جمعہ، 22 دسمبر، 2023

رعا یا کے حقوق(۱)


 

رعا یا کے حقوق(۱)

اللہ تعالی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کو ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے اپنی رعایا کا جواب دہ ہو گا۔
تواضع و انکساری:مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تما م مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی ہر متکبر اور جابر کو دشمن رکھتا ہے۔ 
چغلی پر عمل سے اجتناب :  رعایا کا دوسرا حق یہ ہے کہ حاکم لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی باتوں پر کان نہ دھرے خاص طور پر فاسق اور خود غرض لوگوں کی باتوں پر یقین نہ کرے کیونکہ اس کا نتیجہ فتنہ فساد اور افسوس اور ندامت ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘۔
 درگزر: جب کسی کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے کی گنجائش موجود ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن گزرنے سے پہلے اسے معاف کر دے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کو معاف کر دے تو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اے یوسف تم نے اپنے بھائیوں کو معاف کیا ، اس کی وجہ سے ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔
اجتماعی عدل کا نفاذ : حاکم کا عدل وانصاف تمام رعایا کے لیے عام ہونا چاہیے۔ اور اس معاملے میں احسان کے لیے اہل یا نا اہل کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے۔ حاکم کا عد ل و انصاف ہر نیک اور بد کو حاصل ہو نا چاہیے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ انسان لوگوں کے ساتھ محبت کرے اور ہر اچھے اور برے آدمی کے ساتھ بھلائی کرے۔
 چادر اور چار دیواری کا تحفظ : رعایا کا پانچواں حق یہ ہے کہ حاکم وقت حکومت کے زور پر عام مسلمان کے چار دیواری کے حق کی خلاف ورزی نہ کرے اور اجازت لیے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہ ہو۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب کسی کے گھر تشریف لے جاتے تو تین مرتبہ آواز دے کر اجازت طلب کرتے اور اگر اجازت نہ ملتی تو واپس چلے جاتے اور اس بات کی وجہ سے ناراض نہیں ہوتے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں