ہفتہ، 30 دسمبر، 2023

Shortvideo - Kya hum sab nafs kay banday hain?

فرامین مصطفی ﷺ اور شان صدیقؓ

 

فرامین مصطفی ﷺ اور شان صدیقؓ

امیر المومنین افضل البشر بعد الانبیاء حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ بہت زیادہ شان و عظمت کے مالک ہیں۔حضور نبی کریم ﷺنے خود آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے شان بیان فرمائی۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر میری امت کے ایمان کو ابو بکر صدیقﷺ کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو ابو بکر صدیقؓ ا ایمان بھاری ہو گا۔(بہیقی) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت میں سے سب سے پہلے ابو بکر صدیق ؓجنت میں داخل ہوں گے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایسا کوئی نبی نہیں ہوا ہے جس کے دو وزیر آسمانوں اور دو وزیر زمین پر نہ ہو ں۔ لہٰذا آسمانوں پر میرے دو وزیر حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام ہیں اور زمین پر ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ مسجد میں داخل ہوئے آپ ؐ کے دائیں اور بائیں جانب حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہما تھے۔ آپ ؐ نے ان دونو ں کا ہاتھ پکڑے ہوئے ارشاد فرمایا ہم قیامت کے دن بھی اسی طرح اٹھیں گے۔ ( ترمذی ) 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : میرے اوپر کسی کا احسان باقی نہیں ہے میں نے سب کا بدلہ چکا دیا ہے۔ البتہ ابو بکر صدیق ؓ کا احسان اب بھی میرے ذمہ باقی ہے جس کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالی عطا فرمائے گا۔ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابو بکر صدیق ؓکے مال نے نفع دیا ہے۔(ترمذی)
حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی وہ ابو بکر صدیقؓ ہیں۔
محمد بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی ا س نے کوئی نہ کوئی تردد ضرور پیش کیا ایک ابو بکر ہیں جنہوں نے بغیر تعامل و تردد کے اسلام قبول کیا۔ ( بخاری )۔
حضرت سیدنا عمرفاروقؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نے لشکر کی تیاری کے لیے اپنا آدھا سامان بطور صدقہ حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ جبکہ ابو بکر صدیق ؓ نے اپنا سارا مال حضور نبی کریم ﷺکے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ آپؐ نے پوچھا اے ابو بکر ! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کے آئے ہو ابو بکر صدیق ؓنے عرض کیا ان کے لیے اللہ تعالی اور اس کا رسول کافی ہے۔ (ترمذی)۔

جمعہ، 29 دسمبر، 2023

Surah Ibrahim Ayat 31 Part-01.کیا ہم بہت بڑے نقصان سے دوچار ہونے والے ہیں

Surah Ibrahim Ayat 30.کیا صرف ظاہر دنیا ہی ہمیں محبوب ہے

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)


 

    حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)

آپؓ نے اسلام کی حالت ضعف میں کل مال و متاع ، قوت قابلیت اور جان و اولاد اور جو کچھ پاس تھاسب کچھ انفاق فی سبیل اللہ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر نہایت عسرت و تنگی کی حالت کے دور میں آپؓ نے مالی خدمت میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔اور جہاد فی سبیل اللہ کے اس موقع پر بھی جانثاری میں سب سے سبقت لے گئے۔ اور گھر کا سارا مال حضور نبی کریمﷺکے قدموں میں لا کر رکھ دیااور گھر میں ایک سوئی بھی نہ چھوڑی۔ حضور نبی کریمﷺ نے صدیق اکبرؓ سے پوچھا تم نے اپنے اہل و عیال کے لیے باقی کیا رکھا ہے۔حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے عرض کی یارسول اللہﷺان کے لیے اللہ اور اس کا رسولﷺ کافی ہے۔ 
جب دوبارہ حضور نبی کریمﷺ نے جہاد کے لیے مال جمع کرنے کا حکم دیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ کو گھر میں تلاش کرنے کے باوجود کچھ نہ ملا۔ ساری رات بے چینی میں گزری اور پریشانی کی حالت میں کروٹ بدلتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو اٹھ کر بازار جا کر اپنا زیب تن پوشاک بھی فروخت کر دیااور ٹاٹ کا لباس پہن کر اور بٹنوں کی جگہ کانٹے لگا کر حضور نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں رقم لے کر حاضر ہوئے۔ادھر جبرائیل علیہ السلام حضور نبی کریمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی اللہ تعالی کو یہ عظیم قربانی اور جذبہ اتنا محبوب ہوا کہ آج تمام فرشتوں نے یہ پوشاک پہن رکھی ہے۔ 
اللہ تعالی نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو سلام بھیجا ہے اور پوچھا ہے کہ کیا ابو بکرؓ اس حال میں مجھ سے راضی ہے۔ آپؓکی آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے اور عرض کی یارسول اللہﷺ میں راضی ہوں۔ آپؓ نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں جو دعا کی اللہ تعالی نے نہ صرف اس کو قبول فرمایابلکہ اس کو قرآن کی آیت بنا دیا۔ آپؓ نے اللہ تعالی سے عرض کی : ’’اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر بجا لاؤ ں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائی اور میں ایسا صالح عمل کروں جس سے تو راضی ہو اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی رکھ میں تیری طرف تائب ہوتا ہوں اور تیرے مطیع فرماں بندوں سے ہو جاؤں‘۔
آپؓ کی دعا کا یہ ثمر ملا کہ آپؓ کے خاندان کی چار پشتیں صحابی ہو گزریں اور یہ شرف کسی اور صحابی کے حصہ میں نہ آیا۔

جمعرات، 28 دسمبر، 2023

Surah Ibrahim Ayat 28-29 Part-02.کیا ہمیں جہنم میں جانے کی جلدی ہے

Surah Ibrahim Ayat 28-29 Part-01.کیا ہم زندگی کو ضائع کر رہے ہیں

حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ(۱)

 

حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ(۱)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا پہلا نام عبد الکعبہ تھا۔ پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبد اللہ رکھا۔ آپ کی ولادت باسعادت عام الفیل سے تقریبا ً اڑھائی سال بعد ہوئی۔ آپ کے والدماجد کا نام ابی قحافہ عثمان ؓ بن عامر تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ کفر و شرک کا ماحول تھا۔ شراب نوشی اور زنا کاری کو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔اس دور میں بھی آپ فطری طور پر ان برائیوں سے دور رہے۔ کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے۔آپ کی عمر مبارک تقریبا اڑتیس برس تھی جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا۔ آزاد مردوں میں آپ کو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ نبی کریم ر ئو ف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب ہونے اور تعلیم و تربیت سے آپ کے محاسن کو مزید جلا اور تقویت ملی اور آپکی شخصیت میں وہ نکھار پیدا ہواکہ آپ افضل البشر بعد الانبیاء قرار پائے۔اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا تن من دھن ہر چیز اسلام کی اشاعت و ترویج کے لیے وقف کر دی۔ 
حضرت ابو بکر صدیق ؓنے جب اسلام قبول کیا تو آپ کے پاس پچاس ہزار درہم تھے آپ نے خوب دل کھول کر انہیں خرچ فرمایا۔تقریباً ۹ غلام اور لونڈیاں جو مسلمان ہو چکے تھے انہیں خرید کر آزاد فرمایا۔ جن میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی تبلیغ سے بہت سے صحابہ کرام حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ جن میں حضرت عثمان بن عوف ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ، حضرت زبیر بن العوام ، سعد بن ابی وقاص ، ابو عبیدہ بن الجراح جیسی ہستیاں شامل ہیں۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات آسمان پر ان گنت ستارے چمک رہے تھے۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کے کسی امتی کی اتنی نیکیاں ہیں جتنے آسمان کے ستارے ہیں۔ 
آپﷺنے فرمایا!ہاں اتنی نیکیاں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہیں۔ آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کی میرے والد ماجد ابو بکر صدیقؓ کی نیکیاں کتنی ہیں ؟ تو آپ  نے فرمایاحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک غار ثور والی نیکی حضرت عمر ؓ کی سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے۔ (مشکوۃ شریف)۔

Shortvideo - Kya humara maqsood-e-hayat sirf dunya ki zindagi hay?

Surah Ibrahim Ayat 24-27 Part-02.کیا ہم نے کلمہ طیبہ صدق دل سے پڑھ لیا ہے

Surah Ibrahim Ayat 24-27 Part-01.کیا ہمارے دل میں صرف دنیا کی محبت ہے

بدھ، 27 دسمبر، 2023

محراب و منبرکے وارث

 

محراب و منبرکے وارث

محراب لفظ ’’حرب ‘‘ سے نکلا ہے جس کا معنی جنگ کے ہیں ۔ عربوں میں جنگوں کے دوران ایک مخصوص جگہ ہوتی تھی جہاں سالار کھڑے ہو کر سپاہیوں کو ہدایات دیتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے تھے ۔ جب طلوع اسلام ہوا تو اسلام نے اس لفظ کو جنگ سے اٹھا کر مسجد میں لا رکھا اور مسجد میں محراب کو مستقل جگہ دے دی گئی ۔پھر اس مقام پر سالار جنگ کی جگہ خطیب مسجد یا امام مسجد کو کھڑا کر دیا گیا تا کہ وہ باطل قوتوں اور شیطانی حملوں کے خلاف اپنے سننے والوں کو آگاہ کرتا رہے ۔ اسلام میں اس مقام کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ اسی مقام پر کھڑے ہو کر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا درس دیتے رہے ۔ سیدنا صدیق اکبر اسی مقام پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کے اذہان کو سنوارتے رہے ۔اسی مقام کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سیدنا فاروق اعظم ، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہم نے جا م شہادت نوش فرمایا ۔محراب کی اہمیت قرون اولی سے لیکر آج تک مستحکم ہے ۔ ہر جمعہ کو محراب ہی ایک ایسا مقام ہے جہاں ہمارے خطیب کھڑے ہو کر نفس و شیطان کی فریب کاریوں سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے ائمہ مساجد کھڑے ہوکر ہر روز اہل ایمان کو اللہ کے سامنے سر جھکانے کی تلقین کرتے ہیں اور اس فریضہ کو ادا کرنے کی امامت کرتے ہیں ۔ 
ائمہ مساجد اور خطیب حضور نبی کریم ﷺ کے مقرر کردہ وارثان محراب و منبر ہیں ۔یہ اتنا بڑا مقام ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ 
آج ہم پاکستان اور دنیا بھر میں لاکھوں مساجد میں کھڑے ائمہ کرام کے فرائض  اور ذمہ داریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ آج یہ لوگ بے سرو سامانی کے با وجود امت کے ان افراد کی راہنمائی اور امامت کرتے ہیں جو مادی طور خود توخوشحال ہیں مگر ان کا سپہ سالار تنگ دست ہے ۔ آج کا یہ سپہ سالار سپاہیوں اور نمازیوں کے رحم و کرم پر ہے ۔ وہ اپنے مقتدیوں کے چندوں کے سہارے زندہ ہے ۔ وہ اپنی معیشت کے لحاظ سے ان نمازیوں کے دست کرم کا محتاج ہے جو اس کے حکم پر برائیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود ائمہ کرام کے حوصلہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو محراب و منبر کی شان کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ہم اپنے خطبائے مساجد کو سلام پیش کرتے ہیں جو آج اس پُر فتن دور میں مساجد کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ان ائمہ مساجدکی ہمت کو داد دیتے ہیں جو کم آمدنی میں قوت حیدری کا مظاہر ہ کرتے ہیں ۔ ہم ان بے سرو سامان علماء کرام کی قدر کرتے ہیں جو ان طوفانوں میں بھی اللہ کے گھروں کو روشن رکھے ہوئے ہیں ۔

منگل، 26 دسمبر، 2023

Shortvideo - Kya khowahishaat-e-nafs hee humara mabood hain?

Surah Ibrahim Ayat 23.انشاء اللہ کیا ہم یقینی طور پر جنت جائیں گے

Surah Ibrahim Ayat 21-22.کیا ہم شیطان کے ورغلانے میں آگئے ہیں

محاسبہ نفس

 

محاسبہ نفس

انسان اپنے روز مرہ معمولات زندگی اور کاروبار ی دنیا کی انجام دہی کے دوران بے شمار ایسے واقعات سے دوچار ہو تا ہے جس میں اپنے نفس کی وجہ سے کاروباری خیانت ، گناہوں ، غلط کاریوں اور خطائوں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔اس لیے اس کو چاہیے کہ رات کو سونے سے پہلے اپنے تمام معاملات کا جائزہ لے اور اپنا محاسبہ کرے کہ آج کے دن کون سے نیک کام کیے اور کون سے غلط۔
ارشاد باری تعالی ہے ’’اور دیکھے کہ اس نے کل یعنی قیامت کے لیے کیا آگے بھیجا ہے ‘‘۔ حدیث شریف میں آتا ہے عاقل وہ ہوتا ہے جو چار ساعات رکھتاہے۔ ایک ساعت میں اپنا محاسبہ کرے ، دوسری ساعت میں اللہ تعالی سے مناجا ت کرے۔ تیسری ساعت میں بہتر معاش کرے اور چوتھی ساعت میں ان چیزوں سے آرام حاصل کرے جو اللہ تعالی نے دنیا میں اس کے لیے مباح کی ہیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے تم خود  اپنی نفس کا محاسبہ کر لو۔ 
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عمر کی سانسوں سے ہر ایک سانس گوہر بیش بہا ہے جس سے ایک خزانہ جمع کیا جا سکتا ہے تو پھر اس کی جد و جہد اور محاسبہ کرنا تو اور بھی اولی ہے۔ ایک دانا شخص ہر روز فجر کی نماز کے بعد ایک گھڑی کے لیے اپنا دل اس محاسبہ کے کام لگائے اور سمجھے کہ عمر کے سوا اور کچھ میرا سرمایہ نہیں اور جو دم گزر گیا اس کا بدل ممکن نہیں۔اس لیے ہم اپنا وقت نیک کاموں میں گزار لیں نہیں تو بعد میں حسرت رہے گی کہ کاش ہم نے اپنی عمر کو غنیمت جانا ہوتا اوراس کو نیک کاموں میں صرف کر لیا ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اے لوگو!اپنے اعمال کا وزن اس سے قبل کر لو کہ قیامت میں ان کو تولا جائے۔ جب 
رات آتی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ درہ اپنے پائوں پر مارتے اور فرماتے کہ آج کے دن تو نے کیا کام کیا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت فرمایاکہ عمر ابن خطاب سے زیادہ مجھے کوئی چیز عزیز نہیں ہے کہ انہوں نے جب اپنا محاسبہ کیا تو جو کمی واقع تھی اس کا تدراک کیا اسی لیے وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک باغ کی دیوار کے نیچے دیکھا وہ اپنے نفس سے مخاطب تھے اور فرما رہے تھے واہ ،واہ !لوگ تجھے امیر المومنین کہتے ہیں اور واللہ تو خدا سے نہیں ڈرتاتو اس کے عذاب میں گرفتار ہو گا۔

پیر، 25 دسمبر، 2023

Shortvideo - Rooh ki haqeeqat

Surah Ibrahim Ayat 19-20. کیا ہم اللہ تعالی کی رضا کوئی نظر انداز کرکے ز...

Surah Ibrahim Ayat 18.کیا ہم پرلے درجے کی گمراہی کا شکار ہو چکے ہیں

طہارت قلبی

 

طہارت قلبی

انسان کے لیے باطنی اور قلبی طہارت بہت ضروری ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ باطن کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کیا جائے ۔ طہارت تامہ کا اہتمام کیا جائے تا کہ ظاہری اور باطنی طہارت کے علاوہ دل کی طہارت بھی ہو جائے ۔ ظاہری طہارت کا تو ہر کسی کو معلوم ہے باطنی طہارت سے یہ مراد ہے کہ حرام لقمے اور حرام مشروبات سے بچا جائے ۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے جس شخص نے ایک لقمہ حرام کا کھا لیا چالیس دن تک نہ اس کی فرض نماز قبول ہو گی اور نہ ہی نفلی ۔اور نہ اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ اس کی التجا سنی جاتی ہے ۔
قلبی طہارت سے یہ مراد ہے کہ تمام نا پسندیدہ صفات اور غل غپاڑہ ، کینہ و حسد ، مکرو فریب ، خیانت ، بغض عداوت اور دنیاکی محبت سے بچا جائے ۔دنیا مخلوق کی پسندیدہ ہے خالق کی نہیں ۔ جب تک دل اس سے پاک نہیں ہو گا اس کی نما زو طاعت قبول نہیں ہو گی ۔ قلب خالق کا منظور نظر ہے اس لیے جب تک دنیا کی محبت کا داغ اس میں موجود ہے یہ عشق و محبت کی دولت سے مالا مال نہیں ہو سکتا ۔
طہارت سری سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے سوا کسی چیز کی طرف توجہ نہ دے ۔ دل کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بدنگاہی سے بچا جائے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ نا محرم پر نگاہ ڈالنا ایک زہر آلود تیر ہے ۔ جب دل پر پڑے تو سوائے ہلاکت کے اور کیا ہو سکتا ہے ۔ ایک اور مقام پر حضور نبی کریم رئو ف الرحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا : نگاہ ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے ۔جس طرح مردوں کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا اسی طرح اللہ تعالی نے عورتوں کو بھی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم فرمایا۔ ارشاد باری تعالی ہے :
 اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں۔نفس کی عزلت کا فائدہ یہ بھی ہے کہ ہاتھ ناشائستہ کاموں سے رک جاتا ہے ۔ پائوں نا مناسب مقامات کی طرف جانے سے رک جاتے ہیں ۔ کان کا فائدہ یہ ہے کہ نا معقول باتیں نہ سنیں اس سے انسان کا بد ترین دشمن نفس قید ہو جاتا ہے ۔ اسی عزلت کی برکت سے دل پر غیب کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ عزلت کا فائدہ یہ بھی ہے کہ دل سے دنیا کے نقوش مٹ جاتے ہیں ۔ اور آخرت کے نقوش دل پر جھلکنے لگتے ہیں ۔جب دل پوری طرح صاف ہوجاتا ہے ۔ تو اس پر نور وحدانیت کے جلووں کے پرتو آتے ہیں ۔ دل تجلی گاہ خدا وندی بن جاتا ہے ۔ 


Surah Ibrahim Ayat 16-17.کیا ہم جہنم کی آگ کی تیاری میں ہیں

Surah Ibrahim Ayat 15.کیا ہم لوگ سرکشی اور ضد پر اڑے ہوئے ہیں

ہفتہ، 23 دسمبر، 2023

Surah Ibrahim Ayat 13-14.کیا ہمیں اللہ تعالی کے حضور حاضری کا بلکل خوف نہیں

Surah Ibrahim Ayat 11-12.کیا ہمیں اللہ تعالی کی ذات پر بالکل بھروسہ نہی...

رعا یا کے حقوق(2)

 

رعا یا کے حقوق(2)

 لوگوں کی پردہ پوشی : حاکم کو چاہیے کہ وہ عام مسلمان کی غلطیوں کے بارے میں غیر ضروری تجسس کی کوشش نہ کرے اور معمولی لغزشوں پر لوگوں کو تنگ نہ کرے اور جہاں تک ممکن ہو عفوودرگزر سے کام لے اور لوگوں کے عیب کی پردہ پوشی کرے۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا دنیا و آخرت میں اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی کرے گا ۔ 
احکام کے نفاظ میں سختی : حاکم کو چاہیے کہ لوگوں کو مشتبہہ کاموں میں پڑھنے اور معصیت کا ارتکاب ہو نے میں دلیر نہ ہو نے دے اور مشکوک مقامات اور محافل میں شرکت سے اجتناب کرے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو کسی اچھی روایت کو قائم کرے گا اس کے مطابق عمل کرنے والوں کا ثواب بھی اس کو ملے گا اور جو کسی برائی کی روایت ڈالے گا تو اس کے مطابق عمل کرنے والوں کے عمل کا وبال بھی اس کو ملے گا ۔
 غرباء کی ہم نشینی : حاکم کو چاہیے کہ وہ صاحب ثروت اور طاقتور لوگوں کے ساتھ زیادہ میل جول رکھنے کی بجائے غریبوںاور کمزوروں کے ساتھ وقت بسر کرے ۔ اپنا زیادہ تر وقت فقراء اور اولیا ء اللہ کے پاس گزارے اور اپنے قلب کی اصلاح کے لیے خود کو صلحاء کے ذریعے جلاء بخشتا رہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : صرف یہ ہے کہ ان کے اعما ل کی بدولت ان کے قلوب زنگ آلود ہو گئے ہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مردوں کے پاس بیٹھنے سے بچو ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کون ہیں یہ مردے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: دنیا دار اور دولت مند ۔غریب پروری: رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ حاکم وقت فاقہ زدہ عوام کی حالت زار سے بے خبر نہ رہے اور پوری کوشش کرے کہ کوئی شخص بھوک کا شکار نہ ہو ، حاکم کو چاہیے کہ وہ بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کا خاص خیال رکھے اور اس بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالی کے حضور پیش ہونے سے ڈرے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ایک بندے کو بارگاہ الہی میں لایا جائے گا اللہ تعالی اس سے دریافت فرمائے گا میں نے تجھ سے دنیا میں کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے نہیں دیا ، اور میں نے کپڑا مانگا لیکن تو نے مجھے نہیں دیا ۔ وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار یہ کیسے ممکن ہے ۔ تو اللہ تعالی ارشاد فرمائے گا : تیرے پڑوس میں فلاں شخص بھوکا تھا اور فلاں شخص ننگا تھا تو نے انہیں کچھ نہیں دیا ، اس طرح آج میں تجھے اپنے فضل میں سے کچھ نہیں دوں گا ۔

Surah Ibrahim Ayat 10 Part-02.کیا ہم صرف اللہ تعالی کو مقصود حیات بنانے...

Surah Ibrahim Ayat 10 Part-01.کیا ہم اپنے رسول کے طریقے کے مطابق زندگی ...

جمعہ، 22 دسمبر، 2023

Shortvideo - Rooh ka yaqeen kaisay hasil karain?

رعا یا کے حقوق(۱)


 

رعا یا کے حقوق(۱)

اللہ تعالی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کو ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے اپنی رعایا کا جواب دہ ہو گا۔
تواضع و انکساری:مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تما م مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی ہر متکبر اور جابر کو دشمن رکھتا ہے۔ 
چغلی پر عمل سے اجتناب :  رعایا کا دوسرا حق یہ ہے کہ حاکم لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی باتوں پر کان نہ دھرے خاص طور پر فاسق اور خود غرض لوگوں کی باتوں پر یقین نہ کرے کیونکہ اس کا نتیجہ فتنہ فساد اور افسوس اور ندامت ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘۔
 درگزر: جب کسی کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے کی گنجائش موجود ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن گزرنے سے پہلے اسے معاف کر دے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کو معاف کر دے تو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اے یوسف تم نے اپنے بھائیوں کو معاف کیا ، اس کی وجہ سے ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔
اجتماعی عدل کا نفاذ : حاکم کا عدل وانصاف تمام رعایا کے لیے عام ہونا چاہیے۔ اور اس معاملے میں احسان کے لیے اہل یا نا اہل کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے۔ حاکم کا عد ل و انصاف ہر نیک اور بد کو حاصل ہو نا چاہیے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ انسان لوگوں کے ساتھ محبت کرے اور ہر اچھے اور برے آدمی کے ساتھ بھلائی کرے۔
 چادر اور چار دیواری کا تحفظ : رعایا کا پانچواں حق یہ ہے کہ حاکم وقت حکومت کے زور پر عام مسلمان کے چار دیواری کے حق کی خلاف ورزی نہ کرے اور اجازت لیے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہ ہو۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب کسی کے گھر تشریف لے جاتے تو تین مرتبہ آواز دے کر اجازت طلب کرتے اور اگر اجازت نہ ملتی تو واپس چلے جاتے اور اس بات کی وجہ سے ناراض نہیں ہوتے تھے۔

Shortvideo - Ebadat ki zid

Surah Ibrahim Ayat 09 Part-02.کیا ہماری منزل صرف دنیا کی کامیابی ہے

Surah Ibrahim Ayat 09 Part-01.کیا ہم نے اپنے رسول کی دعوت کو سن کر سمجھ ...

جمعرات، 21 دسمبر، 2023

حضور نبی کریم ﷺ کا حسن ِ معاشرت

 

حضور نبی کریم ﷺ کا حسن ِ معاشرت

حضور نبی کریم ﷺ کا حسن معاشرت کی بھی کوئی نظیر نہیں آپ ﷺ کا حسن معاشرت بھی تمام دنیا سے اعلی تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سب لوگوں سے بڑھ کر وسیع القلب ، گفتگو میں سچے ، نرم طبیعت والے تھے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں دس سال تک حضور نبی کریمﷺ کی خدمت کرتا رہا ہوں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ان دس سالوں میں مجھے کبھی بھی نہ جھڑکا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تو نے فلاں کام کیوں کیا ہے اور فلاں کیوں نہیں ۔ 
حضور رحمت عالم ﷺ کسی سے بھی نفرت نہیں کرتے تھے ۔ ہر قوم کے افراد کا اکرام کرتے اور ایسے ہی افراد کو ان کے اوپر حاکم مقرر کرتے ۔ لوگوں کو خوف خدا سے ڈراتے ، عام لوگوں کی صحبت میں نہ بیٹھا کرتے لیکن کسی کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش نہیں آتے تھے ۔ اپنے اصحاب کے گھر تشریف لے جاتے اور محفل میں شامل ہونے والوںکو ان کی شان کے مطابق نوازتے ۔ لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھتے کہ ہر ایک کو لگتا کہ حضور نبی کریم ﷺ میری ہی طرف نظر کرم فرما رہے ہیں ۔ جب کسی کو اپنے ساتھ بٹھاتے یا پھر کوئی آپ ﷺ کے پاس مسئلہ لے کر آتا آپ ﷺ ا س وقت تک بیٹھے رہتے جب تک وہ شخص خود اجازت لے کر نہ چلا جاتا ۔ اگر کوئی شخص حاجت لے کر آتا تو کسی کو بھی خالی ہاتھ نہ بھیجا کرتے تھے ۔
حضرت ابن ابی ہالہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم ﷺ ہمیشہ پھول کی طرح کھلے رہتے ۔آپ ﷺکا لہجہ نرم اور خوش اخلاق تھا ۔ بد اخلاقی ، سنگدلی ، بازاروں میں بلند آوازکرنا ، گالی گلوچ ، دوسروں میں عیب تلاش کرنا عرب کے لوگوں میں عام تھا لیکن آپ ﷺ تاحیات ان تمام چیزوں سے پاک رہے ۔ جس چیز کی ضرورت نہ ہوتی اس کی طرف نہ دیکھتے ۔ کوئی بھی سائل آپ ﷺ کے پاس آتا تو آپ ﷺ اسے خالی واپس نہ لوٹاتے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’ تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے ‘‘۔(سورۃ آل عمران ) ۔
 اگر کوئی آپ ﷺ کی دعوت کرتا تو قبول فرماتے اور اگر کوئی معمولی سابھی ھدیہ پیش کرتاتو قبول فرماتے اور اس کو اسکے بدلے ہدیہ سے نوازتے ۔ حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر تبسم کا خو گر کسی کو نہیں دیکھا ۔ جب کسی کو کسی پریشانی میں مبتلا پاتے تو فوراً اس کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کرتے ۔ آپ ﷺ ہر کسی پر نہایت درجہ مہربان تھے ۔

Surah Ibrahim Ayat 07-08 Part-02.کیا ہم راستہ بھٹک چکے ہیں

Surah Ibrahim Ayat 07-08 Part-01.کیا ہم اپنے رب کے شکر گزار بندے ہیں

Shortvideo - Ebadat ki zaroorat

بدھ، 20 دسمبر، 2023

زبان کی حفاطت

 

زبان کی حفاطت

اللہ تبارک وتعالی نے انسان کے جسم میں ایک عضو زبان بھی رکھا ہے۔ یہ عضو اتنا لازمی و ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسان اپنی بات کسی کو نہیں سمجھا سکتا۔زبان اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن انسان اس کے غلط استعمال کی وجہ سے اپنے لیے زحمت بنا لیتا ہے اور یہاں تک کہ اپنی آخرت کو بھی برباد کر لیتا ہے۔ اس لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔زبان کی حفاظت کا معنی یہ ہے کہ انسان اس سے غیر شرعی بات نہ کرے۔
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ زبانیں لوگوں کو اوندھے منہ دوزخ میں پھینکیں گی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دو نوں جبڑوں کے درمیان کی اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی مجھے ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی بعض دفعہ کوئی بات کرتا ہے جس کی برائی میں تدبر و تفکر نہیں کرتا۔ اور اسی بات کی وجہ سے وہ دوزخ کی آگ میں گر پڑتا ہے اس حال میں کہ مشرق اور مغرب کی مسافت سے دور ہو جاتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ ے فرمایا: انسان اللہ تعالی کی رضامندی کی بات کرتا ہے جس کی وہ پرواہ نہیں کرتا اس کے بدلے اللہ تعالی اسکے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ بعض اوقات ہماری زبان سے ایسی بات نکل جاتی ہے جس میں اللہ تعالی کی رضا شامل نہیں ہوتی اور ہم اس کے کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے اور اسی بات کی وجہ سے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ مثلا چغلی ، غیبت ، جھوٹ یا پھر انجانے میں کوئی ایسا کفریہ کلمہ ہماری زبان سے نکل جائے جو ہماری پکڑ کا سبب بن جائے۔ اور بعض اوقات انسان کوئی معمولی سی گفتگوکرتا ہے جس میں اللہ تعالی کی رضا شامل ہوتی ہے تو وہ کلمات انسان کو جنت تک لے جاتے ہیں۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو باتوں میں ہیر پھیر سیکھے تا کہ اس سے لوگوں کے دل قابو کرے۔ اللہ تعالی روز قیامت نہ اس کے فرائض قبول فرمائے گا اور نہ نفل۔ ( ابو داﺅ د) 
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی نجات کیسے ہوگی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایازبان کو قابو میں رکھو تمہارے لیے تمہارا گھر کافی ہے اور اپنے گناہوں پر آنسو بہایا کرو۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حیا اور کم گوئی ایمان کے دوشعبے ہیں۔ فحش گوئی اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے شعبے ہیں۔

تواضع کی فضیلت

 

تواضع کی فضیلت

سورۃ المومنون میں ارشاد باری تعالی ہے کہ فرما دیجیے : میں پناہ مانگتا ہوں اپنے رب کی اور تمہارے پروردگار کی ہر اس متکبر سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ 
تاجدار انبیا ءﷺ نے فرمایا : جس کے دل میں ذرہ بھر یا رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہو ا وہ جنت میں نہ جا سکے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا : ایک شخص اپنی بزرگی کو ہی اپنا پیشہ بنا لیتا ہے حتی کہ اس کا نام جباروں کے جریدہ میں رقم کر دیا جاتا ہے اور اسے ان کے ساتھ ہی عذاب ہو گا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو عاجزی کرتا ہے اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
ہر شخص کے سر پر ایک لگام ہے جسے دو فرشتوں نے تھام رکھا ہے۔ جب وہ عاجزی کرتا ہے تو وہ اس لگام کو اوپر کھینچ کر یہ دعامانگتے ہیں ! اسے رفعت عطا فرما۔ اگر وہ تکبر کرتا ہے تو وہ لگام کو نیچے کھینچ کر یوں بد دعا کر تے ہیں مولا اسے سر نگوں فرما۔مبارک ہے وہ شخص جو بیچارگی کے بغیر تواضع کرتا ہے اور اپنے جمع شدہ مال کو گناہ کے علاوہ خرچ کرتا ہے۔ وہ افلاس زدوں پر ترس کھاتا ہے۔ علماء اور دانائو ں کے ساتھ میل ملاپ رکھتا ہے۔
 حضرت ابو مسلم مدینی رحمۃ اللہ علیہ اپنے دادا جان سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے۔ آپ ﷺ  روزہ سے تھے ہم نے افطاری کے لیے دودھ پیش کیا جس میں شہد ملا ہوا تھا۔ آپﷺ نے اسے چکھا تو میٹھا محسوس کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ دود ھ میں شہد ملا ہے۔ آپ ﷺنے اسے نوش نہ فرمایا اور پیالہ نیچے رکھ دیا اور فرمایا میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ حرام ہے۔ مگر جو اللہ تعالی کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے/ اللہ تعالی اسے بلند فرماتا ہے۔ جو تکبر کرتا ہے اللہ تعالی اسے حقیر کر دیتا ہے جو اعتدال کے ساتھ خرچ کرتا ہے اللہ تعالی اسے بے نیاز کر دیتا ہے۔ جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ تعالی اسے مفلس کر دیتا ہے جو اللہ تعالی کا زیادہ ذکر کرتا ہے وہ اسے دوست بنا لیتا ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام پر اللہ تعالی نے وحی نازل کی :میں اس شخص کی نماز قبول کرتا ہوں جو عاجز ہو۔ مخلوق میں خود کو فضیلت نہ دے۔ دل میں میرا خوف رکھتا ہو۔
حضرت فضیل رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں عاجزی یہ ہے کہ تو ہر ایک سے حق قبول کر لے خواہ کہنے والا بچہ ہو یا مخلوق میں سے جاہل ترین فرد ہو۔

Surah Ibrahim Ayat 06.کیا ہم اپنے رب کے ناشکرے بندے ہیں

Surah Ibrahim Ayat 05 Part-02.کیا ہم نے جنت کے عوض دنیا کا سودا پکا کر ل...

پیر، 18 دسمبر، 2023

توبہ کی فضیلت اور ثواب

 

توبہ کی فضیلت اور ثواب

اللہ تعالی توبہ کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :ــ’’ اور رجوع کرو اللہ تعالی کی طرف سب کے سب اے ایمان والو!تا کہ تم (دونوں جہانوں میں )با مراد ہو جائو ۔ ‘‘ ( سورۃ النور ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے تو بہ کر لیتا ہے اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ندامت توبہ ہے ‘‘۔ 
نبی مکرم ﷺ نے فرمایا: لوگوں کی راہ گزر پر نہ بیٹھا کرو ۔ ممکن ہے کوئی وہاں بیٹھ جائے ہر گزرنے والے پر مسکرائے ۔ جو عورت گزرے اسے نازیبا باتیں کہے ۔ وہ اس وقت تک وہاں سے نہ ہٹے گا جب تک اس پر دوزخ واجب نہ ہو جائے گی ۔ سوائے اس کے کہ وہ توبہ کر لے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میں ہر روز توبہ اور استغفار کرتا ہو ں ۔ 
آپ ﷺ نے فرمایا : گناہوں سے توبہ کرنے والے کے گناہ فراموش کر دیے جاتے ہیں ۔ اس کے ہاتھ پائوں اور اس جگہ سے نشانات مٹا دیے جاتے ہیں جہاں اس سے خطا ئیں ہوئیں تھیں ۔ حتی کہ جب وہ دیدار الہی سے مشرف ہوتا ہے اس کے خلاف کوئی گواہ نہیں ہو تا ۔
 آقا کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی انسانو ں کی توبہ روح حلق تک پہنچنے اور غرغرہ پیدا ہونے سے پہلے تک قبول فرما لیتا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے : اللہ تبارک وتعالی کا دست کرم بڑا وسیع ہے جو ہر شب گناہ کر کے ہر شب توبہ کرے وہ اس کی توبہ کو بھی قبول فرماتا ہے ۔ جو رات گناہ کر کے دن کے وقت توبہ کرے اللہ تعالی اس کی بھی توبہ قبول فرماتا ہے ۔ حتی کہ آفتاب مغرب ظہور پذیر ہوجائے ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : توبہ کیا کرو میں ہر روز سو بار توبہ کرتا ہو ں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کوئی شخص ایسا نہیں جو گناہ گار نہ ہو مگر بہترین گناہ گار توبہ کر لینے والے ہیں ۔  آپ ﷺ نے مزید فرمایا : گناہ سے توبہ یہ ہے کہ تو دوبارہ اس کی طرف لوٹ کر نہ آئے ۔
 ام المئومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت کرتی ہیں حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کوئی بند ہ ایسا نہیں جو گناہ کے بعد نادم نہ ہو مگر یہ کہ اللہ تعالی اسے مغفرت طلب کرنے سے پہلے ہی بخش دیتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پیر اور جمعرات کے روز انسان کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ جس نے توبہ کی ہو اس کی توبہ قبول کر لی جاتی ہے ۔ جس نے مغفرت طلب کی ہو اسے معاف کر دیا جاتا ہے جس کے دل میں کینہ ہو اسے ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ 

Surah Ibrahim Ayat 05 Part-01.کیا ہم اس وقت گمراہی کی تاریکیوں میں ہیں

Surah Ibrahim Ayat 04.کیا ہم دعوت حق کو سننے اور سمجھنے سے عملا انکاری ہیں

Surah Ibrahim 01-03 Part-03.کیا ہم کافر ہیں

Shortvideo - Ebadat ki haqeeqat

Shortvideo - Yaqeen ka rasta aur darjaat

اتوار، 17 دسمبر، 2023

لاالہ الااللہ، سبحان اللہ اور الحمد للہ کی فضیلت

 

لاالہ الااللہ، سبحان اللہ اور الحمد للہ کی فضیلت

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکرتے تھے بندہ جو بھی نیک عمل کرتا ہے اسے روز حشر ترازومیں تولا جائے گا لیکن ’’لاالہ الااللہ ‘‘ وہ مبارک کلمہ ہے کہ اگرایک پلڑے میں اسے رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں ساتوں آسمان اور ساتوںزمینیں رکھ دی جائیں تو وہ پلڑا جھک جائے گا جس میں کلمہ طیبہ ہو گا۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ’’لاالہ الااللہ‘‘ کہنے والاسچا ہوا تو اسکے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اگر وہ زمین کے ذرات کے برابر بھی ہوں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے خلوص نیت کے ساتھ ’’لاالہ الااللہ ‘‘ پڑھا وہ جنت میں جائے گا۔ صحیح میں ہے کہ جس نے یہ کلمہ پڑھا تو گویا اس نے حضرت اسما عیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کیے۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے دن میں ایک بار یہ کلمات پڑھے ’’ سبحا ن اللہ وبحمدہ ‘‘ اسکے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ وہ دریا کی جھاگ کے برابر بھی ہوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے ہر نماز کے بعد تینتیس بار ’’ سبحا ن اللہ وبحمدہ ‘‘ اور تینتیس بار ’’الحمد اللہ ‘‘ اور تینتیس بار ’’اللہ اکبر ‘‘ پڑھا پھر یہ کلمات پڑھ کر سو پورا کیا ’’ لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمدو ھو علی کل شئی قدیر ‘‘ اس کے جملہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں اگردریا کی جھاگ کے برابر بھی ہوں۔ایک شخص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا مجھ سے روگرداں ہو گئی ہے۔ افلاس اور فقرنے ڈیرے جما لیے ہیں۔ دولت و ثروت کی فراوانی کیسے ہو سکتی ہے۔
 آپ ﷺ نے فرمایا تو ملائکہ کے اس ذکر اور مخلوق کی اس تسبیح کو کیوں بھول بیٹھا ہے جس کے طفیل ساری دنیا کو رزق دیا جاتا ہے۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سا ذکرہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ العظیم ‘‘’’ سبحان اللہ وبحمدہ ‘‘،’’استغفراللہ ‘‘ہر روز صبح کی نماز سے پہلے پڑھا کرو۔ نہ چاہتے ہو ئے بھی دنیا کا رخ تیری سمت ہو جائے گا۔ اللہ تعالی ان کلمات میں سے ہر ہر کلمہ سے ایک فرشتہ پیدا فرمائے گا۔ جو قیامت تک اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہے گا اور اس کا ثواب تجھے ملتا رہے گا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: با قیات صالحات یہ کلمات ہیں ’’ سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ‘‘ آپؐنے فرمایا مجھے یہ کلمات گردش آفتاب کے نیچے ہر شے سے پسندیدہ ہیں۔ اللہ تعالی کو یہ کلمات انتہائی پیارے ہیں۔

Surah Ibrahim 01-02 Part-02.کیا ہم اللہ تعالی کو مقصود حیات بنانے کے لئے...

ہفتہ، 16 دسمبر، 2023

تہجد کی فضیلت

 

تہجد کی فضیلت

فرائض کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز تہجد ہے۔ رات کو اٹھ کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضری دینا یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے انسان دنیا میں بڑے بڑے مرتبے حاصل کر لیتا ہے۔ رات کی تنہائی میں بندہ راحت اور آرام کو چھوڑ کر سردی اور گرمی کی شدت برداشت کر کے وضو کر کے جب بندہ اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں حاضرہوتا ہے تو وہ اللہ تعالی کا قرب تلاش کرتا ہے اور اللہ تعالی کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندوں کو اپنے قرب ولطف سے مالا مال فرما دیتا ہے نماز تہجد پڑھنے سے دل کو سکون میسر آتا ہے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور چہرہ منور ہو جاتا ہے۔ 
حضرت حسن بصریرحمۃ اللہ تعالی علیہ سے پوچھا گیا کہ تہجد پڑھنے والوں کا چہرہ اتنا حسین کیوں ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا جب وہ اپنے رب کے ساتھ خلوت اختیار کرتے ہیں تو اللہ تعالی ان پر اپنے نور کا لباس چڑھا دیتا ہے۔رات کو اٹھ کر اللہ تعالی کی بار گاہ میں حاضری دینا اللہ تعالی کے خاص بندوں کا عمل ہے۔ 
ارشاد باری تعالی ہے :’’ ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور امیدکرتے اور ہمارے دیے ہوئے سے کچھ خیرات کرتے ہیں تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لیے چھپارکھی ہے صلہ ان کے کاموں کا۔( سورۃ سجدہ)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : 
رمضان شریف کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینہ محرم کے ہیں اور فرضوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ (مسلم شریف )۔
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک بالا خانہ ہے جس کا باہر اندر سے اور اندر باہر سے نظر آتا ہے۔ 
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کس کے لیے ہو گا۔ آپؐنے فرمایا جو پا کیزہ گفتگو کرے اور (محتاجوں ) کو کھانا کھلائے اور کھڑے ہو کر عبادت میں رات گزارے جبکہ باقی لوگ سو رہے ہوں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن شب بیداری کرنے والوں کی سواریاں براق ہوں گی اور ان کی رنگت یاقوت سرخ کی مانند ہو گی۔ اہل محشر پوچھیں گے باری تعالی یہ کون لوگ ہیں۔ حکم ہو گا یہ وہی لوگ ہیں جو راتوں کو نیندچھوڑ کر میری عبادت میں مصروف رہتے تھے جبکہ تم لوگ سوتے تھے۔ یہ میرے محبوب ہیں یہ میرے محبوب ہیں۔(انیس الواعظین)۔

جمعہ، 15 دسمبر، 2023

Surah Ibrahim 01-02 Part-01.کیا ہماری منزل ذات باری تعالی ہے

Surah Al-Ra'd ayat 40-43.آج کیا ہم اللہ تعالی کے دین کو قبول نہیں کر سکتے

Shortclip - Yaqeen kay darjaat

سخاوت کا اجر

 

     سخاوت کا اجر

جس کو اللہ تعالی نے مال ودولت سے نوازا ہو اسے قناعت اختیار کرنا چاہیے نہ کہ حرص ۔ جس کے پاس دولت ہو اسے سخی ہونا چاہیے نہ کہ بخیل ۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’ اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ( سورۃ البقرۃ ) ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’ (اے محمد ) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ( اللہ کی راہ میں ) کس طرح کا مال خرچ کریں ۔ کہہ دو (جو چاہو خرچ کرو لیکن ) جو مال خرچ کرنا چاہو وہ درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ کو ، قریب کے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم کرو گے خدا اسے جانتا ہے ۔ ( سورۃ البقرہ ) 
اور جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس کے مال کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے وہ بڑی کشائش والا اورسب کچھ جاننے والا ہے ۔ ( سورۃ البقرۃ ) ۔ 
جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ پڑھے تو خیر پھوار ہی سہی اور خداتمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے ۔ ( سورۃ البقرۃ ) 
ارشاد باری تعالی ہے اور جو مال تم خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں کیا جائے گیا ۔ (سورۃ البقرۃ ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : سخاوت جنت میں لگایا گیا ایک پودا ہے ۔ سخٓاوت کرنے والا اس کی شاخ تھام لیتاہے وہ اسے جنت تک لے جاتی ہے ۔ بخل جہنم میں لگایا گیا ایک پودا ہے بخیل اس کی ٹہنی پکڑ لیتا ہے وہ اسے جہنم میں لے جاتی ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا دو عادات اللہ تعالی کو بہت پسند ہیں سخاوت اور عمدہ اخلاق ۔ دوعادات سے اللہ تعالی کو بہت زیادہ نفرت ہے بخل اور گندے اخلاق ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی بخیل اور بد خو کو دوست نہیں رکھتا ۔حضور نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا : سخی کی لغزش کو معاف کر دیا کرو ۔ جب اسے تنگ دستی کا سامنا ہوتا ہے اللہ تعالی اس کی دست گیری فرماتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا سخی کا کھانا دوا ہے بخیل کا کھانا مرض ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا سخی اللہ تعالی جنت اور لوگوں کے قریب ہے بخیل اللہ تعالی، جنت اورلوگوں سے دور اور جہنم کے قریب ہے ۔

جمعرات، 14 دسمبر، 2023

Shortvideo - Jannat main koan jeay ga?

Surah Al-Ra'd ayat 36 Part-02.کیا صرف دنیاوی فائدہ ہی ہماری خوشی کا باعث...

اللہ تعالی کی نعمتیں (۲)

 

 اللہ تعالی کی نعمتیں (۲) 

اور بے شک تمھارے لیے چوپایوں میں بھی عبرت ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس سے ہم تم کو خا لص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔ اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے کہ اس سے تم نبیذ بناتے ہو اور اچھا رزق۔ بے شک اس میں نشانی ہے عقل والوں کے لیے۔ اور تمھارے رب نے شہد کی مکھیوں کوحکم دیا کہ پہاڑوں میں گھر بناؤ اور درختوں میں اور چھتوں میں۔ پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھاؤ اور اپنے رب کی راہیں چلو کہ تمھارے لیے نر م و آسان ہیں۔ اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگی نکلتی ہے جس میں لوگوں کی تندرستی ہے۔ بیشک اس میں نشانی ہے سوچنے والوں کے لیے۔ (سورۃ النحل )۔
اور خدا ہی نے تمھارے لیے عورتیں پیدا کیں اور عورتوں سے بیٹے اور پوتے اور نواسے پیدا کیے اور تمھیں ستھری چیزوں سے روزی دی تو کیا جھوٹی بات پر یقین لاتے ہیں اور اللہ کے فضل سے منکر ہوتے ہیں۔( سورۃ النحل ) 
اور اللہ نے تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمھیں کان اور آنکھ اور دل دیے کہ تم احسان مانو۔ کیا انھوں نے پرندے نہ دیکھے حکم کے باندھے۔ آسمان کی فضا میں انھیں کوئی نہیں روکتا سوائے خدا کے۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے۔ اور اللہ نے تمھارے لیے گھروں کو رہنے کی جگہ بنایا اور اسی نے چوپایوں کی کھالوں سے کچھ گھر بنائے جو تمھیں ہلکے پڑتے ہیں تمھارے سفر کے دن اور منزلوں پر ٹھہرنے کے دن اور ان کی اون اور ریشم اور بالوں سے کچھ گرستی کا سامان اور برتنے کی چیزیں ایک وقت تک۔ (سورۃ النحل )
اور اللہ نے تمھیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے سائے دیے اور تمھارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی اور تمھارے لیے کچھ پہناوے بنائے کہ تمھیں گرمی سے بچائیں اور کچھ پہناوے کہ لڑائی میں تمھاری حفاظت کریں۔ اللہ یونہی اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے کہ تم فرمان مانو۔ پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اے محبوب تم پر نہیں مگر صاف پہنچا دینا۔ اللہ کی نعمت کو پہنچاتے ہیں پھر اس سے منکر ہوتے ہیں اور ان میں اکثر کافر ہیں۔ (سورۃ النحل)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمان سے مینہ برسایا تو ہم نے اس سے طرح طرح کے رنگوں کے میوے اگائے۔اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور کچھ کالے سیاہ ہیں۔ ( سورۃ فاطر )
کیا ہم نے زمین کو بچھونانہیں بنایا ؟ اور پہاڑوں کو میخیں ؟ اور تمھیں جوڑے بنایا۔ اور نیند کو تمھارے لیے موجب آرام بنایا۔ اور رات کو مقرر کیا اور دن کو معاش کا وقت مقر ر کیا۔(سورۃ النبا)

بدھ، 13 دسمبر، 2023

Shortvideo - Humain deen-e-islam kay mutabiq zindagi guzarnay ki kya zar...

Surah Al-Ra'd ayat 36 Part-01.کیا ہم نے واپس اللہ تعالی کے پاس جانا ہے

Surah Al-Ra'd ayat 35.کیا ہم یقینا جنت میں جائیں گے

اللہ تعالی کی نعمتیں (۱)

 

 اللہ تعالی کی نعمتیں (۱)

اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالی کی ایک ایک نعمت اتنی بڑی ہے کہ ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : یہ اس لیے کہ جو نعمت خدا کسی قوم کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدل ڈالیں خدا اسے نہیں بدلا کرتا اور بیشک اللہ سنتا جانتا ہے۔ (سورۃ الانفال )۔
اور چوپائے پیداکیے ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور نفع ہے اور ان میں سے کھاتے بھی ہو۔ اور تمہارا ان میں تجمل ہے جب انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کو چھوڑتے ہو۔ اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ایسے شہر کی طرف کہ تم اس تک نہ پہنچتے مگر ادھ مرے ہو کر بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے۔ اور گھوڑے اور خچر اور گدھے کہ ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے اور وہ پیدا کرے گا جس کی تمہیں خبر نہیں۔(سورۃ النحل )
اور سیدھا راستہ تو اللہ تک جا پہنچتا ہے۔ اور بعض راستے ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے راستے پر چلا دیتا۔ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا جسے تم پیتے ہو اور اس سے درخت بھی ہیں جن سے تم اپنے (چارپایوں) کو چراتے ہو۔ اس پانی سے تمہارے لیے کھیتی اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل بیشک اس میں نشانی ہے غور کرنے والوں کے لیے۔ (سورۃ النحل )۔
 اس نے تمہارے لیے مسخر کیے رات اور دن اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم کے باندے ہیں۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے۔ اور جو طرح طرح کے رنگوں کی چیزیں اس نے زمین میں پیدا کیں بیشک نصیحت کرنے والوں کے لیے اس میں نشانی ہے۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے دریا کو مسخر کیا کہ اس میں سے تازہ گوشت کھاتے ہو اور اس میں سے زیور نکالتے ہو جسے پہنتے ہو۔ اور تو اس میں کشتیاں دیکھے کہ پانی کو چیر کر چلتی ہیں اور اس لیے کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور کہیں احسان مانو۔ (سورۃ النحل )۔
اور اس نے زمین پر پہاڑ رکھ دیے کہ تم کو لے کر کہیں جھک نہ جائے اور ندیاں اور رستے کہ تم راہ پائو۔ اور علامتیں اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں۔تو کیا جو بنائے وہ ایسا ہو جائے گا جو نہ بنائے تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے۔ اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو توانہیں شمار نہ کرسکو گے۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ النحل )۔

منگل، 12 دسمبر، 2023

Surah Al-Ra'd ayat 33 Part-02.کیا ہم پوری طرح ظاہر دنیا کے دھوکے میں آگئ...

Shortvideo - صرف اسلام ہی کیوں؟

سخاوت کا اجر

 

سخاوت کا اجر

جس کو اللہ تعالی نے مال ودولت سے نوازا ہو اسے قناعت اختیار کرنا چاہیے نہ کہ حرص۔ جس کے پاس دولت ہو اسے سخی ہونا چاہیے نہ کہ بخیل۔ 
ارشاد باری تعالی ہے ” اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ( سورة البقرة )۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ” (اے محمد ) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ( اللہ کی راہ میں ) کس طرح کا مال خرچ کریں۔ کہہ دو (جو چاہو خرچ کرو لیکن ) جو مال خرچ کرنا چاہو وہ درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ کو ، قریب کے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم کرو گے خدا اسے جانتا ہے۔ ( سورة البقرہ )۔
اور جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس کے مال کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (سورة البقرة )۔ 
جو لوگ خدا کی خوشنودی کے لیے اور خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور خداتمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ ( سورة البقرة )۔
ارشاد باری تعالی ہے اور جو مال تم خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں کیا جائے گیا۔ (سورة البقرة )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : سخاوت جنت میں لگایا گیا ایک پودا ہے۔ سخاوت کرنے والا اس کی شاخ تھام لیتا ہے وہ اسے جنت تک لے جاتی ہے۔ بخل جہنم میں لگایا گیا ایک پودا ہے بخیل اس کی ٹہنی پکڑ لیتا ہے وہ اسے جہنم میں لے جاتی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا دو عادات اللہ تعالی کو بہت پسند ہیں سخاوت اور عمدہ اخلاق۔ دوعادات سے اللہ تعالی کو بہت زیادہ نفرت ہے بخل اور گندے اخلاق۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی بخیل اور بد خو کو دوست نہیں رکھتا۔
حضور نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا : سخی کی لغزش کو معاف کر دیا کرو۔ جب اسے تنگ دستی کا سامنا ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کی دست گیری فرماتا ہے۔ آپ نے فرمایا سخی کا کھانا دوا ہے بخیل کا کھانا مرض ہے۔ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا سخی اللہ تعالی جنت اور لوگوں کے قریب ہے بخیل اللہ تعالی، جنت اورلوگوں سے دور اور جہنم کے قریب ہے۔

Shortvideo - Kya hum apni dozakh aur jannat dunya main bana kar jatay hain?

پیر، 11 دسمبر، 2023

Surah Al-Ra'd ayat 33 Part-01.کیا ہم مشرکانہ زندگی گزار رہے ہیں

Surah Al-Ra'd ayat 32.کیا ہماری روش زندگی کافرانہ ہے

حاجت پوری کرنے کی فضیلت

 

حاجت پوری کرنے کی فضیلت

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی کے بعد بندے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے لوگوں کی حاجات پورا کرنے کے لیے اپنی ذات کے لیے خاص کیا ہے ۔ اور اللہ تعالی نے قسم فرمائی ہے کہ انہیں دوزخ کا عذاب نہ دے گا ۔ قیامت کے دن وہ نورانی ممبروں پر بیٹھ کر اللہ تعالی سے گفتگو میں مشغول ہوں گے حالانکہ اس وقت لوگ حساب میں مبتلا ہوں گے ۔ (طبرانی) 
 حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کی دنیوی مشکل آسان کر دی اللہ تعالی اس کی قیامت میں مشکل آسان فرمائے گا ۔ اور جس نے کسی تنگدست کو آسانی دی اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت میں آسانی دے گا اور کسی مسلمان کے عیب ڈھانپتا ہے اللہ تعالی اس کے دنیا و آخرت میں عیب ڈھانپے گا ۔ ( مسلم شریف) 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو اپنے مسلمان بھائی کو اس عمل سے ملتا ہے جس سے اسے محبت ہو تا کہ اس سے اسے آسانی ہو تو اللہ تعالی قیامت کے دن اسے مسرور فرمائے گا ۔ (طبرانی صغیر) 
  حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص میرے امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کرتا ہے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالی کو خوش کیا اورجس نے اللہ تعالی کو خوش کیا اسے وہ جنت میں داخل فرمائے گا ۔ ( بہیقی ) 
 حضور نبی مکرمﷺ نے ارشاد فرمایا  : جو کسی پریشان حال کی مدد کرے گا اس کے لیے اللہ تعالی تہتر بخششیں لکھ دیتا ہے ان میں سے ایک اس کے تمام معاملات کی درستگی کے لیے اور باقی قیامت کے دن اس کے درجات ہیں ۔ ( بہیقی) 
جو اپنے مسلمان بھائی کے کام میں ہو اللہ تعالی اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو کسی مسلمان کی تکلیف کو دور کرے تو اللہ تعالی اس کے عوض قیامت کی مصیبتوں سے ایک مصیبت دور فرمائے گا ۔ ( بخاری و مسلم شریف) 
 حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالی کے نزدیک فرائض کے بعد سب اعمال سے زیادہ محبوب عمل مسلمان بھائی کو خوش کرنا ہے ۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کسی بھوکے مسلمان بھائی کو کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالی اسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جو کسی پیاسے کو پانی پلائے گا تو اللہ تعالی اسے پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ ( ابو دائود) 

اتوار، 10 دسمبر، 2023

Surah Al-Ra'd ayat 31. کیا صرف ہدایت پہنچا دینا ہی مبلغ کی ذمہ داری ہے

Surah Al-Ra'd ayat 30.کیا ہم صرف اللہ تعالی پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار ن...

غصہ پینے کی فضیلت

 

غصہ پینے کی فضیلت

غصہ کرنا انتہائی بری عادت ہے۔ اس سے بہت سارے کام بگڑ جاتے ہیں اور انسان بہت سے قیمتی رشتوں کو کھو بیٹھتا ہے۔غصہ کرنے سے اللہ تعالی کی ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اپنی دنیا اور آخرت بہتر بنانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ اپنیاندرسے غصہ جیسی بری عادت کو ختم کریں۔ جو لوگ اپنے غصہ پر قابو رکھتے ہیں ان کو اللہ تعالی  اپنے پسند یدہ بندے قرار دیتاہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ (سورۃ آل عمران )۔
سورۃ الشوریٰ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ’’ اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی سے پرہیز کرتے ہیں اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں ‘‘۔ 
’’ اور برائی کا بدلہ اسی کی برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوار لیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے بیشک وہ دوست نہیں رکھتاظالموں کو ( سورۃ الشوری)۔ 
بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا، مجھے وصیت فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ مت کیا کرو۔ اس نے پھر عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وصیت فرمائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ (بخاری شریف)۔ 
حضرت سیدنا ابو الدردا رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو مجھے جنت میں لے جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ نہ کرو ، تو تمہارے لیے جنت ہے۔ ( مجمع الزوائد)۔ 
بخاری شریف میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ طاقتور وہ نہیں جو بچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنا غصہ روک لے اللہ تعالی قیامت کے دن اس سے عذاب روک لے گا اور جس نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عذر پیش کیا اللہ تعالی اس کا عذر قبول فرمائے گا۔حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کے نزدیک اس غصہ کے گھونٹ سے بہتر گھونٹ نہیں جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطرپی پیا گیا۔ ( اشعۃ اللمعات )۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا جو غصہ پی جائے گا حالانکہ کہ وہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا تھا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے دل کو اپنی رضا سے معمور فرمائے گا۔ ( کنزالعمال)۔


ہفتہ، 9 دسمبر، 2023

Shortvideo - Kya amal ka nateja lazmi hay?

Surah Al-Ra'd ayat 29.دنیا اور آخرت میں خوشخبری کن لوگوں کے لئے ہے

Surah Al-Ra'd ayat 28.کیا ہمارے دل اللہ تعالی کی یاد سے خالی ہیں

نور بصیرت

 

نور بصیرت

اللہ تعالی نے بندوں کو دنیا میں اپنی بندگی کے لیے بھیجا۔ لیکن بندہ اپنا اصل مقصد چھوڑ کر دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں مبتلا ہو جائے تو پھر اس میں اس کیلئے کوئی بھلائی نہیں کیونکہ دنیا کا مال نہایت قلیل اور ختم ہونے والا اور زوال پذیر ہے۔اور اللہ تعالی کے نزدیک بھی اس کی کو ئی اہمیت نہیں۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک دنیا کی حثییت مچھرکے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ دنیا سے دل نہیں لگائے اور دنیا کی محبت کو اپنے دل سے نکال دے۔ 
دانشوروں کا قول ہے کہ شریف وہ ہے جس کو دنیا کی محبت رنج و تکلیف میں نہ ڈالے کیونکہ دنیا کے مکروہات میں مبتلا ہو کر آدمی کسی کام کا نہیں رہتا۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ جس کو دنیا مل جائے اور وہ اس کو حاصل کرکے کے خوش ہو تو اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہے۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے کہ وہ پانی پر چلے مگر اس کے پائو ں گیلے نہ ہوں۔ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا دار گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ ( بہیقی ، شعب الایمان) 
یعنی جو دنیا میں مبتلا ہو گیا اس کے لیے گناہوں سے بچنا ممکن نہیں۔ اس لیے ضرورت سے زیادہ مال جو اللہ تعالی کی یاد سے انسان کو غافل کر دے اور انسان کو متکبر بنا دے نقصان دہ ہے۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے حلال دنیا (روزی)تلاش کی تا کہ گدا گری سے بچے ، اپنے گھر والوں کی خدمت اور پڑوسی کے ساتھ تعاون کرے وہ اللہ تعالی سے قیامت کے دن اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا اور جس نے دنیا اس لیے طلب کی کہ وہ اپنا مال فخر ، تکبر اور دکھاوے کے لیے بڑھائے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس سے سخت ناراض ہو گا (مشکوۃ شریف)۔
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بندہ دنیا سے بے رغبتی کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے دل میں حکمت کا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔ اس سے اس کی زبان میں گو یائی عطا کرتا ہے اسے دنیا کے عیوب اس کی بیماریوں اور اس کے علاج سے آگاہ کر دیتا ہے۔اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ جنت کی طرف لے جاتا ہے۔( بہیقی ، شعب الایمان)

Surah Al-Ra'd ayat 26.کیا ہم نے آخرت کی کامیابی کے عوض دنیا کا سودا کر ل...

جمعہ، 8 دسمبر، 2023

بسم اللہ کے فضائل و برکات

 

بسم اللہ کے فضائل و برکات

مسلمان کو چاہیے کہ اپنے تما م جائز معاملات کی ابتدا بسم اللہ سے کرے۔ اللہ تعالی نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں کام کرنے کی صلاحیت دی تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تمام کاموں کی ابتدا اللہ تعالی کے نام کے ساتھ کریں۔ اگر کوئی بھی جائز کام اللہ تعالی کے نام سے شروع کریں گے تو اس کام میں برکت ہو گی اور شیطان کے عمل دخل سے بھی محفوظ ہو جائے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :  "جس کام سے پہلے بسم اللہ نہ پڑھی جائے اس میں شیطان شریک ہو جاتا ہے اور کام کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لی جائے تو وہ کام شیطان سے محفوظ ہو جاتا ہے"۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے اور جنت کی سیر فرمائی تو وہاں پر چار نہریں دیکھیں۔ ایک نہر پانی کی ، دوسری دودھ کی، تیسری شراب کی اور چوتھی شہد کی تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ یہ نہریں کہا ں سے آ رہی ہیں۔ ایک فرشتہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ لے گیا وہاں ایک درخت تھا جس کے نیچے عمارت بنی ہوئی تھی اور دروازے پر تالا لگا ہو تھا اور اسکے نیچے سے چار نہریں بہہ رہیں تھیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دروازہ کھولو۔ عرض کی گئی اس کی چابی آپ کے پاس ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   بسم اللہ پڑھ کر اس کو ہاتھ لگائیں تو یہ دروزہ کھل جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ پڑھ کر ہاتھ لگایا تو دروزہ کھل گیا۔ اندر جا کر دیکھا بسم اللہ کے میم سے پانی جاری ہے۔
 اللہ کی ’’ہ‘‘ سے دودھ جاری ہے۔ رحمن کی میم سے شراب جاری ہے اور رحیم کی میم سے شہد کی نہر جاری ہے۔ اندر سے آوز آئی اے محبوب آپ کی امت میں سے جو شخص بسم اللہ پڑھے گا وہ ان چاروں کا مستحق ہو گا۔ ( تفسیر نعیمی) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مسلمان اور کافر کے شیاطین میں ملاقات ہو تو کافر کے ساتھ رہنے والا شیطان خوب موٹا تھا کپڑے پہنے ہوئے اور سر پر تیل لگا ہوا تھا۔ جبکہ مومن کا شیطان دبلا پتلا ، گندا سر اور ننگا تھا۔ کافر کے شیطان نے مومن کے شیطان سے پوچھا کہ تمہاری یہ حالت کیوں۔
 تو اس نے کہا کہ میں ایک ایسے مومن کے ساتھ رہتا ہو ں جو ہر کام سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیتا ہے اس لیے میں اس کے ساتھ شریک نہیں ہو تا اور میری یہ حالت ہے۔ کافر کے شیطان نے کہا کہ میں جس کے ساتھ ہوں وہ کسی کام سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتا اور میں اس کے ہر کام میں شامل ہوتا ہوں اس لیے میں اچھا بھلا ہو ں۔