بدھ، 22 جون، 2022

انقلابِ فکر و عمل (۱)

 

انقلابِ فکر و عمل (۱) 

حضرت خنساء بنت عَمَرْوْ کا تعلق عرب کے معروف قبیلہ بنو سلیم سے تھا (جو بنوقیس بن غیلان کی ایک شاخ تھی)۔ یہ قبیلہ اپنی خوبیوں کی بناء پر قبائل عرب میں امتیازی شان کا حامل تھا۔ ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے اس قبیلہ کی تعریف کچھ اس طرح فرمائی۔ ’’بلاشبہ ہر قوم کی ایک پناگاہ ہوتی ہے اور عرب کی پناہ گاہ بنوقیس بن غیلان ہے۔‘‘ حضرت خنساء کا اصل نام ’’تماضر‘‘ تھا لیکن اپنی معاملہ فہمی، چستی اور خوبصورتی کی وجہ سے خنساء کے نام سے معروف ہوگئیں جس کا معنی ہے ’’ہرنی‘‘۔ خنساء ہجرت نبوی سے تقریباً 50 سال پہلے پیدا ہوئیں۔ خنساء کے والد عمر وبن الحارث بنو سلیم کے رئیس تھے اور اپنی وجاہت اور ثروت کی بناء پر بڑے اثر ورسوخ کے مالک تھے۔ انکی اولاد میں دو بیٹے معاویہ، صخر اور ایک بیٹی خنساء تھیں۔ ان سب کی تربیت بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوئی اور یہ سب بڑے اعلی خصائل کے مالک ہوئے۔ خنساء کے دو نکاح ہوئے۔ جن سے چار بیٹے پیدا ہوئے لیکن وہ جلد ہی بیوہ ہو گئیں۔ انکے دونوں بھائیوں نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ خاص طور پر خنساء اور صخر میں بڑی مناسبت طبعی تھی اور دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے تھے۔ سوئے اتفاق ‘ کہ ایک معرکے میں ان کا بڑا بھائی معاویہ ماراگیا اور جلد ہی ایک اور تنازعہ میں ان کا دوسرا بھائی ’’صخر‘‘ بھی شدید زخمی ہوگیا اور کئی ماہ تک موت وحیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد موت سے ہمکنار ہوگیا۔ صخر بڑا عاقل، شجاع اور خوبصورت نوجوان تھا۔ خنساء کو اسکی موت کا بے حد صدمہ ہوا۔ یہ غم انکے وجود کی گہرائیوں میں اتر گیا ہے۔ شدت احساس سے جب ضبط کے بند ھن ٹوٹنے لگے تو اس نے اپنے اظہار کیلئے شاعری کا راستہ اختیار کرلیا ۔ خنساء نے صخر کے فراق میں ایسے دل سوز اور جان گداز مرثیے کہے کہ جنہیں سن کر پتھروں میں بھی گداز پیدا ہوجاتا۔ انکے مرثیوں نے انہیں پورے عرب میں مشہورکردیا۔ بازار عکاظہ میں ایک سالانہ میلا لگتا تھا جس میں قبائلِ عرب کے تمام رئوساء اور ہر قسم کے ارباب ہنروکمال شریک ہوتے۔ خنساء کو بھی بڑے اصرار سے اس میلے میں بلایا جاتا، لوگ انکے اونٹ کے گردگھیرا ڈال لیتے اور ان سے صخرکا مرثیہ سنانے کی فرمائش کرتے جب وہ محوِ سخن ہوتیں تو اشک و آہ کا ایک طوفان اُٹھ جاتا۔ سخت دل صحرائی فرط رنج والم سے دھاڑیں مارمار کرروتے۔ خنساء صبح و شام صخر کی قبر پر جاتیں اور مرثیہ پڑھتیں۔ یہ غم یہاں تک بڑھ گیا کہ خنساء کی آنکھوں سے بینائی زائل ہوگئی۔ اسی کیفیت غم و اندوہ میں دن گزر رہے تھے کہ فاران کی وادیوں میں ایک آفتاب ہدایت طلوع ہوا اور اسکی روشنی کشاں کشاں خنساء کی تاریک دنیامیں بھی پہنچ گئی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں