جمعرات، 31 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 63 Part-02.کیا ہم زندگی ﷺ رسول کی ...

Surah Al-Noor Ayat 63 Part-01.کیا ہم اپنے رسول ﷺ کی دعوت پر لبیک کہنے ک...

سرور کونین ﷺکے جوامع الکلم(2)

 

سرور کونین ﷺکے جوامع الکلم(2)

9: جو مصیبت میں بال منڈوائے ، واویلا کرے یا پھر کپڑے بھاڑے وہ ہم میں سے نہیں۔ یعنی صبر و ہمت مومن کی شان ہے۔ 10: آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کا معاملہ اس وقت تک درست رہے گا جب تک وہ امانت کو مال غنیمت اور خیرات و زکوۃ کوتاوان تصور نہیں کرے گی۔ 11: اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بعد سب سے بڑی عقل لوگوں کا دل رکھنا ہے۔ 12: مشورہ کر لینے کے بعد کبھی کوئی انسان تباہ نہیں ہو گا۔ 13: اس شخص پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوگی جس نے بھلائی کی بات کی۔یا چپ رہ کر سلامت رہا۔ 14: راستوں میں مت بیٹھو اگر بیٹھنا ہی ہو تو پھر نظریں جھکا کر رکھو۔ سلام کا جواب دو ، بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھائو اور کمزور کی مدد کرو۔ 
15:۔ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تین باتیں تمہارے لیے پسند کرتا ہے اور تین باتیں نا پسند کرتا ہے۔ اللہ تمہارے لیے یہ پسند کرتاہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائو، سب اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور منتشر مت ہو ، اور جسے اللہ تعالی تمہارا حکمران بنا دے اس کی خیر خواہی کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے نا پسند کرتا ہے کہ تم بحث و مناظرہ میں الجھو ، کثرت سوال کرو اور مال کو ضائع کرو۔ 
16: انسا ن کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال تو صرف وہی ہے جو تو نے کھا لیا یا پہن لیا یا بخش دیا اور آگے بھیج دیا۔ 17: اگر انسان کے پاس سونے کی دو وادیاں بھی ہوں تو وہ تیسری وادی کا طلبگار رہے گا یعنی انسان کا لالچ ختم نہیں ہوتا۔ 18: انسان کاپیٹ تو صرف قبر کی خاک ہی بھرے گی اور جو تو بہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا۔ 19: دنیا شیریں اور پْر رونق ہے اور اللہ تمہیں اس میں کام سپرد کر کے یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ 20: تم میں سے قیامت کے دن میرے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ اور مجلس میں سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے زیادہ خوش اخلاق، نرم مزاج ، انس کرنے والے اور انس کے قابل ہوں گے اور سب سے زیادہ مجلس میں دور وہ ہوں گے جو منہ پھٹ ، باچھیں کھول کر اور گلا پھاڑ کر بات کرنے والے ہیں۔ 21: باہمی مخاصمت سے بچو کیونکہ اس سے خوبیاں مر جاتی ہیں اور عیوب زندہ ہو جاتے ہیں۔ 23:میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس دعا سے جو قبول نہ ہو اور اس دل سے جو اللہ تعالی کا خوف نہیں رکھتا اور اس علم سے جو نفع نہیں دیتا۔

کیا ہم دینِ اسلام کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں؟

Surah Al-Noor Ayat 58-62 Part-02.کیا ہم زندگی اللہ تعالی کی رضا کے مطاب...

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 58 Part-01.کیا ہم سیدھے راستے سے ب...

بدھ، 30 اکتوبر، 2024

سرور کونین کے جوامع الکلم(۱)

 

سرور کونین کے جوامع الکلم(۱)

حضور نبی کریم رﺅف الرحیم ﷺ کے اکثر ارشادات ایسے ہیں جو الفاظ کے اعتبار سے تو مختصر ہیں لیکن معانی و مطالب کے لحاظ سے وسیع اور بے حد جامع ہیں۔ محدثین نے حضور نبی کریم ﷺکے ایسے ارشادات کو جوامع الکلم کہا ہے۔ حضور نبی کریم کا فرمان عالی شان بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوہ خندق میں میری باد صبا کے ذریعے مدد کی اور مجھے جامع کلمات بھی عطا کیے گئے ہیں۔ 
عطیة الابراشی نے نبی کریم ﷺ کے جوامع الکلم کے متعلق لکھا ہے کہ آپ کا وہ جامع کلام جس کی فصاحت و بلاغت کا مقابلہ اور برابری کی ہی نہیں جاسکتی ، جو بیان و بلاغت کا آخری درجہ اور بے انتہا مدلل بھی ہے ، جو جامع کلمات اور انوکھی حکمت پر مشتمل ہوتاہے اس کے الفاظ و حروف کی تعداد تو قلیل ہے لیکن معانی کے لحاظ سے بہت وسیع ہے۔ ( عظمت رسول) 
اما م غزالی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ احیا ءعلوم الدین میں حضور نبی رحمت کے جوامع الکلم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”وما ینطق عن الھویٰ“ کے مطابق آپ کے یہ کلمات روح القدس کے توسط سے فیض ربانی ہے۔ آپ فرماتے ہیں آپ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ مختصر بات کرنے والے تھے یہ فیض ربانی ان کے لیے جبریل امین لائے تھے۔ اختصار کے ساتھ آپ جتنی جامع بات کرنا چاہتے تھے کر لیتے تھے آپ کا کلام جامع کلمات ہوتے تھے جن میں نہ فالتو بات ہوتی نہ کسی قسم کی کمی ہوتی تھی۔ 
حضور نبی کریم رﺅ ف الرحیم ﷺ کے چند جامع کلمات پیش خدمت ہیں :
۱: سب لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں۔ ۲:انسان اپنے بھائی کے سبب بہت کچھ بن جاتا ہے یعنی زیادہ لگتا ہے۔ ۳: ایسے شخص کی صحبت میں کوئی بھلائی نہیں ہو سکتی جو تیرے لیے بھی اسی انداز میں نہ سوچے جس انداز میں تو اس کے لیے سوچتا ہے۔ ۵: اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ یعنی لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور سب سے پہلے اسے دو جس کی تم پر ذمہ داری ہے۔ ۶: مسلمانوں کے خون کی قدرو قیمت برابر ہے۔ ان میں چھوٹے سے چھوٹا اگر کسی کو امان دیدے تو اس کا پاس کرنا سب پر لازم ہے۔
ان میں سے دور کا فرد بھی ان کا جواب دے سکتا ہے۔ وہ غیروں کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی طرح متحد ہیں۔حضور نبی کریمﷺ کے اس ارشاد مبارکہ میں مسلم معاشرے میں فرد کی عظمت خودداری اور وحدت ملی کا خوبصورت تصور دیا گیا ہے۔ ۸: جو تھوڑا ہو مگر کافی ہو اس بہت سے بہتر ہے جو غافل بنا دیتا ہے۔

منگل، 29 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 55-56 Part-03.ہم کیا آج دین اسلام ...

علم اور عالم کی فضیلت

 

علم اور عالم کی فضیلت

ارشاد باری تعالیٰ ہے (”اے محبوب) تم فرماﺅ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان “۔ ( سورة الزمر ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتاہے۔ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا علم سعادت مندوں کو نصیب ہوتا ہے اور بد بخت اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا : جس شخص کو موت آئے اور وہ اسلام کو زندہ کرنے کے لیے علم سیکھتا ہو تو جنت میں اس کے اور انبیاءکے درمیان ایک درجہ ہو گا۔ ( مشکوة المصابیح )۔ 
حضرت علی ؓ کا قول ہے آپ فرماتے ہیں علم مال سے بہتر ہے ، علم تیری حفاظت کرتا ہے اور تو مال کی حفاظت کرتا ہے ،علم حاکم ہے اور مال محکوم علیہ ، مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ ( علم کی حقیقت ) 
حضرت ابو اسود ؓ فرماتے ہیں علم سے بڑھ کر کوئی چیزعزت والی نہیں کیونکہ بادشاہ لوگوں پر حاکم ہوتے ہیں اور علماءبادشاہوں پر حاکم ہوتے ہیں۔ (علم کی حقیقت ) 
حضرت زبیر بن ابی بکر ؓ فرماتے ہیں میرے والد نے مجھے خط لکھا اور کہا کہ علم حاصل کرو اس لیے کہ اگر مفلس ہوجاو تو یہ تیرا مال ہوگا اور اگر غنی ہو جاو گے تو یہ تیری زینت ہوگا۔ ( احیا ء العلوم )۔
سورة المجادلہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے” اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جس کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا “
سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ سب سے زیادہ جواد یا بخشش کرنے والا کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جودو عطا کرنے والا ہے ، پھر تمام بنی آدم سے زیادہ مین جودو عطا کرنے والا ہو ں اور میرے بعد بنی آدم میں سب سے زیادہ جودو سخا کرنے والا وہ آدمی ہے جس نے علم حاصل کیا اور پھر اس کو پھیلایا۔
قیامت کے دن وہ اکیلا امیر بن کر آئے گا وہ اکیلا ہی امت بن کر آئے گا۔ ( مشکوةالمصابیح )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”اگر تیری وجہ سے اللہ تعالی ایک شخص کو ہدایت دے دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (ابوداﺅد)۔
حضرت ابو امامہ ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی سمندر میں سب رحمت بھیجتے ہیں اس پر جو لوگوں کو خیر سکھاتا ہے۔ ( ترمذی )۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں خیر کا بتانے والا خیر کرنے والے کی مثل ہے۔ ( ترمذی )۔

پیر، 28 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor Ayat 55-56 Part-01- کیا ہم خالص اللہ تعالی کی اطاعت پر را...

بہترین استاد کے اوصاف (۲)

 

بہترین استاد کے اوصاف (۲)

ایک بہترین استاد کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ قناعت پسند ہو ۔ قناعت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اس سے کے دل کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ اور جو بندہ قناعت اختیار نہیں کرتا وہ لالچ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور لالچی انسان ہمیشہ پریشان ہی رہتا ہے ۔ قناعت پسند کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی ناشکری نہیں کرے گا وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار رہے گا اور جتنا اسے ملے گا اس پر صبر کرے گا ۔ اگر ایک استاد میں یہ صفت موجود ہو گی تو طلبہ پر بھی اس کا اثر پڑے گا اور وہ بھی اپنی زندگیوں میں قناعت کو اختیار کریں گے ۔ 
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :وہ شخص کامیاب ہو گیا جسے اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی اور تھوڑی روزی ملی ہو اور اس پر قناعت کرتا ہو ۔ ( ابن ماجہ ) 
ایک معلم کو چاہیے کہ وہ حسن اخلاق کا پیکر ہو ۔ استاد کی ذمہ داری صرف دماغی و ذہنی تعمیر کرنا نہیں بلکہ اپنے طلبہ کی اخلاقی تربیت کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ استاد جو چاہیے کہ وہ حسد، بغض، کینہ، غصے اور نفاق سے پاک ہو اور وہ حلم و ادب، اخلاق اور شفقت کو اپناتے ہوئے اپنے شاگردوں کے ساتھ انتہائی پیار ومحبت اور شفقت کے ساتھ پیش آئے اس سے طالب علم کے اخلاق کی بھی تعمیر ہو گی اور وہ معاشرے کا ایک اچھا شہری بن کر نکلے گا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، تم میں سے وہ شخص زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہے ۔ (بخاری) 
ایک بہترین معلم کو چاہیے کہ وہ سادہ مزاج ہو اور سادگی کے ساتھ اپنی زندگی کو بسر کرے کیونکہ جتنی زیادہ مادی خواہشات کی وہ پیروی کرے گا اتنا ہی دنیا سے قریب ہو تا جائے گا۔ طالب علم اپنے استاد سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اگر استاد اپنی شخصی حالت جو سنوار لے تو اس سے بہت سارے افراد سنور جائیں گے۔ اگر استاد سادگی پسند ہو گا تو طالب علم بھی اس کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے سادگی کو اپنائیں گے لیکن اس کے برعکس اگر استاد عیش و عشرت میں پڑا رہے گا اور اس میں قناعت کا فقدان ہو گا تو اس کا اس کے شاگردوں پر گہرا اثر پڑے گا اور وہ بھی اپنے استاد کے نقش قدم پر چلیں گے۔ کامیاب مدرس کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کو حرص و لالچ سے پاک رکھے اور دنیا کے مال و دولت سے خود کو دور رکھے بلکہ عالم کی شان تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنی فاقہ مستی پر نازاں ہو کیونکہ حرص سے بسا اوقات ذلت اٹھانی پڑتی ہے ۔ 

اتوار، 27 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 53-54.کیا ہم اپنے عمل سے اللہ تعال...

Surah Al-Noor Ayat 51-52 Part-02.کیا ہم نے اللہ تعالی کے حکم کے سامنے سر...

بہترین استاد کے اوصاف (۱)

 

بہترین استاد کے اوصاف (۱)

استاد کی ذات سے ہی معاشرہ مثالی بنتاہے اور معاشرے میں علم و حکمت کی روشنی بکھرتی ہے۔ استاد ہی وہ عظیم ہستی ہے جو شخصیتوں کی تعمیر کرتا ہے۔ استاد کی ذات اپنے شاگردوں کے لیے مشعل راہ ہوتی ہے۔ اس لیے استاد کو چاہیے کو اپنے اندر ایسے اوصاف پیدا کرے جس کی وجہ سے طالب علم کے کردار کی بھی تعمیر ہو سکے۔ 
ایک کامیاب استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے علم کے مطابق اس پر عمل بھی کرے۔ اگر معلم صالح اور با عمل ہو ا تو اس کی تعلیم کا اس کے شاگردوں پر زیادہ اثر ہوگا۔سورة البقرہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ”کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالا نکہ تم کتاب پڑ ھتے ہو “۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے اس علم پر عمل کیا جس کو وہ جانتا تھا تو اللہ تعالی اس کو ایسے علم کا وارث بنا دے گا جس کو وہ نہیں جانتا۔ (طبقات کبرٰی )۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا وہ علم جس کے ساتھ عمل نہ ہو وہ بغیر روح کے جسم کی مانند ہے۔
لہذا ایک اچھا استاد ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معلم اپنے علم پر خود عمل کرے گا تو دوسروں پر اس کا اثر زیادہ ہو گا اور اگر اس کے مطابق عمل نہیں کرے گا تو لوگوں کے سامنے اس کا تمسخر بن جائے گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا اے اللہ میں ایسے علم سے پنا ہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ 
ایک بہترین استاد کو چاہیے کہ وہ عبادت وریاضت کا پا بند ہو اس سے دل روشن ہوتا ہے اور روحانیت حاصل ہوتی ہے۔ حضور غوث اعظم فرماتے ہیں اللہ تعالی کی عبادت کے ساتھ تزکیہ نفس کر و۔ اگر استاد پانچ وقت نماز کی پابندی کرے گا تو شاگرد بھی اپنے استاد کو دیکھ کر نماز کی ادائیگی کریں گے۔ 
ایک بہترین معلم وہ ہی ہے جس کا دل عشق مصطفی سے سرشار ہو گا۔ عشق رسول سے ایمان کی تکیل ہوتی ہے اور عشق مصطفی ہی سر چشمہ ایمان ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاﺅں۔ 
اگر ایک اچھا استاد یادِ محبوب میں تڑپتا ہو گا تو وہ اپنے شاگردوں کے دلوں میں اس شمع کو روشن کرے گا اور وہ معاشرے کے بہترین شہری بن کر نکلیں گے۔ صحابہ کرام ، تابعین ، اولیائے کرام اور صالحین کی زندگیوں کو مطالعہ کرنے سے اس بات کا علم ہو تاہے کہ ان کے دل ہمیشہ یاد مصطفی سے سر شار رہتے تھے اور وہ یہی شمع اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں روشن کرتے تھے۔

جمعہ، 25 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 48-49.کیا ہم میں منافقانہ روش پائی...

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 47.کیا ہم مومن نہیں ہیں

صلہ رحمی

 

صلہ رحمی

حضور نبی کریم ﷺ نے صلہ رحمی کا حکم فرمایا۔ صلہ رحمی سے مراد یہ ہے کہ رشتوں کو ٹوٹنے سے بچانا اور ان کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ حضور نبی کریم صرف اس شخص کے ساتھ تعلقات مستحکم نہیں فرماتے تھے جو آپ سے تعلقات مستحکم کرنا چاہتا تھا بلکہ آپ کے ساتھ جو تعلق توڑنا چاہتا تھا آپ اس کے ساتھ اعلی اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے کہ تعلق ٹوٹنے سے بچ جاتا تھا اور اس طرح نفرتوں کی بجائے محبتیں بڑھتی تھیں۔ 
حضرت عبد اللہ بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : بدلے میں جوڑنے والا ، جوڑنے والا نہیں ہوتا۔ اصل میں جوڑنے والا وہ ہوتا ہے کہ جب اس سے تعلق توڑا جائے تو وہ پھر بھی تعلق جوڑے۔ ( السنن الکبری اللبہیقی ) 
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : کمزور رائے والے نہ ہو ہوجاﺅکہ تم کہو اگر لوگ ہم سے اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان سے اچھا سلوک کریں گے اور اگروہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے بلکہ اپنے آپ کو اس چیز کا عادی بناﺅ کہ تم یہ سو چو کہ اگر لوگ ہم سے اچھا سلوک کریں گے تو بھی ان سے اچھا سلوک کرو گے اور اگر لوگ تم سے زیادتی کریں تب بھی تم ان پر ظلم نہیں کرو گے۔ ( ترمذی )۔
اس سے مراد یہ ہے کہ تعلقات جوڑنے میں تجارت نہیں بلکہ خیر خواہی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی عمر دراز ہو اس سے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ ( مسلم شریف )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے صلہ رحمی کو فضیلت والا عمل قرار دیا : آپ نے ارشاد فرمایا : بے شک فضیلت والے کاموں میں سب سے زیادہ فضیلت والا کام یہ ہے کہ تو اس شخص سے تعلق جوڑے جو تجھ سے تعلق توڑے۔ تو اسے عطا کرے جو تجھے محروم کرے اور تو اسے معاف کرے جو تجھے تکلیف پہنچائے۔ (المعجم الکبیر)۔ 
حضور نبی کریمﷺ قطع تعلقی کو سخت نا پسند فرماتے تھے آپ نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت اس قوم پر ناز ل نہیں ہوتی جس میں کوئی قطع تعلقی کرنے والاموجود ہو۔ ( شعب الایمان )۔
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ئی گزارش لے کر آپ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا : یا رسو ل اللہ ﷺ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ حسن سلوک کرنے والے اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حضور نبی کریم کی تعلیما ت پر عمل کرتے ہوئے صلہ رحمی کو عام کریں تا کہ ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے۔

یقین کیوں اور کیسے؟

یقین کے درجات

جمعرات، 24 اکتوبر، 2024

عظیم شخصیات (2)

 

عظیم شخصیات (2)

