جمعرات، 30 جون، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 95-98.کیا ہم سیدھے راستے سے بھٹک گئ...

Shortclip - سب سے بڑا ظالم کون؟

جواہراتِ حدیث

 

جواہراتِ حدیث

٭حضرت عباس بن عبدالمطلب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے سُنا آپ فرماتے ہیں۔ ایمان کامزا اس نے چکھا اور اسکی لذت اسے ملی جس نے اللہ کو اپنا رب‘ اسلام کو اپنا دین اور محمد ﷺ کو اپنا رسول مان لیا۔ (مسلم)٭حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن میزان عمل میں سب سے زیادہ وزنی چیز انسان کے اچھے اخلاق ہونگے۔ (ترمذی ابودائود)٭ حضرت امامہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جب تم کو اچھے عمل سے مسرت اور برے کام سے رنج ہو تو تم مومن ہو۔ (مسند احمد)٭ 
حضرت امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اللہ ہی کیلئے کسی سے محبت کی اور اللہ ہی کیلئے دشمنی کی اوراللہ ہی کیلئے دیا اوراللہ ہی کیلئے منع کیا (یعنی نہ دیا) تو اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کرلی۔ (ابودائود )٭حضرت انس سے روایت ہے کہ ایمان کی لذت اس کو نصیب ہوگی جس میں تین علامات پائی جائیں۔ ایک یہ کہ اللہ اوراُسکے رسولؐ کی محبت اُس کو ہر ایک سے زیادہ ہو۔ دوسرا یہ کہ جس کسی سے بھی محبت ہو محض اللہ ہی کیلئے ہو اور تیسرا یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف واپس لوٹنے سے اس کو اتنی ہی کراہت ہو جتنی کہ آگ میں ڈالے جانے سے ہوتی ہے (متفق علیہ)

٭ حضرت ابن عباس سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جسے چار چیزیں مل گئیں‘ اسے دنیا اورآخرت کی بھلائی حاصل ہوگی (۱) شکر کرنیوالا دل (۲) اللہ کویاد کرنیوالی زبان (۳) مصیبت پر صبرکرنیوالا بدن (۴) ایسی بیوی جو اپنی ذات اور شوہرکے مال میں خیانت کرنیوالی نہ ہو۔ (مشکوٰۃ) 

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی ہے جو مجھ سے نصیحت کے یہ کلمات لے کر اُن پر عمل کرے اوراُن کو سکھائے جو ان نصیحتوں پرعمل کریں۔ حضرت ابوہریرہ نے عرض کی یا رسول اللہؐ میں حاضر ہوں تو آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑلیا اور درج ذیل باتیں ارشاد فرمائیں گناہ سے پرہیز کرو تو تم سب سے بڑے عبادت گزار بن جائو گے۔ اپنے پڑوسی سے احسان کرو تو (حقیقی) مومن ہوجائو گے۔ لوگوں کیلئے وہی چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو تو (حقیقی) مسلمان بن جائو گے (اور زیادہ ہنسی مذاق اور استہزاء نہ کیا کرو کہ) بہت زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ (ترمذی) 

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 95 Part-02. کیا ہم صرف دنیا پرست قو...

بدھ، 29 جون، 2022

Shortclip - دین اسلام کا اصل فائدہ کیا ہے؟

خادموں سے حسنِ سلوک

 

خادموں سے حسنِ سلوک

حضرت عبادہ بن الولید، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم صحابی حضرت ابوالیسر رضی اللہ عنہ سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد حضرت ابوالیسر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم نے دیکھا کہ جو چادر اور لباس آپ نے پہنا ہو اہے وہی آپکے غلام نے بھی پہنا ہوا ہے۔ میں نے آپ سے اس بارے میں استفسار کیا تو آپ نے بڑی محبت اور شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ اسے برکت عنایت فرما‘‘ پھر ارشاد فرمایا‘ اے میرے بھتیجے، میر ی ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور ان دونوں کانوں نے سنا اور اسے اس دل نے محفوظ رکھا اور آپ نے اپنے دل کی طرف اشارہ فرمایا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات ارشاد فرما رہے تھے کہ ’’تم ان غلاموں کو وہیں سے کھلائو جو تم خود کھاتے ہو اور وہیں سے پہنائو جو تم خود پہنتے ہو‘‘ (سو میرے بیٹے)۔ اگر میں اس غلام کو متاع دنیا میں سے کوئی چیز دے دوں یہ میر ے لیے اس امر سے زیادہ آسان ہے کہ وہ قیامت کے دن میری نیکیاں لے لے۔ (مسلم)

٭ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں عرض کیا۔ یارسول اللہؐ ہم اپنے خدمت گاروں اور خادموں کی خطائوں اور غلطیوں سے کتنی دفعہ درگزر کیا کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا سوال سن کر خاموش رہے۔ اس نے اپنا سوال دہرایا۔ حضورؐ نے پھر بھی سکوت فرمایا‘ جب اس نے تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا ہر روز سو دفعہ درگزر کیا کرو۔ (ابو دائو۔ ترمذی )

 ٭رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا غلاموں (خادموں، ملازموں) کے ساتھ خوش خلقی کا برتائو کرنا برکت کا موجب ہے اور بدخلقی کا برتائو کرنا بے برکتی کا سبب ہے۔ (ابودائو شریف)

٭حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے ان کو تمہارے ماتحت کردیا ہے۔ پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو جو کھانا خودکھائے اس میں سے اسے کھلائے اور جو کپڑا خود پہنے وہی اسے پہنائے اور ایسی مشقت نہ لے جو اسکی طاقت سے باہر ہو اوراگر اسکی طاقت سے بڑھ کر کوئی کام اسکے سپرد کر ے تو خود بھی اسکی مدد کر ے۔ (بخاری ،مسلم)

٭آپ نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے غلام پر ایسی تہمت لگائے جو اس میں نہیں ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر حد جاری کریگا۔ (ترمذی)

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 95 Part-01.کیا ہم ایک مردہ قوم ہیں

منگل، 28 جون، 2022

Shortclip - دین اسلام کیا ہے؟

خادموں کا خیال رکھنے والے!

 

خادموں کا خیال رکھنے والے!

ربیعہ بن کعب اسلمی حضور اکرم ﷺ کی خدمت عالیہ کیلئے ہمہ وقت اور ہمہ دم حاضر رہتے تھے۔ طہارت اور وضو کے پانی کا نہایت ذوق وشوق سے اہتمام فرماتے، آپ بیان فرماتے ہیں‘ ایک دن حضور انور ﷺ نے مجھ سے استفسار فرمایا اے ربیعہ! کیا تم شادی نہیں کروگے؟ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں نہیں چاہتا کہ کوئی چیز مجھے آپؐ کی خدمت سے غافل کردے۔ آپ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ کچھ دن بعد مجھ سے پھر پوچھا ربیعہ! کیا تم شادی نہیں کروگے؟ میں نے عرض کیا رسول اللہؐ ایک تو میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور مشغولیت مجھے آپؐ کی خدمت سے غافل کردے۔ دوسرا یہ کہ میرے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ میں بیوی کو مہر دے سکوں، آپ پھر خاموش ہوگئے۔ میں نے سوچا جناب رسول محتشم ﷺ میری حالتِ زار اور میرے مالی معاملات سے بخوبی واقف ہیں‘ اسکے باوجود مجھ سے شادی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ مجھے آپؐ کے سامنے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ اب پوچھیں گے تو ضرور اثبات میں جواب دوں گا۔ چنانچہ آپؐ نے ایک دن پھر پوچھا، میں نے گزارش کی یارسول اللہ جو حکم! لیکن مجھ مفلس ونادارکو رشتہ کون دیگا۔ آپؐ نے مجھے فرمایا۔ فلاں قبیلے کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ رسول اللہؐ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کردو۔ انہوں نے نکاح کا پیغام سن کر حضور اکرم ﷺ اور مجھے مرحبا کہا اور ایک خاتون کے ساتھ میرا نکاح کردیا۔ میں آپؐ کی خدمت ِ اقدس میں واپس آیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا اور ساتھ ہی عرض کیا اب حق مہر کہاں سے ادا کروں۔ آنحضورؐ نے حضرت بریدہ اسلمی سے فرمایا: ربیعہ کیلئے ایک گٹھلی کے برابر سونے کا انتظام کرو۔ انھوں نے سونا جمع کرکے مجھے دے دیا۔ وہ میں نے بیوی کے گھر والوں کو دے دیا۔ پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنجنابؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! اب ولیمہ کیلئے کیسے اہتمام کیا جائے۔ آپؐ نے پھر حضرت بریدہ سے ارشاد فرمایا‘ اب ربیعہ کیلئے ایک مینڈھے کا انتظام کردو۔ انہوں نے فوراً انتظام کر دیا۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ (صدیقہ  رضی اللہ عنہا) کے پا س جائو اور ان سے کہو کہ انکے پاس جتنے جوہیں‘ وہ تمہارے حوالے کردیں۔ میں انکے پاس گیا تو انھوں نے آٹے کی ٹوکری میرے حوالے کردی حالانکہ صورتحال یہ تھی کہ کاشانہ نبویؐ میں اس ٹوکر ی کے علاوہ شام کے کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ جب دنبہ اور آٹا آگئے تو میرے سسرال والوں نے کہا کہ روٹیاں ہم تیار کر دیتے ہیں۔ مینڈھے کے متعلق اپنے ساتھیوں سے کہو کہ وہ اسے ذبح کردیں اور سالن تیا ر کردیں۔ یوں گوشت اور روٹی تیار ہوگئی اور میر ے ولیمہ کا اہتمام ہوگیا۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2092 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 20 Part-4 ) د...

پیر، 27 جون، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 94.کیا ہم مشرک ہیں

Shortclip - ہمیں دین اسلام کی کوئی ضرورت ہے؟

Shortclip - محبت الٰہی کی ضرورت

معاف کرنے کی عادت

 

معاف کرنے کی عادت

 اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ’’اورجب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں ، اوربرائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے ، پھر جس نے معاف کردیا اوراصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہء کرم )پر ہے‘‘۔(الشوریٰ:۴۰)’’اورجس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔(الشوریٰ : ۴۳)

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ، اوربرائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور الصلوٰۃ والسلام کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابودائود)

 حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، میں نے ابتداً آپ کا ہاتھ پکڑلیا ، اورمیں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم مجھے فضیلت والے اعمال بتائیے، آپ نے فرمایا : اے عقبہ ، جوتم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو ، جو تم کو محروم کرے ، اس کو عطاکرو، اورجو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو۔(مسند احمدبن حنبل)

 میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لے کر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ، ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اوران پر وہ شوربا گرگیا، میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا، تو باندی نے کہا اے میرے آقا، اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے ، والکاظمین الغیظ ، میمون نے کہا:میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا)اس نے کہا :اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجئے والعافین عن الناس میمون نے کہا :میں نے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی: واللّٰہ یحب المحسنین میمون نے کہا :میں تمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اورتم کو آزاد کردیتا ہوں۔(الجامع الاحکام :تبیان القرآن)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2091 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 20 Part-3 ) د...

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 93.کیا ہم سب بڑے ظالم ہیں

اتوار، 26 جون، 2022

Shortclip - کون سے لوگوں کو اللہ تعالٰی روزِ قیامت اندھا اٹھائے گا؟

عالمگیر پیغام (۳)

 

عالمگیر پیغام (۳)

اللہ کے سارے نبی اور رسول آفاقی نقطۂ نظر کے حامل ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس ماحول اور معاشرے میں وہ تشریف لائیں وہ بھی بلوغت کی اس سطح کو پہنچ چکا ہو ۔ ’’یوحنا‘‘ کی انجیل کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس حقیقت کا برملا اظہار فرمایا ’’مجھے ابھی تم سے بہت سی باتیں کہنی ہیں لیکن تم ابھی اسکے متحمل نہیں ہوئے‘‘۔ لیکن انہوں نے رفع آسمانی سے پہلے انسانیت کو یہ خوشخبری سنا دی ’’جب انسانیت بلوغت کو پہنچ جائیگی تو ان سب کیلئے ایک پیغمبر آئیگا اور وہ تمام حقائق جن کے تم اس وقت متحمل نہیں ہو سکتے، لائے گا‘‘ نبی محتشم ﷺ تشریف لائے تو اللہ نے اپنے کلام مقدس میں کسی ایک قوم کی بجائے پوری انسانیت سے خطاب فرمانا شروع کیا اور بات’’یآایھاالناس‘‘ سے ہونے لگی ’’اے بنی نوع انسان اس رب کی عبادت کرو جس نے تم سب کو پیدا کیا‘‘۔ 

اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اس حقیقت کا اعلان کردیں کہ: اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف سے اللہ کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف) حضوراکرم ﷺ کو قیامت تک کیلئے ساری انسانیت، سارے زمانوں، ساری قوموں کیلئے رسولؐ بنا کر بھیجا گیا۔ صرف یہی نہیں کہ آپؐ ہر طبقہ انسانیت کیلئے اللہ کے رسولؐ ہیں بلکہ جنات و ملائکہ کے علاوہ باقی مخلوقات کے بھی نبی اور رسولؐ ہیں اور سرکش جنوں اور انسانوں کے علاوہ اس حقیقت کا روحانی ادراک واحساس کائنات کی تمام مخلوقات کو ہے۔ 

عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے سنا کہ وہ فرمارہے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو آسمان والوں پر بھی فضلیت عطاکی ہے اور دیگر انبیاء پر بھی لوگوں نے ان سے پوچھا کہ انبیائے کرام پر فضلیت کی دلیل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیائے کرام کو انکی قوموں کی طرف، ان قوموں کی زبان میں ارسا ل کیا اور رسول ﷺ کیلئے ارشاد ہوا کہ ہم نے آپؐ کو پوری انسانیت کیلئے بھیجا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‘ مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کبھی کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ مہینہ بھر کی مسافت تک میری مدد رعب کے ذریعے کی گئی۔ میرے لیے ساری زمین سجدہ گاہ اور پاک بنا دی گئی۔ میری اُمت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کیلئے غنیمت کا مال حلال نہیں کیا گیا۔ میرے لیے غنیمت حلال کردی گئی۔ مجھے شفاعت دی گئی ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیاہوں (بخاری ومسلم) ۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2089 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 20 Part-1 ) در...

Shortclip - ایمان کی ضرورت

Darsulquran urdu surah Al-An'am ayat 92 Part-03.کیا ہم نماز کی حقیقت سے ...

ہفتہ، 25 جون، 2022

Shortclip - اللہ تعالیٰ سے محبت کیوں ضروری ہے؟

Shortclip - زندگی میں کامیابی کیسے ممکن ہے؟

عالمگیر پیغام ( ۲)

 

عالمگیر پیغام ( ۲)

حضور اکرم ﷺ سے پہلے انبیائے کرام نے جب بھی اپنے مخاطبین سے کلام کیا ’’اے میری قوم کہہ کر مخاطب کیا۔ قرآن مقدس نے حضرت موسیٰ، حضرت لوط، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت شعیب، حضرت صالح علیہم السلام کے اپنی اپنی قوموں سے مکالمے کا ذکر کیا ہے ہر پیغمبر نے ’’یاقوم‘‘ کہہ کرخطاب کیا۔ اس طرح دنیا میں موجود مذاہب کی تاریخ اور انکی شریعتوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بھی محدود دائرہ کار پر دلالت کرتی ہیں۔ دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ہر ایک کا نام یا تو کسی خاص شخص کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یا کسی قوم کے نام پر ’’عیسائیت‘‘ نام اس لیے ہے کہ اسکی نسبت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف ہے۔ یہودی مذہب ایک خاص قبیلے میں پیدا ہوا جس کا نام یہودا ہے۔ بدھ مت اپنے بانی مہاتمابدھ کے نام سے منسوب ہے زرتش مذہب کا نام اسکے بانی زرتشت کے نام سے ہے۔ اس طرح قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور اہل مدین۔ دوسری طرف دیگر معروف مذاہب کا جائزہ لیں تو انکے ہاں بھی وسعت اور ہمہ گیری کا تصور مفقود نظر آتا ہے غیرالہامی اور غیرسامی مذاہب میں ہندومت ایک قدیم مذہب ہے۔ یہ مذہب پیچیدہ روایات اور عجیب وغریب اعتقادات کا مجموعہ ہے۔ یہ مذہب کبھی بھی ہندوستان سے باہر نہیں نکل سکا اور ہندوستان میں بھی یہ خواص کا مذہب رہا۔ آریہ دت اور برہمن ہی اسکے اصل پجاری ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر ذاتوں کو گھٹیا اور ملیچھ قرار دیا گیا۔ ویش کھتری اور شودر کم درجہ ذاتیں ہیں ہندوئوں کی مقدس کتابوں کا تعلق بھی محدود طبقہ سے ہے۔ انکے ویدوں، کو دیکھے، کسی بھی ویدنے نہ تو خود کسی عالمگیر پیغام کا دعوی کیا ہے اور نہ اسکے کسی معلم نے اسکے ابلاغ ِ عام کا بیڑا اُٹھایا‘ نہ ان کا پیغام ہندوستان سے باہر پہنچایا بلکہ ہندوستان کے اندر بھی شودر وید کاکلام سننا تو درکنار اسکی شکل تک دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر ایک شودر کسی برہمن سے وید سن لے تو اسکے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا اور اس کو قتل کر دیا جاتا (وید ہندوؤں کی مذہبی کتابیں ہیں)۔ بدھ مت اور جین مت ہندوستان میں برہمنوں کے اقتدار کے ردِ عمل کے طور پر پیدا ہوئے۔ ابتدامیں عورتوں کو بدھ دھرم میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ لوگوں کے اصرار پر یہ اجازت دی گئی تو ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاگیا کہ اب اس مذہب کی مدت کم ہو جائیگی ۔ اس طرح جین مت، کنفیوشس ازم اور زرتشت کی تعلیمات بھی اپنے اپنے علاقے اور اپنی اپنی قوم تک محدود تھیں۔ انسانیت منتظر تھی ایسے پیغام کی جو عالمگیر ہو۔ آفاقی ہو سب کیلئے ہو۔ ایسے میں ایک بشیرو نذیر کی آمد ہوئی جس کا 
تعارف اسکے پروردگار نے یو ں کروایا ۔
وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین 

جمعہ، 24 جون، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 92 part-02.کیا ہم قرآن پاک کو کتاب ...

Shortclip - دین میں فرقہ کیوں ایجاد ہوا؟

Shortclip - زندگی کی حقیقت

عالمگیر پیغام (۱)

 

عالمگیر پیغام (۱)

 اللہ جو رب العالمین ہے ، اس نے انسان کوکسی بھی اعتبار سے تنہا اور بے یارومددگار نہ رہنے دیا ۔ اللہ نے انسان کے رزق کیلئے زمین کوصلاحیت نمو بخشی ، سمندروں کی وسعت میں اسکے اسباب پیداکیے ۔ سورج کی روشنی اور آسمان کے بادل ممدو معاون ہوئے اسباب وسائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ انسان کو عقل ،شعور بھی عطاکیااور انہیں ان اسباب کو بروئے کار لانے کی صلاحیت سے بھی متصف کیاگیا ۔ یہ کیسے ممکن تھاکہ خدا انسان کیلئے مادی وسائل توبہم پہنچائے ، لیکن روحانی تشنگی کا مداوا نہ کرے ۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ مجرد عقل پر اعتماد کرتے ہوئے انسان صراط مستقیم کا سراغ لگابھی نہیں سکتا۔ انسان کی روحانی اصلاح کیلئے اور اسے ہدایت کی منزل کی طرف گامزن کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کا مبارک سلسلہ جاری کیا ۔ قرآن اس امر کا واشگاف اعلان کرتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم کو اللہ کی اس رحمت سے محروم نہیں کیا گیا ۔کوئی امت ایسی نہیں جس ( اللہ کی طرف سے کوئی ) نذیر ( جنجھوڑنے والانہیں آیا)(رعد ۱۳۔۷)دوسرے مقام پر ارشاد ہوتاہے ۔ ہرقوم کوہدایت دینے والا آیا ہے۔(نمل ۱۶۔۳۶)بے شک ہم نے ہر امت میں رسول مبعوث کیے ہیں۔ ان انبیائے کرام نے اپنے اپنے علاقے میں اور اپنی اپنی قوم میں بڑی محنت ، تند ہی اور جاں فشانی سے اللہ کا پیغام پہنچایا اور مقدور بھر انکی اصلاح کی کوشش کی ، قرآن مقدس ، دیگر مقدس سماویہ اور مذاہب عالم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور اکرم  ﷺ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر ہادی ،نبی تشریف لائے کسی نہ کسی مخصوص قوم ، علاقے اورمخصوص وقت کیلئے مبعوث ہوئے ۔ انہیں ایک مخصوص ذمہ داری دی گئی جسے انہوں نے بطریق احسن نبھایا حضرت نوح علیہ السلام کاتذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے ’’بے شک نوح علیہ السلام کو ان قوم کی طرف بھیجاگیا‘‘ (الذاریات ۵۹۔۷) حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد کی طرف بھیجے گئے ’’ قوم عاد کی طرف انکے بھائی ہود آئے ‘‘ ( الاعراف ۷۔۶۵) صالح علیہ السلام کیلئے کہاگیا(قوم) ثمود کی طرف انکے بھائی صالح آئے (الاعراف ۷۔۷۳)۔حضرت شعیب علیہ السلام کے متعلق فرمایاگیا۔’’اورمدین کی طرف انکے بھائی شعیب آئے ‘‘ (الاعراف ۷۔۸۵) حضرت موسیٰ کا ذکر یوں ہوتا ہے۔ ’’ ہم نے موسیٰ پرکتاب اتاری اوراسے بنی اسرائیل کیلئے ہدایت بنایا‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷۔۲) قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول یوں بیان کیا گیا ہے ’’اور جب عیسٰی ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں‘‘۔ (الصف ۶۱۔۶) 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2087 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 19 Part-2 ) در...

جمعرات، 23 جون، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 92 part-01.کیا ہمارا آخرت پر یقین ن...

Shortclip - قرآن میں کیا ہے؟

Shortclip - زندگی کیوں؟

انقلابِ فکر و عمل (۲)

 

انقلابِ فکر و عمل (۲) 

حضور اکرم ﷺ کی دعوت عرب کے اطراف واکناف میں پھیل گئی، خنساء بنت عمرو بھی اس پیغام سے آشناء ہوئیں۔ اللہ نے انہیں فطرت سلیم عطاء کی تھی‘ وہ فہم وفراست اور ذوق لطیف سے آراستہ تھیں۔ یہ پیغام سنتے ہی اسکی حقانیت ان پر واضح ہوگئی۔ انہوں نے اپنے قبیلہ کے چند افراد کو ساتھ لیا اور حضور انورؐ کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوگئیں اور اسلام کی دولت سے مشرف ہوئیں۔ اس موقع پر حضوراکرم  ﷺ نے بڑی دیر تک ان کا درد و سوز سے لبریز کلام بھی سماعت فرمایا‘ حضورؐ کلام سنتے اور فرماتے جاتے، شاباش! اے خنسائ، شاباش! اے خنسائ۔ قبول اسلام کے بعد اپنے قبیلے میں واپس آگئیں۔ انکے لہجے کی تاثیر اور خلوص نے بڑا اثر دکھایا اور بے شمار لوگ انکی تبلیغ سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ خنساء اسکے بعد بھی کئی بار مدینہ منورہ حاضر ہوئیں اور نبی کریم  ﷺ  سے اکتسابِ فیض کیا۔ 
سیّدنا عمر ابن خطاب کے زمانے میں قادسیہ کا تاریخی معرکہ برپا ہوا۔ حضرت خنساء ؓعنہا بھی اپنے چاروں بیٹوں کیساتھ اس معرکہ میں شریک تھیں۔ معرکے کی شب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا، اے میر ے بچو! تم نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا اور ہجرت کی سعادت حاصل کی‘ خوب سمجھ لو کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی کارِ ثواب نہیں۔ آخرت کی زندگی دنیا کی فانی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ کل جب تم میدانِ کارزار میں اترو تو اللہ سے فتح ونصرت اور کامیابی کی دعا مانگتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑنا۔ جب تم محسوس کرو کہ لڑائی کا تنور خوب بھڑک اٹھا ہے، تو تم خاص آتش دان میں جا گھسنا۔ راہ حق میں دیوانہ وار تلوار چلانا‘ ہوسکے تو دشمن کے سپہ سالار پر ٹوٹ پڑنا‘ اگر کامیاب رہے تو کیا کہنے اور اگر شہادت نصیب ہوگئی تو آخرت کی فضلیت سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ چاروں بیٹوں نے ثابت قدم رہنے کا وعدہ کیا۔ صبح جب یہ شیرجوان میدانِ کارزار میں اترے توضعیف وناتواں خنساء نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی الٰہی! میری متاعِ عزیز یہی کچھ تھی‘ اب تیرے سپرد ہے۔ ہوا یوں کہ چاروں بیٹے ایک ایک کرکے اللہ کے راستے میں قربان ہوگئے۔ خنساء کو خبر ملی تو کہا مجھے انکے لاشوں کے پاس لے جائو۔ ٹٹول ٹٹول کر چاروں کی پشتوں کو دیکھا‘ وہا ں کوئی نشان زخم نہیں تھا۔ جتنے زخم تھے، سینے پر تھے، بے ساختہ زبان سے نکلا الحمدللہ الذٰی شرّفَنی بشہادۃ ھؤلائ۔ اللہ کی حمد جس نے مجھے ان چاروں کی شہادت سے مشرف کیا۔ اللہ اللہ یہ انقلاب فکر و عمل وہ خاتون جس نے اپنے بھائی کے غم میں رو رو کر وجود کو کھوکھلا کرلیا اور اپنی بینائی تک زائل کرلی۔ اپنے چاروں بیٹوں کی شہادت کو کس حوصلے سے برداشت کررہی ہے اور موت کے پردے میں حیات کی کونسی روشنی دیکھ رہی ہے ۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2086 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 19 Part-1 ) د...

Shortclip- کیا ہم اپنی زندگی کو ضائع کرنے پر تُل گئے ہیں؟

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 91 part-03.کیا ہم تارک قرآن ہیں

بدھ، 22 جون، 2022

Shortclip - عبادت الٰہی کامطلب

انقلابِ فکر و عمل (۱)

 

انقلابِ فکر و عمل (۱) 

حضرت خنساء بنت عَمَرْوْ کا تعلق عرب کے معروف قبیلہ بنو سلیم سے تھا (جو بنوقیس بن غیلان کی ایک شاخ تھی)۔ یہ قبیلہ اپنی خوبیوں کی بناء پر قبائل عرب میں امتیازی شان کا حامل تھا۔ ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے اس قبیلہ کی تعریف کچھ اس طرح فرمائی۔ ’’بلاشبہ ہر قوم کی ایک پناگاہ ہوتی ہے اور عرب کی پناہ گاہ بنوقیس بن غیلان ہے۔‘‘ حضرت خنساء کا اصل نام ’’تماضر‘‘ تھا لیکن اپنی معاملہ فہمی، چستی اور خوبصورتی کی وجہ سے خنساء کے نام سے معروف ہوگئیں جس کا معنی ہے ’’ہرنی‘‘۔ خنساء ہجرت نبوی سے تقریباً 50 سال پہلے پیدا ہوئیں۔ خنساء کے والد عمر وبن الحارث بنو سلیم کے رئیس تھے اور اپنی وجاہت اور ثروت کی بناء پر بڑے اثر ورسوخ کے مالک تھے۔ انکی اولاد میں دو بیٹے معاویہ، صخر اور ایک بیٹی خنساء تھیں۔ ان سب کی تربیت بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوئی اور یہ سب بڑے اعلی خصائل کے مالک ہوئے۔ خنساء کے دو نکاح ہوئے۔ جن سے چار بیٹے پیدا ہوئے لیکن وہ جلد ہی بیوہ ہو گئیں۔ انکے دونوں بھائیوں نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ خاص طور پر خنساء اور صخر میں بڑی مناسبت طبعی تھی اور دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے تھے۔ سوئے اتفاق ‘ کہ ایک معرکے میں ان کا بڑا بھائی معاویہ ماراگیا اور جلد ہی ایک اور تنازعہ میں ان کا دوسرا بھائی ’’صخر‘‘ بھی شدید زخمی ہوگیا اور کئی ماہ تک موت وحیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد موت سے ہمکنار ہوگیا۔ صخر بڑا عاقل، شجاع اور خوبصورت نوجوان تھا۔ خنساء کو اسکی موت کا بے حد صدمہ ہوا۔ یہ غم انکے وجود کی گہرائیوں میں اتر گیا ہے۔ شدت احساس سے جب ضبط کے بند ھن ٹوٹنے لگے تو اس نے اپنے اظہار کیلئے شاعری کا راستہ اختیار کرلیا ۔ خنساء نے صخر کے فراق میں ایسے دل سوز اور جان گداز مرثیے کہے کہ جنہیں سن کر پتھروں میں بھی گداز پیدا ہوجاتا۔ انکے مرثیوں نے انہیں پورے عرب میں مشہورکردیا۔ بازار عکاظہ میں ایک سالانہ میلا لگتا تھا جس میں قبائلِ عرب کے تمام رئوساء اور ہر قسم کے ارباب ہنروکمال شریک ہوتے۔ خنساء کو بھی بڑے اصرار سے اس میلے میں بلایا جاتا، لوگ انکے اونٹ کے گردگھیرا ڈال لیتے اور ان سے صخرکا مرثیہ سنانے کی فرمائش کرتے جب وہ محوِ سخن ہوتیں تو اشک و آہ کا ایک طوفان اُٹھ جاتا۔ سخت دل صحرائی فرط رنج والم سے دھاڑیں مارمار کرروتے۔ خنساء صبح و شام صخر کی قبر پر جاتیں اور مرثیہ پڑھتیں۔ یہ غم یہاں تک بڑھ گیا کہ خنساء کی آنکھوں سے بینائی زائل ہوگئی۔ اسی کیفیت غم و اندوہ میں دن گزر رہے تھے کہ فاران کی وادیوں میں ایک آفتاب ہدایت طلوع ہوا اور اسکی روشنی کشاں کشاں خنساء کی تاریک دنیامیں بھی پہنچ گئی۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2085 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 15 - 18 ) درس...

Darsulquran surah al-an'am ayat 91 Part-02. کیا ہم خرافات میں پڑے ہیں

منگل، 21 جون، 2022

Shortclip - دین اسلام ہی کیوں؟

Shortclip - کیا ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کے قابل ہیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2084 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 12 - 14) درس ...

اخلاص نیت (۳)

 

اخلاص نیت (۳)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ایک ایسے شخص کیخلاف فیصلہ سنایا جائیگا، جس نے شہادت پائی ہوگی، اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرکیا جائیگا ۔ خدا اسے اپنی تمام نعمتیں یاد دلائے گا‘ وہ انہیں تسلیم کریگا۔ تب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے میری نعمت کے بدلے کیا کام کیا؟ وہ عرض کریگا‘ میں نے تیری خوشنودی کی خاطر جہاد کیا، یہاں تک اپنی جان قربان کردی۔ خدا اس سے کہے گا تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی، تو نے صرف اس لیے لڑائی میں حصہ لیاکہ لوگ تجھے بہادر اور شجاع تسلیم کرلیں۔ سو دنیا میں تجھے اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہو گا اس (نامراد) کو منہ کے بل گھسیٹے لے جائو اور جہنم میں ڈال دو۔ پھر ایک اورشخص کو خدا کی عدالت میں پیش کیا جائیگا جو دین کا عالم و متعلم ہوگا۔ خدا اسے اپنے انعامات یاد دلائے گا‘ وہ انہیں تسلیم کریگا۔ تب اس سے کہے گا‘ ان نعمتوں کویاد کرکے تونے کیا عمل کیے۔ وہ عرض کریگا‘ اے پروردگار، میں نے تیری خاطر دین سیکھا اور تیری خاطر دوسروں کو اسکی تعلیم دی اور تیری خاطر درس قرآن دیا۔ اللہ فرمائے گا‘ تم نے جھوٹ کہا تم نے تو اس لیے علم سیکھا تھاکہ لوگ تمہیں عالم کہیں اور قرآن مجید کا درس محض اس لیے دیتے رہے کہ یہ قرآن کا قاری ہے (اور اسکے رموز سے آشنا ہے) سو تمہیں دنیا میں اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو جہنم میں پھینک دو۔ تیسرا آدمی وہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مال ومنال اور آسودگی سے شاد کام کیا ہوگا۔ ایسے شخص کو بارگاہ ربوبیت میں پیش کیا جائیگا۔ اللہ اسے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے مطلع کریگا‘ وہ اقرار کریگا کہ یہ سب نعمتیں اسے دی گئیں۔ تب اس سے سوال ہو گا کہ تو نے ان نعمتوں کا کیا کیا۔ وہ جواب میں کہے گا۔ وہ تمام راستے جن پر خرچ کرنا تجھے پسند تھا میں نے ان سب راستوں پر تیری خوشنودی کی خاطر خرچ کرنا (کبھی) ترک نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا‘ تو نے جھوٹ کہا، یہ سارا مال تو نے اس لیے لٹا دیا کہ لوگ سخی کہیں سو تجھے دنیا میں یہ لقب مل گیا (اب آخرت میں تیرا کوئی حصہ نہیں) پھر حکم ہوگا کہ اسے (بھی) چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو‘ سو اسے بھی جہنم رسید کردیا جائیگا (مسلم شریف)۔ بیان کردہ روایات اسلامی ماحول اور معاشرے میں حسن نیت اور اخلاص کی فضاء پیدا کرنے کی تلقین کرتی ہیں بلکہ اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ مومن جہاں بھی ہو اسکے ہر کام کی غرض محض اور محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیے۔ دنیا کی شہرت، نیک نامی، صلہ و ستائش عارضی اور فانی چیزیں ہیں جن کی بازار ِ آخرت میں کوئی قدر و قیمت نہیں۔ 

Darsulquran surah al-an'am ayat 91 Part-01.کیا ہم نے اللہ تعالی کو اپنا ...

پیر، 20 جون، 2022

طاقتور کون؟

 

 طاقتور کون؟

غصہ ضبط کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی غصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اورغیظ وغضب کے اظہار اورسزادینے اورانتقام لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ ضبط کرنے اورجوش غضب ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کی ہدایت دی ہے۔ 

 حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑرہے تھے ۔ ان میں سے ایک شخص بہت شدید غصہ میں تھا اوریوں لگتا تھا کہ غصہ سے اس کی ناک پھٹ جائے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسے کلمہ کا علم ہے اگر یہ کلمہ پڑھ لے گا تو اس کا غضب جاتارہے گا ، حضرت معاذ نے پوچھا کہ رسول اللہ ! وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ کہے اللھم انی اعوذ بک من الشیطن الرجیم ۔

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ہواوروہ کھڑا ہوا ہو تو بیٹھ جائے، پھر اگر اس کا غصہ دور ہوجائے تو فبہاورنہ پھر وہ لیٹ جائے۔

 عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غضب شیطان (کے اثر)سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اورآگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو جب تم میں سے کوئی شخص غضب ناک ہوتو وہ وضو کرلے۔(سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ ضبط کرلیا حالانکہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا، اللہ تعالیٰ اس کو امن اورایمان سے بھردے گا۔ (جامع البیان )

 حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیہ کہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اس کو اختیار دے گا وہ جس حور کو چاہے لے لے۔

 حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے نزدیک پہلوانی کا کیا معیار ہے؟ صحابہ نے کہا جو لوگوں کو پچھاڑنے اوراس کو کوئی نہ پچھاڑ سکے، آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔(سنن ابودائود )


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2083 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 11 Part-2 ) در...

اتوار، 19 جون، 2022

Shortclip - کیا شِرک چھوڑنا آسان ہے؟

اخلاص نیت (۲)

 

اخلاص نیت (۲)

حضرت ابو ہریرہ بن عبد الرحمن بن صحر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایااللہ تعالیٰ نہ تمہارے جسموں کودیکھتاہے اورنہ ہی تمہاری صورتوں کو بلکہ وہ تمہارے دلوں ( کے اخلاص ) کو دیکھتاہے (مسلم ) حضرت ابو موسیٰ عبداللہ قیس اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : حضوراکرم ؐ سے پوچھاگیاکہ ایک شخص بہادری دکھانے کی غرض سے جنگ کرتاہے ۔ ایک حمیت اور غیرت کے اظہار کیلئے لڑتا ہے اورایک وہ ہے جو محض دکھلاوے کی خاطر جنگ کرتاہے یارسول اللہؐ !ان میں سے کس کی جنگ اللہ کی راہ میں ہے ؟ حضور انور ؐ نے فرمایا: جو اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ کاکلمہ (یعنی اس کادین ) سربلندہو ، سو اسی کی جنگ اللہ کی راہ میں ہے (بخاری ومسلم) حضرت ابوبکر ہ نفیع بن حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا : جب دومسلمان اپنی تلواروں سے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ۔میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ قاتل کاجہنم میں جانا تو سمجھ میں آتاہے لیکن مقتول (کاکیاقصور) اور اس کیلئے یہ حکم کیسے ؟ارشاد ہوا وہ بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرناچاہتاتھا( اس کابس نہ چلااور دوسرے کوپہلے موقع مل گیاگھرسے تو وہ بھی تو فساد اورقتل کی نیت سے ہی نکلاتھا( بخاری ومسلم) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپؐ جس وقت مجھے یمن کے علاقے میں بھیج رہے تھے میں نے گزارش کی اے اللہ کے رسول مجھے کچھ نصیحت فرمایئے آپ نے فرمایااپنی نیت کو ہرکھوٹ سے پاک رکھو جو عمل کرو خدا کی خوشنودی کیلئے کرو ،تو تھوڑا عمل بھی تمہاری نجات کے لیے کافی ہوگا ( الترغیب والترہیب )حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ رسول اللہؐ نے فرمایا باجماعت نماز ادا کرنے سے بازار یاگھر میں نماز ادا کرنے کی نسبت تیئس (23) سے تیس (30) گنا تک ثواب زیادہ ملتاہے ۔ اور یہ اس لیے کہ جب ایک شخص وضوکرتاہے ، پھرمسجد میں آ جاتاہے اوراس کی نیت صرف نماز اداکرنے کی ہوتی ہے وہ صرف نماز ہی کیلئے اُٹھتاہے وہ ( مسجد کی طرف ) جوقدم بھی اُٹھاتاہے اُ س کاایک درجہ بلند کردیاجاتاہے اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسجد میں پہنچ جاتاہے ۔ اورجب وہ مسجد میں داخل ہوجاتاہے توجب تک نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتاہے (گویا کہ عنداللہ ) نماز میں ہی ہوتاہے تم میں  سے کوئی شخص جب تک اس جگہ پر بیٹھا رہتاہے ۔ جہاں اس نے نماز اداکی فرشتے اس پر سلام بھیجتے رہتے ہیں اورکہتے ہیں اللہ اس پررحم فرما اے اللہ اس کو بخش دے اے اللہ اسکی توبہ قبول فرما( اور یہ سلسلہ جاری رہتاہے)  یہاں تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے یاوہ کسی کوتکلیف نہ دے (بخاری ومسلم )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2082 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 11 Part-1 ) د...

ہفتہ، 18 جون، 2022

Shortclip - شِرک کیا ہے

اخلاص نیت (۱)

 

اخلاص نیت (۱)

فرمان خداوندی ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے حضور (قربانیوں) کے گوشت اور انکے خون نہیں پہنچتے البتہ اسکے حضور تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچ جاتاہے۔ (الحج ۳۷)  (اے پیغمبر) کہہ دیجئے جوکچھ تمہارے سینوں میں ہے تم اسے چھپائو یا ظاہرکرو‘ اللہ تعالیٰ اسے (اچھی طرح) جانتا ہے۔ (آل عمران ۲۹) حالانکہ نہیں حکم دیا گیا تھا انہیں مگر یہ کہ دین کواس کیلئے خالص کرتے ہوئے بالکل یک سو ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اورنماز قائم کرتے رہیں اور زکوۃ ادا کرتے رہیں اور یہی دین نہایت سچاہے (البینہ آیۃ۵) امیرالمومنین حضرت عمر ابن خطاب سے مروی ہے‘ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ نے فرمایا ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ پس جوشخص اللہ اور اسکے رسول کیلئے ہجرت کی نیت کرے تو اسکی ہجرت اللہ اور اسکے رسول کی طرف ہوگی اور جس شخص کی ہجرت دنیاکی طرف ہوکہ اسے حاصل کرے یا کسی عورت کی نیت سے ہو کہ اس سے نکاح کرے تو اسکی ہجرت اسی طرف ہے جہاں کی اس نے نیت کی ہے۔ (بخاری ومسلم) مذکورہ بالا حدیث مبارکہ تعلیمات اسلامیہ میں بڑی اہمیت کی حامل حدیث ہے۔ بہت سے محدثین نے مجموعہ احادیث کا آغاز حصول ِ برکت کیلئے اس حدیث پاک سے کیا ہے تاکہ انکے کام میں اخلاص پیدا ہو اور انکی تمام محنت و مشقت کا قبلہ درست سمت میں رہے۔ اس حدیث مبارکہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ حضور اکرم  ﷺ اور آپکے صحابہ کرام کو مکہ معظمہ سے ہجرت کاحکم ہوگیا سب نے نہایت اخلاص و آمادگی سے اپنے جنم بھومی کو چھوڑ دیا، اپنے عزیزو اقارب کو خیر آباد کہہ دیا، اپنے اپنے کاروبار اور دیگر مفادات سے دست کش ہوگئے اور محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک دوسرے شہر کی طرف چل پڑے جہاں امکانات کی ایک نئی دنیا انکی منتظر تھی، اسی زمانے میں مکہ کے مسلمانوں میں ایک صاحب ایسے تھے جن کے رشتے کی بات چیت مدینہ منورہ (اُس وقت یثرب) میں قیام پذیر ایک خاتون سے چل رہی تھی جس کانام اُ مِ قُبیس تھا۔ اُ مِ قُبیس نے یہ شرط عائد کردی کہ آپ ہجرت کرکے یہاں آجائیں تو میں آپ سے شادی کرلوں گی۔ انہوں نے اس شرط کو قبول کرلیا اور مدینہ منورہ منتقل ہو گئے اور وہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ صحابہ کرام ازرہ خوش طبعی انہیں ’’مہاجرام قبیس‘‘ کہہ کر پکارتے اور کہتے ہماری ہجرت تو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کیلئے تھی جبکہ آپ کی ہجرت اُمِ قبیس کیلئے، اس لیے آپ تو ٹھہرے ’’مہاجرام قبیس‘‘ انہیں یہ بات پسند نہ آتی۔ معاملہ جناب رسول اللہ  ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا آپ نے تمام احوال سن کر جو تاریخی ارشاد فرمایا وہ مدار دین و ایمان بن گیا۔

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 80-82.کیا آخرت میں ہم لوگ امن میں ہ...

Shortclip توحید کیا ہے؟

جمعہ، 17 جون، 2022

ایک سچے کی گواہی

 

ایک سچے کی گواہی

فیلسوفِ اسلام حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات جرمنی کے ایک فلسفی سے ہوئی ۔ باتوں باتوں میں اس نے علامہ اقبال سے پوچھا کیا آپ خدا کے وجود کے قائل ہیں اور اسے مانتے ہیں۔ آپ نے بڑی سادگی سے جواب دیا ’’ہاں‘‘ میں خداکو مانتا ہوں۔ اس نے حیرانگی سے پوچھا۔ کیا آپ اساتذہ اور والدین کی تربیت کے باعث یہ عقیدہ رکھتے ہیں یا آپکے پا س اسکی کوئی دلیل بھی ہے۔ علامہ اقبال نے جواب دیا‘ میں تقلیدی طور پر ماننے والوں میں سے نہیں ہوں، اگر دلیل قوی ہو تو تسلیم کرلیتا ہوں اگر دلیل کمزور ہو تو مسترد کردیتا ہوں۔ اُس نے کہا خدا کے وجود اور اسکی وحدانیت پرآپکے پا س کیا دلیل ہے، ہم تو اس دشتِ تحقیق میں برسوں سے سرگرداں ہیں، ہمیں تو کوئی دلیل نہیں ملی۔ علامہ اقبال نے کہا: میر ے پاس خدا کے وجود اور وحدانیت کی ایک نا قابلِ تردید دلیل موجود ہے‘ جس کی بِنا پر میں اسے وحدہ لاشریک مانتا ہوں اور وہ یہ کہ اس بات کی گواہی ایک ایسے سچے نے دی ہے‘ جس کے جانی دشمن بھی کہا کرتے تھے کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا جس کے خون کے پیاسے بھی اسے الصادق الامین کہا کرتے تھے۔ ایسے سچے کی شہادت پر میں نے بھی کہا لاالہ الاللہ ۔اللہ کی وحدانیت کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے لیکن عقل انسانی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس عقدے کو حل نہ کرسکی۔ افلاطون، ارسطو، سقراط، جالینوس جیسے ہزاروں فلسفی اس میدان میں بھٹکتے رہے لیکن خداوند قدوس کے عرفان کی دولت سے یکسر محروم رہے۔ منزل مقصود تک رسائی توکجا انہیں تو عرفانِ ربانی کا صحیح راستہ تک سجھائی نہ دیا۔ یہ اللہ کے فرستادہ حبیب ہی تھے جو دانائے سبل بن کر تشریف لائے۔ انکے فیضانِ نگاہ سے ہر حقیقت کو آشکار اور ہر راز مخفی کوبے نقاب ہونا تھا۔ مخلوق خدا کو علم وآگاہی کی دولت ملنی تھی۔ یہ حبیب جو سیرت وکردار کا ناقابلِ تردید معجز ہ لے کر آیا تھا۔ جب گویا ہوا تو اسکی ایک جنبشِ لب سے یقین واطمینان کے سوتے پھوٹ نکلے۔
رب ذوالجلال کی وحدانیت، الوہیت ، ربوبیت وکبریائی کی یہ گواہی سامنے آئی تو حقیقت اتنی آشکار ہوئی، اتنی نمایاں ہوئی کہ اسکے بعد کسی گواہی کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ آج صد یوں کا سفر طے ہوجانے کے باوجود بھی ایقان کی یہ شمع اسی طرح روشن اور فروزاں ہے۔ دور دراز جنگل میں بکریاں چرانے والا ایک گمنام مسلمان چرواہا جسے کبھی کسی استاد کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک یقین و آگہی سے گواہی دیتا ہے لاالہ الاللہ۔ چرخہ کاتتی ہوئی چھوٹے سے گاؤں کی ایک سادہ لوح ان پڑھ ماں جب اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو پورے وثوق کے ساتھ سبق پڑھاتی ہے لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ ۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2080 ( Surah Al-Muzzammil Ayat 1 - 5 Part-3 ...

Darsulquran urdu surah Al-an'am ayat 76-79 Part-02.کیا ہم مشرک نہیں ہیں

جمعرات، 16 جون، 2022

Shortclip - دنیا کے امتحان میں کامیابی کیسے ممکن ہے؟

نجات دلانے والی چالیس باتیں

 

نجات دلانے والی چالیس باتیں

حضرت سلمانؓ فرماتے ہیں میں نے حضور اکرمؐ سے استفسار کیا کہ وہ چالیس باتیں کون سی ہیں، جن کے بارے میں یہ کہاگیا ہے کہ جو ان کو یاد کرلے( اور اپنا شعار بنالے) وہ نجات پا جائے گا۔حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا(1) ایمان لانا اللہ پر(2) یومِ آخرت پر(3) فرشتوں کے وجود پر(4) اللہ کے نازل کردہ کتابوں پر(5) تمام انبیاء پر(6) مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پر(7) اور اس بات پر کہ تقدیرِ خیروشر منجانب اللہ ہے(8) اس امر کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسولِ برحق ہیں(9) ہرنمازکے وقت کامل وضوکرکے نماز قائم کرنا (10) زکوۃادا کرنا(11) رمضان کے روزے رکھنا(12) استطاعت ہونے کی صورت میں حج کرنا(13) ہر روز 12 رکعت سنت مؤکدہ ادا کرنا(14) وتر کو کسی رات ترک نہ کرنا(15) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا(16) والدین کی نافرمانی نہ کرنا(17) ظلم سے یتیم کا مال نہ کھانا(18) شرابی نوشی سے بچنا(19) بدکاری سے بچنا(20) جھوٹی قسم نہ کھانا(21) جھوٹی گواہی نہ دینا(22) نفسانی خواہشات پر عمل نہ کرنا(23) مسلمان بھائی کی غیبت سے پرہیز کرنا(24) پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے بچنا(25) اپنے مسلمان بھائی سے کینہ نہ رکھنا(26) لہوو لعب میں مشغول نہ ہونا(27) نہ اُس کے تماشوں میں شریک ہونا (28) کسی کو ظاہری عیب سے نہ پکارنا(یعنی ٹھنگنا، کانا،لنگڑا کہہ کر پکارنا)(29) کسی کا مذاق نہ اڑانا(30) مسلمانوں کے درمیان غلط فہمی نہ پھیلانا(31) ہر حال میں اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکرادا کرنا(32) بَلا اور مصیبت پر صبر سے کام لینا(33) اللہ کے عذاب سے بے خوف نہ ہو جانا(34) رشتہ داروں سے قطع تعلق نہ کرنا (35) بلکہ صلہ رحمی سے کام لینا(36) اللہ کی کسی مخلوق کو لعنت نہ کرنا(37) سبحان اللہ،الحمد اللہ، لا الہ الا اللہ،اللہ اکبر کا کثرت سے ورد کرنا (38) جمعہ اور عیدین میں حاضری کا التزام کرنا(39) اس بات کایقین رکھنا کہ جو تکلیف پہنچی وہ ٹلنے والی نہیں تھی اور جو کچھ نہیں پہنچا وہ کسی طرح پہنچنے والا نہیں تھا (40) کلام اللہ شریف کی تلاوت کسی حال میں بھی نہ چھوڑنا۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ جو شخص ان باتوں کو یاد رکھے اسے کیا اجر ملے گا۔حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا حشر انبیاء اور علماء کے ساتھ فرمائیں گے۔

