ہفتہ، 15 اکتوبر، 2022

سخاوت حضور کی(۲)

 

سخاوت حضور کی(۲)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں : ایک شخص کا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ، ایک مخصوص عمر کا اونٹ تھا ،وہ شخص آپ کی خدمت میں آیا اوراپنے اونٹ کا مطالبہ کرنے لگا۔ حضور نبی محتشم ﷺنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اس شخص کو اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا جس کا وہ شخص حق دار تھا لیکن ان کو صرف وہی اونٹ ملا جو عمر کے اعتبار اس کے اونٹ سے بہتر تھا۔ حضور انور ﷺنے فرمایا : اس کو یہی اونٹ دے دو۔ وہ شخص کہنے لگا، آپ نے مجھے کامل ادائیگی کی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو زیادہ عطافرمائے، حضور انور ﷺنے فرمایا: تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو(دوسروں کے حقوق )بہتر انداز میں اداکرتا ہے۔ (صحیح بخاری)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں ایک شخص نے دس درہم قرض کے عوض اپنے مقروض کو پکڑلیا، وہ شخص کہنے لگا، میرے پاس تجھے دینے کے لیے کچھ نہیں، وہ (قرض خواہ )کہنے لگا، نہیں ، خدا کی قسم ، میں اس وقت تک تجھ سے علیحدہ نہیں ہوں گا جب تک تو مجھے میرا قرض ادانہیں کرتا یا کوئی ضامن پیش نہیں کرتا۔ وہ اس شخص کو کھینچ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا، آپ نے اس شخص سے پوچھا: تم اس کو کتنی مہلت دے سکتے ہو؟اس نے عرض کیا : ایک مہینا، حضور ﷺنے فرمایا : تو میں اسکی ضمانت دیتا ہوں، وہ شخص مقررہ وقت پر (مال لے کر) حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں یہ مال کہاں سے ملا ہے؟ اس نے عرض کیا : کان سے ، حضور نے فرمایا:اس (مال)میں کوئی بھلائی نہیں، پھر نبی کریم ﷺنے اس شخص کا قرض اپنے پاس سے اداکردیا۔(سنن ابن ماجہ)
حضرت انس ﷺ فرماتے ہیں: کچھ لوگ (انصاری)کھجوروں کے کچھ درخت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے استعمال کیلئے وقف کرتے تھے ، جب بنو قریظہ اوربنونضیر کے اموال فتح ہوئے تو میرے اہل خانہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری دوں اورعرض کروں کہ انہوںنے آپ کی خاطر جو درخت مختص کیے تھے، وہ سارے یا ان میں سے کچھ ان کو عطافرمادیں، حضور نبی کریم ﷺ نے وہ درخت حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو عطافرمادیے تھے، ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اورمیری گردن میں کپڑا ڈال کرکہنے لگیں: ہر گز نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں، حضور اکرم ﷺ ان سے فرماتے تھے ، تمہیں ان درختوں کے بدلے اتنا مال دیا جائے گا تو وہ کہتی تھیں : ہر گز نہیں ، خدا کی قسم ! راوی کہتے ہیں :(یہ سلسلہ جاری رہا)حتیٰ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو میرے خیال میں، ان درختوں سے دس گنا عطافرمادیا۔(صحیح بخاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں