منگل، 27 جون، 2023

مقاماتِ مقد سہ (1)


 

مقاماتِ مقد سہ (1)

غار حرا - جبل نور : مکہ مکرمہ کی مقدس سر زمیں پر غار حرا ایک دشوار پہاڑ پر وقع ہے ۔جو کہ بڑی عزت اور عظمت والا مقام ہے ۔ یہاں اللہ کے پیارے حبیب اعلان نبوت سے پہلے کئی کئی دن تشریف فرما رہتے ۔ ام المئومنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا آپ کے لیے کھانے پینے کی چیزیں کھجوریں ، ستو اور پانی وغیرہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں ۔ یہ وہ غار ہے جہاں نبی آخر الزماں ﷺ پر نزول قرآن کا آغازہوااور حضرت جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر حاضر ہوئے ۔ اہل ایمان محبت شوق اور عقیدت کے ساتھ اس مقام کی زیارت کرتے ہیں اور نوافل اد ا کرتے ہیں ۔
غار ثور : مکہ مکرمہ کے با برکت شہر کے ساتھ یہ غار بہت دشوار گزار مقام پر واقع ہے ۔ اللہ پاک کے حکم سے جب نبی کریم ﷺ نے ہجرت فرمائی تو ابتدائی طور پر غار ثور میں قیام فرمایا ۔ حضرت سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کفار مکہ آپ کو تلاش کرتے کرتے اس مقا م پر پہنچ گئے ۔ ان کے پائوںنظر آ رہے تھے اور آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ وہ آ گئے ہیں ۔ تو اللہ کے پیارے حبیب ﷺ نے فرمایا کہ غمگین نہ ہو بیشک اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے ۔ اس پاکیزہ غار کو بھی رسول اللہ ﷺ کی میزبانی اور برکت کا شرف حاصل ہوا ۔

مقام ملتزم : کعبۃ اللہ میں بڑی عظمت و شان اور دوعائو ں کی قبولیت والی جگہ مقام ملتزم ہے ۔ یہ کعبۃ اللہ کے دروازے کی دہلیز کا نیچا والا حصہ ہے ۔ کعبہ کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کے ہاتھوں کو بلند کر کے دہلیز کو پکڑ کر بار گاہ ر ب العزت میں دعائیں کی جاتیں ہیں ۔چشم تصور سے دیکھیں کہ کتنے بر گزیدہ انبیاء و رسل نے اس مقام پر دعائیں مانگیں تھیں ۔

ہمارے آقا ومولا ﷺاپنا سینہ مبارک دیوار کعبہ کے ساتھ لگا کر اور اپنا چہرہ مبارک ساتھ لگا کے اس مقام پر دعائیں مانگیں ۔حجر اسود : یہ وہ مبارک پتھر ہے جس کا بوسہ لینا یا چومنا ہر صاحب ایمان کی دلی خواہش ہوتی ہے ۔ جس مقام سے طواف کعبہ کا آغا ز ہوتا ہے ۔ جس کو رسول پاک ﷺ نے چوما ۔ 

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا کہ اے حجر اسود میں تجھے اس لیے چومتا ہوں کہ میرے آقا ﷺ نے تجھے چوما ۔میزاب رحمت : رحمت کا پر نالہ جو کہ خانہ کعبہ کی چھت کے ساتھ نصب ہے یہ بھی مقام قبولیت ہے ۔ اس مقام پر بھی دعائیں کی جاتیں ہیں ۔ 


Surah Al-Anfal ayat 13-14 .کیا ہم عذاب الہی میں گرفتار ہیں

دُنیا کے دھوکے سے کس طرح نکلیں؟ - Shortvideo

فضائل مدینہ منورہ (2)


 

      فضائل مدینہ منورہ (2)

ارشاد باری تعالی ہے : اپنی جانوں پر ظلم کرنے والو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہو جا? پھر اللہ پاک سے معافی مانگو اور رسول پاک ﷺ  تمہاری شفارش کر دیں تو تم اللہ پاک کو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم فرمانے والا پائو گے۔گویا گنہگاروں کے لیے بخشش اور نجات کا ذریعہ و وسیلہ نبی پاک کی بار گاہ میں حاضری ہے جہاں دن رات رحمتوں کی برسات ہوتی ہے۔ پریشان حال ، دکھی اور غم کے ماروں کیلئے اطمینان اور سکون و راحت کا مقام۔ مسجد نبوی شریف میں حدیث درج ہے کہ میری شفاعت بڑے گنہگاروں کے لیے بھی ہے۔ آپ کی بارگاہ میں سلام پیش کرنا ہر مسلمان کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ جہاں جہاں آپ کے قدم مبارک لگے اللہ پاک نے جنت کے باغو ں میں سے باغ بنا دیا جسے ریاض الجنت کہتے ہیں۔ جہاں نفل ادا کر نا بہت بڑی سعادت ہے۔ اس مقام کے ساتھ اصحاب صفہ کا چبوترا ہے جہاں رسول پاک کے غلام علم وحکمت اور عرفان کی منزلیں حاصل کرتے تھے۔ اس حجرہ مقدس کے اندر محبوب خدا کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیھم اجمعین آرام فرما ہیں۔ اس کے ساتھ قدمین شریفین کی طرف عشاقان رسول اپنی حاضری کو بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔ 

مسجد نبوی میں ایک کھجور کا خشک تنا تھا جس کے ساتھ ٹیک لگا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ 

جب صحابہ کرام نے ممبر بنوایا تو یہ کجھو ر کا تنا نبی پاک کی جدائی اور غم میں رویا تو نبی پاک نے اس کو اپنے قلاوہ میں لے کر تسلی دی۔ جنت البقیع :مسجد نبوی کے ایک طرف کچھ فاصلے پر جنت البقیع ہے جہاں حضرت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت عثمان غنی ، صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے مزارات ہیں۔احد پہاڑ : نبی کریم ﷺ ے فرمایا کہ احد پہاڑ مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ احد پہاڑ پر نبی اکرم ﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ اور شہدائے احد کے مزرات ہیں۔مسجد قبا :  مسجد قبا مدینہ منورہ میں ہے جس میں دو رکعت نماز پڑھنے سے عمرہ کا ثواب ملتاہے۔ مسجد قبلتین: جہاں اللہ کریم نے اپنے محبوب کو اپنا رخ بیت المقدس سے کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنے کا حکم فرمایا۔گویا قدم قدم پر برکت اور سعادت کے نشان موجود ہیں۔ عشاقان رسولﷺ  بڑے احترام و عقیدت سے حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ بقول علامہ قبال 

 خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرند 

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

اتوار، 25 جون، 2023

کیا ہمیں دُنیا کا پکا دھوکہ لگ گیا ہے؟ - Shortvideo

فضائل مدینہ منورہ (1)


 

فضائل مدینہ منورہ (1)

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حضرت ابراھیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے درمیان مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں نہ وہاں کوئی درخت اور جھاڑی کاٹی جائے اور نہ ہی وہاں کوئی جانور شکار کیا جائے ‘‘۔’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اہل مدینہ کو تکلیف دینا چاہے گا تو اللہ تعالی دوزخ میں اسے اس طرح پگھلائے گا جس طرح آگ میں سیسہ پگھلتا ہے ‘‘۔’’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہیکہ حضور نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی :اے اللہ ! مدینہ منورہ میں اس سے دوگنا برکت عطا فرما جتنی تو نے مکہ مکرمہ میں رکھی ہے ‘‘۔’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جو شخص مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کرے گا قیامت کے دن میں اس کا گواہ ہوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا ‘‘۔ ’’حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :جو مدینہ میں مر سکے تو اسے چاہیے کہ اس میں مرے کیو نکہ میں اس کی شفاعت کروں گا جو یہاں مرے گا ‘‘۔ 
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ساری عمر یہ دعا کرتے رہے اے اللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے شہر میں مرنا نصیب فرما۔ صحابہ کرام رضوا ن اللہ علھیم اجمعین حیرا ن تھے کہ جہاد تو میدانوں میں ہوتے ہیں اور آپ شہادت کی موت کی التجا کر رہے ہیں اور وہ بھی مدینہ میں۔ لیکن اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اور مسجد نبوی میں منبر رسولﷺ  پر ان کو ایک مجوسی نے شہید کر دیا۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ساری زندگی مدینہ شریف میں گزاری بس ایک فرض حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ آپ دو گھونٹ پانی پیتے اور معمولی کھانا کھاتے تا کہ رفع حاجت کے لیے کم از کم مدینہ منورہ سے باہر جانا پڑے اور مدینہ منورہ سے باہر موت نہ آئے۔مدینہ منورہ کی گلیوں میں جوتا اتار کر دیواروں کے ساتھ چلتے تا کہ کسی ایسی جگہ پائوں نہ آ جائے جہاں آپؐ کے قدم مبارک لگے ہیں۔ 

 میں گنبد خضرا کی طرف دیکھ رہا ہوں

 کوثر میرے نزدیک یہ میری معراج نظر ہے

ہفتہ، 24 جون، 2023

AlAnfal Ayat 11-12.کیا ہم عملی طور پر اللہ تعالی اور اس کے رسول کے احکام...

اسلام ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا؟ - Shortvideo

فضائل قرآن مجید

 

فضائل قرآن مجید 

قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو نا صرف ہدایت کا ذریعہ ہے بلکہ شفاءکا بھی ذریعہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : ” لوگو ! تمہارے پاس رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفاءہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ﷺ کہہ دو کہ یہ اللہ کا فضل اور مہربانی ہے کہ یہ خبر اس نے بھیجی۔ اس پر تو لوگوں کو خوش ہونا چاہیے “۔قرآن مجید مردہ لوگوں کے لیے آب حیات اور پڑ مردہ دلوں کے لیے طمانیت بخش ہے۔ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور صراط مستقیم پر گامززن کرتا ہے۔ جس کا قول قرآن مجید کے مطابق ہے وہ صادق ہے اور جو اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ کامیاب ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرئہ امتیاز تھا کہ وہ دنیا میں ایسے زندگی بسر کرتے تھے گویا کہ جیتا جاگتا قرآن ہوں وہ قرآنی آیات میں غورو فکر کرتے تھے اور حقیقی معنوں میں اس کی تلاوت کرتے تھے۔اسکے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے تھے ، اور اس ہی کی طرف دعوت دیتے تھے ،عذاب کی آیتوں سے ان کے دل دہل جاتے تھے ، اور رحمت کی آیتوں سے ان کے دل روشن اور معمور ہو جاتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قدم قدم پر قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرتے تھے اس لیے وہ دنیا میں باعزت ہوئے اور دنیا کی سیادت کے حقدار بنے۔ بلند درجات پر فائز ہوئے اور دونوں جہانوں کی کامیابیوں سے سر فراز ہو ئے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

 ” یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے “۔

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کوسکھائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :

 ” جس نے قرآن مجید سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے ۔

حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ”صاحب قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاﺅاور درجات پرچڑھتے جاﺅ اور اس ترتیل سے پڑھو جس طرح دنیا میں پڑھا کرتے تھے ، بیشک تمہارا مقام وہاں ہو گا جہاں پر تمہارا پڑھنا ختم ہو جائے گا “۔

Surah Al-Anfal ayat 05-10 .مشکل حالات میں مومن کا کردار کیا ہونا چاہیے

کیا ہم منافق ہیں؟ - Shortvideo

جمعہ، 23 جون، 2023

دعا

 

دعا

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اپنے رب سے گڑ گڑاتے ہوئے اور آہستہ آہستہ دعا مانگو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی و انکساری اور زاری کرتے ہوئے آہستہ آواز سے دعا مانگیں۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” دعا عبادت کا مغز ہے “۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ’ ’دعا ہی اصل عبادت ہے “۔ یہ بات قرآن حدیث میں مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے۔ دعا کا اصل عبادت ہو نا عین فطری ہے۔ کیو نکہ جب آ دمی خدا کے وجود کو اس کی صفات کمال کے ساتھ پکارتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ یہ بھی دریافت کرتا ہے کہ خدا کے مقابلے میں میں بالکل بے حقیقت ہو ں۔خدا آقا ہے میں بندہ ہوں۔ خدا دینے والا ہے میں پانے والا ہو ں۔ خدا قادر ہے میں عاجز اور محتاج ہوں۔ یہ احساس اس کو فوراً ہی خدا کے سامنے دعا گو بنا دیتا ہے۔ دعا وہ سب سے بڑا رشتہ ہے جس کے ذریعے بندہ اپنے خالق حقیقی سے مربوط ہوتا ہے۔ دعا خدا اور بندے کے درمیان اتصال کا ذریعہ ہے۔ انسان جو کچھ پاتا ہے دعا سے ہی پاتا ہے۔
تما م اعمال کا مقصد آدمی کو خدا سے دعا کرنے والا بنا نا ہے تا کہ وہ خدا سے پانے والا بن جائے۔ مثال کے طور پر قرآن میں رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دینے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :” اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو میں بالکل نزدیک ہو ں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگے۔ پس انہیں چاہیے کہ میرے حکم کی تعمیل کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ کہیں ہدایت پاجائیں “۔یہی بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان الفاظ میں کی : مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاﺅ گے۔ دروازہ کھٹکھٹا ﺅ گے تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیونکہ جو مانگتا ہے اسے ملتا ہے ، اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے ، اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جاتا ہے۔دعا صرف کچھ الفاظ کی تکرار نہیں ہے ، دعا ایک عمل ہے ، بلکہ دعا سب سے بڑا عمل ہے۔
جس طرح حقیقی عمل بے نتیجہ نہیں رہتا اسی طرح حقیقی دعا کبھی بے نتیجہ نہیں رہتی۔جب کوئی بندہ حقیقی دعا کرتا ہے تو وہ گویا اپنے معاملہ کو خدا کا معاملہ بنا دیتا ہے اور جب کوئی معاملہ خدا کا معاملہ بن جائے تو کوئی بھی نہیں جو اس کو پورا ہونے سے روک سکے۔

کیا دیدارِالٰہی ممکن ہے؟ - Shortvideo

Surah Al-Anfal ayat 02-04 part-04.کیا ہم نے زندگی اللہ تعالی کے لیے خاص ...

جمعرات، 22 جون، 2023

ذکر الٰہی (2 )

 

ذکر الٰہی (2 )

حضرت عبد اللہ بن بْسر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ : ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھ پر اسلام کے بہت سے احکام واجب ہو گئے ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہو ں کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیں کہ میں اس کو ہمیشہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

’’ تیری زبان سے ہر وقت ذکر الٰہی جاری رہے‘‘۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ بوقت رخصت اللہ تعالی کے نزدیک کون سا عمل اور عبادت زیادہ پسند ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا مرتے وقت تیری زبان اللہ تعالی کے ذکر سے شاداب ہو۔ذکر الٰہی کی فضیلت میں احادیث مبارکہ اس قدر کثرت سے ہیں کہ انکے مطالعے سے ہر صالح انسان حد در جہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہاں تک کہ ذکر الٰہی کرنے والوں کو تمام عابدوں کے مقابلے میں افضل قرار دیا گیا ہے۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : اللہ تعالی کے افضل بندے اس کا ذکر کرنے والے بندے ہیں۔ ذکر الٰہی جس کی تہہ میں ہزاروں غیر مر ئی مفید ترین اثرات موجود ہیں۔ ہر عبادت سے افضل عبادت ہے۔ یو ں تو ہر عبادت کے ذریعے سے انسان اللہ تعالی کی طرف رجوع ہوتا ہے لیکن ہر وقت پابندی ارکان اور شرائط عبادت کا پورا ادا کرنا انسان کے لیے مشکل ہے۔ مثلاً چلتے پھرتے بستروں پر کروٹ بدلتے اٹھتے بیٹھتے یعنی ہر وقت اور ہر حالت میں نماز ادا نہیں کی جا سکتی اور عبادت میں مشغول نہ ہونے کی وجہ سے اس بات کا خطرہ ہے کہ انسان ذکر الٰہی سے غافل نہ ہو جائے اور چو نکہ نماز کا بھی مقصد اللہ تعالی کی یاد پاک ہے ، لہذا اس نے اپنے ذکر پاک کا ہر حالت میں حکم فرما کر اپنی حضوری کا دروازہ اپنے طالبوں کیلئے بکمال مہربانی کھلا رکھا۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مسلمانوں کو ہر نماز کے بعد کثرت سے ذکرکرنے کا حکم دیتا ہے یہاں تک کہ اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے کسی بھی حالت میں اس کو ذکر الہی ترک کرنے کی اجازت نہیں دی۔

 اللہ تعالی کو پسند نہیں کہ اس کا بندہ کسی بھی حالت میں غافل ہو کر نفس اور شیطان کو اپنے پاس راستہ دے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

’’ پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو کھڑے ، بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے اللہ کا ذکرکرتے رہو‘‘۔ذاکر بغیر ذکر الٰہی کے ایک لمحہ نہیں گزارتا۔ ذکر کی قدرو منزلت ذاکر ہی کے دل میں جا گزیں ہوتی ہے۔ اے طالب حق ! بزرگی یاد الٰہی میں ہے۔ تو زبان ظاہر اور زبان باطن سے مکمل اخلاص کے ساتھ ہر حال اور ہر وقت ذکر الٰہی کیے جا۔

Surah Al-Anfal ayat 02-04 part-03.کیا ہم متقی ہیں

اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر کیسے اور کیوں پیدا کرنی ضروری ہیں؟ - Short...

بدھ، 21 جون، 2023

ذکر الٰہی (1 )


 

 ذکر الٰہی (1 )

ذکر الٰہی وہ خاص عبادت ہے ، جس کی کثرت سے ذاکر میں مذکور کا خیال پیدا ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ خیال ترقی کر کے محبت میں تبدیل ہو جاتا ہے ، باطنی قویٰ بیدار ہو جاتے ہیں ، قلب پاک و صاف ہو کر منور ہو جاتا ہے ، باطنی پوشیدہ بیماریاں نظر آنے لگتی ہیں اوران کے علاج میں ذکر پاک سے بڑی مدد ملتی ہے۔ نیکی کا شوق بڑھتا اور برائی یا گناہوں سے طبیعت کراہت محسوس کرنے لگتی اور طالب کو اپنے اندر انقلاب عظیم محسوس ہو تا ہے۔ وہ ہستی میں فکر کرتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو نسبتیں رکھتا ہے۔ یعنی ایک نسبت اس کو اپنی ذات سے اور دوسری اللہ تعالی سے ہے۔

اللہ تعالی اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان ہے ، وہ انسان کو اپنے ذکر پاک کی مداومت پر آمادہ کرنے کے لیے بذریعہ ترغیب و تر ہیب متوجہ فرماتا ہے اور واضح روشن احکام صادرفرما کر کسی بھی حال میں اپنے ذکر پاک کو ترک کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

 ” اور جو کوئی رحمان کی یاد سے غفلت کرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں۔ پس وہ اس کا ہم نشین (رہتا ہے )۔“

 ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : 

’ ’ پس کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کا ذکر کرو “۔

 ارشاد پاک ہے : اے رب کریم کے بندو! کیا تم میں کوئی سننے والا ہے جو اس کا ارشاد پاک سن کر لبیک کہے ؟ وہ تمہیں اپنا مقرب بنانے کے لیے اس طرح حکم دیتا ہے کہ ” میرا ذکر ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت میں کثرت سے کیا کرو “۔

 کیا ہی اچھا ہے انسان جس کا بہترین وقت اللہ پاک کی یاد میں گزرتا ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : 

” اے ایمان والو ! اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو“۔ارشاد پاک ہے : اے بندے ! اپنے اللہ کا اس کثرت سے ذکر کر کہ ماسوا اللہ کے سب بھول جائے۔ دین و دنیا میں سوائے اللہ کے تجھے کچھ نظر نہ آئے۔ حتی کہ مال اور اولاد سے ذکر پاک کے مقابلے میں کچھ لگاﺅ نہ رہے۔

 ارشاد باری تعالی ہے : ” اے مسلمانو! تمہیں نہ تمہارے مال اللہ کی یاد سے غافل کریں اور نہ تمہاری اولاد اللہ کی یاد (تمہارے دل سے ) فراموش کرے “۔ارشاد پاک ہے : اے بندے ! اپنے اللہ کا ذکر اس کثرت سے کر کہ تیرے دماغ میں کبھی اس کے ذکر کرنے پر کوئی خطرہ نہ آئے اور تیرے دل میں اس کی یاد محو ہونے کا وہم و گمان بھی نہ گزرے۔تو ہی تو اور اللہ ہی اللہ رہے۔ارشاد باری تعالی ہے :” اپنے رب کی یہاں تک عباد ت کر کہ تجھ کو یقین آ جائے “۔

Surah Al-anfal ayat 02-04 part-02.کیا ہم اللہ والے بننا ہی نہیں چاہتے

انسان اللہ تعالٰی کا رنگ اپنے اوپر کیسے چڑھائے؟ - Shortvideo

منگل، 20 جون، 2023

تعمیر خانہ کعبہ اور حج (2)

 

 تعمیر خانہ کعبہ اور حج (2)

حضرت ابراہیم علیہ السلام ابو قیس پر چڑھ گئے اور وہاں سے تمام ساکنان عالم کو بیت اللہ میں حاضر ہونے کی ندا دی ۔ یہ ندائے ابراہیمی نہ صرف عالم ارضی کے ہر شخص نے سنی بلکہ عالم ارواح میں بھی اسے سنا گیا اور ہر ایک نے اپنی استعداد کے مطابق لبیک کہا ۔ مالک کون و مکاں نے پھر اپنے پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے گھر کے اداب ملحوظ رکھنے کی تعلیم ارشاد فرمائی ۔ ارشاد فرمایا : ”میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجود کرنے والوں کیلئے پاک صاف رکھیں ©“۔ چند ایک رسمیں دور جاہلیت سے عربوں کے اندر رائج تھیں جن کو قرآن مجید میں منع کر دیا گیا ۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا : ” یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں پچھلی طرف سے داخل ہو بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ انسان تقوی اختیار کرے “۔دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : ” تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گنا ہ نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے “۔ایک اور غلط تصور زمانہ جاہلیت کا جو تھا کہ حج کے سفر کے دوران اپنے ساتھ زاد راہ نہ لے جاتے یا اسے حرام سمجھتے ارشاد باری تعالی ہے : ” اور حج کیلئے زاد راہ لو بلا شبہ بہترین زاد راہ تقوی ہے اور مجھ سے ہی ڈرو اے عقل والوں “۔ اور فرمایا : ” تم پر کچھ گناہ نہیں کہ حج کے ایام میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو “۔دور جاہلیت میں عربوں میں ایک بری رسم پائی جاتی تھی کہ حج سے واپسی پر منیٰ میں اکھٹے ہوتے جس میں اللہ تعالی کی عظمت و کبریا ئی بیان کرنے کی بجائے وہ قبائلی فخر کا اظہار کرتے ۔ اپنے اپنے قبیلے اور اباﺅ اجداد کے کارنامے بیان کرتے اور اپنے مد مقابل کی ہجو کرتے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی اس قبائلی تفاخر کے اظہار پر قد غن لگا دی اور ارشاد فرمایا :” پس تم اللہ تعالی کو اس طرح یاد کرو جیسے اپنے آباﺅ اجداد کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اللہ کو یا د کرو “۔آج جو ہمیں حج کی صورت نظر آتی ہے یہ حج کی ارتقائی صورت جو فتح مکہ کے ایک سال بعد نو سن ہجری میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی سر براہی میں ادا کیا گیا فتح مکہ آٹھ ہجری میں ہو ا۔اگلے ہی سال حضو ر نبی کریم ﷺ بنفس نفیس صحابہ کرام رضوان اللہ علھیم اجمیعن کی معیت میں حج کیلئے تشریف لائے اور انہوں نے یک اجتماع کے سامنے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جسے خطبہ حجة الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس عظیم الشان یاد گار خطبے کو بجا طور انسانی حقوق کی دستاویز کہا جا سکتا ہے۔اس خطبے کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت اور اعجاز کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے اس میں فخر دو عالم ﷺ نے قبائلی تفاخر و عصبیت ، سماجی اونچ نیچ کے باطل تصوارات اور عرب و عجم کے جھوٹے اختیارات ، مادی شا ن و شوکت اور طبقاتی تصورات اور عرب وعجم کے غیر حقیقی نظریات کو پامال کر دیا ۔ 

Surah Al-Anfal ayat 02-04 Part-01.کیا ہمارے دل ایمان باللہ کی دولت سے ما...

کیا ریاکاری شرک ہے؟-Shortvideo

پیر، 19 جون، 2023

تعمیر خانہ کعبہ اور حج (1)

 

تعمیر خانہ کعبہ اور حج (1)

حج بیت  اللہ کی سعادت ہر مومن کی تمنا ہے وہ خوش نصیب ہیں جو حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں ۔ بیت اللہ عز ت و عظمت کا نشان ہے ۔ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کا مرکز و محور بیت اللہ ہے ۔ یہ پہلا گھر ہے جو زمین پر بنایا گیا جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے ۔

قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

 ’’ بنی نوع انسان کے لیے جو پہلا گھر بنایا گیا وہ مکہ مکرمہ ہے اور تمام جہان والوں کے لیے برکت اور ہدایت کا سر چشمہ ہے ـ‘‘۔

حضر ت آدم علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائے تو کعبہ بنایا گیا اس پر مختلف ادوار گزرے ۔ بالکل اسی مقام پر حضرت ابرا ہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور بیوی حضرت حاجرہ سلام اللہ علیہا کو حکم خدا وندی سے چھوڑ کے جانے لگے تو مالک کائنات کی بارگاہ میں عرض کی جو کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ۔ 

’’ میں نے بسا دیا ہے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں جس میں کوئی کھیتی باڑی نہیں تیرے حرمت والے گھر کے پاس ‘‘۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی خانہ کعبہ کی تعمیر نہیں ہوئی تھی وہ تو بعد میں پر حضرت ابرا ہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح آیا ہے :

’ ’ اور اس وقت کو یاد کرو جب  حضرت ابرا ہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور کہا کہ اے میرے رب ہماری طرف سے قبول فرما بلا شبہ تو ہی سننے والا جاننے والا ہے ‘‘۔

یہ مقدس زمین کا ٹکڑا جسے خدا کے پہلے گھر کے لیے منتخب کیا گیا یہ عزت و تکریم اور شرف اس لیے حاصل ہوا کہ اسے نبی آخر الزماں ﷺ کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہونا تھا جس کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی ۔ کعبہ معظمہ کی تعمیر کی بنیاد ایمان و اخلاص کے خمیر سے اٹھائی گئی۔

 اگرچہ یہ تعمیر انتہائی سادہ اور ظاہری آرائش سے خالی تھی تاہم اللہ پاک نے اس میں کشش رکھ دی اور پوری دنیا سے لوگ جوق در جوق اس کی طرف آنے لگے ۔ نوع انسانی کی ایک مرکز پر جمع کرنے کے لیے کعبہ بننے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ سب جہان والوں کو اللہ تعالی کے گھر آنے کی دعوت دیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’ (اے ابراہیم علیہ السلام ) لوگوں میں حج کا اعلان کر دو لوگ تمہارے پاس پیدل اور دبلے پتلے جانوروں پر دور دراز سے چلتے آئیں گے ‘‘۔


Surah Al-Anfal ayat 01.حقیقی ایمان کا تقاضا کیا ہے

ریاکاری کا مطلب-Shortvideo

اتوار، 18 جون، 2023

شکر


 

شکر 

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : 

” پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر ادا کرو، میری ناشکری نہ کرو “۔ 

بیشک جس نے اللہ تعالی کی طاعت کی اس نے شکر ادا کیا اور جس نے نا فر مانی کی اس نے نا شکری کی۔اللہ تعالی فرماتا ہے : 

” اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہیں زیادہ عطا کروں گا“۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :کہ قیامت کے دن کہا جائے گا ‘حمد کرنے والے کھڑے ہو جائیں۔ لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہو جائے گا ، ان کے لیے جھنڈا لگایا جائے گا اور وہ تمام لوگ جنت میں جائیں گے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ ! حمد کرنے والے کون ہیں ؟

آپ ﷺ نے فرمایا : جو لوگ ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو ہر دکھ سکھ میں اللہ تعالی کا شکر ادا کر تے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شکر رب رحمن کی چادر ہے۔اللہ تعالی نے حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میں لمبی باتوں کے بدلے اپنے دوستوں سے شکر کرنے پر راضی ہو گیا ہوں اور صابرین کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا گھر جنت ہے۔ جب وہ جنت میں جائیں گے تو میں انہیں شکر کرنا سکھاﺅں گا کیو نکہ شکر بہترین بات ہے اور اس میں نعمتیں زیادہ کروں گا اور ان کی مدت دیدار لمبی کرتا جاﺅں گا۔

جب جمع اموال کے سلسلہ میں وحی ربانی کا نزول ہو ا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم کون سا مال اکٹھا کریں؟

 آپ ﷺ نے فرمایا : ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل۔ شکر زبان ، دل اور اعضا ئے بدن سے ہوتا ہے۔ دل کا شکر نیکیوں کا ارادہ کرنا اور مخلوق سے اسے پوشیدہ رکھنا ، زبان کا شکر یہ ہے کہ انہیں عبادت الہی میں مصروف رکھے اور برے کاموں میں استعمال نہ کرے اور زبان کا شکر یہ بھی ہے کہ وہ تقدیر الٰہی پر اپنی رضا کا اظہار کرے۔ آنکھوں کا شکر یہ ہے کہ وہ جس مسلمان کا عیب دیکھیں اسے ڈھانپ لیں۔کانوں کا شکر یہ ہے کہ وہ کسی مسلمان کی برائی سنے تو اسے چھپائے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا کیسے ہو ؟ اس نے کہا اچھا ہو ں۔ آپ ﷺ نے پھر پوچھا کیسے ہو ؟ اس نے کہا اچھا ہوں۔ حتی کہ آپ ﷺ نے تیسری بار پوچھا تو اس شخص نے کہا اچھا ہو ں ، اللہ کی تعریف اور شکر کرتا ہو ں۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں یہی تم سے سننا چاہتا تھا۔


ریاکار کون-Shortvideo

ہفتہ، 17 جون، 2023

Surah Al-araf ayat 205-206 .کیا ہمارا شمار متکبرین کی ٹولی میں تو نہیں

صبر


 

صبر

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : ” ایمان والو! صبراور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو۔بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “۔ 

سورة البقرة میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :” اور خوشخبری دیجیے ان صبر کرنے والوں کو کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ ہی کی ملک میں ہیں اور یقینا اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی نوازشات اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ©“۔

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے : اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدم رہو اورکمر بستہ رہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاﺅ “۔دعا صبر کی برکت: حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے پس وہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں کہے کہ ©”اے میرے اللہ مجھے میری مصیبت میں پناہ دے اور اس کے بدلے مجھے بہتر عطا فرما۔ مگر اللہ تعالی اس کے بدلے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے “۔

 حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ابو سلمہ فوت ہو گئے تو میں نے سوچا کہ ان سے بہتر کون مسلمان ہو گا۔ آپ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے شخص ہیں۔ 

پھر میں نے یہ کلمات ادا کیے تو اللہ تعالی نے ان کے بدلے میں رسو ل اللہ ﷺ عطا فر مائے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندے کو اس کی پسندیدہ دو نعمتوں یعنی دونوں آ نکھوں سے محرومی میں مبتلا کر دوں پس وہ صبر کرے تو اس کے بدلے میں اسے جنت عطا فرما تا ہوں۔حضورﷺ سے ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: صبر اور سخاوت۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایمان کی بنیاد چار ستونوں پر ہے۔ یقین ،صبر ، جہاد اور عدل۔ نیز فرمایا : ایمان کے اندر صبر کا مقام ایسے ہے جیسے جسم میں سر۔اور اس کا جسم نہیں جس کا سر نہیں۔ اور اس کا یمان نہیں جسے صبر نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا :صبر اختیار کرو۔ اور جان لو صبر دو ہیں۔ اور ان میں سے ایک افضل ہے دوسرے سے۔ مصیبتوں میں صبر اچھا ہے۔ اور اس سے افضل ان چیزوں سے صبر کرنا ہے جنہیں اللہ تعالی نے حرام کیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :” صبر کرنے والوں کو ا ن کا اجر بے حساب دیا جائے گا “۔


جمعہ، 16 جون، 2023

Surah Al-araf ayat 204 Part-03 . کیا ہمارے دل اللہ تعالی کی یاد سے غافل ...

راز خودی-Shortvideo

فضائل مکہ مکرمہ

 

  فضائل مکہ مکرمہ

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : ”بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ ہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے بڑا برکت والا اور سارے جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔ اس میں روشن نشانیوں میں مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہو وہ امن میں ہوتا ہے “۔ ”حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ ! زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مسجد الحرام۔ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مسجد اقصی میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ان دونوں (مسجدوں ) کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟آپﷺ نے فرمایا: چالیس سال۔ لیکن تم جہاں وقت ہو جائے اسی جگہ نماز پڑھ لیا کرو اسی میں تمہارے لیے فضیلت ہے“۔ ”حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :کوئی شہر ایسا نہیں جسے دجال نہ روندے سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے۔ ان کے راستوں میں سے ہر شہر پر صف بستہ فرشتے حفاظت کر رہے ہو ں گے “۔©” حضرت عبداللہ بن عدی بن حمرا رضی اللہ تعالی عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کو مقام حزورہ پر کھڑے ہو کر فرماتے ہوئے سنا : اللہ رب العزت کی قسم ! اے مکہ تو اللہ تعالیٰ کی ساری زمین سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو ساری زمین سے زیادہ محبوب ہے اگر مجھے تجھ سے نکل جانے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں ہر گز نہ جاتا “۔
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :جو اپنے گھر میں نماز پڑھے اسے ایک نماز کا اور جو قبیلے میں نماز پڑھے اسے پچیس نمازوں کا۔ اور جو جامع مسجد میں نماز پڑھے اسے پانچ سو نمازوں کا ، جو جامع مسجد اقصی اور میری مسجد (مسجد نبوی ) میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار کا اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے“۔”حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :بیشک اس پتھر (حجر اسود ) کو اللہ تعالی نے ایک زبان اور دو ہونٹ عطا فرمائے ہیں جن سے یہ قیامت کے دن ان لوگوں کے بارے میں گواہی دے گا جنہوں نے حق سمجھ کر اسے بوسہ دیا ہو گا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :رکن یمانی اور مقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے نور کی روشنی بچھا دی ہے اگر اللہ تعالیٰ انہیں نہ بچھاتا تو ان کی روشنی مشرق سے مغرب تک سارا ماحول روشن کر دیتی“۔

Surah al-araf ayat 204 part-02.کیا ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ہی نہیں چاہتے

منگل، 13 جون، 2023

خدمت خلق (2)

 

خدمت خلق (2) 

خدمت خلق کا ایک بڑا ذریعہ غرباءکی مدد کر نا ہے کہ انسان مجبو راور بے بس انسانوں کی جانی اور مالی خدمت کرے اور مشکل حالات میں ان کے کام آئے۔قرآن مجید میں اس بات کو بڑی تاکید سے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ معاشرے میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہے جائیں تو امرا کے مالوں میں ان کا حق ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے : ”اور انکے مال میں سائل اور محروم کا حصہ ہے “۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :”جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا معین حق ہے “۔اللہ تعالی کے پسندیدہ بندوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے مالوں سے غرباءکی مدد کرنا اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں جتنا کسی کو اس کا حق لوٹا۔ وہ غریبوں کو دیتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ وہ ان پر کوئی احسان کر رہے ہیں بلکہ ان کے ذہن میں یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ حق داروں کا حق ادا کر رہے ہیں۔ غرباءاور فقراءکی مدد کرنا مقربین الٰہی کی ایسی فطرت ثانیہ ہے کہ جیسے بھوکا کھانا کھانے سے اطمینان پاتا ہے اور پانی پینے سے پیاسا سکون محسوس کرتا ہے ، اسی طرح مقربین الہی غربا ءکی مدد کر کے سکون محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے مقبول بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان فرماتا ہے : ” وہ خوشحالی اور تنگدستی میں بھی ( راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں “۔ قرآن مجید میں یہ بات بھی بڑی واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ غرباءاور مساکین کی اپنے مال میں سے مدد کرتے ہیں وہ دنیا و آخرت کی رحمتوں کو سمیٹ لیتے ہیں اورجو غریبوں کی مدد سے منہ موڑ لیتا ہے رزق کی برکتیں بھی اس سے منہ موڑ لیتی ہیں اور رب کی رحمتوں سے محروم کر دیاجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : ” جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن ، مخفی اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ اور ان کیلئے نہ خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے “۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا : ”جو کسی مسلمان کی دنیا کی پریشانی دور کرتا ہے ، اللہ تعالی اس کی قیامت کی پریشانی دور فرمائے گا اور جو دنیا میں کسی کیلئے آسانی پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالی اس کیلئے دنیا اورآخرت میں آسانیاں پیدا فرمائے گا۔ جو کسی مسلمان کی دنیا میں پردہ پوشی کرےگا ، اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں اس کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔ اللہ تعالی اس وقت تک کسی بندے کی مدد فرماتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے “۔ یہ ایک حقیت ہے کہ طاقت ، وسائل اور اسباب میں سب انسان برابر نہیں ہیں۔ کوئی امیر ہے اورکوئی غریب ، کوئی مزدور ہے اور کوئی سرمایہ دار اور کوئی آقا ہے اور کوئی غلام۔ یہاں عموماً طاقتور کمزور کے حقوق غصب کرنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :” اور اکثر شرکا ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں “۔

پیر، 12 جون، 2023

Shortvideo - اچھی اور بُری نیت

خدمت خلق (1)

 

خدمت خلق (1)

خدمت خلق سے مراد مخلوق خدا کی خدمت کرنا اور ان سے حسن سلوک کرنا ہے ۔مخلوق خدا کا دائرہ صرف بنی نوع انسان تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت اللہ تعالی کی تمام مخلوق تک پھیلی ہوئی ہے ۔ وہ انسان ہوں ، چرند پرند ہوں یا  پھر حیوانات ہوں ان سب کے ساتھ بھلائی کرنا خدمت خلق کہلاتا ہے۔ اللہ تعالی کی ہر مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم ہے اور اس پر اجرو ثواب کی بشارت ہے ۔ 

صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ہمارے لیے جانوروں کے ساتھ بھلائی کرنے میں بھی کوئی اجر ہے ؟ آ پﷺ نے فرمایاکہ ہر ذی روح کے ساتھ بھلائی کرنے میں اجر ہے ۔ خدمت خلق کے لغوی مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے ، ان کے حقوق ادا کرنے اور ان سے بھلائی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ انسان کو چاہیے کہ انسان اپنے اور غیر ، قوم اور نسل ، رنگ اور زبان یا کسی بھی تفریق کے بغیر تمام انسانوں کے ساتھ بھلائی کرے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو ۔ اسلام تو تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیتا ہے ۔

 اسلام میں خدمت خلق کی اہمیت و افادیت اس قدر زیادہ ہے کہ اسے دین کے دو ستونوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے ۔ دین کی اصل دو چیزیں ہیں ، ایک اللہ تعالی کی تعظیم بجا لانا اور دوسرا اللہ تعالی کی مخلوق سے شفقت اور نرمی سے پیش آنا ۔امام فخرالدین رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تمام عبادات ان دو چیزوں سے باہر نہیں ہیں ۔ قرآن مجید میں ایک جہنمی کا تذکرہ کرتے ہو ئے اللہ تعالی فرماتا ہے :’’ اس شخص کو پکڑو ۔ پھر اسے طوق پہنادو ، پھر اسے جہنم میں داخل کرو ۔ پھر ایک ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں اسے جکڑ دو ۔ یہ شخص اللہ کی عظمت کو نہیں مانتا تھا اور غریبوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا ‘‘۔

 اس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہو تا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک جیسے خالق کائنات پر ایمان نہ لانا جرم ہے ، ایسے ہی غریبوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا بھی جرم ہے ۔ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے : ’’آج اس کا یہاں کوئی ہمدرد نہیں ہے ۔ اور زخموں کے دھوون کے علاوہ اس کے لیے کوئی کھانا نہیں ۔ جسے گناہ گاروں کے علاوہ کوئی نہیں کھائے گاـ‘‘۔

 اللہ تعالی اپنے حقوق کو توبہ سے بھی معاف فرما دیتا ہے لیکن بندوں کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں فرماتا جب تک بندے معاف نہ کریں ۔ خدمت خلق میں کوتاہی انسان کے لیے دونوں جہانوں میں سمِ قاتل ہے ۔ 


اتوار، 11 جون، 2023

اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا


 

 اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا

امت مسلمہ کی ایک باہم ذمہ داری امر باالمعروف و نہی عن المنکر بھی ہے یعنی اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ اس کا دائرہ ہر نیکی اور ہر برائی تک وسیع ہو گا جو عبادات،معاملات ، اخلاقیات اور ہر اچھائی تک پھیلاہوا ہے۔

جس معاشرے میں نیکی کی دعوت نہ دی جائے اور برائی سے نہ روکا جائے اس معاشرہ میں برائی جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ اس لیے امت مسلمہ کا خاصہ یہ ہی بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

 ”تم بہترین امت ہو جو لوگو ں کے واسطے ظاہرکیے گئے ہو۔ بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو “۔

امت مسلمہ خیر پھیلانے والی اور شر سے روکنے والی امت ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک نیکی کرنا ہر انسا ن کا حق ہے اور کوئی بھی برائی کرنا کسی بھی انسان کا حق نہیں ہے۔ کامیاب لوگوں کی یہ ہی علامت بتائی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو خیر کی تلقین کرتے ہیں۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :

 ” وہ ایک دو سرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں “۔ 

امت مسلمہ کا ہر فرد اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق دوسروں کو خیر کی تلقین کرے اور اسے شر سے روکے ، ایسا نہ ہو کہ اس کا بیٹا یا اس کا کوئی ماتحت اس کا حکم نہ مانے تو ناراض ہو لیکن جب جب وہ ہی فرد اللہ کا حکم نہ مانے تو اسے پروا نہ ہو۔

حضرت عبید اللہ بن حصن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جب ایک دوسرے سے ملتے تو جب تک ان میں سے ایک دوسرے کو سورہ عصر پڑھ کر نہیں سنا دیتا تھا تو وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے۔اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر خیر میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور شر میں کبھی بھی کسی سے تعاون نہ کریں بلکہ اس کا ہاتھ روک لیں۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : 

”تم نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ، اللہ سے ڈرتے رہا کرو ، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے “۔

امت مسلمہ کا شرف مشروط ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کیا گیا ہے۔ جو اس فریضہ کو سر انجام دے گا وہ خیر امت کے شرف کا مستحق ہو گا ورنہ اس مقام رفیع کو کھو بیٹھے گا۔


ہفتہ، 10 جون، 2023

Shortvideo - جنت جانے کا آسان طریقہ

امت ِ مسلمہ کا خاصہ

 

 امت ِ مسلمہ کا خاصہ

 اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا

امت مسلمہ کی ایک باہم ذمہ داری امر باالمعروف و نہی عن المنکر بھی ہے یعنی اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ اس کا دائرہ ہر نیکی اور ہر برائی تک وسیع ہو گا جو عبادات،معاملات ، اخلاقیات اور ہر اچھائی تک پھیلاہوا ہے۔

جس معاشرے میں نیکی کی دعوت نہ دی جائے اور برائی سے نہ روکا جائے اس معاشرہ میں برائی جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ اس لیے امت مسلمہ کا خاصہ یہ ہی بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : 

”تم بہترین امت ہو جو لوگو ں کے واسطے ظاہرکیے گئے ہو۔ بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو “۔

امت مسلمہ خیر پھیلانے والی اور شر سے روکنے والی امت ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک نیکی کرنا ہر انسا ن کا حق ہے اور کوئی بھی برائی کرنا کسی بھی انسان کا حق نہیں ہے۔ کامیاب لوگوں کی یہ ہی علامت بتائی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو خیر کی تلقین کرتے ہیں۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :

 ” وہ ایک دو سرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں“۔

 امت مسلمہ کا ہر فرد اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق دوسروں کو خیر کی تلقین کرے اور اسے شر سے روکے ، ایسا نہ ہو کہ اس کا بیٹا یا اس کا کوئی ماتحت اس کا حکم نہ مانے تو ناراض ہو لیکن جب جب وہ ہی فرد اللہ کا حکم نہ مانے تو اسے پروا نہ ہو۔

حضرت عبید اللہ بن حصن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جب ایک دوسرے سے ملتے تو جب تک ان میں سے ایک دوسرے کو سورہ عصر پڑھ کر نہیں سنا دیتا تھا تو وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے۔اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر خیر میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور شر میں کبھی بھی کسی سے تعاون نہ کریں بلکہ اس کا ہاتھ روک لیں۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : 

”تم نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ، اللہ سے ڈرتے رہا کرو ، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے “۔امت مسلمہ کا شرف مشروط ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کیا گیا ہے۔ جو اس فریضہ کو سر انجام دے گا وہ خیر امت کے شرف کا مستحق ہو گا ورنہ اس مقام رفیع کو کھو بیٹھے گا۔

جمعہ، 9 جون، 2023

Shortvideo - تکبر کیا ہے؟

صدقہ کی فضیلت

 

 صدقہ کی فضیلت

 قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

”ان کے مالوں میں سے صدقہ وصول کیجیے تا کہ آپ انہیں اس کے ذریعے پاک کریں اور با برکت فرمائیں “۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : 

”اور جو تم آگے بھیجو گے اپنے لیے تو اسے اللہ کے پاس یہی بہتر اور اس کا اجر بڑا پاﺅ گے “۔ 

یعنی اس کا ثواب قیامت میں اس سے افضل پاﺅ گے جو تم نے دیا اور اس سے اجر میں اس سے زیادہ پاﺅ جو تم نے پیچھے چھوڑا اور آگے نہ بھیجا۔ایک اور جگہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے ”: بیشک اللہ تعالی سود کو مٹا تا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے “۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پسند ہے ؟ عرض کی گئی ۔ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم میں سے نہیں ہے کوئی مگر اسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ پسند ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا بیشک اس کا مال وہ ہے جو اس نے آگے بھیجا ۔ اور اس وارث کا مال وہ جو اس نے پیچھے چھوڑا ۔آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی صدقہ مال کو کم نہیں کرتا ۔ اور اللہ تعالی کسی بندے کو معاف کرنے کی وجہ سے زیادہ نہیں کرتا مگر عزت میں ۔ اور کوئی شخص اللہ تعالی کی تواضع نہیں کرتا مگر اللہ عزوجل اسے اونچا کرتا ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : جس مسلمان نے کسی مسلمان کو برہنگی کی وجہ سے کپڑا پہنایا اللہ تعا لی اسے جنتی لباس پہنائے گا ۔ جس مسلمان نے بھوک کی وجہ سے کسی مسلما ن کو کھانا کھلایا اللہ تعالی اسے جنتی پھل کھلائے گا ۔ اور جس مسلمان نے کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلایا اللہ تعالی اسے رحیق مختوم سے پلائے گا ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صدقہ خطا کو مٹا دیتا ہے۔ جس طرح کہ پانی آگ کو بھجا دیتا ہے ۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا : ہر نیکی صدقہ ہے ۔ اور ایک نیکی یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کو مسکراتے چہرے سے ملے اور یہ کہ تو اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی ڈالے 

رسول اللہ ﷺ سے پو چھا گیا کہ صدقہ کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا دونادو گنا اور اللہ تعالی کے ہاں اس سے بھی زیادہ ہے پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : 

ترجمہ :©©” کون شخص ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے پس وہ دوگنا کر دے اس کو اس کے واسطے بہت دوگنا “۔ 

آپ ﷺ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ کون سا صدقہ افضل ہے ؟ 

آپ ﷺ نے فرمایا : فقیر کو پوشیدہ دینا اور کم مال والے کا کوشش سے خرچ کرنا ۔



بدھ، 7 جون، 2023

حقیقت دین اور اصلاح معاشرہ (1)


 

حقیقت دین اور اصلاح معاشرہ (1)

قرآن کریم ایسے تمام معاملات کو جو معاشرتی اصلاح کا سبب بنتے ہیں ، انہیں دین سے جدا قرار نہیں دیتا بلکہ اللہ تعالی کی محبت کا مظہر اور حقیقت دین کا عکس تمام قرار دیتا ہے۔ اس حقیت کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ ان امور کا تارک دراصل روح ایمان سے بہرہ ہے۔ نیکی کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ : ’’نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو،بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالی ، یوم آخرت ، فرشتوں ، کتابوں اور تمام انبیا ء پر ایمان لائے اور اللہ تعالی کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ،مانگنے والوں اور غلامی سے آزاد ہونے والوں کو دے ، نماز قائم کرے اور زکوۃ ادا کرے اور یہی لوگ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں۔ سختی اور تکلیف میں اور حالت جنگ میں ڈٹ جانیوالے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقوی والے ہے ‘‘۔ اس آیت کریمہ میں دو چیزوں کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک ایمان کی پختگی کی ہدایت اور دوسرا حقوق العباد کی ادائیگی اور مخلوق خدا سے احسان کا معاملہ کرنا۔ دراصل یہ دونوں چیزیں ہی معاشرے سے بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ایمان میں پختگی انسان کو صابر ، شاکر اور مثبت سوچ کا حامل بناتی ہے اور اللہ تعالی کے بندوں سے بھلائی معاشرے میں محبت و الفت کو فروغ دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان کسی کے ساتھ نیکی اور احسان کا معاملہ کر رہا ہو گا تو وہ اس کی جان ، مال اور عزت کی طرف بری نظر سے نہیں دیکھے گا اور اسی چیز کا عملی مظاہرہ اصلاح معاشرہ کی صورت میں ہو گا۔
قرآن مجید تو ایسے امور کو اصل دین اور مغز ایمان قرار دیتا ہے جس کا نتیجہ معاشرتی بگاڑ کا خاتمہ ہے۔ اگرا مراء ، غربا کا حق نکالتے رہیں تو معاشرے میں کوئی انسان بھوکا نہ سوئے اور کسی غریب کا بچہ صرف اس لیے زندگی کی بازی نہ ہارے کہ اس کے پاس دوائی کے لیے پیسے نہیں۔ اس لیے قرآن مجید ایمان بااللہ کے ساتھ ہی ساتھ غربا پروری کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے ایک مکالمے کا ذکر ہے۔ ترجمہ :’’جنتی دوزخیوں سے پوچھیں گے تمہیں کون سی چیز دوزخ میں لے آئی۔ وہ کہیں گے ہم نمازیں نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے۔ اور ہم فضول بحثیں کرنے والوں کے ساتھ فضول بحثیں کیا کرتے تھے‘‘۔یہاں نماز کے ترک کرنے کے گناہ کے بعد جن گناہوں کا ذکر کیا گیا وہ غرباکے حقوق کی عدم ادائیگی اور بیہودہ گوئی کے گناہ ہیں۔ ان جرائم کا خاتمہ ہی معاشرے سے فساد کو ختم کرتا ہے۔

Shortvideo - انسان کی کامیابی کا راز

Shortvideo - انسان اپنی معراج کو کیسے حاصل کر سکتا ہے؟

منگل، 6 جون، 2023

علم کی فضیلت

 

 علم کی فضیلت

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اللہ نے گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور فرشتوں اور علم والوں نے (یہ گواہی دی ) انصاف سے قائم ہو کر۔اللہ تعالی نے پہلے اپنی شہادت کا ذکر کیا ، پھر فرشتوں کی شہادت کا اور پھر اہل علم کی شہادت کا اور یہ اہل علم کی بڑی عزت افزائی ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے : تم میں سے جو کامل ایمان والے اور علم والے ہیں ، اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے گا۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : کیا جو لوگ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے برابر ہیں۔

ارشاد ربانی ہے کہ آپﷺ فرما دیجیے میرے اور تمہارے درمیان کافی گواہ ،اللہ ہے اور وہ جس کے پاس (آسمانی ) کتاب کا علم ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے : اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی اور جن چیزوں کا آپ کو (پہلے ) سے علم نہیں تھا ان کا علم دے دیا ، اور یہ آپ پر اللہ کا عظیم فضل ہے۔

ارشاد فرمایا : دعا کیجیے اے میرے رب ! میرے علم میں اضافہ فرما۔احادیث مبارکہ میں بھی علم کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا: میں علم کا شہر ہو ں اور علی اس کا دروازہ ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ جنت میں عام مسلمانوں کی نسبت علماءسات سو درجہ بلند ہوں گے۔حضر ت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے بنی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالی جس شخص کے لیے خیر کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص علم ڈھونڈنے کے لیے کسی راستہ پر چلا ، اللہ تعالی اس کے لیے جنت کی طرف راستہ کو آسان کر دیتا ہے۔ 

حضرت ابو الدرداءرضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جو شخص علم کی طلب میں کسی راستہ پر گیا اللہ تعالی جنت کے راستوں کو اس کے لیے آسان کر دیتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لیے اپنے پر جھکاتے ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی تمام مخلوق طالب علم کی مغفرت کے لیے دعا کرتی ہیں حتی کہ پانی کی مچھلیاں بھی اور بے شک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بے شک علماءانبیا ءکے وارث ہیں اور انبیاءکسی کو دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے ، وہ علم کا وارث بناتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے عظیم حصہ کو حاصل کیا۔