جمعہ، 31 دسمبر، 2021

Shortclip - مومنانہ کردار کیا ہوتا ہے؟

Darsulquran Para-06 - کیا ہماری مغفرت ممکن ہے

قرآن اور ذکر

 

قرآن اور ذکر 

٭اے ایمان والو! یاد کرو اللہ تعالیٰ کو کثر ت سے یاد کرو اور صبح شام اس کی پاکی بیان کرو۔(احزاب : ۴۰/۴۱)٭اور کثرت سے اپنے پروردگار کو یاد کرو اور صبح شام اس کی پاکی بیان کرو۔(الاعمران ۔۴۱)

٭جو لوگ ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں،دھیان سے سنو!اللہ ہی کے ذکر  سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔(الرعد ۔۳۸)

٭وہ لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ،کھڑے ہوئے ، بیٹھے ہوئے اور اپنے پہلوئوں پر ۔(الاعمران ۔۱۹۱)

٭اور اپنے رب کے نام کو صبح وشام یادکرتے رہا کرو۔(دھر ۔۲۸)٭تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔(البقرۃ)٭اور کثر ت سے اللہ کو یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ،اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کررکھا ہے۔(الاحزاب ۔۳۵)

٭اور اپنے رب کے نام کو یادکرتے رہو ،اور سب سے کٹ کر اسی کے ہورہو۔(مزمل۔۸)٭پھر جب نماز پوری ہوچکے ،تو زمین میں پھیل جائواور اللہ کے فضل کو تلاش کرو،اور کثر ت سے اللہ کاذکر کرتے رہو تاکہ تم فلاح(دونوں جہانوں کی کامیابی) پاجائو۔(سورئہ جمعہ) ٭اور( اس شخص سے زیادہ) کون ظالم ہے جو اللہ کی مسجدوں سے روک دے کہ اُن میں اسکے نام کا ذکر کیاجائے۔ (البقرۃ۔ ۱۱۴) ٭ان گھروں میں (جن کے متعلق)اللہ نے حکم دیا ہے کہ بلند کیے جائیں اور ان میں اللہ کا نام لیا جائے۔ (نور۔۳۶)٭اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے ۔ (منافقون ۔۹)٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’اللہ کو کثرت سے یادکرنے والوں  سے مراد یہ ہے کہ وہ نمازوں کے بعد ،صبح وشام ، نیند کی بیداری کے وقت ،اپنے گھروں میں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ بندہ کثرت سے ذکر کرنے والوں میں اُس وقت شمار ہوگا جب اُٹھتے، بیٹھتے ،لیٹتے ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرے ۔امام نووی فرماتے ہیں کہ تمام علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ دل اورزبان کا ذکرہے اور یہ بے وضو ،جنبی ،حیض ونفاس والی عورت کے لیے بھی جائز ہے۔ اور اس ذکر سے تسبیح وتہلیل ،تحمید ،تکبیر، درودوسلام اور دعاء مراد ہے۔

شیخ عبدالقادر عیسیٰ فرماتے ہیں ذکر سے غفلت کی وجہ سے بندے پر غم وحزن طاری ہوتاہے ۔اگر وہ اللہ کے ذکر میں مشغول ہوجائے تو وہ خوشی محسوس کرتا ہے اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں۔کیونکہ ذکر خوشی اورمسرت کی کلید ہے۔جس طرح غفلت غم وحزن کی کلید ہے۔

جمعرات، 30 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1943 ( Surah As-Saff Ayat 06 ) درس قرآن سُوۡ...

Darsulquran Para-06 - کیا ہم نے اللہ تعالی سے کیے ہوئے وعدے توڑ دیے ہیں

Shortclip - مومن کا حقیقی دوست وکار سازکون ہے؟

ذکر

 

ذکر

قرآن مقدس اوراحادیث مبارکہ میں لفظِ ’’ذکر‘‘ متعدد معانی میں استعمال ہواہے۔

ارشادرباّنی ہے :۔

(۱)بے شک ہم ہی نے اُتار اس ذکر (قرآن مجید ) کو اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ (حجر۔۹)

(۲)اے ایمان والو!جب تمہیں جمعہ کے دن نماز کی طرف بلایا جائے تو اللہ کے ذکر (نماز)کی طرف دوڑ کر جائو۔(جمعہ۔۹)

(۳)پس ! اہل ذکر (علم) سے استفسار کرو،اگر تم (خود حقیقتِ حال کو )نہیں جانتے۔(انبیاء ۔۷)

(۴)لیکن اکثر عبادات میں لفظِ ذکر سے تسبیح وتحلیل ،تکبیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر درود وسلام مراد لیا جاتا ہے۔جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادہے :۔ 

(i)جب تم نماز ادا کر چکوتو اللہ کا ذکر کرو،کھڑے ہوئے ، بیٹھے ہوئے اوراپنے پہلوئوں پر ۔ (النسائ۔ ۱۰۳)(ii)اے ایما ن والو!جب تم کسی لشکر سے جنگ آزما ہوجائو تو ثابت قدم رہواور کثرت سے اللہ کا ذکر کرو۔ (انفال۔۴۵)(iii)اور اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرواور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔ (مزمل۔۸)

٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے :میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں ، جب وہ میرا ذکر کرتا ہے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر کے لیے حرکت کرتے ہیں ‘‘۔(ابن ماجہ،مسندامام احمد بن حنبل)٭حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوااور عرض کیا،یارسول اللہ ! اسلام کے احکام کثیر ہیں ،کوئی ایسی چیز بتایئے کہ جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر پاک سے تر رہے ‘‘۔(ترمذی)

٭شیخ عبدالقادر عیسیٰ رقم طراز ہیں،بندہ جب تک غفلت سے بیدار نہ ہو اس کے لیے ان منازل کا حصول ممکن نہیں ،جس کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :۔

’’اور نہیں پیدا کیا میں نے جن وانس کو ،مگر اس لیے وہ میری عبادت کریں‘‘۔(الذاریات۔۵۶)

انسان ذکر کے ذریعہ ہی غفلت سے بیدار ہوتا ہے ، غفلت دل کی نیند یا موت کا نام ہے۔تمام احوال ومقامات ذکر ہی کا ثمرہ ہیں۔ذکر کے شجر ہی سے تمام ثمرات کا حصول ممکن ہے اور یہ شجر جتنا بڑا ہوگا ،اس کی جڑیں جتنی مضبوط ہوں گی اتنا ہی ثمر بار ہوگا۔


بدھ، 29 دسمبر، 2021

Darsulquran Para-06 - کیا ہم اپنے آپ کو بھول کر زندگی گزار رہے ہیں

Shortclip - کیا انسان انجانے میں ہدایت سے محروم ہوسکتا ہے؟

ایک مبارک ورد

 

ایک مبارک ورد

محمد بن اسحاق روایت کرتے ہیں :صحابی رسول حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ایک موقع پر کفار کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے ۔ان کے والد حضرت مالک اشجعی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا بیٹا عوف گرفتار ہوگیا ہے۔اس کی رہائی کے لیے دعاء فرمائیے ،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :اس کے پاس کسی طرح یہ پیغام پہنچادو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اسے یہ فرمارہے ہیں کہ وہ لا حول ولاقوۃ الا باللہ کثرت سے پڑھے ۔

چنانچہ ایک قاصد کے ذریعے حضرت عوف کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام پہنچا دیا گیا ،حضرت عوف بن مالک نے کثر ت سے لا حول ولاقوہ الا باللہ  کا ورد کرنا شروع کردیا ۔کافر وں نے انھیں تانت (کی رسی )سے کَس کر باندھا ہوا تھا۔ایک دن وہ تانت ٹوٹ کر گر گئی ۔حضرت عوف قید سے باہر نکل آئے ،باہر آکر انہوں نے دیکھا کہ ان لوگوں کی ایک اونٹنی وہاں موجود ہے آپ اس پر سوار ہوگئے ذرا آگے بڑھے تودیکھا کہ کافروں کے بہت سے جانور ایک جگہ جمع ہیں ،انہوں نے ان جانوروں کو ایک آواز لگائی تو وہ جانور بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔وہ بڑے حفظ وامان سے اپنے گھر پہنچ گئے اور گھر کے دروازے پہ جاکر آواز لگائی ،ان کے والد کہنے لگے رب کعبہ کی قسم ! یہ تو ہمارا بیٹا عوف ہے ۔ ان کی والدہ نے حیرانی سے کہا یہ عوف کیسے ہوسکتا ہے وہ تو تانت کی عزیت میں گرفتار ہے ۔بہر حال والد اور خادم دور کر دروازے پر گئے تو دیکھا کہ واقعی عوف موجود ہے ۔اور اُن کے ساتھ اُونٹوں کا ایک گلہ بھی موجود ہے ۔حضرت عوف نے اپنے گھر والوں کو سارا واقعہ کہہ سنایا ۔

ان کے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورسارا ماجراآں حضور کے گوش گزار کیا ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اب یہ اونٹ تمہارے ہیں ،تم انھیں بھی اپنے جانوروں کی طرح استعمال میں لائو ۔ابن کثیر اور ابن جریرکہتے ہیں اس موقع پر سورئہ طلاق کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی :

’’جومحض اللہ سے ڈر تا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کے لیے( مصیبتوں سے) نجات کی صورت نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتااور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘


منگل، 28 دسمبر، 2021

حصولِ برکت

 

حصولِ برکت

٭ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ، ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں سے بھی بڑا گناہ بتاؤں؟ پھر فرمایا: جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری)٭ حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺنے فرمایا: یقیناً بڑے گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو لعنت کرے ۔ عرض کی گئی: یا رسول اللہ! ایک انسان اپنے والدین کو لعنت کیسے کر سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا:ایک انسان کسی دوسرے کے باپ کو گالی دے اور دوسرا واپس پہلے شخص کے باپ کو گالی دے۔ اسی طرح ایک انسان کسی دوسرے کی ماں کو گالی دے اور دوسرا واپس پہلے شخص کی ماں کو گالی دے۔ (بخاری) یعنی اگر پہلا شخص گالیوں کی ابتداء نہ کرتاتو دوسرا شخص پہلے کے والدین کو گالیاں نہ دیتا۔ لہٰذا یہ ایسا ہی ہے جیسے پہلے شخص نے خود ہی اپنے والدین کو گالیاں دی ہیں کیونکہ وہی اس کا سبب بنا ہے ۔ اس میں اسلام کی ایک اور عظمت بھی ملاحظہ کریں کہ اسلام کسی کے والدین کو گالیاں دینا بھی اتنا ہی برا سمجھتاہے جتنا اپنے والدین کو گالیاں دینا ہے۔٭ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا : کسی کے والدین میں سے ایک یا دونوں اس حال میں فوت ہوجائیں کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان تھا۔اگر وہ اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکو کار اور اپنے والدین کا فرماں بردار لکھ دے گا۔
٭ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺنے فرمایا :جو نیکو کار بیٹا اپنے والدین کو رحمت بھری نظر سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے ۔لوگوں نے عرض کیا :اگر وہ دن میں سو مرتبہ اسی طرح نظر کرے۔ آپ نے فرمایا : ہاں (ہر نظر کے بدلے میں یہی ثواب ملتا رہے گا کیونکہ)اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے اور ہر قسم کے نقص و عجز سے پاک ہے۔(مشکوۃ المصابیح)  ٭حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺنے فرمایا : اپنے والدین کے قریب تیرا چار پائی پر اس حال میں سوناکہ تو ان سے خوش ہو اور وہ تجھ سے خوش ہوں تو یہ تیرے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں تلوار کے جہاد سے بھی افضل ہے۔٭ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کو راضی کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو راضی کیا اور جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا۔ (کنزالاعمال)

Darsulquran Para-06 - کیا ہمارے تمام نیک اعمال ضائع ہو رہے ہیں

Shortclip - توبہ کن لوگوں کی قبول ہوتی؟

پیر، 27 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1940 ( Surah As-Saff Ayat 05 Part-1 ) درس قر...

Shortclip - کیا گناہ سے توبہ کے بعد مکمل معافی مل سکتی ہے؟

پاکیزگی


 

پاکیزگی

٭حضرت ربیعہ جرشی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: دین حق پر استقامت اختیار کرو، اگر تم نے استقامت اختیار کرلی تو یہ بہت ہی عمدہ بات ہے اوروضو پر ہمیشگی اختیار کرو،بے شک تمہارے اعمال میں بہترین عمل نماز ہے اور زمین پر بدعملی کرنے سے اجتناب کروکہ یہ تمہاری اصل ہے کوئی شخص ایسا نہیں جو اس پر اچھا یا برا عمل کرے مگر یہ زمین اس کی خبر دے گی ۔(الترغیب والترہیب، طبرانی)

٭حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :استقامت اختیار کرو، تم اس کے اجر کا شمار نہیں کرسکتے اورجان لو کہ تمہارے اعمال میں بہترین عمل نماز ہے اوروضو پر ہمیشگی سوائے مومن کے اورکوئی نہیں اختیار کرسکتا ۔(ابن ماجہ ، حاکم)

امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری اورمسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

 ٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اگرمیری امت پر دشوار نہ ہوتا تومیں ہر نماز کے وقت نئے وضواورہر وضوکے ساتھ مسواک کا حکم دیتا ۔(امام احمد بن حنبل)

٭حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صبح جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اورفرمایا :اے بلال!تم جنت کے داخلے میں کس وجہ سے سبقت لے گئے ، رات کو میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے آگے تمہارے قدموں کی آواز سنی ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے کبھی دورکعت نفل پڑھے بغیر اذان نہیں دی اورجب بھی میں بے وضو ہوا اس کے فوراً بعد وضوکرلیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہی وجہ ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ)

٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس نے وضو پر وضو کیا اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی گئیں ۔(ابودائود ، ترمذی ، ابن ماجہ)

٭ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسواک منہ کو پاک صاف کرنے والی اوررب تعالیٰ کو راضی کرنے کا سبب ہے ۔(نسائی، ابن خزیمہ)

٭حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :چارباتیں مرسلین کی سنتوں میں سے ہیں ، ختنہ، خوشبولگانا ، مسواک اورنکاح ۔(ترمذی)


اتوار، 26 دسمبر، 2021

Darsulquran Para-06 - کیا ہم نے دین اسلام کو قبول کرلیا ہے

لغزشِ کلام وخرام

 

لغزشِ کلام وخرام

انسان کی زبان میں دوآفتیں لازمی ہیں اوردونوں میں سے کسی ایک سے بھی رستگاری ناممکن ہے۔ اوریہ دونوں آفتیں اپنی جگہ بہت خطرناک ہیں ۔ایک بات کرنے کی آفت‘اوردوسری خاموشی کی آفت اوریہ دونوں ایک دوسرے سے بری ہیں۔ اگر کوئی زبان حق بات سے خاموشی اختیار کرتی ہے‘تو انسان کو گونگا شیطان بننا پڑتا ہے اور اللہ کانا فرمان بندہ بن جاتا ہے‘ریا کارہوجاتا ہے۔ اورباطل ‘بیہودہ بات کرنیوالا ناطق شیطان ہے۔ اللہ کا نافرمان ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ اللہ کی زیادہ ترمخلوق بولنے اورخاموشی کے بارے میں سیدھی راہ سے ہٹ چکی ہے۔صراطِ مستقیم یہی ہے کہ درمیانی راہ اختیار کی جائے۔  انسان اپنی زبان کو ناروابات سے روک لے۔اوروہی بات کرے جس سے آخرت کا فائدہ ہو۔ کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے آخرت خراب ہو۔  کیونکہ اللہ کے بہت سے بندے قیامت کے دن اللہ کے حضور پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر حاضر ہونگے لیکن انکی بے لگامی انکی نیکیوں کے ان پہاڑوں کو منہدم کردیگی۔اور بہت سے بندے گناہوں کے پہاڑ لے کر حاضر ہونگے لیکن انکی زبانیں اکثر ذکر باری تعالیٰ میں مشغول رہتی تھیں۔ تو گناہوں کے یہ تمام پہاڑ منہدم ہوکر رہ جائینگے۔خطوات یعنی قدم ‘چلنے پھر نے ‘اٹھانے اوررکھنے کی حفاظت یہ ہے کہ بندہ اسی جگہ کی طرف قدم اٹھائے جہاں اسے عنداللہ ثواب کی امید ہو۔ اگر قدم اٹھانے میں ثواب نہیں دیکھتا یا مزید ثواب کی امید نہیں رکھتا تو اس کیلئے یہی بہتر ہے کہ ایک جگہ بیٹھا رہے۔ بندے کیلئے یہ بہت ممکن ہے کہ اپنے مباح  اورجائز قدم کو بھی تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنالے۔ اوراس کی صورت یہ ہے کہ ہرہر قدم کیلئے جناب باری میں ثواب وتقرب کی نیت کرے۔ اس طرح بندہ کا ہرہر قدم تقرب الٰہی کا موجب ہوگا۔چونکہ بندے کی اکثر وبیشتر لغزشیں قدم اورزبان سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان دونوں کو ایک ہی ساتھ بیان فرماتا ہے۔’’رحمن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔اور جب ان سے جاہل بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہہ دیتے ہیں (یعنی اعراض کرلیتے ہیں)‘‘ (فرقان: ۲۵/۶۳) اس آیت میں نیک بندوں کی شان اورصفت یہ بیان کی گئی کہ وہ کلام وگفتگو اورخطوات قدم میں مستقیم اورراست رو ہوکر عمل کرتے ہیں۔ آیت میں یہ دونوں چیزیں اسی طرح ایک ساتھ بیان کی گئی ہیں جس طرح لحظات اور خطرات کو اس آیت میں ایک ساتھ پیش کیاگیا ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والی آنکھوں کو اورسینوں کی پوشیدہ باتوں کو خوب جانتا ہے‘‘۔ (غافر:۱۹/۴۰ (الجواب الکافی علامہ ابن القیم)

ہفتہ، 25 دسمبر، 2021

Darsulquran Para-06 - اللہ تعالی کی نشانیوں کی تعظیم لازم

Shortclip - اللہ تعالیٰ معبود کیسے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1937 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 13 ) درس قرآن...

ہمیشہ اچھی بات کہو

 

ہمیشہ اچھی بات کہو

٭ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کی ہر بات اس پر بوجھ ہے سود مند نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ اچھی بات کا حکم کرے ‘اور بری بات سے روکے‘اور اللہ عزوجل کا ذکر کرے۔‘‘(ترمذی اس حدیث کو حسن کہتے ہیں)

٭ ’’بندہ جب صبح بات کرتا ہے تو اس کے تما م اعضاء اس کی زبان سے پناہ مانگتے ہیں۔ کہتے ہیں:تواللہ سے ڈر انجام تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو سیدھی ہے تو ہم سیدھے ہیں اورتو ٹیڑھی ہے تو ہم ٹیڑھے ہیں۔‘‘(ترمذی)

بہت سے بزرگان سلف کا یہ مومول تھا ۔کہ وہ اپنی سردی گرمی کے دنوں کے کاموں کا حساب رکھا کرتے تھے کہ کتنے نیک کام ہم سے ہوئے اورکتنے برے ۔بعض اکابر اہل علم کو ان کے انتقال کے بعد خواب میں دیکھا گیا اورا ن سے پوچھا گیا کہ کیامعاملہ پیش آیا ؟ انہوں نے جواب دیا: صرف ایک بات کی وجہ سے میں معلق ہوں۔ میرے منہ سے نکل گیا کہ بارش کی ضرورت کیسے تھی؟اس پر مجھے کہاگیا ۔کیا سمجھ کر تم ایسا بولے؟میرے بندوں کی مصلحتوں کو میں خود ہی اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ 

صحابہ میں سے کسی نے اپنے خادم سے کہا: دستر خوان لائو کچھ اس کے ساتھ بھی کھیل کرلیں۔ اس کے بعد ہی کہنے لگے:استغفراللہ میں بغیرنکیل اورلگام کے کبھی بات نہیں کرتا۔ آ ج کیا ہوگیا جو ایسا ہوگا؟ میری زبان بے نکیل اوربے زبان ہوگئی ۔پھر کہنے لگے : انسان کے اعضاء کی حرکتوں میں سب سے بری اورضرررساں حرکت زبان کی حرکت ہے۔

علماء سلف وخلف کا اس بارے میں بہت اختلاف ہے کہ آیا انسان کی تمام باتیں لکھی جاتی ہیں؟یا صرف خیر وشر کی باتیں لکھی جاتی ہیں ۔ایک گروہ کہتا ہے:تمام باتیں لکھی جاتی ہیں ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے: صرف خیروشر کی باتیں لکھی جاتی ہیں۔ بظاہر تو پہلا ہی قول صحیح ہے۔ بعض سلف کا کہنا ہے کہ انسان کا ہر لفظ اس پر بوجھ ہے۔ اس کیلئے سود مند نہیں ہے۔سوائے ذکر باری تعالیٰ کے یا جو ذکر باری تعالیٰ کے قریب قریب ہو۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اکثر اپنی زبان پکڑتے اورکہتے : ’’اس نے مجھے بہت سی مصیبتوں میں ڈالا ہے۔‘‘یہ ظاہر ہے کہ گفتگو اور بات چیت تمہاری اسیر ہے۔ لیکن جب یہ منہ سے نکل جائے تو تم اس کے اسیربن جاتے ہو۔ اوریہ بھی ظاہر ہے کہ آدمی کی زبان کے ساتھ ہی اللہ ہوتا ہے۔ ’’انسان جو بھی بات زبان سے نکالتا ہے۔ اس کے پاس ایک نگہبان تیار رہتا ہے۔‘‘(الجواب الکافی علامہ ابن القیم)


جمعہ، 24 دسمبر، 2021

Darsulquran Para-06 - کیا ہم وعدہ خلاف قوم ہیں

Shortclip - اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود کیسے بنایا جاتا ہے؟

فضول گوہی سے پرہیز

 

فضول گوہی سے پرہیز

٭سیدنا بلا ل بن حارث مزنی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی آدمی جب کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جو اللہ کی مرضی کی ہو اور اس کو خود اللہ کی اس رضا ء مندی کا گمان تک نہیں ہو کہ اتنی رضاء مندی حاصل ہوگی‘تو اللہ تعالیٰ اس کو اس وجہ سے قیامت تک کے لیے اس کے حق میں اپنی رضاء مندی لکھ دیتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی جب کبھی اللہ کی خفگی وناراضی کی ایسی بات بول دیتا ہے جس کی اسے خبر نہین ہوتی کہ وہ کہاں پہنچے گی ا س کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ قیامت تک کے لیے اس کے حق میں اپنی خفگی لکھ دیتا ہے۔‘‘(ترمذی)

سیدنا علقمہ کہاکرتے تھے:بلال بن حارث کی اس حدیث نے مجھے کتنی ہی باتوں سے روک دیا ہے۔

٭سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کسی صحابی کا انتقال ہوگیا کسی نے کہا ’’تمہیں جنت کی بشارت ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تمہیں کیاخبر ؟ شاید اس نے لایعنی بات کی ہو۔ یا جس میں سے اسے کچھ کمی نہ پڑتی ہو اس میں سے اس نے بخل کیاہو۔‘‘ (جامع ترمذی)

اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہاہے۔دوسرے الفاظ میں یہ حدیث اس طرح مروی ہے کہ غزوئہ احد میں ایک نوجوان شہید ہو گیا ۔ اس کی لاش اس حالت میں ملی کہ اسکے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر بندھا ہوا تھا۔ اس کی ماں نے اسے دیکھا اور اسکے منہ سے مٹی پونچھنے لگی۔ اور کہا: بیٹا! تمہیں جنت مبارک ہو۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تمہیں اس کا حال کیا معلوم؟شاید اس نے کوئی غیر ضروری بات کی ہو۔ یا جس سے اسے نقصان نہیں تھا اس سے ہاتھ روک دیا ہو۔‘‘٭حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع حدیث مروی ہے آپ بیان کرتے ہیں :’’جو آدمی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ (بخاری) ٭ ’’جو آدمی اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔جب کسی بات کی گواہی دے تو بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ (مسلم)امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح اسناد سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’کسی آدمی کے اچھے مسلمان ہونیکی ایک صورت یہ ہے کہ لایعنی باتیں ترک کر دے۔‘‘

سیدنا سفیان بن عبداللہ الثقفی بیان کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میں نے عرض کیا:یارسول اللہ !اسلام کے بارے میں ایسی بات مجھے بتلادیجئے کہ آپ کے بعد کسی سے میں نہ پوچھوں ۔آپ نے فرمایا:’’کہومیں اللہ پر ایمان لایا پھر تم اس پر مستقیم رہو۔‘‘میں نے عرض کیا:آپ کو میری نسبت کس چیز کا خوف ہے؟آپ نے اپنی زبان پکڑلی اورفرمایا’’ھذا ‘‘اس زبان کا خوف ہے۔(الجواب الکافی علامہ ابن القیم)

جمعرات، 23 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1936 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 12 Part-5 ) د...

Darsulquran para-06 - کیا ہم اللہ تعالی کی ہدایت سے جڑ گئے ہیں

Shortclip - شرک کا مطلب کیا ہے؟

احتیاطِ کلام

 

احتیاطِ کلام

یہ کچھ عجیب بات ہے کہ انسان حرام کھانے سے ‘ظلم وبدکاری سے‘چوری اورشراب خوری سے اپنے آپکو بچا لیتا ہے غیر محرم عورت پر نگاہ ڈالنے سے باآسانی اپنے آپ کو بچالیتا ہے اورگناہ سے بازرہتا ہے ۔لیکن افسوس کہ زبان کی حرکت سے اپنے کو نہیں بچاسکتا ۔بسا اوقات تم دیکھو گے کہ ایک دیندار آدمی سے جو زہدوعبادت میں بلند پایہ رکھتا ہے‘اس کی دینداری کاگھر گھر چرچاہے جس راستہ گزرتا ہے لوگ اشارہ کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ تشریف لے جارہے ہیں ۔ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے ان کو اپنی زبان پر قابو نہیں ہوتا۔ نہایت بے باکی اور بے پروائی سے اسکی زبان سے ایسے الفاظ نکلتے ہیں جس سے اللہ سخت ناراض ہوتا ہے۔بسااوقات ایسا لفظ‘ ایساکلمہ اسکی زبان سے نکلتا ہے جو اسے اسکے مقام سے اتنی دور پھینک دیتا ہے جس کا فاصلہ مشرق ومغرب کی طرح ہوتاہے۔ بہت سے پرہیز گار ‘آدمیوں کوتم دیکھو گے کہ وہ فواحش ‘فسق وفجور ‘ظلم وجور سے بہت دور رہتے ہیں لیکن زبان بے سوچے سمجھے نہایت لاپرواہی سے چلتی ہی رہتی ہے۔ زندوں اور مردوں کی غیبت‘برائی آبروریزی بے دھڑک کی جاتی ہے ‘کیا کہہ رہاہے ۔ کیاکہہ رہاہے؟ اس کی اسے پروا نہیں ہوتی ۔تم اس قسم کی بے پرواہی سے باتیں کرنے کی حقیقت معلوم کرنا چاہتے ہو تو صحیح مسلم میں سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث دیکھ لو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔’’کسی آدمی نے کہا:۔اللہ کی قسم ! فلاں آدمی کی اللہ مغفرت نہیں کرے گا۔ اللہ نے فرمایا:یہ اس بات پر قسم کھانے والا کون ہے؟میں نے اسے بخش دیا۔اور تیری نیکیاں میں نے نیست ونابود کردیں۔‘‘ غور کروعابد‘زاہد‘پارسا آدمی ہے۔ عبادت وطاعت سے اپنے آپ مزین وآراستہ کر رکھا ہے۔ لیکن ایک کلمہ نے اسکے تمام اعمال جلا کر راکھ کر ڈالے۔ یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے‘اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں:۔’’یہ کلمہ بول گیا جس نے اس کی دنیا اور آخرت برباد کردی۔‘‘٭سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’بندے کے منہ سے کبھی نہایت بے پروائی سے اللہ کی رضا ء مندی کاکلمہ نکل جاتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ اسکے درجات بلند کردیتا ہے۔ اور بندے کے منہ سے کبھی نہایت بے پروائی سے اللہ کی خفگی کاکلمہ نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم  میں جھونک دیا جاتا ہے۔ ‘‘ (بخاری ،مسلم) ٭ ’’بندے کے منہ سے کبھی ایسا کلمہ نکل جاتا ہے جس کی بدی اس پر ظاہر نہیں ہوتی اور اس کی وجہ سے وہ جہنم کے ایسے گڑھے میں ڈال دیا جاتا ہے جسکی گہرائی مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم)(الجواب الکافی علامہ ابن القیم)

بدھ، 22 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1935 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 12 Part-4 ) د...

لازم ہے احتیاط

 

لازم ہے احتیاط

علامہ ابن قیم الجوزیہ رقم طراز ہیں ،

زبان معاصی اور گناہوں کا پر خطر دروازہ ہے اس کی حفاظت یہی ہے کہ زبان پر پورا پورا قابو رکھا جائے ۔ بلاضرورت ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا جائے۔وہی بات زبان سے نکالی جائے جس میں انسان اپنا فائدہ دیکھے ۔جب کوئی شخص بات کرنے کا ارادہ کرے تو پہلے غور کر لے کہ اس سے اس کو فائدہ پہنچے گایا نقصان ؟اگر اس میں فائدہ نظر نہ آئے تو خاموشی اختیار کر لے اور اگر بات کرنے میں فائدہ نظر آتا ہے تو پھر سوچنا چاہیے کہ یہ بات اور یہ کلمہ زیادہ مفید رہے گا یا کوئی دوسرا کلمہ؟اگر دوسرا کلمہ زیادہ سودمندہے تو وہی زبان سے نکالے۔فائدہ کوکبھی ترک نہیں کرناچاہیے۔اگر تم کسی کے قلب وضمیر کاپتہ لگانا چاہتے ہوتو اس کی زبان کی حرکت کودیکھ لو۔کوئی چاہے یا نہ چاہے بات کاراز کھول دے گی۔چنانچہ سیدنا یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں:

’’قلب دیگچہ کی طرح ہے اس میں جو کچھ ہوتا ہے جوش کھاتا ہے اورزبانیں دلوں کی کفگیر ہیں۔‘‘

جب کوئی شخص گفتگو کرے تو دیکھو اس کی زبان سے وہی بات نکل رہی ہے جو اس کے قلب میں ہوتی ہے‘زبان قلب کا کفگیر ہے۔قلب میں جو بھی شیریں ‘ تلخ‘لذیذ‘خوشگوار چیز ہوگی کفگیر پر آجائے گی۔زبان قلب کے ذائقہ کا پتہ دے گی اور اسی طرح پتہ دے گی جس طرح دیگچہ کاذائقہ زبان سے چکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے قلب میں جو کچھ ہوتا اس کا ذائقہ تمہیں اس کی زبان سے معلوم ہوجائے گا۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے:’’جب تک بندے کا قلب درست نہ ہو اس کا ایمان درست نہیں اورجب تک اسکی زبان درست نہ ہواس کا قلب درست نہیں۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ لوگ زیادہ تر جہنم میں کس چیز کی وجہ سے جائینگے؟آپ نے فرمایا:’’منہ اورشرمگاہ کی وجہ سے ‘‘۔ (ترمذی )ایک مرتبہ سیدنا معاذرضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ!وہ کون سا عمل ہے جس سے بندہ جنت میں داخل ہواور جہنم سے بچ جائے؟آپ نے خاص خاص عمومی اور اصولی چیزیں بتلانے کے بعد فرمایا:۔’’کیامیں تمہیں ان تمام پر حاوی چیز نہ بتلادوں؟‘‘

سیدنا معاذرضی اللہ عنہ نے عرض کیا:کیوں نہیں ضرور بتلائیں۔آپ نے اپنی زبان اپنی انگلیوں سے پکڑلی اورفرمایا:’’اسے اپنے قابو میں رکھو‘‘۔سیدنا معاذرضی اللہ عنہ نے عرض کیا:کیاہم جو بات کرتے ہیں اس کا بھی مواخذہ ہوگا؟آپ نے فرمایا: ’’معاذ! تمہاری ماں تم پر روئے لوگ زبان ہی کی وجہ سے تومنہ کے بل جہنم میں پھینکے جاتے ہیں یافرمایا کہ ناک کے بل‘‘۔(ترمذی) 

Shortclip - رضاالٰہی کی اہمیت

Shortclip اصل میں اسلام کیا ہے؟

منگل، 21 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1934 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 12 Part-3 ) د...

Darsulquran Para-06 - کیا ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول ...

ایمان اور اجر

 

ایمان اور اجر

٭حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’جس نے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ اخلاص کا کیا مطلب ہے؟ارشادہوا وہ کلمہ تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے روک دے۔‘‘(الطبرانی)

٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا: ’’لاالہ الااللہ ہمیشہ اپنے کہنے والے کو نفع دیتا رہتا ہے۔جب تک کہ اس کی اہانت نہ کی جائے ،اور اس کے حق کی اہانت یہ ہے کہ گناہوں کا دوردورہ ہوجائے لیکن ان کو روکنے اوربند کروانے والا کوئی نہ ہو۔ ‘‘(الحاکم)٭حضرت شدّادبن اوس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’لاالہ الااللہ نصف میزان ہے اورالحمد اللہ اس کو بڑھ دیتا ہے‘‘۔(کنزالعمال)

٭حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’لاالہ الااللہ اپنے کہنے والے سے مصیبت کے ننانوے دروازے بندکردیتا ہے،جن میں سے سب سے کم رنج والم ہے ۔‘‘(الدیلمی)

٭حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں ،حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’قیامت کے دن اللہ رب العزت ارشادفرمائیں گے لاالہ الااللہ کہنے والوں کو میرے عرش کے قریب کردو، کیونکہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ (الدیلمی)

٭حضرت ابوزر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’یقینا وہ شخص فلاح وکامرانی سے ہمکنار ہوگیا ،جس کا دل ایمان میں مخلص ہوگیا،اور اس نے اپنے دل کو سلیم الطبع کرلیا ،اپنی زبان کو سچ کا عادی بنادیا،اپنے نفس کو مطمئن کرلیا،اپنی روشِ حیات کو درست کرلیا،اپنے کانوں کو حق سننے کا عادی بنادیا ،اور اپنی آنکھوں کو عبرت حاصل کرنے والا بنادیا۔‘‘(مسند امام احمد بن حنبل )

٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ کسی مومن کی نیکی کم نہیں فرماتا،بلکہ دنیا میں بھی اس کا بدلہ عطاکرتا ہے اور آخرت میں بھی اس پر ثواب مرحمت فرماتا ہے۔ لیکن کافر کی بھلائیوں کا بدلہ دنیا ہی میں نمٹا دیا جاتا ہے ۔اور جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کے پاس ایسی کوئی نیکی نہیں ہوتی ،جس کا وہ اچھا اجر پائے۔‘‘(صحیح مسلم،مسند امام احمد بن حنبل )


Shortclip - کیا رسمی اسلام آخرت میں ہمیں کوئی فائدہ دے گا؟

پیر، 20 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1933 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 12 Part-2 ) د...

Darsulquran para-06 - کیا ہماری منزل اللہ ہے

Shortclipکیا ہمارا رسمی اسلام ہمارے کسی کام کا ہے؟

خطائوں کی بخشش

 

خطائوں کی بخشش

٭ حضرت عامر بن عنبسہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں مذہبی طور اطوار سے مطمئن نہیں تھااورگمان کیا کرتا تھا کہ لوگ بتوں کی پرستش کی وجہ سے گمراہی پر ہیں اور وہ حقیقت میں کسی بھی دین کے پیروکار نہیں ہیں، مجھے اطلاع ملی کہ مکہ میں ایک شخص ہیں جو لوگوں کو بہت سی باتوں کی خبریں دے رہے ہیں۔ میں سوار ہوکر ان کے پاس پہنچا ، مجھے معلوم ہوا کہ آپ تو اللہ کے رسول ہیں ۔ (ایمان لانے اوراسلام کی بنیادی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد )میں نے عرض کیا :اے اللہ کے پیارے نبی !مجھے وضو کے بارے میں خبر دیجئے، آپ نے ارشادفرمایا:تم میں سے کوئی انسان جب وضوکے پانی کو قریب کرتا ہے ، پھر کلی کرتا ہے اورناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرتا ہے تواس کے چہرے کی خطائیں اس کے منہ اورناک کے اردگرد سے گرجاتی ہیں پھر جب وہ اپنے چہرے کو اللہ کے حکم کے مطابق دھوتا ہے تو اس کے چہرے کی خطائیں پانی کے ساتھ اس کی داڑھی کی اطراف سے گر جاتی ہیں ، پھر ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ ہی ہاتھوں کی خطائیں پوروں کے راستے سے گرجاتی ہیں ، اس کے بعد وہ اپنے سرکا مسح کرتا ہے تو اس کے سرکی خطائیں پانی کے ساتھ بالوں کی اطراف سے گرجاتی ہیں بعدازاں وہ اپنے پائوں کو ٹخنوں سمیت دھوتا ہے تو پائوں کے گناہ پانی کے ساتھ ہی انگلیوں کے پوروں کے راستے سے گرجاتے ہیں تو اب وہ اگر نماز کے لیے قیام پذیرہوا، اللہ رب العزت کی حمد وثناء کی ، اس کی بزرگی بیان کی جس کا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اہل ہے اوراپنے قلب کو دنیوی مشاغل اور وسوسوں سے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے الگ کرلیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو گیا جیسا کہ آج ہی ایسے اس کی ماں نے جنم دیا ہے۔(مسلم)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتائوں، جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اوردرجات کو بلند فرماتاہے ، صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ ضر ور ارشادفرمایئے ، آپ نے فرمایا :مشقت کے وقت کامل وضوکرنا ، مساجد کی طرف قدموں کی کثرت کرنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، تویہ ہے تمہاری جہاد کی تیاری ، یہ ہے تمہاری جہاد کی تیاری ، یہ ہے تمہاری جہاد کی تیاری۔(مسلم، ترمذی ،ابن ماجہ ، نسائی )

٭ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ مشقت کے وقت کامل وضوکر نا ، مساجد کی جانب قدموں کے چلنے کا عمل اورایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار گناہوں کو بالکل دھو ڈالتا ہے ۔(ابویعلیٰ ، بزار)

 امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ۔(الترغیب والترہیب)

اتوار، 19 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1932 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 12 Part-1 ) د...

Darsulquran para-06 - کیا ہم صرف دنیا دار ہیں

بشارت

 

بشارت

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جبریل علیہ السلام میر ی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے چل رہے تھے ،جب میں ایک ہموار زمین پر پہنچا تو انھوں نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا(اے اللہ کے نبی) خوشخبری سنیئے اور اپنی امت کو بھی سنایئے کہ جس شخص نے ’’لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ‘‘کا اقرار کرلیا ،وہ جنت میں داخل ہوگیا ۔تو میں خوشی سے مسکرایا اور میں نے اللہ اکبر کہا،کچھ دور آگے جاکر جبریل علیہ السلام دوبارہ میری طرف متوجہ ہوئے اورکہا ،آپ خود بھی خوشخبری سنیئے اور اپنی امت کو بھی سنائیے کہ جس شخص نے ’’لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ‘‘کا اقرار کرلیا ،وہ جنت میں داخل ہوگیا اور اللہ نے اُس پر آگ حرام فرمادی۔ تو میں پھر خوشی سے مسکرادیا اور اللہ اکبر کہا،اوراپنی امت کے لیے اس پر شاداں وفرحاں ہوگیا ‘‘۔ (الطبرانی ،ابن عساکر)

’’محدثِ کبیر علامہ علی متقی بن حسام الدین ارشادفرماتے ہیں یہ حدیثِ حسن ہے ‘‘۔

٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’جس شخص نے یہ شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ،نماز قائم کی ،رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اُس کی مغفر ت فرما دیں۔خواہ وہ شخص ہجرت کرے یا اُسی جگہ مقیم رہے جہاں اُس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ (اس پر )آپ کے ایک صحابی نے عرض کیا،یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں میں اس بشارت کا علان نہ کردوں ، آپ نے ارشادفرمایا :نہیں ! لوگوں کو عمل کرنے دو۔بیشک جنت کے سو درجے ہیں ،ہر دودرجوں کے درمیان زمین وآسمان کے فاصلے جتنی مسافت ہے۔اور سب سے اعلیٰ درجہ جنت الفردوس ہے۔اسی پر عرشِ الہٰی قائم ہے اور یہ جنت کے وسط میں ہے۔سو ! جب تم اللہ رب العزت سے کسی چیز کا سوال کروتو جنت الفردوس ہی کاسوال کرو۔‘‘ (الطبرانی)

٭ حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’جس کی آرزو ہوکہ وہ جہنم سے بچ جائے اورجنت میں داخل ہوجائے تو اس کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا ہو اور وہ لوگوں سے بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لیے چاہتا ہو۔‘‘(الطبرانی)

٭ حضرت انس بن مالک روایت فرماتے ہیں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’لاالہ الااللہ کہنا اللہ پاک کی ناراضگی کو بندوں سے مسلسل دور رکھتا ہے ۔حتیٰ کہ جب وہ اس منزل پر پہنچ جائیں کہ انہیں پروہ کہ ان کی دینی حالت کس قدر پستی کا شکار ہے۔ بلکہ وہ صرف اپنی دنیا درست ہونے پر مطمئن ہوجائیں ۔اس کے بعد جب وہ اپنی جھوٹی زبانوں سے یہ کلمہ کہتے ہیں تو اللہ رب العز ت ارشادفرماتا کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔‘‘(کنزالعمال )

ہفتہ، 18 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1931 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 07 - 11 ) درس...

Darsulquran Para-06 - کیا اللہ تعالی کی گواہی پر ہمیں یقین نہیں ہے

Shortclip . کیا واقعی دنیا کی زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے؟

’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘

 

’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘

٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’سب سے پہلی بات جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے پہلی کتاب میں تحریر فرمایا ،وہ یہ ہے !میں اللہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں ،میری رحمت میرے غضب سے سبقت کر گئی ہے۔جو گواہی دے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اُس کے بندے اور رسول ہیں اُس کے لیے جنت ہے۔‘‘(الدیلمی )

٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جنت کا نرخ   گراں مایہ ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘ ہے ،اور نعمت کا  ہدیہ ’’الحمد اللّٰہ‘‘ہے۔‘‘(الدیلمی)

٭حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’مجھ سے جبریل نے بیان کیا ،کہ اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘میرا قلعہ ہے اور جو میرے قلعے میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے مامون ہوگیا۔‘‘(ابن عساکر )

٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ’’جب موسیٰ علیہ السلام کو ان کے پروردگار نے ’’توریت‘‘ عطافرمائی تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العز ت کی بارگاہ میں عرض کیا : اے میرے پاک پروردگار مجھے کوئی ایسی دعا مرحمت فرمادے،جس سے میں تجھے پکارا کروں۔ارشاد ہوا،تم ہمیں ’’لاالہ الا   اللّٰہ‘‘کے ساتھ یاد کیا کرو۔موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پاک پروردگار یہ کلمہ تو ساری ہی مخلوق جپتی ہے ۔میں تو ایسے کلمے کا طلب گار ہوں جو میرے لیے ہی مخصو ص ہو،اور جس سے میں تجھے یاد کیا کروں۔ ارشادہوا: اے موسیٰ ! تمام آسمانوں اور ان کے اندر بسنے والی تمام مخلوق اورتمام سمندوں اور ان کے اندر رہنے والی تمام مخلوق کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے ،تو اس کلمہ طیبہ والا پلڑا بھاری ہوجائے گا۔ ‘‘(مسند ابی یعلیٰ )

٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ـ’’میں (آخرت میں) اپنے پروردگار سے سفارش کرتا رہوں گا،حتیٰ کہ عرض کروں گااے میرے پروردگار ! ہر اس شخص کے بارے میں میری سفارش قبول کرلے جس نے ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘کہا ہو،اللہ رب العزت ارشاد فرمائے گا(اے میرے محبوب )محمد (ﷺ)،نہیں یہ تمہارا حق نہیں ہے یہ میرا حق ہے ۔میری عزت کی قسم ! میرے حلم کی قسم!میری رحمت کی قسم! میں آج جہنم میں کسی بھی ایسے شخص کو نہ رہنے دوں گاجس نے ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘کہاہو۔‘‘(مسند ابی یعلیٰ)

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا :’’جس شخص نے  ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘کی شہادت دی ،فجر کی نماز کی محافظت کی،اور ناجائز خون ریزی سے اپنے ہاتھ آلودہ نہ کیے،تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ‘‘(کنزالعمال) 


جمعہ، 17 دسمبر، 2021

Shortclip - کیا انسان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1930 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 06 Part-2 ) د...

ایمان کے مختلف شعبے

 

ایمان کے مختلف شعبے

حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ارشادفرمایا :’’ اسلام یہ ہے کہ تم لاالہ الا اللہ کی شہادت دو ،نماز قائم کرو،زکوٰۃ اداکرو، بیت اللہ کا حج وعمرہ کرو، نا پاکی سے غسل کے ذریعہ طہارت حاصل کرو،کامل طریقے سے وضو کرو،رمضان کے روزے رکھو ‘‘۔(ابن حبان )حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو ،نماز قائم کرو،زکوٰۃ ادا کرو،روزے رکھو، حج ادا کرو۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر بجالائو، اور اپنے گھر والوں کو سلام کرو۔جس نے کسی ایک چیز کو چھوڑ دیا اس نے اسلام کا ایک حصہ چھوڑ دیا ۔اور جس نے سب کو چھوڑ دیا (گویا کہ )اس نے اسلام کو پسِ پشت ڈال دیا‘‘۔ (ابن ماجہ)حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیز وں پر ہے۔لاالہ الااللہ کی شہادت ،اور اس بات کی شہادت کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم)اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ،نماز قائم کرنا ،زکوٰۃ اداکرنا ،بیت اللہ کا حج کرنا،رمضان کے روزے رکھنااور جہاد اور صدقہ عمل صالحہ ہیں ‘‘۔ (الطبرانی)  حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی ہے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دی جائے اورجو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے ہیں اس کا اقرار کیا جائے اور اس بات کا بھی اقرار کیا جائے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے۔جہاد جاری ہے اورجب تک کہ، مسلمانوں کی آخری جماعت آئے گی (جاری رہے گا)اور وہ بھی دجّال سے قتال کرے گی۔ان کو اپنے مقصد سے کسی ظالم کا ظلم ہٹاسکے گااور نہ کسی عادل کا عدل ،وہ لاالہ الااللہ کہنے والے ہوں گے۔پس ان کی ،کسی گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرنا اور نہ ہی ان پر شرک کا حکم عائد کرنا ۔اور اسلام کی بنیاد تقدیر پر بھی ہے خواہ اچھی ہو یا بُری،اس کے منجانب اللہ ہونے پر یقین رکھنا‘‘ ۔(کنزالعمال)
 حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے ارشادفرمایا ’’جب مسلمان بندہ لاالہ الااللہ کہتا ہے تو وہ کلمہ آسمان پر حرکت میں آجاتا ہے حتٰی کہ پروردگار کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے ، اللہ رب العز ت ارشاد فرماتے ہیں ،ٹھہر جا!وہ عرض کرتا کیسے ٹھہر جائوں ،جب کہ ابھی میرے قائل کی بخشش نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، جس کی زبان پر تُو جاری ہوا اس کو بخش دیا گیا‘‘۔(الدیلمی)

Darsulquran Para-06 - کیا ہم مردہ قوم ہیں

Shortclip - کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف ظاہر کے لئے پیدا کیا ہے؟

جمعرات، 16 دسمبر، 2021

Shortclip-ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کیسے کرسکتے ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1929 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 06 Part-1 ) د...

Darsulquran Para-06 - اللہ تعالی نے دنیا میں اپنے رسولوں کو کیوں بھجوایا

Shortclip - دنیا کی زندگی کی حقیقت

اہل ایمان کے محاسن

 

اہل ایمان کے محاسن

٭عمر وبن الحمق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ارشاد فرما یا :اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ’’بندہ اُس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پاسکتا ،جب تک اُسکی محبت اور نفرت اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے ہی نہ ہوجائے پس جب وہ اللہ ہی کے لیے محبت کرنے لگے اور اللہ ہی کے لیے نفرت ،تو وہ اللہ کی طرف سے ولایت کا مستحق ہوجاتا ہے ۔اور میرے بندوں میں سے میرے اولیاء اور میری مخلوق میں سے میرے محبوب بندے وہ ہیں جو میرا ذکر کرتے ہیں اور میں اُن کا ذکر کرتا ہوں‘‘۔ (طبرانی)٭ابو ملیکہ الدارمی روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’کوئی بندہ اُس وقت تک اپنے ایمان کو مکمل نہیں کرسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جووہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔اور جب تک کہ اُسے اپنے مذاق اور سنجیدہ پن میں بھی اللہ رب العزت کا خوف نہ ہو‘‘۔ (ابو نعیم)٭حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ کوئی بندہ اُس وقت تک اپنے ایمان کو مکمل نہیں کرسکتا جب تک کہ اُس میں تین خصلتیں پید انہ ہوجائیں ۔تنگ دستی کے باوجود( دوسروں کی بھلائی کے لئے ) خرچ کرنا ،اپنے نفس سے انصاف کرنا اور سلام کرنا ‘‘۔(الدیلمی)٭حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں ’’ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اسلام میں کیا چیز بہتر ہے ،آپ نے ارشاد فرمایا :کھا نا کھلائواور ہر ایک کو سلام کروخواہ جان پہچان ہو یا نہیں ‘‘۔(بخاری ،مسلم، ابو دائود ،ابن ماجہ، نسائی ،احمد)
 ٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل سے ارشادفرمایا : اے معاذ بن جبل ! ایسا کوئی بندہ نہیں جو دل کے اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا ہو۔اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام نہ فرما دیں ۔حضرت معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں لوگوں کو اطلاع نہ دے دوں ۔ ان کو خوشخبر ی مل جائے گی ،آپ نے فرمایا :نہیں !وہ محض اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے۔ (بخاری ومسلم،احمد)

بدھ، 15 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1928 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 05 ) درس قرآن...

Darsulquran Para-06 - کیا ہم نے اللہ تعالی کی بجائے دنیا کو اپنا مقصد حی...

Shortclip . دل کب سخت ہوجاتا ہے؟

طیب وطاہر وجود

 

طیب وطاہر وجود

قاضی عیاض مالکی تحریر کرتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کی نظافت بطن اقدس اوراس کے سینے کی خوشبو اوراس کا ہر قسم کی آلودگی اورعیوبات جسمانیہ سے پاک صاف ہونا یہ ہے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ خصوصیت عطافرمائی ہے کہ آپ کے سوا کسی میں پائی ہی نہیں جاتی۔مزید براں یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو شرعی نفاست وپاکیزگی اوردس فطری خصلتوں سے بھی مزین فرمایا ہے،چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دین کی بنیاد پاکیزگی پر ہے۔ (ترمذی)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سی خوشبو سے بڑھ کر کسی عنبر ،کستوری اورکسی بھی چیز کی خوشبو کو نہ پایا۔(صحیح مسلم)

 حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رخسار کو چُھواتو میں نے آپ کے دست اقدس کو ایسا ٹھنڈا اورمعطر پایا کہ گویا ابھی آپ نے عطارکے صندوقچے سے اپنے دست مبارک کو باہر نکالاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ سے مروی ہے کہ خواہ آپ نے خوشبو لگائی ہوتی یا نہیں لیکن آپ جس شخص سے بھی مصافحہ فرماتے تو وہ ساران دن اُس کی خوشبو سے معطر رہتا ،اگر آپ کسی بچے کے سر پر اپنا دست شفقت پھیردیتے تو وہ بچہ خوشبو کی وجہ سے پہچانا جاتا۔(صحیح مسلم)

 ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کے گھر میں قیام فرمایا، آپ کو پسینہ آگیاحضرت انس کی والدہ ایک شیشی لے آئیں اورآپکے پسینے کو جمع کرنے لگیں، آپ نے وجہ دریافت فرمائی توعرض کیا میں اس کو اپنی خوشبو میں رکھوں گی یہ سب سے عمدہ اورطیب خوشبو ہے۔(صحیح مسلم)

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس کوچہ وبازار سے گزرفرماتے اس کے بعد کوئی شخص اس طر ف سے گزرتا تو وہ خوشبو سے محسوس کرلیتا کہ آپ ادھر سے گزرے ہیں۔(بخاری فی التاریخ)اسحاق بن لاہویہ نے ذکر کیا ہے کہ آپ خوشبو نہ بھی استعمال فرماتے تو آپ کے جسم سے خوشبو پھوٹتی تھی۔

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں ایک دفعہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کو چومنے کا موقع ملا تواس میں سے کستوری کی خوشبو محسوس ہورہی تھی۔(ابن عساکر)

منگل، 14 دسمبر، 2021

Darsulquran Para-06 - کیا ہم بے حیائی میں مبتلا قوم ہیں

Darsulquran Para-06 - کیا ہم بے حیائی میں مبتلا قوم ہیں

Shortclip - قرآن سے ہدایت کیوں اور کیسے؟

اسلام کی برکات

 

اسلام کی برکات

عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، میں شروع میں اسلام سے سخت برگشتہ تھا اور پیغمبر علیہ السلام کی ذاتِ گرامی سے سخت بغض رکھتا تھا ۔جب آپ نے ہمارے علاقے کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا تو میں فرار ہوکر شام چلا گیا ،وہاں بھی یہ اطلاع موصول ہوئی کہ خالد بن ولید ہماری طرف آرہے ہیں تو میں وہاں سے فرار ہوکر روم کی طرف کوچ کرگیا ۔ میری پھوپھی میری تلاش میں وہاں پہنچ گئیں،انھوں نے کہا : اے عدی !تم ہمیں چھوڑ کر یہاں آرام کر رہے ہو،ہم پر خالد بن ولید نے لشکر کشی کی اورہمیں قیدی بنا کرحضور کی خدمت میں پہنچا دیا ۔ آپ میرے پاس سے گزرے ، تو میں نے عرض کیا ، اے محمد! (ﷺ ) میرے والد ہلاک ہوگئے اور میرے محسن مجھے بے یارو مددگار چھوڑ گئے۔آپ مجھے آزاد کردیجئے ،آپ نے فرمایا: تمہارا محسن کون ہے؟ میں نے عرض کیا ،عدی بن حاتم وہ تو اللہ اور اسکے رسول سے فرار ہونیوالا ہے۔یہ کہہ کر آپ تشریف لے گئے ،تین یوم تک یہی مکالمہ رہا۔پھر آپکے پاس کچھ مال پہنچا ،تو آپ نے مجھے یہ سواری عنایت فرمائی اور میں تمہارے پاس چلی آئی ۔اے عدی! تم حضور کے پاس چلو ،اور اسلام سے اپنے دامنِ مراد بھر لو۔ کہیں تمہاری قوم کا کوئی فرد اس نعمت کے حصول میں تم سے سبقت نہ لے جائے ۔جب میں مدینہ پہنچا تو لوگوں میں شور مچ گیا کہ عدی بن حاتم آگئے۔  جب میں حضور کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے فرمایا: اے عدی بن حاتم ! تم اللہ اور اسکے رسول سے کیوں اعراض کرتے پھر رہے ہو۔ میں نے عرض کیا میں اپنے دین کو لیے پھر رہا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : میں تمہارے دین کو جانتا ہوں،تم اسلام سے محض اس لئے کنارہ کر رہے ہوکہ آج اسلام کے نام لیواغربت اورافلاس کا شکار نظر آتے ہیں ۔ یاد رکھو ! اے عدی بن حاتم ، قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی ،حتیٰ کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے (میری امت کے ہاتھوں )فتح ہونگے۔اے عدی بن حاتم ! ایک وقت آئیگا کہ ایک عورت حیرہ سے تنہا روانہ ہو کر بیت اللہ شریف کا طواف کریگی ۔ اے عدی بن حاتم ! قیامت قائم نہیں ہوسکتی حتیٰ کہ کوئی شخص مال سے بھر اہوا تھیلا اُٹھائے گا۔ کعبہ کا طواف کرے مگر کوئی ایسا شخص نہ ملے گا جو اس خیرات کو قبول کرلے ۔ آخر کار وہ شخص اس تھیلے کو زمین پر مارتا ہوا پکارے گا، کاش تو نہ ہوتا ،کاش تو مٹی ہوتا ۔عدی فرماتے ہیں اللہ نے اپنے پیغمبر کے قول کو سچ کر دکھایا۔ میں نے ایک ایسی خاتون کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا جس نے حیرہ کے دور دراز مقام سے تن تنہا روانہ ہوکر بلا خوف وخطر کعبہ کا طواف کیا ۔ اور خد ا کی قسم ! آپکی تیسری بات بھی روزِ روشن کی طرح سچی ثابت ہوگی اور مسلمانوں پر کشادگی کا ایسا خوش وقت ضرور آئیگاکہ کوئی صدقہ وخیرات قبول کرنیوالا نہیں ہوگا۔ (طبرانی ، ابن عساکر )

پیر، 13 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1926 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 02 - 03 ) درس...

Shortclip - کیا سرکشی اور بغاوت قابل معافی ہے؟

Darsulquran para-06 - کیا ہمارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے

بیٹیوں کی تربیت کا صلہ

 

بیٹیوں کی تربیت کا صلہ

حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وہ انگلیوں کو جمع کرکے ارشاد فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا اس طرح جنت میں داخل ہوں گے۔ ابو عمران جونی اپنے والد خلیل ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت دائود علیہ السلام کی دعائوں میں یہ پڑھا کہ انہوں نے بارگاہ الہٰ میں عرض کیا میرے مولا:جو تیرے حصول رضا کی خاطر بیوگی اوریتیمی کی زندگی بسر کرے اس کی کیا جزاہے ؟اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اسکی جزایہ ہے کہ جس دن عرش الٰہی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا اس دن میں اسے اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا کروں گا۔ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے : جس مسلمان کی تین بیٹیاں ہوں وہ انکے اخراجات کا بوجھ خوش دلی سے قبول کرے، انکی تربیت کرے، ان کی شادی کردے تو وہ جہنم سے اس کیلئے حجاب بن جائیں گی۔ ایک عورت نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم , اگر کسی کی دوبیٹیاں ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ وہ بھی جہنم کیلئے حجاب بن جائیں گی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ میں اورمشقت سے رنگ بدلے ہوئے رخساروں والی عورت اس طرح جنت میں داخل ہونگے جس طرح دو انگلیاں اکٹھی ہوتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں انگلیوں سے اشارہ اس عورت کی طرف تھا جس کا شوہر فوت ہوچکا ہو اوراس نے اپنی بیٹیوں کی تربیت کی خاطر خود کو دوسرے نکاح سے روک رکھا ہو۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بیٹیوں کو (عزت و آبرو سے )بیا ہ دے۔ 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کوئی شخص بازار سے اپنے بچوں کیلئے کوئی چیز لائے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو صدقہ کی چیز لاکر اس کاصدقہ کرے۔ جب اس چیز کو تقسیم کرنے لگے تو اسے چاہئے کہ وہ بیٹیوں سے ابتدا کرے، بے شک اللہ تعالیٰ بیٹیوں پر خصوصی مہربانی فرماتا ہے ۔ جو بیٹیوں پر مہربانی کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خوف خد اسے روتا ہے اورجو خوف خدا سے رو پڑے ۔اس کے آنسو اس کی بخشش کا سبب بن جاتے ہیں اورجو شخص بیٹیوں پر خوش ہوتا ہے اللہ جل مجدہ غم کے دن اسے خوشیوں سے مالا مال کرے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ چھ چیزیں ایسی مہلک ہیں جن میں توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔یتیم کا مال کھانا،پاکدامن خاتون پر گناہ کی تہمت لگانا،لشکر اسلام سے فرار ہونا،جادوکرنا ، شرک کرنا، کسی نبی کو قتل کرنا۔(تنبیہ الغافلین :  فقہیہ ابو اللیث سمرقندی)

اتوار، 12 دسمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1925 ( Surah Al-Mumtahina Ayat 01 Part-3 ) د...

Darsulquran Para-06 - کیا ہم یہود و نصاری کے نقش قدم پر چل رہے ہیں

Shortclip - عذاب اور آزمائش میں فرق

Shortclip - انسان اپنی معراج کیسے حاصل کرسکتا ہے؟

سب سے بہتر مشغولیت

 

سب سے بہتر مشغولیت 

٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے :جو شخص تلاوتِ قرآن اور میرے ذکر (کی کثرت )میں ایسا مشغول ہواکہ دعا ء بھی نہ کرسکا،تو میں اسے سوال کرنے والوں سے بھی زیادہ عطا کرتا ہوں۔(ترمذی)

٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو قوم بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے جمع ہوتی ہے اور اللہ کی رضاء کے سواء ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ،تو آسمان سے ایک منادی ندا دیتا ہے (اے اہلِ ذکر)تم اس مجلس سے اس حال میں اُٹھو کہ تمہارے گناہ بخش دیے جائیں گے اور تمہاری لغزشوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔(مجمع الزوائد)

٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرمائے گا آج تمام لوگ جان جائیں گے کہ اہلِ کرم کون ہیں؟عرض کیا گیا :یارسول اللہ ! اہلِ کرم کون ہیں؟توارشادفرمایا :مسجد وں میں ذکر کی مجلسیں کرنے والے ۔(صحیح ابن حبان ،سنن بیہقی،ابو یعلی)حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں:۔

 ’’اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی عبادت کو فرض کیا تو اس کی ایک معلوم حد متعین کردی ،اور حالتِ عذر میں معذروں کو رخصت عطا فرمائی ،سوائے ذکر اللہ کے ،اللہ تعالیٰ نے اس کی نہ تو کوئی حد متعین کی اور نہ ہی اس کو ترک کرنے میں کسی کو معذور جانا،سوائے مجنون کے ۔اس کے علاوہ اپنے تمام بندوں کو تمام احوال میں ذکر کرنے کا حکم دیا جیسا کہ اُس کا ارشادہے:ذکر کرو اللہ کا کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور اپنے پہلوئوں پر(لیٹے ہوئے)‘‘(النساء ۔۱۰۳) ایک دوسرے مقام پر ارشادفرمایا :اے ایمان والو! اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ (احزاب۔ ۳۱)یعنی اللہ کا ذکر کرو ،رات میں دن میں ،خشکی اورتری میں ،سفر وحضرمیں ،غنا اورفقرمیں ،صحت اوربیماری میں ،پوشیدہ اورعلانیہ طور پر اور۔۔۔۔حتیٰ کہ ہر حال میں۔

امام ابو القاسم القشیری فرماتے ہیں ،ذکر ولایت کا منشور ،بارگاہِ ناز کا منارہ ،راہِ سلوک پر چلنے کی علامت اور منزل تک پہنچنے کی دلیل ہے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں تمام خصائل حمیدہ ذکر ہی کی طرف راجع ہیں اورتمام کا منبع ذکر الہی ہی ہے۔