جمعہ، 31 مارچ، 2023

آیت الکرسی کا مفہوم

 

آیت الکرسی کا مفہوم

”اللہ وہ ہے کہ اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ، زندہ ہے، سب کو زندہ رکھنے والا ہے ، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اورنہ نیند، جو آسمانوں میں ہے اورجو کچھ زمین میں (سب کچھ )اسی کا ہے، کون ہے جو اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر (کسی کی )سفارش کرسکے، (اللہ )جانتا ہے جو ان سے پہلے (ہوچکا )ہے اورجو ان کے بعد(ہونے والا)ہے اوروہ اس (اللہ )کے علم میں سے کسی (بھی)شیءکا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے، اس کی کرسی آسمانوں اورزمین کو محیط ہے، اوراسے زمین وآسمان کی حفاظت تھکاتی نہیں ہے ، اوروہی ہے سب سے بلند،عظمت والا“۔(البقرہ ۲۵۵)

آیت الکرسی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں قرآن پاک کی سب سے عظیم آیت فرمایاگیا ہے ۔

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ، جو شخص ہر فرض نماز کے بعدآیت الکرسی کی تلاوت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو دوسری نماز تک اپنی حفاظت میں رکھتا ہے اور آیت الکرسی کی حفاظت صرف نبی ، صدیق یا شہید ہی کرتا ہے۔(شعب الایمان)

یہ آیت مبارکہ اللہ کی ذات اورصفات کے بیان میں ایک جامع آیت ہے ، ارشادفرمایا کہ اللہ کے سواءکوئی ذات عبادت اوربندگی کی مستحق نہیں ہے ، اللہ، باری تعالیٰ کا اسم ذاتی ہے، اوریہ لفظ ان تمام صفات کا جامع ہے جو متعدد صفاتی اسماءحسنیٰ میں الگ الگ پائی جاتی ہیں ، وہ ”حیی“ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ ہمیشہ رہے گا، موت اور فنا کے نقص سے بالکل پاک ہے، وہ قیوم ہے ،جو ازخود قائم ہے ، اوردوسروں کو قائم کرنے والا ہے ، وہ ہستی ہے جو کائنات کی ہر چیز کی تخلیق ، نشوونما اوربقاءکی تدبیر فرمانے والی ہے ، اوراس کی قیومیت کا تعلق کائنات کی ہر ایک چیز سے ایک ہی طرح کا ہے ، وہ اونگھتا نہیں کہ کسی بھی وقت اس کی قیومیت کا تعلق کمزور ہوجائے وہ سوتا بھی نہیں کہ یہ تعلق بالکل ہی منقطع ہوجائے زمین وآسمان میں جو کچھ بھی ہے ، وہ اسی کا ہے اورسب کا خالق ،مربی ،مالک اورمعبود وہی ہے ، پھر کون ہے جو اس کی ہمسری کا دعویٰ کرسکے اورکون ہے جو قیامت کے دن اس کی بارگاہ میں کسی کی سفارش کرسکے ، الاوہ خوش بخت ، جس پر اللہ کی عبادت ، بندگی ،عاجزی ،انکساری اورعلم ومعرفت کی وجہ سے اللہ کا فضل ہوجائے ،اللہ اسے اپنے کرم سے عزت عطاءفرمائے اوروہ اس کے دربار میں سفارش اورلب کشائی کا شرف حاصل کرلے، اللہ رب العزت کا علم کائنات کی ہر چیز پرمحیط ہے، اورکسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کے علم میں سے کچھ بھی حصہ اس کی اجازت کے بغیر حاصل کرسکے، اس کے علم اوراس کی حکومت کی کرسی نے تمام کائنات کو گھیر رکھا ہے اورہر چھوٹی ، بڑی ،ظاہر اورپوشیدہ چیز اس کے سامنے عیاں ہے، اوروہی سب سے بلند اورہر عظمت کا حامل ہے۔


Shortviddeo - توحید کیا ہے؟

جمعرات، 30 مارچ، 2023

رمضان اورمغفرت

 

رمضان اورمغفرت

٭حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے ارشادفرمایا: کہ منبر کے قریب ہوجاﺅ،ہم لوگوں نے تعمیل ارشادکی ۔جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا:آمین!دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا:آمین!اسی طرح تیسری سیڑھی پر تشریف فرماہوئے توپھر ارشاد فرمایا:آمین!ہم نے عرض کی، آج آپ سے منبر پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے ہم نے ایسی بات سنی ہے جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔آپ نے ارشادفرمایا:(جب میں نے پہلے درجے پر قدم رکھا تو )اُس وقت جبرئیل امین میرے سامنے ظاہر ہوئے ، انھوں نے کہا :ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اورپھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی ،میں نے کہا: آمین!پھر جب میں نے دوسرے درجے پر چڑھا تو انھوں نے کہا :ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہواوروہ آپ کی ذات والا تبار پر نذرانہ درود نہ پیش کرے ،میں نے کہا:آمین!اورجب میں تیسرے درجے متمکن ہوا تو انھوں نے کہا:ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے ایک بڑھاپے کی حالت میں ہو اور وہ اس کو(خدمت گزاری کے باعث) جنت میں داخل نہ کرادیں،میں نے کہا آمین!(بخاری)
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جو شخص بغیر کسی عذرشرعی یا مرض کے علاوہ ایک دن بھی رمضان کے روزے کو افطار کردے تووہ چاہے غیر رمضان کے روزے تمام عمر بھی رکھے، اس کا بدل نہیں ہوسکتا ۔(بخاری)٭حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور انور ﷺنے رمضان المبارک کے قریب ارشادفرمایا: رمضان کا مہینہ آرہا ہے جو بڑی برکت والا ہے ۔اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ تمہاری طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنی خاص رحمت نازل فرماتا ہے ، خطاﺅں کو معاف کرتا ہے اوردعا کو قبول کرتا ہے ، تمہارے تنافس کو دیکھتا ہے اوراس پر ملائکہ سے اظہار فخر کرتا ہے ۔سو! اللہ کو اپنی نیکی دکھلاﺅ، بدنصیب ہو وہ شخص جو اس مہینے میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔(طبرانی)
تنافس خیر کے کام میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو کہتے ہیں ۔٭حضرت ابوسعید خدری ؓروایت کرتے ہیں ،کہ حضو ر علیہ الصلوٰة والتسلیم نے ارشادفرمایا: رمضان المبارک کی ہر شب وروز میں اللہ کے یہاں جہنم کے قیدی چھوڑے جاتے ہیں اورہر مسلمان کیلئے ہر دن رات میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے ۔(الترغیب والترہیب، البزار) 

Shortvideo - شرک کی حقیقت

بدھ، 29 مارچ، 2023

برکاتِ رمضان

 

برکاتِ رمضان

٭حضرت عثمان ابن ابوالعاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: روزہ جہنم سے بچنے کے لیے ڈھال ہے جس طرح جنگ میں (حفاظت کے لیے)تمہاری ڈھا ل ہواکرتی ہے۔(نسائی ،ابن ماجہ)

٭ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:روزہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہنے کیلئے ڈھا ل ہے جو آدمی صبح کے وقت روزہ کی حالت میں بیدار ہو وہ کسی جہالت کا مظاہرہ نہ کرے اگر کوئی دوسرا اسکے ساتھ بدتہذیبی کرے تو روزہ دار نہ تو اسے گالی دے اورنہ ہی برا بھلاکہے بلکہ وہ کہے کہ میں تو روزے سے ہوں ، اس ذاتِ (والاتبار) کی قسم !جس کی قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کی جان ہے ۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک سے بھی محبوب تر ہوتی ہے ۔(بیہقی)

٭حضرت عبداللہ بن اوفی روایت کرتے ہیں ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:روزہ دار کا سونا بھی عبادت ہے ،اس کی خاموشی تسبیح ہے ،اس کے عمل کا ثواب دوچند ہے ، اس کی دعا مقبول ہوتی ہے اوراسکے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔ (بیہقی)٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: روزہ نصف صبر ہے ،ہر چیز کی زکوٰة ہوتی ہے اورجسم کی زکوٰة روزہ ہے۔(ابن ماجہ، طبرانی،بیہقی)

٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:روزہ اورقرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کرینگے ، روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے ہی اسے دن کے وقت خوردونوش اور دیگر خواہشات سے مجتنب رکھا تھا لہٰذا اسکے ہاتھ میں میری سفارش قبول فرما۔جبکہ قرآن مجید یوں عرض کرے گا اے میرے رب کریم !رات کو میں نے اسے نیند سے روکے رکھا تھا لہٰذا اسکے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ پس ان دونوںکی سفارش قبول کی جائے گی۔ (احمد، طبرانی ،حاکم ) ٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”بلاشبہ روزہ میرے لیے ہے اورمیں خود ہی اس کا بدلہ عطاکروں گا “روزہ دار کو دو خوشیاں میسر آتی ہیں ایک خوشی افطاری کے وقت اوردوسری خوشی اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ ملاقات کے وقت۔ اس ذاتِ پاک کی قسم! جس کی قبضہ قدرت میں محمد (ﷺ)کی جان ہے (بھوک کی وجہ سے پیدا ہونے والی )روزہ دار کی منہ بُو اللہ تعالیٰ کی نظر کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی عمدہ ہے۔(مسلم،نسائی ،احمد)


Shortvideo - کیا ہم دنیا کے خیال میں زندگی گزار رہے ہیں؟

منگل، 28 مارچ، 2023

فضائلِ رمضان


 

فضائلِ رمضان

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ،ایک اور روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اوردوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں۔شیاطین کو زنجیروں میں جکڑدیا جاتا ہے ۔ایک اورروایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کشادہ کردئیے جاتے ہیں۔ (بخاری،مسلم)٭حضر ت سہل بن ابن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جنت میں آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ ہے جسے ”ریان “ کہتے ہیں اس دروازے میں صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔ (بخاری ،مسلم)

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جو ایمان اوراخلاص سے رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں جو رمضان المبارک میں ایمان اور اخلاص سے راتوں میں عبادت کرتا ہے تو اس کے (بھی )سابقہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اور جو شب قدر میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرتا ہے تو اسکے (بھی) گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔(بخاری، مسلم)

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: انسان کی تمام نیکیاں دس گنا سے لےکر سات سو گنا تک بڑھا دی جائیں گی لیکن رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں سوائے روزہ کے، کیونکہ روزہ تو میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کی جزاعطاکروں گا۔میرا بندہ میرے لیے اپنی شہوانی خواہشات اوراپنا طعام چھوڑ دیتا ہے۔ (بخاری، مسلم)٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اورسرکش جن قید کردئیے جاتے ہیں اوردوزخ کے دروازے اس طرح بند کردئیے جاتے ہیں کہ ان میں سے کوئی دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا اورجنت کے دروازے اس طرح کھول دئیے جاتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اورپکارنے والا پکارتا ہے کہ اے بھلائی چاہنے والے آجا اور اے برائی چاہنے والے باز آجا۔اوراللہ کی طرف سے لوگ آگ سے آزاد کیے جاتے ہیں اوریہ عمل ہر رات دہرایا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)٭حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب رمضان المبارک کا آغاز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اسیر کو آزاد کرتے اورہر سوالی کو عطافرماتے ۔(مشکوٰة)


Shortvideo - کیا ہمیں صرف دنیا محبوب ہے؟

پیر، 27 مارچ، 2023

روزہ کی فرضیت

 

روزہ کی فرضیت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔”اے ایمان والو!فرض کیے گئے تم پر روزے جس طرح فرض کیے گئے تھے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے ،کہ تم پرہیز گاربن جاﺅ۔“(البقرة ۔۱۸۳)

”روزہ(صوم)کا لغوی معنی ہے کسی چیز سے رُکنا اوراس کو ترک کرنا ،روزہ کا شرعی معنی ہے مکلف اوربالغ شخص کا ثواب کی نیت سے طلوع فجر سے لے کرغروبِ آفتاب تک کھانے پینے اورخواہشِ نفسانی کو ترک کرنا اوراپنے نفس کو تقویٰ کے حصول کے لیے تیار کرنا ۔تمام ادیان اورملل میں روزہ معروف ہے ، قدیم مصری ، یونانی ، رومن اورہندو سب روزہ رکھتے تھے ، موجودہ تورات میں بھی روزہ داروں کی تعریف کا ذکر ہے اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کا چالیس دن روزہ رکھنا ثابت ہے۔یروشلم کی تباہی کو یاد رکھنے کے لیے یہود اس زمانے میں بھی ایک ہفتے کا روزہ رکھتے ہیں ، اسی طرح موجودہ انجیلوں میں بھی روزہ کو عبادت قرار دیا گیا ہے اورروزہ داروں کی تعریف کی گئی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا اسی طرح تم روزہ فرض کیاگیا ہے تاکہ مسلمانوں کو روزہ رکھنے میں رغبت ہو کیونکہ جب کسی مشکل کام کو عام لوگوں پر لاگو کردیا جاتا ہے تو پھر وہ سہل ہوجاتا ہے ۔علامہ علاﺅ الدین حصکفی نے لکھا ہے کہ ہجرت کے ڈیڑھ سال اورتحویل قبلہ کے بعد دس شعبان کو روزہ فرض کیا گیا ۔“(تبیان القران) ”روزے کا مقصد اعلیٰ اورسخت ریاضت کا پھل یہ ہے کہ تم متقی اورپاکباز بن جاﺅ ، روزے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ ان تین باتوں سے پرہیز کرو بلکہ مقصد یہ ہے کہ تمام اخلاق رذیلہ اوراعمال بد سے انسان مکمل طور پر دست کش ہوجائے ، تم پیاس سے تڑپ رہے ہو تم بھوک سے بیتاب ہورہے ہو۔تمہیں کوئی دیکھ بھی نہیں رہا ،ٹھنڈے پانی کی صراحی اورلذیذ کھانا پاس رکھا ہے لیکن تم ہاتھ بڑھانا توکجا آنکھ اٹھا کر ادھر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔اس کی وجہ صرف یہی ہے ناکہ تمہارے رب کا یہی حکم ہے !اب جب حلال چیزیں اپنے رب کے حکم سے تم نے ترک کردیں تو وہ چیز یں جن کو تمہارے رب نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کردیا ہے (چوری ،رشوت ، بددیانتی وغیرہ )اگر یہ مراقبہ پختہ ہوجائے تو کیا تم ان کا ارتکاب کرسکتے ہو ہرگز نہیں ، مہینہ بھر کی اس مشق کا مقصد یہی ہے کہ تم سال کے گیارہ مہینے بھی اللہ سے ڈرتے ہوئے یوں ہی گزار دو۔جو لوگ روزہ تو رکھ لیتے ہیں لیکن جھوٹ ، غیبت ،نظر بازی وغیرہ سے باز نہیں آتے ،ان کے متعلق حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح الفاظ میں فرمادیا: جس نے جھوٹ بولنا اوراس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا اگر اس نے کھانا پینا ترک کردیا تو اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قدر نہیں ۔“(ضیاءالقران)


Shortvideo - زندگی کس خٰیال میں گزاریں؟

اتوار، 26 مارچ، 2023

استقبالِ رمضان

 

استقبالِ رمضان 

آنے والا مہینہ رمضان رحمت ،برکت اور وسعت کا مہینہ ہے۔لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیزمیں ماہِ رمضان قریب آتے ہی چور بازاری ،ذخیرہ اندوزی اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں گرانی کا ایک بازار گرم ہوجاتا ہے۔کاش ہم یہ جان لیں کہ رازق اللہ ہے اور برکت حلال میں ہے نہ کہ ہمارے ان حیلوں اور بہانوں میں۔حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ۔حضور اکرم ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں سے خطاب فرمایا:ارشاد ہوا۔’’تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہے۔جو بہت عظیم اور بہت ہی مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ہے ، جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزوں کو فرض کیا ہے اور اس رات کے قیامِ لیل (تراویح) کو کارِ ثواب قرار دیا ہے جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی (نفل)سے اللہ کا قرب کر ے گا وہ ایسا ہے کہ اس نے غیر رمضان میں فرض ادا کیا۔اور جو شخص اس مہینہ میں فرض اداکرے گا۔ اس نے گو یا غیر رمضان میں ستّر فرض ادا کیے ۔یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کی جزاء جنت ہے۔ یہ مہینہ خلقِ خداکے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔ جوشخص کسی روزہ دارکا روزہ افطار کراگئے۔ اس کیلئے گناہوں کے کفّارے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا۔اور اسے روزہ دار کے ثواب کی ہی طرح ثواب ملے گا۔ مگر اس روزہ دار کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی ۔صحابہ نے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم۔ہم میں سے ہر شخص تو روزہ دار کو روزہ افطار کروانے کے وسائل نہیں رکھتا ۔آپ نے فرمایا : یہ پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں ،اگر کوئی ایک کجھور یا ایک گھونٹ پانی سے بھی افطارکروا دے تو اللہ یہ ثواب اسے بھی مرحمت فرمائے گا۔یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اوّل حصہ اللہ کی رحمت ، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے رہائی (کی بشارت ) ہے۔ جوشخص اس مہینے میں اپنے خادم وملازم کے بوجھ کو ہلکا کر دے ، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کردیتا ہے اور اسے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ اس مہینے میں چار چیزوںکی  کثرت کر و۔ ان میں دوچیزیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاء کے لیے ہیں۔اور دو چیزیں ایسی ہیں جن کے بغیر چارئہ کار نہیں۔ پہلی دوچیزیں جن سے تم اپنے پاک پروردگار کو راضی کرسکتے ہو۔(۱)کلمہ طیبہ کا ذکر۔(۲) استغفار کی کثرت ۔دوسری دو چیزیں جنت کی طلب کرو اور آگ سے اللہ کی پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے گا۔ اللہ رب العزت اسے قیامت کے دن میر ے حوض(کوثر) سے ایسا (خنک وشیریں )پانی پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس نہیں لگے گی‘‘۔(صحیح ابن خزیمہ،بیہقی)

Shortvideo - اللہ کی یاد کو کیسے اپنے اوپر حاوی کریں؟

ہفتہ، 25 مارچ، 2023

فضائل قرآن (۱)

 

فضائل قرآن (۱)

امیر المومنین حضرت عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ اس قرآن شریف کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے مرتبہ کو بلند فرماتاہے اوربہت سوں کے مرتبہ کو گھٹاتا ہے یعنی جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دنیا وآخرت میں عزت عطافرمادیتا ہے اورجو لوگ اس پر عمل نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل کردیتاہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : جس شخص کو قرآن شریف کی مشغولی کی وجہ سے ذکر کرنے اوردعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی، میں اس کو دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطاکرتا ہوں اوراللہ تعالیٰ کے کلام کو سارے کلاموں پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسے خود اللہ تعالیٰ کو تمام مخلوق پر فضیلت ہے۔(ترمذی)

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تم لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب اس چیز سے بڑھ کر کسی اورچیز سے حاصل نہیں کرسکتے جس کی نسبت خود اللہ تعالیٰ سے ہے یعنی قرآن کریم ۔ (مستدرک حاکم)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : قرآن کریم ایسی شفاعت کرنے والا ہے ، جس کی شفاعت قبول کی گئی اورایسا جھگڑا کرنے والا ہے کہ اس کا جھگڑا تسلیم کرلیا گیا، جو شخص اس کو اپنے آگے رکھے یعنی اس پر عمل کرے اس کو یہ جنت میں پہنچا دیتا ہے،اورجو اس کو پیٹھ کے پیچھے ڈال دے یعنی اس پر عمل نہ کرے اس کو یہ جہنم میں گرادیتا ہے۔(صحیح ابن حبان)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا: روزہ اورقرآن کریم دونوں قیامت کے دن بندے کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں نے اس کوکھانے اورنفسانی خواہش پوری کرنے سے روکے رکھا میری شفاعت اس کے بارے میں قبول فرما۔ قرآن کریم کہے گا: میں نے اسے رات کو سونے سے روکا(کہ یہ رات کو نوافل میں میری تلاوت کرتا تھا)میری شفاعت اس کے بارے میں قبول فرما چنانچہ دونوں اس کے لئے سفارش کریں گے۔(مسند احمد، طبرانی ، مجمع الزوائد)

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشادفرمایا : قرآن کریم کی تلاوت اوراللہ تعالیٰ کے ذکر کا اہتمام کیا کرو، اس عمل سے آسمانوں میں تمہارا ذکر ہوگا اوریہ عمل زمین میں تمہارے لئے ہدایت کا نور ہوگا۔(بیہقی)

Shortvideo - ذِکر الٰہی کی حقیقت

جمعہ، 24 مارچ، 2023

حضرت خباب بن الارت ؓ(۵)

 

حضرت خباب بن الارت ؓ(۵)

حضرت خباب رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی تفہیم اورآپ کے معمولات مبارکہ کے مشاہدہ میں بڑی دلچسپی رکھتے ۔ خصوصاً آپ کے طرز عبادت کو جاننے کے جویاں رہا کرتے ۔ ایک مبارک رات کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات مشاہدہ کیا کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نماز کے لیے کھڑے ہوئے اورتمام رات اس میں مشغول رہے، حتیٰ کہ نماز فجر کا وقت ہوگیا، تو آپ نے سلام پھیرا۔ میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی، یا رسول اللہ ،آج رات آپ نے اس کیفیت میں نماز ادافرمائی کہ میں نے اس سے قبل آپ کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ،آپ نے ارشادفرمایا :ہاں! یہ ترغیب وترہیب والی نماز تھی، میں نے اس نماز میں اپنے رب تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا۔ جس میں سے دوتو مجھے عطاکردی گئیں لیکن تیسری کے سوال سے منع فرمادیا گیا۔ میں نے اپنے رب کریم سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اس طرح ہلاک نہ کرے جیسے ہم سے پہلی امتوں کو ہلاک کیا گیا۔ اس نے میری یہ درخواست قبول فرمالی۔ پھر میں نے یہ درخواست پیش کی کہ وہ ہم پر کسی بیرونی دشمن کو مسلط نہ کرے، یہ عرض داشت بھی قبول ہوئی ۔ میں نے یہ سوال بھی کیا کہ وہ ہمیں مختلف فرقوں میں تقسیم نہ فرمائے لیکن مجھے اس سوال سے روک دیاگیا۔ (ترمذی ، نسائی، ابن حبان ، البانی کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے۔)
ابو معمر کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا کہ ، حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں قرات فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا، ہاں ! ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا (کیونکہ ظہر میں جہری تلاوت نہیں ہوتی ) فرمایا ۔ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی ریش مبارک کے تحرک سے انداز اہوتا تھا۔(بخاری ، ابن خزیمہ ، ابن حبان)حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ہم لوگوں بارگاہ نبوت میں نماز ظہر کے وقت شدید گرمی ہونے کے بارے میں گزارش لیکن آپ نے ہماری شکایت کا کوئی ازالہ نہیں فرمایا(کیونکہ نماز کے اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں اوران کے مخصوص اسرارومعارف ہیں)۔(صحیح مسلم، ابن حبان)
سماک بن حرب حضرت عبداللہ بن خباب سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد گرامی بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ اقدس کے باہر بیٹھے ہوئے تھے اورانتظار کررہے تھے کہ آپ نماز ظہر کے لیے باہر تشریف لائیں، آپ تشریف لائے تو فرمایا میری بات سنو ،صحابہ نے کہا : لبیک ! آپ نے پھر فرمایا :میری بات سنو ، صحابہ نے کہا :لبیک! ارشادہوا: عنقریب تم پرکچھ حکمران مسلط ہوں گے ، تم ظلم پر ان کی مدد نہ کرنا اوروہ شخص جوان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا وہ حوض کوثر پر میرے پاس ہر گز نہیں آسکے گا۔(مستدرک حاکم ، ابن حبان )

Shortvideo - یاد الٰہی ذِکر اللہ

جمعرات، 23 مارچ، 2023

حضرت خباب بن الارت ؓ(۴)

 

حضرت خباب بن الارت ؓ(۴)

ہجرت مدینہ کے بعد بھی حضرت خباب رضی اللہ عنہ ان تمام سعادتوں سے بہرور ہوئے جو کسی بھی صحابی کے لیے نشانِ امتیاز ہوسکتی ہیں۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے تمام غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفاءراشد ین کے ایماءپر اہم مہمات میں شرکت کی، مکہ مکرمہ کی طرح کریم آقاءیہاں بھی اپنے غلام کی دلنوازی فرماتے ان کی صاحبزادی کا بیان ہے کہ ہمارے والد گرامی حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے حکم پر ایک لشکر کے ساتھ گئے ہوئے تھے،ان کی غیر موجودگی میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا بڑا خیال رکھتے ،یہاں تک کہ ہماری بکری کا دودھ بھی دوھ دیا کرتے، آپ اپنے دست مبارک سے ایک بڑے پیالے میں بکری کا دودھ دوہتے ، اوروہ پیالہ دودھ سے لبریز ہوجاتا ، حضرت خباب رضی اللہ عنہ واپس آئے تو انھوں نے خود دودھ دوھا ، اب کی بار اس میں سے سابقہ معمول کے مطابق ہی دودھ نکلا، ہم نے ان سے کہا کہ ابا جان جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دستِ مبارک سے دودھ دوہتے تھے تو یہ پیالہ لبالب بھر جاتا تھا، آپ نے دوہ کراس کا دودھ کم کردیا ہے۔ (مسند احمد)
قبول اسلام کے بعد آپ نے قرآن پاک کی تعلیم میں بڑی دلچسپی کا اظہار کیا ، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اسلام میں نئے داخل ہونے والے افراد کی تعلیم کے لیے بھی مقرر فرماتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے واقعہ میں ان کا ذکر بہت نمایاں ہے۔ حضرت خباب ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی حضرت سعید بن زیدرضی اللہ عنہ اوران کے اہلیہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کو قرآن پڑھا نے ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ جب حضرت عمرکو اپنے بہنوئی اوربہن کے قبول اسلام کی اطلاع ہوئی تو وہ برافروختہ ہوکر ان کے گھر پہنچے ۔ عین اس وقت حضرت خباب بھی ان کے گھر میں موجود تھے ۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ کے کہنے پر وہ اندر کمرے میں چلے گئے ۔ حضرت عمر بہن اوربہنوئی سے تکرار کرنے لگے۔ وہ ان کے تشدد کے نتیجے میں زخمی ہوگئے تو قدرے نرم پڑے اوران سے قرآن پاک سنانے کی فرمائش کی، بہن نے سورہ طہٰ کی چند آیات ہی کی تلاوت کی تھی کہ حضرت عمر کے دل کی دنیا ہی بدل گئی ، انہوں نے کہا : مجھے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمتِ اقدس میں لے چلو یہ سن کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ بے ساختہ کمرے سے باہر نکل آئے اورجوشِ مسرت سے ارشاد فرمایا :اے عمر !میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ کل شب پنجشنبہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاءمانگی تھی کہ الٰہی عمر اورابوجہل میں جو تجھے پسند ہو اس سے اسلام کو قوت عطافرما۔ معلوم ہوتا ہے آپ کی یہ دعاءتمہارے حق میں قبول ہوگئی ہے۔(ابن سعد)

Shortvideo - تقویٰ کیا ہے؟

بدھ، 22 مارچ، 2023

حضرت خباب بن الارت ؓ(۳)


 

حضرت خباب بن الارت ؓ(۳)

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے حق میں حضور اکرم ﷺ کی دعاءاثر پذیر ہوئی، حضرت خباب کا صبر یوں رنگ لایا کہ ان کی مالکہ اُم انمار دردِ سر میں اس طرح مبتلاہوئی کہ کرب سے بے اختیار چیختی رہتی ۔ اسے تجویز کیا گیاکہ جب تک تمہارا سر لوہے سے نہیں داغا جائے گا تمہارے مرض میں افاقہ نہیں ہوگا۔اُم انمار کو اس علاج پر آمادہ ہونا پڑا،اس نے یہ کا م حضرت خباب کہ سپرد کیا کہ وہ گرم لوہے سے اس کا سر داغا کریں، اسے دنیا ہی میں مکا فات عمل کایوں سامنا کرنا پڑا کہ جس لوہے سے وہ آپ کو اذیت کیلئے داغا کرتی تھیں وہی گرم لوہا اس پر استعمال ہونے لگا۔لیکن یہ علاج کوئی خاص کار گرنہ ہوا اور وہ کچھ عرصہ ہی میں لقمہ اجل بن گئی اوراس بد بخت کے ظلم و ستم سے حضرت خبا ب کو نجات مل گئی۔ ہجرت مدینہ کاحکم نازل ہوا تو خبا ب ر ضی اللہ عنہ بھی حضور اکرم ﷺکی اجازت سے عازم مدینہ ہوئے۔ اگرچہ انہیں قبول اسلام کے بعد بڑے جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑا لیکن انکی یہ ہجرت کسی خوف یا اندیشے پر مبنی نہیں تھی بلکہ محض اور محض اللہ رب العزت کی رضاءحاصل کرنے کیلئے تھی۔خلفاءراشدین کے زمانے میں جب فتوحات اور کشادگی کا دروازہ کھلا توآپ بسا اوقات بہت مضطرب ہو جاےا کرتے تھے۔ زارو قطار روتے اور ارشاد فرماتے ”ہم نے محض اللہ کریم کی رضا ءکی خاطرجناب رسالت مآب ﷺ کے ساتھ ہجرت کی اور ہمارا اجر اللہ تعا لیٰ کے ذمہ رہا، ہمارے بعض دوست تو ایسے ہیں کہ جلد ہی واصل بحق ہو گئے اور انھوں نے دنیا میں اپنے اجر کا کوئی ثمر حاصل نہ کیا ۔لیکن بعض ایسے ہیں جن کا پھل پک گیا ہے اور وہ اسے توڑ کر کھا رہے ہیں، (ہمارے بھائی)حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے احد میں جام شہادت نوش کیا تو ان کے کفن کیلئے ہمارے پاس ایک چھوٹی سی چادر کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، اس چادر سے ان کا سرڈھانکتے تو ان کے پاﺅں کھل جاتے اورپاﺅں پر کپڑا رکھتے تو سرِ اقدس برہنہ ہوجاتا، آخر میں حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے حکم کے مطابق، ان کا سرڈھانپ دیا اورپاﺅں پر اذخر گھاس ڈال دی، جبکہ آج یہ عالم ہے اللہ کا فضل ہم پر بارش کی طرح برس رہا ہے ، مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہیں ہمارے مصائب کا بدلہ ہمیں دنیا ہی میں تو مرحمت نہیں فرمادیا ۔(بخاری ، مسلم، مسند احمد بن حنبل ، ابن حبان)
ایک اورموقع پرارشاد فرمایا ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں مجھے ایک درہم بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ آج میرے اسی گھر کے ایک کونے میں اس وقت چالیس ہزار درہم موجود ہیں ۔ اپنے کفن کا مکمل کپڑا دیکھا تو بے ساختہ رودیے اور فرمایا: حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو تو ایسا کفن میسر نہیں آیا، ان کے سرپر کپڑا ڈالتے تو پاﺅں کھل جاتے ، پاﺅ ں پر ڈالتے تو سر کھل جاتا ۔آخر ان کے پائے اقدس پر اذخر ڈال دی گئی۔(ترمذی، ابن ماجہ، احمد)

Shortvideo - تقوی کی ضرورت

منگل، 21 مارچ، 2023

حضرت خباب بن الارت ؓ(۲)

 

حضرت خباب بن الارت ؓ(۲)

دین حق قبول کرنے کی پاداش میں حضرت خباب کو نہ صرف جسمانی تشدد کے جاں گسل مرحلوں سے گزرنا پڑا،بلکہ کفار کوشش کرتے رہے کہ انھیں مال و زر کے حوالے سے بھی نقصان پہنچائیں۔عاص بن وائل نے ان سے تلواریں تیار کروائی تھیں،لیکن معاوضہ ابھی اس کے ذمے باقی تھا،آپ نے تقاضہ کیا تو اس نے کہا کہ تم جب تک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھ نہیں چھوڑو گے رقم اس وقت تک نہیں مل سکتی،آپ نے جواب دیا کہ تم مر کر دوبار زندہ بھی ہو جائو تو میں تو یہ کام نہیں کر سکتا،اس پر اس نے مسلمانو ں کے عقیدئہ قیامت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا،اچھا میں مر کر دوبارہ زندہ ہو جائوں گا اور مجھ کو مال، دولت اور اُولاد ملے گی تو میں تمہارا قرض ادا کر دوں گا۔خباب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں اس کی اس کٹ حجتی کا تذکرہ کیا تو قرآن مجیدکی یہ آیات نازل ہوئیں’’کیاآپ نے اس شخص کے حال پر نظر کی جس نے ہماری آیا ت سے کفر کیااور کہا (قیامت میں)مجھ کو (بھی)مال اور اولاد ملے گی،کیا اس کو غیب کی خبر ہو گئی،یا اس نے خدائے رحمن سے عہد لیا ہے،ہر گز نہیں یہ جو کچھ کہتا ہے ہم اس کو لکھ لیتے ہیں،اور (دنیا)میں اس کے عذاب میں ڈھیل دیتے جائیں گے،اور جو کچھ وہ کہتا ہے،اس کے ہم وارث ہوں گے اور یہ تنہا ہمارے سامنے (مواخذے) کے لیے پیش ہو گا۔(مریم ۷۷۔۸۰)
اس ابتلاء وآلام میں حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ثابت قدم رہنے کی تلقین فرماتے اور بشارت سے خورسند فرماتے،حضرت خباب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک مرتبہ ہم لوگ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے،حضور ھادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صحن کعبہ میں اپنی چادر سے ٹیک لگائے ہوئے تشریف فرما تھے،ہم نے آپ سے گزارش کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ،اللہ تبارک تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجیے اور مدد طلب فرمائیے،یہ سن کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرے اقدس کا رنگ سرخ ہو گیااور آپ نے ارشاد فرمایا،تم سے پہلے لوگوں کیلئے دین قبول کرنے کی پاداش میں گڑھے کھودے جاتے تھے ،اور ان کے سروں کو آروں سے چیر دیا جاتا تھا،اسی طرح لوہے کی کنگھیاں لے کر جسم کی ہڈیوں کے عقب میں گوشت اور پٹھوں میں گاڑھ دی جاتی تھی لیکن یہ (بلا کی)اذیت بھی ان کو دین سے برگشتہ نہیں کرسکتی تھی۔(یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کر کے رہے گا،یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء اورحضر موت کے درمیان (یکہ اور تنہا)سفر کرئے گا۔(اور اس وقت امن و امان کی کیفیت ہو گئی)کہ اس سفر میں اس
ے صرف خدا کا خوف ہو گایا فقط اس خطرے کا اندیشہ کہ کہیں بھیڑیا اس کی بکری کو اٹھا کر نہ لے جائے ۔(بخاری ، مسلم، ابن حبان ، احمد)نبی کریم ﷺکی اس بشارت نے خباب کے حوصلوں کو اورتوانائی بخش دی۔

Shortvideo - خود احتسابی کے مراحل

پیر، 20 مارچ، 2023

حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ

 

حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ

حضرت خباب بن الارت کا شمار حضورنبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت ہی مقرب صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔اسلام قبول کرنے والے خوش بخت افراد میں ان کا چھٹا نمبر ہے ،اس لیے ”سادس الاسلام“کہلاتے ہیں،اس طرح السابقون الا ولون کی بشارت سے خورسند ہوئے۔قبیلہ بنو تمیم سے تعلق تھا،شجرہ نسب اس طرح ہے۔ خباب بن ارت بن جندلہ بن سعد بن خزیمہ بن کعب بن سعد بن مناة بن تمیم۔اپنے صاحبزادہ عبداللہ کی مناسبت سے ام عبداللہ کنیت اختیار فرمائی۔، وجیہہ ، شکیل اورمضبوط تن وتوش کے مالک تھے ۔مرورزمانہ نے غلام بنا دیا،مکہ کی ایک قریشی خاتون اُم انمار نے انہیں خرید لیا،اُم انمار نے انھیں آہن گری کا فن سکھایااور اس کے رموزو اسرار سے واقف ہونے کے بعد انھیں دکان پر بٹھا دیاتا کہ کسب کریں اور کما کر اسے رقم ادا کریں ۔اپنی سلیم الفطرتی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور بعثت مبارکہ کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔اس زمانے میں اہل مکہ کے نزدیک یہ ایک شدید ترین جرم تھا،جسے وہ کسی صورت قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے،اسلام اور وہ بھی ایک غلام کا قبول اسلام ،اور اس پر مستزادیہ کہ وہ غلا م اس پر کسی عذر خواہی کا اظہار بھی نہیں کر رہابلکہ ببانگ دہل اس کا اعلان و اعتراف کر رہا تھا۔کفار مکہ اس جرات اظہار پر برا فروختہ ہو گئے اور انھوں نے آپ کو ہر قسم کی ایذاءرسانیوں کا ہدف بنا لیا۔مکہ کے اس ماحول میں ان کا نہ تو اپنا خاندان تھااور نہ کوئی ایسا حامی ومد د گار جو انھیں اپنی امان میں لیتا،لہٰذا قریش نے اپنی ساری بھڑاس خباب اور ان جیسے دوسرے بے سہاراافراد پر نکالنی شروع کی، ان کی مالکہ نے بھی ان درندہ صف لوگوں کو ان پر ظلم وستم ڈھانے کی مکمل چھوٹ دے رکھی تھی،وہ زمین پر دہکتے ہوئے انگارے ڈال دیتے اور خبا ب کو ان پر لٹا دیتے،ایک بھا ری پتھر ان کے سینے پر رکھ کر اسے مسلا جاتا،یہ اذیت اس وقت تک جاری رہتی جب تک کہ وہ انگارے انکے زخموں کی رطوبت سے سرد نہ ہو جاتے،بسااوقات لوہے کا گرم خود ان کے سر پر کَس دیا جاتااور اس پر ضربیں لگائی جاتیں،لیکن اس اذیت کے با وجود ان کے پائے استقلال میں کسی قسم کی لغزش نہ آسکی،ایسے ہی حضور رحمت للعالمین علیہ الصلوٰة والسلام ان کی تالیف قلب فرماتے انھیں حوصلہ دیتے اور بشارت سے بہرور کرتے،ان کی مالکہ سے یہ برداشت نہ ہوا تواس نے ایک لوہے کی سلاخ کو گرم کیااور آپ کے سر اقدس کو اس سے داغ دیا،ایسے میں آپ کی درخواست اللہ کریم کے حضور میں تھی یا التماس دعاءنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگا ہ ایزدی میں دعاءکی !یااللہ! خباب کی مدد فرما۔(اسد الغابہ)

Shortvideo - خود احتسابی مگر کیسے؟

اتوار، 19 مارچ، 2023

رسالت اورتشریح شریعت(۳)

 

رسالت اورتشریح شریعت(۳)

حضرت براءن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ،عیدالاضحی کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اورارشادفرمایا: جو ہماری طرح نماز پڑھے اورہماری طرح قربانی دے اس کا یہ عمل ٹھیک ہے۔ اورجو نماز سے پہلے قربانی کردے اس کی قربانی نماز سے پہلے جانور ذبح کرناہے ، اس کی قربانی نہیں ہوئی۔ حضرت ابوبردہ بن دینار ، حضرت براءکے ماموں ، نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! میں نے نماز سے پہلے بکری ذبح کردی ہے۔ مجھے معلوم تھاکہ یہ دن کھانے پینے کا دن ہے اورمیں نے چاہا کہ میری بکری میرے گھر میں ذبح کی جانے والی پہلی بکری ہو، اس لیے میں نے بکری کو ذبح کردیا اورنماز کے لیے آنے سے پہلے صبح کاکھانا کھالیا۔ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا: تو تمہاری یہ بکری وہ ہے جس کا تم نے گوشت کھالیا ہے اوربس۔(یعنی یہ قربانی نہیں )انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہمارے پاس بکر ی کا ایک بچہ ہے جس کی عمر سال سے کم ہے لیکن میرے نزدیک وہ دوبکریوں سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے ۔ کیا میری طرف سے اس کی قربانی کافی ہوگی؟ فرمایا: ہاں ، تمہاری طرف سے کافی ہے لیکن تمہارے بعد ایسی بکری کی قربانی کسی کے لیے جائز نہیں ہوگی۔(صحیح بخاری)
حضرت سالم بیان فرماتے ہیں ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے خاندان کے کمزور لوگوں کوپہلے بھیج دیتے تھے اوروہ مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس رات کو وقوف کرتے تھے اورجتنا چاہتے خدا کا ذکر کرتے تھے۔ پھر امام کے وقوف کرنے اوران کے روانہ ہونے سے پہلے لوٹ آتے تھے ۔ ان میں سے کچھ نماز فجر کے لیے منیٰ پہنچ جاتے تھے اورکچھ اس کے بعد آتے ۔ وہ جب منیٰ آتے تو جمرے کوکنکریاں مارتے تھے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: ان (ضعیفوں )کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے کی رخصت عطافرمائی ہے۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ایک آدمی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوااورعرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھ سے روزہ توڑنے کا قصور سرزد ہوگیاہے۔آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس اتنا مال ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے عرض کیا: نہیں ۔ آپ نے پوچھا : کیا دوماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا : نہیں ۔ آپ نے پوچھا : کیا ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلاسکتے ہو؟ اس نے عرض کیا : نہیں ۔ پھرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ٹوکرایعنی زنبیل پیش کی گئی جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ نے اس سے فرمایا: اپنی طرف سے (روزہ توڑنے کے کفارہ کے طورپر)یہ کھجوریں لوگوں کو کھلادو۔اس نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)!کیا ان لوگوں کو یہ کھجوریں کھلاﺅں جو ہم سے زیادہ حاجت مندہیں جب کہ اس شہر کی دونوں اطراف کے درمیان کوئی کنبہ ہم سے زیادہ حاجت مندنہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: پھر تم یہ کھجوریں اپنے ہی اہل خانہ کو کھلادو(تمہاراکفارا اداہوجائے گا)۔(صحیح بخاری)

Shortvideo - انسان کی کامیابی کاراز

ہفتہ، 18 مارچ، 2023

رسالت اورتشریح شریعت(۲)


 

رسالت اورتشریح شریعت(۲)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع میں ، منیٰ کے مقام پر لوگوں کی خاطر کھڑے ہوئے کہ وہ آپ سے مسائل پوچھ سکیں ۔ ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوااورعرض کیا: میں نے بے دھیانی میں قربانی سے پہلے حلق کرالیا ہے، (اب کیا حکم ہے؟)فرمایا: اب قربانی کرلواس میں کوئی حرج نہیں۔ دوسراحاضر خدمت ہوااور عرض کیا: میں نے دھیان نہیں دیا اورکنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی ہے؟آپ نے ارشادفرمایا: اب کنکریاں مارلو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کسی عمل کو مقدم یا موخر کیے جانے کے متعلق پوچھاگیا، آپ نے فرمایا: اب کرلو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(صحیح بخاری)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں: حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ، حاجیوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی کی وجہ سے ، منیٰ کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت طلب کی تو حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی۔(صحیح بخاری)

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کی خدمت عالیہ میں کوئی حاجت مند حاجت براری کے لیے حاضر ہوتا توآپ اپنے ہم نشینوں کی طرف متوجہ ہوتے اورفرماتے: لوگوں کی سفارش کرو، اس پر تمہیں اجر ملے گا۔ اوراللہ تعالیٰ جو پسند فرماتا ہے اس کا فیصلہ اپنے نبی کی زبان سے کرادیتا ہے۔(صحیح مسلم)

حضرت مقدام بن معدیکرب الکندی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:قریب ہے کہ کوئی شخص اپنی مسند پر بیٹھا ہوامیری احادیث طیبہ میں سے کوئی حدیث بیان کرے اور(ساتھ ہی) یہ کہے : ہمارے اورتمہارے درمیان خدا کی کتاب (قرآن کریم )موجودہے۔ ہم اس میں جس چیز کو حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اوراس میں جس چیز کو حرام پائیں گے اس کو حرام سمجھیں گے ۔ خبردار! جس کام کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دے دیاہے وہ اسی طرح حرام ہے جس طرح وہ چیز حرام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیز وں کو حرام قرار دیا حتیٰ کہ انہوں نے گھریلو گدھوں کا بھی ذکر کیا۔(سنن ابن ماجہ)

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا: بے شک اللہ تعالیٰ اوراس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ ناپاک ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)


Shortvideo - کلمہ طیبہ کا مطلب

جمعہ، 17 مارچ، 2023

رسالت اورتشریح شریعت(۱)

 

رسالت اورتشریح شریعت(۱)

اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:”میرا عذاب ،پہنچاتا ہوں میں اسے جسے چاہتا ہوں اور میری رحمت کشادہ ہے ہر چیز پر۔سو میں لکھوں گا اسے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ادا کرتے ہیں زکوة اور وہ جو ہماری نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں ۔(یہ وہ ہیں )جو پیروی کرتے ہیں اس رسول کی جو نبی امی ہیں جس (کے ذکر)کو وہ پاتے ہیں لکھا ہوا اپنے پاس تورات اور انجیل میں ۔وہ نبی حکم دیتا ہے انہیں نیکی کا اور روکتا ہے انہیں برائی سے اور حلال کرتا ہے ان کے لیے پاک چیزیں اور حرام کرتا ہے ان پر ناپاک چیزیں اور اتارتا ہے ان سے ان کا بوجھ اور (کا ٹتا ہے)وہ زنجیریں جو جکڑے ہوئے تھیں انہیں۔پس جو لوگ ایمان لائے اس (نبی اُمی)پر اور تعظیم کی آپ کی اور امداد کی آپ کی اور پیروی کی اس نور کی جو اتارا گیا آپ کے ساتھ ،وہی (خوش نصیب )کامیاب و کامران ہیں“۔(سورئہ الاعراف:۱۵۷)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا :لوگو!تم پر حج فرض کیا گیا ہے،اس لیے تم حج کرو ۔ایک آدمی نے عرض کیا:یا رسول اللہ!صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہر سال ؟حضور اکرم خاموش رہے۔ اس شخص نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا۔اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میں،ہاں،کہہ دیتا تو تم پر (ہر سال حج ) واجب ہو جاتا اور تم ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر فرمایا:جس معا ملے میں میں تمہیں کوئی حکم نہ دوں اس کے متعلق سوال نہ کیا کروکیونکہ تم سے پہلی امتیں سوالوں کی کثرت اور اپنے انبیاءپر اختلاف کی وجہ ہی سے ہلاک ہوئی تھیں۔جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو مقدور بھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو اور اگر تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو رک جاﺅ۔(صحیح مسلم)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ”اورلوگوں پر اللہ تعالیٰ کے لیے حج کرنا فرض ہے اس پر جو اس کی طاقت رکھتا ہو“(آل عمران:۹۷ ) تولوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)!کیا ہر سال (حج فرض ہے)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، لوگوں نے عرض کیا:یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)!کیا ہر سال؟ آپ نے ارشادفرمایا: نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر (ہر سال حج )فرض ہو جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ”اے ایمان والو! ان چیزوں کے متعلق سوال نہ کیا کروکہ اگر وہ تمہارے سامنے ظاہر کی جائیں توتم پر ناگوار گزریں“۔ (جامع ترمذی)

Shortvideo - کلمہ طیبہ کی حقیقت

جمعرات، 16 مارچ، 2023

حضور اکرم ﷺوسلم کا طریقہ ءطعام(۲)

 

حضور اکرم ﷺوسلم کا طریقہ ءطعام(۲)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تم میں سے جو شخص کھانا کھانے لگے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے۔ اگرکھانے کی ابتداءمیں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو (جب یا دآئے ) تویہ پڑھ لے۔ بسم اللہ فی اولہ واخرہ ، اسی سند سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یہ بھی بیان فرماتی ہیں ، حضور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چھ صحابہ کے ساتھ کھانا تناول فرمارہے تھے کہ ایک اعرابی آیا اوراس نے دولقموں میں سارا کھانا ختم کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگریہ اعرابی بسم اللہ پڑھتا تو یہ کھانا تم سب کے لیے کافی ہوجاتا۔(جامع ترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا : جو شخص چاہتا ہو کہ اس کے گھر میں خیر وبرکت کا اضافہ ہو وہ کھانے کے اول وآخر میں وضو کیاکرے۔ (سنن ابن ماجہ)

حضر ت حجیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تکیہ لگاکر کھانا نہیں کھاتا۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تم میں سے ہر شخص دائیں ہاتھ سے کھانا کھائے۔ دائیں ہاتھ سے پانی پیے ۔(کچھ لینا ہوتو )دائیں ہاتھ سے لے اور(کچھ دینا ہوتو )دائیں ہاتھ سے دے ۔ کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے ، بائیں ہاتھ سے پیتا ہے ، بائیں ہاتھ سے لیتا ہے اوربائیں ہاتھ سے دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! ہم کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے۔ آپ نے فرمایا: شاید تم علیحدہ علیحدہ کھاناکھاتے ہو۔ انہوں نے عرض کیا: ہاں ! یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)!آپ نے فرمایا: مل کر کھانا کھایا کرواوراس پر بسم اللہ پڑھاکرو، اسی میں تمہارے لیے برکت پیداکردی جائے گی۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا: اگر تم میں سے کسی کا خادم اس کاکھانا لے کر آئے تو اسے چاہیے کہ اسے اپنے ساتھ بٹھائے یا اس میں سے کچھ کھانا اس کو دے دے کیونکہ یہ کھانا پکانے کے لیے گرمی اوردھواں اسی نے برداشت کیا ہے۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں :حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جب دسترخوان بچھا دیا جائے تو اس سے کوئی شخص اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ دسترخوان اٹھانہ لیا جائے، اورکوئی شخص کھانے سے ہاتھ نہ کھینچے اگر چہ وہ سیر ہوگیا ہو جب تک کہ لوگ کھانے سے فارغ نہ ہوجائیں اور(اگرمجبوراً کھانے سے ہاتھ کھینچنا پڑیں تو)معذرت کرے۔ کیونکہ ایسا کرنے والا شخص اپنے ہم نشین کو شرمندہ کرتا ہے اوراس کے ہاتھ کو کھانے سے کھینچ لیتا ہے جبکہ ممکن ہے اسے مزید کھانے کی حاجت ہو۔(سنن ابن ماجہ)

Shortvideo - معزز کون ہے؟

بدھ، 15 مارچ، 2023

حضور اکرم ﷺوسلم کا طریقہ ءطعام

 

حضور اکرم ﷺوسلم کا طریقہ ءطعام

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث بیان فرماتے ہیں جس میں حضور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم شدت پیاس سے نڈھال ،ہجوم کو معجزانہ طورپر پانی پلارہے ہیں اوران کو اس صورتحال میں پانی پینے کا طریقہ سمجھارہے ہیں۔۔حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے وضوکا برتن منگوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن سے پانی انڈیلناشروع کیا اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے وہ پانی لوگوں کو پلانا شروع کردیا۔ لوگوں کا یہ دیکھنا تھا کہ پانی کے برتن میں کچھ ہے کہ وہ اس پر ہجوم کرآئے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: لوگو! بہتر رویہ اختیار کرو، تم سب سیراب ہوجاﺅگے ۔ لوگوں نے حکم رسول کی تعمیل کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی انڈیلتے رہے اورمیں لوگوں کو پلاتا رہا حتی کہ میرے اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کوئی شخص باقی نہ بچا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے پانی انڈیلا اورمجھے فرمایا: پیو!میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ!میں اس وقت تک پانی نہیں پیوں گا جب تک کہ آپ پانی نوش نہ فرمالیں۔ آپ نے فرمایا: جو ساقی ہوتا ہے وہ سب لوگوں کے بعد پیتا ہے ۔ پھر میں نے پانی پیااورحضور اکرم ﷺنے بھی پانی پیااورلوگ سیراب ہوکر بڑے آرام اورسکون کے ساتھ پانی تک پہنچے۔(صحیح مسلم)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ،ہم جب نبی کریم ﷺکی معیت میں کھانے پر حاضر ہوتے تو ہم اس وقت تک اپنے ہاتھ کھانے میں نہیں ڈالتے تھے جب تک کہ حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کھانا شروع نہ فرمادیتے ۔ ایک روز ہم آپ ﷺ کی معیت میں کھانے پر حاضرہوئے ۔ایک لڑکی بڑی تیزی سے آئی گویا کوئی اس کو پیچھے سے دھکیل رہا ہو۔ وہ کھانے میں ہاتھ ڈالنے لگی تو حضور رحمت عالم ﷺ نے اس کے ہاتھ کو پکڑلیا۔ پھر ایک بدوتیزی سے آیا گویا کوئی اسکے پیچھے لگا ہوا ہو۔ آپ نے اس کا بھی ہاتھ پکڑلیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: اگر کھانے پر خدا کانام نہ لیا جائے تو شیطان اس کھانے کو اپنے لیے حلال سمجھ لیتا ہے۔ وہ (شیطان)اس لڑکی کو لے کر آیا کہ اسکے ذریعے اس کھانے کو اپنے لیے حلال کرے تو میں نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑلیا۔ وہ اس اعرابی کولے کر آیا کہ اس کے ذریعے اس کھانے کو حلال کرے تو میں نے اسکے ہاتھ کو بھی پکڑلیا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اب اس کا اس لڑکی کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔(صحیح مسلم)حضرت سالم اپنے والد ماجد ؓسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے دوطریقوں سے منع فرمایا ہے ۔ ایسے دسترخوان پر بیٹھ کر کھانے سے منع فرمایا ہے جس پر شراب پی جاتی ہو اورآپ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے پیٹ کے بل لیٹے ہوئے کھائے۔(سنن ابی داﺅد)

 

Shortvideo - مومن کا نظریہ زندگی

منگل، 14 مارچ، 2023

صحابہ کرام کا ذوقِ نماز (۲)


 

صحابہ کرام کا ذوقِ نماز (۲)

 حضرت ابو عثمان نہدی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں سات راتوں تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مہمان رہا۔میں نے دیکھا کہ آپ، آپ کی اہلیہ اور آپ کا خادم تینوں باری باری اٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے، اور اس کے لیے انہوں نے رات کے تین حصے کیے ہوئے تھے۔ (ابو نعیم)

٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک رات میں نماز عشاءکے بعد قدرے تاخیر سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ آپ نے مجھ سے استفسار فرمایا۔کہاں تھیں؟ میں نے عرض کیا:آپ کے ایک صحابی مسجد میں (ادائیگی نفل کرتے ہوئے) قرآن پڑھ رہے تھے۔ میں اسے سن رہی تھی۔ میں نے اس جیسی آواز اور اس جیسا حسن قرات آپ کے کسی اور صحابی سے نہیں سنا، آپ نے بھی کچھ دیر ان کی تلاوت سماعت فرمائی اور میری جانب متوجہ ہوکر فرمایا۔ یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں۔

٭تمام تعریفیں اس پاک پروردگار کے لئے ہیں، جس نے میری امت میں ایسے افراد پیدا کئے۔ (حاکم)

٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نماز سے بڑی محبت تھی، وہ زیادہ نفلی روزے نہیں رکھتے تھے۔ عام طور پر مہینے میں تین نفلی روزے رکھتے۔ فرماتے، جب روزہ رکھتا ہوں تو کمزوری محسوس ہوتی ہے اس وجہ سے نماز میں کمی ہوجاتی ہے۔ اور مجھے نماز سے زیادہ محبت ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن یزید ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کم روزے رکھنے والا کوئی فقیہ نہیں دیکھا، ان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا مجھے نماز سے زیادہ رغبت ہے۔ 

٭حضرت عبداللہ بن مسعود السابقون الاولون میں سے ہیں مکہ میں غربت کی وجہ سے اجرت پر بکریاں چراتے تھے۔ صحت کے اعتبار سے نحیف ونزار تھے۔ مشرکین مکہ کی زیادتیوں کا خاص نشانہ بھی بنتے۔ اس کے باوجود بڑی تندہی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے۔ جہاد میں سرگرم حصہ لیتے۔ نوافل میں مشغولیت کے علاوہ تحصیل علم اور درس وتدریس سے خصوصی شغف تھا۔ سنت رسول کے ابلاغ میں آپ نے خاص کردار ادا کیا اور بے شمار تلامذہ نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا۔ انہیں وجوہات کی بنا پر زیادہ روزہ کی مشقت نہیں اٹھا پاتے تھے۔ لیکن عبدالرحمن بن یزید ؒ کی روایت سے یہ اندازا بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں لوگ فقہا و علماءسے کیسی توقعات رکھتے تھے۔ 

٭حضرت انس قیام سجدہ میں اتنی دیر لگاتے کہ لوگ سمجھتے کہ یہ کچھ بھو ل گئے ہیں۔ (بخاری)

Shortvideo - تقویٰ کیا ہے؟

پیر، 13 مارچ، 2023

معلم کامل (۴)

 

معلم کامل (۴)

حضرت جابر بن یزیدبن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔اس وقت وہ ایک نوجوان لڑکے تھے۔جب حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے مسجد کے ایک کونے میں دوافراد کو دیکھا جنہوں نے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو طلب فرمایا۔ان کو پیش کیا گیا۔ان کے پہلو کا گوشت کانپ رہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:تم کو ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکاہے؟انہوں نے عرض کی:ہم نے اپنی قیام گاہ میں نماز پڑھ لی ہے۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا،ایسا نہ کیا کرو۔تم میں سے جب کوئی شخص اپنی قیام گاہ میں نماز پڑھ لے اور پھر امام کو اس حال میں پائے کہ اس نے ابھی نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھ لے کیونکہ یہ نماز اس کے لیے نفل ہو جائے گی۔(سنن ابی داﺅد)
حضرت عباد بن شر حبیل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں،مجھے بھوک نے ستایا تو میں مدینہ طیبہ کے ایک باغ میں داخل ہو گیا۔میں نے ایک خوشے کو اپنی ہتھیلی پر رگڑا۔میں نے اس کے کچھ دانے کھائےاور کچھ اپنے کپڑوں میں ڈال لیے۔باغ کا مالک ا ٓگیا۔اس نے مجھے زدوکوب کیااور میرا کپڑا لے لیا۔میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا۔ حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نے اس شخص سے فرمایا:یہ بے خبر تھا،تم نے اس کو تعلیم نہیں دی۔یہ بھوکا تھا ،تم نے اس کو کھا نا نہیں کھلایا۔پھر حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نے حکم دیا اور اس شخص نے میرا کپڑا لوٹا دیااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک وسق یا نصف وسق طعام عطا فرمایا۔(سنن ابی داﺅد)
حضرت رافع بن عمر والغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں:میں لڑکا تھااور میں انصار کی کھجوروں پر پتھر پھینکا کرتا تھا۔مجھے حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کی خدمت میں پیش کیا گیا۔آپ نے فرمایا:لڑکے !تم کھجوروں پر پتھر کیوں پھینکتے ہو؟میں نے عرض کی:کھجوریں کھاتا ہوں ۔فرمایا: کھجوروں پر پتھر نہ پھینکا کرو اور جو کھجوریں درخت سے نیچے گری ہوئی ہوں ان کو کھا لیا کرو۔پھر حضوررحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر اپنا دست اقدس پھیرا اور دعا کی:اے اللہ تعالیٰ! اس کے پیٹ کو سیر فرما دے۔(سنن ابی داﺅد)حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، وہ مسجد میں داخل ہوئے ، اس وقت حضور علیہ الصلوٰة والسلام حالت رکوع میں تھے۔ وہ صف تک پہنچنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری (نیکیوں کی)حرص میں اضافہ فرمائے۔ آئندہ ایسا نہ کرنا۔(سنن نسائی)

اتوار، 12 مارچ، 2023

معلم کامل (۳)

 

معلم کامل (۳)

حضرت ابومسعود بدری ؓبیان فرماتے ہیں ،میں اپنے ایک ملازم کو کوڑے سے ماررہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے یہ آواز سنی ۔ ابومسعود ! خبردار رہو۔ میں غصے کی وجہ سے اس آواز کو سمجھ نہ سکا۔ فرماتے ہیں: جب یہ بات کہنے والے میرے نزدیک آئے تو دیکھا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام ہیں اورآپ فرمارہے ہیں: اے ابومسعود! خبردار رہو۔ ابومسعود! خبرداررہو۔ میں نے کوڑا اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ابومسعود! خبردار رہو۔اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر اس سے بھی زیادہ قدرت کا مالک ہے جتنی قدرت تمہیں اس غلام پر حاصل ہے۔میں نے کہا: میں اسکے بعد کسی غلام کو کبھی نہیں ماروں گا۔(صحیح مسلم)حضرت معرور بن سوید ؓ بیان فرماتے ہیں ، ربذہ کے مقام پر ہم حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے ۔ دیکھا کہ آپ کے اوپر ایک چادر ہے اوراسی قسم کی چادر آپ کے غلام نے زیب تن کر رکھی ہے۔ ہم نے عرض کی:اے ابوذر! اگر آپ ان دونوں چادروں کویکجا کرلیں تو ایک حلہ بن جائے۔ آپ نے فرمایا: میرے اورمیرے ایک(مسلمان ) بھائی کے درمیان تکرار ہوگئی،اس شخص کی ماں عجمی تھی، میں نے اسے اس کی ماں کے متعلق عاردلائی۔ اس شخص نے میری شکایت حضور اکرم ﷺکی بارگاہ عالیہ میں کردی۔ جب میں آپ کے پاس حاضر ہوا توآپ میں ارشادفرمایا: اے ابوذر! تم ایک ایسے شخص ہوجس میں جاہلیت کے آثار موجود ہیں۔ یہ(غلام)تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے ۔جو خود کھاﺅوہی ان کوکھلاﺅ، جوخودپہنووہی ان کو پہناﺅاوران کو ایسا کام کرنے پر مجبور نہ کرو جو انکی طاقت سے باہر ہو اوراگران کو کوئی ایسا کام کرنے کیلئے کہو جو انکی طاقت سے زیادہ ہوتو ان کی مددکیاکرو۔(صحیح مسلم)
حضرت عکراش بن ذویب ؓ فرماتے ہیں : بنومرہ بن عبید نے مجھے اپنے اموال کی زکوٰة دے کر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ میں مدینہ طیبہ میں آپ کے پاس حاضر ہوا۔ میں نے آپ کو مہاجرین اورانصار کے ساتھ تشریف فرماپایا۔ نبی کریم ﷺنے میرے ہاتھ کو پکڑااورمجھے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر لے گئے۔ آپ نے پوچھا: کیا کھانے کیلئے کچھ ہے؟ ہمارے پاس ایک بڑا پیالہ لایا گیا جس میں ثرید اوربغیر ہڈی کی بوٹیاں بکثرت تھیں۔ ہم نے اس سے کھانا شروع کردیا۔ میں اپنے ہاتھوں کو پیالے میں ادھر ادھر دوڑانے لگا اورحضور اکرم ﷺاپنے سامنے سے کھاتے رہے۔ حضور ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ سے میرے دائیں ہاتھ کو پکڑااور فرمایا: عکراش ! ایک جگہ سے کھاﺅ کیونکہ یہ ایک ہی قسم کا کھانا ہے۔پھر ہمارے سامنے ایک بڑی طشتری لائی گئی جس میں مختلف قسم کی کھجوریں تھیں۔میں اپنے سامنے سے کھانے لگا اورحضورکا دست اقدس طشتری میں ادھر ادھر پھرتارہا۔ آپ نے فرمایا: عکراش! جہاں سے چاہو کھاﺅ کیونکہ یہ کھجوریں ایک ہی قسم کی نہیں ہیں۔ (جامع ترمذی)

Shortvideo - کامیاب انسان کون ہے؟

ہفتہ، 11 مارچ، 2023

معلم کامل(۲)

 

معلم کامل(۲)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ بعض لوگ اس کی طرف لپکے توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو زبردستی پیشاب روکنے پر مجبور نہ کرو۔ پھر آپ نے پانی کا لوٹا منگوایا اوراس پیشاب پر پانی بہادیا۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک اعرابی مسجد میں تشریف فرماتھے ۔ اس نے کہا: اے اللہ تعالیٰ! میری اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی بخشش فرما اورہمارے ساتھ کسی دوسرے کی مغفرت نہ فرما۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اس کی اس بات پر) مسکرائے اورفرمایا: اس نے اس چیز کو محدود کردیا ہے جو وسیع ہے(یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو)پھر وہ اعرابی واپس پلٹا۔ جب وہ مسجد کے کنارے پہنچا تو اس نے پیشاب کے لیے پاﺅںپھیلادیے ۔ اس اعرابی نے اپنی غلطی کو سمجھ لینے کے بعد کہا: حضور علیہ الصلوٰة والسلام اٹھ کر میری طرف آئے۔ میرے ماں باپ آپ پر نثار، آپ نے نہ مجھے سخت الفاظ میں زجر وتوبیخ کی، نہ برابھلا کہا۔آپ نے (محض)یہ فرمایا: ان مسجد وں میں پیشاب نہیں کیا جاتا، یہ خدا کے ذکر اورنماز کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ پھرآپ نے پانی کا لوٹا لانے کا حکم دیا اور اسکے پیشاب پر پانی بہادیا۔ (سنن ابن ماجہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ جب آپ نمازادافرما چکے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا: اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں ۔ تم رکوع ، سجدہ ، قیام یا نماز سے فارغ ہونے میں مجھ سے پہل نہ کیا کرو کیونکہ میں تمہیں دیکھتا ہوںاپنے سامنے سے بھی اورپیچھے سے بھی ۔ اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے، اگر تم وہ دیکھ لو جو میں نے دیکھا ہے توتم ہنسو کم اورروﺅ زیادہ ۔ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ !(ﷺ)آپ نے کیا ملاحظہ فرمایاہے؟ فرمایا: جنت کو اورجہنم کو دیکھا ہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ،جب آیت کریمہ نازل ہوئی”(رمضان میں اس وقت تک کھاﺅ پیو)جب تک کہ سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے متمیز ہوجائے“۔میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! میں اپنے سرہانے کے نیچے دورسیاں رکھتا ہوں، ایک سیاہ اوردوسری سفید۔انکے ذریعے میں دن اوررات میں تمیز کرتا ہوں۔ (اس پر)حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھرآپ کا سرہانہ تو بڑا وسیع ہوا۔ (آیت سے مراد یہ نہیں بلکہ) اس سے مراد رات کی سیاہی اوردن کی روشنی ہے۔(صحیح مسلم)


Shortvideo ہماری حقیقت کیا ہے؟

جمعرات، 9 مارچ، 2023

معلم کامل


 

معلم کامل

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا: میں تمہارے لیے باپ کی طرح ہوں۔ (جس طرح باپ اپنے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اسی طرح )میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔ تم میں سے جب کوئی بیت الخلاءمیں داخل ہوتو قبلہ کی طرف نہ تورخ کرے اورنہ پشت اورنہ دائیں ہاتھ سے استنجاءکرے۔(سنن نسائی)حضرت سلمان ؓبیان فرماتے ہیں ،ایک بارمشرکین ہم سے کہنے لگے : ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہ ﷺ)تمہیں ہر چیز حتیٰ کہ بیت الخلاءتک کی تعلیم دیتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس پر حضرت سلمان ؓنے(فخریہ) ان سے فرمایا : ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ آپ نے ہمیں دائیں ہاتھ کے ساتھ استنجاءکرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے ہمیں (قضائے حاجت کے وقت)قبلہ کی طرف رخ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے ہمیں استنجاءکیلئے لیداور ہڈیوں کے استعمال سے بھی منع فرمایا ہے اورآپ نے ہمیں یہ حکم بھی دیا ہے کہ کوئی شخص استنجاءکیلئے تین سے کم ڈھیلے استعمال نہ کرے۔(صحیح مسلم)حضرت معاویہ بن حکم السلمی ؓبیان فرماتے ہیں : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے کسی شخص کو چھینک آئی۔ اس پر میں نے کہا: یرحمک اللہ۔ لوگوں نے میری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ میں نے کہا: اس کی ماں اسے روئے ، تمہیں کیا ہوگیا کہ تم میری طرف دیکھ رہے ہو۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے شروع کردیے ۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرانے کی کوشش کررہے ہیں تو (میں نے مزاحمت کا ارادہ کیا)لیکن پھر میں خاموش ہوگیا۔ جب حضور علیہ الصلوٰة والسلام نماز پڑھ چکے تو ، میرے ماں باپ آپ پر فداہوں، میں نے آپ سے اچھا استاد نہ آپ سے پہلے دیکھا اورنہ آ کے بعد، جو آپ سے بہتر تعلیم دے سکے۔ خدا کی قسم ،آپ نے نہ مجھے جھڑکا ، نہ مجھے مارا پیٹا اورنہ مجھے برا بھلا کہا۔ آپ نے(صرف یہ)فرمایا: اس نماز میں کوئی انسانی بات مناسب نہیں ہے۔ نماز تو تسبیح ، تکبیر اورقرآن حکیم کی تلاوت کا نام ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! ہمارا زمانہ ، زمانہ جاہلیت سے قریب ہے اوراللہ تعالیٰ اسلام کو لے آیا ہے ۔ ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ (ہمارے لیے کیا حکم ہے؟)آپ نے فرمایا : تم انکے پاس نہ جایا کرو۔میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ فال لیتے ہیں۔(اس کا کیا حکم ہے ؟)فرمایا: یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا خیال انکے دلوں میں پیدا ہوتا ہے ، البتہ یہ فال انہیں کوئی کام کرنے سے باز نہ رکھے۔میں نے کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں (اس کا کیا حکم ہے؟)فرمایا: انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں کھینچا کرتے تھے ۔جس شخص کی لکیریں انکی لکیروں کے موافق ہوں ان کا ایسا کرنا صحیح ہے۔(صحیح مسلم)

چند سورتوں اور آیات کی فضیلت(۱)

    چند سورتوں اور آیات کی فضیلت(۱) قرآن مجید پڑھنا سب عبادتوں سے افضل ہے اور خاص طور پر نماز میں کھڑے ہو کر قرآن مجیدکی تلاوت کرنا ۔ آپ...