بدھ، 31 مارچ، 2021

Para-03. کیا ہم اللہ تعالی کی رضا کے لئے اپنے مال و جان کو قربان کرنے ...

رفاقت اور دوستی کے معیار

 

رفاقت اور دوستی کے معیار

کہتے ہیں کہ صحبت صالح ترا صالح کند، صحبت طالع ترا طالع کند۔ نیک اور صالح فرد کی صحبت اور دوستی صالحیت اور پر ہیز گاری کا باعث بنتی ہے اور برے افراد کی صحبت بھی برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ عر ب کہتے ہیں المرء علی دین خلیلہٖ انسان اپنے دوست کے مسلک ومشرب پر ہوتا ہے۔ اگر انسان کو ایسی رفاقت کی تلاش ہو جو اس کیلئے دین اور دنیا دونوں میں معاونت کا سبب بنے ، تو اس کا معیا ر کیا ہونا چاہیے، امام غزالی کہتے ہیں اپنے رفیقِ کار (پارٹنر) اور دوست کا انتخاب کرتے ہوئے اس میں پانچ خصلتیں ضرور دیکھو۔ (۱) عقل (۲)حسن خلق(۳) خیر کی صلاحیت (۴) سخاوت  (۵)سچائی۔(۱) عقل مند شخص کو اپنا دوست بنائو کیونکہ احمق کی دوستی کا کوئی فائدہ نہیں۔ احمق کی دوستی کا انجام تنہائی اور قطع تعلقی پر ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں فائدہ ہو لیکن جہالت کی وجہ سے نقصان پہنچاتا ہے‘ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔ ’’جاہل سے دوستی مت رکھو اور اپنے آپ کو اس سے بچائو پس کتنے جاہل ہیں جنہوں نے حلیم شخص کو ہلاک کر دیا‘‘۔ (۲) بدخو اور بدخلق کی پہچان یہ کہ غصے کے وقت اس کا نفس اسکے قابو میں نہیں رہتا۔ حضرت علقمہ عطاروی رحمتہ اللہ علیہ نے وفات کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ بیٹا اگر کسی کے دوست بننا چاہتے ہو تو ایسے شخص کی سنگت اختیار کرو کہ اگر تم اسکی خدمت کرو تو وہ تمہیں محفوظ رکھے اور بچائے گا، اگر اس سے مِلو، تو تمہارے اخلاق سنوریں۔ تم اس سے نیکی کرو تو اسے شمار کرے اور یا درکھے اگر تم سے کو ئی فروِ گذاشت ہو جائے تو وہ تم سے در گزر کرے۔ (۳) ایسے شخص کا انتخاب کرنا چاہیے۔ جس کا رحجان طبع خیر کی طرف ہو۔ یاد رکھو جو شخص اللہ سے نہیں ڈرتا حوادثات زمانہ بھی اسکی اصلاح نہیں کر سکتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’اس شخص کی پیروی نہ کر و جس کا دل ہم نے اپنی یا د سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہشات کا پیر وکار ہے۔‘‘ (۴) حریص اور لالچی کی دوستی سے بھی اجتنا ب کر نا چاہیے۔ (۵) جھوٹا شخص سراب کی طرح ہوتا ہے جس سے دور کی چیز یں نزدیک اور نزدیک کی اشیاء دور نظر آتی ہیں۔ جھوٹ کا عادی شخص تمہارے وہ خصائل بیان کریگا جن سے تم خالی ہو اور تمہاری جن غلطیوں کی نشاندہی ضروری ہے محض تمہیں خوش کرنے کیلئے ان سے پہلوتہی کر یگا۔ ہماری روشن اور تابندہ اخلا قی قدروں نے ایک عام دوستی کیلئے کتنے معیار قائم کیے ہیں اور ہم اپنے ماحول معاشرے اور ملت کی ذمہ داریوں کیلئے بھی کسی معیا ر کے قائل نہیں رہے ۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1703 ( Surah Qaf Ayat 05 Part - 1 ) درس قرآن ...

منگل، 30 مارچ، 2021

Para-03. ہم حکمت و دانائی کیسے حاصل کر سکتے ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1702 ( Surah Qaf Ayat 03 - 04 ) درس قرآن سُوۡ...

دوستی

 

دوستی

امام غزالی ارشاد فرماتے ہیں: انسان تین طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض غذا کی طرح جن کے بغیر چارہ نہیں، بعض دوا کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کی ضرورت خاص اوقات میں پڑتی ہے۔ بعض بیماری کی طرح ہوتے ہیں، جن کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ شعورو آگہی کے ساتھ روشناسِ خلق رہنے میں بھی بڑی افادیت ہے۔ مختلف اشخاص میں جو برائیاں نظر آئیں انسان ان سے بچے۔ نیک وہی ہے جو دوسروں سے نصیحت پکڑے کیونکہ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے استفسار کیا گیا ہے کہ آپ نے ادب کس سے سیکھا، آپؐ نے فرمایا، مجھے کسی نے ادب نہیں سکھایا، صرف جاہل کی جہالت دیکھ کر میں نے اسے ترک کردیا۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر آدمی اس بات کو ترک کر دے جو دوسروں سے اسے بری محسوس ہوتی ہے تو اسے کسی ادب سکھانے والے کی ضرورت نہیں رہتی اور اسکے اخلاق خودبخود سنور جاتے ہیں۔ حقوق صحبت اور دوستی کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب تم کسی معاملے میں کسی کو شریکِ کار بنائو تو صحبت کے حقوق کو ملحوظ ِخاطر رکھو۔ جنابِ سرورکا ئنات ﷺ فرماتے ہیں: بھائی ہاتھوں کی طرح ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو دھوتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے جنگل میں دو مسواک لیے جن میں ایک ٹیرھا اور دوسرا سیدھا تھا۔ آپؐ کے ساتھ اس وقت ایک صحابی تھے۔ آپؐ نے سیدھا مسواک اُس صحابی کو عنایت فرمایا اور ٹیرھا اپنے لیے رکھ لیا۔ انھوں نے خدمت اقدس میں گزارش کی، یارسول اللہ سیدھا مسواک آپ کا ہی حق تھا۔ آپؐ نے فرمایا جو ایک لمحہ کا بھی ساتھی بنے تو اس سے پوچھا جائیگاکہ اس ایک لمحہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ صحبت کے حقوق اداکیے ہیں یا نہیں۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ دو ساتھی کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں کہلا سکتے۔ جب تک انکی صحبت اللہ تعالیٰ کیلئے نہ ہو یا وہ باہم نرمی سے پیش نہ آئیں۔ آج ہمارے معاشرے میں جنسِ سے ایثارو محبت کم ہوتی جا رہی ہے۔ خودغرضی کا چلن عام ہو رہا ہے۔ ایسے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہمارے رہنما ہیں۔ پہلے تو یہ کہ رفاقت کا انتخاب کر تے ہوئے احتیاط ودانش سے کام لینا چاہیے اور پھر اعتماد وایثار کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔

پیر، 29 مارچ، 2021

صاحبِ خلقِ عظیم … (۳)

 

صاحبِ خلقِ عظیم   … (۳)

ایک دن سرکاردوعالم ﷺ تشریف فرماتھے کہ ایک شخص دور دراز کا سفر طے کر کے آپکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ اور گزارش کی کہ یا رسول اللہ! ہمارا علاقہ کئی مہینوں سے قحط کا شکار ہے ۔ غذا کیلئے کچھ بھی میسر نہیں ۔آپکی سخاوت کا چرچا سن کر حاضر ہوا ہوں مجھے کچھ عنایت فرمائیے ۔یہ اتفاق تھاکہ جس وقت اس شخص نے دستِ سوال درازکیا ۔ آپکے پاس تھوڑی سی کھجوریں موجود تھیں ۔آپ نے فرمایا ساری کھجوریں تم لے لو ۔وہ تو بہت زیادہ کی امید لیکر آیاتھا ۔بڑامایوس ہوا، اور چلانے لگا کہ میں آپ کو بڑاسخی سمجھ کر حاضر ہوا تھا۔آپ میر ے ساتھ کیاسلوک کررہے ہیں۔اس بد تہذیبی پر صحا بہ کرام کے ہاتھ بے ساختہ تلواروں کے دستوں کی طرف گئے۔ آپ نے صحابہ کے تیور دیکھے تو فرمایا اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ میر امہمان ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اسکے ساتھ کیا سلوک کر نا ہے۔ صحابہ کے ہاتھ رک گئے اور وہ شخص بڑبڑاتا ہوا مسجد سے باہر چلاگیا۔ کچھ دیر بعد اللہ رب العزت کے کرم سے کھجوروں سے لد ے بہت سے اونٹ آپکے پاس آگئے۔ آپ نے پوچھا تمھارا صبح والا بھائی کہاں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ وہ غصے کی حالت میں مسجد سے نکل گیا تھا آپ نے فرمایا اُسے تلاش کر کے لے آئو۔چنانچہ تلاش بسیار کے بعد اسے آپکی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔آپ نے اسے فرمایا کھجوروں کا ڈھیر دیکھ رہے ہو۔جتنا چاہو لے لو جب تم راضی ہوجاؤ گے پھر کسی اور کو ملے گا۔اور اگر تم سارابھی لے جاؤتو کوئی مما نعت نہیں ۔وہ خوشی سے پھولا نہیں سمایا ۔اپنے اونٹوںپر اتنا لاد لیا کہ ان کیلئے اُٹھنا دشوار ہوگیا ۔ پھراس نے بڑی وارفتگی سے جناب رسالت مآب کی تعریف شروع کردی۔ اسکے تعریفی کلمات سن کر صحابہ کرام کا انقباض دور ہوگیا اور انکے چہر ے پھولوں کی طرح کھل اُٹھے ۔حضور نے یہ منظر دیکھا تو صحابہ سے پوچھا ۔صبح جب یہ ناراض ہو رہاتھا ، اگر تم اسے قتل کردیتے تو اس کا ٹھکانہ کہاں ہوتا۔انھوں نے عرض کی بلاشبہ جہنم میں ۔آپ نے پوچھا اب اگر اسے موت آجائے تو اس کا مقام کہاں ہو گا۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بلاشبہ جنت الفردوس کی بہاریں اسکی منتظر ہوں گی ۔حضور نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ اے میر ے صحابہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کا اونٹ بھاگ گیا ۔لوگ اسے پکڑنے کیلئے دوڑ ے لیکن وہ لوگوں نے آوازیں سن کر مزید بدک کیا ۔ اتنے میں اس کا مالک آگیا ۔اسے تمام حالات کا علم ہوا تو وہ کہنے لگا اے لوگو! تم اپنی توانا ئیاں ضائع نہ کرو یہ میرا اونٹ ہے اور میں ہی جانتا ہوں کہ اسے کیسے پکڑنا ہے۔ حضور نے فرمایا :تم بھی اس بھاگے ہوئے اونٹ کی طرح ہو اور میں اس مالک کی طرح ہوں، مجھے معلوم ہے تمھیں کس طرح اللہ کی بارگاہ میں لانا ہے۔

Para-03.کیا ہم عقل سے محروم لوگ ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1701 ( Surah Qaf Ayat 1 - 2 Part - 3 ) درس قر...

اتوار، 28 مارچ، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1700 ( Surah Qaf Ayat 1 - 2 Part-2 ) درس قرآ...

صاحبِ خلقِ عظیم(۲)

 

صاحبِ خلقِ عظیم(۲) 

حضور نبی رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایاتاکہ میں اخلاق حسنہ کودرجہ کمال تک پہنچادوں۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھایا اور میں نے بطریق احسن ادب سیکھ لیا۔

 ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہیں مشکوۃ نبوت سے براہ راست فیض یاب ہونے کا موقع میسر آیا۔ آپ کے خلق کے بارے میں کتنی پرمعنی اور گہری بات کرتی ہیں ’’حضورؐ کا خلق قرآن تھا، اسکے امر ونہی کی تعمیل حضور کی فطرت کا تقاضا تھا۔ اس بارے میں حضورؐ کو غور وفکر اور سوچ بچار کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ام المومنین نے حضوراکرم ﷺ کے خلق کو مزید تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا ’’اللہ کے پیارے رسولؐ سے زیادہ کوئی شخص بھی اخلاق حسنہ سے متصف نہیں تھا۔ حضورؐ کا خلق قرآن تھا جس سے قرآن راضی ہوتا اس سے حضورؐ راضی ہوتے جس سے قرآن ناراض ہوتا حضورؐ اس سے ناراض ہوتے حضورؐ فحش کلام نہ تھے اور نہ بازاروں میں شور کرنیوالے تھے۔ نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ حضورؐ کا شیوہ عفوو درگزر تھا۔ ان ارشادات کے بعد آپ نے سائل کو بتایاکہ وہ سورۃ المومنون کی پہلی دس آیتیں تلاوت کرے‘ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی زبان قدرت سے اپنے حبیب لبیب کے اخلاق مبارکہ کاذکر فرمایاہے‘‘ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جب حضورؐ کے خلق کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ارشادفرمایا کان خلقہ القرآن آپ کا مقصد یہ تھاکہ حضورؐ کے اخلاق، اخلاق ربانیہ کا عکس جمیل ہیں لیکن بارگاہ خداوندی کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تو نہیں کہا کہ حضور اخلاق ِ خداوندی سے متصف ہیں بلکہ فرمایا حضورؐ کا خلق قرآن کریم کے اوامرو نواہی کے عین مطابق تھا۔ ‘‘

حضور اکرم ﷺ کے خاص خدمت گزار حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں۔ میں نے اللہ کے پیارے رسولؐ کی دس سال خدمت کی (اس وقت انکی عمر آٹھ سال تھی اور وہ سفر حضر میں حضور کی خدمت میں رہا کرتے تھے) اس طویل عرصہ میں رحمت عالمؐ نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا۔ جو کام میں کرتا اسکے بارے میں کبھی نھیں فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا، جو کام نہ کرتا اسکے بارے میں کبھی نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ آپ نے کبھی میرے کسی کام میں نقص نہیں نکالا (بخاری ومسلم)۔ 

اپنی پہچان کیوں ضروری ہے؟

Para-03 . کیا ہم خیر کثیر سے محروم ہیں

ہفتہ، 27 مارچ، 2021

صاحبِ خُلقِ عظیم … (۱)

 

صاحبِ خُلقِ عظیم … (۱)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العزت کی بارگاہِ عالیہ میں دستِ دعا درازکرتے سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ جس طرح تو نے میری ظاہری شکل وشباہت کو حسین و دلنواز بنایا اسی طرح میری خُلقْ کو بھی حسین وجمیل بنادے۔ امام احمد اور ابن حبان نے یہ دعا بھی روایت کی ہے۔ ’’اے اللہ میر ے اخلاق کو دلکش وزیبا بنا دے کیونکہ خوبصورت اخلاق کی طرف تو ہی رہنمائی فرماتا ہے۔‘‘ ہم عام طور پر خُلقْ کے سرسری تصور سے آشنا ہیں، محض خندہ پیشانی، خوش طبعی اور مسکراہٹ سے مل لینے کو اخلاق گردانتے ہیں۔ ’’خُلقْ‘‘ کا معنی ومراد اپنے ذیل میں بڑی گہرائی رکھتا ہے۔ لغتِ عرب کے مشہور امام علامہ ابن منظور کہتے ہیں ۔ خُلقْ اور خَلقْ کا معنی فطرت اور طبیعت ہے۔ انسان کی باطنی صورت کو اور اسکے مخصوص اوصاف ومعانی کو خُلقْ کہتے ہیں۔علامہ یوسف الصالحی الشامی کہتے ہیں۔ حسن خُلقْ کی حقیقت وہ نفسانی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے افعال حمیدہ اور آداب پسندیدہ ہے عمل کرنا بالکل آسان ہو جاتا ہے اور یہ چیزیں (انسان) کی فطرت بن جاتی ہیں۔ امام محمد غزالی نے بڑی ہی خوبصورت وضاحت کی ہے ’’خُلقْ نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت اور آسانی سے صادر ہوتے ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنانے میں کسی سوچ وبچار اور تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی یعنی وہ اعمال جو کسی سے اتفاقاً سرزد ہوتے ہیں یاکسی وقتی جذبہ اور عارضی جوش سے صادر ہوئے ہوں، خواہ کتنے ہی اعلیٰ وعمدہ ہوں انہیں خُلقْ نہیں کہا جائیگا۔ خُلقْ کا اطلاق ان خصائل حمیدہ اور عادات مبارکہ پر ہوگا جو پختہ ہوں اور جن کی جڑیں قلب و روح میں بہت گہری ہوں۔ ایسی محمود عادتیں فطری اور وہبی بھی ہو سکتی ہیں اور مسلسل تربیت، اکتساب اور صحبت صالحین کا نتیجہ بھی لیکن یہ ضروری ہے کہ انسان کی سرشت میں اس طرح رچ بس گئی ہوں جیسے پھول میں خوشبو اور آفتاب میں روشنی۔ حسنِ خُلقْ میں مندرجہ ذیل امور کو شامل کیا جاتا ہے انسان بخل وکنجوسی سے پرہیز کرے جھوٹ نہ بولے دیگر اخلاق مذمومہ سے بچارہے۔ لوگوںسے ایساکلام کرے اور ایسے کام کرے جو پسندیدہ ہوں کشادہ روئی کیساتھ سخاوت کرے۔ اپنوں بیگانوں سے خندہ پیشانی سے ملے۔ تمام معاملات میں لوگوں کی سہولت پیشِ نظر رکھے سب سے درگزر کرے اور ہر مصیبت پر صبر کرے۔ اللہ نے اپنے محبو ب کے خُلقْ کے بارے میں فرمایا۔ ’’اور بیشک آپ عظیم الشان خُلقْ کے مالک ہیں (القلم)۔ اگرچہ یہ امور مشکل ہیں اور ہر موقع پر ان پر عمل پیر ہونا آسان نہیں لیکن اللہ کے محبوب بڑی سہولت اور آسانی سے تمام حالات میں ان پر عمل پیرارہتے ہیں۔

Para-03.کیا ہم سے زیادہ بےوقوف کوئی ہے

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1699 ( Surah Qaf Ayat 1 - 2 Part-1 ) درس قرآن...

منگل، 23 مارچ، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1695 ( Surah Al-Hujraat Ayat 15 Part-2 ) درس ...

ذوقِ عبادت

 

ذوقِ عبادت

 حضرت سالم بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں ، ایک شخص نے ، جوراوی کے گما ن کے مطابق بنوخزاعہ سے تھا کہا: کاش میں نماز میں مشغول ہوتا اوراس سے مجھے راحت ملتی۔ لوگوں نے گویا اس کے قول کو معیوب سمجھا تواس نے کہا: میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ فرماتے سنا ہے : اے بلا ل! نماز کے لیے اقامت کہو اوراس طرح ہمیں راحت پہنچائو۔(صحیح مسلم)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، ہم رات (کے کسی حصہ )میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھنا چاہتے تو نماز پڑھتے دیکھ سکتے تھے اوراگرآپ کو ہم (رات کے کسی حصہ میں)سوتے دیکھنا چاہتے تو سوتے بھی دیکھ سکتے تھے۔(صحیح بخاری)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: متاع دنیا میں سے عورتوں اورخوشبوکو میرے لیے محبوب بنایاگیا ہے اورمیری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔(صحیح بخاری)

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : جب (رمضان کا )آخری عشرہ شروع ہوتا تھا توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (عبادت کے لیے)کمر کس لیتے تھے ،آپ رات بھر جاگتے تھے اوراہل خانہ کو بھی جگاتے تھے۔(سنن نسائی)

 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! آپ (کبھی )روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں تویوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ روزوں کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے، اور(کبھی)آپ افطار کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ دوبارہ روزے شروع نہیں کریں گے، سوائے دودنوں کے کہ اگروہ آپ کے معمول کے روزوں کے درمیان آجائیں تو ٹھیک ورنہ آپ ان ایام میں ضرور روزہ رکھتے ہیں ، فرمایا: وہ دن کون سے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : پیر کا دن اورجمعرات کا دن ، فرمایا:یہ دونوں دن ایسے ہیں جن میں اعمال بارگاہ خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں ، اورمیں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال جب بارگاہ خداوندی میں پیش ہوں تو اس وقت میں روزے کی حالت میں ہوں۔(سنن نسائی)


Para-03.کیا ہم اللہ تعالی کو ناراض کرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں

کیا ہم اپنے آپ سے بے خبر ہیں؟

پیر، 22 مارچ، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1694 ( Surah Al-Hujraat Ayat 15 Part-1 ) درس ...

Allah Tallah Ki Yaad Darasal Kya Hay? - اللہ تعالٰی کی یاد دراصل کیا ہے؟

مسکینوں سے محبت

 

مسکینوں سے محبت

 حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : فقراء مہاجرین نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں شکایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے اغنیاء کو ان پر فضیلت عطافرمائی ہے ، (ان کے جواب میں )آپ نے فرمایا : اے گروہ فقراء !کیا میں تمہیں اس بات کی بشارت نہ دوں کہ نادار مومن دولت مند مومنوں سے نصف یوم یعنی پانچ سوسال پہلے جنت میں داخل ہوں گے، اس کے بعد موسیٰ راوی نے یہ آیت تلاوت کی: اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن تمہارے ہزار سال کے برابر ہے۔(سنن ابن ماجہ)

 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نادار مسلمان دولت مند مسلمانوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔(جامع ترمذی)

حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک شخص گزرا ،حضور نے فرمایا: اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! اس کے بارے میں صحیح رائے تو وہی ہے جو آپ کی رائے ہے ، البتہ ہمارے خیال میں یہ ایک معزز ترین شخص ہے، یہ شخص اس قابل ہے کہ اگر کہیں پیغام نکاح دے تو اس کے پیغام کو قبول کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے اوراگر گفتگو کرے تو اس کی بات کو سنا جائے۔ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خاموش ہوگئے۔ پھر ایک دوسرا شخص آپ کے پاس سے گزرا۔ آپ نے پوچھا: تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہو؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہمارا خیال ہے کہ یہ نادار مسلمانوں میں سے ایک ہے ، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں پیغام نکاح بھیجے گا تو اس کے ساتھ نکاح نہیں کیا جائے گا۔ اگر یہ سفارش کرے گا تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جائے گی اوراگر وہ بات کرے گا اس کی بات کو سنا نہ جائے گا۔ حضور نے فرمایا : اس مال دار شخص جیسے لوگوں سے زمین بھری ہوتو بھی یہ اکیلا فقیر ان سب سے بہتر ہے۔(سنن ابن ماجہ)

ہفتہ، 20 مارچ، 2021

Para-03.کیا زندگی ہم اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لئے گزار رہے ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1692 ( Surah Al-Hujraat Ayat 12 - 13 ) درس قر...

آخرت کی زندگی کی حقیقت

پاکیزگی

 

پاکیزگی

٭ حضرت ربیعہ جرشی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: دین حق پر استقامت اختیار کرو، اگر تم نے استقامت اختیار کرلی تو یہ بہت ہی عمدہ بات ہے اوروضو پر ہمیشگی اختیار کرو،بے شک تمہارے اعمال میں بہترین عمل نماز ہے اور زمین پر بدعملی کرنے سے اجتناب کروکہ یہ تمہاری اصل ہے کوئی شخص ایسا نہیں جو اس پر اچھا یا برا عمل کرے مگر یہ زمین اس کی خبر دے گی ۔(الترغیب والترہیب، طبرانی)

٭ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :استقامت اختیار کرو، تم اس کے اجر کا شمار نہیں کرسکتے اورجان لو کہ تمہارے اعمال میں بہترین عمل نماز ہے اوروضو پر ہمیشگی سوائے مومن کے اورکوئی نہیں اختیار کرسکتا ۔(ابن ماجہ ، حاکم)

 امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری اورمسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

 ٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اگرمیری امت پر دشوار نہ ہوتا تومیں ہر نماز کے وقت نئے وضواورہر وضوکے ساتھ مسواک کا حکم دیتا ۔(امام احمد بن حنبل)

٭ حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صبح جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اورفرمایا :اے بلال!تم جنت کے داخلے میں کس وجہ سے سبقت لے گئے ، رات کو میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے آگے تمہارے قدموں کی آواز سنی ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے کبھی دورکعت نفل پڑھے بغیر اذان نہیں دی اورجب بھی میں بے وضو ہوا اس کے فوراً بعد وضوکرلیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہی وجہ ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ)

٭ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس نے وضو پر وضو کیا اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی گئیں ۔(ابودائود ، ترمذی ، ابن ماجہ)

٭ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسواک منہ کو پاک صاف کرنے والی اوررب تعالیٰ کو راضی کرنے کا سبب ہے ۔(نسائی، ابن خزیمہ)


Para-03.کیا ہم نے دنیا کو محبوب سمجھ لیا ہے

جمعرات، 18 مارچ، 2021

Para-03.کیا ہم صدقات دے کر ایذارسانی کے مرتکب ہوتے ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1690 ( Surah Al-Hujraat Ayat 04 - 08 ) درس قر...

تقویٰ

 

تقویٰ

آگ جلا دیتی ہے۔ بہتے ہوئے پانی کا تندوتیز ریلا اپنی زدمیں آنیوالی ہر چیز کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے سو کوئی بھی انسان شعوری طور پر آگ کے قر یب نہیں جائیگا اور پانی کے ریلے کی زد میں آنے سے اجتناب کریگا۔ اجتناب کے بعد دوسرا مرحلہ انتخاب کا ہے۔ نقصان سے بچنے کے بعد فائدہ کی تلاش کی جاتی ہے۔ شر سے اجتناب ہی کافی نہیں خیر کا انتخاب بھی ضروری ہے۔ امام راغب اصفہانی نے تقویٰ کی بڑی خوبصورت تعریف کی ہے۔ تقویٰ یہ ہے تم پر اس جگہ موجود پائے جائو، جہاں تمہارا پروردگار تمہیں موجود دیکھنا چاہے اور ہر اس جگہ سے غیرحاضر پائے جائو جہاں تمہارا پروردگار تمہیں موجود نہ دیکھنا چاہے۔ گویا کہ تقویٰ میں حسنِ اجتناب بھی ہے اور حسنِ انتخاب بھی۔ امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب ؓنے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے استفسار فرمایا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا اے امیرالمومنین کیا آپ کو کبھی ایسے راستے پر سفر کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں۔ امیرالمومنین نے فرمایا، ہاں بارہا ایسا سفر درپیش ہوا ہے۔ حضرت ابی نے پھر پوچھا، ایسے میں آپکے سفر کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ جواب ملا، جسم کو بچابچا کر اور دامن کو سنبھال سنبھال کر چلتا کہ کوئی کانٹا نہ جسم میں خراش ڈال سکے اور نہ دامن کو الجھا سکے۔ ابی بن کعب نے جواب دیا امیرالمومنین یہی تقویٰ ہے کہ زندگی کا سفر اس حسنِ احتیاط سے کیا جائے کہ گنا ہوں کا کوئی کانٹانہ جسم میں خراش ڈال سکے اور نہ اس کو الجھا سکے۔ حضر ت ابی بن کعب نے اس مختصر سی وضاحت میں اسلام کے حقیقی مزاج کو اور اسکی روح کو بیان کر دیا ہے۔ اسلام نہ تو رہبانیت اور گریز کی تعلیم دیتا ہے کہ زندگی کے سفر سے اور اسکی ذمہ داریاں سے فرار اختیا رکرو۔ بھکشو بن کر پہاڑوں کی گھپائوں میں بیٹھ جائو یا نروان کی تلاش کرو، صادھو بن بن کر بھبوت تن پر َملو اور لق ودق صحرائوں میں چلے جائو بلکہ اس امرکی تلقین کرتا ہے کہ کازار حیات میں مردانہ وار اترو لیکن زندگی کے اس سفر کو اس نزاکت احساس سے طہ کرو کہ گناھوں سے دامن آلودہ بھی نہ ہو، انسان نہ فرشتہ ہے کہ محض ذکر وتسبیح وطواف میں مشغول رہے اور نہ حیوان کہ ہمہ وقت جبلی خواہشات کا اسیر رہے وہ انسان ہے اور جب وہ حقیقی انسان بن جاتا ہے تو فرشتے بھی اس کو خراجِ عظمت وکمال پیش کرتے ہیں اور جانور تو کیا تمام مظاہر فطرت اس کیلئے تسخیر ہو جاتے ہیں۔

بدھ، 17 مارچ، 2021

Para-03.کیا ہم بدنیتی سے زندگی گزار رہے ہیں

مقامِ محمود

 

مقامِ محمود

٭ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ قیامت کے روز سب لوگوں کو ایک وسیع اورہموار میدان میں جمع فرمائے گاحتیٰ کہ وہ پکارنے والے کی آواز کو سن سکیں گے اورنگاہ ان سب پر سے گزر سکے گی سب لوگ اسی طرح برہنہ پااوربرہنہ تن ہونگے جس طرح کہ وہ شکم مادر سے پیدا ہوئے تھے ۔ سب پر سکتہ طاری ہوگا، اذن الہٰی کے بغیر کوئی شخص لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکے گا(اللہ رب العزت )ندا فرمائے گا ، اے محمد !(صلی اللہ علیہ وسلم)،آپ فرمائیں گے :اے میرے رب میں تیر ی بارگاہ میں حاضر ہوں ،ساری سعادتیں تیری دستِ قدرت میں ہیں ، ساری بھلائیاں تیرے قبضے میں ہیں اورکسی شر کو تیرے آگے کوئی چارہ نہیں ، ہدایت یافتہ وہی ہے جسے تو ہدایت عطافرمائے ، تیرا یہ بندہ دست بستہ تیرے سامنے حاضر ہے ، میں تیرا ہوں اورمیرے سارے معاملات تیرے ہی سپرد ہیں، سوائے تیرے میرے لیے کوئی پناہ گاہ اورنجات کی جگہ نہیں ہے تو بڑی برکتوں والا بڑی اونچی شان والا ہے ۔ اے بیت اللہ کے پروردگار !تو ہر عیب سے پاک ہے ،(یہ پُر تاثیر کلمات ارشادفرمانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا)یہ ہے وہ مقامِ محمود جس کاذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں فرمایا ہے :’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا ۔بنی اسرائیل‘‘(نسائی،ابن ابی شیبہ، طبرانی، بیہقی، حاکم، ذہبی) 

 امام حاکم اورذہبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث امام بخاری اورامام مسلم کی شرط پر حدیث صحیح ہے۔

٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ میں اپنی نصف امت کو جنت میں داخل کرالوں یا شفاعت کروں ۔میں نے شفاعت کو پسند کیا ،کیونکہ شفاعت کا فیضا ن عام ہے (یعنی اگرمیں نصف امت کو جنت میں داخل کرنے پر قناعت کرلیتا تو باقی نصف امت کا کون پرسان حال ہوتا ،چنانچہ میں نے شفاعت کو پسند کیا تاکہ جب تک میری امت کا آخری فرد بھی جنت میں نہ پہنچ جائے اس وقت تک میں شفاعت کا حق استعمال کرتا رہوں گا )پھر ارشادفرمایا:یہ شفاعت متقین کے لیے نہیں ہوگی بلکہ میری یہ شفاعت گناہگاروں اورخطاکاروں کے لیے ہوگی۔(ابن ماجہ)

منگل، 16 مارچ، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1688 ( Surah Al-Hujraat Ayat 01 Part-3 ) درس ...

Dilee Sakoon Ka Samaan Kya Hay? - دلی سکون کا سامان کیا ہے؟

نماز کی فرضیت

 

نماز کی فرضیت

نماز جو ایمان اور کفر کے درمیان نشان امتیاز ہے۔ ابتدائے دعوت ہی سے مسلمانوں کا معمول رہی ۔لیکن اس کا حکم پانچ نمازوں کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کے سفر معراج کے دوران ہوا۔ نبی کریم ﷺابتداء ہی سے نماز اداء فرماتے تھے۔ اکثر سیرت نگاروں نے طلوع فجر سے پہلے اور غروب آفتاب سے قبل کا ذکر کیا ہے۔ کبھی آپ صحن حرم میں نماز ادا فرماتے تو قریش آپ کو ایزاء دینے کی کو شش کرتے۔ کبھی آپکی ہنسی اڑاتے، کبھی آپکی گردن مبارک میں پھندا ڈال دیتے ۔کبھی تو یہاں تک جسارت کرتے کہ عین حالت سجدہ میں آپ کی پشت مبارک پر نجاست ڈال دیتے اور جب آپ اس بار نجاست کی وجہ سے اٹھنے میں دقت محسوس کرتے تو قہقہے لگاتے۔ عام مسلمان رات کے سائے میں نماز پڑھتے یا دن میں ادھر اُدھر چھپ کر نماز پڑھتے۔ ایک بار حضرت سعد ابن ابی وقاص چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی   میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کی ایک جماعت وہاں آگئی۔ اس نے اس نماز کو اچھا نہ سمجھا اور مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور ان سے لڑنے پر آمادہ ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام)معراج کا سفر گویا کہ ظلم و تشدد کے ایک دور کے خاتمے کی نوید تھا اور عروج وکامرانی کی بشارت بھی اس سفر میں تعلق بااللہ کے اس مستقل عمل کو حتمی شکل دیدی گئی اور عروج بندگی کا راستہ متعین کردیا گیا۔ حضرت انس بن مالک جناب رسالت مآب ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔’’اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کردیں میں اس کے ساتھ واپس لوٹا جب حضرت موسیٰ ؑکے پاس سے گزرا تو انھوں نے پوچھا اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے آپکی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا پچاس نمازیں کہنے لگے اپنے رب کے پاس واپس جائیے اس لئے کہ آپکی امت انکی طاقت نہیں پائے گی ۔ سو میں نے مراجعت کی رب تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کردیا۔ میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ پروردگار نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ وہ کہنے لگے آپ اپنے رب کے ہاں پھر واپس جائیے کیونکہ آپکی امت اسکی طاقت بھی نہیں پائے گی۔ میں نے رب کی بارگاہ میں حاضری دی اللہ نے ان کا ایک حصہ بھی معاف فرما دیا لیکن میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جانے کا مشورہ دیا۔ اب پروردگار نے فرمایا یہ پانچ نمازیں ہیں اور یہ (دراصل) پچاس ہی ہیں میرے پاس فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا (یعنی پانچ نماز اپنے ضمن میں پچاس نمازوں کا اجر اور ثواب رکھیں گی) میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ ایک بار اور اپنے رب کی طرف رجوع فرمائیے لیکن میں نے کہا (اب) مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہے۔ (صحیح بخاری)

پیر، 15 مارچ، 2021

Para-03. کیا ہمیں اللہ تعالی کی رحمت اور بخشش درکار ہے

زندگی کا مقصد

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1687 ( Surah Al-Hujraat Ayat 01 Part-2 ) درس ...

Dile Sakoon Kaisay Hasil Ho Sakta hay? دلی سکون کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟

اَلْصَّلَوۃُ

 

اَلْصَّلَوۃُ

’’عبادت ‘‘کی تشریح سے ہم پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی کہ یہ اللہ کے سامنے اعتراف عجز ہے۔ اپنی ذات کی خیالات کی، رائے کی نفی ہے۔ جب انسان اپنے خالق کا حکم مان لیتا ہے اور اس کی مرضی اختیار کرلیتا ہے ،اور اس کے بتائے ہوئے طرززندگی کو اپنا لیتا ہے تو وہ عبادت کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ 

اس خالق کی حکمت نے اپنے محمود اعمال میں درجہ بندی فرمائی،کچھ اعمال ایسے ہیں جو مسلمانی کا خاص شعار قرار پائے، انکے بغیر ایمان اور اسلام کا تعارف ہی دشوار ہے۔ ان میں اہم ترین، نمایاں ترین اور سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی عمل ’’الصلوۃ ‘‘یعنی نماز ہے۔ ’’صلوٰۃ ‘‘کا لفظی معنی دعائ، تسبیح، رحمت یا رحم وکرم کی تمنا ہے درود پاک کو بھی صلوٰۃ کہا جاتا ہے کہ یہ بھی رحمت وکرم کی تمنا کا اظہار ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق صلوٰۃ ایک مخصوص اور معروف عمل ہے جو خاص اوقات میں اور مخصوص انداز سے ادا کیا جاتا ہے۔ صلوٰ ۃ یعنی نماز ارکانِ اسلام میں دوسرا اور عبادات میں پہلا رکن ہے۔ اس کی بجا آوری ہر باشعور، بالغ مسلمان (عورت ہو یا مرد) پر فرض ہے۔‘‘ (عقائد ارکان )

’’نماز کیا ہے مخلوق کا اپنے دل زبان اور ہاتھ پائوں سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار ،اس رحمان اور رحیم کی یا داور اس کے بے انتہاء احسانات کا شکریہ، حسنِ ازل کی حمد وثنا ء اور اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار، یہ اپنے آقاء کے حضور میں جسم وجان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرضِ نیاز ہے۔ یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے۔ یہ بے قرار روح کی تسکین مضطرب قلب کی تشفی اورمایوس دل کی آس ہے۔یہ فطرت کی آواز ہے اور یہ زندگی کا حاصل اور ہستی خلاصہ ہے۔ کسی غیر مرئی طاقت کے آگے سرنگوں ہونا، اس کے حضور میں دعاء فریا د کرنا اور اس سے مشکل میں تسلی پانا۔ انسان کی فطرت ہے ۔ قرآن نے جابجاانسانوں کی اسی فطری حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوچھا ہے کہ جب تمہارا جہاز بھنور میں پھنستا ہے تو خدا کے سوا کون ہوتا ہے جس کو تم پکارتے ہو۔ غرض انسان کی پیشانی کو خودبخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے۔ جس کے سامنے وہ جھکے ۔ اندرونِ دل کی عرض نیاز کرے اور اپنی دلی تمنائوں کو اس کے سامنے پیش کرے ۔غرض عبادت روح کے اسی فطری مطالبہ کا جواب ہے‘‘۔ (سیرت النبی)

اسلام کا اعجاز یہ ہے کہ اس نے انسان کو در در پر بھٹکنے سے بچا لیا۔ توحید کا واضح اور غیر مبہم سبق پڑھایا بندگی کا خوبصورت طریقہ سکھایا، جسے کو نماز کہتے ہیں۔ 

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

(اقبال)

ہفتہ، 13 مارچ، 2021

Para-03.کیا ہمیں دنیا کے مقابلے میں اخروی کامیابی اچھی نہیں لگتی

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1685 ( Surah Al-Fath Ayat 29 Part-4 ) درس قرآ...

کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبث بنایا ہے؟

سفرِ معراج کے چند مشاہدات

 

سفرِ معراج کے چند مشاہدات

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی قوم کے پاس سے ہوا جن کے سروں کو کوٹا جارہاتھا وہ پھر فوراً پہلے کی طرح درست ہوجاتے۔یہ سلسلہ لگاتار جاری تھا۔ حضور نے پوچھا :اے جبرئیل !یہ کون لوگ ہیں ،اس نے عرض کی یارسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو فرض نماز کی ادائیگی نہیں کرتے۔ پھر ایسی قوم دکھائی جن کے آگے پیچھے چیتھڑے تھے وہ اس طرح چررہے تھے جس طرح اونٹ اوربکریاں چرتی ہیں اورضریع (ایک خاردارکڑوی بوٹی)اورزقوم کھارہے تھے ۔حضور نے پوچھا:اے جبرئیل ! یہ کون ہیں عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ نہیں دیا کرتے اوراللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔پھر ایک ایسی قوم دکھائی دی جن کے پاس ایک ہانڈی میں پکا ہوا لذیذ گوشت ہے اوردوسری میں بدبودار گوشت ہے۔ وہ لوگ پاک اورلذیذ گوشت کو نہیں کھاتے اوراس ردی اوربدبو دار گوشت پر ٹوٹے پڑتے ہیں ،حضور نے انکے بارے میں پوچھا : انہوں نے عرض کی یہ حضور کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب بیویاں ہیں لیکن وہ بدکار عورتوں کے ساتھ رات گزارتے ہیں۔یہی حال اس عورت کا ہوگا جو حلال اورطیب خاوند کی موجودگی میں خبیث آدمی کی طرف رجوع کرتی ہے پھر راستہ میں ایک لکڑی کے پاس سے گزر ہوا جو چیز یا کپڑا اسکے نزدیک ہوتا ہے اس کو وہ پھاڑ دیتی ہے ۔ اسکے بارے میں دریافت فرمایا: جبرئیل نے جواب دیا یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جوراستوں پر کچہری لگاکر بیٹھیں گے اور لوگوں کا راستہ کاٹیں گے پھر ایک آدمی کو دیکھا جو خون کی ایک نہر میں تیررہا ہے اوراسکے منہ میں پتھر ڈالے جارہے ہیں پوچھنے پر جبرئیل نے بتایایہ سود خورہے پھر ایک ایسا آدمی نظر آیا جس نے بڑی بھاری گٹھڑی باندھی ہوئی ہے لیکن وہ اس کو اٹھا نہیں سکتا اوراس گٹھڑی میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہے حضور نے پوچھا :یہ کون ہے ؟فرمایا: یہ حضور کی امت کا وہ آدمی ہے جسکے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں گی اوروہ ان کو ادا نہیں کریگااور مزید امانتیں رکھنے کا خواہش مند ہوگا پھر یہ ہیبت ناک منظر دکھائی دیا کہ قینچی کے ساتھ ایک قوم کی زبانیں اورانکے ہونٹ کاٹے جارہے ہیں وہ زبانیں اورہونٹ کٹنے کے بعد پھر جوں کے توں ہو جاتے ہیں ۔اوریہ سلسلہ جاری ہے۔حضور نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون ہیں جبرئیل نے عرض کی۔ حضور کی امت کے فتنہ باز خطیب ہیں جووہ دوسرو ںکو کہتے ہیں اس پر خود عمل نہیں کرتے۔‘‘پھر ایسے لوگ نظر آئے جن کے ناخن تانبے کے ہیں اوروہ اپنے چہروں اورسینوں کو ان سے کھرچ رہے ہیں ۔ جبرئیل نے انکے بارے میں عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں ۔یعنی ان کی غیبت میں مصروف رہتے ہیں اوران کی عزتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں۔(سبل الہدی بحوالہ ضیاء النبی )


جمعہ، 12 مارچ، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1684 ( Surah Al-Fath Ayat 29 Part-3 ) درس قرآ...

امت کے غم خوار(۲)


 

امت کے غم خوار(۲)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم موذن سے اذان سنو تو وہ کلمات دہرائو ‘پھر مجھ پر درود شریف پڑھو‘کیونکہ جو مجھ پر ایک صلوٰۃ بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس صلوات نازل فرماتا ہے ، پھر میرے لیے وسیلہ (مقام رفیع)کی دعاکرو، کیونکہ وہ جنت میں ایک مرتبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو ملے گا اورمجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں گا، جس شخص نے میرے لیے وسیلہ کی دعاکی اس پر میری شفاعت واجب ہوگئی۔(صحیح مسلم)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی امت کے گناہ کبیرہ کرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔(امام ترمذی)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے کچھ لوگ ایک گروہ کی شفاعت کریں گے ، کچھ ایک قبیلہ کی ، کچھ ایک جماعت کی اورکچھ ایک شخص کی حتیٰ کہ وہ سب جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔(جامع ترمذی )

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: میرے پاس اللہ کا پیغام آیا اورمجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ اللہ میری آدھی امت کو جنت میں داخل کردے ، یا میں شفاعت کروں، میں نے شفاعت کو اختیار کرلیا اوریہ شفاعت ہر اس مسلمان کوحاصل ہوگی جو شرک پر نہیں مرے گا۔(ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میری امت میں سے جس شخص کے دوپیش رو(فوت شدہ کم سن بچے )ہوں وہ اس شخص کوجنت میں لے جائیں گے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا آپ کی امت میں سے جس شخص کا ایک پیش روہو؟ فرمایا: اے صاحبہ خیرات ! اس کو وہ ایک پیش رو ہی لے جائے گا۔ عرض کیا جس کا کوئی پیش رونہ ہو؟ فرمایا: ’’جس کا کوئی نہیں ہوگا اس کا ’’میں ‘‘ہوں گا کیونکہ میری امت کو میری جدائی سے بڑھ کر کسی کی جدائی سے تکلیف نہیں پہنچی‘‘ ۔(ترمذی)

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کے حق میں میری شفاعت واجب ہوگئی ۔(سنن دار قطنی )

جمعرات، 11 مارچ، 2021

Inssan Kyoon Pareshan Hay? - انسان کیوں پریشان ہے؟

امت کے غم خوار

 

امت کے غم خوار

حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز دیکھوں گا۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رکھے گا ، پھر مجھ سے کہا جائے گا : اپنا سراٹھائو ، مانگو ملے گا ، شفاعت کرو قبول ہوگی ، پھر میں اپنے رب کی وہ حمد کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے اس وقت تعلیم کریگا، پھر میں شفاعت کروں گا پھر میرے لیے ایک حد مقرر کی جائیگی ، پھر میں گنہگار کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردوں گا ، پھر میں دوبارہ سجدہ کروں گا اورپھر شفاعت کروں گا(تین یا چاربار )حتیٰ کہ جہنم میں صرف وہ لوگ رہ جائینگے جن کو قرآن نے روک لیا ہے۔ قتادہ کہتے تھے ، جن پر جہنم کا دوام واجب ہوچکا ہے (صحیح بخاری )حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ایک ماہ کی مسافت کے رعب سے میری مددکی گئی ، تمام روئے زمین کو میرے لیے مسجد اورآلہ تیمم بنادیا لہٰذا میری امت سے جو شخص نماز کا وقت پائے نماز پڑھ لے اورمیرے لیے مال غنیمت حلال کر دیا گیا جو مجھ سے پہلے کسی کیلئے حلال نہ تھا، مجھے شفاعت عطاکی گئی ، پہلے نبی ایک خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اورمجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔ (صحیح مسلم)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے اورہر ایک نے اس دعا کو دنیا میں استعمال کرلیا اورمیں نے اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کیلئے بچا کر رکھا ہے اوریہ ان شاء اللہ میری امت کے ہر اس فرد کو حاصل ہوگی جو شرک سے پاک رہے گا۔(صحیح مسلم) حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم میں ابراہیم علیہ السلام کایہ قول تلاوت فرمایا : ’’رب انھن اضللن ‘‘اورعیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول تلاوت فرمایا : اے اللہ ! اگر تو نہیں عذاب دے تویہ تیرے بندے ہیں اوراگر تو انہیں بخش دے تو ، تو غالب اورحکیم ہے ، پھر آپ نے ہاتھ بلند کیے اورعرض کیا : اے اللہ ! میری امت ، میری امت ، پھر آپ پر گریہ طاری ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے جبرائیل ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس جائو اورپوچھو (حالانکہ وہ خوب جانتا ہے)’’کیوں روتے ہو؟‘‘پھر جبرائیل آپکے پاس آئے اورآپ سے دریافت کیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خبر دی ، پھر جبرائیل نے جاکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے، اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اورفرمایا : جاکر کہو: ہم تم کو تمہاری امت کے بارے میں راضی کردیں گے اوررنجیدہ نہیں ہونے دیں گے۔(صحیح مسلم)

Para-03.کیا ہم نے جنت میں اپنی سیٹ پکی کر لی ہے

کیا ہماری پیدائش فضول ہے؟

بدھ، 10 مارچ، 2021

Kya Hum Mushrik Hain? - کیا ہم مشرک ہیں؟

صبر

 

صبر

صبر کا معنی ہے : کسی چیز کو تنگی میں روکنا ، نیز کہتے ہیں کہ نفس کو عقل اورشریعت کے تقاضوں کے مطابق روکنا صبر ہے۔ مختلف مواقع اورمحل استعمال کے اعتبار سے صبر کے مختلف معانی ہیں، مصیبت کے وقت نفس کے ضبط کرنے کو صبر کہتے ہیں ، اس کے مقابلہ میں جزع اوربے قراری ہے اورجنگ میں نفس کے ثابت قدم رہنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں بزدلی ہے، حرام کاموں کی تحریک کے وقت حرام کاموں سے رکنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں فسق ہے، عبادت میں مشقت جھیلنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں معصیت ہے ، قلیل روزی پر قناعت کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں حرص ہے ، دوسروں کی ایذارسانی برداشت کرنے کوبھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں انتقام ہے۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صبر کی دوقسمیں ہیں، مصیبت کے وقت صبر اچھا ہے، اوراس سے بھی اچھا صبر ہے اللہ کے محارم سے صبر کرنا(یعنی نفس کوحرام کاموں سے روکنا)۔(ابن ابی حاتم)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر کی تین قسمیں ہیں ، مصیبت پر صبر کرنا، اطاعت پر صبر کرنا اور معصیت سے صبر کرنا۔(دیلمی )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہواتھا، آپ نے فرمایا : اے بیٹے ! کیا میں تم کو ایسے کلمات نہ سکھائوں جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں نفع دے ، میں نے کہا: کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : اللہ کو یاد رکھو ، اللہ تمہیں یاد رکھے گا اللہ کو یاد رکھو تم اس کو اپنے سامنے پائو گے ، اللہ تعالیٰ کو آسانی میں یادرکھو وہ تم کو مشکل میں یادرکھے گا، اورجان لو کہ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے وہ تم سے ٹلنے والی نہیں تھی اورجو مصیبت تم سے ٹل گئی ہے وہ تمہیں پہنچنے والی نہیں تھی اوراللہ نے تمہیں جس چیز کے دینے کا ارادہ نہیں کیا تمام مخلوق بھی جمع ہوکر تمہیں وہ چیز نہیں دے سکتی اورجو چیز اللہ تمہیں دینا چاہے تو سب مل کر اس کو روک نہیں سکتے قیامت تک کی تمام باتیں لکھ کر قلم خشک ہوگیا ہے ، جب تم سوال کرو تو اللہ سے کرو اورجب تم مدد چاہو تو اللہ سے چاہو اورجب تم کسی کا دامن پکڑ وتو اللہ کا دامن پکڑواورشکر کرتے ہوئے اللہ کے لیے عمل کرو اورجان لو کہ ناگوار چیز پر صبر کرنے میں خیر کثیر ہے اورصبر کے ساتھ نصرت ہے اورتکلیف کے ساتھ کشادگی ہے اورمشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ حضرت ابوالحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے خوشی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بہ قدر حاجت رزق دیا اوراس نے اس پر صبر کیا ۔(امام بیہقی )

منگل، 9 مارچ، 2021

Para-03. کیا ہم نے اپنے نفس کو نفس مطمئنہ بنا لیا ہے

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1681 ( Surah Al-Fath Ayat 28 Part-4 ) درس قرآ...

Shirk Ki Haqeeqat Kya Hay? - شرک کی حقیقت کیا ہے؟

مصیبت آزمائش ہے کہ عذاب؟

جنت کی نعمتیں

 

جنت کی نعمتیں

علامہ راغب اصفہانی جنت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’جن ‘‘کا اصل میں معنی ہے: کسی چیز کو حوا س سے چھپا لینا۔ قرآن مجید میں ہے: ’’جب رات نے ان کو چھپالیا‘‘(الانعام : ۷۶)

جنان ‘قلب کوکہتے ہیں ، کیونکہ وہ بھی حواس سے مستور ہوتا ہے ، جنین ‘پیٹ میں بچہ کو کہتے ہیں وہ بھی مستور ہوتا ہے‘مجن اورجنہ ڈھال کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی حملہ آور کے حملہ سے چھپاتی ہے اورجن بھی حواس سے مستور ہوتے ہیں، اورجنت اس باغ کو کہتے ہیں جس میں بہت زیادہ گھنے درخت ہوں اوردرختوں کے گھنے پن اورزیادہ ہونے کی وجہ سے زمین چھپ گئی ہواوردارالجزاء کا نام جنت اس لیے ہے کہ اس کو زمین کی جنت (گھنے باغ)کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے اگر چہ دونوں جنتوں میں بہت فرق ہے ، یا اس کو اس وجہ سے جنت کہا گیا ہے کہ اس کی نعمتیں ہم سے مستور ہیں ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیارکی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اورنہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا ہے اوراگر تم چاہوتو یہ آیت پڑھو:’’سوکسی کو معلوم نہیں کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری)حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں تمہارے لیے چابک جتنی جگہ بھی دنیا ومافیہا سے بہترہے۔ (صحیح بخاری )حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سوسال تک چلتا رہے گا اوراگر تم چاہوتو یہ پڑھو: ’’وظل ممدود‘‘(صحیح بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو پہلا گروہ جنت میں داخل ہوگا ان کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگا، نہ وہ اس میں تھوکیں گے نہ ناک سے ریزش آئے گی، نہ فضلہ خارج ہوگا ، ان کے برتن جنت میں سونے کے ہونگے اورکنگھے سونے اورچاندی کے ہوں گے اوراس میں عود کی خوشبو ہوگی، ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبو دار ہوگا، ہر جنتی کو دوبیویاں ملیں گی ، ان کی پنڈلیوں کامغز گوشت کے پار سے نظر آئے گا، یہ ان کے حسن کی جھلک ہے ان کے دلوں میں اختلاف اوربغض نہیں ہوگا، سب کے دل ایک طرح کے ہوں گے اوروہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے۔(صحیح بخاری)


پیر، 8 مارچ، 2021

Anna Aur Khudi Main Farq Part-2- انا اور خودی میں فرق پارٹ نمبر2

دروغ گوئی سے اجتناب

 

دروغ گوئی سے اجتناب

حضرت سمر ہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: میں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ جبرائیل اورمیکائیل میرے پاس آئے اورمیرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ارض مقدسہ میں لے گئے ، میں نے دیکھا وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اوردوسرا آدمی اس کے پاس کھڑا ہواتھا جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا تھا اس نے وہ آنکڑا اس کی باچھ میں داخل کیا اورآنکڑے سے اس کی باچھ کو کھینچ کر گدی تک پہنچادیا، پھر وہ آنکڑا دوسری باچھ میں داخل کیا اوراس باچھ کو گدی تک پہنچادیا، اتنے میں پہلی باچھ مل گئی اوراس نے پھر اس میں آنکڑا ڈال دیا، (الی قولہ )جبرئیل نے کہا : جس شخص کی باچھ پھاڑ کر گدی تک پہنچائی جارہی تھی یہ وہ شخص ہے جو جھوٹ بولتا تھا ، پھر اس سے وہ جھوٹ نقل ہوکے ساری دنیا میں پھیل جاتا تھا ، اس کو قیامت تک اسی طرح عذاب دیا جاتا رہے گا۔(صحیح بخاری)

حضرت ابو حفص بن عاصم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو بیان کردے۔(صحیح مسلم)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے آپ کو جھوٹ سے بچائو، کیونکہ جھوٹ فجور (گناہ )تک پہنچاتا ہے اورفجور دوزخ تک پہنچاتا ہے ، ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کے مواقع تلاش کرتا ہے ، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کو کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(سنن ابودائود )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس وقت تک بندہ کا ایمان مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ جھوٹ کو ترک نہ کردے حتیٰ کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے اورریا کوترک کردے خواہ وہ اس میں صادق ہو ۔ (مسند احمد بن حنبل)

حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین صورتوں کے سواجھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔(۱)ایک شخص اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لیے جھوٹ بولے(۲)جنگ میں جھوٹ بولنا (۳)لوگوں میں صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا۔(جامع ترمذی)

اتوار، 7 مارچ، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1679 ( Surah Al-Fath Ayat 28 Part-2 ) درس قرآ...

انسان کی کامیابی کیسے ممکن؟

نماز کی تاکید

 

نماز کی تاکید

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور نماز قائم رکھو اورتم مشرکوں میں سے نہ ہوجائو‘‘۔(الروم : ۳۱)’’(جنتی مجرموں سے سوال کرینگے )تم کوکس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟وہ کہیں گے : تم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔ (المدثر: ۴۳ ۔۴۲)حضرت جابر ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کسی شخص اوراسکے کفر اورشرک کے درمیان (فرق)نمازکو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)یعنی نماز کو ترک کرنا کافروں اور مشرکوں کا کام ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائیگا وہ نماز ہے ، اگر وہ مکمل ہوئی تو مکمل لکھی جائیگی اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو کہا جائے گا دیکھو کیا اسکی کچھ نفلی نمازیں ہیں جن سے اسکے فرض کی کمی کو پورا کردیا جائے ، پھر باقی اعمال کا اسی طرح حساب لیا جائیگا۔ (سنن نسائی ) حضرت عثمان بن ابی العاص ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل)عمرو بن شعیب اپنے والد سے اوروہ اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا : سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اوردس سال کی عمر میں ان کو سرزنش کر کے ان سے نماز پڑھوائو ، اورانکے بستر الگ الگ کردو۔(سنن ابودائود)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جس مرض میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس میں آپ بار بار فرماتے تھے : نماز اورغلام ۔(سنن ابن ماجہ)

ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، انہوںنے ایک خشک شاخ پکڑ کر اس کو ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے گرنے لگے، پھر انہوں نے کہا: اے ابو عثمان ! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا:آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا، میں آپ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے ایک شاخ کو پکڑکر اسے ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے جھڑنے لگے ، آپ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میںنے ایسا کیوں کیا؟ میںنے عرض کیا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے اورپانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اسکے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گررہے ہیں ،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اوردن کے دونوں کناروں اوررات کے کچھ حصوں میں نماز کوقائم رکھو، بے شک نیکیاں ، برائیوں کو مٹادیتی ہیں ، یہ ان لوگوں کیلئے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں ‘‘۔(ھود: ۱۱۴)(مسند احمد)


جمعہ، 5 مارچ، 2021

Para-03. کیا جنت کی بجائے ہمیں دنیاوی کامیابی زیادہ محبوب ہے


 

اہل تقویٰ کی علامات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا تناجش (کسی کو پھنسانے کے لیے زیادہ قیمت لگانا)نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اللہ کے بندوں بھائی بھائی بن جائو، مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر ظلم نہ کرے، اس کو رسوانہ کرے ، اس کو حقیر نہ جانے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، کسی شخص کے برے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو براجانے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر مکمل حرام ہے اس کا خون اس کا مال اوراس کی عزت ۔(صحیح مسلم)

حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک متقین میں سے شمار نہیں ہوگا جب تک کہ وہ کسی بے ضرر چیز کو اس اندیشے سے نہ چھوڑدے کہ شاید اس میں کوئی ضرر ہو۔(جامع ترمذی)

حضرت میمون بن مہران نے کہا : بندہ اس وقت تک متقی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا اس طرح حساب نہ کرے، جس طرح اپنے شریک کا محاسبہ کرتا ہے کہ اس کا کھانا کہاں سے آیا اوراس کے کپڑے کہاں سے آئے۔(جامع ترمذی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب یہ فرماتا ہے کہ میں ہی اس بات کا مستحق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، سو جو شخص مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اس کو بخش دوں ۔(سنن دارمی)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسی آیت کا علم ہے کہ اگر لوگ صرف اسی آیت پر عمل کرلیں تو وہ ان کے لیے کافی ہوجائے گی’’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے‘‘۔ (سنن دارمی )

ابو نضر ہ بیا ن کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایام تشریق کے وسط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ سنا اس نے یہ حدیث بیان کی ، آپ نے فرمایا : اے لوگو! سنو! تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے ، سنو ! کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے، مگر فضیلت صرف تقویٰ سے ہے۔(مسنداحمدبن حنبل)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1677 ( Surah Al-Fath Ayat 27 ) درس قرآن سُوۡر...

شیخ سے محبت کیوں؟

منگل، 2 مارچ، 2021

Para-03 . کیا ہم فرعون وقت ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1674 ( Surah Al-Fath Ayat 20 - 25 ) درس قرآن ...

ہمارا رہنما کون ہونا چاہیے؟

الکتاب (۵)

 

الکتاب (۵)

حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات صبح تک اس آیت کو باربار پڑھتے رہے: ’’اگر تو ان کو عذاب دے تو بیشک یہ تیرے بندے ہیں اوراگر تو ان کو بخش دے تو، تو بہت غالب ، بڑی حکمت والا ہے‘‘۔(المائدہ : ۷۸)(سنن نسائی ، ابن ماجہ)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اوروہ ان کے حلق سے نیچے سے نہیں اترتا، لیکن جب قرآن مجید دل میں ٹھہر کر جم جائے تو نفع دیتا ہے۔ ترتیل کے ساتھ پڑھنے میں قرآن کی زیادہ توقیر اوراحترام ہے اوراس سے دل میں زیادہ تاثیر ہوتی ہے۔(صحیح مسلم )حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں نے فلاں فلاں آیت بھلادی بلکہ یہ کہے کہ فلاں فلاں آیت نے مجھے فراموش کردیا۔(صحیح بخاری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات کو سورہ اخلاص ، سورہ فلق اورسورہ الناس پڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیوں پر دم کرتے ، پھر ان ہتھیلیوں کو اپنے سراوراپنے چہرہ انورپر اورجہاں تک ہاتھ پہنچتا جسم مبارک پر پھیرتے۔(صحیح بخاری)حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت انیس نے حضرت ابوذر سے کہا : مکہ میں میری ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو تمہارے دین پر ہے، ان کو یہ دعویٰ ہے کہ ان کو اللہ نے رسول بنایا ہے میں نے پوچھا کہ لوگ ان کو کیا کہتے ہیں ؟اس نے کہا : لوگ ان کو شاعر ، کاہن اورساحر کہتے ہیں ، حضرت انیس خود شاعر تھے ، انہوں نے کہا : بہ خدا میں نے کاہنوںکا کلام سنا ہے یہ کاہنوں کا قول نہیں ہے اورمیں نے اس کلام کا شعر کی تمام اصناف اوراقسام سے تقابل کرکے دیکھا ، یہ شعرنہیں ہے ، بہ خدا ! وہ سچے ہیں اورلوگ جھوٹے ہیں۔ (صحیح مسلم )حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشادفرمایا :جو مسلمان بھی بستر پر جاکر قرآن کریم کی کوئی سی بھی سورت پڑھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے ایک فرشتہ مقرر فرمادیتے ہیں۔ پھر جب بھی وہ بیدار ہواس کے بیدار ہونے تک کوئی تکلیف دہ چیز اس کے قریب بھی نہیں آتی ۔(ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جو شخص رات میں سوآیات کی تلاوت کرے وہ اس رات عبادت گزاروں میں شمار کیا جائے گا۔

پیر، 1 مارچ، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1673 ( Surah Al-Fath Ayat 18 Part-2 ) درس قرآ...

ہم کسی کو دین میں رہنما کیوں بنائیں؟


 

الکتاب (۴)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے قرآن مجید کی کسی ایک آیت کو قصداً سنا، اس کیلئے ایک نیکی کو دگنا کرکے لکھا جائے گا اورجس نے اس کو تلاوت کیا وہ قیامت کے دن اس کیلئے نور ہوجائے گی۔(مجمع الزوائد )حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن پڑھنے والا جب قرآن کے حلال کو حلال قرار دے اوراسکے حرام کو حرام قرار دے تو وہ اپنے گھر کے ان دس افراد کیلئے شفاعت کرے گا جن میں سے ہر ایک کیلئے جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔(مجمع الزوائد) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ اس سے اللہ اوراس کا رسول محبت کرے وہ غور کرے اگر وہ قرآن سے محبت کرتا ہے تو وہ اللہ اوراسکے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ (طبرانی ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جو شخص علم کا ارادہ کرے وہ قرآن میں غورکر ے کیونکہ اس میں اولین اورآخرین کا علم ہے ۔ (طبرانی )عثمان بن عبداللہ بن اوس اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصحف میں دیکھے بغیر قرآن پڑھنے کا ہزار درجہ اجر ہے ، اورمصحف میں دیکھ کر پڑھنے کا دوہزار درجہ اجر ہے ۔ (مجمع الزوائد)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے بیٹے کو ناظر ہ قرآن پڑھایا اسکے اگلے اورپچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے اورجس نے اس کو زبانی قرآن پڑھایا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ایسی صورت میں اٹھائے گا جیسے چودھویں رات کا چاند ہوتا ہے اوراس کے بیٹے سے کہا جائے گا : قرآن پڑھو اورجب بھی وہ ایک آیت پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسکے باپ کا ایک درجہ بلند کردیگا حتیٰ کہ اس کا بیٹا وہ تمام قرآن پڑھ لے گا جو اس کو یاد ہے۔ (مجمع الزوائد )حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی اپنے بچے کو دنیا میں قرآن کی تعلیم دیتا ہے اس کو قیامت کے دن جنت میں تاج پہنا یا جائے گا، جس کو تمام جنت والے پہچان لیں گے کہ یہ دنیا میں اس کے بیٹے کو قرآن پڑھانے کی وجہ سے پہنایا گیا ہے ۔ (مجمع الزوائد)حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس گھر میں قرآن پڑھا جائے اس میں بہت خیر ہوتی ہے اورجس گھر میں قرآن نہ پڑھاجائے اس میں کم خیر ہوتی ہے ۔ (بزار)