جمعہ، 30 اپریل، 2021

Shortclip سب سے زیادہ نقصان میں کون لوگ ہیں؟

Shortclip.کیا مومن گناہ پر اصرار کرسکتا ہے؟

Apnay Allah Ko Hum Kaisay Pehchanay Gay? اپنے اللہ کو ہم کیسے پہچانیں گے؟

اسرار صوم(۱)

 

اسرار صوم(۱)

ڈاکٹر حبیب اللہ رقم طراز ہیں:۔ اسلام کی کوئی بھی عبادت محض ایک رسم یا پوجا پاٹ نہیں ، بلکہ ہر عبادت اپنے دامن میں ان گنت روحانی معاشرتی اور معاشی فوائد وثمرات رکھتی ہے۔ یہ ثمرات ہر عبادت سے ایسے جھلکتے ہیں جیسے پھول سے خوشبو ، چاند سے چاندنی یاسورج سے شعاعیں نکلتی ہیں ۔اگر کوئی بھی عبادت اس کی حکمتوں اورمصلحتوں سے صرف نظر کرکے اداکی جائے تو وہ عبادت ایسے ہی ہوگی جیسے بغیر روح کے بدن یابغیر خوشبو کے پھول۔ عبادت اسلامیہ کا فلسفہ اگر ہم ایک جملے میں اداکرنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ ایک انسان کو انسان مرتضیٰ بنادیاجائے اسکے اخلاق خالق سے وابستہ ہوں یا مخلوق سے ان کا تعلق فرد سے ہویا معاشرہ سے قومی ہوں یا بین الاقوامی ہر لحاظ سے پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں ۔معلم کتاب وحکمت حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے اپنی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا:’’مجھے صرف بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ میں اخلاق کی تکمیل کروں‘‘ ۔عبادات اسلامیہ میں روزہ ایک اہم رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت کاایک بڑامقصد حصول تقویٰ قراردیا ہے فرضیت صوم کا حکم دینے کے بعد فرمایا:’’تاکہ تم متقی بن جائو‘‘۔تقویٰ ایک جامع لفظ ہے، جس کی تعبیر مختلف انداز سے کی گئی ہے ، ’’تقویٰ کالغت میں معنی ہے نفس کوہر ایسی چیز سے محفوظ کرنا جس سے ضرر کا اندیشہ ہو۔عرف شرع میں تقویٰ کہتے ہیں ہر گناہ سے اپنے آپکو بچانا اسکے درجے مختلف ہیں۔ ہر شخص نے اپنے درجے کے مطابق اس کی تعبیر فرمائی ہے میرے نزدیک سب سے مؤثر اورآسان تعبیر یہ ہے ۔ ’’ یعنی تیرا رب تجھے وہاں نہ دیکھے جہاں جانے سے اس نے تجھے روکا ہے اوراس مقام سے تجھے غیر حاضر نہ پائے جہاں حاضر ہونے کا اس نے تجھے حکم دیا ہے‘‘۔(ضیا ء القرآن ) عرف میں تقویٰ اس صلاحیت کو کہاجاتا ہے جس کی وجہ سے آدمی نیکی سے محبت کرتا ہے اوربدی سے اسے نفرت ہوجاتی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ روزہ آدمی میں یہ صلاحیت کیسے پیدا کرتا ہے انسان میں اللہ تعالیٰ نے ملکیت(فرشتوں کی خصلت) اور بہیمیت(حیوانیت) دونوں صلاحیتیں رکھی ہیں۔قوت بہیمیت جتنی مضبوط اورطاقتور ہوتی ہے تو ملکیت کی صلاحیت اتنی ہی کمزور ہوتی ہے ملکوتی یاروحانی قوت جتنی کمزور ہوتی ہے آدمی میں تقویٰ کی صلاحیت اتنی ہی کم ہوتی جاتی ہے جذبہ بہیمیت کی زیادتی کا ایک مرکزی سبب کثرت خوردونوش ہوتا ہے اوربھوک اسی جذبہ بہیمیت کی شدت کو کمزور کرتی ہے اورملکیت کی قوت کو قوی اورمضبو ط کرتی ہے اور حیوانی یا بہیمیت کی کمی ہی انسان کو راہ حق پر گامزن رکھتی ہے۔

بدھ، 28 اپریل، 2021

Apnay Aap Ko Pehchan Kar Kya Faida Hoo Ga ? اپنے آپ کو پہچان کر کیا فائ...

روحِ صیام(۳)

 

روحِ صیام(۳)

٭ امام غزالی رقم طراز ہیں ،بعض اوقات روزہ دار کے پاس طرح طرح کے کھانے جمع ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ یہ عادت بن گئی ہے کہ رمضان المبارک کے لیے کھانے جمع کئے جاتے ہیں اور اس وقت وہ کھانے کھائے جاتے ہیں جو دوسرے مہینوں میں نہیں کھائے جاتے اوریہ بات معلوم ہے کہ روزے کا مقصد پیٹ کو خالی رکھنا اورخواہش کو توڑنا ہے تاکہ نفس کو تقویٰ پر قوت حاصل ہو اور جب صبح سے شام تک معدے کو ٹالتارہا حتیٰ کہ خواہش جو ش میں آئی اوررغبت مضبوط ہوگئی پھر اسے لذیذ کھانے دے کر سیر کیا گیا اور اس کی قوت زیادہ ہوگی اوروہ خواہشات ابھریں جو عام عادت پر رہنے کی صورت میں پیدا نہ ہوتیں پس روزہ کی روح اورراز تو یہ ہے کہ ان قوتوں کو کمزور کیا جائے جو برائیوں کی طرف لوٹنے کو کم کرنے سے ہی حاصل ہوتا یعنی ہر رات اتنا کھانا ہی کھائے جو روزہ نہ رکھنے کی صورت میں کھاتا ہے اوراگر دن اوررات کا کھانا جمع کرکے کھائے تو روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ مستحب یہ ہے کہ دن کے وقت زیادہ نہ سوئے تاکہ اسے بھوک اور پیاس کا احساس ہواور اعضاء کی کمزوری محسوس ہواس وقت اس کا دل صاف ہوجائے گا اور ہررات اسی قدرکمزوری پیدا ہوگی تواس پر تہجد اور وظائف پڑھنا آسان ہوجائے گااور ممکن ہے شیطان اس کے دل کے قریب نہ آئے اوروہ آسمانی بادشاہت کا نظارہ کرے اورلیلۃ القدر اسی رات کو کہتے ہیں جس میں ملکو ت سے کوئی چیز اس پر منکشف ہو اوراللہ تعالیٰ اس ارشادگرامی کا یہی مطلب ہے فرمایا:

’’ بے شک ہم نے اس (قرآن پاک )کو لیلۃ القدر میں اتارا۔‘‘

 اورجو آدمی اپنے دل اوراپنے سینے کے درمیان کھانے کی رکاوٹ ڈال دے وہ اس سے پردے میں رہتا ہے اورجس نے اپنے معدے کو خالی رکھا تو صرف یہ بات بھی پردہ اٹھنے کے لیے کافی نہیں جب تک وہ اپنی توجہ غیر خدا سے ہٹا نہ دے یہی سارا معاملہ ہے اور اس تمام معاملے کی بنیاد کم کھانا ہے ۔

 پس ان تمام باتوں سے تجھے یہ بات تو سمجھ میں آگئی ہوگی کہ جو شخص روزہ رکھنے سے فقط یہ مراد لیتا ہے کہ بس کھانا پینا ترک کردینا ہی اس ضمن میں کافی ہے تو اس کا روزہ ایک بے جان جسم کی مانند ہے۔حالانکہ حقیقت روزہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو فرشتوں کی مانند بنایا جائے کہ ان میں شہوت قطعاً نہیں ہوتی ،جب کہ بہائم پر شہوت غالب ہوتی ہے اوراسی وجہ سے وہ اس مقام سے بہت دُور ہیں ۔پس اسی طرح جس آدمی پر شہوت کا غلبہ رہے وہ بھی بہائم کے درجے میں ہوتا ہے ۔البتہ اگر وہ شہوت کو مغلوب کرلے تو وہ فرشتوں سے مشابہت پیدا کرلیتا ہے ‘اوروہ اسی سبب سے حق کے نزدیک تر ہیں ۔اس لیے ایسا انسان بھی حق تعالیٰ کے نزدیک تر ہوجاتا ہے۔


Darsulquran Para-03 . کیا جنت ہمارے انتظار میں ہے

ShortClip - کیا ہمارے ایمان کی کوئی حقیقت ہے؟

Apni Pehchan Kyoon Zaroori Hayاپنی پہچان کیوں ضروری ہے؟

روحِ صیام(۲)

 

روحِ صیام(۲)

٭کانوں کو ایسے باتیں سننے سے بچانا چاہیے ،جن کا سننا جائز نہیں کیونکہ جن باتوں کا کہنا جائز نہیں ان کا سننا بھی جائز نہیں ،سننے والا ،کہنے والے کا برابر کا شریک ہوتا ہے ،اور غیبت ودروغ گوئی کے گناہ میں اس کا حصے دار ہوتا ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے جھوٹ کو غور سے سننے اور حرام مال کھانے والے کو برابر قرار دیا ہے۔ارشادرباّنی ہے:۔’’وہ جھوٹ کو خوب سننے والے اورخوب حرام کھانے والے ہیں ‘‘(المائدہ ۴۲)  دوسرے مقام پر ارشادہے :۔’’ان (اہل کتاب ) کے علماء اوردرویش ان کو گناہ کی بات اور حرام کھانے سے کیونکہ نہیں روکتے ‘‘۔(المائدہ۶۳) غیبت سن کر خاموشی اختیار کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔’’بے شک تم اس وقت انکی مثل ہوگے‘‘۔ (النساء ۱۰۴)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’غیبت کرنیوالا اور اسے (قصداً) سننے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہیں ‘‘۔
٭تمام اعضاء کوناشائستہ حرکات سے بچانا چاہیے ، جوکوئی روزہ کی حالت میں بھی ان حرکات سے بازنہیں آتا ،اسکی مثال ایسے بیمار کی سی ہے جو مفید اور شیریں کھانے سے تو پرہیز کرتا ہے لیکن زہر کھالیتا ہے ،کیونکہ گناہ زہر کی مانند ہے اور طعام غذا ہے جس کا ضرورت سے زیادہ استعمال اگر چہ نقصان دہ ہے تاہم اپنی اصل کے اعتبار سے زہر تو نہیں ہے ۔حرام بھی ایک زہر ہے جو دین کو ہلاک کرتا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک اورپیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘‘۔ (ابن ماجہ) کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو حرام کی طرف نظر کرتا ہے ،بعض نے کہا اس سے مراد وہ شخص ہے جو روزہ تو رزق حلال سے رکھتا ہے لیکن اسے غیبت کے ذریعے سے لوگوں کے گوشت سے توڑ دیتا ہے ،کیونکہ غیبت حرام ہے اور یہ قول بھی ہے کہ اس سے وہ شخص بھی مراد ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے محفوظ نہیں رکھتا ۔ ٭افطار کے وقت حرام اور مشتبہ چیزیں نہ کھائے اور حلالِ خالص بھی بہت زیادہ استعمال نہ کرے ،ایسے روزے دار کی مثال اس شخص کی سی ہے جو محل بناتا ہے لیکن شہر کو گرا دیتا ہے ۔حلال چیز دوا کی طرح ہے لیکن دوا تھوڑی ہوتو نافع ہے اگر اس کی مقدار بھی ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو یہ نقصان کا باعث بن جاتی ہے ۔روزے کا ایک مقصد غذا کواعتدال پر لانا بھی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لبالب بھرئے ہوئے پیٹ سے زیادہ مبغوض برتن اورکوئی نہیں ۔ روزے کا اصل مقصد تو شہوت کے غلبے کو توڑنا ہے اگر ہم سحری اورافطاری کی غذا بہت زیادہ کرلیں گے تو روزے سے اللہ تعالیٰ کے دشمن پرغلبہ پانے اورشہوت کو توڑنے کا فائدہ کیسے حاصل ہوگا؟(احیاء العلوم : امام محمد غزالی )

ShortClip - کیا ہم مومن نہیں ہیں؟

پیر، 26 اپریل، 2021

Namaz Kay Qaim Karnay Aur Adda Karnay Main Farq Kya Hayنماز کے قائم کرنے...

روحِ صیام(۱)

 

روحِ صیام(۱)

امام محمد غزالی تحریر فرماتے ہیں کہ خاصانِ خدا کے روزے کی روح یہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو صرف کھانے پینے اور عمل زوجیت سے بھی مجتنب نہیں کرتے بلکہ اس کے علاوہ بھی تمام ناشائستہ امور سے محفوظ رکھتے ہیں (وہ روزہ جو اللہ رب العز ت کی بارگاہ   میں تقرب کا سبب بنتا ہے)اس روزے کی تکمیل چھ چیزوں سے ہوتی ہے۔٭آنکھ کو ہر اس چیز سے بچائے ،جو غیر اللہ کی طرف رغبت دلانے والی ہو،بالخصوص ایسی چیزیں جو شہوت انگیز ہوں۔ 

نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے ’’نظر شیطان ،اس پر اللہ کی لعنت ہو ،کہ زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے اور جو کوئی خوف الٰہی سے اس سے دور رہتا ہے اسے وہ ایمان عطا کیا جاتا ہے جس کی حلاوت وہ اپنے دل محسوس کرتا ہے‘‘ ۔(مستدرک)

٭زبان کو بہودہ گوئی سے محفوظ رکھے اورایسی باتوں میں لگائے ، جو اسے مبتذل باتوں بچاسکیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ذکر الٰہی اورتلاوت قرآن میں مشغول رہے یا پھر خاموش ہی رہے کہ یہ یا وہ گوئی سے تو کہیں بہتر ہے۔ بے کار قسم کے مناظروں میں الجھنا اور بحث وتکرار میں پڑنا بجائے خود نقصان دہ امر ہے ۔حضرت بشر بن حارث نقل کرتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ غیبت روزے کو توڑ دیتی ہے ۔حضرت لیث، حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ دوباتیں روزے کو توڑ دیتی ہیں ،غیبت اور چغلی۔نبی کریم ﷺکا ارشادہے ’’بے شک روزہ ڈھال ہے ،پس جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو نہ وہ بے حیائی کی بات کرے اور نہ جہالت کی ،اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالی گلوچ کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ،میں روزہ دار ہوں ۔(بخاری)ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں دو عورتوں نے روزہ رکھا لیکن ایسا ہوا کہ انہیں اس قدر بھوک اورپیاس لگی کہ جان کا خطرہ پیدا ہوگیا ،قریب تھا کہ وہ اپنے روزے کو ضائع کر بیٹھتیں۔ انھوں نے کسی کو رسول کریم ﷺکی خدمت میں بھیج کر روزہ توڑنے کی اجازت طلب کی ،حضور نے ایک پیالہ ان کے پاس بھجوایا کہ اس میں قے کردیں ،دونوں کے حلق سے جمے ہوئے خون کے ٹکڑے برآمد ہوئے لوگوں کو اس پر بے حد تعجب ہوا تو آپ نے فرمایاکہ ان دونوں عورتوں نے اس چیز سے روزہ رکھا جسے اللہ نے حلال کہا تھا اور پھر اس چیز سے توڑ ڈالا جسے اس نے حرام قرار دیا تھا یعنی غیبت میں مشغول ہوگئیں اور جو کچھ انکے حلق سے باہر نکلا ہے دراصل ان لوگوں کا گوشت ہے جسے انھوں نے (روزے کی حالت میں) کھایا ہے یعنی دوسروں کی غیبت کی ہے۔(احیاء العلوم )

Darsulquran Para-03 . کیا ہم جہنم کا ایندھن بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں

Shortclip - یقین کے مراحل

ShortClip - یقین کیسے پیدا ہو؟

اتوار، 25 اپریل، 2021

Kamyab Zindagi Guzarnay Ka Gur - کامیاب زندگی گزارنے کا گُر

والدین کی خدمت بھی جہادہے

 

 والدین کی خدمت بھی جہادہے

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک شخص نے آکر جہاد کی اجازت طلب کی ، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟اس نے کہا: ہاں ! فرمایا: ا ن کی خدمت میں جہاد کرو۔(بخاری ،مسلم، ابودائود ، نسائی)

 حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی سفر کررہے تھے۔ان کو بارش نے آلیا، انہوں نے پہاڑ کے اندر ایک غار میں پناہ لی ، غار کے منہ پر پہاڑ سے ایک چٹان ٹوٹ کر آگری اورغار کا منہ بندہوگیا ، پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم نے جو نیک عمل اللہ کے لیے کیے ہوں ان کے وسیلہ سے اللہ سے دعاکر و، شاید اللہ غار کا منہ کھول دے، ان میں سے ایک نے کہا:اے اللہ ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اورمیری چھوٹی بچی تھی ، میں جب شام کو آتا تو بکری کا دودھ دوھ کر پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا، پھر اپنی بچی کو پلاتا ، ایک دن مجھے دیر ہوگئی میں حسب معمولی دودھ لے کر ماں باپ کے پاس گیا، وہ سوچکے تھے ، میں نے ان کو جگانا ناپسند کیا اوران کے دودھ دینے سے پہلے اپنی بچی کو دودھ دینا ناپسند کیا ، بچی رات بھر بھوک سے میرے قدموں میں روتی رہی اورمیں صبح تک دودھ لے کر ماں باپ کے سرہانے کھڑا رہا۔ اے اللہ ! تجھے خوب علم ہے کہ میں نے یہ فعل صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا ، تو ہمارے لیے اتنی کشادگی کردے کہ ہم آسمان کو دیکھ لیں ،اللہ عزوجل نے ان کے لیے کشادگی کردی حتیٰ کہ انہوں نے آسمان کو دیکھ لیا۔ (بخاری ، مسلم)

 حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھتے ہوئے فرمایا : آمین، آمین ، آمین، آپ نے فرمایا : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اورکہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پایا اوران کے ساتھ نیکی کیے بغیر مرگیا ، وہ دوزخ میں جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے ، کہئے آمین تو میں نے کہا: آمین، پھر کہا: یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! جس نے رمضان کا مہینہ پایا اورمرگیا اوراس کی مغفرت نہیں ہوئی (یعنی اس نے روزے نہیں رکھے)وہ دوزخ میں داخل کیا جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے ، کہیے آمین تو میں نے کہا: آمین ، اورجس کے سامنے آپ کا ذکر کیا جائے اوروہ آپ پر درود نہ پڑھے وہ دوزخ میں جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے، کہیے آمین ، تو میں نے کہا: آمین۔(طبرانی ، ابن حبان ، امام حاکم)


Allah Tallah Ki Mulaqaat Ka Aehal Bannay Ka Shortcut - اللہ تعالیٰ کی مل...

روزہ اور روحانیت

 

روزہ اور روحانیت

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں ،روزہ رکھنا ایک بہت بڑی نیکی جس سے ملَکیت کو تقویت حاصل ہوتی ہے (مَلک فرشتے کو کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انسان میں ہر طرح کے اوصاف رکھے ہیں ،اسکے وجود میں ملَکیت یعنی فرشتوں کے اوصاف بہیمیت یعنی حیوانوں کے اوصاف ،سبعیت یعنی درندوں کے اوصاف ،شیطنت یعنی جنّات و شیاطین کے اوصاف موجود ہیں۔ کمالِ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے اندر کا فرشتہ اسکے باقی اوصاف پر غالب آجائے ) روزہ سے انسان کی بہیمیت کمزور ہوتی ہے ،یہ طبیعت کی سرکشی کو مغلوب کرنے ،روح کو پاکیزہ اور صاف کرنے کا بہترین نسخہ ہے جو کہ روحانی اطباء نے تجویز کیا ہے ۔اس حدیث قدسی کا یہی مقصد ہے کہ الصوم لی وانا اجزی بہ’’روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دیتا ہوں (روزہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس کی حقیقت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا ،اور روزہ دار کے علاوہ کوئی تیسرا واقف نہیں ہوسکتا ،اس لیے اسکی اس انداز میں تحسین فرمائی گئی ہے)‘‘ روزہ رکھنے کی وجہ سے جیسے جیسے انسان کی حیوانی قوتیں کمزور ہوتی چلی جاتیں ہیں اسی نسبت سے اسکے گناہ جھڑتے ہیں ۔ روزہ رکھنے سے انسان کو فرشتوں کے ساتھ ایک عظیم مشابہت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی حدیث پاک میں اسی روحانی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ’’روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہت زیادہ قابل قدر ہے ۔جب روزہ کی پابندی کسی معاشرے میں مشہور رسم کی صورت اختیار کرلیتی ہے تو وہ ان کیلئے دیگر رسوم کی نسبت بڑے نفع کا باعث ہوجاتی ہے ۔جب کوئی قوم التزام کے ساتھ اس کو بجا لاتی ہے تو انکے شیاطین کو زنجیروں کے ساتھ باندھ دیاجاتا ہے ،ان کیلئے دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورانکے استقبال کیلئے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔جب انسان اپنے نفس کو مغلوب کرنے کی سعی کرتا ہے اور اسکے رذائل کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو عالم مثال میں اس کی ایک صورت قائم ہوتی ہے جس پر تقدس کے آثار نمایاں ہوتے ہیں ،چنانچہ بعض ذکی الطبع اہل معرفت جب اپنی توجہ کو اس صورت پر مرکوز کرلیتے ہیں تو عالم غیب سے انکے علم میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور وہ تنزیہ وتقدس کے راستے سے اللہ رب العزت کی بارگاہ تک پہنچ جاتے ہیں۔بعض روایات میں مندرجہ بالا حدیث قدسی کو صیغہ مجہول کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ،الصوم لی وانا اُجزی بہ ’’روزہ خالص میرے لیے ہے اورمیں ہی اسکی جزا ہوں ‘‘ (یعنی روزے کی وجہ سے انسان کو اللہ رب العز ت کی معرفت نصیب ہوجاتی ہے )۔(حجۃ اللہ البالغہ)

Darsulquran Para-03. کیا ہمارے دل ٹیڑھے ہو چکے ہیں

Shortclip - دنیا سے محبت کرنے والے کہاں جائیں گے ؟

جمعہ، 23 اپریل، 2021

Quran Ki Haqeeqat - قرآن کی حقیقت

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۵)

 

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۵)

اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اسکے راستے میں خرچ کرنا اہل تقوی کا تیسرا نمایاں وصف ہے۔ اگرچہ رزق کی معنویت بڑی وسیع ہے اور یہ ظاہری ، باطنی اورمعنوی نعمتوں کو محیط ہے۔ رمضان المبارک کا ماحول کیفیت جودوسخا میں اضافے کا باعث ہے۔ خود پروردگار نے ہر عمل کا اجر بڑھا دیا ہے۔ نفل پڑھنے پر فرض کا ثواب ہے، فرض ستر گناہ زیادہ بار آور ہو چکا ہے۔ ہر رات گہنگاروں کو بخشش کے پروانے مل رہے ہیں۔ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا گیا کہ آپ رمضان المبارک میں تیز ہواؤں سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے ۔ ایسے میں انسان کو کم از کم یہ تو محسوس ہو کہ میں نے صرف اپنے خوراک کے معمولات کو ذر ابتدیل کیا ہے، تو مجھے شام تک بھوک کا کیسا احساس ہوا ہے۔ ان لوگوں کا عالم کیا ہو گا جن کے گھر میں مدتوں آگ روشن نہیں ہوتی، مدتوں چولہا نہیں جلتا۔ رمضان میں غم گساری کی ایک تحریک میسر آتی ہے جو اگر معاشرے میں مستقل رائج ہوجائے تو معاشرہ جنت نظیر ہوجائے۔ 
وحی الٰہی جو کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس پر ایمان رکھنا اور جو آپ سے پہلے اتاری گئی اس پر ایمان رکھنا اہل تقویٰ کا چوتھا وصف ہے۔ یہ و صف اس امر کا آئینہ دار ہے کہ متقی صرف اللہ کی وحی پر مبنی نظام زندگی (دین) کو ہی حتمی سمجھتا ہے اور وحی الٰہی کے مکمل ہو جانے (یعنی ختم نبوت) کے بعد نہ تو کسی نبی کو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی کسی اور نظام کو انسانی احتیاجات کے لیے مکمل سمجھتا ہے۔ رمضان میں ہمیں اللہ کے پیغام قرآن سے وابستگی کے مواقع دوسرے ایام سے زیادہ ملتے آتے ہیں۔ تلاوت کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے ، تراویح میں منزل سننے کا شرف حاصل ہوتا ہے، دورس قرآن اور مفاہیم قرآن کی نشستیں بڑھ جاتی ہیں۔ کیا ہی عمدہ ہو کہ ہم امکانی حد تک کتاب ہدایت کی روشنی سے خود کو منور و مستنیر کریں۔
آخرت پر ایقان رکھنا اہل تقویٰ کا پانچواں نمایاں و صف ہے۔ ایقان اس مرحلہ تسلیم کو کہا جاتا ہے جہاں شک اور شبہ کا ذرا سا امکان بھی باقی نہ رہے۔ آخرت پر ایقان ضروری ہے۔ متقی اپنے ہر عمل کو آخرت کی جواب دہی کے نقطہ نظر سے کرتا ہے۔ اسے ہر لمحہ یہ خیال رہتا ہے کہ میرا ایک الہ ٰہے جس نے مجھے پیدا کیا ،مجھے مہلت عمل دی اب ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب میں نے اس کے سامنے پیش ہونا ہے اور روزہ اس شعور سے رکھا جاتا ہے کہ مجھے اللہ ہر وقت دیکھ رہا ہے۔یہ مزاج بن جائے تو آخرت کا ایقا ن پیدا ہوجاتا ہے اور عمل میں ازخود ایک حسن عمل اتر آتا ہے۔

Darsulquran Para-03 -کیا دنیاوی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے

ShortClip[ - دنیا کی زندگی کی حقیقت

جمعرات، 22 اپریل، 2021

Kya Hum Sachay Musalman Hain?- کیا ہم سچے مسلمان ہیں؟

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۴)

 

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۴)

نماز کا قیام اہل تقوی کا دوسرا نمایاں وصف ہے۔ نماز اللہ کا ایک ایسا ذکر ہے جو مومنین کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے۔ اس کے اپنے فضائل و محاسن ہیں یا آج کی مصروف پسندیدہ اصطلاح میں نماز کا ایک اپنا ’’فلسفہ‘‘ ہے۔ یہاں خاص طور پر یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ ’’نماز کو قائم کرنا‘‘ اہل تقویٰ کا نشان امتیاز بیان کیا گیا ہے نہ کہ محض پڑھنا۔ نماز قائم ہوتی ہے تو اس میںوہ شان احسان پیدا ہو جاتی ہے جس کو حدیث پاک میں ’’ان تعبداﷲکانک تراہ وان لم تکن تراہ فانہ یراک‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اپنے پروردگار کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اسے (اپنے سامنے) دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ حضور ممکن نہیں تو یہ ادراک تو راسخ ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ نماز میں جوحضور و سرور پیدا نہیں ہو تا۔ اس کی من جملہ وجوہات میں سے ایک شکم سیری بھی ہے۔ ’’بھوک اللہ کا راز ہے اور اسے صرف عارفین پر ہی آشکار کیا جاتا ہے‘‘ (کشف المحجوب) حالت صوم میں اگر سحری اور افطاری کو قدرے اعتدال سے برت لیا جائے تو بھوک کی لذت اور اسرار سے کچھ لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ رمضان میں مومن کا جو رزق وسیع ہو جاتا اس سے مراد ہم لوگوں کے نزدیک صرف سموسے پکوڑے اور کچوریاں ہیں۔ امام غزالی نے کس کرب سے اظہار خیال کیا ہے کہ جب ہمارا نفس بھوک ، پیاس کو ذرا  سہنے کا عادی ہو جاتا ہے تو ہم پر تکلف افطاری سے اسے خوش خوراکی کا مزید عادی بنا لیتے ہیں۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ اہل صوم کے لیے دوراحتیں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری آخرت میں اللہ کے دیدار کی صورت میں، کیا وہ ان حجابات خورد و نوش میں ہیں؟ اگر ہمارا دھیان اس سمت میں چلا جائے، ہم رمضان کی مبارک ساعتوں سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے معمولات کی معنویت کو محسوس کریں اور سحر وافطار کو مسنون دائرے میں رکھ لیں تو شاید ہماری نمازیں بھی ’’اقامت‘‘ کی معنویت سے آشنا ہو سکیں۔ رمضان میں خوراک کو اعتدال پر رکھنے کا موقع تو ہمیں ملتا ہی ہے۔ ماحول میں ایک روحانیت در آتی ہے، سحری کی صورت میں ہمارے لیے تہجد کا موقع ہے ، تراویح کی سنت معمول کے سجدوں میں اضافے کا باعث ہے، ماحول کا رجحان نماز باجماعت کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے،شیطان مقید ہوتا ہے۔ ایسے ماحول سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور نماز کی کیفیت میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ShortClip - یقین کے مراحل

DarsulQuran Para-03. کیا ہم نے خواہشات نفس کو اپنا حقیقی معبود سمجھ لیا ہے

کیا زندگی ایک معمہ ہے؟

بدھ، 21 اپریل، 2021

جنت کی نعمتیں

 

جنت کی نعمتیں

 علامہ راغب اصفہانی جنت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’جن ‘‘کا اصل میں معنی ہے: کسی چیز کو حوا س سے چھپا لینا۔ قرآن مجید میں ہے: ’’جب رات نے ان کو چھپالیا‘‘(الانعام : ۷۶)

 جنان ‘قلب کوکہتے ہیں ، کیونکہ وہ بھی حواس سے مستور ہوتا ہے ، جنین ‘پیٹ میں بچہ کو کہتے ہیں وہ بھی مستور ہوتا ہے‘مجن اورجنہ ڈھال کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی حملہ آور کے حملہ سے چھپاتی ہے اورجن بھی حواس سے مستور ہوتے ہیں، اورجنت اس باغ کو کہتے ہیں جس میں بہت زیادہ گھنے درخت ہوں اوردرختوں کے گھنے پن اورزیادہ ہونے کی وجہ سے زمین چھپ گئی ہواوردارالجزاء کا نام جنت اس لیے ہے کہ اس کو زمین کی جنت (گھنے باغ)کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے اگر چہ دونوں جنتوں میں بہت فرق ہے ، یا اس کو اس وجہ سے جنت کہا گیا ہے کہ اس کی نعمتیں ہم سے مستور ہیں ۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیارکی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اورنہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا ہے اوراگر تم چاہوتو یہ آیت پڑھو:’’سوکسی کو معلوم نہیں کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری)

 حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں تمہارے لیے چابک جتنی جگہ بھی دنیا ومافیہا سے بہترہے۔ (صحیح بخاری )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو پہلا گروہ جنت میں داخل ہوگا ان کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگا، نہ وہ اس میں تھوکیں گے نہ ناک سے ریزش آئے گی، نہ فضلہ خارج ہوگا ، ان کے برتن جنت میں سونے کے ہونگے اورکنگھے سونے اورچاندی کے ہوں گے اوراس میں عود کی خوشبو ہوگی، ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبو دار ہوگا، ہر جنتی کو دوبیویاں ملیں گی ، ان کی پنڈلیوں کامغز گوشت کے پار سے نظر آئے گا، یہ ان کے حسن کی جھلک ہے ان کے دلوں میں اختلاف اوربغض نہیں ہوگا، سب کے دل ایک طرح کے ہوں گے اوروہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے۔(صحیح بخاری)

ShortClip - یقین کیسے پیدا ہوگا؟

Kya Humara Dil Emaan Ki Dolat Say Munawwar Hay?کیا ہمارا دل ایمان کی دول...

Darsulquran Para-03 . ہم اللہ تعالی کی رحمت کا مستحق کیسے بنیں

ShortClip - اِلہٰ کا مطلب

منگل، 20 اپریل، 2021

Shortclip - ہمیں سچا شخص کہاں ملے گا؟

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۳)

 

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۳)

سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ یہ کتاب اہل تقویٰ کے لیے ہدایت ہے۔یہاں ہدایت سے مراد ارفع ترین ہدایت ہے یعنی ایصال الی المطلوبکسی کو منزل مقصود تک پہنچادینا۔ جب راہ نور شوق منزل جاناں تک باریاب ہو تا ہے توبارگا رہ ناز کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں اورسارے حجابات اٹھ جاتے ہیں اور انسان کی نظر میں حسن حقیقی کے جلوئے بس جاتے ہیں۔سورہ بقرہ کی انہیں ابتدائی آیا ت میں ان لوگوں کے خصائل حمیدہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو متقی ہیں۔ رمضان المبارک کے تقدس مآب ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان اوصاف و شمائل کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ورنہ حدیث پاک کی رو سے روزہ محض بھوک اور پیاس کی ایک مشقت بن کر رہ جائے گا۔یہ علامات درج ذیل ہیں:(۱)ایمان بالغیب کے حامل ہیں (۲) نماز قائم کرتے ہیں (۳) اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے اسکے راستے میں خرچ کرتے ہیں (۴) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی اور اس سے قبل نازل ہونیوالی وحی پر ایمان رکھتے ہیں (۵)آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔اہل تقوی کا پہلا اور بنیادی وصف ایمان بالغیب ہے۔ اللہ اور اسکے پیغام کو مان لینا اور اس سے وابستہ ہو جانا ایمان ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی اشارہ فرمایا ہے، انہیں بلا چوں و چرا ماننا ایمان بالغیب ہے۔ ایمان ایک ایسا وصف ہے جو انسان کے وجود میں اطمینان و سکینت کا سبب ہے اور اس کو ذہنی اور نظریاتی طور پر یکسو کر دیتا ہے اور اسکے عمل کی ایک شاہراہ متعین ہو جاتی ہے۔رمضان میں ایمان بالغیب کی کیفیت میں ایک گونا اضافے کا سامان موجود ہے۔ ہم نے کس کے کہنے پر اپنی زندگی کے گیارہ ماہ کے طرز عمل کو یک لخت تبدیل کر دیا۔ اللہ کے حکم پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے پر ،روزہ ایک ایسا عمل ہے جس کا صحیح ترین ادراک یا تو اللہ رب العزت کو ہے یا خود روزہ دار کو ۔ ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اسکی جزاء دیتاہوں یا میں خود ہی اس کی جزاء ہوں۔ جیسی حوصلہ افزاء بشارت اسی لیے ہے کہ اس پر کوئی تیسرا حتمی اور یقینی گواہ ہو نہیں سکتا ۔ سارا دن انسان کھانے پینے یا خواہشات نفسانیہ سے مجتنب رہتا ہے۔ محض اس لیے کہ اس کا اپنے پروردگار سے ایک وعدہ ہے۔ اگر ہم روزہ کے مقرر دورانیہ میں حلال اورطیب اشیاء کو ترک دینے کے عادی ہو جاتے ہیں تو دوسرے ایام میں ہمیں کم از کم حرام تو ضرور ترک دینا چاہیے۔ اگر یہ کیفیت اجتناب ہمارے وجود میں راسخ ہو جائے تو دوسرے گیارہ مہینوں میں ہم اہم موانعات شرعی سے اجتناب کے بھی عادی ہو سکتے ہیں۔

ہمارے مروجہ ایمان کی حقیقت کیا ہے؟

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۲)


 

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۲)

سید محمود آلوسی کہتے ہیں کہ تقویٰ یہ ہے کہ تم وہاں موجود پائے جائوجہاں تمہارا پروردگار تمہیں موجود دیکھنا چاہتا ہے اورہراس جگہ پر مفقود پائے جائو جہاں تمہارے پروردگار کو موجود ہونا پسند نہیں،گویا کہ تقویٰ رذائل سے بچنے اورفضائل سے آراستہ ہونے کا نام ہے۔ابوعبداللہ رود باری کہتے ہیں ’’تقویٰ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں سے اجتناب کیاجائے جو اللہ سے دور رکھنے والی ہوں‘‘ ،حضرت واسطی کا قول ہے ’’اپنے تقویٰ سے بچنے کا نام تقویٰ ہے‘‘یعنی متقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریاء کاری سے بچے اس لیے کے یہ اعمال کو اس طرح کھا جاتی جس طرح دیمک لکڑی کو چاٹ جاتی ہے۔حضرت ذوالنون مصری کے علاقے میں قحط پڑ گیا ،لوگ ان کے پاس قحط سالی کے خاتمے اور بارانِ رحمت کے لیے دعاء کروانے کے لیے آئے،آپ فرمانے لگے،بارش اس لیے نہیں ہوتی کہ گنہگارزیادہ ہوگئے ہیں اورسب سے بڑا گنہگا ر میں خودہوں ،اگر مجھے شہر سے نکال دیا جائے تو بارانِ رحمت برسنے لگ جائے گی۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے تقویٰ کی بڑی خوبصورت تعریف کی ہے، امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ اے ’’ابی‘‘ تقویٰ کیا ہے۔ انہوں نے جوابا استفسار کیا، اے امیرالمومنین کبھی کسی ایسے خار زار راستے پر چلنے کا اتفاق ہوا ،جس کے دونوں جانب کانٹے دار جھاڑیاں ہوں۔ فرمایا متعدد بار ایسا سفر درپیش ہوا ہے۔حضرت ابی نے پوچھا! اے امیر المومنین ایسے راستے پر آپ کے سفر کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ ارشاد ہوا: دامن سنبھال سنبھال کر اور جسم کو بچا بچا کر کہ کہیں کوئی کانٹا دامن کو الجھا نہ دے اور جسم میں خراش نہ ڈال دے، حضرت ابی نے کہا :امیر المومنین! یہی تقوی ہے کہ زندگی کا سفر اس حسن و خوبی اور حزم و احتیاط سے کیا جائے کہ گناہوں کو کوئی کانٹا نہ تو دامن کو الجھا سکے اور نہ جسم کو مجروح کر سکے۔ حضرت ابی بن کعب کی یہ تعریف اپنے اندر بڑے جامعیت رکھتی ہے اسلام نہ تو رہبانیت کا درس دیتا ہے کہ کار زار حیات میں سرگرم حصہ ہی نہ لیا جائے اور نہ ہی مادیت کی طرح ہر قسم کی اخلاقیات سے بالاتر ہو کر زندگی گزارنے کی تحریک دیتا ہے۔ بلکہ اس طرح زندہ رہنے کی تاکید کرتا ہے کہ زندگی کے سارے فرائض واہداف بھی پورے ہوجائیں اور کسی قسم کی آلودگی بھی دامن پر نہ ہو۔ یہی توازن انسان کو انسان بناتا ہے یہی وہ مقام ہے ۔ جہاں وہ نوامیس فطرت پرغالب آجاتا ہے اور مسجود ملائک قرار پاتا ہے۔

ShortClip - اصل زندگی میں کامیابی کی شرائط

اتوار، 18 اپریل، 2021

ShortClip - کیا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا بہت مشکل ہے؟

ShortClip - ہم کیسے مقرب الٰہی بن سکتے ہیں؟

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۱)

 

رمضان اور تحصیل تقویٰ(۱)

رمضان المبارک خیر و برکت کا مہینہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مبارک مہینہ میں امت مسلمہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ کیا یہ عمل محض بھوک اور پیاس کے ایک مرحلے سے گزار نے کا ذریعہ ہے؟ قرآن مقدس میں اس کی غایت و مقصود تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ اگر ہم لفظ ’’صوم‘‘ کی حقیقت پر غور کریں تو تربیت کا ایک پورا عمل سامنے آجاتا ہے۔ لغت میں لفظ صوم کا معنی ’’الامساک عماتنازع الیہ النفس ‘‘درج ہے یعنی ان خواہشات سے خود کو روک لینا جن کی طرف نفس راغب ہو۔ لیکن اس لفظ کا ایک پس منظر بھی ہے۔ عرب میں جنگی گھوڑوں کی تربیت کا ایک طریقہ رائج تھا، وہ یہ کہ جس گھوڑے کو جنگی مقاصد کے لیے مناسب و موزوں سمجھا جاتا اسے ابتداء ہی سے بڑی مقوی اورفربہ اندوز قسم کی خوراک دی جاتی اور کسی قسم کی بدنی مشقت نہ لی جاتی، جب وہ خوب موٹا تازہ ہو جاتا اور اس کے جسم پر کافی مقدار میں چربی چڑھ جاتی، تو اسے رفتہ رفتہ مشقت کا عادی بناتے اور بتدریج خوراک کم کرتے چلے جاتے۔ اس طرح اس کے جسم کی زائد چربی زائل ہو جاتی ہے اور اس کا جسم سڈول اور پھر پتلا ہوتا چلا جاتا۔ مزید برآں وہ بھوک اور پیاس کی مشقت کا بھی عادی ہو جاتا اور جنگ کی ہولناکیوں سے نبردآزما ہونے لگتا ہے۔’’ صوم‘‘ بھی تربیت دینے کا ایک طریقہ جس سے جسم اور روح دونوں کی کثافتیں زائل ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے نفس اور شیطان دونوں کے خلاف میدان کارزار میں اترنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ’’تقوی‘‘ کا لفظ اپنے اندر حذر اور اجتناب کا معنی رکھتا ہے۔ کسی شئی کی مضرت رسانی اور نقصان دہ پہلو سے ہم واقف ہو جائیں اور پھر پورے شعور اور آگئی سے اس سے بچیں تویہ ’’وقایۃ‘‘ ہے ۔قاضی بیضاوی رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک اس کے تین مراحل ہیں،۱:۔ آخرت کے عذاب سے ڈر کر اپنے آپ کوشرک سے بچانا تقویٰ کا پہلادرجہ ہے،۲:۔ ہر وہ فعل جس میں گناہ کا اندیشہ ہویہاں تک کہ صغیرہ گناہوںسے بچنا بھی تقویٰ کا دوسرا درجہ ہے،۳:۔ہر وقت اللہ سے تعلق قائم رکھنا اوراس سے غافل کردینے والی اشیاء سے لاتعلق ہونا تقویٰ کا تیسرادرجہ ہے اور تقویٰ کی یہی کیفیت حقیقی ہے اوریہی مطلوب ومقصود ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہر وقت تعلق سے مراد یہ ہے کہ انسان کو ہر وقت خدا یاد رہے اوروہ ہر فعل میں اسی کی رضاء دیکھے ،انسان کو ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے کہ کوئی چیز دین کی راہ سے غفلت کا سبب نہ بن جائے ، شیطانی طاقتیں اس پر غالب نہ آجائیں اور وہ نفس امارہ کا شکار نہ ہوجائے۔

Momin Aur Musalman Main Fariq? مومن اور مسلمان میں فرق

ShortClip - ایمان باللہ کا مطلب

عالمگیر پیغام (۳)

 

عالمگیر پیغام (۳) 

اللہ کے سارے نبی اور رسول آفاقی نقطۂ نظر کے حامل ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس ماحول اور معاشرے میں وہ تشریف لائیں وہ بھی بلوغت کی اس سطح کو پہنچ چکا ہو ۔ ’’یوحنا‘‘ کی انجیل کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس حقیقت کا برملا اظہار فرمایا ’’مجھے ابھی تم سے بہت سی باتیں کہنی ہیں لیکن تم ابھی اسکے متحمل نہیں ہوئے‘‘۔ لیکن انہوں نے رفع آسمانی سے پہلے انسانیت کو یہ خوشخبری سنا دی ’’جب انسانیت بلوغت کو پہنچ جائیگی تو ان سب کیلئے ایک پیغمبر آئیگا اور وہ تمام حقائق جن کے تم اس وقت متحمل نہیں ہو سکتے، لائے گا‘‘ نبی محتشم ﷺ تشریف لائے تو اللہ نے اپنے کلام مقدس میں کسی ایک قوم کی بجائے پوری انسانیت سے خطاب فرمانا شروع کیا اور بات’’یآایھاالناس‘‘ سے ہونے لگی ’’اے بنی نوع انسان اس رب کی عبادت کرو جس نے تم سب کو پیدا کیا‘‘۔ اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اس حقیقت کا اعلان کردیں کہ: اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف سے اللہ کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف) حضوراکرم ﷺ کو قیامت تک کیلئے ساری انسانیت، سارے زمانوں، ساری قوموں کیلئے رسولؐ بنا کر بھیجا گیا۔ صرف یہی نہیں کہ آپؐ ہر طبقہ انسانیت کیلئے اللہ کے رسولؐ ہیں بلکہ جنات و ملائکہ کے علاوہ باقی مخلوقات کے بھی نبی اور رسولؐ ہیں اور سرکش جنوں اور انسانوں کے علاوہ اس حقیقت کا روحانی ادراک واحساس کائنات کی تمام مخلوقات کو ہے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے سنا کہ وہ فرمارہے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو آسمان والوں پر بھی فضلیت عطاکی ہے اور دیگر انبیاء پر بھی لوگوں نے ان سے پوچھا کہ انبیائے کرام پر فضلیت کی دلیل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیائے کرام کو انکی قوموں کی طرف، ان قوموں کی زبان میں ارسا ل کیا اور رسول ﷺ کیلئے ارشاد ہوا کہ ہم نے آپؐ کو پوری انسانیت کیلئے بھیجا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‘ مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کبھی کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ مہینہ بھر کی مسافت تک میری مدد رعب کے ذریعے کی گئی۔ میرے لیے ساری زمین سجدہ گاہ اور پاک بنا دی گئی۔ میری اُمت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کیلئے غنیمت کا مال حلال نہیں کیا گیا۔ میرے لیے غنیمت حلال کردی گئی۔ مجھے شفاعت دی گئی ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیاہوں (بخاری ومسلم) ۔

جمعہ، 16 اپریل، 2021

Islam Kya Hay? - اسلام کیا ہے؟

عالمگیر پیغام (۱)

 

عالمگیر پیغام (۱)

خطہء زمین پر انسان کی بودوباش کے بعد اسکی ضروریات دوطرح کی تھیں ۔ ایک جسمانی اور دوسری روحانی ۔ اللہ جو رب العالمین ہے ، اس نے انسان کوکسی بھی اعتبار سے تنہا اور بے یارومددگار نہ رہنے دیا ۔ اللہ نے انسان کے رزق کیلئے زمین کوصلاحیت نمو بخشی ، سمندروں کی وسعت میں اسکے اسباب پیداکیے ۔ سورج کی روشنی اور آسمان کے بادل ممدو معاون ہوئے اسباب وسائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ انسان کو عقل ،شعور بھی عطاکیااور انہیں ان اسباب کو بروئے کار لانے کی صلاحیت سے بھی متصف کیاگیا ۔ یہ کیسے ممکن تھاکہ خدا انسان کیلئے مادی وسائل توبہم پہنچائے ، لیکن روحانی تشنگی کا مداوا نہ کرے ۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ مجرد عقل پر اعتماد کرتے ہوئے انسان صراط مستقیم کا سراغ لگابھی نہیں سکتا۔ انسان کی روحانی اصلاح کیلئے اور اسے ہدایت کی منزل کی طرف گامزن کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کا مبارک سلسلہ جاری کیا ۔ قرآن اس امر کا واشگاف اعلان کرتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم کو اللہ کی اس رحمت سے محروم نہیں کیا گیا ۔کوئی امت ایسی نہیں جس ( اللہ کی طرف سے کوئی ) نذیر ( جنجھوڑنے والانہیں آیا)(رعد ۱۳۔۷)دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔ ہرقوم کوہدایت دینے والا آیا ہے۔(نمل ۱۶۔۳۶)  بے شک ہم نے ہر امت میں رسول مبعوث کیے ہیں۔
ان انبیائے کرام نے اپنے اپنے علاقے میں اور اپنی اپنی قوم میں بڑی محنت ، تند ہی اور جاں فشانی سے اللہ کا پیغام پہنچایا اور مقدور بھر انکی اصلاح کی کوشش کی ، قرآن مقدس ، دیگر مقدس سماویہ اور مذاہب عالم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور اکرم  ﷺ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر ہادی ،نبی تشریف لائے کسی نہ کسی مخصوص قوم ، علاقے اورمخصوص وقت کیلئے مبعوث ہوئے ۔ انہیں ایک مخصوص ذمہ داری دی گئی جسے انہوں نے بطریق احسن نبھایا حضرت نوح علیہ السلام کاتذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے ’’بے شک نوح علیہ السلام کو ان قوم کی طرف بھیجاگیا‘‘( الذاریات) حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد کی طرف بھیجے گئے ’’ قوم عاد کی طرف انکے بھائی ہود آئے ‘‘( الاعراف) صالح علیہ السلام کیلئے کہاگیا(قوم ) ثمود کی طرف انکے بھائی صالح آئے( الاعراف) حضرت شعیب علیہ السلام کے متعلق فرمایاگیا۔ ’’اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب آئے ‘‘(الاعراف)حضرت موسیٰ کا ذکر یوں ہوتاہے ۔’’ ہم نے موسیٰ پرکتاب اتاری اوراسے بنی اسرائیل کیلئے ہدایت بنایا‘‘ (بنی اسرائیل) قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول یوں بیان کیاگیا ہے ’’اور جب عیسٰی ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں‘‘۔ ( الصف ۶۱۔۶) 

ShortClip - ہماری زندگی میں خلوص کب پیدا ہوگا؟

ShortClip - اپنے آپ کو جاننا کیوں ضروری ہے؟

جمعرات، 15 اپریل، 2021

Para-03 . کیا ہم بھٹک گئے ہیں

ShortClip - اخلاص کیا ہے؟

Humain Andheray Kyoon Pasand Hain?-ہمیں اندھیرے کیوں پسند ہیں؟

صبر

 

صبر 

 صبر کا معنی ہے : کسی چیز کو تنگی میں روکنا ، نیز کہتے ہیں کہ نفس کو عقل اورشریعت کے تقاضوں کے مطابق روکنا صبر ہے۔ مختلف مواقع اورمحل استعمال کے اعتبار سے صبر کے مختلف معانی ہیں، مصیبت کے وقت نفس کے ضبط کرنے کو صبر کہتے ہیں ، اس کے مقابلہ میں جزع اوربے قراری ہے اورجنگ میں نفس کے ثابت قدم رہنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں بزدلی ہے، حرام کاموں کی تحریک کے وقت حرام کاموں سے رکنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں فسق ہے، عبادت میں مشقت جھیلنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں معصیت ہے ، قلیل روزی پر قناعت کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں حرص ہے ، دوسروں کی ایذارسانی برداشت کرنے کوبھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں انتقام ہے۔ 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر کی تین قسمیں ہیں ، مصیبت پر صبر کرنا، اطاعت پر صبر کرنا اور معصیت سے صبر کرنا۔(دیلمی )

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہواتھا، آپ نے فرمایا : اے بیٹے ! کیا میں تم کو ایسے کلمات نہ سکھائوں جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں نفع دے ، میں نے کہا: کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : اللہ کو یاد رکھو ، اللہ تمہیں یاد رکھے گا اللہ کو یاد رکھو تم اس کو اپنے سامنے پائو گے ، اللہ تعالیٰ کو آسانی میں یادرکھو وہ تم کو مشکل میں یادرکھے گا، اورجان لو کہ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے وہ تم سے ٹلنے والی نہیں تھی اورجو مصیبت تم سے ٹل گئی ہے وہ تمہیں پہنچنے والی نہیں تھی اوراللہ نے تمہیں جس چیز کے دینے کا ارادہ نہیں کیا تمام مخلوق بھی جمع ہوکر تمہیں وہ چیز نہیں دے سکتی اورجو چیز اللہ تمہیں دینا چاہے تو سب مل کر اس کو روک نہیں سکتے قیامت تک کی تمام باتیں لکھ کر قلم خشک ہوگیا ہے ، جب تم سوال کرو تو اللہ سے کرو اورجب تم مدد چاہو تو اللہ سے چاہو اورجب تم کسی کا دامن پکڑ وتو اللہ کا دامن پکڑواورشکر کرتے ہوئے اللہ کے لیے عمل کرو اورجان لو کہ ناگوار چیز پر صبر کرنے میں خیر کثیر ہے اورصبر کے ساتھ نصرت ہے اورتکلیف کے ساتھ کشادگی ہے اورمشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ حضرت ابوالحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے خوشی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بہ قدر حاجت رزق دیا اوراس نے اس پر صبر کیا ۔(امام بیہقی )

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو مسلمان لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اوران کی ایذاء پر صبر کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے مل جل کر نہیں رہتا اوران کی ایذاء پر صبر نہیں کرتا۔(امام بخاری ، ترمذی ، ابن ماجہ )


اتوار، 11 اپریل، 2021

Para-03 . کیا دین پر عمل کرنا واقعی بہت مشکل ہے

Kya Humain Andheron Main Rehna Pasand Hay?کیا ہمیں اندھیروں میں رہنا پسن...

اخلاص نیت (۳)

 

اخلاص نیت (۳)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ایک ایسے شخص کیخلاف فیصلہ سنایا جائیگا، جس نے شہادت پائی ہوگی، اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرکیا جائیگا ۔ خدا اسے اپنی تمام نعمتیں یاد دلائے گا‘ وہ انہیں تسلیم کریگا۔ تب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے میری نعمت کے بدلے کیا کام کیا؟ وہ عرض کریگا‘ میں نے تیری خوشنودی کی خاطر جہاد کیا، یہاں تک اپنی جان قربان کردی۔ خدا اس سے کہے گا تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی، تو نے صرف اس لیے لڑائی میں حصہ لیاکہ لوگ تجھے بہادر اور شجاع تسلیم کرلیں۔ سو دنیا میں تجھے اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہو گا اس (نامراد) کو منہ کے بل گھسیٹے لے جائو اور جہنم میں ڈال دو۔ پھر ایک اورشخص کو خدا کی عدالت میں پیش کیا جائیگا جو دین کا عالم و متعلم ہوگا۔ خدا اسے اپنے انعامات یاد دلائے گا‘ وہ انہیں تسلیم کریگا۔ تب اس سے کہے گا‘ ان نعمتوں کویاد کرکے تونے کیا عمل کیے۔ وہ عرض کریگا‘ اے پروردگار، میں نے تیری خاطر دین سیکھا اور تیری خاطر دوسروں کو اسکی تعلیم دی اور تیری خاطر درس قرآن دیا۔ اللہ فرمائے گا‘ تم نے جھوٹ کہا تم نے تو اس لیے علم سیکھا تھاکہ لوگ تمہیں عالم کہیں اور قرآن مجید کا درس محض اس لیے دیتے رہے کہ یہ قرآن کا قاری ہے (اور اسکے رموز سے آشنا ہے) سو تمہیں دنیا میں اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو جہنم میں پھینک دو۔ تیسرا آدمی وہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مال ومنال اور آسودگی سے شاد کام کیا ہوگا۔ ایسے شخص کو بارگاہ ربوبیت میں پیش کیا جائیگا۔ اللہ اسے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے مطلع کریگا‘ وہ اقرار کریگا کہ یہ سب نعمتیں اسے دی گئیں۔ تب اس سے سوال ہو گا کہ تو نے ان نعمتوں کا کیا کیا۔ وہ جواب میں کہے گا۔ وہ تمام راستے جن پر خرچ کرنا تجھے پسند تھا میں نے ان سب راستوں پر تیری خوشنودی کی خاطر خرچ کرنا (کبھی) ترک نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا‘ تو نے جھوٹ کہا، یہ سارا مال تو نے اس لیے لٹا دیا کہ لوگ سخی کہیں سو تجھے دنیا میں یہ لقب مل گیا (اب آخرت میں تیرا کوئی حصہ نہیں) پھر حکم ہوگا کہ اسے (بھی) چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو‘ سو اسے بھی جہنم رسید کردیا جائیگا (مسلم شریف)۔ بیان کردہ روایات اسلامی ماحول اور معاشرے میں حسن نیت اور اخلاص کی فضاء پیدا کرنے کی تلقین کرتی ہیں بلکہ اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ مومن جہاں بھی ہو اسکے ہر کام کی غرض محض اور محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیے۔ دنیا کی شہرت، نیک نامی، صلہ و ستائش عارضی اور فانی چیزیں ہیں جن کی بازار ِ آخرت میں کوئی قدر و قیمت نہیں۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1714 ( Surah Qaf Ayat 23 - 26 Part-2 ) درس قر...

Shortclip Pashto - انسان دنیا میں کیوں آیا ہے؟

ہفتہ، 10 اپریل، 2021

Para-03 . کیا ہماری بخشش ممکن ہے

اللہ تعالیٰ نے کیا انسان کو دنیا میں سیروتفریح کے لئے بجھوایا ہے؟

ShortClip - کیا ہمیں اللہ تعالٰی نے فضول (معاذ اللہ) بنایا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1713 ( Surah Qaf Ayat 23 - 26 Part-1 ) درس قر...

اخلاص نیت (۲)

 

اخلاص نیت (۲)

حضرت ابو ہریرہ بن عبد الرحمن بن صحر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایااللہ تعالیٰ نہ تمہارے جسموں کودیکھتاہے اورنہ ہی تمہاری صورتوں کو بلکہ وہ تمہارے دلوں ( کے اخلاص ) کو دیکھتاہے (مسلم ) حضرت ابو موسیٰ عبداللہ قیس اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : حضوراکرم ؐ سے پوچھاگیاکہ ایک شخص بہادری دکھانے کی غرض سے جنگ کرتاہے ۔ ایک حمیت اور غیرت کے اظہار کیلئے لڑتا ہے اورایک وہ ہے جو محض دکھلاوے کی خاطر جنگ کرتاہے یارسول اللہؐ !ان میں سے کس کی جنگ اللہ کی راہ میں ہے ؟ حضور انور ؐ نے فرمایا: جو اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ کاکلمہ (یعنی اس کادین ) سربلندہو ، سو اسی کی جنگ اللہ کی راہ میں ہے (بخاری ومسلم) حضرت ابوبکر ہ نفیع بن حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا : جب دومسلمان اپنی تلواروں سے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ۔میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ قاتل کاجہنم میں جانا تو سمجھ میں آتاہے لیکن مقتول (کاکیاقصور) اور اس کیلئے یہ حکم کیسے ؟ارشاد ہوا وہ بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرناچاہتاتھا( اس کابس نہ چلااور دوسرے کوپہلے موقع مل گیاگھرسے تو وہ بھی تو فساد اورقتل کی نیت سے ہی نکلاتھا( بخاری ومسلم) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپؐ جس وقت مجھے یمن کے علاقے میں بھیج رہے تھے میں نے گزارش کی اے اللہ کے رسول مجھے کچھ نصیحت فرمایئے آپ نے فرمایااپنی نیت کو ہرکھوٹ سے پاک رکھو جو عمل کرو خدا کی خوشنودی کیلئے کرو ،تو تھوڑا عمل بھی تمہاری نجات کے لیے کافی ہوگا ( الترغیب والترہیب )حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ رسول اللہؐ نے فرمایا باجماعت نماز ادا کرنے سے بازار یاگھر میں نماز ادا کرنے کی نسبت تیئس (23) سے تیس (30) گنا تک ثواب زیادہ ملتاہے ۔ اور یہ اس لیے کہ جب ایک شخص وضوکرتاہے ، پھرمسجد میں آ جاتاہے اوراس کی نیت صرف نماز اداکرنے کی ہوتی ہے وہ صرف نماز ہی کیلئے اُٹھتاہے وہ ( مسجد کی طرف ) جوقدم بھی اُٹھاتاہے اُ س کاایک درجہ بلند کردیاجاتاہے اور ایک گناہ معاف کردیاجاتاہے ۔یہاں تک کہ وہ مسجد میں پہنچ جاتاہے ۔اورجب وہ مسجد میں داخل ہوجاتاہے توجب تک نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتاہے (گویا کہ عنداللہ ) نماز میں ہی ہوتاہے تم میں سے کوئی شخص جب تک اس جگہ پر بیٹھارہتاہے ۔ جہاں اس نے نماز اداکی فرشتے اس پر سلام بھیجتے رہتے ہیں اورکہتے ہیں اللہ اس پررحم فرمااے اللہ اس کو بخش دے اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما( اور یہ سلسلہ جاری رہتاہے ) یہاں تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے یاوہ کسی کوتکلیف نہ دے (بخاری ومسلم )

جمعہ، 9 اپریل، 2021

Allah TAllah Nay Insaan Ko Kyoon Paida Farmaya? اللہ تعالیٰ نے انسان کو ...

Para-03 . کیا ہم یقین رکھتے ہیں قرآن اور اپنے رسول پر

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1712 ( Surah Qaf Ayat 22 ) درس قرآن سُوۡرَةُ قٓ

ShortClip - یقین کے مراحل

اخلاص نیت (۱)

 

اخلاص نیت (۱)

فرمان خداوندی ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے حضور (قربانیوں) کے گوشت اور انکے خون نہیں پہنچتے البتہ اسکے حضور تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچ جاتاہے۔ (الحج ۳۷) (اے پیغمبر) کہہ دیجئے جوکچھ تمہارے سینوں میں ہے تم اسے چھپائو یا ظاہرکرو‘ اللہ تعالیٰ اسے (اچھی طرح) جانتا ہے۔ (آل عمران ۲۹) حالانکہ نہیں حکم دیا گیا تھا انہیں مگر یہ کہ دین کواس کیلئے خالص کرتے ہوئے بالکل یک سو ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور نماز قائم کرتے رہیں اور زکوۃ ادا کرتے رہیں اور یہی دین نہایت سچاہے (البینہ آیۃ۵) امیرالمومنین حضرت عمر ابن خطاب سے مروی ہے‘ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ نے فرمایا ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ پس جوشخص اللہ اور اسکے رسول کیلئے ہجرت کی نیت کرے تو اسکی ہجرت اللہ اور اسکے رسول کی طرف ہوگی اور جس شخص کی ہجرت دنیاکی طرف ہوکہ اسے حاصل کرے یا کسی عورت کی نیت سے ہو کہ اس سے نکاح کرے تو اسکی ہجرت اسی طرف ہے جہاں کی اس نے نیت کی ہے۔ (بخاری ومسلم) مذکورہ بالا حدیث مبارکہ تعلیمات اسلامیہ میں بڑی اہمیت کی حامل حدیث ہے۔ بہت سے محدثین نے مجموعہ احادیث کا آغاز حصول ِ برکت کیلئے اس حدیث پاک سے کیا ہے تاکہ انکے کام میں اخلاص پیدا ہو اور انکی تمام محنت و مشقت کا قبلہ درست سمت میں رہے۔ اس حدیث مبارکہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ حضور اکرم  ﷺ اور آپکے صحابہ کرام کو مکہ معظمہ سے ہجرت کاحکم ہوگیا سب نے نہایت اخلاص و آمادگی سے اپنے جنم بھومی کو چھوڑ دیا، اپنے عزیزو اقارب کو خیر آباد کہہ دیا، اپنے اپنے کاروبار اور دیگر مفادات سے دست کش ہوگئے اور محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک دوسرے شہر کی طرف چل پڑے جہاں امکانات کی ایک نئی دنیا انکی منتظر تھی، اسی زمانے میں مکہ کے مسلمانوں میں ایک صاحب ایسے تھے جن کے رشتے کی بات چیت مدینہ منورہ (اُس وقت یثرب) میں قیام پذیر ایک خاتون سے چل رہی تھی جس کانام اُمِ قُبیس تھا۔ اُ مِ قُبیس نے یہ شرط عائد کردی کہ آپ ہجرت کرکے یہاں آجائیں تو میں آپ سے شادی کرلوں گی۔ انہوں نے اس شرط کو قبول کرلیا اور مدینہ منورہ منتقل ہو گئے اور وہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ صحابہ کرام ازرہ خوش طبعی انہیں ’’مہاجرام قبیس‘‘ کہہ کر پکارتے اور کہتے ہماری ہجرت تو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کیلئے تھی جبکہ آپ کی ہجرت اُمِ قبیس کیلئے، اس لیے آپ تو ٹھہرے ’’مہاجرام قبیس‘‘ انہیں یہ بات پسند نہ آتی۔ معاملہ جناب رسول اللہ  ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا آپ نے تمام احوال سن کر جو تاریخی ارشاد فرمایا وہ مدار دین و ایمان بن گیا۔

Para-03 - کیا ہم نے دنیا کے سامنے سر جھکا دیا ہے

جمعرات، 8 اپریل، 2021

Taqwa Kissay Kehtay Hain? تقویٰ کسے کہتے ہیں؟

ShortClip - یقین کیسے پختہ کریں؟

گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۱)

 

گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۱)

(۱)حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے سوال کیا گیا۔کونسا عمل افضل ہے آپ نے ارشاد فرمایا اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا اس کے بعدفرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔پوچھا گیا پھر کونسا ارشاد ہوا وہ حج جس میں کسی گنا ہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔(بخاری شریف)(۲)حضر ت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا ۔کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ فرمایا نماز جو وقت پر اداکی گئی ہو۔گزارش کی، اسکے بعد فرمایا والدین سے بھلائی۔ پوچھاگیا اسکے بعد؟ ارشاد ہو اجہاد فی سبیل اللہ ۔ (بخاری)(۳)حضرت معاذ ؓسے روایت ہے۔ میں نے جناب رسالت مآب سے عرض کیا ، یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے اور دوزخ سے دور کردے ۔آپ نے فرمایا :تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے لیکن یہ اُس شخص پر آسان بھی ہے جس پر اللہ (اپنی توفیق سے) آسان کردے (وہ عمل یہ ہے کہ )تو اللہ تعالیٰ کی بندگی کرے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور نماز قائم کر ے۔زکوٰۃ ادا کرے ، رمضان المبارک کے روزے رکھے اور بیت اللہ شریف کا حج کرے۔(مشکوۃ) (۴)حضر ت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ  ﷺکے دست اقدس پر ان باتوں پر بیعت کی،(۱)نماز کی پابندی(۲)زکوٰۃ کی ادائیگی (۳) اور ہر مسلمان سے خیر خواہی۔(مسلم) (۵)حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے، رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا ۔پانچ نماز یں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بندوں پر فرض کیں جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت پر نماز یں پڑھیں اور رکوع وخشوع کو پورا کیا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے (ذمہ کرم پر ) یہ عہد کرلیا ہے کہ اسے بخش دے اور جس نے ایسا نہیں کیا اس کے لیے (کوئی ) عہد نہیں ، چاہے تو اسے بخش دے اور چاہے تو اسے عذاب کرے (ابوداؤد)(۶)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا ، اگر کسی کے گھر کے سامنے کوئی صاف شفاف نہر جاری ہو اور وہ (دن میں )پانچ بار اس میں غسل کرتا ہو تو کیا اس کے بد ن پر کوئی میل کچیل رہ سکتا ہے ۔سب نے عرض کی نہیں رہے گا۔فرمایا یہی مثال پانچوں وقت نمازوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (کے ذریعے ) سے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ (مشکوۃ) (۷)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا جماعت سے نماز اداکرنے کا ثواب بازار اور گھر میں نماز ادا کرنے سے پچیس درجہ زیادہ ہے(مسلم) 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1711 ( Surah Qaf Ayat 20 - 21 ) درس قرآن سُوۡ...

بدھ، 7 اپریل، 2021

Para-03 . قادر مطلق کون ہے

Juram Kab Shoro Hota Hay?جرم کب شروع ہوتا ہے؟

ShortClip - یقین کیسے بڑھائیں؟

حضور اکرم ﷺ کا ایک خطبہ

 

حضور اکرم ﷺ کا ایک خطبہ 

امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ نقل کیا۔ دیکھیے کہ لفظوں کے آبگینوں سے کس طرح عرفانِ ربانی کے سوتے پھوٹ رہے ہیں اور رُوحِ ایمان کو سیراب کر رہے ہیں۔ ’’سب سے سچا کلام اللہ کی کتاب ہے۔ سب سے زیادہ قابل اعتماد چیز تقویٰ ہے۔ بہتر ین ملت ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہے۔ سب سے بہترین طرزِ زندگی محمد رسول اللہ کا طرزِ زندگی ہے۔ سب سے اشرف بات اللہ رب العزت کا ذکر ہے۔ سب سے اچھا قصہ قرآن ہے۔ بہترین کام وہ ہیں جو قرآن وحدیث سے ثابت ہوں اور بدترین کام بدعات (نئی اور بے اصل باتیں) ہیں۔ سب سے بہتر طریقہ انبیاء کا ہے اور سب سے عزت کی موت شہادت ہے۔ بدترین بے بصیرتی ہدایت کے بعد گمراہی ہے۔ بہترین عمل وہ ہے جو (دنیاو آخرت میں) نفع بخش ہو اور بہترین ہدایت وہ ہے جس کی پیروی کی جائے، بدترین اندھاپن دل کی بے بصری ہے۔ اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے۔ تھوڑی چیز سے کفایت ہو جائے تو وہ اس وافر سے بہتر ہے جو غفلت پیداکرے۔ بدترین معذرت موت کے وقت کی معذرت ہے اور بدترین نِدامت یومِ آخرت کی ندامت ہے بعض لوگ جمعہ کو (نماز کیلئے) دیر سے آتے ہیں (اسکے باوجود بھی) انکے دل پیچھے (کاروبار میں) لگے ہوتے ہیں۔ سب گناہوں سے بڑاگناہ جھوٹی زبان ہے اور بہترین تونگری دل کی بے نیازی ہے۔ بہترین توشہ تقویٰ ہے۔ دانائی کی بنیاد خدا کا خوف ہے۔ دلنشین باتوں میں بہترین چیز (خدا پر) یقین ہے۔ شک کفر کی ایک شاخ ہے۔ نوحہ جاہلیت کا کام ہے۔ مالِ غنیمت (سرکاری اموال واملاک) میں چوری جہنم کا ایندھن ہے۔ شراب کی بدمستی گناہوں کا ذخیرہ ہے۔ (بے ہودہ) شعر ابلیس کا حصہ ہے۔ بدترین غذا یتیم کا مال ہے۔ سعادت مند وہ ہے جو نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو شقی ہے۔ مومن کو گالی دینا فسق ہے، اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے اور اسکی غیبت کرنا نافرمانی ہے، اسکے مال کی حرمت اسکے خون کی حرمت کی طرح ہے۔ جو کسی کا عیب چھپاتا ہے، خدا اسکے عیب چھپاتا ہے۔ جو (خلق کو) معافی دیتاہے۔ اسے (خالق کی طرف سے) معافی دی جاتی ہے۔ جو غصے کو پی جاتا ہے خدا اسے اجر دیتا ہے۔ جو چغلی کو پھیلاتا ہے خدا اسکی رسوائی کو عام کر دیتا ہے۔ جوصبر کرتاہے ،خدا اسے ترقی دیتا ہے۔ جو بلاضرورت قسمیں کھاتا ہے۔ اللہ اسے جھوٹا کر دیتا ہے اور جو شخص (سچے دل سے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے) اللہ اس سے درگزرکرتا ہے۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1710 ( Surah Qaf Ayat 19 ) درس قرآن سُوۡرَةُ قٓ

منگل، 6 اپریل، 2021

Khatta Kya Hay? - خطا کیا ہے؟

Para-03 - کیا مشرک کی بخشش ہوجائے گی

ShortClip - کیا ہم غافل ہیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1709 ( Surah Qaf Ayat 16 -18 ) درس قرآن سُوۡر...

قوم ثمود اور اس کا انجام(۶)

 

قوم ثمود اور اس کا انجام(۶)

آلِ ثمود جب واضع معجزات اورعذاب کے آثار وعلامات دیکھ کربھی تائب نہ ہوئے، توپھر آخر کار اللہ رب العزت کے عذاب نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا، آسمان سے ایک ہولناک چنگھاڑ سنائی دی، زمین پر خوفناک زلزلہ برپا ہوگیا، اس آواز سے انکے جگر پھٹ گئے اورپتے پانی ہوگئے، زلزلے نے انکے فلک بوس اورسنگلاخ محلات کو ایک پل میں ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ اس عذاب کے دوران بھی اللہ قادروقیوم نے حضرت صالح  ؑاورانکے پیروکار وں کو محفوظ رکھا، جب ثمود تباہ وبرباد ہوگئے تو حضرت صالح اورانکے پیروکاروں نے سکونت کا کیا راستہ اختیار کیا اسکے بارے میں مؤرخین کی آراء میں اختلاف ہے، عام مؤرخین کی رائے یہ ہے کہ وہ انہی بستیوں میں آباد رہے، خازن کہتے ہیں ، وہ فلسطین کے علاقہ رملہ کے قریب آباد ہوئے، یہ جگہ سرسبزوشاداب بھی تھی اورحجر کے قریب بھی، دوسری رائے یہ ہے کہ وہ اپنے اصلی وطن حضر موت کی طرف لوٹ گئے، یہاں ایک مرقد کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قبر ہے، سید آلوسی کا کہنا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں تشریف لے آئے، وہاں مقیم رہے اوروہیں مدفون ہوئے ، ممکن ہے کہ ان کی قوم کے افراد مختلف اطراف وجوانب میں چلے گئے ہوں۔ 
غزوہ تبوک کے موقع حضور اکرم ﷺکا گزر آل ثمود کے علاقے سے ہوا، صحابہ کرام نے وہاں کے کنویں سے پانی بھرااورآٹاگوندکر روٹیاں تیار کرنے لگے، آپ کو اطلاع ہوئی توآپ نے پانی بہا دینے ، ہانڈیاں اوندھی کردینے اورآٹا پھینک دینے کا حکم دیا، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺکی معیت میں حجر سے گزرے تو آپ نے فرمایا ’’جن لوگوں نے اپنی جان پر ظلم کیا، انکے گھروں کے پاس سے روئے بغیر نہ گزرنا ، کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نہ آجائے۔پھر آپ نے اپنی اونٹنی کو تیزی سے ڈورایا اوراس مقام کو پیچھے چھوڑدیا۔(بخاری ، مسلم)
جابر بن عبداللہ ؓسے بیان ہے کہ آپ نے فرمایا نشانیوں کا سوال نہ کرنا کیونکہ صالح علیہ السلام کی قوم نے نشانیوں کا سوال کیا تھا، وہ اس راستہ سے آتے تھے اوراس راستہ سے لوٹتے تھے، انہوںنے اپنے رب کی حکم عدولی کی، انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں، وہ ایک دن پانی پیتی اورقوم ایک دن اس کا دودھ پیتی ، انہوں نے اسکی کونچیں کاٹ دیں تو ایک ہولناک آواز نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا، ایک شخص کے علاوہ سب ہلاک ہوگئے، وہ شخص ابورغال اس وقت حدود حرم میں تھا، جب حرم سے باہر آیا تو وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ (احمد ، مجمع الزوائد)
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم سفر طائف میں ایک قبر کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا یہ ابورغال کی قبر ہے، اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے ساتھ سونے کی ایک شاخ دفن ہے،تم اسے کھودو گے تو اسے پالوگے، لوگوں نے قبر کھود کر وہ شاخ نکال لی۔ (سنن ابودائود)

Para-03 . ہمارے پاس جو کچھ ہے کیا اس کا مالک اللہ تعالی ہے

پیر، 5 اپریل، 2021

اللہ تعالٰی کے راستے پر خطا کب ممکن ہے اور اُس سے بچا کیسے جائے؟

ShortClip - انسان کی حقیقت

قوم ثمود اور اس کا انجام(۵)

 

قوم ثمود اور اس کا انجام(۵)

حضرت صالح علیہ السلام کو خبر ہوئی کہ قوم ثمود نے ان کی تنبیہ کے بالکل برعکس اونٹنی کو ہلاک کردیا ہے، توآپ نے انھیں مطلع کیا کہ اب اللہ کا عذاب تمہارے بالکل قریب آگیا ہے ’’بس تم اپنے گھروں میں (عیش سامانیوں سے )تین دن اورلطف اندوز ہولو، یہ ایسا وعدہ ہے کہ جھوٹا نہ ہوگا‘‘(۱۲/۶)حضرت صالح علیہ السلام نے انھیں مطلع فرمایا کہ اب تمہیں اپنے میں سامانِ عیش وعشرت سے تین دن ہی نفع حاصل کرنا ہے اوراس کے بعد تم عذاب میں مبتلا ہوجائوگے تو انھوں نے اس بات کا بھی مذاق اڑایا اوراستفسار کیا کہ یہ تین دن ہم پر کیسے گزریں گے، آپ نے فرمایا : پہلے دن تمہارے چہرے زرد رنگ کے ہوجائیں گے، دوسرے دن ان کا رنگ سرخ ہوجائے گا ، تیسرے دن (نحوست پوری طرح عیاں ہوجائے گی)اوروہ سیاہ ہوجائیں گے اورچوتھے دن تم پرعذاب آجائے گا۔اگرچہ چہرے سیاہ ہوجانے پر انھیں عذاب کا یقین آچکا تھا، لیکن ابھی تک وہ تذبذب کا شکار تھے ، انھیں ایمان اورتوبہ کی توفیق نہیں ہوئی اورجب یقین ہوگیا تو اب تو بہ کرتے بھی تو اس کا کوئی نفع نہ ہوتا، کیونکہ ناامیدی کی حالت میں توبہ اورایمان قبول نہیں ہوتے ۔(تفسیر کبیر امام رازی)ایک طرف تو عذاب کے آثار شروع ہوچکے تھے، لیکن ان میں سے بعض افراد کی شرانگیزی کا یہ عالم تھا کہ وہ اس عالم میں بھی حضرت صالح علیہ السلام اورآپ کے اہل خانہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ قرآن پاک میں ہے’’اوراس شہر میں نو ایسے افراد تھے جو فتنہ وفساد کے خوگر تھے، اوروہ اس خطے میں اصلاح کی کوئی کوشش نہیں کرتے تھے، انہوں نے کہا : آئو اللہ کی قسم کھا کر یہ عہد کریں کہ شب خون مارکر صالح علیہ السلام اوران کے اہل خانہ کو ہلاک کردیں گے،پھر ان کے وارثوں سے کہہ دی گے کہ جب انھیں ہلاک کیاگیا (اس وقت) ہم تو (سرے سے علاقے میں )موجود ہی نہ تھے، یقین کرو ہم بالکل سچ کہہ رہے ہیں،اورجب انہوں نے یہ سازش کی تو ہم نے بھی اپنی تدبیر کی اوروہ ہماری تدبیر کو سمجھ ہی نہ سکے‘‘(ہود ۱۲/۶)علامہ قرطبی نے تصریح کی ہے کہ انھوں نے یہ سازش اونٹنی کی ہلاکت کے بعد کی، بجائے اس کے ،کہ وہ نادم ہوتے ، اپنے گناہ کی معافی مانگتے وہ الٹامزید سرکشی پر اتر آئے۔جس رات انھوں نے حضرت صالح علیہ السلام کے مکان پر شب خون مارنے کا پروگرام بنایا، اللہ رب العزت نے اپنے ملائکہ کو اس کی حفاظت کے لیے بھیج دیا ، جب وہ تلواریں سونت کرآپ کی رہائش گاہ کے قریب ہوئے تو فرشتوں نے ان پر پتھرائو شروع کردیا، ان پتھروں نے ان سرکش افراد کو ہلاک کردیا، یہ مہلت کی آخری رات تھی، اس کے ساتھ ہی باقی قوم کی ہلاکت کا عمل بھی شروع ہوگیا۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1708 ( Surah Qaf Ayat 14 -15 ) درس قرآن سُوۡر...

اتوار، 4 اپریل، 2021

Para-03.کیا ہمارا دل گناہ گار ہے

Kya Waris-e-Nabi Humari Mohabat Kay Qabil Hay? کیا وارث نبی ہماری محبت ک...

Shortclip - انسان کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1707 ( Surah Qaf Ayat 12 - 13 ) درس قرآن سُوۡ...

قوم ثمود اور اس کا انجام(۴)

 

قوم ثمود اور اس کا انجام(۴)

جب حضرت صالح علیہ السلام کی دعا سے چٹان سے ایک ایسی اونٹنی نکل آئی جو ان کی قوم کے طلب کردہ اوصاف و شرائط کے مطابق تھی،تو بہت سے لوگوں نے اس معجزہ کی حقانیت کو جان لیا اوراللہ کی وحدانیت اور آپ کی دعوت پر ایمان لے آئے،لیکن اکثریت اب بھی کفرو سر کشی پر قائم رہی ،حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو تنبیہ فرمائی کہ دیکھنا یہ ’’نا قتہ اللہ‘‘ ہے، یعنی اللہ کی اونٹنی ،جو تمہارے لیے اللہ کی طرف سے دلیل اور نشانی بن کر آئی ہے ۔اب اس کا دھیان رکھنااور اسے کوئی ضرر پہنچانے کی کوشش نہ کرنا،یہ اللہ کی زمین پر جہاں چاہے گی چرے گی ،اور جس دن یہ تمہارے ذخیرہ آب سے پانی پیے گی تم اور تمہارے جانور اس دن اس کنویں سے پانی نہیں لیں گے ۔

سو! اس طرح ہوا،وہ اونٹنی جہاں جی چاہتاچرنے کے لیے چلی جاتی،وہ وادی کہ جس حصے کا رخ کرتی وہاں کے جانور اس کی ہیبت سے بدک کر دوسری طرف چلے جاتے ،جس دن وہ پانی پینے کے لیے جاتی تو کنویں کا سارا پانی پی لیتی، ثمود اپنی باری پر اگلے دن پانی پیتے اور اپنے آئندہ دن کی ضروریات کے لیے پانی جمع کرلیتے،یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس اونٹنی میں (بطور معجزہ)دودھ کی ایسی فراوانی ہوتی کہ لوگ بڑی کثرت سے اس سے سیر ہوا کرتے۔

ایک عرصہ تک تو یہ سلسلہ چلتا رہا،لیکن پھر شیطان نے ان کو فتنے میں مبتلا کر دیا،یہ معجزہ انھوں نے خود طلب کیا تھا،اب انھیں اپنے وعدے کے مطابق ایمان لانا تھا،یا پھر حضرت صالح علیہ السلام کی تنبیہ کے مطابق احتیاط کرنی تھی ،لیکن وہ اس پابندی اُکتانے لگے،اور اس سے فرار کی ترکیب سوچنے لگے،ان کا ایک رئیس جس کا نام قیدار بن سلف بن جندع تھا،آنکھیں نیلی ، رنگ سرخ،اور لوگوں میں اس کے بد الاصل ہونے کی بھی شہرت تھی،اس نے سب کے مشورہ سے اس کی ٹانگیں کاٹ کر اسے ہلاک کر دیا۔(ابن کثیر)امام ابن جریر کہتے ہیں کہ ثمودپانی کی اس تقسیم سے تنگ آ گئے تھے اور تمام لوگ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن اس اونٹنی کو قتل کرنے اور کوئی ضرر پہنچانے سے خوف زدہ بھی تھے ،تب صدوق نامی ایک حسین اور مالدار خاتون نے یہ رسک لیا،اس نے مصدع اور قیدار نامی دو افراد کے سامنے یہ پیش کش کی کہ اگر تم اس اونٹنی کو ہلاک کر دو تو میں خود کو بھی اور ایک اور حسین دوشیزہ کو بھی، تمہاری عیش کوشی کے لیے ہبہ کر دوں گی،آخر یہ طے ہو گیاکہ وہ راستے میں چھپ کر بیٹھ جائیں گے اور جب اونٹنی چراگاہ کی طرف جائے گی تواس کو ہلاک کر دیں گے ،سات اور افراد ان کی سازش میں شریک ہو گئے۔ 


ہفتہ، 3 اپریل، 2021

Para-03. قرض لین دین کے آداب

ShortClip-ہم بد حال کیوں ہیں؟

Allah Tallah Say Mohabat Ka Rasta - اللہ تعالیٰ سے محبت کا راستہ

قوم ثمود اور اس کا انجام(۲)

 

قوم ثمود اور اس کا انجام(۲)

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ثمود توحید کے پیغام کو اور اس پیغام کی نافرمانی کی وجہ سے قوم عاد کے انجام کو بھولتے چلے گئے، نعمتوں کی فراوانی نے ان کے قلوب و اذہان پر غفلت کے قفل اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، خدائے احد ویکتا کی جگہ بت پرستی نے لے لی اور یہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو پوجنے لگے۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف مبعوث فرمایا۔حافظ حدیث حضرت امام بغویؒ نے آپ کا شجرہ نسب اس طرح بیان کیا ہے:۔صالح بن عبید بن آسف بن ماشح بن عبید بن عاد بن ثمود،انکے زمانے کا حتمی تعین تونہیں ہو سکالیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت سے بہت پہلے کے پیغمبر ہیں ۔قرآن پاک میں آٹھ مقامات پر ان کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔جبکہ قوم ثمود اور اسکے احوال کا تذکرہ ۹ مختلف سورتوں میں موجود ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کے ایک بر گزیدہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،اور اپنی صلا حیتوں کے اعتبار سے معاشرے میں نمایاں مقام کے حامل تھے ، حضرت صالح علیہ السلام نے نہایت خلوص اورجانفشانی سے اپنی قوم کو درس ہدایت دینا شروع کر دیا،اور انھیں یہ احساس دلایا کہ نعمتوں کی فراوانی نے تمہیں کج رو بنا دیا ہے اور تمہاری آنکھوں پرغفلت کے پردے پڑ گئے ہیں،تمہا رے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے یہ پتھرکے بت تمہارے کارساز نہیں بلکہ اللہ وحدہٗ لا شریک ہی تمہاری تمام ضرورتوں کا کفیل ہے،ایک مختصرسی جماعت نے آپکی اس دعوت پر کا ن دھرا،اُسکی معنویت پر دھیان دیااور اسے سمجھنے کے بعد اس پر ایمان لے آئے۔لیکن قوم کے سردار ان کے بڑے بڑے سرمایا دار اور تونگر اپنی باطل پرستی پر اڑے رہے ۔انھوں نے اللہ کریم کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی بجائے کفران نعمت کو اپنا شعار بنا لیا ، دعوت توحیدپر ایمان لانے کی بجائے اس کا مذاق اڑاتے اورکٹ حجتی کرتے ہوئے کہتے،اے صالح !اگرہم باطل پرست ہوتے ، اورمذہب کے صحیح راستے پر نہ ہوتے تو آج ہمیں یہ دہن دولت ،سیم وزرکی یہ بہتات ،کھیتوں کی یہ ہریالی ،سر سبزوشاداب خوش منظر باغوں کی فراوانی ،پھلوں اور میوہ جات کی یہ کثرت شیریں اور خنک نہریں ،یہ پھلوں سے بھرے مرغزار اور بلند و بالا اور عالی شان محلات کی سکونت نصیب نہ ہوتی،تم ذرااپنی جماعت کی حالت زار کو دیکھوجو تنگ حال اور غربت زدہ ہیں ،بتائو کہ ہم اپنے دیوتائوں کو پیارے ہیں یاتم اپنے خدا کو عزیز ہو۔وہ یہ بھی کہتے ، اے صالح! ہمیں تو تم سے بڑی توقعات تھیں کہ تم اپنی قوم کی روایات کی پاسداری کرو گے اوراُسے مزید ترقی اور کامرانی سے ہمکنار کرو گے لیکن تم نے تو کوئی اورہی راستہ اختیار کرلیا ہے۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1706 ( Surah Qaf Ayat 06 - 11 Part -2 ) درس ق...

جمعہ، 2 اپریل، 2021

Para-03. کیا ہم ناشکرے اور گنہگار لوگ ہیں

Shortclip.دین اصل میں کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1705 ( Surah Qaf Ayat 06 - 11 Part -1 ) درس ق...

قوم ثمود اور اس کا انجام(۱)

 

قوم ثمود اور اس کا انجام(۱)

قرآن کریم نے عبرت پذیری کے لئے کئی ایک سابقہ اقوام کے قصوں کا ذکر کیا ہے ،ان میں سے ایک قوم ثمود ہے،جس کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا ہے ۔قرآن کریم جب گزشتہ گزری ہوئی اقوام کا تذکرہ کرتا ہے تو اس کا مقصود اس قوم کی تاریخ اور اس کی جزئیات بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصود ان کی تاریخ کے اس گوشہ کا بیان ہوتا ہے جس سے آنے والی نسلیں حکمت اور موعظت حاصل کریں ،اورایسے امور کا ارتکاب نہ کریں جو کسی قوم کی تباہی کی وجہ ثابت ہوئے ،ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں، اپنے اعمال پر نظر ثانی کریں اور اپنی اصلاح کے لئے مقدور بھر کوشش کریں ۔قرآن کے دیے ہوئے اشاروں کی روشنی سب مفسرین و مورخین نے امکانی حدتک ان کی تاریخ کے خدوخال واضع کرنے کی کوشش کی ہے اور یوں قرآن کے فیضان سے علم تاریخ اس اندازسے سامنے آیا جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ 
قوم ثمود کاتعلق سامی نسل سے تھا،امام ثعلبی کے نزدیک ان کے جداعلی ثمود کا شجرہ نسب اس طرح ہے،ثمودبن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن حضرت نوح علیہ السلام۔قوم ثمود جو خطہ حضر موت اور یمن سے عراق تک پھیلی ہوئی تھی اورجن کی طرف حضرت ھود علیہ السلام مبعوث کیے گئے،اللہ ذوالجلال والاکرام کی نافرمانی کے نتیجے میں عذاب کا شکار ہو گئی، حضرت ھود علیہ السلام اوران کے مؤحدپیروکارمحفوظ رہے اوروہاںسے ہجرت کرکے حجرمیں آبادہوگئے یہی ’’قوم ثمود‘‘ کہلائے ، حجر ایک میدانی علاقہ ہے، جو حجازاور شام کے درمیان وادیء قریٰ تک ہے ، آجکل ’’فج الناقہ‘‘ــ کے نام سے مشہور ہے۔اس قوم کو اللہ کریم نے خوشحالی اور فراوانی عطا کی، کھیت نہایت زرخیز، باغات سر سبز وشاداب اور میووں سے اٹے ہوئے، شیریں پانی کی نہریں اور عمدہ مرغزار دعوت نظارہ دیتے ہوئے، اس کے ساتھ انہیں عمارت گری کا ہنر عطا ہوا ، سنگلاخ پہاڑوں اور پتھریلی چٹانوں کو تراش کر نہایت خوبصورت،مضبوط اور بلند و بالاعمارتیں تعمیر کرتے۔
ثمود کی بستیوں کے آثار اور ان کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں،اور اس زمانے میں بھی بعض مصری اہل تحقیق نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،ان کا بیان ہے کہ وہ ایک ایسے مکان میں داخل ہوئے،جو شاہی حویلی کہی جاتی ہے اس میں متعدد کمرے ہیں اور اس حویلی کے ساتھ ایک بہت بڑاحوض ہے اور یہ پورا مکان پہاڑ کاٹ کر بنایاگیا ہے۔ عرب کا مشہور مورخ مسعودی لکھتا ہے۔ جوشخص شام سے حجاز آتا ہے، اسکی راہ میں انکے مٹے نشان اور بوسیدہ کھنڈرات پڑتے ہیں (قصص القرآن:سہوھاردی)