اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
بدھ، 30 ستمبر، 2020
حضور اور ایفائے عہد (۱)
حضور اور ایفائے عہد (۱)
اچھے انسانی خصائل جن کی وجہ سے انسانی معاشرت میں بھائی چارہ کی فضا ء تشکیل پاتی ہے۔ان میں سے ایفائے عہد یعنی اپنے وعدہ کا پورا کرنا ایک اہم خصلت ہے۔ اسلام نے اس پر بہت روز دیا ہے، قرآن وحدیث میں اس بارے میں ہدایات بڑی واضح ہیں۔ اسوئہ رسول ﷺ میں اسکی بڑی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں۔ اللہ رب العزت کا حکم ہے:۔ ’’اور عہد کرکے پورا کرو کیونکہ اب تم اس عہد کے ذمہ دار بن گئے ہو‘‘۔(۱۷۔۳۷)
٭ حضر ت عبد اللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں جنابِ رسالت مآب ﷺنے ارشاد فرمایا:’’اپنے بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ اس سے نازیبامذاق کرواور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کو پورا نہ کرسکو ۔ (ترمذی) ٭حضرت ابو رافع ؓقبول اسلام سے پہلے ایک موقع پر قریش کی طرف سے سفیر بن کرمدینہ منورہ آئے۔ حضوراکرم ﷺ کی زیارت کی تو آپکی دلنواز اور دلربا شخصیت سے انتہائی متاثر ہوئے۔ اور کفر وشرک سے متنفر ہوگئے۔حضور پناہِ بے کساں ﷺکی خدمت میں عرض کیا:یا رسول اللہ اب میں واپس نہیں جائو ں گا۔ حضورانور ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نہ تو عہد شکنی کرتا ہوں اور نہ سفیر وں کو اپنے پاس روکتا ہوں اس وقت تم واپس چلے جائو۔چاہو تو بعد میں واپس آجانا۔سو وہ سرکار دوعالم ﷺکے حکم کیمطابق واپس چلے گئے اور کچھ عرصہ بعد مدینہ منور میں حاضر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ٭صفوان بن امیہ کا شمار اسلام کے سرگرم مخالفین میں ہوتا تھا۔ ایک موقع پر اس نے عمیر بن وھب کے ساتھ مل کر حضو ر اکرم ﷺ کو شہید کرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔ لیکن عمیر بن وھب نے اسلام قبول کرلیا،اور یہ منصوبہ پایہ ء تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم ﷺنے صفوان کو واجب القتل قرار دے دیا تھا۔ مکہ فتح ہوا تو وہ وہاں سے فرار ہوکر جدہ چلا گیا۔ حضرت عمیر بن وھب ؓ(جو صفوان کے چچا زاد بھائی ہے)نے اسکی سفارش کی،حضور رحمت عالم ﷺ نے حضرت عمیر کی خدمات کے اعتراف میں جان کے اس دشمن کو بھی بخش دیا اور وعدہ فرمالیا کہ صفوان یہاں آجائے تو اسے امان عطاء کی جائیگی۔ عمیر جدہ تشریف لے گئے ا ور صفوان کو ساتھ لیکر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ صفوان نے پوچھا :کیا آپ نے واقعی مجھے امان دی ہے۔ حضور نے فرمایا :ہاں یہ سچ ہے اور میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔صفوان نے قبول اسلام کے بارے میں غور وفکر کیلئے آپ نے اسے چار ماہ کی مہلت عطاء فرمائی۔جنگ حنین کے موقع پر وہ حضور کے رحمت وکرم اور لطف وعنائت کو دیکھ کر مدّت ختم ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے۔ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہٖ واصحابہ وسلم)
منگل، 29 ستمبر، 2020
رحمت کا سائبان
رحمت کا سائبان
پیر، 28 ستمبر، 2020
احساس
احساس
سن۹ ہجری میں جب رومیوں کی جانب سے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ سلطنتِ مدینہ پر یورش کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایاکہ آگے بڑھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے ۔ مسلمانوں نے اس لشکر کی تیاری میں بے سروسامانی کے باوجود بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جو لوگ جنگی مہم میں شریک ہوسکتے تھے سب کو ساتھ چلنے کا حکم ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ شامل نہ ہوسکے ۔
