اسلامی معاشرے کے عوامل (1)
اسلامی معاشرہ انسان کے روحانی اور جسمانی ہر طرح کے تقاضوں اور ضروریات کی تکمیل کا نام ہے جس کے پس منظر میں خالق کائنات کی ہستی کار فرما ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو ’’احسن صورت کے ساتھ پیدا کیا ‘‘کے اعلان کے تحت اشرف المخلوقات بنایا۔ اس لیے خالق کائنات مالک کائنات بہتر جانتا ہے کہ انسانوں کے لیے حسن معاشرت کا آئین کیا ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اس بات پر پختہ یقین رکھے کہ اس کا ئنات کا خالق و مالک رب اور معبود ایک اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ ہم سبھی اسی کے در کے محتاج ہیں اور کسی کے محتاج نہیں۔ اسی کے بنانے سے ہر بات بنتی ہے اور اگر وہ نہ چاہے تو کچھ نہ بنے۔ توحید کے بعد جب تک سید دو عالم وجہ تخلیق کائنات محبوب خدا ﷺ کے ساتھ محبت نہ ہو اور اتباع رسول ﷺ کا مکمل اہتمام نہ ہو اس وقت تک معاشرتی اقدار کی تکمیل نا ممکن ہے۔ اس لیے توحید باری تعالیٰ کے ساتھ اتباع رسول ﷺ بھی لازم وملزوم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ توحید کا رنگ صحیح معنوں میں صرف اسی وقت چڑھے گا جب ہم اتباع رسول ﷺ کے عملی پیکر بن جائیں گے اور اتباع رسول ﷺ کو ہی زندگی کا نصب العین بنائیں گے۔ اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ محبوب خدا ﷺ سے محبت کرے۔
توحید ورسالت کے بعد سب سے بڑا عقیدہ ، عقیدہ آخرت ہے جس کی وجہ سے جزا و سزا پر کامل یقین کی وجہ سے انسان گناہ کی طرف راغب نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر برائیوں سے بچتا اور نیکی کی طرف راغب ہوتا ہے۔ طبقاتی منافرت اور گروہی عصبیت کی بنیاد پر معاشرے کی تقسیم کر کے جنگ و جدل اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے کی بجائے اسلام نے حفظ و مراتب دوسروں کے لیے نفع بخش انفرادی قوتوں ، صلاحیتوں اور اقرباء کے فطری معیار پر معاشرے کے لیے مختلف درجات متعین فرمائے جس کی بنا پر ہر فرد ایک دوسرے کا مدد گار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے بعد بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے جن میں سب سے پہلے والدین پھر رشتہ دار، یتیم ، مسکین ،قریب کے ہمسائے ، دور کے ہمسائے ، دوست ، مسافر اور نوکر چاکر کا درجہ آتا ہے۔ ان سب درجات میں باہمی رواداری ، صلہ رحمی ، معاشرتی عدل کا ایک کلیہ حسن سلوک کو قرار دے دیا ہے۔
توحید ورسالت کے بعد سب سے بڑا عقیدہ ، عقیدہ آخرت ہے جس کی وجہ سے جزا و سزا پر کامل یقین کی وجہ سے انسان گناہ کی طرف راغب نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر برائیوں سے بچتا اور نیکی کی طرف راغب ہوتا ہے۔ طبقاتی منافرت اور گروہی عصبیت کی بنیاد پر معاشرے کی تقسیم کر کے جنگ و جدل اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے کی بجائے اسلام نے حفظ و مراتب دوسروں کے لیے نفع بخش انفرادی قوتوں ، صلاحیتوں اور اقرباء کے فطری معیار پر معاشرے کے لیے مختلف درجات متعین فرمائے جس کی بنا پر ہر فرد ایک دوسرے کا مدد گار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے بعد بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے جن میں سب سے پہلے والدین پھر رشتہ دار، یتیم ، مسکین ،قریب کے ہمسائے ، دور کے ہمسائے ، دوست ، مسافر اور نوکر چاکر کا درجہ آتا ہے۔ ان سب درجات میں باہمی رواداری ، صلہ رحمی ، معاشرتی عدل کا ایک کلیہ حسن سلوک کو قرار دے دیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں