حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن مجید کو بہت ہی حسین انداز میں سیکھا اور پھر نہایت ہی اعلی شان کے ساتھ دوسروں کو سکھاتے تھے۔ ان کا سیکھنا یہ نہیں تھا کہ فقط صحیح طریقے سے الفاظ ادا کرنا سیکھا ، یا الفاظ قرآن کے معانی سیکھے ، عربی ان کی مادری زبان تھی ، یہ چیزیں ان کی گھٹی میں شامل تھیں ، ان کا سیکھنا یہ تھا کہ ہر آیت میں غورو فکر کر کے اس کے تقاضے پورے کرتے اور پھر اس کے بعد والی آیت سیکھتے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں قرآن مجید کی تعظیم اس قدر تھی کی آپ اس کے ساتھ نسبت والے حضرات کی بھی تکریم فرماتے تھے۔جلیل القدر تابعی حضرت عبد اللہ بن شداد رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق کے پیچھے نماز پڑھی تھی میں سب سے پچھلی صف میں تھا جب آپ نے یہ آیت پڑھی ترجمہ’’ : میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ تعالی سے ہی کرتا ہوں‘‘ تو آپ اتنا روئے کہ آپ کے رونے کی آواز آخر تک سنائی دے رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی۔حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر ، حضرت عمراور حضرت عثمان کے ساتھ احد پہاڑ پر تشریف لے گئے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آ گیا۔ آپؐ نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا : اے احد ٹھہر جا۔ تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کچھ نہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی میں فجر کی امامت فرما رہے تھے کہ ایک بد بخت نے آپ پر حملہ کر دیا۔ جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے۔ چار دن بعد یکم محرم الحرام کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ خالق حقیقی سے جا ملے۔آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اجازت کے بعد روضہ رسول ؐ میں دفن کیا گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں