پیر، 28 فروری، 2022

Shortclip- کیا ہم اپنی زندگی کو ضائع کرنے پر تُل گئے ہیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2004 ( Surah At-Tahrim Ayat 09 -12 ) درس قرآن...

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 59-63.کیا ہم یہود و نصاری کے نقشں ق...

امیرالمومنین کا ایک دورہ

 

امیرالمومنین کا ایک دورہ

ابو مطر روایت کرتے ہیں، ایک مرتبہ میں مسجد سے باہر نکلا مجھے پیچھے سے کسی نے آواز دی اپنا پا جامہ ذرا اوپر کرلو۔کیونکہ یہ بات دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف زیادہ کردیتی ہے اور اس سے تمہارے کپڑے بھی صاف ستھرے رہیں گے ۔ اوراگر تم مسلمان ہواپنے بال بھی مہذ ب اندازمیں کٹوالو۔میں نے دیکھا کہ یہ آواز دینے والے امیر المومنین علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں ۔

آپ کے ہاتھوں میں ایک درّہ ہے ،آپ چلتے چلتے بازار میں جاپہنچے ۔آپ نے فرمایا فروخت کرو مگر قسمیں مت کھائو۔کیونکہ قسم سے مال تو بک جاتا ہے لیکن برکت جاتی رہتی ہے۔آپ ایک کجھور فروش کے پاس آئے وہاں ایک خادمہ کھڑی رو رہی تھی ۔آپ نے وجہ پوچھی تو وہ بولی اس شخص سے میں نے ایک درہم کی کجھوریں لی تھیں۔لیکن میرے آقا نے کہا کہ واپس کرآئو۔آپ نے فرمایا :بھئی !اسے درہم واپس کردو کیونکہ معاملہ اس کے اختیار میں نہیں ہے لیکن اس شخص نے انکار کردیا ۔میں نے کہا :تم جانتے ہو یہ کون ہیں ؟کہا نہیں ،میں نے کہا :یہ امیر المومنین ہیں ۔اس دکاندار نے فوراً کجھوریں انڈیل دیں اوردرہم خادمہ کو واپس کردیا اور کہنے لگا :امیرالمومنین مجھے پسند ہے کہ آپ مجھ سے راضی ہوجائیں گی ۔آپ نے فرمایا: جب تم لوگوں کو پورا پورا دو گے تو میں ناراض کیوں ہوں گا۔پھر آپ نے کجھورفروشوں سے فرمایا:مسکینوں کو کھلائواس سے تمہاری کمائی اضافہ ہوگا۔پھر آپ مچھلی فروشوں کے پاس جا پہنچے ،اورفرمایا :ہمارے بازاروں میں طافی مچھلی (جو مردہ ہوکرپانی میں الٹی تیرنے لگے)نہ بیچی جائے ۔پھر آپ کپڑا فروشوں کے بازار میں آئے اور فرمایا : اے شیخ ! مجھے ایک تین درہم کی قمیض دے دو،لیکن آپ نے بغور دیکھا تو دکاندار کو اپنا واقف پایا ۔وہاں سے آگے بڑھ گئے کہ یہ رعایت کرے گا۔دوسری دکان پر پہنچے تو اسے بھی جان پہچان والا پایا وہاں سے بھی آگے بڑھ گئے پھر ایک نوجوان کے پاس آئے ۔اس سے تین درہم کی قمیض خرید لی آپ نے قمیض پہنی جس کی آستین بمشکل کلائیوں تک پہنچتی تھی ۔اتنے میں دکان کا مالک آگیا ،اسے بتایا گیا تمہارے بیٹے نے امیرالمومنین کو تین درہم میں یہ قمیض بیچی ہے۔ مالک نے لڑکے سے کہا : اُو نادان تونے امیر المومنین سے اس قمیض کے دو درہم کیوں نہیں لیے۔ دکاندار نے ایک درہم لیا اور حضرت علی کے پاس آگیا اور عرض کیا یہ درہم واپس لے لیں ۔آپ نے پوچھا :کیا وجہ ہے؟اس نے کہا اس قمیض کی قیمت دودرہم ہے جبکہ میرے بیٹے نے آپ سے تین درہم کھرے کر لیے ہیں ۔آپ نے مسکراتے ہوئے ارشادفرمایا :لڑکے نے میری رضا مندی سے قمیض میرے ہاتھ بیچی ہے اور میں نے اس کی رضا مندی سے لے لی ہے۔ (امام احمد بن حنبل)

ہفتہ، 26 فروری، 2022

Shortclip - کیا اللہ تعالٰی کو راضی کرنا آسان ہے؟

Shortclip - اسلام کا حُسن کیا ہے؟ پارٹ1

اُسوئہ حیدری

 

اُسوئہ حیدری

جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں ایک دفعہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس بہت سا مال آیا ، آپ نے وزن اور پرکھ کے ماہر ین کو اپنے سامنے بٹھایا۔آپ نے سونے اورچاندی کا الگ الگ ڈیڑھ لگا دیا اور پھر ارشاد فرمایا:اے سونے اورچاندی !تم اپنی شعاعیں بکھیرتے رہواوراپنی چمک پھیلاتے رہواور میرے علاوہ دوسروں کو دھوکہ دو یہی میرا کام ہے کہ میں مسلمانوں کے مال سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کروں گا۔(ابونعیم)عنترہ روایت کرتے ہیں ایک دن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اتنے میں آپکا خادم قنبر بھی آگیااور عرض کیا اے امیر المومنین آپ بیت المال میں سے اپنا حصہ نہیں لیتے ۔حالانکہ آپکے گھر والوں کا اس مال میں حصہ بنتا ہے ۔آج میں نے آپ کیلئے ایک چیز الگ کر رکھی ہے آپ نے پوچھا وہ کیا ہے اس نے کہا چلئیے اور دیکھ لیجئے کہ وہ کیا ہے ۔چنانچہ آپ اُ سکے ساتھ چل دیے وہ ایک گھر میں داخل ہوا،اس میں کچھ برتن تھے جو سونے اور چاندی  سے بھرے ہوئے تھے۔حضرت علی نے یہ دیکھا تو فرمایا:تیری ماں تجھے گم پائے تیرا کیا ارادہ ہے کہ میرے گھر میں ایک بڑی آگ داخل کردے۔ پھر آپ نے اس سونے اورچاندی کو تولنا شروع کیا اور جو بھی آتا اسے حصہ کے مطابق دینا شروع کردیا۔ جب تقسیم سے فارغ ہوگئے تو فرمایا: یہ میرا کا م ہے اور یہ مستحق مسلمانوں تک پہنچ گیا ہے اورہر کام کرنے والے کا ہاتھ اپنے منہ میں ہوتا ہے ۔اے مال تومجھے دھوکہ مت دے میرے علاوہ کسی اورکو ورغلا نے کی کوشش کر۔ (کنزالعمال) علی ابن ارقم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں میں نے حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کو کوفہ کے ایک کشادہ مقام پر اپنی تلوار فروخت کیلئے پیش کرتے ہوئے دیکھا آپ ارشادفرمارہے تھے میری یہ تلوار کون خریدے گا۔واللہ ! میں نے اس تلوار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بارہا شجاعت کے جوہر دکھا ئے ہیں ۔ اگر میرے پاس چادر خریدنے کیلئے رقم ہوتی تو میں اسے کبھی نہ بیچتا ۔ (ابونعیم، طبرانی)حضرت عبداللہ بن زریرکہتے ہیں کہ میں عید الاضحی کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں گیا ۔انھوں نے ہمارے سامنے بھوسی اورگوشت کا ہریرہ رکھا ،ہم نے کہا اللہ آپ کو ہمیشہ خیر وعافیت سے رکھے اگر آپ ہمیں یہ بطخ کھلاتے تو زیادہ اچھا تھا کیونکہ اب تو اللہ نے آپ کو بہت مال دے رکھا ہے ۔آپ نے ارشادفرما یا :اے ابن زریر! میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا ہے کہ خلیفہء وقت کیلئے اللہ کے مال میں سے صرف دو بڑے پیالے حلال ہیں،ایک پیالہ اپنے اوراپنے گھر والوں کیلئے اوردوسرا پیالہ آنے والے لوگوں کے سامنے رکھنے کیلئے ۔(مسند امام احمد)

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 57-58.کیا ہم لوگ بے وقوف ہیں

جمعرات، 24 فروری، 2022

Shortclip - کیا شِرک چھوڑنا آسان ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2000 ( Surah At-Tahrim Ayat 07 Part-2 ) درس...

Shortclip - ایمان کے تقاضے

Darsulquran surah al-maeda ayat 55-56 part-04.کیا ہم اللہ تعالی کے احکام...

اندیشہ

 

اندیشہ

حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں،بصرہ کی جامع مسجد میں ایک مجلس آراستہ تھی،میں ان کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ کرام حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زُہد وتقویٰ اورفضائل ومحاسن کا تذکرہ کررہے تھے۔ حضرت احنف بن قیس تمیمی رضی اللہ عنہ نے اپنا قصہ یوں بیان فرمایا:ہمیں حضرت عمر بن خطاب نے ایک جماعت کے ساتھ عراق بھیجا،اللہ نے ہمیں عراق اورفارس میں بہت سی فتوحات عطا ء فرمائیں۔ہمیں فارس اورخراسان کے سفید کپڑے ملے جو ہم نے پہننا شروع کردیے ۔کامیابی سے اپنی مہم سر کرنے کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ میں حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے ،آپ نے ہمیں دیکھا تو اپنا چہرہ پھیر لیا اورہم سے کوئی بات نہ کی۔جو صحابہ کرام ہمارے ساتھ تھے انہیں آپ کے رویے سے سخت پریشانی ہوئی ۔ہم لوگ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گئے اور آپ کی بے رخی کی شکایت کی انھوں نے کہا امیر المومنین تم سے اس وجہ سے کبیدہ خاطر ہوئے ہیں کہ تم نے ایسا لباس پہننا ہوا ہے جو نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہننا اورنہ ہی حضرت ابوبکر صدیق نے ۔آپ ان دو حضرات کی روش سے ہٹنا قطعاً ناپسند فرماتے ہیں،یہ سنتے ہی ہم لوگ اپنے گھر وں کو واپس لوٹ گئے اور ایرانیوں ،خراسانیوں کی وضع قطع والے وہ کپڑے اتار دیے اور وہ سادہ اور صاف ستھرے لباس پہن لیے جو ہم پہلے استعمال کیا کرتے تھے۔اور دوبارہ امیر المومنین کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوگئے ۔اس دفعہ وہ ہمارے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے ایک ایک کو الگ الگ سلام بھی کیا اور ہر ایک سے فرداً فرداً معانقہ بھی کیا ۔اس گرم جو شی سے ملے کہ گویا انھوں نے ہمیں پہلی بار دیکھا ہے ۔ہم نے حاصل شدہ مالِ غنیمت آپ کی خدمت میں پیش کیا جسے آپ نے ہمارے درمیان برابربرابر تقسیم کردیا ۔پھر وہاں سے موصول ہونے والے کجھور اور گھی کے بنے ہوئے سرخ اورزرد رنگ کے خستہ حلوے کے ٹوکرے آپکے سامنے پیش کیے گئے ۔ آپ نے انہیں چکھا تو وہ بہت لذیذ اورخوشبودار محسوس ہوا۔آپ ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا :اے گروہِ مہاجرین وانصار اللہ کی قسم ! مجھے صاف دیکھائی دے رہا ہے کہ ایسی لذتوں کی وجہ سے تم میں سے بیٹا اپنے باپ کو اور بھائی اپنے بھائی کو ضرور قتل کرے گا۔پھر آپ نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دیا اور اسے ان مہاجرین وانصار کی آل اولاد میں تقسیم کردیا گیا جنہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جامِ شہادت نوش فرمایا تھا ۔(کنز العمال)

بدھ، 23 فروری، 2022

Shortclip - شِرک کیا ہے

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1999 ( Surah At-Tahrim Ayat 07 Part-1 ) درس...

حضرت عمر کی نصیحت

 

حضرت عمر کی نصیحت

حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،میں اہل بصرہ کے ایک وفد کے ساتھ حضرت عمر ابن خطابؓ کے پاس مدینہ منورہ آیا ۔ہم انکی خدمت میں حاضر ہواکرتے تو دیکھتے کہ ان کیلئے روزانہ ایک روٹی توڑ کر لائی جاتی ہے وہ اسے کبھی گھی سے، کبھی تیل سے اور کبھی دودھ سے کھالیتے ہیں۔کبھی دھوپ میں خشک کیے ہوئے گوشت کے ٹکڑے بھی لائے جاتے جو محض پانی میں ابلے ہوئے ہوتے تھے۔تازہ گوشت تو شاذ ونادر ہی نظر آتا۔ ایک دن حضرت عمر نے ہم سے فرمایا واللہ ! اگر میں چاہتا توتم سب ہی ،سب سے زیادہ عمدہ کھانے والاہوتا۔ اورتم سب سے زیادہ نازونعمت کی زندگی گزارتا۔ غور سے سنوقسم بخدا!میں اونٹ کے سینے اورکوھان کے بھنے ہوئے گوشت ،چپاتیوں اوررائی کی چٹنی سے ناواقف نہیں ہوں لیکن میں انھیں دانستہ استعمال میں نہیں لاتا۔ میں نے ایک قوم کے بارے میں اللہ کا ارشاد سنا ہے۔’’تم اپنی لذت کی چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں برت چکے ہواوران سے خوب حظ اٹھا چکے ہو۔‘‘میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔تم امیرالمونین  سے بات کرو کہ تمہارے لیے بیت المال سے کچھ کھانا مقرر کردیں۔ ان لوگوں نے حضرت عمر سے بات کی ،آپ نے فرمایا کیا تم لوگ اپنے لیے وہ روزینہ پسند نہیں کرتے جو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ ان لوگوں نے کہا،ہم مدینہ منورہ میں رہ نہیں سکتے ،آپ کا کھانا ایسانہیں کہ کوئی اسے کھانے کیلئے آپکے پاس آئے۔ہم لوگ سرسبز وشاداب علاقے کے رہنے والے ہیں ،  ہمارے امیر ایسے لوگ ہیں کہ لوگ شوق سے انکے پاس آتے ہیں اوران کا کھانا ایسا ہوتا ہے کہ خوب سیر ہوکر کھایا جاتا ہے۔ یہ سن کر آپ نے تھوڑی دیر اپنا سرجھکایا، اورارشادفرمایا:میں تم لوگوں کیلئے بیت المال سے روزانہ دوبکریاں اورآٹے کی دوتھیلیاں مقرر کردیتا ہوں۔ایک بکر ی صبح ذبح کرو اور ایک تھیلی سے روٹیاں پکا لیاکروخود بھی کھائو اوراپنے ساتھیوں کو بھی کھلائو۔پھر حلالِ مشروب منگوا کر پہلے خود پیئو پھر اپنے دائیں طرف والے کو پلائو اورپھر اسکے ساتھ والے کو پھر اپنے کام کیلئے کھڑے ہوجائو اور پوری تندھی سے اپنے فرائض سرانجام دو اورپھر اسی طرح شام کو دوسری بکر ی اوردوسرے تھیلی استعمال میں لائو۔ غور سے سنو تم عام لوگوں کے گھروں میں اتنا بھیجو کہ ان کا پیٹ بھرجائے ۔اورانکے اہل وعیال کو کھلائو۔ یا درکھو! اگر تم منصب دار لوگ،عوام سے بداخلاقی سے پیش آئو گے تو عام لوگوں کے اخلاق اچھے نہیں ہوسکیں گے ۔اورانکے بھوکوں کے کھانے کا انتظام نہیں ہوسکے گا۔ اللہ کی قسم اس سب کے باوجود میرا خیال یہ ہے کہ جس قصبے کے بیت المال سے حکام کیلئے روزانہ دو بکر یاں اورآٹے کی دو بوریاں لی جائیں گی وہ جلد اجڑ جائیگا۔ (کنزالعمال )

Shortclip - کیا ہم مومن ہیں؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 55-56 Part-03.نماز کی حقیقت

منگل، 22 فروری، 2022

Shortclip توحید کیا ہے؟

Shortclip - کیا صرف کلمہ طیبہ کا زبانی اقرار کافی ہے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 55-56 part-02. کیا ہم متقی ہیں

اخلاص ِامیر

 

اخلاص ِامیر

عتبہ بن فرقد علیہ الرحمۃ کہتے ہیں، میں کھجور اور گھی کے بنے ہوئے حلوے کے ٹوکرے لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے استفسار فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: کھانے کی چیز ہے۔ آپ صبح سے عوام الناس کی خدمت میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ جب آپ کارِ خدمت سے فارغ ہوکر گھر جائیں تو اس میں سے کچھ تناول فرما لیا کریں۔ آپکی جانِ عزیز کو طاقت وتوانائی اور طراوت حاصل ہوجایا کریگی اور آپ مزید تندہی سے مسلمانوں کے امور بجا لائیں گے۔ 

حضرت عمر نے ٹوکرا کھول کر دیکھا۔ فرمایا: عتبہ! میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے ہر مسلمان کو حلوے کا ایک ایسا ٹوکرا دے دیا ہے۔ میں نے عرض کیا‘ امیرالمومنین! میں قبیلہ قیس کا سارا مال بھی خرچ کردوں یہ پھر بھی ممکن نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: پھر مجھے بھی تمہارے اس حلوے کی ضرورت نہیں ہے۔

کھانے کا وقت ہو چکا تھا‘ آپ نے ایک بڑا پیالہ منگوایا جس میں سخت روٹی اور سخت گوشت کے ٹکڑوں سے بنا ہوا ثرید تھا۔ آپ نے مجھے بھی شریک طعام فرمایا۔ حضرت عمر میرے ساتھ اس سالن کو بڑی رغبت سے تناول فرما رہے تھے۔ میں کوھان کی چربی سمجھ کر ایک سفید ٹکڑے کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو اسے اٹھانے کے بعد پتہ چلتا کہ یہ تو پٹھے کا ٹکڑا ہے۔ میں ناچار گوشت کے اسی ٹکڑے کو چبانے لگتا، لیکن وہ اتنا سخت ہوتا کہ میں اسے نگل نہ پاتا، جب حضرت عمر کی توجہ ادھر ادھر ہوجاتی تو میں گوشت کے اس ٹکڑے کو منہ سے نکال کر پیالے اور دسترخوان کے درمیان چھپا دیتا۔

کھانے سے فارغ ہوکر حضرت عمر نے نبیذ کا ایک ایسا پیالہ منگوایا جس میں ترش شربت تھا جو سرکہ بننے والا تھا۔ انہوں نے مجھے پیش کیا۔ میں اسے لے کر پینے لگا، لیکن بڑی مشکل سے حلق سے نیچے اتار سکا۔ انہوں نے وہ پیالہ مجھ سے لے لیا اور اسے پی گئے۔ پھر فرمانے لگے‘ اے عتبہ سنو! ہم روزانہ ایک اونٹ ذبح کرتے ہیں اور اسکی چربی اور عمدہ ونرم گوشت سے ان مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ جو مدینہ منورہ میں باہر سے تشریف لاتے ہیں۔ اسکی گردن آل عمر کے حصہ میں آتی ہے‘ وہ یہ سخت گوشت کھاتے ہیں۔ اور پھر یہ باسی اورترش نبیذ پیتے ہیں تاکہ یہ پیٹ میں جاکر گوشت کے ٹکڑے ٹکڑے کرے۔ اسے نرم کردے، یہ سخت گوشت ہمیں تکلیف نہ دے سکے اور باآسانی ہضم ہوجائے۔ (کنزالعمال)



پیر، 21 فروری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1997 ( Surah At-Tahrim Ayat 01 - 05 ) درس ق...

Shortclip - دنیا کے امتحان میں کامیابی کیسے ممکن ہے؟

Shortclip - کیا مجرم جنت میں جائیں گے ؟

٭برگزیدئہ کائنات

 

٭برگزیدئہ کائنات

 حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے اولادِابراہیم علیہم السلام میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چن لیاپھر ان کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو منتخب فرمایا، بنو کنانہ کی اولاد میں سے قبیلہ قریش کو فضیلت بخشی ،قبیلہ قریش سے خاندان ہاشم کو ممتاز کیااورخاندان بنو ہاشم سے مجھے برگزیدئہ بنادیا۔(مسلم،ترمذی)

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آدم علیہ السلام کی تمام ذریت سے میں اپنے رب تعالیٰ کے نزدیک معزز ومکرم ہوں، اورمیں یہ بات فخرومباہات کے لیے نہیں کہہ رہا بلکہ اظہار حقیقت کررہا ہوں۔(ترمذی)

٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:میں تمام پہلے گزرے ہوئے انسانوں سے اوربعد میں آنے والے انسانوں سے بارگاہِ الہٰی میں زیادہ معزز ومکرم ہوں ،میرا یہ قول ازرہ فخرو مباہات نہیں بلکہ یہ اظہارِ حقیقت ہے۔(طبرانی)

٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:ایک روزحضرت  جبرئیل علیہ السلام میرے پاس حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ میں نے زمین کے مشارق ومغارب کو چھان مارا ہے لیکن میں نے کوئی بھی ایسا مردنہیں دیکھا جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ افضل ہواورنہ کوئی ایسا خاندان دیکھا ہے جو خاندانِ بنوہاشم سے بڑھ کر ارفع وعلیٰ ہو۔(طبرانی ، ابونعیم،بیہقی)

٭ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:(اے میرے امتیو!)میں تمہارا پیش رُوہوں ، میں تم پر گواہی دینے والا ہوں،اوربخدامیں یہاں بیٹھے ہوئے اپنے حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں بلاشبہ زمین کے خزانوںکی کنجیاں مجھے عطاکردی گئیں ہیں اورمجھے خدا کی قسم !اس بات کا ذرااندیشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے البتہ مجھے یہ خوف ہے کہ تم دنیا کی دولت کو اورسامانِ عیش وعشرت کو جمع کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کوشش کرنے لگو گے۔(الشفاء )

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 55-56 Part-01.کیا ہمارے دل دنیا کی ...

اتوار، 20 فروری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1996 ( Surah At-Talaq Ayat 10 - 12 ) درس قرآن...

زادِ سفر ،کم سے کم



زادِ سفر ،کم سے کم

حضرت سالم بن عبد اللہ کہتے ہیں جب حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ والے وظیفہ پر اکتفاء کیا۔ یہ وظیفہ ان کی ضروریات سے کافی کم تھا۔اس لیے ان کی گزر اوقات میں تنگی رہنے لگی۔اس پر صحابہ کرام (حضرت عثمانؓ ،حضرت علیؓ ، حضرت طلحہؓ، حضرت  زبیر رضی اللہ عنہم )نے باہم مشورہ کیا کہ آپ کا وظیفہ بڑھا دینا چاہیے ،لیکن اس سے بیشتر آپ کی رائے معلوم کرلی جائے ۔آپکی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے گزارش کی گئی کہ وہ آپ کی رائے معلوم کریں ۔جب ام المومنین نے یہ تجویز آپکی خدمت میں پیش کی، آپ نے ان سے پوچھا میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم بتائو کہ تمہارے گھر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے عمدہ لباس کون ساتھا۔ انہوں نے کہا گیروے رنگ کے دوکپڑے جنہیں آپ اس وقت استعمال فرماتے جب کوئی وفد آپکی خدمت میں  حاضر ہوتا یا پھر خطبہء جمعۃ المبارک کیلئے زیب تن فرماتے ۔حضرت عمر نے پوچھا  آقاعلیہ السلام نے تمہارے گھر میں سب سے عمدہ کھانا کیا کھایا ،فرمانے لگیں، ایک مرتبہ ہم نے جو کی روٹی پکائی ،اس گرم گرم روٹی پر گھی کے ڈبے کی تلچھٹ الٹ کر اسے چپڑدیا جس سے وہ روٹی خو ب چکنی چپڑی اورنرم ہوگی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بڑی رغبت سے تناول فرمایا، وہ روٹی آپکو بہت بھائی تھی۔ حضرت عمر نے پوچھا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تمہارے گھر میں سب سے زیادہ نرم بستر کون ساتھا انہوں نے کہا ہمارے پاس ایک موٹا کپڑا تھا ۔گرمی میں اس کو چوہر اکرکے بچھا لیتے اورسردی میں آدھے کو بچھا لیتے اورآدھے کو اوڑھ لیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا اے حفصہ میرے ان خیرخواہ دوستوں تک یہ بات پہنچا دو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرزعمل سے ہر چیز میں ایک اندازا مقرر فرمایا ہے اور ضرورت سے زائد چیزوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھا ہے (آپ ان میں مشغول نہیں ہوئے) اور کم سے کم پر گزارہ کیا۔ میں نے بھی ہر چیز کا اندازا مقررکیا ہے اورقسم بخدا! میں بھی ضرورت سے زائد چیزوں کو ان کے مقامات پر رکھوں گا اورمیں بھی کم سے کم پر گزر بسر کرلوں گا۔ میری اورمیرے دوساتھیوں کی مثال ان تین افراد کی ہے جوایک رہگزر پر چلے ان میں پہلا فر د توشہ لے کر چلا اوراپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ پھر دوسرے نے بھی اس کا اتباع کیا اور اسی کے راستہ پر چلا تو وہ بھی اسی منزل مقصود تک پہنچ گیا ۔پھر تیسرے کی باری آئی ۔اگر وہ ان دونوں کی روش پر چلے گا اورانہی جیسا زادِ سفر رکھے گا تو ان کے ساتھ جاملے گا اور انکے ساتھ رہے گا۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو پھر کبھی بھی وہ انکے ساتھ نہیں مل سکے گا۔ (ابن عساکر ،طبرانی)

ہفتہ، 19 فروری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1995 ( Surah At-Talaq Ayat 08 - 09 ) درس قرآ...

Shortclip - کیا مشرک قابل معافی ہے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 54 part-03.کیا ہمیں صرف دنیا کا مفا...

دنیا سے بے نیازی

 

دنیا سے بے نیازی

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ۔  ایک بار وہ حضور آقائے نامدار علیہ التحیۃ والثناء کے ساتھ باہر نکلے ۔  آپ انصار کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔  وہاں زمین پر کچھ کجھوریں گری ہوئی تھیں۔  آپ نے کجھوروں کو چن لیا اورانھیں تناول فرمانا شروع کیا اور مجھ سے بھی پوچھا اے ابن عمر! تم نہیں کھا رہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ان کجھوروں کو کھانے کی طرف میری تو رغبت نہیں ہورہی ۔  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میرا دل تو چاہ رہا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ چوتھی صبح ہے کہ میں نے اب تک کچھ نہیں کھایا (اے ابن عمر)میں چاہتا تو اپنے پروردگار سے دعاء کرتا اور (بلاشبہ)وہ مجھے قیصر وکسریٰ جیسا ملک عطاء فرمادیتا۔   اے ابن عمر تمھارا اس وقت کیا حال ہوگا ، جب تم لوگ ایسے (آسودہ)ہوجائو گے، جو ایک سال کی روزی ذخیرہ کرکے رکھیں گے اوریقین کمزور ہوجائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں اللہ کی قسم!ہم ابھی اسی باغ میں ہی تھے کہ یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ ’’اوربہت سے جاندار ایسے ہیں جو اپنی غذا جمع کرکے نہیں رکھتے ،اللہ ہی ان کو (مقدرشدہ ) رزق پہنچاتا ہے اورتمہیں بھی،اور وہ سب کچھ سنتا ہے اورسب کچھ جانتا ہے‘‘۔(عنکبوت ۶۰) 
پھر جناب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے نہ تو دنیا جمع کرنے کا حکم دیا ہے اورنہ ہی خواہشات کی پیروی کرنے کا ۔  جو انسان اس ارادے سے دنیا جمع کرتا ہے کہ بقیہ زندگی میں کام آئے گی، تواسے (اچھی طرح )سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی (کی باگ ڈور )تو اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے (کیا خبر کب پیغامِ اجل آجائے)اورغورسے سنو میں نہ تو درھم ودینار جمع کرتا ہوں اورنہ ہی کل کے لیے کچھ پس انداز اکرکے رکھتا ہوں۔ (ابن حبان، ابن ابی حاتم)حضرت عکرمہ بن خالد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت حفصہ ،حضرت ابن مطیع اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی گرتی ہوئی صحت پر بڑی تشویش ہوئی۔  ان حضرات نے آپ سے گزارش کی کہ اگر آپ اچھا کھانا کھایا کریں تو اس سے آپ کی صحت بہتر رہے گی اورآپ کو راہِ حق پر چلنے میں زیادہ قوت بھی حاصل ہوگی۔ آپ نے فرمایا مجھے خبر ہے کہ تم میں سے ہر شخص میرا خیر خواہ ہے ۔  مگر میں نے اپنے دونوں ساتھیوں جناب نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک راستے پر چلتا ہوا چھوڑا ہے۔  اگر میں نے ان دونوں کا راستہ چھو ڑ دیا تو ان کی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکوں گا۔ (عبد الرزاق ،بہیقی )

جمعہ، 18 فروری، 2022

Shortclip - دنیا کی حقیقت

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1994 ( Surah At-Talaq Ayat 06 - 07 ) درس قر...

shortclip - کیا انسان کو اپنے گمراہ ہونے کا پتہ چلتا ہے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 54 Part-02.کیا ہم دین اسلام کے مطاب...

حضور کا سادہ طرزِ حیات

 

حضور کا سادہ طرزِ حیات

حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کا بیان فرماتے ہیں :حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اون کا کپڑا پہنا اورٹانکالگا ہوا جوتا استعمال فرمایا، کھردرے ٹاٹ کے کپڑے پہنے اور’’شبع ‘‘ تناول فرمایا۔حضرت حسن بصری سے پوچھا گیا کہ شبع کس کھانے کو کہتے ہیں۔انہوں نے وضاحت فرمائی، موٹے پسے ہوئے جو جنہیں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے گھونٹ سے نگل لیا کرتے تھے۔ (ابن ماجہ) حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہااپنا واقعہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے آٹا چھا ن کر حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک چپاتی پکائی ۔جب وہ آپکی خدمت اقدس میں پیش کی گئی تو آپ نے استفسار فرمایا :یہ کیا ہے ؟میں نے عرض کیا یہ کھانے کی ایک قسم ہے جسے ہم اپنے علاقے میں پکایا کرتے ہیں(آپ حبشہ کی رہنے والی تھیں)میرا جی چاہا کہ میں آپ کیلئے بھی اس طرح کی ایک چپاتی بنائوں ۔ آپ نے ارشادفرمایا :نہیں! بلکہ اس چھان کو دوبارہ اسی آٹے میں واپس ملاکر گوند ھواور پھر اس میں سے روٹیاں تیارکرو۔حضرت رافع رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ حضرت حسن بن علی ،حضرت عبداللہ بن جعفر اورحضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہم )میرے پاس آئے اورمجھ سے فرمائش کی، کہ آج آپ ہمارے لیے وہ کھانا تیار کریں جو ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغوب تھا۔ میں نے کہا میرے پیارے بیٹو!میں پکا تو دوں گی ،لیکن آج شاید تم اسے آسانی سے کھانہ سکو۔(وہ مُصِر رہے تو )میں اٹھی ،جو لے کران کو پیسا اورپھونک مار کر اسکی موٹی موٹی بھوسی اڑا دی پھر اس آٹے سے ایک روٹی تیار کرلی، اس پر (زیتون کا)تیل لگایا ،اس پر کالی مرچ چھڑک دی اور اسے ان حضرات کے سامنے رکھ دیا ۔ میں نے کہ یہ ہے وہ کھانا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو مرغوب تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں۔ حضور سید عالم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک پیالہ پیش کیاگیا ۔جس میں شہد اوردودھ کاآمیزہ تھا اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا : پینے کی دوچیزوں کوایک بنادیا گیا ہے۔ اورایک پیالے میں دوسالن جمع کردیے گئے ہیں۔ مجھے اسکی ضرورت نہیں، غور سے سنو! میں یہ نہیں کہتا کہ یہ حرام ہے ،لیکن میں یہ نہیں پسند کرتاکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قیامت کے دن ضرورت سے زائد چیزوں کے بارے میں پوچھے۔  میں تو اللہ کے حضور میں تواضع اختیار کرتا ہوں کیونکہ جو بھی اللہ کیلئے تواضع اختیار کریگا ،اللہ اسے سر بلند کردیگااور جو تکبر کریگا اللہ اسے سرنگوں کردیگا اورجو خرچ میں میانہ روی اختیار کریگا اللہ اسے غنی کردیگا اورجو موت کو کثرت سے یاد کریگا اللہ اپنے اس بندے سے محبت کریگا۔ (طبرانی)

جمعرات، 17 فروری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1993 ( Surah At-Talaq Ayat 04 - 05 ) درس قر...

Darsulquran surah al-maeda ayat 54 part-01.کیا دین اسلام کو ہم نے عملی ط...

Shortclip - اعمال صالحہ کی ضرورت

یاد رکھنے والی باتیں

 

یاد رکھنے والی باتیں

خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں۔

٭کون سی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت میں نہیں ہے ،پس انسان کو چاہیے کہ وہ اس کا احکام بجالانے میں کوئی قصور وکوتاہی نہ کرے۔تاکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے قدرت حق سے بامراد ہوجائے۔

٭میں نے اپنے شیخ حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒ کی زبان فیض ترجمان سے سنا کہ کسی شخص میں تین خصلتیں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ خدا اسے دوست رکھتا ہے ،سخاوت دریا کی طرح، شفقت آفتاب کی طرح اورتواضع زمین کی طرح۔٭حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ صحبت اثر کرتی ہے۔ یعنی کوئی شخص نیکوں کی صحبت میں بیٹھے گا تووہ نیک ہوجائے گا۔اس لیے کہ جس کسی نے کچھ پایا صحبت اورہم نشینی سے پایا اورجو نعمت سعادت حاصل کی وہ نیکوں اورصالحوں کی رفاقت سے ملی۔٭اگر کوئی شخص کچھ عرصہ کے لئے نیک لوگوں کی ہمنشینی اختیار کرے تو امید ہے کہ ان کی صحبت ضرور اثر کر ے گی اور وہ نیک بن جائے گااور یہ چیز اس کی نیکی پر دلالت ہوگی، اوراگر کوئی نیک فرد چند روز کے لیے بروں کی صحبت اورہم مجلسی اختیار کرے گا تو وہ بھی ان کی طرح ہوجائے گا۔ 

٭دنیا میں عزیزترین چیز یں تین ہیں۔ اول : وہ عالم جس کی گفتگو اپنے علم وفضل سے ہو۔دوم:وہ آدمی جسے طمع اورلالچ نہ ہو۔سو ئم:وہ عارف جو ہمیشہ حق تعالیٰ کے اوصاف بیان کرے۔

٭درویشی یہ ہے کہ کسی آنے والے کو محروم اورمایوس نہ کیاجائے اگر کوئی بھوکا ہے تو اسے پیٹ بھرکر کھانا کھلایا جائے۔اگر کوئی ننگا ہو تو اسے مناسب لباس مہیا کیاجائے۔چاہیے کہ ہر حالت میں کسی شخص کو محروم نہ چھوڑا جائے۔ حتٰی کہ ہر کسی کی احوال پر سی کرے اس کی دلجوئی ضرور کرنی چاہیے یہی درویشی ہے۔ 

٭عارفان الٰہی کی خصلت محبت میں اخلاص ہے۔ جہان میں بہت عزیز اورعمدہ بات یہ ہے کہ دوستوں کے ساتھ مل کر بیٹھیں اورجو کچھ دل میں ہو،ایک دوسرے سے بلاتکلف کہہ دیں اورصاف صاف بیان کریں۔بدترین چیز یہ ہے کہ دوست دوستوں سے جدارہیں۔٭اللہ تبارک وتعالیٰ سے دوستی کیسی کی جاسکتی ہے؟اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان چیزوں سے دوشمنی رکھی جائے جنہیں اللہ تعالیٰ دشمن سمجھتا ہے۔ مثلاً دنیا اورنفس ۔ایک بزرگ سے عارف کی علامت کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا عارف وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی طرف نہ دیکھے ۔

٭ حضرت رابعہ بصری سے پوچھا گیا کہ افضل ترین عمل کون سا ہے انھوں نے جواب دیا اوقات کی تعمیر ،یعنی اوقات کو یادِ الہٰی میں بسر کرتا افضل ترین عمل ہے۔ 

بدھ، 16 فروری، 2022

Shortclip - کیا دنیا ہی ہماری منزل ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1992 ( Surah At-Talaq Ayat 02 - 03 Part-4 )...

درسِ ہدایت

 

درسِ ہدایت

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی تحریر فرماتے ہیں ۔حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، چھ درویشِ سمر قندکی جانب سے آکر آپکی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، مولانا بہائو الدین بخاری جو آپ کے زیر تربیت تھے وہ بھی موقع پر موجود تھے، پھر شیخ اوحدالدین کرمانی بھی مجلس میں آکر بیٹھ گئے ۔اس وقت محفل میں گفتگو اس بارے میں ہورہی تھی کہ فرض نماز میں اس قدر تاخیر کی جائے کہ اس کا وقت ہی گزر جائے اورقضاء کرکے اداکی جائے، تو اس پر خواجہ معین الدین ؒ نے ارشادفرمایا :’’ان مسلمانوں کے کیا کہنے ہیں جو بر وقت نماز ادا نہیں کرتے اورتاخیر کردیتے ہیں تاکہ نماز کا وقت گزرجائے ان کی مسلمانی پر بیس ہزار مرتبہ افسوس سے، جو مولاکریم کی بندگی کرنے ہیں تقصیر اورکوتاہی کرتے ہیں‘‘۔٭پھر آپ نے اس موقع محل پر ارشاد فرمایا: میں ایک دفعہ ایک ایسے شہر میں مقیم تھا جہاں کے مسلمانوں کا دستور یہ تھا کہ وہ وقت سے پہلے نماز اداکرنے کیلئے تیار ہوجائے ۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ تم سب وقت مقررہ سے پہلے ہی نماز کیلئے تیار ہوجاتے ہو؟انہوں نے کہا اس لئے کہ جب وقت نماز آجائے تو فی الفور نماز ادا کرلیں ۔جب پہلے سے تیار نہ ہوں گے تو اندیشہ ہے کہ وقت گزر جائے گا، پھر کل قیامت کے روز کس طرح یہ چہرہ جناب رسالت مآب ﷺ کو دکھا سکیں گے۔ کیا آپ نے یہ فرمان نہیں سنا۔ عجّلو ابالتوبہ قبل الموت وعجلوا بالصلوٰۃ قبل الفوت۔ یعنی موت سے قبل توبہ کیلئے جلدی کرو، اور فوت (قضائ) سے قبل نماز کیلئے جلدی کرو۔٭بعد ازاں صدقے کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی تو فرمایا : جو کوئی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے حق تعالیٰ سبحانہٗ قیامت کے روز اسکے اوردوزخ کے درمیان سات پرد ے حائل کردیگا۔ جن میں سے ہر ایک پردہ پانچ سوبرس کی مسافت کے برابر ہوگا۔ ٭پھر کچھ دیر بعد جھوٹ بولنے کے بارے میں گفتگو ہوئی تو فرمایا جس کسی نے جھوٹی قسم کھائی گویا اس نے اپنے گھر بار کو ویران اوربرباد کیا اور خیروبرکت اس گھر سے اٹھا لی گئی۔ ٭کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہیں کہ مسلمان بھائی کو بلاوجہ تکلیف دی جائے (جیسا کہ قرآن پاک میں اس پر شدید وعید آئی ہے)مسلمان بھائی کو ستانا اور اسے رنجیدہ وخاطر کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اوراللہ رب العزت اوراس کے پیارے رسول ﷺکی رنجیدگی کا باعث ہے ۔
٭عاجزوں کی فریاد رسی ، حاجت مندوں اوربے چاروں کی حاجت روائی اوربھوکوں کو کھانا کھلانا (ازحد ضروری ہے کہ)خدائے بزرگ وبرتر کے نزدیک اس عمل سے بہتر کوئی اورعمل نہیں ہے۔(دلیل العارفین)

Shortclip - ایمان کے تقاضے

Darsulquran surah al-maeda ayat 52-53.کیا ہم پکے منافق ہیں

منگل، 15 فروری، 2022

Shortclip - وسوسہ شیطانی کیا ہے؟

درسِ آگہی

 

درسِ آگہی

حضرت خواجہء بزرگ معین الدین اجمیری ارشاد فرماتے ہیں :٭عارف ہر وقت ولولہء عشق میں ہوتا ہے اور پروردگار کی قدرت اوراسکی آفریش پر غور وفکر کرتا ہے اورمتحیر رہتا ہے۔ اگر کھڑا ہے تو بھی خیال یار میں ہے ،بیٹھتا ہے تو بھی دوست کے ذکر میں مشغول ہے۔ اگر سویا ہے تو بھی عالم خواب میں جلوہ دوست میں ہے اور اگر جاگتا تو دوست کی عظمت کے حجاب کے گرد محو طواف ہوتا ہے۔ ٭اہل عشق صبح کی نماز ادا کر کے جائے نماز پر سورج نکلنے تک قیام پذیر رہتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے دوست کی نظر میں مقبول ہوجائیں اوردم بدم تجلیات الہٰی سے مستفیض ہوں۔٭جب ایسا شخص صبح کی نماز ادا کرکے جائے نماز پر قیام پذیر ہوتا ہے تو فرشتے کو حکم ملتا ہے کہ وہ آکر اسکے پاس کھڑا ہوجائے اوراس کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ سے مغفرت و بخشش طلب کرے کہ وہ مطمئن ہوکر وہاں سے اٹھے۔ ٭نماز ایک امانت ہے جو پروردگار کی طرف سے بندوں کے سپر د کی گئی ہے۔ پس بندوں پر واجب ہے کہ وہ اس امانت کو اس طرح محفوظ رکھیں اوراس کا حق اس طرح بجالائیں کہ اس میں کوئی خیانت ظاہر نہ ہو۔ ٭جب کوئی شخص نماز ادا کرے توچاہیے کہ رکوع وسجود کماحقہ،بجالائے جیسا کہ حکم ہے اورارکان نماز کو اچھی طرح ملحوظ رکھے۔ ٭میں نے صلوٰۃ مسعودی میں لکھا دیکھا ہے کہ جب لوگ نماز اچھی طرح اداکرتے ہیں اوراسکے تمام حقوق بجالاتے ہیں ،رکوع سجود ،قرآت اورتسبیح کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں توفرشتے اس نماز کو آسمان پر لے جاتے ہیں۔ اس نماز سے ایک نور شائع ہوتا ہے اورآسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ پھر وہ نماز عرش کے نیچے لائی جاتی ہے توحکم ہوتا ہے کہ سجدہ کر اور نماز اداکرنے والے کیلئے بخشش مانگ کہ اس نے تیرے حق کو ملحوظ رکھا ہے (جامع الملفوظ لکھتے ہیں )پھر خواجہ صاحب روپڑے اورفرمایا :’’یہ تو اچھی نماز اداکرنیوالوں کے حق میں ہے۔لیکن جو لوگ نماز کا حق بجانہیں لاتے اور ارکان نماز کو بخوبی ملحوظ نہیں رکھتے ‘جب فرشتے ان کی نماز کو آسمان پر لے جانا چاہتے ہیں توآسمان کے دروازے نہیں کھلتے ،حکم ہوتا ہے کہ اس نماز کو لے جاکر اسی نماز ی کے منہ پر دے مارو‘‘۔پھر نماز زبان حال سے کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا ۔٭میں شام کے ایک شہر میں ایک بزرگ شیخ اوحد محمد الواحد غزنوی سے اکتساب کیلئے گیا تو انھوں نے فرمایا :اے درویش نماز رکن دین ہے اوررکن بمنزلہ ستون ہوتا ہے پس جب تک ستون قائم ہوگا ،گوگھر سلامت رہے گا اورجب ستون قائم نہیں رہے گا تو گھر بھی سلامت نہیں رہے گا۔ چونکہ اسلام اوردین کیلئے نماز ستون کی مانند ہے ،جب نماز میں فرض ،سنت اوررکوع سجود میں خلل آئیگا تو حقیقت اسلام اور دین بھی متاثر ہوگا۔(دلیل العارفین)

Shortclip مومن کون؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 51. کیا غیر اللہ سے محبت شرک ہے

پیر، 14 فروری، 2022

Shortclip - اللہ تعالیٰ کی بندگی کیسے ممکن ہے؟

مشعل ِ راہ

 

مشعل ِ راہ

حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ارشادفرماتے ہیں: ٭صرف نماز ہی منزل گاہ عزت کے قریب ہونے کا ذریعہ ہے ا س لیے کہ نماز مومن کی معراج ہے چنانچہ حدیث پاک میں بھی وارد ہے الصلوٰۃ معراج المومنین ۔تمام مقامات سے بالاتر نماز ہے۔ القائے ربانی کا وسیلہ اوّل نماز ہی ہے۔ ٭نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے بیان کرتا ہے راز کہنے کے لیے کسی کاقرب چاہیے ،قرب وہی پاسکتا ہے جواس راز کے لائق اورسز اوار ہو، یہ راز سوائے نماز کے اورکسی طرح بیان نہیں ہوسکتا حدیث مبارک میں مسطور ہے   المصّلی یناجی ربہٗ یعنی نماز ادا کرنے والا اپنے ربِ کریم سے سرگوشی کرتا ہے۔ ٭حضرت خواجہ ابواللیث سمرقندی جو فقہ کے امام ہیں اور صاحب تفسیر بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے آسمان سے ہرروز دوفرشتے اتر تے ہیں ایک خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوکر بلند آواز سے کہتا ہے، اے انسانواور اے قوم جنات سنو اوراچھی طرح جان لو، جو شخص اللہ تبارک تعالیٰ کا فرض بجا نہیں لاتا وہ خدا کی پناہ میں نہیں رہتا ۔ دوسرا فرشتہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حظیرہ کی چھت پر کھڑا ہوکر آواز دیتا ہے۔ اے جن وانس سنو اورخوب سمجھ لو کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کی سنت کو پس پشت ڈال دیتا ہے اوراس سے تجاوز کرتا ہے وہ شفاعت سے بے بہرہ رہے گا۔ ٭ایک مرتبہ میں نے خواجہ احل شیرازی کو بہت متردِ خاطر اورپریشان پایا میں نے ان سے دریافت کیا ،کیاماجراہے۔فرمانے لگے ایک روز مجھ سے (دوران وضو)انگلیوں کا خلال سہواً ترک ہوگیا ۔میں اس روز سے فکر مند اورحیرت زدہ ہوں کہ (اس ترک سنت پر ) کل قیامت کے روز اپنا چہرہ حضور خواجہ کائنات ﷺکو کیسے دکھائوں گا۔٭ایک روز نبی کریم ﷺکے سامنے ابلیس آیا، آپ نے اسے بڑا غمگین پایا، آپ نے دریافت کیا ،تیرے اس غم واندوہ کا سبب کیا ہے ۔ اس نے جواب دیا آپ کی امت کے چارگروہوں کی وجہ سے میں بڑا پریشان ہوں ۔ (۱) ایک مئوذنوں کا گروہ ہے، جو اذان کہتے ہیں۔اورجو کوئی اذان سنتا ہے اور اس کا جواب دینے میں مشغول ہوجاتا ہے۔اس طرح وہ دونوں بخشے جاتے ہیں ۔۲) دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو جہاد کیلئے نکلتے ہیں انکے گھوڑوں کے سموں کی آواز سنائی دیتی ہے جب وہ تکبیر کہتے ہیں ۔تو فرمانِ ایزدی نازل ہوتا ہے کہ میں نے انھیں اورانکے متعلقین کو بخش دیا۔ (۳)تیسرا کسب حلال سے روزی کمانے والوں کاگروہ ہے وہ کسب حلال سے خود بھی کھاتے ہیں دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں اوراللہ حلال کمائی کی برکت سے ان سب کو بخش دیتا ہے۔ (۴) چوتھا وہ گروہ ہے جو فجر کے بعد اشراق اداکرکے مسجد سے نکلتا ہے ۔(دلیل العارفین )

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 50.کیا ہم دور جاہلیت میں ہیں

اتوار، 13 فروری، 2022

Shortclip - انسان کی کامیابی کا راز

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1989 ( Surah At-Talaq Ayat 02 - 03 Part-1 ) ...

خواجہء بزرگ

 

خواجہء بزرگ

حضرت خواجہ معین الدین اجمیری تاریخ اسلام کے ان رجالِ کار میں سے ایک ہیں جن کی تبلیغی ،علمی اور روحانی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔آپ سادات حسینی میں سے ہیں اوربارہویں پشت میں آپ کا شجرئہ نسب امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔ آپکے والدِ گرامی مرتبت کا اسم گرامی سید غیاث الدین حسن ہے۔ جو نہایت صالح، متقی ،تزکیہ وطہارت سے مزین شخصیت تھے۔ مالی طور پر بھی نہایت آسودہ حال تھے ۔آپ سجستان سے ہجرت کرکے خراسان میں آباد ہوگئے تھے۔ والدہ ماجدہ بی بی ماہ نور سادات حسنی سے تعلق رکھتی ہیں۔سید صباح الدین عبدالرحمن کی تحقیق کیمطابق آپکا سن ولادت ۵۳۰ ہجری ہے۔ ابتدائی تعلیم والدماجد کی نگرانی میں شروع ہوئی ،لیکن ابھی عنفوانِ شباب کے مرحلے میں تھے کہ والد ِ ماجد کا وصال ہوگیا۔ انکے وصال کے بعد ورثے میں ملنے والے باغات کی نگہداری فرمانے لگے لیکن ایک درویش ابراہیم قندوزی سے ملاقات کے بعد دل زراعت وباغبانی سے اچاٹ ہوگیا اورحصولِ علم کا شوق پیدا ہوا، ورثے میں ملنے والی متاعِ دنیا کو اللہ کے راستے میں خیرات کیا اوربخارا وسمر قند کے علمی مراکز کا رخ کیا۔ جہاں حفظ قرآن کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے ۔اورتمام متد اول علوم وفنون کی تحصیل کی۔ تکمیل علوم کے بعد روحانی تربیت کی طرف راغب ہوئے اور اس زمانے کی مشہور علمی وروحانی شخصیت حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت اقدس میں بغداد پہنچے اورانکی صحبت اختیار کی۔تقریباً ۲۲سال تک انکی تربیت ہی میں رہے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی سیاحت کے بے حد مشتاق تھے اورانکا یہ سفر اہل علم وعرفان سے ملاقات کی خاطرہوا کرتا تھا۔انکی رفاقت میں خواجہ معین الدین کو وقت کے مشاہیر سے ملاقات اور اکتساب کا موقع میسر آیا۔خواجہ عثمان ہارونی  ؒ آپکی شخصیت کی تکمیل وتربیت سے بڑے احسن طریقے سے عہدہ براہ ہوئے۔  ۵۲ سال کی عمر میں آپ کو مسند ارشاد پر فائز کیا گیا اورعازم ہندوستان ہونے کا حکم ہوا۔ آپکے ساتھ حضرت عثمان ہارونی کے تربیت یافتہ ۴۰ جلیل القدر مبلغین کی ایک جماعت تھی ۔ ہندوستان سے آنے سے پہلے آپ نے خود بھی دیار وامصار کی سیاحت کی بڑی بڑی علمی و روحانی شخصیات سے ملاقات کی اوران سے مذاکرہ علمی کیا۔ 
اجمیر میں مستقل قیام سے پہلے کچھ عرصہ لاہور، دلی ، اورملتان میں قیام پزیر رہے۔ اوربرصغیر کی تہذیب وثقافت اورتمدن کا گہرا مطالعہ کیا،یہاں کے رسم ورواج اورزبان سے آشنائی پیدا کی ۔ اوراس کے بعد اجمیر کو اپنا مستقر بنایاخواجہ صاحب نے ایک ایسی جماعت مبلغین کے ساتھ وہاں قیام کیا۔جس کے ساتھ کوئی ہتھیار اورلائو لشکر نہیں تھا۔ لیکن آپ نے اپنی حکمت اورمحبت سے جلد ہی پورے ماحول کو تسخیر کرلیا۔

ہفتہ، 12 فروری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1988 ( Surah At-Talaq Ayat 01 Part-3 ) درس ...

Shortclip - ایمان باللہ کے بغیر انسان کی کامیابی ناممکن ہے؟

ایک عظیم مبلغِ اسلام

 

ایک عظیم مبلغِ اسلام

زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں اور ان کے افکاروکردار کی روشنی سے ہمیشہ رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ قرآن مقدس کی روشن تعلیمات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابندہ سیرت اوراثر آفرین سنت نے ایسی بے شمار شخصیتوں کی تشکیل کی جنہیں ہم بڑے فخر کے ساتھ اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرسکتے ہیں ۔ایک ایسی عظیم المرتبت ہستی جس نے اپنے روشن اورتابندہ کردار سے اپنے ا ورپرائے سب سے خراج تحسین حاصل کیا۔خواجہ معین الدین چشتی (۵۳۰-۶۲۷) کی ہے ۔جنہیں برصغیر پاک وھند کے مسلمان بڑے پیار سے ھندِ الولی،عطائے رسول،خواجہ بزرگ اورنائب رسول اللہ فی الھند جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں اور غیر مسلم بھی انھیں ان کی انسان دوستی ،سخاوت ،دریاولی اور بے کراں محبت کی وجہ سے ’’غریب نواز‘‘کہتے ہیں۔سید امیر خوردکرمانی (۷۱۱-۷۷۰ھ)جو برصغیر کے اوّلین تذکرہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔اور آپ کے عہد سے نسبتاً زیادہ قریب ہیں ۔آپ کے برصغیر میں ورد ،تبلیغی خدمات اوراثرات کے بارے میں رقم طراز ہیں۔ ’’کون سی کرامت اورمراتب اعلیٰ میں اس مرتبہ سے زیادہ بلند ہوگاکہ جو بزرگ اس بادشاہِ دین کے ساتھ منسلک ہوئے انھوں نے خدا کے بندوں کا خیال رکھا اوردنیاوی غرور کوترک کردیااورعقبیٰ کو اپنا مقام بنالیا۔ دوسرا آپ کا سب سے بڑ ا کمال یہ ہے کہ حضرت خواجہ صاحب کے تشریف لانے سے پہلے مملکت ہند وستان میں جہاں تک آفتاب نکلتا ہے،اس کے تمام شہر کفرو کافری ،بت گری اور بت پرستی میں مبتلاہے۔ ہندوستان کے سرکشوں میں ہر ایک (فرعون کی طرح ) اناربکم الاعلیٰ(میں تمہارا بڑا رب ہوں)کا دعویٰ کرتا تھا، اوراپنے آپ کو خدائے جلٰ وعلی کا شریک ٹھہراتا تھا۔ یہ سب پتھروں ،ڈھیلوں ،درخت ،چوپایوں ،گائے ، بیلوں اورانکے گوبر کو سجدہ کرتے تھے اورکفر کے اندھیروں سے انکے دل کے قفل اوربھی مستحکم ہوگئے تھے۔ اس آفتابِ یقین کے پہنچنے کی وجہ سے کہ جو حقیقت میں بھی معین الدین تھے(دین کے مددگار، یعنی اپنے نام کا صحیح مصداق تھے)(آپ کی وجہ سے ) اس ملک کی ظلمت نورِ اسلام سے روشن اورمنور ہوئی۔ جو کوئی اس ملک میں مسلمان ہوگا اور اگر قیامت تک بھی اسکی اولاد میں توالد کاسلسلہ جاری رہے گا۔اوراس گروہ کوجن کو جنگوں کے بعد دارالحرب سے دارالسلام میں لایا جائے گا۔ قیامت تک ان تمام باتوں کا ثواب اللہ رب العزت کی بارگاہ سے (تبلیغ وترویج دین اور فروغِ علم شریعت کے صدقہء جاریہ کی وجہ سے )اس عظیم المرتبت شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری قدس سرئہ العزیز کو پہنچتا رہے گا۔ انشاء اللہ العزیز ۔(سیر الاولیائ)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:خواجہ معین الدین اجمیری کے ہندوستان میں تشریف لانے کی وجہ سے کفر وفساد کی جڑیں متزلزل ہوگئیں ۔(اخیار الاخیار) 

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 49.ہمیں سکون قلب کیوں حاصل نہیں ہے

جمعہ، 11 فروری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1987 ( Surah At-Talaq Ayat 01 Part-2 ) درس ...

Shortclip - ہم میں بے نیازی کی صفت کیسے پیدا ہوگی؟

یہ زہد ،یہ تقویٰ

 

یہ زہد ،یہ تقویٰ

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پینے کے لیے پانی طلب فرمایا،آپ کی خدمت میں ایک برتن پیش کیاگیا، جس میں پانی اورشہد کا آمیزہ تھا، جب آپ اسے اپنے منہ کے قریب لے گئے تو بے ساختہ روپڑے اوراتنا روئے کہ تمام حاضرین محفل بھی رونے لگ گئے۔کچھ دیر بعد آپ تو خاموش ہوگے لیکن باقی لوگ خاموش نہ ہوسکے۔آپ اس مشروب کو دوبارہ اپنے منہ کے قریب لے گئے تو پھر آپ پر گریہ طاری ہوگیا۔اور اس بار پہلے سے بھی زیادہ روئے ، لیکن کسی میں ہمت نہ ہورہی تھی کہ آپ سے اس کثرتِ گریہ کا سبب دریافت کرے ۔آخر جب ان کی طبیعت کافی ہلکی ہوگئی اورانھوں نے اپنے آنسو پونچھ لیے تو لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ اے خلیفہء رسول آپ کو کس بات نے اتنا زیادہ رلادیا ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا:(یہ مشروب دیکھ کر مجھے ایک واقعہ یاد آگیااوراس نے مجھے رلادیا )میں ایک مرتبہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔میں نے دیکھا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیزکو اپنے سے دور کر رہے ہیں لیکن مجھے کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی ۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ کیا شئی ہے جسے آپ اپنے دور بھگا رہے ہیں مجھے تو کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی۔آپ نے ارشادفرمایا :دنیا میری طرف بڑھنے لگی تو میں نے اس سے کہا دور ہوجائو،اس نے مجھ سے کہا آپ تومجھے حاصل کرنے والے نہیں ہیں۔لیکن آپ کے بعد آپ کی امت مجھ سے بچ نہیں سکے گی۔سو(یہ بات یاد آنے کے بعد)یہ شہد ملامیرا پانی پینا میرے لیے دشوار ہوگیا اورمجھے یہ خوف لاحق ہوگیا کہ کہیں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہٹ نہ جائوں اوریہ دنیا مجھے نہ آگھیرے۔(بزاز)حضرت سالم بن عبداللہ کہتے ہیں ۔حضرت عمرابن خطاب نے ارشاد فرمایا کرتے تھے،اللہ رب العزت کی قسم ہمیں اس دنیا کی لذتوں کی کوئی پروا نہیں، ہمارے کہنے پر لذتوں کے کتنے ہی سامان تیار ہوسکتے ہیں۔ان بکروں کے بال صاف کرکے انھیں روسٹ کرلیاجائے،میدے کی عمدہ اورخستہ روٹیاں پکائی جائیں۔ ڈول میں کشمش کو بھگو کر اتنی دیر رکھا جائے کہ چکور کی آنکھ جیسے رنگ کا طیب اورطاہر مشروب تیارہوجائے اور ہم ان تمام چیزوں کونوشِ جاںلیں۔ہم یہ سب کچھ کرسکتے ہیں لیکن اس وجہ سے نہیں کرتے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نیکیوں کا بدلہ ہمیں آخرت میں ملے،یہاں نہ ملے ،ہم نے اپنے پروردگار کا یہ ارشاد سن رکھا ہے۔ ’’(اے کافرو)تم اپنی لذت کی چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں حاصل کرچکے ہو‘‘۔(ابونعیم)

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 48 Part-03.کیا ہم نیکی کرنے کے دائر...

جمعرات، 10 فروری، 2022

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 48 part-02.کیا صرف دنیا ہی ہماری من...

خلفائے راشدین کا طرزِ عمل

 

خلفائے راشدین کا طرزِ عمل

حضرت حمید بن ہلال کہتے ہیں ،جب حضرت ابوبکر صدیق ؓخلیفہ بنائے گئے توحضور اکرم ﷺکے صحابہ کرام نے کہا جناب رسالت مآب ﷺکے خلیفہ کیلئے اتنا وظیفہ مقرر کرو جو ان کیلئے کافی ہو،چنانچہ مقرر کرنے والوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ایک تو ان کو بیت المال سے پہننے کیلئے دوچادریں ملاکرینگے،جب وہ پرانی ہو جایا کریں تو انھیں واپس کرکے ان جیسی دونئی چادریں لے لیا کریں،دوسرے سفر کیلئے انھیں سواری ملاکر ے گی ،اورتیسرے خلیفہ بننے سے پہلے یہ اپنے گھر والوں کو جتنا خرچہ دیاکرتے تھے اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا میں اس پر راضی ہوں ۔(کنزالعمال )
حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں حضرت عمر ؓاپنے زمانہ خلافت میں ایسا اونی جبہ زیب تن فرماتے تھے جس میں چمڑے کے پیوند بھی لگے ہوئے تھے۔حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں حضرت عمر ؓاپنے اوراپنے اہل وعیال کیلئے محض گزرا کے قابل خوراک ہی بیت المال سے لیاکرتے تھے۔گرمیوں میں ایک ہی جوڑا پہنتے ۔بعض دفعہ انکی لنگی پھٹ جاتی تو اسے پیوند لگا لیتے لیکن وقت آنے سے پہلے اس جگہ بیت المال سے دوسری چادر نہ لیتے بلکہ اسی سے کام چلالیتے اورجس سال خزانے میں مال زیادہ آتا اس سال ان کا جوڑا گذشتہ سال کی نسبت اور سستا ہوجاتا انکی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اس بارے میں با ت کی تو ارشادفر مایا :میں مسلمانوں کے مال میں سے پہننے کیلئے جوڑا لے لیتا ہوں اوریہ میری ضرورت کیلئے کافی ہے۔ (کنزالعمال)
حضرت عبد الملک بن شدّاد کہتے ہیں میں نے جمعۃ المبارک کے دن حضرت عثمان بن عفان کی زیارت کی وہ منبر پر فروکش تھے اورانکے جسم پر عدن کی بُنی ہوئی ایک موٹی لنگی تھی جسکی قیمت محض چاریا پانچ درھم تھی اور اورگیروے رنگ کی ایک کوفی چادر تھی ، حضرت حسن ؒ فرماتے ہیں میں نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو دیکھا کہ وہ اپنے زمانہ خلافت میں مسجد میں قیلولہ فرمارہے تھے۔جب سوکر اٹھے تو انکے جسم پر کنکریوں کے نشانات تھے اورلوگ اس سادگی پر حیران ہو کر کہہ رہے تھے یہ امیر المومنین ہیں ،یہ امیرالمومنین ہیں۔(احمد،ابونعیم)
حضرت زید بن وہب کہتے ہیں ایک دن امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؓہمارے پاس باہر تشریف لائے۔ انھوں نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی اورایک لنگی باندھی ہوئی تھی جس پر پیوند بھی لگا ہوا تھا۔ کسی نے ان سے انکے اتنے سادہ کپڑوں کے بارے میں کچھ کہا تو آپ نے ارشادفرمایا میں سادہ سے یہ دو کپڑے اس لیے استعمال کرتا ہوں کہ انکی وجہ سے غرور وتکبر سے محفوظ رہوں گا۔ان میں نماز بھی زیادہ بہتر طریقے سے اداہوگی اورپھر یہ بندئہ مومن کیلئے سنت بھی ہے۔ (کنزالعمال)

بدھ، 9 فروری، 2022

Shortclip - گمان اور وسوسے میں فرق

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1985 (Surah At-Taghabun Ayat 16-18 Part-3 ) ...

Shortclip - ڈپریشن کا علاج

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 48 part-01.کیا ہم زندگی اپنی خواہشا...

سیّدُ العالمین کا طرزِ عمل

 

سیّدُ العالمین کا طرزِ عمل

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مجھے حضرت عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنا قصہ سنایا وہ فرماتے ہیں۔میں ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ ایک چٹائی پر تشریف فرماتھے ۔میں نے دیکھاکہ آپ نے صرف ایک چادر باندھی ہوئی ہے ،اس کے علاوہ جسمِ اطہر پر کوئی کپڑا نہیں ہے۔اس وجہ سے آپ کے جسمِ مبارک پر چٹائی کے نشانات پڑے ہوئے تھے۔ایک کونے میں تھوڑے سے جو اور (کھال زنگنے کی غرض سے)کیکر کے کچھ پتے پڑے ہوئے تھے اور ساتھ ہی ایک بغیر رنگی ہوئی خشک کھال لٹکی ہوئی تھی۔(یہ تھی گھر کی کل متاع)جسے دیکھ کر میری آنکھ میں بے اختیار آنسو نکل آئے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا روتے کیوں ہواے ابن خطاب !میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی میں کیوں نہ رئووں ۔جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے جسم اقدس پر چٹائی کے نشانات پڑے ہوئے ہیں اور گھر کی یہ کل کائنات ہے جو میرے پیشِ نظر ہے۔ جبکہ اُدھر قیصر وکسریٰ پھلوں اورنہروں کی فراوانی میں (اور سونے کے تختوں اورریشم و دیباج کے بچھونوں پر ) ہوں ۔اور آپ اللہ کے فرستادہ نبی اوربرگزیدہ بندے ہوکر بھی اس حالت میں؟آپ نے ارشاد فرمایا :اے ابن خطاب کیاتم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ ہمارے لیے آخرت ہواور ان کے دنیا۔(ابن ماجہ ،حاکم)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں ایک انصاری خاتون میرے پاس آئیں، انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ملاحظہ کیا کہ محض ایک چادر ہے جسے دہر اکرکے بچھایا ہوا ہے۔ (واپس جاکر)انھوں نے میرے پاس ایک (آرام دہ)بستر بھیجا جس کے اندر اون بھر ی ہوئی تھی۔جب آپ میرے پاس تشریف لائے تو اسے دیکھ کر مجھ سے استفسار فرمایا :عائشہ یہ کیا ہے؟میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ فلاں (مہربان)انصاری خاتون میرے پا س آئیں تھیں انھوں نے آپ کا بستر دیکھا تو واپس جا کر میرے پاس یہ بچھونا بھیج دیا آپ نے فرمایا :عائشہ اسے واپس لوٹا دو اللہ کی قسم اگرمیں چاہتا ،تو اللہ تعالیٰ میرے ساتھ سونے اورچاندی کے پہاڑ چلا دیتا ۔(بہیقی)

منگل، 8 فروری، 2022

Shortclip - اسلام کیوں اور کیسے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1984 ( Surah At-Taghabun Ayat 16 Part-2 ) در...

ذوقِ عبادت

 

 ذوقِ عبادت

حضرت سالم بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں ، ایک شخص نے ، جوراوی کے گما ن کے مطابق بنوخزاعہ سے تھا کہا: کاش میں نماز میں مشغول ہوتا اوراس سے مجھے راحت ملتی۔ لوگوں نے گویا اس کے قول کو معیوب سمجھا تواس نے کہا: میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ فرماتے سنا ہے : اے بلا ل! نماز کے لیے اقامت کہو اوراس طرح ہمیں راحت پہنچائو۔(صحیح مسلم)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، ہم رات (کے کسی حصہ )میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھنا چاہتے تو نماز پڑھتے دیکھ سکتے تھے اوراگرآپ کو ہم (رات کے کسی حصہ میں)سوتے دیکھنا چاہتے تو سوتے بھی دیکھ سکتے تھے۔(صحیح بخاری)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: متاع دنیا میں سے عورتوں اورخوشبوکو میرے لیے محبوب بنایاگیا ہے اورمیری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔(صحیح بخاری)

 حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے تھے ، (یا فرمایا)نماز پڑھتے تھے حتیٰ کہ آپ کے قدم مبارک یا پنڈلیاں سوج جایا کرتی تھیں، آپ کی خدمت میں اس صورت میں حال کے متعلق کچھ عرض کیاجاتا تو آپ فرماتے : کیا میں (اللہ تعالیٰ کا)شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(سنن نسائی)

 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! آپ (کبھی )روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں تویوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ روزوں کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے، اور(کبھی)آپ افطار کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ دوبارہ روزے شروع نہیں کریں گے، سوائے دودنوں کے کہ اگروہ آپ کے معمول کے روزوں کے درمیان آجائیں تو ٹھیک ورنہ آپ ان ایام میں ضرور روزہ رکھتے ہیں ، فرمایا: وہ دن کون سے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : پیر کا دن اورجمعرات کا دن ، فرمایا:یہ دونوں دن ایسے ہیں جن میں اعمال بارگاہ خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں ، اورمیں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال جب بارگاہ خداوندی میں پیش ہوں تو اس وقت میں روزے کی حالت میں ہوں۔(سنن نسائی)


Shortclip - آج کا مسلمان پریشان کیوں ہے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 46-47.کیا ہم سب اپنے رب کے نافرمان ہیں

پیر، 7 فروری، 2022

Shortclip - کیا ہمارے پاس عقل نہیں ہے؟

Shortclip - ناکام انسان کون ہے؟

شیوہِ سلیمانی

 

شیوہِ سلیمانی

حضرت شاہ ہمدان ذخیرۃ الملوک میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے باورچی خانے میں جنات نے پتھروں کی بڑی بڑی دیگیں بنادی تھیں اور ان کے باورچی خانے میں ایسی بہت سی دیگوں میں کھانا پکتا اورخلقت کو کھلایا جاتا۔لیکن آپ کا اپنا طرزِعمل یہ تھا کہ آپ اکثر روزہ رکھتے اورتخت پر بیٹھ کر کجھور کے پتوں سے ٹوکریاں بنایا کرتے تھے۔جب رات ہوجاتی توٹوکری کو بازار میں بیچ دیتے اوراس کی قیمت سے جو کی روٹی خرید کر کھاتے اورسر پر کپڑا لپیٹ کر قبرستان میں چلے جاتے اگر کوئی مسکین مل جاتا تو جوکی روٹی میں اسے بھی شریک کرلیتے ،کہا جاتا ہے کہ آپ کادربار اورآپ کا تخت مثالی نوعیت کا تھا۔ جنات نے ایک وسیع میدان میں چاندنی کا فرش بچھادیا تھا اس کے درمیان میں سونے سے بناہوا تخت آراستہ تھا جس کے اردگرد سونے اورچاندی کی بنی ہوئیں کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔اوربرابر ہی بہت سے محراب بنادیے گئے تھے۔ جب دربار لگتا اورحضرت سلمان علیہ السلام تخت پر بیٹھ جاتے تو انبیاء کی اولاد اورامراء ان سنہری اورنقرئی کرسیوں پر بیٹھ جاتے اورعابد محرابوں میں نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ جن وانس پر مشتمل فوج سامنے ترتیب وار صف باندھ لیتی اورپرندے ہوا میں میدان کے اوپر سایہ فگن ہوجاتے۔ ہوا ان کے تخت کو دوش پر اڑائے پھرتی۔ ان تمام اختیارات کے باوجود وہ جوکی روٹی بھی سیر ہوکر نہ کھاتے کہ مبادا کوئی شخص میرے ملک میں بھوکا نہ رہ جائے اورمجھے اس کے حال کی خبر نہ ہوسکے اوراس کی بھوک کی وجہ سے میری شکم شیری کا مواخذہ نہ ہوجائے۔

جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں ان کا وطن قحط کا شکار ہوگیا۔ آپ اس زمانے میں لوگوں کو شکم سیر ہوکر کھانا کھلاتے اورخود بھوکے رہتے تاکہ بھوک کی مشققت اورابتلاء سے واقف رہیں اوربھوکوں کے آزارکو بھول نہ جائیں۔

ایک دن حضرت سلمان علیہ السلام نے کسی سے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلمان کو ایک عظیم ملک عطاء کیا ہے کہ مخلوقات میں نہ تو کسی کو ملا اورنہ ملنے کی امید ہے ۔

حضرت سلمان علیہ السلام نے سنا تو فرمایا : اے نادان سن ! مجھے اللہ کی قسم اگر صدقِ نیت سے ایک تسبیح پڑھی جائے تو اس کا ثواب سلمان کے ملک سے ہزار گناہ زیادہ ہے کیونکہ یہ ملک فانی ہے لیکن اس تسبیح کا ثواب جاودانی ہے۔ (ذخیرۃ الملوک)


Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 45.کیا ہم ہی ظالم ہیں

اتوار، 6 فروری، 2022

ملکِ کلیم ویوسف

 

ملکِ کلیم ویوسف

امیر سید علی بن شہاب شاہ ہمدان ارشاد فرماتے ہیں: ’’پس ان فاجر (حکمرانوں )کی تنبیہ کیلئے اوران ظالم فاسقوں کی ہدایت کیلئے جنہوں نے سلطنت اورحکومت کو تکبر کا سرمایہ سمجھ لیا ہے ،وزارت اورامارت کونفس اورہوا کی خواہشات کا دام بنالیا ہے۔ ظلم وستم کو بادشاہی کا آئین سمجھ بیٹھے ہیں اور فسق وفجور کو بزرگی کی رسم جان چکے ہیں۔ انبیاء کرام کی بادشاہی اور خلفا ء راشدین کی خلافت کے کچھ حالات لکھے جاتے ہیں۔تاکہ یہ تذکرہ عالم آخرت کے طالبوں اور،وساوس شیطانی کے گرفتاروں  اورخواہشات نفسانی کے اسیروں کیلئے حجت رہے۔ 
مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل کی حکومت تفویض کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم بھیجا کہ بنی اسرائیل کو اریحا کی طرف لے جائو اورقومِ عمالقہ کے ساتھ جنگ کرو، فوج تیار ہوگئی ،یہ بارہ لشکر تھے اورہر لشکر میں ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی تھے۔اس لشکر کے بارہ نقیب تھے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام 36یا 39سال اس فوج کے حاکم رہے لیکن ان ایام میں انکے پاس نہ ذاتی سواری تھی اورنہ ذاتی رہائش ،سادہ سی پوستین استعمال کرتے اوراونی ٹوپی سرپر رکھتے تھے۔ کچے چمڑے کا جوتا پائوں میں ہوتا اوردوشاخہ چھڑی ہاتھ میں ۔جہاں رات آتی وہیں قیام کرلیتے ۔کبھی پیٹ بھر کر نہ کھاتے ۔بنی اسرائیل باری باری آپکی خدمت میں کھانا پیش کرتے ایک دن سبطِ الائے میں قیام تھا ۔ جس شخص کے کھانے کی باری تھی وہ شخص کھانا لانا بھول گیا۔ جب بھوک کی کیفیت بہت بڑھ گئی ۔تو جناب باری میں عرض کیا کہ اے مولائے کریم یہ کیسی حالت ہے جس میں میں مبتلا ہوں کہ ایک شخص مجھے صبح کھا نا دیتا اور ایک شام کا، اللہ جل شانہٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اے عمران کے بیٹے دل تنگ مت کروہم اپنے مقبولوں کی روزی عام لوگوں کے ذمے اس لیے لگادیتے ہیں کہ یہ لوگ بھی ہمارے دوستوں کو کھانا کھلانے کی برکت سے سعادت ابدی حاصل کریں۔حضرت یوسف علیہ السلام جب عزیز مصر مقرر ہوئے تو دن بدن دبلے پتلے اورلاغر ہونے لگے۔ مصاحبین نے ہر چند اس کا سبب دریافت کیا لیکن آپ نے کبھی کچھ بیان نہ فرمایا۔ایک دن بہت اصرار پر کہ طبیب کو دکھایا جائے انھوں نے فرمایا میرے مالک کو میری لاغر ی کا سبب بھی معلوم ہے اورعلاج بھی، سترہ سال ہوچکے ہیں کہ اس منصب پر فائز ہوا ہوں میرے نفس کی خواہش ہے کہ اسکو جوکی روٹی سے ہی سیر کردوں لیکن میں نے کبھی اس کا کہنا نہیں مانا ۔ عرض کیا گیا آپ اپنے نفس پر اتنی تکلیف کیوں گوارا کرتے ہیں۔ فرمایا :میں اپنا وطن کے بھوکوں اورمحتاجوں کی مطابقت کرتا ہوں گو انکی راحت کی طرف دل وجان سے دھیان رکھتا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہ مصرکی ولایت میں مبادا کوئی بھی بھوکا رہ گیا ہو اور قیامت میں مجھ سے مواخذہ ہوکہ تم تو ملک کی طرف متوجہ ہوگئے اورمیرے محتاج اورضعیف بندوں کی خبر ہی نہ لی۔(ذخیرۃ الملوک)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1982 ( Surah At-Taghabun Ayat 14 - 15 ) درس ...

ہفتہ، 5 فروری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1981 ( Surah At-Taghabun Ayat 13 ) درس قرآن ...

پیغمبروں کا طرزِ حکومت

 

پیغمبروں کا طرزِ حکومت

حضرت سید امیر کبیر علی ابن شہاب المعروف ’’شاہ ہمدان ‘‘اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ذخیرۃ الملوک ‘‘میں رقم طراز ہیں۔’’اس ذاتِ عالیہ (اللہ رب العز ت )نے نہایت ہی حکمت سے یہ چاہا کہ خلقت کی اصلاح کیلئے کوئی حاکم عادل یا مصلح کامل بھیجے تاکہ وہ اپنی خداداد قوت سے اولادِ آدم کے حاکموں کے اعمال اوردنیا کے افسروں کے اشغال کو صراط مستقیم پر محفوظ رکھے اور شرعی احکامات کے اجراء میں نہایت کوشش کرے ،قواعد اسلام اورحدود اللہ کی حفاظت کیلئے خاص وعام میں مساوات کو نگاہ میں رکھے،حکومت کے رعب داب اوراحکامات سے  بے چارے کمزوروں اور عاجزوں کو زورآوروں کے ظالمانہ ہاتھوں سے بچائے تاکہ اس دنیا کا انتظام وانصرام قائم رہے،ظلم وبدعت کی خرابیاں شرعی چراہ گاہ کی حدود میں داخل نہ ہونے پائیں۔اورعوام وخواص میں درندوں اور حیوانوں کی صفات نہ ظاہر ہوجائیں۔اس سلطنت کے رستے کو جس نے سب سے پہلے قبول کیا اور اس مشکل کام کے حقوق کو ادا کرنے کیلئے کمرہمت استوار کی وہ حضرت آدم ؑہی تھے۔مروی ہے کہ آپکی حیات مبارک میں آپکے بیٹوں اورپوتوں کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی اور آپ ان تک اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا کرتے تھے اورا نکی بودوباش کیلئے قانون تجویز فرمایا کرتے تھے ،اور انکے درمیان انصاف اوربرابر ی کو بروئے کار لایا کرتے تھے۔آپ کا اپنا حال یہ تھا کہ شکم شیر ہوکر نہیں کھاتے تھے اور ان سلے سادہ کپڑے سے وجود کو ڈھانپتے تھے۔ ضرورت کے بغیر بات نہیں کرتے تھے۔بعض اوقات آپ سے کوئی سوال کیاجاتا توآپ فرماتے ’’میرے بچو جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ تم نے نہیں دیکھا میں ایک عمل کی پاداش میں جنت سے نکالا گیا اور حیوانات کے زنداں (دنیا )میں ڈال دیا گیا۔ اب میں اللہ سے ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی ایسی حرکت نہ ہوجائے کہ جہنم کے نچلے طبقے میں بند کردیا جائوں۔ حضرت آدم ؑ کا وجود دومنصبوں کا جامع تھا ۔پہلامنصب نبوت اوردوسرامنصب سلطنت اور حکومت۔ظاہر ہے کہ نفس اورخواہشات نفسانی کے غلبے کو نبوت کی بارگاہِ عالیہ کی طرف کوئی راہ نہیں اس لیے منصب نبوت کے اسرار انبیائے کرام کے طیب وطاہر جسموں کے علاوہ کہیں ظاہر نہیں ہوئے لیکن منصب سلطنت اورحکومت کا طریقِ نفس اور حرص کی جولاں گاہ ہے اور یہ دونوں صفتیں خلقت کو گمراہ کرنے کا سبب ہیں ۔ سو عام طور پر ظالم اور بدبخت طبیعتوں والے اس طرف مائل ہوجاتے ہیں حضرت آدم ؑکے بعد پیغمبر وں میں چند ایک ہیں جنہیں یہ دونوں منصب عطاکیے گئے ۔ انھوں نے ان مناصب کا حق ادا کیابلکہ اس میں نازک رمز یہ ہے کہ انکی خصلتوں کو نمونہ اورظالم حکمرانوں کیلئے حجت بنادیا گیا ہے۔ (ذخیرۃ الملوک )

Shortclip - مومن کا طرز زندگی کیا ہونا چاہیے؟

Darsulquran surah al-maeda ayat 44 part-02.کیا ہم نے دنیا کے فائدے کے عو...

جمعہ، 4 فروری، 2022

Shortclip - ہم دنیا میں بہت بڑا فائدہ کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1980 ( Surah At-Taghabun Ayat 12 ) درس قرآن ...

shortclip - شیطان کی ڈیوٹی نمبر1کیا ہے؟

منصب امانت ہے

 

منصب امانت ہے

اسلام کا ہر حکم اور مسلمان کی ہر چیز اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔اس ـحکم کا تعلق کسی غیر کی ملکیت سے ہو یا اپنی ذات سے، دنیاوی معاملات سے ہو یا مذہبی عبادات سے، کسی عہدے سے ہو یا اختیارات سے ، الغرض ہماری زندگی کا ہر سانس ، ہمارے منہ کا ہر بول اورہمارے ہاتھ کا ہر فعل ہمارے پاس امانت ہے اور کسی بھی امانت کا حق اسی وقت ادا ہوسکتاہے جب اس کو پورے آداب اور لوازمات کے ساتھ ادا کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی اور نا انصافی نہ کی جائے۔ اس حکم میں امیر وغریب اور حاکم ومحکوم سب برابر کے ذمہ دار ہیں ۔
٭  حضرت عبداللہ بن عمربیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال کیاجائے گا، سربراہ مملکت اپنے عوام کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے عوام کے متعلق سوال کیا جائے گا، مرد اپنی بیوی کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی بیوی کے متعلق سوال کیا جائیگا،عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے گھر کے متعلق سوال کیا جائے گا،خادم اپنے مالک کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس مال کے متعلق سوال کیا جائے گا، ایک شخص اپنے باپ کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس مال کے متعلق سوال کیا جائے گااور تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اسکے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال کیا جائیگا۔ (بخاری )

٭  حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ جب بھی ہمیں خطبہ دیتے تو فرماتے: جس میں امانتداری نہیں اس میں ایمان نہیں، جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں ۔ (مسند احمد : جلد ۳: ص ۱۳۵) 

٭  حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں:نبی کریم  ﷺ ایک مجلس میں صحابہ کرام سے گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے پوچھا: قیامت کب آئیگی؟ نبی کریم  ﷺ  نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ بعض لوگوں نے کہا: اس اعرابی نے جو کہا ہے وہ آپ نے سن لیا ہے لیکن آپ نے اسکی بات کو ناپسند فرمایا۔ اور بعض نے کہا: بلکہ آپ نے اس کی بات نہیں سنی حتیٰ کہ جب آپ نے اپنی بات مکمل فرمالی تو فرمایا: قیامت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اعرابی نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔ سائل نے پوچھا : امانت کیسے ضائع کی جائیگی ؟ آپ نے فرمایا : جب کوئی منصب نااہل کے سپرد کر دیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔ ( بخاری )