منگل، 31 اکتوبر، 2023

Surah Hud ayat 12-14 .کیا ہم نے قران کو چھوڑ دیا ہے

Surah Hud ayat 09-11 Part-02. کیا ہم بے صبرے لوگ ہیں

Shortvideo - Kya humain dunya ka dhoka lag chuka hay?

مشکلات آنے کی وجوہات(۲)

 

مشکلات آنے کی وجوہات(۲)

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مومن کا معاملہ بھی بہت عجیب ہے اس کے تو تمام معاملات میں خیر ہی خیر ہے۔ اور یہ صر ف مومن کی ہی شان ہے۔ اگر اسے نعمت ملے تو وہ شکر کرتا ہے تو یہ اس کے لیے خیر بن جاتی ہے اور اگر اسے مصیبت پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے خیر بن جاتی ہے۔ (ریاض الصالحین)۔اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ مصیبت بندہ مومن کے درجات بلند کرنے کے لیے آتی ہے۔ رسول کریم ﷺنے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب میں کسی بندہ کی آنکھوں کی بینائی لے لوں اوروہ اس آزمائش پر صبر کرے تو میں اسے اس کے بدلے میں جنت عطا کروں گا۔ ( السنن الکبر ی للنسائی )۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایاکہ بندہ مومن کو جو بھی مشکل ، بیماری ، کوئی تکلیف یا پھر کوئی غم و حزن پہنچتا ہے، یہاں تک کہ اگر اسے ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ ( مسند احمد )۔رسول کریم ﷺ نے اس بات کو واضح فرمایا کہ لوگوں پر آنے والی سختیاں اور مشکلات کبھی ان کیلئے عذاب الٰہی بھی ہوتی ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم نیکی کا حکم دیتے رہنا اور برائی سے روکتے رہنا ورنہ اللہ تعالی تم پر اپنی گرفت نازل کر دے گا۔ پھر تم اس سے دعائیں مانگو گے اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہو ں گی۔( ترمذی) 
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا کو فرماتے سنا ہے کہ : جب کسی قوم میں کوئی آدمی گناہ کرتا ہے اور وہ لوگ اس کا رویہ بدلنے پر قادر ہوں مگر نہ بدلیں تو اللہ تعالی ان لوگوں کی موت سے پہلے ان پر اپنا عذاب مسلط کر دیتا ہے۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی )۔حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس بھی قوم میں سود عام ہو جائے اس قوم کو خشک سالی سے پکڑ لیا جاتا ہے اور جس قوم میں رشوت عام ہو جائے اس قوم کو مرعوب کر دیا جاتا ہے۔ ( مسند احمد ) 
مشکلات کے آنے کا سبب صرف ایک نہیں ہوتا بلکہ مشکلات آنے کا تعلق لوگوں کے احوال سے ہو تا ہے۔ اگر نیک لوگوں پر مشکلات آئیں تو وہ ان کے درجات بلندی کا سبب بنتی ہیں اور اگر خطا کار مومنون پر آئیں تو ان کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں اور اگر سر کش لوگوں پر آئیں تو اللہ تعالی کی طرف سے ان پر عذاب ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ مشکلات آزمائش ہیں یا عذاب تو اس کا کیسے پتہ چلے گا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جو مصیبت تجھے اللہ تعالی کے قریب کر دے وہ تیرا امتحان ہے اور جو مصیبت تجھے اللہ تعالی سے دور کر دے وہ تجھ پر اللہ تعالی کا عذاب ہے۔

Surah Hud ayat 09-11 .کیا ہم لوگ ظاہر دنیا کے دھوکے میں بری طرح مبتلا ہیں

Surah Hud ayat 07-08 Part-02.کیا ہم دین اسلام کا عملی طور پر مذاق اڑا رہ...

پیر، 30 اکتوبر، 2023

مشکلات آنے کی وجوہات(۱)


 

 مشکلات آنے کی وجوہات(۱) 

زندگی میں ہر انسان کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ہر انسان کی مشکلات مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں ۔سورة البلد میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ” یقینا ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا“۔اما م نسفی تفسیر المدارک میں لکھتے ہیں کہ انسان کی تخلیق ہی مشقت میں ہوئی وہ دنیا کے مصائب بھی اٹھا تا ہے اور آخرت کی شدتیں بھی سہے گا ۔ آخرت کی مشکلات تو انسان کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہوں گی لیکن دنیا کی مشکلات کبھی انسان کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں اور کبھی اللہ تعالی کا عذاب ہوتی ہیں۔ اور کبھی مشکلات کے ذریعے انسان کی آزمائش ہوتی ہیں اگر انسان اس پر صبر کریں تو اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور اس کے درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہیں ۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : 
” تمہیں اچھے اور بر ے حالات سے آزماتے ہیں اور تم ہماری طرف ہی لوٹا ئے جا ﺅ گے “۔ ( سورة الانبیائ)اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مشکلات اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں ۔ سورة البقرة میں اللہ تعالی فرماتا ہے : ” اور لازمی طور پر ہم تمہیں آزمائیں گے کبھی کسی قدر خوف اور فاقہ میں مبتلا کر کے اور کبھی جان و مال اور پھلوں میں خسارہ کر کے اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجیے ۔“۔
سورة العنکبوت میں اللہ تعالی ایک بستی کا ذکر کرتے ہو ئے فرماتا ہے کہ اس بستی کے لوگ بڑے خوش حال تھے اور ان کے پاس رزق بھی بہت زیادہ تھا لیکن جب انہوں نے اللہ تعالی کی نعمتوں کی نا شکری کی تو اللہ تعالی نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا ۔ ” تو ہم نے ان سب کو گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا تو ان میں سے کچھ وہ تھے جن پر ہم نے پتھراﺅ کرنے والی ہوا بھیجی اور ان میں کچھ وہ تھے جنہیں ایک چنگھاڑ نے آن پکڑا اور کچھ وہ تھے جنہیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ وہ تھے جنہیں ہم نے پانی میں غرق کر دیا اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ ان پر ظلم کرے لیکن یہ لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں ۔ 
ایک اور مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ” لوگوں کے کرتوتوں کے سبب خشکی اور تری میں فساد پھیل گیاتا کہ اللہ تعالی انہیں ان کے کچھ کرتوتوں کا مزہ چکھائے شاید وہ با ز آجائیں “۔ ( سورة الروم ) 
قرآن مجید کے مندرجہ بالا ارشادات کی روشنی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بعض اوقات مشکلات انسان کی اپنی غلطیوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتی ہیں اور بعض اوقات یہ مشکلات اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں ۔ 

اتوار، 29 اکتوبر، 2023

Shortvideo - Kalma-e-tayaba kay taqazay

Surah Hud ayat 7 Part-01.کیا اج ہم بداعمال کرنے میں مصروف ہیں

Surah Hud ayat 6 .کیا ہمارے رزق کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہوا ہے

وحدت نسل انسانی

 

وحدت نسل انسانی

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے پوری دنیا میں وحدت نسل انسانی کا شعور بالکل ختم ہو چکا تھا۔ اور دنیا میں ذات پات کی تقسیم نے انسانیت کو کئی گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے انسانیت کے ایک بہت بڑے طبقے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا تا تھا۔ عرب میں آقا اور غلام کی تفر یق تھی۔غلام انسان ہونے کے باعث عزت و تکریم سے محروم تھے۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو انہوں نے لوگوں میں وحدت نسل انسانی کا شعور اجاگر کیا اور فرمایا کہ اسلام میں آقا اور غلام ، امیر اور غریب ، بادشاہ اور فقیر کی کوئی تقسیم نہیں تما م انسان برا بر ہیں۔
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اللہ تعالی کا پیغام سنایا : ”اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر ہم نے تمہاری برادریاں اور قبیلے بنا دیے تا کہ تمہاری آپس میں پہچان رہے۔ بے شک اللہ تعالی کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے۔ بے شک اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے۔ (سورة الحجرات )۔
جب پوری دنیا رنگ و نسل اورذات پات کی بنیاد پر بٹی ہوئی تھی تب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پیغام دیا کہ کسی عربی کو عجمی پر ، کسی عجمی کو عربی پر ، کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔فضیلت صرف اسی کو حاصل ہے جو اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہو اور پرہیز گاری اور تقوی کا راستہ اختیار کرے۔
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کے صرف دو گروہ ہیں ایک گروہ نیک اور متقی لوگوں کا ہے۔ یہ گروہ اللہ تعالی کے نزدیک بڑا معزز ہے اور ایک گروہ فاجر اور بد بختوں کا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک بے وقعت ہے۔ ( کنزالعمال ) 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات پات کی تقسیم مٹانے کے لیے فتح مکہ کے موقع پر کسی قریش کو نہیں کسی ایک معززسمجھے جانے والے خاندان کے فرد کو نہیں بلکہ حبشہ کے ایک غلام حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم فرمایا۔ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پوپھی زاد بہن حضرت زینب کا نکاح آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ کیا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وحدت نسل انسانی کی تعلیمات ہی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی جب بیت المقدس کو فتح کے سلسلہ میں یروشلم جاتے ہیں تو خود حضرت عمر نے اونٹ کی مہار پکڑی ہوئی ہے اور غلام اونٹ پر سوار ہے۔

ہفتہ، 28 اکتوبر، 2023

Shortvideo - Kalma-e-tayyba ki haqeeqat

Surah Hud ayat 1 Part-04. کیا ہم نے باطل کے سامنے سر جھکا دیا ہے

Surah Hud ayat 1 Part-03.کیا ہم اپنی زندگی فضول گزار رہے ہیں

قناعت و توکل

 

قناعت و توکل

اگر مالی معاملات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو نظر انداز کر دیا جائے تو انسان کی تر جیحات بدل جاتی ہیں جس کی وجہ سے انسان سکون قلب سے محروم ہو جاتا ہے۔جب انسان قناعت سے محروم ہو جاتا ہے تو اس کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رزق کی طلب اور جد و جہد محمود ہے لیکن جب یہ طلب اعتدال کی حد عبور کر لے تو یہ طلب ہوس بن جاتی ہے۔ اور ایسا انسان اپنے لیے اتنے مسائل پیدا کر لیتا ہے کہ قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز اسکے پیٹ کوبھر نہیں سکتی۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر انسان کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اس کے لیے ایک اور وادی ہو اور اس کے منہ کو قبر کی مٹی کے سوا کچھ نہیں بھرتا اور اللہ تعالی رحمت کے ساتھ اسکی طرف توجہ فرماتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ( ترمذی )۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیوی بے رغبتی سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ انسان کے پاس ہے اسے اس پر زیادہ یقین ہونا چاہیے جو اللہ تعالی کے پاس ہے اور اسے جو مشکلات پیش آتی ہیں ان کے اجر پر نظر رکھے اور یقین جانے جو اجر اس کو مشکلات کی وجہ سے ملا ہے اس کا مقابلہ نعمتیں نہیں کر سکتی تھیں۔ جب انسان اپنی کوشش سے بڑھ کر اللہ تعالی پر یقین نہ رکھے اس وقت تک کبھی ہوس سے نجات نہیں پا سکتا اور جب اس کو اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ جس کا میں بندہ ہوں اسی کے دست قدرت میں سارے خزانے ہیں تو اسے سکون قلب کی دولت مل جائے گی۔
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اگر تم اللہ تعالی کی ذات پر اس طرح توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ صبح اس حال میں کرتے ہیں کہ بھوکے ہوتے ہیں اور شام اس حال میں کرتے ہیں کہ سیر ہو چکے ہو تے ہیں۔ ( مسند احمد ) 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ وہ بندہ کامیاب ہو گا جو مسلمان ہو اور اسے ضرورت کے مطابق روزی دی گئی اور اسے اللہ تعالی نے قناعت کی دولت سے نوازا۔ (شعب الایمان اللبہیقی ) 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس بندے نے پر امن حالت میں اپنے گھر میں صبح کی ، اس کا بدن سلامت تھا اور اس کے پاس ضرورت کے لیے روزی تھی تو ایسے ہی ہے کہ اسے پوری دنیا کی دولت مل گئی ہو۔ (ترمذی)

Surah Hud ayat 1 Part-01.کیا ہم بندگی رب سے عملا انکاری ہیں

Shortvideo - Kalma-e-tayyba ki aehmiat

جمعہ، 27 اکتوبر، 2023

حضور سیدنا غوث اعظم رحمة اللہ علیہ (۳)


 

حضور سیدنا غوث اعظم رحمة اللہ علیہ (۳)

صوفیا ءمیں جو مقام و مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کو حاصل ہے وہ کسی اور حاصل نہیں۔ ہر سلسلہ کے صوفیا اور ارادت مندوں میں آپ کی جو عقیدت و محبت پائی جاتی ہے اس کا تصور بھی نہیں۔ اس کی وجہ وہ اخلاص اور للہیت ہے جس سے انہوں نے دین نبوی کی خدمت کی۔ تصوف میں پہلی منزل دین کا علم حاصل کرنا اور بعد میں استقامت کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالی ان کے لیے علم و حکمت کے نئے باب کھول دیتا ہے۔ حضور غوث اعظم قصیدہ غوثیہ میں فرماتے ہیں۔
میں علم پڑھتے پڑھتے قطب ہو گیا اور میں نے خدا وند تعالی کی مدد سے سعادت کو پا لیا۔
حضرت داتا علی ہجویری رحمة اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ” طریقت کے تمام مشائخ اہل علم میں سے ہوئے ہیں ”۔ خود حضرت غوث الا عظم اپنے گھر سے حصول علم کے لیے نکلتے ہیں تو پہلے قدم پر کئی چور ڈاکو تائب ہو جاتے ہیں۔ گویا آپ نے ابتدا ہی میں یہ راز آشکار کر دیا اور اپنے چاہنے والوں کو بتا دیا کہ اللہ تعالی عز ت و کرامت کے دروازے اس وقت کھولتا ہے جب انسان شریعت نبویکے علم کے لیے اخلاص و استقامت کے ساتھ نکلتا ہے۔ حضور غوث اعظم رحمة اللہ تعالی علیہ نے بہت سی کتب بھی لکھیں۔ آپ کی کتب میں دو طرح کی تحریر ملتی ہے۔ (۱) آپ کی تصانیف سے دینی و دنیوی خدمات اور دیگر سر گرمیوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ (۲) وہ کتب جو معتقدین ، مریدین اور متوسلین نے لکھیں۔ آپ کی زندگی کے بہت سے گوشے ان تحریروں سے سمجھ میں آتے ہیں۔ حضور غوث اعظم کے دور میں امت مسلمہ متعدد فتنوں میں گھری ہوئی تھی۔ آپ نے بیک وقت ان سب کا مقابلہ کیا اور کشتی ملت کو بر وقت سہارا دیا۔ ارباب اقتدار کی رسہ کشی ، علما سوءاور ابن الوقت صوفیا ءکی تبلیغ دین سے بے رغبتی ، دنیا اور مسلمانوں کے سیاسی کمزوری کے نتیجے میں جو فتنے پیدا ہوئے حضور غوث اعظم نے ان سب کا مقابلہ کیا اور ان کا علاج بھی تجویز کیا۔ 
حضور غوث اعظم نے اپنے خطبات میں اخلاص ، للہیت اور خشیت الٰہی پر زور دیا ، دنیا کے مقابلے میں آخرت اور آخرت کے مقابلے میں رضا ئے الہی کے طلب کرنے کی تلقین فرمائی۔ اسلامی خلافت کے زوال پذیر ہونے اور مسلمانوں کے سیاسی اور فکری اور معاشرتی لحاظ سے کمزور ہونے کے بعد عسائیت نئے ہتھکنڈوں کے ذریعے اسلام پر حملہ آور ہو رہی تھی اس لیے شیخ نے توحید اور اسلام کی حقانیت پر بہت زیادہ زور دیا اور مسلمانوں کی کامیابی کا راستہ صرف اور صرف صحیح معنوں میں مسلمان بننے پر زور دیا۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے ۱۱ ربیع الثانی ۵۶۱ ہجری کو وصال فرمایا۔

Shortvideo - Imtehan main kamyabi

جمعرات، 26 اکتوبر، 2023

Surah Yunus ayat 108-109.کیا ہم راہ راست سے بھٹک گئے ہیں

حضور سیدنا غوث اعظم رحمة اللہ علیہ (2)

 

 حضور سیدنا غوث اعظم رحمة اللہ علیہ (2)

بغداد شریف پہنچنے کے بعد مدرسہ نظامیہ میں داخلہ لیا۔ آپ نے ہر علم اور اس کے ماہر و باکما ل استاد سے پڑھا۔ علم میں کمال مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ریاضت و عبادت میں بھی مشغول رہے۔ جب آپ علوم و فنون کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو اس وقت حضرت غوث اعظم جیسا صاحب کمال عالم و فاضل نہ تھا۔ علوم ظاہری حاصل کرنے کے بعد آپ نے سکون قلب حاصل کرنے کے لیے کامل روحانی استاد و عارف کی تلاش شروع کر دی۔ بارگاہ الٰہی میں دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت شیخ حماد بن مسلم سے ملا دیا۔ حضرت شیخ حماد کی صحبت سے ملنے والے فیض نے آپ کے دل میں عشق الٰہی کو خوب بھڑکا دیا۔ اس کے بعد آپ نے محلہ کرخ کے ایک ویران مکان کو چلہ گاہ بنا لیا اور 21 برس تک مسلسل ذکر الٰہی میں مشغول رہے اور دن کو روزہ رکھتے۔ آپ نے حضرت شیخ ابو سعید مخزومی رحمة اللہ علیہ کے دست اقدس پر بیعت کی۔ تزکیہ نفس کی منازل آپ پہلے ہی طے کر چکے تھے۔ چناچہ مرشد نے خلافت کی اجازت دی اور تاج ولایت آپ کو عطا فرمایا۔ اور پھر اپنے مدرسے میں صدر المدرسین مقرر کیا اور خود گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ حضور غوث اعظم درس وتدریس میں مشغول ہو گئے۔ آپ جلسہ عام میں وعظ و نصیحت نہیں فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن دوپہر کے وقت آپ آرام فرما رہے تھے کہ حضور نبی کریم ﷺ خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ بیٹا تم عوام الناس میں وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے۔ تو آپ نے عرض کیا کہ میں عجمی ہو ں اور فصحائے عرب کے سامنے زبان کیسے کھولوں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنا لعاب دہن آپ کی زبا ن پر لگایا اور فرمایا اب جاﺅ اور عوام میں وعظ و نصیحت کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے خواب میں تشریف لائے اور اپنالعاب مبارک آپ کی زبان پہ لگایا۔
اس کے بعد آپ نے عوام میں وعظ و نصیحت شرو ع کی اور سننے والوں پر گہرا اثر ہونے لگا۔ گناہوں سے آلودہ دل صاف ہونے لگے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی مقبولیت عطا کی کہ مدرسہ کی عمارت سامعین کے لیے کم پڑنے لگی اس کے بعد آپ نے عید گاہ میں وعظ و نصیحت شروع کی لیکن وہ جگہ بھی کم پڑھ گئی۔ اس کے بعد آپ کا منبر کھلے میدان میں لگایا گیا جہاں کثیر تعداد میں لوگ آپ کا وعظ سننے کے لیے آتے۔ آپ کی مجلس میں امراء، فقراء، درویش ، صوفی سلاطین ، علماءو مشائخ الغرض ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوتے یہاں تک کہ یہودی و نصاری بھی مستفیض ہوتے تھے۔آپ کا وعظ ربانی الہامات کا سمندر اور معرفت کی تفسیر ہوتا۔

بدھ، 25 اکتوبر، 2023

Surah Yunus ayat 107.ہم غیر اللہ کو کیوں پکارتے ہیں

Surah Yunus ayat 105-106 .کیا ہم ظالم ہیں

Shortvideo - Jannat main dakhila kis ko milay ga?

حضور سیدنا غوث اعظم رحمة اللہ علیہ (۱)

 

حضور سیدنا غوث اعظم رحمة اللہ علیہ (۱)

سیدنا غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی محبو ب سبحانی رحمة اللہ تعالی علیہ ۴۷۰ ہجری کو عراق کے شہر جیلان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی شخصیت اور علمی و روحانی کمالات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کے والد ماجد سیدنا ابو الصالح موسی جنگی دوست رحمةا للہ علیہ بہت بڑے عالم و عارف اور اکابر مشائخ میں تھے۔ آپ کے والد ماجد کو جہاد فی سبیل اللہ کا بہت شوق تھا۔ آپ راہ خدا میں لڑتے ، مال خرچ کرتے اور شہادت کی تمنا میں ہر وقت جہاد کے لیے تیار رہتے۔ اسی وجہ سے آپ کالقب ” جنگی دوست “ مشہور ہو گیا۔ آپ کے والد زہد و تقوی اور روحانی اور علمی کمالات کے مالک تھے۔آپ کے والد ماجد نفس کشی اور ریاضت شرعی میں فرد واحد تھے۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے سے نہیں ڈرتے تھے۔
آپ کی والدہ ماجدہ نہایت پرہیز گاراور علوم ظاہری و باطنی سے مرصع و مرقع تھیں۔ آپ قرآن پاک کی حافظہ اور بہت زیادہ عبادت گزار تھیں۔ ایسے متقی و پر ہیز گار والدین کی آغوش میں پرورش پانے والا فرزند کن کن صلا حیتوں کا مالک ہو گا۔
حضور غوث اعظم رحمة اللہ علیہ نے قرآن مجید حفظ و ناظرہ اپنے والدین سے پڑھا اور ابتدائی تعلیم بھی گھر میں حاصل کی۔ اسکے بعد آپ کو جیلان کے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا گیا۔ آپ رحمة اللہ علیہ فطری طور پربہت زیادہ ذہانت کے مالک تھے اسی وجہ سے آپ نے علم کی منازل بڑی تیزی سے طے کیں۔ ابھی آپ کی عمر مبارک دس برس تھی کہ آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے اٹھا رہ سال تک جیلان میں تعلیم حاصل کی اور اسکے بعد بغداد تشریف لے گئے۔ رخصتی کے وقت آپ کی والدہ نے آپ کو نصیحت کی کہ کبھی جھوٹ مت بولنا۔ راستے میں ڈاکوﺅں نے قافلے کو گھیر لیا۔ایک ڈاکو نے آپ سے پوچھا آپ کے پاس کیا ہے تو آپ نے فرمایا میرے پاس چالیس دینار ہیں وہ مذاق سمجھ کر چلا گیا۔ اسکے بعد دوسرے نے آکر پوچھا تو آپ نے یہ ہی جواب دیا۔ انہوں نے اپنے سردار کو ساری بات بتائی تو سردار نے آکر آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میری والدہ نے رخصتی کے وقت چالیس دینار میری گدڑی میں سی دیے تھے جب اس کو کھو لا گیا تو اس میں واقع ہی چالیس دینار تھے۔سردار نے آپ سے پوچھا کہ تمہیں سچ بولنے پر کس نے مجبور کیا تو آپ نے فرمایا کہ میری والدہ نے مجھے نصیحت کی کہ بیٹا کبھی جھوت نہ بولنا۔ تو سردار نے کہا کہ ایک بچہ اپنی والدہ سے کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور ہم کب سے اللہ تعالی سے کیے ہوئے وعدہ سے منحرف ہیں۔ آپ کی سچائی کی وجہ سے ڈاکوﺅں نے توبہ کی اور لوٹا ہوا مال سب کو واپس کر دیا۔

Shortvideo - Jannat ki kunji

Surah Yunus ayat 101-104 .کیا ہم دوزخ کا ایندھن بننے والے ہیں

Surah Yunus ayat 100.کیا ہم نے بے ایمانی کی حالت میں مرنا پسند کر لیا ہے

منگل، 24 اکتوبر، 2023

اسلام اور تجارت(۳)


 

اسلام اور تجارت(۳)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کرتے وقت چیزوں کے عیب چھپانے سے منع فرمایا یعنی اگر جو چیز بیچ رہا ہے اگر اس میں کوئی عیب ہے تو خریدنے والے کو پہلے بتا دے۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے تو آپ نے اپنا دست مبارک اس ڈھیر کے اندر داخل کیا۔ آپ کی انگلیوں نے نمی اور گیلا پن محسوس کیا۔ آپ نے اس تاجر سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھیر پر بارش پڑ گئی تھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھا تھا تا کہ لوگ اسے دیکھ سکیں پھر آپ نے فرمایا جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ ( مسلم شریف ) 
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس نے کسی عیب دار چیز کو فروخت کیا اور اس کا عیب نہ بتا یا ہمیشہ اللہ تعالی کے غضب میں رہتا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالی کے فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ ( ابن ماجہ )۔
ایک مرتبہ آپ نے ایک تاجر کو اونٹ فروخت کیے وہ قیمت ادا کر کے چلا گیا۔ آپ کو بعد میں یاد آیا کہ ان میں سے ایک اونٹ لنگڑا تھا۔ آپ فورا ً اس کے پیچھے گئے اور اسے اونٹ کا عیب بتایا اور 
قیمت واپس کرنا چاہی وہ تاجر آپ کی دیانتداری سے بہت متاثر ہوا اور اس نے قیمت واپس لینے سے انکار کردیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ایفائے عہد کی تلقین فرمائی۔ آپ نے مشکل ، آسانی ، امن اور جنگ ہر حال میں وعدوں کو پورا فرمایا۔ تجارت میں بھی آپ نے ایفائے عہد کی خصوصی تلقین فرمائی۔ حضرت عبد اللہ بن ابی الحمسا ءرضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے قبل میں نے آپ سے ایک سودا کیا اور کچھ قیمت باقی رہ گئی میں نے آ پ سے وعدہ کیا کہ میں باقی قیمت لے کر اس جگہ پر آتا ہو ں میں جا کر اپنی بات بھول گیا۔ پھر مجھے تین دن بعد یاد آیا میں اس جگہ گیا تو میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مقام پر تشریف فرماہیں۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا : اے نوجوان ! آپ نے مجھے بہت تکلیف دی۔ میں تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ( ابی داﺅد )۔
حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے یہ باتیں واضح ہو تی ہیں کہ تجارت میں امانتداری سے کام لینا چاہیے اور جھوٹی قسمیں کھانے ، چیزوں کا عیب چھپانے ، ذخیرہ اندوزی ، اور وعدہ خلافی سے باز رہنا چاہیے۔

Shortvideo - Jahunum main koon jeay ga?

Surah Yunus ayat 94-99 .کیا ہم زندگی نفسانی خواہشات کے مطابق گزار رہے ہیں

Surah Yunus ayat 79-93.کیا ہم قوم فرعون کے نقش قدم پر چل رہے ہیں

پیر، 23 اکتوبر، 2023

اسلام اور تجارت(۲)

 

اسلام اور تجارت(۲)

اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر صورت میں ہی قسم اٹھانے سے احتراز ہی کرنا چاہیے ۔ لیکن جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مال بیچنا تو ذات الہی کی بے قدری کے زمرہ میں آتی ہے ۔ جو بندہ سچا اور مخلص ہو گا اس کو اپنا مال بیچنے کے لیے قسمیں اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جھوٹی قسمیں کھانے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا : حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تین بندے ایسے ہو ں گے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ان پر نظر رحمت نہیں فرما ئے گا اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا ۔ ہم نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہوں گے آپ ﷺ نے فرمایا : ”احسان جتلانے والا ، تکبر سے اپنے تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور جھوٹی قسموں سے اپنا مال بیچنے والا “۔ ( ترمذی ) 
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”جس شخص نے جھوٹی قسم کھائی تا کہ وہ اس کے ذریعہ سے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کر لے تو وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالی اس سے ناراض ہو گا ۔ ( بخاری ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قسمیں کھا کر مال بیچنے والے کو قیامت کے دن تو سزا ملے ہی گی لیکن دنیا میں بھی اس کے مال سے برکت اٹھا لی جائے گی ۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم تجارت میں زیادہ قسمیں کھانے سے بچا کرو اس سے مال تو بک جاتا ہے لیکن رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ ( ابن ماجہ ) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم مال تو بکوا دیتی ہے لیکن برکت مٹا دیتی ہے ۔ ( بخاری ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کو انتہائی نا پسند فرمایا اور اس کے متعلق سخت وعید فرمائی ۔ کیونکہ ذخیرہ اندوزی لوگوں پر ظلم کرنے اور ان سے مال کمانے کا ایک ذریعہ ہے ۔ حضرت معمر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنا کسی گناہ گار ہی کا کام ہے ۔ ( ابن ماجہ ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ذخرہ اندوز کتنا بُرا شخص ہے کہ اگر اللہ تعالی چیزوںکو سستا کر دے تو وہ غمگین ہو جاتا ہے اور جب چیزیں مہنگیں ہو تو وہ خو ش ہو جاتا ہے ۔ ( المعجم الکبیر للبطرانی )
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنس بازار میں لانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوز پر اللہ تعالی کی لعنت پڑتی ہے ۔ ( السنن الکبری للبہیقی ) 

اتوار، 22 اکتوبر، 2023

Surah Yunus ayat 73-78 .کیا ہم نے اپنے رسول کی دعوت حق کو عملا جھٹلا دیا ہے

Surah Yunus ayat 71-72 Part-02. کیا ہم نے اپنے پیغمبر کی دعوت الا اللہ ...

Shortvideo - Dunya ki kamyabi asal main kya hay?

اسلام اور تجارت(۱)

 

اسلام اور تجارت(۱)

 تا جر کسی بھی معاشرے کا اہم جزو ہے۔ اگر تاجر فرض شناس ، امانت دار اور خدا ترس ہو تو معاشرہ سلامتی اور سکون کی فضا میں رہتا ہے۔ اور اگر تا جربد دیانت، ملاوٹ کرنے والا ہو تو معاشرے کے لوگ بھی ذلیل وخوار ہوتے ہیں۔اگر تاجر ایمانداری سے تجارت کریں تو نہ صرف ان کے رزق حلال میں برکت پڑتی ہے بلکہ ایسی تجارت عبادت بن جاتی ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ تجارت کی غرض سے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام تشریف لے گئے۔ آپ نے تجارت کے سلسلہ میں یمن ، بحرین اور اردن کا سفر بھی کیا۔ آپ کی تجارت میں امانتداری بے مثال تھی۔ آپ کی امانتداری سے متاثر ہو کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ کو اپنی تجارت میں شریک فرمایا۔ آپ ان کا سامان لے کر شام کی طرف گئے اور اپنی ا مانتداری ، صاف گوئی ، اپنے لہجے ، اعتماد اور تجارتی اصولوں کی وجہ سے دوگنا نفع کمایا۔ 
صحابی رسول حضرت سائب رضی اللہ تعالی عنہ جب مسلمان ہو کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگوں نے ان کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے ان کے متعلق نہ بتاﺅ۔ زمانہ جاہلیت میں یہ میرے شریک تاجر تھے حضرت سائب نے عرض کیا : یارسول اللہ آپ میرے شریک تھے اور کتنے اچھے شریک تھے۔ آپ نہ کسی سے الجھتے تھے نہ کسی کو دھوکہ دیتے تھے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا : زمانہ جاہلیت کی طرح اب بھی اخلاق کو ہمیشہ اپنائے رکھنا اور انہیں اسلام میں بھی بجا لانا اور یتیم سے حسن سلوک کرنا ، مہمان کی خدمت کرنا اور پڑوسی کا احترام کرنا۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تاجر پر لازمی ہے کہ وہ امانت اور دیانت کا دامن کبھی نہ چھوڑے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تا جر خدا ترسی چھوڑ دے گا تو قیامت کے دن فاجروں میں اٹھا یا جائے گا۔ ایک مرتبہ حضور عید گاہ کی طرف تشریف لے کر جا رہے تھے تو راستے میں دیکھا کہ لوگ تجارت میں مشغول ہیں۔ آپ نے فرمایا : اے تاجروں کے گروہ میری بات غور سے سنو۔ آپ کی بات سن کر تاجرآپ کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے فرمایا : بیشک قیامت کے دن تاجر فاجروں میں اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جس نے تقوی اختیار کیا ، نیکی کی اور سچ بولا۔ ( ترمذی )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تاجر خدا ترسی اختیار کرے اور سچ بولے تو ایسا تاجر قیامت کے دن نیکو کاروں میں اٹھا یا جائے گا۔ آپ نے فرمایا : کہ سچا اور امانتدار تاجر قیامت کے دن انبیا ئکرام علیہم السلام ، صدیقین اور شہدا کے ساتھ اٹھا یا جائے گا۔ (المعجم الاوسط للطبرانی )۔

Shortvideo - Dunya kya hay?

Surah Yunus ayat 71 Part-01.کیا ہم نے قران سے اپنا رخ پھیر لیا ہے

Surah Yunus ayat 67-70.کیا ہم دین اسلام میں دلچسپی نہیں رکھتے

ہفتہ، 21 اکتوبر، 2023

عزت و آبرو کاتحفظ

 

عزت و آبرو کاتحفظ

حضور نبی کریم ﷺ نے انسانیت کے جو تقاضے ارشاد فرمائے ہیں ان میں سے ایک دوسروں کی عزت و آبرو کا تحفظ کرنا بھی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی عزت و آبرو کا تحفظ نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ انسانیت کے اصولوں سے ناواقف ہے کوئی شخص چھوٹا ہو یا بڑا ، امیر ہو یا غریب بادشاہ ہو یا پھر گداگر۔ ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے جس کی حفاظت کر نا انسانیت کا تقاضا ہے۔ 
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : ” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں ، اس کا جوتا خوبصورت ہو کیا یہ تکبر ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر تو یہ ہے کہ حق کو جھٹلایا جائے اور لوگوں کو حقیر جانا جائے “۔ ( ریا ض الصالحین ) 
اچھا کپڑا ، اچھا جوتا پہننا اور اچھا گھر بنا نا یہ تکبر نہیں ہے بلکہ تکبر یہ ہے کہ بندہ حق کو نہ مانے اور دوسروں کو حقیرسمجھے۔ اور دوسروں کو حقیر سمجھنے والا کبھی بھی کسی کی عزت و آبرو کا محافظ نہیں ہو سکتا۔ ہر اس بات سے حضور نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے جس سے کسی انسان کی عزت و آبرو مجرو ح ہو۔ اس لیے حضور نبی کریم ﷺ نے غیبت ، تجسس اور دوسروں کی عیب جوئی کرنے سے منع فرمایا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ اس سے خیانت نہیں کرتا ، اس سے جھوٹ نہیں بولتا ، اسے ذلیل نہیں کرتا ، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حرام ہے اس کی عزت اور اس کا مال اور تقوی یہاں ( دل میں ) ہے۔ کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کا فی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (ترمذی) 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا تو ایسی ایسی ہیں (یعنی ان کے قد کے چھوٹے ہو نے کی طرف اشارہ کیا ) ، آپ ﷺنے فرمایا : تم نے ایک ایسی بات کہی ہے اگر وہ سمندر یعنی پانی کے بہت بڑے ذخیرہ میں پھینک دی جائے تو وہ پانی کڑوا ہو جائے۔ ( تفسیر الخازن )۔
 حضرت عروہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حج کے موقع پرحضور ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے عرفات سے جانے میں دیر کر دی۔ پھر ایک لڑکا آیا جو کالے رنگ کا اور چپٹی ناک والا تھا تو اہل یمن نے ( حقارت سے ) کہا ہمیں اس لڑکے کے لیے روکا گیا تھا۔۔ آپ فرماتے ہیں اسی وجہ سے بعد میں یہ لوگ مرتد ہو گئے( تاریخ الاسلام )۔

Surah Yunus ayat 65-66.کیا ہم صرف اپنے گمان و تخمینہ کے تحت زندگی گزار ر...

Surah Yunus ayat 62.کیا ہم اللہ تعالی کے دوست نہیں ہیں

جمعہ، 20 اکتوبر، 2023

ملازمین کے ساتھ حسن سلوک

 

ملازمین کے ساتھ حسن سلوک

انسان جب اپنے ہم مرتبہ لوگوں سے بات چیت کرتا ہے تو اخلاقی قدروں کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اور جب اپنے ماتحت لوگوں سے معاملہ کرتا ہے تو ان کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے اور تمام اخلاقی قدروں کو پامال کر دیتا ہے۔ اور اس کی عزتِ نفس کا بھی خیال نہیں رکھتا۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا۔اور اپنے سے بڑے اور چھوٹے سب کے ساتھ ایک جیسے معاملات رکھنے کا حکم فرمایا۔
حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے غلام سے کسی بات پر ناراض ہو گیا اور اسے درے سے مارنے لگا۔ اتنے میں میرے پیچھے سے آواز آئی۔ اے ابو مسعود جان لو ! مگر میں شدید غصے کی وجہ سے آواز پہچان نہ سکا جب آواز دینے والا میرے قریب آ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ فرما رہے تھے۔ اے ابو مسعود ! جان لو تمہیں اس غلام پر قابو حاصل ہے اس سے زیادہ قابو اللہ تعالی کو تمہارے اوپر حاصل ہے۔
یہ سن کر میرے ہاتھ سے کوڑا گر گیا اور میں نے کہا کہ میں کبھی بھی اس غلام کو نہیں ماروں گا۔ میں اس غلام کو اللہ کے لیے آزاد کر تا ہوں۔ یہ سن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اگر تم ایسا نہ کرتے تو تمہیں آگ چھو لیتی۔ ( جامع الاصول)۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہم ملازم کو ایک دن میں کتنی بار معاف کر دیا کریں۔ آپ خاموش رہے اس نے دوسری مرتبہ پوچھا آپ خامو ش رہے۔ اس نے پھر یہ ہی سوال پوچھا تو آپ نے فرمایا اسے ہر روز ستر مرتبہ معاف کر دیا کرو۔ ( ابی داﺅ د )۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے متعلق ارشاد فرمایا : وہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے۔ تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو اسے چاہیے کہ جو خود کھاتا ہے اسے بھی وہ ہی کھلائے جو خود پہنتا ہے اس کو بھی پہنائے۔ اور اس سے اس کی طاقت سے زیادہ کوئی کام نہ کروائے۔ اگر اسے کوئی ایسا کام کہہ دے تو خود بھی اس کی مدد کرے۔ آخری ایام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے ساتھ ماتحت لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔ 
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ جس وقت آپ کا وصال ہوا تو آپ آخری دم تک یہی فرما رہے تھے اے لوگو ! نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کا خیال رکھنا ( ابن ماجہ )۔

Shortvideo - Hum par nafs ka kya haq hay?

Surah Yunus ayat 61.کیا ہم حزب اللہ کی بجائے حزب الشیطان میں شامل ہو چکے...

Surah Yunus ayat 59-60 Part-02.کیا ہم اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری کر ...

جمعرات، 19 اکتوبر، 2023

خشیت الٰہی

 

خشیت الٰہی

یہ حقیقت ہے کہ جس کے دل میں خشیت الٰہی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے سے نہ ڈرے کسی نہ کسی طرح گناہ میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد خشیت الٰہی پر رکھی۔اگر انسان کے دل میں خوف خدا پیدا ہو جائے تو اگر اس سے کوئی غلطی سر زد ہو جائے لیکن اس کو ثابت کرنے کے لیے کوئی گواہ موجود نہ ہو تو غلطی کرنے والے کو اس بات کا احساس ضرور ہو گا کہ کوئی اور نہیں تو اللہ تعالیٰ تو مجھے دیکھ رہا ہے اور ایک دن اس کے حضور پیش ہو نا ہے تو اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جس کسی سے کوئی غلطی ہو جاتی تو وہ خود حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو جاتا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا تھا۔ 
امام مسلم رحمة اللہ تعالیٰ علیہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! مجھے پاک کر دیجیے آپ نے فرمایا : تمہیں ہلاکت ہو۔ جاﺅ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور اس کے حضور تو بہ کرو۔ وہ چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد پھر واپس آئے اور پھر عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ ﷺ مجھے پاک کر دیں۔آپ ﷺ نے پھر یہ ہی فرمایا۔ یہاں تک کہ چوتھی مرتبہ حضور نبی کریمﷺنے ان سے پوچھا میں تمہیں کس چیز سے پاک کر دوں؟ توانہوں نے فرمایا زنا سے۔ تو آپ ﷺ نے ان کے بارے میں پو چھا کہ کیا ان کے دماغ میں کوئی خرابی ہے تو لوگوں نے کہا نہیں یہ پاگل نہیں ہے۔ تو آپ نے پوچھا کیا اس نے شراب پی ہے تو کہا گیا نہیں پی۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہا تم نے زنا کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں۔ تو پھر آپ نے انہیں رجم کرنے کا حک دیا اور انہیں رجم کر دیا گیا۔ اس کے بعد بعض نے کہا کہ وہ ہلاک ہو گئے اور بعض نے کہا کہ ان کی تو بہ جیسی کسی کی تو بہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا مجھے پتھروں سے مار ڈالیے۔حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں دو تین دن یہ ہی اختلاف رہا۔ پھر ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا معز بن مالک کے لیے استغفار کرو۔ صحابہ کرام نے کہا اللہ ماعز کی بخشش فرمائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ماعز نے ایسی توبہ کی ہے اگر اسے تمام امت مسلمہ میں تقسیم کر دیا جائے تو سب کے لیے کافی ہے۔

Surah Yunus ayat 59-60 Part-01.

Surah Yunus ayat 58 Part-03.اصل خوش ہونے کے قابل کون سی نعمتیں ہیں

Shortvideo - Islam ki haqeeqat

بدھ، 18 اکتوبر، 2023

صلہ رحمی

 

صلہ رحمی 

حضور نبی کریم ﷺ نے صلہ رحمی کا حکم فرمایا۔ صلہ رحمی سے مراد یہ ہے کہ رشتوں کو ٹوٹنے سے بچانا اور انکے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ صرف اس شخص کے ساتھ تعلقات مستحکم نہیں فرماتے تھے جو آپ سے تعلقات مستحکم کرنا چاہتا تھا بلکہ آپ کے ساتھ جو تعلق توڑنا چاہتا تھا آپ اس کے ساتھ اعلی اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے کہ تعلق ٹوٹنے سے بچ جاتا تھا اور اس طرح نفرتوں کی بجائے محبتیں بڑھتی تھیں۔ حضرت عبد اللہ بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : بدلے میں جوڑنے والا ، جوڑنے والا نہیں ہوتا۔ اصل میں جوڑنے والا وہ ہوتا ہے کہ جب اس سے تعلق توڑا جائے تو وہ پھر بھی تعلق جوڑے۔ ( السنن الکبری اللبہیقی ) 
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کمزور رائے والے نہ ہو جاﺅکہ تم کہو اگر لوگ ہم سے اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان سے اچھا سلوک کریں گے اور اگروہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے بلکہ اپنے آپ کو اس چیز کا عادی بناﺅ کہ تم یہ سو چو کہ اگر لوگ ہم سے اچھا سلوک کریں گے تو بھی ان سے اچھا سلوک کرو گے اور اگر لوگ تم سے زیادتی کریں تب بھی تم ان پر ظلم نہیں کرو گے۔ ( ترمذی ) 
اس سے مراد یہ ہے کہ تعلقات جوڑنے میں تجارت نہیں بلکہ خیر خواہی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی عمر دراز ہو اس سے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ ( مسلم شریف ) 
حضور نبی کریمﷺ نے صلہ رحمی کو فضیلت والا عمل قرار دیا : آپ نے ارشاد فرمایا : بے شک فضیلت والے کاموں میں سب سے زیادہ فضیلت والا کام یہ ہے کہ تو اس شخص سے تعلق جوڑے جو تجھ سے تعلق توڑے۔ تو اسے عطا کرے جو تجھے محروم کرے اور تو اسے معاف کرے جو تجھے تکلیف پہنچائے۔ (المعجم الکبیر) 
حضور نبی کریم ﷺ قطع تعلقی کو سخت نا پسند فرماتے تھے آپ نے ارشاد فرمایا :
 بے شک اللہ تعالی کی رحمت اس قوم پر ناز ل نہیں ہوتی جس میں کوئی قطع تعلقی کرنے والاموجود ہو۔ (شعب الایمان )۔
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو ئی گزارش لے کر آپ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا : یا رسو ل اللہ ﷺآپ لوگوں میں سب سے زیادہ حسن سلوک کرنے والے اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حضور نبی کریم کی تعلیما ت پر عمل کرتے ہوئے صلہ رحمی کو عام کریں تا کہ ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے۔

Shortvideo - Deen ki haqeeqat

منگل، 17 اکتوبر، 2023

Surah Yunus ayat 58 Part-02. کیا ہماری خوشی کا معیار صرف دنیاوی مفادات...

Surah Yunus ayat 58 Part-01.انسان اپنی معراج کو کیسے حاصل کر سکتا ہے

احترام انسانیت

 

احترام انسانیت

انسان اپنے دل میں جس شخص کے لیے قدر رکھتا اور جس کا احترام کرتا ہو وہ نہ کبھی اس کی عزت پر حملہ آور ہو گا اور نہ ہی اس کی جان لینے کی کوشش کرے گا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے امن کی بنیاد احترام انسانیت کو قرار دیا۔ خطبہ حجة الوداع کے موقع پر آپ نے احترام انسانیت کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تمہارا خون ، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں اس طرح قابل احترام ہیں جیسے آج کے دن یہ شہر قابل احترام ہے “۔ ( شعب الایمان للبہیقی ) 
حضور نبی کریمﷺ نے مومن کی علامت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :” مومن وہ ہوتا ہے جس سے لوگوں کے خون اور ان کی عزتیں محفوظ رہیں “۔ ( ترمذی )۔حضور نبی کریم ﷺ نے کسی بھی اختلاف کے بغیر احترام انسانیت کا درس دیا۔ ایک بار حاتم طائی کی بیٹی قیدی ہو کر آپ کی بارگاہ میں آئی تو اس کا سر ننگا تھا تو آپ نے اپنی چادر مبارک سے اس کا سر ڈھانپ دیا۔ بقول علامہ محمد اقبال :
دخترک را چوں نبی بے پردہ دید 
چادر خود پیش روئے اوکشید 
احترام انسانیت ہی کی وجہ سے آپ نے حالت جنگ میں بھی ان لوگوں کو قتل کر نے سے منع فرمایاجو جنگ میں عملی شریک نہ ہوں اور آپ نے فرمایا : کسی بوڑھے کو قتل نہ کرو اور نہ ہی کسی بچے اور (جنگ میں حصہ نہ لینے والی کسی ) عورت کو قتل کرو۔(السنن الکبری للبہیقی )۔
حضور نبی کریمﷺ نے طبقاتی کشمکش کو ختم کر کے ہر شخص کی عزت و آبرو کے تحفظ کو یقینی بنانے کا حکم دیا۔ آپ نے مذہب و ملت کی تفریق کیے بغیر ہر انسان کا احترام کرنے کا حکم فرمایا۔
ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک جنازہ گزرا۔ جنازہ دیکھ کر آپ کھڑے ہو گئے۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ تو ایک غیر مسلم کا جنازہ تھا تو آپ نے فر مایا : کیاوہ انسان نہیں تھا۔ (السنن الکبری للبہیقی )۔
دشمنوں سے تما م تر اختلاف کے با وجود ان سے معاملہ کرتے ہوئے انسانی قدریں نمایا ں ہونی چاہیئں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جنگ و جدل کے موقع پر بھی دشمن کو تکلیفیں دینے اور اسے باندھ کر مارنے سے منع فرمایا : حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ آپ نے دشمن کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا۔( ابی داﺅد ) 
 امن و امان کا جو وجود ختم ہو چکا ہے اگر ہم حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کر تے ہوئے اپنے دلوں میں احترام انسانیت کواپنا لیں تو معاشرے کو دوبارہ امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔

Surah Yunus ayat 57 Part-02.کیا ہم نے ہدایت الہی سے منہ موڑ لیا ہے

Surah Yunus ayat 57 Part-01.کیا ہم ترک قران کے مجرم ہیں

Shortvideo - Kya humaray leay deen-e-islam par amal karna zarori hay?

پیر، 16 اکتوبر، 2023

اولاد کے درمیان مساوات

 

اولاد کے درمیان مساوات 

والدین کو چاہیے کہ وہ اولاد کے درمیان برابری کی فضا قائم کریں ۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ والدین کا اولاد میں سے کسی ایک کی طرف جھکاﺅ زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ بات ضروری نہیں ہے کہ قلبی میلان بچوں کے ساتھ برابر ہو اور نہ ہی اللہ تعالی نے والدین کو اس بات کا پابند کیا ہے بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ والدین معاملات میں سب کے ساتھ مساوات اور برابری کا معاملہ کریں اور کسی ایک کے ساتھ ایسا برتاﺅ نہ کریں جس سے باقی بچے احساس کمتری کا شکار ہوں ۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کچھ والدین بیٹیوں کی نسبت بیٹوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور زمانہ جاہلیت میں بھی لوگوں کا رجحان بیٹوں کی طرف ہوتا تھا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ۔ لیکن حضور نبی کریم ﷺ نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی پرورش کے بارے میں خصوصی تاکید فرمائی ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی پرورش کی ، انہیں تعلیم و تربیت دی اور ان کے ساتھ رحم کا معاملہ اختیار کیا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں بے نیاز کر دیا تو اللہ تعالی نے ایسے شخص پر جنت واجب کر دی ۔ تو ایک صحابی نے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ ! اگر دوہی ہوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا دو پر بھی یہ ہی اجر ملے گا۔حدیث کے راوی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ لوگ ایک بیٹی کے متعلق پوچھتے تب آپ ﷺ یہی ارشاد فرماتے ۔(شرح السنة للبغوی ) 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کا اشارہ کر ے فرمایاکہ قیامت کے دن وہ میرے اس طرح قریب ہو گا جس طرح یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ) ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اس کے پاس دو بیٹیاں تھیں ۔ میرے پاس ایک ہی کجھور تھی وہ میں نے اس کو دی اس نے خود تو نہ کھائی اور دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دی ۔جب حضور نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے انہیں ساری بات بتا ئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیٹیوں کے ذریعے سے آزمایا گیا پھر اس نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو وہ بیٹیاں اس کے جہنم سے آڑبن جائیں گیں۔ ( السنن الکبری للبہیقی ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس کی کوئی بیٹی ہو وہ نہ اسے جاہلیت کی طرز پر دفن کرے نہ اسے حقیر جانے اور نہ ہی اپنے بیٹوں کو اس کے مقابلے میں ترجیح دے تو اللہ تعالی اس شخص کو جنت میں داخل کرے گا ۔ (ابن ماجہ) 

Surah Yunus ayat 56.کیا ہم نے اخرت کے بدلے دنیا کا سودا کر لیا ہے

Surah Yunus ayat 54-55 Part-02.کیا ہم نے بہت بڑے خسارے کا سودا کر لیا ہے

Shortvideo - Insaan kay leay dunya ka sab say bara inaam

اتوار، 15 اکتوبر، 2023

بچوں کے نام رکھنے کا حکم

 

بچوں کے نام رکھنے کا حکم

جب بھی اللہ تعالی کسی کو اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے تو والدین کو سب سے پہلے بچے کانام رکھنے کا معاملہ در پیش ہوتا ہے۔ عام طور پر والدین یہ سوچتے ہیں کہ ان کے بچے کا نام منفرد ہو نا چاہیے۔ اگرچہ اس کا معانی کتنا ہی مہمل اور بے مقصد کیوں نہ ہو۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بچے کانام ساتویں دن رکھا جائے اس کے بال اتارے جائیں اور عقیقہ کیا جائے۔ ( ترمذی )۔
نام محض ایک علامت نہیں بلکہ اس کا کچھ نہ کچھ اثر انسان کی شخصیت پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے ایسانام رکھنا چاہیے جو معنوی لحاظ سے بہتر ہو۔ حضو ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ آپ معنوی طور پر برے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے۔ اور ہمیشہ اچھے معانی والے نام رکھنے کی تلقین فرماتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے۔ (ترمذی) 
حضرت عبد الحمید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں حضرت سعید ابن مسیب کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے دادا حضرت حزن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے پو چھا تمہارا نام کیا ہے تو انہوں نے کہا حزن۔ تو آپ نے فرمایا اس طرح نہیں بلکہ تمہارانام سہل ہے۔ تو انہوں نے عرض کی کہ میں اپنے نام کو نہیں بدل سکتا جو میرے باپ نے رکھا ہے۔ حضرت سعید ابن مسیب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہمارے گھر میں ہمیشہ رنج و غم رہا۔ (صحیح بخاری )
۔حضور ﷺ نے حزن نام رکھنے سے اس لیے منع فرمایا کیونکہ اس کے معنی رنج و غم کے ہیں۔حضور نبی کریم ﷺ کی ان احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کے نا م اچھے معانی و مطالب والے رکھنے چاہیئں۔ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا : تمہارے رکھے گئے ناموں میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں۔ ( ترمذی ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: انبیاءکے ناموں پر نام رکھو اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب نام عبد اللہ اور عبد الرحمان ہیں اور سب سے سچے نام حارث اور ھمام ہیں اور سب سے برے نام حرب اورمرہ ہیں۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی ) 
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاءکے ناموں پر نام رکھنے سے زندگی میں برکات آتی ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ناموں کو پسند فرماتے تھے جو جدو جہد ، عزم و ہمت پر دلالت کرتے ہوں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں کے نام حسن و حسین رکھے جو کہ شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

Surah Yunus ayat 54 Part-01.کیا ہم ظالم لوگ ہیں

Shortvideo - Allah TAllah nay humaray leay dunya main konsa inaam senay ...

ہفتہ، 14 اکتوبر، 2023

اولاد کی تعلیم و تربیت


اولاد کی تعلیم و تربیت

 بچے جب تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو والدین کو ان کی تعلیم کی فکر لگ جاتی ہے۔ والدین کو اپنی اولاد سے فطری طور پر بے پناہ محبت ہو تی ہے اور سبھی والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے اعلی تعلیم حاصل کریں۔ والدین اپنی بساط سے بڑھ کر اچھے اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔

 والدین اپنے بچوں کو ساری عمر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے رہیں اور ان کی تعلیم کا مقصد صرف یہ ہی ہوکہ ان کا بچہ بڑا ہو کرپیسہ کمائے اور اچھے عہدے پر فائز ہو اور انہیں اللہ اور اس کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا داری نہیں سکھائی ، والدین ، اساتذہ اور بڑوں کا ادب کرنا نہیں سکھایا تو ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام اس طرح کرنا چاہیے کہ وہ معاشرے کے مفید شہری بنیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی وفادار بنیں اور اپنے والدین کےبھی وفادار بنیں۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ والدین کی طرف سے اولاد کے لیے سب سے بڑا تحفہ اچھی تر بیت ہے۔ فرمان نبوی ہے ”کہ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے زیادہ اچھی چیز حسن سلوک ہے“۔(ترمذی)۔
تعلیم دینی ہو یا پھر دنیاوی اسلام میں دونوں کو اپنی جگہ اہمیت حاصل ہے۔ اگر دنیوی معاملات بھی احکام الٰہی اور حسن نیت کے ساتھ سر انجام دیے جائیں تو وہ دین بن جاتے ہیں۔ اور اگر دینی معاملات دنیا کی غرض سے سر انجام دیے جائیں تو وہ محض دنیا کے معاملات ہی رہتے ہیں۔ اسلام میں ہر مرد و عورت پر تعلیم حاصل کرنا فرض ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم حاصل کر نا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے “۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ جو بندہ طلب علم کرتا ہوا فوت ہو گیا وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اسکے اور انبیاءکرام علیہ السلام کے درمیان صرف درجہ نبوت کا فرق ہو گا۔ (المعجم الاوسط للطبرانی)۔
 بچوں کی تربیت میں تعلیم کا حصول ایک بنیادی چیز ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے بھی بچوں کی تعلیم تربیت کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ والدین بھی اس چیز سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تعلیم و تربیت کا کردار انسان کی زندگی میں کتنا اہم ہے۔ تعلیمات نبوی کے مطابق ہر علم ہی محمود ہے چاہے وہ ریاضی کا علم ہو یا پھر سائنس کا ، کمپیوٹر کا علم ہو یا پھر طب کا اور یا آرٹس کا۔مگر عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو دینی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی جائے تو اس سے بچوں اور والدین کی دنیا کے ساتھ آخرت بھی سنور جائے۔

Shortvideo - Dunya main Allah Tallah ka inaam

Surah Yunus ayat 48-49 Part-02. کیا ہم اللہ تعالی کی ملاقات کی تیاری کر ...

Surah Yunus ayat 48-49 Part-01.کیا ہم دین اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں

جمعہ، 13 اکتوبر، 2023

علم کی قدرو منزلت

 

علم کی قدرو منزلت

ارشاد باری تعالی ہے :” تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا ہے اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے گا اور اللہ تعالی تمہارے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ ( سورة المجادلہ)۔
 اگر کوئی طالب علم راہ علم میں آنے والی سختیوں سے گھبرا جائے تو اس بات کو اپنے ذہن میں رکھے کہ بارگاہ الٰہی میں علم کی کیا قدر ہے۔ جب طالب علم کو علم کی قدر کا پتہ چلے گا تو وہ اس بات کو سمجھ جائے گا کہ وہ کتنی مقدس راہ پر چل رہا ہے تو یہ ہی بات اس کی مشکلات کو آسان کر دے گی۔ 
یہ بات حقیقت ہے کہ افضل علم دین کا علم ہے لیکن اسلامی نقطہ نظر سے دین اور دنیا کی کوئی تقسیم نہیں۔ مطلب یہ کہ اگر دنیا کا کوئی بھی کام اللہ تعالی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق کیا جائے تو وہ بھی دین بن جاتا ہے۔جو بھی علم مخلوق خدا کی خدمت اور معرفت الٰہی کے لیے حاصل کیا جائے علم کے شرف و منزلت میں وہ علم بھی شامل ہو گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو طلب علم کی راہ پر نکلا وہ واپس لوٹنے تک راہ خدا میں ہے۔ (ترمذی )۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کہ علم حاصل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب عمل ہے کہ اللہ تعالی اس کے صدقے میں اس کی پچھلی غلطیاں معاف فرما دیتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو انسان حصول علم کے لیے نکلتا ہے اس کا یہ عمل اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (سنن دارمی ) 
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالی نے میری طرف وحی نازل فرمائی کہ :جو شخص حصول علم میں کسی راستے پر چلے گا میں اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دوں گا۔ اور میں جس کی دونوں آنکھیں لے لو ں (اور اگر وہ صبر کرے ) تو میں ان دونوں آنکھوں کے بدلہ میں جنت عطا کروں گا اور علم میں زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے اور دینی استحکام کا سبب تقوی ہے۔ ( کنزالعمال )۔
حضرت صفوان بن عسال فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا میں علم کی تلاش میں آیا ہوں تو آپنے فرمایا علم کے متلاشی خوش آمدید ! بیشک طالب علم کی یہ شان ہے کہ فر شتے اسے اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہیں پھر وہ ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ اس محبت کی وجہ سے کرتے ہیں جو انہیں ایک طالب علم کے ساتھ ہوتی ہے۔( المعجم الکبیر للطبرانی )

Surah Yunus ayat 46-47.کیا ہم دین اسلام کو سمجھنا نہیں چاہتے

Surah Yunus ayat 45 Part-02.کیا ہم ایک گمراہ قوم ہیں

Shortvideo - Aaj kia musalman nay Quran say hidayat lena chor dya hay?

جمعرات، 12 اکتوبر، 2023

علم کی بے قدری خدا کی گرفت

 

علم کی بے قدری خدا کی گرفت

حضور نبی کریم ﷺ نے متعدد مواقعوں پر یہ بات واضح فرمائی کہ علم کی بے قدری  کرنے والااور اس کے تقاضوں سے انحراف کرنے والا بہت سی مصیبتو ں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔رسول کریم ﷺنے فرمایا علم کی قدر کرنے والا انسانوں میں سب سے اشرف انسان ہے اور علم کی بے قدری کرنے والا عالم ہونے کے باوجود سب سے گھٹیا انسان بن جاتا ہے۔ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے شر کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھ سے شر کے متعلق نہ پوچھو بلکہ خیر کے بارے میں پوچھو یہ بات آپ نے تین مرتبہ دوہرائی پھر آپ نے فرمایا : خبر دار ! سب بروں سے برے علما ہیں اور سب اچھوں سے اچھے بھی علما ہیں۔( سنن دارمی)
یعنی کہ علم کی قدر کر کے اسے خیر بنانے والے علما سب لوگوں سے اچھے ہیں اور علم کو فساد کا سبب بنانے والے علما برے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب اسلام صرف برائے نام باقی رہ جائے گا اور قرآن مجید کا صرف خوبصورتی سے پڑھناباقی رہ جائے گا۔ ان کی مساجد بظاہر آباد نظر آئیں گی اور وہ ہدایت سے محروم ہوں گی۔ ان کے علما آسمان کے نیچے بد ترین لوگ ہوں گے۔ انہیں کے اندر سے فتنہ اٹھے گا اور انہیں میں لوٹ جائے گا۔(شعب الایمان اللبہیقی)۔
جو لوگ علم کی نعمت سے محروم ہیں لیکن تکلف اور تصنع کر کے علم و حکمت کی مسندوں پر فائض ہو جاتے ہیں وہ خود بھی گمراہ ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا علم اس طرح ختم نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سینوں سے علم اٹھا لے گا پھر فرمایا : لیکن اللہ تعالیٰ علما کو اٹھا نے سے علم کو اٹھا لے گا جب اللہ تعالیٰ کسی عالم کو باقی نہیں چھوڑے گا تو پھر لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے اور ان سے مسائل پوچھیں گے۔ وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ( ابن ماجہ )۔
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجو عالم حق بات کو چھپائے گا وہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہو گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول خدا ﷺ نے فرمایا : جس سے کوئی علم کی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپا لیا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائے گا۔ ( ابن ماجہ ) 
حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے برا انسان وہ عالم ہو گا جو اپنے علم سے نفع نہیں اٹھاتا۔ (شرح السنة الغوی )

Surah Yunus ayat 45 Part-01.کیا ہم نے اللہ تعالی کی ملاقات کو جھٹلا دیا ہے

بدھ، 11 اکتوبر، 2023

Surah Yunus ayat 40-44.کیا ہم نے حق کو نہ سننے کے لئے اپنے کانوں میں انگ...

علم وحکمت کا مقصد

 

علم وحکمت کا مقصد

حضور نبی کریم ﷺ نے مقصدعلم کو بھی واضح فرمایا تا کہ علم حاصل کرنے والے کسی بھی شخص کی محنت ضائع نہ ہو۔ آپ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا علم کا مقصد مادیات کا حصول نہیں ایسی سوچ علم جیسی نعمت کی بے قدری ہے بلکہ علم حاصل کرنے کا مقصد معرفت الٰہی اور دل کی آبادی ہے۔ 
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا : علم کی دو قسمیں ہیں۔ 
ایک ایسا علم ہے جو انسان کے دل میں اتر جاتا ہے وہ ہی علم نافع ہے اور دوسرا علم صرف زبان تک رہتا ہے۔ ایسا علم قیامت کے دن انسان کے خلاف دلیل بن جائے گا۔ ( سنن دارمی ) 
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ علم کا مقصد دل کی آبادی ہے جس نے علم کے ذریعے سے دل کی دنیا کو آباد کر لیا اس نے حقیقی مقصد کو پا لیا۔اور جس نے علم کے ذریعے سے صرف لفظوں کا ہیر پھیر ہی سیکھا اور اس کے دل کی دنیا ویران ہی رہی تو ایسے شخص نے علم کی بے قدری کی وہ نہ صرف دنیا میں علم کے نفع سے محروم رہا بلکہ اس نے اپنی آخرت بھی برباد کر لی۔ علم اس مقصد کے لیے حاصل کرنا کہ انسان بحث و مباحثہ میں اپنی برتری ثابت کرے یا لوگوں کو لا جواب کرے۔ یاپھر اس مقصد کے لیے علم حاصل کرے کہ لوگوں کے درمیا ن مقبولیت حاصل کرلے۔ ایسے مقاصد کے لیے علم حاصل کرنے والا شخص اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بنا لیتا ہے۔ علم کے حصول کا مقصد صرف اور صرف معرفت الٰہی اور خشیت الٰہی ہے۔ 
حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا : کہ جو شخص اس لیے علم حاصل کرے تا کہ وہ بحث مباحثہ میں علما کی برابری کرے یا جاہلوں اور بیو قوفوں کے ساتھ جھگڑا کرے یا اس لیے کہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلے تو ایسے شخص کو اللہ تعالی دوزخ میں ڈال دے گا۔ ( ترمذی)
ارشاد باری تعالی ہے : ” اللہ تعالی کے بندوں میں سے اللہ تعالی سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ ( سورة فاطر ) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے وہ علم سیکھا جس سے اللہ تعالی کی رضا حاصل کی جاتی ہے مگر وہ اسے رضائے الہی کے لیے نہیں حقیر دنیا جمع کرنے کے لیے سیکھے تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔(ابی داﺅد) 
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علم حاصل کرنے کا مقصد کسی مادی خواہش کی تکمیل نہیں بلکہ معرفت الٰہی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