پیر، 31 اکتوبر، 2022

سورۃ بقرہ کے مضامین (۱۴)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (۱۴)

یوم السبت میں عدم احتیاط اورصورتوں کا مسخ ہوجانا: بنی اسرائیل میں کچھ ایسے افراد تھے جن کی صورتوں کو مسخ کر دیاگیا ، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمابیان فرماتے ہیں یہ قوم حضرت دائود علیہ السلام کے زمانے میں ’’ایلہ‘‘میں آباد تھی، یہ شہر مدینہ منورہ اورشام کے درمیان ساحل سمندر پر واقع تھا اس مقام پر سال کے ایک مہینہ میں اتنی کثرت سے مچھلیاں نمودار ہوتیں کہ پانی دکھائی نہیں دیتا تھا، جب باقی مہینوں میں ہفتہ (یوم السبت)کے دن اس جگہ مچھلیوں کی کثرت ہوجاتی ، یہود کے لیے ہفتہ کے دن شکار کرنا منع تھا، مچھلیوں کی کثرت نے انھیں بے چین کردیا اورانھوں نے یہ حیلہ اختیار کیا اورمختلف جگہوں پر حوض کھود لیے اورسمندر سے نالیاں نکال کر ان حوضوں سے منسلک کردیں۔ اس طرح مچھلیاں پانی کی روکے ساتھ ان تالابوں میں چلی جاتیں اوروہ لوگ اتوار کے دن ان کا شکار کرلیتے ، بنواسرائیل کا ہفتہ کے دن مچھلیاں کو یوں مقید کرلینا ، شرعی حد سے تجاوز کرنا تھا، وہ ایک طویل عرصہ تک اس عمل کا ارتکاب کرتے رہے ، نسل درنسل ان کی اولاد بھی اس نافرمانی میں ملوث رہی ، خوف خدا کے حامل کچھ لوگ انھیں اس کام سے منع کرتے ، کچھ اس کو برا تو جانتے لیکن اس خیال سے سکوت اختیار کرتے کہ یہ کون ساباز آنے والے ہیں، نافرمان لوگ کہتے کہ ہم اتنے عرصے سے یہ کام کررہے لیکن اللہ تعالیٰ کو مچھلیوں کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے، منع کرنے والے کہتے ، تم (اس ڈھیل کی وجہ سے )مغالطے میں نہ پڑو، کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہیں عذاب (اچانک)اپنی گرفت میں جکڑلے۔(تفسیر کبیر)
اس شہر میں ستر ہزار نفوس تھے، جبکہ ان کو منع کرنے والے بارہ ہزار تھے، جب علاقہ کی اکثریت نے یہ عمل جاری رکھنے پر اصرار کیا اورکسی بھی نصیحت کو قبول کرنے سے کلیۃًانکار کردیا، تو اطاعت شعار لوگوں نے کہا، بخدا !اب ہم ایک علاقہ میں یکجا نہیں رہ سکتے ، انھوں نے درمیان میں ایک دیوار کھینچ دی اورمجر مین سے الگ سکونت اختیار کرلی، اس طرح ایک عرصہ گزر گیا ، ان لوگوں کو توبہ کی توفیق نصیب نہ ہوئی، پھر اس معصیت پرمسلسل اصرار کی وجہ حضرت دائود علیہ السلام نے ان پر لعنت کردی، اوران پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگیا ۔ ایک دن اس کام سے منع کرنے والے اپنی داخلی دروازے سے باہر نکلے ، لیکن کافی دیر تک دوسری طرف سے کوئی ایک فرد بھی باہر نہ نکلا، وہ لوگ متجسس ہوئے اوردیوار پھلانگ کر دوسری طرف گئے تو دیکھا کہ وہ تمام لوگ تو بندربن گئے ہیں ایک اورقول کے مطابق جو ان بندر اوربوڑھے خنزیر بن گئے تھے ، وہ دوسروں کو پہچان رہے تھے لیکن دوسرے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں پہچان رہے تھے ، وہ تین دن اسی حال میں روتے رہے اورپھر ہلاک ہوگئے، ان مسخ شدہ افراد میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہی رہا اورنہ ہی ان کی نسل آگے چل سکی ۔ (تفسیر خازن )

Shortvideo - کیا من چاہی زندگی گزارنے والا داخلِ جہنم ہوگا؟

ہفتہ، 15 اکتوبر، 2022

سخاوت حضور کی(۲)

 