Darsulquran surah Al-An'am ayat 75-79 Part-01.کیا دنیا ہمارا بڑا بت ہے

بدھ، 15 جون، 2022

Shortclip - دنیا کی حقیقت

تسبیحاتِ فاطمہ ؓ

 

تسبیحاتِ فاطمہ ؓ

امام ابو داؤد روایت کرتے ہیں:۔ حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ الکریم نے اپنے ایک شاگرد سے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اپنا اور فاطمہ بنت رسول ؐ کا جو آپ ﷺ کی سب سے زیادہ لاڈلی بیٹی ہیں، قصہ سناؤں: شاگرد نے کہا ضرور ارشاد فرمائیے، فرمانے لگے! فاطمہ بنتِ رسول ؐ اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں جن کی وجہ سے انکے ہاتھ میں نشان پڑگئے تھے۔ خود پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے سینے پر رسی کے نشان آگئے تھے۔ گھر کی صفائی ستھرائی خودہی کرتیں جسکے باعث اُنکے کپڑے غبار آلودہ ہو جاتے۔ ایک مرتبہ حضور ِ اقدس کے پا س مالِ غنیمت میں کچھ غلام اور باندیاں آئیں، میں نے فاطمہؓ سے کہا آپ بھی حضورؐ سے ایک خدمت گار مانگ لیں تاکہ روزمرّہ کے کاموں میں آسانی ہو، وہ حضور اکرم  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اتفاق سے وہاں کچھ لوگ موجود تھے۔ سیّدہ کے مزاج میں شرم بہت تھی‘ وہ فرطِ حیاء کی وجہ سے سب کے سامنے کچھ عرض نہ کرسکیں اور واپس آگئیں۔
 دوسرے دن حضورؐ بنفس نفیس تشریف لے آئے اور استفسار فرمایا۔ فاطمہ تم کل کس مقصد کیلئے میرے پاس آئی تھیں؟ وہ شرم کی وجہ سے چپ ہوگئیں‘ میں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ! آپ انکے حالتِ زار ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ چکی پیسنے کی وجہ سے ان ہاتھوں میں نشان پڑگئے ہیں اور مشک اُٹھانے کی وجہ سے سینے پر رسی کے داغ بن گئے ہیں، ہر وقت کام کاج کی وجہ سے کپڑوں پر غبار پڑ جاتا ہے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ سے ایک خادم مانگ لیں،  آپ نے خادم کے بارے ارشاد فرمایا:  اصحابِ صُفہ نے اللہ کے دین کی خاطر اپنا گھر بار اور آرام و سکون ترک کر دیا اور وہ غربت و افلاس اور فقرو فاقہ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ (فی الوقت) ان پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا (خادم کی ڈیوٹی انکے کاموں میں مدد کیلئے لگائی جائیگی)۔ اے میری پیاری بیٹی تو تقویٰ حاصل کر اور اللہ سے ڈر، اپنے پروردگار کا فریضہ اداکرتی رہ اور گھر کے کام کاج کو انجام دیتی رہ‘ میں تمہیں ایک ورد بتاتا ہوں جو تمہارے لیے خادم سے زیادہ بہتر ہو گا۔ وہ یہ کہ جب تم رات کو سونے کیلئے لیٹو تو 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمدللہ، 34 مرتبہ اللہ اکبر کہو (یعنی میر ے اہلِ بیت کا آرام وسکون اور اطمینان، اللہ کا ذکر ہے، اس سے انکی تھکاوٹ بھی زائل ہوگی اور انھیں اطمینان بھی نصیب ہو گا)۔ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا۔ میں اللہ اور اسکے رسولؐ سے راضی ہوں ۔

منگل، 14 جون، 2022

گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۲)

 

گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۲)

(۱)حضور اکر م  ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ اس مسلمان کو سر سبز وشاداب رکھے گا جو میری بات (حدیث) سنے پھر اسے یا درکھے اور دوسروں تک پہنچا دے ۔(ترمذی)(۲)حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا جو لوگ کہیں (مجلس میں )  بیٹھے۔ اور انہوں نے نہ اللہ کو یا د کیا اورنہ اپنے نبی پر دورد بھیجا تو قیامت کے دن یہ ان کے لیے نقصان اور حسر ت کا باعث ہوگا۔پھر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کو (اس مجلس کی پاداش میں )عذاب دے اور چاہے تو (اپنے کرم سے) بخش دے (ترمذی ) (۳) حضرت عمر بن خطاب ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا دعا آسمان اور زمین کے درمیان میں ہی رُکی رہتی ہے۔ (اس وقت تک) اوپر نہیں جا سکتی جب تک حضور انور  ﷺکی ذاتِ گرامی پر درود نہ بھیجا جائے ۔ (ترمذی) (۴) حضرت عبداللہ بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔نبی کریم  ﷺ نے نماز کے بارے میں فرمایا ۔جس نے نماز کی حفاظت کی اس کیلئے قیامت کے دن نماز نور ہوگی، اور مومن ہونے کی دلیل اور ذریعہ نجات ہوگی اور جس نے اسکی حفاظت نہ کی اس کیلئے نہ نور ہوگی اور نہ دلیل اور نہ نجات کا ذریعہ اور بے نماز قیامت کے دن قارون ،فرعون اور امیہ ابن خلف (جیسے کفا ر) کے ساتھ اٹھایا جائیگا۔ (سنن دارمی ، احمد ) (۵)حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ،میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب جماعت کھڑی ہوجائے تو (اس میں شامل ہونے کیلئے ) دوڑو نہیں بلکہ (بڑے) سکون ووقار کے ساتھ جماعت سے ملو، جتنی رکعتیں امام کے ساتھ مل جائیں پڑھ لو اور جو رہ جائیں انہیں (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) مکمل کر لو ۔(مسلم شریف)(۶)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا جب کوئی دوسروں کو نماز پڑھائے (یعنی امامت کرے) تو تخفیف کر ے (قرآت کو طول نہ دے ) کیونکہ مقتدیوں میں ضعیف، بیمار ، بوڑھے اور دوسروں کے سہارے کے محتاج، بھی ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھے توجس قدرچاہے طول دے (مسلم) (۷) حضرت انس ؓسے روایت کہ حضور اکرم  ﷺ مسجد میں جلوہ افروز ہوئے تو آپ نے دیکھا :ستون میں ایک رسی لٹک رہی ہے۔ آپ نے (اسکے بارے) دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ز ینب (نامی ایک صحابیہ) نے باندھی ہے۔ رات کو جب وہ کھڑی کھڑی تھک جاتی ہے تو اسکے سہارے کھڑی ہوجاتی ہے۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا یہ رسی کھول دو۔لوگو! تم اس وقت تک (نقل ) نماز پڑھو جب تک تم میں نشاط باقی رہے۔جب کوئی تھک جائے تو آرام کرلے(بخاری )۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2077 ( Surah Al-Jinn Ayat 24 - 28 ) درس قرآن...

پیر، 13 جون، 2022

Darsulquran urdu surah Al-anaam ayat 74 part-02.کیا آج ہم کھلی گمراہی می...

Shortclip - کیا دنیا ہی ہماری منزل ہے؟

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

 

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کررہا ہو پس تم (سجدہ میں )بہت دعاکیا کرو۔(صحیح مسلم،سنن دائود )

 حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جس سے اللہ مجھے جنت میں داخل کردے یا میں نے عرض کیا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے پھر سوال کیا، آپ خاموش رہے ، جب میں نے تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے لیے کثرت سے سجدے کیا کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرو گے تو اللہ اس سجدہ کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹادے گا۔ (صحیح مسلم، ترمذی)

حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، میں آپ کے وضو اورطہارت کے لیے پانی لایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: سوال کرو، میں نے عرض کیا میںآپ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : اورکسی چیز کا ؟میں نے عرض کیا مجھے یہ کافی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر کثرت سے سجدے کرکے اپنے نفس کے اوپر میری مددکرو۔ (صحیح مسلم ، سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب ابن آدم سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ جاکر روتا ہے اورکہتا ہے ہائے میرا عذاب !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا سواس کو جنت ملے گی، اورمجھے سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا سومجھے دوزخ ملے گی۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعضاء سجود کے جلانے کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔(صحیح بخاری، سنن نسائی)

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ کا جو حال اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے اوراس کا چہرہ مٹی میں لتھڑا ہواہو۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2076 ( Surah Al-Jinn Ayat 21 - 23 ) درس قرآن...

اتوار، 12 جون، 2022

Darsulquran urdu surah al-anaam ayat 74 Part-01.کیا ہم عملی طور پر بت پر...

Shortclip - وسوسہ شیطانی کیا ہے؟

گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۱)

 

گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۱)

(۱)حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے سوال کیا گیا۔کونسا عمل افضل ہے آپ نے ارشاد فرمایا اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا اس کے بعدفرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔پوچھا گیا پھر کونسا ارشاد ہوا وہ حج جس میں کسی گنا ہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔(بخاری شریف)(۲)حضر ت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا ۔کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ فرمایا نماز جو وقت پر اداکی گئی ہو۔گزارش کی، اس کے بعد فرمایا والدین سے بھلائی ۔ پوچھاگیا اسکے بعد؟ ارشاد ہو اجہاد فی سبیل اللہ ۔ (بخاری)(۳)حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ میں نے جناب رسالت مآب سے عرض کیا ، یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے اور دوزخ سے دور کردے ۔ آپ نے فرمایا :تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ لیکن یہ اُس شخص پر آسان بھی ہے جس پر اللہ (اپنی توفیق  سے) آسان کردے (وہ عمل یہ ہے کہ )تو اللہ تعالیٰ کی بندگی کرے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور نماز قائم کر ے۔زکوٰۃ ادا کرے ، رمضان المبارک کے روزے رکھے اور بیت اللہ شریف کا حج کرے۔ (مشکوۃ)(۴)حضر ت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے دست اقدس پر ان باتوں پر بیعت کی، (۱)نماز کی پابندی(۲)زکوٰۃ کی ادائیگی (۳) اور ہر مسلمان سے خیر خواہی۔(مسلم)(۵)حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔پانچ نماز یں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بندوں پر فرض کیں جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت پر نماز یں پڑھیں اور رکوع وخشوع کو پورا کیا تو اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے (ذمہ کرم پر ) یہ عہد کرلیا ہے کہ اسے بخش دے اور جس نے ایسا نہیں کیا اس کیلئے (کوئی ) عہد نہیں ، چاہے تو اسے بخش دے اور چاہے تو اسے عذاب کرے (ابوداؤد) (۶)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اگر کسی کے گھر کے سامنے کوئی صاف شفاف نہر جاری ہو اور وہ (دن میں ) پانچ بار اس میں غسل کرتا ہو تو کیا اسکے بد ن پر کوئی میل کچیل رہ سکتا ہے ۔سب نے عرض کی نہیں رہے گا۔ فرمایا یہی مثال پانچوں وقت نمازوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (کے ذریعے ) سے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ (مشکوۃ)(۷)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جماعت سے نماز اداکرنے کا ثواب بازار اور گھر میں نماز ادا کرنے سے پچیس درجہ زیادہ ہے(مسلم) 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2075 ( Surah Al-Jinn Ayat 19 - 20 ) درس قرآن...

Darsulquran urdu surah al-anaam ayat 72-73 part-02.کیا ہم نے اپنے آپ کو ...

ہفتہ، 11 جون، 2022

Shortclip - انسان کی کامیابی کا راز

حضور اکرم ﷺ کا ایک خطبہ

 

حضور اکرم ﷺ کا ایک خطبہ

امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ نقل کیا۔ دیکھیے کہ لفظوں کے آبگینوں سے کس طرح عرفانِ ربانی کے سوتے پھوٹ رہے ہیں اور رُوحِ ایمان کو سیراب کر رہے ہیں۔ ’’سب سے سچا کلام اللہ کی کتاب ہے۔ سب سے زیادہ قابل اعتماد چیز تقویٰ ہے۔ بہتر ین ملت ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہے۔ سب سے بہترین طرزِ زندگی محمد رسول اللہ کا طرزِ زندگی ہے۔ سب سے اشرف بات اللہ رب العزت کا ذکر ہے۔ سب سے اچھا قصہ قرآن ہے۔ بہترین کام وہ ہیں جو قرآن وحدیث سے ثابت ہوں اور بدترین کام بدعات (نئی اور بے اصل باتیں) ہیں۔ سب سے بہتر طریقہ انبیاء کا ہے اور سب سے عزت کی موت شہادت ہے۔ بدترین بے بصیرتی ہدایت کے بعد گمراہی ہے۔ بہترین عمل وہ ہے جو (دنیاو آخرت میں) نفع بخش ہو اور بہترین ہدایت وہ ہے جس کی پیروی کی جائے، بدترین اندھاپن دل کی بے بصری ہے۔ اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے۔ تھوڑی چیز سے کفایت ہو جائے تو وہ اس وافر سے بہتر ہے جو غفلت پیداکرے۔ بدترین معذرت موت کے وقت کی معذرت ہے اور بدترین نِدامت یومِ آخرت کی ندامت ہے بعض لوگ جمعہ کو (نماز کیلئے) دیر سے آتے ہیں (اسکے باوجود بھی) انکے دل پیچھے (کاروبار میں) لگے ہوتے ہیں۔ سب گناہوں سے بڑاگناہ جھوٹی زبان ہے اور بہترین تونگری دل کی بے نیازی ہے۔ بہترین توشہ تقویٰ ہے۔ دانائی کی بنیاد خدا کا خوف ہے۔ دلنشین باتوں میں بہترین چیز (خدا پر) یقین ہے۔ شک کفر کی ایک شاخ ہے۔ نوحہ جاہلیت کا کام ہے۔ مالِ غنیمت (سرکاری اموال واملاک) میں چوری جہنم کا ایندھن ہے۔ شراب کی بدمستی گناہوں کا ذخیرہ ہے۔ (بے ہودہ) شعر ابلیس کا حصہ ہے۔ بدترین غذا یتیم کا مال ہے۔ سعادت مند وہ ہے جو نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو شقی ہے۔ مومن کو گالی دینا فسق ہے، اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے اور اسکی غیبت کرنا نافرمانی ہے، اسکے مال کی حرمت اسکے خون کی حرمت کی طرح ہے۔ جو کسی کا عیب چھپاتا ہے، خدا اسکے عیب چھپاتا ہے۔ جو (خلق کو) معافی دیتاہے۔ اسے (خالق کی طرف سے) معافی دی جاتی ہے۔ جو غصے کو پی جاتا ہے خدا اسے اجر دیتا ہے۔ جو چغلی کو پھیلاتا ہے خدا اسکی رسوائی کو عام کر دیتا ہے۔ جوصبر کرتاہے ،خدا اسے ترقی دیتا ہے۔ جو بلاضرورت قسمیں کھاتا ہے۔ اللہ اسے جھوٹا کر دیتا ہے اور جو شخص (سچے دل سے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے) اللہ اس سے درگزرکرتا ہے۔‘‘

 


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2074 ( Surah Al-Jinn Ayat 14 - 18 ) درس قرآن...

surah al-an'am ayat 72-73 Part-01. کیا ہم اللہ تعالی کوعملی طور پر اس ک...

Shortclip - گمان اور وسوسے میں فرق

جمعہ، 10 جون، 2022

رفاقت اور دوستی کے معیار

 

رفاقت اور دوستی کے معیار

کہتے ہیں کہ صحبت صالح ترا صالح کند، صحبت طالع ترا طالع کند۔ نیک اور صالح فرد کی صحبت اور دوستی صالحیت اور پر ہیز گاری کا باعث بنتی ہے اور برے افراد کی صحبت بھی برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ عر ب کہتے ہیں المرء علی دین خلیلہٖ انسان اپنے دوست کے مسلک ومشرب پر ہوتا ہے۔ اگر انسان کو ایسی رفاقت کی تلاش ہو جو اس کیلئے دین اور دنیا دونوں میں معاونت کا سبب بنے ، تو اس کا معیا ر کیا ہونا چاہیے، امام غزالی کہتے ہیں اپنے رفیقِ کار (پارٹنر) اور دوست کا انتخاب کرتے ہوئے اس میں پانچ خصلتیں ضرور دیکھو۔ (۱) عقل (۲)حسن خلق(۳) خیر کی صلاحیت (۴)سخاوت  (۵)سچائی۔
(۱) عقل مند شخص کو اپنا دوست بنائو کیونکہ احمق کی دوستی کا کوئی فائدہ نہیں۔ احمق کی دوستی کا انجام تنہائی اور قطع تعلقی پر ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں فائدہ ہو لیکن جہالت کی وجہ سے نقصان پہنچاتا ہے‘ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔ ’’جاہل سے دوستی مت رکھو اور اپنے آپ کو اس سے بچائو پس کتنے جاہل ہیں جنہوں نے حلیم شخص کو ہلاک کر دیا‘‘۔ (۲) بدخو اور بدخلق کی پہچان یہ کہ غصے کے وقت اسکا نفس اسکے قابو میں نہیں رہتا۔ حضرت علقمہ عطاروی رحمتہ اللہ علیہ نے وفات کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ بیٹا اگر کسی کے دوست بننا چاہتے ہو تو ایسے شخص کی سنگت اختیار کرو کہ اگر تم اسکی خدمت کرو تو وہ تمہیں محفوظ رکھے اور بچائے گا، اگر اس سے مِلو، تو تمہارے اخلاق سنوریں۔ تم اس سے نیکی کرو تو اسے شمار کرے اور یا درکھے اگر تم سے کو ئی فروِ گذاشت ہو جائے تو وہ تم سے در گزر کرے۔ (۳) ایسے شخص کا انتخا ب کرنا چاہیے۔ جس کا رحجان طبع خیر کی طرف ہو۔ یاد رکھو جو شخص اللہ سے نہیں ڈرتا حوادثات زمانہ بھی اسکی اصلاح نہیں کر سکتے۔ یعنی وہ عبرت پکڑنے کی بجائے مزید فسق وفجور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گنا ہوںپر دلیر ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’اس شخص کی پیروی نہ کر و جس کا دل ہم نے اپنی یا د سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہشات کا پیر وکار ہے۔‘‘ (۴) حریص اور لالچی کی دوستی سے بھی اجتنا ب کر نا چاہیے کیونکہ انسانی طبائع ایک دوسرے سے غیر محسوس طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ (۵) جھوٹا شخص سراب کی طرح ہوتا ہے جس سے دور کی چیز یں نزدیک اور نزدیک کی اشیاء دور نظر آتی ہیں۔ جھوٹ کا عادی شخص تمہارے وہ خصائل بیان کریگا جن سے تم خالی ہو اور تمہاری جن غلطیوں کی نشاندہی ضروری ہے محض تمہیں خوش کرنے کیلئے ان سے پہلوتہی کر ے گا۔ ہماری روشن اور تابندہ اخلا قی قدروں نے ایک عام دوستی کیلئے کتنے معیار قائم کیے ہیں اور ہم اپنے ماحول معاشرے اور ملت کی ذمہ داریوں کیلئے بھی کسی معیا ر کے قائل نہیں رہے ۔

جمعرات، 9 جون، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 71- کیا ہم راہ ہدایت سے بھٹک گئے ہیں

Shortclip - اسلام کیوں اور کیسے؟

دوستی

 

