ہفتہ، 3 جون، 2023

والدین کے ساتھ حسن سلوک

 

والدین کے ساتھ حسن سلوک

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ’’میں نے  رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:  اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ پسند ہے ؟ فرمایا : نما ز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا اس کے  بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا والدین سے اچھا سلوک کرنا۔ میں نے پوچھا  ، پھر کون سا عمل پسندیدہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ ‘‘۔

ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ’’میں آپ  کے ہاتھ پر اللہ کی رضا جوئی میں ہجرت اور جہاد کی بیعت کرتا ہو ں۔ آپ نے پوچھا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ؟ عرض کی دونوں زندہ ہیں۔آپ نے فرمایا، ’’جا اور جا کر ان کی خدمت کر ‘‘۔

ایک آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : میں جہاد کی خواہش  رکھتا ہو ں مگر چند مجبوریوں کی بناء پر معذور ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ؟ عرض کی میری ماں زندہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگ کر ماں سے اچھا سلوک کرتا رہ۔  تجھے حج ، عمرہ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ثواب ملے گا۔

ایک آدمی نے حضور ﷺ سے جہاد کی تمنا ظاہر کی تو آپ ﷺ نے پوچھا تیری ماں زندہ ہے ؟ اس نے عرض کیا میری ماں زندہ ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا : ماں  کے قدموں کو پکڑ جنت پا لے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : جو درازی عمر اور فراخی رزق کی تمنا رکھتا ہو وہ والدین کے  ساتھ اچھاسلوک کرے اور صلہ رحمی کرے۔ 

 حضور ﷺ نے فرمایا : اس کی ناک غبار آلود ہو ، اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی  ناک غبار آلود ہو۔ عرض کیا گیا کس کی یا رسو ل اللہ ﷺ!آپ ﷺ نے فرمایا جس  نے والدین کو یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں نہ گیا یا انہوں نے اسے  جنت میں داخل نہ کیا۔ 

 ایک مرتبہ حضورﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا : آمین!آمین! آمین پھر  فرمایا جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے عرض کی ، یا رسول اللہ ﷺ!جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو پایا اور اس سے اچھا سلوک نہ کیا اور مر گیا تو وہ جہنم میں گیا ،اللہ اسے بعید کرے۔  آپﷺ آمین کہیں تو میں بھی آمین کہوں۔ پھر  جبرائیل علیہ اسلام نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ جس شخص کے سامنے آپ ﷺکا  ذکر ہو اور اس نے آپ ﷺ پر درود نہ بھیجا اور مر گیا تو وہ جہنم میں گیا ، اللہ نے اسے اپنی رحمت سے بعید کر دیا۔


Surah Al-araf ayat 196-198 - کیا صرف اللہ تعالی ہی ہمارا حقیقی دوست و م...

Shortvideo کیا ہم شیطان کی عبادت میں مصروف ہیں؟

جمعہ، 2 جون، 2023

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک

 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک

حضرت ہند بن ابی ہالہ کی یہ روایت حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ

سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں : میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے 

رسول اللہ ﷺ کے حلیہ مبارک کے بارے میں استفسار کیا۔آپ کسی چیز کی حقیقت

 بیان کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ انہو ں نے کہا۔

حضور ﷺلوگوں کی نگاہوں میں بڑے جلیل القدر اور عظیم الشان دکھائی

دیتے تھے۔

حضور ﷺکا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جس طرح چود ہویں رات کا چاند۔

چھوٹے قد والے سے لانبے اور زیادہ طویل قد والے سے کم۔ سر مبارک بڑا تھا۔

گیسوئے مبارک زیادہ گھنگریالے نہ تھے۔ اگر موئے مبارک الجھ جاتے تو 

حضور ﷺ مانگ نکال لیتے۔ ورنہ حضور کے گیسو کانوں کی لو سے نیچے نہ جاتے۔

کانوں کی لو تک آویزاں رہتے۔ 

چہرہ کا رنگ چمکدار تھا۔ پیشانی مبارک کشا دہ تھی۔ ابرو مبارک باریک بھرے 

ہوئے لیکن باہم ملے ہوئے نہ تھے۔ دونوں ابرﺅں کے درمیان ایک رگ تھی۔

 ناک مبارک اونچی تھی۔ اس کے اوپر نور برس رہا ہوتا دیکھنے والا گمان کرتا کہ یہ بہت اونچی ہے۔

داڑھی مبارک گھنی تھی۔ دونوں رخسار ہموار تھے۔ دہن مبارک کشادہ اور دندان

مبارک چمکدار اور شاداب تھے۔ دندان مبارک کھلے تھے۔

بالوں کا خط جو سینہ مبارک سے ناف تک چلا گیا تھا وہ باریک تھا۔ گردن مبارک 

یوں تھی جیسے کسی چاندی کی گڑیا کی صاف گردن ہو۔ 

تمام اعضا ءمعتدل تھے اور ان کا اعتدال آشکار تھا۔ شکم اور سینہ مبارک ہموار 

تھا۔ سینہ مبارک کشادہ تھا۔ دونوں کندھوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔

ہڈیوں کے جوڑ ضخیم۔ سینہ کی ہڈی اور ناف کے درمیان بالوں کا خط ملا ہوا تھا۔

اس کے علاوہ سینہ اور شکم بالوں سے صاف تھا۔ دونوں بازﺅں ، دونو ں کندھوں 

اور سینہ کے اوپر والے حصے میں بال اگے ہوئے تھے۔ 

دونوں بازﺅں کی ہڈی لمبی تھی۔ ہاتھ مبارک کشادہ تھے دونوں ہتھیلیاں پر± گوشت

تھیں اور دونوں پاﺅ ں بھرے ہوئے تھے۔

 تمام اندام ہموار تھے۔دونوں پاﺅ ں کا درمیانی 

حصہ اٹھا ہوا تھا۔ جب قدم اٹھاتے تو قوت سے اٹھاتے۔ رکھتے تو جما کر رکھتے۔ 

آہستہ خرام مگر تیز رفتار۔ جب چلتے تو یوں معلوم ہوتا کہ بلندی سے ڈھلوان کی طرف 

تشریف لے جا رہے ہیں۔ جب کسی طرف التفات فرماتے تو ہمہ تن ملتفت ہوتے۔

نگاہیں جھکی ہوئی ہوتیں۔ آپ کی نظر زمین کی طرف طویل ہوتی بہ نسبت آسمان کی طرف 

آپ کی نگاہ کے۔ آپ کا دیکھنا گہرا مشاہدہ ہوا کرتا تھا۔ 

آپ حسن تدبیر سے اپنے صحابہ کو شاہراہ ہدایت پر چلا تے۔ جس سے ملاقات فرماتے اسے

پہلے خود سلام فرماتے۔

Surah Al-araf ayat 193-195 part-02.کیا ہم نفس پرستی کے شدت سے قائل ہیں

Shortvideo بندگی کیا ہے؟