اتوار، 31 جولائی، 2022

Darsulquran alan'am ayt 150کیا ہم اپنے رب کے حکم کے مقابلے میں اپنی نفسا...

Darsulquran urdu surah al-qiyama ayat 22-24 Part-03.کیا ہم نے اپنے دل کو...

Shortclip - کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف دنیا کے لئے پیدا کیا ہے؟

فردِ فرید (۱)

 

فردِ فرید (۱)

اللہ رب العزّت نے جہاں فاروق اعظم عمر ابنِ خطاب کی حیات ِمبارکہ کو مسلمانوں کیلئے ثمر بار بنایا، وہیں پر آپ کی اولادِ امجاد کو بھی آپ کیلئے صدقہ جاریہ بنایا،آپ کی اوّلاد میں بڑے بڑے صاحبانِ کمال پیدا ہوئے۔برصغیر پاک وہند کی مسلم تہذیب کو دوبڑے فاروقی بزرگوں سے فیض اٹھا نے کا موقع ملا، (۱) حضرت بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ،(۲) حضرت مجددالف ثانی شیخ احمد سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ ۔ بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکر برصیغر میں اسلام کے نہایت اہم مبلغین میں سے ایک ہیں ۔ تبلیغِ دین کے ساتھ ساتھ برصغیر کی مسلم تہذیب وثقافت پر بھی آپ کے نقوش انتہائی گہرے اور انمٹ ہیں۔ چنگیز خانیوں کی یورش کے بعد انکے جدِامجد قاضی شعیب اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور آئے پھر قصور میں آباد ہوگئے اور کچھ دنوں کے بعد ملتا ن کے ایک نواحی قصبے (کتھوال ) کے قاضی مقرر ہوگئے۔ ان کے بیٹے شیخ جمال الدین کی شادی ملّا وجیہہ الدین کی دخترِ نیک اختر سے ہوئی ۔جن کے  بطن سے (۵۷۱ ہجری میں) حضرت فرید الدین مسعود کا تولّد ہوا۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی ، جوانتہائی عابدہ،صالحہ اور کاملہ تھیں۔بعدازاں ملتا ن آگئے اور سرائے حلوانی کے قریب جامع مسجد میں قیام کیا اور مولانا منہاج الدین ترمذی سے درس فقہ لینا شروع کیا اور قرآن پاک بھی حفظ کیا۔اسی مسجد میں ان کی ملاقات اپنے زمانے کے نہایت مشہور بزرگ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے ہوئی ، ان سے بہت متاثر ہوئے اور انکے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے،اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ کے ساتھ دہلی جانا چاہتا ہوں لیکن خواجہ صاحب نے عبادت ، ریاضت اور روحانیت میں مشغولیت سے پہلے علمِ ظاہری کی تکمیل کی ہدایت فرمائی۔ اس ہدایت کے بعد آپ نے بڑے مراکز علم کا رخ کیا۔ قندھار، سیستان ،غزنی ،بخارا،سیوستان اور بد خشاںمیں ناموراہلِ علم کے پاس حاضری دی اور اکتساب کیا ،پھر بغداد میں وقت کی نہایت عظیم المرتبت علمی اور روحانی شخصیت حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مشہور زمانہ کتاب ’’عوارف المعارف‘‘کا درس لیا۔ آپ نے انکے انداز ِتدریس کی بڑی تعریف فرمائی ہے۔کہتے ہیں کہ شیخ اس قدر خوش اسلوبی سے پڑھاتے تھے کہ مجھ پر بے خودی طاری ہوجاتی تھی۔ فرماتے ہیں کہ شیخ کے پاس روزانہ دس ہزار درہم سے زیادہ رقم آتی تھی لیکن وہ اسے شام سے پہلے راہِ خدامیں خرچ کردیتے تھے۔ 

ہفتہ، 30 جولائی، 2022

Darsulquran surah alqiyama ayat 23-24 P2.کیا ہم اپنے رب کے دیدار کے لیے ...

Shortclip - آج اسلام کا مجرم کون؟

وفاداری ،بشرط استوار

 

وفاداری ،بشرط استوار

قبولِ اسلام کے ساتھ ہی حضرت عمر ابن خطاب ،نبی کریم ﷺکی توجہات اور تربیت سے فیض یا ب ہونے لگے اور حضور اکرم ﷺکے مقر بین خاص میں شامل ہوگئے۔ اللہ رب العزت کے پیارے محبوب کی محبت آپکے رگ وپے میں سرایت کرگئی اور آپ اس جذبہء محبت کو درجہ کمال تک پہنچانے کے متمنی رہتے۔ ’’حضرت عبداللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ ہم حضور سید عالم ﷺکے ہمراہ تھے اور آپ حضرت عمر بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے  عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔جب تک میں تمہارے نزدیک اپنی جان سے بھی زیادہ محبو ب نہ قرار پائوں تم مومن نہیں ہوسکتے ۔ حضرت عمر نے( اپنی کیفیت کو محسوس کیا تو بے ساختہ )عرض کیا۔ اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی عزیز ہوگئے ہیں۔ ارشادہوا ہے : عمر اب تمہارا ایمان درجہ کمال پرپہنچ گیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ نے تربیت وتزکیہ کے بہت سے پہلو آشکار کیے ہیں  حضرت عمر دن رات رسول اللہ ؐکی سیرت و کردار کا مطالعہ کر رہے تھے، اوصاف وکمالات کے مشاہدے میں تھے،اپنے ظاہر وباطن کی تبدلیاں بھی انکے پیش نظر تھیں ۔ اس لیے موقع پاتے ہی انھوں نے محبت کا درجہ کمال بھی طلب کرلیا،اور اس صاحبِ تعلیم وتزکیہ نے فوراً ہی انکے جذبہء تسلیم واخلاص اور خود سپردگی کو معراجِ کمال تک پہنچا دیا ۔اسی کیفیت کا اعجاز تھا کہ حضرت عمر کو لمحہ لمحہ نبی کریم ﷺکی رضا ء کا خیال رہتا ۔ آپکے مفادات کی حفاظت کی کوشش کرتے ۔ آپکی پسند کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ۔ حضرت جابر ؓروایت کرتے ہیں کہ ایک بار جناب رسول اللہ ﷺکی خدمت عالیہ میں خوبصورت اور قیمتی قبا بطور ہدیہ ء پیش کی گئی۔ آپ نے اسے زیبِ تن فرما لیا۔ مگر فوراً ہی اسے اتار دیا اور فرمایا:کہ اسے عمر کو دے آئو،آنجناب سے اس قبا کو فوراً اتا ر دینے کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا : مجھے جبرئیل امین نے اسے پہننے سے روک دیا تھا۔ یہ بات حضرت عمر تک پہنچی،روتے ہوئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ،عرض کیا :یا رسول اللہ ! جس قبا کو آپ نے خود ناپسند کیا ، وہ مجھے عنایت فرمادی ، اب میری لیے کیسے ممکن ہے کہ آپ کی مبغوضہ چیز کو پہن لوں، فرمایا: یہ قبا میں نے تمہیں استعمال کے لیے نہیں دی بلکہ اس لیے دی ہے کہ اسے بیچ دو (یہ سن کر آپ کے قلب مضطرب کو تسلی ہوئی ،حضور کی ناراضگی کا اندیشہ ختم ہوا)اور آپ نے اسے دوہزار درہم میں فروخت کردیا۔(مسلم)رسول اللہ ﷺکی نگاہ نے چونکہ آپ کو ’’فاروق‘‘بنادیا تھا، لہٰذا آپ کے جذبہ محبت رسو ل میں ’’غیرت ‘‘کا پہلو بہت ہی نمایاں تھا۔ممکن نہیں تھا کہ کوئی مرتکب توہین وتنقیص آپ کی گر فت میں آئے اور کیفر کردار تک نہ پہنچے۔
 

Darsulquran surah al-an'am ayat 148 Part-01. کیا ہم اپنے اوپر ظلم کر رہے...

Darsulquran surah al-qiyama ayat 22-23 Part-01. کیا روز قیامت ہمیں آپنے ...

جمعہ، 29 جولائی، 2022

۔۔۔۔ہمہ آفتاب است

 

۔۔۔۔ہمہ آفتاب است

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میری زوجیت میں دی اورمجھے سوار کراکے دار الہجرات لے گئے اوراپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا اوراسلام میں کسی کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے ۔ وہ حق کی کڑواہٹ کے باوجود حق ہی کہتے ہیں ۔ حق گوئی کی وجہ سے اس کا کوئی دوست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔ اس نے جیش العسرۃ کو سازو سامان سے آراستہ کیا اورہماری مسجد میں اضافہ کیا جس سے ہمیں وسعت حاصل ہوئی ، اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ جہاں علی جائے حق اس کے ساتھ ہو‘‘۔  (ترمذی)

حضرت زید بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : دس آدمی جنتی ہیں یعنی نبی ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر ، سعد بن مالک ، عبدالرحمان بن عوف اورسعید بن زید۔(سنن ابودائود، احمد بن حنبل)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر ، عمر، ابوعبیدہ بن الجراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس، معاذ بن جبل ، معاذ بن عمر و بن الجموح اورسہیل بن بیضاء کیا ہی اچھے آدمی ہیں۔ (بخاری ، نسائی، ترمذی)

حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم حجۃ الوداع سے تشریف لائے تو منبر پر چڑھ کر حمد وثنا ء کے بعد فرمایا : اے لوگو ! ابوبکر نے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں دی اس بات کو اچھی طرح جان لو، اے لوگو! میں ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمن بن عوف، مہاجرین اوراولین سے راضی ہوں ان کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لو۔ (طبرانی)اورطبرانی کی ایک روایت میں جو الاوسط میں بیان ہوئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر ہے اورسب سے زیادہ نرمی کرنے والا عمر ہے اورسب سے زیادہ حیادار عثمان ہے ۔ سب سے زیادہ اچھا فیصلہ کرنے والا علی بن ابی طالب ہے اورحلال وحرام کا زیادہ عالم معاذبن جبل ہے وہ قیامت کے دن علماء کے آگے آگے ہوگا۔ امت کا سب سے بڑا قاری ابی ابن کعب اورسب سے زیادہ فرائض کاجاننے والا زید بن ثابت ہے اورعمویمر یعنی ابو الدرداء کے حصے میں عبادت آئی ہے۔(رضی اللہ عنہم اجمعین )

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 145-147.کیا ہم مجرموں کی ایک قوم ہیں

جمعرات، 28 جولائی، 2022

Darsulquran urdu surah al-qiyama ayat 21.کیا ہمارا آخرت پر یقین بالکل نہ...

معاف کرنے کی عادت

 

معاف کرنے کی عادت

 اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ’’اورجب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں ، اوربرائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے ، پھر جس نے معاف کردیا اوراصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہء کرم )پر ہے‘‘۔(الشوریٰ:۴۰)’’اورجس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔(الشوریٰ : ۴۳)

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ، اوربرائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اورآپ کو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔(جامع الترمذی)

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور الصلوٰۃ والسلام کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابودائود)

 میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لے کر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ، ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اوران پر وہ شوربا گرگیا، میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا، تو باندی نے کہا اے میرے آقا، اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے ، والکاظمین الغیظ ، میمون نے کہا:میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا)اس نے کہا :اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجئے والعافین عن الناس میمون نے کہا :میںنے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی: واللّٰہ یحب المحسنین میمون نے کہا :میںتمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اورتم کو آزاد کردیتا ہوں۔(الجامع الاحکام :تبیان القرآن)

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 141-144.کیا ہم زندگی اپنی خواہشات ن...

بدھ، 27 جولائی، 2022

Darsulquran urdu surah al-qiyama ayat 19-20.کیا ہم دنیا کی محبت میں گرفت...

Shortclip - کیا یوم قیامت ہماری کامیابی یقینی ہے؟

فراستِ مومنانہ

 

فراستِ مومنانہ

پیغمبر علم وآگہی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی صحبت وتربیت ،حکمت قرآن پرگہراغوروفکر ، زندگی کے عملی تجربات اور پھر خلوص اور حسنِ نیت نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ’’فراستِ مومنانہ‘‘کا شہکار بنادیاتھا۔ آپ کی زبانِ فیض ترجمان سے جو گہر پارے نکلتے وہ حکمت ودانائی کے انمول شہپارے ہوتے ، آپ ارشاد فرماتے ہیں۔ 

٭اے انسان اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنے لیے پیداکیا ہے اور تو دوسروں کا ہونا چاہتا ہے۔ ٭تعجب ہے اس شخص پر جو اللہ تعالیٰ کو حق جانتا ہے اور پھر غیروں کا ذکر کرتا ہے۔ ٭زبان کی لغزش قدموں کی لغزش سے زیادہ خطرناک ہے۔ ٭کسی سے کوئی امید نہ رکھو بجز اپنے رب کے اور کسی چیز سے خوف زدہ نہ ہوبجز اپنے گناہ کے ۔٭اپنابوجھ خلقت میں سے کسی پر نہ ڈالو خواہ کم ہو یا زیادہ ۔ ٭عقل مند کہتا ہے میں کچھ نہیں جانتا لیکن بے وقوف کہتا ہے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ ٭حقیر سے حقیر پیشہ ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے۔ ٭دنیا جس کے لیے قید ہے قبراس کے لیے قرار گاہ ہے۔ ٭بعض اوقات جرم معاف کردینا مجرم کو زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔ ٭تعجب ہے اس شخص پر جو حساب کو حق جانتا ہے اور پھر مال بھی جمع کرتا ہے۔ ٭تعجب ہے اس شخص پر جو جہنم کو حق سمجھتا ہے اور پھر گناہ کاارتکاب بھی کرتا ہے۔ ٭حاجت مند غرباء کا تمہارے پاس آنا تم پر خدا کا انعام ہے۔ ٭خاموشی غصے کا بہترین علاج ہے۔ ٭اگر آنکھیں بینا ہیں تو ہر روز روزِ محشر ہے۔ ٭متواضع ومنکسرشخص دنیا اورآخرت میں جو چیز بھی چاہے گا اسے مل جائے گی۔ ٭عیال دار کے اعمال مجاہدین کے اعمال کے ساتھ آسمان پر جاتے ہیں ۔ ٭(خوشامد کے متمنی )دولت مندوں سے عالموں اور زاہدوں کی دوستی ریا کاری کی دلیل ہے۔ ٭جس نے دنیا کو جس قدر پہچانا ،اسی قدر اس سے بے رغبت ہوگیا۔ ٭دنیا کی محبت دل کا اندھیرا اور دین کی محبت دل کا نور ہے۔٭مسلمان کی ذلت اپنے دین سے غفلت میں ہے نہ کہ بے زر ہونے میں ۔ ٭اللہ کے سچے بندے کی پہچان یہ ہے کہ اس کے دل میں خدا کا خوف اور اس کے رحم کی امید ہو، زبان پر حمد وثنا ء ہو، آنکھوں میں شرم وحیاء ہو، دنیا اوراہلِ دنیا سے بے نیازی اور اپنے مولا کی طلب ہو۔ ٭فقیر کا ایک درہم ، غنی کے لاکھ درہم (صدقہ کرنے)سے بہتر ہے۔٭نفس کی تونگری انسان کو بے پرواہ بنادیتی ہے خواہ اس کو کیسی ہی تنگ دستی ہو۔ 


Shortclip - کامیاب انسان کون؟

Darsulquran urdu surah al-qiyama ayat 13-18 part-02.کیا ہم قرآن کی ہدایت...

منگل، 26 جولائی، 2022

Shortclip - کیا آخرت میں ہمارے لئے کوئی اجر ہے؟

…خوش رسمے

 

…خوش رسمے

حضرت عثمان غنی کی مدّت خلافت تقریباً ۱۲ سال ہے۔ ابتدائی 6سال نہایت سکون وعافیت سے گزرے اور اصلاحات وفتوحات کا دائرہ وسیع ہوتا رہا، اس کے بعد مملکت اسلامیہ میں فتنہ وفساد کے ایک دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت کابل سے لے کر مراکش تک تمام علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں تھا۔ جس میں سینکڑوں قومیں آباد تھیں،ان محکوم قوموں میں فطرۃًمسلمانوں کے خلاف جذبہ انتقام موجود تھا، لیکن مسلمانوں کی قوت وسطوت کے مقابلے میں وہ بے دست وپا تھے۔ اس لیے انھوں نے سازشوں کا جال پھیلایا جن میں یہودی اور مجوسی سب سے آگے تھے۔(شرح صحیح مسلم)
ان سازشوں کا مقصد مملکت اسلامیہ میں افتراق وانتشار پھیلانا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ ایک پیغمبر کی حسن تربیت کا نتیجہ ہی ہوسکتا ہے اور یہیں سے ایک خلیفہ اور ایک آمر وجابر حکمران کا فرق واضح ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اس فتنہ کی خبر دے چکے تھے۔ حضرت مرّہ بن کعب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل میں پیش آنے والے فتنوں کا بیان کررہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص کا گزر ہوا جو کپڑااوڑھے جارہا تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فتنوں کے وقت یہ شخص ہدایت پر ہوگا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان تھے۔(ترمذی)حضور نے انھیں صبر واستقامت کی تلقین بھی فرمائی تھی اور یہ تاکید بھی فرمائی تھی کہ اللہ انھیں ایک قمیص (خلافت) پہنائے گا وہ اسے باغیوں کے مطالبے پر ہر گز نہ اتاریں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے آقا کے حکم سے کیسے روگردانی کرسکتے تھے۔۳۵ہجری میں تقریباً دوہزار مفسدین نے کاشانہ خلافت کا گھیرائو کرلیااور کھانے پینے کی اشیاء پانی تک کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالنے لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایسے پر آشوب وقت پر حضرت حسنین کریمین کو آپ کے گھر کی حفاظت کے لیے بھیج دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر بھی اپنے جاں نثار ساتھیوں کے ساتھ آگئے۔ ۴۸ ہزار مربع میل کا فرماں روا کسی معمولی قوت کا حامل نہیں ہوتا۔ مدینہ میں اس وقت وہ لوگ موجود تھے جو اکیلے صفوں کی صفیں پلٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ سات سوافراد آپکی حویلی کے احاطے میں موجود تھے لیکن آپ نے اپنی ذات کی خاطر کسی شخص کو تلوار اٹھا نے کی اجازت نہ دی، نہ آپ نے مدینہ منورہ سے باہر جانا منظور فرمایا ،گھر میں آپ کے 20غلام موجود تھے اُن سب کو بھی آزاد فرمادیا۔ مفسدین کو محسوس ہوا یہ معاملہ اور طول پکڑگیا تو آپ کے جاں نثارہمارے خلاف ازخود کوئی کاروائی نہ شروع کردیں۔ ان میں سے کچھ افراد پڑوس کے گھر میں داخل ہوئے ،وہاں سے آپکے گھر میں کود گئے اور آپ کو شہید کردیا۔  

Darsulquran surah al-qiyama ayat 13-18.کیا ہم آخرت کی زندگی سے بالکل غا...

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 130-133.کیا ہمارے ساتھ بہت برا ہونے...

پیر، 25 جولائی، 2022

Shortclip - کیا ہمیں دین کی کوئی ضرورت ہے؟

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

 

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کررہا ہو پس تم (سجدہ میں )بہت دعاکیا کرو۔(صحیح مسلم،سنن دائود )

 حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جس سے اللہ مجھے جنت میں داخل کردے یا میں نے عرض کیا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے پھر سوال کیا، آپ خاموش رہے ، جب میں نے تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے لیے کثرت سے سجدے کیا کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرو گے تو اللہ اس سجدہ کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹادے گا۔ (صحیح مسلم، ترمذی)

 حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، میں آپ کے وضو اورطہارت کے لیے پانی لایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: سوال کرو، میں نے عرض کیا میں آپ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : اورکسی چیز کا ؟میں نے عرض کیا مجھے یہ کافی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر کثرت سے سجدے کرکے اپنے نفس کے اوپر میری مددکرو۔ (صحیح مسلم ، سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب ابن آدم سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ جاکر روتا ہے اورکہتا ہے ہائے میرا عذاب !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا سواس کو جنت ملے گی، اورمجھے سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا سومجھے دوزخ ملے گی۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعضاء سجود کے جلانے کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔(صحیح بخاری، سنن نسائی)

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ کا جو حال اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے اوراس کا چہرہ مٹی میں لتھڑا ہواہو۔

Darsulquran urdu surah al-qiyama ayat 10-12.کیا ہم نے دنیا میں اللہ تعال...

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 128-129.کیا ہماری دوستی ظالموں کے س...

اتوار، 24 جولائی، 2022

Shortclip - دل کو عرش الٰہی کیسے بنائیں؟

جامع القرآن

 

جامع القرآن

حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، انتہائی گہرے زخموں کے باعث انکی زندگی کی امیدباقی نہ رہی۔ انھوں نے اپنی نیابت کا فیصلہ ایک کونسل پر چھوڑ دیا۔ یہ وہ چھ افراد تھے، جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ مبارکہ میں راضی رہے، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد ابن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم آپ نے حکم فرمایا کہ میرے بعد خلافت ان چھ افراد سے کسی ایک کے پاس ہوگی اور اس کا فیصلہ بھی یہی افراد باہمی صلاح و مشورہ سے کرینگے۔ تین دن طویل مشاورت ہوئی، احتیاطاً لوگوں سے بھی رائے لی گئی اور اتفاق رائے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو امیرالمومنین منتخب کیا گیا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس منصب کی بشارت بھی عطاء فرمائی تھی، حضرت عثمان غنی رعایا کے حق میں ایک نہایت مہربان اور شفیق حکمران ثابت ہوئے۔ آپ نے اپنے عہدِ خلافت میں بیت المال سے تنخواہ یا کوئی اور اضافی مراعات حاصل نہیں کی، بلکہ اپنے ذاتی وسائل بھی امت کی فلاح وبہبود کیلئے وقف کردیئے۔ آپ نے نظم مملکت کو بڑی دانائی اور حکمت سے استوار کیا۔ عدل فاروقی کی روایت کو قائم ودائم رکھا۔ علم کی ترویج اشاعت کا سلسلہ جاری رہا، آپ خود بھی مجتہدانہ بصیرت کے حامل تھے خاص طور پر وراثت اورحج کے مسائل میں، آپکی رائے کو درجہ استناد حاصل تھا۔ خود بھی حدیث نبوی کی روایت فرماتے لیکن اس معاملے میں بڑی حزم واحتیاط سے کام لیتے۔ آپ نے لوگوں کیلئے جاگیریں مقرر فرمائیں اور جانوروں کیلئے چراگائیں قائم کیں۔ نظم ونسق کیلئے محکمہ پولیس قائم کیا اور اسکے عہدے دار مقرر کیے۔ مسجد نبوی شریف میں توسیع ہوئی اور اسکی تزئین وآرائش کی گئی۔ مؤذنوں کی تنخواہیں مقر ر کی گئیں۔ وسائل کی ایسی فراوانی ہوئی کہ لوگ فکرِ معاش سے آزاد ہوگئے۔ مملکت اسلامیہ کی سرحدی حدود میں توسیع کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلم مملکت کا رقبہ کم وبیش 24 لاکھ مربع میل تھا، حضرت عثمان کے زمانے میں یہ رقبہ کم و بیش 48 لاکھ مربع میل تک وسعت اختیار کر گیا اور سندھ سے کابل، لبیا سے لیکر یورپ تک کا علاقہ اس میں شامل تھا۔ آپ نے مفتوحہ علاقوں میں چھاونیاں قائم کیں اور پوری مملکت میں سڑکیں، پل اور مسافر خانے بنوائے۔ پہلی بار بحری بیڑہ قائم کیا۔ آپ کی حیات مبارکہ کا اہم ترین کارنامہ خدمتِ قرآن کے حوالے سے ہے۔ عرب قرآن کو مختلف لہجوں اور قرأتوں سے تلاوت کرتے تھے۔ فتوحات کی وسعت کی وجہ سے یہ سہولت غلط فہمیوں کا باعث ہوسکتی تھی، آپ نے اپنی ’’فراست باطنی‘‘ سے پوری امت کو قرأتِ قریش پر جمع کردیا اور یوں آپ ’’جامع القرآن‘‘کہلائے۔ 

Shortclip - حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں کون سے فرقے تھے؟

ہفتہ، 23 جولائی، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 125-127 Part-02.کیا ہمارے اندر جنت ...

کامل الحیا ء والا یمان

 

کامل الحیا ء والا یمان

حضور سید عالم ﷺ کی صحبت ، تربیت اور توجہات نے حضرت عثمان غنی ؓ کو اوصاف ومحاسن کا ایک شہکار جمیل بنا دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ معرفتِ خداوندی اور احساسِ بندگی سے معمور تھے۔ آپکی آنکھیں خوفِ خداوندی سے اکثر مصروف گریہ رہا کرتی تھیں۔ موت قبر اور عاقبت کوہمیشہ یادرکھتے تھے۔ قبروں سے گزرتے تو اس قدر روتے کہ ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی ۔ لوگ کہتے کہ جنت وجہنم کے ذکر سے آپ پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی ۔ آخر ان قبر وں میں کیاخاص بات ہے کہ انھیں دیکھ کر آپ بے قرار ہوجاتے ہیں ۔فرماتے کہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے ۔ اگر یہ معاملہ آسانی سے طے ہوگیا تو پھر تمام مرحلے آسان ہیں ،اور اگر اس میں دشواری پیش آئی تو پھر تمام منزلیں دشوار ہوجائیں گی۔ شب بیداری اورتہجد گزاری آپ کا معمول تھا۔کبھی کبھی حضور وسرور کی ایسی کیفیت طاری ہوتی کہ ایک رکعت میں پورا قرآن پاک ختم کرلیتے ۔ حج بیت اللہ کے انتہائی مشتاق تھے۔ زمانہ خلافت میں کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل نہ کی ۔ حیات مبارک کے آخری سال میں باغیوں نے آپکے گھر کا محاصر ہ کر رکھا تھا ،اور یہ ذوالحج کا مہینہ تھا ۔ ایسے میں آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس کو بہت زور دے کر کہا کہ وہ آپکی طرف سے امیر حج بن کر جائیں۔ جناب رسول اللہ ﷺکی ذات والا تبار سے آپکی محبت اور وابستگی کا عالم الفاظ میں رقم نہیں ہوسکتا ۔ محبت کی پاکیزہ کیفیت کے ساتھ ساتھ جذبہ اطاعت رسول سے سرشار تھے۔ اور قدم قدم پر اس کا خیال دامن گیر رہتا تھا۔ جس ہاتھ سے جناب رسالت مآب علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی، کبھی بھی اسے کسی نجاست یا محلِ نجاست سے مس نہ ہونے دیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ میں سفیر بن کر بھیجے گئے تو مکہ والوں نے پہلے عمرہ کی پیش کش کی۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ ابھی جناب رسول اللہ ﷺ وسلم نے طواف نہیں فرمایا ۔ ایسے میں عثمان کیلئے زیبا نہیں ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرے۔ ایک بار وضو کرنے کے بعد مسکرانے کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا : میں نے ایک بار حضور سید عالم ﷺ کو اسی طرح وضو کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضو ر کے اہلِ خانہ سے اصرارکرتے کہ گھر میں ضروریات زند گی کا کوئی معاملہ ہو تو انھیں ضرور مطلع کیا جائے۔ حیاء ، سخاوت، ایثار  اور صلہ رحمی میں آپ ضرب المثل ہیں ۔ انکی حیا ء کے بارے میں حضور ﷺ کا قول فیصل ہے کہ ’’آسمان کے فرشتے بھی عثمان سے حیاء کرتے ہیں ‘‘۔ سینکڑوں لوگ آپکی سخاوت سے فیض یا ب ہوئے۔ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے دو لاکھ اشرفی مالیت کی جائیداد مسلمانوں کیلئے وقف تھی۔ حضور اکر م ﷺ نے آپ کو آنیوالے فتنوں سے خبر دار کیا اور صبر واستقامت کی تلقین فرمائی آپ نے بڑی جرأت اور پامردی سے اس حکم پر عمل کیا ۔

Darsulquran urdu surah al-Qiyama ayat 03-04.کیا ہم اپنے اعمال کے نتائج پ...

Darsulquran surah al-an'am ayat 125 Part-01.کیا ہمارا سینہ اسلام پر عمل ...

جمعہ، 22 جولائی، 2022

Shortclip - کیا جنت جانا بہت مشکل ہے؟

ذوالبشارتین

 

ذوالبشارتین

حضرت غنی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے دوبار براہِ راست جنت کی بشارت سے نوازے گئے۔ پہلی بار اس وقت جب آپ نے بئر رومہ (پانی کا کنواں )خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ دوسری بار غزوہ تبوک کے موقع پر ’’ہجرت کے آٹھویں سال ماہ ذی الحجہ میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ رومیوں نے شام میں لشکر جرار اکٹھا کر لیا ہے اور وہ مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے کے لیے زبر دست تیاریوں میں مصروف ہیں ان کے متعدد فوجی دستے ’’بلقائ‘‘کے شہر تک پہنچ گئے ہیں ۔ وہاں انہوں نے پڑائو ڈال لیا ہے‘‘۔اب مسلمانوں کے پاس دو صورتیں تھیں ایک یہ کہ وہ مدینہ میں رہ کر رومی عساکر کا انتظار کریں یا پھر یہ کہ وہ آگے بڑھ کر دشمن کے سیلِ رواں کے سامنے بند باندھ دیں ۔اللہ کے غیر ت مند رسول نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا،اور اس مہم کا اعلان عام کردیا ۔اتفاق سے وہ زمانہ بڑی عسرت اور تنگ دستی کا تھا۔ شدید گرمی کا موسم تھا، عرصہ دراز سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ قحط سالی کا عالم تھا۔ ایسے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے اغنیاء اور اصحاب ثروت کو حکم دیا کہ وہ اللہ کے راستے میں دل کھول کر مالی اعانت کریں۔ صحابہ کرام نے اس موقع پر ایثار وقربانی کی بے مثال داستانیں رقم کیں۔ ایسے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کمالِ فیاضی کا ثبوت فراہم کیا ۔آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپ کی آستین میں دس ہزار دینا ر تھے۔ آپ نے فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں پلٹ دیے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حضور ان دیناروں کو الٹ پلٹ رہے تھے اور ساتھ ہی دعا فر مارہے تھے۔ ’’اے اللہ عثمان سے راضی ہوجا میں اس سے راضی ہوں ‘‘۔پھر انہیں دعاد ی ’’اے عثمان اللہ تمہاری مغفرت کرے اس دولت پر جو تم نے مخفی رکھی اور جس کا تم نے اعلان کیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، عثمان کو کوئی پروا نہیں کہ آج کے بعدوہ کوئی عمل کرے۔(مسند امام احمد بن حنبل )٭امام ترمذی نے روایت کیا ہے کہ اس موقع پر حضرت عثمان نے تین سو اونٹ بھی پالان اور ساز وسامان کے ساتھ ، حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیے۔ ان کے علاوہ بھی کتب احادیث میں بہت سی روایا ت آپ کی شان اقدس میں ہیں۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا اور جنت میں میرا رفیق عثمان ہے۔ (ترمذی ،ابن ماجہ)

Darsulquran urdu surah al-qiyama ayat 02. کیا ہمیں اپنے اعمال کے نتائج پ...

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 124.کیا ہم متکبر ہیں

جمعرات، 21 جولائی، 2022

Darsulquran urdu surah al-qiyama ayat 01-04 Part-03.کیا ہم یوم قیامت کو ...

ذوالنورین

 

ذوالنورین

ہجرت مدینہ منورہ کے بعد جب مواخات (ایک دوسرے کا بھائی بنانے )کا سلسلہ قائم ہوا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حضرت اوس بن ثابت المنذر کا بھائی قرار دیا گیا ۔ آپ نے مدینہ منورہ میں بھی زراعت اور تجارت کے ذریعے سے اپنے مالی معاملات کو بہت مستحکم کرلیا ۔مدینہ منورہ میں ان دنوں پانی کی شدید قلت تھی ۔ لوگ ’’بئر رومہ‘‘نامی ایک کنویں سے پانی خرید کر استعمال کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنی نے پہلے اس کنویں کا نصف خرید لیا اور پھر بقیہ حصہ بھی خرید کر اللہ کے رستے میں وقفِ عام کردیا۔ اللہ اور اسکے رسول کی بارگاہ میں یہ عمل نہایت ہی مقبول ہوا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنت کی بشارت سے خورسند ہوئے۔ 2ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا۔ جن دنوں مسلمان اس سفر کیلئے نکل رہے تھے۔ حضرت رقیہ ؓ کی صحت مبارکہ نہایت ناساز تھی۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عثمان کو مدینہ منورہ میں ٹھہر کر تیماداری کا حکم دیا۔ حضرت رقیہ اس مر ض میں وصال فرماگئیں۔ جب مدینہ منورہ میں فتح کی خبر پہنچی تو اس وقت آپ کی تدفین ہورہی تھی۔ جب مجاہدین بدر میں مال غنیمت کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان کا حصہ بھی الگ کیا کیونکہ آپ اللہ اور اسکے رسول کے کام میں مصروف تھے۔ (بخاری ) اس طرح آپ اصحاب بدر میں بھی شمار کیے جاتے ہیں ۔حضرت رقیہ ؓکے وصال نے حضرت عثمان کر بہت غمزدہ کردیا ۔ ایک تو وفاء شعا ر اور غم گسار اہلیہ کی جدائی پھر رسول اللہ ﷺسے نسبتِ دامادی کا انقطاع ۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپکو اداس وملول دیکھا تو اپنی دوسری صاجزادی حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح آپ سے فرما دیا ، ارشاد ہوا۔’’اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی عثمان سے کردوں‘‘۔ (احمد ، طبرانی)اس قرابتِ عظیمہ کی وجہ سے صحابہ کرام نے آپ کو ’’ذوالنورنین ‘‘(دونوروں والے) کا لقب دیا  جب ۹ ہجری میں حضرت ام کلثوم بھی وصال فرماگئیں تو حضور اکرم ﷺنے فرمایا : عثمان کی شادی کرادو،اگر میرے پاس تیسری (ایسی ) بیٹی ہوتی (جس کا ابھی نکاح نہ ہوا ہوتا )تو اس کا نکاح بھی عثمان کے ساتھ کردیتا  (طبرانی )ایک روایت میں ۴۰ کا عدد بھی آیا ہے کہ میں انھیں یکے بعد دیگر ے حضرت عثمان کے نکاح میں دے دیتا ۔ حدیبیہ کے مقام سے آپ کو سفیر بناکر مکہ بھیجا گیا لیکن یہ افواہ اڑ گئی کہ اہلِ مکہ نے آپ کو شہید کردیا ہے۔ اس پر حضور اکر م ﷺنے صحابہ کرام سے بیعت لی کہ خبر صحیح ہونے کی صورت میں ہم خونِ عثمان کا بدلہ لیں گے۔ اسے ’’بیعت رضوان ‘‘کہتے ہیں۔ حضرت عثمان کی جانب سے حضور اکر م ﷺنے خود بیعت کی اور اپنے دست مبارک کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا ۔ بیعت کرنے والے تقریباً ۱۵۰۰ افراد کو اللہ نے اپنی رضا ء کی خوشخبری دی۔ 

Darsulquran urdu surah al-anaam ayat 123.کیا ہم اسلام کے بڑے دشمن نہیں ہیں

بدھ، 20 جولائی، 2022

Shortclip - شِرک کیا ہے؟

ذوالہجرتین

 

ذوالہجرتین

حضور اکرم ﷺکی دعوت توحید کی جیسے جیسے اشاعت زیادہ ہونے لگی ویسے ویسے کفارِ مکہ کے مظالم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ ’’رحمت عالم ﷺ نے جب شمع توحید کے ان پروانوں پر کفر وشرک کے سرغنوں کے بے انداز مظالم دیکھے تو سرکار دوعالم ﷺنے اپنے جاں نثار غلاموں کو اجازت دے دی کہ ظلم وستم کی اس بستی سے ہجرت کرکے حبشہ چلے جائیں کیونکہ وہاں کے بادشاہ (نجاشی ) کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بڑا رحم دل اور انصاف پسند ہے چنانچہ بعثت کے پانچویں سال ماہ رجب میں مہاجر ین کا پہلا قافلہ اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر حبشہ جیسے دور افتادہ ملک کی طرف روانہ ہوا تاکہ اس پر امن فضا میں وہ جی بھر کر اپنے رب کریم کی عبادت کرسکیں ۔ اپنے عقیدہ کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کرسکیں۔ یہ قافلہ بارہ مردوں اور چار خواتین پر مشتمل تھا۔ انکے قافلہ سالار حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ آپکی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ (جو رحمتہ للعالمین کی لخت جگر تھیں ) صلی اللہ تعالیٰ علی ابیہاوعلیہا وبارک وسلم آپ کے ساتھ تھیں۔ سرکار دوعالم نے اسی جوڑے کے بارے میں فرمایا ’’ابراہیم اور لوط علیہماالسلام کے بعد یہ پہلا گھر انہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی‘‘۔حضرت رقیہ کی خدمت گزاری کیلئے حضرت ام ایمن بھی ساتھ گئیں (ضیاء النبی ) حضور رحمت عالم ہجرت کے بعد اپنے اصحاب کی خیریت کی اطلاع کے منتظر رہاکرتے تھے۔ حبشہ میں ان لوگوں کو امن وعافیت میسر آئی ۔چند ماہ کے بعد وہاں یہ اطلاع پہنچی کہ اہلِ مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے،اور اب وہاں مکمل امن وامان ہے۔ اس پر چند لوگوں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ ایک روایت کیمطابق حضرت عثمان بھی واپس آنے والوں میں شامل تھے۔ لیکن واپسی کے بعد اہلِ مکہ کے بارے میں اطلاع غلط ثابت ہوئی،اور کفار نے ان لوگوں سے پہلے سے بھی زیادہ مظالم شروع کردیے۔ طعن وتشنیع اور طنز وتمسخر کا بازار گرم کردیا۔ اس پر نبی کریم ﷺنے انھیں دوبارہ ہجرت کی اجازت مرحمت فرمادی ۔ اس دفعہ کئی دوسرے مسلمان بھی اس قافلہ میں شریک ہوگئے اور انکی تعداد تراسی ہوگئی، ہجرت کرتے ہوئے ،حضرت عثمان نے بڑے تائسف کا اظہار کیا کہ سرکار دوعالم ﷺتو مکہ میں ہیں اور ہم دوسری باربھی آپ کے بغیر ہجرت پر جارہے ہیں ۔
اس پر حضورؐ نے ارشاد فرمایا ۔ ’’(افسوس مت کرو) تمہاری یہ دونوں ہجرتیں اللہ تعالیٰ کی طرف اور میری طرف ہیں‘‘یہ سن کر حضرت عثمان نے عرض کیا’’یا رسول اللہ اگر ایسا ہے تو پھر ہم راضی ہیں ہمیں اتنا ہی کافی ہے‘‘۔ (طبقات ابن سعد)جب تمام مسلمانوں کو ہجرت مدینہ کا حکم ہوگیا تو حضرت عثمان اس سعادت سے بھی بہر ہ مند ہوئے اور ذوالہجرتین (اللہ کے راستے میں دوہجرتیں کرنے والے )بن گئے۔

Darsulquran urdu surah Al-Qiyama ayat 01-04 part-02. یوم قیامت کیا ہے

Shortclip - کیا ہم مسلمان ہیں؟

پیر، 18 جولائی، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 120-121.کیا ہم شر ک عملی میں مبتلا...

Shortclip - ایمان بالغیب ہی کیوں؟

Shortclip - ایمان کیا ہے؟

۔۔۔۔ہمہ آفتاب است

 

۔۔۔۔ہمہ آفتاب است

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میری زوجیت میں دی اورمجھے سوار کراکے دار الہجرات لے گئے اوراپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا اوراسلام میں کسی کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے ۔ وہ حق کی کڑواہٹ کے باوجود حق ہی کہتے ہیں ۔ حق گوئی کی وجہ سے اس کا کوئی دوست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔ اس نے جیش العسرۃ کو سازو سامان سے آراستہ کیا اورہماری مسجد میں اضافہ کیا جس سے ہمیں وسعت حاصل ہوئی ، اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ جہاں علی جائے حق اس کے ساتھ ہو‘‘۔  (ترمذی)

حضرت زید بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : دس آدمی جنتی ہیں یعنی نبی ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر ، سعد بن مالک ، عبدالرحمان بن عوف اورسعید بن زید۔(سنن ابودائود، احمد بن حنبل)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چارآدمیوں کی محبت منافق کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اورنہ ہی مومن کے سوا، کوئی ان سے محبت کرتا ہے یعنی ابوبکر ، عمر ، عثمان اورعلی سے۔(ابن عساکر)

 حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم حجۃ الوداع سے تشریف لائے تو منبر پر چڑھ کر حمد وثنا ء کے بعد فرمایا : اے لوگو ! ابوبکر نے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں دی اس بات کو اچھی طرح جان لو، اے لوگو! میں ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمن بن عوف، مہاجرین اوراولین سے راضی ہوں ان کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لو۔ (طبرانی)اورطبرانی کی ایک روایت میں جو الاوسط میں بیان ہوئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر ہے اورسب سے زیادہ نرمی کرنے والا عمر ہے اورسب سے زیادہ حیادار عثمان ہے ۔ سب سے زیادہ اچھا فیصلہ کرنے والا علی بن ابی طالب ہے اورحلال وحرام کا زیادہ عالم معاذبن جبل ہے وہ قیامت کے دن علماء کے آگے آگے ہوگا۔ امت کا سب سے بڑا قاری ابی ابن کعب اورسب سے زیادہ فرائض کاجاننے والا زید بن ثابت ہے اورعمویمر یعنی ابو الدرداء کے حصے میں عبادت آئی ہے۔(رضی اللہ عنہم اجمعین )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2108 ( Surah Al-Muddaththir Ayat 53-56) درس ...

اتوار، 17 جولائی، 2022

Shortclip - اسلام کیا ہے؟

سعادتِ ایمان اور آزمائش

 

سعادتِ ایمان اور آزمائش 

حضور اکرم ﷺکی بعثت مبارکہ کے بعد سب سے پہلے آپ کی تصدیق کا شرف ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا، اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق،حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم اس سعادت سے مشرف ہوئے ان حضرات کے بعد اسلام کی نعمتِ عظمیٰ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقدر میں آئی ۔ اس طرح آپ السابقون الاوّلون میں نمایاں مقام کے حامل ٹھہرے۔ قبولِ اسلام کے بعد انھیں دوسرے مسلمانوں کی طرح ابتلاء اور آلام کے مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا ۔ آپکے خاندان نے آپکے قبولِ اسلام کی سخت مخالفت کی اور آپ کو عملاً بھی بڑے جبر وتشد د کا نشانہ بنایا گیا ۔ لیکن آپکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی، اور آپ اپنے موقف پر بڑی استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ’’آپکے چچا کا یہ معمول تھا کہ جانور کے کچے بدبودار چمڑے میں انہیں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیتا ۔ نیچے سے تانبے کی طرح تپتی ریت اوپر سے عرب کے سورج کی آتشیں کرنیں ۔ اس پر کچے چمڑے کی بدبو ایک عذاب میں اس بڈھے نے بیسوئوں عذابوں کو یکجا کردیا تھا۔ اس طرح اپنے سگے بھتیجے پر وہ دل کی بھڑاس نکالتا پھر بھی دل سیر نہ ہوتا۔‘‘(ضیاء النبی )مکہ میں آپ کو حضور اکرم ﷺ کی دامادی کا شر ف حاصل ہوا۔ بعثت سے قبل حضور کی دو صاحبزادیوں  حضرت رقیہ ؓ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح ابو لہب کے بیٹوں سے ہوگیا تھا۔ جبکہ رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی۔ آپکی دعوت رسالت کی خبر اس تک پہنچی تو اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ حضور ﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دے دیں ۔ اس طلاق کے بعد حضور اکرم ﷺ نے اپنے صاجزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہاکا نکاح حضرت عثمان غنی سے کردیا۔ کہاجاتا ہے کہ یہ مکہ کاخوبصورت ترین ازدواجی جوڑا تھا اور لوگ انکے باہمی تعلق پر رشک کیا کرتے تھے۔ خود حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جوڑے کی روحانی اور جمالیاتی اہمیت کا بڑا احساس تھا ۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے مجھے ایک دیگچے میں گوشت دیا اور فرمایا کہ یہ عثمان کے گھر پہنچادو۔  میں انکے گھر میں داخل ہوا ۔وہاں حضرت رقیہ بھی تشریف فرماتھیں۔ میں نے زوجین میں ان سے بہتر کوئی جوڑا نہیں دیکھا۔ میں کبھی حضرت عثمان کے چہرے کودیکھتا اور کبھی انکی باوقار اور پرانور اہلیہ کو(اور اس جوڑے کے ملکوتی حسن وتقدس کودیکھ کر حیران ہوتا) جب واپس آئے تو حضور اکرم ﷺنے (بڑے اشتیاق سے )مجھ سے پوچھا کیاتم وہاں گئے تھے۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں،آپ نے فرمایا: کیا تم نے ان سے اچھا کوئی جوڑا دیکھا ہے میں نے عرض کیا۔ یارسول اللہ نہیں ۔میں کبھی حضرت عثمان کی طرف دیکھتا اور کبھی حضرت رقیہ کی طرف۔(ابن عساکر) بعثت مبارکہ کے پانچویں سال ماہ رجب میں یہ گھرانہ حبشہ کی طرف ہجرت کرگیا۔

Shortclip - ظاہر کا پردہ کیوں ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2107 ( Surah Al-Muddaththir Ayat 52-53 ) درس ...

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 117-119.کیا ہماری زندگی گزارنے کی ب...

جمعہ، 15 جولائی، 2022

Shortclip - کیا ہم اپنی زندگی ضائع کرنے پر تُل گے ہیں؟

آں خنک شہرے

 

آں خنک شہرے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اہل مدینہ کا معمول تھا کہ جب انکے باغوں میں پہلا پھل پکتا تو اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت میں پیش کرتے ۔حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس پھل کو لے کر اپنی مبارک آنکھوں پر رکھتے اور یوں دعاء فرماتے۔ ’’اے اللہ ! ہمارے پھلوں میں برکت دے اور ہمارے مدینہ میں بھی برکت دے، ہمارے صاعوں میں بھی برکت دے اور ہمارے مدّ میں بھی برکت دے(یعنی پیمانوں اور وزنوں میں) اے اللہ بے شک ابراہیم تیرا بندہ تیرا خلیل اور تیرا نبی تھا اور اس نے مکہ کے لیے دعا ء کی تھی اور میں مدینہ کے لئے تیری بارگاہ میں التجاء کرتا ہوں۔ جس طرح ابر اہیم نے مکہ کیلئے دعاء کی تھی ۔اسکے ساتھ اس کی مثل اور۔ (صحیح مسلم )حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، اور میر ا منبر میرے حوض یعنی حوضِ کوثر پر ہے۔ (صحیح بخاری) ٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے احد کا پہاڑ نظر آیا تو آپ نے فرمایا : یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ اے اللہ بے شک ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ مکرّمہ کو حرم بنا یا تھا اور میں ان دوپہاڑوں کے درمیان کو حرم بنارہا ہوں ۔ (سنن ترمذی )٭حضر ت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو مدینہ منورہ میں مر سکے تو ایسا کر ے کیونکہ بے شک میں (اس کے حق میں )گواہی دوں گا ۔ جو یہاں مر جائیگا۔(ابن ماجہ )محمد بن مسلمہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کر تے ہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں خلیفہ مہدی سے ملا قات کے لیے گیا تو اس نے کہا مجھے کچھ نصیحت فرما ئیے میں نے کہا : میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس بات کی کہ رسول اللہ ﷺکے شہر کے باشندوں ، حضور کے پڑوسیوں کے ساتھ لطف وعنایت سے پیش آئو۔کیونکہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مدینہ میری ہجرت گاہ ہے، قیامت کے روز یہیں سے اُٹھا یا جائوں گا۔ یہاں میری قبر ہوگئی، اسکے باشندے میرے پڑوسی ہیں اورمیری امت پر لازم کہ وہ میرے پڑوسیوں کی حفاظت کرے۔ جو میری وجہ سے ان کی حفاظت کرے گا، میں قیامت کے روز اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا،اور جو میرے پڑوسیوں کے بارے میں میری وصیت کی حفاظت نہیں کرے گا۔ اللہ اسے دوزخ کا نچوڑپلائے گا۔ (ترتیب المدارک ، قاضی عیاض)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2105 ( Surah Al-Muddaththir Ayat 46-48 ) درس ...

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 112-113.کیا ہم نے آخرت کے عوض دنیا ...

Shortclip - ایمان باللہ کے تقاضے

یثرب سے مدینہ

 

یثرب سے مدینہ

مدینہ منورہ جس کا قدیم نام یثرب تھا ۔اسے غالب روایات کے مطابق اسے حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے قوم عالقہ نے سب سے پہلے آبادکیا، پھر یہود کی آمد ہوئی، وہ صدیوں تک اسی علاقہ پر قابض رہے اور یہاں کے جملہ زمینی وسائل کھیتیاں ، باغات کے ساتھ ساتھ تجارتی منڈیوں پر بھی ان کا تسلّط تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ اہل کتا ب ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے علم وفضل کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ اوس وخزرج بنو قحطان سے تھے جو پہلے یمن میں آباد تھے۔ جب وہاں کے حالات خراب ہوئے تو ان جد اعلیٰ عمر و بن عامر نے وہاں سے نقل مکانی کا فیصلہ کیا۔ اسکی اولاد عر ب کے متعلق علاقوں میں آبا د ہوگئی ۔ اوس اور خزرج سگے بھائی تھے۔ انکے والد کا نام حارثہ بن ثعلبہ بن عمر و بن عامر تھا۔ ’’یمن میں آباد تمام قبائل کا جد اعلیٰ ’’قحطان‘‘تھا۔ علماء لغت وتاریخ کی رائے یہ ہے کہ سب سے پہلے جس نے عربی زبان میں گفتگو کی وہ یہی قحطان تھا۔ اسکی اولاد کو العرب المتعرِبہ کہاجاتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کو ’’العرب المستعرِبہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ انکی زبان عربی نہیں تھی۔لیکن علم انساب کے کچھ ماہرین کی یہ رائے بھی ہے کہ ’’قحطان‘‘بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ اوس اور خزرج کی زیادہ تر اولاد یثرب اور اسکے مضا فات میں آباد ہوئی رفتہ رفتہ ان کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ شروع میں یہود اور بنو قحطان کے درمیان دوستی اور تعاون کا معاہدہ رہا ،لیکن ان کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خائف ہوکر یہود نے معاہدہ توڑ دیا۔ خوف اور بے یقینی کے اس فضاء میں بنو قحطان میں ایک نامور فرزند مالک بن عجلان پیدا ہوا۔اس نے اپنی بکھری ہوئی قوم کی شیرازہ بندی کی ، دونوں قبیلوں نے اسے اپنا سردار تسلیم کر لیا،اور جلد ہی اوس وخزرج یہودیوں سے زیادہ طاقت ور ہوگئے۔ یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ اب وہ میدان جنگ میں ان قبیلوں کو شکست نہیں دے سکتے تو انھوں کی سازش کے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کیے۔ دونوں قبائل کے درمیان نفرت کے بیج بونے شروع کردیے،اور کچھ ہی دیر بعد اوس اورخزرج میں دشمنی شروع ہوگئی جو پہلی صدی عیسوی سے چھٹی صد ی عیسوی تک جا ری رہی۔ واقعہ ہجرت سے چار پانچ سال پہلے اوس وخزرج میں ایک لرزہ خیز خونی جنگ ہوئی جسے جنگ بغاث کہا جاتا ہے۔ بہت نقصان اٹھا نے کے بعد دونوں قبائل کو احساس ہوا کہ صلح ہونی چاہیے، اور کسی ایک شخص کی سربراہی پر متفق ہونا چاہیے۔ دو افراد کے نام سامنے آئے ۔عبداللہ بن ابی اور ابو عامر راہب۔ عبداللہ بن ابی کے نام پر اتفاق ہوگیا۔ اس تاج پوشی کی تیاری ہو ہی رہی تھی کہ ’’یثرب ‘‘کا نصیبہ جاگ اٹھا اور ان کا رابطہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیااور یثرب جلدہی ’’مدینۃ النبی‘‘بن گیا۔  

بدھ، 13 جولائی، 2022

Shortclip - ایمان باللہ کا مطلب کیا ہے؟

Shortclip - کیا ایمان باللہ سے ہماری دنیا خراب ہوجائے گی؟

مدینہ منّورہ

 

مدینہ منّورہ

مدینہ منورہ جو حضور ﷺکے مبارک قدموں کی برکت سے مشرف ہوا، اس کا قدیم نام ’’یثرب‘‘ہے۔ اس مقام پر آبادی کیسے وجود میں آئی اور اس کے اولین مکین کون تھے۔ اس بارے میں مئو رخین کی مختلف تحقیقات ہیں ۔لیکن علامہ نور الدین السمہودی نے ’’وفا الوفا ئ‘‘میں جس قول کو ترجیح دی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یثرب کے باقی عمالقہ تھے۔ جو عملاق بن ارفخشند بن سامبن نوح علیہ السلام کی نسل سے تھے ۔ انہوں نے بہت عروج حاصل کیا۔ یہاں تک کہ وسیع وعریض رقبہ انکی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ بحرین ، عمان اور حجاز کا سارا علاقہ ،شام اور مصر کی حدود تک انکی مملکت تھی۔ مصر کے فرعون بھی انہی کی نسل سے تھے۔ بحرین اور عمان میں جو لوگ آباد ہوئے انہیں جاسم کہاجاتا ہے۔ (وفاء الوفا) ابن خلدون لکھتے ہیں۔’’عمالقہ میں سے جس نے سب سے پہلے یثرب شہر کی نشاندہی کی اس کا نام یثرب بن مہلائل بن عوص بن عملیق تھا، اسکے بانی کے نام پر اس کا نام یثرب مشہور ہوا،(ابن خلدون )یہی قول علامہ یاقوت حموی صاحبِ معجم البلدان کا بھی ہے۔ ’’یثرب‘‘ کے اور معانی بھی درج کیے گئے ۔(جیسے بیماریوں کا گھر وغیرہ )شاید کئی صدیوں کے بعدِ زمانی کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہن سے بانی شہر کا نام محو ہوگیا تھا اور اس شہر کی آب و ہوا اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ لفظ دیگر معانی میں بھی مرّوج ہوگیا۔ (واللہ عالم بالصواب ، ھذا ماعندی) ٭عمالقہ کے بعدیہود اس شہر میں آکر آباد ہونا شروع ہوئے ۔ایک قول کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک لشکر حجاز کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ آپ کے وصال کے بعد اس لشکر کے افراد یہاں آباد ہوگئے ۔ (معجم البلدان ) علامہ سمہودی نے حضرت ابو ہریرہ کے حوالے سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے۔ ایرانی بادشاہ بخت نصر نے شام کو فتح کیا تو یروشلم پر قبضہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یہودیوں کا قتل عام کیا، اور لاکھوں یہودیوںکو قیدی بناکر بابل لے آیا۔ اس وقت یہودیوں کی جمعیت کا شیرازہ بکھر گیا ۔ ان میں سے قبائل حجاز کی طرف روانہ ہوئے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی آسمانی کتا ب تورات میں جا بجا حضور اکرم ﷺ کا ذکر خیر پڑھا تھا،وہاں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ نبی مقدس اپنا وطن چھوڑ کر ایسی جگہ قیام فرماہونگے۔ جہاں نخلستا ن ہونگے اور دونوں طرف جلے ہوئے پتھروں کے سیا ہ میدان ہوں گے ۔انھیں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شوق حجاز کی طرف لے آیا ۔ لیکن ان کی آنے والوں نسلوں کی بدبختی ملاحظہ فرمائیے کہ جب حضور اکرم ﷺتشریف لے آئے تو وہ نسلی تعصب اور حسد کا شکار ہوگئے۔ حضور پر ایمان لانے کی سعادت ’’اوس ‘‘اور ’’خزرج ‘‘نامی دوسگے بھائیوں کی اولاد کو حاصل ہوئی جو ’’قحطان ‘‘کی اولاد سے تھے ۔جن کا آبائی وطن یمن تھا،اور وہ مدینہ منورہ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ 

پیر، 11 جولائی، 2022

حج

 

حج

اسلامی عبادات میں حج ایک منفرد نوعیت کی عبادت ہے،اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس میں جملہ عبادات ومعمولات کا حسن جلوہ گر نظر آتا ہے۔ یہ بدنی بھی ہے اور روحانی بھی اور مالی بھی، اس میں نماز کی نیاز مندی بھی ہے اور روزے کا ضبط نفس بھی، اس میں زکوٰۃ کا انفاق بھی ہے، اور میدان جہاد کی کلفت ومشقّت بھی ۔ حج پورے ہوش وحواس میں رہ کر شریعت مطہرہ کے ضابطوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے،اور اللہ کے گھر میں شوق کی وارفتگی کا ظہور بھی ہوتا ہے بلکہ جب عشق کا ذوق اور شریعت کا ضابطہ مل جاتا ہے تو حج ہوتاہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگو ں پر اللہ کا حق ہے جوا سکے راستہ کی استطاعت رکھیں اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ سارے جہانوں سے بے نیاز ہے۔‘‘ (آل عمران ۹۷)گویا کہ استطاعت کے باوجود حج سے گریز کرنا کا فرانہ روش قرار دی گئی ہے۔ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں :جس نے اللہ کی خاطر حج کیا، نہ کوئی فحش بات کی اور نہ گناہ کا مرتکب ہوا۔ وہ گناہوں سے اس طرح پاک لوٹے گا، جس طرح اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہواتھا۔ (بخاری عن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ )حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جناب رسالت مآب ﷺ سے استفسار کیا گیا کہ کون ساعمل افضل ہے۔ فرمایا اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر  ایمان ۔پوچھا گیا :پھر کون سا؟ فرمایا  اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں جہاد ،پوچھا گیا : اسکے بعد؟ فرمایا: حجِ مبرور (یعنی ایسا حج جو کہ نیکی کے حصول کیلئے کیا گیا اور عند اللہ مقبول بھی ہوا) ۔(صحیح بخاری) ٭حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ نے عرض کیا،یا رسول اللہ ہم جہاد کو افضل عمل سمجھتے ہیں ، تو کیا ہم جہادنہ کریں۔فرمایا: نہیں (بلکہ عورتوں کیلئے) افضل جہاد حج مبرور ہے۔ (بخاری)٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ بوڑھے،  بچے ، کمزور اور عورت کا جہاد حج اور عمرہ ہی ہے۔ (سنن نسائی)٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عمرہ سے عمرہ تک کفارہ ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اور حج مبرور کی جزاء صرف اور صرف جنت ہے۔ (صحیح بخاری) ٭ ’’حج اگر خلوص نیت سے ہو اس میں دنیا وی مفاد یا نمودونمائش شامل نہ ہو اسے ایک فرض سمجھ کر اسی تقد س کے ساتھ ادا کیا جائے جیسا کہ فرائض اداکرنے کا حق ہے تو جنت اس کا بدلہ ہے۔ یعنی ایسا حج کرنے والا جنت کا حق دار ٹھہرنا ہے یہی وہ حج ہے جس کی ادائیگی پرزور دیا گیا ہے اور یہی وہ جزاء ہے جس کیلئے ساری محنت کی جاتی ہے‘‘۔ (عقائد وارکان ) 

Shortclip - ہمیں یقین کی دولت کیسے ملے گی؟

Shortclip - دین اسلام کیا ہے؟

اتوار، 10 جولائی، 2022

ذبحِ عظیم

 

ذبحِ عظیم 

جو ذات اللہ رب العزت سے جتنا قریب ہوتی ہے‘ اسکے امتحانات اتنے ہی کٹھن ہوتے ہیں۔ اسے قدم قدم پر آزمائش سے گزرتا پڑتا ہے۔ لمحہ لمحہ اپنی نیاز مندی کا ثبوت فراہم کرنا پڑتا ہے اور جذبہ تسلیم و رضا کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل (دوست)  ہیں۔ انکی ساری زندگی تسلیم و رضا اور اللہ رب العزت کی ذات پر اعتماد و توکل سے عبادت ہے‘ انھیں بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا، لیکن وہ ہر دفعہ ہر امتحان سے سرخرو اور کامیاب ہوکر نکلے۔ آپ نے جس ماحول اور معاشرے میں آنکھ کھولی وہ کفر اور شرک کی آلودگیوں سے بھرا ہوا تھا لیکن آپ نے بڑی جرأت اور استقامت سے آوازِ حق بلند کی۔ اس مملکت کا بادشاہ نمرود تھا، جسے خود بھی خدائی کا دعویٰ تھا لیکن حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اظہار حق فرمایا‘ آپ کو آگ میں ڈال کر زندہ جلا دینے کا حکم ہوا، لیکن آپکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ اللہ نے اس آگ کو گلزار بنادیا اور آپ سرخرو ہوئے۔ اللہ کی خاطر آپ نے اپنے وطن کو خیرآباد کہہ دیا۔ مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے شام میں آباد ہوئے، یہاں اللہ نے آپ کو بڑھاپے کے عالم میں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد حکم ہوا کہ اپنی اہلیہ (حضرت) ہاجرہ اور اپنے شیرخوار فرزند (حضرت اسمٰعیل علیہ السلام) کو عرب کے لق ودق اور بے آباد صحرا میں چھوڑ آئو۔ آپ نے اور آپکے مقدس گھرانے نے اس حکم پر عمل کرکے تسلیم ورضا کی ایک عظیم مثال قائم کردی۔ ان دونوں امتحانوں سے گزرے توایک بہت ہی بڑے امتحان کا مرحلہ درپیش تھا۔ حکم ہوتا ہے کہ اپنی اس متاع عزیز کو اللہ کے راستے میں قربان کردو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کے سامنے بھی سر تسلیم خم کیا۔ آپکے عظیم المرتبت فرزند نے جب یہ حکم سنا تو آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے میرے والدِ گرامی، آپکو جو حکم ہوا ہے، اس پر عمل کر گزریے‘ ان شاء اللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔ اور یہ صرف زبانی کلامی دعویٰ نہیں تھا بلکہ باپ نے اپنے بیٹے کی مشکیں کس دیں۔ اسے پیشانی  کے بل زمین پرلٹا دیا اور ایک نہایت ہی تیز دھار چھری کو اسکی گردن پر پھیر دیا لیکن اللہ کی قدرت کا ایک عظیم الشان کر شمہ ظہور پذیر ہوا ، باوجود پوری طاقت صرف کرنے کے چھری کام نہیں کررہی۔ اللہ کے خلیل حیران ہیں کہ ایسے میں اللہ کی طرف سے بشارت آگئی۔ ’’اے ابراہیم تو نے خواب کو سچ کردکھایا۔ ہم محسینین کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں‘‘۔ (القرآن)۔ قریب ہی اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک مینڈھا کھڑا تھا حکم ہوا کہ اس کو اللہ کے راستے میں ذبح کردو۔ یہ عظیم قربانی اللہ کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہوئی کہ اس نے اسے قیامت تک کیلئے ملّت ابر اہیمی کا ایک شعار قرار دیدیا۔ ہر سال ذی الحجہ کی دس تاریخ کو دنیائے اسلام اسکی یاد کو ازسرنو تازہ کرتی ہے۔ 

جمعہ، 8 جولائی، 2022

Shortclip - قرآن سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ

مدینہ منّورہ

 

مدینہ منّورہ

مدینہ منورہ جو حضور ﷺکے مبارک قدموں کی برکت سے مشرف ہوا، اس کا قدیم نام ’’یثرب‘‘ہے۔ اس مقام پر آبادی کیسے وجود میں آئی اور اس کے اولین مکین کون تھے۔ اس بارے میں مئو رخین کی مختلف تحقیقات ہیں ۔لیکن علامہ نور الدین السمہودی نے ’’وفا الوفا ئ‘‘میں جس قول کو ترجیح دی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یثرب کے باقی عمالقہ تھے۔ جو عملاق بن ارفخشند بن سامبن نوح علیہ السلام کی نسل سے تھے ۔ انہوں نے بہت عروج حاصل کیا۔ یہاں تک کہ وسیع وعریض رقبہ انکی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ بحرین ، عمان اور حجاز کا سارا علاقہ ،شام اور مصر کی حدود تک انکی مملکت تھی۔ مصر کے فرعون بھی انہی کی نسل سے تھے۔ بحرین اور عمان میں جو لوگ آباد ہوئے انہیں جاسم کہاجاتا ہے۔ (وفاء الوفا) ابن خلدون لکھتے ہیں۔’’عمالقہ میں سے جس نے سب سے پہلے یثرب شہر کی نشاندہی کی اس کا نام یثرب بن مہلائل بن عوص بن عملیق تھا، اسکے بانی کے نام پر اس کا نام یثرب مشہور ہوا،(ابن خلدون )یہی قول علامہ یاقوت حموی صاحبِ معجم البلدان کا بھی ہے۔ ’’یثرب‘‘ کے اور معانی بھی درج کیے گئے ۔(جیسے بیماریوں کا گھر وغیرہ )شاید کئی صدیوں کے بعدِ زمانی کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہن سے بانی شہر کا نام محو ہوگیا تھا اور اس شہر کی آب و ہوا اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ لفظ دیگر معانی میں بھی مرّوج ہوگیا۔ (واللہ عالم بالصواب ، ھذا ماعندی) ٭عمالقہ کے بعدیہود اس شہر میں آکر آباد ہونا شروع ہوئے ۔ایک قول کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک لشکر حجاز کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ آپ کے وصال کے بعد اس لشکر کے افراد یہاں آباد ہوگئے ۔ (معجم البلدان ) علامہ سمہودی نے حضرت ابو ہریرہ کے حوالے سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے۔ ایرانی بادشاہ بخت نصر نے شام کو فتح کیا تو یروشلم پر قبضہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یہودیوں کا قتل عام کیا، اور لاکھوں یہودیوںکو قیدی بناکر بابل لے آیا۔ اس وقت یہودیوں کی جمعیت کا شیرازہ بکھر گیا ۔ ان میں سے قبائل حجاز کی طرف روانہ ہوئے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی آسمانی کتا ب تورات میں جا بجا حضور اکرم ﷺ کا ذکر خیر پڑھا تھا،وہاں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ نبی مقدس اپنا وطن چھوڑ کر ایسی جگہ قیام فرماہونگے۔ جہاں نخلستا ن ہونگے اور دونوں طرف جلے ہوئے پتھروں کے سیا ہ میدان ہوں گے ۔انھیں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شوق حجاز کی طرف لے آیا ۔ لیکن ان کی آنے والوں نسلوں کی بدبختی ملاحظہ فرمائیے کہ جب حضور اکرم ﷺتشریف لے آئے تو وہ نسلی تعصب اور حسد کا شکار ہوگئے۔ حضور پر ایمان لانے کی سعادت ’’اوس ‘‘اور ’’خزرج ‘‘نامی دوسگے بھائیوں کی اولاد کو حاصل ہوئی جو ’’قحطان ‘‘کی اولاد سے تھے ۔جن کا آبائی وطن یمن تھا،اور وہ مدینہ منورہ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2102 ( Surah Al-Muddaththir Ayat 35-37) درس ...

جمعرات، 7 جولائی، 2022

Shortclip- قرآن ہماری زندگی میں کیوں نہیں؟

الطافِ کریمانہ

 

الطافِ کریمانہ

حضرت ابو سعید خدری ؓ  حضور اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو (جوارِ ) بیت اللہ میں سکونت عطاء فرمائی تو حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا۔ (اے پروردگار) بے شک تو نے ہر مزدور کو اسکی اجرت بخش دی۔ لہٰذا مجھے بھی میری اجرت عطاء فرما۔اللہ رب العزت نے وحی فرمائی کہ جب تم اس گھر کا طواف کروگے تو میں تمہاری بخشش کردوں گا ۔ حضرت آدم ؑنے گزارش کی ،اے میرے رب میری اجرت میں اضافہ فرما۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :تمہاری اولاد میں جو بھی اس گھر کا طواف کریگا میں اس کو بھی بخش دوں گا۔ حضرت آدم ؓنے پھر درخواست کی، اے میرے مالک مجھے مزید عطا ء فرما اللہ کریم نے فرمایا : وہ طواف کرنیوالے جس کی مغفرت چاہیں گے میں اس کو بھی معاف کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں۔ (یہ نوازشات دیکھ کر ) ابلیس گھاٹیوں کے درمیان کھڑا ہوااور کہنے لگا۔ اے خدا تو نے مجھے فنا کے گھر میں ٹھہرا دیا اور میرا ٹھکانہ جہنم بنادیا، اور میرے ساتھ میرے رقیب (آدم علیہ السلام ) کو کردیا۔ اس پر ایسی عطاء ، اے رب مجھے بھی (کوئی خاص صلاحیت ) عطاء فرما۔ خداوندِ قدیر نے فرمایا : میں نے تجھے ایسا کردیا تو انسان کو دیکھ سکتا ہے ،لیکن وہ تجھے نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے پھر سوال کیا تو ارشاد ہوا: میں نے انسان کے قلب کو تیرا ٹھکانہ بنادیا۔ اس نے مزید تقاضا کیا تو ارشاد ہوا، میں تجھے ایسا بنادیا کہ تو انسان کے رگ وپے اور شریانوں میں دوڑ سکتا ہے۔ راوی کہتے ہیں ( یہ دیکھ کر) آدم ؓنے درخواست کی: اے میرے رب ابلیس کو (ایسی صلاحیت ) مل گئی ہے(تو اسکے سد باب کیلئے) مجھے بھی کچھ عطاء ہو۔ ارشاد ہوا: میں نے تمہیں ایسا کردیا کہ جب تم نیکی کا ارادہ کروگے ، لیکن اسے انجام نہ دوگے، پھر بھی اس نیکی کو تمہارے حق میں لکھ دوں گا۔ حضرت آدم ؓنے پھر سوال کیا، تو ارشادہوا: اگرتم برائی کا ارادہ کروگے ،لیکن اس پر عمل نہیں کرو گے تو میں تمہارے نامہ اعمال میں اس برائی کو درج نہیں کروں گا بلکہ اسکے بدلے میں تمہارے حق میں ایک نیکی لکھوں گا۔ حضرت آدم ؓ نے پھر دامن طلب دراز کیا تو اللہ رب العز ت نے ارشادفرمایا : ایک ایسی شے ہے جو صر ف میرے لیے ہے اور ایک ایسی شے ہے جو میرے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ایک شے تمہارے لیے ہے اور ایک شے ایسی ہے جو میری طرف سے تم پر فضل واحسان ہے۔ وہ چیز جو صرف میرے لیے مختص ہے وہ یہ کہ تم صرف میری بندگی کروگے اور کسی بھی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائوگے، اور وہ چیز جو میرے اور تمہارے درمیان مشترک ہے وہ یہ ہے دعاء تمہاری طرف سے ہوگی ،اور قبولیت میری طرف سے اور وہ چیز جو تمہارے لیے ہے وہ یہ کہ تم ایک نیکی کرو گے تو اسکے بدلے میں دس نیکیوں کا ثواب لکھ دوں گااور وہ چیز جو تم پر میری جناب سے محض فضل واحسان ہے وہ یہ کہ تم مجھ سے مغفرت طلب کروگے تو میں تمہاری مغفر ت کردوں گا ، اور بلاشبہ میں بڑابخشنے والا اور رحم کرنیوالا ہوں۔ (کنز العمال )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2101 ( Surah Al-Muddaththir Ayat 32-24 ) درس ...

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 108-110. کیا ہمیں برائی اچھی لگتی ہے

Shortclip - زندگی میں کامیابی کا راز

بدھ، 6 جولائی، 2022

مکہ معظمہ

 

مکہ معظمہ

’’مکہ قدیم زمانوں کے بعض محققوں کے نزدیک بابلی یا کلدانی لفظ ہے۔ جس کے اصلی معنی ’’گھر‘‘ کے ہیں۔ اس سے دو حقیقتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ آباد ی اس وقت قائم ہوئی جب بابل وکلدان کے قافلے اس سے گذرتے تھے،اور یہ اس کی ابراہیمی نسبت کی ایک اور لغوی دلیل ہے۔ دوسری یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کی آبادی اسی گھر کے تعلق سے وجود میں آئی ۔ مکہ کا نام حضرت دائود علیہ السلام کی زبور میں سب سے پہلے نظر آتا ہے۔ قدیم شاہی زبان میں’ بکَّ‘کے معنی آباد یا شہر کے ہیں ۔جیسا کہ آج بھی شام کے ایک نہایت قدیم شہر کا نام’’بعلبک ‘‘ہے معنی بعل کا شہر (بعل دیوتا کا نا م ہے) یہ اس آبادی کی قدامت کی دوسری لغوی شہادت ہے کہ کعبہ کی ابتدائی تعمیر کے وقت یہی نام قرآن پا ک میں آیا ہے۔ کعبہ کے لغوی معنی ’’چوکھونٹے‘‘ کے ہیں۔ یہ گھر چوکھونٹا (چورس ) بناتھااور اب بھی اس طرح ہے ۔ اس لیے’’کعبہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا‘‘۔ (سیرت النبی )

اس شہر مقدس کی حرمت وتقدس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ میں ذکر کیا گیا ہے۔

٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر درج ذیل احکام ارشادفرمائے۔:’’اب ہجرت نہیں مگرجہاد اورخلوص نیت (باقی ہیں) اور جب تمہیں جہاد کے یے بلایا جائے تو نکلو اور فرمایا : فتح کے دن یعنی فتح مکہ کے روز ، بے شک یہ شہر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس روز حرمت والا بنایا ، جس روز آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا ۔پس یہ شہر اللہ تعالیٰ کی عطاء کی گئی۔حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے، اور یقینا اس میں مجھ سے قبل کسی کے لئے جنگ حلال نہ ہوئی ، اور میرے لیے بھی د ن کی ایک گھڑی ہی حلال ہوئی۔ پس یہ اللہ کی عطاء کی گئی حرمت کی بناپر قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے۔ اس کا کانٹا بھی نہ کاٹا جائے اور نہ اس کے شکار کو ڈرایا جائے۔ اللہ نہ اس پر گری ہوئی کسی چیز کوکوئی اٹھا ئے۔ سوائے اس شخص کے جو اس کا علان کرے نہ ہی اس کی گھاس کاٹی جائے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔یا رسول اللہ سوائے اذخر (ایک گھاس) کے کیونکہ یہ لوہاروں کی بھٹیوں کے لیے ہے،اور ان کے گھر وں کے لیے استعمال ہوتی ہے(یعنی آپ اس گھا س کے کاٹنے کی اجازت مرحمت فرمادیں۔ کیونکہ اس میں باسیانِ شہر کی سہولت ہے)۔آپ نے فرمایا : ہاں سوائے اذخر کے ۔(مسلم شریف )


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2100 ( Surah Al-Muddaththir Ayat 30-31 ) درس ...

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 103-106.کیا ہم حق کو قبول کرنے سے ا...

منگل، 5 جولائی، 2022

Shortclip - کلمہ طیبہ کا مفہموم

کعبۃ اللہ

 

کعبۃ اللہ

ایک شخص نے امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا ، یہ کعبہ کیا ہے اور اس کا طواف کرنے کاحکم کیوں دیا گیاہے؟آپکے ارشاد گرامی کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرشتوں نے جنابِ باری تعالیٰ میں انسانوں کے بارے میں گزارش کی ،تو انھیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ انہوں نے سوچا کہ ہمیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا ، ممکن ہے مالک ناراض ہوگیا ہو، اس تصور سے انکی جان نکلی جاتی تھی۔ انہوں نے اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے عرش علاٗکا طواف کرنا شروع کردیا ۔ یہ وارفتگی شوق کا اظہار تھا۔اب کریم کی رحمت نے انھیں نوازا ، اور عرش کی سیدھ میں نیچے ساتویں آسمان پر ایک گھر پیدا فرمایا ،اور فرشتوں کو حکم دیا،اس گھرکا طواف کروپس فرشتوں نے اس گھرکا طواف شروع کردیا۔ اس گھر کا نام البیت المعمور رکھا گیا۔ سورہ الطور میں اسکا ذکر موجود ہے۔ (کتا ب الاعلام ، تاریخ قطبی ۳۲ ،بحوالہ کعبۃ اللہ اور اس کا حج )
معراج کی شب کے جو اسرار روایات میں آئے ہیں ان میں سے مسلم شریف کی حدیث ہے۔ پھر ہمارے سامنے البیت المعمور آیا ۔ یہ ایک ایسی زیارت گاہ ہے جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے آتے ہیں ، اور پھر انھیں (کثرت تعداد کی وجہ سے)کبھی دوبارہ آنا نصیب نہیں ہوتا،اور آپ نے (مزید) بتا یا کہ حضرت  ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ البیت المعمور سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں۔ ٭حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد گرامی امامحمد باقر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت فرماتے ہیں ۔ اللہ پاک نے فرشتوں سے فرمایا: میرے لیے اب زمین پر بھی ایک گھر بنائو تاکہ اولاد آدم میں سے جب کسی سے ناراض ہوجائوں تو وہ اسکی پناہ لے سکے اور جس طرح تم نے میرے عرش طواف کیاتھا۔ وہ اسکا طواف کرسکے ،تب میں اس سے بھی راضی ہوجائوں گا۔جس طرح تم سے راضی ہواتھا۔ چنانچہ فرشتوں نے اس حکم کی تعمیل کی (تاریخ الحرمین : عباس کرار ،بحوالہ کعبۃ اللہ اور اسکا حج) ٭ جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر اترے تو اللہ رب العزت نے انھیں اس گھر کی تعمیر جدید کا حکم دیا۔ تعمیر کعبہ سے فارغ ہوکر جب آدم علیہ السلام نے کعبہ کا طواف فرمایا تو فرشتے انکے پاس آئے اورکہا ،اللہ تعالیٰ آپ کا حج قبول فرمائے ۔ہم نے دوہزار سال پہلے اسکا حج کیا تھا۔ (احیاء العلوم ۔اما م غزالی )دیکھئے کہ اللہ کی شان کریمی کہ انسان کی بودوباش سے بھی پہلے اللہ نے اسکی خطاء کی بخشش کا اہتمام فرمادیا۔ آدم علیہ السلام کے وصال کے بعد کعبہ کی تکریم جاری رہی یہاں تک کہ رفتہ رفتہ کفر کا چلن عام ہونے لگا،اور دنیا کو طوفانِ نوح نے اپنی لپٹ میں لے لیا۔ کہتے ہیں کہ طوفانِ نوح کی وجہ سے کعبہ کی جگہ چھپ گئی،لیکن انبیاء اور عارفین (من جانب اللہ ) اس کی اہمیت سے آگاہ رہے یہاں تک حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ذریعے پھر اس کا اظہار ہوا۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2099 ( Surah Al-Muddaththir Ayat 11-29 ) درس ...

پیر، 4 جولائی، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 102 Part-02.کیا اللہ تعالی ہمارے لی...

Shortclip - کلمہ طیبہ کاتقاضہ

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

 

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کررہا ہو پس تم (سجدہ میں )بہت دعاکیا کرو۔(صحیح مسلم،سنن دائود )

 حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جس سے اللہ مجھے جنت میں داخل کردے یا میں نے عرض کیا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے پھر سوال کیا، آپ خاموش رہے ، جب میں نے تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے لیے کثرت سے سجدے کیا کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرو گے تو اللہ اس سجدہ کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹادے گا۔ (صحیح مسلم، ترمذی)

 حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، میں آپ کے وضو اورطہارت کے لیے پانی لایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: سوال کرو، میں نے عرض کیا میں آپ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : اورکسی چیز کا ؟میں نے عرض کیا مجھے یہ کافی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر کثرت سے سجدے کرکے اپنے نفس کے اوپر میری مددکرو۔ (صحیح مسلم ، سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب ابن آدم سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ جاکر روتا ہے اورکہتا ہے ہائے میرا عذاب !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا سواس کو جنت ملے گی، اورمجھے سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا سومجھے دوزخ ملے گی۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعضاء سجود کے جلانے کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔(صحیح بخاری، سنن نسائی)

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ کا جو حال اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے اوراس کا چہرہ مٹی میں لتھڑا ہواہو۔

زبان کی آفات

  زبان کی آفات ارشاد باری تعالی ہے : جب لے لیتے ہیں دو لینے والے ۔ ایک دائیں جانب اور ایک بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے وہ اپنی زبان سے کوئی بات ...