وادیٔ کربلا آج اس لیے سر بلند نہیں کہ اس کے دامن میں یزیدی لشکر اترا تھا بلکہ اسے یہ عظمت اس لیے ملی کہ اس کے سینے پر نواسہ رسولﷺ کا خون گرا تھا۔ خاکِ نجف اس لیے سرمہ اہل نظرنہیں کہ وہ کسی شہنشاہ معلی القاب اور عالی جان کی جنم کی جگہ ہے بلکہ اس کا سارا شرف سیدنا علی المرتضی کا مدفن ہونے کی وجہ سے ہے۔ 
امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خلیفہ وقت نے اختلافات کی وجہ سے کوڑے مارے۔ آپ کو بازاروں میں رسوا کیا گیا۔ کئی سو سال گزرنے کے باوجود امام مالک کا نام آج بھی زندہ ہے مگر خلیفہ وقت کا بخت ساون کی بدلی کی طرح کچھ ہی دیر میں تحلیل ہو گیا۔ خلیفہ کی قبر کا نشان بھی موجود نہیں مگر امام جنت البقیع میں دفن ہیں۔ 
امام اعظم کا جنازہ جیل سے اٹھایا گیا جیل کے چند لوگوں کے علاوہ کوئی بھی جنازے میں شریک نہیں تھا خلیفہ نے سمجھا کہ اس سے زیادہ بے بسی کی موت کیا ہو سکتی ہے لیکن آج حکمران بھولی بسری داستان بن گیا ہے اور امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ماننے والے کروڑوں انسان آج بھی دنیا میں موجود ہیں اور ان کی فقہ دنیا میں مانی اور پڑھائی جاتی ہے۔ 
امام احمد بن حنبل بھی رعونیت اقتدار کا نشانہ بنے۔ چوک میں کھڑے کر کے کوڑے مارے گئے یہاں تک کہ ان کا ایک بازو اتر گیا لیکن جیسے ہی خلیفہ مسند سے اترا کچھ ہی عرصے میں لوگوں کے دلوں سے نکل گیا جبکہ امام احمد بن حنبل آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ 
سید احمد سرہندی کے دور کے شہنشاہ نے کہا کہ مجھے آپ جھک کر سلام کریں لیکن شہنشاہ کا رعب دبدبہ پانی کا بلبلہ ثابت ہوا اور سر ہند کا فقیرمجدد الف ثانی بن گیا۔
لاہور میں داتا صاحب کا مزار ہے جہاں ہر وقت رونق لگی رہتی ہے۔ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ درود سلام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت ہر وقت ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس وہاں موجود اپنے دور کے بڑے بڑے لوگوں کے مزار ہیں جہاں سار ا دن رش ہونے کے باوجود کوئی بھی نہیں آتا۔ علامہ محمد اقبال کو بھی اتنی عزت کسی بڑے عہدے پر فائز ہونے یا پھر پی ایچ ڈی کرنے سے نہیں ملی بلکہ انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفا کی عشق مصطفی ﷺ کو اپنے دلوں میں سمائے رکھا اور آج تک پوری دنیا ان کے گن گاتی ہے۔  جو دنیا کی رنگینیوں میں گم تھے ان کا نام بھی کوئی نہیں لیتا۔

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 46 Part-02.پریشانی کا واحد علاج

Surah Al-Noor Ayat 46 Part-01.کیا ہم اللہ تعالی کی نشانیوں پر غور و فکر...

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 45. کیا ہمیں اللہ تعالی کے وعدوں پ...

بدھ، 23 اکتوبر، 2024

عظیم شخصیات (۱)

 

عظیم شخصیات (۱)

تاریخ کی کتب اگرچہ شاہوں ، فاتحوں اور سپہ سالاروں کے تذکرے کے ساتھ بھری پڑی ہیں لیکن لوح ذہن ، کتاب دل اور صحیفہ روح پر ان لوگوں کی تصویریں نقش ہیں جنہیں نہ گردش دہر مٹا سکی اور نہ ہی زمانے کے انقلاب دھندلا سکے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اہل دنیانے سمجھنے میں ہمیشہ غلطی کی ہے۔ عام لوگ انہیں بے نوا ، گمنام ، مسکین اور بے بس سمجھتے ہیں اس لیے ان کے نام شاہی درباروں میں نہیں لیئے جاتے، نہ ہی ان کے نام کے خطبے پڑھے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کے ہاتھ میں کسی کو جاگیر دینا اور وزارت دینا تھا۔ اس لیے دنیاوالوں نے سمجھا ان سے مل کر کیا لینا ہے جو خود کٹیا میں رہتا ہے وہ کسی کو شاہی محل کا راستہ کیا دکھائے گا۔جو خود گدڑی پوش ہو وہ کسی کو خلعت فاخرہ سے کیا نوازے گا ؟ جو خود خاک نشین ہو وہ کسی کو قصر سلطانی کیا مسند دلائے گا۔ لیکن وقت نے یہ بات ثابت کی کہ شاہی محلات تو آخر کا ر کھنڈرات میں بدل گئے لیکن ان کا جھونپڑا ہر طوفان اور سیلاب میں پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑ ا رہا کئی خوانین تھے جو رسوا ہو گئے اور کتنے سر تھے جو دربدر ہو گئے اور بیسیوں باعزت تھے جو سڑ گل گئے لیکن ان فقیروں کے صحن میں بہار ایک بار آئی تو ہمیشہ خزاں نا آشنا رہی اور ان کے آنگن میں جو شہرت اور نیک نامی کا چاند اترا تو اسے کبھی گرہن نہ لگا۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”کچھ لوگ خستہ حال نظر آتے ہیں۔ جن کے چہرے غبار آلود ہوتے ہیں کسی تقریب میں انہیں بلانے کا کسی کو خیال نہیں آتا اور کسی کے پاس چلے جائیں تو لوگ اپنے دروازے بند کر لیتے ہیں لیکن یہی وہ لوگ ہیں کہ وہ اللہ پر کسی بات کے لیے قسم کھا لیں تو خدا ان کی بات رد نہیں کرتا۔ 
یہ لوگ بظاہر بے نوا نظر آتے ہیں لیکن ان کی صدا کی گونج عرش پر سنائی دیتی ہے ، یہ دیکھنے میں بہت غریب ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ یہ کسی تمغے ، عہدے ، منصب اور خطاب سے محروم اور عاری ہوتے ہیں لیکن ان کا نامہ اعمال اللہ کی میزان میں بہت بھاری ہوتا ہے۔ یہ زیادہ وقت خاموش رہتے ہیں لیکن جب ان کے منہ سے کوئی بات نکلتی ہے تو وہ قبولیت کا درجہ پالیتی ہے۔ ان کے لب بند رہتے ہیں لیکن آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو آتی ہے۔ یہ تیغ وسپاہ سے ملک تاراج نہیں کرتے دل و نگاہ کی دنیا پر راج کرتے ہیں۔ اس لیے آج ہر ایک کو پتہ ہے کہ ریاستوں کے سربراہ گمنامی و غربت کے غاروں میں پڑے ہیں اور یہ عاشقان مصطفی تہ خاک جا کر بھی عزت و شہرت کے اونچے میناروں پر کھڑے ہیں۔

پیر، 21 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 41.کیا ہم صرف طالب دنیا ہیں

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 40 Part-05. کیا ہم نے تاریکیوں کو ...

رزق حلال کی اہمیت و اثرات(۲)

 

رزق حلال کی اہمیت و اثرات(۲)

قرآن مجید فرقان حمید میں حرام کھانے اور کمانے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھائو۔ (سورۃ البقرۃ) 
ہمارا دین کسی صورت بھی باطل اور غلط طریقے سے مال حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس عمل کوسخت نا پسند کیا گیا ہے ۔ رشوت، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، جھوٹی قسمیں، سود اور جوا اس قسم کے ناجائز ذرائع اسلام میں حرام ہیں ان سے معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، فرد اور محنت کی بے قدری ہوتی ہے اور ان برے کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ضرور پکڑ فرمائے گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنم میں ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ حرام مال کمائے اور اس میں سے اللہ کی راہ میں صدقہ کرے اور اس کا صدقہ قبول ہو اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میں برکت ہو اور جو شخص حرام مال پیچھے چھوڑ جائے تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہے یقینا اللہ تعالیٰ بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا بلکہ بدی کو نیکی مٹاتی ہے یہ حقیقت ہے کہ گندگی گندگی کو نہیں دھو سکتی۔ (مسند احمد) 
ذخیرہ اندوزی کرنااور کم ناپنا اور تولنا بھی لعنت کا باعث ہے۔ اسلام میں کسی بھی ایسے عمل کو پسند نہیں کیا جاتا جس میں دوسروں کے ساتھ زیادتی ہو اور ان کی حق تلفی ہو۔ مال کی محبت کے ساتھ باقاعدہ صدقات ، زکوٰۃ اور خیرات و انفاق کا نظام قائم کیا کہ نفس پاکیزہ رہے۔ انسان مال و زر کی محبت میں اندھا نہ ہو جائے اور خود غرض اور لالچی نہ بن جائے۔ 
آپؐ نے فرمایا، جس نے پاک کمائی پر گزارہ کیا میری سنت پر عمل کیا لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھا تو یہ شخص جنتی ہے اور بہشت میں داخل ہو گا۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ، اس زمانے میں تو ایسے لوگ کثرت سے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، میرے بعد بھی ایسے لوگ ہوں گے ۔ (ترمذی) 
ہمیں دین کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے خصوصی طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے کھانے میں ذرا بھی حرام کی آمیزش نہ ہو۔ لباس پاک ہو، جذبات پاکیزہ ہوں حرام کھانے والا جتنی بھی عبادت کر لے اس کی کمر جھک جائے اس کی نہ ہی عبادت قبول ہو گی اور نہ ہی صدقات و خیرات ۔ حلا ل کمانے والے اور کھانے والے کی عبادت و صدقات قبول ہو ں گے اور اس میں تقوی کی صفت پیدا ہوگی جو دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضامن ہے۔

اتوار، 20 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 40 Part-04.کیا ہم اندھیروں کو روشن...

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 39 Part-03.کیا ہمارے نیک اعمال سرا...

رزق حلال کی اہمیت و اثرات(۱)

 

رزق حلال کی اہمیت و اثرات(۱)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، ایک زمانہ آئے گا جب لوگ اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ وہ جو کچھ پکڑ رہا ہے وہ حلال ہے یا حرام ۔ (مشکوۃ شریف) 
آج کے دور میں اسی قسم کی صورتحال کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے مادہ پرستی کے اس دور میں ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اس کے لیے جائز زاور ناجائز دونوں اور حلال و حرام میں بھی فرق نہیں رکھتا ۔ حضور نبی کریمﷺ نے رزق حلال کمانے کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت مقداد بن معدی کرب ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کے لیے ایک وقت آئے گا جب روپیہ پیسہ ہی سب کچھ ہو گا۔ (مسند احمد) 
آج اس دور میں حضور نبی کریمﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہے۔ جتنی پیسے کی ضرورت اب محسوس کی جا رہی ہے شاید ہی کبھی کی گئی ہو اور اس کے لیے لوگ جائز اور ناجائز دونوں ذرائع سے پیسے کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ارکان اسلام کی پابندی کے بعد سب سے اہم فریضہ رزق حلال کا ہے حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا رزق حلال کی تلاش فرائض کے بعد اہم فریضہ ہے۔ (شعب الایمان)
اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن حکیم میں یہ بات واضح طور پر ارشاد فرمائی ہے کہ حلال چیزیں کھائو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، اے لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھائو ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے بھی ارشاد فرمایا: اے رسولو، پاکیزہ چیزیں کھائو اور عمل صالح کرو۔ کوشش کرنا بندے کا کام ہے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے جو کچھ قسمت میں ہے وہ مل کر ہی رہے گا۔ محنت ہی میں انسان کی عظمت ہے اور محنت کر کے کھانا ہی انسان کا شرف ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اپنے بندے کو حلال رزق کی تلاش میں محنت کرتا اور تکلیف اٹھاتا دیکھے۔ (مشکوۃ) 
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، ناجائز طریقے سے کسب معاش حاصل کرنے والوں کے اعمال قبول نہیں ہوتے ۔حلال ذرائع کی کمائی سے انسان کی کردار سازی ہوتی ہے، کاموں میں برکت اوررزق میں کشادگی اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ حرام کھا کر اور پہن کر دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کر کے دعا کیسے قبول ہوگی ۔ آپؐ نے فرمایا اس شخص کی نماز قبول نہیں ہوگی جس کے کپڑوں میں ان کی قیمت کا دسواں حصہ بھی حرام کا ہو گا ۔ (صحاح ستہ) 

ہفتہ، 19 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor Ayat 39 Part-02.کیا ہمارا دل اللہ کی یاد سے خالی اور دنیا...

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 39 Part-01.کیا ہمارے تمام نیک اعما...

ضبطِ نفس: فضیلت و اہمیت

 

ضبطِ نفس: فضیلت و اہمیت

کسی بھی انسان کی شخصیت کو نکھارنے کے لیے ضبطِ نفس ایک اہم خوبی ہے ۔ضبطِ نفس کی کمی انسان میں بہت بڑی کمزوری ہوتی ہے جو اس کی شخصیت کو گہنا دیتی ہے ۔ حضور نبی کریمﷺ دنیا میں سب سے اعلیٰ و ارفع شخصیت ہیں اور دنیا کے سب سے عظیم ترین رہنما ہیں۔آپؐ کا ضبطِ نفس بھی ساری کائنات سے زیادہ تھا ۔ خوشحال زندگی گزارنے کے لیے ضبطِ نفس بہت ضروری ہے ۔ اگر انسان میں ضبطِ نفس نہ ہو تو اس کی فطری صلاحیت بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ اگر انسان اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھے گا تو کوئی دوسرا اس پر قابو پا لے گا اور جوشخص اپنے آپ پر قابو نہیں پا سکتا تو پھر اس میں اور جانور میں کیا فرق رہے گا ۔ جو شخص اپنی قیادت خود نہیں کر سکتا وہ دوسروں کی قیادت کیسے کر ے گا ؟
ضبطِ نفس سے مراد یہ ہے کہ جب بھی حق اور سچ کی راہ میں سہل پسندی ، بزدلی ، خود پسندی یا کوئی نفسانی خواہش حائل ہو تو انسان اسے ٹھکراکر صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہے۔ قرآن مجید میں اس کے لیے مختلف الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ سب سے پہلے تقویٰ، تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو نا جائز خواہشات اور گناہوں سے بچائے ۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’بے شک سب سے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے‘‘۔ اس کے بعد تزکیۂ نفس، تزکیۂ نفس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ناجائز خواہشات اور گناہوں سے پاک رکھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’ بے شک فلاح پا گیا وہ شخص جس نے اس (نفس ) کو (گناہوں سے ) پاک کر لیا ۔ ‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’ اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرے ‘۔
انسان کی اپنی خواہشات پر قابو پانے کو حضور نبی کریمﷺ نے بڑا جہاد قرار دیا ہے ۔ حضرت ابوذر ؓ نے آپؐ سے عرض کی کون سا جہادافضل ہے تو آپؐ نے فرمایا: افضل جہاد یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس اور اپنی خواہش کے خلاف جہاد کرے ۔ (کنزالعمال ) 
ضبطِ نفس ہمیں نظم و ضبط کی پابندی سکھاتا ہے اور نظم و ضبط کامیابی کی کنجی ہے ۔ انسان اگر کامیابی حاصل کر نا چاہتا ہے تو اس کی اپنے نفس پر گرفت اتنی مضبوط ہو کہ اس کی نفسانی خواہشات اس کے راستے کی دیوار نہ بن سکیں ۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے: تمھارے صاحب (حضرت محمدﷺ) نہ کبھی راہ حق سے ہٹے اور نہ کبھی راہ حق گم کی ۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے بلکہ ان کا کلام صرف وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے ‘۔ یعنی کہ حضور نبی کریمﷺکا اپنی خواہشات پر اتنا قابو تھا کہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتے تھے بلکہ صرف وہی بتاتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا تھا ۔ 

