بدھ، 30 ستمبر، 2020

Apni Pehchan Kyoon Zaroori Hayاپنی پہچان کیوں ضروری ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1520 ( Surah Ash-Shura Ayat 28 )درس قرآن سُوۡ...

شکر کا معنی

حضور اور ایفائے عہد (۱)

 

  حضور اور ایفائے عہد (۱)

اچھے انسانی خصائل جن کی وجہ سے انسانی معاشرت میں بھائی چارہ کی فضا ء تشکیل پاتی ہے۔ان میں سے ایفائے عہد یعنی اپنے وعدہ کا پورا کرنا ایک اہم خصلت ہے۔ اسلام نے اس پر بہت روز دیا ہے، قرآن وحدیث میں اس بارے میں ہدایات بڑی واضح ہیں۔ اسوئہ رسول ﷺ میں اسکی بڑی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں۔ اللہ رب العزت کا حکم ہے:۔ ’’اور عہد کرکے پورا کرو کیونکہ اب تم اس عہد کے ذمہ دار بن گئے ہو‘‘۔(۱۷۔۳۷)

٭ حضر ت عبد اللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں جنابِ رسالت مآب ﷺنے ارشاد فرمایا:’’اپنے بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ اس سے نازیبامذاق کرواور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کو پورا نہ کرسکو ۔ (ترمذی) ٭حضرت ابو رافع ؓقبول اسلام سے پہلے ایک موقع پر قریش کی طرف سے سفیر بن کرمدینہ منورہ آئے۔ حضوراکرم ﷺ کی زیارت کی تو آپکی دلنواز اور دلربا شخصیت سے انتہائی متاثر ہوئے۔ اور کفر وشرک سے متنفر ہوگئے۔حضور پناہِ بے کساں ﷺکی خدمت میں عرض کیا:یا رسول اللہ اب میں واپس نہیں جائو ں گا۔ حضورانور ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نہ تو عہد شکنی کرتا ہوں اور نہ سفیر وں کو اپنے پاس روکتا ہوں اس وقت تم واپس چلے جائو۔چاہو تو بعد میں واپس آجانا۔سو وہ سرکار دوعالم ﷺکے حکم کیمطابق واپس چلے گئے اور کچھ عرصہ بعد مدینہ منور میں حاضر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ٭صفوان بن امیہ کا شمار اسلام کے سرگرم مخالفین میں ہوتا تھا۔ ایک موقع پر اس نے عمیر بن وھب کے ساتھ مل کر حضو ر اکرم ﷺ کو شہید کرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔ لیکن عمیر بن وھب نے اسلام قبول کرلیا،اور یہ منصوبہ پایہ ء تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم ﷺنے صفوان کو واجب القتل قرار دے دیا تھا۔ مکہ فتح ہوا تو وہ وہاں سے فرار ہوکر جدہ چلا گیا۔ حضرت عمیر بن وھب ؓ(جو صفوان کے چچا زاد بھائی ہے)نے اسکی سفارش کی،حضور رحمت عالم ﷺ نے حضرت عمیر کی خدمات کے اعتراف میں جان کے اس دشمن کو بھی بخش دیا اور وعدہ فرمالیا کہ صفوان یہاں آجائے تو اسے امان عطاء کی جائیگی۔ عمیر جدہ تشریف لے گئے ا ور صفوان کو ساتھ لیکر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ صفوان نے پوچھا :کیا آپ نے واقعی مجھے امان دی ہے۔ حضور نے فرمایا :ہاں یہ سچ ہے اور میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔صفوان نے قبول اسلام کے بارے میں غور وفکر کیلئے آپ نے اسے چار ماہ کی مہلت عطاء فرمائی۔جنگ حنین کے موقع پر وہ حضور کے رحمت وکرم اور لطف وعنائت کو دیکھ کر مدّت ختم ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے۔ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہٖ واصحابہ وسلم)

منگل، 29 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 122 ( Surah Al-Baqara Ayat 144-145 ) درس الق...

Namaz Kay Qaim Karnay Aur Adda Karnay Main Farq Kya Hayنماز کے قائم کرنے...

رحمت کا سائبان

 

رحمت کا سائبان

ربیعہ بن کعب اسلمی حضور اکرم ﷺ کی خدمت عالیہ کیلئے ہمہ وقت اور ہمہ دم حاضر رہتے تھے۔ طہارت اور وضو کے پانی کا نہایت ذوق وشوق سے اہتمام فرماتے، آپ بیان فرماتے ہیں ایک دن حضور انور ﷺ نے مجھ سے استفسار فرمایااے ربیعہ ! کیا تم شادی نہیں کروگے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نہیں چاہتا کہ کوئی چیز مجھے آپکی خدمت سے غافل کردے۔آپ یہ سن کر خاموش ہوگئے ۔ کچھ دن بعد مجھ سے پھر پوچھا ربیعہ ! کیا تم شادی نہیں کروگے؟ میں نے عر ض کیا رسول اللہ ایک تو میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور مشغولیت مجھے آپ کی خدمت سے غافل کردے ۔دوسرا یہ کہ میر ے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ میں بیوی کو مہر دے سکوں ، آپ پھر خاموش ہوگئے۔ میں نے سوچا جناب رسول محتشم ﷺمیر ی حالتِ زار اور میر ے مالی معاملات سے بخوبی واقف ہیں اسکے باوجود مجھ سے شادی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ مجھے آپکے سامنے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ اب پوچھیں گے تو ضرور اثبات میں جواب دوں گا۔ چنانچہ آپ نے ایک دن پھر پوچھا، میں نے گزارش کی یا رسول اللہ جو حکم ! لیکن مجھ مفلس ونادارکو رشتہ کون دیگا۔ آپ نے مجھے فرمایا ۔ فلاں قبیلے کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ رسول اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کردو ۔ انہوں نے نکاح کا پیغام سن کر حضور اکرم ﷺاور مجھے مرحبا کہا ۔اور ایک خاتون کے ساتھ میرانکاح کردیا۔ میں آپ کی خدمت ِ اقدس میں واپس آیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا اور ساتھ ہی عرض کیا اب حق مہر کہاں سے ادا کروں ۔آنحضور ؐنے حضرت بریدہ اسلمی سے فرمایا : ربیعہ کیلئے ایک گٹھلی کے برابر سونے کا انتظام کرو۔ انھوں نے سونا جمع کر کے مجھے دے دیا۔وہ میں نے بیوی کے گھر والوں کو دے دیا۔ پھر آپکی خدمت میں حاضر ہوااور آنجناب کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اب ولیمہ کیلئے کیسے اہتمام کیا جائے۔آپ نے پھر حضرت بریدہ سے ارشاد فرمایا اب ربیعہ کیلئے ایک مینڈھے کا انتظام کردو۔ انہوں نے فوراً انتظام کر دیا ۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ (صدیقہ رضی اللہ عنہا) کے پا س جائو اور ان سے کہو کہ انکے پا س جتنے جوہیں ۔وہ تمہارے حوالے کردیں ۔ میں انکے پاس گیا تو انھوں نے آٹے کی ٹوکر ی میر ے حوالے کردی حالانکہ صورتِحال یہ تھی کہ کاشانہ نبوی میں اس ٹوکر ی کے علاوہ شام کے کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ جب دنبہ اور آٹا آگئے تو میر ے سسرال والوں نے کہا کہ روٹیا ں ہم تیار کر دیتے ہیں۔ مینڈھے کے متعلق اپنے ساتھیو ں سے کہو کہ وہ اسے ذبح کردیں اور سالن تیا ر کردیں۔یوں گوشت اور روٹی تیار ہوگی اور ولیمہ کا اہتمام ہوگیا۔ 

تقویٰ کی تفصیل

پیر، 28 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1518 ( Surah Ash-Shura Ayat 24 )درس قرآن سُوۡ...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 121 ( Surah Al-Baqara Ayat 143 ) درس القرآن ...

Kamyab Zindagi Guzarnay Ka Gur - کامیاب زندگی گزارنے کا گُر

روحانی ترقی کیسے ہوتی ہے؟

احساس

 

احساس

سن۹ ہجری میں جب رومیوں کی جانب سے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ سلطنتِ مدینہ پر یورش کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایاکہ آگے بڑھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے ۔ مسلمانوں نے اس لشکر کی تیاری میں بے سروسامانی کے باوجود بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جو لوگ جنگی مہم میں شریک ہوسکتے تھے سب کو ساتھ چلنے کا حکم ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ شامل نہ ہوسکے ۔ 

 ایک روز شدید گرمی کا عالم تھا ،حضرت ابوخثیمہ اپنے اہل خانہ کے پاس آئے ، انھوں نے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویاں ان کے باغ میں اپنے اپنے چھپڑ میں ہیں، انھوں نے چھپڑ میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکائو کر رکھا ہے، لذیذ کھانے تیار کیے ہوئے ہیں اورپینے کے لیے ٹھنڈا پانی بھی فراہم کررکھا ہے۔ حضرت خثیمہ چھپڑوں کے پاس آکر رک گئے، اپنی بیویوں کودیکھا انھوں نے انکی آرام و آسائش کا جو اہتمام کیا ہوا تھااسے بھی ملاحظہ فرمایاتو ان کی زبان سے بے اختیار نکلا’’اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیارا حبیب تو اس وقت دُھوپ اورلو کے عالم میں ہے اورابو خثیمہ اس خنک سائے میں ہے جہاں ٹھنڈا پانی موجود ہے ،لذیذ اوراشتہا ء انگیز کھانا تیار ہے ، خیال رکھنے والی خوبرو بیویاں ہیں یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے‘‘پھر اپنی خواتین خانہ کو مخاطب کیا اورفرمایا :میں تم میں سے کسی کے چھپڑکھٹ میں قدم نہیں رکھوں گا بلکہ اپنے پیارے آقا کے پاس جائوں گا،میرے لیے فوراً زادِ سفر تیارکرو‘‘۔ان نیک بخت خواتین نے فوراً اہتمام کیا اورآپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر لشکر اسلام کی جستجو میں نکل کھڑے ہوگئے ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے مقام پر پہنچے تو یہ بھی پہنچ گئے ۔حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بھی پیچھے رہ گئے تھے ۔راستے میں ان سے بھی ملاقات ہوگئی تھی ، جب دونوں ایک ساتھ لشکر کے قریب پہنچے تو ابو خثیمہ نے حضرت عمیر سے کہاکہ مجھ سے ایک بڑی کوتاہی سر زد ہوگئی ہے اگر آپ کچھ دیر توقف کرلیں تو میں آپ سے پہلے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضری لگوالوں ۔

  لوگوںنے جب ایک سوار کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی : یارسول اللہ !کوئی شتر سوار ہماری طرف آرہا ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ کرے ، کہ یہ سوار ابوخثیمہ ہی ہو۔جب یہ قریب آئے توصحابہ کرام نے عرض کی:واللہ !یہ سوار تو ابوخثیمہ ہی ہے،انھوں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا اوربارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو خثیمہ !تمہیں مبارک ہو، حضرت ابو خثیمہ اپنے تمام احوال گوش گزار کرنے کے لیے بیتاب تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا تمام ماجراخود ہی بیان فرمادیااوران کے لیے دعائے خیرفرمائی ۔(زاد المعاد،ابن قیم، سیرت حلبیہ)

اتوار، 27 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 120 ( Surah Al-Baqara Ayat 142 ) درس القرآن ...