سخاوت حضور کی(۲)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں : ایک شخص کا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ، ایک مخصوص عمر کا اونٹ تھا ،وہ شخص آپ کی خدمت میں آیا اوراپنے اونٹ کا مطالبہ کرنے لگا۔ حضور نبی محتشم ﷺنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اس شخص کو اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا جس کا وہ شخص حق دار تھا لیکن ان کو صرف وہی اونٹ ملا جو عمر کے اعتبار اس کے اونٹ سے بہتر تھا۔ حضور انور ﷺنے فرمایا : اس کو یہی اونٹ دے دو۔ وہ شخص کہنے لگا، آپ نے مجھے کامل ادائیگی کی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو زیادہ عطافرمائے، حضور انور ﷺنے فرمایا: تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو(دوسروں کے حقوق )بہتر انداز میں اداکرتا ہے۔ (صحیح بخاری)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں ایک شخص نے دس درہم قرض کے عوض اپنے مقروض کو پکڑلیا، وہ شخص کہنے لگا، میرے پاس تجھے دینے کے لیے کچھ نہیں، وہ (قرض خواہ )کہنے لگا، نہیں ، خدا کی قسم ، میں اس وقت تک تجھ سے علیحدہ نہیں ہوں گا جب تک تو مجھے میرا قرض ادانہیں کرتا یا کوئی ضامن پیش نہیں کرتا۔ وہ اس شخص کو کھینچ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا، آپ نے اس شخص سے پوچھا: تم اس کو کتنی مہلت دے سکتے ہو؟اس نے عرض کیا : ایک مہینا، حضور ﷺنے فرمایا : تو میں اسکی ضمانت دیتا ہوں، وہ شخص مقررہ وقت پر (مال لے کر) حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں یہ مال کہاں سے ملا ہے؟ اس نے عرض کیا : کان سے ، حضور نے فرمایا:اس (مال)میں کوئی بھلائی نہیں، پھر نبی کریم ﷺنے اس شخص کا قرض اپنے پاس سے اداکردیا۔(سنن ابن ماجہ)
حضرت انس ﷺ فرماتے ہیں: کچھ لوگ (انصاری)کھجوروں کے کچھ درخت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے استعمال کیلئے وقف کرتے تھے ، جب بنو قریظہ اوربنونضیر کے اموال فتح ہوئے تو میرے اہل خانہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری دوں اورعرض کروں کہ انہوںنے آپ کی خاطر جو درخت مختص کیے تھے، وہ سارے یا ان میں سے کچھ ان کو عطافرمادیں، حضور نبی کریم ﷺ نے وہ درخت حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو عطافرمادیے تھے، ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اورمیری گردن میں کپڑا ڈال کرکہنے لگیں: ہر گز نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں، حضور اکرم ﷺ ان سے فرماتے تھے ، تمہیں ان درختوں کے بدلے اتنا مال دیا جائے گا تو وہ کہتی تھیں : ہر گز نہیں ، خدا کی قسم ! راوی کہتے ہیں :(یہ سلسلہ جاری رہا)حتیٰ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو میرے خیال میں، ان درختوں سے دس گنا عطافرمادیا۔(صحیح بخاری)

Darsulquran urdu surah Al-Ala ayat 06-08.ہم دین کو مشکل کیوں سمجھتے ہیں

جمعرات، 13 اکتوبر، 2022

سخاوت حضور کی(۱)

 

سخاوت حضور کی(۱)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں سے زیادہ سخی تھے ، ماہ رمضان میں جب جبرئیل امین آپ سے ملاقات کرتے تو اس وقت آپ کی شان سخاوت میں مزید اضافہ ہوجاتا ،حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات آپ سے ملاقات کرتے تھے اورآپ کے ساتھ قرآن کا دورکرتے تھے ان ایام میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے جس سے ہر کسی کو نفع پہنچتا تھا ۔(صحیح بخاری )

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سب انسانوں سے زیادہ حسین تھے ، سب انسانوں سے زیادہ سخی تھے اورسب انسانوں سے زیادہ بہادر تھے۔(صحیح بخاری)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یمن سے ، رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا بھیجا ، اس سونے کو ابھی مٹی سے خالص نہیں کیا گیا تھا، آپ نے یہ سارا سونا ان چار اشخاص میں تقسیم کر دیا۔ عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس ، زید الخیل اورچوتھے علقمہ بن علاثہ تھے یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہم ۔(صحیح مسلم)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: انصار کے کچھ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپ نے ان کو عطاکیا، انہوںنے پھر سوال کیا، آپ نے ان کو پھر عطافرمایا حتیٰ کہ آپ کے پاس جو مال تھا وہ ختم ہوگیا، پھر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: میرے پاس جو مال بھی ہو گا وہ میں تم سے بچاکر ذخیرہ نہیں کروں گا۔(ہاں البتہ )جو شخص سوال کرنے سے بچنے کی کوشش کرے اللہ تعالیٰ اس کو سوال کرنے سے بچالیتا ہے اورجو اپنے غنی ہونے کا تأثر دے اللہ تعالیٰ اس کو غنی کردیتا ہے اورجو تکلف سے صبر کرنے کی کوشش کرے اللہ تعالیٰ اس کو صبر کی توفیق عطافرمادیتا ہے اور کسی شخص کو بھی صبر کی دولت سے بہتر دولت عطانہیں ہوئی۔(صحیح بخاری)

حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حنین سے واپسی پر آپ کے ساتھ تھے، آپ کے ساتھ کچھ اورلوگ بھی تھے(اس اثنا ء میں )کچھ اعرابی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ چمٹ گئے اورآپ سے سوال کرنے لگے،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیکر کے ایک درخت کی طرف جانے پر مجبور کیا اور آپ کی چادر مبارک اچک لی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اورفرمایا: میری چادر مجھے دے دو۔ اگر ان درختوں کے برابر جو پائے میرے پاس ہوں تو میں وہ سب تمہارے درمیان تقسیم کردوں اورتم مجھے نہ تو بخیل پائو نہ دروغ گواور نہ بزدل۔(صحیح بخاری)


Darsulquran urdu surah Al-Araf ayat 55 part-02. کیا ہم غیر اللہ کو پکار ...

