پیر، 18 مارچ، 2024

معمولاتِ رمضان

 

معمولاتِ رمضان

ہمیں رمضان المبارک ایسے گزارنا چاہیے کہ ہم اس کی بابرکت ساعتوں سے پوری طرح مستفید ہو سکیں ۔ اس کے روزوں سے ، اس کی تراویح سے ، تلاوت قرآن سے ، عبادات سے اور اس کی راتوں سے مکمل طور پر استعداد حاصل کر سکیں ۔ان میں سے کچھ اعمال جن پر عمل پیرا ہو کر ہم رمضان اچھے طریقے سے گزار سکتے ہیں درج ذیل ہیں ۔
سب سے پہلے نیت اور پکا ارادہ ہے ۔ نیت شعورا ور احساس پیدا کرتی ہے اور اس کو متحرک کرتی ہے ۔ شعور بیدار ہو تو ارادہ پیدا ہوتا ہے اور ارادہ محنت اورکوشش کی صورت میں ظہور کرتا ہے ۔ کسی کام کے لیے مقصد کے صحیح شعور اور اس کے حصول کے لیے پختہ عزم کی حیثیت وہی ہے جو جسم کے لیے روح کی ہوتی ہے ۔اسی لیے نماز ، روزہ اور عبادت میں نیت کی تاکید کی گئی ہے ۔ لیکن نیت عمل کی روح کا کام اسی صورت کر سکتی ہے جب دل و دماغ میں عمل کا مقصداجاگر کر دے اور دل میں اس مقصد کے حصول کے لیے عزم پیدا کر دے ۔ نیت صحیح اور خالص ہونی چاہیے ۔ ہر کام اللہ تعالی کی رضاکے لیے کرنا چاہیے ۔ 
رمضان المبارک کی مخصوص عبادات یعنی روزے اور قیام اللیل کا قرآن مجید سے گہرا تعلق ہے ۔ رمضان المبارک کا اصل حاصل ہی قرآن سننا ،پڑھنا اور اسے سیکھ کر اس پر عمل کر نے کی کوشش کرنا ہے ۔ ہمیں رمضان المبارک میں اس بات کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ قرآن مجید پڑھ سکیں اور اس کے معانی ومطالب کو سیکھ کر اس پر عمل پیرا ہو سکیں ۔ 
روزہ کا مقصد تقوی پیدا کرنا ہے ۔ اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ رمضان کے علاوہ باقی دنوں میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی جائے ۔صرف اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں دن بھر بھوکا پیاسا رہنا اور اس کے بعد راتوں کو کھڑا ہو کر نماز پڑھنا اور اس کا کلام سننا اس سے ایک خاص ماحول بنتا ہے اور ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔اس ماحول اور کیفیت میں یہ جذبہ زیادہ گہرااورقوی ہو سکتاہے کہ ہم اس چیز اور کام سے بچیں جو اللہ تعالی کی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہو۔ہر لمحہ ہر قسم کی نیکی کی طلب مومن کی فطرت کا لازمی جزو ہے لیکن رمضان المبارک کے مہینہ میں اس کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس مہینہ میں نیکی کا اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے ۔ اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم تکبیر تحریمہ کا التزام کریں اور زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے کی کوشش کریں ۔

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 106-109 Part-01.ایمان باللہ کا مطلب...

اتوار، 17 مارچ، 2024

حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالی عنہا(۲)

 

حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالی عنہا(۲)

ایک دن حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک آزاد کردہ لونڈی نے پوچھا کیا کسی نے فاطمہ ؓ کے لیے پیغام حضور نبی کریم ﷺ کو بھیجا ہے ۔ حضرت علی نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم ۔ اس نے کہا کہ آپ حضور نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہو کر پیغام عرض کریں ۔ حضرت علی نے کہا میرے پاس کیا شے ہے جو میں نکاح کے لیے آپﷺ کو پیغام بھیجو ں۔ 
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا اس کے کہنے پر حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ئے ، لیکن نبوت کے رعب اور فطری حیا کی وجہ سے زبان سے کچھ کہہ نہ سکے اور سر جھکا کر آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے ۔ حضور ﷺ نے خود ہی ان کی طرف توجہ فرمائی اور پوچھا اے علی کیا بات ہے آج خلاف معمول چپ چاپ ہو کیا فاطمہ کا پیغام لے کر آئے ہو ۔ حضرت علی نے عرض کی جی یا رسو ل اللہ ﷺ ۔ حضور ﷺ نے پوچھا تمہارے پاس حق مہر ادا کرنے کے لیے کچھ ہے ؟ 
حضرت علی نے عرض کی یارسو ل اللہ ﷺ ایک زرہ اور ایک گھوڑے کے سوا کچھ نہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا گھوڑا تو لڑائی کے کام آئے گا لیکن زرہ فروخت کر کے اس کی قیمت لے آﺅ ۔ حضرت عثمان غنی نے یہ زرہ خرید لی اور پھر ہدیہ حضرت علی کو واپس کر دی ۔ 
حضرت علی یہ رقم لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقع سنایا تو آپ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے دعا فرمائی ۔ حضرت فاطمہ کی رضا مندی کے بعد آپ ﷺ مسجد نبوی تشریف لائے اور منبر پر تشریف فرما ہو کر فرمایا اے مہاجرین و انصار مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ کر دو ں ۔ پھر حضور نبی کریم ﷺ نے چار سو مثقال چاندی کے عوض حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ پڑھایا ۔ 
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت فاطمہ بہت عبادت کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود گھر کے کاموں میں کبھی فرق نہیں آنے دیا ۔ حضرت امام حسن فرماتے ہیں میری والدہ ماجدہ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ صبح سے شام تک محراب میں اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہتی ۔گریہ و زاری کرتیں اور خشوع و خضوع کے ساتھ حمد و ثناءکرتیں اور دعا مانگتیں امام حسن فرماتے ہیں ایک رات والدہ ماجدہ ساری رات عبادت میں مشغول رہیں اور صبح تک اللہ کے حضور دعائیں مانگتی رہیں ۔ تمام مﺅ منین اور مﺅمنات کے لیے دعا مانگی لیکن اپنے لیے کچھ نہیں مانگا ۔ میں نے عرض کی امی جان آپ نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا تو آپ نے فرمایا : بیٹا پہلا حق باہر والوں کا ہوتا ہے ۔اسی عبات کے شوق کی وجہ سے آپ کا لقب بتول پڑ گیا ۔ 

حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالی عنہا(۱)

 

 حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالی عنہا(۱)

حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا حضور نبی کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا فطری طور پر نہایت متین اور تنہائی پسند تھیں ۔ بچپن میں آپ نے نہ کبھی کھیل کود میں حصہ لیا اور نہ ہی گھر سے باہر نکلیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا سب سے چھوٹی تھیں اس لیے حضور نبی کریم ﷺ آپ سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے ۔ آپؓ بچپن سے ہی اپنے والد گرامی کی عادات و خصائل کا بغور مشاہدہ فرماتیں اور ان کو اپنے دل و دماغ میں منعکس کرتی رہتیں ۔
حضور نبی کریم ﷺ جب گھر تشریف لاتے تو بلند آواز سے السلام علیکم فرماتے ۔ تو سیدہ کائنات دوڑتی ہوئی آتیں اور آپ ﷺ کی انگشت مبارک پکڑ لیتی۔ حضورنبی کریم ﷺ آپ کو گود میں بٹھاتے اور محبت کے ساتھ آپ رضی اللہ تعالی عنہاکی پیشانی مبارک پر بوسہ دیتے ۔ 
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اکثر اپنے والد ماجد اور والدہ ماجدہ سے سوال پوچھتیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک دن آپ نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ اللہ تعالی جس نے ہمیں اور اس ساری کائنات کو بنایا ہے کیا وہ ہمیں نظر بھی آ سکتا ہے ۔ والدہ ماجدہ نے فرمایا : بیٹی اگر ہم دنیا میں اللہ تعالی کی عبادت کریں اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اللہ تعالی کی منع کی ہوئی باتوں سے باز رہیں ، کسی کو اللہ تعالی کا شریک نہ ٹھہرائیں ، اللہ کے آخری رسول ﷺ پر ایمان لائیں تو قیامت کے روز اللہ تعالی کا دیدار نصیب ہو گا ۔ آپ ؓ بچپن سے ہی سادہ زندگی گزارتی تھیں اور زیادہ نمود و نمائش کو پسند نہیں فرماتی تھیں ۔ 
حضرت سیدہ کے بچپن کا زمانہ تھا جب سردار مکہ حضور نبی کریم ﷺ پر ظلم و ستم کرتے تھے ۔ لیکن آپ چھوٹی ہونے کے باوجود کبھی بھی خوفزدہ نہ ہوتی تھیں۔ ہر مشکل وقت میں حضور نبی کریم ﷺ کا ساتھ دیا اور ان کی خدمت کی ۔ کبھی کبھی جذبات کو قابو میں نہ رکھ پاتیں تو رونے لگ جاتیں تو آپ ﷺ فرماتے بیٹی گھبراﺅ نہیں اللہ تعالی تمہارے باپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گا ۔
ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں ابو جہل کے کہنے پر عقبہ بن ابی معیط نے آپ ﷺ پر اونٹ کی اوجڑی رکھ دی ۔ آپ ﷺ اس وقت سجدہ کی حالت میں تھے اوجڑی کی وجہ سے آپ ﷺ کو شدید تکلیف محسوس ہوئی ۔ جب سیدہ کائنات کو پتہ چلا تو بھاگی ہوئی آئیں اور آپ ﷺ کی کمر مبارک سے اوجڑی ہٹا ئی ۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے کفار کو بد دعا دی ۔