منگل، 30 جون، 2020

ہمیں دنیا کا فائدہ اور نقصان زیادہ محسوس کیوں ہوتا ہے؟

صلہ رحمی

والدین کی خدمت بھی جہادہے

والدین کی خدمت بھی جہادہے


حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک شخص نے آکر جہاد کی اجازت طلب کی ، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟اس نے کہا: ہاں ! فرمایا: ا ن کی خدمت میں جہاد کرو۔(بخاری ،مسلم، ابودائود ، نسائی)
حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی سفر کررہے تھے۔ان کو بارش نے آلیا، انہوں نے پہاڑ کے اندر ایک غار میں پناہ لی ، غار کے منہ پر پہاڑ سے ایک چٹان ٹوٹ کر آگری اورغار کا منہ بندہوگیا ، پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم نے جو نیک عمل اللہ کے لیے کیے ہوں ان کے وسیلہ سے اللہ سے دعاکر و، شاید اللہ غار کا منہ کھول دے، ان میں سے ایک نے کہا:اے اللہ ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اورمیری چھوٹی بچی تھی ، میں جب شام کو آتا تو بکری کا دودھ دوھ کر پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا، پھر اپنی بچی کو پلاتا ، ایک دن مجھے دیر ہوگئی میں حسب معمولی دودھ لے کر ماں باپ کے پاس گیا، وہ سوچکے تھے ، میں نے ان کو جگانا ناپسند کیا اوران کے دودھ دینے سے پہلے اپنی بچی کو دودھ دینا ناپسند کیا ، بچی رات بھر بھوک سے میرے قدموں میں روتی رہی اورمیں صبح تک دودھ لے کر ماں باپ کے سرہانے کھڑا رہا۔ اے اللہ ! تجھے خوب علم ہے کہ میں نے یہ فعل صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا ، تو ہمارے لیے اتنی کشادگی کردے کہ ہم آسمان کو دیکھ لیں ،اللہ عزوجل نے ان کے لیے کشادگی کردی حتیٰ کہ انہوں نے آسمان کو دیکھ لیا۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھتے ہوئے فرمایا : آمین، آمین ، آمین، آپ نے فرمایا : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اورکہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پایا اوران کے ساتھ نیکی کیے بغیر مرگیا ، وہ دوزخ میں جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے ، کہئے آمین تو میں نے کہا: آمین، پھر کہا: یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! جس نے رمضان کا مہینہ پایا اورمرگیا اوراس کی مغفرت نہیں ہوئی (یعنی اس نے روزے نہیں رکھے)وہ دوزخ میں داخل کیا جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے ، کہیے آمین تو میں نے کہا: آمین ، اورجس کے سامنے آپ کا ذکر کیا جائے اوروہ آپ پر درود نہ پڑھے وہ دوزخ میں جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے، کہیے آمین ، تو میں نے کہا: آمین۔(طبرانی ، ابن حبان ، امام حاکم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س ایک شخص آیا اورکہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کو ن مستحق ہے ؟ فرمایا : تمہاری ماں، اس نے پوچھا : پھر کون ؟ فرمایا : تمہاری ماں ، اس نے پوچھا: پھر کون ؟ فرمایا :تمہاری ماں ، اس نے پوچھا : پھر کون ؟ فرمایا :تمہارا باپ ۔ (بخاری )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1431 (Surah Momin Ayat 57 Part 2/2)درس قرآن س...

پیر، 29 جون، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1430 (Surah Momin Ayat 57 Part 1/2)درس قرآن س...

Hum Kaisay Sahi Musalman Ban Jain?

اخلاق کا مطلب

طاقتور کون؟

طاقتور کون؟


غصہ ضبط کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی غصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اورغیظ وغضب کے اظہار اورسزادینے اورانتقام لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ ضبط کرنے اورجوش غضب ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کی ہدایت دی ہے۔ 
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑرہے تھے ۔ ان میں سے ایک شخص بہت شدید غصہ میں تھا اوریوں لگتا تھا کہ غصہ سے اس کی ناک پھٹ جائے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسے کلمہ کا علم ہے اگر یہ کلمہ پڑھ لے گا تو اس کا غضب جاتارہے گا ، حضرت معاذ نے پوچھا کہ رسول اللہ ! وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ کہے اللھم انی اعوذ بک من الشیطن الرجیم ۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ہواوروہ کھڑا ہوا ہو تو بیٹھ جائے، پھر اگر اس کا غصہ دور ہوجائے تو فبہاورنہ پھر وہ لیٹ جائے۔
عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غضب شیطان (کے اثر)سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اورآگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو جب تم میں سے کوئی شخص غضب ناک ہوتو وہ وضو کرلے۔(سنن ابودائود )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ ضبط کرلیا حالانکہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا، اللہ تعالیٰ اس کو امن اورایمان سے بھردے گا۔ (جامع البیان )
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیہ کہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اس کو اختیار دے گا وہ جس حور کو چاہے لے لے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے نزدیک پہلوانی کا کیا معیار ہے؟ صحابہ نے کہا جو لوگوں کو پچھاڑنے اوراس کو کوئی نہ پچھاڑ سکے، آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔(سنن ابودائود )
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے غصہ کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے عذاب کودور کردے گا، اورجس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔ (مجمع الزوائد )
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتلائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے ، حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم غصہ نہ کرو تو تمہارے لیے جنت ہے۔(مجمع الزوائد)

اتوار، 28 جون، 2020

دین کیا ہے

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1429 (Surah Momin Ayat 55-56)درس قرآن سُوۡرَة...

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کررہا ہو پس تم (سجدہ میں )بہت دعاکیا کرو۔(صحیح مسلم،سنن دائود )

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جس سے اللہ مجھے جنت میں داخل کردے یا میں نے عرض کیا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے پھر سوال کیا، آپ خاموش رہے ، جب میں نے تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے لیے کثرت سے سجدے کیا کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرو گے تو اللہ اس سجدہ کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹادے گا۔ (صحیح مسلم، ترمذی)

حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، میں آپ کے وضو اورطہارت کے لیے پانی لایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: سوال کرو، میں نے عرض کیا میں آپ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : اورکسی چیز کا ؟میں نے عرض کیا مجھے یہ کافی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر کثرت سے سجدے کرکے اپنے نفس کے اوپر میری مددکرو۔ (صحیح مسلم ، سنن ابودائود )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب ابن آدم سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ جاکر روتا ہے اورکہتا ہے ہائے میرا عذاب !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا سواس کو جنت ملے گی، اورمجھے سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا سومجھے دوزخ ملے گی۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعضاء سجود کے جلانے کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔(صحیح بخاری، سنن نسائی)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ کا جو حال اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے اوراس کا چہرہ مٹی میں لتھڑا ہواہو۔


Islam Humain Kya Seikhata Hay?اسلام ہمیں کیا سکھاتا ہے؟

ہفتہ، 27 جون، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1428 (Surah Momin Ayat 52-54)درس قرآن سُوۡرَة...

Islam Kya Hay?اسلام کیا ہے؟

انسان اپنی معراج کیسے حاصل کرسکتا ہے؟

نفی غیر اور اثباتِ حق

نفی غیر اور اثباتِ حق


مسلمان جب اللہ رب العزت کے کلام پاک کی تلاوت کاآغازکرتے ہیں ،اورچاہتے ہیں کہ وہ قرآنی حقائق و معارف کے سمندر میں غوطہ زن ہوجائیں تو ان کے لیے مندوب ومستحب یہ قراردیاگیاہے کہ وہ تلاوت قرآن کاآغاز استعاذہ کرتے ہوئے کریں استعاذہ کامطلب ہے ’’اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم‘‘یا’’اعوذبااللہ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم‘‘ پڑھنا۔استعاذہ یہ ہے کہ کسی کو بَالاتراور قوت والا تسلیم کیا جائے، اس سے التجا ء کی جائے، غیر کے شر سے پناہ طلب کی جائے اور پھر اس دستگیر سے وابستگی اختیار کرلی جائے، گویاکہ استعاذہ خداوند قدوس سے التجائ، استدعا اور اس کے دامانِ کرم سے مستقل اور غیر مشروط وابستگی کا نام ہے۔استعاذہ میں شیطان کے شرسے پناہ مانگی جاتی ہے ’’شیطان ‘‘اسے کہاجاتاہے جو اللہ رب العزت کی رحمت سے بہت دور ہوجائے یا حسد بغض اور غصے کی آگ میں جل رہاہو۔ شیطان کو’’الرجیم‘‘سے متصف کیاگیاہے الرجام پتھر کو کہتے ہیں الرجیم وہ بھی ہے جسے نیکی اورخیر سے محروم کرکے بارگاہ رحمت سے دھتکاردیاجائے اورالرجیم دلوں میں وسوسہ ڈالنے والے کو بھی کہتے ہیں۔

شیطان کا مشہور معنوی اطلاق جنات سے تعلق رکھنے والے اس فرد پرکیاجاتاہے جسے ابلیس یا عزازیل کہتے ہیں اسے جن ہونے کے باوجود مقام تقرب عطاہوااوروہ معلم ملکوت قرار پایا۔ لیکن حکم خداوندی سے روگردانی کے باعث مردودو مرجوم ہوگیا۔انسانوں اورجنوں میں سے بہت سے افرادبھی ابلیس سے اپنی مناسبت طبعی کی وجہ سے قرآن کی رو سے شیطان گردانے گئے ہیں ۔ انسان کے اپنے اندرکا نفس شریربھی اکثرا وقات اسے خیر کے راستے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔’’ تعوذ‘‘ پڑھ کرانسان گویاکہ ہراس شرکی نفی کردیتاہے جواسے عرفان خداوندی سے محروم و محجوب کررہاہو۔تسمیہ پڑھنے سے پہلے تعوذ پڑھنا تطہیروتزکیہ کے عمل کانام ہے، صفائیِ قلب کاذریعہ ہے، اپنی بے کسی کااعتراف ہے اور اپنے خالق ومالک کی لازوال قوتوں پر غیر متزلزل اعتمادکااعلان ہے ۔

انسا ن انفس وآفاق کی ساری صلاحیتوں اور قوتوں پرسے اعتبارختم کرکے صرف اورصرف اپنے مالک سے وابستہ ہوجاتاہے ۔اپنا کاشانہء دل صاف کر لیتا ہے اوراپنے محبو ب کے لئے سراپا انتظار بن جاتا ہے۔
ہرتمنادل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجااب توخلوت ہوگئی

جمعہ، 26 جون، 2020

Kya Tark-e-Dunya Lazim Hay?کیا ترک دنیا لازم ہے؟

دنیا کے ساتھ دل کون لگائے گا؟

کارِ حسن

کارِ حسن


حضرت امام حسن مجتبیٰ ابن حضرت علی المرتضیٰ ؓکی خدمت اقدس میں ایک صاحب حاضر ہوئے اورآپکے سامنے اپنی حاجت بیان کرکے مدد کی درخواست کی اورسوال کیا، آپ نے ارشادفرمایا : تیرے سوال کی وجہ سے مجھ پر تیری اعانت کا جو حق قائم ہوگیا ہے ، وہ میری نظر میں بہت ہی بلند ہے اورتیری جو مدد مجھے کرنی چاہیے وہ میرے نزدیک بہت زیادہ مقدار کی متقاضی ہے اوراس وقت میری مالی حالت اس مقدار کو پیش کرنے سے عاجز ہے ، جو تیری شان کے مناسب ہو، اورسچی بات تو یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں انسان جتنا بھی زیادہ سے زیادہ خرچ کرے وہ کم ہی ہے ، لیکن میں کیا کروں میرے پاس اتنی مقدار میں مال نہیں ہے جو اس شکر کے مناسب ہو کہ تو نے مجھ سے سوال کیا اورمجھے کارِ خیر کا موقع دے رہا ہے ۔ اگر تواس بات کے لیے تیار ہو کہ جو کچھ اس وقت میرے پا س موجود ہے اسی کو خوشی سے قبول کرلے۔اس سائل نے کہا :اے جناب رسالت مآب ﷺکے پورِ جگر ، آپ مجھے جو کچھ بھی عطاء فرمائینگے، میں اسی کو قبول کرلوں گا،اس پر آپ کا شکر گزار رہوں گا، اوراس سے زیادہ اعانت نہ کرنے پر آپ کو معذور سمجھوں گا، اس پرحضرت امام حسن ؓنے اپنے خازن سے ارشادفرمایا :میں نے تمہارے پاس جو تین لاکھ درہم رکھوائے تھے ، ان میں جو باقی بچ رہے ہوں، وہ میرے پاس لے آئو، وہ آپ کی خدمت میں پچاس ہزار درھم لے کر آئے اورعرض کی یہی بچے ہیں ، بقایا تمام صرف ہوچکے ہیں۔ حضرت حسن ؓنے استفسار فرمایا : انکے علاوہ پانچ سواشرفیاں اوربھی تو تھیں وہ بھی کہیں پڑی ہوں گی ، خازن نے عرض کی کہ وہ بھی موجود ہیں، آپ نے ارشادفرمایا: وہ بھی لے آئو۔جب سب کچھ آپکے سامنے آگیا تو آپ نے سوال کرنیوالے ان صاحب سے کہا جائو اورکوئی مزدود لے آئو جوان کو تمہاری رہائش گاہ تک پہنچا دے ، وہ مزدور لے آئے، حضرت حسن ؓنے وہ سب کچھ انکے حوالے کردیا اوراپنے جسم اقدس سے چادر اتار کر بھی اسی کو مرحمت فرمادی اورفرمایا : تمہارے گھر تک یہ سامان پہنچانا بھی میری ذمہ داری ہے، اوریہ چادر فروخت کرکے ان مزدوروں کی اجرت اداکردینا ، آ کے خدام نے عرض کیا، ہمارے پاس تو اب ایک درہم بھی باقی نہیں رہا، کہ ہم آئندہ وقت کے کھانے کا اہتمام ہی کرلیں، آپ نے تواس سائل کو سب کچھ ہی تھما دیا، آپ نے ارشادفرمایا : مجھے اللہ رب العزت کی ذات سے اس بات کی قوی امید ہے کہ وہ اپنے فضل وکرم اوررحمتِ بے پایاں سے مجھے اس کا بہت ہی اجروثواب عطاء فرمائے گا۔(احیاء العلوم ، امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1427 (Surah Momin Ayat 51Allah Tallah Ka Momin Say Dunya Aur Akhrat Main Madad Ka Waada Hay.

جمعرات، 25 جون، 2020

Kya Deen Humain Tark-e-Dunya Ki Taleem Daita Hay?کیا دین ہمیں ترک دنیا ک...

دنیا کس کا گھر ہے؟

Ebadat-e-SeharGahee

عبادتِ سحر گاہی


حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا : ہمارا رب (اپنی شان کے مطابق) ہر رات آسمان دنیا کی جانب نزول فرماتا ہے جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا، تو وہ ارشادفرماتا ہے ، کوئی ہے جو مجھ سے دعاء کرے تو میں اسکی دعاء قبول کروں ، کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تو اس کو عطاء کروں ( اور ) کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اس کی مغفرت کردوں۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم) حضرت جابر ؓسے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: رات میں ایک ایسی ساعت ہے کہ وہ جس بندئہ مومن کو بھی مل جائے تو وہ اس ساعت (ہمایوں)میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دنیا اورآخرت کی جو خیر بھی طلب کر گا، اللہ کریم اسے وہ خیر عطا فرمادیگا، اوروہ ساعتِ (فضل واحسان ) ہر رات میں آتی ہے۔ (صحیح مسلم) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی محتشم ﷺنے ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ روزے حضرت دائود علیہ السلام کے روزے ہیں اورسب سے زیادہ پسندیدہ نماز بھی حضرت دائود علیہ السلام کی نماز ہے ۔ حضرت دائود علیہ السلام آدھی رات تک محواستراحت رہتے ، پھر تہائی رات تک نماز میں قیام کرتے تھے پھر رات کے چھٹے حصے میں سوجاتے تھے، اور(ان کے روزوں کا معمول یہ تھا کہ )ایک دن روزہ رکھتے تھے ، اورایک دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم) حضرت ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ہادی عالم ﷺ نے فرمایا:تم رات کے قیام کو لازم رکھو، کیوں کہ یہ تم سے پہلے صالحین کا طریقہ ہے ،یہ تمہارے رب کریم کی جناب میں تمہارے قرب کا ذریعہ ہے ، تمہارے گناہوں کے مٹنے کا سبب ہے اورتمہارے لیے گناہوں سے بچنے کا طریقہ ہے۔(سنن ترمذی) حضرت ابو سعید خدر ی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی طرف دیکھ کر (اپنی شانِ کرم کے مطابق)ہنستا ہے ، ایک وہ شخص جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے ، دوسرے وہ لوگ جو صف باندھ کر نماز پڑھتے ہیں اورتیسرے وہ(خوش بخت ) افراد جو صف بنا کر دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں۔(مسند امام احمد بن حنبل ، مصنف : ابن ابی شیبہ ، الجامع الصغیر)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1426 (Surah Momin Ayat 50)درس قرآن سُوۡرَةُ م...

بدھ، 24 جون، 2020

Meri Zaroorat Kya Hay?میری ضرورت کیا ہے؟

Nabi BarHaq

نبی برحق


امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بیان فرماتے ہیں ، جناب رسالت مآب ﷺنے مجھے یمن کی جانب بھیجا ، میں ایک دن لوگوں سے خطاب کررہاتھا ، یہود کے احبار ہاتھ میں ایک کتاب لیے کھڑے تھے اورکسی مقام سے اس کی عبادت دیکھ رہے تھے ، پھر انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا، ابو القاسم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا وصف تو بیان کرو، میں نے کہا: آپ نہ تو طویل القامت ہیں اورنہ پست قد، بال (مکمل)گھنگریالے ہیں ، نہ لٹکے ہوئے ، سیاہ رنگ کے ہیں ، سرمبارک بڑا ہے ، آپ کی رنگت سرخی مائل ہے ، مضبوط اندام ، انگشت ہائے مبارک پر گوشت ، حلق سے ناف تک بالوں کی سیدھی لکیر ہے، پلکیں دراز اوردونوں ابرو ملے ہوئے ،پیشانی فراخ اوردونوں شانو ں کے درمیان فاصلہ ہے ، ان کی رفتار کے دوران جسم میں جھکائو سا محسوس ہوتا ہے جیسے بلندی سے اتررہے ہوں۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں نے حضور کے یہ اوصاف بیان کیے تو ایک یہودی عالم نے کہاکہ ہماری کتاب میں یہی اوصاف موجود ہیں، پھر اس عالم نے مجھ سے استفسار کیا کہ کیا جب آپ اپنی چشم مبارک کھولتے ہیں تو اس میں سرخ ڈورے دکھائی دیتے ہیں ریش مبارک اوردہن اقدس خوبصورت اوردونوں کان مکمل ہیں ،اورجب آپ کسی سے مخاطب ہوتے ہیں تو پوری طرح متوجہ ہوجاتے ہیں، اورجب یہ مکالمہ ختم ہوجاتا ہے یعنی رابطہ اورمیل کے بعد پھر، (سن گن لینے کی خاطر ازرہِ تجسس )توجہ اورنظر نہیں رکھتے؟ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے ارشادفرمایا : جی ہاں ! یقینا آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہی شان ہے اس یہودی عالم نے کہا: ایک بات اوربھی ہے میں نے پوچھا وہ کونسی ؟اس نے کہا: کہ آپ میں خمیدگی ہے ، میں نے کہا کہ یہ تو وہی بات ہے جو میں تمہارے سامنے بیان کرچکا ہوں کہ آپ جب محوخرام ہوتے ہیں ، تو آگے کی جانب قدرے جھکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ نشیب میں اتررہے ہوں ، اس یہودی عالم نے کہا: میں نے حضرت ابو القاسم محمد (ﷺ )کے یہ اوصاف اپنے اسلاف کی کتابوں میں پائے ہیں ، اورہم نے پڑھا ہے کہ آپ اللہ رب العزت کے گھر، اسکے حرم اورمقام امن سے مبعوث ہوں گے ، پھر آپ اس حرم کی جانب ہجرت فرماجائیں گے ، جس کو آپ نے حرم قرار دیا ہوگا اوراس کی حرمت بھی ایسی ہی ہوگی جیسے اللہ کے حرم کی(ابن عساکر ، ابن سعد)

Dars-e-Quran Urdu. Surah Momin. Kya Sab Dunyadar Aag Ka Aendhan Hongay?

منگل، 23 جون، 2020

جنت کی قیمت کیا ہے؟

Mohafiz Farishtay

محافظ فرشتے


کنانہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ایک فرشتہ تمہاری دائیں جانب تمہاری نیکیوں پر مقرر ہوتا ہے اوریہ بائیں جانب والے فرشتے پر امیر(حاکم)ہوتا ہے، جب تم ایک نیکی کرتے ہو تو اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اورجب تم ایک برائی کرتے ہوتو بائیں جانب والا فرشتہ دائیں جانب والے فرشتے سے پوچھتا ہے ، میں لکھ لوں؟وہ کہتا ہے نہیں !ہوسکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اورتوبہ کرلے !جب وہ تین مرتبہ پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے ہاں لکھ لو!ہمیں اللہ تعالیٰ اس سے راحت میں رکھے، یہ کیسا برا ساتھی ہے یہ اللہ کے متعلق کتنا کم سوچتا ہے ! اوریہ اللہ سے کس قدر کم حیاکرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’وہ زبان سے جو بات بھی کہتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان لکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔‘‘(ق: ۱۸)اوردو فرشتے تمہارے سامنے اورتمہارے پیچھے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اس کے لیے باری باری آنے والے محافظ فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کے سامنے سے اوراس کے پیچھے سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘(الرعد:۱۱)اورایک فرشتہ ہے جس نے تمہاری پیشانی کو پکڑا ہوا ہے جب تم اللہ کے لیے تواضع کرتے ہوتو وہ تمہیں سربلند کرتا ہے اورجب تم اللہ کے سامنے تکبر کرتے ہوتو وہ تمہیں ہلاک کردیتا ہے ، اوردوفرشتے تمہارے ہونٹوں پر ہیں وہ تمہارے لیے صرف محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلواۃ کی حفاظت کرتے ہیں اورایک فرشتہ تمہارے منہ پر مقرر ہے وہ تمہارے منہ میں سانپ کو داخل ہونے نہیں دیتا، اوردوفرشتے تمہاری آنکھوں پر مقررہیں، ہر آدمی پر یہ دس فرشتے مقرر ہیں، رات کے فرشتے دن کے فرشتوں پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ رات کے فرشتے دن کے فرشتو ں کے علاوہ ہیں ، ہر آدمی پر یہ بیس فرشتے مقرر ہیں اورابلیس دن میں ہوتا ہے اوراس کی اولاد رات میں ہوتی ہے۔(جامع البیان :طبری ،تفسیر ابن کثیر )

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے، جو نیند اور بیداری میں اس کی جنات، انسانوں اورحشرات الارض سے حفاظت کرتا ہے، سوااس چیز کے جو اللہ کے اذن سے اس کو پہنچتی ہے ۔(جامع البیان )

Dars-e-Quran Urdu. Topic : Kabbar Main Kya Azaab Sach Hay?

پیر، 22 جون، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Surah Momin. Kya Hum Nay Allah Tallah Kay Sath Kai Hastion Ko Shareek Kar Lya Hay?

پابندی کی زندگی کیوں ضروری؟

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلسی زندگی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلسی زندگی


حضرت سیدنااما م حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما نے اپنے والد گرامی سے سوال کیا، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاشانہء اقدس سے باہر تشریف لاتے تو آپ کے معمولات کیا ہوا کرتے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف با مقصد گفتگو فرمایا کرتے ، اپنے صحابہ کی تالیف قلب فرماتے اوران سے انسیت ومحبت رکھتے تھے ،ا ن کو متنفر نہیں کرتے تھے، آپ ہر قوم کے معزز انسان کی تکریم کرتے اوراس کو (قبول اسلام کے بعد)اس کی قوم کا حاکم بنا دیتے ، آپ لوگوں کو اللہ رب العزت کی نافرمانی سے ڈراتے اورلوگوں کے شر سے خود کو محفوظ رکھتے ،اپنے اصحاب (ورعایا) کے (معاشی ومعاشرتی )حالات کی تفتیش کرتے اوراس بات سے باخبر رہتے کہ عام لوگ کس حال میں ہیں آپ اچھی چیز کی تحسین کرتے اوراس کی (حوصلہ افزائی فرماکر) اس کو تقویت دیتے ، بری چیز کی مذمت کرتے اوراس کو کم زور کرتے ، آپ ہمیشہ میانہ روی سے کام لیتے اورمسلمانوں کے احوال سے غافل نہ رہے کہ مبادا وہ بھی غفلت شعار اورکاہل ہوجائیں یا (اپنے فرائض اورخیرکے کاموں سے)اکتا جائیں ، آپ ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے(ہمہ وقت) تیار ہوتے ، آپ حق بات میں نہ تو تقصیر کرتے اورنہ تجاوز فرماتے ، مسلمانوں میں سے بہترین لوگ آپ کے ہم مجلس ہوتے جو شخص دوسرے لوگوں کا زیادہ خیرخواہ ہوتا ، وہ آپ کے نزدیک افضل ہوتا، اورجو شخص لوگوں کے ساتھ زیادہ نیکی کرتا اوران سے اچھا سلوک کرتا، وہ آپ کے نزدیک بڑے درجے والا ہوتا۔(ترمذی احمد ، الادب المفرد :البخاری، ابویعلیٰ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص مسجد میں آیا اور اس نے وہاں پیشاب کردیا ، لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑے ، تو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اس کو چھوڑدو، اور اس کے پیشاب کے اوپر ایک یا دو ڈول پانی کے بہادو کیونکہ تم آسانی دینے کے لیے بھیجے گئے ہو، مشکل میں ڈالنے کے لیے نہیں ۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)


اتوار، 21 جون، 2020

Namaz Ki Farziat

نماز کی فرضیت


نماز جو ایمان اور کفر کے درمیان نشان امتیاز ہے۔ ابتدائے دعوت ہی سے مسلمانوں کا معمول رہی ۔لیکن اس کا حکم پانچ نمازوں کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کے سفر معراج کے دوران ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء ہی سے نماز اداء فرماتے تھے۔اکثر سیرت نگاروں نے طلوع فجر سے پہلے اور غروب آفتاب سے قبل کا ذکر کیا ہے۔ کبھی آپ صحن حرم میں نماز ادا فرماتے تو قریش آپ کو ایزاء دینے کی کو شش کرتے ۔ کبھی آپ کی ہنسی اڑاتے،کبھی آپ کی گردن مبارک میں پھندا ڈال دیتے کبھی تو یہاں تک جسارت کرتے کہ عین حالت سجدہ میں آپ کی پشت مبارک پر نجاست ڈال دیتے اور جب آپ اس بار نجاست کی وجہ سے اٹھنے میں دقت محسوس کرتے تو قہقے لگاتے ۔عام مسلمان رات کے سائے میں نماز پڑھتے یا دن میں ادھر اُدھر چھپ کر نماز پڑھتے ۔ ایک بار حضرت سعد ابن ابی وقاص چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کی ایک جماعت وہاں آگئی۔ اس نے اس نماز کو اچھا نہ سمجھا اور مسلمانوں کو برا بھلا کہااور ان سے لڑنے پر آمادہ ہوگئی۔(سیرت ابن ہشام) ۔معراج کا سفر گویا کہ ظلم وتشدد کے ایک دور کے خاتمے کی نوید تھا اور عروج وکامرانی کی بشارت بھی اس سفر میں تعلق بااللہ کے اس مستقل عمل کو حتمی شکل دے دی گئی اور عروج بندگی کا راستہ متعین کردیا گیا۔ حضرت انس بن مالک جناب رسالت مآب ﷺسے روایت کرتے ہیں ۔’’اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کردیں میں اسکے ساتھ واپس لوٹا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے پوچھا اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آپکی امت پر کیا فرض کیا ہے؟میں نے کہا پچاس نمازیں کہنے لگے اپنے رب کے پاس واپس جائیے اس لئے کہ آپکی امت انکی طاقت نہیں پائے گی ۔ سومیں نے مراجعت کی رب تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کردیا میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ پروردگار نے ان کا ایک حصہ کم کردیا ہے۔وہ کہنے لگے آپ اپنے رب کے ہاں پھر واپس جائیے کیوں کہ آپکی امت اسکی طاقت بھی نہیں پائے گی۔ میں نے رب کی بارگاہ میں حاضری دی اللہ نے ان کا ایک حصہ بھی معاف فرمادیا۔ لیکن میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا تو انھوں نے پھر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جانے کا مشورہ دیا ۔اب پروردگار نے فرمایا یہ پانچ نمازیں ہیں اور یہ (دراصل) پچاس ہی ہیں میرے پاس فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا(یعنی پانچ نمازیں اپنے ضمن میں پچاس نمازوں کا اجر اور ثواب رکھیں گی) (صحیح بخاری)

Dars-e-Quran Urdu. Surah Momin . Kya Hum Allah Tallah Par Eman Rakhnay Walay Loog Hain?

ہفتہ، 20 جون، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Surah Momin . Humari Kya Dunya Main Rehnay Ki Neat Main Fatoor Aa Chuka Hay?

خواہشات نفس

AsSalaat

اَلْصَّلَوۃُ


’’عبادت ‘‘کی تشریح سے ہم پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی کہ یہ اللہ کے سامنے اعتراف عجز ہے۔ اپنی ذات کی خیالات کی، رائے کی نفی ہے۔جب انسان اپنے خالق کا حکم مان لیتا ہے اور اس کی مرضی اختیار کرلیتا ہے ،اور اسکے بتائے ہوئے طرززندگی کو اپنا لیتا ہے تو وہ عبادت کی شاہراہ پر گامزن ہوجاتاہے۔ اس خالق کی حکمت نے اپنے محمود اعمال میں درجہ بندی فرمائی،کچھ اعمال ایسے ہیں جو مسلمانی کا خاص شعار قرارپائے، انکے بغیر ایمان اور اسلام کا تعارف ہی دشوار ہے۔ان میں اہم ترین ،نمایاں ترین اور سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی عمل ’’الصلوۃ ‘‘یعنی نماز ہے۔ ’’صلوٰۃ ‘‘کا لفظی معنی دعاء ،تسبیح ،رحمت یا رحم وکرم کی تمنا ہے درود پاک کو بھی صلوٰ ۃ کہا جاتا ہے کہ یہ بھی رحمت وکرم کی تمنا کا اظہار ہے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق صلوٰۃ ایک مخصوص اور معروف عمل ہے جو خاص اوقات میں اور مخصوص انداز سے ادا کیا جاتا ہے۔ صلوٰ ۃ یعنی نماز ارکانِ اسلام میں دوسرا اور عبادات میں پہلا رکن ہے۔ اس کی بجا آوری ہر باشعور ،بالغ مسلمان (عورت ہو یا مرد) پر فرض ہے۔‘‘(عقائد ارکان ) ’’نماز کیاہے مخلوق کا اپنے دل زبان اور ہاتھ پائوں سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار ،اس رحمان اور رحیم کی یا داور اسکے بے انتہاء احسانات کا شکریہ ،حسنِ ازل کی حمد وثنا ء اور اسکی یکتائی اور بڑائی کا اقرار ،یہ اپنے آقاء کے حضور میں جسم وجان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرضِ نیاز ہے۔ یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے۔ یہ بے قرار روح کی تسکین مضطرب قلب کی تشفی اورمایوس دل کی آس ہے۔یہ فطرت کی آواز ہے اور یہ زندگی کا حاصل اور ہستی خلاصہ ہے۔ کسی غیر مرئی طاقت کے آگے سرنگوں ہونا ، اس کے حضور میں دعاء فریا د کرنا اور اس سے مشکل میں تسلی پانا۔ انسان کی فطرت ہے ۔قرآن نے جابجاانسانوں کی اسی فطری حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوچھا ہے کہ جب تمہارا جہاز بھنور میں پھنستا ہے تو خڈا کے سوا کون ہوتا ہے جس کو تم پکارتے ہو۔ غرض انسان کی پیشانی کو خودبخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے۔ جسکے سامنے وہ جھکے ۔اندرونِ دل کی عرض نیاز کرے اور اپنی دلی تمنائوں کو اسکے سامنے پیش کرے۔ غرض عبادت روح کے اسی فطری مطالبہ کا جواب ہے‘‘۔ (سیرت النبی) اسلام کا اعجاز یہ ہے کہ اس نے انسان کو در در پر بھٹکنے سے بچا لیا ۔ توحید کا واضح اور غیر مبہم سبق پڑھایا بندگی کا خوبصورت طریقہ سکھایا، جسے نماز کہتے ہیں۔


جمعہ، 19 جون، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Kya Hum Nay Mata-e-Gharor Ki Jaga Ko Pasand Kar Lya Hay?

غفلت کیسے دور کی جائے؟ (Ghaflat Kaisay doar kee Jeay)

Uswa-e-KherulAnaam

اسوئہ خیر الانام


حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز عصر اداکی حضور انور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے نماز کا سلام پھیرا اور تھوڑی دیر بعد اٹھ کر نہایت ہی سرعت کے ساتھ لوگوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ازواجِ مطہرات کے گھروں میں سے ایک گھر میں تشریف لے گئے ، صحابہ کرام میں آپ کے اس طرح جلدی تشریف لے جانے پر تشویش پیدا ہوئی کہ نہ معلوم کیا بات پیش آگئی ہے ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مکان سے واپس تشریف لائے تو حاضرین کی حیرت کو محسوس کیا ، آپ نے ارشادفرمایا: مجھے سونے کا ایک ٹکرایاد آگیا تھا، جو گھر میں رہ گیا تھا مجھے یہ بات گراں گزری کہ (اگر اچانک مجھے موت آجائے اوروہ گھر میں ہی رہ جائے اورمیدان حشر میں اس کی جواب دہی اوراس کا حساب) مجھے روک دے ، اس لیے اس ٹکڑے کو جلد از جلد خیرات کردینے کا کہہ کر آیا ہوں۔ (صحیح بخاری )

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت مبارکہ ناساز ہوئی اس دوران میں آپ کے پاس کہیں سے چھ سات اشرفیاں آگئیں، آپ نے مجھے ارشادفرمایاکہ انھیں جلدی سے بانٹ دو، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیماری کی شدت کی وجہ سے مجھے ان اشرفیوں کو خیرات کرنے کی مہلت ہی نہ مل سکی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمالیا کہ وہ اشرفیاں تقسیم کردیں، میں نے عرض کیا، آپ کی علالت کہ وجہ سے مجھے بالکل مہلت ہی میسر نہ آئی، آپ نے فرمایا:ان کو اٹھاکر لائو ، ان کو اپنے دستِ مبارکہ پر رکھا اورارشاد فرمایا : کہ اللہ رب العزت کے نبی کا گمان ہے (یعنی اس کو کس قدر ندامت ہوگی )اگر وہ اس حال میں اللہ جل شانہٗ سے ملے کہ یہ اس کے پاس ہوں۔(مشکوٰۃ )حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں مزید وضاحت ہے کہ آپ نے فرمایا : وہ اشرفیاں علی کے پاس بھیج دو ، یہ فرماکر آپ پر غشی طاری ہوگئی ، جس کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فوری تعمیل ارشاد نہ کرسکیں ، جب افاقہ ہوا تو پھر وہی ارشادفرمایا ، اورکئی بار ایسا ہوا ، ام المومنین نے وہ اشرفیاں حضر ت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے پاس بھیج دیں اورآپ نے تقسیم کردیں۔(الترغیب والترہیب )

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے چہرہ انور پر کچھ گرانی کے آثار تھے، میں سمجھی کہ آپ کی صحت مبارکہ ناساز ہے، میں نے عرض کی یارسول اللہ آپ کے چہرئہ مبارک پر کچھ گرانی کے آثار ہیں، کیا بات ہوئی ؟ ارشاد فرمایا : رات میں سات دینار آگئے تھے، وہ بستر کے کونے پر پڑے ہیں اب تک خرچ نہیں ہوئے ۔(احیاء العلوم )حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار رات کے وقت کہیں سے کچھ دینار کا شانہء اقدس میں آگئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند اڑ گئی ، جب میں نے شب کے آخری حصے میں انھیں کسی کو دے دیا تو آپ (تھوڑی دیر کے لیے)محو استراحت ہوئے ۔(احیاء العلوم )

بدھ، 17 جون، 2020

Topic : Kya Hum Loog Shaak Karnay Waloo Main Say Hain?

ذاکر کون (Zakir Kon)

Duwa(2)

دعا(۲)


حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سواری پر آپ کے عقب میں بیٹھا ہواتھا، آپ نے ارشادفرمایا: اے فرزند! میں تمہیں چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں، تم اللہ رب العزت کے حقوق کی حفاظت کرو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا، تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو تم اللہ کی تقدیر کو اپنے سامنے پائو گے، جب تم سوال کرو تو اللہ تبارک وتعالیٰ سے سوال کرواورجب تم مددچاہو تو اللہ رب العزت سے مدد چاہو۔ (ترمذی)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تم اپنی ہر حاجت کا اللہ تعالیٰ سے سوال کرو حتیٰ کہ جوتی کے تسمہ ٹوٹنے کا۔(جامع ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے یہں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس شخص کو اس بات سے خوشی ہو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سختیوں اورمصیبتوں میں اس کی دعاء قبول کرے، تو اسے چاہیے کہ وہ عیش وآرام میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں کثرت سے دعاء کرے۔(جامع ترمذی)
امیر المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک یہودی خاتون آئی، اورکہنے لگی ،پیشاب کی وجہ سے عذاب قبر ہوتا ہے ، میں نے کہا تم جھوٹی ہو، اس نے کہاکیوں؟ ہم لوگ تو کھال اورکپڑے کو پیشاب لگنے کی وجہ سے کاٹ دیا کرتے تھے، (اس گفتگو کی وجہ سے)ہماری آوازیں بلند ہورہی تھیں ، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز کے لیے تشریف لے جارہے تھے، آپ نے ہم سے پوچھا کیا بات ہے؟ اس پر میں نے سارا واقعہ عرض کردیا ،آپ نے فرمایا: وہ عورت سچ کہتی ہے ، اس دن کے بعد آپ ہر نماز کے بعد یہ دعاکرتے ، اے جبرائیل اور میکائیل کے رب مجھے آگ کی گرمی اورقبر کے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھ۔(سنن نسائی)
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے جب بھی تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز اداکرنے کی سعادت حاصل کی تو آپ کو نماز کے بعد یہ دعاکرتے ہوئے سنا: اے اللہ میری تمام خطائوں اورگناہوں کو بخش دے ، اے اللہ مجھے ہلاکت سے بچا، میرے ٹوٹے ہوئے کام جوڑدے، اورمجھے نیک اعمال اوراخلاق کی ہدایت دے، تیرے سواء نیک اعمال کی ہدایت دینے والا اوربرے اعمال سے بچانے والا کوئی اورنہیں۔(مجمع الزوائد ، طبرانی)
حضرت مسلم بن ابی بکرہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد گرامی ہر نماز کے بعد یہ دعاکرتے : اے اللہ میں کفر ،فقر اورعذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، میں بھی یہ ہی دعاکرنے لگا، (ایک دن)میرے والد نے پوچھا: اے بیٹے! تم نے یہ دعاکہا ں سے حاصل کی، میں نے عرض کی آپ سے، انھوں نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد یہ دعاء کرتے تھے۔(سنن نسائی)

منگل، 16 جون، 2020

ذکر الٰہی کی حقیقت - Zikar-e-Elahi Ki Haqeeqat

Dars-e-Quran Urdu.Surah Momin Topic : Kya Hum Dozakh Main Jannay Kay Leay Bharpuur Tayari Main Masroof Hain?

Duwa (1)

دعا


اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادگرامی ہے:’’ اور(اے حبیب مکرم !) جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں (تو آپ فرمادیں کہ )بے شک میں ان کے قریب ہوں ، دعاکرنے والا جب مجھ سے دعاکرتا ہے تو میں اس کی دعاقبول کرتا ہوں، تو چاہیے کہ وہ (بھی)میرا حکم مانیں اورمجھ پر ایمان رکھیں تاکہ وہ ہدایت سے ہمکنارہوجائیں ‘‘۔( البقرہ ۱۸۶)

 عطاء فرماتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی، مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاء قبول کروں گا توصحابہ کرام نے سوال کیا کہ ہم کس وقت دعاکریں تو یہ آیت نازل ہوئی ۔(ابن جریری طبری)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے۔ دعاعبادت کا مغز ہے ۔(جامع ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے سوال نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔(جامع ترمذی)

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب حیاء والا ، کریم ہے ، جب اس کاکوئی بندہ اس کی طرف (دعاکے لیے ) اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ ان کو خالی لوٹا نے سے حیاء فرماتا ہے۔(جامع ترمذی، سنن ابودائود)

حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جب تم اللہ ذوالجلال والا کرام سے سوال کروتو(عاجزی اورانکساری کے ساتھ)اپنی ہتھیلیوں کے باطن سے سوال کرو، ہتھیلیوں کی پشت سے سوال نہ کرو۔(سنن ابودائود )

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں اپنے دستِ مبارک بلند فرماتے اورانھیں نیچے نہ گراتے حتیٰ کہ انھیں اپنے چہرہ اقدس پر مَل لیتے ۔(جامع ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں ہمارے کریم پروردگار ہر رات کے آخری حصے میں (اپنی شان کے مطابق)آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے کہ کون مجھ سے دعاکرتا ہے کہ میں اس کی دعاء قبول کروں؟کون مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اس کو عطاء کروں ، اورکون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت فرمادوں ۔(صحیح بخاری)

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا کہ یارسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم)کس وقت دعاء زیادہ مقبول (ومستجاب )ہوتی ہے توآپ نے ارشادفرمایا رات کے آخری پہر میں اورفرض نمازوں کے بعد۔(جامع ترمذی)


پیر، 15 جون، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Surah Momin. Topic : Kya Firooniat Ke Adaat Hum Main Paai Jati hain?

اسلام کیا ہے؟ - Islam Kya Hay

Ebadat Aur Nafi-e-Rehbaniat

عبادت اور نفی ٔ رہبانیت


حضور اکرم ﷺکے حیات آفریں پیغام کی وجہ سے زندگی کے سارے شعبے ہدایت کی روشنی سے منور ہوگئے۔اسلام نے عبادت کے تصور کو بھی اعتدال و توازن عطاء کیا ۔ اسلام سے قبل عبادت وریاضت کی تعبیر ہی گو یا کہ ترک دنیا، فاقہ کشی وغیرہ سے وابستہ ہو چکی تھی، سمجھا یہ جانے لگا تھا کہ بندہ کس قدر اذیت اور تکلیف اٹھا تا ہے اور خودکو آزار میں مبتلاء کرتا ہے، خدا اتنا ہی خوش ہوتاہے ۔ اور اس اذّیت رسانی سے ہی روح میں پاکیزگی آتی ہے اور اس کی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یونانی فکر میں اشراقیت ہندئووں میں جوگ، عیسائیوں میں رہبانیت اور بدھوں میں نروان کی خاطر شدید تپسیا کا ظہور اسی تصور کی پیدا وار تھا۔ اسلام نے ان تصورات کی نفی کی،عبادت کو زندگی کی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ۔ایک دفعہ کسی غزوہ کے سفر میں ایک صحابی کا گزر ایک ایسے مقام پر ہوا، جہاں ایک غارتھا، قریب ہی ایک پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ آس پاس کچھ ہر یالی اور سبزہ بھی تھا۔ انھیں یہ گوشہ عافیت بہت بھلا لگا۔ وہ حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا،یارسول اللہ ! مجھے ایک غار کا سراغ ملا ہے۔ جہاں ضرورت کی ساری چیزیں بھی میسر ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ میں گوشہ گیر ہو کرترک دنیا کرلوں۔ آپ نے فرمایا میں یہودیت اور عیسائیت لیکر دنیا میں نہیں آیا ہوں (بلکہ )میں آسان ، سہل اور روشن ابراہیمی دین لیکر آیا ہوں۔(مسند امام احمد بن حنبل)

اتوار، 14 جون، 2020

انسان کیا چیز ہے اسکا مقصدحیات کیا ہے؟ - Insaan Kya Cheaz Hay Iss Ka Ma...

Islami Ebadaaat Kay Imtiazaat

اسلامی عبادت کے امتیازات

اسلام نے اپنے دائمی اور سرمدی پیغام کے ذریعے عبادت میں شرک کی ہرطرح کی آمیزش اور بے اعتدالی کوہمیشہ کیلئے نفی کردی ۔ اسلام سے پہلے جبکہ انبیائے کرام کی تعلیمات ذہنوں سے محو ہوچکی تھیں،پوری دنیا ، اصنام پرستی ،مظاہر پرستی اورآباء پرستی میں مبتلاء ہوچکی تھی۔حتیٰ کہ بہت مقامات پر تو حیوان تک معبودوں کا درجہ حاصل کرچکے تھے۔’’جب انسان کاتعلق اپنے خالق حقیقی سے منقطع ہوجاتا ہے اور اس کی فطر ت سلیمہ مسخ ہوجاتی ہے، اسکی عقل وفہم پر پردے پڑجاتا ہے۔اسکی چشم بصیرت بینائی سے محروم ہوجاتی ہے۔ اپنی دانش مندی کے باوجود اس سے اس قسم کی حرکتیں سرزد ہوتی ہیںکہ احمق اور دیوانے بھی ان سے شرمندگی محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘‘(ضیاء النبی)۔انسان کی فکری لغزش کااندازا لگانا ہوتو اس بات سے لگائیے کہ ا ہل مکہ کے دومعبودوںکے نام اساف اور نائلہ تھے۔یہ دوافراد اساف بن یعلیٰ اور نائلہ بنت زید تھے۔جنہیں اللہ رب العزت نے بیت اللہ کی حرمت پامال کرنے کی وجہ سے اور وہاں ارتکاب گناہ کرنے کی وجہ سے پتھر بنادیاتھا۔ لوگوں نے انھیں اٹھا کر باہر رکھ دیا تاکہ انکے انجام سے عبر ت حاصل ہو لیکن رفتہ رفتہ ان دونوں کی بھی پوجا شروع ہوگئی۔اسلام نے انسان کو ان تمام خودساختہ معبودوں سے نجات بخشی اور صرف اور صرف ایک ہی ذات پاک کو عبادت کے لائق قرار دیا اور وہ ہے اللہ وحدہٗ لاشریک۔ اسلام نے اللہ رب العز ت کی عبادت کو نہایت سہل اور سادہ انداز میں پیش کیا، اور بے مقصد رسوم و قیود کو یکسر مسترد کردیا ۔ نیت خالص ہو، جسم پاک ہو، لباس پاک ہو ،اتنا ضرور ہو کہ ستر کو ڈھانپ لے، سجدہ گاہ پاک ہواور تم اپنے معبود کے سامنے جھک جائو۔بتوں کی ، شمعوں کی ،بخوروں کی ، تصویروں کی اور سونے چاندی برتنوں یا مخصوص رنگ کے لباس کی کوئی قید نہیں۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں مذہبی رسومات مخصوص افراد ہی ادا کرسکتے ہیں۔ یہودیوں میں کاہن وربی ، عیسائیوں میں پادری ،پارسیوں میں موبد،ہندئوںمیں برہمن ، پروہت اور بچاری ۔لیکن یہاں ہر بندہ خدا سے اپنی مناجات خود کرسکتا ہے۔ اجتماعی عبادت کے لیے امامت رنگ، نسل یا خاندان میں محصور نہیں بلکہ اس کا انحصار علم اور تقویٰ پر ہے۔ مذاہب نے اپنے مخصوص عبادت خانوں تک عبادتوں کو محدود رکھا، پوجا کے لیے بت خانہ ، دعاء کے لیے گرجا، اور صومعہ آگ کے لیے آتش کدہ، لیکن اسلام کا تصور عبادت محدود نہیں۔

Dars-e-Quran Urdu. Surah Momin Quran Kay Aehkamaat Kay Samnay Kya Humara Rawayya Mutakabirana Hay?

ہفتہ، 13 جون، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Surah Momin . Kya Hum Allah Tallah Kay Azab Main Griftar Hain?

جو کچھ ہمارے پاس ہے ہم کیا اُس کے مالک ہیں؟

Islam Aur Islah-e-Ebadat

اسلام اور اصلاحِ عبادات


مکہء مکرّمہ کی آبادی حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسمعٰیل ؑکے مبارک وجود کی وجہ سے شروع ہوئی۔ اللہ کے یہ پیغمبر دعوت توحید کے علمبردار تھے ۔ حضرت اسمعٰیل ؑکی اولاد واحناف بھی ایک مدّت تک دین حنیف پر کاربند رہے لیکن ایک شخص عمروبن لحی الخزاعی سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوگیا۔ عمروبن لحی خانہ کعبہ کا متولی تھا،اسے سنگین نوعیت کا کوئی مرض لاحق ہوگیا ۔ کسی نے اسے بتایا کہ ملک شام میں بلقاء کے مقام پر گرم پانی کا ایک چشمہ ہے۔ اگر تم اسکے پانی سے غسل کروگے،تو صحت یا ب ہوجائو گے۔ وہ بلقاء پہنچا ،غسل کیا اور صحت یاب ہوگیا۔ اس نے وہاں کے باسیوں کودیکھا کہ وہ بتوں کی پر ستش کرتے ہیں ۔ اس نے استفسار کیا کہ تم یہ کیا کررہے ہو،انہوں نے بتایا کہ ہم انکے ذریعہ سے بارش طلب کرتے ہیں اور انکے ذریعے دشمن پر فتح حاصل کرتے ہیں۔اس نے کہا مجھے بھی ان بتوں میں سے چند ایک بت دے دو، انہوں نے اس کو چند بت دے دیے وہ ان کو لے کر مکہ واپس آگیا ،اور انھیں خانہ کعبہ کے اردگرد نصب کردیا، بقول ابن خلدون یہیں سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا، عمرونے بت پرستی کے علاوہ بھی بہت سی نئی رسومات کاآغاز کیا اور عربوں نے انھیں مذہبی شعار سمجھ کر اختیار کرنا شروع کردیا۔ بت پرستی کی یہ وباء اس شدت سے پھیلی کہ ہر قبیلے نے اپنا الگ الگ خدا بنا لیا ۔ یہاں تک کہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب کردیے گئے، اور اسکی وجہ یہ تھی عرب کے سارے قبائل کعبہ کا حج کرنے کیلئے آیا کرتے تھے اس لئے قریش نے ان تمام قبائل کے معبودوں کے بت یہاں یکجا کردیے تھے تاکہ کسی قبیلہ کا آدمی بھی حج کرنے کی نیت سے مکہ میں آئے تو اپنے معبود کے بت کو یہاں دیکھ کر اسکی عقیدت میں اور اضافہ ہواور اسے قریش کی سیادت کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہ ہو، کفّا رومشرکین کے ساتھ عرب میں یہودیوں اور نصاریٰ کی بھی ایک تعداد موجود تھی ،لیکن یہ مذاہب بھی افراط وتقریظ کا شکار ہوچکے تھے۔یہود اپنی بد عملی کے سبب بدنام ہوچکے تھے، جادو،ٹونہ اور عملیات کے توہمات میں گرفتار ہوچکے تھے۔ان میں خدا پرستی ایثار اور روحانی خلوص نام کو بھی نہیں تھا۔صرف ہفتہ کے دن کی تعظیم کو بڑا مذہبی شعار گردانتے تھے۔عیسائیوں نے توحید خالص کو چھوڑ کر حضرت عیسٰی ،حضرت مریم اور مسیحی اکابرین کے مجسمے اور تصویر یں پوجناشروع کردی تھیں ،اور رہبانیت کو اپنا مذہبی شعار بنالیا تھا۔’’یہود کا فسق دین میںکمی اور پستی کرنااور نصاریٰ کافسق دین میں زیادتی اور غلوتھا‘‘۔ ایسے میں اسلا م توحید ،اعتدال اور توازن کا پیغام لے کرآیا۔

جمعہ، 12 جون، 2020

بندگی نہ کرنے کا انجام - Bandagi Na Karnay Ka Anjam

بندگی نہ کرنے کا انجام - Bandagi Na Karnay Ka Anjam

Dars-e-Quran Urdu.Surah Momin Topic : Kya Hum Amalan Haq Ko Qabool Nahi Karna Chahatay?

پندِ رسالت

پندِ رسالت

امام جلال الدین سیوطی ؒنے تفسیر درمنشور میں ان نصیحتوں کو نقل کیا ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو فرمائیں: حضرت زبیر ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضورہادی عالم ﷺکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، میں آپکے سامنے مؤدب بیٹھا ہوا تھا، آپ نے (تاکید کے طور پر) میرے عمامے کا کنارہ پکڑکر فرمایا: اے زبیر !میں اللہ کا فرستادہ ہوں تمہاری طرف خاص طور پر اورتمام انسانوں کی طرف عام طورپر بھیجا گیا ہوں ۔تمہیں خبر ہے کہ اللہ رب العزت نے کیافرمایا ہے؟میں نے عرض کی ، اللہ اوراس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ کریم جب اپنے عرش پر جلوہ فرماتھا تو اس نے اپنے بندوں کی طرف نظر کرم فرمائی ، اورارشادفرمایا: اے میرے بندو! تم میری مخلوق ہو، میں تمہارا پروردگار ہوں، تمہارا رزق میرے اختیار میں ہے، تم اپنے آپ کو ایسی مشقت میں نہ ڈالو جس کا ذمہ خود میں نے لے رکھا ہے اپنا رزق (کسب حلال کے ذریعے )مجھ سے طلب کرو، اے بندے تو لوگوں پر خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا، تو دوسروں پر فراخی کرمیں تجھ پر فراخی کروں گا، تو دوسروں پر تنگی نہ کر میں تجھ پر تنگی نہیں کروں گا۔ آپ نے مزید فرمایا:رزق کا دروازہ سات آسمانوں کے اوپر کھلا ہوا ہے، جو عرش کریم سے متصل ہے،ا ورنہ رات کو بندہوتا ہے ، اورنہ دن میں‘ اللہ رب العزت اس دروازے سے ہر شخص پر رزق اتارتا ہے ، ہر شخص کی نیت اورحوصلے کے مطابق زیادہ سخاوت کرنیوالے کیلئے زیادہ اورکم سخاوت کرنیوالے کیلئے کمی کردی جاتی ہے ، اے زبیر خود بھی کھائو اوردوسروں کو بھی کھلائو ، نہ باندھ رکھو نہ سنبھال کر، تاکہ تمہارے لیے بھی اسی طرح ہو، اے زبیر ! اللہ جل شانہٗ سخاوت کرنے کو پسند کرتا ہے ، اوربخل کو ناپسند ، سخاوت (اللہ پر )یقین سے ہوتی ہے اوربخل (اسکی رحمت بے پایاں پر ) شک سے پیدا ہوتا ہے ، جو اللہ پر یقین رکھتا ہے وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا جو شک کرتا ہے وہ جنت میں نہیں جائیگا، اے زبیر اللہ سخاوت کوپسند کرتا چاہے وہ کجھور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو اوراللہ تعالیٰ بہادری کو پسند کرتا ہے چاہے وہ (ایذا دینے والے) سانپ اور بچھوکے مارنے میں ہی کیوں نہ ہو، اے زبیر ! اللہ تعالیٰ زلزلوں (اور مصیبتوں)کے وقت صبر کو محبوب رکھتا ہے ، اورشہوتوں کے غلبہ کے وقت ایسے یقین کو پسند کرتا جو پورے وجود میں سرایت کرجائے، (اوردین میں ) شبہات پیدا ہونے کے وقت عقل کامل کو محبوب رکھتا ہے، اورحرام اورناپاک اشیاء کے سامنے تقویٰ کو پسند کرتا ہے۔ (تفسیر درمنشور)

جمعرات، 11 جون، 2020

بندگی کی ضرورت کس کو ہے؟ - Bandagi Ki Zarorat Kis Ko Hay

Dars-e-Quran Urdu.Surah Momin Topic : Kya Hum Loog Zalim Hain?

آٹھ منتخب باتیں(۳)

3(آٹھ منتخب باتیں(۳

حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی منتخب کردہ باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
(۷) میں نے دیکھا کہ ساری مخلوق روٹی کی طلب میں لگی ہوئی ہے ،ا وردن رات اسی کی تلاش میں ہلکان ہورہی ہے ، اس وجہ سے اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے ذلیل کرتی ہے ، عاجز ی اورمسکنت اختیار کرتی ہے اسکی خاطر جائز اورناجائز کا امتیاز ختم کردیتی ہے اورحرام ذرائع اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی ، میں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو بڑے واشگاف الفاظ میں بیان فرمادیا ہے :’’اورکوئی جاندار زمین پر چلنے والا ایسا نہیں ہے ، جس کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر نہ ہو ، (ہود ) میں نے دیکھا کہ میں بھی تواسی خلقت میں سے ہوں، جو زمین پر چل پھر رہی ہے ، زندگی بسر کررہی ہے اورجس کا رزق اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے ۔ پس میں نے اپنے اوقات ان جائز اورحلا ل امور میں مشغول کرلیے جو مجھ پر اللہ ذوالجلال والاکرام کی طرف سے لازم ہیں، اوراسکے احکام کا تقاضا یہ ہے کہ میں ان حقوق اورفرائض کو ادا کروں، اورجو چیز خود اللہ قیوم وقادر نے اپنی ذمہ لے لی ہے ، میں نے اپنے اوقات کو اسکے خیال وفکر اوراندیشے سے فارغ کرلیا۔ (۸) میں نے اس بات کا بھی مشاہد کیا کہ ساری انسانیت کا اعتماد اوربھروسہ کسی نہ کسی ایسی چیز پر ہے جو خود مخلوق ہے کوئی شخص اپنی وسیع جائیداد ، بے انداز مال ودولت اوراسباب وسائل پر بھروسہ کرتا ہے کوئی اپنی کسی مہارت اوردستکاری پر نازاں ہے، کسی کو اپنی تندرستی ، صحت وجوانی پر یہ گمان ہے کہ وہ جو چاہے گا کرلے گا، کسی کو اپنے اختیار واقتدار کا گھمنڈ ہے ،کوئی اپنے وسیع تر تعلقات اوربرادری کی قوت وحشمت کی وجہ سے خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھتا ہے، الغر ض ہر شخص کسی نہ کسی گمان میں ہے ، جبکہ یہ تمام چیز یں عارضی اورفانی ہیں ، تمام خلقت اپنی ہی جیسی دوسری مخلوق پر بھروسہ اوراعتماد کیے ہوئے ہے جبکہ قرآن مقدس میں اللہ کریم کا ارشادگرامی ہے ’’جو شخص اللہ پر توکل (اوراعتماد)کرتا ہے ، پس اللہ تعالیٰ اس کیلئے کافی ہے۔ (الطلاق ) اس لیے میں نے مخلوق کے عارضی سہارے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی اعتماد اورتوکل اختیار کرلیا ہے۔یہ آٹھ باتیں سن کر حضرت شفیق بلخی نے فرمایا:حاتم! اللہ تعالیٰ تمہیں ان تمام باتوں پر استقامت کی توفیق عطاء فرمائے میں نے تورات ، انجیل ، زبور اورقرآن مجید کے علوم کودیکھاہے، میں خیر کے تمام کاموں کا خلاصہ اور نچوڑ انہیں آٹھ مسائل میں پاتا ہوں ، پس جو شخص تمہاری طرح ان آٹھ باتوں پر عمل کرلے تو گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی ان چاروں کتابوں کی ہدایت ، منشاء اورمقصد پر عمل کرلیا۔

بدھ، 10 جون، 2020

بندگی کیا ہے؟ - Bandagi Kya Hay

آٹھ منتخب باتیں (۲)


آٹھ منتخب باتیں (2)۲


حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استادو مربی حضرت شفیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ان سے اخذ کردہ آٹھ مسئلوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
(۴) میں نے ساری دنیا کو دیکھا کوئی شخص مال ودولت کی طرف رجوع کرتا ہے ، کوئی نام ونسب پر اتراتا ہے اورکوئی تفاخر کے دیگر اسباب کی طرف متوجہ ہوتا ہے میں نے قرآنِ مقدس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ ارشادگرامی دیکھا ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے زیادہ اکرام والا وہ ہے جو سب سے بڑھ کرتقویٰ اختیار کرنے والا ہے ۔‘‘(الحجرات )اس بنا پر میں نے تقویٰ اختیار کرلیا، تاکہ فانی دنیا اوراہل دنیا کے معیار پر پورا اترنے کی بجائے اپنے پاک پروردگار کے نزدیک شریف اورمکرم بن جائوں کیونکہ اس کا معیار مال ودولت ، جاہ منصب ، شہرت ونامور ی نہیں بلکہ صرف اورصرف تقویٰ ہے، اورصاحبان تقویٰ اسکی ہی جناب میں محترم ہیں ، اوراسے محبوب ہیں۔(۵)میں نے لوگوں کو بغور دیکھا کہ وہ ایک دوسرے پر طعن کرتے ہیں، ایک دوسرے کی عیب جو ئی میں مشغول رہتے ہیں ،، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتے ہیں اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ہر قسم کی سازشوں اورحربوں میں مصروف رہتے ہیں، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب کچھ ایک دوسرے کے حسد میں مبتلاہونے کا شاخسانہ ہے۔ یعنی ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ دوسرے کی نعمت چھین جائے اوراسے حاصل ہوجائے، پھر میں نے قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی ملاحظہ کیا، ’’دنیوی زندگی میں ان کا رزق ہم نے ہی تقسیم کررکھا ہے(اوراس تقسیم میں )ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دے رکھی ہے تاکہ (اس وجہ سے )ایک دوسرے سے کام لیتا رہے ‘‘ (زخرف )یعنی اسباب صلاحیتوں اوروسائل میں اس حکیم پروردگار نے تفاوت اور فرق اس لیے رکھا ہے کہ انسانوں کو ایک دوسرے کی احتیاج رہے اور اس طرح حیات کا، کاروبار اپنی بوقلونیوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہے، میں نے اس آیت پاک کی وجہ سے حسد سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلی اورتمام مخلوق سے بے نیاز ہوگیا، میں نے اچھی طرح جان لیا کہ ہر نعمت کی تقسیم توصرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جسے جتنا چاہے گا اورجیسا چاہے گا ، عطاء فرمادیگا، اس لیے میں نے انسانوں کی عداوت ترک کردی اوریہ سمجھ لیا کہ اسباب، وسائل اورصلاحیتوں کے تفاوت میں اللہ کی حکمت کا رفرما ہے اس میں لوگوں کے افعال کا عمل دخل نہیں اس لیے مجھے اب کسی پر کوئی غصہ نہیں آتا ، نہ میں کسی سے حسد کرتا ہوں۔(۶)میں نے دیکھا کہ ہر شخص کی کسی نہ کسی سے کوئی مخاصمت یا لڑائی ہے جبکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔

Dars-e-Quran Urdu. Surah Momin Topic : Hum Kya Yoom-e-Hisaab Kay Din Kayleay Tayar Hain?

منگل، 9 جون، 2020

آٹھ منتخب باتیں ۱ 


حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ سلف صالحین میں سے نامور بزرگ دین ہیں ، آپ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کے ہم عصر اورانکے پسند یدہ احباب میں سے ہیں۔ اظہارِ حق کے حوالے سے خاص شہرت کے حامل ہیں ، ان کا شمارحضرت شفیق بلخی کے خاص شاگردوں میں ہوتا ہے، مدت دراز تک ان کی خدمت میں حاضر رہ کر علم حاصل کیا اورحصولِ علم کے بعد میں ان سے مسلسل اکتساب کرتے رہے ، ایک بار انھوں نے استفسار کیا ،حاتم! تمہیں میرے پاس آتے ہوئے کتنی مدت گزرگئی ، عرض کرنے لگے ، (۳۳) سال سے آپکے ساتھ ہوں، فرمایا: اتنی طویل مدت میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا ، حاتم نے عرض کی، آٹھ مسئلے سیکھے ہیں ، حضرت شفیق نے حیران ہوکر فرمایا: اناللہ وانا الیہ راجعون ، تم نے اتنی طویل مدت میں صرف آٹھ مسئلے ہی سیکھے ہیں، میری تو عمر ہی گویا کہ تمہارے ساتھ (سرکھپاتے ہوئے ) ضائع ہوگئی، حاتم عرض کرتے ہیں حضور والا آپ کے سامنے جھوٹ تو بول نہیں سکتا، میں نے صرف آٹھ ہی سیکھے ہیں ، انھوں نے فرمایا: اچھا بتائو وہ آٹھ مسئلے ہیں کیا؟حضرت حاتم نے عرض کیا: (۱) میں نے دیکھا کہ ساری خلقت کسی نہ کسی سے محبت کرتی ہے ، اولاد سے ، مال ودولت سے ، احباب سے ، گھر بار سے ، وغیرہ وغیرہ لیکن میں نے ملاحظہ کیا کہ جب انسان قبر میں جاتا ہے تو اس کا محبوب اس سے جدا ہوجاتا ہے اس لیے میں نے نیک اعمال سے محبت کرلی تاکہ جب میں قبر کی تنہائی میں جائوں تو میرا محبوب بھی میرے ساتھ ہی جائے اورمجھے وحشت وتنہائی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ شیخ بلخی نے فرمایا: بہت اچھا کیا۔ (۲) میں نے قرآن مقدس میں اللہ رب العزت کا ارشاد پاک دیکھا :’’اورجو شخص (اس دنیا میں رہتے ہوئے)اپنے رب کے سامنے (قیامت میں) کھڑا ہونے سے ڈرا اوراپنے نفس کو (حرام)خواہش سے روکا تو اس کا ٹھکانا جنت ہے ‘‘(والنازعات ) میں نے اچھی طرح جان لیا کہ اللہ رب العزت کا ارشادحق ہے ، سو میں نے اپنے نفس کو خواہشات سے روکا یہاں تک کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت اوربندگی پر استقامت پکڑگیا ۔(۳) میں نے دنیا کا مشاہدہ کیا تو دیکھا کہ جو شخص بھی کسی چیز کو قیمتی اورگراں قدر خیال کرتا ہے، وہ اسے بڑی محبوب ہوتی ہے ، اوروہ اسے بڑی احتیاط سے استعمال کرتا ہے اوربڑی حفاظت سے سنبھال کررکھتا ہے ۔ پھر میں نے اللہ کریم کا یہ ارشاد دیکھا : ’’جو کچھ تمہارے پاس دنیا میں ہے وہ ختم ہوجائے گا، اورجو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘(النحل )

Dars-e-Quran Urdu. Surah Momin Topic : Konsa Hay Nejaat Ka Mukhtasir Rasta?.

حق پر یقین کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ - Haq Par Yaqeen Kaisay Hasil Kya Ja...

پیر، 8 جون، 2020

اللہ تعالٰی کے راستے کی حقیقت - Allah Tallah Kay Rastay Ki Haqeeqat

Dars-e-Quran Surah Momin - Topic : Kya Hum Khalis Toheed Kay Kail Nahi Hain?

Dars-e-Qannat

درسِ قناعت


امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺارشادفرماتے ہیں:جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے تھوڑے رزق (اور آمدن )پر راضی رہے حق تعالیٰ بھی اسکی جانب سے تھوڑے عمل پر راضی ہوجاتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ) امام محمد غزالی فرماتے ہیں کہ اگر انسان پانچ باتوں کا التزام کرے تو اس میں یہ وصف جمیل پیدا ہوسکتا ہے۔ (۱) اپنے اخراجات میں کمی کرے اور ضرورت کی مقدار سے زیادہ خرچ نہ کرے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا : جو شخص اخراجات میں میانہ روی اختیار کرے وہ مفلس وتنگ دست نہیں ہوتا۔ (۲)اگر بقدر ضرورت میسر ہوتو آئندہ کی فکر میں ہلکان نہ ہوتا رہے ، شیطان انسان کو ہمیشہ آئندہ کے اندیشوں میں مبتلاء رکھتا ہے اورانسان جائز اورناجائز کا خیال کیے بغیر اپنے سرمایے (اور اکائونٹ) کے اضافے میں مگن رہتا ہے جب انسان اسکے وسوسے کا شکار ہوجاتا ہے تو وہی شیطان انسان کا مذاق اڑاتا ہے کہ دیکھویہ بے وقوف آئندہ کی کسی تکلیف کے ڈر سے جو موہوم ہے، اس وقت کی یقینی مشقت اورتکلیف اٹھارہا ہے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اپنے (اعصاب کے)اوپر زیادہ غم سوار نہ کرو، جو مقدر ہے وہ ہوکر رہے گا، اورجتنی روزی تمہاری ہے وہ آکر ہی رہے گی ، قرآن پاک میں اس حقیقت کو آشکار کیاگیا ہے کہ جورزق کے پاک ذرائع اختیار کرتا ہے اللہ کریم اس بندئہ مومن کو وہاں سے رزق عطاء فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ،(۳) انسان اس امر پر غور وفکر کرے کہ قناعت کا وصف حاصل ہونے کی وجہ سے لوگوں سے استغناء کی کتنی بڑی عزت حاصل ہے اورحرص وطمع کی وجہ سے سوسائٹی کے سامنے کتنا ذلیل ہونا پڑتا ہے ۔ اس بات پر بڑے اہتمام سے غور کرنا چاہے اس کو ایک تکلیف برداشت کرنی ہے ، یا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت یا اپنے نفس کو ناجائز چیز سے روکنا ، یہ جو دوسری تکلیف ہے، اس پر تو اللہ رب العزت کے ہاں ثواب اوراجر کا وعدہ بھی ہے جبکہ پہلی آخرت کا وبال ہے۔معروف مقولہ ہے کہ جس سے تو استغناء کرے اس کا ہمسر ہے، جس کی طرف احتیاج کرے، اس کا قیدی ہے اورجس پر احسان کرے اس کا حاکم ہے ،(۴)مال کی کثرت اوراس کی محبت میں مبتلاء ہونے پر جو نقصانا ت ہیں انسان کو ان پر بھی غور وفکر کرنا چاہیے ۔(احیاء العلوم : امام غزالی)

اتوار، 7 جون، 2020

Tawwakul IlalAllah

توکل علی اللہ

اللہ رب العزت کا ارشادہے ’’جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ اسے کافی ہے‘‘۔(الطلاق ۳)حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا : میرے سامنے بہت سی امتیں پیش کی گئیں ، اللہ رب العزت کے ایک نبی یا دو نبی گزرتے اوران کے ساتھ ایک جماعت ہوتی ، اورکبھی کوئی ایک نبی (ایسے بھی)گزرتے جن کی معیت میں کوئی بھی نہیں ہوتا، پھر میرے سامنے ایک بہت بڑی جماعت ظاہر ہوئی میں نے استفسار کیا، کیا یہ میری امت ہے، مجھے مطلع کیاگیا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت ہے ، پھر مجھ سے کہاگیا کہ آپ دائیں ، بائیں آسمان کے کناروں کی طرف دیکھئے تو وہاں ایک بہت ہی بڑی جماعت تھی، جس نے آسمان کے کناروں کو بھرلیا تھا، مجھے خبر دی گئی کہ یہ آپ کی امت ہے، اوران میں ستر ہزار (وہ خوش نصیب ہیں جو)بغیر کسی حساب کتا ب کے جنت میں داخل ہوں گے ، پھر آپ اپنے کاشانہ اقدس میں چلے گئے اوریہ نہیں ارشادفرمایاکہ وہ کون لوگ ہیں، مسلمانوں نے اس بارے میں غوروفکر کیا اورکہا: یہ ہم لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اورہم نے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اوریہ ہم ہیں اورہماری وہ اولاد ہے جو اسلام پر پیدا ہوئی ہے کیونکہ ہم لوگ تو زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ باتیں پہنچیں تو آپ اپنے دولت کدے سے باہر تشریف لائے اورارشاد فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو (غیر شرعی )دم نہیں کراتے تھے اورنہ بدشگونی کرتے تھے، اورنہ داغ لگوا کر علاج کراتے تھے اوروہ صرف اپنے (کارساز) رب پر توکل کرتے تھے ، (صحابہ کرام میں سے )حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم کیا میں بھی ان میں سے ہوں ؟ آپ نے ارشادفرمایا: ہاں! ایک اورشخص نے بھی پوچھا کیا میں بھی ان میں سے ہوں آپ نے فرمایا: عکاشہ نے سبقت حاصل کرلی، (بخاری ،مسلم، طبرانی ، احمد)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جو شخص فاقے میں مبتلاء ہوجائے اوروہ لوگوں کے سامنے اپنی حالت زار بیان کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے فاقے کو دور نہیں کرتا اورجو شخص فاقہ زدہ ہواوروہ اللہ سے عرض کرے تواللہ تعالیٰ اس کو جلد یہ بہ دیر (ضرور) رزق عطافرمادے گا ۔ (ابودائود ، ترمذی )

Surah Momin - Topic : Gunnah-e-Azeem Say Nikalnay Ka Wahid Rasta Kya Hay?

Surah Momin - Topic : Kya Hum Aik Gunnah-e-Azeem Main Mubtila Hain?

ہفتہ، 6 جون، 2020

Allah Kafi Hay

اللہ کافی ہے

اللہ رب العزت کا ارشادہے ’’اورجواللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کیلئے کشادگی پیدا کردیتا ہے اوراس کووہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا اورجو اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ اسے کافی ہے، بے شک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے ، بے شک اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھا ہے ‘‘۔ (الطلاق ۳)حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت مبارکہ کو پڑھ کر ارشادفرمایا : جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا کے شبہا ت سے ، موت کی سختیوں سے، اورقیامت کی شدتوں سے نجات کا راستہ پیدا کردیتا ہے ۔(ابو نعیم)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس آیت کی تفسیر میں فرماتی ہیں جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کو دنیا کے غم اورفکر سے کفایت کردیتا ہے۔(تفسیر امام ابن حاتم )کلبی کہتے ہیں ، جو شخص مصیبت کے وقت صبر کرتا ہے اللہ کریم اس کے لیے دوزخ سے، جنت کی طرف نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے ، حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: میں ایک ایسی آیت کو جانتا ہوں کہ اگر تمام لوگ اس پر عمل کریں تو وہ آیت کافی رہے گی، صحابہ کرام نے پوچھا : یارسول اللہ ! وہ کون سی آیت مبارکہ ہے ، آپ نے فرمایا : ’’جو اللہ سے ڈرتا ہے ، اللہ اس کیلئے کشادگی پیداکردیتا ہے.... (ابن ماجہ ، صحیح ابن حبان ، مجمع الزوائد)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کے بیٹے سالم کو مشرکین نے قید کرلیا وہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اوراپنے فقر وفاقہ کی شکایت کی، تو آپ نے فرمایا: شام کے وقت آل محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس صرف ایک صاع طعام ہے، تم اللہ سے ڈرو ، اورصبر کرو اورلاحول ولا قوۃ الا باللہ کثرت سے پڑھو ، سو انھوں نے اس ہدایت پر عمل کیا ، ابھی وہ اپنے گھر میں (پہنچے ہی)تھے کہ انکے بیٹے نے دروازے پر دستک دی، ان کے ساتھ پورے ایک سو اونٹ تھے، ان کے دشمن غافل ہوئے اوروہ قید سے چھوٹ گئے اورساتھ ہی انکے ایک سواونٹ ہنکا کر لے آئے۔(تفسیر ابن ابی حاتم ، بیہقی ، مستدرک امام حاکم)

جمعہ، 5 جون، 2020

Surah Momin - Topic : Kya Hum Allah Tallah Ko Naraz Karnay Kayleay Bharpur Kosish Kar Rahay Hain?

Tofeeq-e-Ebadat

تو فیقِ عبادت


مولانا روم ؒ حکایت بیان فرماتے ہیں :ایک شخص بڑا عبادت شعار ، نیک اور متقی تھا۔ یہ نیک مرد بھی ابلیس کی نظروں میں کھٹک رہا تھا ۔ ایک رات یہ شخص عبادت میں مصروف تھا اور اللہ اللہ کر رہا تھا کہ شیطان نے اپنا سب سے کا رگر ہتھیار (وسوسہ )اس پر آزمایا ۔ اس نے اس شخص کے دل میں وسوسہ ڈالنا شروع کیا ۔اور بولا: اے (بھولے) انسان تو کتنے اعتماد سے اللہ اللہ کہتا ہے۔ کیا تو نے اس پکار کے جواب میں ،اللہ رب العزت کی طرف سے ایک مرتبہ بھی لبیک کی آواز سنی ۔ کیا تجھے کبھی تیری پکار کا جواب ملا۔بارگاہ الہٰی سے تو ایک بھی جواب نہیں آرہا توکتنی مرتبہ شدت واستقامت سے اللہ اللہ کا ورد کرتا رہے گا۔ اللہ کے نام کے ورد سے شیطان کو بڑی اذیت ہوتی ہے ۔شیطان نے جب اس نیک دل بندے کے دل میں وسوسہ ڈالا توا س نے ورد چھوڑ دیا۔ اور دل شکستہ ہوکر بستر پر دراز ہوگیا۔ رات حضرت خضرعلیہ السلام اسکے خواب میں تشریف لے آئے اور شخص نے دیکھا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ایک سبزہ زار میں ہے۔آپ نے اس سے سوال کیا اے نیک مرد تو خاموش کیوں ہوگیاہے اور کیوں اس افسردہ ومایوس حالت میں لیٹا ہوا ہے۔ اس شخص نے گزارش کی ۔ میں ورد کرتا ہوں تو جواب نہیں ملتا۔میں لبیک کہتا ہوں تو کوئی آواز پلٹ کر میرے کانوں میں نہیں آتی۔ شایدبارگاہ رب العزت تک میری آواز پہنچتی ہی نہیں ۔میں اس بات سے خوفزدہ ہوگیاہوں اور مایوس بھی کہ شاید مجھے راندئہ درگاہ کردیا گیا ہے اورمیں مردود ہوچکاہوں ۔حضرت خضر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔مجھے اللہ رب العزت نے تمھارے پاس آنے کا حکم دیا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ جائو اور میرے اس نیک خصلت بندے سے کہو، اے میرے بندے تیرا یہ مجھے پکارنا ، تیری زبان کا وردِ اللہ اللہ سے تر ہو جانا، اور ہماری یا د میں مشغول ہوکر دنیا کے لاکھ جھمیلوں سے بچے رہنا ہی ہماری لبیک ہے۔ وہ کیف وسرور جو تجھے میسر ہے یہی ہمارا قاصد ہے۔ کیامیں نے تجھے اپنے کام میں نہیں لگا رکھا؟ تیری دل کی یہ تڑپ اور تیری محبت کی وارفتگی ہماری ہی کشش کے باعث ہے، کسی کو عبادت کی توفیق عطا ہوجانا ہی اس کی عبادت کی قبولیت کی دلیل ہوتی ہے۔ دعا مانگنے والے کا پکارنا ہی اللہ رب العزت کی طرف سے لبیک بن جاتا ہے ۔ جس سے اللہ ناراض ہوجائے اسے اپنی عبادت کی توفیق ہی نہیں دیتا ۔

جمعرات، 4 جون، 2020

Surah Momin - Kya Hum Allah Tallah Ki Rehmat Kay Mustahiq Hain?

اللہ کے راستے سے کیا مطلب ہے؟ - Allah Kay Rastay Say Kya Matlab Hay

Ebadat Aur Nafi-e-Rehbaniat

عبادت اور نفی ٔ رہبانیت


حضور اکرم ﷺکے حیات آفریں پیغام کی وجہ سے زندگی کے سارے شعبے ہدایت کی روشنی سے منور ہوگئے۔اسلام نے عبادت کے تصور کو بھی اعتدال و توازن عطاء کیا ۔ اسلام سے قبل عبادت وریاضت کی تعبیر ہی گو یا کہ ترک دنیا، فاقہ کشی وغیرہ سے وابستہ ہو چکی تھی، سمجھا یہ جانے لگا تھا کہ بندہ کس قدر اذیت اور تکلیف اٹھا تا ہے اور خودکو آزار میں مبتلاء کرتا ہے، خدا اتنا ہی خوش ہوتاہے ۔ اور اس اذّیت رسانی سے ہی روح میں پاکیزگی آتی ہے اور اس کی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یونانی فکر میں اشراقیت ہندئووں میں جوگ، عیسائیوں میں رہبانیت اور بدھوں میں نروان کی خاطر شدید تپسیا کا ظہور اسی تصور کی پیدا وار تھا۔ اسلام نے ان تصورات کی نفی کی،عبادت کو زندگی کی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ۔ایک دفعہ کسی غزوہ کے سفر میں ایک صحابی کا گزر ایک ایسے مقام پر ہوا، جہاں ایک غارتھا، قریب ہی ایک پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ آس پاس کچھ ہر یالی اور سبزہ بھی تھا۔ انھیں یہ گوشہ عافیت بہت بھلا لگا۔ وہ حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا،یارسول اللہ ! مجھے ایک غار کا سراغ ملا ہے۔ جہاں ضرورت کی ساری چیزیں بھی میسر ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ میں گوشہ گیر ہو کرترک دنیا کرلوں۔ آپ نے فرمایا میں یہودیت اور عیسائیت لیکر دنیا میں نہیں آیا ہوں (بلکہ )میں آسان ، سہل اور روشن ابراہیمی دین لیکر آیا ہوں۔(مسند امام احمد بن حنبل)
ایک دفعہ آپ خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ دیکھا ایک شخص چلچلاتی ہوئی دھوپ میں برہنہ سرکھڑا ہوا ہے۔ آپ نے استفسار فرمایا یہ شخص کون ہے اور اس نے یہ کیا حالت بنارکھی ہے۔ لوگوں نے بتایا اس کا نام ابواسرائیل ہے اس نے نذرمانی ہے ک وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گانہیں اور نہ سایہ میں آرام کریگا اور نہ کسی سے کوئی بات کریگااور یہ بھی کہ مسلسل روزے رکھے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس سے کہو کہ بیٹھے ،باتیں کرے ، سایہ میں آرام لے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ (بخاری،ابودائود)
اپنے حج کے سفر میں آپ نے ایک ضعیف آدمی کو دیکھا جو خود چلنے کی طاقت نہ رکھتا تھا، اسکے بیٹے اس کو دونوں طرف سے پکڑکر چلا رہے تھے۔ آپ نے دریافت فرما یا ، تو معلوم ہوا کہ اس نے پیدل حج کی نیت کی ہے۔ فرمایا اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ یہ اپنی جان کو اس طرح عذاب میں ڈالے اس کو سوار کرادو۔(ترمذی ،نسائی، ابودائود)

بدھ، 3 جون، 2020

Islami Ebadaat Kay Imtiazaat

اسلامی عبادت کے امتیازات


اسلام نے اپنے دائمی اور سرمدی پیغام کے ذریعے عبادت میں شرک کی ہرطرح کی آمیزش اور بے اعتدالی کوہمیشہ کیلئے نفی کردی ۔ اسلام سے پہلے جبکہ انبیائے کرام کی تعلیمات ذہنوں سے محو ہوچکی تھیں،پوری دنیا ، اصنام پرستی ،مظاہر پرستی اورآباء پرستی میں مبتلاء ہوچکی تھی۔حتیٰ کہ بہت مقامات پر تو حیوان تک معبودوں کا درجہ حاصل کرچکے تھے۔’’جب انسان کاتعلق اپنے خالق حقیقی سے منقطع ہوجاتا ہے اور اس کی فطر ت سلیمہ مسخ ہوجاتی ہے، اسکی عقل وفہم پر پردے پڑجاتا ہے۔اسکی چشم بصیرت بینائی سے محروم ہوجاتی ہے۔ اپنی دانش مندی کے باوجود اس سے اس قسم کی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ احمق اور دیوانے بھی ان سے شرمندگی محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘‘(ضیاء النبی)۔انسان کی فکری لغزش کااندازا لگانا ہوتو اس بات سے لگائیے کہ ا ہل مکہ کے دومعبودوں کے نام اساف اور نائلہ تھے۔یہ دوافراد اساف بن یعلیٰ اور نائلہ بنت زید تھے۔جنہیں اللہ رب العزت نے بیت اللہ کی حرمت پامال کرنے کی وجہ سے اور وہاں ارتکاب گناہ کرنے کی وجہ سے پتھر بنادیاتھا۔ لوگوں نے انھیں اٹھا کر باہر رکھ دیا تاکہ انکے انجام سے عبر ت حاصل ہو لیکن رفتہ رفتہ ان دونوں کی بھی پوجا شروع ہوگئی۔اسلام نے انسان کو ان تمام خودساختہ معبودوں سے نجات بخشی اور صرف اور صرف ایک ہی ذات پاک کو عبادت کے لائق قرار دیا اور وہ ہے اللہ وحدہٗ لاشریک۔ اسلام نے اللہ رب العز ت کی عبادت کو نہایت سہل اور سادہ انداز میں پیش کیا، اور بے مقصد رسوم و قیود کو یکسر مسترد کردیا ۔ نیت خالص ہو، جسم پاک ہو، لباس پاک ہو ،اتنا ضرور ہو کہ ستر کو ڈھانپ لے، سجدہ گاہ پاک ہواور تم اپنے معبود کے سامنے جھک جائو۔بتوں کی ، شمعوں کی ،بخوروں کی ، تصویروں کی اور سونے چاندی برتنوں یا مخصوص رنگ کے لباس کی کوئی قید نہیں۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں مذہبی رسومات مخصوص افراد ہی ادا کرسکتے ہیں۔ یہودیوں میں کاہن وربی ، عیسائیوں میں پادری ،پارسیوں میں موبد،ہندئوںمیں برہمن ، پروہت اور بچاری ۔لیکن یہاں ہر بندہ خدا سے اپنی مناجات خود کرسکتا ہے۔ اجتماعی عبادت کے لیے امامت رنگ، نسل یا خاندان میں محصور نہیں بلکہ اس کا انحصار علم اور تقویٰ پر ہے۔ مذاہب نے اپنے مخصوص عبادت خانوں تک عبادتوں کو محدود رکھا، پوجا کے لیے بت خانہ ، دعاء کے لیے گرجا، اور صومعہ آگ کے لیے آتش کدہ، لیکن اسلام کا تصور عبادت محدود نہیں۔

Insaan Allah Ki Reza Par Kaisay Razi Ho Sakta hay?انسان اللہ تعالیٰ کی رضا پر کیسے راضی ہوسکتا ہے؟

Surah Momin - Kya Hum Jannat Jannay Ki Salaheat Rakhtay Hain?

منگل، 2 جون، 2020

Surah Momin - Kya Kafir Pakkay Dozakhi Hain?

بندگی کے تقاضے - Bandagi Kay Taqazay

Islam Aur Islah-e-Ebadat

اسلام اور اصلاحِ عبادات


مکہء مکرّمہ کی آبادی حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسمعٰیل ؑکے مبارک وجود کی وجہ سے شروع ہوئی۔ اللہ کے یہ پیغمبر دعوت توحید کے علمبردار تھے ۔ حضرت اسمعٰیل ؑکی اولاد واحناف بھی ایک مدّت تک دین حنیف پر کاربند رہے لیکن ایک شخص عمروبن لحی الخزاعی سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوگیا۔ عمروبن لحی خانہ کعبہ کا متولی تھا،اسے سنگین نوعیت کا کوئی مرض لاحق ہوگیا ۔ کسی نے اسے بتایا کہ ملک شام میں بلقاء کے مقام پر گرم پانی کا ایک چشمہ ہے۔ اگر تم اسکے پانی سے غسل کروگے،تو صحت یا ب ہوجائو گے۔ وہ بلقاء پہنچا ،غسل کیا اور صحت یاب ہوگیا۔ اس نے وہاں کے باسیوں کودیکھا کہ وہ بتوں کی پر ستش کرتے ہیں ۔ اس نے استفسار کیا کہ تم یہ کیا کررہے ہو،انہوں نے بتایا کہ ہم انکے ذریعہ سے بارش طلب کرتے ہیں اور انکے ذریعے دشمن پر فتح حاصل کرتے ہیں۔اس نے کہا مجھے بھی ان بتوں میں سے چند ایک بت دے دو، انہوں نے اس کو چند بت دے دیے وہ ان کو لے کر مکہ واپس آگیا ،اور انھیں خانہ کعبہ کے اردگرد نصب کردیا، بقول ابن خلدون یہیں سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا، عمرونے بت پرستی کے علاوہ بھی بہت سی نئی رسومات کاآغاز کیا اور عربوں نے انھیں مذہبی شعار سمجھ کر اختیار کرنا شروع کردیا۔ بت پرستی کی یہ وباء اس شدت سے پھیلی کہ ہر قبیلے نے اپنا الگ الگ خدا بنا لیا ۔ یہاں تک کہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب کردیے گئے، اور اسکی وجہ یہ تھی عرب کے سارے قبائل کعبہ کا حج کرنے کیلئے آیا کرتے تھے اس لئے قریش نے ان تمام قبائل کے معبودوں کے بت یہاں یکجا کردیے تھے تاکہ کسی قبیلہ کا آدمی بھی حج کرنے کی نیت سے مکہ میں آئے تو اپنے معبود کے بت کو یہاں دیکھ کر اسکی عقیدت میں اور اضافہ ہواور اسے قریش کی سیادت کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہ ہو، کفّا رومشرکین کے ساتھ عرب میں یہودیوں اور نصاریٰ کی بھی ایک تعداد موجود تھی ،لیکن یہ مذاہب بھی افراط وتقریظ کا شکار ہوچکے تھے۔یہود اپنی بد عملی کے سبب بدنام ہوچکے تھے، جادو،ٹونہ اور عملیات کے توہمات میں گرفتار ہوچکے تھے۔ان میں خدا پرستی ایثار اور روحانی خلوص نام کو بھی نہیں تھا۔صرف ہفتہ کے دن کی تعظیم کو بڑا مذہبی شعار گردانتے تھے۔عیسائیوں نے توحید خالص کو چھوڑ کر حضرت عیسٰی ،حضرت مریم اور مسیحی اکابرین کے مجسمے اور تصویر یں پوجناشروع کردی تھیں ،اور رہبانیت کو اپنا مذہبی شعار بنالیا تھا۔’’یہود کا فسق دین میں کمی اور پستی کرنااور نصاریٰ کافسق دین میں زیادتی اور غلوتھا‘‘۔ ایسے میں اسلا م توحید ،اعتدال اور توازن کا پیغام لے کرآیا۔