بدھ، 17 مارچ، 2021

مقامِ محمود

 

مقامِ محمود

٭ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ قیامت کے روز سب لوگوں کو ایک وسیع اورہموار میدان میں جمع فرمائے گاحتیٰ کہ وہ پکارنے والے کی آواز کو سن سکیں گے اورنگاہ ان سب پر سے گزر سکے گی سب لوگ اسی طرح برہنہ پااوربرہنہ تن ہونگے جس طرح کہ وہ شکم مادر سے پیدا ہوئے تھے ۔ سب پر سکتہ طاری ہوگا، اذن الہٰی کے بغیر کوئی شخص لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکے گا(اللہ رب العزت )ندا فرمائے گا ، اے محمد !(صلی اللہ علیہ وسلم)،آپ فرمائیں گے :اے میرے رب میں تیر ی بارگاہ میں حاضر ہوں ،ساری سعادتیں تیری دستِ قدرت میں ہیں ، ساری بھلائیاں تیرے قبضے میں ہیں اورکسی شر کو تیرے آگے کوئی چارہ نہیں ، ہدایت یافتہ وہی ہے جسے تو ہدایت عطافرمائے ، تیرا یہ بندہ دست بستہ تیرے سامنے حاضر ہے ، میں تیرا ہوں اورمیرے سارے معاملات تیرے ہی سپرد ہیں، سوائے تیرے میرے لیے کوئی پناہ گاہ اورنجات کی جگہ نہیں ہے تو بڑی برکتوں والا بڑی اونچی شان والا ہے ۔ اے بیت اللہ کے پروردگار !تو ہر عیب سے پاک ہے ،(یہ پُر تاثیر کلمات ارشادفرمانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا)یہ ہے وہ مقامِ محمود جس کاذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں فرمایا ہے :’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا ۔بنی اسرائیل‘‘(نسائی،ابن ابی شیبہ، طبرانی، بیہقی، حاکم، ذہبی) 

 امام حاکم اورذہبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث امام بخاری اورامام مسلم کی شرط پر حدیث صحیح ہے۔

٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ میں اپنی نصف امت کو جنت میں داخل کرالوں یا شفاعت کروں ۔میں نے شفاعت کو پسند کیا ،کیونکہ شفاعت کا فیضا ن عام ہے (یعنی اگرمیں نصف امت کو جنت میں داخل کرنے پر قناعت کرلیتا تو باقی نصف امت کا کون پرسان حال ہوتا ،چنانچہ میں نے شفاعت کو پسند کیا تاکہ جب تک میری امت کا آخری فرد بھی جنت میں نہ پہنچ جائے اس وقت تک میں شفاعت کا حق استعمال کرتا رہوں گا )پھر ارشادفرمایا:یہ شفاعت متقین کے لیے نہیں ہوگی بلکہ میری یہ شفاعت گناہگاروں اورخطاکاروں کے لیے ہوگی۔(ابن ماجہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں