ہفتہ، 30 ستمبر، 2023

Surah Yunus ayat 12.کیا ہم نے اپنا رخ زندگی غیر اللہ کی طرف کر لیا ہے

Surah Yunus ayat 11.کیا ہمیں اللہ تعالی کی ملاقات کی کوئی امید نہیں ہے

حضور نبی کریم ﷺ کی سخاوت


 

حضور نبی کریم ﷺ کی سخاوت

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
” اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا تھا اور کہتے ہمیں کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم (مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں “۔ (سورة التوبہ)۔
سورة التوبہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
” بےشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ تمہاراتکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں ہے۔ اے لوگو! وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے ) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں اور مومنوں کے لیے نہایت شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں “۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہیں کہ اس پر تین راتیں گزر جائیں اور اس میں سے کچھ بھی میرے پاس رہے مگر اس کے سوا جو میں قرض ادا کرنے کے لیے رکھ لوں۔ (متفق علیہ )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انصار کے کچھ افراد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ نے انہیں عطا فرمایا دیا۔ انہوں نے پھر سوال کیا تو آپ نے پھر عطا فرمایا۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس جو بھی مال موجود تھا ختم ہو گیا۔ آپ نے فرمایا میرے پاس جو بھی مال ہوتا ہے میں اسے تم سے بچا کر ذخیرہ نہیں کرتا۔ جو ( سوال کرنے سے ) بچنے کی کوشش کرے اللہ تعالی اسے (سوال کی ذلت سے ) بچا لے گا (یعنی اللہ تعالی اس کی محتاجی دور کر دے گے اور اسے سوال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ) جو غنا کا طلب گار ہو گا اللہ تعالی اس کو غنی کر دے گا جو صبر سے کام لے گا اللہ تعالی اسے صبر دے گا اور کسی کو صبر سے بہتر وسیع عطیہ نہیں دیا گیا۔ ( متفق علیہ ) 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو پہاڑوں کے درمیا ن(چرنے والی) بکریاں مانگیں ، آپ نے اسے وہ بکریاں عطا کر دیں ، پھر وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا : اے میری قوم ! اسلام لے آﺅ ، کیونکہ خدا کی قسم ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا دیتے ہیں کہ فقرو فاقہ سے نہیں ڈرتے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص صرف دنیا کی وجہ سے ایمان لا تا تو اسلام لانے کے بعد اسلام اسے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہو جاتا۔ ( امام مسلم )

Surah Yunus ayat 09-10 Part-03.کیا ہم یقینی طور پر جنتی ہیں

Shortvideo - Momin ka muqaam

جمعہ، 29 ستمبر، 2023

حضور نبی کریم کا اسوئہ حسنہ (۲)

 

حضور نبی کریم کا اسوئہ حسنہ (۲)

یہ آپ کا اسوئہ حسنہ ہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آپ سے فیض یاب ہونے والوں میں عربی بھی ملتے ہیں اور عجمی بھی ، کریم اور شجاع بھی ملتے ہیں اور بوڑھے بھی ، بادشاہ بھی ملتے ہیں اور فقیر بھی۔ ہمیں زندگی کے کسی شعبہ میں بھی رہنمائی چاہیے ہو وہ رسول اللہ کے اسوئہ حسنہ سے مل جاتی ہے۔ آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو جو بھی حکم دیا اس پر خود بھی قول و فعل سے عمل کر کے دکھایا۔میدان جنگ ہو یا پھر مسجد کی تعمیر ، بوڑھوں، بے سہاروں کی مدد کرنی ہو یا پھر دوران سفر پڑاﺅ ڈالنے کے لیے خیمے نصب کرنے ہوں۔ حضور نبی کریم ہر وقت اور ہر کام میں اپنے صحابہ کے ساتھ پیش پیش ہوتے تھے۔نبی اکرم ایک مرتبہ سفر سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ پڑاﺅ ڈالا تو سب صحابہ کرام کی ڈیوٹی لگائی۔ کوئی خیمے نصب کر رہا ہے تو کوئی پانی بھر کر لا رہا ہے اور کوئی کھانا بنانے میں مصروف ہے۔ حضور نبی کریم چپکے سے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ تھوڑ ی دیر بعد صحابہ کرم حضور کو اپنے درمیان نہ دیکھ بے چین ہو جاتے ہیں اور تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد صحابہ کرام کو نبی اکرم واپس آتے ہوئے نظر آتے ہیں جب آپ قریب ہوتے ہیں تو صحابہ کرام دیکھتے ہیں کہ حضور نبی کریم جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے لا رہے ہیں۔ صحابہ نے عرض کی حضور آپ نے اتنی مشقت کیوں اٹھائی ہم آپ کے غلام اس خدمت کے لیے کافی نہ تھے ؟ نبی اکرم نے فرمایا تم سب کام کر رہے تھے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ میں معتبر بن کر بیٹھا رہوں۔ یہ جواب سن کر صحابہ کرام کا ایمان اور یقین اور پختہ ہو گیا۔میدان خندق میں صحابہ کرام خندق کھودنے میں مصروف تھے تو نبی اکرم بھی ہاتھ میں کدال لیے کبھی پتھریلی زمین کھود رہے ہیں تو کبھی مٹی سے بھری ہوئی ٹوکری اٹھا کر باہر پھینک رہے ہیں۔ حضور نبی کریم کی عملی زندگی کی یہ ہی ادائیں تھیں جنہوں نے عرب کے بدوﺅ ں کو اسلا م کا گرو دیدہ بنا دیا تھا۔ آج بھی اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت تیزی سے پھیلے اور دعوت حق کا پیغام دنیا میں ہر سو پھیل جائے تو ہمیں چاہیے کہ اپنی عملی زندگی کو رسول اللہ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق ڈھال لیں۔ جب تک ہم اپنی زندگیوں کو سیرت طیبہ کے مطابق نہیں ڈھالیں گے تب تک ہم فریضہ تبلیغ اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی بات کو لوگوں کے دلوں میں ڈال سکتے ہیں۔

جمعرات، 28 ستمبر، 2023

Shortvideo - Hum kya khalis bandagi-e-rab say inkari hain?

Surah Yunus ayat 09-10 Part-01. کیا ہمارا آخرت پر بالکل یقین نہیں ہے

Surah Yunus ayat 07-08 Part-03.کیا ہم سیدھے دوزخ میں جائیں گے

حضور نبی کریم ﷺکا اسوئہ حسنہ (۱)

 

حضور نبی کریم ﷺکا اسوئہ حسنہ (۱)

باتیں کتنی ہی سچی کیوں نہ ہوں ، ان کی فصاحت و بلاغت کا معیار کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اور باتیں کرنے والا بڑا سلجھا ہوا کیوں نہ ہو یہ باتیں کانوں سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہیں۔ دل و دماغ ایسی باتیں سننا اور 
قبول کرنا پسند نہیں کرتا جب تک باتیں کرنے والا ان باتوں کی تصدیق اپنے قول و فعل سے نہ کرے۔ باتیں کرنے والے کا خود جتنا زیادہ ان باتوں پر عمل ہو گا اتنی ہی زیادہ وہ باتیں دوسروں کے دلوں میں اتریں گی۔جب دنیا میں ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی ، ہر طرف ظلمت کا بازار گرم تھا ، حلال و حرام کی تمیز ختم ہو چکی تھی ایسے میں اللہ تعالی کا دریائے رحمت جوش میں آیا اور بنی نو ع انسانیت کی ہدایت کے لیے عظیم المرتبت کتاب قرآن مجید نازل فرمائی۔ اللہ تعالی نے دعوت حق لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے پہلے اس دعوت کے داعی کا اہتمام فرمایا اور حق کا پرچم لہرانے کے لیے اللہ تعالی نے اپنے حبیب نبی کریم ﷺکو اپنے لطف و کرم میں لے کر پروان چڑ ھایا۔ ارشاد باری تعالی ہے : ” اے حبیب! تیرے رب نے تجھے یتیم پایا تو اس نے تجھے اپنی آغوش کرم میں لے لیا “۔ ( سورة الضحی ) 
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا : ” بیشک تم ہماری نگہداشت میں ہو “۔ ( سورةا لطور)۔ یعنی اے محبوب تو ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ تیری دعاﺅں کا سوزو گداز ، تیرے درد مند دل کی بے قراریاں اور تیرے دن بھر کی مصروفیات سب کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اور تیری نگرانی فرما رہے ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میرے پروردگار نے مجھے ادب سکھایا اور ادب سکھانے میں کمال کر دیا۔ ( کنزالعمال) 
اس ساری تعلیم و تربیت کے بعد اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو ساری دنیا کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ ارشاد باری تعالی ہے ”:بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے “۔یعنی پیغام حق کو جاننا چاہتے ہو تو قرآن مجید کا اچھی طرح مطالعہ کرو اور اس کی تعلیمات کو سمجھنے کے آرزو مند ہو تو حضور نبی کریم ﷺ کی زندگی کا مشاہدہ کرو۔ قرآن مجید میں جو کچھ پڑھو گے تم حضور نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہو بہو اس کو دیکھ لو گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کسی نے پوچھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کا اخلاق کیسا تھا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا سارے کا سارا قرآن ہی حضور نبی کریم ﷺ کا اخلاق تھا۔ حضور نبی کریم ﷺ کا عمل عام نوعیت کا عمل نہیں بلکہ ایک ایسا عملی نمونہ ہے جس میں حسن بھی ہے اور جما ل بھی اور جس کی اداﺅں کو دیکھ کر دشمن بھی پگھل جاتے ہیں۔ بقول شاعر 
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر

بدھ، 27 ستمبر، 2023

Surah Yunus ayat 07-08 Part-02.کیا ہم اللہ تعالی کی نشانیوں سے غافل لوگ ہیں

Surah Yunus ayat 07-08 Part-01.کیا ہمیں اللہ تعالی کی ملاقات کی کوئی امی...

Shortvideo - Shirk ki haqeeqat

حضور نبی کریم ﷺ حضرت حلیمہ کے ہاں

 

حضور نبی کریم ﷺ حضرت حلیمہ کے ہاں

پیدائش کے بعد آپ اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پیتے رہے اور پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ کو دودھ پلاتی رہیں۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ شرفاءاپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے گرد نواح کے دیہات میں بھیج دیتے تھے۔ 
حضرت حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ میں بنی سعد کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ مکرمہ چلی گئی۔ اس سا ل عرب میں بہت سخت قحط پڑ ا تھا۔ میری گود میں ایک بچہ تھا مگر میری چھاتیوں میں اتنا دودھ نہ تھا جو اس کے لیے کافی ہوتا اور ہمارے پاس ایک اونٹنی تھی وہ بھی دودھ نہیں دیتی تھی۔ جس خچر پر میں سوا رتھی وہ بھی اتنا کمزور تھا کہ قافلے والوں کے ساتھ نہ چل سکا اور میرے ساتھ چلنے والے بھی مجھ سے تنگ تھے۔
 جب ہم مکہ مکرمہ پہنچیں تو جو بھی عورت آپ ﷺ کو دیکھتی اور جب ان کو پتہ چلتا کہ آپ یتیم ہیں تو وہ لینے سے انکار کر دیتی کیونکہ بچے کے یتیم ہونے سے زیادہ انعام نہیں ملتا تھا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ کے کمزور ہونے کی وجہ سے کسی نے بھی آپ کو بچہ نہ دیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی قسمت کا ستارہ چمکا آپ نے آپﷺ کو قبول کر لیا۔ 
حضرت حلیمہ سعدیہ کو کیا معلوم تھا کہ وہ اس در یتیم کو لے کر جا رہی ہیں جس سے ان کے گھر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اجالا ہونے والا تھا۔ جب حضرت حلیمہ آپ ﷺ کو لے کر خیمے میں پہنچی اور دودھ پلانے بیٹھیں تو اللہ کی رحمت سے آپ چھاتی میں اتنا دودھ آیا کہ آپ ﷺنے بھی اور آپﷺ کے رضائی بھائی نے بھی خوب پیٹ بھر کر دودھ پیا۔ آپ فرماتی ہیں کہ میرے شوہر نے اونٹنی کا دودھ دوہا اور ہم دونوں نے خوب سیر ہو کر دودھ پیا۔ 
آپ فرماتی ہیں جب میں آپ ﷺکو گود میں لے کر اپنے خچر پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ سے جانے لگی تو میرا خچر اس قدر تیز ہو گیا تھا کہ کوئی بھی سواری اس کے قریب نہ پہنچ سکی۔ قافلے کی عورتیں کہنے لگیں اے حلیمہ یہ وہ ہی خچر ہے جس پر تم سوار ہو کر آئی تھی یا کوئی دوسرا ہے۔ آپ فرماتی ہیں جب ہم گھر پہنچے تو قحط پڑا ہوا تھا۔ ہر طرف خشک سالی تھی بکریوں کے تھنوں سے دودھ خشک ہو چکا تھا مگر میرے گھر قدم رکھتے ہی بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے۔ (مدارج النبوہ) اسی طرح حضرت حلیمہ سعدیہ دو سال آپ ﷺکی نشو نما کرتی رہیں اور برکتوں اور رحمتوں کو سمیٹتی رہیں اور دو سال بعد آپ ﷺ کو آپ کی والدہ ماجدہ کے حوالے کر دیا اور انہوں نے آپ رضی للہ تعالی عنہا کو انعام و اکرام سے نوازا۔ ( زرقانی )

Shortvideo - Deen-e-islam kya aur kyoon?

Surah Yunus ayat 05-06 Part-02.کیا ہم اللہ تعالی کی نشانیاں اپنے عمل سے ...

Surah Yunus ayat 05-06 Part-01.کیا ہمیں اللہ تعالی سے ملاقات کا کوئی یقی...

منگل، 26 ستمبر، 2023

حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت

 

حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت

 ماہ ربیع الاول اپنی تمام تر برکات ، خصوصیات و فضائل سمیت جلوہ گر ہو چکا ہے ۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اللہ نے زندگی میں ایک بار پھر عید میلا د النبی ﷺ کی بہاریں دیکھنے اور برکات سمیٹنے کا موقع فراہم کیا ۔ 
کائنات عالم میں اگرچہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک مخلوق کی دنیا میں آنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہم سب کے آقا مولی محمد عربی ﷺ کی تشریف آوری کا مبارک دن بڑی عظمت اور برکت والا ہے ۔ 
 12 ربیع الاول کو مکہ مکرمہ کی سر زمین پر دنیا بھر کے قبیلوں اور خاندانوں میں سب سے بہتر خاندان اور قبیلے میں آپ ﷺ کی جلوہ گری ہو ئی ۔یوں لگتا ہے جیسے مکہ مکرمہ کی سر زمین کو آباد کرنا ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کے ذریعے خانہ کعبہ کی تعمیر اور تمام سلسے نبی رحمت ﷺ کے آنے سے پہلے اہتمام کے ساتھ کیے گئے ہو ۔ اللہ پاک نے اپنے بندوں پر بڑا فضل و کرم فرمایا کہ ان میں اپنے پیارے محبوب ﷺ کو مبعوث فرمایا جن کے آنے کا انتظار صدیوں سے جاری تھا ۔
 نبی پاک ﷺ کی پیر کی صبح حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کے گھر جلوہ گری ہوئی گویا پوری کائنات خوشیوں سے جھوم اٹھی ۔رحمت عالم ﷺ کی تشریف آوری سے ظلمت کے اندھیرے مٹ گئے ، دکھی انسانیت کو سکھ مل گیا ، انسان تو انسان جانوروں کی داد رسی ہو گئی ، بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا سلسلہ ختم ہوا اور جن کے آنے سے عورت کو ماں ، بہن اور بیٹی کی شکل میں عظمت دی گئی ۔ محفل میلاد النبی ﷺ کیا ہے ؟ محفل میلاد میں اہل ایمان با وضو ہوکر ، خوشبو لگا کر اکھٹے ہوتے ہیں اس نبی رحمت کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی آمد کا ذکر فرما کر اللہ تبارک وتعالی خوشیاں منانے کا حکم فرماتا ہے ۔
 اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ” تم فرماﺅ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے “۔ ( سورة یونس )
اہل ایمان نبی اکرم ﷺ کی شان و عظمت کو بیان کرتے ہیں ، حضور ﷺ کی نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور جو شانیں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو دی ہیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ پاک آپ ﷺ کے ذکر کو بہت پسند فرماتا ہے اللہ تعالی نے آپ ﷺ کا ذکر خود بلند فرمایا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ اس میں اضافہ فرمایا : ارشاد باری تعالی ہے :” اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کر دیا “۔ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا :” اور بیشک آ نے والی زندگی تمہارے لیے پہلی سے بہتر ہے “۔

Surah Yunus ayat 03 Part-04.کیا ہم راستہ بھٹک چکے ہیں

Surah Yunus ayat 03 Part-03. کیا ہمارے دل دنیا کی محبت سے اباد ہیں

پیر، 25 ستمبر، 2023

Shortvideo - Kya hum deen-e-islam main mukammal dakhil hona chahtay hain?

حضور نبی کریمﷺ کی آمد کی بشارت(۲)


 

حضور نبی کریمﷺ کی آمد کی بشارت(۲)

دونوں جہانوں کی کامیابی کا تاج صرف ان لوگوں کے سر پر سجے گا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور آپﷺ کی تعظیم و توقیر کریں گے۔ اس کی نصرت کو اپنے اوپر لازم کر لیں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نازل ہوگا۔ 
ارشاد باری تعالی ہے :
” جو پیروی کرتے ہیں اس رسول کی جو نبی امی ہے جس کو وہ پاتے ہیں لکھا ہوا اپنے پاس تورات اور انجیل میں وہ نبی حکم دیتا ہے انہیں نیکی کا اور روکتا ہے برائی سے اور حلال کرتا ہے ان کے لیے پاک چیزیں اور حرام کرتا ہے ان پر ناپاک چیزیں اور اتارتا ہے ان سے ان کا بوجھ اور وہ زنجیریں جو جکڑی ہوئی تھیں انہیں۔ پس جو لوگ ایمان لائے اس نبی پر اور تعظیم کی آپ کی اور امداد کی آپ کی اور پیروی کی اس نور کی جو اتارا گیا آپ کے ساتھ۔ وہی کامیاب و کامران ہیں “۔ ( سورة الا عراف )۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :ارشاد باری تعالی ہے ” اور یاد کرو جب فرمایا عیسی فرزند مریم نے اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں میں تصدیق کرنے والا ہوں تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی اور خوشخبری دینے والا ہوں ایک رسول کی جو تشریف لائے گا میرے بعد۔ اس کا نام احمد ہو گا پس جب وہ آیا ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا جادوہے“۔ ( سورة الصف ) 
 حضرت عیسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو اپنے بعد آنے والے رسول کی آمد کی بشارت دی اور ان کا اسم ”احمد“بھی بتا دیا۔ اللہ تعالی نے یہود کی ہٹ دھرمی کی مثا ل بیان فرمائی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے یہود جب کفار اور مشرکین کے ساتھ جنگ کرتے اور جب ہار کے آثار ظاہر ہوتے تو وہ تورات کھول کر سامنے رکھتے اور جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا ہوتا اس پر ہاتھ رکھ کردعا مانگتے۔” اے اللہ ! ہم تجھ سے تیرے اس نبی کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں جس کی بعثت کاتو نے ہم سے وعدہ کیا ہے آج ہمیں اپنے دشمنوں پر فتح عطا کر تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اللہ انہیں فتح عطا کرتا “۔ (روح المعانی )
 ارشاد باری تعالی ہے :” اور وہ اس سے پہلے فتح مانگتے تھے کافروں پر تو جب تشریف فرما ہوا وہ نبی ان کے پاس جسے وہ جانتے تھے تو انکار کر دیا اس کے ماننے سے۔ سو پھٹکار ہو اللہ کی دانستہ کفر کرنے والوں پر “۔ ( سورة البقرة )

Surah Yunus ayat 03 Part-02.کیا ہم نے ظاہر کو اپنا حاجت روا سمجھ لیا ہے

Surah Yunus ayat 03 Part-01.کیا صرف اللہ تعالی ہی ہمارا حاجت روا ہے

اتوار، 24 ستمبر، 2023

حضور نبی کریم ﷺ کی آمد کی بشارت (۱)

 

حضور نبی کریم ﷺ کی آمد کی بشارت (۱)

اللہ تعالی قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے :”اور یاد کرو جب اللہ تعالی نے انبیائےسے  پختہ عہد لیاجو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق
 فرمائے تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا۔ فرمایاتو ایک دوسرے پر گواہ ہو جاﺅ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہو ں۔ تو جو کوئی اس کے بعد پھرے تو وہی لوگ فاسق ہیں “۔ (سورة آل عمران) 
حضرت سیدنا علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھم سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے ہر ایک سے یہ پختہ وعدہ لیا کہ اگر ان کی موجودگی میں حضور نبی کریم ﷺ تشریف لے آئیں تو اس پر یہ لازم ہو گا 
کہ وہ رسول اللہ ﷺکی رسالت پر ایمان لے آئے اور آپ کی امت میں شامل ہونے کا شرف حاصل کرے۔ اور ہر طرح حضورﷺ کے دین کی تائید و نصرت کرے۔ اور تمام انبیاءنے یہ ہی عہد اپنی امتوںسے لیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام جب خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام مکمل کر چکے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اللہ تعالی سے دعا مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ ہم نے آپ کا گھر تعمیر کر دیا ہے اب اس کو آباد کرنے والا بھی بھیج دے۔
 ارشاد باری تعالی ہے :”اے ہمارے رب ! بھیج ان میں ایک بر گزیدہ رسول انہیں میں سے تا کہ پڑھ کر سنائے تیری آیتیں اور سکھائے انہیں یہ کتاب اور دانائی کی باتیں اور پاک صاف کر دے انہیں بےشک تو ہی بہت زبر دست اور حکمت والا ہے “۔ (سورة البقرة )۔
اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور دعا میں جس رسول کی بعثت کی التجا کی وہ حضورنبی کریم ﷺ ہی ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نسب سے حضو ر نبی کریمﷺکے سوا کوئی رسول پیدا نہیں ہوا۔
علامہ ابن جوزی روایت کرتے ہیں حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میں بارگاہ الٰہی میں خاتم النبین کے مرتبہ پر فائز ہو ں درآں حالیکہ حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر تیار ہو رہا تھا اور میں تمہیں اس امر کی ابتدا سے آگاہ کرتا ہوں۔ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمر ہوں۔ میں وہ ہوں جس کی آمد کی بشارت حضرت عیسی نے دی تھی۔ میں اس خواب کی تعبیر ہوں جو میری والدہ ماجدہ نے دیکھا تھا۔ اسی طرح انبیائے کرام کی امہات کوبھی اس قسم کا خواب دکھایا جاتا تھا۔

ہفتہ، 23 ستمبر، 2023

Surah Yunus ayat 01-02 Part-05 کیا ہم اپنے پیغمبر کی دعوت الا اللہ پر لب...

Surah Yunus ayat 01-02 Part-04.کیا قران پاک سے ہم ہدایت لینے کے لئے تیار...

Shortvideo - Insaan ko qurb-e-elahi jaldi kaisay mill sakta hay?

اصحاب فیل کا واقعہ (۲)

 

اصحاب فیل کا واقعہ (۲)

حضرت عبدالمطلب نے واپس آ کر قریش کو آگاہ کیا اور کہا کہ آپ سب پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ گزین ہو جائیں۔ حضرت عبدالمطلب خود چند خاندان والوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر خوب گریہ و زاری کے ساتھ اس طرح دعا مانگی۔ 
” اے اللہ ! بے شک ہر شخص اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما۔ اور صلیب والوں اور صلیب والوں کے پجاریوں کے مقابلہ میں اپنے اطاعت شعاروں کی مدد فرما “۔
 آپ نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے۔ ابرہہ نے جب صبح لشکر کو تیاری کا حکم دیا تو ایک بہت بڑا ہاتھی جس کا نام محمود تھا جب اسے خانہ کعبہ کی طرف چلاتے تو وہ بیٹھ جاتا اور جب کسی اور سمت چلاتے تو وہ چل پڑتا۔ اللہ تعالی نے چھوٹے چھوٹے پرندوں ابابیل کے ذریعے اس لشکر پر قہر نازل فرمایا۔ ان پرندوں کے پاس تین کنکر ہوتے ایک چونچ میں اور ایک ایک دونوں پنجوں میں اور ہر ایک کنکر کے اوپر کافر کا نام لکھا ہوتا جب پرندہ کنکر کو چھوڑتا تو کنکر اس کافر کے سر میں سے ہوتا ہوا اس کے جسم کو چیرکر ہاتھی کو بھی ہلاک کر دیتا اس طرح اللہ تعالی نے اس لشکر کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔جب حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ اور اس کے لشکر والوں کا یہ حال دیکھا تو پہاڑ سے نیچے آکر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ 
اس واقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔
 ” اے محبوب کیا آپ نے نہ دیکھا تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا۔ کیا ان کا داﺅتباہی میں نہ ڈالا۔اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں۔ کہ انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے۔ تو انہیں کر ڈالا جیسے کھائی کھیتی کا بھوسہ“۔ 
یہ واقعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پچپن دن پہلے پیش آیا۔ اس واقعہ کی وجہ سے پوری دنیا کی توجہ خانہ کعبہ کی طرف ہو گئی اور اقوام عالم کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ قیامت تک کے لیے اللہ تعالی نے اس گھر کو عزت و احترام کے لیے چن لیا ہے۔ اور اگر ابرہہ کا لشکر غالب آجاتا تو وہ آپ کی قوم کو غلام بنا لیتا۔ اس طرح آپ پر حمل و طفولیت کی حالت میں غلامی کا دھبہ لگ جاتا اسی لیے اللہ تعالی نے خانہ کعبہ کی عظمت و حرمت کو قائم رکھا اور یہ واقعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا پیش خیمہ تھا۔

Shortvideo - Deen-e-islam ko mukammal kaisay qabool karain?

جمعہ، 22 ستمبر، 2023

اصحاب فیل کا واقعہ (۱)


 

اصحاب فیل کا واقعہ (۱)

حضور نبی کریم ﷺ کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے حبشہ کا گورنر ”ابرہہ“ ہاتھیوں کی فوج لے کر خانہ کعبہ کو گرانے کے لیے مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حج کے موسم میں لوگ حج بیت اللہ کا سامان جمع کر رہے تھے تو ابرہہ نے پوچھا یہ لوگ کہا ں جا رہے ہیں تو لوگوں نے کہا یہ لوگ حج کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جا رہے ہیں۔ابرہہ نے یمن کے دارالسلطنت صنعامیں ایک بہت ہی خوبصورت عبادت گاہ تعمیر کروائی اور لوگوں سے کہا کہ وہ خانہ کعبہ کاحج کرنے کی بجائے یمن آ کراس عبادت کا حج کریں۔ جب مکہ والوں کو اس بات کا علم ہو ا تو انہیں بہت غصہ آیا تو قبیلہ کنانہ کا ایک شخص غصے میں یمن گیا اور قضائے حاجت کر کے عبادت گاہ کو آلودہ کر دیا۔ جب ابرہہ کو اس بات کا علم ہوا تو غصے میں آپے سے باہر ہو گیا اور اس نے قسم کھائی کہ خانہ کعبہ کو گراکر چھوڑے گا۔ جب وہ ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ مکرمہ پہنچا تو اس کی فوج کے اگلے دستے نے مکہ والوں کے اونٹ اور بکریاں ان سے چھین لیں۔ اس میں دو سو یا چار سو اونٹ حضرت عبد المطلب کے بھی تھے۔حضرت عبدالمطلب کو اس بات کا بہت دکھ ہوا۔ آپ ابرہہ کے پاس آئے اور اس نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کی تعظیم کے لیے تخت سے کھڑا ہو گیا۔ ابرہہ نے پوچھا کہ آپ کس مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں آپ نے فرمایا میرا مطالبہ یہ ہے ہمارے اونٹ اور بکریاں جو آپ پکڑ لا ئے ہیں وہ ہمیں واپس کر دیں۔ ابرہہ نے کہا کہ مجھے آپ کی بات سن کر تعجب ہوا۔ میں سمجھاتھا کہ آپ ایک بہت حوصلہ مند اور با رعب شخص ہیں۔ آپ مجھے خانہ کعبہ پر حملہ نہ کرنے کا کہیں گے۔ مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کر لیا ہے۔ ابرہہ نے کہا میں یہاں خانہ کعبہ کی توڑ پھوڑ کرنے آیا ہو ں آپ نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی اور اپنے اونٹ اور بکریوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ آپ نے فرمایا اونٹوں کا مالک میں ہوں اس لیے ان کا سوال کیا۔ جو کعبہ کا مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ یہ سن کر ابرہہ نے غصے میں کہا سن لیجیے میں کعبہ کو ڈھا کر اس کا روئے زمین سے نا م و نشان مٹا دوں گا۔ مکہ والوں نے عبادت گاہ کی بے حرمتی کی ہے۔ آپ نے فرمایا خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے۔ تو جا نے اور خدا جانے۔یہ کہہ کرآپ نے ابرہہ سے اپنے اونٹ بکریاں واپس لیں اور چلے گئے۔

Surah Yunus ayat 01-02 Part-01.کیا ہم دنیا کے دھوکے کا شکار ہو چکے ہیں

Shortvideo - Jannat baraey farookht

بدھ، 20 ستمبر، 2023

Shortvideo - Deen-e-islam hi kyoon?

اسلام سے قبل عرب کے حالات


 

اسلام سے قبل عرب کے حالات

اسلام سے قبل عرب کے حالات بہت خراب تھے لوگ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہو ئے تھے۔ عرب میں معاشرتی ، تمدنی ، اخلاقی کمزوریاں اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ عرب کے رہنے والے انسان برائے نام ہی انسان رہ گئے تھے۔ فحش باتوں سے بالکل بھی نہیں بچا جاتا تھا۔ ہر شخص اپنے افعال اور اقوال میں آزاد تھا۔خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کے نا م پر اشعار لکھے جاتے تھے اور بازاروں میں سر عام گایا جاتا تھا۔ کو ئی ولولہ اور ارمان چھپا کر نہیں رکھا جا تھا۔ زنا پر نادم ہو نے کی بجائے فخر کیا جاتا تھا۔ عرب کے لوگوں کے لیے شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں سے زیادہ محبوب کوئی مشغلہ نہیں تھا۔ پھر نشہ کی حالت میں بد مست ہو کر نہایت شرم ناک افعال کیے جاتے اور ان پر فخر کیا جا تا تھا۔ 
قمار بازی شرفا ءاور امراءکا بہترین مشغلہ تھا۔ ہر جگہ قمار خانے کھلے ہو ئے تھے جن میں عرب کے بڑے بڑے رئیس شامل ہوتے تھے اور بڑی بڑی رقوم ہارتے اور جیتتے تھے۔ سود خوری نہایت ہی معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ نہایت ہی بے دردی سے ضرورت مندوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کو لوٹا جاتا تھا۔ لونڈیوں کو ناچنا گانا سکھا کر بازاروں میں بٹھا دیا جا تا تھا اور وہ جو کما کر لاتی تھیں وہ سب کچھ آقا کا ہوتا تھا اور اس پیسے سے بڑی بڑی دعوتیں کی جاتی تھیں۔
جدال و قتال د و قبیلوں کے درمیان اگر کوئی جنگ چھڑ جاتی تھی تو پچیس پچیس سال ، تیس تیس سال تک جاری رہتی تھی۔ ہزروں لوگ ان جنگوں میں مارے جاتے تھے۔ یہ لڑائیاں شعرو شاعری اور گھوڑ دوڑ کی وجہ سے ہوتی تھیں۔عورت کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا اور معاشرے میں اس کی کوئی عزت نہیں تھی۔ وہ کوئی حق نہیں رکھتی تھی۔ مردوں کو یہ حق تھا کہ وہ جو چاہیں کریں۔ جتنی عورتوں چاہیں مرضی نکاح کریں۔ سوتیلی ماں سے نکاح جائز سمجھا جاتا تھا۔ اگر کوئی خاص وجہ نہ ہوتی تو لڑکی کو پیدا ہوتے ہیں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ ہر قبیلے اور گھر نے اپنا الگ الگ بت بنایا ہواتھا۔ مگر ہبل ، اساف ، نائلہ ، لا ت و منات ان کو بہت عزت والے بت سمجھا جاتا تھا اور لوگ ان کی پرستش کرتے تھے۔ دہریے کسی پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے تھے۔ یہ خدا کا بھی انکار کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی۔ یہودیوں نے خانہ کعبہ میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نا م کے بت رکھے اوران کی پوجا کرتے تھے۔ عیسائی تثلیث کے قائل تھے اور انہوں نے بھی تین بت کعبہ میں رکھے ہوئے تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔

منگل، 19 ستمبر، 2023

Shortvideo - Kya hum deen-e-islam ko jhutlanay walay hain?

صحابہ کرام کی حضور نبی کریمﷺ سے محبت


 

صحابہ کرام کی حضور نبی کریمﷺ سے محبت

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : اور مہاجرین اور ان کے مدد گار میں سبقت لے جانے والے ، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجہ احسان کے ساتھ اس کی پیروی کرنے والے ، اللہ ان سب سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔ (سورة الاحزاب)ارشاد باری تعالی ہے :اے حبیب ! بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ، انکے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ ہی کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت توڑ دی تو اسکے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے بات کو پورا کیا جس پر اس نے اللہ سے وعدہ کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ ( سورة الفتح )۔
ارشاد باری تعالی ہے : محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ آپﷺ کی معیت میں رہتے ہیں وہ کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں نرم دل اور شفیق ہیں۔ ( سورة الفتح ) 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ اپنے مہاجر اور انصا ر صحابہ کرام کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنھم بھی ان میں ہوتے تو کوئی صحابی بھی حضورﷺ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا ، البتہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر حضور نبی کریم ﷺ کے چہرہ انور کو مسلسل دیکھتے رہتے اور حضور ﷺ انہیں دیکھتے ، یہ دونوں حضرات رسول اللہ ﷺکو دیکھ کر مسکراتے اور خود حضور  ان کو دیکھ کر تبسم فرماتے۔ ( ترمذی ) 
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺفاقہ سے تھے۔ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خبر ملی تو وہ مزدوری کے لیے نکلے تا کہ کچھ حاصل کر کے حضور نبی کریم ﷺکی تکلیف کا مداوا کر سکیں۔ چنانچہ وہ ایک یہودی کے باغ میں پہنچے تو اس کے لیے سترہ ڈول پانی کھینچا اور ہر ڈول کے بدلے ایک عمدہ کھجور لی۔ حضرت علی وہ سترہ کھجوریں لے کر حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے۔ ( ابن ماجہ ) 
حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺکے اصحاب میں سے ایک صحابی کی بینائی جاتی رہی تو لوگ ان کی عیادت کے لیے گئے۔ جب ان کی بینائی ختم ہونے پر افسوس کیا تو انہوں نے کہا : میں ان آنکھوں کو فقط اس لیے پسند کرتا تھا کہ ان سے مجھے حضور نبی کریم ﷺ کا دیدار حاصل ہو تا تھا۔ چونکہ اب آپ ﷺ کا وصال ہو گیا ہے اس لیے مجھے چشم غزول (ہرن کی آنکھیں ) بھی مل جا ئیں تو خوشی نہ ہو گی۔ (امام بخاری نے ”الاداب المفرد“ میں روایت کیاہے )

Surah Al-Tawba ayat 124-127 Pt-07.کیا ہمارے دل اللہ تعالی کی محبت کی بجا...

Surah Al-Tawba ayat 124-127 Part-06.کیا ہم اللہ تعالی کے حضور سچی توبہ ن...

پیر، 18 ستمبر، 2023

Shortvideo - Kya asal kamyabi dunya ki hay?

حضور نبی کریم ﷺ کی محبت واجب

 

حضور نبی کریم ﷺ کی محبت واجب

 اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
 ” اے نبی آپ فرما دیجیے : اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے (بیٹیاں )اور تمہارے بھائی بہنیں اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے اور تجارت وکاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور وہ مکانات جو تم پسند کرتے ہو ، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظا ر کریں یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے ، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا “۔ ( سورة البقرة ) 
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے : اے محبوب آپ فرما دیجیے :اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا ، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے “۔ ( سورة آل عمران)
سورة الاحزاب میں ارشاد باری تعالی ہے : یہ نبی ﷺ مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواج ان کی مائیں ہیں ۔ ( سورة الا حزاب ) 
حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑا ہو ا تھا ۔ حضرت عمر نے عرض کی : یا رسول اللہ ! آپ مجھے اپنی جان کے سواہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے (تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے) جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب تر نہ ہو جاﺅں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا : اللہ رب العزت کی قسم ! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اے عمر ! اب تمہارا ایمان کامل ہو اہے ۔ ( بخاری شریف ) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے ، ان میں سے ایک شخص کی یہ آرزو ہو گی کہ کاش وہ اپنے تمام اہل وعیال اور مال و دولت کو قربان کر کے میری زیارت کر لے ۔ (مسلم شریف ) ۔ امام قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت کی ایک علامت آپ ﷺ کا بکثرت ذکر کرنا ہے ۔کیوں کہ جو شخص جس سے محبت کرتا اس کا ذکر بھی زیادہ کرتا ہے ۔ اور فرمایا محب کی تین علامات یہ بھی ہیں ۔ اس کا کلام محبوب کا ذکر ہو ، اس کی خاموشی محبوب کی فکر ہو اور اس کاعمل اس کی فرمانبرداری ہو ۔

Shortvideo - Kya hum zindagi nakaam guzaar rahay hain?

Surah Al-Tawba ayat 124-127 Part-02.کیا ہمارے دل دنیا کی محبت سے آباد ہیں

اتوار، 17 ستمبر، 2023

حضرت فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ


 

حضرت فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ

 طریقت کے اماموں میں ایک واصلین کے سردار ، مقربین بارگاہ کے باد شاہ حضرت ابو علی فضیل بن عیاض رحمة اللہ تعالی علیہ بھی ہیں۔ فقرا ءمیں آپ کا بڑا مقام و مرتبہ ہے۔ طریقت میں آپ کامل مہارت رکھتے تھے۔ مشائخ طریقت کے درمیان آپ بہت مقبول ہیں۔ آپ کے احوال صدق و صفا سے معمور تھے۔ آپ ابتدائے عمر میں جرائم پیشہ آدمی تھے۔ مرو اور ماوراکے درمیان رہزنی کا مشغلہ تھا۔ اس کے باوجود آپ کا جھکاﺅ اصلاح کی طرف رہتا تھا۔ اگر کسی قافلے میں کوئی عورت ہوتی تو اس قافلے کر قریب بھی نہیں جاتے تھے۔ اگر کسی کے پاس مال کم ہوتا تو اس سے کچھ بھی نہیں لیتے تھے اور ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ مال مال ضرور چھوڑ دیتے تھے۔
 ایک مرتبہ ایک سوداگر مرو سے ماورا جا رہا تھا۔ مرو کے لوگوں نے کہاں کہ تمہارے لیے بہتر یہ ہے کہ تم ایک سرکاری دستہ اپنے ساتھ لے کر جاﺅ کیونکہ راستے میں فضیل مال لوٹ لیتا ہے۔ سوداگر نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ وہ رحم دل اور خدا ترس آدمی ہے۔سوداگر نے حفاظتی دستے کی بجائے اپنے ساتھ ایک قاری اجرت پر رکھ لیا۔ قاری دن رات قرآن مجید کی تلاوت کرتا رہا یہا ں تک کہ یہ قافلہ اس جگہ پہنچ گیا جہا ں فضیل گھات لگائے بیٹھا تھا۔ اس وقت قاری نے یہ آیت پڑھی۔ 
ترجمہ : ” کیا ابھی تک مومنوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ وہ ذکر الٰہی اور حق کی طرف سے نازل کیے ہوئے احکام کے آگے اپنے دلوں کو جھکائیں “۔
 حضرت فضیل بن عیاض نے جب یہ سنا تو ان کے دل پر رقت طاری ہو گئی۔ حضرت فضیل پر اللہ تعالی کا فضل ہوا اور انہوں نے اسی وقت راہزنی سے توبہ کر لی۔ جن جن کے مال لوٹے تھے ان کے نام لکھ رکھے تھے ان سب کو راضی کیا۔ لیکن ایک یہودی نے معاف کرنے سے انکار کر دیا اور کہا سامنے ایک ریت کا ٹیلہ ہے اگر اسے اٹھا کر ادھر رکھ دو تو میں تمہیں معاف کر دوںگا۔ اللہ کی رحمت سے رات کو آندھی آئی اور پوری کی پوری ڈھیری ادھر سے ختم ہو گئی۔ پھر اس نے کہا کہ میرے تکیے کے نیچے سے اشرفیوں کی تھیلی مجھے پکڑا دو تو میں تمہیں معاف کر دو ں گا۔ جب آپ نے اس کو تھیلی دی تو وہ فوری مسلمان ہو گیا وہ کہنے لگا کہ اس تھیلی میں مٹی تھی اور میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ جب بندہ سچی توبہ کرتا ہے تو اگر وہ مٹی کو بھی ہاتھ لگائے تو وہ سونا بن جاتی ہے۔اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کا مذہب سچا ہے۔

Surah Al-Tawba ayat 124-127 Part-01.ہم کیا مدینے کے منافقوں جیسے ہیں

Shortvideo - Zindagi kamyab magar kaisay?

ہفتہ، 16 ستمبر، 2023

تکبر کی مذمت

 

تکبر کی مذمت

تکبر سے مراد یہ ہے کہ اپنے آپ کو لوگوں سے بڑا سمجھنا ، اور جابر ہو نا۔ 
ارشاد باری تعالی ہے :” یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے کرتے ہیں جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد اور اچھا انجام پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے۔ “(سورة القصص)۔ 
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : ” اور کسی سے بات کرنے میں اپنارخسار ٹیڑ ھا نہ کر اور زمین میں اکڑ کر مت چل ، بیشک اللہ تعالی تکبر کرنے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“(سورة القمان)۔
 قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہے :” بیشک جو لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہو ں گے “ (سورہ المومن)۔ 
احادیث مبارکہ میں بھی تکبر کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ 
حضرت حارثہ بن وھب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم نے اہل نار کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا : ہر سرکش ، بد خلق اور تکبر کرنے والا دوذخی ہے۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ عزت میرا تہبند ہے اور کبر و بڑائی میری چادر ہے ، پس جو شخص ان دونوں میں سے ایک کے ساتھ مجھ سے جھگڑے گا تو تحقیق میں اس کو عذاب دو ں گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عزت اور کبر وبڑائی صرف اللہ تعالی ہی کی ذات کے لیے ہے جو ساری کائنات کا خالق و مالک ہے کسی بندے کی اتنی کیا مجال کہ اس ذات کے سامنے اپنی ہستی پر اترا سکے۔
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ آدمی مسلسل تکبر میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ سر کش لوگوں میں اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے پس اس کو بھی وہ ہی عذاب ہو گا جو ان لوگوں کو ہو گا۔
حضرت ابو بکر  رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص وہاں سے گزرا۔ اس کا سارا جسم ریشمی جبوں سے ڈھانپا ہو اتھا اور تکبر سے چل رہا تھا۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا :اف کس قدر ناک اٹھا رکھا ہے ، پہلو دوھرا کیے اور رخسار ٹیڑھا کیے ہوئے چل رہے ہواور پہلوکو دیکھے جا رہے ہو۔ پھر آپ نے فرمایا : اے احمق تم اپنے ان پہلوﺅں کو دیکھ رہاہے جنہوں نے خدا کا حکم نہ مانا۔ آپ نے فرمایا : خدا کی قسم اپنی فطری چال چلے یا دیوانوں کی طرح گرتے پڑتے چلے تو تیرا اس تکبر کے ساتھ چلنے سے اس کا چلنا بہتر ہے۔

Shortvideo - Deen-e-islam he kyoon?

Surah Al-Tawba ayat 123.کافروں سے جنگ کیوں اور کب

جمعہ، 15 ستمبر، 2023

Surah Al-Tawba ayat 122 Part-02.کیا عمل کے لئے علم ضروری ہے

وضو کے فضائل و برکات

 

وضو کے فضائل و برکات

حضرت عمرو بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ہجرت مدینہ کے بعد حضور نبی کریمﷺ کی بار گاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہﷺ مجھے وضو کے بارے میں بتائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جب کوئی شخص وضو کرتا ہے جب کلی کرتا ہے ناک میں پانی ڈالتا ہے اور اسے صاف کرتا ہے تو اس کے منہ کی تمام خطائیں جھڑ جاتی ہیں۔ پھر جب وہ منہ دھوتا ہے تو اس کے منہ کے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جب کہنیوں سمیت ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں کے تمام گناہ پانی کے ذریعے انگلیوں کے پوروں اور کناروں سے نکل جاتے ہیں پھر آدمی جب مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ سر کے بالوں کے کناروں کے ذریعے نکل جاتے ہیں پھر جب پاﺅں دھوتا ہے تو پاﺅں کے گنا ہ انگلیوں کے کناروں سے پانی کے ذریعے نکل جاتے ہیں پھر آدمی جب وضو مکمل کرنے کے بعدشان باری تعالیٰ کے مطابق حمدو ثناءکرتا ہے اور دو رکعت نماز پڑھتا ہے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ پیدائش کے دن تھا۔
حضرت فقیہ ابو اللیث سمر قندی اپنے والد کے حوالے سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن اسلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے بعض آسمانی کتب میں پڑھا ہے کہ جو شخص وضو ٹوٹنے کے بعد دوبارہ و ضو کرتا ہے اور گھروں میں عورتوں کے پاس نہیں جاتا اور مال حق حاصل کرتا ہے تو اسے دنیا میں بے حساب رزق عطا ہوتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کے بارے میں بتاتا ہو جن سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور درجات بلند ہو جاتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : سرد راتوں یعنی موسم سرما میں صحیح وضو کرنا ، نا پسندیدہ باتوں پر صبر کرنا، مساجد کی طرف تیز تیز اور زیادہ قدم چلنا ، ایک نما ز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز کے وقت حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : کہ حالت اسلام میں مجھے اپنے بہترین عمل کے بارے میں بتائیں کیونکہ آج رات میں نے آپ کے قدموں کی آہٹ جنت میں سنی ہے۔ عرض کی یارسول اللہ ﷺ میں نے اسلام میں سب سے زیادہ اور بہترین عمل یہ کیا ہے کہ میں ہر وقت وضو میں رہتا ہوں اور جتنی ہو سکے اپنے رب کی نماز پڑھ لیتا ہوں۔

Surah Al-Tawba ayat 122 Part-01.کیا علم حاصل کرنا فرض ہے

Surah Al-Tawba ayat 120-121 Part-02. عمل صالح اور عمل بد کیا ہے

Shortvideo - Deen-e-islam ki haqeeqat

جمعرات، 14 ستمبر، 2023

ظلم کی ممانعت اور مذمت

 

ظلم کی ممانعت اور مذمت

اپنی طاقت یا اختیار کی بنا پر کسی کے جائز حق کو چھین لینا ظلم کہلاتا ہے۔ اسلامی شریعت میں ظلم زیادتی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کی جائے اور نہ ہی کسی کے ساتھ زیادتی کی جائے۔ حقیقت میں اسلام ہمیں عدل و انصاف کا درس دیتا ہے۔ کتاب و سنت میں بھی ظلم کی ممانعت اور مذمت کی گئی ہے۔اسلام ہمیں مخلوق خدا کے ساتھ ظلم کی بجائے رحم کا درس دیتا ہے۔ ظلم انسان کو راہ حق سے دور کر دیتا ہے اس لیے اسے گمراہی میں شمار کیا جاتا ہے ارشاد باری تعالی ہے :”کتنا سنیں گے اور کتنا دیکھیں گے جس دن ہمارے پاس حاضر ہوں گے مگر آج ظالم کھلی گمراہی میں ہیں “(سورة مریم )۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : ” اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو “(سورة بقرة)۔
اللہ تعالی صرف اس شخص کو ہدایت دیتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے کیونکہ ظلم قرآن و سنت کے منافی ہے اور گناہ ہے اور ہدایت نیکی ہے اس لیے ظلم اور نیکی ایک جگہ اکھٹی نہیں ہو سکتی۔
 ارشاد باری تعالی ہے :” اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پر ہے بے شک وہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو۔ اور بے شک جس نے اپنی مظلومی پر بدلہ لیا ان پر کچھ مواخذہ کی راہ نہیں۔ مواخذہ تو انہیں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں نا حق سر کشی پھیلاتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے “۔ (سورة الشورٰی)
اللہ تعالی ظالموں کو پسند نہیں فرماتا لیکن جو لوگ ظلم کو برداشت کرتے ہیں اور اس کا بدلہ نہیں لیتے درگزرکرتے ہیں ایسے لوگ اللہ تعالی کو پسند ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے :” اللہ تعالی پسند نہیں کرتا بری بات کااعلان کرنا مگر مظلوم سے اور اللہ سنتا جانتا ہے “ ( سورة النساء)۔ 
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :” تو بیشک ان ظالموں کے لیے عذاب کی ایک باری ہے جیسے ان کے ساتھ والوں کے لیے ایک باری تھی تو مجھ سے جلدی نہ کریں “( سورة لذاریت)۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم سے بچنے کے لیے بہت تاکیدکی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :  اپنے بھائی پر ظلم کیا ہو آبرو ریزی کر کے یا کسی اور طرح تو اس روز سے پہلے اس سے معاف کرالے جبکہ اس کے پاس دینار ہو گا اور نہ ہی درہم۔ اگر اس کے پاس نیک اعمال ہوئے تو اس ظلم کے برابر اس سے لے لیے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے۔( بخاری شریف )

Shortvideo - Jannat ki qeemat

Surah Al-Tawba ayat 120 Part-01.کیا ہم نے اللہ تعالی سے اپنی جان و مال ک...

Surah Al-Tawba ayat 118-119. سچوں کی صحبت کی کیا ضرورت ہے

بدھ، 13 ستمبر، 2023

سیرت النبی ﷺ (۳)

 

سیرت النبی ﷺ (۳)

حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ ﷺ کھلی چھوڑی ہوئی ہوا سے بھی زیاہ سخی تھے ۔آپ ﷺ نے ایک مرتبہ ایک شخص کو اتنی بکریا ں عطا کیں جو دو پہاڑوں کے درمیان پھیلی ہوئی تھیں ۔ جب یہ شخص بکریاں لے کر اپنے قبیلے والوں کے پاس گیا تو کہا :
 لوگو ! نبی کریم ﷺ تو اس شخص کی طرح مال عطا کرتے ہیں جسے فقر کا کوئی خوف نہ ہو ۔ رسول اللہ ﷺ نہ شور مچانے والے تھے ، نہ فحش گو اور نہ ہی بد کلامی کرنے والے تھے ۔ آپ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ، زمین پر بیٹھتے ، بالوں کی بنی ہوئی چادر اوڑھتے ۔ مسکینوں کی صحبت میں بیٹھتے اور بازاروں میں پیدل چلتے ۔ اپنے بازوں کو اپنا تکیہ بنا لیتے ۔ اپنی ذات سے اوروں کا قصاص لیتے ۔ آپ کو کبھی کسی نے قہقہ لگا کر ہنستے نہیں دیکھا ۔ اکیلے کھانا نہ کھایا کرتے ، آپ ﷺ نے اپنے غلام کو کبھی نہ مارا ، آپ نے کسی کو اپنے ہاتھ سے ضرب نہیں لگائی اگر لگائی تو صرف اللہ کی خاطر ۔ آپ کبھی پالتی مار کر نہیں بیٹھتے تھے اور نہ ٹیک لگا کر کھانا کھاتے اور فرمایا کرتے میں ایک غلام کی طرح کھانا کھاتا ہو ں اور جب بیٹھتا ہو تب بھی غلام کی طرح ۔
آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ ﷺ نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے حالانکہ آپ اللہ تعالی سے دعا فرماتے کہ ابو قیس پہاڑ کو سونے کا بنا دے تو اللہ ضرور سونے کا بنا دیتا ۔ایک اور شخص نے آپ ﷺ کو اور پانچ اور صحابہ کو دعوت پر بلایا لیکن میز بان کی اجازت کے بغیر چھٹا صحابی اس میں شامل نہ ہو سکا ۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے نقش و نگار والا رومال اوڑھا مگر پھر اسے پھینک دیا اور فرمایا اس کے نقش و نگار مجھے غا فل کرنے ہی والے تھے اسے لے جاﺅ اور ابو جہم وا لی چادر لا کر دو ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : 
مجھے اس بات کی وحی نہیں کی گئی کہ میں مال جمع کرو اور تاجر بنو ں۔ مجھے تو یہ وحی کی گئی ہے کہ اللہ تعالی کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرو ں ، سجدہ کرنے والوں میں سے بنوں اور اپنے رب کی مرتے دم تک عبادت کرتا رہو ں ۔ 
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کی اور خیرات کر دی صرف شانہ رہ گیا ۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ سب کچھ تو چلا گیا صرف شانہ رہ گیا تو آپ ﷺنے فرمایا : سب کچھ بچا صرف شانہ جاتا رہا ۔ 

Surah Al-Tawba ayat 115-116 Part-02.ہم کیوں اللہ تعالی کی بندگی شروع کر دیں

منگل، 12 ستمبر، 2023

سیرت النبی ﷺ (۲)


 

 سیرت النبی ﷺ (۲)

ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گانا پسند نہیں فرماتے تھے اور آپ کو فقر و احتیاج کا خوف نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی ازواج پر بھی ایک ماہ اور کبھی دو ماہ اس طرح بھی گزر جایا کرتے کہ روٹی پکانے کے لیے آپ کے گھر میں آگ بھی نہیں جلائی جاتی تھی۔ اور ان دونوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آ پ کی ازواج کھجور کھا کر اور پانی پی کر گزارا کرتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ کی ازواج کو اختیار دیا گیا اور انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انتخاب کیا۔ 
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
 ” اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے کہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتی ہو تو آﺅمیں تمہیں مال دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو بے شک اللہ نے تمہاری نیکی والیوں کے لیے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے “۔ (سورة الا حزاب ) 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ میری زندگی مسکینوں کی زندگی ہو اور مروں تب بھی مسکین ہو کر مروں اور روز محشر مسکینوں کے ساتھ میرا حشر ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی دعا فرمایا کرتے تھے ‘اے اللہ آل محمد کو روز بروز کی خوارک عطا فرما۔ 
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی یوں صفت بیان کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ کا گھٹنا باندھتے ، اونٹنی کو چارہ ڈالتے ، گھر میں جھاڑو دیا کرتے ، جوتے کو خود ٹانکا لگا لیا کرتے ، کپڑے کو پیوند لگاتے ، بکری دوھتے ، خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ، اگر خادمہ تھک جاتیں تو اس کے ساتھ مل کر چکی پیستے ، آپ بازار سے اپنا سودا خود اٹھا کر لانے میں کوئی عار محسوس نہیں فرماتے تھے۔ امیر اور غریب سب سے مصافحہ کرتے اور سلام بلانے میں پہل فرمایا کرتے تھے۔ اگر کوئی دعوت دیتے تو اس کو انکار نہیں کرتے تھے بلکہ دعوت کو قبول فر ماتے اور دعوت کے کھانے کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے وہ کھجوریں ہی کیوں نہ ہوتیں۔ آپ نرم خو اور طبیعت میں کریم تھے۔ باہمی میل جول میں اچھے تھے ، خندہ پیشانی تھے اور آپ کے لبوں پر بغیر مسکراہٹ ہی تبسم ہو تا۔ آپ ترش گو نہ تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم متواضع تھے۔ سخی تھے مگر فضول خرچ نہ تھے ، رقیق القلب تھے ، ہر وقت سر نیچا رکھتے ہر مسلمان پر رحمت کی نگاہ رکھتے ، کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے ڈکار نہیں لی اور نہ ہی للچا کر کسی چیز کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

Surah Al-Tawba ayat 115-116.ہمارا دوست اور مددگار کون

Surah Al-Tawba ayat 113-114 Part-03.عبادت کا مفہوم کیا ہے

پیر، 11 ستمبر، 2023

سیرت النبی ﷺ (۱)

 

سیرت النبی ﷺ (۱)

ابو نصر سراج طوسی نے اپنی کتاب اللمع فی التصوف میں حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت کے بارے میں لکھی گئی چند خوبصورت احادیث مبارکہ کی روشنی میں ۔
 آپ رحمة اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی نے مجھے ادب سکھایا اور اچھا ادب سکھایا ۔ ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اللہ تعالی کو تم سے بہتر جانتا ہو ں اور تم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو ں ۔
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے اختیار دیا گیا کہ میں ان دو میں سے ایک بات کو اختیار کرلوں۔ یا تونبی اور بادشاہ بنوں یا نبی اور بندہ ۔ جبرئیل علیہ السلام نے مجھے مشورہ دیا کہ تواضع اختیار کرو لہذا مجھے تو نبی اور بندہ ہونا پسند ہے کہ ایک رو ز کھاﺅ اور ایک روز بھوکا رہو ں ۔آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے تمام دنیا پیش کی گئی مگر میں نے اسے قبول نہ کیا ۔ 
نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالوں گا ۔ اس میں سے صرف قرض ادا کرنے کے لیے کچھ رکھ لو ں گا ۔ ایک روایت میں مروی ہے کہ آپ ﷺ کے پاس دو قمیضیں نہ تھیں اور آپ کے لیے آٹا چھانا نہیں جاتا تھا ۔ آپ نے وصال فرمانے تک نہ اپنی مرضی سے اور نہ مجبور ھو کر کبھی بھی سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھائی ۔ آپ ﷺ اگر اللہ تعالی سے دعا کر تے کہ میرے لیے سونے کے پہاڑ بنا دیے جائیں اور مجھ سے اس کا حساب بھی نہ لیا جائے تو اللہ تعالی ضرور ایسا کر دیتا ۔
ایک بار بریرہ نے آپ ﷺ کے سامنے کھانا رکھا جس میں سے آپ نے تھوڑا سا کھا لیا ۔ دوسری رات وہی کھانا پھر اس نے پیش کیا ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تو اس بات سے نہیں ڈری کہ قیامت کے روز اس کا دھوا ں ہو گا کوئی چیز آیندہ کیلئے اٹھا کر نہ رکھا کرو ۔ اللہ تعالی ہر آنے والے دن کا رزق دیتا ہے ۔یہ بھی آپ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے کھانے سے کبھی عیب نہیں نکالا ۔ خواہش ہوتی تو کھا لیتے اور اگر نہ ہوتی تو نہ کھاتے ۔ آپ کو اگر کسی دو چیزوں میں سے ایک کو پسند کرنے کو کہا جاتا تو آپ اسے اختیار کرتے جو زیادہ آسان ہوتی ۔ آپ ﷺ نہ تو زمیندار تھے اور نہ ہی تاجر ۔ آپ انکساری کے طور پر پشم کا لباس اوڑھتے ۔ پیوند لگا ہوا جوتا پہنتے ، گدھے کی سواری کرتے ، بکری دھوتے ، کپڑوں اور جوتوں کو خود پیوند لگاتے او ر گدھے پر سوار ہونے سے ناک نہ چڑھاتے اور ساتھ کسی اور کو بھی بٹھا لیتے ۔

اتوار، 10 ستمبر، 2023

Shortvideo - Kya humari neeat durust hay?

