بدھ، 22 مارچ، 2023

حضرت خباب بن الارت ؓ(۳)


 

حضرت خباب بن الارت ؓ(۳)

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے حق میں حضور اکرم ﷺ کی دعاءاثر پذیر ہوئی، حضرت خباب کا صبر یوں رنگ لایا کہ ان کی مالکہ اُم انمار دردِ سر میں اس طرح مبتلاہوئی کہ کرب سے بے اختیار چیختی رہتی ۔ اسے تجویز کیا گیاکہ جب تک تمہارا سر لوہے سے نہیں داغا جائے گا تمہارے مرض میں افاقہ نہیں ہوگا۔اُم انمار کو اس علاج پر آمادہ ہونا پڑا،اس نے یہ کا م حضرت خباب کہ سپرد کیا کہ وہ گرم لوہے سے اس کا سر داغا کریں، اسے دنیا ہی میں مکا فات عمل کایوں سامنا کرنا پڑا کہ جس لوہے سے وہ آپ کو اذیت کیلئے داغا کرتی تھیں وہی گرم لوہا اس پر استعمال ہونے لگا۔لیکن یہ علاج کوئی خاص کار گرنہ ہوا اور وہ کچھ عرصہ ہی میں لقمہ اجل بن گئی اوراس بد بخت کے ظلم و ستم سے حضرت خبا ب کو نجات مل گئی۔ ہجرت مدینہ کاحکم نازل ہوا تو خبا ب ر ضی اللہ عنہ بھی حضور اکرم ﷺکی اجازت سے عازم مدینہ ہوئے۔ اگرچہ انہیں قبول اسلام کے بعد بڑے جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑا لیکن انکی یہ ہجرت کسی خوف یا اندیشے پر مبنی نہیں تھی بلکہ محض اور محض اللہ رب العزت کی رضاءحاصل کرنے کیلئے تھی۔خلفاءراشدین کے زمانے میں جب فتوحات اور کشادگی کا دروازہ کھلا توآپ بسا اوقات بہت مضطرب ہو جاےا کرتے تھے۔ زارو قطار روتے اور ارشاد فرماتے ”ہم نے محض اللہ کریم کی رضا ءکی خاطرجناب رسالت مآب ﷺ کے ساتھ ہجرت کی اور ہمارا اجر اللہ تعا لیٰ کے ذمہ رہا، ہمارے بعض دوست تو ایسے ہیں کہ جلد ہی واصل بحق ہو گئے اور انھوں نے دنیا میں اپنے اجر کا کوئی ثمر حاصل نہ کیا ۔لیکن بعض ایسے ہیں جن کا پھل پک گیا ہے اور وہ اسے توڑ کر کھا رہے ہیں، (ہمارے بھائی)حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے احد میں جام شہادت نوش کیا تو ان کے کفن کیلئے ہمارے پاس ایک چھوٹی سی چادر کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، اس چادر سے ان کا سرڈھانکتے تو ان کے پاﺅں کھل جاتے اورپاﺅں پر کپڑا رکھتے تو سرِ اقدس برہنہ ہوجاتا، آخر میں حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے حکم کے مطابق، ان کا سرڈھانپ دیا اورپاﺅں پر اذخر گھاس ڈال دی، جبکہ آج یہ عالم ہے اللہ کا فضل ہم پر بارش کی طرح برس رہا ہے ، مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہیں ہمارے مصائب کا بدلہ ہمیں دنیا ہی میں تو مرحمت نہیں فرمادیا ۔(بخاری ، مسلم، مسند احمد بن حنبل ، ابن حبان)
ایک اورموقع پرارشاد فرمایا ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں مجھے ایک درہم بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ آج میرے اسی گھر کے ایک کونے میں اس وقت چالیس ہزار درہم موجود ہیں ۔ اپنے کفن کا مکمل کپڑا دیکھا تو بے ساختہ رودیے اور فرمایا: حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو تو ایسا کفن میسر نہیں آیا، ان کے سرپر کپڑا ڈالتے تو پاﺅں کھل جاتے ، پاﺅ ں پر ڈالتے تو سر کھل جاتا ۔آخر ان کے پائے اقدس پر اذخر ڈال دی گئی۔(ترمذی، ابن ماجہ، احمد)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں