جمعرات، 10 جولائی، 2025

سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۲)

 

سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۲)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب وضو فرماتے تو آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا۔ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی گئی جب آپ وضو کرتے ہیں تو کیا ہو جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تمہیں نہیں پتا میں کسی کی بارگاہ میں حاضر ہونے لگا ہوں۔
ایک مرتبہ ہشام بن عبدالمالک بن مروان حج کے لیے آیا خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس نے حجر اسود کو چومنے کی کوشش کی لیکن زیادہ اجتماع کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکا اور پیچھے ہٹ گیا۔لیکن جیسے ہی امام زین العابدین طواف کے بعد ہجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے آگے ہوئے تو سب پیچھے ہٹ گئے۔ کسی نے ہشام سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو وہ ڈر گیا اور کہا میں اسے نہیں جانتا۔وہاں ایک معروف شاعر فرزدق موجود تھا اس نے کہا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں فرزدق نے آپ کے تعارف میں ایک خوبصورت قصیدہ پڑھا۔ترجمہ:
’’ یہ وہ شخص ہے کہ مکہ معظمہ جس کے نقش قدم سے شناسا ہے اسے بہت اللہ والے اور باقی سب جانتے ہیں ‘‘۔ ’’ یہ تمام مخلوق میں سب سے اعلی و افضل ہستی کے جگر گوشہ ہیں اور خود بھی متقی ، پاکباز اور صدق و صفا کا پیکر ہیں ‘‘۔
 فرزدق نے ہشام کو مخاطب کرکے کہا:’’ اگر تو اسے نہیں جانتا تو جان لے یہ سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ ؓ کے لخت جگر ہیں اوریہ وہ ہیں جن کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت کو ختم کر دیا ‘‘۔ 
’’ جس وقت آ پ پر قریش کی نگاہ پڑتی ہے تو ان میں سے ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ اوصاف حمیدہ ان پر ختم ہیں ‘‘۔ ’’وہ عزت کی ان بلندیوں پر فائز ہیں جن تک پہنچنے سے تمام مسلمان جو عرب و عجم میں رہتے ہیں سب قا صر ہیں ‘‘۔ ’’ان کے جد امجد وہ ہیں جن کے اندر تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی فضیلتیں جمع ہو گئی ہیں اور آپ کی امت میں تمام امت کے فضائل اکٹھے ہو گئے ہیں ‘‘۔ 
’’ان کی پیشانی کے نور سے اندھیرے اس طرح منور ہو گئے ہیں جس طرح آفتاب کی آمد سے تاریکیاں ختم ہو جاتی ہیں ‘‘۔’’حجر اسود نے آپ کو آپ کی خوشبو کی وجہ سے پہچان لیا ہے تا کہ وہ اسے بوسہ دینے آئیں تو حجر اسود خود ہاتھ چوم لے ‘‘۔ ’’ان کی آنکھیں حیا کی وجہ سے جھکی ہیں مگر لوگوں نے ان کی ہیبت کی وجہ سے اپنی آنکھیں جھکا رکھی ہیں ، ہیبت کی وجہ سے کسی کو بات کرنے کی جرأت ہی نہیں ہوتی سوائے اس وقت کے جب آپ متبسم ہو ں ‘‘۔ 
’’آپ کے ہاتھ میں بیدمشک کی چھڑی ہے جس کی خوشبو انتہائی دلکش ہے اس کی ہتھیلی سے خوشبو مہک رہی ہے اور وہ نہایت بلند مرتبہ سردار ہیں ‘‘۔

Surah Ya-Seen (سُوۡرَةُ یسٓ) Ayat 16-21 Part-02.کیا ہم اللہ تعالی کے راس...

Surah Ya-Seen (سُوۡرَةُ یسٓ) Ayat 13-15 Part-02.کیا آج کا مسلمان دین اسل...

سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۱)

 

سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۱)

تاریخ اسلام میں اہل بیت اطہار وہ جگمگاتے ستارے ہیں جنہوں نے اپنے کردار اور گفتار سے انسانیت کو سچائی ، تقوی ، صبر ، شجاعت اور عبادت کادرس دیا اور دین محمدی ؐ  کو عمل کی روشنی عطا کی۔ اہل بیت اطہار کی پاکیزہ ہستیوں میں ایک ہستی امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی بھی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ، حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پوتے ہیں۔ آپ اہل بیت اطہار کے وہ چمکتے ستارے ہیں جنہوں نے مصائب کے اندھیروں میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ، علم و حلم کو فروغ دیا۔آپ کا اصل نام علی بن حسین رضی اللہ عنہ تھا لیکن کثرت عبادت اور سجود کی وجہ سے آپ کے القاب زین العابدین اور سجاد ہیں۔ 
آپ کربلا میں موجود تھے لیکن شدید بیماری کی وجہ سے جنگ میں شامل نہ ہو سکے اور آپ کو بھی بچوں اور عورتوں کے ساتھ قیدی بنا لیا گیا تھا۔ امام زین العابدین کو قیدی بنا کر جب شام لے جایا گیا تو آپ نے یزید کے دربار میں اپنے خطبات سے ظلم کے خلاف حق کی صدا بلند کی۔ آپ نے فرمایا : اے لوگو ہمیں پہچانو ہم وہی ہیں جنہیں اللہ نے ہر رجس سے پاک رکھا ہے۔ہم علم کے خزانے رسالت کے امین اور امت کے رہنما ہیں۔ 
جب آپ کو قیدی بناکر یزید کے سامنے لایا گیا تو کسی نے آپ سے پوچھا ’’اے علی اور رحمت کے گھرانے والو! آپ لوگوں کی صبح کیسی ہوئی۔ آپ  نے فرمایا : ’’ہماری صبح قوم کے جو رو جفا سے اسی طرح ہوئی ہے جس طرح موسی علیہ السلام کی قوم کی صبح فرعون کے ظلم سے ہوئی تھی۔ اِنہوں نے ہمارے بھائی بیٹوں کو شہید کر دیا اور عورتوں کو رہنے دیا ہمیں نہ اپنی صبح کی خبر ہے اور نہ ہی شام کی یہ ہمارے امتحان کی حقیقت ہے ‘‘۔ اور ہم ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر اداکرتے ہیں اور اس کی آزمائش پر اس کی حمدو ثناء بیان کرتے ہیں۔ 
آپ حقائق کے بیان اور وقائق کے انکشاف و اظہار کے لیے مشہور تھے۔ آپ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ دنیا و آخرت میں سے زیادہ نیک بخت شخص کون ہو گا ؟ آپ نے فرمایا وہ جو راضی ہو تو باطل کی طرف نہ بھٹکے اور ناراض ہوتو حق کو نہ چھوڑے۔اور یہ صفت انہی لوگوں میں ہوتی ہے جو کمال کی استقامت رکھتے ہیں۔ کیونکہ باطل پر راضی ہونا بھی باطل ہے اور اسی طرح غصے کی حالت میں حق کو چھوڑ دینا بھی باطل ہے اور مومن تو کسی صورت بھی باطل کو اختیار نہیں کرے گا۔