Allah Tallah Ki Mulaqaat Ka Aehal Bannay Ka Shortcut - اللہ تعالیٰ کی مل...

صاحبِ خلقِ عظیم

 

 صاحبِ خلقِ عظیم

حضورنبی رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایاتاکہ میں اخلاق حسنہ کودرجہ کمال تک پہنچادوں۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایااللہ نے مجھے ادب سکھایااورمیں نے بطریق احسن ادب سیکھ لیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہیں مشکوۃ نبوت سے براہ راست فیض یاب ہونے کاموقع میسر آیا ۔ آپکے خلق کے بارے میں کتنی معنی خیز اور گہری بات کرتی ہیں ’’ حضور کا خلق قرآن تھا، اس کے امر ونہی کی تعمیل حضور کی فطرت کاتقاضا تھا۔ اس بارے میں حضور کو غور وفکر اور سوچ بچار کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ام المومنین نے حضوراکرم  ﷺ کے خلق کو مزید تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا ’’ اللہ کے پیارے رسولؐ سے زیادہ کوئی شخص بھی اخلاق حسنہ سے متصف نہیں تھا۔ حضورؐ کاخلق قرآن تھاجس سے قرآن راضی ہوتااس سے حضورؐ راضی ہوتے جس سے قرآن ناراض ہوتاحضور اس سے ناراض ہوتے حضور فحش کلام نہ تھے اور نہ بازاروں میں شورکرنیوالے تھے۔نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ حضور کاشیوہ عفوودرگزر تھا۔ان ارشادات کے بعد آپ نے سائل کوبتایاکہ وہ سورۃ المومنون کی پہلی دس آیتیں تلاوت کرے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی زبان قدرت سے اپنے حبیب لبیب کے اخلاق مبارکہ کاذکر فرمایاہے ‘‘ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی ؒارشاد فرماتے ہیں ’’ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جب حضور ؐکے خلق کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کان خلقہ القرآن آپ کامقصدیہ تھاکہ حضور ؐکے اخلاق ، اخلاق ربانیہ کاعکس جمیل ہیں ۔لیکن بارگاہ خداوندی کاادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تو نہیں کہا کہ حضورؐ اخلاق ِ خداوندی سے متصف ہیں بلکہ فرمایاحضورؐ کاخلق قرآن کریم کے اوامرو نواہی کے عین مطابق تھا۔ آپ نے انوار الٰہی کی چمک دمک سے خجالت محسوس کرتے ہوئے یہ تعبیر اختیار کی۔‘‘ حضور اکرم  ﷺ کے خاص خدمت گزار حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں ۔ میں نے اللہ کے پیارے رسول کی دس سال خدمت کی (اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی اور وہ سفر حضر میں حضورؐ کی خدمت میں رہا کرتے تھے )اس طویل عرصہ میں رحمت عالم نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا ۔ جو کام میں کرتااس کے بارے میں کبھی نھیں فرمایاکہ تم نے ایسا کیوں کیا،جو کام نہ کرتااسکے بارے میں کبھی نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ آپ نے کبھی میرے کسی کام میں نقص نہیں نکالا(بخاری ومسلم )۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1517 ( Surah Ash-Shura Ayat 23 Part-2 )درس قر...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 119 ( Surah Al-Baqara Ayat 139-141 ) درس الق...

ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

Kya Hum Sachay Musalman Hain?- کیا ہم سچے مسلمان ہیں؟

روحانیت کیا ہے؟


 

  خُلقِ عظیم(صلی اللہ علیہ وسلم) 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العزت کی بارگاہِ عالیہ میں دستِ دعا درازکرتے سوال کرتے ہیں۔اے اللہ جس طرح تو نے میر ی ظاہری شکل وشباہت کو حسین ودلنواز بنایا اسی طرح میری خُلقْ کو بھی حسین وجمیل بنادے۔امام احمد اور ابن حبان نے یہ دعاء بھی روایت کی ہے۔’’اے اللہ میر ے اخلاق کو دلکش وزیبا بنادے کیونکہ خوبصورت اخلاق کی طرف تو ہی رہنمائی فرماتا ہے ۔‘‘ہم عام طور پر خُلقْ کے سرسری تصور سے آشناء ہیں ،محض خندہ پیشانی ،خوش طبعی اور مسکراہٹ سے مل لینے کو اخلاق گردانتنے ہیں۔’’خُلقْ‘‘ کا معنی ومراد اپنے ذیل میں بڑی گہرائی رکھتا ہے۔لغتِ عرب کے مشہور امام علامہ ابن منظور کہتے ہیں ۔خُلقْ اور خَلقْ کا معنی فطرت اور طبیعت ہے۔انسانی کی باطنی صورت کو اور اس کے مخصوص اوصاف ومعانی کو خُلقْ کہتے ہیں ۔اور اسکی ظاہر ی شکل میں صورت کو خُلقْ کہتے ہیں ۔علامہ یوسف الصالحی الشامی کہتے ہیں ۔حسن خُلقْ کی حقیقت وہ نفسانی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے افعال حمیدہ اور آداب پسندیدہ ہے عمل کرنا بالکل آسان ہو جاتا ہے۔اور یہ چیزیں (انسان) کی فطرت بن جاتی ہیں ۔امام محمد غزالی نے بڑی ہی خوبصورت وضاحت کی ہے’’خُلقْ نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت اور آسانی سے صادر ہوتے ہیں اوران کو عملی جا مہ پہنچانے میں کسی سوچ وبچار اورتکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی یعنی وہ اعمال جو کسی سے اتفاقاً سرزد ہوتے ہیں یاکسی وقتی جذبہ اور عارضی جوش سے صادر ہوئے ہوں، خواہ کتنے ہی اعلیٰ وعمدہ ہوں انہیں خُلقْ نہیں کہا جائے گا۔خُلقْ کا اطلاق ان خصائل حمیدہ اور عادات مبارکہ پر ہوگاجوپختہ ہوں اورجن کی جڑیں قلب وروح میں بہت گہری ہوں۔ایسی محمود عادتیں فطری اور وہبی بھی ہوسکتی ہیں اور مسلسل تربیت،اکتساب اور صحبت صالحین کا نتیجہ بھی۔لیکن یہ ضروری ہے کہ انسان کی سرشت میں اس طرح رچ بس گئی ہوں جیسے پھول میں خوشبواور آفتاب میں روشنی ۔حسنِ خُلقْ میں مندرجہ ذیل امور کو شامل کیاجاتا ہے انسان بخل وکنجوسی سے پرہیز کرے جھوٹ نہ بولے دیگر اخلاق مذمومہ سے بچارہے۔ لوگوںسے ایساکلام کرے اور ایسے کام کرے جو پسندیدہ ہوں کشادہ روئی کے ساتھ سخاوت کرے۔اپنوں بیگانوں سے خندہ پیشانی سے ملے ۔تمام معاملا ت میں لوگوں کی سہولت پیشِ نظر رکھے سب سے درگزر کرے اور ہر مصیبت پر صبر کرے ۔اللہ نے اپنے محبو ب کے خُلقْ کے بارے میں فرمایا ۔’’اور بے شک آپ عظیم الشان خُلقْ کے مالک ہیں (القلم)اس آیت میں ’’علی‘‘کا حرف اظہارغلبہ کے لیے ہے۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1516 ( Surah Ash-Shura Ayat 23 Part-1 )درس قر...

جمعہ، 25 ستمبر، 2020

قلبِ سلیم کیسے حاصل ہوگا؟

Quran Ki Haqeeqat - قرآن کی حقیقت

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 118 ( Surah Al-Baqara Ayat 138 ) درس القرآن ...

سراپا حضور ﷺکا

 

 سراپا حضور  ﷺکا 

سفرہجرت کے درورانِ حضور اکرم ﷺ کا گزر ایک صحرانشین خاتون ام معبد کے خیمہ کے پاس سے ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور ان کا غلام عامر بن فہیرہ آپکے ہمراہ تھے ۔ام معبد سے پوچھا گیا کہ اگر اسکے پاس کچھ دودھ یا گوشت ہوتو ہم اسے خرید ناچاہیں گے۔اس نے کہا اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو میں بصد مسرت آپ کی میزبانی کرتی ۔ لیکن قحط سالی کی وجہ سے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔خیمہ کے کونے میں ایک مریل سی بکری کھڑی تھی۔حضور نے اسکے بارے میں پوچھا ۔ اس نے کہا یہ کمزوری کی وجہ سے چرنے کیلئے نہیں جاسکتی ۔آپ نے فرمایا اگر اجازت دو تو ہم اس کا دودھ دوہ لیں اس نے کہا اگر اس میں سے کچھ دودھ نکل سکتا ہے تو بصد شوق لے لیجئے حضور نے اللہ کا نام لے کر اپنا دستِ معجز نظام اسکے تھنوں پر پھیرا، اسکی خشک کھیری سے اتنا دودھ نکلا کہ سب نے سیر ہوکر پیا۔دوبارہ دوھا گیا تو گھر کے سارے برتن بھر گئے۔ آپ نے شکر یہ ادا کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔ شام کو اس کا خاوند کام کاج سے فارغ ہوکر واپس آیا تو گھر میں دودھ کی یہ فراوانی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسکے استفسار پر ام معبد نے کہا ایک بابرکت ہستی یہاں تشریف لائی تھی۔ یہ سب اسی کا فیضان ہے۔ اس کاخاوند بولا : مجھے تو یہ محسوس ہورہا ہے کہ یہ وہی ہیں جن کی تلاش میں قریش سرگرداں ہیں مجھے ذرا ان کا حلیہ تو بتائو، اس پر ام معبد نے آنحضورکے سراپا کا انتہائی دلکش انداز میں نقشہ کھینچا ۔ ’’ام معبدکہنے لگی:’’میں نے ایک ایسا مرد دیکھا جس کا حسن نمایاں تھا جس کی ساخت بڑی خوبصورت اور چہرہ ملیح تھا۔ نہ رنگت کی زیادہ سفیدی اس کو معیوب بنارہی تھی اور نہ گردن اور سر کا پتلا ہونا اس میں نقص پیدا کر رہا تھا۔ بڑاحسین ،بہت خوبرو۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں پلکیں لابنی تھیں ،اسکی آواز گونج دار تھی،سیاہ چشم،سرمگین ،دونوں ابر وباریک اور ملے ہوئے،گردن چمکدار تھی، ریش مبارک گھنی تھی، جب وہ خاموش ہوتے تو پروقار ہوتے ، جب گفتگو فرماتے تو چہرہ پر نور اور بارونق ہوتا، شیریں گفتار ،گفتگو واضح ہوتی نہ بے فائدہ ہوتی نہ بیہودہ ،گفتگو گویا موتیوں کی لڑی ہے جس سے موتی جھڑرہے ہوتے۔ دور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ بارعب اور جمیل نظر آتے۔اور قریب سے سب سے زیادہ شیریں اور حسین دکھائی دیتے۔ قددرمیانہ تھا، نہ اتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے، نہ اتنا پست کہ آنکھیں حقیر سمجھنے لگیں،آپ دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ کی مانند تھے جو سب سے سرسبز وشاداب اور قد آورہو۔انکے ایسے ساتھی تھے جو انکے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ اگر آپ انہیں کچھ کہتے تو فوراً اسکی تعمیل کرتے۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1515 ( Surah Ash-Shura Ayat 22 )درس قرآن سُوۡ...

جمعرات، 24 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 117 ( Surah Al-Baqara Ayat 135-137 ) درس الق...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1514 ( Surah Ash-Shura Ayat 21 )درس قرآن سُوۡ...

بعثت سے پہلے انتظار

 

 بعثت سے پہلے انتظار

حضور اکرم ﷺ کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے بھی مکہ میں کچھ سلیم الفطرت انسان ایسے تھے، جو بت پرستی سے بیزار ہوچکے تھے، جن پر مشرکین کے خود ساختہ عقائد کی حقیقت بے نقاب ہوگئی تھی۔ اس راز کو جاننے کے بعد وہ اپنے اپنے طور پر حقیقت کی تلاش میں رہتے تھے۔ان میں سے ایک زید بن عمر بن نضیل بھی تھے۔ جنکے بیٹے حضرت سعید بن زید ؓ  کو نہ صرف یہ کہ قبول اسلام کا شرف حاصل ہوا بلکہ ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتاہے۔ یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو ان کی زندگی میں جنت کی بشارت ملی ۔یہ زید رشتے میں حضرت عمر ابن خطاب ؓکے چچا زاد بھائی تھے۔زید نے جب بتوں سے بیزاری کا اظہار کیا تو انھیںمشرکین کے ظلم وستم کا نشانہ بننا پڑا، بالآخر وہ زمین شام کی طرف ہجرت کر گئے۔ لیکن وہاں بھی انھیں نصاریٰ نے بڑی ایذا ء پہنچائی اور انھیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ زید نے اپنی تلاش کے بعد یہ جان لیا تھا کہ نبی آخرالزمان کی بعثت ہونیوالی ہے۔ وہ کہتے تھے ’’مجھے یقین ہے کہ ایک نئے دین کا ظہور ہونیوالا ہے۔ لیکن مجھے خبر نہیں ہے کہ میں اس کا زمانہ پاسکوں گا یا نہیں۔زید موحد (توحید کے ماننے والے)تھے لیکن عبادت اور بندگی کے طریقوں سے واقف نہیں تھے۔ ایک صحابی عامر بن ربیعہ ؓ روایت کرتے ہیں،’’ زید بن عمرو بن نفیل نے مجھ سے فرمایا تھا۔بنو عبدالمطلب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں ایک پیغمبر کے ظہور کا منتظر ہوں۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ میں ان کا زمانہ پاسکوں گا یا نہیں میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ اور انکے نبی ہونے کی گواہی دیتا ہوں اگر تمہیں لمبی عمر ملے اور ان سے ملاقات ہوتو انکی خدمت میں میر اسلام پہنچا دینا۔میں تمہیں انکی صفات بتا دیتا ہوںتاکہ تم انھیں پہچان لو وہ نہ تو دراز قامت ہونگے اور نہ کوتا ہ قد ، انکے بال نہ تو گھنگریا لے ہوں گے نہ ہی سیدھے۔انکے کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ ان کا اسم گرامی ’’احمد ‘‘ہوگا۔ مکہ انکی جائے پیدائش اور مقام بعثت ہوگا۔ انکی قوم انکے پیغام کو پسند نہیں کریگی اوروہ یثرب کی طرف ہجرت کر جائینگے۔ تم کسی مغالطے میں نہ رہنا میں نے دین ابر ہیمی کی تلاش میں دنیا چھا ن ماری ہے میں جس اہل کتاب سے دریافت کرتا وہ یہی کہتا کہ یہ دین تمہارے بعد آنیوالا ہے اور بہت نے انکی یہی علامات بیان کیں۔عامر کہتے   ہیں میں حضور ﷺسے ملا تو میں نے آپکو زید کی باتیں بتائیں اور انکا سلام پہنچایا آپ نے انکے سلام کا جواب عنایت فرمایا۔ ان کیلئے رحمت کی دعاء کی اور فرمایا۔’’میں نے زید کو جنت میں دامن گھسٹتے ہوئے دیکھا ہے۔(البدایہ النھایہ )

کیا زندگی ایک معمہ ہے؟

اللہ تعالیٰ سے ہم کیسے جڑ سکتے ہیں؟

بدھ، 23 ستمبر، 2020

محافظ فرشتے

 

 محافظ فرشتے

 کنانہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ایک فرشتہ تمہاری دائیں جانب تمہاری نیکیوں پر مقرر ہوتا ہے اوریہ بائیں جانب والے فرشتے پر امیر(حاکم)ہوتا ہے، جب تم ایک نیکی کرتے ہو تو اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اورجب تم ایک برائی کرتے ہوتو بائیں جانب والا فرشتہ دائیں جانب والے فرشتے سے پوچھتا ہے ، میں لکھ لوں؟وہ کہتا ہے نہیں !ہوسکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اورتوبہ کرلے !جب وہ تین مرتبہ پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے ہاں لکھ لو!ہمیں اللہ تعالیٰ اس سے راحت میں رکھے، یہ کیسا برا ساتھی ہے یہ اللہ کے متعلق کتنا کم سوچتا ہے ! اوریہ اللہ سے کس قدر کم حیاکرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’وہ زبان سے جو بات بھی کہتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان لکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔‘‘(ق: ۱۸)اوردو فرشتے تمہارے سامنے اورتمہارے پیچھے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اس کے لیے باری باری آنے والے محافظ فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کے سامنے سے اوراس کے پیچھے سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘(الرعد:۱۱)اورایک فرشتہ ہے جس نے تمہاری پیشانی کو پکڑا ہوا ہے جب تم اللہ کے لیے تواضع کرتے ہوتو وہ تمہیں سربلند کرتا ہے اورجب تم اللہ کے سامنے تکبر کرتے ہوتو وہ تمہیں ہلاک کردیتا ہے ، اوردوفرشتے تمہارے ہونٹوں پر ہیں وہ تمہارے لیے صرف محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلواۃ کی حفاظت کرتے ہیں اورایک فرشتہ تمہارے منہ پر مقرر ہے وہ تمہارے منہ میں سانپ کو داخل ہونے نہیں دیتا، اوردوفرشتے تمہاری آنکھوں پر مقررہیں، ہر آدمی پر یہ دس فرشتے مقرر ہیں، رات کے فرشتے دن کے فرشتوں پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ رات کے فرشتے دن کے فرشتو ں کے علاوہ ہیں ، ہر آدمی پر یہ بیس فرشتے مقرر ہیں اورابلیس دن میں ہوتا ہے اوراس کی اولاد رات میں ہوتی ہے۔(جامع البیان :طبری ،تفسیر ابن کثیر )
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے، جو نیند اور بیداری میں اس کی جنات، انسانوں اورحشرات الارض سے حفاظت کرتا ہے، سوااس چیز کے جو اللہ کے اذن سے اس کو پہنچتی ہے ۔(جامع البیان )


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 116 ( Surah Al-Baqara Ayat 131-134 ) درس الق...

Kya Humara Dil Emaan Ki Dolat Say Munawwar Hay?کیا ہمارا دل ایمان کی دول...

وحی ہمیں کس کا راستہ بتاتی ہے؟

وحی ہمیں کس کا راستہ بتاتی ہے؟

منگل، 22 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 115 ( Surah Al-Baqara Ayat 130 ) درس القرآن ...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1512 ( Surah Ash-Shura Ayat 20 Part-3 )درس قر...

ہمارے مروجہ ایمان کی حقیقت کیا ہے؟

وحی کی ضرورت

زید بن حارثہ کی وابستگی

 

زید بن حارثہ کی وابستگی

آپ کا اسم گرامی زید بن حارثہ بن شراحیل الکعبی ہے۔آپ کی والدہ کا نام سُعدیٰ ہے۔جو خاندان بنی معن کی ایک خاتون تھیں۔بچپن میں وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنے ننھیال آئے ہوئے تھے کہ بنی قین کے افراد نے انکے خیموں پر یورش کردی، انکے سازوسامان کو لوٹ لیااور زید کو بھی قیدی بناکر ساتھ لے گئے اور عکاظ کی منڈی میں لے جا کر فروخت کردیا۔ حضرت خدیجہ الکبری کے بھتیجے حکیم بن حزام نے انھیں خرید لیا،اور انھیں حضرت سیدہ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ کو حضور کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا تو آپ نے زید کو حضور کی خدمت کیلئے ھبہ کردیا۔ آپ نے زید کو اسی وقت آزاد کردیا اور ان سے بچوں کی طرح محبت وشفقت کا برتائو فرماتے رہے۔زید کے والد اپنے لاڈلے بیٹے کے فراق میں بے حال ہوگئے اور اسکی تلاش میں بہت سے مقامات کی خاک چھان ماری ایسے عالم میں انھوں نے دردوسوز سے لبریز ایسے اشعار ہے جن سے ان کی شدید قلبی کیفیت کا اظہار ہوتاہے کافی عرصہ کے بعد اسے ایک قافلہ حج کے ذریعے اطلاع ملی کہ اس کا بیٹا مکہ کے ایک معزز قریشی کے پاس ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی وہ اپنے بھائی کعب کے ہمراہ مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اور حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔اپنا اور اپنے بھائی کا تعارف کروایا آپ سے گزارش کی کہ اے عبدالمطلب کے فرزند ہم پر احسان فرمائیے ۔ہم زرفدیہ اداء کرنے کیلئے تیار ہیں آپ براہِ کرم ہمارے فرزند کو آزاد فرمادیجئے ۔حضور نے استفسار فرمایا اسکے علاوہ تمہاری کوئی اورخواہش ہے۔ انہوں نے عرض کیا نہیں۔آپ نے فرمایا مجھے کسی فدیہ کی ضرورت نہیں۔ زید سے ملو اگر وہ تمہارے ساتھ جا نا چاہے تو اسے اختیار ہے لیکن اگر وہ تمہارے ساتھ جانے پر رضا مند نہ ہوا تو اسے مجبور بھی نہ کرنا۔ ایک باپ کو بھلا یہ توقع کیسے ہوسکتی ہے کہ اس کا بیٹا آزادی پر رضا مند نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا۔ آپ نے ہمارے ساتھ صرف انصاف ہی نہیں کیا بلکہ لطف واحسان کی انتہاء کردی ہے۔ ہمیں یہ تجویز منظور ہے زید کو بلایا گیا۔ والد اور چچا سے ملے۔ دل خوشی سے لبریز ہوگئے۔لیکن جب زید کی واپسی کا سوال اٹھا تو زید نے بے ساختہ کہا۔ میں ایسا نادان نہیں ہوں کہ آپکو چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلا جائوں آپ ہی میرے باپ اور آپ ہی میرے چچا ہیں زید کے والد حیران رہ گئے،’’اے زید تم آزادی پر غلامی اور اپنے ماں باپ پر ان کو ترجیح دے رہے ہو،‘‘زید نے کہا تمہیں کیا خبر کہ یہ ہستی کتنی کریم اور شفیق ہے۔ یہ محبت کی دنیا ہے یہاں آزادی اور گرفتاری کامفہوم اور ہے۔


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 114 ( Surah Al-Baqara Ayat 129 Part-03 ) درس...

پیر، 21 ستمبر، 2020

Momin Aur Musalman Main Fariq? مومن اور مسلمان میں فرق

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1511 ( Surah Ash-Shura Ayat 20 Part-2 )درس قر...

ایثارووفاء

 

ایثارووفاء 

حضرت ابوعمر وجریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ شروع دن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ کچھ لوگ ننگے پائوں، ننگے جسم، وھاری دارچادر پہنے اورتلواریں لٹکائے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔یہ لوگ قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے اس فقروفاقہ اورخستہ حالی کو دیکھ کر آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ پریشانی میں آپ کبھی اندرتشریف لے جاتے اورکبھی باہر تشریف لے آتے ۔پھر آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا۔نماز کے بعدآپ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔خطبے میں آپ نے سورۃ النساء کی ابتدائی آیت کریمہ اورسورۃ الحشر کی آیت پڑھ کر لوگوں کو اپنے مفلس اورحاجت مند بھائیوں کی مدد کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:ہر آدمی چاہے اس کے پاس ایک ہی دینار ہو، ایک ہی درہم ہو، ایک ہی کپڑا ہو ، ایک ہی صاع گندم کا یا ایک صاع کھجور کا ہو، اس میں سے صدقہ کرے حتیٰ کہ اگر اس کے پاس ایک کھجور ہے توکھجورکے ٹکرے سے بھی اپنے بھائیوں کی مددکرے۔آپ کا فرمانا تھا کہ لوگ گھروں کو دوڑکھڑے ہوئے اوردھڑادھڑحسب توفیق چیزیں لانے لگے۔راوی بیان کرتے ہیں کہ تھوڑی دیر میںکپڑوں اورکھانے کے دوڈھیر لگ گئے۔ صحابہ کرام کے اس جذبہ ہمدردی اورمواخات کو دیکھ کر اوردوسرے فقراء کی ضرورت کو اس طرح پورا ہوتے دیکھ کر ’’میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انورخوشی سے یوں کھل اٹھا کہ گویا وہ چمکتا ہوا سونے کا ٹکڑا ہے۔‘‘
 ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس طرز عمل کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک جہاں خوشی سے کھل اٹھا، وہاں آپ نے تعلیم امت کے لیے یہ بھی ارشادفرمایا کہ :’’جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ (نیک کام)شروع کرے، جس پر اس کے بعدبھی عمل کیاجاتا رہے، توایجاد کنندہ کے لیے بھی اتنا ہی اجر وثواب لکھاجائے گا،جتنا اس کے کرنے والوں کو ملے گا۔اوران(عمل کرنے والوں)کے ثواب میں کسی چیز کی کمی نہیں کی جائے گی اوراس کے برعکس جس آدمی نے اسلام میں کوئی غلط طریقہ (گناہ کا کام)ایجاد کیا جس پر اس کے بعد بھی عمل کیا گیا تو اس آدمی(ایجاد کنندہ )کے کھاتے میں اتناہی گناہ لکھاجائے گا جتنا کرنے والوں کو ملے گا اورگناہ کا ارتکاب کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کسی چیز کی کمی نہیں کی جائے گی۔(صحیح مسلم،بحوالہ : حب رسول اورصحابہ کرام)

اتوار، 20 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 113 ( Surah Al-Baqara Ayat 129 Part-02 ) درس...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1510 ( Surah Ash-Shura Ayat 20 Part-1 )درس قر...

پروردئہ لطف وکرم کی گواہی

 

پروردئہ لطف وکرم کی گواہی

حضرت علی المرتضیٰ وہ خوش نصیب انسان ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ کی آغوشِ تربیت اور نگاہ لطف وکرم نصیب ہوئی۔آپکی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب میرا یہ بچہ تو لد ہوا تو حضور اکرم ﷺ نے اس کا نام علی رکھا اور اسکے منہ میں اپنا لعاب دَہن ڈالا۔اور اپنی مبارک زبان اسکے منہ میں ڈالی جسے یہ مولود مسعود چوستا رہا یہاں تک کہ سوگیا۔(السیرۃ البنویہ ۔ زینی دحلان) آپکے والد گرامی جناب ابو طالب مالی اعتبار سے زیادہ آسودہ نہ تھے۔ ایک بار مکہ میں قحط پڑا توانکے مالی حالات مزید کمزور ہوگئے۔حضور رحمت عالم ﷺنے انکے معاملات ملاحظہ فرمائے تو اپنے چچا حضرت عباس کے پاس گئے اور انھیں ترغیب دی کہ ہمیں مل جل کر جناب ابو طالب کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ان کا ایک بیٹا کفالت کیلئے میں لے لیتا ہوں اور ایک کا ذمہ آپ اٹھا لیں۔چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ ؓکی کفالت ،آپ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لی۔اس طرح قدرت کے حسنِ انتظام نے ’’حضرت علیؓ کو اعلان نبوت سے پہلے ہی آغوش رسالت میں پہنچا دیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس وقت آپ کو اسلام کی سعادت عطاء فرمائی ۔اس وقت آپکی عمر عزیز آٹھ برس تھی۔جب نماز کا وقت قریب آجاتا تو حضور اکرم ﷺ مکہ کی کسی وادی میں تشریف لے جاتے ۔حضرت علی ؓ بھی عموماً آپکے ساتھ ہوتے اور وہاں مل کر نماز ادا کرتے اور شام کے وقت واپس آجاتے۔ ابتدائی تین سال تک تبلیغ اسلا م کا سلسلہ خاموشی سے جاری رکھا۔اور مخصوص افراد تک اسکی دعوت پہنچائی گئی۔پھر اسکے بعد اعلان عام کا حکم ہوا، اور اپنے خاندان کے قریبی لوگوں تک پیغام اسلام پہنچانے کو کہا گیاہے۔ حکمِ ربانی کی تعمیل میں حضور اکرم ﷺنے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا لیکن ابو لہب کی بدتہذیبی اور ناشائستہ گفتگو کی وجہ سے وہ محفل منتشر ہوگئی۔دوسرے دن آپ نے ایک مرتبہ پھر اپنے قریبی عزیزوں کوجمع کیا اور فرمایا کہ اے بنوعبد المطلب ! میں تمہارے سامنے دنیا اور آخرت کی بہترین نعمتیں پیش کرتا ہوں بتائو۔اس معاملے میں کون میرا ساتھ دیگا  آپکی یہ بات سن کر جملہ حاضرین خاموش رہے۔ فقط علی اسد اللہ رسولہ کی آواز ابھری ،انہوں نے عزم وثبات سے بھرپور لہجے میں کہا۔’’اگر چہ میں اس مجلس میں سب سے کم سن ہوں۔آشوب چشم میں مبتلارہتا ہوں،میری ٹانگیں بھی ناتواں ہیں، لیکن میں اسلام کے راستے میں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘۔اور چشم فلک پیر نے دیکھا کہ اللہ نے علی کی عمرِ عزیز کو بابرکت کیا، انھیں دیدئہ بیناعطا ء کیا۔اور انکے قدموں کو وہ عزم وثبات عطاء کیا جو جرأت وپامردی کا استعار ہ بن گیا۔

Islam Kya Hay? - اسلام کیا ہے؟

ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

Humain Andheray Kyoon Pasand Hain?-ہمیں اندھیرے کیوں پسند ہیں؟

وحی کا مفہوم اور اُسکی ضرورت واہمیت

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1509 ( Surah Ash-Shura Ayat 18-19 )درس قرآن س...

رفیق سفرو حضر کی گواہی

 

رفیق سفرو حضر کی گواہی

حضرت ابو بکر صدیق ؓکے ذوقِ لطیف نے انھیں بچپن ہی سے نبی کریم ﷺ کا گرویدہ بنارکھا تھا۔وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ ان تعلقات میں بڑی گہرائی پیدا ہوتی گئی۔ایک دوسرے کے پاس آمد ورفت رہتی تھی،نشست وبرخاست کا معمول تھا اور اہم معاملات میں صلاح مشورہ بھی معمولات میں شامل ہوگیا تھا۔ تجارت کے سلسلہ میں کئی بار ہم سفر بھی ہوئے۔آثارِ نبوت بچپن سے ہی حضور کی ذات گرامی مرتبت سے ہویدا ہوتے رہتے تھے۔جنہیں حضرت ابوبکر بھی ملاحظہ کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر کو ورقہ بن نوفل اور دیگر اہل کتاب علماء اور راہبوں سے ملاقات اور تبادلہ خیالات کا موقع بھی ملتا تھا۔آپ ان سے ایک نبی ختم المرسلین کی آمد کے بارے میں سنتے رہتے تھے اور حضور انور ﷺ کی ذات مبارکہ میں ان علامات کی موجودگی کا اثبات بھی آپ تک پہنچا تھا۔ آپکی بے مثل سیرت وکردار کے آپ ہمہ وقت شاہد بھی تھے۔ آپ کو یقین تھا کہ اللہ رب العزت اس ہستی کو عنقریب مبعوث فرمانے والے ہیں آپ گویا کہ شدت سے منتظر تھے کہ کب آپ اعلان نبوت کریں اور کب وہ اس دعوت کو قبول کریں۔ شیخ ابوزھرہ نے الروض الانف کے حوالے سے آپ کے ایک خواب کاذکر کیا ہے، آپ نے دیکھا کہ چاند مکہ میں اتر اہے اور تمام گھروں میں اسکی روشنی پھیل گئی ہے اور اس کا ایک ایک ٹکڑا ہر گھر میں گرا ہے ۔پھر اس چاند کے بکھرے ہوئے ٹکڑے یکجا ہوگئے اور وہ چاند مکمل ہوکر آپکی آغوش میں آگیا ۔آپ نے اہلِ کتاب کے کسی عالم سے اسکی تعبیر پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ نبی جس کے ہم منتظر ہیں۔اسکے ظہور کی گھڑی قریب آچکی ہے،آپ اسکی پیروی کرینگے۔اور اسکی برکت سے دنیا کے سعید ترین انسان ہوں گے۔ایک روز آپ حکیم بن حزام کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کی لونڈی آئی اور بتایا کہ آپ کی پھوپھی خدیجہ آج یہ خیال کررہی ہیں کہ ان کے خاوند حضرت موسیٰ کی طرح نبی مرسل ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق نے یہ سنا توخاموشی سے وہاں سے آگئے اور حضور کی خدمت میں پہنچے ۔حضور نے انھیں نزول وحی کے بارے میں بتایا آپ نے عرض کیا۔’’میرے ماں باپ آپ پہ قربان آپ نے سچ فرمایا اور آپ سچوں میں سے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔(سبل الھدی)

جمعہ، 18 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 112 ( Surah Al-Baqara Ayat 129 Part-01 ) درس...

Kya Humain Andheron Main Rehna Pasand Hay?کیا ہمیں اندھیروں میں رہنا پسن...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1508 ( Surah Ash-Shura Ayat 18 Part-2 )درس قر...

ہم زندگی کیسے حاصل کریں؟

گھرکی تصدیق

 


گھرکی تصدیق

اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب علیہ التحیۃ والثناء کو وہ پاکیزہ کردار عطا فرمایا کہ جو شخص آپ سے جتنا زیادہ قریب ہوتا اتنا ہی زیادہ آپ کا دامن گرفتہ اور گرویدہ ہوجاتاہے۔ ورنہ بالعموم یوں بھی ہوتاہے۔ کہ بہت سے افراد جو رہنمائی کے دعویدار ہوتے ہیں اور جن سے لوگ بڑی جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ان کی قربت بسااوقات انکی شخصیت کے تاثر کو زائل کر دیتی ۔کیونکہ ان کے قول وفعل کا تضاد سامنے آجاتا ہے ،اور ان کے کردار کا کھوکھلاپن آنکھوں کے سامنے عیاں ہوجاتا ہے۔ لیکن اللہ کے محبوب گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار میں وہ پختگی ،سیرت میں وہ گہرائی ،شخصیت میں وہ جاذبیت اور مزاج میں وہ شفقت ومحبت تھی کہ آپ کی قربت آپ کی محبت کو دوآتشہ کردیتی تھی۔ 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ ہوئی تو جو سب سے پہلے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، ان میں حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا ،جو آپ کی اہلیہ اور رفیقہء دم ساز ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق جو آپ کے رفیق سفر وحضر ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ جو آپ کی نگاہِ ناز کے تربیت یافتہ ہیں ا ور حضرت زید بن حارثہ ہیں جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور آپ کے منہ بولے بیٹے ہیں۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ ہوئی اور آپ اپنے کا شانہ اقدس میں واپس تشریف لائے۔اور آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو تمام صورت حال سے مطلع فرمایا اور اپنی ذمہ داری سے آگاہ کیا۔اس پر حضرت ام المومنین نے آپ کے روشن کردار اور آفتاب ومہتا ب سے زیادہ اجلی سیرت کی شہادت جن الفاظ میں دی، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں،بلکہ آپ زرتو محض محاورہ ہے ورنہ ان کلماتِ مقدسہ کی قدر وقیمت کا اندازا ہم کسی بھی پیمانہ سے نہیں لگا سکتے۔

آپ نے حضور اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں عرض کیا،’’خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بے آبرونہیں کرے گا۔آپ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ کم زوروناتواں افراد کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔مفلس ونادار کو اپنی نیک کمائی سے حصہ دیتے ہیں۔آنے والے کی مہمان نوازی کرتے ہیں ۔حق کی وجہ سے اگر کسی پر کوئی مصیبت آجائے تو اس کی دستگیری کرتے ہیں۔‘‘

جمعرات، 17 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1507 ( Surah Ash-Shura Ayat 18 Part-1 )درس قر...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 111 ( Surah Al-Baqara Ayat 126-128 ) درس الق...

اللہ تعالیٰ نے کیا انسان کو دنیا میں سیروتفریح کے لئے بجھوایا ہے؟

اللہ تعالی سے رابطہ کیسے جوڑا جائے

اجلااور بے داغ کردار

 

اجلااور بے داغ کردار

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب دلنواز محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا پاکیزہ اجلااور بے داغ کردار عطاکیا کہ کسی بڑے سے بڑے دشمن کو بھی کبھی اس پر انگلی اٹھا نے کی جسارت نہ ہوسکی۔ آپ اپنی ولادت کے روز اوّل ہی سے حفاظتِ الہیٰہ میں تھے،قدرت نے اس درِ یتیم کی خود نگہ داشت فرمائی۔آپ نے اس وقت کے نہایت ہی آلودہ ماحول میں ایک معصوم بچپن اور پاکیزہ ترین جوانی بسر کی۔اور اس وقت عزیز میں آپ نے ایک بھر پور عائلی اور سماجی زندگی بسرفرمائی بہت سے اجتماعی معاملات میں حصہ لیا،تجارتی مقاصد کیلئے سفر بھی کیے۔ لوگوں نے آپ کی امانت،دیانت ، صداقت اور صدقِ معاملات کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور مرّوج کردار وعمل کی کسوٹی پر پرکھا بھی ۔ قیس بن سائب کو آپکے ساتھ بہت سے کاروباری معاملات میں شریک ہونے کا موقع ملا۔وہ آپکے بارے میں شہادت دیتے ہیں۔میں نے کاروبارمیں محمد (ﷺ)سے بہتر کوئی اور ساتھی نہیں پایا۔اگر ہم ان کا سامان لے جاتے تو واپسی پر وہ ہمارا استقبال کرتے۔ہماری خیروعافیت پوچھتے اور گھر چلے جاتے اور بعدمیں حساب کتاب دینے کے معاملے پر قطعاً کوئی تکرار یا کسی قسم کی کوئی حجت نہ کرتے۔ حالانکہ دوسرے لوگ سب سے پہلی بات صرف اپنے مال کی کیفیت کے متعلق پوچھتے تھے۔اس کے برخلاف اگر آپ خود ہمارا سامان لیکر جاتے تو واپسی پر جب تک پائی پائی بے باک نہ کرلیتے ، کبھی اپنے کاشانہ اقدس کی طرف نہ تشریف لے جاتے۔اپنے ان خصائل حمیدہ کی بنا پر وہ ہمارے درمیان الامین کے لقب سے معروف ہوگئے۔جب کعبہ مقدّسہ کی تعمیر نو ہوئی اور حجرئہ اسود کی تنصیب کے معاملے میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ طے یہ ہوا کہ جو بھی شخص سب سے پہلے حرم میں آئے اسے ثالث مان لیا جائے،اچانک آپ تشریف لے آئے آپ کو دیکھ کر سب لوگ بے ساختہ پکار اٹھے۔’’یہ تو امین آرہا ہے۔ہم اس پر راضی ہیں۔ یہ محمد (ﷺ)ہے ہم اسی کے فیصلہ پر رضا مند ہیں۔ اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر ایک مشرک نے ابو جہل سے تنہائی میں سوال کیا۔ ’’یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہے،مجھے سچ سچ بتائو کہ تم محمد (ﷺ)کو سچا کہتے ہیں یا جھوٹا،ابوجہل نے جواب میں کہا۔خدا کی قسم محمد ایک سچے انسان ہیں۔انھوں نے عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا۔مگر تم ذرا دیکھو تو سہی کہ جب سقایت ،حجابت اور نبوت سب کچھ بنوہاشم ہی کے حصے میں آجائے تو تم ہی بتائو باقی سارے قریشی کے پاس کیا رہ جاتا ہے۔ 

بدھ، 16 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1506 ( Surah Ash-Shura Ayat 17 Part-2 )درس قر...

اللہ تعالیٰ سے جُڑ جانے کا مطلب کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 110 ( Surah Al-Baqara Ayat 125 ) درس القرآن ...

Allah TAllah Nay Insaan Ko Kyoon Paida Farmaya? اللہ تعالیٰ نے انسان کو ...

دعوت اور مزاحمت

 

دعوت اور مزاحمت

،نبی کریم ﷺ کی دعوت کا آغاز ہوا تو مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ مکہ میں اہل نقل کی پہچان کرنیوالے لوگ نہیں تھے۔عرب قیافہ شناسی میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ چہرہ دیکھ کر کسی انسان کے کردار کی پوری تصویر کشی کردیتے تھے۔بلکہ اسکے حسب نسب کے بارے میں تقریباً صحیح اندازا قائم کر لیتے تھے۔کسی انسان یا جانور کا نشان قدم دیکھ لیتے تو ان پر حالات وواقعات بڑی حد منکشف ہو جاتے۔ حضور اکرم ﷺکی دعوت جہاں عام لوگوں کو اپنی دیر بند روایات سے انحراف نظرآرہی تھی۔وہیں پر اجارہ داروں کا ()وعیار ذہن اسے اپنی بالادستی کیلئے خطرہ سمجھ رہا ہے۔ ایک دن اخنس بن شریق نامی ایک کافر نے ابو جہل سے پوچھا اے ابو الحکم تم نے محمد (ﷺ) سے جو (کلام)سنا ہے اسکے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ ابو جہل نے کہا ’’میں نے کیا خاک سنا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا اور بنو عبدمناف کا اس با ت پر دیرینہ جھگڑا تھا کہ قوم کا سردار کون بنے گا۔اس شرف اور منصب کو حاصل کرنے کیلئے انہوں نے بھی دستر خوان آراستہ کرلیا اور ہر غریب ومسکین کو کھانا کھلایا اور ہم نے بھی اس سے سبقت لے جانے کیلئے غربا کی ضیافت کا اہتمام کیا ۔انہوں نے بھی لوگوں کے بوجھ اٹھائے اور ہم نے بھی ، انھوں نے بھی فیاضی سے کام لیا اور ہم نے بھی سخاوت سے کام لیا۔اور جب ہم مقابلہ کے دوگھوڑوں کی طرح ہوگئے ہیں۔تو انھوں نے اچانک اعلان کردیا ہے کہ ہم میں سے ایک شخص کو نبوت مل گئی ہے۔اور اسکے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ (اب ہم کیا کریں؟)ہم یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ۔ قسم بخدا ہم تو اس پر ہر گز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اسکی تصدیق کرینگے۔(سیر ت ابن ہشام)اسی طرح کی ضد،ہٹ دھرمی اور تعصب کا دوسرے سرداران قریش بھی شکارتھے۔ایسے میں جبکہ پوری قوم ایک طرف تھی اور حضور اکرم ﷺتنہا، ایک طرف،کارِ دعوت کا آگے بڑھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اللہ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب کو تین ایسے موثر ہتھیاروں سے نوازا تھا جن کا آپکے مخالفین کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ٭آپکے پاکیزہ بے مثال اور بے داغ کرداروعمل کا معجزہ ٭آپکے قلبِ منیر پر نازل ہونی والی بے مثال ولازوال کتاب ٭آپکے لب انور سے اداء ہونیوالے، دل کی گہرائیوں میں اترنے والے پاکیزہ کلمات جو ،سادگی ،سلاست ،بلاغت اور معنویت سے بھر پور ہوتے تھے۔اور جن سے جھلکتا ہوا خلوص آپکے مخاطب کو اپنی تاثیر کی گرفت میں لے لیتا۔

منگل، 15 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 109 ( Surah Al-Baqara Ayat 124 ) درس القرآن ...

Taqwa Kissay Kehtay Hain? تقویٰ کسے کہتے ہیں؟

Taqwa Kissay Kehtay Hain? تقویٰ کسے کہتے ہیں؟

مسلسل اللہ تعالیٰ سے جڑ جانے کا طریقہ کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1505 ( Surah Ash-Shura Ayat 17 Part-1 )درس قر...

اسوئہ کی صفت حسنہ

 

اسوئہ کی صفت حسنہ

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیائے کرام اور رسولانِ ذی احتشام کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ انسان ہدایت سے آشنا ہوجائے اور اس کی اصلاح ہوجائے۔ تاکہ وہ عبادت وعرفان کے راستوں پر گامزن ہوسکے،اور اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرلے۔

اصلاح سے مراد یہ نہیں کہ غریب کو دولت مل جائے تو اسلام کی اصلاح ہوجائے گی۔ایک بے اختیار کو اقتدار مل جائے تو اس کی اصلاح ہوجائے۔ایک بے رنگ ونام کو شہرت کی بلندیوں سے ہم کنار کردیا جائے تو اس کی اصلاح ہوجائے ۔عین ممکن ہے کہ دولت ،شہرت ،اختیار واقتدار کسی شخص کو نمرود وفرعون بنادے۔

اصلاح کی ایک ہی صورت ہے انسان کا دل سنور جائے اس کی روح کا تزکیہ ہوجائے اس کے باطن کی دنیا آباد ہوجائے۔پیغمبر علم وآگہی حضور رسالت پناہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

’’بے شک انسان کے جسم میں گوشت کا ایک پارہ ہے اگر وہ درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجاتا اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور ذرا غور سے سنو کہ وہ دل ہے۔‘‘

اگر انسان کا دل سنور جائے توغربت وافلا س اس کے کردار اور عزت نفس کو مجروح نہیں کرسکتا اور اختیار واقتدار اسے مغرور ومتکبر نہیں کرسکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصلاح قلب کیسے ممکن ہے۔ کیوں کہ دل کی دنیا کی فتح یابی کو ئی آسان  نہیں ہے ۔ انسان کی تاریخ اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے کہ انسانوں کے دل حقیقت میں صرف حسنِ عمل ہی سے متاثر ہوتے ہیں۔محض باتیں کتنی ہی دلکش کیوں نہ ہوں دلائل کتنے ہی معیاری کیوں نہ ہوں۔جب تک دائمی کا کردار وعمل اس کے قول کی تصدیق نہ کرے اسے دل کی دنیا تک اثر پذیر ی حاصل نہیں ہوسکتی ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب کی ذات کو ایک کامل اور مکمل نمونہ بنا کر انسانوں میں بھیجا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اسوئہ‘‘کو لفظ ’’حسنۃ‘‘سے متصف فرمایا حسن کا معنی ہے ذَاتَ حُسنٍ یعنی حسن وجمال والا جس صاحبِ جمال کو حسن کے خمیر سے گوندھ کر بھیجا گیا ہے۔اس کو صاحب ’’اسوئہ حسنہ‘‘کہا گیا ہے۔ 

پیر، 14 ستمبر، 2020

Juram Kab Shoro Hota Hay?جرم کب شروع ہوتا ہے؟

احساس

 

احساس

 سن۹ ہجری میں جب رومیوں کی جانب سے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ سلطنتِ مدینہ پر یورش کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایاکہ آگے بڑھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے ۔ مسلمانوں نے اس لشکر کی تیاری میں بے سروسامانی کے باوجود بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جو لوگ جنگی مہم میں شریک ہوسکتے تھے سب کو ساتھ چلنے کا حکم ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ شامل نہ ہوسکے ۔ 

 ایک روز شدید گرمی کا عالم تھا ،حضرت ابوخثیمہ اپنے اہل خانہ کے پاس آئے ، انھوں نے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویاں ان کے باغ میں اپنے اپنے چھپڑ میں ہیں، انھوں نے چھپڑ میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکائو کر رکھا ہے، لذیذ کھانے تیار کیے ہوئے ہیں اورپینے کے لیے ٹھنڈا پانی بھی فراہم کررکھا ہے۔ حضرت خثیمہ چھپڑوں کے پاس آکر رک گئے، اپنی بیویوں کودیکھا انھوں نے انکی آرام و آسائش کا جو اہتمام کیا ہوا تھااسے بھی ملاحظہ فرمایاتو ان کی زبان سے بے اختیار نکلا’’اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیارا حبیب تو اس وقت دُھوپ اورلو کے عالم میں ہے اورابو خثیمہ اس خنک سائے میں ہے جہاں ٹھنڈا پانی موجود ہے ،لذیذ اوراشتہا ء انگیز کھانا تیار ہے ، خیال رکھنے والی خوبرو بیویاں ہیں یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے‘‘پھر اپنی خواتین خانہ کو مخاطب کیا اورفرمایا :میں تم میں سے کسی کے چھپڑکھٹ میں قدم نہیں رکھوں گا بلکہ اپنے پیارے آقا کے پاس جائوں گا،میرے لیے فوراً زادِ سفر تیارکرو‘‘۔ان نیک بخت خواتین نے فوراً اہتمام کیا اورآپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر لشکر اسلام کی جستجو میں نکل کھڑے ہوگئے ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے مقام پر پہنچے تو یہ بھی پہنچ گئے ۔حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بھی پیچھے رہ گئے تھے ۔راستے میں ان سے بھی ملاقات ہوگئی تھی ، جب دونوں ایک ساتھ لشکر کے قریب پہنچے تو ابو خثیمہ نے حضرت عمیر سے کہاکہ مجھ سے ایک بڑی کوتاہی سر زد ہوگئی ہے اگر آپ کچھ دیر توقف کرلیں تو میں آپ سے پہلے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضری لگوالوں ۔

کیا ہمیں شیخ کامل کی ضرورت ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 108 ( Surah Al-Baqara Ayat 119-123 ) درس الق...

اتوار، 13 ستمبر، 2020

آیت ’’اسوئہ حسنہ‘‘ کا شانِ نزول

 

آیت ’’اسوئہ حسنہ‘‘ کا شانِ نزول

’’تمہاری رہنمائی کیلئے اللہ کے رسو ل (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔(۲۱/۳۳) یہ آیت اپنے الفاظ کے اعتبار سے عام ہے۔ اسے زندگی کے کسی ایک شعبہ کے ساتھ وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔لیکن جس موقع پر اس کا نزول ہوا،اس نے اسکی اہمیت کو چار چاند لگادیے ہیں۔یہ آیت غزوئہ خندق کے ایاّم میں نازل ہوئی جبکہ دعوت حق پیش کرنیوالوں کے راستہ میں پیش آنیوالی ساری مشکلات اور آلام ومصائب پوری شدّت سے رونما ہوگئے۔ دشمن سارے عرب کو ساتھ لیکر آدھ مکاہے۔ یہ حملہ اتنا اچانک ہے کہ اس کو پسپا کرنے کیلئے جس تیاری کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے خاطر خواہ وقت نہیں،تعداد کم ہے ،سامانِ رسد کی اتنی قلت ہے کہ کئی وقت خاتمہ کرنا پڑتا ہے۔مدینہ کے یہودیوں نے سنگین وقت پر دوستی کا معاہدہ توڑدیا ہے۔ انکی غداری کے باعث حالات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔دشمن سیلاب کی طرح بڑھا چلاآتا ہے۔ اسکے پہنچنے سے قبل مدینہ طیبہ کی مغربی سمت کو خندق کھود کر محفوظ بنادینا ازحد ضروری ہے۔ ان حالات میں حضور سرور عالم ﷺ اپنے صحابہ کے دوش بدوش موجود ہیں۔ خندق کھودنے کا موقع آتا ہے تو ایک عام سپاہی کی طرح خندق کھودنے لگتے ہیں۔مٹی اٹھا اٹھا کر باہر پھینک رہے ہیں۔دوسرے مجاہدین کی طرح فاقہ کشی کی تکلیف بھی برداشت فرماتے ہیں۔ اگرصحابہ نے پیٹ پر ایک پتھر باندھ رکھا ہے تو شکمِ رسالت پر دو پتھر بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ مہینہ بھر شدید سردی میں میدانِ جنگ میں صحابہ کے ساتھ دن رات قیام فرما ہیں۔دشمن کے لشکر جرار کو دیکھ کر بھی پریشان نہیں ہوتے بنوقریظہ (ایک یہودی قبیلہ )کی عہد شکنی کا علم ہوتا ہے ،تب بھی پریشانی نہیں ہوتی۔ان تمام ناگفتہ حالات میں عزم واستقامت کا پہاڑ بنے کھڑے ہیں قدم قدم پر صحابہ کی دلجوئی فرماتے ہیں ،منافقین سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ دشمن کو مرغوب کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا۔پھر جنگی اور سیاسی خطوط پر ایسی تدبیر یں کی جاتی ہیں کہ دشمن آپس میں ٹکرا جاتا ہے اور حملہ آور خود بخود محاصرہ اٹھا کر ایک دوسرے پر غداری اور عہد شکنی کے الزامات لگاتے ہوئے بھاگ جاتا ہے۔ غرض یہ کہ ایک ماہ کا عرصہ ایسا ہے کہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٰ وسلم کی سیرت طیبہ کے سارے پہلو اپنی پوری دلفریبوں کے ساتھ اجاگر ہوجاتے ہیں۔اس وقت یہ آیت نازل فرمائی گئی کہ ان مہیب خطرات میں تم نے میرے پیارے رسول کا طریقہ کار دیکھ لیا۔یہ کتنا، راست باز انہ سچا اور اخلاص وللّہیت کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔یہی تمہاری زندگی کے ہر موڑ پر تمہارے لیے ایک خوبصورت نمونہ ہے اسکے نقشِ قدم کو خضر راہ بنالو۔اسکے دامن شفقت کو مضبوطی سے تھام لو یقینا منزل تک پہنچ جائو گے۔(ضیا ء القرآن)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1503 ( Surah Ash-Shura Ayat 14 Part-2 )درس قر...

شیخ کی قدر کی اہمیت کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 107 ( Surah Al-Baqara Ayat 115-118 ) درس الق...

Khatta Kya Hay? - خطا کیا ہے؟

ہفتہ، 12 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 106 ( Surah Al-Baqara Ayat 113-114 Pt-02 ) د...

اللہ تعالٰی کے راستے پر خطا کب ممکن ہے اور اُس سے بچا کیسے جائے؟

جذبہ کیا چیز ہے؟

اسوئہ حسنہ

 

اسوئہ حسنہ

’’نظریات جب تک نظریات ہوں نہ ان کے حسن وقبح کا صحیح اندازا لگایا جاسکتا ہے اور نہ ان میں یہ کشش اور جاذبیت پائی جاسکتی ہے کہ وہ کسی کو عمل پر ابھار سکیں۔دلائل کے آپ انبار لگادیجئے، فضاحت وبلاغت کے دریا بہا دیجئے ۔لوگ تحسین وآفرین ضرور کریں گے۔لیکن ان نظریات کو اپنائے اور اس اپنانے کی جو ذمہ داریاں ہیں،اور ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی راہ میں جو خطرات ہیں ان کو وہ اٹھا نے کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے۔اسلام فلسفیانہ نظریات کا مجموعہ نہیں کہ آپ ڈرائینگ روم میں آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر انہیں موضوع بحث بنائیں۔اپنے ذہن رسا سے طرح طرح کی ترمیمیں پیش کریں ۔مجلسِ مذاکرہ منعقد کرکے مقالے پڑھیں،اور پھر یہ سمجھ لیں کہ ہم نے اپنا فرض اداکردیا ہے۔ بلکہ یہ تو ایک نظامِ حیات ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی کرتا ہے اور ہر مرحلہ پر پیغام دیتا ہے۔ اس پر عمل کرنا اور اس کی تعلیمات پر کا ربندہونا ،اس وقت تک آسان نہیں جب تک ایک عملی نمونہ ہمارے پاس نہ ہو اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لیے صرف قرآن نازل کرنے پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ اس کی تبلیغ کرنے کے لیے اپنے محبوب کو منتخب فرمایاتاکہ وہ ارشادات خداوندی پر خود عمل کرکے دکھائے اور ان پر عمل کرنے سے زندگی میں جو زیبائی اور نکھار پیدا ہوتا ہے اس کا عملی نمونہ پیش کرے تاکہ جو حق کے متلاشی ہیں وہ قرآنی تعلیمات کی عملی تصویر دیکھ کر اس کو اپنے سینہ سے لگائیں۔‘‘(ضیا ء القرآن)۔ اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں:۔
٭بے شک تمہاری رہنمائی کے لیے اللہ کے رسول (کی زندگی )میں بہترین نمونہ ہے۔ (یہ نمونہ)اس کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور قیامت کے آنے کی امید رکھتاہے ،اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔ (۲۱/۳۳)۔ اسوئہ کے لفظ کی تحقیق کرتے ہوئے علامہ ابن منظور لکھتے ہیں۔الاسوہ والاسوہ ۔القدوۃ یعنی پیشوا ،راہنما ،امام ۔اس کا دسرا معنی یوں رقم فرمایا ہے۔جس سے کوئی غمزدہ اور شکسۃ دل تسلی حاصل کرسکے یعنی غمگسار ۔یعنی حضور کی ذات اقدس میں تمہارے لیے شان غمگساری ہے۔علامہ جوھری نے صحاح میں بھی یہی معنی کیا ہے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں:۔’’اسوہ کا ایک معنی راہنما ہے اور اس کو بھی اسوہ کہتے ہیں جو غمزدہ دل کی تسلی کا باعث ہو۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا رخ انور زخمی کیا گیا ۔دندان مبارک توڑے گئے۔حضور کے چچا کو شہید کیا گیا ۔ بھوک برداشت کی،لیکن ان تمام حالات میں صابر وشاکر رہے۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے طلب گار اور اسکی قضا پر راضی‘‘۔(ضیاء القرآن)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1502 ( Surah Ash-Shura Ayat 14 Part-1 )درس قر...

جمعہ، 11 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 105 ( Surah Al-Baqara Ayat 113 Part-01 ) درس...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1501 ( Surah Ash-Shura Ayat 13 Part-5 )درس قر...

Kya Waris-e-Nabi Humari Mohabat Kay Qabil Hay? کیا وارث نبی ہماری محبت ک...

جذبہ کیسے بیدار ہو؟

ناقا بلِ تردید

 

ناقا بلِ تردید

فیلسوفِ اسلام حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات جرمنی کے ایک فلسفی سے ہوئی ۔ باتوں باتوں میں اس نے علامہ اقبال سے پوچھا کیا آپ خداکے وجود کے قائل ہیں ۔ اور اسے مانتے ہیں ۔ آپ نے بڑی سادگی سے جواب دیا ’’ہاں‘‘ میں خداکو مانتا ہوں ۔

اس نے حیرانگی سے پوچھا۔کیا آپ اساتذہ اور والدین کی تربیت کے باعث یہ عقیدہ رکھتے ہیں یاآپ کے پا س اس کی کوئی دلیل بھی ہے۔

 علامہ اقبال نے جواب دیا:

میں تقلیدی طور پر ماننے والوں میں سے نہیں ہوں ، اگر دلیل قوی ہوتو تسلیم کرلیتاہوں اگردلیل کمزور ہو تو مسترد کردیتا ہوں ۔

اُس نے کہا خداکے وجود اور اس کی وحدانیت پرآپ کے پا س کیا دلیل ہے ،ہم تو اس دشتِ تحقیق میں برسوں سے سر گرداں ہیں،ہمیں تو کوئی دلیل نہیں ملی۔

علامہ اقبال نے کہا : 

میر ے پا س خدا کے وجود اور وحدانیت کی ایک نا قابلِ تردید دلیل موجود ہے۔جس کی بِنا پر میں اسے وحد ہ لاشریک مانتا ہوں اور وہ یہ کہ اس بات کی گواہی ایک ایسے سچے نے دی ہے۔جس کے جانی دشمن بھی کہا کرتے تھے کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔جس کے خون کے پیاسے بھی اسے الصادق الامین کہا کرتے تھے۔ایسے سچے کی شہادت پر میں نے بھی کہا لا الہ الا للہ ۔اللہ کی وحدانیت کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔لیکن عقل انسانی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس عقدے کو حل نہ کرسکی ۔

افلاطون،ارسطو، سقراط، جالینوس جیسے ہزاروں فلسفی اس میدان میں بھٹکتے رہے ۔لیکن خداوند قدوس کے عرفان کی دولت سے یکسر محروم رہے۔منزل مقصود تک رسائی توکجاانہیں تو عرفانِ ربانی کا صحیح راستہ تک سجھائی نہ دیا ۔

یہ اللہ کے فرستادہ حبیب ہی تھے جو دانائے سبل بن کر تشریف لائے ۔ان کے فیضانِ نگاہ سے ہر حقیقت کو آشکار اور ہر راز مخفی کوبے نقاب ہونا تھا۔مخلوق خدا کو علم وآگاہی کی دولت ملنی تھی ۔یہ حبیب جو سیرت وکردار کا ناقابلِ تردید معجز ہ لے کر آیا تھا۔

جب گویا ہوا تو اس کی ایک جنبش لب سے یقین واطمینان کے سوتے پھوٹ نکلے ۔رب ذوالجلال کی وحدانیت ، الوہیت ،ربوبیت وکبریائی کی یہ گواہی سامنے آئی ،تو حقیقت اتنی آشکار ہوئی، اتنی نمایاں ہوئی کہ اس کے بعد کسی گواہی کی ضرورت ہی باقی نہ رہی ۔آج صد یوں کا سفر طے ہوجانے کے باوجود بھی ایقان کی یہ شمع اسی طرح فروزاں ہے۔ 

دور دراز جنگل میں بکریاں چرانے والا ایک گمنام مسلمان چرواہا جسے کبھی کسی استاد کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ایک یقین و آگہیٰ سے گواہی دیتا ہے لا الہ الا للہ۔ 

چرخہ کاتتی ہوئی چھوٹے سے گاؤں کی ایک سادہ لوح ان پڑھ ماں جب اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو پورے وثوق کے ساتھ سبق پڑھاتی ہے لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ ۔

اک یقین وآگہی سے ھوں میں گرم جستجو

جو مری منزل ہے میر ا راہبر بھی آپ ہے 

جمعرات، 10 ستمبر، 2020

Allah Tallah Say Mohabat Ka Rasta - اللہ تعالیٰ سے محبت کا راستہ

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1500 ( Surah Ash-Shura Ayat 13 Part-4 )درس ق...

صحابہ کرام کا اشتیاق نماز

 

صحابہ کرام کا اشتیاق نماز

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان صحبت نے صحابہ کرام کے ذوق عبادت کی آبیاری کی۔ اللہ کی یاد ان کے خیالات وافکار میں اس طرح سرایت کرگئی ،کہ کوئی مشغولیت انھیں اس سے غافل نہ کرسکتی ۔ حضرت قتارہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام خرید وفروخت اور تجارت کرتے تھے لیکن جب اللہ کریم کا کوئی معاملہ پیش آتا تھا تو یہ مشتعل وعمل ان کو یادِ الہٰی سے غافل نہیں کرتا تھا۔ بلکہ وہ اس کو پوری طرح اداء کرتے تھے۔حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ کسی کام سے بازار گئے۔ اذان کی آواز بلند ہوئی انھوں نے دیکھا کہ صحابہ کرام نے فوراً اپنی دکانیں بند کردیں اور مسجد میں داخل ہوگئے۔(فتح الباری) صحابہ کرام نماز میں قرآن مقدس کی آیات تلاوت کرتے تو انکی معنویت انکے ذوق وشوق میں اضافہ کرتی ،حضرت تمیم داری ایک رات نماز کیلئے کھڑے ہوئے تو صرف ایک آیت کی تلاوت میں صبح کردی بار بار اس کاتکرار کرتے اور اسکے معنی سے خط اٹھاتے ۔ (اسد الغابہ) امام ابو دائود روایت کرتے ہیں کہ ایک رات میدانِ جنگ میں دوصحابہ ایک پہاڑی پر نگرانی کے لیے متعین کیے گئے۔انھوں نے پہرہ دینے کے لیے باری مقررکی ان میں ایک محواستراحت ہوجاتے ہیں۔ دو سرے نے نماز شروع کردی۔کہیں دور سے کسی دشمن نے انھیں دیکھا اور تاک کر ان کی طرف ایک تیرمارا۔تیرآکر انکے بدن میں ترازو ہوگیا۔جسم اور کپڑے لہو میں تر ہوگئے۔مگر نماز میں استغراق اسی طرح قائم رہا۔نماز مکمل کرنے کے بعد اپنے ساتھی کو بیدار کیا انھیں سارا واقعہ سنایا۔ وہ کہنے لگے ،ارے بھلے انسان تم نے مجھے اسی وقت کیوں نہ جگالیا۔ فرمانے لگے:میں نے ایک پیاری سی سورت شروع کی ہوئی تھی۔میرا دل نہ چاہا کے اس کو ختم کئے بغیر نمازتوڑ دوں۔ (ابودئود ) بعض اوقات تو یوں ہوا کہ ذوق عبادت بہت زیادہ بڑھ گیا۔ کئی صحابہ نے تو راتوں کی نیند مکمل طور پر ترک کردی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اعتدال اور توازن کی تلقین فرمائی ۔حضرت ابودردارضی اللہ عنہ کا یہی عالم تھا وہ ساری رات بیدار رہتے حضرت سلمان فارسی ؓایک رات انکے مہمان ہوئے تو اوّل شب میں انھیں آرام کی تلقین کی اور تہجد کے وقت انھیں بیدار کیااور کہا اٹھواب نماز کا وقت ہے۔حضرت عثما ن بن مظعون بھی ساری ساری رات عبادت میں گزرتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون کو فرمایا:اے عثمان تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو۔(ابو دئود)

ہمارے عمل میں جان کیسے پیدا ہوگی؟

بدھ، 9 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1499 ( Surah Ash-Shura Ayat 13 Part-3 )درس قر...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 103 ( Surah Al-Baqara Ayat 111 ) درس القرآن ...

Allah Tallah Say Shadeed Mohabat - اللہ تعالیٰ سے شدید محبت

Allah Tallah Say Shadeed Mohabat - اللہ تعالیٰ سے شدید محبت

ہم میں خلوص کیوں کر پیدا ہو؟

نماز،سب سے مقدّم

 

نماز،سب سے مقدّم

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی کشادگی عطاء فرمائی، وہ ایک دن اپنے ایک باغ میں نماز پڑھ رہے تھے۔نظر کے دوران انکی نظر پڑی کہ چیڑی اڑی ہے اور وہ راستہ کی تلاش میں ادھر اُدھر سرگرداں ہے۔لیکن اس راستہ سمجھائی نہیں دی رہا کیونکہ باغ بہت گھنا تھا۔ حضرت ابو طلحہ کو یہ منظر بہت بھایا اور وہ کچھ دیر تک اس میں محو رہے۔پھر انھیں خیال آیا کہ وہ تو نماز میں ہیں۔نمازکی طرف متوجہ ہوئے تو یہ یاد نہ رہا کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکے ہیں۔ فرمانے لگے۔یہ ساری مصیبت  اس باغ کی وجہ سے پیش آتی ہے۔فوراًحضور نبی رحمت الصلوٰ ۃ التحیۃ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اپنی نماز کا سار ا قصہ گوش گزار کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ باغ اللہ کے نام پر صدقہ ہے آپ اسے جہاں مناسب سمجھیں خرچ فرمادیں۔ (موطاء امام مالک)حضرت عبداللہ ابن عباس ؓکی بینائی زائل ہوگئی۔ طبیب سے مشورہ کیا تو اس نے کہا آپ کی آنکھ کا علاج ہوجائے گا۔ لیکن آپ کو چند دن نماز کا ناغہ کرنا پڑھے گا۔ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں کیونکہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا  ہے کہ جو انسان نماز چھوڑے گا۔اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا۔ (طبرانی)  حضرت عبداللہ ابن ابی بکر فرماتے ہیں ایک انصاری مدینہ کی وادی قف میں اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے۔کجھوریں پکنے کا زمانہ اپنے اوج پر تھا۔ اور خوشے کجھوروں کے بوجھ کی وجہ سے جھکے پڑے تھے۔ان کی نگاہ ان خوشوں پر پڑی تو کجھوروں کی کثرت کی وجہ سے وہ بڑے ھلے معلوم ہوئے۔ پھر انھیں اپنی نماز کا خیال آیا تو یہ بھول چکے تھے کہ کتنی رکعت پڑھ چکے ہیں۔ لگے اس باغ کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی ہے کہ میں نماز کی رکعتیں ہی بھول گیا۔یہ حضرت عثمان غنی کا زمانہ خلافت تھا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ اور عرض کیا کہ یہ سارا باغ کسی خیر کے راستے میں صدقہ ہے۔ آپ اسے کسی خیر کے کام میں خرچ کردیں چنانچہ حضرت عثمان غنی ؓکے اس باغ کو ۵۰ ہزار درہم میں فروخت کردیا اور رقم کا رخیر میں صرف کردی اس باغ کا نام خمسین (پچاسا) مشہور ہوگیا۔(موطا امام مالک) حضرت مسروق ؒکہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھے ،ہم نے ایک باغ میں قیام کیا۔ حضرت ابو موسیٰ رات کو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ انکی آواز بہت دلکش اور قرأت بہت عمدہ تھی اور جیسی آیت پر گذرتے اسی طرح کی دعا کرتے ۔(ابونعیم)

منگل، 8 ستمبر، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 102 ( Surah Al-Baqara Ayat 109-110 ) درس الق...

Allah Tallah Ki Yaad Darasal Kya Hay? - اللہ تعالٰی کی یاد دراصل کیا ہے؟

صحابہ کرام کاذوقِ نماز (۲)

 

صحابہ کرام کاذوقِ نماز (۲)

حضرت ابو عثمان نہدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں سات راتوں تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مہمان رہا۔میں نے دیکھا کہ آپ ،آپ کی اہلیہ اور آپ کا خادم تینوں باری باری اٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے ،اور اس کے لیے انھوں نے رات کے تین حصے کیے ہوئے تھے۔(ابو نعیم) ٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک رات میں نماز عشاء کے بعد قدرے تاخیر سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ آپ نے مجھ سے استفسار فرمایا۔کہاں تھیں؟میں نے عرض کیا:آپ کے ایک صحابی مسجد میں (ادائیگی نفل کرتے ہوئے) قرآن پڑھ رہے تھے۔میں اسے سن رہی تھی میں نے اس جیسی آواز اور اس جیسا حسن قرأت آپ کے کسی اور صحابی سے نہیں سنا،آپ نے بھی کچھ دیر ان کی تلاوت سماعت فرمائی اور میری جانب متوجہ ہوکر فرمایا۔یہ ابو حذیفہ کے غلام سالم ہیں۔ ٭تمام تعریفیں اس پاک پروردگار کے لیے ہیں ،جس نے میری امت میں ایسے افراد پیدا کئے۔(حاکم)

٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نماز سے بڑی محبت تھی ،وہ زیادہ نفلی روزے نہیں رکھتے تھے۔ عام طور پر مہینے میں تین نفلی روزے رکھتے ۔ فرماتے ،جب روزہ رکھتا ہوں تو کمزوری محسوس ہوتی ہے اس وجہ سے نماز میں کمی ہوجاتی ہے۔اور مجھے نماز سے زیادہ محبت ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن یزید ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کم روزے رکھنے والا کوئی فقیہ نہیں دیکھا ، ان سے وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایامجھے نماز سے زیادہ رغبت ہے۔ 

٭حضرت عبداللہ بن مسعود السابقون الاولون میں سے ہیں مکہ میں غربت کی وجہ سے اجرت پر بکریاں چراتے تھے۔ صحت کے اعتبار سے نحیف ونزار تھے۔ مشرکین مکہ کی زیادتیوں کا خاص نشانہ بھی بنتے ۔اس کے باوجود بڑی تندھی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے۔ جہاد میں سرگرم حصہ لیتے۔نوافل میں مشغولیت کے علاوہ تحصیل علم اور درس وتدریس سے خصوصی شغف تھا۔ سنت رسول کے ابلاغ میں آپ نے خاص کردار ادا کیا اور بے شمار تلامذہ نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا۔ انھیں وجوہات کی بنا پر زیادہ روزہ کی مشقت نہیں اٹھا پاتے تھے۔ لیکن عبدالرحمن بن یزید ؒ کی روایت سے یہ اندازا بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں لوگ فقہا وعلماء سے کیسی توقعات رکھتے تھے۔