Surah Al-Tawba ayat 113-114 Part-02.کیا مشرک ہمیشہ کے لئے جہنم جائیں گے

Surah Al-Tawba ayat 113-114 Part-01. کیا ہم عملی طور پر شرک خفی میں مبتل...

صِدق کی فضیلت

 

صِدق کی فضیلت

جب انسان اپنے افعال و اعمال اور اقوال و کردار میں صدق اپنا لیتا ہے تو پھر اخلاص کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔تمام اعمال کی اصل صدق ہے۔ مراتب کی بلندی کا انحصار صدق پر ہے اور قرب خدا وندی کا دارومدار صدق پر ہے۔ کیونکہ صدق اللہ تعالی کی صفت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : ” اور بات میں اللہ تعالی سے بڑھ کر کون سچا ہے۔ ( سورة النساء) 
صِدق اللہ تعالی کی ذات میں پایا جاتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ صدق کی صفت اللہ تعالی کو بہت پیاری ہے۔ جو لوگ اس صفت کو اپنائے ہوئے ہیں وہ اللہ تعالی کے مقرب بندے ہیں۔ قیامت کے دن سچ بولنے والوں کو جو اعزازبخشا جائے گا اور انہیں جو انعامات دیے جائیں گے انہیں دیکھ کر تما م لوگ رشک کریں گے۔ اور جو لوگ صدق کی صفت سے محروم رہے دنیا میں سچ کو نہ اپنایا ہو گا وہ حسرت کریں گے کہ کاش ہم دنیا میں جھوٹ سے اپنی زبان کو آلودہ نہ کرتے ، اپنے دل کو جھوٹ کی نجاست سے ناپاک نہ کرتے اور اپنے فکر و کردار کو جھوٹ کے اندھیرے سے تاریک نہ کرتے بلکہ دنیا میں سچ بولتے تو آج ہم بھی اللہ تعالی کے مقرب بندوں کی صف میں کھڑے ہوتے اور ہمیں بھی ان انعامات اور اعزازات سے نوازا جاتا۔ارشاد باری تعالی ہے :” اللہ نے فرمایا یہ ہے وہ دن جس میں سچوں کو ان کا سچ کام آئے گا ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہے گے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ ہے بڑی کامیابی “۔ ( سورة المائدہ ) 
علامہ ابن حیان اس آیت مبارکہ میں تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کی رضا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے کیونکہ اتنی بڑی نعمت کے سامنے جنت اور جنت کے انعامات کی کیا وقعت ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : اللہ تعالی کی رضا تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ان آیت مبارکہ سے معلوم ہو اکہ صدق اور سچ ایسا محبوب عمل ہے جس سے بندے کو سب سے اعلی نعمت یعنی اللہ تعالی کی رضامندی حاصل ہوتی ہے۔ اور جتنی قوت صدق بڑھتی جائے گی اتنا ہی نور ایمان میں اضافہ ہوتا جائے گا۔اور بندہ اتنا زیادہ اللہ تعالی کے قریب ہوتا جائے گا۔ اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” صبر والے اور سچے اور ادب والے اور راہ خدا میں خرچ کرنے والے اور پچھلے پہر معافی مانگنے والے “۔(سورة آل عمران )۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ بندہ جب جھوٹ بولتا ہے تو فرشتے اس سے آنے والی بو کے سبب اس سے دور بھاگ جاتے ہیں۔ (ترمذی)۔ اللہ تعالی ہم سب کو سچ بولنے اور سچ سننے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Surah Al-Tawba ayat 112 Part-03.کیا ہم جنت میں داخلے کی خوشخبری کے مستحق...

ہفتہ، 9 ستمبر، 2023

رزق حلال(۲)

 

رزق حلال(۲)

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بچپن سے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ رہے اور آپ کے زیر سایہ ہی پروش پائی۔ اس لیے آپ کو کبھی بھی ذریعہ معاش کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوا تو آپ الگ مکان میں رہنے لگے تو پھر آپ کا معمول رہا کہ حلال کی روزی کی تلاش میں رہتے اور گزر بسر کرتے تھے اور دوسرے صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے بھی اپنی زندگی میں جو بھی پیشہ اختیار فرمایا اس میں رزق حلال ہی کمایا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو آدمی حلال مال سے اپنے اہل و عیال کے لیے کوشش کرتا ہے وہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی طرح ہے اور جو آدمی مانگنے سے بچنے کے لیے رزق حلال تلاش کرتا ہے وہ شہدا ءکے درجہ میں ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی چالیس دن حلال رزق کھائے اللہ تعالی اس کے دل کو روشن کر دیتا ہے اور اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری کر دیتا ہے۔ ( احیا ءالعلوم )۔
بہیقی اور شعب الایمان میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : روزی کا حلال ذریعہ تلاش کر نا فرض کے بعد فرض ہے “۔
حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بندہ اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک قباحت والے کاموں کو چھوڑ کر ان پر نہ لگے جن میں کوئی مضائقہ نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کسب معاش چھوڑ کر یہ نہ کہنے لگے کہ اللہ تعالی نے جو کچھ پہنچانا ہے وہ دے گا بلکہ تمہیں رز ق حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے تو پھر وہ اسباب پیدا کرے گا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ موت کسی نہ کسی مقام پر آنی ہے۔ لیکن میرے نزدیک افضل ترین موت یہ ہے کہ بازار میں اپنے بال بچوں کے لیے کسب معاش میں مشغول ہو اور موت آ جائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے دس درہم کا کپڑا خریداور اس میں ایک درہم حرام کا ہے تو اللہ تعالی اس آدمی کی نماز قبول نہیں کرے گا۔ پھر اپنی دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں داخل کر کے فرمایا، دونوں بہرے ہو جائیں اگر میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہ سنا ہو۔ (بہیقی ، شعب الایمان )

جمعہ، 8 ستمبر، 2023

رزق حلال(۱)


 

رزق حلال(۱)

آج کے اس پر فتن دور میں رزق حلال تلاش کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے اور بہت ہی کم لوگوں کو رزق حلال کی پہچان ہے۔ آج کل بس یہ ہی خیال کیا جاتا ہے کہ بس کمایا جائے جس طرح بھی مل جائے۔ حلا ل اور حرام کا خیال کبھی ذہن میں آتا ہی نہیں۔ مگر کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جو رزق حلال کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن بہت کم۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : جو آدمی رزق حلال کی تلاش میں تھک کر شام کر لے وہ رات یوں گزارتا ہے کہ اس کی بخشش ہو جاتی ہے۔اور اس کی صبح یوں ہوتی ہے کہ اللہ تعالی ا س سے راضی ہو جاتا ہے۔ (احیا ءالعلوم )۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : ” اے ایمان والو! کھاﺅ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو. اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو “۔ 
اس آیت مبارکہ سے دو باتیں سامنے آتی ہیں. ایک یہ کہ عبادت کی طرح جب ضرورت محسوس ہو کھانا پینا بھی اہم فرض ہے کیونکہ اس پر تمام فرائض کی ادا موقوف ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ ہمیشہ حلال اور پاک چیزیں کھانی چاہیں۔ تقوی کا مطلب یہ نہیں کہ اچھے کھانے چھوڑ دیں بلکہ تقوی کا معنی یہ ہے کہ حرام چیزیں چھوڑ دیں۔
ارشاد باری تعالی ہے : ” اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دیے اور تمہیں خطبے میں کھڑا چھوڑ گئے۔ تم فرماﺅ وہ جو اللہ کے پاس ہے کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ کا رزق سب سے اچھا ہے “۔(سورة جمعہ)
ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ تجارتی قافلہ مدینہ منورہ پہنچا تو اس وقت دستور کے مطابق طبل بجا کر اس کے آنے کا اعلان کیا گیا۔ تنگی و گرانی کا زمانہ تھا ، مسجد میں موجود لوگوں نے خیال کیا کہ اگر ہم لیٹ ہو گئے تو سب مال فروخت ہو جائے گا۔ اس خیال سے تمام لوگ چلے گئے صرف بارہ لوگ مسجد میں رہ گئے۔ تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ بعض لوگ نمازوں کے اوقات میں بھی رزق کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسا کرنا سخت حرام ہے۔ بہترین رزق دینے والی ذات اللہ تعالی ہی کی ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے رزق حلال کی بہت تا کید فرمائی : حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” کسی نے اس سے بہتر کھانا نہیں کھایا جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا ہو اور بے شک اللہ تعالی کے نبی حضرت داﺅد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی کھایا کرتے تھے “۔