Darsulquran urdu surah Al-Ala ayat 01-05 part02.کیا ہم اپنی قیمتی زندگی ...

بدھ، 12 اکتوبر، 2022

Shortvideo - کیا اللہ تعالٰی کو پکارنا ضرروی ہے؟

حضور علیہ والصلوٰۃ السلام اورایفائے عہد

 

حضور علیہ والصلوٰۃ السلام اورایفائے عہد

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں : حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا: بحرین سے مال آیا تو تمہیں اتنا مال عطاکروں گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا(اس کے بعد)بحرین سے مال آیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا: جس کسی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وعدہ فرمارکھا ہو، وہ میرے پاس آئے، میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا: حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایاتھا: بحرین سے مال آیا تو میں تمہیں اتنا عطاکروں گا،آپ نے مجھ سے فرمایا: (اس مال سے)مٹھی بھر لو۔ میں نے مٹھی بھرلی توحضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:گنتی کرو،میں نے گنتی کی تو یہ پانچ سو تھے ، آپ نے مجھے پندرہ سوعطا کیے ۔ (صحیح بخاری)
حضرت براء بن عاز ب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے اہل مکہ کے پاس، مکہ میں داخل ہونے کی اجازت لینے کے لیے آدمی بھیجا۔ انہوں نے آپ کے (مکہ میں داخل ہونے کے )لیے یہ شرط لگائی کہ آپ مکہ میں تین روز سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے، ہتھیاروں کو نیام میں رکھیں گے اوراہل مکہ میں سے کسی کو(اپنے ساتھ جانے کی)دعوت نہیں دیں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان شرائط کو لکھنا شروع کیا، آپ نے لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ نے کیا، اہل مکہ کہنے لگے: اگر ہم یہ تسلیم کرتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے نہ روکتے بلکہ آپ کی بیعت کرلیتے ۔ اس کی جگہ آپ یہ لکھیں: یہ وہ معاہدہ ہے جومحمد بن عبداللہ نے کیا ہے ۔آپ نے فرمایا:خدا کی قسم ، میں محمد بن عبداللہ ہوں اورخدا کی قسم، میں اللہ کا رسول ہوں، راوی کہتے ہیں: آپ لکھا نہیں کرتے تھے اس لیے آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : رسول اللہ کے کلمات مٹادو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: خدا کی قسم ،میں تو ان کلمات کو کبھی نہیں مٹائوں گا۔ آپ نے فرمایا : تو پھر مجھے دکھائو، انہوں نے وہ کلمات دکھائے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دست پاک سے انہیں مٹایا۔ جب حضور مکہ میں داخل ہوئے اورمقررہ دن گزرگئے تواہل مکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہنے لگے: اب اپنے صاحب سے کہو کہ وہ یہاں سے چلے جائیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی توآپ نے فرمایا:اچھا،پھر آپ وہاں سے روانہ ہوگئے۔(صحیح بخاری)

Darsulquran urdu surah Al-Araf ayat 55 part-01. دعا کی حقیقت کیا ہے

Darsulquran surah Al-Ala 01-05 part-01.کیا ہم اپنے رب کے نام کی تسبیح ع...

منگل، 11 اکتوبر، 2022

Shortvideo - خالص اللہ تعالٰی کو پکارنے کا مطلب

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلم

 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلم

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت بھی تمام انسانوں سے زیادہ حسین تھی اورآپ کے اخلاق بھی سب انسانوں سے اچھے تھے ‘‘۔(صحیح بخاری)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں’’(میرے والد ماجد)حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے ذمہ (کافی)قرضہ تھا۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مددکی درخواست کی کہ آپ قرض خواہوں کوارشادفرمائیں کہ وہ کچھ قرض معاف کردیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرض خواہوں سے قرض معاف کرنے کی سفارش کی لیکن انہوں نے قرض معاف نہ کیا‘‘۔(صحیح بخاری)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اوراس مطالبے میں اس نے سختی کی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے اس کی گستاخی کی سزا دینے کاارادہ کیاتو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے چھوڑدو کیونکہ حقدار کو بات کرنے کا حق ہوتا ہے‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اس شخص کو اونٹ خرید کر دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہمیں اس کو دینے کے لیے جو اونٹ مل رہا ہے وہ اس کے اونٹ سے بہتر اورعمر میں بڑا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے وہی اونٹ خرید کر دے دوکیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرض کی ادائیگی عمدگی سے کرتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں:غزوہ حنین کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال غنیمت کی تقسیم میں ترجیح دی، آپ نے اقرع بن حابس کو سواونٹ عطاکیے۔ عیینہ کو بھی اسی قدر مال عطاکیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روز کچھ سرکردہ عربوں کو مال عطافرمایا اورتقسیم میں ان کوترجیح دی۔ (یہ دیکھ کر)ایک آدمی نے کہا:یہ ایسی تقسیم ہے جس میں انصاف نہیں کیاگیا یا جس میں رضائے خداوندی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے اپنے دل میں تہیہ کیا کہ قسم بخدا میں ضرور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دوں گا۔ میں نے وہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا :اگر اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف نہیں کریں گے توکون انصاف کرے گا؟ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ، انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی لیکن انہوں نے صبرکیا۔(صحیح بخاری)


Darsulquran urdu surah At-Tariq ayat 08-10.کیا ہم نے یوم آخرت کو بالکل ب...

پیر، 10 اکتوبر، 2022

جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۴)

 

جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۴)

حضرت انس رضی اللہ عنہ ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جما ل صورت وسیرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں سے زیادہ حسین ، سب سے زیادہ سخی اورسب سے زیادہ بہادرتھے‘‘۔ (صحیح بخاری)حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک حدیث میں حضور ھادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کیا اور اپنے بیان کو ان الفاظ پر ختم کیا’’میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ حلہ زیب تن کیے ہوئے دیکھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین وجمیل کوئی شے کبھی نہیں دیکھی‘‘۔(صحیح بخاری)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، حالت مرض میں ، تین دن باہر تشریف نہ لائے، تین دن کے بعد جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نماز کے لیے صف بندی کررہے تھے تو دلنواز آقا نے حجرے کا پردہ سرکاکراپنے غلاموں کی طرف دیکھا۔ غلاموں کے لیے یہ منظر کتنا روح پرورتھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی زبانی سنیے ’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور ہمارے سامنے جلوہ افروز ہوا تو یہ منظر اتناروح پرور تھا کہ ہم نے اس منظر سے زیادہ حسین منظر کبھی دیکھا ہی نہیں‘‘ ۔(صحیح مسلم)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث پہلے گزرچکی ہے ، ایک دوسری جگہ انہوں نے اپنے احساسات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے، فرماتے ہیں’’کسی زلفوں والے سرخ حلہ پوش کو میں نے اتنا خوبصورت نہیں دیکھا جتنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا ہے‘‘۔(صحیح مسلم)حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ایک اور مقام پر اپنے احساسات محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے، فرماتے ہیں’’میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ حلہ پہن رکھا تھا اورآپ نے اپنے مبارک بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی۔میں نے نہ آپ سے پہلے اورنہ آ پکے بعدکسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو آپ ؐسے زیادہ خوبصورت ہو‘‘۔ (سنن نسائی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قددرمیانہ تھا، آپ نہ تو بہت زیادہ طویل القامت تھے اورنہ بہت زیادہ پست قد، آپ کا رنگ بڑا صاف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ نہ تو بہت زیادہ سفید تھا نہ ہی بہت زیادہ گندم گوں، آپ کے بال نہ تو بہت زیادہ گھنگریالے تھے اورنہ بہت زیادہ ہموار۔ چالیس سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا آغاز ہوا۔ دس سال آپ مکہ میں تشریف فرمارہے، اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی رہی ، اوردس سال آپ مدینہ منورہ میں قیام فرما رہے ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہواتو آپ کے سراورداڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے‘‘۔(صحیح البخاری)

Darsulquran urdu surah Al-Araf ayat 54.کیا ہم اللہ تعالی کےتابع فرمان نہ...

Darsulquran urdu surah at-Tariq ayat 01-08 Part-02.کیا ہم اپنے مقصد تخلی...

اتوار، 9 اکتوبر، 2022

جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۳)

 

جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۳)

خادم رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت حمید کے سوال پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات بیان کیے اورآخر میں جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کابیان ان محبت بھر الفاظ میں کیا:’’نہ کسی ایسے ریشم کو چھونے کا اتفاق ہواہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم ہواورنہ ہی کوئی ایسی خوشبو سونگھی ہے جوحضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے زیادہ معطر ہو‘‘۔(صحیح بخاری)

حضرت ابوحجیفہ ؓ  حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرب میں گزری ہوئی مقدس ساعتوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’نماز کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اورانہوں نے سرورعالم ﷺکے دست انور کو پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھا۔ آپ کا دست اقدس برف سے زیادہ خنک اورکستوری سے زیادہ خوشبودار تھا‘‘۔ (صحیح البخاری )حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ، نمازفجر کے بعد اپنے کاشانہء اقدس کی طرف روانہ ہوئے ۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں چل دیا۔ راستے میں بچوں نے آپکی زیارت کا شرف حاصل کیا آپ ﷺ ایک ایک کرکے انکے رخساروں پر دست اقدس پھیرتے جارہے تھے ۔ آپ نے میرے رخساروں پر بھی دست اقدس پھیرا،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس میں ایسی ٹھنڈک اورخوشبو کو محسوس کیا گویا آپ نے اپنے دست اقدس کو ابھی عطار کے صندوقچے سے نکالاہو۔(صحیح مسلم)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں :’’حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے گھر تشریف لائے اور ہمارے ہاں قیلولہ فرمایا، قیلولے کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آگیا، میری والدہ ایک شیشی لائیں اورحضور ﷺ کے عرق مبارک کو اس میں ڈالنا شروع کردیا۔ حضور ﷺ کی آنکھ کھل گئی ۔ آپ نے پوچھا: ام سلیم ! یہ کیا کررہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : ’’یہ آپ کا پسینہ ہے ہم اس کو خوشبو میں ملائیں گے ۔آپ کا یہ پسینہ تمام خوشبوئوں سے زیادہ خوشبودار ہے‘‘۔(صحیح مسلم)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ ،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے حسن کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عشاء میں سورئہ والتین والزیتون پڑھتے ہوئے سنا ۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے زیادہ اچھی آواز کسی کی نہیں سنی‘‘۔(صحیح مسلم)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں: ’’میں جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کی زیارت کرتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے آپ نے سرمہ لگارکھا ہے حالانکہ آپ نے سرمہ استعمال نہیں کیا ہوتا تھا‘‘۔(جا مع الترمذی)


Darsulquran urdu Surah At-Tariq ayat 01-08 Part-01.کیا ہم اپنے آپ کوبھول...

Shortvideo - اللہ تعالٰی پر بھروسہ کا مطلب

ہفتہ، 8 اکتوبر، 2022

جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۲)

 

جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۲)

حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خوشی کے عالم میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوئے تو حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت سرور میں میرے پاس تشریف لائے تو آپکے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے ‘‘۔(سنن النسائی )حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب بذریعہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اوران کے رفقاء کی توبہ کی قبولیت کا علم ہواتو آپ کی خوشی کا عالم قابل دید تھا ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طلب کرنے پر حاضر خدمت ہوئے توانہوں نے آپ کو جس حالت میں دیکھا، اس کا بیان ان الفاظ میں کیا:’’جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا ، اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور فرحت وانبساط سے جگمگا رہا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مسرور ہوتے ، آپ کا رخ انور یوں لگتا گویا وہ چاند کا ٹکڑا ہے اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کیفیت سے ہم آشنا تھے‘‘۔(صحیح بخاری)

حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی ایک حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی مجھے اب بھی نظر آرہی ہے‘‘ ۔(صحیح بخاری)

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام علالت میں آپ کے دیدار کی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیاہے: ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر ے کا پردہ اٹھایا اورکھڑے ہوکر ہماری طرف نظر فرمائی ، یوں محسوس ہوتا تھا، گویا آپ کا رخ انور قرآن حکیم کا ورق ہو‘‘۔(صحیح مسلم)حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت انبساط میں دیکھا تو اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا:’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کو چمکتے ہوئے دیکھا گویا اس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہو‘‘۔(سنن نسائی)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محبت کی ایک یاد کو تازہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ’’گویا مجھے حضور کی مانگ میں خوشبو کی چمک نظرآرہی ہے‘‘۔(صحیح بخاری)حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوایک ایسی رات میں دیکھا جب چاند کی چاندنی اپنے عروج پر تھی ، میں کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کی طرف دیکھتا اورکبھی ماہ منیر کی طرف، اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرخ رنگ کے حلے میں ملبوس تھے، میری نظر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے زیادہ حسین تھے‘‘۔(جامع ترمذی)


Darsulquran urdu surah Al-araf ayat 52-53 part-01.کیا ہم نے اپنے آپ کو ن...

Darsulquran surah Al-Burooj ayat 01-22.کیا ہم حقیقی ایمان کے طلبگار نہیں...

جمعہ، 7 اکتوبر، 2022

جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۱)

 

جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۱)

حضرت سعید الجریری کا بیان ہے کہ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے ان سے ذکر کیا کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ سعید نے عرض کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تم نے کیسا پایا تو انہوں نے جواب دیا’’یعنی آپ کی رنگت سفیدتھی اورسفید بھی ایسی جس میں ملاحت اورخوبصورتی اپنے جوبن پر تھی‘‘۔(سنن ابی دائود)

حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی تدفین کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا ۔وہ صحابی اس پتھر کو نہ اٹھا سکے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خودتشریف لے گئے ، بازوئوں سے کپڑا پیچھے کیا اور پتھر کوخود اٹھالائے ، جس صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو روایت کیا، اس کے الفاظ یہ ہیں :’’گویا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوئوں کی سفیدی کو اب بھی دیکھ رہا ہوں‘‘۔ (سنن ابی دائود )

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے ہاتھوں کو بلند کیا، ایک صحابی نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’پھر آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے حتیٰ کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی کا مشاہدہ کیا‘‘۔(سنن ابی دائود)

حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ،آپ کے دائیں بائیں سلام پھیرنے کی کیفیت کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں سلام پھیرتے ہوئے دیکھتا حتی کہ مجھے آپ کے رخ انور کی سفیدی نظر آتی‘‘۔(صحیح مسلم)

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی آپ کے سلام پھیر نے کی کیفیت کو اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا ہے ، فرماتے ہیں : ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپ کے رخساروں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی اور آپ بائیں جانب سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپکے رخساروں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی ‘‘۔(سنن النسائی)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک بیان کررہے تھے کہ ایک صحابی نے عرض کیا:’’ آپ کا رخ انور تلوار کی طرح چمک دار تھا‘‘۔حضرت جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ نے فوراً ان سے اختلاف کیااور فرمایا: ’’نہیں بلکہ آپ کا رخ انور شمس وقمر کی طرح روشن تھا‘‘۔(صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ، حضور اکرم ﷺ کے جمال جہاں آراکا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حسین ترکوئی چہر ہ نہیں دیکھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا سورج آپکے رخ انور میں رواں دواں ہے‘‘۔(جامع ترمذی)

Darsulquran urdu surah Al-Araf ayat 50-51.کیا ہم دنیا کی زندگی کے دھوکے ...

جمعرات، 6 اکتوبر، 2022

SurahAl-Inshiqaq ayat 20-25. کیا ہم اللہ تعالی کے سامنے حقیقی طور پر سر...

حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج (۴)

 

حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج (۴)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ایک معرکے میں شریک ہوئے۔ بہت سے مہاجرین بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ہمارے ایک مہاجر بھائی بڑے خوش طبع تھے۔ انہوں نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ ماردیا۔ انصاری اس(حرکت)سے سخت غصے میں آگئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں اپنے اپنے ساتھیوں کو بلانے لگے۔ انصاری کہنے لگے: اے انصار!میری مددکرو اور مہاجر،مہاجرین کو مدد کیلئے بلانے لگے۔ حضور ﷺ باہر تشریف لائے اورفرمایا : کیا بات ہے، یہ زمانہ جاہلیت کی پکاریں کیوں بلند ہورہی ہیں؟ پھر آپ نے پوچھا : انہیں ہوا کیا ہے؟آپ کو بتایا گیا کہ اس مہاجر نے اس انصاری کی پشت پر ہاتھ مارا ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ زمانہ جاہلیت کی پکار چھوڑ دو، یہ بہت بری بات ہے۔ عبداللہ بن ابی نے کہا: یہ (مہاجرین ) ہمارے مقابلے میں متحد ہوئے ہیں۔جب ہم لوٹ کر مدینہ جائینگے تو ہم میں سے جو غالب ہوگا وہ ذلیل لوگوں کو شہر سے نکال دیگا۔ (اس پر)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: (یا رسول اللہ !ﷺ )آپ اس خبیث کو قتل کیوں نہیں کردیتے ؟ یعنی عبداللہ بن ابی کو ۔ حضور نے فرمایا : (اگر میں اس کو قتل کروا دوں تو)لوگ کہیں گے کہ محمد (ﷺ)اپنے ساتھیوں کو قتل کروادیتے ہیں ۔ (صحیح بخاری ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ قریش نے حضور اکرم ﷺسے صلح کی۔ صلح کا معاہدہ تحریر کرنے والوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا۔ حضور ہادی عالم ﷺنے حضرت علی کرم وجہہ الکریم سے فرمایا: لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔(اس پر)سہیل کہنے لگا: جہاں تک بسم اللہ کا تعلق ہے ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہیں جانتے ۔ تم وہ لکھو جو ہم جانتے ہیں لکھو: ’’با  سمک اللھم ‘‘حضور ﷺنے فرمایا: لکھو : محمد رسول اللہ(ﷺ) کی طرف سے ۔ وہ کہنے لگا: اگر ہمیں یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپکی پیروی اختیار کرلیتے، آپ اپنا اوراپنے والد کا نام لکھیں۔حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا : لکھو محمد بن عبداللہ(ﷺ) کی طرف سے ۔ انہوں نے حضور کے سامنے یہ شرط رکھی کہ تم میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا ہم اس کو واپس نہیں لوٹا ئیں گے لیکن ہم میں سے جو تمہارے پا س آئے گا تم اس کو لوٹا دوگے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ (ﷺ )! کیا ہم اس شرط کو لکھ لیں ؟آپ نے فرمایا : ہاں ۔ ہم میں سے جو ان کی طرف جائے گا تو اللہ اس کو (اپنی رحمت سے)دورکردیگا اوران میں سے جو ہماری طرف آئیگا (اوراس شرط کیمطابق ہم اس کو واپس کردیں گے)اس کیلئے اللہ تعالیٰ وسعت پیدا فرمائے گا اورمشکل سے نکلنے کا راستہ پیدافرمادے گا۔(صحیح مسلم)

Shortvideo - کلمہ طیبہ کا تقاضہ

Darsulquran urdu surah Al-Araf ayat 45-49.کیا ہم اصحاب الجنتہ میں سے ہیں

بدھ، 5 اکتوبر، 2022

Darsulquran Al-Inshiqaq ayat19 کیا ہم صرف دنیا کے طالب ہیں اور کیا ہماری...

حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج (۳)

 

حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج (۳)

حضرت عبدالرحمن بن کعب بن مالک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ کفارمکہ نے عبد اللہ بن ابی اور اسکے ساتھ اوس و خزرج میں سے جو لوگ بتوں کی پو جا کرتے تھے،انکی طرف خط لکھا۔اس وقت حضور ﷺ مدینہ طیبہ میں تھے۔یہ بات جنگ بدر سے پہلے کی ہے ۔ (انہوں نے لکھا)کہ تم نے ہمارے آدمی کو پناہ دی ہے اور ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم یا تو انکے ساتھ جنگ کرو گے یا ان کو نکال دو گے اور یا ہم سب تمہاری طرف آئینگے اور تم میں سے جو لوگ لڑنے کے قابل ہیں ان کو قتل کر دینگے اور تمہاری عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے۔جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اسکے ساتھی بت پرستوں کے پاس پہنچاتو وہ حضور ﷺسے لڑنے کیلئے جمع ہو گئے۔ جب یہ بات حضوراکرم ﷺتک پہنچی توآپ نے ان لوگوں سے ملاقات فرمائی اورارشاد فرمایا:قریش کی دھمکیوں نے تمہیں اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ یہ دھمکیاں تمہیں  جو نقصان پہنچا سکتی ہیں تم اس سے زیادہ اپنے آپکو نقصان پہنچانے کے درپے ہو۔تم تو یہ ارادہ رکھتے ہوکہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کیخلاف جنگ کرو۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺکی یہ باتیں سنیں تو منتشر ہوگئے ۔ جب قریش تک یہ خبر پہنچی تو قریش نے، جنگ بدر کے بعد ، یہودیوں کی طرف لکھا کہ تم ہتھیاروں اورقلعوں والے لوگ ہو۔ اب تم یا تو ہمارے آدمی کیخلاف جنگ کرو اوریاہم تمہارے ساتھ یہ یہ سلوک کرینگے اور ہمارے درمیان اورتمہاری عورتوں کی پازیبوں کے درمیان کوئی شے حائل نہیں رہے گی۔یہ بات بھی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی ۔بنو نضیر عہد شکنی پر متفق ہوگئے ۔انہوںنے نبی کریم ﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ اپنے صحابہ میں سے تیس افراد کے ساتھ آئیں اورہمارے تیس علماء تمہاری طرف آئینگے حتیٰ کہ ہم کسی وسطی جگہ پر ملاقات کرینگے،ہمارے علماء تمہاری بات کو سنیں گے ،اگر وہ آپکی تصدیق کردیں اورآپ پر ایمان لے آئیں تو ہم بھی آپ پر ایمان لے آئینگے ۔ حضور ﷺنے ان (یہودیوں )کی بات سے لوگوں کومطلع فرمایا(لیکن اُنکی ایک سازش کا انکشاف ہونے کے بعد ) اگلے دن آپ کچھ دستوں کیساتھ انکی طرف تشریف لے گئے اور ان کا محاصرہ کرلیا۔ آپ نے ان سے فرمایا: خداکی قسم ! تمہارے محفوظ رہنے کی ایک ہی صورت ہے کہ تم ہمارے ساتھ معاہدہ کرو۔ انہوںنے  انکار کردیا۔ حضور اکرم ﷺنے اس روز ان کیخلاف جنگ کی۔ اگلے روز آپ بنو نضیر کو چھوڑ کر بنو قریظہ کے پاس اپنے لشکر کی معیت میں تشریف لے گئے۔ آپ نے ان کو معاہدہ کی دعوت دی ۔ انہوںنے معاہدہ کرلیا۔ حضور نبی کریم ﷺان کی طرف سے پلٹے اوربنو نضیر کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے ان سے جنگ کی اوروہ جلاوطنی پر راضی ہوگئے۔(سنن ابی دائود)

Shortvideo - کلمہ طیبہ کی وضاحت

منگل، 4 اکتوبر، 2022

Darsulquran urdu surah al-inshiqaq ayat 16-18.کیا ہماری توجہ اپنی معراج ...

Darsulquran urdu surah Al-araf ayat 44.کیا ہم اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں

بصیرت افروز رہنمائی

 

بصیرت افروز رہنمائی

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،فرماتے ہیں:جنگ احد کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جبیر ر ضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو پچاس پیادہ مجاہدوں کے دستے پر کمانڈرمقرر کیا اور فرمایا:اگر تم دیکھو کہ (شکست کے بعد)پرندے ہمارے جسموں کو نوچ رہے ہیں تو اس صورت میں بھی تم اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا حتیٰ کہ میں تمہارے پاس پیغام بھیجوں اور اگر تم یہ دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے کر ان کو پائوں تلے روند دیا ہے تو اس صورت میں بھی تم اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا جب تک میں تمہارے پاس پیغام نہ بھیجوں ۔(صحیح بخاری)

حضرت عمرو بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں:بنو النفیر کے اموال ایسے تھے جو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور غنیمت عطا فرمائے تھے،ان کے لیے مسلمانوں نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے ۔یہ اموال خالصتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال سے اپنے اہل خانہ کا ایک سال کا خرچ علیحدہ کر لیتے تھے اور جو مال بچتا تھااسے راہ خدا میں (کام آنے کے لیے)گھوڑے اور ہتھیار خریدنے کے لیے وقف کر دیتے تھے۔(جامع ترمذی)

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،فرماتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے باغ میں ان کا کھجور کا ایک درخت تھا۔اس انصاری کے اہل خانہ بھی اس کے ساتھ (باغ میں )ہوتے تھے۔راوی کہتے ہیں،سمرہ اپنی کھجور کے درخت کے پاس جاتے تھے جس سے اس(انصاری)کو تکلیف ہوتی تھی اور یہ بات اس پر گراں گزرتی تھی ۔اس نے حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس درخت کو بیچ دیں انہوں نے انکار کر دیا۔انہوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس درخت کا تبادلہ کر لیں ۔انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔انصاری حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے اس بات کا ذکر کیا۔آپ نے ان سے اس درخت کے تبادلہ کامتعلق ارشادفرمایاتو انہوں نے اس سے بھی معذرت کرلی۔آپ نے فرمایا،تم یہ درخت اس انصاری کو ہبہ کر دو،تمہیں اس کے بدلے میں اتنا اتنا دیا جائے گا ۔آپ نے ان کو تر غیب دی تو انہوں نے اس سے بھی معذرت کی ۔(اس پر)حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم ضرر رسانی کا ارادہ رکھتے ہو ۔پھر آپ نے اس انصاری سے فرمایا،جائو ،اس کے کھجور کے درخت کو کاٹ دو۔(سنن ابی دائود)


Darsulquran Surah Al-Inshiqaq ayat 07-15 part-02.کیا ہم نے اللہ والوں سے...

Shortvideo - کلمہ طیبہ کا مطلب

اتوار، 2 اکتوبر، 2022

Darsulquran surah Al-Inshiqaq ayat 07 part-01.ہم دین اسلام کو مکمل اپنا...

Shortvideo - رضائے الٰہی کیسے حاصل ہوگی؟

حضور اکرم ﷺ اوردین کی حکیمانہ ترویج

 

حضور اکرم ﷺ اوردین کی حکیمانہ ترویج

حضور اکرم ﷺ ،اللہ رب العزت کے فرستادہ رسول ہیں، آپ ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں تشریف  لائے جس میں جاہلیت کی روایتیں مکمل طور پر راسخ ہوچکی تھیں ، صرف وہی معاشرہ نہیں پوری دنیا کے احوال پراگندہ ہوچکے تھے ، ایسے میں اللہ رب العزت کے احکام کو نافذ کرنا اورمعاشرے کو اس پر آمادہ کرناکوئی سہل کام نہیں تھا۔اللہ رب العزت نے اپنے رسول کو حکمت اوربصیرت سے بہرورفرمایا اورحضور نے بتدریج پورے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔آپکے تربیت یافتہ صحابہ کرام بھی اسی شعور اورتدبر کے حامل تھے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی بناکر بھیجا اورفرمایا: آپ ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہیں جو اہل کتاب ہیں۔ تم سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ (پر ایمان اوراس )کی عبادت کی دعوت دو۔ جب وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں تو ان کو بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن اوررات میں، پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اس حکم کی تعمیل کرلیں تو ان کو بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگو ں سے وصول کرو اورلوگوں کے عمدہ ترین مال کو (بطور زکوٰۃ )وصول کرنے سے اجتناب کرو۔ (صحیح بخاری )حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں ان ہدایات کا ذکرہے جو حضور ﷺکسی امیرلشکرکو کسی مہم پر بھیجتے وقت دیا کرتے تھے۔اس حدیث پاک میں یہ الفاظ بھی ہیں: اگر وہ چاہیں کہ تم ان سے خدا اور خدا کے رسول کے عہد پر صلح کرو توانہیں خدا اور رسول خدا کی طرف سے عہد نہ دوبلکہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے عہد دو۔ کیونکہ اگر تم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد کی خلاف ورزی کربیٹھو تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم خدا اور رسول خد ا کے عہد کو توڑو(یہ آپکی حکیمانہ پیش بندی ہے ناکہ عہد شکنی کی تحریک)اور اگر تم کسی قلعے کامحاصرہ کرو اور اہل قلعہ چاہیں کہ(وہ اس شرط پر ہتھیارپھینکنے کو تیار ہیں کہ)تم ان میں خدا کا حکم نافذ کرو گے تو تم انکی یہ شرط نہ مانوبلکہ ان کو اپنے حکم کے مطابق ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرو۔کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تم ان میں خدا کے حکم کو نافذکر پائو گے یا نہیں۔(جامع ترمذی)حضرت وہب رحمۃ اللہ علیہ بیان فرما تے ہیں:میں نے حضرت جابرؓ سے قبیلہ بنوثقیف کی بیعت کے متعلق پوچھاتو حضرت جابرؓنے فرمایا:انہوں (بنو ثقیف)نے(اسلام قبول کرتے وقت )یہ شرط رکھی تھی کہ وہ نہ زکوٰۃدیں گے اور نہ جہاد کرینگے۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہا انہوں نے بعد میں حضور ﷺکو یہ فرماتے بھی سنا: جب وہ اسلام لے آئینگے تو (یقینا)زکوٰۃ بھی دینگے اور جہاد بھی کریں گے۔(سنن ابی دائود)


Darsulquran urdu surah al-araf ayat 37-39 Part-02. کیا ہم پر دوزخ کا ...

Darsulquran urdu Surah Al-Inshiqaq ayat 06.کیا رب سے ملاقات بہت آسان ہے