ایک روز شدید گرمی کا عالم تھا ،حضرت ابوخثیمہ اپنے اہل خانہ کے پاس آئے ، انھوں نے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویاں ان کے باغ میں اپنے اپنے چھپڑ میں ہیں، انھوں نے چھپڑ میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکائو کر رکھا ہے، لذیذ کھانے تیار کیے ہوئے ہیں اورپینے کے لیے ٹھنڈا پانی بھی فراہم کررکھا ہے۔ حضرت خثیمہ چھپڑوں کے پاس آکر رک گئے، اپنی بیویوں کودیکھا انھوں نے انکی آرام و آسائش کا جو اہتمام کیا ہوا تھااسے بھی ملاحظہ فرمایاتو ان کی زبان سے بے اختیار نکلا’’اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیارا حبیب تو اس وقت دُھوپ اورلو کے عالم میں ہے اورابو خثیمہ اس خنک سائے میں ہے جہاں ٹھنڈا پانی موجود ہے ،لذیذ اوراشتہا ء انگیز کھانا تیار ہے ، خیال رکھنے والی خوبرو بیویاں ہیں یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے‘‘پھر اپنی خواتین خانہ کو مخاطب کیا اورفرمایا :میں تم میں سے کسی کے چھپڑکھٹ میں قدم نہیں رکھوں گا بلکہ اپنے پیارے آقا کے پاس جائوں گا،میرے لیے فوراً زادِ سفر تیارکرو‘‘۔ان نیک بخت خواتین نے فوراً اہتمام کیا اورآپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر لشکر اسلام کی جستجو میں نکل کھڑے ہوگئے ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے مقام پر پہنچے تو یہ بھی پہنچ گئے ۔حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بھی پیچھے رہ گئے تھے ۔راستے میں ان سے بھی ملاقات ہوگئی تھی ، جب دونوں ایک ساتھ لشکر کے قریب پہنچے تو ابو خثیمہ نے حضرت عمیر سے کہاکہ مجھ سے ایک بڑی کوتاہی سر زد ہوگئی ہے اگر آپ کچھ دیر توقف کرلیں تو میں آپ سے پہلے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضری لگوالوں ۔
لوگوںنے جب ایک سوار کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی : یارسول اللہ !کوئی شتر سوار ہماری طرف آرہا ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ کرے ، کہ یہ سوار ابوخثیمہ ہی ہو۔جب یہ قریب آئے توصحابہ کرام نے عرض کی:واللہ !یہ سوار تو ابوخثیمہ ہی ہے،انھوں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا اوربارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو خثیمہ !تمہیں مبارک ہو، حضرت ابو خثیمہ اپنے تمام احوال گوش گزار کرنے کے لیے بیتاب تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا تمام ماجراخود ہی بیان فرمادیااوران کے لیے دعائے خیرفرمائی ۔(زاد المعاد،ابن قیم، سیرت حلبیہ)
اتوار، 27 ستمبر، 2020
صاحبِ خلقِ عظیم
صاحبِ خلقِ عظیم
ہفتہ، 26 ستمبر، 2020
خُلقِ عظیم(صلی اللہ علیہ وسلم)
جمعہ، 25 ستمبر، 2020
سراپا حضور ﷺکا
سراپا حضور ﷺکا
سفرہجرت کے درورانِ حضور اکرم ﷺ کا گزر ایک صحرانشین خاتون ام معبد کے خیمہ کے پاس سے ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور ان کا غلام عامر بن فہیرہ آپکے ہمراہ تھے ۔ام معبد سے پوچھا گیا کہ اگر اسکے پاس کچھ دودھ یا گوشت ہوتو ہم اسے خرید ناچاہیں گے۔اس نے کہا اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو میں بصد مسرت آپ کی میزبانی کرتی ۔ لیکن قحط سالی کی وجہ سے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔خیمہ کے کونے میں ایک مریل سی بکری کھڑی تھی۔حضور نے اسکے بارے میں پوچھا ۔ اس نے کہا یہ کمزوری کی وجہ سے چرنے کیلئے نہیں جاسکتی ۔آپ نے فرمایا اگر اجازت دو تو ہم اس کا دودھ دوہ لیں اس نے کہا اگر اس میں سے کچھ دودھ نکل سکتا ہے تو بصد شوق لے لیجئے حضور نے اللہ کا نام لے کر اپنا دستِ معجز نظام اسکے تھنوں پر پھیرا، اسکی خشک کھیری سے اتنا دودھ نکلا کہ سب نے سیر ہوکر پیا۔دوبارہ دوھا گیا تو گھر کے سارے برتن بھر گئے۔ آپ نے شکر یہ ادا کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔ شام کو اس کا خاوند کام کاج سے فارغ ہوکر واپس آیا تو گھر میں دودھ کی یہ فراوانی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسکے استفسار پر ام معبد نے کہا ایک بابرکت ہستی یہاں تشریف لائی تھی۔ یہ سب اسی کا فیضان ہے۔ اس کاخاوند بولا : مجھے تو یہ محسوس ہورہا ہے کہ یہ وہی ہیں جن کی تلاش میں قریش سرگرداں ہیں مجھے ذرا ان کا حلیہ تو بتائو، اس پر ام معبد نے آنحضورکے سراپا کا انتہائی دلکش انداز میں نقشہ کھینچا ۔ ’’ام معبدکہنے لگی:’’میں نے ایک ایسا مرد دیکھا جس کا حسن نمایاں تھا جس کی ساخت بڑی خوبصورت اور چہرہ ملیح تھا۔ نہ رنگت کی زیادہ سفیدی اس کو معیوب بنارہی تھی اور نہ گردن اور سر کا پتلا ہونا اس میں نقص پیدا کر رہا تھا۔ بڑاحسین ،بہت خوبرو۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں پلکیں لابنی تھیں ،اسکی آواز گونج دار تھی،سیاہ چشم،سرمگین ،دونوں ابر وباریک اور ملے ہوئے،گردن چمکدار تھی، ریش مبارک گھنی تھی، جب وہ خاموش ہوتے تو پروقار ہوتے ، جب گفتگو فرماتے تو چہرہ پر نور اور بارونق ہوتا، شیریں گفتار ،گفتگو واضح ہوتی نہ بے فائدہ ہوتی نہ بیہودہ ،گفتگو گویا موتیوں کی لڑی ہے جس سے موتی جھڑرہے ہوتے۔ دور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ بارعب اور جمیل نظر آتے۔اور قریب سے سب سے زیادہ شیریں اور حسین دکھائی دیتے۔ قددرمیانہ تھا، نہ اتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے، نہ اتنا پست کہ آنکھیں حقیر سمجھنے لگیں،آپ دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ کی مانند تھے جو سب سے سرسبز وشاداب اور قد آورہو۔انکے ایسے ساتھی تھے جو انکے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ اگر آپ انہیں کچھ کہتے تو فوراً اسکی تعمیل کرتے۔
جمعرات، 24 ستمبر، 2020
بعثت سے پہلے انتظار
بعثت سے پہلے انتظار
بدھ، 23 ستمبر، 2020
محافظ فرشتے
محافظ فرشتے
منگل، 22 ستمبر، 2020
زید بن حارثہ کی وابستگی
زید بن حارثہ کی وابستگی
پیر، 21 ستمبر، 2020
ایثارووفاء
ایثارووفاء
اتوار، 20 ستمبر، 2020
پروردئہ لطف وکرم کی گواہی
پروردئہ لطف وکرم کی گواہی
ہفتہ، 19 ستمبر، 2020
رفیق سفرو حضر کی گواہی
رفیق سفرو حضر کی گواہی
جمعہ، 18 ستمبر، 2020
گھرکی تصدیق
گھرکی تصدیق
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ ہوئی تو جو سب سے پہلے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، ان میں حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا ،جو آپ کی اہلیہ اور رفیقہء دم ساز ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق جو آپ کے رفیق سفر وحضر ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ جو آپ کی نگاہِ ناز کے تربیت یافتہ ہیں ا ور حضرت زید بن حارثہ ہیں جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور آپ کے منہ بولے بیٹے ہیں۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ ہوئی اور آپ اپنے کا شانہ اقدس میں واپس تشریف لائے۔اور آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو تمام صورت حال سے مطلع فرمایا اور اپنی ذمہ داری سے آگاہ کیا۔اس پر حضرت ام المومنین نے آپ کے روشن کردار اور آفتاب ومہتا ب سے زیادہ اجلی سیرت کی شہادت جن الفاظ میں دی، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں،بلکہ آپ زرتو محض محاورہ ہے ورنہ ان کلماتِ مقدسہ کی قدر وقیمت کا اندازا ہم کسی بھی پیمانہ سے نہیں لگا سکتے۔
