بدھ، 30 جون، 2021

رَمْزِ اطاعت

 

رَمْزِ اطاعت

ہجرت کے چھٹے سال نبی کریم ﷺنے احرام باندھا اورچودہ سو زائدصحابہ کرام کی معیت میں عمرہ کی نیت سے سفر کا آغاز کیا،کفار مکہ کو اس سفر کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے حضور اکرم ﷺکے مکہ میں تشریف فرما ہونے کے بارے میں بڑے رد وکد کا اظہار کیا ،آپ نے حضرت عمر ؓ  کو حکم فرمایا کہ اہل مکہ سے مذکرات کیلئے جائیں لیکن انھوں نے مشورہ عرض کیا کہ موجودہ صورتحال میں حضرت عثمانؓ موزوں شخصیت ہیں، سو آپ نے حضرت عثمان غنی ؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر اہل مکہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھیں اطمینان دلائیں کہ مسلمانوں کا ارادہ محض بیت اللہ شریف کی حاضری اورعمرہ کی ادائیگی کا ہے۔’’اہل مکہ نے حضرت عثمان ؓ کو اپنے پاس روک لیا تاکہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہے ، اس اثناء میں کفار نے حضرت عثمان ؓ  کو کہا کہ کسی دوسرے مسلمان کو تو نہ ہم مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دینگے اورنہ وہ کعبہ کا طواف کرسکیں گے البتہ آپ ہمارے مہمان ہیں، آپ کو اجازت ہے کہ آپ خانہ کعبہ کاطواف کرلیں، وہ تو سمجھتے تھے کہ عثمان ؓہماری اس اجازت کو بصد تشکر قبول کرینگے اورفوراً طواف کعبہ میں مشغول ہوجائینگے لیکن اس عاشق صادق کا جواب سن کر انکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔آپ نے انہیں فرمایا کہ ’’میں اس وقت تک کعبہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک میرا محبوب میرے اللہ کا رسول(ﷺ) طواف نہیں کریگا۔‘‘ حضرت عثمان ؓکے مکہ روانہ ہونے کے بعد بعض صحابہ کے دل میں رہ رہ کر یہ خیال چٹکیاں لینے لگا کہ کتنے خوش نصیب ہیں عثمان انہیں مکہ مکرمہ جانے کا موقع مل گیا ہے ۔وہ بیت اللہ کی زیارت کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرینگے،  معلوم نہیں ہمیں یہ سعادت نصیب ہوتی ہے یا نہیں ۔اپنے ان جذبات کا اظہار انہوںنے بارگاہ رسالت میں بھی کردیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : ’’میرا خیال ہے کہ وہ کعبہ کا طواف ہر گز نہیں کرینگے جبکہ ہم محصور ہیں اورہمیں مکہ میں داخلہ کی اجازت بھی نہیں‘‘۔ حضرت عثمان ؓجب واپس آئے تو صحابہ نے پوچھا کہ آپ نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا، اس مومن صادق نے جواب دیا: ’’اس ذات پاک کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ اگر میں احرام کی حالت میں کئی سال بھی مکہ میں رہتا۔ تو میں ہرگز طواف نہ کرتا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا پیارا رسول طواف نہ فرماتا‘‘۔ علامہ ابن قیم نے حضرت عثمان ؓ کا جواب یوں رقم کیا ہے آپ نے فرمایا:’’تم نے میرے بارے میں سوئے زن سے کام لیا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر میں مکہ میں ایک سال بھی رہتا اورحضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم حدیبیہ میں تشریف فرمارہتے تو میں ہر گزکعبہ کا طواف نہ کرتا جب تک کہ میرے آقاعلیہ السلام طواف نہ کرتے ۔‘‘(زاد المعاد)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1761 ( Surah At-Tur Ayat 35 - 38 Part-4 ) در...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے کوشش کر...

Shortclip - انسان کی کامیابی کا راز

منگل، 29 جون، 2021

Part-3/3 - ہم اللہ تعالی کی ملاقات کا شوق کیسے پیدا کریں

جنت کی نعمتیں

 

  جنت کی نعمتیں

علامہ راغب اصفہانی جنت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’جن ‘‘کا اصل میں معنی ہے: کسی چیز کو حوا س سے چھپا لینا۔ قرآن مجید میں ہے: ’’جب رات نے ان کو چھپالیا‘‘(الانعام : ۷۶)

 جنان ‘قلب کوکہتے ہیں ، کیونکہ وہ بھی حواس سے مستور ہوتا ہے ، جنین ‘پیٹ میں بچہ کو کہتے ہیں وہ بھی مستور ہوتا ہے‘مجن اورجنہ ڈھال کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی حملہ آور کے حملہ سے چھپاتی ہے اورجن بھی حواس سے مستور ہوتے ہیں، اورجنت اس باغ کو کہتے ہیں جس میں بہت زیادہ گھنے درخت ہوں اوردرختوں کے گھنے پن اورزیادہ ہونے کی وجہ سے زمین چھپ گئی ہواوردارالجزاء کا نام جنت اس لیے ہے کہ اس کو زمین کی جنت (گھنے باغ)کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے اگر چہ دونوں جنتوں میں بہت فرق ہے ، یا اس کو اس وجہ سے جنت کہا گیا ہے کہ اس کی نعمتیں ہم سے مستور ہیں ۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیارکی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اورنہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا ہے اوراگر تم چاہوتو یہ آیت پڑھو:’’سوکسی کو معلوم نہیں کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری)

 حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں تمہارے لیے چابک جتنی جگہ بھی دنیا ومافیہا سے بہترہے۔ (صحیح بخاری )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو پہلا گروہ جنت میں داخل ہوگا ان کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگا، نہ وہ اس میں تھوکیں گے نہ ناک سے ریزش آئے گی، نہ فضلہ خارج ہوگا ، ان کے برتن جنت میں سونے کے ہونگے اورکنگھے سونے اورچاندی کے ہوں گے اوراس میں عود کی خوشبو ہوگی، ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبو دار ہوگا، ہر جنتی کو دوبیویاں ملیں گی ، ان کی پنڈلیوں کامغز گوشت کے پار سے نظر آئے گا، یہ ان کے حسن کی جھلک ہے ان کے دلوں میں اختلاف اوربغض نہیں ہوگا، سب کے دل ایک طرح کے ہوں گے اوروہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے۔(صحیح بخاری)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1760 ( Surah At-Tur Ayat 35 - 38 Part-3 ) در...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم حب دنیا کا شکار ہوگئے ہیں

PART 2/3 ہم اللہ تعالی کی ملاقات کا شوق کیسے پیدا کریں

پیر، 28 جون، 2021

منفرد شہادت

 

منفرد شہادت

امام بخاری ؒہشام بن عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد گرامی کا بیان ہے کہ قافلے کے باقی مسلمان تو بئیر معونہ میں شہید ہوگئے لیکن حضرت عمر وبن امیہ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرلیا گیا ان سے سردار عامر بن طفیل نے ایک شہید مقتول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ، یہ کون ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا یہ عامر بن فہیرہ ہیں ، یہ جواب سن کر عامر بن طفیل نے کہا، ان کو شہید ہونے کے بعد میں نے آسمان کی طرف لے جاتے ہوئے دیکھا ہے ، میں انکے اور زمین کے درمیان آسمان تک دیکھتا رہا ، اسکے بعد ان کو واپس کردیاگیا ، واقدی نے اپنی کتاب المغازی میں اس واقعے کی مزید تفصیل درج کی ہے ، وہ کہتے ہیں مصعب بن ثابت ، ابو لاسود کے حوالے سے حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (بئیر معونہ میں)منذر بن عمرو شہید ہوئے اوربئیر معونہ کا واقعہ بیان کیا ، اورکہا کہ عامر بن طفیل نے حضرت عمر بن امیہ ؓسے پوچھا کیا تم اپنے تمام ساتھیوں کو پہچانتے ہو ، انہوں نے فرمایا : ہاں تو اس نے انھیں ہمراہ لیا اورتمام شہداء کے پاس گیا اور ان سے ہر ایک کے بارے میں معلومات لیتا رہا، آخرمیں ان سے دریافت کیا گیا تم ان شہداء میں سے کسی کو غیر موجود پاتے ہو، انھوں نے فرمایا : ہاں میں ایک صاحب کو یہاں نہیں پا رہا ، جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام ہیں اوران کا نام عامر بن فہیرہ ہے اس نے پوچھا وہ تم لوگوں میں کیسے تھے ، انھوںنے جواب دیا وہ ہم میں سب سے زیادہ صاحب فضیلت تھے، عامر نے کہا میں تمہیں ان کا حال بتائوں ، انھیں قتل کیا گیا تو ایک شخص انکو اٹھا کر آسمان میں لے گیا پھر وہ مجھے نظر نہیں آئے۔جبار بن سلمیٰ کلابی نے انھیں بھالا ماراتھا، ان کا بیان ہے جب نیزے کی انی انکے جسم کو توڑ کر اندر داخل ہوئی تو انہوں نے نعرہ مارا ’’قزت واللہ ‘‘ یعنی خدا کی قسم میں کامیاب ہوگیا اسکے بعد میں ضحاک بن سفیان کلابی کے پاس آیا اوران سے سارا واقعہ بیان کیا، مجھ پر اس مشاہدے کا گہرا اثر ہوا، اورمجھ پر اسلام اورمسلمانوںکی حقانیت واضح ہوگئی ، انکی صداقت وثبات کو دیکھ کر میں صدق دل سے مسلمان ہوگیا۔ امام بیہقی فرماتے ہیں ممکن ہے انھیں آسمان پر اٹھا یا گیا اورپھر (حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی طرح) زمین پر رکھ دیا ہو اوراسکے کچھ دیر کے بعد انھیں دوبارہ روپوش کردیا گیاہو، اس طرح تمام روایات میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں ہم نے موسیٰ بن عقبہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب المغازی میں اس روایت کے ضمن میں دیکھا ہے کہ عروہ نے کہا لوگ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عامررضی اللہ عنہ کو فرشتوں نے دفن کیا ابن سعد ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انھیں ملائکہ نے روپوش کردیا۔

Shortclip - انسان اپنی معراج کو کیسے حاصل کرسکتا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1759 ( Surah At-Tur Ayat 35 - 38 Part-2 ) درس...

اتوار، 27 جون، 2021

Hum Allah Ki Mulaqat Kay Shock Kaisay Paida Karain? ہم اللہ تعالی کی ملا...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1758 ( Surah At-Tur Ayat 35 - 38 Part-1 ) درس...

بئیر معونہ کے شہید

 

بئیر معونہ کے شہید

ماہ صفر ۴ ہجری میں غزوہ احد کے ساڑھے چار ماہ بعد ابوبراء عامری اورکچھ لوگ حضور اکرم ﷺ سے ملاقات کیلئے آئے ، آپ نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، انہوںنے اس دعوت کو نہ تو قبول کیا اورنہ ہی رد، البتہ ابوبراء نے آپکی خدمت اقدس میں عرض کیا، کہ آپ اپنے چند اصحاب کو نجد کی طرف بھیج دیں تو مجھے امید ہے کہ وہاں کے باشندے اس دین کو قبول کرلیں گے ، اس پر آپ نے ارشادفرمایا : مجھے اندیشہ ہے کہ اہل نجد عصبیت کی وجہ سے میرے اصحاب کو شہید نہ کردیں ، ابوبراء نے کہا : میں آپ کے اصحاب کا خود ذمہ لیتا ہوں ، اسکے اصرار پر آپ نے حضرت منذر بن ؓکے ساتھ چالیس اورایک روایت کے مطابق زیارہ سے زیادہ ستر افراد کو روانہ کردیا ، یہ مبلغ قاری بئیر معونہ پہنچے تو حرام بن ملجان کے ہاتھ وہاں کے سردار عامر بن طفیل کے پاس حضور ھادی عالم ﷺکا گرامی نامہ بھیجا ، عامر بن طفیل کے ارزہ تکبر و نخوت حرام بن ملجان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا اوراپنے قبیلے بنو عامر کو حکم دیا کہ جاکر تمام مسلمانوں کو قتل کردو، انھوںنے کہا: 
سردار! جب ابوبراء نے ان لوگوں کو اپنی حمایت اورامان میں لیا ہوا ہے تو ہم انھیں کیسے قتل کرسکتے ہیں ، یہ سن کر عامر نے بنوسلیم کو بلوایا اوران کے ساتھ لے کر بذات خود مسلمانوں کی فروگاہ پر اچانک حملہ آور ہوگیا، اورسب کو شہید کردیا، صرف دوافراد زندہ بچ سکے، حضرت عمر بن امیہ ﷺ کو عامر نے گرفت میں لے لیا، لیکن پھریہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام کو آزاد کرنے کی منت مانی تھی ، دوسرے حضرت کعب بن زید ؓجو مجروح ہوکر نعشوں کے نیچے دب گئے تھے، کفار نے انھیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا، انکے جانے کے بعد یہ ہوش میں آئے تو اٹھ کر چلے آئے۔امام مسلم روایت کرتے ہیں کہ ان قراء نے شہادت کے وقت یہ دعاء کی اے پاک پروردگار اپنے پیارے رسول ﷺکو ہماری حالت سے مطلع فرمادے، عین اسی وقت رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرام سے فرمایا:
اے مسلمانوں تمہارے بھائیوں کو شہید کردیا گیا اوریہ بھی فرمایا کہ انھوںنے بارگاہِ رب العزت میں یہ عرض کی ہے کہ اے  ہمارے رب !ہمارے مسلمان بھائیوں کو ہماری شہادت کی نیز اس بات کی خبر پہنچا دے کہ ہم تجھ سے اورتو ہم سے راضی ہوگیا ، اورمیں انکی دعاء کی قبولیت کے بارے میں تمہیں مطلع کررہا ہوں۔امام بیہقی ، حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت روانہ فرمائی، چند ہی روز گزرے تھے کہ آپ منبر پر تشریف لائے اوراللہ تعالیٰ کی حمدوثنا ء کے بعد فرمایا : اے لوگو!تمہارے بھائیوں پر مشرکین حملہ آور ہوگئے ہیں ، اوران کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے ، ان شہداء کی یہ دعاء تھی اے رب ہمارے حالات کی اطلاع ہمارے مسلمان بھائیوں کو کردے اوربے شک ہم اللہ کے سایہء عاطفت میں ہیں اوراللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے، تو میں تمہارے بھائیوں کی طرف سے رسول (اطلاع کنندہ )ہوں اورتمہیں خبر پہنچاتا ہوں کہ وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ ان سے راضی ہوگیا۔

Shortclip - یقین کامل حاصل کرنے کا طریقہ

Darsulquran Para-04 - کیا ہمارے دل دنیا کی یاد سے آباد ہیں

Zalim Kon Hay ? ظالم کون ہے

ہفتہ، 26 جون، 2021

محافظ فرشتے

 

 محافظ فرشتے

کنانہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ایک فرشتہ تمہاری دائیں جانب تمہاری نیکیوں پر مقرر ہوتا ہے اوریہ بائیں جانب والے فرشتے پر امیر(حاکم)ہوتا ہے، جب تم ایک نیکی کرتے ہو تو اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اورجب تم ایک برائی کرتے ہوتو بائیں جانب والا فرشتہ دائیں جانب والے فرشتے سے پوچھتا ہے ، میں لکھ لوں؟وہ کہتا ہے نہیں !ہوسکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اورتوبہ کرلے !جب وہ تین مرتبہ پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے ہاں لکھ لو!ہمیں اللہ تعالیٰ اس سے راحت میں رکھے، یہ کیسا برا ساتھی ہے یہ اللہ کے متعلق کتنا کم سوچتا ہے ! اوریہ اللہ سے کس قدر کم حیاکرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’وہ زبان سے جو بات بھی کہتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان لکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔‘‘(ق: ۱۸)اوردو فرشتے تمہارے سامنے اورتمہارے پیچھے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اس کے لیے باری باری آنے والے محافظ فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کے سامنے سے اوراس کے پیچھے سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘(الرعد:۱۱)اورایک فرشتہ ہے جس نے تمہاری پیشانی کو پکڑا ہوا ہے جب تم اللہ کے لیے تواضع کرتے ہوتو وہ تمہیں سربلند کرتا ہے اورجب تم اللہ کے سامنے تکبر کرتے ہوتو وہ تمہیں ہلاک کردیتا ہے ، اوردوفرشتے تمہارے ہونٹوں پر ہیں وہ تمہارے لیے صرف محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلواۃ کی حفاظت کرتے ہیں اورایک فرشتہ تمہارے منہ پر مقرر ہے وہ تمہارے منہ میں سانپ کو داخل ہونے نہیں دیتا، اوردوفرشتے تمہاری آنکھوں پر مقررہیں، ہر آدمی پر یہ دس فرشتے مقرر ہیں، رات کے فرشتے دن کے فرشتوں پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ رات کے فرشتے دن کے فرشتو ں کے علاوہ ہیں ، ہر آدمی پر یہ بیس فرشتے مقرر ہیں اورابلیس دن میں ہوتا ہے اوراس کی اولاد رات میں ہوتی ہے۔(جامع البیان :طبری ،تفسیر ابن کثیر )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1757 ( Surah At-Tur Ayat 30 - 34 ) درس قرآن س...

Shortclip - کیا ظاہر ہمارا مقصود ہے؟

جمعہ، 25 جون، 2021

Humain Khuwahishat Say Bhara Nafs Kyoon Dya Gya Hay? - ہمیں خواہشات سے ب...

فضائل مدینہ منورہ

 

فضائل مدینہ منورہ

مدینہ منورّہ کے باسیوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے دل وجان نچھاور کردیے ۔حضور کی تشریف آوری سے اس شہر کا ماحول ہی بدل گیا۔ پہلے یہاں کی آب وہوا صحت کیلئے سازگار نہ تھی ۔بخار اور دیگر متعدی بیماریاں وباء کی صورت میں پھوٹتی رہتی تھیں ۔ پانی خوش ذائقہ نہ تھا۔ اسی وجہ سے یثرب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے نام ہی تبدیل نہیں ہوا۔ آب وہوا بھی خوش گوار ہوگئی، مزاج بدل گئے۔ دشمن جاں باہم شیرو شکر ہوگئے۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا : جو شخص مدینہ کو یثرب کہے اسے چاہیے کہ یہ وہ اپنی غلطی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے ۔یہ تو طابہ (پاکیزہ ) ہے، یہ تو طابہ ہے یہ تو طابہ ہے۔(امام احمد )٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم مدینہ منورہ آئے تو وہ وبائوں والا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے جب رسول اللہ ﷺنے اپنے صحابہ کرام کی بیماری کو دیکھا تو(اللہ کے حضور ) عرض کیا: اے اللہ ہمارے لئے مدینہ منورّہ ایسا ہی محبوب بنادے جیسا کہ تو نے مکہ مکرّمہ کو بنایا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کوصحت وعافیت والا بنا اور ہمارے صا ع اور مد (پیمانوں اور باٹوں ) میں ہمارے لیے برکتیں عطا فرمادے اور یہاں کے بخار کو جحفہ (کے ویرانے )کی طرف منتقل کردے۔(صحیح مسلم)

حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا : بے شک ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ مکرّمہ کو حر م بنایا تھا اور یہاں کے رہنے والوں کیلئے دعاء کی تھی تو بے شک میں مدینہ منورہ کو اسی طرح حرم بنارہا ہوں جیسے ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ کر حرم بنایا تھا اور میں نے اسکے صاع اور مد کیلئے دوگنی دعاء کی ہے اسی طرح جیسے ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ والوں کیلئے دعا مانگی تھی۔(صحیح مسلم)٭حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مدینہ منورہ کی گھاٹیوں پر فرشتے ہیں ، ان سے نہ طاعون اندر آسکتا ہے اور نہ دجال آسکتا ہے ۔ (صحیح بخاری)٭حضر ت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا مدینہ حرم ہے اس جگہ سے اس جگہ تک ، اسکے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں گناہ کیا جائے اور جس نے کوئی گناہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ ،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ (صحیح بخاری)

٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺکر فرماتے ہوئے سنا : کوئی شخص مدینہ منورہ کے مصائب پر صبر کرے اور وہ مرجائے تو میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا شہید (گواہ ) بنوں گا ،بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔(صحیح مسلم)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1756 ( Surah At-Tur Ayat 28 - 29 ) درس قرآن س...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم پکے جنتی ہیں

Shortclip کیا اللہ تعالٰی نے ہمیں فضول بنایا ہے؟

جمعرات، 24 جون، 2021

یثرب سے مدینہ

 

یثرب سے مدینہ

مدینہ منورہ جس کا قدیم نام یثرب تھا ۔اسے غالب روایات کیمطابق اسے حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے قوم عالقہ نے سب سے پہلے آبادکیا‘یہاں کے جملہ زمینی وسائل کھیتیاں ، باغات کے ساتھ ساتھ تجارتی منڈیوں پر بھی ان کا تسلّط تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ اہل کتا ب ہونے کی وجہ سے لوگ انکے علم وفضل کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ اوس وخزرج بنو قحطان سے تھے جو پہلے یمن میں آباد تھے۔ جب وہاں کے حالات خراب ہوئے تو ان جد اعلیٰ عمر و بن عامر نے وہاں سے نقل مکانی کا فیصلہ کیا۔ اسکی اولاد عر ب کے متعلق علاقوں میں آبا د ہوگئی۔  اوس اور خزرج سگے بھائی تھے۔ انکے والد کا نام حارثہ بن ثعلبہ بن عمر و بن عامر تھا۔ ’’یمن میں آباد تمام قبائل کا جد اعلیٰ ’’قحطان‘‘تھا۔علماء لغت وتاریخ کی رائے یہ ہے کہ سب سے پہلے جس نے عربی زبان میں گفتگو کی وہ یہی قحطان تھا۔ اسکی اولاد کو العرب المتعرِبہ کہاجاتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کو ’’العرب المستعرِبہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ انکی زبان عربی نہیں تھی۔ انہوں نے بنو جرھم سے یہ زبان سیکھی ۔ عربوں کی ایک تیسری قسم ہے ۔جنہیں ’’العرب العاربہ‘‘کہاجاتا ہے۔لیکن علم انساب کے کچھ ماہرین کی یہ رائے بھی ہے کہ ’’قحطان‘‘ بھی حضرت اسماعیل ؑکی اولاد سے ہیں۔ اوس اور خزرج کی زیادہ تر اولاد یثرب اور اسکے مضا فات میں آباد ہوئی۔ رفتہ رفتہ انکی تعدادمیں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ شروع میں یہود اور بنو قحطان کے درمیان دوستی اور تعاون کا معاہدہ رہا ،لیکن انکی بڑھتی ہوئی تعداد سے خائف ہوکر یہود نے معاہدہ توڑ دیا۔ بنو قحطان میں ایک نامور فرزند مالک بن عجلان پیدا ہوا۔اس نے اپنی بکھری ہوئی قوم کی شیرازہ بندی کی ، دونوں قبیلوں نے اسے اپنا سردار تسلیم کر لیا،اور جلد ہی اوس وخزرج یہودیوں سے زیادہ طاقتور ہوگئے۔ یہودیوں نے سازش کے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کیے۔اور کچھ ہی دیر بعد اوس اورخزرج میں دشمنی شروع ہوگئی جو پہلی صدی عیسوی سے چھٹی صد ی عیسوی تک جا ری رہی۔ واقعہ ہجرت سے چار پانچ سال پہلے اوس وخزرج میں ایک لرزہ خیز خونی جنگ ہوئی جسے جنگ بغاث کہا جاتا ہے۔ بہت نقصان اٹھا نے کے بعد دونوں قبائل کو احساس ہوا کہ صلح ہونی چاہیے، اور کسی ایک شخص کی سربراہی پر متفق ہونا چاہیے۔ دو افراد کے نام سامنے آئے۔ عبداللہ بن ابی اور ابو عامر راہب۔ عبداللہ بن ابی کے نام پر اتفاق ہوگیا۔ اس تاج پوشی کی تیاری ہو ہی رہی تھی کہ ’’یثرب ‘‘کا نصیبہ جاگ اٹھا اور ان کا رابطہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیااور یثرب جلدہی ’’مدینۃ النبی‘‘بن گیا۔  

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1755 ( Surah At-Tur Ayat 26 - 27 ) درس قرآن س...

Kamyabi Kya Hay ? کامیابی کیا ہے؟

Darsulquran Para-04 - کیا ہم اللہ تعالی کے باغی ہیں

Shortclip - کیا ہماری پیدائش باطل ہے؟

Insaan Apni Meraaj Ko Kaisay Pa Sakta Hay? انسان اپنی معراج کو کیسے پاسک...

بدھ، 23 جون، 2021

مدینہ منورہ


 

مدینہ منورہ 

مدینہ منورہ جو حضور اکرم ﷺکے مبارک قدموں کی برکت سے مشرف ہوا، اس کا قدیم نام ’’یثرب‘‘ ہے۔ اس مقام پر آبادی کیسے وجود میں آئی اور اسکے اولین مکین کون تھے۔ اس بارے میں مئو رخین کی مختلف تحقیقات ہیں ۔لیکن علامہ نور الدین السمہودی نے ’’وفا الوفا ئ‘‘میں جس قول کو ترجیح دی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یثرب کے باقی عمالقہ تھے۔ جو عملاق بن ارفخشند بن سامبن نوح علیہ السلام کی نسل سے تھے ۔ انہوں نے بہت عروج حاصل کیا۔ یہاں تک کہ وسیع وعریض رقبہ ان کی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ بحرین ، عمان اور حجاز کا سارا علاقہ ،شام اور مصر کی حدود تک ان کی مملکت تھی۔ مصر کے فرعون بھی انہی کی نسل سے تھے۔ بحرین اور عمان میں جو لوگ آباد ہوئے انہیں جاسم کہاجاتا ہے۔ (وفاء الوفا)نامور مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں۔’’عمالقہ میں سے جس نے سب سے پہلے یثرب شہر کی نشاندہی کی اس کا نام یثرب بن مہلائل بن عوص بن عملیق تھا، اسکے بانی کے نام پر اس کا نام یثرب مشہور ہوا،(ابن خلدون )یہی قول علامہ یاقوت حموی صاحبِ معجم البلدان کا بھی ہے۔ ’’یثرب‘‘کے اور معانی بھی درج کیے گئے۔ (جیسے بیماریوں کا گھر وغیرہ )شاید کئی صدیوں کے بعدِ زمانی کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہن سے بانی شہر کا نام محو ہوگیا تھا اور اس شہر کی آب و ہوا اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ لفظ دیگر معانی میں بھی مرّوج ہوگیا۔ (واللہ عالم بالصواب ، ھذا ماعندی)٭عمالقہ کے بعدیہود اس شہر میں آکر آباد ہونا شروع ہوئے ۔ایک قول کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک لشکر حجاز کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ آپکے وصال کے بعد اس لشکر کے افراد یہاں آباد ہوگئے ۔(معجم البلدان )علامہ سمہودی نے حضرت ابو ہریرہ کے حوالے سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے۔ ایرانی بادشاہ بخت نصر نے شام کو فتح کیا تو یروشلم پر قبضہ کر کے اسکی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یہودیوں کا قتل عام کیا، اور لاکھوں یہودیوںکو قیدی بناکر بابل لے آیا۔ اس وقت یہودیوں کی جمعیت کا شیرازہ بکھر گیا ۔ ان میں سے قبائل حجاز کی طرف روانہ ہوئے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی آسمانی کتا ب تورات میں جا بجا حضور اکرم ﷺکا ذکر خیر پڑھا تھا،وہاں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ نبی مقدس اپنا وطن چھوڑ کر ایسی جگہ قیام فرماہونگے۔ جہاں نخلستا ن ہونگے اور دونوں طرف جلے ہوئے پتھروں کے سیا ہ میدان ہونگے ۔انھیں نبی آخر الزمان ﷺکی زیارت کا شوق حجاز کی طرف لے آیا ۔ لیکن انکی آنیوالوں نسلوں کی بدبختی ملاحظہ فرمائیے کہ جب حضور اکرم ﷺتشریف لے آئے تو وہ نسلی تعصب اور حسد کا شکار ہوگئے۔ حضور پر ایمان لانے کی سعادت ’’اوس ‘‘اور ’’خزرج ‘‘نامی دوسگے بھائیوں کی اولاد کو حاصل ہوئی جو ’’قحطان ‘‘کی اولاد سے تھے ۔جن کا آبائی وطن یمن تھا،اور وہ مدینہ منورہ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1754 ( Surah At-Tur Ayat 25 ) درس قرآن سُوۡرَ...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم اللہ تعالی کی بندگی میں زندگی گزار رہے ہیں

منگل، 22 جون، 2021

Insaan Ki Kamyabi Main Insaan Ki Aehmiat Kya Hay? انسان کی کامیابی میں ا...

نماز کی تاکید

 

نماز کی تاکید

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور نماز قائم رکھو اورتم مشرکوں میں سے نہ ہوجائو‘‘۔(الروم : ۳۱)’’(جنتی مجرموں سے سوال کریں گے )تم کوکس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟وہ کہیں گے : تم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔(المدثر: ۴۳۔۴۲)

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص اوراس کے کفر اورشرک کے درمیان (فرق)نمازکو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)یعنی نماز کو ترک کرنا کافروں اورمشرکوں کا کام ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے ، اگر وہ مکمل ہوئی تو مکمل لکھی جائے گی اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو کہا جائے گا دیکھو کیا اس کی کچھ نفلی نمازیں ہیں جن سے اس کے فرض کی کمی کو پورا کردیا جائے ، پھر باقی اعمال کا اسی طرح حساب لیا جائے گا۔(سنن نسائی )

 حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل)

 ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، انہوںنے ایک خشک شاخ پکڑ کر اس کو ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے گرنے لگے، پھر انہوں نے کہا: اے ابو عثمان ! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا:آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا، میں آپ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے ایک شاخ کو پکڑکر اسے ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے جھڑنے لگے ، آپ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کیا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے اورپانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گررہے ہیں ،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اوردن کے دونوں کناروں اوررات کے کچھ حصوں میں نماز کوقائم رکھو، بے شک نیکیاں ، برائیوں کو مٹادیتی ہیں ، یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں ‘‘۔(ھود: ۱۱۴)(مسند احمد)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1753 ( Surah At-Tur Ayat 21 - 24 ) درس قرآن س...

Darsulquran para-04 - کیا ہم صبر کرنے والے اور صاحب تقوی لوگ ہیں

پیر، 21 جون، 2021

Shaikh Say Kitni Mohabbat Hona Cheay? -شیخ سے کتنی محبت ہونا چاہیے؟

درگذر کرنے والے(۶)

 

درگذر کرنے والے(۶)

عبداللہ بن ابی سرح ایک ایسا شخص ، جس نے قبول اسلام کی سعادت حاصل کی لیکن پھر مرتد ہوگیا ، اور مدینہ منورہ سے واپس مکہ چلا گیا ، اس نے اسی پر اکتفاء نہ کیا،ارتداد کے بعدبارگاہِ نبوی اورمسلمانوں کے بارے میں مسلسل ہرزہ سرائی کا شیوہ بھی اختیار کیا، اس کانام بھی ان لوگوں کی فہرست میں تھا، جن کے خون کو فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کیلئے مباح کردیاگیا ، جب عبداللہ کو اس حکم کی خبر ہوئی تو وہ حضور ﷺکے نرم خو، اورصلہء رحمی کی صفت سے معمور صحابی، حضرت عثمان غنی ؓکی خدمت میں حاضر ہوا ، اپنے افعال پر بڑی ندامت کا اظہار کیا، اور آپ سے امان کا طلب گارہوا، عبداللہ آپ کا دودھ شریک بھائی بھی تھا ، آپ نے اسے ندامت اورتوبہ میں مخلص پایا تو پناہ دے دی اورکہیں پوشیدہ کردیا ، جب حالات وواقعات کا تلاطم ذرا تھم گیا تو آپ اسے لیکر حضور سید عالم ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اورعرض کی ، یارسول اللہ ﷺ، اس نے اللہ سے اپنی فروگذاشت کی معافی مانگ لی ہے ، آقاء حضور بھی اسے معاف فرمادیں ، اسکے ارتداد اورپھر مسلسل ہرزہ سرائیوں کی وجہ سے آپ نے اس درخواست کو رد فرمایا، لیکن حضرت عثمان کے مزید اصرار پر اسے معافی عطاء فرمادی اوراس کو اپنی بیعت سے مشرف فرمایا، اب اللہ رب العزت نے عبداللہ ابن ابی سرح کے مزاج کی شقاوت کو سعادت سے بدل دیا، وہ بڑی خوش دنی اورذوق وشوق سے جہاد میں شریک ہوتے ، حضرت عمر بن العاص ؓنے جب مصر پر یلغار کی تو میمنہ کی کمان انہی عبداللہ بن ابی سرح ؓکے پاس تھی، اس جنگ میں اورمابعد معرکوں میں انھوںنے جرأت وبہادری اورجاں نثاری کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کیں، حضرت عمر ؓنے آپ کو معید مصرکے علاقے کا گورنر مقرر کردیا ،حضرت عثمان غنی ؓنے آپ کو تمام مصر کا گورنر بنادیا، آپکی زمانہ خلافت میں انھوں نے اندلس سمیت افریقہ کے بہت سے علاقوں کو فتح کیا، ۵۷یا ۵۹ہجری میںآپ نے اپنی دعائے نیم شبی میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کی، یااللہ ! میری زندگی کا آخری عمل میری صبح کی نماز کو بنادے ، چنانچہ فجر کا وقت ہوا تو آپ نے وضو کیا، ادائیگی سنت کے بعد فرض کی نیت باندھی ، نماز مکمل کرکے دائیں طرف سلام پھیرا، پھر جب بائیں طرف سلام پھیرنے لگے تو اللہ رب العزت کی انکی روح کو قبض فرمالیا، اورانکی دعاء کو مستجاب کردیا، ابوجہل کا سگا بھائی حارث بن ہشام المخزومی اورزبیر بن امیدبھی اپنے دل میں اسلام کے بارے میں شدید عداوت رکھتے تھے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انکے خون کو بھی مباح کردیا تھا، یہ دونوں حضرت علی المرتضیٰ ؓکی ہمشیرہ حضرت ام ہانی ؓکے پاس حاضر ہوتے اورامان کی درخواست کی انہوں نے انھیں امان دیدی تو حضور اکرم ﷺنے بھی انھیں معاف فرمادیا اوراللہ نے انھیں بھی اسلام پرثابت قدمی کی توفیق عطاء فرمائی۔

Shortclip - خشـیت الٰہی کیسے دل میں لائیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1752 ( Surah At-Tur Ayat 17 - 20 ) درس قرآن س...

اتوار، 20 جون، 2021

Allah Tallah Ki Taraf Shok Kaisay Paida Ho Ga? اللہ تعالیٰ کی طرف شوق کی...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1751 ( Surah At-Tur Ayat 16 ) درس قرآن سُوۡرَ...

درگذر کرنے والے(۵)

 


درگذر کرنے والے(۵)


وحشی وہ شخص تھا جس نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاحضرت حمزہ ابن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، بعد میں ہند نے ان کے جسد مبارک کا مثلہ کردیا ،آپ کو اس قتل اوربہیمانہ حرکت سے بہت ہی اذیت پہنچی تھی، مکہ فتح ہوا تو وحشی جان کے خوف سے بھاگ کر طائف چلا گیا۔ پھر ایک وفد کے ساتھ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوااوراسلام قبول کرلیا۔ سیرت نگاروں نے وحشی کے قبول اسلام کا بڑا ہی اثر انگیز واقعہ نقل کیا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی کو طلب فرمایا اوراسلام کی دعوت دی، وحشی نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)آپ مجھے کس طرح اپنے دین کی دعوت دے رہے ہیں حالانکہ میں نے شرک کیا ہے ، قتل کیا ہے اوربدکاری کا بھی مرتکب ہوا ہوں ، اوریہ بھی پڑھتے ہیں ’’اورجو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اورجس شخص کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اوربدکاری نہیں کرتے جو شخص ایسا کرے گا سزاپائے گا‘‘(الفرقان ۶۹/۶۸)وحشی نے یہ کہا تو اللہ رب العزت نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی ’’لیکن جو (موت سے پہلے)توبہ کرلے اورایمان لے آئے اورنیک کام کرے تو اللہ ان لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اوراللہ بہت بخشنے والا بے حدرحم والا ہے۔ ‘‘ (الفرقان ۷۰)

وحشی نے کہا یہ بھی بہت سخت شرط ہے کیونکہ اس میں ایمان لانے سے پہلے کے گناہوں کا ذکر ہے ، ہوسکتا ہے مجھ سے ایما ن لانے کے بعد گناہ سرزد ہوجائیں ، اگرایمان لاکر بھی میری بخشش نہ ہوتو پھر میرے ایمان لانے کا فائدہ ؟تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک کیے جانے کو نہیں بخشتا اوراس کے علاوہ جو گناہ ہو اسے جس کیلئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے ۔(النساء ۴۸)وحشی نے کہا : اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اس آیت میں تو مغفرت اللہ کے چاہنے پر موقوف ہے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے بخشنا ہی نہ چاہے تو پھر ایما ن لانے کا کیا فائدہ ۔اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ’’آپ کہیے کہ اے میرے بندو! جوا پنی جانوں پر (گناہوں کا ارتکاب کرکے)ظلم کرچکے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوبے شک وہی بہت بخشنے والا بے حدرحم فرمانے والا ہے ‘‘۔(الزمر۵۳)اس پر وحشی نے کہا، اب مجھے اطمینان ہوا، پھر اس نے کلمہ پڑھا اوراسلام قبول کرلیا، صحابہ کرام نے جناب رسالت مآب ﷺسے استفسار کیا، یارسول اللہ(صلی اللہ علیک وسلم)یہ بشارت آیا کہ صرف وحشی کیلئے ہے یا سب کیلئے ہے ، آپ نے فرمایا: سب کے لیے ۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے وحشی آپ سے امان طلب کرکے آیا تھا ، پھر آپ کی طرف سے دعوت اسلام پر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبول اسلام کی شرائط پیش کیں اورآپ نے یہی جوابات ارشاد فرمائے ، (ابن عساکر : تاریخ دمشق )یوں وحشی بھی صحابہ میں شامل ہوگئے رضی اللہ عنہم ، سبحان اللہ رحمۃ اللعالمین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے وحشی جیسے شخس کا بھی گویا کہ ناز اٹھایا اوران کی شرائط تسلیم کرکے انھیں کلمہ پڑھایا ۔

Darsulquran Para-04 - کیا مومن غیر مومن سے قلبی دوستی کر سکتا ہے

Shortclip - خشیت الٰہی

Darsulquran Para-04 - کیا ہم نے اپنے انجام پر غور کر لیا ہے

Kya Islam Ki Jumaat Zarori Hay? کیا اسلام کی جماعت ضروری ہے؟

درگذر کرنے والے(۴)

 

درگذر کرنے والے(۴)

قریش مکہ حضور پر نور ﷺپر جس طرح ، طرح طرح کے مظالم توڑا کرتے تھے اوراذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے تھے ، پھر ان اذیت رسانیوںپر حضور ﷺجس جو انمردی سے استقامت کا مظاہرہ فرماتے تھے وہ محتاج بیان نہیں ، انکے دلوں کو ہلادینے والے جو روستم کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم ﷺ کو فتح مبین عطافرمائی۔ مکہ مکرمہ نے اپنے بنددروازے اللہ کے نبی مکرم کیلئے کھول دیئے ۔ حضور ﷺبڑی فاتحانہ شان سے اپنے جانثاروں کے جم غفیر کے ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلندکرتے ہوئے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے ۔سب سے پہلے نبی محتشم ﷺ خانہ کعبہ میں تشریف لے گئے ۔ وہاں تین صدساٹھ بت نصب کئے گئے تھے ۔ جس بت کی طرف آپ اپنی چھڑی کا اشارہ کرتے وہ دھڑام سے منہ کے بل گرپڑتا۔ صحابہ کرما نے ان بتوں کو اٹھا یا اوردور باہر پھینک دیا۔اللہ کے گھر کو کفروشرک کی آلودگیوں سے منزہ کرنے کے بعد حضور ﷺباہر تشریف لائے اور بیت اللہ شریف کے دروازے پر توقف فرمایا۔ سارا حرم شریف لوگوں سے بھرا ہواتھا۔ تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی۔ کفار مکہ کو اپنی کارستانیاں ایک ایک کرکے یاد آرہی تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ ان کا قتل عام کیا جائیگا اورکسی کو زندہ نہیں رہنے دیا جائیگا۔ اسی اثناء میں نبی رحمت عالم ﷺ کی صدا بلند ہوئی انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے بتائو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنیوالا ہوں‘‘۔ انہوںنے جواب دیا : ’’ہمیں حضور ﷺسے خیر کی امید ہے۔ آپ کریم بھائی ہیں اورکریم بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘ حضور ﷺنے فرمایا کہ میں تمہارے بارے میں وہی بات کہوں گا جو میرے بھائی یوسف ؑنے اپنے بھائیوں کوکہی تھی۔ ’’(اے مکہ کے جفاکارو)آج تم پرکوئی سختی نہیں کی جائیگی، اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے، وہ سب رحم کرنیوالوں سے بڑا رحم کرنیوالا ہے۔‘‘اس آیت کی تلاوت کے بعدان کو آزادی کا مژدہ سنایا ۔ فرمایا: ’’چلے جائو۔ تم آزاد ہو۔‘‘ حضرت انس ؓسے مروی ہے کہ انہیں ایام میں ایک روز جب حضور ﷺ صبح کی نماز ادا فرما رہے تھے، تنعیم کی طرف سے 80 کفار نے مسلمانوں پر حملہ کردیا لیکن فرزند ان اسلام نے انکو فوراً دبوچ لیا اورانہیں اپنا قیدی بنالیا۔جب ان احسان فراموش ظالموں کو پکڑکر بارگاہ رسالت میں پیش کیا گیا تو حضور ﷺنے پھر بھی انہیں جھڑکا تک نہیں اوریہ بھی نہیں کہا کہ دوروز پہلے تمہارے سنگین جرائم کو معاف کیا، تمہیں آزادی کی نعمت سے نوازا، میرا وہ احسان تم بھو ل گئے اوربڑی خست کا مظاہر ہ کرتے ہوئے تم نے ہم پر حالت نماز میں حملہ کردیا، حضور ﷺنے کوئی ا یسی بات نہیں کہی بلکہ انہیں عفوعام کی بشارت سنا کر آزاد کردیا۔(سبل الہدیٰ ،ضیاء النبی)

جمعہ، 18 جون، 2021

Kya Zabani Kalma Humaray Leay Kafi Ho Ga? کیا زبانی کلمہ ہمارے لئے کافی ...

درگذر کرنے والے(۳)

 

درگذر کرنے والے(۳)

صفوان بن امیہ بن خلف بھی اپنے باپ کی طرح اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا، اس نے غزوہ بدر کے بعد اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینے کیلئے عمیر بن وہب کو مدینہ منورہ بھیجا تھا تاکہ وہ آپ کو شہید کردے : عروہ بن زبیر ؓ  کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے بعد صفوان جدہ جانے کیلئے مکہ مکرمہ سے نکلا تاکہ وہاں سے ہوتا ہو ا یمن چلا جائے ، حضرت عمیر بن وہب ؓنے جناب رسالت مآب ﷺمیں عرض کی یا رسول اللہ صفوان اپنی قوم کا سردار ہے اور وہ آپ سے خوف زدہ ہوکر بھاگ رہا ہے تاکہ اپنے آپکو سمندر میں گرادے، آپ اسکو امان دے دیجئے ، آپ نے فرمایا: اس کو امان ہے ، انھوںنے عرض کی یارسول اللہﷺ مجھے کوئی ایسی چیز عنایت فرمادیجئے جس سے یہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے اس کو امان عطاء فرما دی ہے ، رئوف ورحیم آقا علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے انھیں اپنا وہ عمامہ عطاء فرمادیا جسے پہن کر آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے، عمیر وہ عمامہ لیکر نکلے انھوںنے صفوان کو جدہ میں جالیا   وہ اس وقت بحری جہازمیں سوار ہونے کا ارادہ کر رہا تھا، انہوںنے کہا: اے صفوان !اپنے آپکو ہلاک کرنے کی بجائے اپنے دل میں اپنے پاک پروردگار کو یادکرو، اور دیکھو یہ وہ امان ہے جو میں تمہارے حضور ﷺسے لیکر آیا ہوں ، صفوان نے کہا : تم چلے جائو، عمیر نے کہا اے صفوان ، وہ سب سے افضل ، سب سے زیادہ پارسا ، سب سے زیادہ حلم اورسب سے زیادہ اچھے ہیں۔ حضرت عمیر ؓاسے اصرار کرکے آپکی خدمت اقدس میں لے آئے ، صفوان نے آپ سے پوچھا : اس کا کہنا ہے کہ آپ نے مجھے امان دیدی ہے ، آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے، صفوان نے کہا : مجھے اسلام لانے کیلئے دوماہ کی مہلت عطاء کیجئے آپ نے فرمایا: تمہیں چارماہ کی مہلت ہے (طبری)۔ صفوان اس مدت سے بہت پہلے اسلام لے آئے ۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین)  اسی طرح ہباربن اسود کو اسلام دشمنی میں انتہا کو پہنچا ہواتھا  اس نے تو یہاں تک ظلم کیا کہ حضور ﷺ کی صاحبزادی حضرت سیدہ زینب ؓنے ہجرت کا سفر اختیار کیا تو آپ کو پشت میں نیزہ دے مارا ، آپ اس وقت ایام حمل سے تھیں، وہ سواری سے گریں تو ان کا حمل ساقط ہوگیا، ایک دن حضور ﷺاپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ہبار وہاں آگیا تھا وہ بڑا فصیح اللسان ، کہنے لگا ، اے محمد (ﷺ)جس نے آپکو برا کہا اسکو برا کہاگیا، میں آپکے پاس اسلام کا افراد کرنے کیلئے آیا ہے ، اورکلمہ شہادت پڑھا، آپ نے اس کا اسلام قبول فرمالیا، اس وقت آپکی کنیز سلمہ آگئیں انھوںنے ہبار کو دیکھا تو کہا، اللہ تیری آنکھوں کو کبھی ٹھنڈا نہ کرے ،تو وہی ہے جس نے فلاں کام کیا، فلاں کام کیا تھا، حضور رحمت عالم ﷺ نے فرمایا: اسلام نے ان تمام (برے) اعمال کو محوکردیا ہے۔ آپ نے اس کو برا کہنے اوراسکے گذشتہ اعمال گنوانے سے منع فرمادیا ۔ (واقدی : کتاب المغازی)

Darsulquran Para-04 - کیا ہم نے اپنی زندگی کا مقصد ختم ہونے والی چیز کو ...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1749 ( Surah At-Tur Ayat 09 - 11 ) درس قرآن س...

Shortclip - لا الہ الا للہ کا معنی

Shortclip - نیکی کب شروع ہوتی ہے؟

Kamyabi Ki Kunjee - کامیابی کی کُنجی

درگذر کرنے والے(۲)

 

درگذر کرنے والے(۲)

امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب (رئیس المنافقین )عبداللہ بن ابی ابن سلول مرگیا تو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے جناب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی جب آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں تیزی سے آپ کے پاس گیا اورعرض کی ، یا رسول اللہ ! کیا آپ ابن ابی کی نمازجنازہ پڑھا رہے ہیں؟حالا نکہ اس نے فلاں دن یہ اوریہ کہا تھا (کہ مدینہ پہنچ کر عزت والے ذلت والے کو نکال دیں گے، اوریہ کہا تھا کہ جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں ،جب تک وہ آپ کا ساتھ نہ چھوڑدیں اس وقت ان پر کچھ بھی خرچ نہ کرو، اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایسی بازیبا بات کی تھی ،جس سے آپ کو سخت رنج پہنچا تھا ، اور(اس بدبخت نے)آپ سے کہا تھا کہ اپنی سواری کو مجھ سے دور کر لیں،مجھے اس سے بدبو آتی ہے ، جنگ اُحد میں عین اس وقت جب افراد کی بڑی ضرورت تھی، اپنے تین سوساتھیوں کو لے کر لشکر سے نکل گیا تھا )میں آپ کو یہ تمام باتیں ایک ایک کرکے گنواتا رہا ، حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مسکراتے اورفرمایا اپنی رائے کو رہنے دو، جب میں نے بہت اصرار کیا تو آپ نے فرمایا : مجھے اختیار دیا گیا ہے (کہ استغفار کرو یا نہ کرو)سو میں نے (استغفار کو)اختیار کرلیا اوراگر مجھے یہ علم ہوتا کہ میں نے سترمرتبہ سے زیادہ بھی استغفار کیا تو اس کی مغفرت کردی جائے گی تو میں ستربار سے زیادہ استغفار کرتا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد جناب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی ۔(صحیح بخاری )
امام ابو جعفر محمد بن ابن جریر طبری لکھتے ہیں ، کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں سوال کیا کہ آپ نے عبداللہ بن ابی جیسے دشمن اسلام نے نماز جنازہ بھی پڑھادی اوراس کے کفن کے لیے اپنی قمیص مبارک بھی عطاء فرمادی تو آپ نے فرمایا: (اس کی بدبختی اورگستاخی کی وجہ سے ) میری قمیص اوراس پر میری نمازِ جنازہ ا س سے اللہ کے عذاب کو دور نہیں کرسکتی ،اور بے شک مجھے (اللہ رب العزت کے کرم سے)یہ امید ہے کہ میرے اس عمل سے اس کی قوم کے ایک ہزار افراد مشرف بالایمان ہوجائیں گے۔(جامع البیان جلد ۱۰ ص۱۴۲)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان سے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال تقسیم فرمایا : انصار کے (منافقین میں سے )ایک شخص (معتب بن قشیر )نے کہا ، قسم بخدا ،محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے اس تقسیم سے اللہ کی رضا جوئی کا ارادہ نہیں کیا، میں نے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اس بات کی خبر دی ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہوگیا اورآپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام )پر رحم فرمائے ان کو اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی تھی اور انھوں نے اس پر صبر کیا تھا۔(صحیح بخاری )

بدھ، 16 جون، 2021

Hum Apni Meraaj Ko Kaisay Hasil Karin?ہم اپنی معراج کو کیسے حاصل کریں؟

درگذر کرنے والے(۱)

 

درگذر کرنے والے(۱)

حضور نبی رحمت ﷺنے اپنے ان دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا جنہوںنے آپکی مخالفت میں کوئی دقیقہ بھی فروگزاشت نہ کیا، ابو سفیان نہ صرف آپکی دشمنی میں پیش پیش تھا بلکہ ابوجہل کی ہلاکت کے بعد کفار کا سب سے بڑا سرغنہ تھا، ابو سفیان کی معافی کے بارے میں امام ابو الحسن علی بن ابی الکرم الشیبانی رقم طراز ہیں ’’جب جناب رسالت مآب ﷺنے مکہ فتح کرلیا تو ابو سفیان بن الحارث اورعبدبن ابی امیہ نے حضور اکرم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی ، ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓنے انکی باریابی کی سفارش کی ، ابو سفیان نے کہا اگرمجھے آپکی بارگاہ میں باریا ب ہونے کی اجازت نہ ملی تو میں اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر دوردراز علاقوں کی طرف نکل جائوں گا، اوربھوکا پیاسا مرجائوں گا ، جناب رحمت اللعالمین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے یہ بات سنی تو آپ کا دل پسیج گیا ، اورآپ نے انکو حاضر ی کی اجازت عطاء فرمادی ، اورانھوںنے آپکی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت علی ؓنے ابو سفیان کو مشورہ دیا کہ تم سامنے کی طرف سے جانااور آپ سے وہی بات کہنا جو حضرت یوسف ؑکے بھائیوںنے حضرت یوسف ؑکی خدمت عالیہ میں کہی تھی ، خدا کی قسم اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو ہم پر فضیلت عطاء فرمائی اوربے شک ہم بھی قصور وار تھے، انھوںنے اس مشورہ پر عمل کیا اوراسی طرح کہا تو جناب رسالت مآب ﷺنے ارشاد فرمایا:آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللہ تعالیٰ تم کو معاف فرمائے اوروہ سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے ، آپ نے ان کو اپنے قریب بٹھایا ، انھوںنے اسلام قبول کرلیا اور ابوسفیان نے اپنی پچھلی زیادتیوں اور فروگذاشتوں پر معافی طلب کی ۔ایک اورروایت میں ہے کہ حضرت عباس ؓنے حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی ، یارسول اللہ ! ابوسفیان تفاخر کو پسند کرتا ہے اسکو کوئی ایسی چیز عنایت فرمادیجئے جسکی وجہ سے یہ اپنی قوم کے درمیان فخر کرے ، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے ،جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا ، اسکو امان ہے ، اورجو شخص حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہو گا اس کو امان ہے ، جو شخص مسجد میں داخل ہوگیا اس کو امان ہے اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اس کیلئے بھی امان ہے ، اسی طرح ابوسفیان کی بیوی ہند کو پیش کیاگیا، آپ نے فرمایا : کیا یہ ہند ہے ، اس نے کہا ، میں ہند ہوں ، اللہ آپکو معاف فرمائے ، آپ میری پچھلی خطائوں کو معاف فرما دیجئے ، ہند کے ساتھ اور عورتیں بھی تھیں آپ نے ان سے عہد لیا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرینگے ، قتل سے اجتناب کریں، کسی نیک کام میں آپکی نافرمانی نہیں کرینگی ، پھر آپ نے حضرت عمر ؓسے فرمایا: ان سے بیعت لو اورانکی مغفرت کی دعاء فرمائی۔(الکامل فی التاریخ)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1747 ( Surah At-Tur Ayat 01 - 08 Part-2 ) درس...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم فلاح پانے والے لوگوں میں سے ہیں

منگل، 15 جون، 2021

Aaj Humaray Leay Kamyabi Ka Rasta Kya Hay? - آج ہمارے لئے کامیابی کا راس...

Shortclip - ان اللہ علی کل شیئ قدیر

طاقتور کون؟

 

   طاقتور کون؟

غصہ ضبط کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی غصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اورغیظ وغضب کے اظہار اورسزادینے اورانتقام لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ ضبط کرنے اورجوش غضب ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کی ہدایت دی ہے۔ 

 حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑرہے تھے ۔ ان میں سے ایک شخص بہت شدید غصہ میں تھا اوریوں لگتا تھا کہ غصہ سے اس کی ناک پھٹ جائے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسے کلمہ کا علم ہے اگر یہ کلمہ پڑھ لے گا تو اس کا غضب جاتارہے گا ، حضرت معاذ نے پوچھا کہ رسول اللہ ! وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ کہے اللھم انی اعوذ بک من الشیطن الرجیم ۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ہواوروہ کھڑا ہوا ہو تو بیٹھ جائے، پھر اگر اس کا غصہ دور ہوجائے تو فبہاورنہ پھر وہ لیٹ جائے۔

 عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غضب شیطان (کے اثر)سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اورآگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو جب تم میں سے کوئی شخص غضب ناک ہوتو وہ وضو کرلے۔(سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ ضبط کرلیا حالانکہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا، اللہ تعالیٰ اس کو امن اورایمان سے بھردے گا۔ (جامع البیان )

 حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیہ کہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اس کو اختیار دے گا وہ جس حور کو چاہے لے لے۔

 حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے نزدیک پہلوانی کا کیا معیار ہے؟ صحابہ نے کہا جو لوگوں کو پچھاڑنے اوراس کو کوئی نہ پچھاڑ سکے، آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔(سنن ابودائود )

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے غصہ کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے عذاب کودور کردے گا، اورجس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔ (مجمع الزوائد )

 حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتلائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے ، حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم غصہ نہ کرو تو تمہارے لیے جنت ہے۔(مجمع الزوائد)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1746 ( Surah At-Tur Ayat 01 - 08 Part-1 ) درس...

Darsulquran Para-04 - تفرقہ بازی آخر کیوں

Shortclip - ہم اپنے چراغ کو کیسے روشن کریں؟

Jannat Ki Qeemat Kya Hay? - جنت کی قیمت کیا ہے؟

کافر کا سفرِ آخرت

 

کافر کا سفرِ آخرت

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب بندئہ کافر دنیا سے منقطع ہوکر آخرت کو روانہ ہونے لگتا ہے تو آسمان سے سیاہ فام فرشتے اترتے ہیں ، انکے پاس ٹاٹ ہوتا ہے اوروہ منتہائے نظر تک بیٹھ جاتے ہیں ، پھر ملک الموت آکر اس کافر کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اورکہتا ہے : اے خبیث روح ! اللہ کی ناراضگی اورغضب کی طرف نکل ، وہ روح اس کافر کے جسم میں پھیل جاتی ہے ، وہ اس روح کو اس طرح گھسیٹ کر نکالتے ہیں ، جس طرح کانٹو ں والی سلاخ میں پھنسے ہوئے گیلے اُون کو کھینچ کر نکالا جاتا ہے، وہ اس روح کو پکڑ لیتے ہیں اورپکڑنے کے بعد پلک جھپکنے کی مقدار بھی نہیں چھوڑتے حتیٰ کہ اس روح کو ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں ، اس سے مردار کی طرح سخت بدبو نکلتی ہے ، وہ اس روح کو لیکر چڑھتے ہوئے فرشتوں کی جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں : یہ کون خبیث روح ہے؟ وہ بتاتے ہیں : یہ فلاں بن فلاں ہے اوردنیا میں اس کے بدترین نام کو بتاتے ہیں ، حتیٰ کہ آسمان دنیا میں پہنچتے ہیں ، آسمان کھلواتے ہیں تو آسمان کو نہیں کھولا جاتا ، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی، ترجمہ:’’ ان (کافروں کیلئے) آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائینگے اوروہ جنت میں داخل نہیں ہونگے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہوجائے۔‘‘(الاعراف۴۰)اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اس کو سب سے نچلی زمین سجین میں داخل کردو، اس روح کو پھینک دیا جائیگا، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی: ’’جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ گویا آسمان سے گرپڑا اب یا تو اسے پرندے اُچک کر لے جائینگے یا ہوااس کو دوردراز کی جگہ پر پھینک دیگی‘‘۔ (الحج: ۳۱) پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا ئی جائے گی ، دو فرشتے آکراسے بٹھائیں گے اورپوچھیں گے : تیرا رب کون ہے؟وہ کہے گا: افسوس ! میں نہیں جانتا ،وہ پوچھیں گے : تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہے گا: افسوس میں نہیں جانتا ، وہ پوچھیں گے : یہ شخص کون ہیں جو تم میں بھیجے گئے تھے؟ وہ کہے گا: افسوس میں نہیں جانتا ، پھر آسمان سے ایک منادی نداکریگا : یہ جھوٹ بول رہا ہے ، اس کیلئے دوزخ سے فرش بچھا دو، اوراس کیلئے دوزخ کی کھڑکی کھول دو، اسکے پاس دوزخ کی گرم ہوائیں آئیں گی اور اسکی قبر کو تنگ کردیا جائیگا حتیٰ کہ اسکی ادھر کی پسلیاں اُدھر کو نکل جائیں گی اوراسکے پاس ایک بدصورت شخص آئیگا جس کا لباس بھی بہت برا ہوگا اوراس سے سخت بدبو آرہی ہو گی ،وہ کہے گا: تمہیں بری چیزوں کی بشارت ہو، یہ تمہارا وہ دن ہے جس سے تمہیں ڈرایا جاتا تھا، وہ کافر کہے گا: تم کون ہو؟ تمہارا چہرہ تو بہت خوفناک اور شرانگیز ہے ، وہ شخص کہے گا: میں تمہارا خبیث عمل ہوں ، تب وہ کافر کہے گا: اے میرے رب ! قیامت قائم نہ کرنا۔ (مشکوٰۃ )

اتوار، 13 جون، 2021

Islam Ka Taqaza Kya Hay?-اسلام کا تقاضہ کیا ہے؟

صبحِ دوامِ زندگی

 

صبحِ دوامِ زندگی

حضرت براء بن عازب ؓ کا بیان ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺنے ارشاد فرمایا: جب بندئہ مومن دنیا سے آخرت کے سفر پر روانہ ہونے لگتا ہے تو اسکے پاس آسمان سے آفتاب کی طرح روشن اورسفید چہرے والے فرشتے جنت کے کفن اورجنت کی خوشبو لیکرآتے ہیں اور منتہائے نظر تک بیٹھ جاتے ہیں ، پھر حضرت عزرائیل علیہ السلام اس مومن کے سرہانے پر آکر بیٹھتے ہیں اوراس سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: اے نفسِ مطمئنہ ! اللہ کی مغفرت اوراسکی رضاء کی طرف نکل ،پھر بندئہ مومن کی روح اسکے جسم سے اس طرح نکلتی ہے جس طرح مشک کے منہ سے پانی کا قطرہ ٹپکتا ہے ، فرشتہ فوراً اس روح کو تھام لیتا ہے ،آغوش میں لینے کے بعد پلک جھپکنے کی مقدار بھی اس کو نہیں چھوڑتا اوراسکو جنت کے کفن اورخوشبو میں رکھ دیتا ہے،اس سے روئے زمین کی سب سے پاکیزہ خوشبوآتی ہے ، ملائکہ اس روح کو لے کر فرشتوں کی جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں ، وہ ان سے استفسار کرتے ہیں یہ کیسی طیب وطاہر اورمعطر روح ہے؟ وہ کہیں گے یہ فلاں ابن فلاں ہے اوراس کا وہ نام بتائینگے جو اس کا دنیا میں سب سے اچھا نام تھا ، حتیٰ کہ وہ ملائکہ اس روح کو لیکر آسمان دنیا پر پہنچیں گے اوراس کیلئے آسمان کھلوائیں گے ، تو آسمان کھول دیا جائیگا، اور آسمان دنیا سے ساتویں آسمان تک ہر جگہ استقبال کیا جائیگا۔ اللہ کریم ارشاد فرمائے گا: میرے اس بندہ کا نامہء اعمال ’’علیین ‘‘میں رکھ دو اور اس کو زمین کی طرف لے جائو، میں نے اسی زمین سے ان کو پیدا کیا اوراسی زمین میں ان کو لوٹائو ں گا اوراسی زمین سے ان کو دوبارہ نکالوں گا۔ اس (مومن )کی روح کو اسکے جسم میں لوٹا دیا جائیگا ، پھر دوفرشتے اسکے پاس آکر اسے بٹھا دینگے، اوراس سے پوچھیں گے ، تیرا رب کون ہے؟وہ کہے گا: میرا رب اللہ ہے ، وہ پوچھیں گے ، تمہارا دین کیا ہے ؟ وہ کہے گا میرا دین اسلام ہے ، وہ سوال کرینگے یہ کون شخص (مکرم)ہیں جنہیں تم میں بھیجا گیا وہ کہے گا ، یہ جناب رسول اللہ ﷺہیں، وہ کہیں گے تمہیں کیسے معلوم ہوا، وہ کہے گا میں نے کتاب اللہ کو پڑھا ، پس میں ان پر ایمان لایا اورانکی تصدیق کی ۔ پھر آسمان سے ایک منادی کی ندا سنائی دیگی ، میرے بندے نے سچ کہا ، اس کیلئے جنت سے لاکر بچھونا بچھا دو ، اسکو جنت کا لباس پہنادو ، اور اس کیلئے جنت سے ایک دریچہ کھول دو ، (اس دریچے سے )بندئہ مومن کے پاس جنت کی ہوا اوراسکی مہکار آئیگی، اسکی قبر میں حد نگاہ تک توسیع کردی جائیگی پھر اسکے پاس ایک نہایت خوبرو شخص آئیگا ‘ وہ کہے گا تمہیں اس چیز کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ، وہ کہے گا تم کو ن ہو‘ وہ کہے گا میں تمہارا نیک عمل ہوں، وہ بندہ عرض کریگا، میرے رب قیامت کو قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل اور(آخرت کیلئے جمع کردہ)مال کی طرف لوٹ جائوں۔(مشکوٰۃ ، مسند امام احمد ، مستدرک امام حاکم ، الترغیب والترہیب ، شعب الایمان ) 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1744 ( Surah Adh-Dhariyat Ayat 56 Part-2 ) در...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم مومن ہیں

ہفتہ، 12 جون، 2021

Islam Kya Hay? - اسلام کیا ہے؟

Shortclip - مومن کا حقیقی دوست وکار سازکون ہے؟

اسلامی عبادت کے امتیازات

 

اسلامی عبادت کے امتیازات

اسلام نے اپنے دائمی اور سرمدی پیغام کے ذریعے عبادت میں شرک کی ہرطرح کی آمیزش اور بے اعتدالی کوہمیشہ کے لیے نفی کردی ۔ اسلام سے پہلے جبکہ انبیائے کرام کی تعلیمات ذہنوں سے محو ہوچکی تھیں،پوری دنیا ،اصنام پرستی ،مظاہر پرستی اورآباء پرستی میں مبتلاء ہوچکی تھی۔حتیٰ کہ بہت مقامات پر تو حیوان تک معبودوں کا درجہ حاصل کرچکے تھے۔

’’جب انسان کاتعلق اپنے خالق حقیقی سے منقطع ہوجاتا ہے اور اس کی فطر ت سلیمہ مسخ ہوجاتی ہے، اس کی عقل وفہم پر پردے پڑجاتا ہے۔اس کی چشم بصیرت بینائی سے محروم ہوجاتی ہے۔ اپنی دانش مندی کے باوجود اس سے اس قسم کی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ احمق اور دیوانے بھی ان سے شرمندگی محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘‘(ضیاء النبی)

انسان کی فکری لغزش کااندازا لگانا ہوتو اس بات سے لگائیے کہ ا ہل مکہ کے دومعبودوں کے نام اساف اور نائلہ تھے۔یہ دوافراد اساف بن یعلیٰ اور نائلہ بنت زید تھے۔جنہیں اللہ رب العزت نے بیت اللہ کی حرمت پامال کرنے کی وجہ سے اور وہاں ارتکاب گناہ کرنے کی وجہ سے پتھر بنادیاتھا۔ لوگوں نے انھیں اٹھا کر باہر رکھ دیا تاکہ ان کے انجام سے عبر ت حاصل ہو لیکن رفتہ رفتہ ان دونوں کی بھی پوجا شروع ہوگئی۔اسلام نے انسان کو ان تمام خودساختہ معبودوں سے نجات بخشی اور صرف اور صرف ایک ہی ذات پاک کو عبادت کے لائق قرار دیا اور وہ ہے اللہ وحدہٗ لاشریک۔ اسلام نے اللہ رب العز ت کی عبادت کو نہایت سہل اور سادہ انداز میں پیش کیا، اور بے مقصد رسوم و قیود کو یکسر مسترد کردیا ۔ نیت خالص ہو، جسم پاک ہو، لباس پاک ہو ،اتنا ضرور ہو کہ ستر کو ڈھانپ لے، سجدہ گاہ پاک ہواور تم اپنے معبود کے سامنے جھک جائو۔بتوں کی ، شمعوں کی ،بخوروں کی ، تصویروں کی اور سونے چاندی برتنوں یا مخصوص رنگ کے لباس کی کوئی قید نہیں۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں مذہبی رسومات مخصوص افراد ہی ادا کرسکتے ہیں۔ یہودیوں میں کاہن وربی ،عیسائیوں میں پادری ،پارسیوں میں موبد،ہندئوںمیں برہمن ،پروہت اور بچاری ۔لیکن یہاں ہر بندہ خدا سے اپنی مناجات خود کرسکتا ہے۔ اجتماعی عبادت کے لیے امامت رنگ، نسل یا خاندان میں محصور نہیں بلکہ اس کا انحصار علم اور تقویٰ پر ہے۔ مذاہب نے اپنے مخصوص عبادت خانوں تک عبادتوں کو محدود رکھا، پوجا کے لیے بت خانہ ، دعاء کے لیے گرجا، اور صومعہ آگ کے لیے آتش کدہ، لیکن اسلام کا تصور عبادت محدود نہیں۔ 

مسجد یں اللہ کا مبارک گھر ہیں اور مسلم معاشرے میں ان کا ایک تقدس اور اہمیت ہے۔لیکن اللہ کی بندگی انھیں تک محدود نہیں بلکہ ارشاد ہوا، میرے لیے اللہ نے ساری زمین سجدہ گاہ بنادی ہے اور طاہر بنادی ہے۔ مسلمان ہر جگہ پر اپنا ذوقِ بندگی پورا کرسکتا ہے۔ 

منعم بہ کوہ ودشت وبیاباں غریب نیست

ہر جا کہ خیمہ می زد و اوبارگاہ ساخت

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1743 ( Surah Adh-Dhariyat Ayat 56 Part-1 ) در...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم نے اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا ہے

جمعہ، 11 جون، 2021

Kya Hum Jannat Jain Gay? کیا ہم جنت جائیں گے؟

Shortclip - کیا انسان انجانے میں ہدایت سے محروم ہوسکتا ہے؟

انوکھا سخی۔۔۔

 

انوکھا سخی۔۔۔

 ایک دفعہ دو بادیہ نشین مدینہ منورہ آکر یہ سوال کرنے لگے :کہ کون ہے جو ہمیں فی سبیل اللہ سواری عطاکرے؟لوگوں نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کانام لیا ،وہ دونوں اُن کے گھر چلے آئے ۔آپ نے اُن سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی احتیاج کے بارے میں بتا دیا،آپ نے فرمایا:کچھ دیر ٹھہرو ، میں ابھی تمہارے پاس آتا ہوں ۔واپس آئے تو مصر کا بنا ہواہلکے اورپتلے کپڑے کا ایک سستا سا لباس پہنے ہوئے تھے جس کی قیمت محض چار درہم تھی۔ہاتھ میں ایک لاٹھی لیے ہوئے تھے،اوران کے غلام بھی ان کے ساتھ تھے ۔وہ دونوں سوالیوں کو لے کر بازار کی طرف روانہ ہوئے ،راستے میں جب کسی کوڑا کرکٹ کے پاس سے گزرتے اوراس میں ان کو کوئی کپڑا نظر آتا جو اونٹوں کے سامان کی مرمت میں کام آسکتا تو اسے اپنی لاٹھی کے کنارے سے اٹھا لیتے ،اسے جھاڑتے ،پھر اپنے غلاموں سے کہتے اسے اونٹوں کے سامان کی مرمت کے لیے رکھ لو۔ حضرت حکیم بن حزام اسی طرح ایک کپڑے کا ٹکڑا اٹھا رہے تھے کہ ان میں سے ایک دیہاتی نے اپنے ساتھی سے کہا ،تیرا ناس ہو،ان سے جان چھڑائو اوریہاں سے کھسکو، اللہ کی قسم !ان کے پاس تو صرف کوڑے سے اٹھائے ہوئے چیتھڑے ہی ہیں،یہ ہمیں سواری کے جانور کیسے دے سکیں گے۔اس کے ساتھی نے کہا :میاں !عجلت نہ کرو، تھوڑی دیر توقف کرو،دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کرتے ہیں۔حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ان دونوں کو لے کر بازار پہنچے ، وہاں انھیں دو بڑی صحت مند ، موٹی تازی گابھن اونٹنیاں نظر آئیں ،انھوںنے دواونٹنیاں خرید لیں اورساتھ ہی ان کا متعلقہ سامان بھی خرید لیا ،پھر اپنے غلاموں سے کہا جس سامان کی مرمت درکار ہو اس کی مرمت کپڑوں کے ان ٹکڑوں سے کرلو۔اس کے بعد دونوں اونٹنیوں پر کھانا ، گندم اورچربی خرید کر لدوادی ، ان دونوں دیہاتیوں کو اخراجات کے لیے رقم بھی دی اورکہا کہ یہ دونوں اونٹنیاں اپنے ساتھ لے جائو ۔اس پر اس دیہاتی نے بڑی حیرت سے اپنے ساتھی سے کہا میں نے آج تک کوئی کپڑے اُٹھانے والا ایسا سخی نہیں دیکھا۔(طبرانی ،مجمع الزوائد)
 ایک بار حضرت حکیم بن حزام نے اپنا گھر ساٹھ ہزار درہم میں بیچ دیا، لوگوںنے آپ سے کہا :کہ خریدار نے آپ سے یہ گھر سستا خرید لیا ہے ۔حضرت حکیم بن حزام نے کہا : کوئی مضائقہ نہیں! میں نے زمانہ جاہلیت میں یہ گھر صرف ایک مشک مشروب کے بدلے میں خریدا تھا ۔میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس کی ساری قیمت اللہ کے راستے میں، مسکینوں کی امداد اور غلاموں کو آزاد کرنے میں خرچ کروں گا۔اب بتائو کہ کیا مجھے کوئی خسارہ ہوا ۔(طبرانی)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1742 ( Surah Adh-Dhariyat Ayat 52-55 ) درس قر...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم ملت ابراہیمی کے پیروکار نہیں ہیں

Shortclip - توبہ کن لوگوں کی قبول ہوتی؟

جمعرات، 10 جون، 2021

Kya Hum Waqai Muslman Hain?کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟

Kya Hum Waqai Muslman Hain?کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟

اسلام اور اصلاحِ عبادات

 

اسلام اور اصلاحِ عبادات

مکہء مکرّمہ کی آبادی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے مبارک وجود کی وجہ سے شروع ہوئی۔ اللہ کے یہ پیغمبر دعوت توحید کے علمبردار تھے ۔ حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی اولاد واحناف بھی ایک مدّت تک دین حنیف پر کاربندرہے۔ لیکن ایک شخص عمروبن لحی الخزاعی سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوگیا۔ عمروبن لحی خانہ کعبہ کا متولی تھا،اسے سنگین نوعیت کا کوئی مرض لاحق ہوگیا ۔ کسی نے اسے بتایا کہ ملک شام میں بلقاء کے مقام پر گرم پانی کا ایک چشمہ ہے۔ اگر تم اس کے پانی سے غسل کروگے ،تو صحت یا ب ہوجائو گے۔ وہ بلقاء پہنچا ،غسل کیا اور صحت یاب ہوگیا۔ اس نے وہاں کے باسیوں کودیکھا کہ وہ بتوں کی پر ستش کرتے ہیں ۔ اس نے استفسار کیا کہ تم یہ کیا کررہے ہو،انہوں نے بتایا کہ ہم ان کے ذریعہ سے بارش طلب کرتے ہیں اور ان کے ذریعے دشمن پر فتح حاصل کرتے ہیں۔اس نے کہا مجھے بھی ان بتوں میں سے چند ایک بت دے دو، انہوں نے اس کو چند بت دے دیے وہ ان کو لے کر مکہ واپس آگیا ،اور انھیں خانہ کعبہ کے اردگرد نصب کردیا، بقول ابن خلدون یہیں سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا، عمرونے بت پرستی کے علاوہ بھی بہت سی نئی رسومات کاآغاز کیا اور عربوں نے انھیں مذہبی شعار سمجھ کر اختیار کرنا شروع کردیا۔ بت پرستی کی یہ وباء اس شدت سے پھیلی کہ ہر قبیلے نے اپنا الگ الگ خدا بنالیا ۔ یہاں تک کہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب کردیے گئے، اور اس کی وجہ یہ تھی عرب کے سارے قبائل کعبہ کا حج کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔اس لئے قریش نے ان تمام قبائل کے معبودوں کے بت یہاں یکجا کردیے تھے تاکہ کسی قبیلہ کا آدمی بھی حج کرنے کی نیت سے مکہ میں آئے تو اپنے معبود کے بت کو یہاں دیکھ کر اس کی عقیدت میں اور اضافہ ہواور اسے قریش کی سیادت کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہ ہو، کفّا رومشرکین کے ساتھ عرب میں یہودیوں اور نصاریٰ کی بھی ایک تعداد موجود تھی ،لیکن یہ مذاہب بھی افراط وتقریظ کا شکار ہوچکے تھے۔
یہود اپنی بد عملی کے سبب بدنام ہوچکے تھے، جادو، ٹونہ اور عملیات کے توہمات میں گرفتار ہوچکے تھے۔ان میں خدا پرستی ایثار اور روحانی خلوص نام کو بھی نہیں تھا۔صرف ہفتہ کے دن کی تعظیم کو بڑا مذہبی شعار گردانتے تھے۔عیسائیوں نے توحید خالص کو چھوڑ کر حضرت عیسٰی ،حضرت مریم اور مسیحی اکابرین کے مجسمے اور تصویر یں پوجناشروع کردی تھیں ،اور رہبانیت کو اپنا مذہبی شعار بنالیا تھا۔’’یہود کا فسق دین میں کمی اور پستی کرنااور نصاریٰ کافسق دین میں زیادتی اور غلوتھا‘‘۔ ایسے میں اسلا م توحید ،اعتدال اور توازن کا پیغام لے کرآیا۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1741 ( Surah Adh-Dhariyat Ayat 47-51 Part-2) ...

Darsulquran Para-04 - کیا ہمارے دل غیر اللہ کی محبت سے آباد ہیں

Shortclip - کیا گناہ سے توبہ کے بعد مکمل معافی مل سکتی ہے؟

879کیا ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے؟

بدھ، 9 جون، 2021

فرض عبادات کا فلسفہ

 

فرض عبادات کا فلسفہ 

اسلام نے کئی عبادات کو فرض قرار دیا ہے تو بندگی کے اظہار کو انھیں تک محدود نہیں کردیا بلکہ ان کے ذریعے سے اطاعت اور فرماںبرداری کا ایک مزاج تشکیل پاتا ہے۔ اور انسانی شخصیت کی ساخت پر داخت ایسے زاویوں پر ہونے لگتی ہے۔ جو اس کی پوری زندگی کو حسن عمل میں ڈھال دیتے ہیں ۔

’’عام طور پر مشہور ہے کہ شریعت میں چار عبادتیں فرض ہیں، یعنی نماز ،روزہ ،زکوٰ ۃ اور حج ۔اس سے یہ شبہ نہ ہوکہ  ان فرائض کی تخصیص نے عبادت کے وسیع مفہوم کو محدود کردیا ہے۔درحقیقت یہ چاروں فریضے عبادت کے سینکڑوں وسیع معنوں اور ان کے جزئیات کے بے پایاں دفتر کو چارمختلف بابوں میں تقسیم کردیتے ہیں ،جن میں سے ہر ایک فریضہ عبادت اپنے افراد اور جزئیات پر مشتمل اور ان سب کے بیان کا مختصر عنوانِ باب ہے، جس طرح کسی وسیع مضمون کو کسی ایک مختصر سے لفظ یا فقروں میں ادا کرکے اس وسیع مضمون کے سر ے پر لکھ دیتے ہیں، اسی طرح یہ چاروں فرائض درحقیقت انسان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو چار مختلف عنوانوں میں الگ الگ تقسیم کردیتے ہیں، اس لئے ان چار فرضوں کو بجاطور سے انسان کے اچھے اعمال اور کاموں کے چار اصول ہم کہہ سکتے ہیں۔

۱۔ بندوں کے وہ تمام اچھے کام اور نیک اعمال جن کا تعلق تنہا خالق اور مخلوق سے ہے ایک مستقل باب ہے جس کا عنوان نماز ہے، ۲۔ وہ تمام اچھے اور نیک کام جو ہر انسان دوسرے کے فائدہ اور آرام کے لئے کرتا ہے ، صدقہ اور زکوٰۃ ہے۔ ۳۔ خدا کی راہ میں ہر قسم کی جسمانی اور جانی قربانی کرنا کسی اچھے مقصد کے حصول کے لئے تکلیف اور مشقت جھیلنا ، اور نفس کو اس تن پروری اور مادی خواہشوں کی نجاست اور آلودگی سے پاک رکھنا جو کسی اعلیٰ مقصد کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ، روزہ ہے، یا یوں کہوکہ ایثار وقربانی کے تمام جزئیات کی سرخی روزہ ہے۔۴۔ دنیائے اسلام میں ملّتِ ابراہیمی کی برادری اوراخوت کی مجسم تشکیل وتنظیم ، مرکزی رشتہء اتحاد کا قیام ،اور اس مرکزی آبادی اورحلال کسبِ روزی کے لئے ذاتی کوشش اور محنت کے باب کا سِر عنوان حج ہے۔ غور کر کے دیکھئے انسان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کام انہی اصولِ چہار گا نہ کے تحت میں داخل ہیں، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے۔ توحید ورسالت کا اقرار کرنا ۔ نمازپڑھنا ،روزہ رکھنا ، زکوٰۃدینا اور حج کرنا ،پہلی چیز میں عقائد کا تمام دفتر سمٹ جا تاہے،اور بقیہ چار چیزیں ایک مسلمان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو محیط ہیں، انہیں ستونوں پر اسلام کی وسیع اور عظیم الشان عمارت قائم ہے‘‘۔ (سیرت النبی)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1740 ( Surah Adh-Dhariyat Ayat 47-51 Part-1) ...

Darsulquran Para-04 - کیا ہمارا اپنی محبوب اشیاء اللہ تعالی کی راہ میں ق...

Shortclip - توبہ کس کی قبول ہوتی ہے؟

منگل، 8 جون، 2021

Allah Kay Aehkamaat Ki Takzeeb Ka Matlab Kya Hay?اللہ تعالٰی کی احکامات ...

عبادت اور تقویٰ

 

عبادت اور تقویٰ

اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:۔اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے (انسانوں )کو پیدا کیا تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو۔(البقرۃ)

یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عبادت کی غر ض وغایت یہ ہے کہ وہ انسان کو منزلِ ’’تقویٰ ‘‘کی طرف پہنچا دے۔اس آیۃ مبارکہ میں اللہ رب العز ت کے دو اوصاف کا بیان ہوا (۱)وہ تمہارا رب ہے(۲) اسی نے تمہیں تخلیق کیا۔رب وہ ذات ہے جس کی تربیت سے کوئی چیز اپنی استعداد کے مطابق ارتقاء کے تمام مراحل طے کر تی ہوئی درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ گویا کہ انسان بلکہ پوری کائنات ہر ہر مرحلے پر اور ہر لمحے لمحے میں اس کی نگہداری سے پروری پار ہی ہے اور اس کا وجود وارتقاء اور اس کے جملہ کمالات کا حصول اسی کا رھین منت ہے۔ وہ تخلیق نہ کرتا تو انسان پیدا ہی نہ ہوتا اور وہ تربیت نہ کرے تو زندگی کا سفر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے۔

ابتداء سے کرتا ہے کوئی تربیت ورنہ

آدمی اذّیت کے موسموں میں مرجائے

جب ہم اسی کا دیا ہوا کھا رہے ہیں اور اسی کاعطاء کردہ اثاثہ استعمال کررہے ہیں تو پھر زندگی کے ایک ایک لمحے پر اس کا اختیار تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ اور اس کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں کیوں نہیں ڈالتے؟ بیضاوی علیہ الرحمۃ نے یہ بڑی خوبصورت بات کی ہے۔ فرماتے ہیں اللہ نے اپنی عبادت کاحکم دیا تو اس کی علّت (وجہ)یہ بیان کی کہ وہ تمہارا خالق ہے اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ گویا ہم اپنی عمر بھر کی عبادت اور اطاعت کا صلہ اسی وقت وصول کرچکے ہیں۔ جب اس نے ہمیں ’’انسان‘‘ بناکر تخلیق کردیا ،جو مزدور اپنا معاوضہ پیشگی وصول کرچکا ہو۔ وہ اپنا کام مکمل کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔ ہم بھی عمر بھر اس کا حکم ماننے کے پابند ہوچکے ہیں۔ 

ایک ایک قطر ے کا مجھے دینا پڑا حساب

خونِ جگر ودیعت مژگانِ یار تھا

تقویٰ قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے جس سے برے کاموں سے اجتناب اورنیک کاموں کے انتخاب کا میلان پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تقویٰ کی جگہ یہ ہے(مسلم)جملہ عبادات سے مقصود اس کیفیت کاحصول ہے۔نماز،روزہ ،حج ،زکوٰۃتمام کی غرض وغایت لفظ تقویٰ سے بیان کی گئی اور ہر وہ کام جو خدا کی رضاء لیے ہیں چاہے وہ اس کے نام کی تسبیح پڑھنا ہو،جو چاہے اس کی ذات کی عبادت کرنا، چاہے اس کی خاطر اس کی مخلوق کی خدمت کرنا سب اسی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