینا اور فقیر شخص تھا۔ اللہ نے مجھ پر کرم فرمایا اور مجھے بینائی بھی عطا کی اور فراوانی بھی ۔اے مسافر تو جتنی بکریاں چاہتا ہے ،لے سکتا ہے۔ فرشتے نے کہا اللہ تجھے خوش رکھے،امتحان مقصود تھا ،اللہ تجھ سے راضی ہوااور تیرے دوستوں سے ناراض ۔(بخاری،مسلم) 

Shortvideo کون سا اسلام ہمیں جنت میں لے جائے گا؟

Shortvideo کون سا اسلام ہمیں جنت میں لے جائے گا؟

ہفتہ، 26 نومبر، 2022

Darsulquran surah al-alaq ayat 01-05 part-03. کیا ہم اللہ تعالی کے حکم ک...

انسان کی محدود سمجھ !

 

انسان کی محدود سمجھ 

مولانا جلال الدین رومی ’’ مثنوی معنوی میں ایک سپیر ے کا واقعہ بیان کرتے ہیں : کسی گائوں میں ایک سپیر ا رہا کرتا تھا ۔ اس کے پاس بڑی اعلیٰ نسل کے سانپ تھے۔ اپنی اس انفرادیت کی وجہ سے وہ بہت مشہور تھا۔ لیکن جو چیز کسی کے لیے وجہء شہرت ہوتی ہے وہی حسد اور عداوت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ سوداگر کے دوسرے سپیر ے اس سے حسد کرنے لگے اور اسی حسد نے ایک سپیر ے کو چور بننے پر مجبور کردیا ۔واقعہ کچھ یوں ہوا کہ اس سپیر ے کے ہاتھ ایک نایاب سانپ لگ گیا۔اس کی خصوصیت یہ تھی کہ جسے ڈس لیتا وہ فوراًہی دم توڑ دیتا اور اس کے جسم کا سارا خون بہہ جاتا اور کوئی بھی تریاق یا بندش کا م نہ دیتی ۔ایک دوسرے سپیر ے کو خبر ہوئی تو وہ اس کی تاک میں رہنے لگا اور ایک رات کے پچھلے پہر اسے چراکر لے گیا ۔صبح سپیر ے کو چوری کا علم ہوا تو بڑا رنجیدہ خاطر ہوا ۔ اس کے دل کو گہرا صدمہ پہنچا ۔اتنا نایاب سانپ جو کئی سال کی محنت وجستجو کے بعد ہاتھ لگا تھا، اسے اتنی آسانی سے گنوادیا ۔ سپیر ابہت اداس رہنے لگا۔ کسی دوسرے سانپ کو ہاتھ نہ لگاتا ۔ بس اسی سانپ کے خیالوں میں کھویا رہتا ۔ اسے کھوجتاپھرتا اور اللہ کے دربار میں اس کی بازیابی کی دعائیں کرتا رہتا۔اسی کیفیت میں کئی دن گز ر گئے ۔ سپیرے نے کوئی کام دھندا نہ کیا اور خود کو اس سانپ کے لیے ہلکان کرلیا۔ اس پر ایک دیوانگی سی طاری ہوگئی اور وہ اللہ تعالیٰ سے شکوٰے کرنے لگا ۔اسی طرح ایک باروہ سارا دن جنگل میں پھرتا رہا۔ جب رات کو واپس آیا تو گائوں میں ایک کہرام برپا دیکھا۔ استفسارپر معلوم ہواکہ فلاں سپیر ے کی سانپ ڈسنے سے موت واقع ہوگئی ہے۔ سپیر افوراً وہاں پہنچا ۔لوگ سپیر ے کی لاش کے اردگرد جمع تھے، سپیر ے کا کپڑا ہٹا کردیکھا تو اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ اور بولا اسے یقیینامیر ے والے سانپ نے ڈسا ہے ۔جس کی وجہ اس نے فوراً ہی دم توڑ دیا۔ دیکھو اس کے جسم سے سارا خون بہہ نکلا ہے۔ اور کسی طور پر بند نہیں ہورہا۔ یہ خصوصیت میرے گم شدہ سانپ کے زہرہی میں پائی جاتی ہے۔ سپیرا فوراً اپنے گھر بھاگا ۔گھر آکر سب سے پہلے وضو کیا ۔شکرانے کے دونفل ادا کیے ۔اور خداوندِ کریم سے اپنی گریہ زاری اور شکوٰہ ، شکایت کی معافی مانگی ۔سپیرے نے کہا :اے میرے پروردگار تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرا سانپ چوری ہوگیا۔ اگر وہ سانپ میر ے پاس ہوتا تو آج اس سپیر ے کی جگہ میری لاش پڑی ہوتی ۔میں نادان تھا کہ اپنی موت کے لیے خود دعائیں مانگ رہاتھا ۔ بلکہ جنگل بیابان میں اسے تلاش کررہاتھا۔جسے میں نے اپنا نقصان سمجھا میر ے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ ناقص انسان عقل کا دعوے دار بن جاتا ہے اور فوراً ہی اپنے حکیم اور خبیر پروردگار سے شکوٰہ شروع کردیتا ہے ۔ 

Shortvideo - پریشانی کا علاج

جمعہ، 25 نومبر، 2022

نعمت ومصیبت میں حمد

 

 نعمت ومصیبت میں حمد

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس میں خیرہی خیرہے وہ مومن ہے۔ اس لیے کہ جب اسے کوئی خوشی ملے تو وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتا ہے اور (عنداللہ ) اجر کا مستحق ہوجاتا ہے ۔اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے اور وہ صبر سے کام لے۔تب بھی اجر کا حق دار ہوتا ہے ۔پس ایک مسلمان کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ اجروثواب پر ہی مبنی ہوتا ہے۔ 

٭ حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔مجھے مومن کے معاملے پر تعجب آتا ہے اگر اسے کوئی نعمت ملے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے اور اگرکسی مصیبت میں گرفتا ر ہوجائے تو بھی اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے اور صبر کا دامن تھا مے رکھتا ہے۔ پس مومن کو اس کے ہر کام میں اجر دیا جاتا ہے ۔حتٰی کہ اسے اس لقمے پر بھی اجرو ثواب عطاکیا جاتا ہے جیسے وہ اپنی اہلیہ (و اہلِ خانہ ) کے لیے فراہم کرتا ہے ۔ 

٭ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جنہیں سب سے پہلے جنت میں داخلے کے لیے پکارا جائے گا وہ لوگ ہوں گے جو رنج وراحت میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا ء کرتے رہے۔ 

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :حمد باری تعالیٰ شکر کی اصل ہے۔ جس بندے نے اللہ کی حمد نہ کی وہ اس کا شکر بھی ادانہ کرسکا ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افضل الذکر لاالہ الا اللہ ہے اور افضل الدعا’’الحمد اللہ ‘‘ ہے۔ 

٭ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جسے چار چیزیں ملیں اسے دنیا اور آخر ت کی بھلائی مل گئی۔ (۱) شکر گزار دل (۲) ذکر کرنے والی زبان(۳) مصیبت پر صبر کرنے والا جسم (۴) اپنی عزت وعصمت اور شوہر کی دولت کے معاملے میں وفادار بیوی۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ عز وجل ارشاد فرماتا ہے : میرامومن بندہ تو سراپا خیر ہے ۔ وہ اس وقت بھی میری حمد میں مشغول ہوتا ہے ، جب میں اس کے پہلو سے اس کی جان قبض کرتا ہوں ۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مومن کی روح نکل رہی ہوتی ہے تو وہ اس وقت بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدوثنا ء کرتا ہے۔ ( امام بیہقی: کتاب الآداب )


Darsulquran surah al-araf ayat 97-99 part-02.کیا ہم زندگی فضولیات میں گز...

جمعرات، 24 نومبر، 2022

Darsulquran surah al-alaq ayat 01-05 part-01. وحی کی ضرورت کیا ہے

آیت الکرسی کا مفہوم

 

آیت الکرسی کا مفہوم

”اللہ وہ ہے کہ اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہے، سب کو زندہ رکھنے والا ہے ، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اورنہ نیند، جو آسمانوں میں ہے اورجو کچھ زمین میں (سب کچھ )اسی کا ہے، کون ہے جو اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر (کسی کی )سفارش کرسکے، (اللہ )جانتا ہے جو ان سے پہلے (ہوچکا )ہے اورجو ان کے بعد(ہونے والا)ہے اوروہ اس (اللہ )کے علم میں سے کسی (بھی)شیءکا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے، اسکی کرسی آسمانوں اورزمین کو محیط ہے، اوراسے زمین وآسمان کی حفاظت تھکاتی نہیں ہے ، اوروہی ہے سب سے بلند،عظمت والا“۔ (البقرہ ۲۵۵)آیت الکرسی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں قرآن پاک کی سب سے عظیم آیت فرمایاگیا ہے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ، جو شخص ہر فرض نماز کے بعدآیت الکرسی کی تلاوت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو دوسری نماز تک اپنی حفاظت میں رکھتا ہے اور آیت الکرسی کی حفاظت صرف نبی ، صدیق یا شہید ہی کرتا ہے۔ (شعب الایمان)یہ آیت مبارکہ اللہ کی ذات اورصفات کے بیان میں ایک جامع آیت ہے ، ارشاد فرمایا کہ اللہ کے سواءکوئی ذات عبادت اوربندگی کی مستحق نہیں ہے ، اللہ، باری تعالیٰ کا اسم ذاتی ہے، اوریہ لفظ ان تمام صفات کا جامع ہے جو متعدد صفاتی اسماءحسنیٰ میں الگ الگ پائی جاتی ہیں ، وہ ”حیی“ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ ہمیشہ رہے گا، موت اور فنا کے نقص سے بالکل پاک ہے، وہ قیوم ہے ،جو ازخود قائم ہے ، اور دوسروں کو قائم کرنے والا ہے ، وہ ہستی ہے جو کائنات کی ہر چیز کی تخلیق ، نشوونما اوربقاءکی تدبیر فرمانے والی ہے ، اور اسکی قیومیت کا تعلق کائنات کی ہر ایک چیز سے ایک ہی طرح کا ہے ، وہ اونگھتا نہیں کہ کسی بھی وقت اس کی قیومیت کا تعلق کمزور ہوجائے وہ سوتا بھی نہیں کہ یہ تعلق بالکل ہی منقطع ہوجائے زمین وآسمان میں جو کچھ بھی ہے ، وہ اسی کا ہے اورسب کا خالق ،مربی ،مالک اور معبود وہی ہے ، پھر کون ہے جو اسکی ہمسری کا دعویٰ کرسکے اورکون ہے جو قیامت کے دن اسکی بارگاہ میں کسی کی سفارش کرسکے ، الاوہ خوش بخت ، جس پر اللہ کی عبادت ، بندگی ،عاجزی ،انکساری اورعلم ومعرفت کی وجہ سے اللہ کا فضل ہوجائے ،اللہ اسے اپنے کرم سے عزت عطاءفرمائے اوروہ اسکے دربار میں سفارش اور لب کشائی کا شرف حاصل کرلے، اللہ رب العزت کا علم کائنات کی ہر چیز پرمحیط ہے، اورکسی میں یہ طاقت نہیں کہ اسکے علم میں سے کچھ بھی حصہ اسکی اجازت کے بغیر حاصل کرسکے، اسکے علم اوراسکی حکومت کی کرسی نے تمام کائنات کو گھیر رکھا ہے اورہر چھوٹی ، بڑی ،ظاہر اور پوشیدہ چیز اسکے سامنے عیاں ہے، اوروہی سب سے بلند اورہر عظمت کا حامل ہے۔

shortvideo - ہم کیوں پریشان ہیں؟

بدھ، 23 نومبر، 2022

Darsulquran surah al-araf ayat 97-99 part-01.کیا ہم اللہ تعالی کی پکڑ سے...

دعا(۲)

 

دعا(۲)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سواری پر آپ کے عقب میں بیٹھا ہواتھا، آپ نے ارشادفرمایا: اے فرزند! میں تمہیں چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں، تم اللہ رب العزت کے حقوق کی حفاظت کرو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا، تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو تم اللہ کی تقدیر کو اپنے سامنے پائو گے، جب تم سوال کرو تو اللہ تبارک وتعالیٰ سے سوال کرواورجب تم مددچاہو تو اللہ رب العزت سے مدد چاہو۔ (ترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تم اپنی ہر حاجت کا اللہ تعالیٰ سے سوال کرو حتیٰ کہ جوتی کے تسمہ ٹوٹنے کا۔(جامع ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے یہں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس شخص کو اس بات سے خوشی ہو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سختیوں اورمصیبتوں میں اس کی دعاء قبول کرے، تو اسے چاہیے کہ وہ عیش وآرام میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں کثرت سے دعاء کرے۔(جامع ترمذی)

امیر المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک یہودی خاتون آئی، اورکہنے لگی ،پیشاب کی وجہ سے عذاب قبر ہوتا ہے ، میں نے کہا تم جھوٹی ہو، اس نے کہاکیوں؟ ہم لوگ تو کھال اورکپڑے کو پیشاب لگنے کی وجہ سے کاٹ دیا کرتے تھے، (اس گفتگو کی وجہ سے)ہماری آوازیں بلند ہورہی تھیں ، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز کے لیے تشریف لے جارہے تھے، آپ نے ہم سے پوچھا کیا بات ہے؟ اس پر میں نے سارا واقعہ عرض کردیا ،آپ نے فرمایا: وہ عورت سچ کہتی ہے ، اس دن کے بعد آپ ہر نماز کے بعد یہ دعاکرتے ، اے جبرائیل اور میکائیل کے رب مجھے آگ کی گرمی اورقبر کے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھ۔(سنن نسائی)

حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے جب بھی تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز اداکرنے کی سعادت حاصل کی تو آپ کو نماز کے بعد یہ دعاکرتے ہوئے سنا: اے اللہ میری تمام خطائوں اورگناہوں کو بخش دے ، اے اللہ مجھے ہلاکت سے بچا، میرے ٹوٹے ہوئے کام جوڑدے، اورمجھے نیک اعمال اوراخلاق کی ہدایت دے، تیرے سواء نیک اعمال کی ہدایت دینے والا اوربرے اعمال سے بچانے والا کوئی اورنہیں۔(مجمع الزوائد ، طبرانی)

Darsulquran surah At-tin ayat 01-08 part-04. کیا ہمارا رخ اسفل سافلین کی...

Darsulquran surah At-tin ayat 01-08 part-04. کیا ہمارا رخ اسفل سافلین کی...

Shortvideo - دین کس لئے؟

Darsulquran surah Al-araf ayat 96 part-02. اس وقت کیا ہم اپنے اعمال کے س...

منگل، 22 نومبر، 2022

Shortvideo - دین کا مقصد کیا ہے؟

Darsulquran surah at-tin ayat 01-08 part-03.کیا ہم نے پستیوں کو اپنی منز...

دعا(۱)

 

دعا(۱)

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادگرامی ہے:’’ اور(اے حبیب مکرم !) جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں (تو آپ فرمادیں کہ )بے شک میں ان کے قریب ہوں ، دعاکرنے والا جب مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعاقبول کرتا ہوں، تو چاہیے کہ وہ (بھی)میرا حکم مانیں اورمجھ پر ایمان رکھیں تاکہ وہ ہدایت سے ہمکنارہوجائیں ‘‘۔( البقرہ ۱۸۶)

 جب یہ آیت نازل ہوئی، مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاء قبول کروں گا توصحابہ کرام نے سوال کیا کہ ہم کس وقت دعاکریں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن جریری طبری)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے۔ دعاعبادت کا مغز ہے ۔(جامع ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے سوال نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔(جامع ترمذی)حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب حیاء والا ، کریم ہے ، جب اس کاکوئی بندہ اس کی طرف (دعاکے لیے ) اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ ان کو خالی لوٹا نے سے حیاء فرماتا ہے۔(جامع ترمذی، سنن ابودائود)

حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جب تم اللہ ذوالجلال والا کرام سے سوال کروتو(عاجزی اورانکساری کے ساتھ)اپنی ہتھیلیوں کے باطن سے سوال کرو، ہتھیلیوں کی پشت سے سوال نہ کرو۔(سنن ابودائود )

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں اپنے دستِ مبارک بلند فرماتے اورانھیں نیچے نہ گراتے حتیٰ کہ انھیں اپنے چہرہ اقدس پر مَل لیتے ۔(جامع ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں ہمارے کریم پروردگار ہر رات کے آخری حصے میں (اپنی شان کے مطابق)آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے کہ کون مجھ سے دعاکرتا ہے کہ میں اسکی دعاء قبول کروں؟کون مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اس کو عطاء کروں ، اورکون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت فرمادوں ۔(صحیح بخاری)

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا کہ یارسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم)کس وقت دعاء زیادہ مقبول (ومستجاب )ہوتی ہے توآپ نے ارشاد فرمایا رات کے آخری پہر میں اورفرض نمازوں کے بعد۔(جامع ترمذی)

پیر، 21 نومبر، 2022

Darsulquran surah Al-Araf ayat 96 part-01.ہمیں سچی خوشی کیسے مل سکتی ہے

بے جا سوال کرنا


 

بے جا سوال کرنا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے ، جو شخص اپنے مال میں اضافہ کرنے کیلئے لوگوں سے سے سوال کرتا ہے وہ (حقیقت میں جہنم کے )انگاروں کا سوال کرتا ہے، خواہ کم سوال کرے یا زیادہ ۔(صحیح مسلم) حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا، تین افراد کے علاوہ اورکسی بھی شخص کیلئے دستِ سوال دراز کرنا جائز نہیں ہے، ایک وہ شخص جو مقروض ہو ، اس کیلئے اتنی مقدار کا سوال کرنا جائز ہے ، جس سے اس کا قرض اداہوجائے اس کے بعد اس کو سوال سے رک جانا چاہیے ، دوسرا وہ شخص جس کا مال کسی ایسے ناگہانی حادثے کا شکار ہوگیاہو، جس کی وجہ سے اس کا مال اسباب تباہ ہوگیا ہو، اس کیلئے اس مقدارکا سوال کرنا جائز ہے جس سے اس کا گزارہ ہوجائے، تیسرا وہ شخص جو فاقہ زدہ ہواوراس کے قبیلہ کے تین سمجھ دار(اور معتبر) افراد شہادت دیں کہ واقعی یہ فاقہ زدہ ہے ، تواس کیلئے بھی اتنی مقدار کا سوال کرنا جائز ہے، جس سے اس کی گزراوقات ہو جائے اوراے قبیصہ ! ان تین اشخاص کے علاوہ باقی کسی اور کیلئے سوال کرنا حرام ہے،اوران افراد کے علاوہ جو فرد بھی سوال کرتا ہے وہ حرام کھاتا ہے۔(صحیح مسلم)

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ، جس شخص نے سوال کیا جبکہ صورت حال یہ تھی کہ اس کے پاس اتنا مال موجود تھا ، جو اس کو سوال سے مستغنی کرسکتا تھا ، وہ جہنم کے انگارے جمع کرتا ہے ، راوی نے استفسارکیا مال کی کتنی مقدار انسان کے پاس موجود ہوتو اس کو سوال سے گریز کرنا چاہیے؟ آپ نے وضاحت فرمائی جس کے پاس صبح اورشام (دو وقت)کا کھانا ہو، وہ سوال نہ کرے ایک اورروایت میں ہے، جس کے پاس اتنا کھانا ہو کہ وہ ایک دن اورایک رات سیر ہو کر کھاسکے وہ سوال نہ کرے۔(ابودائود)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ، مال دار کیلئے صدقہ لینا جائز ہے ، اورنہ صحیح الاعضاء اورطاقتِ (کسب ومحنت)رکھنے والے کیلئے ۔(سنن ابودائود)

اسلام نے اغنیاء کو صدقہ وخیرات کی بڑی ترغیب دی ہے بلکہ عام انسان کو بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی فضیلت سے آشناکیا ہے ، لیکن اسکے ساتھ مسلمان کو غیرت اوروقار کی تعلیم بھی دی ہے ، بے جاء سوال کرنے اورہر کس وناکس کے سامنے ہاتھ پھیلانے  سے انسان کی شخصیت مجروح ہوتی ہے ، لیکن ہم دیکھتے ہیں ہمارے معاشرے میں پیشہ ورانہ گداگری اپنے عروج پر ہے، اورزندگی کے بے شمار شعبے ایسے ہیں جہاں متعین تنخواہ دار لوگ بھی آنے جانے والوں سے بڑی لجاجت سے سوال کرتے ہیں۔

Darsulquran surah at-tin ayat 01-08 part-02.کیا ہم نے اپنے آپ کو پہچان ل...

Shortvideo - نماز کا مقصد کیا ہے؟

اتوار، 20 نومبر، 2022

سورۃ بقرہ کے مضامین (32)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (32)

سورہ بقرہ میں حضرت عزیر علیہ السلام اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوروحانی تجربات کا تذکرہ کیاگیا ہے ، جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندگی اورموت کے بارے میں اپنی قدرت کے سربستہ اسرار سے انھیں آگاہ فرمایا اوریقین ومعرفت کی نئی منازل سے آشنا کیا۔ ساتویں صدی قیل مسیح میں بابل (مملکت ایران وعراق)میں بخت نصرکا ظہورہوا اس نے اپنی جابرانہ اور قاہرانہ طاقت سے قرب وجوار کی تمام مملکتوں کو مسخر کرلیا اور تھوڑے عرصے میں فلسطین پر تین حملے کرکے بنی اسرائیل کا شیرازہ بکھیر کررکھ دیابڑی  تعداد میں انسان تہہ تیغ کردیے گئے۔ ایسے میں ایک برگزیدہ انسان (غالب روایت کیمطابق) حضرت عزیر علیہ السلام سفر پہ نکلے اورایک تباہ شدہ ، خستہ حال بستی کے پاس سے گزرے ، پراگندہ حال لاشیں بکھیری ہوئی تھیں، جن کی ہڈیاں خستہ اورگوشت بکھرچکا تھا، انکے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ اللہ ان اجسام کو قیامت میں دوبارہ کیسے زندہ کریگا؟ اللہ کے نبی کا سوال شک کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ کی معرفت کا جو یاں ہوتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے ان پر موت طاری کردی اوروہ سوسال کے بعد دوبارہ زندہ کیے گئے ، تو ان سے سوال ہوا کہ آپ یہاں کتنے عرصے تک دراز رہے، انھیں یہی محسوس ہوا کہ سوچتے سوچتے انکی آنکھ لگ گئی اورتقریبا ایک دن یا اسکا اکثر حصہ انھوں نے نیندکے عالم میں گزاردیا، انھوں نے یہی بیان کیا، تو انھیں مطلع کیا گیا کہ آپ تو یہاں پر پورے ایک سوسال تک دراز رہے اوراسکی دلیل اپنے سامنے ملاحظہ کیجئے کہ آپ کا سامان خوردونوش اسی طرح تروتازہ ہے گویا اس پر ابھی ایک مکمل دن نہیں گزرا، جبکہ آپ کا گدھا مرچکا ہے، اوربوسیدہ ہوکر گل سڑھ گیا ہے اوردیکھواب اسے ہم تمہارے سامنے کس طرح دوبارہ زندہ کرتے ہیں،کس طرح اسکی بوسیدہ ہڈیاں توانا ہو جائینگی ، آپس جڑ جائینگے اوران پر گوشت کا غلاف چڑھ جائیگا، اللہ کی قدرت کا یہ عظیم الشان مظاہرہ دیکھا تو انکی زبان سے بے ساختہ نکلا میں (حق القین کے مقام پر پہنچ کر)اچھی طرح جان گیا کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔حضرت ابراہیم ؑنے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سوال کیا کہ اللہ مجھے یہ مشاہدہ کروادے کہ تیری قدرتوں والی ذات مردوں کو کیسے زندہ کردیگی، ان سے سوال کیاگیا کیا تمہیں اس بات پر ایمان نہیں ہے آپ نے عر ض کی، کیوں نہیں۔ لیکن میں تو اپنے دل کے اطمینان کیلئے یہ سوال کررہا ہوں۔ آپکو حکم دیاگیا کہ چار پرندوں کو خود سے مانوس کرلیں ، پھر انھیں ذبح کریں  انکے گوشت کو باہم ملادیں اورارگرد کی پہاڑیوں پر پھینک دیں اورپھر انھیں آواز دیجئے ، وہ دوڑتے ہوئے آپکے پاس آجائینگے ۔مانوس کرنے کا حکم اس لیے تھا کہ نہ سمجھا جائے کہ کوئی اور پرندے بھی ہوسکتے ہیں، اسی طرح ہوا، جب آپ نے انھیں آواز دی تو اللہ کی قدرت سے انکے ریز ے دوبارہ یکجا ہوگئے ان میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اوروہ آپکی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

Darsulquran surah al-araf ayat 93-95.کیا ہمارے دل پتھر کی مانند سخت ہو چ...

Darsulquran surah at-tin ayat 01-08 part-01.اللہ تعالی کی مخلوقات میں ان...

Shortvideo - نیکی کا آغاز کب ہوتا ہے؟

ہفتہ، 19 نومبر، 2022

Darsulquran surah Al-Araf ayat 90-92.کیا ہمارے اندر اسلام کا کوئی ذرہ ہے

سورۃ بقرہ کے مضامین (31)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (31)

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت توحید کی خبر اس زمانے کے بادشاہ نمرود تک پہنچی تو اس نے آپکو پرسش کیلئے اپنے دربار میں بلوالیا، نمرود عراق کا مطلق العنان بادشاہ تھا، اس زمانے کے بادشاہ اپنے آپ کو دیوتا کے ’’اوتار‘‘کی حیثیت سے پیش کرتے تھے ، چین ، ہندوستان ،  مصر میں یہ چلن عام تھا، یعنی انکی قوم میں جن دیوتا ئوں کی پرستش کی جاتی ، بادشاہ ان میں سے بڑے دیوتا کامظہر سمجھاجاتا ہے، اس طرح بادشاہ کو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کا اقتدار حاصل ہوجاتا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم مظاہر قدرت کی پوجا کرتی تھی ، سورج ، چاند ، ستارے انکے معبود تھے،اوربت اور بادشاہ انکے مظہرارضی۔ نمرود نے جب حضرت ابراہیم ؑکی دعوت کے بارے میں سنا تو اس کیلئے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ اسکی مزعومہ خدائی میں کسی اورکی الوہیت کی دعوت دی جائے۔ قرآن نے ارشاد فرمایا : کہ اسے اقتدار اور بادشاہت اللہ نے عطاء فرمائی تھی لیکن اکثر صاحبان اقتدار غرور اورتکبر کا شکا ر ہو جاتے ہیں اورشکر وعاجزی کا طریقہ اختیار کرنے کی بجائے، تکبر وسرکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، اقتدار ومملکت کو اللہ رب العزت کا فضل وکرم سمجھنے کی بجائے اپنے ، علم ، تدبر اورسیاست کا ثمرہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔نمرود نے جب حضرت ابراہیم ؑسے استفسار کیاکہ آپ کس پروردگار کی پرستش کی بات کرتے ہیں تو آپ نے ارشادفرمایا، میرا رب وہ ہے جس کی اختیار میں زندگی اورموت ہے ، جو سلیم الفطرت شخص میں زندگی اور موت کے نظام پر غور کریگا وہ اس حقیقت کوپالے کہ یہ نہ تو اسکے اپنے اختیار میں ہے اورنہ ہی اس جیسی کسی اور مخلوق کی دسترس میں، جن لوگوں کو طب وحکمت سے بڑی شناسائی ہوتی ہے وہ بھی موت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ جن لوگوں کو الوہی اختیار کا دعویٰ ہوا ہے وہ بھی ایک عالم بے چارگی میں موت کے گھاٹ اتر گئے ، لیکن نمرود کے دماغ میں چونکہ اقتدار کا خنّاس سمایا ہوا تو، اس لیے اس نے اس واضح حقیقت کو غوروفکر کرنے کی بجائے یہ بے تکی بات کہہ دی کہ موت اورزندگی پر تو میں بھی اختیار رکھتا ہوں جسکا سرچاہوں قلم کردوں، جسکے بارے میں چاہوں موت کا حکم صادر کردوں ، جسے چاہوں بخش دوں اورعین تختہ دار پر سے اسے واپس بلالوں یا جلاد کی اٹھی ہوئی تلوار کو واپس نیام میں رکھنے کا حکم دے دوں ، حضرت ابراہیم ؑکی دلیل میں جو لطافت تھی، نمرود کی بات اسکے بالکل برعکس تھی، آپ اس پر معارضہ فرما سکتے تھے، لیکن آپ سمجھ گئے کہ یہ کٹ حجتی پر اترآیا ہے۔اس لیے آپ نے بحث وتکرار میں الجھنے کی بجائے اپنے پاک پروردگار کادوسرا وصف بیان فرمادیا، آپ نے فرمایا میرا رب تو وہ ہے جو ہرروز سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اگر تمہیں بھی پندار خدائی ہے تو تم اس کو مغرب سے طلوع کرکے دکھادو، آپکی ناقابل تردید دلیل سن کر نمرود ہکا بکا ہوکر رہ گیا۔ اس دلیل میں جہاں اسکی بے بسی کی مکمل عکاسی تھی، وہیں پرانکے مذہبی رحجانات اورسورج ،دیوتا کانام نہاد اوتار ہونے کی قلعی بھی کھول کررکھ دی گئی تھی۔

Shortvideo کیا ہم نے گھاٹے کا سودا کر لیا ہے؟

Darsulquran surah Ash-Sharh ayat 01-08 part-02.کیا ہم اپنے رب سے خاص طور...

جمعہ، 18 نومبر، 2022

Darsulquran surah Al-Araf ayat 88-89. کیا ہم قوم شعیب کے راستے پر نکل چک...

سورۃ بقرہ کے مضامین (30)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (30)

حضرت دائود علیہ السلام ، اللہ رب العزت کے مقرب اوراولعزم رسولوں میں ایک ہیں ، آپ کا ظہورِ عام اس وقت ہوا جب طالوت کی جماعت ،جالوت کے مقابل صف آراء تھی، آپ اس وقت جوان تھے، اورباقاعدہ طور پر لشکر میں شامل نہیں تھے ، بلکہ آپکے والد نے آپ کو بھائیوں اوردیگر افراد کی خبر گیری کیلئے بھیجا تھا، لیکن جب آپ نے جالوت مبارزت آرائی اوربنی اسرائیل کی قلتِ تعداد کودیکھا تو آپ سے نہ رہا گیا ، آپ نے طالوت سے اجازت چاہی کہ انھیں جالوت کے چیلنج کاجواب دینے کا موقع دیا جائے ، طالوت نے ان کی کم عمری اورناتجربہ کاری کے پیش نظر پس وپیش کیا مگر آپکا اصرار بڑھتا ہی رہا آخر کار اسے اجازت دینی ہی پڑی ، حضرت دائود علیہ السلام آگے بڑھے اورجالوت کو للکارا ، اس نے ایک نوجوان کواپنے مقابل پاکر زیادہ توجہ نہ دی لیکن جب آپکی پیش قدمی جاری رہی اوروہ آپ سے نبرد آزما ہواتو اسے آپکی خدادادقوت کا اندازا ہوا۔ آپ نے لڑتے لڑتے اپنی گوپھن سنبھالی اورتاک کر پے درپے تین پتھر اسکے سرپر مارے ، اس کا سر چٹخ کررہ گیا آپ نے آگے بڑھ کر اسکا سرقلم کردیا، جالوت کا یہ انجام دیکھ کر اسکی فوج کے پائوں اکھڑگئے اوربنی اسرائیل کو فتح مبین نصیب ہوئی۔ اسرائیلی روایات  کیمطابق طالوت نے اعلان کررکھا تھا کہ جو شخص جالوت کو کیفرکردار تک پہنچائے گا اسکے ساتھ اپنی صاحبزادی کو بیاہ دیگا اور اپنی نصف سلطنت کا اختیار اسے بخش دیگا، اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ؑ کو نبوت اورحکمت سے بھی سرفرازفرمایا ، آپ سے پہلے نبوت اورسرداری الگ الگ قبیلوں میں ہوتی تھی، آپکی ذات ستودہ صفات میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور سلطنت دونوں کو جمع کردیا، طالوت کی وفات کے بعد آپ بنی اسرائیل کے بلاشرکت غیرے حکمران بن گئے۔ قرآن نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سب رسول نفس رسالت میں اورتمام انبیاء نفس نبوت میں برابر ہیں ، لیکن فضائل وکمالات ، مراتب ومقامات ، معجزات و مکرمات میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں، اہل اسلام کو تعظیم نبوت کا خوبصورت متوازن عقیدہ دیاگیا ، مسلمان انبیاء کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے ، سب اللہ کے فرستادہ اورمستقل بذات نبی ہیں اور تمام انبیاء انسانی کمالات کی معراج پر ہیں ، لیکن کس کو ایک کمال میں امتیاز خاص دیاگیا ، کسی کو دوسرے خاص شرف سے مشرف فرمایا گیا ، ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ سے کلام کا شرف بھی حاصل ہواہے ، اورذات پاک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کرام میں ممتاز ترین ہے۔ لیکن اہل اسلام فضیلت کے موضوع پر اس احتیاط سے کلام کرتے ہیں کہ کسی ایک کی شان بیان کرنے سے دوسرے کی شان میں کمی کا تاثر ہر گز نہ ابھرے ۔
آیت الکرسی : حدیث پاک میں ہے جو شخص ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے اس کو جنت میں داخل ہونے سے موت کے سواکوئی چیز مانع نہیں ہوگی۔وہ مرتے ہی جنت میں داخل ہوجائیگا۔(سنن نسائی)

Shortvideo - انسان کی منزل کیا ہے؟

Darsulquran surah Ash-Sharh ayat 01-08 part-01. کیا دعوت الی اللہ کی ذمہ...

جمعرات، 17 نومبر، 2022

سورۃ بقرہ کے مضامین (29)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (29)

جب بنی اسرائیل کا تذبذب ختم نہ ہوا کہ طالوت کو ہمارا حاکم کیوں مقرر کیاگیا ہے تو انھوں نے حضرت شموئیل ؑسے مطالبہ کیا کہ طالوت کا انتخاب منجانب اللہ ہے تو  ،خدا کی طرف سے کوئی نشانی دکھائیے ، آپ نے ارشادفرمایا:  تمہیں کوئی تصدیق مطلوب ہے تو،اتمام حجت کیلئے  وہ بھی تمہارے سامنے پیش ہورہی ہے اوروہ یہ ہے کہ تابوت سکینہ ، اللہ کے فرشتے تمہارے پاس لیکر آرہے ہیں  تابوت سکینہ ، متبرک تابوت کا نام ہے جسکے مشمولات کی تفصیل قرآن پاک نے بیان نہیں کی ، کہاجاتا ہے کہ اس میں انبیائے کرام کے تبرکات محفوظ تھے۔ بنی اسرائیل دشمنوں  سے جنگ میں اسے آگے آگے رکھتے ، اوراسکے وسیلے سے اللہ رب العزت سے فتح وکامرانی کی دعاء کرتے ، جب انکے معاملات میں ابتری پیدا ہوگئی تو یہ انکے دشمن عمالقہ ان سے چھین کرلے گئے، لیکن جس بستی میں اسے رکھا گیا ، اسکی توہین کی وجہ سے وہاں مختلف قسم کی ابتلائیں آنے لگیں، انھوں نے فیصلہ کیا گیا ، اسے یہاں سے نکال دیا جائے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اسے ایک رتھ پر رکھ کر ہانک دیا، وہ بیل چلتے رکھے اورفرشتے اسکی مخالفت کرتے رہے یہاں تک وہ بنی اسرائیل کے پاس آگئے ، بنی اسرائیل نے جب تابوت سکینہ کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور انھوں نے طالوت کو اپنا حاکم تسلیم کرلیا۔اقتدار سنبھالنے کے بعد طالوت نے بنی اسرائیل کی شیراز بندی شروع کی، انھیں حضرت شموئیل ؑکی روحانی رہنمائی بھی حاصل تھی، جب معاملات استوار ہوگئے تو انھوں نے عمالقہ کے بادشاہ جالوت سے نبردآزما ہونے کا فیصلہ کیا، روانگی کے وقت طالوت نے لشکریوں سے کہا کہ عنقریب تمہیں ایک دریا کی وجہ سے امتحان میں مبتلاکیا جائیگا، جس نے سیر ہوکر اسکا پانی پی لیا وہ میرے طریقے پر نہیں ہوگا، اور اگر ناگزیر محسوس ہوتو بس چلو بھر پانی سے حلق ترک لینا، تمام لشکرمیں سے صرف چار ہزار افراد ایسے تھے تو اس ہدایت پر عمل کرسکے، جن لوگوں نے خلاف ورزی کی ان پر جالوت کی ہیبت طاری ہوئی کہ انھوں نے لڑنے سے انکار کردیا، اور جب  دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو ان چار ہزار میں سے اکثر افراد بھی ہمت ہار بیٹھے اورمیدان جہاد سے فرار ہوگئے اورلشکر کی تعداد تین سوتیرہ رہ گئی ، جو کہ اصحاب بدرکی تعداد کے برابر ہے، لیکن وہ اہل ہمت تھے ، قرآن کے الفاظ میں ’’جن لوگوں کویقین تھا کہ وہ اللہ سے ملاقات کرنیوالے ہیں انھوںنے کہا، کہ کئی بار ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے قلیل جماعتیں کثیر جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں اوراللہ صبر کرنیوالوں کیساتھ ہے، (۲۴۹/۲) جب جالوت کے لشکر کے سامنے صف آراء ہوئے تو دست دعا کی ’’اے ہمارےرب  ہم پر صبر کو فراغ کردے ، ہمیں ثابت قدم رکھ اورہمیں کافروں پر نصرت عطاء فرما(۲۵۰/۲)۔

Darsulquran surah Ad-Dhuha ayat 09-11.کیا ہم اپنے رب کے ناشکرے ہیں

Shortvideo - کیا ہمیں اپنے راستہ بھٹکنے کا اندازہ ہوسکتا ہے؟

بدھ، 16 نومبر، 2022

سورۃ بقرہ کے مضامین (28)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (28)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصال کے ساڑھے تین سوسال بعد کا واقعہ بیان کیاگیا ، حضرت موسیٰ ؑکے بعد بنی اسرائیل کے خاندانوں اور قبیلوں پر سردار حکومت کرتے ، قاضی انکے فیصلے کرتے اورانبیائے کرام تمام امور کی نگرانی کیساتھ تبلیغ و تربیت کی خدمات بھی سرانجام دیتے  حضرت الیسع ؑکا وصال ہوگیا تو مصر اورفلسطین کے درمیان بحرروم کے ساتھ آباد عمالقہ میں سے ایک جالوت نامی ظالم وجابر حکمران ان پر حملہ آور ہوا، بہت سے سرداروں کو تہہ تیغ کردیا ، بہت لوگوں کو قیدی بناکر ساتھ لے گئے ، باقیوں کو مغلوب ومقہود کرکے خراج مقرر کردیا اور تورات بھی ناپید ہوگی، اس نازک دور حضرت شموئیل ؑ پیدا ہوئے، بنی اسرائیل کے ایک برگزیدہ شخص نے انکی تربیت کی اوریہ تورات کی تعلیم اورحفظ سے بھی بہرور ہوئے، اللہ رب العزت نے انھیں بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمادیا، اس وقت بنی اسرائیل کی مرکزیت مفقود تھی، اورحکومت محض راملہ اورگردونواع کے علاقوں تک محدود تھی، حضرت شموئیل انھیں مقدور بھر ہدایت کا راستہ دکھاتے رہے ، جب وہ بہت کہن سال ہوگئے تو بنی اسرائیل نے بہت اصرار کیاکہ آپ ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے ایک ملک (سردار) مقرر کروادیں ، تاکہ وہ عمالقہ کے ظلم وجور سے نجات حاصل کریں اوراپنے اقتدار اور اپنی عظمت رفتہ کو بازیاب کروالیں حضرت شموئیل علیہ السلام انکی عادات اوراطوار سے بڑی اچھی طرح واقف تھے، کہ یہ لوگ دعوئے تو بہت بلندبانگ کرتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو ان کا سار اجوش وخروش سرد پڑ جاتا ہے اوریہ اپنے قول وقرار کی پاسداری سے مقر جاتے ہیں ،اس لیے آپ نے ارشادفرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہارا ایک حکمران مقرر ہوجائے اور تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد فرض ہوجائے، اورتم جہاد سے منہ موڑ جائو،اورحیلے بہانے کرنے لگو۔ انھوں نے کہا: حضرت ایسا کس طرف ممکن ہے ہمیں گھروں سے نکالا گیا ہے ، اپنے بال بچوں سے جداکردیا گیا ہے ہم تو بس اذنِ ربانی کے منتظر ہیں لیکن جب انھیں اجازت مل گئی تو گنتی کے چند افراد کے سواء سب نے انکار کردیا، جب حکمران مقرر کرنے کیلئے ان کا اصرار بڑھا تو حضرت شموئیل نے فرمایا:اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو سردار بنادیاہے ۔ بنی اسرائیل میں بالعموم انبیاء حضرت لاوی بن یعقوب ؑ، اورسردار حضرت یہود ابن یعقوب ؑکے نسل سے چلے آرہے تھے جبکہ حضرت طالوت کاتعلق حضرت بنیامین کی نسل سے تھا، بنی اسرائیل نے حسب عادت اعتراض کرنا شروع کردیا یہ تو نادار اورغریب قبیلے سے ہے یہ ہمارا سردار کیسے بن سکتا ہے ،حضرت شموئیل علیہ السلام نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے تم پربرگزیدہ کیا ہے اوراسے تم پر علمی فوقیت بھی عطاء کی ہے اور جسمانی برتری بھی، حضرت طالوت کی عمر اس وقت تیس سال تھی، یہ حسن وجمال میں بے نظیر اورعلم وشجاعت میں فرد تھے ، قامت کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ دوسرے لوگ بمشکل ان کے کاندھوں تک پہنچتے تھے۔

Darsulquran surah Ad-Dhuha ayat 06-08.کیا ہدایت مکمل ہے

Shortvideo - کیا ہم اپنا تزکیہ نفس خود کر سکتے ہیں؟

منگل، 15 نومبر، 2022

سورۃ بقرہ کے مضامین (27)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (27)

اسلام سے پہلے عربوں میں شراب اورجوئے کا چلن عام تھا، نتیجہ میں دوسری بہت سی قباحتیں بھی درآئی تھیں۔ اسلام کی تعلیمات جیسے جیسے عام ہونے لگیں ، ویسے ویسے سلیم الفطرت لوگوں کو برائیوں کا وجود بھی کھٹکنے لگا ، بعض صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے جوئے اورشراب کے بارے میں سوال کیا کہ ایسی چیز جو عقل کو زائل کردے اورمال ودولت کو برباد کردے، اسکے بارے میں کیا حکم ہے، حضور انور ﷺ کی بابرکت صحبت اورتعلیم وتربیت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین میں ایسی چیزوں کے بارے میں احساس پیدا ہونا ضروری بھی تھا، وہ سمجھ گئے تھے کہ اسلام جن نیکیوں اورخوبیوں کا حکم دیتا ہے، اسکے برعکس شراب اورجوئے کے استعمال سے عقل کا زیاں ہوتا ہے، انسان بدکلامی اورگناہ کی طرف مائل ہوتا ہے، سورہ بقرہ میں شراب اورجوا کی حرمت کیلئے گویا کہ اَذہان کی تیاری کا آغاز ہوا،اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا کہ (اے نبی )لوگ آپ سے شراب اورجوئے کے بارے میں استفسار کرتے ہیں انھیں فرمادیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اوربظاہر اس میں لوگوں کیلئے فائدہ بھی ہے لیکن ان کا گناہ اس فائدے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔(۲۱۹)اس آیت مبارک میں جس فائدے کا ذکر کیاگیا وہ انکے ایک رواج کی طرف اشارہ ہے ،جب کبھی عرب میں قحط پڑجاتا خاص طور پر موسم سرما میں تو عرب کے کچھ سخی اورمخیر حضرات اکھٹے ہوتے ، خوب شراب پیتے ، پھر شراب کی مستی میں جس کسی کے اونٹ یا اونٹنی کو چاہتے ذبح کردیتے ، پھر اسکے مالک کو منہ مانگے دام اداکر دیتے اوراسکے گوشت پر جوا کھیلتے ، ہر شخص جتنا گوشت جیت لیتا، وہ ان غریب لوگوں میں بانٹ دیتا جو اس موقع پر جمع ہو جاتے ۔یہ روایت عرب میں بڑی محبوب سمجھی جاتی ، جب وہاں قحط کی صورت پیدا ہوتی یا جاڑے کی وجہ سے سامان رسد کم ہوجاتا ، ایسی تقریبات کا انعقاد کرنے والوں کو سخی گردانا جاتا اور معاشرے میں انکی بڑی تکریم کی جاتی، اور جو لوگ ان مجلسوں سے گریز کرتے ان کو ’’برم‘‘یعنی بخیل کہا جاتا۔عرب شعراء ایسی محفلوں کی اپنے کلام میں بڑی تحسین کیا کرتے ، قرآن پاک نے اچھی طرح باور کروادیا کہ ایسے فائدے محض عارضی ہواکرتے ہیں، معاشرے کیلئے شراب اور جوئے کے مضمرات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ چونکہ سوسائٹی میں انکی عادت بہت ہی راسخ ہوچکی تھی ، اس لیے پہلے مرحلے پر انکے نتائج کی طرف اشارہ کیا، پھر ایک ایسا واقعہ ہوا کہ کسی صاحب نے نشہ کی حالت میں امامت کروادی اور قرآت کو بالکل غلط کردیا تو یہ ممانعت آئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھو، پھر ایک محفل میں شراب کی وجہ سے نوبت بحث وتکرار اورلڑائی جھگڑے تک پہنچی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے التجاء کی اے اللہ شراب کے باے میں واضع حکم نازل فرما،اب  شراب کی حرمت کا اٹل حکم آگیا۔

Darsulquran surah Ad-Dhuha ayat 01-05.کیا ہم اپنے رب کی رضامندی کے طالب ہیں

Shortvideo- دایدار الٰہی کیسے ممکن ہے؟

پیر، 14 نومبر، 2022

سورۃ بقرہ کے مضامین (26)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (26)

صہیب ؓ روم سے ہجرت کرکے مکہ میں آئے، یہاں اللہ رب العزت نے انکے رزق ، مال اورتجارت میں بڑی برکت عطاء فرمائی ، وہ اپنی سلیم الفطرتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺکے دامن گرفتہ ہوگئے، جب وہ ہجرت کے ارادے سے مکہ کو چھوڑرہے تھے تو اہل مکہ راستے میں مزاحم ہوگئے، مختصراً انھوں نے اپنا تمام مال انھیں دے دیا، اورنام خداورسول ﷺلے کر مدینہ منورہ چلے آئے ، سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاوالہانہ استقبال کرتے ہوئے فرمایا : ربع البیع یا ابایحییٰ !،اے ابویحییٰ تو نے آج بڑی ہی کامیاب تجارت کرلی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اورلوگوں میں سے ایک شخص وہ (بھی)تو ہے جو(محض) اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے اپنی جان کا سودا کرتا ہے۔(۲۰۷)
اسلام میں مکمل داخل ہوجائو: چند صحابہ کرام ایسے تھے جو اسلام لے آئے لیکن انھوں نے اسلامی شریعت کے ساتھ ساتھ سابقہ مذہب کی تعمیل بھی جاری رکھی ، مثلاً ہفتہ کے دن کو مقدس سمجھنا ، اونٹ کے گوشت اوردودھ کرحرام گرداننا وغیرہ انھیں تلقین کی گئی کہ دین اسلام کو دوسرے مذاہب سے خلط ملط نہ کرو، یہ دین فطرت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور انسانی زندگی کے تمام معاملات کو محیط ہے، لہٰذا اسلام کو من وعن اورمکمل صورت میں ماننا ضروری ہے۔کہا ں خرچ کریں:اہل اسلام جناب رسالت مآب ﷺسے استفسار کرنے کہ وہ اپنے اموال وخیرات کا کیا مصرف کریں اوراسے کہاں خرچ کریں، اللہ علیم وحکیم نے ارشادفرمایا :اپنے ماں ، باپ پر ، اپنے قرابت داروں عزیزوں اوررشتہ داروں پر، ان یتیموں پر جو والدین کے سایہ شفقت سے محروم ہوچکے ہیں، ان غرباء مساکین پر جو خود کمانے سے معذور ہیں اورجن کا کوئی اورپرسانِ حال نہیں اور ان ضرورت مند مسافروں کو اپنی منزلوں تک پہنچانے کیلئے جو کسی وجہ سے اپنے زاد سفر سے محروم ہوگئے ہیں۔کفار سے ایک سوال:  2ء میں بعض صحابہ کرام کی مشرکوں سے آمناسامنا ہوگیا اورایک مشرک مارا گیا، صحابہ کرام کا خیال تھا آج جمادی الثانیہ کی ۳۰تاریخ ہے، لیکن انھیں بعد میں علم ہوا کہ وہ رجب کی پہلی تاریخ تھی ، جو حرمت والا مہینہ ہے، کافرومشرک اس بات کو خوب اچھالنے لگے کہ دیکھو مسلمان حرمت والے مہینوں کا احترام بھی نہیں کرتے، اس پر صحابہ آپکی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کی یہ غلطی بے خبر ی میں ہوگی ہے اب کیا حکم ہے، اس اللہ کریم نے آیت نازل فرمائی اور مسلمانوں کو بتایا کہ دانستہ حرمت والے مہینہ میں جنگ بری بات ہے ، لیکن مسلمانوں نے یہ جنگ دیدہ دانستہ نہیں کی، کافروں سے کہا گیا کہ تمہارے گناہ تو اس سے بھی کہیں بڑے ہیں ، تم تو لوگوں کو اللہ کا دین قبول کرنے سے روکتے ہو اورمسجد حرام میں عبادت کرنے پر بھی مزاحم ہوتے ہو، یہ فتنہ پردازی تو قتل کے گناہ سے بھی شدیدتر ہے۔

Darsulquran surah Al-Lail ayat 14-21.کیا ہم زندگی صرف اپنے رب کو راضی کر...

Shortvideo - توحید کیا ہے؟

Darsulquran surah Al-Araf ayat 85-87.کیا ہم لوگوں کو اللہ تعالی کے راستے...

اتوار، 13 نومبر، 2022

Shortvideo - کلمہ طیبہ کا مفہوم

سورۃ بقرہ کے مضامین (25)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (25)

جاہلیت کی خود ساختہ رسمیں : اسلام کی روشنی سے پہلے اہل عرب میں یہ رسم رائج ہوگئی تھی کہ جب وہ لوگ حج کیلئے احرام باندھ لیتے تو اپنے گھرمیں جانے کیلئے دروازے سے داخل ہونے کو نحوست اوربدشگونی گمان کرتے ، ایسے میں وہ گھر کے عقب سے راستہ بناکر داخل ہوتے یا صحن کی دیوار کودکر آتے ، وہ اسے تئیں بڑی عبادت اورکعبہ مکرمہ کی تعظیم گردانتے تھے، اس غلط فہمی کا ازالہ کیاگیا اورفرمایا گیا کہ اصل بات تقویٰ اختیار کرنا ہے اوراسی میں دنیا اورآخرت کی کامیابی ہے، یہ عجیب وغریب اورخود ساختہ رسومات کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔جہاد میں بھی حدود وقیود ہیں : جب مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی ، اورکفار اب بھی اپنی ریشہ دوانیوں سازشوں بلکہ عملی ایذاء رسانیوں سے باز نہ آئے تو اب مسلمانوں کو بھی اجازت مل گئی کہ یہ خود پر حملہ کرنیوالوں کو جواب دے سکیں لیکن مسلمانوں کو جنگ وجہاد کی حالت میں بھی حدود وقیود اورقاعدوں ، ضابطوں کی پاسداری کاحکم دیا گیا ، مسلمانوں کا جہاد انسانیت کی بیخ کنی کیلئے یا دشمنوں سے اندھا انتقام لینے کیلئے نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو برائی ، شر اورفتنہ کے خلاف ہوتا ہے ، یہ اسی طرح ہے جس طرح ایک سرجن جسم سے فاسد پھوڑے کو نکال دیتا ہے، لیکن آپریشن اورجراحت اندھا دھند نشتر زنی کا نام نہیں ہے بلکہ بڑی احتیاط اورنزاکت کا کام ہے، اسی طرح مسلمانوں کا جہاد بھی برائی کو اس کی جڑ سے اکھڑنے کیلئے ، انسانیت کے جسم سے فاسد مواد کے اخراج کیلئے ہے ،نہ کہ جسد انسانیت کا حلیہ بگاڑنے کیلئے ، مسلمانوں سے کہاگیا کہ وہ کعبہ اوراس حوالی کا احترام بھی کریں اورحرمت والے مہینوں کی پاسداری بھی کریں لیکن کفار یہ یاد رکھیں کہ فتنہ تو قتل ہے بھی زیادہ نقصان دہ ہے ، فتنہ کی صورت میں مسلمان بہرحال اس کی بیخ کنی کریں گے، اوراس کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔حج بیت اللہ اوراسکے مناسک کا تذکرہ : حج اسلام کے اہم اوربنیادی ارکان میں سے ایک ہے ، کعبۃ اللہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ انسانی وحدت کا ایک بہترین ذریعہ ہے ، حج بیت اللہ بھی وحدت اسلامی کا اعلی ترین نمونہ ہے، کہ کس طرح انسان کا لباس اورایک سارے شعار ایک جیسے ہوجاتے ہیں ،یہ ہر رنگ ، ہر علاقے اورہر نسل کے لوگ ایک مرکز کے آکر جمع ہوجاتے ہیں اورایک جیسا تلبیہ پڑھتے ہوئے ، ایک ہی جیسے اعمال بجالاتے ہیں، وحدت واتحاد کا ایسا مظاہرہ شاید ہی کسی قوم اورملت کو عطاء کیاگیا ہو۔دنیا اورآخرت میں حسن واعتدال : ایک اہم ترین اوراللہ اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ ترین دعاء کی تعلیم دی گئی جس میں دنیا کا حسن وخوبی بھی مانگا گیا اورآخرت کی خیرات وجمال بھی، اس دعا کی ذریعہ سے مومن کو دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرنے کا شعور دیا ہے اوراسے دونوں کے معاملات میں اعتدال وتوازن کا درس دیاگیا ۔

Darsulquran surah Al-Lail ayat 11-13. کیا ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح د...

Darsulquran surah Al-Araf Ayat 83-84.کیا ہم آج مجرموں کی ایک ٹولی بن کر ...

ہفتہ، 12 نومبر، 2022

Shortvideo - تزکیہ نفس کی منازل

سورۃ بقرہ کے مضامین (24)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (24)

روزہ کی فرضیت اوراس کے احکام:اسلام انسان کے لیے مکمل ضابطہء حیات ہے،اسلام نے جن عبادات کوفرض کیا وہ بھی انسان کے حق میں گہری حکمتوں پر مبنی ہیں، خوراک کے حوالے سے بھی انسان کو اضافی آلائشوں سے بچانے کیلئے روزہ فرض کیاگیا ، خوراک میں اعتدال جہاں جسم کی عافیت کا سامان ہے وہیں پر اس کا تعلق انسان کی روحانیت سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، اس لیے صوم کی اہمیت باور کرواتے ہوئے ارشادفرمایا کہ یہ تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے ، اوران کی فرضیت اس لیے ہے کہ تم اس عمل صوم کے ذریعے سے تقویٰ کی منزل سے ہمکنار ہوجائو۔ رمضان کے احکام کے مختلف پہلوئوں پر غور وفکر کیا جائے اوران سے آگاہی حاصل ہوجائے تو تقویٰ کے ساتھ انسان میں شکر کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
ناحق مال اوررشوت سے اجتناب کا حکم :روزہ انسان کو جہاں اعتدال کا درس دیتا ہے وہیں پر اس کے ساتھ یہ شعور دلایا گیا کہ حلال میں اعتدال بدرجہ اولی حرام سے اجتناب کی عادت کا سبب بننا چاہے۔ اس لیے حکم ہوا کہ آپس مین ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھائو اورنہ رسائی حاصل کرو اس مال سے (رشورت دیگر)حاکموں تک تاکہ یوں کھاجائو کچھ حصہ لوگوں کے مال کا ظلم حالانکہ تم جانتے ہو (کہ اللہ نے اسے حرام کیا ہے۔البقرہ ۱۸۸)یعنی جس نے ناجائز طریقے سے مال حاصل کیا ،جس کی شریعت نے اجازت نہیں تو اس نے باطل ذریعے سے کھایا ، اس میں جوا، دھوکہ دہی ، زبردستی ، چھین لینا کسی کے حقوق کا انکار اوروہ مال جسے اس کے مالک نے خوشی سے نہیں دیا، سب اکل باطل میں شامل ہیں اوراگر کوئی شخص رشوت دے کر یا جھوٹی قسم کھاکر یا جھوٹی گواہیاں دلواکر اپنے حق میں قاضی سے فیصلہ کروابھی لے توقاضی کا یہ ظاہری فیصلہ باطنی طور پر اس حرام مال کوحلال تو نہیں کردے گا، اورحرام کے جو نتائج انسان کے جسم اورروح پر مرتب ہوتے ہیں وہ تو بہر حال ہوں گے اورآخرت میں وہ اس کی جواب دہی بھی سے دست کش تو نہیں ہوسکتا ، اسی طرح احکام کو رشوت دے کر اپنے حق میں فیصلہ کروانا بھی، حرام کھانا ہے، اس لیے اس کو علیحدہ ذکر کیاگیا۔
مظاہر میں قدرت کے راز ہیں:کچھ افراد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں، اس کے طلوع وغروب کے اسباب کیا ہیں ،اللہ تبارک وتعالیٰ کے اپنی وحی کے ذریعے جواب ارشاد فرمایا کہ چاند کے گھٹنے اوربڑھنے میں فائدہ یہ ہے کہ اس سے لوگوں کے معاملات اورشرعی حسابات میں تاریخوں اورمہینوں کا تعین آسان ہوجاتا ہے ۔ گویا کہ تمام مظاہر انسانی زندگی میں آسانی کیلئے ہیں نہ اس لیے کہ انسان ان کی پرستش کرے۔

Darsulquran surah Al-Lail ayat 01-04 part-04.کیا ہم احکامات الہی سے بے پ...

جمعہ، 11 نومبر، 2022

Darsulquran surah Al-Araf ayat 82. کیا ہم نے اپنی زندگی سے اسلام پر عمل ...

Darsulquran surah Al-Lail ayat 01 part-03. کیا ہم نے عملی طور پر نیکی کو...

سورۃ بقرہ کے مضامین (23)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (23)

قصاص کہتے ہیں بدلے میں برابر ی یعنی کسی جرم کا بدلہ لینے میں برابری مساوات سے کام لینا، شریعت مطہرہ کی اصطلاح میں قتل کے بدلے میں قتل کرنا یا زخم کے بدلہ میں برابر کا بدلہ لینا قصاص کہلاتا ہے، اسلام کے ظہور سے پہلے عربوں میں قصاص کے معاملات میں بہت سے ظالمانہ اورناانصافی پر مبنی طریقے رائج تھے ،کسی طاقتور قبیلہ کا کوئی فرد قتل ہوجاتا تو وہ صرف قاتل کے قتل پراکتفا ء نہ کرتے بلکہ اسکے قبیلہ کے دس بیس افراد کو اپنے خون آشام انتقام کی بھینٹ چڑھا دیتے ، کوئی غلام کسی آزاد کو قتل کردیتا تو کمزور قبیلے کے کسی آزاد فرد کوبھی قتل کردیا جاتا، کوئی عورت ارتکاب کرتی تو اس کی جگہ مرد سے انتقام لیاجاتا۔ اسلام نے اس نسلی امتیاز کو ختم کیااورقتل کا بدلہ صرف قاتل سے لینے کاحکم دیا اوریہ بدلہ بھی کسی فرد کا انفرادی عمل نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہوگی، اورضروری نہیں کہ قتل کا بدلہ قتل ہی ہواگر مقتول کے ورثاء ، دیت لے کر صلح کرنا چاہیں تو اس کی بھی اجازت دی گئی ، لیکن دیت کا مطالبہ کرنیوالوں کو بھی تلقین کی گئی کہ وہ بھی صلح وصفائی کے معاملات دستور کیمطابق خوش اسلوبی سے سرانجام دیں، اوراحسن طریقہ سے دیت طلب کریں اوراس میں زیادتی کی کوشش نہ کریں صلح کی رعایت دیتے ہوئے قرآن پاک نے کہا کہ اگر چہ قاتل قصور وار ہے سزاکامستحق ہے لیکن اسکے باوجود تمہارا اسلامی بھائی بھی تو ہے ، اگر بخش دو،معاف کردو تو بڑی بات نہیں ، یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا تاکہ معاشرے میں انتقام کی رو، وحشت کارخ اختیار نہ کرے ، قاتل کو بھی کہا تھا کہ دیت کی یہ رعایت محض تمہارے رب کا احسان ہے ،تم بھی اس معاملے میں احسان فراموش نہ بننا، حیلے بہانے  سے اس کام کو تعطل میں نہ ڈالنا بلکہ خوشی خوشی جلدی خون بہا اداکرنا۔قانون قصاص بیان کرنے کے بعد قرآن پاک نے عقل وشعور اوردانش وتدبر رکھنے والوں کو مخاطب کرکے ارشادفرمایا کہ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، قرآن کے اس مختصر سے جملہ میں بلاغت اورمعانی کا ایک سمندر موجزن ہے، یہ اس پروردگار کا اعلان ہے جو رحمن ، رحیم اورارحم الراحمین ہے ،اوراپنے بندوں پر ماں سے بھی ستر گنا زیادہ شفیق ہے، انسان اگرشعور کی آنکھ کھول کردیکھے تو انسانیت فلاح اللہ اوراسکے رسول کے پیروی ہی میں ممکن ہے۔
وصیت کے معاملات کی اصلاح:جس طرح زمانہ جاہلیت میں قصاص کے معاملات ظالمانہ تھے اسی طرف وصیت کے اسالیب بھی ظلم وزیادتی پر مبنی تھے، اہل عرب مرتے وقت بعض اوقات اپنے مال کی وصیت  ایسے لوگوں کے نام کرجاتے جن سے ان کادور کا بھی واسطہ نہ ہوتا، اوروہ اپنے گمان کے مطابق اسے بڑا کارنامہ سمجھتے اورسخاوت سے تعبیر کرتے اسی طرح اگر کوئی اچانک فوت ہوجاتا تواسکی وصیت سے بھی کئی جائز وارث محروم رہ جاتے ، اسلام نے وصیت کا ایسا خوبصورت ضابطہ عطاء فرمایا جس سے بہتر نظام ممکن ہی نہیں ہے۔

Shortvideo نفس کو پاک کیسے کریں؟

بدھ، 9 نومبر، 2022

Darsulquran surah Al-Lail ayat 01 part-02. اسلام میں ایثار کی اہمیت

Darsulquran surah Al-Araf ayat 77-81.کیا ہم اپنے پیغمبر کی بات کو( معاذا...

Darsulquran surah Al-Lail ayat 01 Part-01. کامیابی کی شرائط

Shortvideo - تزکیہ کا طریقہ

سورۃ بقرہ کے مضامین (22)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (22)

غذا انسانی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے، بنظر غائردیکھاجائے تو انسان کے مزاج ، اسکی طبیعت اوراس کے کردار کی تشکیل میں غذا کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ، حلال اورپاکیزہ غذا عبادت ، روحانیت اورقبول دعاء کے حوالے سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے تمام انسانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ایسی غذائیں استعمال کریں جو حلال بھی ہوں اورپاکیزہ بھی ، حلال ، حرام قراردینے کااختیار شریعت مطہرہ کو حاصل ہے ، کوئی انسان محض اپنی رائے یا طبیعت کے رحجان کی وجہ سے کسی غذا کو حلال یا حرام قرار نہیں دے سکتا، اہل کتاب کے علماء شریعت کے ان احکام سے بہت اچھی طرح واقف تھے لیکن دیدہ دانستہ صحیح علم کو عام لوگوں سے پوشیدہ رکھتے تھے جن وجہ سے ان کی مذمت کی گئی ، یہ شیطان ہے جو انسان کو ورغلا کر رزق حرام کی طرف راغب کرتا ہے ، ہاں انسان کے پیش نظر اللہ کے احکام سے بغاوت نہ ہواورنہ ہی وہ اپنی حد سے تجاوز کرنے والاہو، اورکسی ایسی مجبوری اوراضطرار کا شکار ہوجائے کہ حرام کے علاوہ کوئی اورچیز میسر ہی ہو یا اس پر جان کا بچانا موقوف ہوگیا ہوتو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ،اللہ بڑاغفور ورحیم ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت۱۷۷میں نیکی کا ایک جامع تصور دیاگیا ہے ، اہل کتاب نے جب شرک اوراپنے خود ساختہ دین کی مذمت سنی تو کانپ اٹھے اورکہنے لگے ہم تو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے ہیں، ہم کسی عذاب کی گرفت میں کیسے آسکتے ہیں، اس پر قرآن مقدس نے کہا کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق یامغرب کی طرف کرلیا جائے بلکہ نیکی اپنے ذیل میں ایک جامع تصور رکھتی ہے جو ظاہر کے اعمال کو بھی محیط ہے اورباطن کے اخلاص کو بھی اورعقائد، معاملات ، عبادات ،اخلاقیات سب کا احاطہ کرتی ہے، صاحب تفسیر مظہری کہتے ہیں کہ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ شریعت کی مقررہ کرنا سمت کی طرف منہ کرنا نیکی اورطاعت ہے ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اس میں منحصر نہیں ، یہ بھی نیکی ہے اوراسکے علاوہ نیکی اوراطاعت کے اوربھی کام ہیں نیکی کے کچھ حقیقی مقاصد بھی ہیں اوروہ تمہاری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں، اس آیت میں بتایا گیا کہ نیکی کا کمال یہ ہے کہ کوئی شخص ایما ن لائے اللہ پر ، یوم قیامت پر ، ملائکہ پر ، (نازل کردہ)کتابوں پر ، تمام انبیاء پر، اوراپنا مال دے (محض )اللہ کی محبت میں رشتہ داروں ،یتیموں ، مسکینوں مسافروں ، سائلوں اوران غلاموں کو جو آزادی کے خواستگار ہیں، صحیح صحیح نماز اداکرے ، زکوٰۃ اداکرے اورجب کسی سے عہد کرے تو اپنے وعدوں کی پاسداری کرے ،اور(آفرین ہیں اُن پر)جو صبر کرتے ہیں مصائب پر ، سختیوں پر اورجہاد میں ( ثابت قد م رہتے ہو)یہی لوگ ہیں جو راست باز ہیں اورحقیقی پرہیز گار ہیں۔ ان اوصاف کے بیان میں عقائد ، عبادات معاملات واخلاق تمام کا احاطہ کرلیاگیا ہے۔

منگل، 8 نومبر، 2022

Darsulquran surah Al-Araf ayat 72-76.کیا ہم قوم ثمود کے نقش قدم پر چل رہ...

Shortvideo - تزکیہ نفس کی اہمیت

Darsulquran Ash-Shams 11-15.کیا قوم ثمود کی طرح ہم نے بھی اپنی حقیقی کام...

سورۃ بقرہ کے مضامین (21)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (21)

صفا اورمروہ مسجد حرام کے پاس دوپہاڑیوں کے نام ہیں، صفا دائیں جانب اورمروہ بائیں طرف ہے ان دونوں کے درمیان تقریباً سوافرلانگ کا فاصلہ ہے ، صفاکے لغوی معنی صاف پتھر یا خالص چٹان کے ہیں اورمروہ کے لغوی معنی سفید سفید نرم پتھر کے ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت کے حکم سے اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اوراپنے شیر خوار فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادی فاران میں چھوڑ دیا ، جب کھانے پینے کے تمام اسباب ختم ہوگئے تو حضرت ہاجرہ بہت بے چینی اوراضطراب کے عالم میں ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی اورجستجو کرتی رہیں کہ کہیں کوئی پانی کا چشمہ دکھائی دے ، زمانہ جاہلیت میں صفاپر اساف اورمروہ پر نائلہ کے بت نصب کردیے گئے تھے ، اسلام کی روشنی پھیلنے کے بعد مسلمانوں میں یہ تذبذب پیدا ہوا کہ کیا اس جگہ پر سعی کرنا مناسب ہے جہاں پہلے کفر کی علامات موجود تھیں ، مسلمانوں سے کہا گیا کہ تمہیں تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی پیروی میں اس مقام پر سعی کرنی ہے ، تمہیں مناسب نہیں کہ تم بتوں کی وجہ سے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی والدہ مکرمہ کی سنت کوترک کرو مسلمانوں کے دلوں میں جواضطراب تھا س کو قرآن نے بڑے حکیمانہ انداز سے دورفرمادیا۔
توحید باری تعالیٰ پر دلائل دیتے ہوئے قرآن فلسفیوں کی طرح الجھا ہوا اورپیچیدہ طرز استدلال اختیار نہیں کرتا ۔ بلکہ قرآن کھلے دل ودماغ کے ساتھ کائنات انفس وآفاق میں غوروفکر کی دعوت دیتا، قرآن کے دلائل اتنے روشن اورواضع ہیں کہ ہر شخص انھیں اپنی قابلیت اوراستعداد کے مطابق سمجھ سکتا ہے، ’’آسمان کی نیلی وسیع چھت میں لٹکے ہوئے ان گنت ستارے ، چاند اورسورج پھر ان کا مقررہ وقت پر طلوع وغروب جن میں ایک سیکنڈ کے برابر بھی کبھی فرق نہیں ہوتا، ان کی گردش کے متعین راستے جن سے سرموکبھی انحراف نہیں ہوا، زمین کا یہ کشادہ صحن، اس میں رواں دواں ندیاں اوردریا، رات دن کی پہم گردش، ان کا گھٹنا بڑھنا، بیکراں سمندر کے سینوں پر مسافروں سے لدی اور سامان سے بھری ہوئی کشتیوں اورجہازوں کا خراماں خراماں آنا جانا، گھنگھور گھٹائیں اوران کا موسلادھار برسنا ، پھر مردہ زمین کا دیکھتے دیکھتے سرسبز شاداب ہوجانا، کرہ ہوا میں بادلوں کا منڈلاتے پھرنا، کبھی برسنا اورکبھی آن واحد میں ناپیدہوجانا ایسی چیزیں نہیں جسے عالم تو جانتے ہوں اوربے علم نہ جانتے ہوں جسے دانشمند سمجھ سکتے ہوں اورکم عقل کی سمجھ سے بالاتر ہوں بلکہ کائنات کا ہر خاص وعام کے لیے یکساں طور پر روشنی کا مینار ہے ، ان روز مرہ دکھائی دینے والی چیزوں میں اگر آپ غور کریں گے توآپ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ تنوع میں یکسانیت اختلاف میں توافق ، کثرت میں وحدت اوریہ بے مثال نظم وضبط بغیر کسی علم وحکیم اورقدرت خالق کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوسکتا۔

پیر، 7 نومبر، 2022

Darsulquran surah Al-Araf ayat 70-71. قوم عاد کی طرح کیا ہمارے بھی بت ہیں

Shortvideo - دوزخ کی قیمت

سورۃ بقرہ کے مضامین (20)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (20)

اوصاف حمیدہ:تحویل قبلہ اوراسکے متعلقہ معاملات کوذکر کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اوصاف مبارکہ کو دہرایا گیا جن کاذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعاء میں کیا، ایک اوروصف بھی ذکر کیا گیا کہ میرے محبوب ﷺتمہیں ان باتوں کی تعلیم بھی دیتے ہیں جنہیں تم جانتے ہی نہیں تھے۔قاضی ثناء اللہ پانی پتی تحریر فرماتے ہیں کہ اس سے مراد علم لدنی ہے، جو قرآن کے باطن اورنبی مکرم ﷺکے منور اور روشن سینے سے حاصل ہوتا ہے ۔ اوراسکے حصول کا ذریعہ یہ مروجہ تعلیم وتعلم نہیں بلکہ انعکاس ہے یعنی آفتاب قرآن کی کرنیں اورماہتاب نبوت کی شعاعیں دل کے آئینے پر منعکس ہوتی ہیں ، اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر جمیل کے فوراً بعد یہ حکم دیا کہ سوتم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد کیاکروں گا اورمیراشکر اداکیا کرو اورمیری ناشکری نہ کیا کرو، اے ایمان والو! مدد طلب کیاکرو ، صبر اورنماز (کے ذریعہ ) سے ، بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (البقرہ ۱۵۲/۱۵۳) کیونکہ یہی وہ اوصاف جمیلہ ہیں جن سے انسان کے باطن میں طہارت پیداہوتی ہے اورانسان روحانی اسرارورموز سے آشناہوسکتا ہے
شہید زندہ وجاوید ہے: میدان بدرمیں کئی مسلمان منصب شہادت سے فائز ہوئے ، تو بعض لوگوں نے کہہ دیا کہ فلاں شخص تو مرگیا اورزندگی کی لذتوں سے محروم ہوگیا غیر ت الٰہی اس بات کو برداشت نہ کرسکی کہ جن لوگوں نے اسکے دین کی سرفرازی کیلئے اوراسکی سربلندی کیلئے اپنی جانیں تک قربان کردیں انھیں مردہ کہا جائے اس لیے منع فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جاں نچھاور کرنے والوں کو مردہ نہ کہا کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں ہاں اللہ قیوم وقادر نے انھیں جس نوعیت کی زندگی عطاکی ہے تم اس زندگی کا شعور نہیں رکھتے ۔شہید کا معنی گواہ اورحاضر ہے ، اللہ کی راہ میں مارے جانیوالے کو شہید کہتے ہیں، اس کو شہید اس لیے کہتے ہیں کہ اس کیلئے جنت کی شہادت دی گئی ، ایک قول یہ ہے کہ اللہ کے فرشتے اسکے پاس حاضر ہوتے ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ وصال کے فوراً بعد شہید کی روح جنت میں حاضر ہوجاتی ہے ، جبکہ دوسری روحیں فوراً جنت میں نہیں جاتیں ایک قول یہ ہے کہ شہید اللہ کی راہ میں جان دیکر، اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اس نے اپنے پاک پروردگار سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے انکی جانوں اور مالوں کوجنت کے بدلے میں خرید لیا‘‘۔ (التوبہ۱۱۱ )امتحان اورآزمائش بھی ہوگی: اہل ایمان سے کہا کہ اللہ تمہاری ثابت قدمی کو مختلف امتحانوں اورآزمائشوں سے پرکھے گا یہ آزمائش جان ومال اورثمرات کے زیاں کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں اوربھوک اورخوف کے تسلط کی صورت میں بھی ایسے میں صابرین اورثابت قدم رہنے والوں کیلئے خوشخبر ی ہے۔