اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
ہفتہ، 30 نومبر، 2024
تعمیر شخصیت (2)
تعمیر شخصیت (2)
شخصیت کو تعمیر کرنے کا چوتھا اصول یہ ہے کہ انسان جو بھی کام کرے صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرے۔ کیونکہ بندہ کبھی بھی بندے کو خوش نہیں کر سکتا۔ ہم کسی بندے کو راضی کرنے کے لیے اس کے کئی کام کر دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کئی ایک کام کسی وجہ سے نہ ہو سکیں تو وہ سارے کیے پر پانی پھیر دے گا اور شکوے کرے گا کہ تم نے میرا یہ کام نہیں کیا جس سے انسان بہت گہرے دکھ میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میں نے کسی شخص کے لیے اتنا کچھ کیا اور مجھے اس کے بدلے میں کیا صلہ ملا۔ لیکن اس کے بر عکس اگر انسان کسی بندے کی بجائے اللہ کی رضا کے لیے کوئی کام کر ے گا اور کوئی انسان اس کے ساتھ بْرا بھی کرے گا تو اسے اس بات کا دکھ نہیں ہو گا کیونکہ اس نے یہ کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سر انجام دیا تھا نہ کہ اسے خوش کرنے کے لیے۔ لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ کو میرا یہ عمل پسند آ گیا تو مجھے ضرور اس کا اجر ملے گا۔ اس طرح اسے کسی بھی طرح کے برے رویے سے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ جن لوگوں کا مقصد دوسروں کو خوش کرنا ہوتا ہے وہ لوگوں کے غیر متوقع رویے کی وجہ سے ہمیشہ توڑ پھوڑ کا شکار رہتے ہیں۔
تعمیر شخصیت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ بندہ دنیا کو آخرت کے حوالے سے دیکھے۔ جب بندہ آخرت کی فکر کرتا ہے تو اس کی زندگی خیر اور بھلائی بانٹنے میں گزرتی ہے اور ہمیشہ نیکی کے راستے پر گامزن رہتا ہے لیکن اگر آخرت کو فراموش کر کے صرف دنیا ہی کو سب کچھ مان لیا جائے تو انسان مختلف گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
تعمیر شخصیت کا ایک اصول یہ ہے کہ بندہ نمود ونمائش سے بچے اور اپنے کام میں مگن رہے۔ جب لوگ اپنی کوتاہیوں کو نمود نمائش سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑی ہی چالاکی کے ساتھ ان کاموں کی داد وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہوں نے سر انجام نہیں دیے ہوتے تو ایسے افراد اپنی شخصیت کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بظاہر خوش نظر آنے والے یہ لوگ اندر سے بالکل ٹوٹے ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ خوشی حقیقی خوشی نہیں ہے۔
حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو تقوی اختیا رکرنے والا ، مخلوق خدا سے محبت کرنے والا اور لوگوں سے چھپنے والا ہے۔ نمود و نمائش کر کے لوگوں کی داد حاصل کرنا اور اپنے مفادات کو حاصل کرنا یہ مومن کی نشانی نہیں ہے بلکہ ایک کم ظرف انسان کی علامت ہے۔ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جو بھی کام کرے صرف اللہ کی رضا کے لیے کرے اور اس کے نتائج اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔
تعمیر شخصیت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ بندہ دنیا کو آخرت کے حوالے سے دیکھے۔ جب بندہ آخرت کی فکر کرتا ہے تو اس کی زندگی خیر اور بھلائی بانٹنے میں گزرتی ہے اور ہمیشہ نیکی کے راستے پر گامزن رہتا ہے لیکن اگر آخرت کو فراموش کر کے صرف دنیا ہی کو سب کچھ مان لیا جائے تو انسان مختلف گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
تعمیر شخصیت کا ایک اصول یہ ہے کہ بندہ نمود ونمائش سے بچے اور اپنے کام میں مگن رہے۔ جب لوگ اپنی کوتاہیوں کو نمود نمائش سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑی ہی چالاکی کے ساتھ ان کاموں کی داد وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہوں نے سر انجام نہیں دیے ہوتے تو ایسے افراد اپنی شخصیت کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بظاہر خوش نظر آنے والے یہ لوگ اندر سے بالکل ٹوٹے ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ خوشی حقیقی خوشی نہیں ہے۔
حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو تقوی اختیا رکرنے والا ، مخلوق خدا سے محبت کرنے والا اور لوگوں سے چھپنے والا ہے۔ نمود و نمائش کر کے لوگوں کی داد حاصل کرنا اور اپنے مفادات کو حاصل کرنا یہ مومن کی نشانی نہیں ہے بلکہ ایک کم ظرف انسان کی علامت ہے۔ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جو بھی کام کرے صرف اللہ کی رضا کے لیے کرے اور اس کے نتائج اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔
جمعہ، 29 نومبر، 2024
تعمیر شخصیت (۱)
تعمیر شخصیت (۱)
انسان کو اپنی شخصیت کو پر کشش بنانے اور لوگوں میں عزت و آبرو کے ساتھ رہنے کے لیے چند اصول اپنانے پڑتے ہیں جس سے اس کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ انسانی شخصیت کی تعمیر کا پہلا اصول یہ ہے کہ انسان جہاں تک ہو سکے علم حاصل کرے کیونکہ علم ہی خیر کی بنیاد ہے۔ عمل اور کیفیات کی عمارتیں علم کی بنیادوں پر ہی استوار ہوتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عقل و خرد کی آنکھ اس وقت تک نہیں دیکھ سکتی جب تک اس میں علم کی روشنی نہ ہو۔ کیونکہ اگر علم کی شمع بجھ جائے تو انسان کی سوچ مختلف خرافات میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ جس سے انسان کی توانائیاں تعمیر سے زیادہ تخریب کاری کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ لہذا علم سے کامل وابستگی کے بغیر تعمیرِ شخصیت کی نعمت نہیں مل سکتی کیونکہ بنیاد کے بغیر عمارت قائم نہیں ہو سکتی۔ علم سے محروم شخص تعمیرِ شخصیت کی نعمت سے محروم رہتا ہے۔
شخصیت کو تعمیر کرنے کے لیے دوسرا اصول یہ ہے کہ انسان کو اپنی سوچ کو مثبت رکھنا چاہیے۔ جو شخص طعن و تشنیع سے بچ کر مثبت اندازمیں اپنے احوال کی اصلاح کرتا ہے اور اپنی کاوشیں جاری رکھتا ہے اس کی شخصیت کمال کی طرف گامزن ہو جاتی ہے۔ اشفاق احمدلکھتے ہیں جس آدمی کو دوسروں پر تنقید کرنے سے فرصت نہ ہو وہ اپنی اصلاح کی صلاحتیں کھو بیٹھتا ہے۔ جو شخص اپنی زندگی دوسروں پر لعن طعن کرنے میں گزار دیتا ہے وہ نہ کوئی بڑا کام کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنی شخصیت میں کوئی کمال پیدا کر سکتا ہے۔
شخصیت کو تعمیر کرنے کا تیسرا اصول یہ ہے کہ انسان انا پرستی سے بچے اور حق کا راستہ اختیار کرے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کبھی بھی انا کو حق پر غالب نہ آنے دے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں تمہیں پانچ باتوں کی نصیحت کرتا ہوں جن کو سیکھنے کے لیے اگر تمہیں سواریاں تیار کرنا پڑیں تو کر لینا اور اگر سفر کرنا پڑے تو سفر سے بھی گریز نہ کرنا۔ ان میں سے ایک یہ ہے جب کسی کے سوال کا جواب نہ آتا ہو تو یہ کہنے میں شرم نہ کرنا کہ میں نہیں جانتا۔ مطلب کہ جب اگر کوئی آپ سے سوال پوچھے اور آپ کو اس کا جواب معلوم نہ ہو تو اس کو یہ کہتے ہوئے اپنی بے عزتی محسوس نہ کرنا کہ مجھے نہیں معلوم۔ اس کو غلط جواب دے دینا اور پھر اپنی غلطی پر ڈت جانایہ حق نہیں بلکہ انا پرستی ہے۔اور اسے انا پرستی کا مسئلہ بنانا احساس کمتری ہے ورنہ یہ ممکن نہیں کہ انسان کو دنیا جہاں کے تمام علوم پر مکمل دسترس حاصل ہو۔ اس سے جس قدر ممکن ہو بچنا چاہیے۔
شخصیت کو تعمیر کرنے کے لیے دوسرا اصول یہ ہے کہ انسان کو اپنی سوچ کو مثبت رکھنا چاہیے۔ جو شخص طعن و تشنیع سے بچ کر مثبت اندازمیں اپنے احوال کی اصلاح کرتا ہے اور اپنی کاوشیں جاری رکھتا ہے اس کی شخصیت کمال کی طرف گامزن ہو جاتی ہے۔ اشفاق احمدلکھتے ہیں جس آدمی کو دوسروں پر تنقید کرنے سے فرصت نہ ہو وہ اپنی اصلاح کی صلاحتیں کھو بیٹھتا ہے۔ جو شخص اپنی زندگی دوسروں پر لعن طعن کرنے میں گزار دیتا ہے وہ نہ کوئی بڑا کام کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنی شخصیت میں کوئی کمال پیدا کر سکتا ہے۔
شخصیت کو تعمیر کرنے کا تیسرا اصول یہ ہے کہ انسان انا پرستی سے بچے اور حق کا راستہ اختیار کرے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کبھی بھی انا کو حق پر غالب نہ آنے دے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں تمہیں پانچ باتوں کی نصیحت کرتا ہوں جن کو سیکھنے کے لیے اگر تمہیں سواریاں تیار کرنا پڑیں تو کر لینا اور اگر سفر کرنا پڑے تو سفر سے بھی گریز نہ کرنا۔ ان میں سے ایک یہ ہے جب کسی کے سوال کا جواب نہ آتا ہو تو یہ کہنے میں شرم نہ کرنا کہ میں نہیں جانتا۔ مطلب کہ جب اگر کوئی آپ سے سوال پوچھے اور آپ کو اس کا جواب معلوم نہ ہو تو اس کو یہ کہتے ہوئے اپنی بے عزتی محسوس نہ کرنا کہ مجھے نہیں معلوم۔ اس کو غلط جواب دے دینا اور پھر اپنی غلطی پر ڈت جانایہ حق نہیں بلکہ انا پرستی ہے۔اور اسے انا پرستی کا مسئلہ بنانا احساس کمتری ہے ورنہ یہ ممکن نہیں کہ انسان کو دنیا جہاں کے تمام علوم پر مکمل دسترس حاصل ہو۔ اس سے جس قدر ممکن ہو بچنا چاہیے۔
جمعرات، 28 نومبر، 2024
شیطانی وسوسے اور ان کا حل (۲)
شیطانی وسوسے اور ان کا حل (۲)
شیطان کا انسان کو گناہوں کی طرف راغب کرنے کے لیے دوسرا ہتھیار غربت اور افلاس کا ذہن میں ڈالنا ہے جس کی وجہ سے انسان گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ غریب لوگوں کے دلوں میں پیسے کمانے کے لیے ناجائز کام کرنے کی طرف راغب کرنا۔ اور امراءکو اس بات کی طرف راغب کرنا کہ زکوٰة نہ دو مال کم ہو جائے گا۔ یا پھر مال زیادہ کرنے کے لیے انسان کو رشوت اور سود لینے کی طرف راغب کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ (سورة البقرة )۔
اگر انسان شیطان کے اس وسوسے کی تہہ تک پہنچ جائے اور احکام الٰہی کو سمجھ لے تو انسان اس گناہ سے بچ سکتا ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ ہر نا شکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔( سورة البقرہ )۔
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا۔ بندہ مومن کا اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیے کہ صدقہ دینے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی اور ناجائز طریقے سے کمائے گئے مال میں برکت نہیں ہوتی تو وہ کبھی بھی شیطان کے اس وسوسے میں نہ آئے۔بعض اوقات شیطان بندے کو اللہ تعالی کی رحمت کا ذکر کر کے گناہوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ بندے سے کہتا ہے کہ تو گناہکر اللہ تعالیٰ بڑا رحیم ہے وہ اپنی رحمت سے تجھے معاف کر دے گا۔ لیکن حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو جو رحمت الٰہی کا مفہوم بتایا وہ اسکے بالکل برعکس ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمان و رحیم بھی ہے اور جبار اور قہار بھی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : میرے بندوں کو بتا دو کہ بلا شبہ میں بہت بخشنے والا رحم کرنے والاہوں اور میرا عذاب بھی بہت درد ناک ہے۔( سورة الحجر )۔
سورة الاعراف میں ارشاد فرمایا میری رحمت بڑی وسیع ہے اسے متقین کے لیے لازم کروں گا۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوں گے ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اس سے یہ واضح ہو گیا کہ رحمت کا سہارا لے کر گناہوں کی طرف راغب ہونا یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے۔
کسی نیک اور صالح خاندان میں پیدا ہونا ایک سعادت کی بات ہے لیکن اسے اپنی بخشش کا ذریعہ سمجھ لینا غلط ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ایک اعلی خاندان میں پیدا ہوا ہے تو احکام الٰہی کو پس پشت ڈال کر گناہوں میں مبتلا ہو جائے۔ اگر بخشش کا یہی ذریعہ ہوتا تو کائنات کے سب سے اعلی خاندان میں پیدا ہونے والے حسنین کریمین اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ساری ساری رات سجدوں میں نہ گزارتے۔ یہ بھی ایک شیطانی وسوسہ ہے جو بندے کو حسب و نسب کے غرور میں مبتلا کر کے گناہوں کی طرف راغب کر دیتا ہے۔
اگر انسان شیطان کے اس وسوسے کی تہہ تک پہنچ جائے اور احکام الٰہی کو سمجھ لے تو انسان اس گناہ سے بچ سکتا ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ ہر نا شکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔( سورة البقرہ )۔
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا۔ بندہ مومن کا اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیے کہ صدقہ دینے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی اور ناجائز طریقے سے کمائے گئے مال میں برکت نہیں ہوتی تو وہ کبھی بھی شیطان کے اس وسوسے میں نہ آئے۔بعض اوقات شیطان بندے کو اللہ تعالی کی رحمت کا ذکر کر کے گناہوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ بندے سے کہتا ہے کہ تو گناہکر اللہ تعالیٰ بڑا رحیم ہے وہ اپنی رحمت سے تجھے معاف کر دے گا۔ لیکن حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو جو رحمت الٰہی کا مفہوم بتایا وہ اسکے بالکل برعکس ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمان و رحیم بھی ہے اور جبار اور قہار بھی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : میرے بندوں کو بتا دو کہ بلا شبہ میں بہت بخشنے والا رحم کرنے والاہوں اور میرا عذاب بھی بہت درد ناک ہے۔( سورة الحجر )۔
سورة الاعراف میں ارشاد فرمایا میری رحمت بڑی وسیع ہے اسے متقین کے لیے لازم کروں گا۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوں گے ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اس سے یہ واضح ہو گیا کہ رحمت کا سہارا لے کر گناہوں کی طرف راغب ہونا یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے۔
کسی نیک اور صالح خاندان میں پیدا ہونا ایک سعادت کی بات ہے لیکن اسے اپنی بخشش کا ذریعہ سمجھ لینا غلط ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ایک اعلی خاندان میں پیدا ہوا ہے تو احکام الٰہی کو پس پشت ڈال کر گناہوں میں مبتلا ہو جائے۔ اگر بخشش کا یہی ذریعہ ہوتا تو کائنات کے سب سے اعلی خاندان میں پیدا ہونے والے حسنین کریمین اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ساری ساری رات سجدوں میں نہ گزارتے۔ یہ بھی ایک شیطانی وسوسہ ہے جو بندے کو حسب و نسب کے غرور میں مبتلا کر کے گناہوں کی طرف راغب کر دیتا ہے۔
بدھ، 27 نومبر، 2024
شیطانی وسوسے اور ان کا حل (۱)
شیطانی وسوسے اور ان کا حل (۱)
شیطان انسان کا سب سے برا اور کھلا دشمن ہے ۔ شیطان یہی چاہتا ہے کہ وہ انسان کو راہ ہدایت سے دور کر دے اور بندہ احکام الٰہی کی بجائے نفسانی خواہشات کی پیروی کرے ۔ شیطان اس کی بھرپور کوشش کرتا ہے کہ وہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے ہٹا کر اپنے راستے پر لے آئے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان پر لعنت بھیجی اور اسے جنت سے نکال دیا تواس نے کہا :اے میرے رب اس وجہ سے کہ تو نے مجھے بھٹکا دیا میں ان کے لیے برے کاموں کو زمین میں ضرور خوشنما بنا دوں گا اور میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا۔ (سورۃ الحجر)
شیطان مختلف طریقوں سے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور انسان کو احکام الٰہی سے غافل کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی انسان دشمنی کا ذکر فرمایا ہے اور اس کے ساتھ اس کے وسوسوں سے بچنے کا طریقہ بھی بتایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے یقینا شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھا کرو فقط اس لیے اپنے گروہ کو سر کشی کی دعوت دیتا ہے تا کہ وہ جہنمی بن جائیں۔ (سورۃ الفاطر)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا : اے انسانو، کھائو اس سے جو زمین میں حلال ہے اور پاکیزہ چیزیں اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے وہ تمھیں برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے ۔ (سور ۃ البقرۃ)
شیطان آدمی کو جب کسی گناہ کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بندہ اپنے رب کے احکام کے خلاف جانے سے ڈرتا ہے تو شیطان اسے کہتا ہے تو گناہ کر لے انسان سے غلطی ہو جاتی ہے بعد میں توبہ کر لینا اللہ تعالیٰ کو توبہ بڑی محبوب ہے ۔
لیکن ارشاد باری تعالیٰ ہے تو بہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے وہ ان کی توبہ ہے جن سے بے سمجھی میں گناہ ہو جائیں پھر جلدی سے توبہ کر لیتے ہیں پس یہی لوگ ہیں اللہ جن پر نظر رحمت سے توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء)
اس آیت مبارکہ میں شیطان کے اس وسوسے کی تردید کر دی جو وہ کہتا ہے کہ گناہ کرو بعد میں توبہ کر لینا لیکن زندگی کا بھی کوئی بھروسا نہیں کہ گناہ کے بعد توبہ کا موقع ملے بھی یا نہیں ۔
شیطان مختلف طریقوں سے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور انسان کو احکام الٰہی سے غافل کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی انسان دشمنی کا ذکر فرمایا ہے اور اس کے ساتھ اس کے وسوسوں سے بچنے کا طریقہ بھی بتایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے یقینا شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھا کرو فقط اس لیے اپنے گروہ کو سر کشی کی دعوت دیتا ہے تا کہ وہ جہنمی بن جائیں۔ (سورۃ الفاطر)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا : اے انسانو، کھائو اس سے جو زمین میں حلال ہے اور پاکیزہ چیزیں اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے وہ تمھیں برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے ۔ (سور ۃ البقرۃ)
شیطان آدمی کو جب کسی گناہ کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بندہ اپنے رب کے احکام کے خلاف جانے سے ڈرتا ہے تو شیطان اسے کہتا ہے تو گناہ کر لے انسان سے غلطی ہو جاتی ہے بعد میں توبہ کر لینا اللہ تعالیٰ کو توبہ بڑی محبوب ہے ۔
لیکن ارشاد باری تعالیٰ ہے تو بہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے وہ ان کی توبہ ہے جن سے بے سمجھی میں گناہ ہو جائیں پھر جلدی سے توبہ کر لیتے ہیں پس یہی لوگ ہیں اللہ جن پر نظر رحمت سے توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء)
اس آیت مبارکہ میں شیطان کے اس وسوسے کی تردید کر دی جو وہ کہتا ہے کہ گناہ کرو بعد میں توبہ کر لینا لیکن زندگی کا بھی کوئی بھروسا نہیں کہ گناہ کے بعد توبہ کا موقع ملے بھی یا نہیں ۔
منگل، 26 نومبر، 2024
دنیا سے بے رغبتی
دنیا سے بے رغبتی
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دنیا میں اپنی بندگی کے لیے بھیجا۔ لیکن بندہ اپنا اصل مقصد چھوڑ کر دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں مبتلا ہو جائے تو پھر اس میں اس کے لیے کوئی بھلائی نہیں کیونکہ کہ دنیا کا مال نہایت قلیل اور ختم ہونے والا اور زوال پذیر ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اس کی کو ئی اہمیت نہیں۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حثییت مچھرکے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ دنیا سے دل نہ لگائے اور دنیا کی محبت کو اپنے دل سے نکال دے۔
دانشوروں کا قول ہے کہ شریف وہ ہے جس کو دنیا کی محبت رنج و تکلیف میں نہ ڈالے کیونکہ دنیا کی مکروہات میں مبتلا ہو کر آدمی کسی کام کا نہیں رہتا۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ جس کو دنیا مل جائے اور وہ اس کو حاصل کرکے خوش ہو تو اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے کہ وہ پانی پر چلے مگر اس کے پاﺅ ں گیلے نہ ہوں۔ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ نہیں۔آپ نے فرمایا دنیا دار گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ ( بہیقی ، شعب الایمان)
یعنی جو دنیا میں مبتلا ہو گیا اس کے لیے گناہوں سے بچنا ممکن نہیں۔ اس لیے ضرورت سے زیادہ مال جو اللہ تعالی کی یاد سے انسان کو غافل کر دے اور انسان کو متکبر بنا دے نقصان دہ ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا : جس شخص نے حلال دنیا (روزی)
تلاش کی تا کہ گدا گری سے بچے ، اپنے گھر والوں کی خدمت اور پڑوسی کے ساتھ تعاون کرے وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا اور جس نے دنیا اس لیے طلب کی کہ وہ اپنا مال فخر ، تکبر اور دکھاوے کے لیے بڑھائے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہو گا ( مشکوة شریف)۔
حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: جب بندہ دنیا سے بے رغبتی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں حکمت کا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔ اس سے اس کی زبان میں گو یائی عطا کرتا ہے اسے دنیا کے عیوب اس کی بیماریوں اور اس کے علاج سے آگاہ کر دیتا ہے۔اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ جنت کی طرف لے جاتا ہے۔(( بہیقی ، شعب الایمان)
دانشوروں کا قول ہے کہ شریف وہ ہے جس کو دنیا کی محبت رنج و تکلیف میں نہ ڈالے کیونکہ دنیا کی مکروہات میں مبتلا ہو کر آدمی کسی کام کا نہیں رہتا۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ جس کو دنیا مل جائے اور وہ اس کو حاصل کرکے خوش ہو تو اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے کہ وہ پانی پر چلے مگر اس کے پاﺅ ں گیلے نہ ہوں۔ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ نہیں۔آپ نے فرمایا دنیا دار گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ ( بہیقی ، شعب الایمان)
یعنی جو دنیا میں مبتلا ہو گیا اس کے لیے گناہوں سے بچنا ممکن نہیں۔ اس لیے ضرورت سے زیادہ مال جو اللہ تعالی کی یاد سے انسان کو غافل کر دے اور انسان کو متکبر بنا دے نقصان دہ ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا : جس شخص نے حلال دنیا (روزی)
تلاش کی تا کہ گدا گری سے بچے ، اپنے گھر والوں کی خدمت اور پڑوسی کے ساتھ تعاون کرے وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا اور جس نے دنیا اس لیے طلب کی کہ وہ اپنا مال فخر ، تکبر اور دکھاوے کے لیے بڑھائے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہو گا ( مشکوة شریف)۔
حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: جب بندہ دنیا سے بے رغبتی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں حکمت کا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔ اس سے اس کی زبان میں گو یائی عطا کرتا ہے اسے دنیا کے عیوب اس کی بیماریوں اور اس کے علاج سے آگاہ کر دیتا ہے۔اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ جنت کی طرف لے جاتا ہے۔(( بہیقی ، شعب الایمان)
پیر، 25 نومبر، 2024
اتوار، 24 نومبر، 2024
ہفتہ، 23 نومبر، 2024
فضائل و بر کات نام محمد(۲)
فضائل و بر کات نام محمد(۲)
حضور نبی کریم ﷺ کی جب ولادت باسعادت ہوئی تو آپ کے دادا جان حضرت عبد المطلب نے آپ کا نام محمد رکھا ہے اس سے پہلے یہ نام عرب میں کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ حضور نبی کریم ﷺ کے اسم محمد کی تشریح کرتے ہو ئے پیر محمد کرم شاہ الازھری لکھتے ہیں کہ احل لغت کے نزدیک جو ہستی تمام صفاتِ خیر کی جامع ہو اسے محمد کہتے ہیں۔
امام ابو زھرہ اسم محمد کی تشریح کے مطابق محمد کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ ذات جس کی بصورت استمرار ہر لمحہ ہر گھڑی تعریف و ثنا کی جائے۔
علامہ سہیلی لکھتے ہیں لغت میں محمد اس کو کہتے ہیں جس کی بار بار تعریف کی جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ تمام نبیوں کے سردار ہیں اسی طرح آپ کا اسم گرامی بھی تمام انبیاء اور تمام مخلوق کے ناموں کا سردار ہے۔ جس طرح لفظ اللہ کا ہر ہر حرف با معنی ہے اسی طرح نام محمد کا ہرہر حرف بامعنی ہے۔ اسم ذات اللہ کے شروع سے پہلا حرف ہٹا دیں تو للہ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں اللہ کے لیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ”للہ ما فی السموت وما فی الارض“ یعنی اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے۔
اسی طرح پہلا ل ہٹا دیا جائے تو ”لہ“ رہ جاتا ہے۔”لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شئی قدیر “ یعنی اسی کے لیے بادشاہت اور اسی کے لیے حمدو ستائش اور وہ ہر چیز پر قادر ہے “۔
اسی طرح لفظ محمد میں بھی اگرپہلی میم کو ہٹا دیا جائے تو حمد رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں تعریف کرنا۔ اگر ’ح‘ ہٹا دیا جائے تو رہ جاتا ہے ممد جس کے معنی ہیں مدد کرنے والا۔ اور اگر میم اور ح دونوں بھی ہٹا دیے جائیں تو رہ جاتا ہے ”مد“ جس کے معنی ہیں دراز اور بلند یہ حضور نبی کریمﷺ کی عظمت و رفعت کی طرف اشارہ ہے۔ اور اگر دوسرا میم بھی ہٹا دیا جائے تو رہ جاتی ہے ’د‘ جس کا مفہوم ہے دلالت کرنے والا یعنی اسم محمد کی وحدانیت پر دال ہے۔ ( سیرة الرسول )
اسم کو اپنے مسمی کی صفات کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ مگر زیادہ تر اس کے الٹ ہی ہوتا ہے۔ بہت کم ہی بعض اوصاف میں تناسب ملتا ہے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی انسان کا وہ نام رکھا گیا ہو جو اس کی تمام زندگی کاآئینہ دار ہو۔ لیکن اسم محمد اس سے مستثنی ہے۔ اس مبارک نام کی عظمتیں جہاں جمع ہوتی ہیں اور اس نام کا مظہر اتم اور محل کامل ہے۔ اسی کا نام ہی تو ذات پاک محمد ﷺ ہے۔ اس ذات کی بے شمار عظمتوں کو ایک نام سے موسوم کرنے کا ذریعہ اسم محمد ﷺہے۔
امام ابو زھرہ اسم محمد کی تشریح کے مطابق محمد کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ ذات جس کی بصورت استمرار ہر لمحہ ہر گھڑی تعریف و ثنا کی جائے۔
علامہ سہیلی لکھتے ہیں لغت میں محمد اس کو کہتے ہیں جس کی بار بار تعریف کی جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ تمام نبیوں کے سردار ہیں اسی طرح آپ کا اسم گرامی بھی تمام انبیاء اور تمام مخلوق کے ناموں کا سردار ہے۔ جس طرح لفظ اللہ کا ہر ہر حرف با معنی ہے اسی طرح نام محمد کا ہرہر حرف بامعنی ہے۔ اسم ذات اللہ کے شروع سے پہلا حرف ہٹا دیں تو للہ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں اللہ کے لیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ”للہ ما فی السموت وما فی الارض“ یعنی اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے۔
اسی طرح پہلا ل ہٹا دیا جائے تو ”لہ“ رہ جاتا ہے۔”لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شئی قدیر “ یعنی اسی کے لیے بادشاہت اور اسی کے لیے حمدو ستائش اور وہ ہر چیز پر قادر ہے “۔
اسی طرح لفظ محمد میں بھی اگرپہلی میم کو ہٹا دیا جائے تو حمد رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں تعریف کرنا۔ اگر ’ح‘ ہٹا دیا جائے تو رہ جاتا ہے ممد جس کے معنی ہیں مدد کرنے والا۔ اور اگر میم اور ح دونوں بھی ہٹا دیے جائیں تو رہ جاتا ہے ”مد“ جس کے معنی ہیں دراز اور بلند یہ حضور نبی کریمﷺ کی عظمت و رفعت کی طرف اشارہ ہے۔ اور اگر دوسرا میم بھی ہٹا دیا جائے تو رہ جاتی ہے ’د‘ جس کا مفہوم ہے دلالت کرنے والا یعنی اسم محمد کی وحدانیت پر دال ہے۔ ( سیرة الرسول )
اسم کو اپنے مسمی کی صفات کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ مگر زیادہ تر اس کے الٹ ہی ہوتا ہے۔ بہت کم ہی بعض اوصاف میں تناسب ملتا ہے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی انسان کا وہ نام رکھا گیا ہو جو اس کی تمام زندگی کاآئینہ دار ہو۔ لیکن اسم محمد اس سے مستثنی ہے۔ اس مبارک نام کی عظمتیں جہاں جمع ہوتی ہیں اور اس نام کا مظہر اتم اور محل کامل ہے۔ اسی کا نام ہی تو ذات پاک محمد ﷺ ہے۔ اس ذات کی بے شمار عظمتوں کو ایک نام سے موسوم کرنے کا ذریعہ اسم محمد ﷺہے۔
جمعہ، 22 نومبر، 2024
فضائل و بر کات نام محمد ﷺ(۱)
فضائل و بر کات نام محمد ﷺ(۱)
نام محمدﷺ اس پاک ہستی کا نام ہے جس کی وجہ سے ساری کائنات کو سجایا گیا ۔ جس نے خاک کے ذروں کو حیات بخشی گئی ۔ اسم محمدﷺ نام ہے اس نور مجسم کا جس کے نور سے آفاق عالم کو منور کیا گیا ۔ اسم محمدﷺ نام ہے اس ہستی کا جس کی وجہ سے یہ آفتاب ، چاند ستارے ،دنیا کی خوبصورتی اور باکمال انسان غرض یہ کہ عالم رنگ و بو کا ہر ہر ذرہ اور ہر ہر قطرہ تخلیق کیا گیا ۔
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روئے محمد ؐ کو بنایا گیا
پھر اسی نقش سے لے کے کچھ روشنی بزم کون ومکاں کو سجایا گیا
اسم محمدﷺ نام ہے اس حسن و جمال کے پیکر کا جس میں دل سے نگاہ تک ، روح سے جسم تک سر سے پیر تک حسن ہی حسن ، پاکیزگی ہی پاکیزگی ،لطافت ہی لطافت ، نزاکت ہی نزاکت ہی چھائی ہوئی تھی ۔ جس کی مقدس سیرت میں تمام انبیاء و رسل کی سیرتیں ، خوبیاں ، کمالات اور معجزات جمع کر دیے گئے ۔
بامِ افلاک سے دامنِ خاک تک جذبۂ شوق سے فہم و ادراک تک
محسن ہر شے میں اس کا سمویا گیا نور ہر سمت اس کا رچایا گیا
اسم محمدﷺ نام ہے اس رحمت دو عالم کا جو یتیموں کا والی ، غریبوں کا سہارا، فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ، مصیبت میں کام آنے والا۔جس کی بارگاہ ناز سے سب نے بغیر کسی رنگ و نسل کی تفریق سے فیض پایا ۔ جس کا نام کروڑوں زبانوں پر جاری ساری ہے ۔جس کی عظمت کو غیر مسلم بھی تسلیم کرتے ہیں۔
اسم محمدﷺ وہ بابرکت نام ہے جو شب وروز بار بار ہر لمحہ اور ہر گھڑی لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زبانوں کو ازلی سعادت بخشتا ہے اور قلب وروح کو ابدی مسرتیں عطا کرتا ہے ۔ جس نام کی برکت سے بگڑے کام سنور جاتے ہیں ۔
یہ نام کوئی کام بگڑنے نہیں دیتا
بگڑے ہوئے بھی بنا دیتا ہے بس نام محمدؐ
جس کا تذکرہ آسمانوں میں فرشتے کرتے ہیں ۔ اس ہستی کا نام محمدﷺ ہے جس کی بارگاہ ناز میں فرشتوں کے سردار جبریل امین بھی بڑے ادب کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔اسم محمدﷺ نام ہے محبوب خدا کا جس کا متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :بے شک میں میرے فرشتے آپؐ پر دورد شریف بھیجتے ہیں اے ایمان والوتم بھی آپؐ پر خوب درود اور سلام بھیجو۔
نوازشوں پر نوازشیں ہیں عنایتوں پر عنایتیں ہیں
نبی پر درود پڑھ کر ہم اپنی قسمت جگا رہے ہیں
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روئے محمد ؐ کو بنایا گیا
پھر اسی نقش سے لے کے کچھ روشنی بزم کون ومکاں کو سجایا گیا
اسم محمدﷺ نام ہے اس حسن و جمال کے پیکر کا جس میں دل سے نگاہ تک ، روح سے جسم تک سر سے پیر تک حسن ہی حسن ، پاکیزگی ہی پاکیزگی ،لطافت ہی لطافت ، نزاکت ہی نزاکت ہی چھائی ہوئی تھی ۔ جس کی مقدس سیرت میں تمام انبیاء و رسل کی سیرتیں ، خوبیاں ، کمالات اور معجزات جمع کر دیے گئے ۔
بامِ افلاک سے دامنِ خاک تک جذبۂ شوق سے فہم و ادراک تک
محسن ہر شے میں اس کا سمویا گیا نور ہر سمت اس کا رچایا گیا
اسم محمدﷺ نام ہے اس رحمت دو عالم کا جو یتیموں کا والی ، غریبوں کا سہارا، فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ، مصیبت میں کام آنے والا۔جس کی بارگاہ ناز سے سب نے بغیر کسی رنگ و نسل کی تفریق سے فیض پایا ۔ جس کا نام کروڑوں زبانوں پر جاری ساری ہے ۔جس کی عظمت کو غیر مسلم بھی تسلیم کرتے ہیں۔
اسم محمدﷺ وہ بابرکت نام ہے جو شب وروز بار بار ہر لمحہ اور ہر گھڑی لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زبانوں کو ازلی سعادت بخشتا ہے اور قلب وروح کو ابدی مسرتیں عطا کرتا ہے ۔ جس نام کی برکت سے بگڑے کام سنور جاتے ہیں ۔
یہ نام کوئی کام بگڑنے نہیں دیتا
بگڑے ہوئے بھی بنا دیتا ہے بس نام محمدؐ
جس کا تذکرہ آسمانوں میں فرشتے کرتے ہیں ۔ اس ہستی کا نام محمدﷺ ہے جس کی بارگاہ ناز میں فرشتوں کے سردار جبریل امین بھی بڑے ادب کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔اسم محمدﷺ نام ہے محبوب خدا کا جس کا متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :بے شک میں میرے فرشتے آپؐ پر دورد شریف بھیجتے ہیں اے ایمان والوتم بھی آپؐ پر خوب درود اور سلام بھیجو۔
نوازشوں پر نوازشیں ہیں عنایتوں پر عنایتیں ہیں
نبی پر درود پڑھ کر ہم اپنی قسمت جگا رہے ہیں
جمعرات، 21 نومبر، 2024
معاشی خود انحصاری (2)
معاشی خود انحصاری (2)
حضور نبی کریم ﷺ نے قرض سے بچنے کے لیے ان الفاظ میں تلقین فرمائی۔ اے اللہ میں اندر کے روگ اور حزن سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے اللہ میں بخل اوربزدلی سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے اللہ میں عجز اور کسل مندی سے بچنے کی التجا کرتا ہوں اور آخر میں ارشاد فرمایا اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں قرض سے مغلوب ہو جائوں اور لوگ قرض کا مطالبہ کرتے ہوئے مجھ پر سختی کرتے پھریں۔
حضور نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہماری معاشی رہنمائی کے لیے ایک اصول ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے متعدد بار قرض سے بچنے کی تلقین فرمائی ایک موقع پر ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص رسی لیکر جنگل کی طرف نکل جائے اور وہاں سے لکڑیاں جمع کر کے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لائے اور بازار میں بیچ دے اور اس طرح اپنی ضروریات کو پورا کرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے پھر لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی خواہشات پر قابو پانے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع کرنے کے ساتھ اس بات کی تلقین بھی فرمائی اور اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد میں بھر پور حصہ لینے کی تاکید فرمائی۔ اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کمائی بھی نہ کرے بلکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدو جہد کرے اوران تمام خواہشات سے بچے جن کو پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑے اور بعد میں پریشانی کا سبب بنے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو لوگ اپنے ہاتھ سے رزق حلال نہیں کماتے اور بغیر استحقاق کے دوسروں سے سوال کرتے ہیں قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ وہ دولت جو ذخیرہ کر کے رکھی آگ کی صورت میں ان کے جسم سے چمٹ جائے گی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جو لوگ کام کر سکتے ہیں وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھلائیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محنت کر کے رزق کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔
ایک صحابی نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے کچھ عنائیت فرمائیں آپ ﷺ نے اسے کچھ دینار دیے اور کہا کہ بازار سے کلہاڑی کا پھل لے کر آئو آپ ﷺ نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ڈالا اور فرمایا جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرو۔وہ شخص کچھ دن بعد حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ کے حکم پر عمل کرنے سے میں اپنی ضروریات بھی پوری کر رہا ہوں اور کچھ رقم جمع ہو گئی ہے یہ آپ ﷺ غریبوں مں تقسیم فرما دیں۔
حضور نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہماری معاشی رہنمائی کے لیے ایک اصول ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے متعدد بار قرض سے بچنے کی تلقین فرمائی ایک موقع پر ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص رسی لیکر جنگل کی طرف نکل جائے اور وہاں سے لکڑیاں جمع کر کے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لائے اور بازار میں بیچ دے اور اس طرح اپنی ضروریات کو پورا کرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے پھر لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی خواہشات پر قابو پانے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع کرنے کے ساتھ اس بات کی تلقین بھی فرمائی اور اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد میں بھر پور حصہ لینے کی تاکید فرمائی۔ اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کمائی بھی نہ کرے بلکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدو جہد کرے اوران تمام خواہشات سے بچے جن کو پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑے اور بعد میں پریشانی کا سبب بنے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو لوگ اپنے ہاتھ سے رزق حلال نہیں کماتے اور بغیر استحقاق کے دوسروں سے سوال کرتے ہیں قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ وہ دولت جو ذخیرہ کر کے رکھی آگ کی صورت میں ان کے جسم سے چمٹ جائے گی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جو لوگ کام کر سکتے ہیں وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھلائیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محنت کر کے رزق کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔
ایک صحابی نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے کچھ عنائیت فرمائیں آپ ﷺ نے اسے کچھ دینار دیے اور کہا کہ بازار سے کلہاڑی کا پھل لے کر آئو آپ ﷺ نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ڈالا اور فرمایا جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرو۔وہ شخص کچھ دن بعد حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ کے حکم پر عمل کرنے سے میں اپنی ضروریات بھی پوری کر رہا ہوں اور کچھ رقم جمع ہو گئی ہے یہ آپ ﷺ غریبوں مں تقسیم فرما دیں۔
بدھ، 20 نومبر، 2024
معاشی خود انحصاری (۱)
معاشی خود انحصاری (۱)
آج کے دور میں معاشی نظام عالم انسانیت کی قیادت کر رہا ہے۔ انسان کی نفسانی خواہشات لامحدود ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے وسائل محدود ہیں۔ انسان ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے وسائل کی تلاش میں لگا رہے اور یہی اس کی ساری معاشی جدو جہد کا مقصد ہونا چاہیے۔ لیکن وہ اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ وہ جن ذرائع سے اپنی خواہشات کی تکمیل کر رہا ہے وہ حلال ہیں یا حرام۔
حضور نبی رحمت ﷺ نے اہل ایمان کو جو معاشی لائحہ عمل دیا ہے اس میں یہ بات واضح ہے کہ مومن کی خواہشات لا محدود نہیں ہوتیں بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی خواہشات پر کٹرول رکھے۔ آپ نے اتباع نفس اور جائز اور ناجائز میں تمیز نہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور ساتھ میں یہ بات بھی واضح کر دی کہ تمہاری زندگی افراط و تفریط سے پاک ہونی چاہیے یہ نہ ہو کہ تم ساری زندگی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ بیٹھے رہو اور نہ یہ ہو کہ ساری زندگی دولت کو جمع کرنے میں لگے رہو بلکہ تمہاری زندگی میں اعتدال ہونا چاہیے اور اعتدال کا دامن کسی بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
” تین چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی ہلاکت کا سبب ہیں حد درجہ بخل ، اتباع نفس اور تکبر و غرور اور تین باتیں انسان کے لیے باعث نجات ہیں۔ ہر حال میں خوف خدا ، حالت فقراور حالت غنی میں میانہ روی اور ناراضگی اور خوشی دونوں صورتوں میں عدل کا دامن نہ چھوڑنا۔“
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بنی آدم کا تین چیزوں کے سوا کسی چیز پر کوئی حق نہیں۔رہائش کے لیے گھر ، ستر پوشی کے لیے کپڑا اور حسب ضرورت روٹی اور پانی۔
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اگر انسان محض اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں اور وہ کسی بھی پریشانی میں مبتلا نہیں ہو گا۔ اگر انسان اپنے مکان کی زیب و آرائش پر کروڑوں خرچ کر دے یا پھر اپنی لذت کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے کھانے بنائے یا پھر ظاہری آرائش کے لیے مہنگے کپڑے پہنے اور اس کے لیے سر گرم رہے اور اپنے وسائل پر نظر نہ رکھے اور ان کو پورا کرنے کے لیے قرض تک لے تو یہ بعد میں پریشانی کا باعث بنے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان کا بدترین مال وہ ہے جو غیر ضروری تعمیرات پر خرچ ہوتا ہے۔
حضور نبی رحمت ﷺ نے اہل ایمان کو جو معاشی لائحہ عمل دیا ہے اس میں یہ بات واضح ہے کہ مومن کی خواہشات لا محدود نہیں ہوتیں بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی خواہشات پر کٹرول رکھے۔ آپ نے اتباع نفس اور جائز اور ناجائز میں تمیز نہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور ساتھ میں یہ بات بھی واضح کر دی کہ تمہاری زندگی افراط و تفریط سے پاک ہونی چاہیے یہ نہ ہو کہ تم ساری زندگی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ بیٹھے رہو اور نہ یہ ہو کہ ساری زندگی دولت کو جمع کرنے میں لگے رہو بلکہ تمہاری زندگی میں اعتدال ہونا چاہیے اور اعتدال کا دامن کسی بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
” تین چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی ہلاکت کا سبب ہیں حد درجہ بخل ، اتباع نفس اور تکبر و غرور اور تین باتیں انسان کے لیے باعث نجات ہیں۔ ہر حال میں خوف خدا ، حالت فقراور حالت غنی میں میانہ روی اور ناراضگی اور خوشی دونوں صورتوں میں عدل کا دامن نہ چھوڑنا۔“
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بنی آدم کا تین چیزوں کے سوا کسی چیز پر کوئی حق نہیں۔رہائش کے لیے گھر ، ستر پوشی کے لیے کپڑا اور حسب ضرورت روٹی اور پانی۔
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اگر انسان محض اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں اور وہ کسی بھی پریشانی میں مبتلا نہیں ہو گا۔ اگر انسان اپنے مکان کی زیب و آرائش پر کروڑوں خرچ کر دے یا پھر اپنی لذت کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے کھانے بنائے یا پھر ظاہری آرائش کے لیے مہنگے کپڑے پہنے اور اس کے لیے سر گرم رہے اور اپنے وسائل پر نظر نہ رکھے اور ان کو پورا کرنے کے لیے قرض تک لے تو یہ بعد میں پریشانی کا باعث بنے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان کا بدترین مال وہ ہے جو غیر ضروری تعمیرات پر خرچ ہوتا ہے۔
منگل، 19 نومبر، 2024
ماحولیاتی آلودگی(۲)
ماحولیاتی آلودگی(۲)
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا کہ : ”تم میں سے کوئی شخص ایسے رکے پانی میں پیشاب نہ کرے جو چلتا نہیں ، پھر اس میں غسل بھی کرے“۔
فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا پانی دریاﺅں اور نہروں میں شامل ہو کر اس کو آلودہ کر دیتا ہے جس کی وجہ سے جب یہ پانی فصلوں کو دیا جاتا ہے تو فصلوں کی پیداوار پر کافی منفی اثر پڑتا ہے۔ اور جب یہ پانی جانور پیتے ہیں تو اس سے وہ بھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے پانی کو مناسب طریقے سے ضائع کرنا چاہیے تا کہ یہ پانی صاف پانی میں شامل ہو کر اس کو زہریلا نہ کرے۔ اس طرح پٹرول کی ریفائنری ، صابن سازی کے فضلاتی مادے ، نمک ، تیزاب ، نقصان دہ کیمیکل اور صنعتی کوڑ ا کرکٹ زمینی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو صاف شفاف پانی زمینی آلودگی میں شامل ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے زمین بڑی تیزی سے نا قابل استعمال ہو تی جا رہی ہے۔
اسلام نے انسانوں کے مردہ اجسام کو دفنانے کا حکم دیا تا کہ مردہ جسم سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحول کو خراب نہ کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا “۔ اس کے علاوہ جب کوئی جانور مر جائے تو ہم اسے ایسے ہی کھلے میدان میں پھینک آتے ہیں جس کی وجہ سے ماحول میں بہت زیادہ تعفن اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے جب بھی کو ئی جانور مرے یا ذبح کرنے کے بعد اس کے جو بقایا جات بچ جاتے ہیں ان کو مناسب طریقے سے دفنا دیں تا کہ ماحول آلودہ نہ ہو۔ شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے جو ہماری زندگیوں میں براہ راست اور بلا واسطہ بہت زیادہ اثرات مرتب کر رہی ہے۔ شور کی آلودگی میں بہت سی آوازیں شامل ہیں جن کو ہم عام زندگی میں نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن یہ ہماری زندگی پر بہت گہرے اثرات چھوڑ رہیں ہیں۔ مثلا ً شہروں میں بے جا ٹریفک ، بسوں اور ٹرکوں میں پریشر ہارن کا استعمال ، جنریٹر کا شور۔ اور اسکے علاوہ ہمسائیوں کی مشکلات سے بے خبر گھروں کے اندر اونچی آوازمیں سپیکر وغیرہ کا استعمال۔ہو سکتا ہے کہ ساتھ والے گھر میں کوئی بیمار موجود ہو یا پھر کوئی نماز پڑھ رہا ہو۔ اس سے نہ صرف شور کی آلودگی پیدا ہوتی ہے بلکہ ہمسائیوں کے حقوق کی خلاف ورزی بھی ہو تی جو کہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق اگر کوئی شخص مسلسل شور کے ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے تو اسکے سننے کی حس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور اسکے علاوہ مصنوعی شور کی آلودگی جس میں ٹریفک کا شور شامل ہے کی وجہ سے انسان اعصابی تناﺅ ، بے چینی اور طبیعت میں چڑ چڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔
فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا پانی دریاﺅں اور نہروں میں شامل ہو کر اس کو آلودہ کر دیتا ہے جس کی وجہ سے جب یہ پانی فصلوں کو دیا جاتا ہے تو فصلوں کی پیداوار پر کافی منفی اثر پڑتا ہے۔ اور جب یہ پانی جانور پیتے ہیں تو اس سے وہ بھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے پانی کو مناسب طریقے سے ضائع کرنا چاہیے تا کہ یہ پانی صاف پانی میں شامل ہو کر اس کو زہریلا نہ کرے۔ اس طرح پٹرول کی ریفائنری ، صابن سازی کے فضلاتی مادے ، نمک ، تیزاب ، نقصان دہ کیمیکل اور صنعتی کوڑ ا کرکٹ زمینی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو صاف شفاف پانی زمینی آلودگی میں شامل ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے زمین بڑی تیزی سے نا قابل استعمال ہو تی جا رہی ہے۔
اسلام نے انسانوں کے مردہ اجسام کو دفنانے کا حکم دیا تا کہ مردہ جسم سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحول کو خراب نہ کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا “۔ اس کے علاوہ جب کوئی جانور مر جائے تو ہم اسے ایسے ہی کھلے میدان میں پھینک آتے ہیں جس کی وجہ سے ماحول میں بہت زیادہ تعفن اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے جب بھی کو ئی جانور مرے یا ذبح کرنے کے بعد اس کے جو بقایا جات بچ جاتے ہیں ان کو مناسب طریقے سے دفنا دیں تا کہ ماحول آلودہ نہ ہو۔ شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے جو ہماری زندگیوں میں براہ راست اور بلا واسطہ بہت زیادہ اثرات مرتب کر رہی ہے۔ شور کی آلودگی میں بہت سی آوازیں شامل ہیں جن کو ہم عام زندگی میں نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن یہ ہماری زندگی پر بہت گہرے اثرات چھوڑ رہیں ہیں۔ مثلا ً شہروں میں بے جا ٹریفک ، بسوں اور ٹرکوں میں پریشر ہارن کا استعمال ، جنریٹر کا شور۔ اور اسکے علاوہ ہمسائیوں کی مشکلات سے بے خبر گھروں کے اندر اونچی آوازمیں سپیکر وغیرہ کا استعمال۔ہو سکتا ہے کہ ساتھ والے گھر میں کوئی بیمار موجود ہو یا پھر کوئی نماز پڑھ رہا ہو۔ اس سے نہ صرف شور کی آلودگی پیدا ہوتی ہے بلکہ ہمسائیوں کے حقوق کی خلاف ورزی بھی ہو تی جو کہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق اگر کوئی شخص مسلسل شور کے ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے تو اسکے سننے کی حس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور اسکے علاوہ مصنوعی شور کی آلودگی جس میں ٹریفک کا شور شامل ہے کی وجہ سے انسان اعصابی تناﺅ ، بے چینی اور طبیعت میں چڑ چڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔
پیر، 18 نومبر، 2024
ماحولیاتی آلودگی(۱)
ماحولیاتی آلودگی(۱)
اسلام ہمیں اپنے ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے اور صاف ستھرا رہنے کا حکم دیتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : بیشک مراد کو پہنچا وہ شخص جس نے اسے ستھرا کیا ۔ اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا ۔ ( سورۃ الشمس )
ماحولیاتی آلودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ماحول کو صاف رکھنے کے متعلق اسلامی احکامات سے ناواقف ہیں ۔اپنے گھر وں اور اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے سے متعلق حضور نبی کریمﷺ کے بہت سے احکامات موجود ہیں ۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو، (1) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (2) راستہ میں پاخانہ کرنے سے (3) سایہ دار جگہوں میں پاخانہ کرنے سے ۔ ( مسند ابو یعلی )
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : ’ تم اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھو ، اور ان یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو جو اپنے گھروں میں کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہیں ‘۔
ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزوں میں فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں ، بسوں اور موٹر سائیکلوں وغیرہ سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے ۔ جب یہ زہریلا دھواں فیکٹریوں اور گاڑیوں وغیرہ سے نکل کر ہوامیں شامل ہوتا ہے تو اس سے پھیپھڑوں اور سانس کی مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں جس کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ۔ اپنے ماحول کو صاف ستھرا بنانے اور پُر فضا ماحول میں سانس لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماحول کو زہریلے دھوئیں سے بچائیں ۔ فیکٹری مالکان کو چاہیے کہ اپنی فیکٹروں میں ایسے فلٹر کا استعمال کریں جس سے دھوئیں میں موجود زہریلا مادہ ختم ہو جائے اور جب دھواں فضا میں جائے تو ہمارا ماحول آلودہ نہ ہو ۔
اس کے علاوہ بسوں ، کاروں اور ٹرکوںوغیرہ کے مالکان کو چاہیے کہ اپنی گاڑیوں کے موبل آئل کو جلدی تبدیل کریں تاکہ گاڑیاں زیادہ دھواں چھوڑنے کا سبب نہ بنیں ۔ آج کل موٹر سائیکل کا ستعمال بہت زیادہ ہو گیا ہے اگر ہم نے تھوڑے فاصلے پر بھی جانا ہو تو ہم مو ٹر سائیکل نکال لیتے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم موٹر سائیکل کا استعمال کم سے کم کریں اور پیدل چلنے کو ترجیح دیں ۔ اس سے ہمارا ماحول بھی صاف رہے گا اور پیدل چلنے کی وجہ سے ہماری صحت بھی اچھی رہے گی ۔ہمارے کاشت کار بھائی گندم اور دھان کی فصل کو کاٹنے کے بعد اپنے کھیت میں آگ لگا دیتے ہیں جس سے کافی مقدار میں دھواں فضا میں شامل ہو جاتا ہے اور فضا میں آلودگی کا سبب بنتا ہے ۔ جس سے نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند بھی متاثر ہو تے ہیں اور فضا میں سموگ میں آضافہ ہو جاتا ہے جو کہ سانس اور آنکھوں کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے ۔ اس لیے کاشکاروں بھائیوں کو چاہیے کہ اپنی کھیتوں میں موجود بقایاجات کو جلانے کی بجائے مناسب طریقے سے تلف کریں تا کہ ہمارا ماحول صاف ستھرا رہے ۔
ماحولیاتی آلودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ماحول کو صاف رکھنے کے متعلق اسلامی احکامات سے ناواقف ہیں ۔اپنے گھر وں اور اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے سے متعلق حضور نبی کریمﷺ کے بہت سے احکامات موجود ہیں ۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو، (1) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (2) راستہ میں پاخانہ کرنے سے (3) سایہ دار جگہوں میں پاخانہ کرنے سے ۔ ( مسند ابو یعلی )
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : ’ تم اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھو ، اور ان یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو جو اپنے گھروں میں کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہیں ‘۔
ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزوں میں فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں ، بسوں اور موٹر سائیکلوں وغیرہ سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے ۔ جب یہ زہریلا دھواں فیکٹریوں اور گاڑیوں وغیرہ سے نکل کر ہوامیں شامل ہوتا ہے تو اس سے پھیپھڑوں اور سانس کی مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں جس کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ۔ اپنے ماحول کو صاف ستھرا بنانے اور پُر فضا ماحول میں سانس لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماحول کو زہریلے دھوئیں سے بچائیں ۔ فیکٹری مالکان کو چاہیے کہ اپنی فیکٹروں میں ایسے فلٹر کا استعمال کریں جس سے دھوئیں میں موجود زہریلا مادہ ختم ہو جائے اور جب دھواں فضا میں جائے تو ہمارا ماحول آلودہ نہ ہو ۔
اس کے علاوہ بسوں ، کاروں اور ٹرکوںوغیرہ کے مالکان کو چاہیے کہ اپنی گاڑیوں کے موبل آئل کو جلدی تبدیل کریں تاکہ گاڑیاں زیادہ دھواں چھوڑنے کا سبب نہ بنیں ۔ آج کل موٹر سائیکل کا ستعمال بہت زیادہ ہو گیا ہے اگر ہم نے تھوڑے فاصلے پر بھی جانا ہو تو ہم مو ٹر سائیکل نکال لیتے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم موٹر سائیکل کا استعمال کم سے کم کریں اور پیدل چلنے کو ترجیح دیں ۔ اس سے ہمارا ماحول بھی صاف رہے گا اور پیدل چلنے کی وجہ سے ہماری صحت بھی اچھی رہے گی ۔ہمارے کاشت کار بھائی گندم اور دھان کی فصل کو کاٹنے کے بعد اپنے کھیت میں آگ لگا دیتے ہیں جس سے کافی مقدار میں دھواں فضا میں شامل ہو جاتا ہے اور فضا میں آلودگی کا سبب بنتا ہے ۔ جس سے نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند بھی متاثر ہو تے ہیں اور فضا میں سموگ میں آضافہ ہو جاتا ہے جو کہ سانس اور آنکھوں کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے ۔ اس لیے کاشکاروں بھائیوں کو چاہیے کہ اپنی کھیتوں میں موجود بقایاجات کو جلانے کی بجائے مناسب طریقے سے تلف کریں تا کہ ہمارا ماحول صاف ستھرا رہے ۔
اتوار، 17 نومبر، 2024
درخت لگانے کے فوائد اور اہمیت
درخت لگانے کے فوائد اور اہمیت
ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام اور فضا کو سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے درخت لگانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ درخت لگانے کی اہمیت کا اندازہ حضور نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا : ” جو بھی مسلمان درخت لگائے یا فصل بو ئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چو پایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہو گا “۔ ( بخاری شریف )۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ تعالی کے نزدیک ( اسکے لگانے والے ) کیلئے صدقہ ہو گا۔ (مسند احمد )۔حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :” جس نے کسی ظلم و زیادتی کے بغیر کو ئی گھر بنایا یا ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا ، جب تک اللہ تعالی کی مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اس میں سے نفع اٹھا تا رہے گا تو لگانے والے کو ثواب ملتا رہے گا “۔ ( مسند احمد )
درخت لگانے کے بہت سارے فوائد ہیں۔ درخت اور پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکتے ہیں ، درخت اور پودے لگانے سے ماحول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔ درخت لینڈ سلائڈنگ کی روک تھام کا بھی باعث بنتے ہیں ، کیونکہ درخت کی جڑیں زمین کی مٹی کو روک کر رکھتی ہیں۔ جس کی وجہ سے زمین کا کٹاﺅ یا لینڈ سلائڈنگ نہیں ہوتی۔عالمی ماحول کے درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ”گلوبل وارمنگ “ کہلاتا ہے۔ جس کی وجہ درختوں کو تیزی سے کاٹنا اور صنعتوں کو تیزی سے قیام میں لانا اور بسوں اور گاڑیوں میں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ درخت اور پو دے گلوبل وارمنگ میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تا کہ گلوبل وارمنگ سے بچ سکیں۔
اسکے علاوہ درخت لگانے کے بہت سے معاشرتی فوائد بھی ہیں۔ مثلا ً درخت لکڑی کے حصول کا ذریعہ ہیں اور لکڑی کا انسانی زندگی میں کلیدی کردار ہے۔ درختوں کی لکڑی ہماری ایندھن کی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور اسکے علاوہ درختوں کی لکڑی سے کھڑکیاں ، دروازے اور دیگر گھریلو سامان بنتا ہے۔ درختوں سے ہم طرح طرح کے پھل اور میواجات حاصل کرتے ہیں جو کہ ہماری صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں۔
پرنٹنگ پریس ، سٹیشنری اور دیگر کئی شعبے کاغذ کے بل بوتے پر قائم ہیں اور کاغذ درختوں کی لکڑی سے حاصل ہو تا ہے۔ اسکے علاوہ درختوں اور پودوں سے حاصل ہو نے والی مختلف جڑی بوٹیاں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ تعالی کے نزدیک ( اسکے لگانے والے ) کیلئے صدقہ ہو گا۔ (مسند احمد )۔حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :” جس نے کسی ظلم و زیادتی کے بغیر کو ئی گھر بنایا یا ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا ، جب تک اللہ تعالی کی مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اس میں سے نفع اٹھا تا رہے گا تو لگانے والے کو ثواب ملتا رہے گا “۔ ( مسند احمد )
درخت لگانے کے بہت سارے فوائد ہیں۔ درخت اور پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکتے ہیں ، درخت اور پودے لگانے سے ماحول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔ درخت لینڈ سلائڈنگ کی روک تھام کا بھی باعث بنتے ہیں ، کیونکہ درخت کی جڑیں زمین کی مٹی کو روک کر رکھتی ہیں۔ جس کی وجہ سے زمین کا کٹاﺅ یا لینڈ سلائڈنگ نہیں ہوتی۔عالمی ماحول کے درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ”گلوبل وارمنگ “ کہلاتا ہے۔ جس کی وجہ درختوں کو تیزی سے کاٹنا اور صنعتوں کو تیزی سے قیام میں لانا اور بسوں اور گاڑیوں میں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ درخت اور پو دے گلوبل وارمنگ میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تا کہ گلوبل وارمنگ سے بچ سکیں۔
اسکے علاوہ درخت لگانے کے بہت سے معاشرتی فوائد بھی ہیں۔ مثلا ً درخت لکڑی کے حصول کا ذریعہ ہیں اور لکڑی کا انسانی زندگی میں کلیدی کردار ہے۔ درختوں کی لکڑی ہماری ایندھن کی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور اسکے علاوہ درختوں کی لکڑی سے کھڑکیاں ، دروازے اور دیگر گھریلو سامان بنتا ہے۔ درختوں سے ہم طرح طرح کے پھل اور میواجات حاصل کرتے ہیں جو کہ ہماری صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں۔
پرنٹنگ پریس ، سٹیشنری اور دیگر کئی شعبے کاغذ کے بل بوتے پر قائم ہیں اور کاغذ درختوں کی لکڑی سے حاصل ہو تا ہے۔ اسکے علاوہ درختوں اور پودوں سے حاصل ہو نے والی مختلف جڑی بوٹیاں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
ہفتہ، 16 نومبر، 2024
اسلامی معاشرے کے عوامل (2)
اسلامی معاشرے کے عوامل (2)
اللہ تعالی نے حسن عمل اور احسان کاری کی بنیاد تعاون علی البرو التقوی پر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی اور فلاح کے کاموں کو اصل دین قرار دیا۔ اس طرح سے انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ، غم خواری اور خیر طلبی کی اہمیت کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔ اس لیے فرمایا گیا : ’’دین تو بس خیر خواہی کا نام ہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد سب سے بڑا دانشمندانہ کام لوگوں کی خیر خواہی کا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں فلاح و بہبود کا عملی مظاہرہ پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی قیامت تک ایسی کوئی مثال ملے گی۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ کی دہلیز پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ تو مجھے بہت عزیز ہے کیونکہ تو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے لیکن تجھ سے عزیز مجھے وہ دل ہے جس میں ایمان بستا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا : اپنے درمیان سلام کو عام کرو ، خون کے رشہ داروں کو ملائو ، ضرورت مندوں کو کھلائو اور جب رات کو لوگ سو رہے ہوں تو اٹھ کر نماز میں مشغول ہو جائو تو تم سلامتی اور خیر کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو گے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے 9 باتوں کی تلقین کی ہے۔میں چھپ کر اور کھلے عام ہر حال میں اخلاص سے کام لوں ، خوشی اور غصہ دونوں حالتوں میں عدل وانصاف کا دامن نہ چھوڑوں ، امیری اور فقیری دونوں میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لوں ، جس نے مجھ سے زیادتی کی ہو اس سے درگزر کروں اور جو مجھ سے چھینے، میں اس کو عطا کروں ، جو مجھ سے تعلق توڑے میں اس کے ساتھ تعلق جوڑوں، میری خاموشی غوروفکر کے لیے ہو اور میرا بولنا اللہ کے ذکر کے لیے ہو اور میرا دیکھنا حصول عبرت کی خاطر ہو۔ حضور نبی کریم ﷺ کے یہ 9 ارشادات حسن معاشرت کی جان ہیں اور حضور نبی کریم ﷺ کی حکمت حسن معاشرت بھی ان ہی فرامین پر منحصر ہے۔ نیک نیتی اور اخلاص ، انصاف ، میانہ روی ، عفو و درگذر ، صلہ رحمی ، حمد و ذکر ، نصیحت و عبرت زندگی میں وہ استحکام پیدا کر دیں گے جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ کہ ایمان والے آپس کی محبت اور دوستی کی وجہ سے ایک جسم کی مانند ہیں۔ جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اسے محسوس کرتا ہے۔ حسن معاشرت کے چند ایک اصول ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے 9 باتوں کی تلقین کی ہے۔میں چھپ کر اور کھلے عام ہر حال میں اخلاص سے کام لوں ، خوشی اور غصہ دونوں حالتوں میں عدل وانصاف کا دامن نہ چھوڑوں ، امیری اور فقیری دونوں میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لوں ، جس نے مجھ سے زیادتی کی ہو اس سے درگزر کروں اور جو مجھ سے چھینے، میں اس کو عطا کروں ، جو مجھ سے تعلق توڑے میں اس کے ساتھ تعلق جوڑوں، میری خاموشی غوروفکر کے لیے ہو اور میرا بولنا اللہ کے ذکر کے لیے ہو اور میرا دیکھنا حصول عبرت کی خاطر ہو۔ حضور نبی کریم ﷺ کے یہ 9 ارشادات حسن معاشرت کی جان ہیں اور حضور نبی کریم ﷺ کی حکمت حسن معاشرت بھی ان ہی فرامین پر منحصر ہے۔ نیک نیتی اور اخلاص ، انصاف ، میانہ روی ، عفو و درگذر ، صلہ رحمی ، حمد و ذکر ، نصیحت و عبرت زندگی میں وہ استحکام پیدا کر دیں گے جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ کہ ایمان والے آپس کی محبت اور دوستی کی وجہ سے ایک جسم کی مانند ہیں۔ جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اسے محسوس کرتا ہے۔ حسن معاشرت کے چند ایک اصول ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
جمعہ، 15 نومبر، 2024
اسلامی معاشرے کے عوامل (1)
اسلامی معاشرے کے عوامل (1)
اسلامی معاشرہ انسان کے روحانی اور جسمانی ہر طرح کے تقاضوں اور ضروریات کی تکمیل کا نام ہے جس کے پس منظر میں خالق کائنات کی ہستی کار فرما ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو ’’احسن صورت کے ساتھ پیدا کیا ‘‘کے اعلان کے تحت اشرف المخلوقات بنایا۔ اس لیے خالق کائنات مالک کائنات بہتر جانتا ہے کہ انسانوں کے لیے حسن معاشرت کا آئین کیا ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اس بات پر پختہ یقین رکھے کہ اس کا ئنات کا خالق و مالک رب اور معبود ایک اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ ہم سبھی اسی کے در کے محتاج ہیں اور کسی کے محتاج نہیں۔ اسی کے بنانے سے ہر بات بنتی ہے اور اگر وہ نہ چاہے تو کچھ نہ بنے۔ توحید کے بعد جب تک سید دو عالم وجہ تخلیق کائنات محبوب خدا ﷺ کے ساتھ محبت نہ ہو اور اتباع رسول ﷺ کا مکمل اہتمام نہ ہو اس وقت تک معاشرتی اقدار کی تکمیل نا ممکن ہے۔ اس لیے توحید باری تعالیٰ کے ساتھ اتباع رسول ﷺ بھی لازم وملزوم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ توحید کا رنگ صحیح معنوں میں صرف اسی وقت چڑھے گا جب ہم اتباع رسول ﷺ کے عملی پیکر بن جائیں گے اور اتباع رسول ﷺ کو ہی زندگی کا نصب العین بنائیں گے۔ اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ محبوب خدا ﷺ سے محبت کرے۔
توحید ورسالت کے بعد سب سے بڑا عقیدہ ، عقیدہ آخرت ہے جس کی وجہ سے جزا و سزا پر کامل یقین کی وجہ سے انسان گناہ کی طرف راغب نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر برائیوں سے بچتا اور نیکی کی طرف راغب ہوتا ہے۔ طبقاتی منافرت اور گروہی عصبیت کی بنیاد پر معاشرے کی تقسیم کر کے جنگ و جدل اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے کی بجائے اسلام نے حفظ و مراتب دوسروں کے لیے نفع بخش انفرادی قوتوں ، صلاحیتوں اور اقرباء کے فطری معیار پر معاشرے کے لیے مختلف درجات متعین فرمائے جس کی بنا پر ہر فرد ایک دوسرے کا مدد گار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے بعد بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے جن میں سب سے پہلے والدین پھر رشتہ دار، یتیم ، مسکین ،قریب کے ہمسائے ، دور کے ہمسائے ، دوست ، مسافر اور نوکر چاکر کا درجہ آتا ہے۔ ان سب درجات میں باہمی رواداری ، صلہ رحمی ، معاشرتی عدل کا ایک کلیہ حسن سلوک کو قرار دے دیا ہے۔
توحید ورسالت کے بعد سب سے بڑا عقیدہ ، عقیدہ آخرت ہے جس کی وجہ سے جزا و سزا پر کامل یقین کی وجہ سے انسان گناہ کی طرف راغب نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر برائیوں سے بچتا اور نیکی کی طرف راغب ہوتا ہے۔ طبقاتی منافرت اور گروہی عصبیت کی بنیاد پر معاشرے کی تقسیم کر کے جنگ و جدل اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے کی بجائے اسلام نے حفظ و مراتب دوسروں کے لیے نفع بخش انفرادی قوتوں ، صلاحیتوں اور اقرباء کے فطری معیار پر معاشرے کے لیے مختلف درجات متعین فرمائے جس کی بنا پر ہر فرد ایک دوسرے کا مدد گار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے بعد بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے جن میں سب سے پہلے والدین پھر رشتہ دار، یتیم ، مسکین ،قریب کے ہمسائے ، دور کے ہمسائے ، دوست ، مسافر اور نوکر چاکر کا درجہ آتا ہے۔ ان سب درجات میں باہمی رواداری ، صلہ رحمی ، معاشرتی عدل کا ایک کلیہ حسن سلوک کو قرار دے دیا ہے۔
جمعرات، 14 نومبر، 2024
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں(4)
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں(4)
جنگ احد سے واپسی پر ایک عورت جس کا باپ ، بھائی اورشوہر جنگ میں شریک تھے بڑی بے تابی سے باہر نکلی۔ کسی نے اس سے کہا کہ تمہارا باپ ، بھائی اور شوہر تینوں اس جنگ میں شہید ہو گئے ہیں۔ اس عورت نے کہا میں کسی کے متعلق نہیں پوچھتی مجھے بس یہ بتائو کہ محبوب خدا ﷺ کا کیا حال ہے۔ لوگوں نے جواب دیا اللہ کے کرم سے آپﷺ ٹھیک ہیں۔ تو عورت نے جواب دیا اگر آپﷺ سلامت ہیں تو میں ہر مصیبت برداشت کر سکتی ہوں۔
حضرت سیدنا فاروق اعظم ﷺ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے جب حجر اسود کے سامنے پہنچے تو فرمایا میں تیری حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوں میں تمہیں ہرگز نہ چومتا اگر تجھے میرے محبوب ﷺ نے نہ چوما ہوتا۔
عروہ بن مسعودؓ جب ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے تو کفار نے انہیں دربار رسالت ﷺ میں بھیجا کہ وہ مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لے کر آئیں۔ جب آپ وہاں پہنچے تو انہوں نے صحابہ کرام کے عشق مصطفیﷺ کا منظر کچھ اس طرح پیش کیا۔ آپ کہتے ہیں میں قیصر و کسری اور دوسرے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں لیکن اس طرح کسی کی تعظیم کرتے کسی کو نہیں دیکھاجس طرح آپ ﷺ کے صحابہ آپﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔
جب آپﷺ وضو فرماتے ہیں تو آپ کے وضو کا پانی صحابہ کرام نیچے نہیں گرنے دیتے اور اسے پانے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کو شش کرتے ہیں اور پھر جب کسی کو پانی مل جاتا تو اسے اپنے چہرے پر لگاتے ہیں۔ اگر کسی کو پانی نہیں ملتا تو وہ اپنے ساتھی کے ہاتھ سے ہاتھ ملا کر اپنے منہ پہ لگاتا ہے۔ صحابہ کرامﷺ حضور نبی کریم ﷺ کے لعاب مبارک بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے۔بلکہ اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے منہ پر لگاتے ہیں۔جب آپﷺ گفتگو فرماتے ہیں تو بڑی خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنتے ہیں اور جب کوئی حکم فرماتے ہیں تو اس کو بجا لانے میں دیوانہ وار دوڑتے ہیں۔
صحابہ کرام ، تابعین ، صوفیاء کرام کی زندگیاں عشق مصطفیﷺ میں گزری تاریخ کے اوراق اس طرح کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ جنہوں نے حضور نبی کریمﷺ سے وفا کی اور اپنی زندگیوں کو اسلام کے لیے وقف کر دیا آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود ان کے قصے پڑھے اور سنائے جاتے ہیں اور قیامت تک ان کا ذکر خیر ہوتا رہے گا۔ اسی لیے علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
حضرت سیدنا فاروق اعظم ﷺ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے جب حجر اسود کے سامنے پہنچے تو فرمایا میں تیری حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوں میں تمہیں ہرگز نہ چومتا اگر تجھے میرے محبوب ﷺ نے نہ چوما ہوتا۔
عروہ بن مسعودؓ جب ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے تو کفار نے انہیں دربار رسالت ﷺ میں بھیجا کہ وہ مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لے کر آئیں۔ جب آپ وہاں پہنچے تو انہوں نے صحابہ کرام کے عشق مصطفیﷺ کا منظر کچھ اس طرح پیش کیا۔ آپ کہتے ہیں میں قیصر و کسری اور دوسرے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں لیکن اس طرح کسی کی تعظیم کرتے کسی کو نہیں دیکھاجس طرح آپ ﷺ کے صحابہ آپﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔
جب آپﷺ وضو فرماتے ہیں تو آپ کے وضو کا پانی صحابہ کرام نیچے نہیں گرنے دیتے اور اسے پانے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کو شش کرتے ہیں اور پھر جب کسی کو پانی مل جاتا تو اسے اپنے چہرے پر لگاتے ہیں۔ اگر کسی کو پانی نہیں ملتا تو وہ اپنے ساتھی کے ہاتھ سے ہاتھ ملا کر اپنے منہ پہ لگاتا ہے۔ صحابہ کرامﷺ حضور نبی کریم ﷺ کے لعاب مبارک بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے۔بلکہ اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے منہ پر لگاتے ہیں۔جب آپﷺ گفتگو فرماتے ہیں تو بڑی خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنتے ہیں اور جب کوئی حکم فرماتے ہیں تو اس کو بجا لانے میں دیوانہ وار دوڑتے ہیں۔
صحابہ کرام ، تابعین ، صوفیاء کرام کی زندگیاں عشق مصطفیﷺ میں گزری تاریخ کے اوراق اس طرح کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ جنہوں نے حضور نبی کریمﷺ سے وفا کی اور اپنی زندگیوں کو اسلام کے لیے وقف کر دیا آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود ان کے قصے پڑھے اور سنائے جاتے ہیں اور قیامت تک ان کا ذکر خیر ہوتا رہے گا۔ اسی لیے علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
بدھ، 13 نومبر، 2024
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں(۳)
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں(۳)
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضور نبی کریم کے عاشق صادق تھے۔ آپ ان دس خوش نصیب صحابہ میں شامل ہیں جنہیں حضور نبی کریمﷺنے جنتی ہونے کی بشارت دی۔ جنگ احد کے موقع پر جب مسلمانوں میں افراتفری پھیلی تو حضرت طلحہ ان چند اصحاب میں تھے جنہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی حفاظت کی خاطر انہیں اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
آپ نے نبی کریم ﷺ کی حفاظت کی خاطر بے شمار شجاعت و بہادری اور جانثاری کا مظاہرہ کیا۔ جنگ احد میں حضور نبی کریم ﷺ کی حفاظت کے دوران کفار کے تیروں اور برچھیوں کے وار سے آپ بہت زیادہ زخمی ہو گئے۔ہاتھ کی کچھ انگلیاں کٹ گئیں۔ جب کفار کے حملوں کی شدت کم ہوئی تو حضرت طلحہؓ خود زخمی ہونے کے باوجود حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر جبل احد پر ایک محفوظ مقام پر لے گئے۔ لڑائی کے بعد آپ کے جسم پر 80 سے زائد زخم موجود تھے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اس جانبازی کی وجہ سے آپکو ”خیر“ کا لقب عطا فرمایا۔
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار السابقون الاوالون میں ہوتا ہے. یعنی وہ خوش نصیب صحابہ کرام جو ابتدائے اسلام میں ہی مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ آپ بھی عشق مصطفی سے سر شار تھے اور ہر وقت اپنا سب کچھ حضور نبی کریم ﷺ پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ جب آپ نے اسلام قبول کیا تو کفار آپ کے سخت خلاف ہو گئے۔ آپ کو سخت تکالیف دی جاتیں اور دہکتے کوئلوں پرلٹا کر ایک آدمی آپ کے سینہ پر بٹھا دیا جاتا تا کہ آپ کروٹ نہ بدل سکیں۔آپ صبر وتحمل کے ساتھ سب برداشت کرتے رہتے۔ یہاں تک کہ آپ کے خون سے انگارے ٹھنڈے ہو جاتے۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ نے دامن مصطفی کو نا چھوڑا۔ ایک مرتبہ آپ کے آقا نے لوہے کی گرم سیخ کے ساتھ آپ کا سر مبارک داغا۔ آپ نے اپنا سر آپ کو دکھایا اور عرض کی یا رسول اللہ میرے لیے دعا کریں۔آپ نے فرمایا اے اللہ خباب کی مدد فرما۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ آپ کی پیٹھ کو دیکھا گیا تو تمام جلد پر جلنے کے نشان تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں تعظیم کے ساتھ اپنے گدے پر بٹھایا۔ ایک مشرک نے حضرت خباب ؓ سے قرض لیا اور واپس کرنے سے انکار کر دیا اور کہا جب تک تم دامن مصطفی نہیں چھوڑوگے میں قرض واپس نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا یہ دنیا کا مال یہاں ہی رہ جانا ہے اگر خباب کی جان بھی چلی جائے تو بھی دامن مصطفی نہیں چھوڑوں گا۔
آپ نے نبی کریم ﷺ کی حفاظت کی خاطر بے شمار شجاعت و بہادری اور جانثاری کا مظاہرہ کیا۔ جنگ احد میں حضور نبی کریم ﷺ کی حفاظت کے دوران کفار کے تیروں اور برچھیوں کے وار سے آپ بہت زیادہ زخمی ہو گئے۔ہاتھ کی کچھ انگلیاں کٹ گئیں۔ جب کفار کے حملوں کی شدت کم ہوئی تو حضرت طلحہؓ خود زخمی ہونے کے باوجود حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر جبل احد پر ایک محفوظ مقام پر لے گئے۔ لڑائی کے بعد آپ کے جسم پر 80 سے زائد زخم موجود تھے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اس جانبازی کی وجہ سے آپکو ”خیر“ کا لقب عطا فرمایا۔
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار السابقون الاوالون میں ہوتا ہے. یعنی وہ خوش نصیب صحابہ کرام جو ابتدائے اسلام میں ہی مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ آپ بھی عشق مصطفی سے سر شار تھے اور ہر وقت اپنا سب کچھ حضور نبی کریم ﷺ پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ جب آپ نے اسلام قبول کیا تو کفار آپ کے سخت خلاف ہو گئے۔ آپ کو سخت تکالیف دی جاتیں اور دہکتے کوئلوں پرلٹا کر ایک آدمی آپ کے سینہ پر بٹھا دیا جاتا تا کہ آپ کروٹ نہ بدل سکیں۔آپ صبر وتحمل کے ساتھ سب برداشت کرتے رہتے۔ یہاں تک کہ آپ کے خون سے انگارے ٹھنڈے ہو جاتے۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ نے دامن مصطفی کو نا چھوڑا۔ ایک مرتبہ آپ کے آقا نے لوہے کی گرم سیخ کے ساتھ آپ کا سر مبارک داغا۔ آپ نے اپنا سر آپ کو دکھایا اور عرض کی یا رسول اللہ میرے لیے دعا کریں۔آپ نے فرمایا اے اللہ خباب کی مدد فرما۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ آپ کی پیٹھ کو دیکھا گیا تو تمام جلد پر جلنے کے نشان تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں تعظیم کے ساتھ اپنے گدے پر بٹھایا۔ ایک مشرک نے حضرت خباب ؓ سے قرض لیا اور واپس کرنے سے انکار کر دیا اور کہا جب تک تم دامن مصطفی نہیں چھوڑوگے میں قرض واپس نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا یہ دنیا کا مال یہاں ہی رہ جانا ہے اگر خباب کی جان بھی چلی جائے تو بھی دامن مصطفی نہیں چھوڑوں گا۔
منگل، 12 نومبر، 2024
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں(۲)
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں(۲)
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عشق مصطفی ﷺ میں فنا تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بڑی تکالیف پہنچائی گئیں۔تپتی ریت پر لٹایا جاتا ، دہکتے کوئلے زبان پر رکھے جاتے لیکن آپ نے ان ساری تکالیف کے باوجود دامن مصطفی کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ آپ ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے۔آپ کسی کام کا حکم دیتے تو اس کام کو کرنے کے لیے اپنی جان تک لڑا دیتے تھے۔ آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن بھی تھے اور رات بھر عبادت میں مشغول بھی رہتے تھے۔ آپ ہر وضو کے بعد دو رکعت نفل تحیة الوضو کی نیت سے پڑھتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ بہت زیادہ غمگین ہو گئے اورمدینہ منورہ سے ہجرت کر کے شام تشریف لے گئے۔ ایک رات خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا: اے بلال تم اب ہم سے ملنے مدینے نہیں آتے ہو‘ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کے لیے آﺅ۔ اس خواب کے بعد آپ فوری طور پر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے اور روضہ رسول پر حاضری دی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں اس قدر روئے کہ آنسوﺅں کی جھڑی لگ گئی۔ اس موقع پر حضرت امام حسن مجتبی اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی موجود تھے۔ حضرت بلال ؓ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشو ں کو بار بار سینے سے لگاتے اور ان کا منہ اور سر چومتے۔ علامہ قبال رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں :
اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عشق مصطفی سے سرشار تھے اور ہر وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضررہتے۔ آپ کاکام صرف یہی ہوتا کہ جمال یار کو ہر وقت تکتے رہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یارسول اللہ آپ کا مشاہدہ میری جان کا سرمایہ راحت اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد لطیف غذا اس لیے نہ کھاتے تھے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ ایک مرتبہ آپ کو بھنی ہوئی بکری کے گوشت کی دعوت دی گئی تو آپ نے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ میرے محبوب نے دنیا سے اس حال میں وصال فرمایا کہ کبھی جو کی روٹی بھی آسودہ ہو کر نہیں کھائی۔
پیر، 11 نومبر، 2024
کی محمد ؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں(۱)
کی محمد ؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں(۱)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن کا جتنا بھی شکر بجا لایا جائے کم ہے لیکن ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عشق مصطفیﷺ ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے یہ عظیم نعمت عطا فرماتا ہے ۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے والدین ، اولاد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے ۔ (بخاری ، مسلم )
کائنات میں بہت سے عاشقان مصطفیﷺ گزرے ہیں لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عشق ایسا کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ انھوں نے اپنا مال ، جان اور اولادسب کچھ آپؐ پہ قربان کر دیا ۔ بہت ساری تکلیفیں اٹھائیں لیکن دامن مصطفی ﷺ کو نہیں چھوڑا۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور آپؓ کے خاندان کو کفار نے بہت تکالیف دیں ۔ گرمی کے موسم میں تپتی ریت پر لٹا دیتے ۔ جسم پر دہکتے ہوئے کوئلے رکھے جاتے پانی میں غوطے دیے جاتے لیکن ان تمام تکالیف کے باوجود آپؓ اور آپؓ کے خاندان نے عشق مصطفیﷺ کا دامن نہ چھوڑا ۔ حضرت عمار ؓ کی والدہ کو کفار نے نہایت بُری طرح نیزے کے ساتھ شہید کر دیا ۔ تاریخ اسلام کی یہ پہلی دردناک شہادت تھی ۔ آپؓ کے والد اور بھائی کو بھی اسی طرح اذیتیں دے دے کر شہید کر دیا گیا ۔
ایک مرتبہ کفار نے حضرت عمار ؓ کو دہکتے کوئلوں پر لٹایا تو وہاں سے آپؐ کا گزر ہوا آپ نے اپنا دست مبارک حضرت عمار یاسرؓ کے سر پر پھیر ا اور فرمایا، اے آگ، تو ابراہیم علیہ السلام کی طرح عمار پر بھی سلامتی والی ہو جا ۔ جب آپؐ آپؓکے گھر کی طرف سے گزرتے تو آپؓ کے خاندان والوں کو تکالیف میں مبتلا دیکھ کر فرماتے، اے آلِ عمارؓ، تمھیں بشارت ہو جنت تمھاری منتظر ہے ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر وقت نبی کریمﷺ کے در اقدس میں سر جھکائے حاضر رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپؓ بڑی توجہ کے ساتھ حضور نبی کریمﷺ کے ارشادات سن رہے تھے کہ آپؐ نے حضرت معاذؓ کا بازو پکڑ لیا اور ارشاد فرمایا، میں تم سے محبت رکھتا ہوں ۔ حضرت معاذؓ نے نہایت خوشی کے عالم میں عرض کی، یارسو ل اللہﷺ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان میں بھی آپؐ سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اور دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر آپؐ سے محبت کرتا ہوں۔ آپؐ نے مسکر اکر فرمایا نمازوں کے بعد یہ دعا پڑھنا نہ بھولنا، ’اے اللہ، اپنا ذکر ، شکر اور اپنی عبادت اچھی طرح کرنے کے لیے میری مدد فرما‘۔
کائنات میں بہت سے عاشقان مصطفیﷺ گزرے ہیں لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عشق ایسا کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ انھوں نے اپنا مال ، جان اور اولادسب کچھ آپؐ پہ قربان کر دیا ۔ بہت ساری تکلیفیں اٹھائیں لیکن دامن مصطفی ﷺ کو نہیں چھوڑا۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور آپؓ کے خاندان کو کفار نے بہت تکالیف دیں ۔ گرمی کے موسم میں تپتی ریت پر لٹا دیتے ۔ جسم پر دہکتے ہوئے کوئلے رکھے جاتے پانی میں غوطے دیے جاتے لیکن ان تمام تکالیف کے باوجود آپؓ اور آپؓ کے خاندان نے عشق مصطفیﷺ کا دامن نہ چھوڑا ۔ حضرت عمار ؓ کی والدہ کو کفار نے نہایت بُری طرح نیزے کے ساتھ شہید کر دیا ۔ تاریخ اسلام کی یہ پہلی دردناک شہادت تھی ۔ آپؓ کے والد اور بھائی کو بھی اسی طرح اذیتیں دے دے کر شہید کر دیا گیا ۔
ایک مرتبہ کفار نے حضرت عمار ؓ کو دہکتے کوئلوں پر لٹایا تو وہاں سے آپؐ کا گزر ہوا آپ نے اپنا دست مبارک حضرت عمار یاسرؓ کے سر پر پھیر ا اور فرمایا، اے آگ، تو ابراہیم علیہ السلام کی طرح عمار پر بھی سلامتی والی ہو جا ۔ جب آپؐ آپؓکے گھر کی طرف سے گزرتے تو آپؓ کے خاندان والوں کو تکالیف میں مبتلا دیکھ کر فرماتے، اے آلِ عمارؓ، تمھیں بشارت ہو جنت تمھاری منتظر ہے ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر وقت نبی کریمﷺ کے در اقدس میں سر جھکائے حاضر رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپؓ بڑی توجہ کے ساتھ حضور نبی کریمﷺ کے ارشادات سن رہے تھے کہ آپؐ نے حضرت معاذؓ کا بازو پکڑ لیا اور ارشاد فرمایا، میں تم سے محبت رکھتا ہوں ۔ حضرت معاذؓ نے نہایت خوشی کے عالم میں عرض کی، یارسو ل اللہﷺ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان میں بھی آپؐ سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اور دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر آپؐ سے محبت کرتا ہوں۔ آپؐ نے مسکر اکر فرمایا نمازوں کے بعد یہ دعا پڑھنا نہ بھولنا، ’اے اللہ، اپنا ذکر ، شکر اور اپنی عبادت اچھی طرح کرنے کے لیے میری مدد فرما‘۔
اتوار، 10 نومبر، 2024
علامہ محمد اقبال کا عشق مصطفی ﷺ(۲)
علامہ محمد اقبال کا عشق مصطفی ﷺ(۲)
ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی یہ کہے آپ کے کپڑے مبارک میلے تھے۔ علامہ محمد اقبال بہت بڑے فلسفی تھے سارا معاملہ عقل کے بل بوتے پر کرتے تھے لیکن کبھی بھی سیرت مصطفی ؐ کو عقل کی کسوٹی پر جانچنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ اس معاملہ میں وہ ایمان بالغیب کے قائل تھے بس حضور نبی کریم ﷺ نے جو فرما دیا وہ دین وایماں اور سر آنکھوں پر۔ایک مرتبہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کا دیدار کیسے ممکن ہے تو آپ نے فرمایا کہ پہلے ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرو اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالو اور پھر اپنے آپ کو دیکھو۔ یہ ہی آپ کا دیدار ہے۔
حقیقی محبت محبوب سے منسوب ہر چیز سے محبت کا تقاضا کرتی ہے اقبال نے بھی محبت کے اس تقاضے کو کما حقہ پورا کیا ہے۔ انہیں حضورﷺکے شہر اقدس کی خاک ذروں سے اس قدر عقیدت ہے کہ وہ ان ذروں کو جہان کی ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
خاک یثرب از دو عالم خوش تراست
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبرداست
مدینہ منورہ کی قدرو منزلت اور خاک حجاز سے عقیدت میں علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وہ زمین ہے تو مگر اے خوابگاہ مصطفی ؐ
دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا
خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں
تجھ میں راحت اس شہنشاہ معظم کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوام عالم کو ملی
علامہ اقبال جب ارض و سما پر نظر ڈالتے ہیں اور جہان رنگ و بو کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھتے ہیں تو انہیں ہر پہلو وجود عشق مصطفی ؐ
سے لبریز نظر آتاہے۔ آپ فرماتے ہیں :
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش امادہ اسی نام سے ہے
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تصوف سے لگن ، رومی ، جامی ، حضرت داتا گنج بخش، بابا فرید الدین مسعود ، سلطان الہند خواجہ غریب نواز
، نظام الدین اولیا ء رحمۃ اللہ علیھم اجمعین کے افکار و فرمودات سے میسر آئیں۔
ڈاکٹر این میری شمل لکھتی ہیں کہ آپ داتا صاحب کے ماننے والے تھے اور صبح کی نماز مسجد داتا صاحب میں روحانی سکون اور عرفان کے لیے ادا کرتے تھے۔ پروفیسر محمودالحسن اپنی تصنیف ’’داتا گنج بخش علیہ الرحمہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کو مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا خیال اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے دوران ہی آیا تھا۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا تعلق سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ جوڑیں۔ تا کہ سیرت مبارکہ ان کے لیے مشعل راہ بنے ا...
-
حضور ﷺ کی شان حضور ﷺ کی زبان سے (۱) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ ن...