آپ نے حضور اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں عرض کیا،’’خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بے آبرونہیں کرے گا۔آپ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ کم زوروناتواں افراد کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔مفلس ونادار کو اپنی نیک کمائی سے حصہ دیتے ہیں۔آنے والے کی مہمان نوازی کرتے ہیں ۔حق کی وجہ سے اگر کسی پر کوئی مصیبت آجائے تو اس کی دستگیری کرتے ہیں۔‘‘
جمعرات، 17 ستمبر، 2020
اجلااور بے داغ کردار
اجلااور بے داغ کردار
بدھ، 16 ستمبر، 2020
دعوت اور مزاحمت
دعوت اور مزاحمت
منگل، 15 ستمبر، 2020
اسوئہ کی صفت حسنہ
اسوئہ کی صفت حسنہ
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیائے کرام اور رسولانِ ذی احتشام کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ انسان ہدایت سے آشنا ہوجائے اور اس کی اصلاح ہوجائے۔ تاکہ وہ عبادت وعرفان کے راستوں پر گامزن ہوسکے،اور اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرلے۔
اصلاح سے مراد یہ نہیں کہ غریب کو دولت مل جائے تو اسلام کی اصلاح ہوجائے گی۔ایک بے اختیار کو اقتدار مل جائے تو اس کی اصلاح ہوجائے۔ایک بے رنگ ونام کو شہرت کی بلندیوں سے ہم کنار کردیا جائے تو اس کی اصلاح ہوجائے ۔عین ممکن ہے کہ دولت ،شہرت ،اختیار واقتدار کسی شخص کو نمرود وفرعون بنادے۔
اصلاح کی ایک ہی صورت ہے انسان کا دل سنور جائے اس کی روح کا تزکیہ ہوجائے اس کے باطن کی دنیا آباد ہوجائے۔پیغمبر علم وآگہی حضور رسالت پناہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
’’بے شک انسان کے جسم میں گوشت کا ایک پارہ ہے اگر وہ درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجاتا اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور ذرا غور سے سنو کہ وہ دل ہے۔‘‘
اگر انسان کا دل سنور جائے توغربت وافلا س اس کے کردار اور عزت نفس کو مجروح نہیں کرسکتا اور اختیار واقتدار اسے مغرور ومتکبر نہیں کرسکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصلاح قلب کیسے ممکن ہے۔ کیوں کہ دل کی دنیا کی فتح یابی کو ئی آسان نہیں ہے ۔ انسان کی تاریخ اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے کہ انسانوں کے دل حقیقت میں صرف حسنِ عمل ہی سے متاثر ہوتے ہیں۔محض باتیں کتنی ہی دلکش کیوں نہ ہوں دلائل کتنے ہی معیاری کیوں نہ ہوں۔جب تک دائمی کا کردار وعمل اس کے قول کی تصدیق نہ کرے اسے دل کی دنیا تک اثر پذیر ی حاصل نہیں ہوسکتی ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب کی ذات کو ایک کامل اور مکمل نمونہ بنا کر انسانوں میں بھیجا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اسوئہ‘‘کو لفظ ’’حسنۃ‘‘سے متصف فرمایا حسن کا معنی ہے ذَاتَ حُسنٍ یعنی حسن وجمال والا جس صاحبِ جمال کو حسن کے خمیر سے گوندھ کر بھیجا گیا ہے۔اس کو صاحب ’’اسوئہ حسنہ‘‘کہا گیا ہے۔
پیر، 14 ستمبر، 2020
احساس
احساس
سن۹ ہجری میں جب رومیوں کی جانب سے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ سلطنتِ مدینہ پر یورش کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایاکہ آگے بڑھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے ۔ مسلمانوں نے اس لشکر کی تیاری میں بے سروسامانی کے باوجود بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جو لوگ جنگی مہم میں شریک ہوسکتے تھے سب کو ساتھ چلنے کا حکم ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ شامل نہ ہوسکے ۔
ایک روز شدید گرمی کا عالم تھا ،حضرت ابوخثیمہ اپنے اہل خانہ کے پاس آئے ، انھوں نے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویاں ان کے باغ میں اپنے اپنے چھپڑ میں ہیں، انھوں نے چھپڑ میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکائو کر رکھا ہے، لذیذ کھانے تیار کیے ہوئے ہیں اورپینے کے لیے ٹھنڈا پانی بھی فراہم کررکھا ہے۔ حضرت خثیمہ چھپڑوں کے پاس آکر رک گئے، اپنی بیویوں کودیکھا انھوں نے انکی آرام و آسائش کا جو اہتمام کیا ہوا تھااسے بھی ملاحظہ فرمایاتو ان کی زبان سے بے اختیار نکلا’’اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیارا حبیب تو اس وقت دُھوپ اورلو کے عالم میں ہے اورابو خثیمہ اس خنک سائے میں ہے جہاں ٹھنڈا پانی موجود ہے ،لذیذ اوراشتہا ء انگیز کھانا تیار ہے ، خیال رکھنے والی خوبرو بیویاں ہیں یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے‘‘پھر اپنی خواتین خانہ کو مخاطب کیا اورفرمایا :میں تم میں سے کسی کے چھپڑکھٹ میں قدم نہیں رکھوں گا بلکہ اپنے پیارے آقا کے پاس جائوں گا،میرے لیے فوراً زادِ سفر تیارکرو‘‘۔ان نیک بخت خواتین نے فوراً اہتمام کیا اورآپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر لشکر اسلام کی جستجو میں نکل کھڑے ہوگئے ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے مقام پر پہنچے تو یہ بھی پہنچ گئے ۔حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بھی پیچھے رہ گئے تھے ۔راستے میں ان سے بھی ملاقات ہوگئی تھی ، جب دونوں ایک ساتھ لشکر کے قریب پہنچے تو ابو خثیمہ نے حضرت عمیر سے کہاکہ مجھ سے ایک بڑی کوتاہی سر زد ہوگئی ہے اگر آپ کچھ دیر توقف کرلیں تو میں آپ سے پہلے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضری لگوالوں ۔
اتوار، 13 ستمبر، 2020
آیت ’’اسوئہ حسنہ‘‘ کا شانِ نزول
آیت ’’اسوئہ حسنہ‘‘ کا شانِ نزول
ہفتہ، 12 ستمبر، 2020
اسوئہ حسنہ
اسوئہ حسنہ
جمعہ، 11 ستمبر، 2020
ناقا بلِ تردید
ناقا بلِ تردید
فیلسوفِ اسلام حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات جرمنی کے ایک فلسفی سے ہوئی ۔ باتوں باتوں میں اس نے علامہ اقبال سے پوچھا کیا آپ خداکے وجود کے قائل ہیں ۔ اور اسے مانتے ہیں ۔ آپ نے بڑی سادگی سے جواب دیا ’’ہاں‘‘ میں خداکو مانتا ہوں ۔
اس نے حیرانگی سے پوچھا۔کیا آپ اساتذہ اور والدین کی تربیت کے باعث یہ عقیدہ رکھتے ہیں یاآپ کے پا س اس کی کوئی دلیل بھی ہے۔
علامہ اقبال نے جواب دیا:
میں تقلیدی طور پر ماننے والوں میں سے نہیں ہوں ، اگر دلیل قوی ہوتو تسلیم کرلیتاہوں اگردلیل کمزور ہو تو مسترد کردیتا ہوں ۔
اُس نے کہا خداکے وجود اور اس کی وحدانیت پرآپ کے پا س کیا دلیل ہے ،ہم تو اس دشتِ تحقیق میں برسوں سے سر گرداں ہیں،ہمیں تو کوئی دلیل نہیں ملی۔
علامہ اقبال نے کہا :
میر ے پا س خدا کے وجود اور وحدانیت کی ایک نا قابلِ تردید دلیل موجود ہے۔جس کی بِنا پر میں اسے وحد ہ لاشریک مانتا ہوں اور وہ یہ کہ اس بات کی گواہی ایک ایسے سچے نے دی ہے۔جس کے جانی دشمن بھی کہا کرتے تھے کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔جس کے خون کے پیاسے بھی اسے الصادق الامین کہا کرتے تھے۔ایسے سچے کی شہادت پر میں نے بھی کہا لا الہ الا للہ ۔اللہ کی وحدانیت کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔لیکن عقل انسانی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس عقدے کو حل نہ کرسکی ۔
افلاطون،ارسطو، سقراط، جالینوس جیسے ہزاروں فلسفی اس میدان میں بھٹکتے رہے ۔لیکن خداوند قدوس کے عرفان کی دولت سے یکسر محروم رہے۔منزل مقصود تک رسائی توکجاانہیں تو عرفانِ ربانی کا صحیح راستہ تک سجھائی نہ دیا ۔
یہ اللہ کے فرستادہ حبیب ہی تھے جو دانائے سبل بن کر تشریف لائے ۔ان کے فیضانِ نگاہ سے ہر حقیقت کو آشکار اور ہر راز مخفی کوبے نقاب ہونا تھا۔مخلوق خدا کو علم وآگاہی کی دولت ملنی تھی ۔یہ حبیب جو سیرت وکردار کا ناقابلِ تردید معجز ہ لے کر آیا تھا۔
جب گویا ہوا تو اس کی ایک جنبش لب سے یقین واطمینان کے سوتے پھوٹ نکلے ۔رب ذوالجلال کی وحدانیت ، الوہیت ،ربوبیت وکبریائی کی یہ گواہی سامنے آئی ،تو حقیقت اتنی آشکار ہوئی، اتنی نمایاں ہوئی کہ اس کے بعد کسی گواہی کی ضرورت ہی باقی نہ رہی ۔آج صد یوں کا سفر طے ہوجانے کے باوجود بھی ایقان کی یہ شمع اسی طرح فروزاں ہے۔
دور دراز جنگل میں بکریاں چرانے والا ایک گمنام مسلمان چرواہا جسے کبھی کسی استاد کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ایک یقین و آگہیٰ سے گواہی دیتا ہے لا الہ الا للہ۔
چرخہ کاتتی ہوئی چھوٹے سے گاؤں کی ایک سادہ لوح ان پڑھ ماں جب اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو پورے وثوق کے ساتھ سبق پڑھاتی ہے لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ ۔
اک یقین وآگہی سے ھوں میں گرم جستجو
جو مری منزل ہے میر ا راہبر بھی آپ ہے
جمعرات، 10 ستمبر، 2020
صحابہ کرام کا اشتیاق نماز
صحابہ کرام کا اشتیاق نماز
بدھ، 9 ستمبر، 2020
نماز،سب سے مقدّم
نماز،سب سے مقدّم
منگل، 8 ستمبر، 2020
صحابہ کرام کاذوقِ نماز (۲)
صحابہ کرام کاذوقِ نماز (۲)
٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نماز سے بڑی محبت تھی ،وہ زیادہ نفلی روزے نہیں رکھتے تھے۔ عام طور پر مہینے میں تین نفلی روزے رکھتے ۔ فرماتے ،جب روزہ رکھتا ہوں تو کمزوری محسوس ہوتی ہے اس وجہ سے نماز میں کمی ہوجاتی ہے۔اور مجھے نماز سے زیادہ محبت ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن یزید ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کم روزے رکھنے والا کوئی فقیہ نہیں دیکھا ، ان سے وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایامجھے نماز سے زیادہ رغبت ہے۔
٭حضرت عبداللہ بن مسعود السابقون الاولون میں سے ہیں مکہ میں غربت کی وجہ سے اجرت پر بکریاں چراتے تھے۔ صحت کے اعتبار سے نحیف ونزار تھے۔ مشرکین مکہ کی زیادتیوں کا خاص نشانہ بھی بنتے ۔اس کے باوجود بڑی تندھی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے۔ جہاد میں سرگرم حصہ لیتے۔نوافل میں مشغولیت کے علاوہ تحصیل علم اور درس وتدریس سے خصوصی شغف تھا۔ سنت رسول کے ابلاغ میں آپ نے خاص کردار ادا کیا اور بے شمار تلامذہ نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا۔ انھیں وجوہات کی بنا پر زیادہ روزہ کی مشقت نہیں اٹھا پاتے تھے۔ لیکن عبدالرحمن بن یزید ؒ کی روایت سے یہ اندازا بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں لوگ فقہا وعلماء سے کیسی توقعات رکھتے تھے۔
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا تعلق سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ جوڑیں۔ تا کہ سیرت مبارکہ ان کے لیے مشعل راہ بنے ا...
-
روزہ اور اس کے مقاصد(۲) روزے کا پانچواں مقصد ضبط نفس کا حصول ہے۔ بھوک اور جنسی خواہش کے ساتھ تیسری خواہش راحت پسندی بھی اس کی زد میں آ...