جمعہ، 26 جولائی، 2024

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۲)

 

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۲)

وہاں ایک معروف شاعر فرزدق موجود تھا۔ اس نے کہا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں لوگوں نے کہا ہمیں اس خوبصورت اور اس قدر شان و شوکت والے نوجوان کے بارے میں بتاﺅ ۔ فرزدق نے آپ کے تعارف میں ایک خوبصورت قصیدہ پڑھا ۔
ترجمہ:” یہ وہ شخص ہے کہ مکہ معظمہ جس کے نقش قدم سے شناسا ہے اسے بہت اللہ والے اور باقی سب جانتے ہیں “۔ 
” یہ تمام مخلوق میں سب سے اعلی و افضل ہستی کے جگر گوشہ ہیں اور خود بھی متقی ، پاکباز اور صدق و صفا کا پیکر ہیں “۔ 
فرزدق نے ہشام کو مخاطب کرکے کہا:” اگر تو اسے نہیں جانتا تو جان لے یہ سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ ؓ کے لخت جگر ہیں اوریہ وہ ہیں جن کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت کو ختم کر دیا “۔ 
” جس وقت آؓ پ پر قریش کی نگاہ پڑھتی ہے تو ان میں سے ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ اوصاف حمیدہ ان پر ختم ہیں “۔ ”وہ عزت کی ان بلندیوں پر فائز ہیں جن تک پہنچنے سے تمام مسلمان جو عرب و عجم میں رہتے ہیں سب قا صر ہیں “۔ ”ان کے جد امجد وہ ہیں جن کے اندر تمام انبیاءکرام علیہم السلام کی فضیلتیں جمع ہو گئی ہیں اور آپﷺ کی امت میں تمام امت کے فضائل اکٹھے ہو گئے ہیں “۔ 
”ان کی پیشانی کے نور سے اندھیرے اس طرح منور ہو گئے ہیں جس طرح آفتاب کی آمد سے تاریکیاں ختم ہو جاتی ہیں “۔
”حجر اسود نے آپؓ کو آپؓ کی خوشبو کی وجہ سے پہچان لیا ہے تا کہ وہ اسے بوسہ دینے آئیں تو حجر اسود خود ہاتھ چوم لے “۔ 
”ان کی آنکھیں حیا کی وجہ سے جھکی ہیں مگر لوگوں نے ان کی ہیبت کی وجہ سے آپنی آنکھیں جھکا رکھی ہیں ، ہیبت کی وجہ سے کسی کو بات کرنے کی جرات ہی نہیں ہوتی سوائے اس وقت کے جب آپؓ متبسم ہو ں “۔ 
”آپؓ کے ہاتھ میں بیدمشک کی چھڑی ہے جسن کی خوشبو انتہائی دلکش ہے اس کی ہتھیلی سے خوشبو مہک رہی ہے اور وہ نہایت بلند مرتبہ سردار ہیں “۔ ”آپؓ کے اوساف آپؓ کو رسول خدا ﷺ کے اوصاف سے عطا ہو ئے ہیں آپؓ کا ضمیر اور عادات و خصائل سب پاک ہیں “۔ 
” آپؓ کے دست کرم کی موسلا دھار بارش کا فیض عام ہے ، وہ ہمیشہ بخشش و عطا میں مصروف رہتے ہیں اور مال کا نہ ہو نا ان کو کبھی اس بخشش سے خالی نہیں کرتا “۔ ” مخلوق پر آپ کے احسان عام ہیں اور آپ کی وجہ سے مخلوق نے گمراہی ، تنگدستی اور ظلم سے نجات پائی “۔ ” کوشخص سخاوت و بخشش میں آپؓ کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی کوئی قوم اس بارے میں ان کی ہمسری کر سکتی ہے چاہے اس کے افراد کتنے ہی صاحب بخشش ہوں “۔ 

کیا رضائے الٰہی کی ہمارے لئے بہت اہمیت ہے؟

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 19-23.کیا ہمارا معبود اللہ تع...

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 16-18 Pt-02.کیا ہم زندگی کی ح...

جمعرات، 25 جولائی، 2024

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۱)

 

  حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۱)

وارث نبوت ، چراغ امت ، سید مظلوم حضرت سیدنا امام زین العابدین بن حسین رضی اللہ تعالی عنھما آپ اپنے زمانے کے بہت بڑے عابد اور سب سے معزز تھے۔ آپؓ واقعہ کربلا کے وقت امام عالی مقام امام حسینؓ کے ساتھ تھے لیکن بیمار ہونے کی وجہ سے خیمے میں رہے۔ آپؓ حقائق کے بیان اور وقائق کے انکشاف و اظہار کے لیے مشہور تھے۔ آپؓ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ دنیا و آخرت میں سے زیادہ نیک بخت شخص کون ہو گا ؟ آپؓ نے فرمایا وہ جو راضی ہو تو باطل کی طرف نہ بھٹکے اور ناراض ہوتو حق کو نہ چھوڑے۔اور یہ صفت انہی لوگوں میں ہوتی ہے جو کمال کی استقامت رکھتے ہوں۔ کیونکہ باطل پر راضی ہونا بھی باطل ہے اور اسی طرح غصے کی حالت میں حق کو چھوڑ دینا بھی باطل ہے اور مومن تو کسی صورت بھی باطل کو اختیار نہیں کرے گا۔ جب آپؓ کو قیدی بناکر یزید کے سامنے لایا گیا تو کسی نے آپؓ سے پوچھا ’’اے علی اور رحمت کے گھرانے والو! آپ لوگوں کی صبح کیسی ہوئی۔ آپؓ نے فرمایا : ’’ہماری صبح یزید کے جو رو جفا سے اسی طرح ہوئی ہے جس طرح موسی علیہ السلام کی قوم کی صبح فرعون کے ظلم سے ہوئی تھی۔ اِنہوں نے ہمارے بھائی بیٹوں کو شہید کر دیا اور عورتوں کو رہنے دیا ہمیں نہ اپنی صبح کی خبر ہے اور نہ ہی شام کی یہ ہمارے امتحان کی حقیقت ہے ‘‘۔ اور ہم ہر حال میں اللہ تعالی کی نعمتوں پر اس کا شکر اداکرتے ہیں اور اس کی آزمائش پر اس کی حمدو ثناء بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہشام بن عبدالمالک بن مروان حج کے لیے آیا خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس نے حجر اسود کو چومنے کی کوشش کی لیکن بہت زیادہ مجمعے کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکا اور پیچھے ہٹ گیا اور منبر پر چڑھ کر خطبہ دینے لگا۔ حضرت امام زین العابدینؓ جب تشریف لائے آپؓ کا چہرہ انور چاند کی طرح روشن تھا۔ انہوں نے پہلے طواف کیا اور جب حجر اسود کو بوسہ دینے لگے تو لوگوں نے راستہ چھوڑ دیا اور آپؓ نے حجر اسودکو بوسہ دیا۔ اہل شام میں سے ایک شخص نے ہشام سے کہا کہ تم بادشاہ ہو لیکن لوگوں نے تمہارے لیے راستہ خالی نہیں چھوڑا لیکن جیسے ہی یہ خوبصورت نوجوان آگے بڑھا تو لوگ ان کے لیے پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ ہشام نے کہا کہ میں تو انہیں  نہیں جانتا۔ہشام نے یہ اس لیے کہا کہ کہیں لوگ آپؓ کو پہچان کر آپؓکے گرودیدہ نہ ہو جائیں اور میری حکومت کے لیے خطرے کا باعث نہ بن جائیں۔