پیر، 15 جون، 2020

Ebadat Aur Nafi-e-Rehbaniat

عبادت اور نفی ٔ رہبانیت


حضور اکرم ﷺکے حیات آفریں پیغام کی وجہ سے زندگی کے سارے شعبے ہدایت کی روشنی سے منور ہوگئے۔اسلام نے عبادت کے تصور کو بھی اعتدال و توازن عطاء کیا ۔ اسلام سے قبل عبادت وریاضت کی تعبیر ہی گو یا کہ ترک دنیا، فاقہ کشی وغیرہ سے وابستہ ہو چکی تھی، سمجھا یہ جانے لگا تھا کہ بندہ کس قدر اذیت اور تکلیف اٹھا تا ہے اور خودکو آزار میں مبتلاء کرتا ہے، خدا اتنا ہی خوش ہوتاہے ۔ اور اس اذّیت رسانی سے ہی روح میں پاکیزگی آتی ہے اور اس کی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یونانی فکر میں اشراقیت ہندئووں میں جوگ، عیسائیوں میں رہبانیت اور بدھوں میں نروان کی خاطر شدید تپسیا کا ظہور اسی تصور کی پیدا وار تھا۔ اسلام نے ان تصورات کی نفی کی،عبادت کو زندگی کی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ۔ایک دفعہ کسی غزوہ کے سفر میں ایک صحابی کا گزر ایک ایسے مقام پر ہوا، جہاں ایک غارتھا، قریب ہی ایک پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ آس پاس کچھ ہر یالی اور سبزہ بھی تھا۔ انھیں یہ گوشہ عافیت بہت بھلا لگا۔ وہ حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا،یارسول اللہ ! مجھے ایک غار کا سراغ ملا ہے۔ جہاں ضرورت کی ساری چیزیں بھی میسر ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ میں گوشہ گیر ہو کرترک دنیا کرلوں۔ آپ نے فرمایا میں یہودیت اور عیسائیت لیکر دنیا میں نہیں آیا ہوں (بلکہ )میں آسان ، سہل اور روشن ابراہیمی دین لیکر آیا ہوں۔(مسند امام احمد بن حنبل)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں