اتوار، 30 جولائی، 2023

شان اہل بیت(۲)


 

شان اہل بیت(۲)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی :’’ آپ فرما دیں کہ آ جائو ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی ایک جگہ بلا لیتے ہیں ‘‘۔ 
تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہم السلام کو بلایا ، پھر فرمایا :
 یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قریش آپس میں ملتے ہیں تو مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔
حضرت عباس فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  یہ سن کر شدید جلال میں آ گئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر ماں کے بیٹوں کا آبائی خاندان ہو تا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے ، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔ 
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔حضرت عبد الرحمان ابی لیلٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کو ئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب تر نہ ہو جائوں اور میرے اہل بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولادا سے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔ 
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔

Surah Al-Tawba ayat 01-04 . مشرک سے اللہ تعالی اور اس کے رسول بیزار ہیں

نیک اعمال شروع کب ہوتے ہیں؟ - Shortvideo

ہفتہ، 29 جولائی، 2023

شان اہل بیت(۱)

 

 شان اہل بیت(۱)

ارشاد باری تعالی ہے کہ:
 تم فرمادو۔ میں تم سے اس پر کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دینے کے لیے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے تھے جسے خم کہتے ہیں۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا ء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہو ں۔
 عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہو ں ، ان میں سے پہلی اللہ تعالی کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اللہ تعالی کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتاب اللہ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دی اور اس کی طرف راغب کیا۔  پھر فرمایا:
اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں 
تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اللہ تعالی کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہل بیت اور یہ دونوں ہر گز جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ دونوں میرے پاس اکھٹے حوض کوثر پر آئیں گے۔ پس دیکھو تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو آپ نے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا ، پھر حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ آئے وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے ،
 پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا ، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو آپ نے انہیں بھی اس چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اللہ تو یہ ہی چاہتا ہے اے اہل بیت ! تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔ ان کی پاکی کا اہتمام خدائے پاک کرتا ہے۔ بیانِ
     آیت تطہیر سے ظاہر ہے شان اہلبیت

Surah Al-Anfal ayat 67-75.کیا ہم سچے مومن ہیں

نیک اعمال کیسے ضائع ہوتے ہیں؟ - Shortvideo

جمعہ، 28 جولائی، 2023

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ(۲)


 

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ(۲)

میدان کر بلا میں حق کی خاطر خاندان ِنبوتﷺ نے جو قربانی پیش کی تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سب نبیوں پر ، سب رسولوں پر مشکلات آئیں۔ یہ خدا کا قانون تھا اور ہے۔ کوئی جتنا بڑا ہو گا اس پر اتنی بڑی مصیبت آئے گی تا کہ وہ اس مصیبت میں صبر کرے۔ اس امتحان میں کامیاب ہو اور قرب خدا کی منزل حاصل کرلے۔ حضور ﷺنے فرمایا : جتنا میں ستایا گیا ہوں اتنا کوئی نبی نہیں ستایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ رسول خدا ﷺ کے جگر کے ٹکڑے کربلا کے میدان میں شہید ہو گئے۔ اللہ کو یہ صبر اور رضا مطلوب تھی جو خاندان نبوتﷺ نے پیش کی۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا کے میدان میں خدا اور اس کے رسولﷺ کے حکم سے آئے تھے اور آپ نے قیامت تک کے لیے اسلام کو زندہ کرنا تھا ،پیغام قرآن کو عام کرنا تھا ، خلافت کی آبرو کو بچا نا تھا ، شہادت کا تاج سر پر سجانا تھا ،امت کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا نا تھا اور دین الٰہی کے اصولوں کو منوانا تھا۔میدان کربلا میں باری باری اعوان و انصار جانیں فدا کرتے رہے ، اصحاب رسول ﷺ نے قربانیاں پیش کیں ، تابعین نے قربانیاں پیش کیں اور وقت کے جید علماءاور قراءنے امام حسین کے قدموں میں شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔ جب آخر میں خاندان بنو ہاشم کے افراد رہ گئے تو پھر بنو ہاشم کے افراد نے باری باری شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔ سیدنا امام حسین شہزادوں کو میدان کربلا میں بھیجتے رہے اور جب شہید ہو جاتے تو لاشیں اٹھا کر لاتے رہے۔ دنیا میں انبیاءو مرسلین کے بعد ایسا امتحان ، صبر ، عزم ، استقامت ، استقلال اور ایسی جواں مردی اور اتنی ہمت یہ صرف امام حسین کا حصہ ہے۔
پھر سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باری آئی۔ آپ میدان کربلا میں جانے کی تیاری کرتے ہیں اور خیمے میں آخری سلام کر کے میدان کربلا کی طرف نکل جاتے ہیں۔ اور نعرہ تکبیر لگا کر یزید کے لشکر پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اور جدھر جدھر آپ کی تلوار چلتی تھی یزیدیوں کی گردنیں اڑتی جاتی تھیں۔امام حسین یزیدیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے جا رہے تھے۔پھر یزیدیوں نے مل کر امام عالی مقام پر حملہ کیا آپ پر تیروں کی بارش کر دی۔ ایک تیر آپ کے سینہ مبارک میں لگا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے اور زمین پر گر پڑے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سجدہ کی حالت میں تھے کہ شمر لعین نے آپ کی گردن کو تن سے جدا کر دیا اور امام عالی مقام امام حسین شہادت کے اعلی مرتبہ پر فائض ہو گئے۔

 قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Surah Al-Anfal ayat 60-66.دنیا دار الامتحان ہے

رب کی رضا کی اہمیت - Shortvideo

جمعرات، 27 جولائی، 2023

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ(۱)

 

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ(۱)

نواسہ رسول جگر گوشہ بطول امام عالی مقام امام حسین پاک رضی اللہ تعالی عنہ  کی ولادت 5 شعبانُ المعظم 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ حضور نبی کریم ﷺ حسنین کریمین سے بے انتہا پیار فرماتے تھے آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے : 
کہ یہ میرے گلدستے ہیں۔حضور ﷺ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لے جاتے تو فرماتے میرے بچوں کو لانا ۔ حضرت فاطمہ صاحبزادوں کو لاتیں آپ ﷺ ان کو چومتے اور سینہ سے لگاتے ۔
حضور ﷺ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ امام حسین علیہ السلام سرخ کپڑے پہنے ہوئے آئے ۔ کم عمری کی وجہ سے آپ کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ۔ آپ ﷺسے برداشت نہ ہو سکا آپ ﷺ منبر سے اتر کر ان کو گود میں بٹھا لیا ۔ پھر فرمایا اللہ تعالی نے سچ کہا ہے کہ ’’بے شک تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں ‘‘۔ 
حضو ر ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ حسین میرا ہے اور میں حسین کا ہوں ۔ خدا س سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھے ۔
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایایہ میرے دو بیٹے حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا حُسَیْنٌ مِنی وَ أَنَا مِنْ حُسَیْنٍ یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ رسول خدا ﷺ نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں دعا فرمائی کہ اے اللہ اس کو اپنا محبوب بنالے جس نے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت رکھی اور رسول خدا ﷺکی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ اپنے نواسے کو گود میں بٹھا کر لبوں کو بوسہ دیتے اور ساتھ یہ فرماتے کہ الہٰی میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنالے۔ 
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود میں کود کر شرک و برائی کو خاکستر کر دیا تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے ظلم و استبداد کو نیل برد کر دیا تھا ۔ سرکار دو عالم ﷺ نے مکہ کے ظالموں کا مقابلہ کیا اور روشنی کے عظیم الشان مینار کھڑے کیے جن کی روشنی میں انسانیت کے لیے آج بھی رشدو ہدایت ہے ۔ اس عظیم الشان نبی ﷺ کے عظیم الشان نواسے ا ور شہید رنگین قبا کے سردار امام حسین نے حق گوئی کی خاطر اور اصولوں کی خاطر اپنا تن من دھن اور اہل و عیال کو قربانکر دیا تھا ۔ 
شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ 
دین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓ
سرداد نہ داد دست در دست یزید 
حق کہ بنائے لا الہٰ است حسینؓ

Surah Al-Anfal ayat 60 part-02.کیا صدقہ سے مال کم ہو جاتا ہے

اللہ تعالٰی راضی کیسے ہوگا؟ - Shortvideo

بدھ، 26 جولائی، 2023

حضرت سیدناامام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالی عنہ

 

حضرت سیدناامام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت امام حسن ؓکی ولادت ِباسعادت پندرہ رمضان المبارک 3ہجری کی شب مدینہ منورہ میں ہوئی حضور نبی اکرمﷺ نے آپ کا نام حسن رکھاپیدائش کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا اور بال منڈوائے اور حکم دیا کہ بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی جائے۔امام حسنؓ شکل و صورت میں رسول اللہﷺ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور حسن یہ جنتی نام ہے آپ سے پہلے کسی کانام حسن نہیں رکھا گیا۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺحضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھائے ہوئے تھے کسی صحابی نے عرض کی ا ے صاحبزادے تیری سواری کتنی اچھی ہے یہ سن کر نبی اکرمﷺ نے فرمایا اے صحابی اگر سواری اچھی ہے مگر یہ بھی تو دیکھ سوار کتنا اچھا ہے(مشکوۃ شریف)۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سینہ سے لے کر سر تک رسول اللہ ﷺ کے مشابہ تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے نیچے  رسول اللہﷺ کے مشابہ تھے(ترمذی)۔ 
آپ کی پوری زندگی زہد و تقوٰی و طہارت کا حسین گلدستہ ہے۔ آپ کا کلام بہت ہی شریں ہوتا تھا۔ اہل مجلس نہیں چاہتے کہ آپ گفتگو ختم فرمائیں۔ فیاضی و سخاوت میں بھی امتیازی شان رکھتے تھے کسی سائل کو کسی حال میں اپنے گھر سے خالی ہاتھ واپس نہ کرتے تھے بلکہ فیاضی تو آپ کو وراثت میں ملی تھی ایک ایک آدمی کو ایک ایک لاکھ روپیہ عطا فرمادیتے تھے۔ ابن سعد علی ابن زید جدعان سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حسنؓنے دو مرتبہ اپنا کل مال راہ خدا میں دے ڈالا اور تین مرتبہ اپنا آدھامال  راہ خدا میں صدقہ کیا ۔
حضرت امام حسنؓ  کورسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ میرا بیٹا سیدہے۔یعنی سردار ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں  کے درمیان مصالحت کردے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہﷺ کی گود میں دیکھاکہ وہ اپنی انگلیاں نبی رحمتﷺ کی داڑھی مبارک میں ڈالتے تھے اور نبی اکرمﷺ اپنی زبان مبارک ان کے منہ میںڈالتے تھے اور اللہ کے حضور عرض کرتے تھے اے اللہ میں اس کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی اس کو محبوب رکھ۔حاکم نے عبد اللہ بن عبید عمر سے روایت کیا کہ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پچیس حج پیدل کئے ہیں جبکہ سواریاں آپ کے پاس موجود تھیں۔

Surah Al-Anfal ayat 60 part-01.کیا ہم اللہ تعالی کے دین کے سب سے بڑے دشم...

ہم اللہ تعالٰی کو کیسے راضی کریں؟ - Shortvideo

منگل، 25 جولائی، 2023

حضرت سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا (2)

 

حضرت سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا (2)

سیدہ عاملین سیدہ فاطمۃ الزھرہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنی والدہ ماجدہ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن اقدس سے سرور کائنات ﷺ کی پیاری صاحبزادی ہیں ۔ نبوت کا پہلاسال اور جمادی الثانی کی بیس تاریخ جبکہ حضور نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی جب آپ کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی ۔حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی صاحبزادی کا نام فاطمہ رکھا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کو اور اس کے محبین کو دوزخ سے آزاد کر دیا ہے ۔احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ سیدہ کائنات اسلام کی وہ مقدس شہزادی ہیں جو ہر قسم کی ظاہری وباطنی آلائش ، رجس اور نجس سے مبراء تھیں ۔ آپ طاہرہ بھی ہیں سیدہ بھی آپ بتول بھی ہیں ۔ حضور ﷺنے فرمایا فاطمہ ساری کائنات کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ 
کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی 
زہرہ ہے کلی جس میں حسن و حسین پھول 
حضرت فاطمۃ الزھرہ سلام اللہ علیہا سیدہ بھی ہیں ، طیبہ بھی ہیں ، طاہرہ بھی ہیں ، زکیہ بھی ہیں ، راضیہ بھی ہیں رضیہ بھی ہیں ، جو عالمہ بھی ہیں حافظہ بھی ہیں ، جو عابدہ بھی ہیں زاہدہ بھی جو ساجدہ بھی ہیں اور راکعہ بھی ، جو خاشعہ بھی ہیں ، جو صابرہ بھی ہیں اور شاکرہ بھی ، جو مومنہ بھی ہیں اور محسنہ بھی ، جو مخدومہ بھی ہیں اور جو منورہ بھی ہیں ، جو بتول بھی ہیں اور بنت رسول بھی اور جان رسول بھی ہیں ۔
اگر فاطمہ کی گود نہ ہوتی 
تو کربلا میدان نہ ہوتا 
اگر فاطمہ کی رضاعت نہ ہوتی 
تو حسین کی شہادت نہ ہوتی 
اگر فاطمہ کا دودھ نہ ہوتا 
تو حسین کا خون نہ ہوتا 
اگر فاطمہ کے دودھ میں شیرینی نہ ہوتی 
تو حسین کے خون میں رنگینی نہ ہوتی 
ایسی عالیشان ماں جو حسین کو لوریاں دیتی ہے تو لب پر قرآن ہوتا ہے ، جھولا جھلاتی ہیں تو لب پر قرآن ہوتا ہے ، آٹا گوندتی تھی تو لب پر قرآن ہوتا ہے ، چکی پیستی ہیں تو لب پر قرآن ہوتا ہے ، جو شہزادہ حسین کو سینہ سے لگاتی ہیں تو لب پر قرآن ہوتا ہے دودھ پلاتی ہیں تو لب پر قرآن ہوتا ہے ۔ان کی یہ تربیت اور تلاوت ایسا کا م کرتی ہے کہ حسین نے گویا ماں کی گود میں جو وعدہ کر لیا تھا کہ ماں لوریاں دے کر ، جھولا جھلا کر ، چکی پیستے اور سینہ سے لگا کر دودھ پلاتے قرآن سنانا تیرا کام تھا کر بلا میں خون بہا کر ، بچے کٹا کر خیمے جلا کر نیزے کی نوک پر قرآن سنانا میرا کام ہے ۔
اس بتول جگر پارئہ مصطفی 
حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام

کیا ہم جانوروں سے بد تر زندگی گزار رہے ہیں؟ - Shortvideo

حضرت سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا (1)


 

حضرت سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا (1)

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضورنبی اکرمﷺ کی لخت جگر،حضرت علی شیرخدارضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ، حسنین کریمین کی والدہ ماجدہ اور تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں اللہ تعالیٰ نے اولاد رسول ﷺ کا نورانی سلسلہ آپ ہی سے جاری فرمایا۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بیشک فاطمہ پاک ہے اللہ نے اس کی اولاد کو دوزخ سے آزاد کیا ہے حضرت جمیع بن عمیر ؓ تیمی سے روایت کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت سیدہ عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا فاطمہ ؓ پھر میں نے عرض کی مردوں میں کون سب سے زیادہ تھا؟ توحضرت عائشہؓ نے فرمایا انکے شوہر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں نبی اکرمﷺ جب سفر کیلئے باہر تشریف لے جاتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ سے ملاقات فرماتے۔سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے وصال فرمانے سے پہلے آخری دنوں میں حضرت فاطمہ کے کانوں میں کچھ راز کی باتیں کہیں جس کو سن کر آپ رونے لگیں پھر تھوڑی دیر بعد حضرت سیدہ فاطمہ ؓ مسکرا پڑیں،توحضرت فاطمہؓ سے پوچھا گیاکہ آپکے رونے کی کیا وجہ تھی تو آپ نے فرمایاحضو ر ﷺ کے وصال کی خبر سن کر رونے لگی اور مسکرانے کی وجہ دریافت کرنے پر سیدہؓ نے فرمایاآقائے کائناتﷺ نے فرمایا اے فاطمہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں تمام جنتی عورتوں کی سردار تم ہویا تمام مومن عورتوں کی سردار تم ہو۔ایک روایت میں ہے کہ آپ سے مسکرانے کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا حضور ﷺ نے مجھے خبر دی کہ میں ان کے گھر والوں میں پہلی ہوں گی جو آپکے پاس پہنچوں گی۔دوسری روایت میں ہے سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا حضرت فاطمہؓ نے عرض کی اے اباجان حضرت مر یم ؑکا کیا مقام ہے؟توحضور ﷺ نے فرمایاوہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں۔نیزنبی اکرمﷺ فرمایا حضرت مریم بنت عمران والدہ حضرت عیسیٰؑ ،حضرت آسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہ بنت محمدﷺ ان میں سب سے زیادہ افضل فاطمہ بنت محمدﷺ ہیں ہر اعتبار سے یہ حقیقت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاحضرت مریم ؑ اورحضرت آسیہ ؓ سے افضل ہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ
 مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز 
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز 
ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں کہحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں مریمؑ کو ایک نسبت حاصل ہے کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کی والدہ ہیں۔لیکن حضرت فاطمہ ؓ کو تین نسبتیں حاصل ہیں پہلی نسبت حضرت محمدمصطفیﷺ کی بیٹی۔دوسری نسبت حضرت مولیٰ علیؓ کی بیوی۔تیسری نسبت حسنین کریمین کی والدہ ماجدہ ہیں۔

اتوار، 23 جولائی، 2023

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ (۲)

 

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ (۲)

بخاری ومسلم نے سعدبن ابی وقاص ؓسے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علیؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایاتوآپنے عرض کی کہ آقاآپ مجھے عورتوں اوربچوں میں چھوڑے جارہے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہے جوھارون کو موسیٰ سے تھی۔امام مسلم نے سہل بن سعد سے روایت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر میں فرمایا"کل میں جھنڈا اس کودونگا جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر کو فتح فرمائے گاوہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے محبت کرتے ہیں" لوگوں نے اس کشمکش میں رات گزاری کہ وہ نہ 

جانے خوش بخت کون ہوگا؟جسے صبح دست رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عَلم عطا ہوگاصبح تمام لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس طرح ہر ایک کے دل میں خواہش تھی کہ کاش یہ سعادت سرکار مجھے بہرہ مند فرمائیں۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیؓ کہاں ہے؟کہا گیا ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔تو نبی رحمتؐ نے انہیں بلا بھیجا۔ جب حضر ت علی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور نبی مکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایاجس سے ان کی ساری تکلیف دور ہوگئی اور آپ کی وہ آنکھ اس طرح ہو گئی گویا اس میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔

حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی کے ہاتھ میں دیا۔ آپ فتح کا عزم لیے قلعہ پر حملہ آور ہوئے۔ یہود کا سورما مرحب رجز چند سرداروں کے ہمراہ قلعہ سے باہر نکلا۔ حضرت علی اس کی جانب بڑھے آپ نے جنگ کے دوران مرحب کو جہنم واصل کر دیا اور قلعہ کو فتح کر لیا۔

اگرچہ آپ نادر شجاعت کے حامل تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ فقیرانہ احساس اور عجز و انکساری کا پیکر تھے۔ جنگ کی وحشت و بربریت کا جذبہ کبھی بھی آپ کے دل میں پیدا نہیں ہوا۔ آپ نے غازیانہ خلق عظیم کی بہترین دنیا میں مثال پیش کی آپ نے کبھی ظلم و تعدی سے کام نہ لیا اور نہ ہی فخرو غرور کی کوئی بات آپ سے سرزد ہوئی بلکہ آپ نے اپنے طرز عمل سے حلم وحیا کی روایت کو عام کیا۔ 

کوفہ میں سترہ رمضان المبارک کو ایک بد بخت خارجی عبدالرحمن نے حالت نماز میں آپ پر حملہ کیا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے اور بیس رمضان المبارک جمعہ کی شب اسلام کا یہ بدر منیر ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔

Surah Al-Anfal ayat 53 part-01.کیا ہم اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو ضا...

دُعا کا مفہوم - Shortvideo

ہفتہ، 22 جولائی، 2023

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ (۱)

 

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ (۱)

امیر المومنین خلیفۃ المسلمین داماد رسول شیر خدا خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت سے 23 سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ ماں اور باپ دونوں کی جانب سے ہاشمی ہیں اور ساری نسل آدم کے دیگر تمام خاندانوں پر بنی ہاشم کو جن امتیازی صفات اور جسمانی علامات کی بنا پر فوقیت حاصل تھی آپ کی ذات مبارکہ ان تمام صفات و علامات کا مرقع تھی۔سرکار دو عالم ؐ کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے والدین سے جو انس و محبت تھی اس کا یہ تقاضا تھا کہ آپ  نے زمانہ قحط میں اپنے محسن چچا ابو طالب کی تنگدستی کو دیکھتے ہوئے ان کا معاشی بوجھ ہلکا کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا اس وقت آپ کی عمر پانچ سال تھی۔آغاز نبوت کے دور میں جب یہ آیت نازل ہوئی ’’ وانذر عشیرتک الاقربین‘‘ تو رب ذولجلال کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رسول کریمﷺ نے بنی ہاشم کے سارے افراد کو مدعو کیا۔ کھانا پیش کرنے کے بعد آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ میں تم لوگوں کو ایسی بات کی طرف دعوت دیتا ہوں جو دینا و آخرت کی فلاح کی ضامن ہے اور میں نہیں جانتا کہ عرب میں کوئی بھی شخص ایسا بے بہا تحفہ لایا ہو۔ آپ میں سے کون میری دعوت کو قبول کرتا ہے اور میرا معاون و مدد گار بنتا ہے۔مگر تمام لوگ خاموش رہے تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اگرچہ میں کم عمر اور کمزور ہوں مگر میں آپ کا دست و بازو بنو گا۔ حضور ؐنے آپ کو بٹھا دیا۔ دوبارہ حاضرین سے خطاب کیا لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اس پر حضرت علی دوبارہ کھڑے ہوئے آپؐ نے آپ کو بٹھا دیا پھر آپ نے تیسری بار لوگوں سے خطاب کیا تو کوئی جواب نہیں ملا پھر حضرت علی کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’ اے علی تو ہی میرا بھائی اور معاون و مدد گار ہے ‘‘۔حضرت علی کو بستر رسول پر آرام فرمانے کا بھی شرف حاصل ہے۔ جب حضور نبی کریم ﷺکو مکہ چھوڑ جانے کی اجازت ملی تو آپ نے فرمایا ’’ اے علی مجھے مکہ چھوڑ کر جانے کا حکم ہوا ہے آج میرے بستر پر میری سبز چادر اوڑھ کر سونا ہو گا اور ذرا اندیشہ نہ کرنا۔ تمہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا‘‘۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ تین روز تک مکہ مکرمہ رہے اور روز کھلی وادی میں جا کر اعلان فرماتے ’’ لوگوں سن لو !جس کسی کی امانت رسول پاکﷺ کے پاس رکھی تھی وہ آئے اور اپنی امانت لے جائے ‘‘۔ چوتھے روز آپ اکیلے مدینہ منورہ روانہ ہوئے اور قبا پہنچ کر حضور ﷺ سے ملاقات کی تو آپؐنے آپ کو گلے لگایا اور فرمایا ’’اے علی دنیااور آخرت میں تم میرے بھائی ہو‘‘۔

Surah Al-Anfal ayat 51-52 Part-03.کیا ہم اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر آگ میں ...

دُنیا میں ایمان کا فائدہ کیا ہے؟ - Shortvideo

جمعہ، 21 جولائی، 2023

حدیث جبرائیل علیہ السلام

 

حدیث جبرائیل علیہ السلام 

یہ حدیث کتب احادیث میں معروف ہے جسے حدیث جبرائیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کے اندر ایمان کی زندگی گزارنے کے بنیادی عقائد و اعمال کا تذکرہ ہے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ایک دن ہم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کی بار گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ہمارے سامنے ایک شخص آیا اس کے کپڑے بہت ہی سفید اور اس کے بال بہت ہی سیاہ تھے اس پر سفر کے آثار بھی ظاہر نہیں تھے اور نہ ہم میں سے اسے کو ئی پہچانتا تھا۔ وہ آکر نبی کریم ﷺ کے پاس اس طرح بیٹھ گیا کہ اس کے دونوں گھٹنے اللہ کے رسول ﷺکے دونوں گھٹنوں سے مل گئے اس نے اپنی ہتھیلیاں اپنی رانوں پہ رکھ لیں۔

عرض کی ! اے محمد ﷺ مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ (1) تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں (2) نماز قائم کرو(3) زکوة ادا کرو (4) رمضان کے روزے رکھو(5) اور استطاعت ہو تو خانہ کعبہ کا حج کرو۔اس شخص نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔حضرت عمر کہتے ہیں کہ ہمیں تعجب ہوا کہ یہ شخص خود سوال کر رہا ہے اور پھر خود تصدیق کر رہا ہے۔اس شخص نے پھر پوچھا آپ ایمان کے بارے میں بتائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ (1) تم اللہ پر ایمان لے آﺅ (2) اس کے فرشتوں پر (3) اس کی کتابوں پر (4) اس کے رسولوں پر (5) روز آخرت پر (6) اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لے آﺅ اس شخص نے کہا کہ آپ سچ فرما رہے ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ آپ مجھے احسان کے بارے میں بتائیں تو آپ ﷺ نے فرمایااحسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں یقیناً دیکھ رہا ہے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ آپ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیں آپ ﷺ نے فرما یا قیامت کی نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنے سردار کو جنے گی اور تم ننگے پاﺅں ننگے بدن مفلس لوگوں کو سردار بنا دیکھو گے جو مضبوط اور مستحکم عمارتوں میں اکڑتے نظر آئیں گے۔حضرت عمر کہتے ہیں کہ وہ شخص چلا گیا. آپ ﷺ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر آپ ﷺ نے پوچھا اے عمر جانتے ہو یہ سائل کون تھا. میں نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا   دین سکھانے آئے تھے۔


Surah Al-Anfal ayat 51-52 part-02. کیا ہم عملا اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بن...

ایمان کی ضرورت؟ - ShortVideo

جمعرات، 20 جولائی، 2023

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ(۲)

 


حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ(۲)
قرآن مجیدکو ایک جگہ جمع کرنے میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب منکرین ختم نبوت کے ساتھ لڑتے ہوئے حفاظ و قراء کی بڑی تعداد شہیدہوئی تو اللہ پاک نے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں یہ بات ڈالی کی قرآن پاک کو ایک جگہ جمع کرنا چاہیے۔ آپ نے یہ تجویز سیدنا صدیق اکبر کو پیش کی تو وہ فرمانے لگے جو کام اللہ کے رسول نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں۔ تو حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا مگر یہ کام بہتر ہے۔ حضرت عمر بار بار حضرت سیدنا صدیق اکبر سے کہتے رہے تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ مان گئے اور آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورہ سے قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا۔ 

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن مجید کو بہت ہی حسین انداز میں سیکھا اور پھر نہایت ہی اعلی شان کے ساتھ دوسروں کو سکھاتے تھے۔ ان کا سیکھنا یہ نہیں تھا کہ فقط صحیح طریقے سے الفاظ ادا کرنا سیکھا ، یا الفاظ قرآن کے معانی سیکھے ، عربی ان کی مادری زبان تھی ، یہ چیزیں ان کی گھٹی میں شامل تھیں ، ان کا سیکھنا یہ تھا کہ ہر آیت میں غورو فکر کر کے اس کے تقاضے پورے کرتے اور پھر اس کے بعد والی آیت سیکھتے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں قرآن مجید کی تعظیم اس قدر تھی کی آپ اس کے ساتھ نسبت والے حضرات کی بھی تکریم فرماتے تھے۔جلیل القدر تابعی حضرت عبد اللہ بن شداد رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق کے پیچھے نماز پڑھی تھی میں سب سے پچھلی صف میں تھا جب آپ نے یہ آیت پڑھی ترجمہ’’ : میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ تعالی سے ہی کرتا ہوں‘‘ تو آپ اتنا روئے کہ آپ کے رونے کی آواز آخر تک سنائی دے رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی۔حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر ، حضرت عمراور حضرت عثمان کے ساتھ احد پہاڑ پر تشریف لے گئے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آ گیا۔ آپؐ نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا : اے احد ٹھہر جا۔ تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کچھ نہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی میں فجر کی امامت فرما رہے تھے کہ ایک بد بخت نے آپ پر حملہ کر دیا۔ جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے۔ چار دن بعد یکم محرم الحرام کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ خالق حقیقی سے جا ملے۔آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اجازت کے بعد روضہ رسول ؐ میں دفن کیا گیا۔


Surah Al-Anfal ayat 51-52 Part-01.کیا آخرت میں ہمارا شمار فرعونیوں کے سا...

بدھ، 19 جولائی، 2023

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ(۱)


 

 حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ(۱)

مراد رسول ، امیر المومنین ، خلیفۃ المسلمین خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ تاریخ انسانی کا ایسا نام ہے جس کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ عام الفیل کے تقریباً 13سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی خوش قسمتی کہ رسول خدا ﷺ نے دعا کر کے رب العالمین سے آپ کومانگا تو اعلان نبوت کے چھٹے برس ماہ ذولحجہ میں اسلام قبول کر لیا۔ تقریباً سات سال مکہ مکرمہ اور گیارہ سال مدینہ منورہ میں رسول پاک ﷺ کے انتہائی قریبی جان نثار ہونے کا شرف پایا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام غزوات میں نمایا ں خدمات سر انجام دیں۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلاب پیدا ہوا بلکہ مسلمانوں کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ وہ مسلمان جو پہلے اسلام کو ظاہر کرتے ہوئے شدیدخطرات محسوس کرتے تھے اب اعلانیہ کعبہ میں عبادت کرتے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ یعنی آپ ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں شامل ہیں جنہیں آپﷺ نے جنت کی بشارت دی۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر نبی کے لیے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں۔ پس اہل آسمان سے میرے دو وزیر جبرائیل و میکا ئیل ہیں اور اہل زمین سے میرے دو وزیر ابو بکر و عمر ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ نے جیسے عرض کی اللہ تعالی اس کی تائید فرماتے ہوئے قرآن مجید کی آیت نازل فرما دیتا۔مثلاً پردے کے احکام، اذان کا طریقہ اور شراب کی حرمت۔ ان آیات مبارکہ کو ’’موافقات عمر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ تقریباً بیس کے قریب ایسی آیات مبارکہ ہیں جو باری تعالی نے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کو پسند فرماتے ہوئے نازل فرمائیں۔
جب مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر مشرکین مکہ کی طرف سے ظلم ستم بڑھ گیا تو مسلمان آ پﷺ کی اجازت سے مدینہ منورہ کے ساتھ کچھ ممالک میں ہجرت کرنے لگے تمام مسلمانوں نے پوشیدہ ہجرت کی لیکن حضرت عمر نے شان و شوکت سے ہجرت کا سفر شروع کیا۔ آپ کعبہ پاک میں تشریف لے گئے طواف کیا اور مقام ابراہیم پر دو نفل ادا کیے اور کافروں کے پاس جا کر کہا جو چاہتا ہے اس کے بچے یتیم ہوں ، جو چاہتا ہے اس کی بیوی بیوہ ہو وہ اس وادی کے پار آ کر میرا مقابلہ کرے سنو! میں مدینہ ہجرت کر رہا ہوں۔

Surah Al-Anfal ayat 48-50 .کیا ہم سچے مومن ہیں

صاحبِ یقین کی دنیاکی زندگی کیسی ہوگی؟ - Shortvideo

منگل، 18 جولائی، 2023

والدین کے حقوق (۲)


 

والدین کے حقوق   (۲)

 احادیث میں مطلقاً رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم ہے یعنی تما م رشتہ دار وں سے خواہ وہ قریبی ہوں یا دور کے حسن سلوک کا برتائو کیا جائے۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ درجات مختلف ہیں اور ان میں والدین کا حق تو بہت ہی اہم ہے  والدین کی تعظیم و توقیر عزت و حرمت کا خیال رکھنا ہر صورت ضروری ہے ۔

ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ وہ خوار ہوا وہ خوار ہو اوہ خوار ہوا پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ

کون خوار ہوا تو فرمایا کہ جس نے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا پھر ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی ‘‘۔ ایک دفعہ ایک صحابی نے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے والدین زندہ ہیں عرض کی جی ہاں فرمایاتو پھر خدمت کا فریضہ جہاد ادا کرو ۔ایک اور احادیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کی بار گاہ میں عرض کی کہ اللہ تعالی کو ہمارے تمام کاموں میں سے کون سا کام سب سے زیادہ پسند ہے فرمایا وقت پر نماز پڑھنا عرض کی پھر کون سا فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا عرض کی پھر کون سا فرمایا راہ خدا میں مشقت اٹھانا ۔

والدین کی اطاعت کے ثواب کے متعلق ایک مرتبہ حبیب خدا نے ایک واقعہ سنایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے وہ سفر کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں بارش شروع ہو گئی یہ تینوں ایک غار میں جا چھپے ۔اللہ کی قدرت غار کے منہ پر ایک پتھر گرا اور منہ بند ہو گیا اب موت ان کے سامنے تھی اس وقت ان تینوں نے بڑے خشوع خضوع کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا کی ہر ایک نے اپنی ایک نیکی کا واسطہ دے کر دعا کی ایک نے کہا الٰہی تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے ہیں میرے بچے چھوٹے ہیں میں بکریاں چراتا ہو ں اور جب شام کو بکریاں گھر لاتا ہو تو دودھ دوھ کر سب سے پہلے والدین کی خدمت میں لاتا ہوں جب وہ پی چکے ہوتے ہیں تب میں اپنے بچوں کو پلاتا ہوں ۔ ایک دن دیر سے گھر آیا تو والدین سو چکے تھے تو میں دودھ کا پیالہ لیے رات بھر کھڑا رہا وہ آرام کرتے رہے خداوند یہ کام میں نے فقط تیری رضا کے لیے کیا تھا تو اس غار کے منہ سے پتھر ہٹا دے یہ کہنا تھا کہ خود بہ خود حرکت ہوئی اور غار کے منہ سے سرک گیا اس کے بعد باقی دونوں مسافروں نے بھی اپنے نیک کاموں کا وسیلہ بنا کر دعا کی تو غار کا دروازہ کھل گیا۔

 آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ‘‘ ۔ ’’ اللہ پاک کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے ‘‘۔

Surah Al-Anfal ayat 45-47-کیا ہم نفس و شیطان کے بہکاوے میں آئے ہوئے ہیں

کیا ہم نافرمان قوم ہیں؟ - Shortvideo

پیر، 17 جولائی، 2023

والدین کے حقوق (۱)

 

  والدین کے حقوق   (۱)

قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک ، نیکی اور خدمت کی تاکیدمیں مختلف آیات نازل ہوئیں ہیں ۔ یعنی والدین کی تعظیم و توقیر اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا مسئلہ نص ِقطعی سے ثابت ہے اور اس کا منکر قرآن مقدس کی آیات کا منکر ہے ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ رب کائنات نے کلام پاک میں اپنی توحید کے بعد والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تو اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو‘‘۔ سورۃ النسا ء میں بھی توحید کے حکم اور شرک کی ممانعت کے بعد بھی والدین کے ساتھ بھلائی کی تاکید کی گئی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’اور اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو ‘‘۔ یہاں ’’احساناً‘ ‘ کا لفظ بہت وسعی معانی رکھتا ہے اس کی وسعت میں ہر قسم کی اطاعت اور 

عزت آجاتی ہے ۔ قرآن پاک نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم اس اہتمام کے ساتھ دی ہے کہ ان کو اُف بھی نہ کہو عاجزی نرمی اور تعظیم سے پیش آئو اور بڑھاپے میں ان کی خدمت کرو ۔

ارشاد باری تعالی ہے : ’’ اگر ان میں ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف بھی نہ کہو اور نہ جھڑکو اور ان سے ادب سے بولو اور ان کے لیے اطاعت کا بازومحبت سے جھکادو یہ کسی انسان کا قول نہیں بلکہ حکم الہی  ہے ‘‘۔ان آیات میں صاف واضح طور پر والدین کی اطاعت خدمت اور ان سے محبت و الفت ان کی تعظیم و توقیر کو فرض قرار دیا گیا ہے ۔ 

سورۃالقمان میں ارشاد باری تعالی ہے : ’’ ماں نے اس کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھااور تکلیف کے ساتھ جنا ‘‘۔’’ اس کی ماں نے اس کو تھک تھک کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو برس تک دودھ پلایاــ‘‘۔ ان آیات میں ماں کے احسانات عظیم کا ذکر ہے ماں وہ ہستی ہے جس نے نو مہینے سختی اٹھائی ہر قسم کی تکلیف خوشی خوشی  برداشت کی پھر دو دھ پلایا اپنے آرام اور راحت کو قربان کیا ۔ 

سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالی ہے ’’ اور اے رب تو ان پر رحم فرما جس طرح  انہوں نے بچپن میں پالا ‘‘ ۔ والدین کے لیے دعا کے علاوہ ان کی مالی خدمت کرنا بھی ضروری ہے ۔ارشاد فرمایا : ’فائدہ کی جو چیز تم خرچ کرو وہ ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے ہے ‘‘۔ والدین کی کوششوں سے حاصل کی ہوئی طاقت اور قوت کا شکر والدین کی خدمت کی صورت میں ادا کرنا فرض ہے ساری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے اور قطع رحمی حرام ہے

Surah Al-Anfal ayat 41-44 - کیا ہم حزب اللہ میں شامل نہیں ہیں

کیا ہم حُدود اللہ کا خیال نہیں رکھ رہے؟ - Shorts

ہفتہ، 15 جولائی، 2023

پرہیز گاری کی نشانیاں


 

پرہیز گاری کی نشانیاں

۱:غیبت سے اجتناب کیا جائے : قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ’’ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو‘‘۔

۲: بد گمانی سے پر ہیز کرو: قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ’’ زیاد ہ بدگمانی سے پر ہیز کرو بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔

۳: کسی کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے : قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے ’’ کوئی قو م کسی دوسری قوم سے مذاق نہ کرے ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں‘‘۔

۴: نگاہوں کو حرام کاموں سے محفوظ رکھنا: قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے’’ آپؐ مومنین سے فرما دیجیے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں ‘‘۔

۵: زبان میں صداقت ہو : خالق کائنات قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’اور جب تم کوئی بات کرو تو عدل سے کام لو:‘‘۔

۶: اپنے آپ پر اللہ تعالی کے انعامات کی پہچان رکھیے تا کہ دل میں تکبرنہ آئے: ارشاد باری تعالی عزوجل ہے ’’ جب اللہ تعالی نے تم پر احسان فرمایا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی راہ دکھائی اگر تم سچے ہو ‘‘۔

۷: میانہ روی اختیار کرو : اللہ تعالی کا فرمان عالی شان ہے ’’ اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں اور ان کا خرچ معتدل ہوتا ہے ‘‘۔

۸: اپنے لیے برائی اور تکبر کی آواز بلند نہ کرے : اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ’’ یہ عالم آخرت ہم ان لوگوں کے لیے کرتے ہیں جو فساد کر کے دنیا میں بڑا نہیں بننا چاہتے‘‘۔

۹: پانچوں نمازیں وقت کی پابندی کے ساتھ قائم کرے : قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے ’’ نمازوں کی حفاظت کیجیے اور درمیان والی نماز کی اورعاجزی کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہو کر ‘‘۔

۱۰: سنت اور جماعت پر قائم رہتے ہیں : ارشاد باری تعالی ہے ’’ اور یہ کہ میرا دین سیدھی راہ ہے اس پر چلو اور ان راہوں پر نہ چلو جو تمہیں اپنی راہ سے بھٹکا دیں۔ اللہ تعالی نے تمہیں اس کی وصیت فرمائی ہے تاکہ تم پرہیز گاربن جائو‘‘۔

 ۱۱: کسی پر بھی ظلم زیادتی نہیں کرنی چاہیے : ارشاد باری تعالی ہے ’’ یہ بغاوت تمہارے لیے ہی وبال ہے‘‘۔

 ۱۲:کسی کے ساتھ دھوکا یا فریب نہیں کرنا چاہیے :۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’ اور فریب کا وبال فریبی پر ہی ہوتا ہے ‘‘۔

۱۳: کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرنی چاہیے : ارشاد باری تعالی ہے ’’ پس جو شخص وعدہ خلافی کرے گا تو اس کا وبال عہد توڑنے والے پر پڑے گا ‘‘۔


Surah Al-Anfal ayat 29 part-02.دنیا میں خوشحال بننے کا راز

کیا ہم اللہ تعالٰی کی عبادت کررہے ہیں؟ - Shortvideo

جمعہ، 14 جولائی، 2023

پیروی اسوہ رسول ﷺ


 

پیروی اسوہ رسول ﷺ

    قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے ’’ لوگو ! تم سب کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘احادیث نبوی ؐ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ انسانی زندگی سے متعلق چھوٹا بڑا کوئی ایسا معاملہ اور پہلو نہیں جس میں آپؐ نے انسانوں کے لیے عملی نمونہ یا ہدایات نہ چھوڑی ہو ں۔ حدیث اور فقہ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ غسل و طہارت کے طبعی معاملات سے لیکر خوشی غم ، شادی بیاہ ، اہل و عیال ، کارو بار تجارت ، لین دین ، دفتری اور انتظامی اور ، جنگ و صلح ، تعلیم و تعلم منبر و محراب ، عبادت ذکر ، معاشی ، معاشرتی سماجی، سیاسی ، دوستی دشمنی حتی کہ جہانبانی اور حکومت و اقتدار کے تمام معاملات میں ایک مثالی نمونہ اور واضح ہدایات چھوڑی ہیں۔ کوئی آدمی بیٹا ہے ، باپ ہے ، بھائی ہے ، دوست ہے ، پڑوسی ہے ، کسی کا ہمسفر ہے ،امام ہے حاکم ہے محکوم ہے۔ مرشد ہے ، بوریا نشین ہے ، جلوت نشین ہے۔ غرض کچھ ہے اس کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ایسا کامیاب نمونہ چھوڑا ہے جس پر وہ چل کر دنیا میں آرا م سکون ، اطمینان ، عزت و احترام ، محبت ، عقیدت جیسی انمول دولت حاصل کر سکتا ہے۔اور آخرت میں بھی دائمی فوزو فلاح پا سکتا ہے۔ خواتین میں جو خاتون بیٹی ، بیوی بہن ، ماں ، پڑوسن ، معلم یا متعلم ہے اس کے لیے رسول ﷺ نے سیدہ فاطمۃ الزہرہ ، حضرت سیدہ خدیجۃ الکبر ی اور حضرت سیدہ عائشہ اور دوسری بنات طاہرات اور عفت مآب ازواج مطہرات و صحابیات کی شکل میں ایک مثالی نمونہ بنا دیا ہے۔نبی اکرمﷺ کی رحمۃ اللعالمین ذات سارے انسانوں کے ساتھ با لعموم اور اپنے ماننے والوں کے ساتھ با لخصوص جو ہمدردی،  خیر خواہی ،غمخواری اور درجہ شفقت و رحمت ہے اس کی نظیر پوری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ یہ محض لفاظی یا عقیدت پر مبنی چیز نہیں بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کے دوست اور دشمن سب قائل ہیں۔ جس کا تاریخ اقرار کرتی ہے اور جس کی گواہی خود خالق کائنات نے دی ہے۔
 سورۃ توبہ میں ارشاد باری تعالی ہے ’’لوگو ں تمہارے پاس وہ عظیم الشان رسول ﷺ تشریف لایا ہے جو تمہی میں سے ہے۔ جس پر تمہارا مشقت میں پڑنا انتہائی گراں گزرتا ہے۔ جو تمہاری خیر خواہی کا طالب ہے اور جو سارے مومنوں پر انتہائی شفقت و محبت فرمانے والا ہے ‘‘ تھوڑی دیر کے لیے ایمانی و دینی تقاضا سے ہٹ کر اگر خالصتا دنیوی اور مادی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے اور تاریخ اسلامی پر نظر ڈالی جائے توشواہد یہ ہی بتاتے ہیں کہ دنیوی و اخروی سعادتوں اور فوزو فلاح کے حصول کے لیے اسوہ رسول ﷺکی پیروی ضروری ہے۔

Surah Al-Anfal ayat 29 part-01.کیا میں نے اپنے دل کو نورانی بنا لیا ہے؟

جمعرات، 13 جولائی، 2023

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۲)

 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۲) 

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خا ص اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے دو مرتبہ ہجرت فرمائی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کہ طرف۔اور یہ بھی اعزاز اور مرتبہ بڑے کمال اور عظمت والا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کو دو مرتبہ بیعت کے شرف سے نوازا ایک مرتبہ بیعت اسلام جو سب کو نصیب ہوئی اوردوسری بیعت رضوان جب حدیبیہ کے مقام پر نبی کریم ﷺ نے آپ کو سفیر بنا کر مکہ مکرمہ بھیجا تو یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفیر بن کر کفار مکہ مکرمہ سے بات چیت کرنے پہنچے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے مکہ مکرمہ ہے، خانہ کعبہ سامنے ہے ، مطاف بھی۔ حجر اسود بھی ، مقام ابراہیم بھی اور صفا مروہ کی بھی قربت ہے۔ آپ سے کہا جاتا ہے کہ رسول پاک ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ طواف کرنا چاہیں ، نوافل ادا کرنا چاہیں تو آپ کو بیت اللہ میں داخلے کی اجازت ہے۔ آپ نے بڑا ایمان افروز جواب دیا کہ بے شک یہ عمل بڑا عالیشان ہے مگر جب تک میرے آقا محمد عربی ﷺ زیارت کعبہ نہ کریں میں ہر گز طواف کعبہ نہیں کروں گا۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے قصاص کے لیے بیعت لی جب سب سے بیعت لے چکے تو آپﷺ نے اپنے دست مبارک کو بلند کیا کہ میرا ایک ہاتھ میرا اور میرا دوسرا ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ ہے۔ میں اپنے ہاتھ کو عثمان کے ہاتھ کی بیعت کرتا ہوں۔ارشاد باری تعالی ہے : محبوب جو تیرا ہاتھ ہے وہ میرا ہاتھ ہے۔دور شباب سے ہی تجارت اور کاروبار میں دلچسپی لی۔ اپنی فطری صداقت ، دیانت اور نیک سیرت کے اعتبار سے متمول تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مال کا زیادہ تر حصہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت اور دیگر ضروریات دین پر صرف کرتے تھے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی جامع القرآن بھی ہیں اور شہید قرآن بھی۔ جب باغیوں نے حملہ کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے اور آپ کے خون کے قطرے سورة البقرہ کی آیت مبارکہ پر گرے۔ گویا کہ آپ کی شہادت کی گواہی قرآن مجید بھی دے گا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم شہادت 18ذوالحج ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ سالہ دور خلافت میں اہل اسلام نے بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ آپ کے دور ہی میں کسریٰ کی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا اور آرمینہ فتح ہوا ور اندلس پر حملوں کا آغاز ہوا۔

کیا ہماری عبادات ضائع ہورہی ہیں؟ - Shortvideo

بدھ، 12 جولائی، 2023

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۱)

 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۱) 

رسول پاک ﷺ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بڑی شان و مرتبت والے ہیں جن کو ظاہری زندگی میں نبی کریم ﷺ کا دیدار اور صحبت نصیب ہوئی ۔ ان خوش نصیب ہستیوں میں جلیل القدر صحابی خلیفہ ثالث امیر المﺅ منین خلیفة المسلمین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو ابتدا اسلام میں ایمان کا شرف نصیب ہوا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی ترغیب سے دین اسلام میں داخل ہوئے ۔ قبول اسلام کے بعد مشرکین مکہ کی طرف سے اذیتوں اور تکلیفوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ خصو صاً آپ کے چچا حکم بن الفاص کی مسلسل اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا ۔ شدید گرمی میں رسیوں سے باندھ کر بے دردی سے مارا پیٹا جاتا لیکن آپ ہر دکھ مصیبت اور اذیت کے بعد بھی دین اسلام پر قائم رہے ۔ اور کہا 

اگر مجھے جان سے بھی مار ڈالو تو بھی میں نبی کریم ﷺ کا دامن نہیں چھو ڑو گا ۔ آپ کی نانی حضور ﷺ کے والد ماجد کی حقیقی بہین تھیں اس طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ رسول پاک ﷺ کی پھوپھی زاد بہن کے بیٹے تھے ۔ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنھا یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اور آپ کا شرف کہ آپ ذوالنورین کہلائے ۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشر یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو نبی کریم ﷺ نے جنت کی بشارت دی میں شامل ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ آپ کو دو مرتبہ جنت کی بشارت دی گئی ۔ ایک مرتبہ غزوہ تبوک میں مجاہدین اسلام کی مدد کر نے پر اور دوسری مرتبہ بئر رومہ خرید کر مدینہ منورہ کے اہل اسلام کے لیے وقف کرنے پر ۔ مدینہ منورہ میں پینے کے میٹھے اور صاف پانی کا حصول مشکل تھا بئر رومہ میٹھے پانی کا کنواں تھا جس کا مالک یہودی تھا جو مسلمانوں کو پانی زیادہ قیمت پر دیتا تھا اور تنگ بھی کرتا تھا ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرما یا کون ہے جو یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے ۔ 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ کنواں خرید کر وقف کر دیا ۔ اب اس کنویں سے مسلمانوں کے ساتھ یہودی اور مدینہ منورہ کے رہنے والے بغیر قیمت ادا کیے پانی لے سکتے تھے ۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کہ ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق ہو گا اور میرے رفیق عثمان ہیں “۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حضرت عثمان غنی حیا والے ہیں اور فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں “۔ 

کیا یوم آخرت پر ہمارا یقین ہے؟ --Shortvideo

منگل، 11 جولائی، 2023

ضروریات دین پر ایمان لانا ضروری ہے

 

  ضروریات دین پر ایمان لانا ضروری ہے 

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : 

’’ رسول ایمان لا یا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کیا کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو۔ اے رب ہمارے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے ‘‘۔

1:

 اس آیت مبارکہ میں اصول ضروریات دین کا بیان ہے کہ ہر ایک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے یعنی زبان سے اقرار کرے اور دل سے تصدیق کرے کہ اللہ واحد ہے اس کا کو ئی شریک نہیں اس کے تمام اسمائے حسنی و صفات عالیہ پر ایمان لائے اوریقین کرے اور مانے کہ وہ علیم ہے اور ہر شے پر قادر ہے اس کے علم و قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔

2

. ملائکہ پر ایمان لانا اس طرح یقین کرے اور مانے کہ وہ موجود ہیں معصوم ہیں پاک ہیں اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان احکام و پیام کا ذریعہ ہیں 

3

. اللہ تعالی کی کتابوں پر ایمان لانا اس طرح کہ اللہ تعالی نے جو کتابیں نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں پر بطریق وحی بھیجیں بے شک و شبہ سب حق و صدق اور اللہ کی طرف سے ہیں اور قرآن مجید تغیر و تبدل و تحریف سے محفوظ ہیں۔

 رسولوں پر ایمان لانا اس طرح کہ اللہ نے جس قدر رسول و نبی خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمائے وہ اللہ کے رسول ہیں اس کی وحی کے امین ہیں گناہوں سے پاک و معصوم ہیں سارے خلق سے افضل اکرم ہیں ان میں سے بعض رسول بعض سے افضل ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے : 

’’ اور ہم کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتے مگر اس کی طاقت بھر اس کا فائدہ ہے جو اچھا کمایا اور اس کا نقصان ہے جو برائی کمائی اے رب ہمارے ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چوکیں اے رب ہمارے اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا اے رب ہمارے اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کو ہم اٹھا نہ سکیں اور ہمیں معاف فرما دے اور بخش دے اور ہم پر رحم فرما توہمارا مولیٰ ہے ، تو کافروں پر ہمیں مدد دے ‘‘۔

 اس آیت مبارکہ میں مومن بندوں کو طریقہ دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ وہ اس طرح اپنے رب سے دعا کریں۔ اس میں بتا یا گیا کہ ہر جان کو اس کے نیک کاموں کا اجر و ثواب عطا

ہو گا اور برے اعمال کا عذاب دستیاب ہو گا۔

Surah Al-Anfal ayat 27.کیا ہم امانت الہیہ میں خیانت کر رہے ہیں؟

شرک، خلوص - Shortvideo

پیر، 10 جولائی، 2023

توبہ اور استغفار کی فضیلت

 

 توبہ اور استغفار کی فضیلت

قر آن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :

’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے  ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معا فی مانگتے ہیں ، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے ، اور پھر جو گناہ  وہ کر بیٹھتے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے ‘‘۔

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے :’’اور (اے حبیب !) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے  تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ تعالی سے معافی مانگتے اور رسول ﷺ بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر)ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ‘‘۔

ارشاد باری تعالی ہے :’’اور اے لوگو! تم اپنے رب سے( گناہوںکی) بخشش مانگو پھر اس کی جناب میں( صدق دل سے) رجوع کرو ، وہ تم پر آسمان سے مو سلا دھار بارش بھیجے گااور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا اور تم مجرم بنتے ہوئے اس سے رو گردانی نا کرنا ‘‘۔

 احادیث مبارکہ میں بھی توبہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے ۔

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا:

’’تم اس شخص کی خوشی سے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسان جنگل میں اپنی نکیل کی رسی کھینچتی  ہوئی نکل جائے ، جس سر زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور  اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں ، وہ شخص اس اونٹنی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے ،پھر وہ اونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل اس تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ اونٹنی تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے ،‘‘

 میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ!وہ بہت خوش ہو گا ، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’سنو ! بخدا ! اللہ تعالی کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی سواری کے (ملنے کی ) بہ نسبت زیادہ خوشی ہوتی ہے ـ‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : گناہ سے (سچی) توبہ کرنے ولا اس شخص کی مانند ہے جس نے  کوئی گناہ کیا ہی نہیں ‘‘۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم گنا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم ﷺایک مجلس کے اندر سو مرتبہ کہا کرتے ۔ اے رب ! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک تو توبہ قبول کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے ‘‘۔