اتوار، 30 اپریل، 2023

تحصیل تقویٰ(۵)

 

تحصیل تقویٰ(۵)

اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اس کے راستے میں خرچ کرنا اہل تقوی کا تیسرا نمایاں وصف ہے۔ اگرچہ رزق کی معنویت بڑی وسیع ہے اور یہ ظاہری ، باطنی اورمعنوی نعمتوں کو محیط ہے۔ رمضان المبارک کا ماحول کیفیت جودوسخا میں اضافے کا باعث ہے۔ خود پروردگار نے ہر عمل کا اجر بڑھا دیا ہے۔ نفل پڑھنے پر فرض کا ثواب ہے، فرض ستر گناہ زیادہ بار آور ہو چکا ہے۔ ہر رات گہنگاروں کو بخشش کے پروانے مل رہے ہیں۔ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا گیا کہ آپ رمضان المبارک میں تیز ہواؤں سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے ۔ ایسے میں انسان کو کم از کم یہ تو محسوس ہو کہ میں نے صرف اپنے خوراک کے معمولات کو ذر ابتدیل کیا ہے، تو مجھے شام تک بھوک کا کیسا احساس ہوا ہے۔ ان لوگوں کا عالم کیا ہو گا جن کے گھر میں مدتوں آگ روشن نہیں ہوتی، مدتوں چولہا نہیں جلتا۔ رمضان میں غم گساری کی ایک تحریک میسر آتی ہے جو اگر معاشرے میں مستقل رائج ہوجائے تو معاشرہ جنت نظیر ہوجائے۔ 
وحی الٰہی جو کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس پر ایمان رکھنا اور جو آپ سے پہلے اتاری گئی اس پر ایمان رکھنا اہل تقویٰ کا چوتھا وصف ہے۔ یہ و صف اس امر کا آئینہ دار ہے کہ متقی صرف اللہ کی وحی پر مبنی نظام زندگی (دین) کو ہی حتمی سمجھتا ہے اور وحی الٰہی کے مکمل ہو جانے (یعنی ختم نبوت) کے بعد نہ تو کسی نبی کو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی کسی اور نظام کو انسانی احتیاجات کے لیے مکمل سمجھتا ہے۔ رمضان میں ہمیں اللہ کے پیغام قرآن سے وابستگی کے مواقع دوسرے ایام سے زیادہ ملتے آتے ہیں۔ تلاوت کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے ، تراویح میں منزل سننے کا شرف حاصل ہوتا ہے، دورس قرآن اور مفاہیم قرآن کی نشستیں بڑھ جاتی ہیں۔ کیا ہی عمدہ ہو کہ ہم امکانی حد تک کتاب ہدایت کی روشنی سے خود کو منور و مستنیر کریں۔
آخرت پر ایقان رکھنا اہل تقویٰ کا پانچواں نمایاں و صف ہے۔ ایقان اس مرحلہ تسلیم کو کہا جاتا ہے جہاں شک اور شبہ کا ذرا سا امکان بھی باقی نہ رہے۔ آخرت پر ایقان ضروری ہے۔ متقی اپنے ہر عمل کو آخرت کی جواب دہی کے نقطہ نظر سے کرتا ہے۔ اسے ہر لمحہ یہ خیال رہتا ہے کہ میرا ایک الہ ٰہے جس نے مجھے پیدا کیا ،مجھے مہلت عمل دی اب ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب میں نے اس کے سامنے پیش ہونا ہے اور روزہ اس شعور سے رکھا جاتا ہے کہ مجھے اللہ ہر وقت دیکھ رہا ہے۔یہ مزاج بن جائے تو آخرت کا ایقا ن پیدا ہوجاتا ہے اور عمل میں ازخود ایک حسن عمل اتر آتا ہے۔

Shortvideo - کیا ہم ہوائے نفس کے پجاری ہیں؟

ہفتہ، 29 اپریل، 2023

تحصیل تقویٰ(4)

 

تحصیل تقویٰ(4)

نماز کا قیام اہل تقوی کا دوسرا نمایاں وصف ہے۔ نماز اللہ کا ایک ایسا ذکر ہے جو مومنین کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے۔ اس کے اپنے فضائل و محاسن ہیں یا آج کی مصروف پسندیدہ اصطلاح میں نماز کا ایک اپنا ”فلسفہ“ ہے۔ یہاں خاص طور پر یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ ”نماز کو قائم کرنا“ اہل تقویٰ کا نشان امتیاز بیان کیا گیا ہے نہ کہ محض پڑھنا۔ نماز قائم ہوتی ہے تو اس میں وہ شان احسان پیدا ہو جاتی ہے جس کو حدیث پاک میں ”ان تعبداﷲکانک تراہ وان لم تکن تراہ فانہ یراک“سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اپنے پروردگار کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اسے (اپنے سامنے) دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ حضور ممکن نہیں تو یہ ادراک تو راسخ ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ نماز میں جوحضور و سرور پیدا نہیں ہو تا۔ اس کی من جملہ وجوہات میں سے ایک شکم سیری بھی ہے۔ ”بھوک اللہ کا راز ہے اور اسے صرف عارفین پر ہی آشکار کیا جاتا ہے“ (کشف المحجوب) حالت صوم میں اگر سحری اور افطاری کو قدرے اعتدال سے برت لیا جائے تو بھوک کی لذت اور اسرار سے کچھ لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ 
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ رمضان میں مومن کا جو رزق وسیع ہو جاتا اس سے مراد ہم لوگوں کے نزدیک صرف سموسے پکوڑے اور کچوریاں ہیں۔ امام غزالی نے کس کرب سے اظہار خیال کیا ہے کہ جب ہمارا نفس بھوک ، پیاس کو ذرا سہنے کا عادی ہو جاتا ہے تو ہم پر تکلف افطاری سے اسے خوش خوراکی کا مزید عادی بنا لیتے ہیں۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ اہل صوم کے لیے دوراحتیں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری آخرت میں اللہ کے دیدار کی صورت میں، کیا وہ ان حجابات خورد و نوش میں ہیں؟ اگر ہمارا دھیان اس سمت میں چلا جائے، ہم رمضان کی مبارک ساعتوں سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے معمولات کی معنویت کو محسوس کریں اور سحر وافطار کو مسنون دائرے میں رکھ لیں تو شاید ہماری نمازیں بھی ”اقامت“ کی معنویت سے آشنا ہو سکیں۔ 
رمضان میں خوراک کو اعتدال پر رکھنے کا موقع تو ہمیں ملتا ہی ہے۔ ماحول میں ایک روحانیت در آتی ہے، سحری کی صورت میں ہمارے لیے تہجد کا موقع ہے ، تراویح کی سنت معمول کے سجدوں میں اضافے کا باعث ہے، ماحول کا رجحان نماز باجماعت کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے،شیطان مقید ہوتا ہے۔ ایسے ماحول سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور نماز کی کیفیت میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جمعہ، 28 اپریل، 2023

تحصیل تقویٰ(ًً3)

 

تحصیل تقویٰ(ًً3)

سورة البقرة کی ابتدائی آیات میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ یہ کتاب اہل تقویٰ کے لیے ہدایت ہے۔یہاں ہدایت سے مراد ارفع ترین ہدایت ہے یعنی ایصال الی المطلوبکسی کو منزل مقصود تک پہنچا دینا۔ جب راہ نور شوق منزل جاناں تک باریاب ہو تا ہے توبارگا رہ ناز کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں اورسارے حجابات اٹھ جاتے ہیں اور انسان کی نظر میں حسن حقیقی کے جلوئے بس جاتے ہیں۔سورہ بقرہ کی انہیں ابتدائی آیا ت میں ان لوگوں کے خصائل حمیدہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو متقی ہیں۔ رمضان المبارک کے تقدس مآب ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان اوصاف و شمائل کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ورنہ حدیث پاک کی رو سے روزہ محض بھوک اور پیاس کی ایک مشقت بن کر رہ جائے گا۔یہ علامات درج ذیل ہیں: (۱)ایمان بالغیب کے حامل ہیں (۲) نماز قائم کرتے ہیں (۳) اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے اس کے راستے میں خرچ کرتے ہیں (۴) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی اور اس سے قبل نازل ہونے والی وحی پر ایمان رکھتے ہیں (۵)آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔
اہل تقوی کا پہلا اور بنیادی وصف ایمان بالغیب ہے۔ اللہ اور اس کے پیغام کو مان لینا اور اس سے وابستہ ہو جانا ایمان ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی اشارہ فرمایا ہے، انہیں بلا چوں و چرا ماننا ایمان بالغیب ہے۔ ایمان ایک ایسا وصف ہے جو انسان کے وجود میں اطمینان و سکینت کا سبب ہے اور اس کو ذہنی اور نظریاتی طور پر یکسو کر دیتا ہے اور اس کے عمل کی ایک شاہراہ متعین ہو جاتی ہے۔رمضان میں ایمان بالغیب کی کیفیت میں ایک گونا اضافے کا سامان موجود ہے۔ ہم نے کس کے کہنے پر اپنی زندگی کے گیارہ ماہ کے طرز عمل کو یک لخت تبدیل کر دیا۔ اللہ کے حکم پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے پر ،روزہ ایک ایسا عمل ہے جس کا صحیح ترین ادراک یا تو اللہ رب العزت کو ہے یا خود روزہ دار کو ۔ ”روزہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزاءدیتاہوں یا میں خود ہی اس کی جزاءہوں۔جیسی حوصلہ افزاءبشارت اسی لیے ہے کہ اس پر کوئی تیسرا حتمی اور یقینی گواہ ہو نہیں سکتا ۔ سارا دن انسان کھانے پینے یا خواہشات نفسانیہ سے مجتنب رہتا ہے۔ محض اس لیے کہ اس کا اپنے پروردگار سے ایک وعدہ ہے۔ اگر ہم روزہ کے مقرر دورانیہ میں حلال اورطیب اشیاءکو ترک دینے کے عادی ہو جاتے ہیں تو دوسرے ایام میں ہمیں کم از کم حرام تو ضرور ترک دینا چاہیے۔ اگر یہ کیفیت اجتناب ہمارے وجود میں راسخ ہو جائے تو دوسرے گیارہ مہینوں میں ہم اہم موانعات شرعی سے اجتناب کے بھی عادی ہو سکتے ہیں۔

Shortvideo - کیا زندگی ایک لعنت ہے؟

جمعرات، 27 اپریل، 2023

تحصیل تقویٰ(۲)

 

تحصیل تقویٰ(۲)

سید محمود آلوسی کہتے ہیں کہ تقویٰ یہ ہے کہ تم وہاں موجود پائے جائوجہاں تمہارا پروردگار تمہیں موجود دیکھنا چاہتا ہے اورہراس جگہ پر مفقود پائے جائو جہاں تمہارے پروردگار کو موجود ہونا پسند نہیں،گویا کہ تقویٰ رذائل سے بچنے اورفضائل سے آراستہ ہونے کا نام ہے۔

ابوعبداللہ رود باری کہتے ہیں ’’تقویٰ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں سے اجتناب کیاجائے جو اللہ سے دور رکھنے والی ہوں‘‘ ،حضرت واسطی کا قول ہے ’’اپنے تقویٰ سے بچنے کا نام تقویٰ ہے‘‘یعنی متقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریاء کاری سے بچے اس لیے کے یہ اعمال کو اس طرح کھا جاتی جس طرح دیمک لکڑی کو چاٹ جاتی ہے۔حضرت ذوالنون مصری کے علاقے میں قحط پڑ گیا ،لوگ ان کے پاس قحط سالی کے خاتمے اور بارانِ رحمت کے لیے دعاء کروانے کے لیے آئے،آپ فرمانے لگے،بارش اس لیے نہیں ہوتی کہ گنہگارزیادہ ہوگئے ہیں اورسب سے بڑا گنہگا ر میں خودہوں ،اگر مجھے شہر سے نکال دیا جائے تو بارانِ رحمت برسنے لگ جائے گی۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے تقویٰ کی بڑی خوبصورت تعریف کی ہے، امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ اے ’’ابی‘‘ تقویٰ کیا ہے۔ انہوں نے جوابا استفسار کیا، اے امیرالمومنین کبھی کسی ایسے خار زار راستے پر چلنے کا اتفاق ہوا ،جس کے دونوں جانب کانٹے دار جھاڑیاں ہوں۔ فرمایا متعدد بار ایسا سفر درپیش ہوا ہے۔حضرت ابی نے پوچھا! اے امیر المومنین ایسے راستے پر آپ کے سفر کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ ارشاد ہوا: دامن سنبھال سنبھال کر اور جسم کو بچا بچا کر کہ کہیں کوئی کانٹا دامن کو الجھا نہ دے اور جسم میں خراش نہ ڈال دے، حضرت ابی نے کہا :امیر المومنین! یہی تقوی ہے کہ زندگی کا سفر اس حسن و خوبی اور حزم و احتیاط سے کیا جائے کہ گناہوں کو کوئی کانٹا نہ تو دامن کو الجھا سکے اور نہ جسم کو مجروح کر سکے۔ حضرت ابی بن کعب کی یہ تعریف اپنے اندر بڑے جامعیت رکھتی ہے اسلام نہ تو رہبانیت کا درس دیتا ہے کہ کار زار حیات میں سرگرم حصہ ہی نہ لیا جائے اور نہ ہی مادیت کی طرح ہر قسم کی اخلاقیات سے بالاتر ہو کر زندگی گزارنے کی تحریک دیتا ہے۔ بلکہ اس طرح زندہ رہنے کی تاکید کرتا ہے کہ زندگی کے سارے فرائض واہداف بھی پورے ہوجائیں اور کسی قسم کی آلودگی بھی دامن پر نہ ہو۔ یہی توازن انسان کو انسان بناتا ہے یہی وہ مقام ہے ۔ جہاں وہ نوامیس فطرت پرغالب آجاتا ہے اور مسجود ملائک قرار پاتا ہے۔


Shortvideo اصل زندگی کیا ہے؟

بدھ، 26 اپریل، 2023

Shortvideo - زندگی کیا ہے؟

تحصیل تقویٰ(۱)

 

تحصیل تقویٰ(۱)

رمضان المبارک خیر و برکت کا مہینہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مبارک مہینہ میں امت مسلمہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ کیا یہ عمل محض بھوک اور پیاس کے ایک مرحلے سے گزار نے کا ذریعہ ہے؟ قرآن مقدس میں اس کی غایت و مقصود تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ اگر ہم لفظ ’’صوم‘‘ کی حقیقت پر غور کریں تو تربیت کا ایک پورا عمل سامنے آجاتا ہے۔ لغت میں لفظ صوم کا معنی ’’الامساک عماتنازع الیہ النفس ‘‘درج ہے یعنی ان خواہشات سے خود کو روک لینا جن کی طرف نفس راغب ہو۔ لیکن اس لفظ کا ایک پس منظر بھی ہے۔ عرب میں جنگی گھوڑوں کی تربیت کا ایک طریقہ رائج تھا، وہ یہ کہ جس گھوڑے کو جنگی مقاصد کے لیے مناسب و موزوں سمجھا جاتا اسے ابتداء ہی سے بڑی مقوی اورفربہ اندوز قسم کی خوراک دی جاتی اور کسی قسم کی بدنی مشقت نہ لی جاتی، جب وہ خوب موٹا تازہ ہو جاتا اور اس کے جسم پر کافی مقدار میں چربی چڑھ جاتی، تو اسے رفتہ رفتہ مشقت کا عادی بناتے اور بتدریج خوراک کم کرتے چلے جاتے۔ اس طرح اس کے جسم کی زائد چربی زائل ہو جاتی ہے اور اس کا جسم سڈول اور پھر پتلا ہوتا چلا جاتا۔ مزید برآں وہ بھوک اور پیاس کی مشقت کا بھی عادی ہو جاتا اور جنگ کی ہولناکیوں سے نبردآزما ہونے لگتا ہے۔’’ صوم‘‘ بھی تربیت دینے کا ایک طریقہ جس سے جسم اور روح دونوں کی کثافتیں زائل ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے نفس اور شیطان دونوں کے خلاف میدان کارزار میں اترنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
 ’’تقوی‘‘ کا لفظ اپنے اندر حذر اور اجتناب کا معنی رکھتا ہے۔ کسی شئی کی مضرت رسانی اور نقصان دہ پہلو سے ہم واقف ہو جائیں اور پھر پورے شعور اور آگئی سے اس سے بچیں تویہ ’’وقایۃ‘‘ ہے ۔قاضی بیضاوی رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک اس کے تین مراحل ہیں، ۱:۔آخرت کے عذاب سے ڈر کر اپنے آپ کوشرک سے بچانا تقویٰ کا پہلادرجہ ہے، ۲:۔ ہر وہ فعل جس میں گناہ کا اندیشہ ہویہاں تک کہ صغیرہ گناہوںسے بچنا بھی تقویٰ کا دوسرا درجہ ہے،۳:۔ہر وقت اللہ سے تعلق قائم رکھنا اوراس سے غافل کردینے والی اشیاء سے لاتعلق ہونا تقویٰ کا تیسرادرجہ ہے اور تقویٰ کی یہی کیفیت حقیقی ہے اوریہی مطلوب ومقصود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہر وقت تعلق سے مراد یہ ہے کہ انسان کو ہر وقت خدا یاد رہے اوروہ ہر فعل میں اسی کی رضاء دیکھے ،انسان کو ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے کہ کوئی چیز دین کی راہ سے غفلت کا سبب نہ بن جائے ،شیطانی طاقتیں اس پر غالب نہ آجائیں اور وہ نفس امارہ کا شکار نہ ہوجائے۔

منگل، 25 اپریل، 2023

قرآن اور نماز

 

قرآن اور نماز

قرآنِ مقدس میں نماز کا حکم اس کی تاکید، اس کی پابندی اور اس پر کاربند رہنے والوں کی فضیلت کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کثرتِ ذکر سے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:۔٭اور تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ اداکرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (البقرۃ ۳۴)٭اور تم نماز قائم کرو اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوجائو۔(الروم ۱۳)٭اور تم نمازوں کی حفاظت کرو اور نماز وسطیٰ کی، اور کھڑے ہو جائو اللہ تعالیٰ کے لئے ادب کرنے والے بن کر۔ (البقرۃ۸۳۲)یہاں نماز سے وسطیٰ سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک نماز عصر ہے۔ ان آیات مبارکہ میں نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا۔ اقامتِ صلوٰۃ کے حکم کے ساتھ ہی یہ فرمایا گیا کہ تم مشرکوں میں سے نہ ہو جائو۔ یہ بڑا واضح انتباہ ہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک نماز کی اہمیت کیا ہے اور یہ کس قدر باعظمت فریضہ ہے۔ نماز کی نہ صرف یہ کہ مکمل پابندی کی جائی۔ بلکہ اسے مکمل ،یکسوئی،اخلاص اورتوجہ سے اداء کیا جائے۔ اپنے آپ کو سراپا نیاز بناکر اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش کیا جائے، اور نہ صرف یہ کہ تم خود اس کی پاسداری کرواور اسے پابندی سے اداکرتے رہوبلکہ آپ خاندان اورمعاشرے میں بھی اس کارِ خیر کو جاری کرو۔ اس روشنی کو اپنے ماحول اور معاشرے میں بھی پھیلائو۔ ارشاد ہوتا ہے:۔٭اور تم اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر صبر واستقامت سے قائم رہو۔ (طہ ۲۳۱)
قرآن کریم میں جہاں بھی اصحاب خیر کاذکر کیاگیا ہے بالعموم ان کی خصوصیا ت میں نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ٭وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے، نماز قائم کی اور زکوٰۃ اداکی ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں اجر ہے اور ان پر نہ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (البقرۃ ۷۷۲) ٭(یہ ایمان والے وہ ہیں ) جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (الانفال ۳) ٭اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (الانعام ۲۹) ٭اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ اداکی ۔ (البقرۃ ۷۷۱) یہ اصحاب تسلیم ورضاء اللہ کریم کے حضور میں سجدہ ریزی کا احترام کرتے ہیں اور زندگی میں اگر انہیں کہیں کوئی دشواری نظر آئے اور کسی مصیبت کا سامنا ہو تو انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اس عظیم المرتبت عبادت کے ذریعے سے اپنے پاک پروردگار کی مدد حاصل کریں۔ ٭اور مدد لوصبر اور نماز سے اور بے شک یہ نماز بھاری ہے۔ مگر ان پر نہیں جو خشوع کرنے والے ہیں۔ (البقرۃ ۵۴)

جمعہ، 21 اپریل، 2023

Shortvideo - دین اسلام کی ضرورت کیا ہے؟

روزہ ڈھال ہے


 

روزہ ڈھال ہے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ”جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس حالت میں کہ وہ ایمان والا تھا اوراسے ثواب کا یقین تھا تو اس کے پہلے سب گناہ بخش دئیے گئے۔“(صحیح بخاری )

دوشرائط کا بیان ہوا ، ایمان اورامید ثواب ، اگر یہ دونوں بنیادیں قائم رہیں تو نجات ہی نجات ہے، بخشش ہی بخشش ہے اس لئے کہ ایمان تو استحقاق اجر کا اساسی حوالہ ہے ، احتساب اس یقین کا مظہر ہے کہ ہر عمل کسی مقصد کیلئے ہوتا ہے ، اعمال صرف مشاغل نہیں، اجروثواب کے پیمانے ہیں کہ انہی پر جزا ملے گی اورانہی پر سزا ،یہ یقین اعمال کے جواز اورعدم جواز کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔

ارکان اسلام میں چوتھا رکن روزہ ہے جو اپنی اثر پذیری کی بنا پر نمایاں تر ہے ، اسلامی عبادات کا مقصود ، خالق ومالک کے حضور عبدیت کا اظہار ہے، اس اظہار کو شریعت کی زبان میں فرائض وواجبات کا نام دیا گیا ہے، نماز ، زکوٰة روزہ اورحج دین کے بنیادی شعار ہیں، ہر عبادت کا منتہی دائمی نجات یعنی اخروی کامیابی ہے لیکن غور کیا جائے توان کی ترتیب وترکیب اوران کی بجاآوری وادائیگی کا اس دنیا سے بھی گہراتعلق ہے ، یہ اس لئے کہ اسلام دین ودنیا کی کامرانی چاہتاہے۔

اسلام ایسا دین ہے جو انسان کی تمام کیفیات کو محیط ہے، نجات کا یہ تصور کہ دنیا سے کنارہ کشی کرلی جائے ، کسی طور پسندیدہ نہیں اس لئے کہ حسنات دنیا کی طلب بھی ایک مو¿من کا مطلوب ہے، اس حوالے سے اسلام کی تعلیمات بڑی واضح ہیں ۔ اس میں رہبانیت کی کوئی صورت نہیں ، اسلام نہ ترک دنیا پسند کرتا ہے اورنہ غارنشینی کی اس شکل کو جو فرار کی راہ دکھائے ، یہ معاشرے کا بھی دین ہے اس لئے اسکے احکا م کے مطابق انجام دیئے جانےوالے اعمال کا انسانی معاشرت پر اثر پڑتا ہے اوراگر تمام تعلیمات کی پاسداری رہے تو تعمیر انسانیت کا اہتمام بھی ہوتا ہے مثلاً روزہ ایسی عبادت ہے کہ یہ روحانی جلا کا ذریعہ ہے مگر اسکے معاشرتی پہلو بھی ہیں اس لئے یہ رخ عبادت بھی دونوں یعنی دین ودنیا کی کفالت کرتا ہے، یہ اگرچہ خاص ایام میں مخصوص اوقات میں اورمتعین احکام کے تحت اداکی جانے والی عبادت ہے مگر اسکے اثرات ، ایک مہینے ہی کو نہیں ، پورے سال کو محیط ہیں۔صوم کا لفظی معنی رکنا ہے ، اسکی تربیت سے انسان گناہوں ، نافرمانیوں بلکہ ہر قسم کی لغزشوں سے رک جاتا ہے اس لئے ایسے انسان کو صائم یعنی روزہ دار کہا جاتا ہے ، حدیث مبارک جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:۔الصوم جنة کہ روزہ ڈھال ہے ۔ (بخاری)

، ڈھال ہر بدعملی سے ، ہر نافرمانی سے ، ہر گناہ سے اورہر عذاب سے ، یہ ڈھال ، انسان کی حفاظت ہے ، اسکی پناہ میں آیا ہوا انسان ، سیرت وکردار کی روشن مثال ہوتا ہے اورنیکی کے حصار میں رہتا ہے۔ (عقائدوارکان )


جمعرات، 20 اپریل، 2023

اسرار صوم(۵)

 

اسرار صوم(۵)

روزہ جیسے انسان میں تقویٰ پیداکرتا ہے ایسے ہی حدودتقویٰ کا تعین بھی کرتا ہے ۔اسلامی تعلیمات کی روسے تقویٰ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مشقت میں ڈالنے کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کانام ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم کسی مشقت کا اٹھانا ہووہاں وہ عبادت ہے اورجہاں کسی آسانی کو قبول کرنا ہو وہاں وہ عبادت ہے یعنی عبادت میں اپنے ذوق اوررجحان کو بھی حکم الٰہی کے تابع کرنا کمال تقویٰ ہے۔ روزہ کئی گوشوں سے اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ 

لوگوں نے روزہ کے حوالے سے کئی چیزوں کو اپنا کر تعذیب نفس کا سامان کیا ہواتھا سحری نہ کھانا ، افطار میں بہت تاخیر کرنا، مسلسل روزے رکھنا، اسلام نے روزہ کے حوالے سے ان تمام چیزوں کی نفی کی۔ سحری کھانے کی ترغیب دی ، افطار میں بے جاتاخیر سے سختی سے روکا۔ صوم وصال (یعنی سحری افطاری کے بغیر مسلسل روزہ رکھنے )سے منع کیا۔

مروی ہے کہ ایک صحابی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ ملاقات کے بعد واپس چلے گئے ۔اگلے سال پھر حاضر خدمت ہوئے توان کی شکل وصورت بدلی ہوئی تھی عرض کرنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)!کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں ، آپ نے پوچھا تم کون ہو؟ عرض کرنے لگے میں وہی ہوں جوگزشتہ سال حاضر ہواتھا آپ نے فرمایا تمہاری ہیئت کس چیز نے بدل دی تم تو بڑے تندرست وخوبرو تھے عرض کرنے لگے یہاں سے واپس جانے کے بعد میں نے مسلسل روزے رکھے ہیں۔ توحضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو نے اپنے آپ کو عذاب میں کیوں ڈالا‘‘(ابودائود)

گویا روزہ زوردے کر کہتا ہے کہ میرا مقصد نفس کشی نہیں بلکہ ضبط نفس ہے ۔اورتقویٰ کا یہ تصور کہ اپنے آپ کو جتنا مشقت میں ڈالتے جائے اتنا ہی تمہارا تزکیہ نفس ہوگا کلیۃ ً غلط ہے بلکہ جیسے حکم الٰہی کی فرمانبرداری میں مشقت اٹھانا تقویٰ ہے ایسے ہی اس کی دی ہوئی آسانیوں سے فائدہ اٹھا نا بھی عبادت ہے۔اپنے ذوق اورجذبات کو حکم الٰہی کے تابع کرنا ہی تقویٰ کی معرا ج ہے۔اس ماہ مبارک میں کوئی بھی عبادت کی جائے اللہ تعالیٰ اس کا اجر کئی گنا بڑھا دیتا ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سلسلہ بیان میں فرماتا :’’بندہ اس میں جو بھی نیکی کرکے قرب الٰہی کا طالب ہوگا وہ اس شخص کی مانند ہوگا جس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینہ میں فرض اداکیا ہوگا جس نے اس مہینہ میں فرض اداکیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے غیر رمضان میں ستر فرض اداکیے‘‘۔(مشکوٰۃ ۔روح عبادت)


Shortvideo - دین اسلام کی حقیقت

بدھ، 19 اپریل، 2023

اسرار صوم(۴)

 

اسرار صوم(۴)

اگر چہ اسلامی تعلیمات کا اصل فلسفہ روحانی اصلاح ہے لیکن تعلیمات کی تعمیل میں انسانی جسم کی بہتری اورصحت مندی کا بھی بہت ساسامان موجود ہے روزہ بھی اپنے جلو میں انسانی صحت کا ایک عظیم عنصر رکھتا ہے ۔ معدہ کا خالی رہنا بہت سے امراض کا علاج ہے اطباء بہت سے مریضوں کا فاقہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔پورا مہینہ فاقہ کرنے سا معدہ سے سال بھر کے جمع شدہ فاسد مادے ختم ہوجاتے ہیں بشرطیکہ سحری اورافطاری میں حداعتدال سے تجاوز نہ کیاجائے اسی لیے فرمایا گیا صومواتصحوا۔’’روزہ رکھو صحت مندہوجائو گے۔‘‘

روزہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اورجلال کو عملی طورپر تسلیم کرنے اورشکر ایزدی بجالانے کانام ہے قرآن مجید میں روزے کی اس حکمت کی طر ف یوں اشارہ گیا’’اورتاکہ اللہ نے تمہیں جو ہدایت بخشی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کر واوراسی لیے کہ تم اس کے شکر گزار بنو‘‘۔(البقرۃ)

اللہ تعالیٰ کی کبریائی اوراس کی عظمت وشوکت کا بیان زبان سے بھی ہوسکتا ہے لیکن روزہ دار کے وجود کا ہر ہر تار عملاًاللہ تعالیٰ کی کبریائی کے حضور سجدہ ریز ہوجاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا روزہ رکھنے کا حکم پہنچاتو اس نے اللہ کے جلال کے حضور سرتسلیم خم کردیا ۔ یہاں تک کہ جب وہ ایک کمرے میں اکیلا تھا ۔سخت پیاسا تھا،ٹھنڈ ا پانی پاس موجود تھا اس نے پانی کو آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں محض اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سجدہ ریز ہوچکا تھا ۔

کاش جلال الٰہی کا یہ شعور پورا سال اس پے حکمران رہتا ۔ایسے ہی روزہ شکر الٰہی بجالانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ عاشورہ کے روزہ کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان میں سے ایک عاشورہ کے دن کا روزہ ہے اس کے مشروع ہونے کا راز یہ ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرعون اوراس کی قوم کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مددکی تھی۔

 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھ کر شکر اداکیا۔ پھر اہل کتاب اورعربوں میں یہ روزہ مسنون ہوگیا آخر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔(حجۃالبالغہ)

رمضان المبارک میں فلاح دارین کا امین قرآن مجید نازل ہوااوراللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں کا نزول اسی ماہ مقدس میں ہوا۔ روزہ دار ان نعمتوں پر شکر الٰہی کے گن گاتے ہوئے روزہ رکھتا ہے۔

اسرار صوم(۳)

 

اسرار صوم(۳)

ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حاضر وناظر اورسمیع وبصیر ہے لیکن عملی طور پر عموماًاس عقیدہ میں اضمحلال آجاتا ہے کیونکہ جب ایک آدمی بندوں کے دیکھتے ہوئے گناہ نہیں کرتا توآخر وہ اللہ تعالیٰ کے دیکھتے ہوئے گناہ کیوں کرلیتا ہے روزہ اللہ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کے عقیدہ کو پختہ کرتا ہے تصور فرمائیے ، روزہ دار ایک کمرہ میں اکیلا ہے ۔اسے سخت پیاس لگی ہے پینے کا ٹھنڈا پانی اس کے پاس موجود ہے لیکن وہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا بھی نہیں کیوں ؟

اسی لیے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کا یہ مراقبہ پورا مہینہ جاری رہتا ہے تاکہ انسان اسے پوری زندگی کیلئے دل کی تختی پر کندہ کرلے کہ ’’میرا خدا مجھے دیکھ رہاہے‘‘جو مجھے روزہ توڑتے ہوئے دیکھ لے گا وہ رشوت لیتے یا کوئی بھی گناہ کرتے ہوئے بھی دیکھ لے گا۔روزہ ایک مخفی عبادت ہے جسے صرف بندہ جانتا ہے یااس کا رب کریم اسی لیے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الصوم لی وانا اجزی بہ روزہ میرے لیے ہے اسی جزا میں دیتا ہوں‘‘۔اللہ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کا مراقبہ ہر گناہ کی جڑ کاٹ دیتا ہے ۔

گناہ ہر جگہ ہر مقام پر اورہر وقت قابل ملامت ہے اس سے دامن بچانا ضروری ہے لیکن مشاہدہ ہے کہ روزہ دار معمول سے بڑھ کر حالت روزہ میں گناہوں سے اجتناب کرتاہے جھوٹ سے بچتا ہے غیبت سے احتراز کرتا ہے کسی کو گالی نہیں دیتا ہے اورجملہ فواحش ومنکرات سے دامن بچاتا ہے ماہ رمضان میں نیکیوں کا جذبہ اپنے جو بن پے آجاتا ہے روزہ دار ہر گناہ سے دامن بچاتا ہے ترک گناہ کی یہ مشق آدمی کو باقی سال بھی اسی طرح گزارنے کی ترغیب دیتی ہے اسی چیز کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشادفرمایا :

الصیام جنۃ واذا کان یوم صوم احدکم فلایرفث ولایغضب فان سابہ احد اوقاتلہ فلیقل انی امرء صائم’’روزہ ڈھال ہے۔ لہٰذا جب کوئی شخص روزے سے ہوتواسے چاہیے کہ وہ گناہوں سے اجتناب کرے اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے لڑے تووہ اسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘۔(بخاری)

اگر کوئی آدمی روزے کی حالت میں بھی گناہوں سے اجتناب کی مشق نہیں کرتا تو اس کا روزہ بے معنی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے’’من لم یدی قول الزوروالعمل بہ فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ وشرابہاورجس آدمی نے جھوٹ بولنا اورجھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کا کھانا پینا چھوڑ دینے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔‘‘(بخاری)

پیر، 17 اپریل، 2023

اسرار صوم(۲)


 

اسرار صوم(۲)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :”شیطان آدمی کے اندر ایسے ہی رواں دواں رہتا ہے جیسا کہ خون۔ پس چاہیے کہ بھوک کے ذریعہ سے اس کا راستہ بندکردیا جائے“۔ اورحضور اکرم ﷺنے ان نوجوانوں کو جو شادی کی استظاعت نہ رکھتے تھے روزہ رکھنے کا ہی حکم دیا تھا ۔روزہ کی حالت میں دن کے وقت بھوک اورپیاس برداشت کرکے حیوانی قوت کو کمزور کیاجاتا ہے اوررات کو قرآن مجید کی تلاوت روح کی گہرائیوں میں اتار کر ملکوتی قوت کو قوی کیاجاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ حصول تقویٰ ہے۔انسان تخلیق قدرت کا شہکار ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخدوم کا ئنات بنایا ہے اورپوری دنیا انسان کے انتفاع کیلئے پیدا کی ہے لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی اورعبادت کیلئے پیدا کیا ہے ۔ لیکن انسان خوردونوش اورقوت شہوانیہ سے یوں مغلوب ہواکہ اپنے مقصد تخلیق کو بھول گیا اسکے شب وروز انہیں چیزوں کی تحصیل میں صرف ہونے لگے ۔وہ اپنی منزل سے دور، کو سوں دور ہوتا چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر روزے فرض کرکے اسے ایک مخصوص مدت کیلئے خوردونوش اورعمل زوجیت سے روک دیا کہ انسان کبھی غور کیا کرے کہ تیرا مقصد تخلیق ان چیزوں کا حصول نہیں بلکہ رضائے الٰہی کو پانا ہے اس طرح گویا روزہ انسانی گریباں تھام کر پکارتا ہے بندے کدھر جارہا ہے لوٹ آاپنی منزل کی طرف۔اسلام حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی بہت تلقین کرتا ہے ،جیسے اللہ تعالیٰ کی بندگی نہ کرنے والا مجرم ہے ایسے ہی حقوق العباد ادا نہ کرنے والا بھی مجرم ہے اسلام نے امراءکے مال میں غرباءکا حق رکھا ہے، غرباءکی بھوک اورپیاس کا انداز ہ وہ آدمی قعطاً نہیں لگا سکتا جسے خود بھوک اورپیاس کا تجربہ نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کردیئے تاکہ غرباءکی بھوک اورپیاس کا امراءکو بھی اندازہ ہواوروہ تجرباتی طور پر انکے دکھوں کو سمجھ سکیں ۔روزہ سے ہی امراءبھوک اورفاقہ کی ہولناکیوں کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔حافظ ابن قیم کے الفاظ میں سوزجگر کے سمجھنے کیلئے سوختہ جگر ہونا ضروری ہے روزہ غرباءکے احوال میں عملی شرکت کا نام ہے۔اس طرح روزہ غرباءکے دکھوں میں عملی شرکت کا نام ہے جس کا لازمی نتیجہ سخاوت وفیاضی کا جذبہ پیدا ہونا ہے شاید اسی لیے حضور اکرم ﷺکا بحر جودوکرم اپنے جوبن پر آجاتا تھا اورحضور اکرم ﷺکا ماہ رمضان کے متعلق یہ فرمان اسی حقیقت کو واضح کرتا ہے ہو شہرالمواساة یہ غمگساری کا مہینہ ہے۔انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ اللہ کے رنگ میں رنگ جائے، ”اللہ کا رنگ اوراسکے رنگ سے حسین کس کا رنگ ہے“ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ کھانے پینے سے پاک ہے بندہ ایک محدود مدت میں ان صفات کو اپنا کر اللہ کے رنگ میں رنگ جاتاہے شاید یہی وجہ ہے کہ سمندرکی مچھلیاں بھی روزہ دار کے حق میں دعاکرتی ہیں ۔

Shortvideo - یقین کی منازل

اتوار، 16 اپریل، 2023

Shortvideo - یقین کیسے حاصل کریں؟

اسرار صوم(۲)


 

اسرار صوم(۲)

حضور اکرم ﷺکا فرمان ہے:”شیطان آدمی کے اندر ایسے ہی رواں دواں رہتا ہے جیسا کہ خون۔ پس چاہیے کہ بھوک کے ذریعہ سے اس کا راستہ بندکردیا جائے“۔ اورحضور اکرم ﷺنے ان نوجوانوں کو جو شادی کی استظاعت نہ رکھتے تھے روزہ رکھنے کا ہی حکم دیا تھا ۔روزہ کی حالت میں دن کے وقت بھوک اورپیاس برداشت کرکے حیوانی قوت کو کمزور کیاجاتا ہے اور رات کو قرآن مجید کی تلاوت روح کی گہرائیوں میں اتار کر ملکوتی قوت کو قوی کیاجاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ حصول تقویٰ ہے۔انسان تخلیق قدرت کا شہکار ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخدوم کا ئنات بنایا ہے اورپوری دنیا انسان کے انتفاع کیلئے پیدا کی ہے لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی اور عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ۔ لیکن انسان خوردونوش اور قوت شہوانیہ سے یوں مغلوب ہواکہ اپنے مقصد تخلیق کو بھول گیا اسکے شب وروز انہیں چیزوں کی تحصیل میں صرف ہونے لگے ۔ وہ اپنی منزل سے دور، کو سوں دور ہوتا چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر روزے فرض کرکے اسے ایک مخصوص مدت کیلئے خوردونوش اور عمل زوجیت سے روک دیا کہ انسان کبھی غور کیا کرے کہ تیرا مقصد تخلیق ان چیزوں کا حصول نہیں بلکہ رضائے الٰہی کو پانا ہے اس طرح گویا روزہ انسانی گریباں تھام کر پکارتا ہے بندے کدھر جارہا ہے لوٹ آاپنی منزل کی طرف۔اسلام حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی بہت تلقین کرتا ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ کی بندگی نہ کرنے والا مجرم ہے ایسے ہی حقوق العباد ادا نہ کرنےوالا بھی مجرم ہے اسلام نے امراءکے مال میں غرباءکا حق رکھا ہے، غرباءکی بھوک اور پیاس کا انداز ہ وہ آدمی قعطاً نہیں لگا سکتا جسے خود بھوک اورپیاس کا تجربہ نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کردیئے تاکہ غرباءکی بھوک اورپیاس کا امراءکو بھی اندازہ ہواوروہ تجرباتی طور پر انکے دکھوں کو سمجھ سکیں۔ روزہ سے ہی امراءبھوک اورفاقہ کی ہولناکیوں کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔حافظ ابن قیم کے الفاظ میں سوز جگر کے سمجھنے کےلئے سوختہ جگر ہونا ضروری ہے روزہ غرباءکے احوال میں عملی شرکت کا نام ہے۔اس طرح روزہ غرباءکے دکھوں میں عملی شرکت کا نام ہے جس کا لازمی نتیجہ سخاوت وفیاضی کا جذبہ پیدا ہونا ہے شاید اسی لیے حضور ﷺکا بحر جودوکرم اپنے جوبن پر آجاتا تھا اور حضور اکرم ﷺکا ماہ رمضان کے متعلق یہ فرمان اسی حقیقت کو واضح کرتا ہے ہوشہرالمواساة یہ غمگساری کا مہینہ ہے۔انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ اللہ کے رنگ میں رنگ جائے، ”اللہ کا رنگ اوراسکے رنگ سے حسین کس کا رنگ ہے“ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ کھانے پینے سے پاک ہے بندہ ایک محدود مدت میں ان صفات کو اپنا کر اللہ کے رنگ میں رنگ جاتاہے شاید یہی وجہ ہے کہ سمندرکی مچھلیاں بھی روزہ دار کے حق میں دعاکرتی ہیں ۔کیونکہ روزہ دار کے روپ میں انہیں محبوب حقیقی کے حکم کی مجسم تعمیل نظر آتی ہے۔

Shortvideo - ایمان باللہ کا مطلب

ہفتہ، 15 اپریل، 2023

Shortvideo - عبادت کی حکمت

والدین کی خدمت بھی جہادہے


 

والدین کی خدمت بھی جہادہے

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک شخص نے آکر جہاد کی اجازت طلب کی ، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟اس نے کہا: ہاں ! فرمایا: ا ن کی خدمت میں جہاد کرو۔(بخاری ،مسلم، ابودائود ، نسائی)

حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی سفر کررہے تھے۔ان کو بارش نے آلیا، انہوں نے پہاڑ کے اندر ایک غار میں پناہ لی ، غار کے منہ پر پہاڑ سے ایک چٹان ٹوٹ کر آگری اورغار کا منہ بندہوگیا ، پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم نے جو نیک عمل اللہ کے لیے کیے ہوں ان کے وسیلہ سے اللہ سے دعاکر و، شاید اللہ غار کا منہ کھول دے، ان میں سے ایک نے کہا:اے اللہ ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اورمیری چھوٹی بچی تھی ، میں جب شام کو آتا تو بکری کا دودھ دوھ کر پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا، پھر اپنی بچی کو پلاتا ، ایک دن مجھے دیر ہوگئی میں حسب معمولی دودھ لے کر ماں باپ کے پاس گیا، وہ سوچکے تھے ، میں نے ان کو جگانا ناپسند کیا اوران کے دودھ دینے سے پہلے اپنی بچی کو دودھ دینا ناپسند کیا ، بچی رات بھر بھوک سے میرے قدموں میں روتی رہی اورمیں صبح تک دودھ لے کر ماں باپ کے سرہانے کھڑا رہا۔ اے اللہ ! تجھے خوب علم ہے کہ میں نے یہ فعل صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا ، تو ہمارے لیے اتنی کشادگی کردے کہ ہم آسمان کو دیکھ لیں ،اللہ عزوجل نے ان کے لیے کشادگی کردی حتیٰ کہ انہوں نے آسمان کو دیکھ لیا۔ (بخاری ، مسلم)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھتے ہوئے فرمایا : آمین، آمین ، آمین، آپ نے فرمایا : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اورکہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پایا اوران کے ساتھ نیکی کیے بغیر مرگیا ، وہ دوزخ میں جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے ، کہئے آمین تو میں نے کہا: آمین، پھر کہا: یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! جس نے رمضان کا مہینہ پایا اورمرگیا اوراس کی مغفرت نہیں ہوئی (یعنی اس نے روزے نہیں رکھے)وہ دوزخ میں داخل کیا جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے ، کہیے آمین تو میں نے کہا: آمین ، اورجس کے سامنے آپ کا ذکر کیا جائے اوروہ آپ پر درود نہ پڑھے وہ دوزخ میں جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے، کہیے آمین ، تو میں نے کہا: آمین۔(طبرانی ، ابن حبان ، امام حاکم)


جمعہ، 14 اپریل، 2023

اسرار صوم(۱)

 

اسرار صوم(۱)

ڈاکٹر حبیب اللہ رقم طراز ہیں:۔ اسلام کی کوئی بھی عبادت محض ایک رسم یا پوجا پاٹ نہیں ، بلکہ ہر عبادت اپنے دامن میں ان گنت روحانی معاشرتی اور معاشی فوائد وثمرات رکھتی ہے۔ یہ ثمرات ہر عبادت سے ایسے جھلکتے ہیں جیسے پھول سے خوشبو ، چاند سے چاندنی یاسورج سے شعاعیں نکلتی ہیں ۔اگر کوئی بھی عبادت اسکی حکمتوں اورمصلحتوں سے صرف نظر کرکے اداکی جائے تو وہ عبادت ایسے ہی ہوگی جیسے بغیر روح کے بدن یابغیر خوشبو کے پھول۔ عبادت اسلامیہ کا فلسفہ اگر ہم ایک جملے میں اداکرنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ ایک انسان کو انسان مرتضیٰ بنادیاجائے اس کے اخلاق خالق سے وابستہ ہوں یا مخلوق سے ان کا تعلق فرد سے ہویا معاشرہ سے قومی ہوں یا بین الاقوامی ہر لحاظ سے پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں معلم کتاب وحکمت حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے اپنی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا:’’مجھے صرف بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ میں اخلاق کی تکمیل کروں‘‘ اگر کوئی بھی عبادت بغیر اسکے مقاصد کے ادا کی جائے تو اس کی حالت بقول اقبال یوں ہوگی۔

یہ ذکر نیم شبی یہ مراقبے یہ سرور

تیری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

عبادات اسلامیہ میں روزہ ایک اہم رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت کاایک بڑامقصد حصول تقویٰ قراردیا ہے فرضیت صوم کا حکم دینے کے بعد فرمایا:’’تاکہ تم متقی بن جائو‘‘۔تقویٰ ایک جامع لفظ ہے، جس کی تعبیر مختلف انداز سے کی گئی ہے ، ’’تقویٰ کالغت میں معنی ہے نفس کوہر ایسی چیز سے محفوظ کرنا جس سے ضرر کا اندیشہ ہو۔عرف شرع میں تقویٰ کہتے ہیں ہر گناہ سے اپنے آپ کو بچانا اس کے درجے مختلف ہیں۔ ہر شخص نے اپنے درجے کے مطابق اسکی تعبیر فرمائی ہے میرے نزدیک سب سے مؤثر اورآسان تعبیر یہ ہے ۔ ’’ یعنی تیرا رب تجھے وہاں نہ دیکھے جہاں جانے سے اس نے تجھے روکا ہے اوراس مقام سے تجھے غیر حاضر نہ پائے جہاں حاضر ہونے کا اس نے تجھے حکم دیا ہے‘‘۔(ضیا ء القرآن ) ۔آئیے دیکھیں کہ روزہ آدمی میں یہ صلاحیت کیسے پیدا کرتا ہے انسان میں اللہ تعالیٰ نے ملکیت(فرشتوں کی خصلت) اور بہیمیت (حیوانیت) دونوں صلاحیتیں رکھی ہیں۔ قوت بہیمیت جتنی مضبوط اورطاقتور ہوتی ہے تو ملکیت کی صلاحیت اتنی ہی کمزور ہوتی ہے ملکوتی یاروحانی قوت جتنی کمزور ہوتی ہے آدمی میں تقویٰ کی صلاحیت اتنی ہی کم ہوتی جاتی ہے جذبہ بہیمیت کی زیادتی کا ایک مرکزی سبب کثرت خوردونوش ہوتا ہے اوربھوک اسی جذبہ بہیمیت کی شدت کو کمزور کرتی ہے اورملکیت کی قوت کو قوی اورمضبو ط کرتی ہے اور حیوانی یا بہیمیت کی کمی ہی انسان کو راہ حق پر گامزن رکھتی ہے۔

Shortvideo - صرف اللہ تعالٰی کی عبادت آخر کیوں؟

Shortvideo عبادت کیا ہے؟

جمعرات، 13 اپریل، 2023

اہل تقویٰ کی علامات


 

اہل تقویٰ کی علامات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا تناجش (کسی کو پھنسانے کے لیے زیادہ قیمت لگانا)نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اللہ کے بندوں بھائی بھائی بن جائو، مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر ظلم نہ کرے، اس کو رسوانہ کرے ، اس کو حقیر نہ جانے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، کسی شخص کے برے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو براجانے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر مکمل حرام ہے اس کا خون اس کا مال اوراس کی عزت ۔(صحیح مسلم)

حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک متقین میں سے شمار نہیں ہوگا جب تک کہ وہ کسی بے ضرر چیز کو اس اندیشے سے نہ چھوڑدے کہ شاید اس میں کوئی ضرر ہو۔(جامع ترمذی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب یہ فرماتا ہے کہ میں ہی اس بات کا مستحق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، سو جو شخص مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اس کو بخش دوں ۔(سنن دارمی)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسی آیت کا علم ہے کہ اگر لوگ صرف اسی آیت پر عمل کرلیں تو وہ ان کے لیے کافی ہوجائے گی’’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے‘‘۔ (سنن دارمی )

ابو نضر ہ بیا ن کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایام تشریق کے وسط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ سنا اس نے یہ حدیث بیان کی ، آپ نے فرمایا : اے لوگو! سنو! تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے ، سنو ! کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے، مگر فضیلت صرف تقویٰ سے ہے۔(مسنداحمدبن حنبل)

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شاید اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہیں کروگے، حضرت معاذ ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے صدمہ میں رونے لگے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا : میرے سب سے زیادہ قریب متقی ہوں گے خواہ وہ کوئی ہوں اورکہیں ہوں۔(مسند احمد بن حنبل)

بدھ، 12 اپریل، 2023

حقانیتِ قرآن

 

حقانیتِ قرآن

امام ابن ہشام نے اپنی سیرت میں ایک دلچسپ واقعہ رقم کیاہے :۔نبی کریم ﷺرات کے تخلیہ میں اللہ کے حضور میں حاضرہو جاتے اور نہایت دلسوزی سے قرآن پاک کی تلاوت فرماتے ،ایک رات ابوسفیان اس روح پرور تلاوت کو سننے کے شوق میں آیا اور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا،یہی خیال ابوجہل کو بھی آیا،ایک تیسرا کافر اخنس بن شریق بھی وہاں آکر بیٹھ گیا ۔یہ تینوں اسلام کے کٹڑ اور خون آشام دشمن تھے لیکن ایک دوسرے کی موجودگی سے بالکل بے خبر، محویت کے عالم میں ، کیف و مستی کے عالم میں ڈوبے ہوئے،ساری رات قرآن سنتے رہے ۔صبح کی پو پھوٹی تو واپس ہوئے ،ایک دوسرے پر نظر پڑی تو بڑے شرمندہ ہوئے ،ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے ،کہنے لگے کہ اگر سادہ لوح لوگوں کو خبر ہوگئی کہ ہم رات بھر چھپ کر قرآن سنتے ہیں تو وہ کیا رائے قائم کریں گے ؟لیکن جب دوسری رات آئی تو پھر ہر ایک پر شوق غالب آگیااوروہ یہ سمجھ کر کہ دوسرے تو آئیں گے نہیں ،وہاں چلا آیا۔صبح پھر ان کی ملاقات ہوئی پھر آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا عہد وپیمان کیا ،لیکن تیسری رات پھر ایسا ہی معاملہ پیش آیا ۔ فرط خجالت سے نظریں جھکائے کھڑے رہے اور پختہ عہد کیا کہ آئندہ ایسا ہر گز نہیں کرینگے۔جب دن چڑھا تو اخنس بن شریق ،ابوسفیان کے گھر آیااور کہنے لگا ’’اے ابو حنظلہ!مجھے بتائو تم نے جو کلام محمد (ﷺ) سے سنا ہے اسکے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ابوسفیان نے جواب میں ٹال مٹول سے کام لیا،اب اخنس ،ابو جہل کے گھر گیا اور اس سے پوچھا :اے ابوالحکم! تم نے جو کلام محمد (صلی اللہ علیہ وسلمﷺ) سے سنا ہے اسکے بارے میں کیا کہتے ہو؟ابو جہل نے جواب میں کہا ’’میں نے خاک سنا ،حقیقت یہ ہے کہ ہمارا اورعبدمناف کا جھگڑا اس بات پر تھاکہ قوم کا سردار کون ہے؟اس شرفِ سیادت کو حاصل کرنے کیلئے انھوںنے بھی اپنے دسترخوان کو وسیع کیا ،ہر غریب مسکین کو کھانا کھلایااورہم نے بھی دستر خوان کو وسعت کی اورہر غریب مسکین کی ضیافت کا اہتمام کیا انھوں نے بھی لوگوں کے بوجھ اٹھا ئے اورہم نے بھی ،انھوں نے بھی فیاضی سے کام لیا اور ہم نے بھی اپنی سخاوت سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی ،اور جب ہم مقابلہ کے دوگھوڑوں کی مانند ہوگئے تو انھوں نے اچانک علان کردیا ،کہ ہم میں سے ایک شخص کو نبوت ملی ہے اوراسکے پاس آسمان سے وحی اترتی ہے ،ہم یہ دعویٰ کیسے کرسکتے تھے ،بخدا ہم تو ہرگز ان پر ایمان نہیں لائیں گے اورنہ انکی تصدیق کریں گے۔

Shortvideo - معرفت کی ضرورت

Shortvideo - نور کا راستہ

منگل، 11 اپریل، 2023

زکوٰۃ اداکرنے کے آداب(۲)


 

زکوٰۃ اداکرنے کے آداب(۲)

عمدہ مال دیا جائے: زکوٰۃ صدقات اداکرتے وقت ردی اورگھٹیا مال دینا تقاضائے ایمان کے منافی ہے کیونکہ دراصل انسان کا اپنا مال وہی ہے جسے وہ راہ خدا میں لٹادیتا ہے ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور سید عالم ﷺسے عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ)! ایک بکری ذبح کی گئی تھی وہ میں نے ساری راہ خدا میں تقسیم کردی صرف اسکے شانے کا گوشت باقی ہے ،حضور اکرم ﷺنے فرمایا : جو راہ خدا میں دیدی وہ ساری باقی ہے اورجو شانے کا گوشت اپنے لیے رکھا ہے وہ باقی نہیں ہے یعنی جو راہ خدا میں دیدیا دراصل بندے کا مال وہی ہوتا ہے۔جب یہ نظریہ پختگی اختیار کرلے تو کیسے ممکن ہے کہ بندہ جو مال اپنی اصل زندگی کیلئے بھیجے وہ ناقص اورردی ہو اسی لیے تو فرمایا گیا:’ ’اور (راہ خدا میں )وہ مال خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کرو جس کو راہ خدا میں تو خرچ کرنے پر آمادہ ہوجائو لیکن اگر وہی مال تمہیں لینا پڑے تو بغیر آنکھیں بند کیے اس کونہ لو خوب جان لو کہ اللہ بے نیاز حمد کیا ہوا ہے۔‘‘ (بقرہ: ۷۶۲)اسی لیے تو نیکی پانے کیلئے اپنی محبوب چیز خرچ کرنے کی شرط لگائی گئی:’’تم ہر گز نیکی کونہ پہنچ سکو گے جب تک (راہ خدا میں )اپنی محبوب چیزوں میں 
سے خرچ نہ کرو۔‘‘(آل عمران :۲۹)
حلال مال دیا جائے: صدقہ وزکوٰۃ حلال کمائی سے ہی دینا چاہیے کیونکہ حدیث ہے کہ’’اللہ پاک ہے اورپاکیزہ چیزوں کو ہی قبول فرماتا ہے ‘‘حرام کمائی سے ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا باعث ثواب تو کجاباعث گرفت ہے ۔ظاہر ہے کہ جب حرام مال اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک انتہائی مبغوض شی ہے تو اس میں سے صدقہ کرنا ایک مضحکہ خیز عمل ہے اوراس میں حرام کمائی کی ایک مذمت بھی ہے کہ جب اس سے دیا ہوا صدقہ بھی منہ پے ماردیا جاتا ہے تو اسکی مذمت میں کتنا شک باقی رہ جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے ایمان والو! خدا کی راہ میں اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو۔‘‘(بقرہ : ۷۶۲)

احساس برتری سے بچا جائے: جب انسان کسی سے کوئی بھلائی کرتا ہے یا کسی کو صدقہ دیتا ہے تو عموماً اسکے دل میں ایک احساس برتری آسکتا ہے کہ میں نے اس پر بڑا احسان کیا ہے حالانکہ یہ چیز ایمانی روح کے منافی ہے کیونکہ جب مال اسے خدا نے ہی دیا ہے تو اس وقت تو اسکے بدن کا انگ انگ خدا کے حضور عاجزی کا پیکر بننا چاہیے تھا کہ اس نے مجھے دینے والا بنایا نہ کہ اسے کسی تکبر میں مبتلا ہونا چاہیے تھا۔

طلب شکر سے بے نیازی : صدقہ کاکما ل یہ ہے کہ آدمی کو خود شدید احتیاج ہو لیکن محبت الٰہی کی وارفتگی میں وہ اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر راہ خدا میں لٹاتا ہی چلا جائے، اوررضائے الٰہی کے حصول کا جذبہ اس قدر پختہ اورراسخ ہوجائے کہ وہ صدقہ والو ں سے کلمات تشکر کی بھی امید نہ رکھے بلکہ ایسی باتوں کو وہ حصول مقصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھے ۔(روحِ عبادت)

پیر، 10 اپریل، 2023

زکوٰۃ ادا کرنے کے آداب


 

زکوٰۃ ادا کرنے کے آداب

ریاکاری کے اس غیر دانشمند انہ عمل اورروز قیامت اس کا نیک اعمال سے تہی دامن ہونے کی یوں تمثیل دی گئی۔ ’’کیا تم میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ اسکے پاس کھجوروں اورانگوروں کا ایک باغ ہو۔ جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اوراس میں اس کیلئے ہر قسم کے پھل ہوں اوروہ بوڑھا ہوجائے اوراسکے بچے ابھی چھوٹے ہوں اورباغ پر گرم ہوا کا ایک بگولاآئے اوروہ جل کر خاک ہوجائے اللہ ایسے ہی اپنی باتیں واضح کرتا ہے تاکہ تم غور کرو۔‘‘(بقرہ : ۶۶۲)یعنی جب وہ بھی بوڑھا ہوگیا اسکے بچے بھی چھوٹے تھے اوراسے باغ کی شدید احتیاج تھی تو بگولے نے اسکے باغ کو خاکستر کرکے رکھ دیا ایسے ہی جب روز قیامت نیکی کرنے کا وقت بھی گزرجائیگا اورانسان ایک ایک نیکی کا شدید محتاج ہوگا تو نمودوریاکابگولاآئیگا اوراسکے صدقہ و خیرات کو خاکستر کرکے رکھ دیگااوراسکے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔جب تک ریا کاری سے مکمل اجتناب نہ کیا جائے زکوٰۃ عنداللہ زکوٰۃ متصور نہیں ہوتی، ایک حدیث پاک میں ہے:۔’’قیامت کے دن سب سے پہلے تین آدمی خدا کے حضور حاضر کیے جائیں گے ، ان میں سے ایک سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا۔ تجھے میں نے دنیا میں مال ودولت سے نوازا تھا۔ تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا میں تو دن رات تیری راہ میں خرچ کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تونے اس لیے صدقہ کیا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں تو وہ کہا جاچکا پھر یہ شخص ان لوگوں میں سے ہوگا جن پر سب سے پہلے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔‘‘(ریاض الصالحین)
احسان جتلایا جائے نہ ایذاء دی جائے:بندئہ مومن کویہ یقین کرلینا چاہیے کہ اسے جو کچھ بھی ملا ہے محض خداوند جلیل کا فضل وکرم ہے ، یہ اسی کی عطا ہے کہ اس نے مجھے دینے والا بنایا ہے۔جب یہ فکر پروان چڑھ جائے تو پھر صدقہ دینے والا صدقہ لینے والے سے شفقت اورمحبت سے پیش آتا ہے نہ یہ کہ صدقہ کرکے وہ اس پر احسان کرنا یا اسے ایذاء دینا شروع کر دے۔ اسی لیے زکوٰۃ کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ صدقہ لینے والے پر نہ تواحسان جتلایا جائے اورنہ ہی کسی بھی طریقہ سے اسکی عزت نفس اورخودداری کو مجروح کیا جائے۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں آگئیں تو گویا صدقہ و خیرات سے رضائے خداوندی کے علاوہ کوئی اورچیز مطلوب ہوگئی اوریہی چیز ایمان وتقویٰ کے منافی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا گیا: ’’اے ایمان والو! احسان جتاکر اوردل آزاری کرکے اپنے صدقات کو اکارت نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال دکھاوے کیلئے خرچ کرتا ہے اوراللہ اورروزآخرت پر ایمان نہیں رکھتا ‘‘۔(بقرہ : ۴۶۲)اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کا تذکرہ یوں فرمایا: ’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر اسکے پیچھے نہ احسان جتاتے ہیں اورنہ دل آزاری کرتے ہیں ان کیلئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اورنہ ان کیلئے کوئی خوف ہوگا اورنہ ہی وہ غمگین ہوں گے‘‘۔(بقرہ :ـ۲۶۲)

Shortvideo - ہمیں اپنے ایمان کا پتہ کیسے چلے گا؟

Shortvideo - پریشانیوں سے اطمینان کی طرف مگر کیسے؟

اتوار، 9 اپریل، 2023

فضائل قرآن(۵)

 

فضائل قرآن(۵)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : اللہ تعالیٰ اتنا کسی کی طرف توجہ نہیں فرماتا جتنا کہ اس نبی کی آواز کو توجہ سے سماعت فرماتا ہے جو قرآن کریم کوخوش الحانی سے پڑھتا ہے۔ ( صحیح مسلم ) 

حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن قرآن مجید کو لایا جائے گا اوروہ لوگ بھی لائے جائیں گے جواس پر عمل کیا کرتے تھے، سورة بقرہ اورآل عمران (جو قرآن کی سب سے پہلی سورتیں ہیں)پیش پیش ہوں گی۔(صحیح مسلم)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناﺅ یعنی گھروں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے آبادرکھو ، جس گھر میں سورة بقرہ پڑھی جاتی ہے ، شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے۔(صحیح مسلم)حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ کے لئے بعض افراد ایسے ہیں جیسے کسی کے گھر کے خاص لوگ ہوتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: وہ کون افراد ہیں؟ ارشادفرمایا: قرآن مجیدکی تلاوت کرنے والے کہ وہ اللہ والے اوراس کے خاص بندے ہیں۔ (مستدرک حاکم)حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس شخص کے دل میں قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔(صحیح سنن ترمذی)حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جو شخص قرآن کریم پڑھ کر بھلا دے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے یہاں اس حال میں آئے گا کہ جیسے کوڑھ کے مرض کی وجہ سے اس کے اعضاءجھڑے ہوئے ہوں گے۔ (ابوداﺅد)حضرت عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قرآن کریم کو تین دن سے کم میں ختم کرنے والا اسے اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا۔(ابوداﺅد)حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا : مجھے تو رات کے بدلے میں قرآن مجید کے شروع کی سات سورتیں اورزبور کے بدلے میں ”مئین “یعنی اس کے بعد کی گیارہ سورتیں اورانجیل کے بدلے میں ”مثانی“یعنی اس کے بعد کی بیس سورتیں ملی ہیں اوراس کے بعد آخر قرآن تک کی سورتیں ”مفصل ‘ ‘ مجھے خاص طورپر دی گئی ہیں۔ (مسند امام احمدبن حنبلؒ)


Shortvideo - آخرت پر یقین سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟

Shortvideo آخرت پر یقین کیوں ضروری ہے؟

ہفتہ، 8 اپریل، 2023

فضائل قرآن (۴)

 

فضائل قرآن (۴)

حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا : حافظ قرآن جسے یاد بھی خوب ہو اورپڑھتا بھی اچھا ہو اس کا حشر قیامت میں ان مکرم ،فرمانبردار فرشتوں کے ساتھ ہوگا جو قرآن مجید کو لوح محفوظ سے نقل کرنے والے ہیں، اورجو شخص قرآن پاک کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اوراس میں مشقت اٹھاتا ہے اس کیلئے دوہرا اجر ہے۔(صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا : صاحب قرآن قیامت کے دن (اللہ تعالیٰ کے دربار میں)آئیگا تو قرآن اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا اس کو جوڑا عطافرمائیں ‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو کرامت کا تاج پہنا یا جائیگا، وہ پھر درخواست کریگا اے میرے رب ! اورپہنائیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اکرام کا پورا جوڑا پہنایا جائیگا، پھر وہ درخواست کریگا اے میرے رب! اس شخص سے راضی ہوجائیے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا ، پھر اس سے کہاجائے گا قرآن شریف پڑھتا جا اورجنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور (اس کیلئے) ہر آیت کے بدلہ میں ایک نیکی بڑھادی جائیگی ۔(صحیح سنن ترمذی)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر تھا میںنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن جس وقت قرآن والا اپنی قبر سے نکلے گا تو قرآن اس سے اس حالت میں ملے گا جیسے کمزوری کی وجہ سے رنگ بدلہ ہوا آدمی ہواانسان ہوا ورصاحب قرآن سے پوچھے گا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟وہ کہے گا: میں تمہیں نہیں پہچانتا۔ قرآن دوبارہ پوچھے گا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وہ کہے گا: میں تمہیں نہیں پہچانتا قرآن کہے گا: میں تمہارا ساتھی قرآن ہوں جس نے تمہیں سخت گرمی کی دوپہر میں پیاسا رکھا اوررات کو جگایا یعنی قرآن کے حکم پر عمل کی وجہ سے تم نے دن میں روزہ رکھا اوررات میں قرآن کی تلاوت کی ۔ ہر تاجر اپنی تجارت سے نفع حاصل کرنا چاہتا ہے اورآج تم اپنی تجارت سے سب سے زیادہ نفع حاصل کرنیوالے ہو۔ اسکے بعدصاحب قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہت دی جائے گی اوربائیں ہاتھ میں(جنت میں)ہمیشہ رہنے کا پروانہ دیاجائیگا، اسکے سرپر وقار کا تاج رکھا جائیگا اوراسکے والدین کو دو ایسے جو ڑے پہنائے جائینگے جس کی قیمت دنیا والے نہیں لگاسکتے ۔ والدین کہیں گے : ہمیں یہ جوڑے کس وجہ سے پہنائے گئے ہیں؟ ان سے کہا جائیگا : تمہارے فرزند کے قرآن حفظ کرنے کی وجہ سے ، پھر صاحب قرآن سے کہاجائیگا؟ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں اور بالاخانوں پر چڑھتا جا۔ چنانچہ جب تک وہ قرآن پڑھتا رہے گا چاہے روانی سے پڑھے چاہے ٹھہر ٹھہر کر پڑھے وہ (جنت کے درجوں اوربالاخانوں پر )چڑھتا جائیگا۔(مسند امام)

Shortvideo - اللہ تعالٰی کی محبت

Shortvideo - اللہ تعالٰی کی یاد مگر کیسے؟

جمعہ، 7 اپریل، 2023

نماز کی تاکید

 

نماز کی تاکید

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور نماز قائم رکھو اورتم مشرکوں میں سے نہ ہوجائو‘‘۔(الروم : ۳۱)’’(جنتی مجرموں سے سوال کریں گے )تم کوکس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟وہ کہیں گے :  ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔(المدثر: ۴۳۔۴۲)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص اوراس کے کفر اورشرک کے درمیان (فرق)نمازکو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)یعنی نماز کو ترک کرنا کافروں اورمشرکوں کا کام ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے ، اگر وہ مکمل ہوئی تو مکمل لکھی جائے گی اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو کہا جائے گا دیکھو کیا اس کی کچھ نفلی نمازیں ہیں جن سے اس کے فرض کی کمی کو پورا کردیا جائے ، پھر باقی اعمال کا اسی طرح حساب لیا جائے گا۔(سنن نسائی )

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل)

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اوروہ اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اوردس سال کی عمر میں ان کو سرزنش کر کے ان سے نماز پڑھوائو ، اوران کے بستر الگ الگ کردو۔(سنن ابودائود )

ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، انہوں نے ایک خشک شاخ پکڑ کر اس کو ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے گرنے لگے، پھر انہوں نے کہا: اے ابو عثمان ! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا:آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا، میں آپ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے ایک شاخ کو پکڑکر اسے ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے جھڑنے لگے ، آپ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کیا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے اورپانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گررہے ہیں ،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اوردن کے دونوں کناروں اوررات کے کچھ حصوں میں نماز کوقائم رکھو، بے شک نیکیاں ، برائیوں کو مٹادیتی ہیں ، یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں ‘‘۔(ھود: ۱۱۴)(مسند احمد)


Shortvideo - خیال دُنیا کیسے کم ہوگا؟

Shortvideo - ہماری سمجھ کیوں اُلٹی ہوگئی ہے؟

جمعرات، 6 اپریل، 2023

فضائل قرآن (۴)

 

فضائل قرآن (۴)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا : حافظ قرآن جسے یاد بھی خوب ہو اورپڑھتا بھی اچھا ہو اس کا حشر قیامت میں ان مکرم ،فرمانبردار فرشتوں کیساتھ ہوگا جو قرآن مجید کو لوح محفوظ سے نقل کرنیوالے ہیں، اورجو شخص قرآن پاک کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اوراس میں مشقت اٹھاتا ہے اس کےلئے دوہرا اجر ہے۔(صحیح مسلم)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا : صاحب قرآن قیامت کے دن (اللہ تعالیٰ کے دربار میں)آئے گا تو قرآن اللہ تعالیٰ سے عرض کرےگا اس کو جوڑا عطا فرمائیں ‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو کرامت کا تاج پہنا یا جائےگا، وہ پھر درخواست کرےگا اے میرے رب ! اورپہنائیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اکرام کا پورا جوڑا پہنایا جائیگا، پھر وہ درخواست کرےگا اے میرے رب! اس شخص سے راضی ہوجائیے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائیگا، پھر اس سے کہاجائےگا قرآن شریف پڑھتا جا اورجنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور (اس کیلئے) ہر آیت کے بدلہ میں ایک نیکی بڑھادی جائےگی ۔(صحیح سنن ترمذی)حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا میں نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن جس وقت قرآن والا اپنی قبر سے نکلے گا تو قرآن اس سے اس حالت میں ملے گا جیسے کمزوری کی وجہ سے رنگ بدلہ ہوا آدمی ہواانسان ہوا ورصاحب قرآن سے پوچھے گا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟وہ کہے گا: میں تمہیں نہیں پہچانتا۔ قرآن دوبارہ پوچھے گا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وہ کہے گا: میں تمہیں نہیں پہچانتا قرآن کہے گا: میں تمہارا ساتھی قرآن ہوں جس نے تمہیں سخت گرمی کی دوپہر میں پیاسا رکھا اوررات کو جگایا یعنی قرآن کے حکم پر عمل کی وجہ سے تم نے دن میں روزہ رکھا اور رات میں قرآن کی تلاوت کی ۔ ہر تاجر اپنی تجارت سے نفع حاصل کرنا چاہتا ہے اورآج تم اپنی تجارت سے سب سے زیادہ نفع حاصل کرنبوالے ہو۔ اسکے بعدصاحب قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہت دی جائےگی اوربائیں ہاتھ میں(جنت میں)ہمیشہ رہنے کا پروانہ دیاجائےگا، اسکے سرپر وقار کا تاج رکھا جائےگا اوراسکے والدین کو دو ایسے جو ڑے پہنائے جائینگے جس کی قیمت دنیا والے نہیں لگاسکتے ۔ والدین کہیں گے : ہمیں یہ جوڑے کس وجہ سے پہنائے گئے ہیں؟ ان سے کہا جائے گا : تمہارے فرزند کے قرآن حفظ کرنے کی وجہ سے ، پھر صاحب قرآن سے کہاجائے گا؟ قرآن پڑھتا جا اورجنت کے درجوں اور بالاخانوں پر چڑھتا جا۔ چنانچہ جب تک وہ قرآن پڑھتا رہے گا چاہے روانی سے پڑھے چاہے ٹھہر ٹھہر کر پڑھے وہ (جنت کے درجوں اوربالاخانوں پر ) چڑھتا جائے گا۔(مسند امام احمدبن حنبلؒ)