اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
بدھ، 30 جون، 2021
رَمْزِ اطاعت
منگل، 29 جون، 2021
جنت کی نعمتیں
جنت کی نعمتیں
علامہ راغب اصفہانی جنت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’جن ‘‘کا اصل میں معنی ہے: کسی چیز کو حوا س سے چھپا لینا۔ قرآن مجید میں ہے: ’’جب رات نے ان کو چھپالیا‘‘(الانعام : ۷۶)
جنان ‘قلب کوکہتے ہیں ، کیونکہ وہ بھی حواس سے مستور ہوتا ہے ، جنین ‘پیٹ میں بچہ کو کہتے ہیں وہ بھی مستور ہوتا ہے‘مجن اورجنہ ڈھال کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی حملہ آور کے حملہ سے چھپاتی ہے اورجن بھی حواس سے مستور ہوتے ہیں، اورجنت اس باغ کو کہتے ہیں جس میں بہت زیادہ گھنے درخت ہوں اوردرختوں کے گھنے پن اورزیادہ ہونے کی وجہ سے زمین چھپ گئی ہواوردارالجزاء کا نام جنت اس لیے ہے کہ اس کو زمین کی جنت (گھنے باغ)کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے اگر چہ دونوں جنتوں میں بہت فرق ہے ، یا اس کو اس وجہ سے جنت کہا گیا ہے کہ اس کی نعمتیں ہم سے مستور ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیارکی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اورنہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا ہے اوراگر تم چاہوتو یہ آیت پڑھو:’’سوکسی کو معلوم نہیں کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں تمہارے لیے چابک جتنی جگہ بھی دنیا ومافیہا سے بہترہے۔ (صحیح بخاری )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو پہلا گروہ جنت میں داخل ہوگا ان کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگا، نہ وہ اس میں تھوکیں گے نہ ناک سے ریزش آئے گی، نہ فضلہ خارج ہوگا ، ان کے برتن جنت میں سونے کے ہونگے اورکنگھے سونے اورچاندی کے ہوں گے اوراس میں عود کی خوشبو ہوگی، ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبو دار ہوگا، ہر جنتی کو دوبیویاں ملیں گی ، ان کی پنڈلیوں کامغز گوشت کے پار سے نظر آئے گا، یہ ان کے حسن کی جھلک ہے ان کے دلوں میں اختلاف اوربغض نہیں ہوگا، سب کے دل ایک طرح کے ہوں گے اوروہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے۔(صحیح بخاری)
پیر، 28 جون، 2021
منفرد شہادت
منفرد شہادت
اتوار، 27 جون، 2021
بئیر معونہ کے شہید
بئیر معونہ کے شہید
ہفتہ، 26 جون، 2021
محافظ فرشتے
محافظ فرشتے
جمعہ، 25 جون، 2021
فضائل مدینہ منورہ
فضائل مدینہ منورہ
مدینہ منورّہ کے باسیوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے دل وجان نچھاور کردیے ۔حضور کی تشریف آوری سے اس شہر کا ماحول ہی بدل گیا۔ پہلے یہاں کی آب وہوا صحت کیلئے سازگار نہ تھی ۔بخار اور دیگر متعدی بیماریاں وباء کی صورت میں پھوٹتی رہتی تھیں ۔ پانی خوش ذائقہ نہ تھا۔ اسی وجہ سے یثرب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے نام ہی تبدیل نہیں ہوا۔ آب وہوا بھی خوش گوار ہوگئی، مزاج بدل گئے۔ دشمن جاں باہم شیرو شکر ہوگئے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا : جو شخص مدینہ کو یثرب کہے اسے چاہیے کہ یہ وہ اپنی غلطی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے ۔یہ تو طابہ (پاکیزہ ) ہے، یہ تو طابہ ہے یہ تو طابہ ہے۔(امام احمد )٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم مدینہ منورہ آئے تو وہ وبائوں والا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے جب رسول اللہ ﷺنے اپنے صحابہ کرام کی بیماری کو دیکھا تو(اللہ کے حضور ) عرض کیا: اے اللہ ہمارے لئے مدینہ منورّہ ایسا ہی محبوب بنادے جیسا کہ تو نے مکہ مکرّمہ کو بنایا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کوصحت وعافیت والا بنا اور ہمارے صا ع اور مد (پیمانوں اور باٹوں ) میں ہمارے لیے برکتیں عطا فرمادے اور یہاں کے بخار کو جحفہ (کے ویرانے )کی طرف منتقل کردے۔(صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا : بے شک ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ مکرّمہ کو حر م بنایا تھا اور یہاں کے رہنے والوں کیلئے دعاء کی تھی تو بے شک میں مدینہ منورہ کو اسی طرح حرم بنارہا ہوں جیسے ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ کر حرم بنایا تھا اور میں نے اسکے صاع اور مد کیلئے دوگنی دعاء کی ہے اسی طرح جیسے ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ والوں کیلئے دعا مانگی تھی۔(صحیح مسلم)٭حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مدینہ منورہ کی گھاٹیوں پر فرشتے ہیں ، ان سے نہ طاعون اندر آسکتا ہے اور نہ دجال آسکتا ہے ۔ (صحیح بخاری)٭حضر ت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا مدینہ حرم ہے اس جگہ سے اس جگہ تک ، اسکے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں گناہ کیا جائے اور جس نے کوئی گناہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ ،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ (صحیح بخاری)
٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺکر فرماتے ہوئے سنا : کوئی شخص مدینہ منورہ کے مصائب پر صبر کرے اور وہ مرجائے تو میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا شہید (گواہ ) بنوں گا ،بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔(صحیح مسلم)
جمعرات، 24 جون، 2021
یثرب سے مدینہ
یثرب سے مدینہ
بدھ، 23 جون، 2021
مدینہ منورہ
مدینہ منورہ
منگل، 22 جون، 2021
نماز کی تاکید
نماز کی تاکید
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور نماز قائم رکھو اورتم مشرکوں میں سے نہ ہوجائو‘‘۔(الروم : ۳۱)’’(جنتی مجرموں سے سوال کریں گے )تم کوکس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟وہ کہیں گے : تم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔(المدثر: ۴۳۔۴۲)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص اوراس کے کفر اورشرک کے درمیان (فرق)نمازکو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)یعنی نماز کو ترک کرنا کافروں اورمشرکوں کا کام ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے ، اگر وہ مکمل ہوئی تو مکمل لکھی جائے گی اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو کہا جائے گا دیکھو کیا اس کی کچھ نفلی نمازیں ہیں جن سے اس کے فرض کی کمی کو پورا کردیا جائے ، پھر باقی اعمال کا اسی طرح حساب لیا جائے گا۔(سنن نسائی )
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل)
ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، انہوںنے ایک خشک شاخ پکڑ کر اس کو ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے گرنے لگے، پھر انہوں نے کہا: اے ابو عثمان ! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا:آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا، میں آپ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے ایک شاخ کو پکڑکر اسے ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے جھڑنے لگے ، آپ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کیا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے اورپانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گررہے ہیں ،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اوردن کے دونوں کناروں اوررات کے کچھ حصوں میں نماز کوقائم رکھو، بے شک نیکیاں ، برائیوں کو مٹادیتی ہیں ، یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں ‘‘۔(ھود: ۱۱۴)(مسند احمد)
پیر، 21 جون، 2021
درگذر کرنے والے(۶)
درگذر کرنے والے(۶)
اتوار، 20 جون، 2021
درگذر کرنے والے(۵)
درگذر کرنے والے(۵)
وحشی نے کہا یہ بھی بہت سخت شرط ہے کیونکہ اس میں ایمان لانے سے پہلے کے گناہوں کا ذکر ہے ، ہوسکتا ہے مجھ سے ایما ن لانے کے بعد گناہ سرزد ہوجائیں ، اگرایمان لاکر بھی میری بخشش نہ ہوتو پھر میرے ایمان لانے کا فائدہ ؟تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک کیے جانے کو نہیں بخشتا اوراس کے علاوہ جو گناہ ہو اسے جس کیلئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے ۔(النساء ۴۸)وحشی نے کہا : اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اس آیت میں تو مغفرت اللہ کے چاہنے پر موقوف ہے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے بخشنا ہی نہ چاہے تو پھر ایما ن لانے کا کیا فائدہ ۔اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ’’آپ کہیے کہ اے میرے بندو! جوا پنی جانوں پر (گناہوں کا ارتکاب کرکے)ظلم کرچکے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوبے شک وہی بہت بخشنے والا بے حدرحم فرمانے والا ہے ‘‘۔(الزمر۵۳)اس پر وحشی نے کہا، اب مجھے اطمینان ہوا، پھر اس نے کلمہ پڑھا اوراسلام قبول کرلیا، صحابہ کرام نے جناب رسالت مآب ﷺسے استفسار کیا، یارسول اللہ(صلی اللہ علیک وسلم)یہ بشارت آیا کہ صرف وحشی کیلئے ہے یا سب کیلئے ہے ، آپ نے فرمایا: سب کے لیے ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے وحشی آپ سے امان طلب کرکے آیا تھا ، پھر آپ کی طرف سے دعوت اسلام پر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبول اسلام کی شرائط پیش کیں اورآپ نے یہی جوابات ارشاد فرمائے ، (ابن عساکر : تاریخ دمشق )یوں وحشی بھی صحابہ میں شامل ہوگئے رضی اللہ عنہم ، سبحان اللہ رحمۃ اللعالمین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے وحشی جیسے شخس کا بھی گویا کہ ناز اٹھایا اوران کی شرائط تسلیم کرکے انھیں کلمہ پڑھایا ۔
درگذر کرنے والے(۴)
درگذر کرنے والے(۴)
ہفتہ، 19 جون، 2021
جمعہ، 18 جون، 2021
درگذر کرنے والے(۳)
درگذر کرنے والے(۳)
درگذر کرنے والے(۲)
درگذر کرنے والے(۲)
جمعرات، 17 جون، 2021
بدھ، 16 جون، 2021
درگذر کرنے والے(۱)
درگذر کرنے والے(۱)
منگل، 15 جون، 2021
طاقتور کون؟
طاقتور کون؟
غصہ ضبط کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی غصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اورغیظ وغضب کے اظہار اورسزادینے اورانتقام لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ ضبط کرنے اورجوش غضب ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کی ہدایت دی ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑرہے تھے ۔ ان میں سے ایک شخص بہت شدید غصہ میں تھا اوریوں لگتا تھا کہ غصہ سے اس کی ناک پھٹ جائے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسے کلمہ کا علم ہے اگر یہ کلمہ پڑھ لے گا تو اس کا غضب جاتارہے گا ، حضرت معاذ نے پوچھا کہ رسول اللہ ! وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ کہے اللھم انی اعوذ بک من الشیطن الرجیم ۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ہواوروہ کھڑا ہوا ہو تو بیٹھ جائے، پھر اگر اس کا غصہ دور ہوجائے تو فبہاورنہ پھر وہ لیٹ جائے۔
عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غضب شیطان (کے اثر)سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اورآگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو جب تم میں سے کوئی شخص غضب ناک ہوتو وہ وضو کرلے۔(سنن ابودائود )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ ضبط کرلیا حالانکہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا، اللہ تعالیٰ اس کو امن اورایمان سے بھردے گا۔ (جامع البیان )
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیہ کہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اس کو اختیار دے گا وہ جس حور کو چاہے لے لے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے نزدیک پہلوانی کا کیا معیار ہے؟ صحابہ نے کہا جو لوگوں کو پچھاڑنے اوراس کو کوئی نہ پچھاڑ سکے، آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔(سنن ابودائود )
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے غصہ کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے عذاب کودور کردے گا، اورجس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔ (مجمع الزوائد )
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتلائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے ، حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم غصہ نہ کرو تو تمہارے لیے جنت ہے۔(مجمع الزوائد)
کافر کا سفرِ آخرت
کافر کا سفرِ آخرت
پیر، 14 جون، 2021
اتوار، 13 جون، 2021
صبحِ دوامِ زندگی
صبحِ دوامِ زندگی
ہفتہ، 12 جون، 2021
اسلامی عبادت کے امتیازات
اسلامی عبادت کے امتیازات
اسلام نے اپنے دائمی اور سرمدی پیغام کے ذریعے عبادت میں شرک کی ہرطرح کی آمیزش اور بے اعتدالی کوہمیشہ کے لیے نفی کردی ۔ اسلام سے پہلے جبکہ انبیائے کرام کی تعلیمات ذہنوں سے محو ہوچکی تھیں،پوری دنیا ،اصنام پرستی ،مظاہر پرستی اورآباء پرستی میں مبتلاء ہوچکی تھی۔حتیٰ کہ بہت مقامات پر تو حیوان تک معبودوں کا درجہ حاصل کرچکے تھے۔
’’جب انسان کاتعلق اپنے خالق حقیقی سے منقطع ہوجاتا ہے اور اس کی فطر ت سلیمہ مسخ ہوجاتی ہے، اس کی عقل وفہم پر پردے پڑجاتا ہے۔اس کی چشم بصیرت بینائی سے محروم ہوجاتی ہے۔ اپنی دانش مندی کے باوجود اس سے اس قسم کی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ احمق اور دیوانے بھی ان سے شرمندگی محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘‘(ضیاء النبی)
انسان کی فکری لغزش کااندازا لگانا ہوتو اس بات سے لگائیے کہ ا ہل مکہ کے دومعبودوں کے نام اساف اور نائلہ تھے۔یہ دوافراد اساف بن یعلیٰ اور نائلہ بنت زید تھے۔جنہیں اللہ رب العزت نے بیت اللہ کی حرمت پامال کرنے کی وجہ سے اور وہاں ارتکاب گناہ کرنے کی وجہ سے پتھر بنادیاتھا۔ لوگوں نے انھیں اٹھا کر باہر رکھ دیا تاکہ ان کے انجام سے عبر ت حاصل ہو لیکن رفتہ رفتہ ان دونوں کی بھی پوجا شروع ہوگئی۔اسلام نے انسان کو ان تمام خودساختہ معبودوں سے نجات بخشی اور صرف اور صرف ایک ہی ذات پاک کو عبادت کے لائق قرار دیا اور وہ ہے اللہ وحدہٗ لاشریک۔ اسلام نے اللہ رب العز ت کی عبادت کو نہایت سہل اور سادہ انداز میں پیش کیا، اور بے مقصد رسوم و قیود کو یکسر مسترد کردیا ۔ نیت خالص ہو، جسم پاک ہو، لباس پاک ہو ،اتنا ضرور ہو کہ ستر کو ڈھانپ لے، سجدہ گاہ پاک ہواور تم اپنے معبود کے سامنے جھک جائو۔بتوں کی ، شمعوں کی ،بخوروں کی ، تصویروں کی اور سونے چاندی برتنوں یا مخصوص رنگ کے لباس کی کوئی قید نہیں۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں مذہبی رسومات مخصوص افراد ہی ادا کرسکتے ہیں۔ یہودیوں میں کاہن وربی ،عیسائیوں میں پادری ،پارسیوں میں موبد،ہندئوںمیں برہمن ،پروہت اور بچاری ۔لیکن یہاں ہر بندہ خدا سے اپنی مناجات خود کرسکتا ہے۔ اجتماعی عبادت کے لیے امامت رنگ، نسل یا خاندان میں محصور نہیں بلکہ اس کا انحصار علم اور تقویٰ پر ہے۔ مذاہب نے اپنے مخصوص عبادت خانوں تک عبادتوں کو محدود رکھا، پوجا کے لیے بت خانہ ، دعاء کے لیے گرجا، اور صومعہ آگ کے لیے آتش کدہ، لیکن اسلام کا تصور عبادت محدود نہیں۔
مسجد یں اللہ کا مبارک گھر ہیں اور مسلم معاشرے میں ان کا ایک تقدس اور اہمیت ہے۔لیکن اللہ کی بندگی انھیں تک محدود نہیں بلکہ ارشاد ہوا، میرے لیے اللہ نے ساری زمین سجدہ گاہ بنادی ہے اور طاہر بنادی ہے۔ مسلمان ہر جگہ پر اپنا ذوقِ بندگی پورا کرسکتا ہے۔
منعم بہ کوہ ودشت وبیاباں غریب نیست
ہر جا کہ خیمہ می زد و اوبارگاہ ساخت
جمعہ، 11 جون، 2021
انوکھا سخی۔۔۔
انوکھا سخی۔۔۔
جمعرات، 10 جون، 2021
اسلام اور اصلاحِ عبادات
اسلام اور اصلاحِ عبادات
بدھ، 9 جون، 2021
فرض عبادات کا فلسفہ
فرض عبادات کا فلسفہ
اسلام نے کئی عبادات کو فرض قرار دیا ہے تو بندگی کے اظہار کو انھیں تک محدود نہیں کردیا بلکہ ان کے ذریعے سے اطاعت اور فرماںبرداری کا ایک مزاج تشکیل پاتا ہے۔ اور انسانی شخصیت کی ساخت پر داخت ایسے زاویوں پر ہونے لگتی ہے۔ جو اس کی پوری زندگی کو حسن عمل میں ڈھال دیتے ہیں ۔
’’عام طور پر مشہور ہے کہ شریعت میں چار عبادتیں فرض ہیں، یعنی نماز ،روزہ ،زکوٰ ۃ اور حج ۔اس سے یہ شبہ نہ ہوکہ ان فرائض کی تخصیص نے عبادت کے وسیع مفہوم کو محدود کردیا ہے۔درحقیقت یہ چاروں فریضے عبادت کے سینکڑوں وسیع معنوں اور ان کے جزئیات کے بے پایاں دفتر کو چارمختلف بابوں میں تقسیم کردیتے ہیں ،جن میں سے ہر ایک فریضہ عبادت اپنے افراد اور جزئیات پر مشتمل اور ان سب کے بیان کا مختصر عنوانِ باب ہے، جس طرح کسی وسیع مضمون کو کسی ایک مختصر سے لفظ یا فقروں میں ادا کرکے اس وسیع مضمون کے سر ے پر لکھ دیتے ہیں، اسی طرح یہ چاروں فرائض درحقیقت انسان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو چار مختلف عنوانوں میں الگ الگ تقسیم کردیتے ہیں، اس لئے ان چار فرضوں کو بجاطور سے انسان کے اچھے اعمال اور کاموں کے چار اصول ہم کہہ سکتے ہیں۔
۱۔ بندوں کے وہ تمام اچھے کام اور نیک اعمال جن کا تعلق تنہا خالق اور مخلوق سے ہے ایک مستقل باب ہے جس کا عنوان نماز ہے، ۲۔ وہ تمام اچھے اور نیک کام جو ہر انسان دوسرے کے فائدہ اور آرام کے لئے کرتا ہے ، صدقہ اور زکوٰۃ ہے۔ ۳۔ خدا کی راہ میں ہر قسم کی جسمانی اور جانی قربانی کرنا کسی اچھے مقصد کے حصول کے لئے تکلیف اور مشقت جھیلنا ، اور نفس کو اس تن پروری اور مادی خواہشوں کی نجاست اور آلودگی سے پاک رکھنا جو کسی اعلیٰ مقصد کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ، روزہ ہے، یا یوں کہوکہ ایثار وقربانی کے تمام جزئیات کی سرخی روزہ ہے۔۴۔ دنیائے اسلام میں ملّتِ ابراہیمی کی برادری اوراخوت کی مجسم تشکیل وتنظیم ، مرکزی رشتہء اتحاد کا قیام ،اور اس مرکزی آبادی اورحلال کسبِ روزی کے لئے ذاتی کوشش اور محنت کے باب کا سِر عنوان حج ہے۔ غور کر کے دیکھئے انسان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کام انہی اصولِ چہار گا نہ کے تحت میں داخل ہیں، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے۔ توحید ورسالت کا اقرار کرنا ۔ نمازپڑھنا ،روزہ رکھنا ، زکوٰۃدینا اور حج کرنا ،پہلی چیز میں عقائد کا تمام دفتر سمٹ جا تاہے،اور بقیہ چار چیزیں ایک مسلمان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو محیط ہیں، انہیں ستونوں پر اسلام کی وسیع اور عظیم الشان عمارت قائم ہے‘‘۔ (سیرت النبی)
منگل، 8 جون، 2021
عبادت اور تقویٰ
عبادت اور تقویٰ
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:۔اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے (انسانوں )کو پیدا کیا تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو۔(البقرۃ)
یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عبادت کی غر ض وغایت یہ ہے کہ وہ انسان کو منزلِ ’’تقویٰ ‘‘کی طرف پہنچا دے۔اس آیۃ مبارکہ میں اللہ رب العز ت کے دو اوصاف کا بیان ہوا (۱)وہ تمہارا رب ہے(۲) اسی نے تمہیں تخلیق کیا۔رب وہ ذات ہے جس کی تربیت سے کوئی چیز اپنی استعداد کے مطابق ارتقاء کے تمام مراحل طے کر تی ہوئی درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ گویا کہ انسان بلکہ پوری کائنات ہر ہر مرحلے پر اور ہر لمحے لمحے میں اس کی نگہداری سے پروری پار ہی ہے اور اس کا وجود وارتقاء اور اس کے جملہ کمالات کا حصول اسی کا رھین منت ہے۔ وہ تخلیق نہ کرتا تو انسان پیدا ہی نہ ہوتا اور وہ تربیت نہ کرے تو زندگی کا سفر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے۔
ابتداء سے کرتا ہے کوئی تربیت ورنہ
آدمی اذّیت کے موسموں میں مرجائے
جب ہم اسی کا دیا ہوا کھا رہے ہیں اور اسی کاعطاء کردہ اثاثہ استعمال کررہے ہیں تو پھر زندگی کے ایک ایک لمحے پر اس کا اختیار تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ اور اس کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں کیوں نہیں ڈالتے؟ بیضاوی علیہ الرحمۃ نے یہ بڑی خوبصورت بات کی ہے۔ فرماتے ہیں اللہ نے اپنی عبادت کاحکم دیا تو اس کی علّت (وجہ)یہ بیان کی کہ وہ تمہارا خالق ہے اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ گویا ہم اپنی عمر بھر کی عبادت اور اطاعت کا صلہ اسی وقت وصول کرچکے ہیں۔ جب اس نے ہمیں ’’انسان‘‘ بناکر تخلیق کردیا ،جو مزدور اپنا معاوضہ پیشگی وصول کرچکا ہو۔ وہ اپنا کام مکمل کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔ ہم بھی عمر بھر اس کا حکم ماننے کے پابند ہوچکے ہیں۔
ایک ایک قطر ے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعت مژگانِ یار تھا
تقویٰ قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے جس سے برے کاموں سے اجتناب اورنیک کاموں کے انتخاب کا میلان پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تقویٰ کی جگہ یہ ہے(مسلم)جملہ عبادات سے مقصود اس کیفیت کاحصول ہے۔نماز،روزہ ،حج ،زکوٰۃتمام کی غرض وغایت لفظ تقویٰ سے بیان کی گئی اور ہر وہ کام جو خدا کی رضاء لیے ہیں چاہے وہ اس کے نام کی تسبیح پڑھنا ہو،جو چاہے اس کی ذات کی عبادت کرنا، چاہے اس کی خاطر اس کی مخلوق کی خدمت کرنا سب اسی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا تعلق سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ جوڑیں۔ تا کہ سیرت مبارکہ ان کے لیے مشعل راہ بنے ا...
-
حضور ﷺ کی شان حضور ﷺ کی زبان سے (۱) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ ن...