دوستی

امام غزالی ارشاد فرماتے ہیں: انسان تین طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض غذا کی طرح جن کے بغیر چارہ نہیں، بعض دوا کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کی ضرورت خاص اوقات میں پڑتی ہے۔ بعض بیماری کی طرح ہوتے ہیں، جن کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ شعورو آگہی کے ساتھ روشناسِ خلق رہنے میں بھی بڑی افادیت ہے۔ مختلف اشخاص میں جو برائیاں نظر آئیں انسان ان سے بچے۔ نیک وہی ہے جو دوسروں سے نصیحت پکڑے۔ کیونکہ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے استفسار کیا گیا ہے کہ آپ نے ادب کس سے سیکھا، آپ نے فرمایا، مجھے کسی نے ادب نہیں سکھایا، صرف جاہل کی جہالت دیکھ کر میں نے اسے ترک کردیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ اگر آدمی اس بات کو ترک کر دے جو دوسروں سے اسے بری محسوس ہوتی ہے تو اسے کسی ادب سکھانے والے کی ضرورت نہیں رہتی اور اسکے اخلاق خودبخود سنور جاتے ہیں۔ حقوق صحبت اور دوستی کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب تم کسی معاملے میں کسی کو شریکِ کار بنائو تو صحبت کے حقوق کو ملحوظ ِخاطر رکھو۔ جنابِ سرورکا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: بھائی ہاتھوں کی طرح ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو دھوتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگل میں دومسواک لیے جن میں ایک ٹیرھا اور دوسرا سیدھا تھا۔ آپؐ کے ساتھ اس وقت ایک صحابی تھے۔ آپؐ نے سیدھا مسواک اُس صحابی کو عنایت فرمایا اور ٹیرھا اپنے لیے رکھ لیا۔ انھوں نے خدمت اقدس میں گزارش کی، یارسول اللہ سیدھا مسواک آپ کا ہی حق تھا۔ آپؐ نے فرمایا جو ایک لمحہ کا بھی ساتھی بنے تو اس سے پوچھا جائیگاکہ اس ایک لمحہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ صحبت کے حقوق اداکیے ہیں یا نہیں۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ دو ساتھی کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں کہلا سکتے۔ جب تک انکی صحبت اللہ تعالیٰ کیلئے نہ ہو یا وہ باہم نرمی سے پیش نہ آئیں۔ آج ہمارے معاشرے میں جنسِ سے ایثارو محبت کم ہوتی جا رہی ہے۔ خودغرضی کا چلن عام ہو رہا ہے۔ بالعموم دیکھا جاتاہے کہ کاروبار میں باہمی اشتراک وتعاون زیادہ عرصہ تک چلتا نہیں اور اسکی وجہ بھی عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ کہ ایک شراکت دار دوسرے کو دھوکہ دیتا ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے ایثار سے کام لینے کے بجائے خود غرضی سے کام لیتا ہے۔ ایسے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہمارے رہنما ہیں۔ پہلے تو یہ کہ رفاقت کا انتخاب کر تے ہوئے احتیاط ودانش سے کام لینا چاہیے اور پھر اعتماد وایثار  کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔

AlAnaam-70دنیا کے دھوکے میں مبتلا لوگوں کو آخرت میں پینے کے لئے کھولتا ہ...

بدھ، 8 جون، 2022

Shortclip - کیا ہمارے پاس عقل نہیں ہے؟

صاحبِ خلقِ عظیم … (۳)

 

صاحبِ خلقِ عظیم … (۳)

ایک دن سرکاردوعالم ﷺ تشریف فرماتھے کہ ایک شخص دور دراز کا سفر طے کر کے آپکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔اسکا علاقہ شدید قحط کا شکار ہوچکا تھا۔ حضور اکرم  ﷺ کی سخاوت کا شہرہ سنا توآپکے پا س پہنچا۔ اور گزارش کی کہ یا رسول اللہ! ہمارا علاقہ کئی مہینوں سے قحط کا شکار ہے، غذا کیلئے کچھ بھی میسر نہیں آپکی سخاوت کا چرچا سن کر حاضر ہوا ہوں مجھے کچھ عنایت فرمائیے۔ یہ اتفاق تھاکہ اس وقت آپکے پاس تھوڑی سی کھجوریں موجود تھیں ۔آپ نے فرمایا ساری کھجوریں تم لے لو ۔وہ توبہت زیادہ کی امید لے کر آیاتھا،بڑامایوس ہوا، اور چلانے لگا کہ میں آپ کو بڑاسخی سمجھ کر حاضر ہوا تھا۔ آپ میر ے ساتھ کیاسلوک کررہے ہیں۔اس بدتہذیبی پر صحا بہ کرام کے ہاتھ بے ساختہ تلواروں کے دستوں کی طرف گئے۔آپ نے صحابہ کے تیور دیکھے تو فرمایا اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ میر امہمان ہے ۔میں جانتا ہوں کہ اسکے ساتھ کیا سلوک کر نا ہے۔صحابہ کے ہاتھ رک گئے اور وہ شخص بڑبڑاتا ہوا مسجد سے باہر چلا گیا۔کچھ دیر بعد اللہ رب العزت کے کرم سے کھجوروں سے لد ے بہت سے اونٹ آپکے پاس آگئے۔آپ نے پوچھا تمھارا صبح والا بھائی کہاں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ وہ غصے کی حالت میں مسجد سے نکل گیا تھا آپ نے فرمایا اُسے تلاش کر کے لے آئو۔چنانچہ تلاش بسیار کے بعد اسے آپکی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔ آپ نے اسے فرمایا کھجوروں کا ڈھیر دیکھ رہے ہو۔جتنا چاہو لے لو جب تم راضی ہوجاؤ گے پھر کسی اور کو ملے گا۔ اور اگر تم سارابھی لے جاؤتو کوئی مما نعت نہیں ۔وہ خوشی سے پھولا نہیں سمایا ۔اپنے اونٹوںپر اتنا لاد لیا کہ انکے لیے اُٹھنا دشوار ہوگیا ۔ پھراس نے بڑی وارفتگی سے جناب رسالت مآب کی تعریف شروع کردی ۔اسکے تعریفی کلمات سن کر صحابہ کرام کا انقباض دور ہوگیا ۔حضور نے یہ منظر دیکھا تو صحابہ سے پوچھا ۔صبح جب یہ ناراض ہو رہا تھا ، اگر تم اسے قتل کردیتے تو اس کا ٹھکانہ کہاں ہوتا۔ انھوں نے عرض کی بلاشبہ جہنم میں ۔آپ نے پوچھا  اب اگر اسے موت آجائے تو اس کا مقام کہاں ہو گا۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بلاشبہ جنت الفردوس کی بہاریں اسکی منتظر ہوں گی ۔حضور نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔اے میر ے صحابہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کا اونٹ بھاگ گیا لوگ اسے پکڑنے کیلئے دوڑ ے لیکن وہ لوگوں نے آوازیں سن کر مزید بدک کیا۔ اتنے میں اس کا مالک آگیا ۔اسے تمام حالات کا علم ہوا تو وہ کہنے لگا اے لوگو! تم اپنی توانا ئیاں ضائع نہ کرو یہ میر ااونٹ ہے اور میں ہی جانتا ہوں کہ اسے کیسے پکڑنا ہے۔پھر اس نے سبز چارہ اپنی جھولی میں ڈالا اونٹ کو مخصوص انداز میں بلایا ،اونٹ نے مانوس آواز سنی تو فوراً پلٹ آیا۔ حضور نے فرمایا :تم بھی اس بھاگے ہوئے اونٹ کی طرح ہو اور میں اس مالک کی طرح ہوں، مجھے معلوم ہے تمھیں کس طرح اللہ کی بارگاہ میں لانا ہے۔

منگل، 7 جون، 2022

Shortclip - دین کو فالو کیسے کریں؟

Shortclip - ہم دنیا میں بہت بڑا فائدہ کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟

صاحبِ خلقِ عظیم(۲)

 

صاحبِ خلقِ عظیم(۲)

حضور نبی رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایاتاکہ میں اخلاق حسنہ کودرجہ کمال تک پہنچادوں۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھایا اور میں نے بطریق احسن ادب سیکھ لیا۔

 ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہیں مشکوۃ نبوت سے براہ راست فیض یاب ہونے کا موقع میسر آیا۔ آپ کے خلق کے بارے میں کتنی پرمعنی اور گہری بات کرتی ہیں ’’حضورؐ کا خلق قرآن تھا، اسکے امر ونہی کی تعمیل حضور کی فطرت کا تقاضا تھا۔ اس بارے میں حضورؐ کو غور وفکر اور سوچ بچار کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ام المومنین نے حضوراکرم ﷺ کے خلق کو مزید تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا ’’اللہ کے پیارے رسولؐ سے زیادہ کوئی شخص بھی اخلاق حسنہ سے متصف نہیں تھا۔ حضورؐ کا خلق قرآن تھا جس سے قرآن راضی ہوتا اس سے حضورؐ راضی ہوتے جس سے قرآن ناراض ہوتا حضورؐ اس سے ناراض ہوتے حضورؐ فحش کلام نہ تھے اور نہ بازاروں میں شور کرنیوالے تھے۔ نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ حضورؐ کا شیوہ عفوو درگزر تھا۔ ان ارشادات کے بعد آپ نے سائل کو بتایاکہ وہ سورۃ المومنون کی پہلی دس آیتیں تلاوت کرے‘ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی زبان قدرت سے اپنے حبیب لبیب کے اخلاق مبارکہ کاذکر فرمایاہے‘‘ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جب حضورؐ کے خلق کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کان خلقہ القرآن آپ کا مقصد یہ تھاکہ حضورؐ کے اخلاق، اخلاق ربانیہ کا عکس جمیل ہیں لیکن بارگاہ خداوندی کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تو نہیں کہا کہ حضور اخلاق ِ خداوندی سے متصف ہیں بلکہ فرمایا حضورؐ کا خلق قرآن کریم کے اوامرو نواہی کے عین مطابق تھا۔ ‘‘

حضور اکرم ﷺ کے خاص خدمت گزار حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں۔ میں نے اللہ کے پیارے رسولؐ کی دس سال خدمت کی (اس وقت انکی عمر آٹھ سال تھی اور وہ سفر حضر میں حضور کی خدمت میں رہا کرتے تھے) اس طویل عرصہ میں رحمت عالمؐ نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا۔ جو کام میں کرتا اسکے بارے میں کبھی نھیں فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا، جو کام نہ کرتا اسکے بارے میں کبھی نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ آپ نے کبھی میرے کسی کام میں نقص نہیں نکالا (بخاری ومسلم)۔