جمعہ، 18 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 36-38 Part-05.کیا ہم بے مقصد زندگی...

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 36-38 Part-04.کیا ہمارے دل دنیا کی...

ایثار و قربانی (۳)

 

ایثار و قربانی (۳)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ خواہش تھی کہ جب ان کا وصال ہو تو انہیں روضہ رسول ؐ میں آپ  اور سیدنا صدیق اکبرؓکے ساتھ دفن کیا جائے۔ آپ نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمرؓ کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا کہ حضرت عاشہؓ  کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ کیا عمر ؓ روضہ رسول ؐ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہو سکتے ہیں۔ قربان جائیں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓکے جذبہ ایثار سے۔ آپ نے فرمایا یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن آج میں اپنے اوپر حضرت عمر ؓ کو ترجیح دیتی ہوں۔ 
جب عبد اللہ بن عمرؓ واپس گئے اور حضرت عمرؓ  کو بتایا کہ حضرت عائشہؓ نے اجازت دے دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے لیے اس خواب گاہ زیادہ کوئی چیز اہم نہیں۔ آپ نے فرمایا جب میرا انتقال ہو جائے تو پھر حضرت عائشہؓ کے پاس جانا دوبارہ اجازت طلب کرنا اگر اجازت ملے تو مجھے روضہ رسول ؐ میں دفن کرنا نہیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ ( بخاری ) 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی جذبہ ایثار بہت زیادہ تھا۔ جب صحابہ کرام ؓ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئے تو انصار نے ایثار و قربانی کی ایسی مثال قائم کی جس کی مثال رہتی دنیا تک نہیں ملے گی۔ انصار صحابہ نے مہاجرصحابہ کے لیے بڑی محبت کے ساتھ رہائش ، خوراک کا انتظام کیا۔ ان کو اپنی زمین اور باغات میں حصہ دار بنایا اور مہاجر بہت جلد تجارت اور مزدوری کر کے اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے۔ 
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی کو بکری کا سر بطور تحفہ پیش کیا گیا۔ اس نے سوچا میرا فلاں بھائی اور اس کے گھر والے اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ اس نے وہ گوشت اس کے پاس بھیج دیا۔ پھر اسی گوشت کو ہر ایک صحابی اسی ایثار کے جذبہ کے ساتھ دوسرے کے گھر بھیجتا رہا یہاں تک کہ وہ گوشت سات گھروں سے ہوتا ہوا دوبارہ پہلے صحابی کے پاس آ گیا۔(شعب الایمان ) 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور وہ انہیں ( مہاجرین) کو اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود شدید ضرورت ہو ‘‘۔ 
اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں ایسے کئی جذبہ ایثار کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے سے زیادہ دوسروں کو ترجیح دی۔ آج اس پْر فتن اور مہنگائی کے دور میں اسی ایثار کی ضرورت ہے تا کہ غرباء و مساکین دو وقت کا کھاناعزت کے ساتھ کھا سکیں۔

جمعرات، 17 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor Ayat 36-38 Part-03.کیا ہم اللہ تعالی کے حکم کے مطابق زندگ...

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 36-38 Part-02.کیا ہم زندگی اللہ تع...

ایثار و قربانی (2)

 

ایثار و قربانی (2)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی رحمت ﷺنے تا دم آخر کبھی بھی لگاتار تین دن تک پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اوراگر ہم (اہل بیت )چاہتے تو خوب سیر ہو کر کھا سکتے تھے لیکن ہم اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔ ( احیا علوم الدین )۔ 
جب کسی شخص کو اقتدار حاصل ہو جائے تو اپنی ذات ، اپنے خاندان اور دوستوں احباب کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن قربان جائیں حضور نبی رحمت ﷺ پر آپ ہمیشہ دوسروں کو اپنے اہل بیت کے اوپر ترجیح دیتے تھے۔ 
حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا گھر وا لو ں میں سے حضور ﷺ کو سب سے زیادہ عزیز تھیں۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ پاس کچھ خادم آئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تم بھی اپنے ابا جان کے پاس جاتیں اور ایک خادم کی درخواست کرتیں۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گئیں تو لوگوں کا رش دیکھ کر واپس آ گئیں۔ دوسرے دن آپ ﷺ خود ان کے گھر آئے اور اپنی بیٹی سے پوچھا کل تمہاری کیا حاجت تھی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاموش رہیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاگھر کے کام کرتے تھک جاتی ہیں ہاتھوں پر چکی چلا چلا کر چھالے بن گئے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک غلام کی درخواست کریں۔ 
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا اے فاطمہ اللہ سے ڈرو اور اپنے رب کا فریضہ ادا کرو اور اپنے گھر کے کام اپنے ہاتھوں سے کرو اور جب آرام کی غرض سے بستر پر جائو تو تینتیس مرتبہ ’’سبحان اللہ ‘‘ ، تینتیس مرتبہ ’’ الحمد اللہ ‘‘ اور چونتیس مرتبہ ’’ اللہ اکبر ‘‘ کہہ لیا کرو۔ پس یہ ایک سو مکمل ہے اور یہ تمہار ے لیے خادم سے بہتر ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے راضی ہوں۔ 
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایثار ، آپ  بیان کرتی ہیں کہ ایک دن میں روزے سے تھی کسی مسکین نے سوال کیا تو گھر میں صرف ایک ہی روٹی تھی۔ میں نے خادمہ سے کہا کہ وہ روٹی اس سوالی کو دے دو۔ خادمہ نے عرض کی آپ کے افطار کے لیے اس روٹی کے سوا کچھ نہیں پھر بھی آپ یہ فرما رہی ہی ہیں کہ یہ روٹی دے دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں جب شام ہوئی کسی نے ہمارے لیے بکری کا ہدیہ بھیجا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے خا دمہ کو بلایا اور فرمایا اس سے کھائو یہ تیری اس روٹی سے بہتر ہے۔ ( موطا امام مالک )۔

بدھ، 16 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 36-38 Part-01.کیا ہم نور کے راستے ...

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 35 Part-07.کیا صرف دنیا ہی ہماری م...

ایثار و قربانی (۱)

 

ایثار و قربانی (۱)

جس شخص میں خود غرضی نہیں ہوتی وہ اپنے سے زیادہ دوسروں کی ضرورتوں اور خواہشات کا خیال رکھتا ہے اور اس کے بر عکس خود غرض انسان دوسروں کی بجائے ہر وقت اپنے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ اس کی کسی کے بھی نفع و نقصان سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
بے غرضی انسان کو دوسروں کے ساتھ جوڑتی ہے اور خود غرض انسان تنہا رہ جاتا ہے۔ بے غرضی سے ریاکاری ختم ہوتی ہے اخلاص پروان چڑھتا ہے۔ بے غرضی سے تکبر ختم ہو جاتا ہے اور جذبہ انکسار پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص خود غرض ہوتا ہے وہ دوسرں کے حقوق کا بھی خیال نہیں رکھتا اور انہیں غصب کر لیتا ہے۔ اور خود غرض شخص پر سے دوسروں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ 
ایثار سے انسان کے اندر مہربانی ، ہمدردی ، سخاوت ، صبر و تحمل ، عفو درگزر ، امانت و دیانت اور عاجزی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جس سے پورے معاشرے کو امن و سکون حاصل ہوتا ہے۔ جذبہ ایثار معاشرے کی اجتماعی ضرورت ہے۔
 حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بازار سے مچھلی خریدی پھر آپ کے پاس سائل آیا تو آپ نے وہ مچھلی اسے دے دی اور فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو پھر اپنی خواہش کو ترک کر دے اور دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا۔ ( تاریخ دمشق ابن عساکر ) 
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت ایک چادر لے کر حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کی یارسول اللہؐ میں نے اس چادر کو اپنے ہاتھوں سے آپ ؐ کے لیے بنایا ہے تا کہ میں اسے آپ کو پہنائوں۔ نبی کریم ﷺ نے وہ چادر لے لی اور نبی کریم ﷺ کو اس وقت اس کی ضرورت بھی تھی۔ پھر آپ ؐ وہ چادر لے کر باہر تشریف لائے تو ایک شخص نے کہا یا رسو ل اللہ ؐ آپ یہ مجھے عطا کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا ہاں (یہ تمہیں دے دیں گے ) پھر آپ ؐ مجلس میں بیٹھ گئے اور پھر جب آپ ؐ جانے لگے تو چادر کو لپیٹ کر اس شخص کے پاس بھیج دیا۔ لوگوں نے اس شخص سے کہا تم نے اچھا نہیں کیا تم نے آپ  سے یہ چادر مانگ لی حالانکہ تم جانتے تھے کہ آپ ؐ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ اس شخص نے کہا اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے اس چادر کا سوال اس لیے کیا کہ جب میں مروں تو آپ ؐ کے جسم مبارک سے لگی ہوئی چادر میرا کفن بنے۔ حضرت سہل فرماتے ہیں پھر وہ چادر اس شخص کا کفن بنی۔ ( بخاری )۔

منگل، 15 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 35 Part-06.کیا ہم اندھیروں کو روشن...

Surah Al-Noor Ayat 35 Part-05.کیا ہم اللہ تعالی کو مقصود حیات بنانے کے ...

حضور غوث اعظم کی تعلیمات(۴)

 

حضور غوث اعظم کی تعلیمات(۴)

شان صحابہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں سچے تھے اس لیے تمام مال سرکار دو عالم پر قربان کر دیا۔ آپ کے وصف کو اپنا لیا اور فقر اختیار کر لیا۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ستر قسم کے مباح اس وجہ سے ترک کر دیتے تھے کہ کہیں گناہ واقع نہ ہوجائے۔ حضرت عمرفاروق ؓ فرماتے ہیں کہ ہم حلال کے دس حصوں میں سے نو حصے اس لیے چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں حرام میں واقع نہ ہو جائیں انہوں نے اس احتیاط کے پیش نظر ایسا کیا کہ حرام کا ارتکاب تو کجا اس کے قریب سے بھی گزر نہ ہو۔ 
آپ فرماتے ہیں اگر آپ کو کوئی مشکل درپیش ہو اور تو صالح اور منافق میں فرق نہ کر سکے تو رات کو اٹھ کر دو رکعت نماز ادا کر اور اسکے بعد یہ دعا مانگ۔ ”اے اللہ اپنی مخلوق میں سے صالحین تک میری راہنمائی فرما ، اس شخصیت کی طرف میری راہنمائی فرما جو مجھے تیری راہ دکھائے تیرا طعام کھلائے ، تیرے مشروب پلائے تیرے قرب کا سرمہ میری آنکھوں میں لگائے۔ 
آپ تصوف کے متعلق فرماتے ہیں اے لڑکے اپنے دل کو رزق حلال کے ذریعے صاف کر تجھے معرفت الٰہیہ مل جائے گی تو اپنے لقمے کو،اپنے لباس کو اور اپنے دل کو پاک صاف کر تجھے صفائی حاصل ہو جائے گی۔ تصوف صفاءکے بنا ہے اے اون کا لباس پہننے والے تصوف میں سچا صوفی وہ ہے جو اپنے دل کو اپنے مولیٰ کے ما سوا پاک کر لے اور یہ مقام رنگ برنگے کپڑے پہننے ، چہروں کے زرد کر لینے اور کندھوں کے جھکا لینے ، اولیا ءکرام کے واقعات زبان پر سجا لینے اور اپنی انگلیوں کو تسبیح و تحلیل کے ساتھ متحرک کر لینے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ مقام اللہ تعالیٰ کو سچے دل سے طلب کرنے ، دنیا سے بے نیاز ہو جانے مخلوق کو دل سے نکال دینے اور اپنے رب کے سوا سب سے الگ ہو جانے سے حاصل ہو تا ہے۔ 
آپ فرماتے ہیں پہلے لوگ دین اور دلوں کے اطبا اولیا ءاور صالحین کی تلاش میں مشرق و مغرب کا چکر لگاتے تھے جب انہیں ان میں سے کوئی مل جاتا تو اس سے اپنے دین کی دوا طلب کرتے تھے اور آج تم فقہا علماءاور اولیاءسے بغض رکھتے ہو جو ادب اور علم سکھاتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ تم دوا حاصل نہیں کر پاتے۔ 
آپ فرماتے ہیں میں ساری زندگی اولیاءکے بارے میں حسن ظن رکھتا رہا ہوں اور ان کی خدمت کرتا رہا ہوں اس چیز نے مجھے فائدہ دیا ہے۔ میں تم سے نصیحت اور خطاب کا معاوضہ نہیں چاہتا۔ میرے خطاب کا معاوضہ یہ ہے کہ اس پر عمل کرو۔

پیر، 14 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 35 Part-04.کیا ہم سب اندھیرے میں ہیں

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 35 Part-03.کیا ہم نے اپنے دل کو عر...

حضور غوث اعظم ؒکی تعلیمات(۳)

 

حضور غوث اعظم ؒکی تعلیمات(۳)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، اسم اعظم ’اللہ‘ ہی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جب اللہ پکارو تو تمھارے دل میں اس کے سوا کوئی دوسرا نہ ہو ۔ (حاشیہ مراقی الفاماح) 
حضور غوث اعظم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، صاحب ایمان کو چاہیے پہلے فرائض کو ادا کر ے جب ان سے فارغ ہو جائے تو سنتیں ادا کریاور پھر نوافل اور فضائل میں مشغول ہو ۔ فرائض سے فارغ ہوئے بغیر سنتیں اور نوافل ادا نہ کرے کیونکہ عبادات میں پہلا درجہ فرائض کا ہے ۔ 
آپؒ فرماتے ہیں، اے لڑکے تو دنیا میں عیش و عشرت کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کے نا پسندیدہ کاموں کو چھوڑ دے ۔ تو نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے ’لاالہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ‘ پڑھ لینا کافی ہے ؟ یہ تیرے لیے تب ہی فائدہ مند ہو گا جب تو اس کے ساتھ کچھ اعمال صالحہ ملائے گا ۔ ایمان اقرا ر اور عمل کا نام ہے ۔ جب تو گناہوں میں مبتلا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت کا مرتکب ہو گا ان پر اصرار کرے گا نماز ، روزہ ، صدقہ اور افعال خیر کو ترک کر دے گا تو یہ دو شہادتیں تجھے کیا فائدہ دیں گی ۔ 
جب تو نے لاالہ الاللہ کہا ہے تو یہ ایک دعویٰ ہے۔ تجھے کہا جائے گا اس دعویٰ پر کیا دلیل ہے ؟ اللہ تعالیٰ اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر کو تسلیم کرنا اس کی دلیل ہے ۔ جب تو نے یہ عمل کیے تو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے بغیر یہ عمل مقبول نہ ہوں گے ۔ قول کے بغیر عمل اور عمل کے بغیر اخلاص اور اتباع سنت کے مقبول نہیں ۔ 
زہد کے متعلق آپ ؒ فرماتے ہیں، جو آخرت کا طلب گار ہو اسے دنیا سے بے نیاز ہو جانا چاہیے اور جو اللہ تعالیٰ کا طالب ہو اسے آخرت سے بے نیاز ہو جانا چاہیے ۔ دنیا کو آخرت کے لیے اور آخرت کو اللہ تعالیٰ کے لیے ترک کر دے ۔ جب تک اس کے دل میں دنیا کی خواہش اور لذت باقی ہے اور جب تک وہ کھانے پینے کی اشیاء ، لباس ، اہل و اعیال ، مکان ،سواری اور اختیار و اقتدار سے راحت حاصل کرنا چاہے یا فنون علمیہ میں سے کسی فن مثلا ً مسائل عبادات سے زیادہ فقہ ، روایت حدیث یا مختلف قرأ ت سے قرآن مجید کے پڑھنے ، نحو ، لغت یا فصاحت و بلاغت میں محو ہو ، یا فقر کے زوال اور دولتمندی کے حصول یا مصیبت کے زائل ہونے اور عافیت کے مل جانے کے لیے کوشاں ہو ، مختصر یہ کہ نقصان سے بچنے اور نفع کے حاصل کرنے کی فکر می ہو وہ پورا زاہد نہیں ہے کیونکہ ان امور میں سے ہر ایک نفس کی لذت خواہش کی موافقت ، طبیعت کی راحت اور اس کی محبت مضمر ہے اور اس سے اطمینان و سکون میسر آتا ہے لہٰذاکوشش کی جائے کہ ان تمام امور کو دل سے نکال دیا جائے ۔

اتوار، 13 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 35 Part-02.ہمیں نورانی بننے کے لئے...

Surah Al-Noor Ayat 35 Part-01.کیا ہم اللہ تعالی کے راستے پر چلنے کے لئے...

حضور غوث اعظم کی تعلیمات

 

حضور غوث اعظم کی تعلیمات

آپ  نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا کہا اور شرک سے منع فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں افسوس تْو بندہ تو اللہ تعالیٰ کا ہے اوراطاعت دوسروں کی کرتا ہے۔ اگر تْو واقعی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوتا تو تیری دوستی اور دشمنی اسی کے لیے ہوتی۔ صاحب یقین مومن اپنے نفس اور شیطان کی پیروی نہیں کرتا کیوں کہ وہ شیطان کا شناساہی نہیں تو اسکی اطاعت کیوں کرے۔ وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اسے ذلیل کرتا ہے اور آخرت کا طلب گار ہے۔ اورجب اسے آخرت مل جاتی ہے وہ اسے بھی ترک کر دیتا ہے اور اپنے مولیٰ سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ خالصتا اسی کی عبادت کرتا ہے۔ اس نے اپنے رب کا فرمان سن رکھا ہے ’’ انہیں یہی حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کریں ، دین کو اسی کے لیے خالص کرتے اور ہر باطل سے اعراض کرتے ہوئے‘‘۔ اے بندو مخلوق کو شریک بنانا چھوڑ دو اور صرف اللہ تعالی کو وحدہ لاشریک مان لو۔ کیونکہ ہر شے کے خزانے اللہ ہی کے پاس ہیں۔ 
حضور نبی کریم رئو ف الرحیم ﷺ کا مقام مرتبہ بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺ کی آنکھیں محو استراحت ہوتیں اور دل پاک بیدار ہوتا  آپ جس طرح آگے دیکھتے تھے اسی طرح پیچھے دیکھتے تھے۔ ہر شخص کی بیداری اس کے حال کے مطابق ہے کوئی شخص نبی کریمﷺ کی بیداری کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی کوئی آپ کی خصوصیات میں شریک ہو سکتا ہے۔
آپ ایسے علم اور عمل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ علم چھلکا ہے اور عمل مغز۔ چھلکے کی حفاظت اس لیے کی جاتی ہے کہ مغز محفوظ رہے اورمغز کی حفاظت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس سے تیل نکالا جائے۔ وہ چھلکا کس کام کا جس میں مغز نہ ہو اور وہ مغز بے کار ہے جس میں تیل نہ ہو۔ علم ضائع ہو چکا ہے کیونکہ جب علم پر عمل نہ رہا تو علم بھی ضائع ہو گیا۔عمل کے بغیر علم کا پڑھنا اور پڑھانا کیا فائدہ دے گا۔
اے عالم اگر تو دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اپنے علم پر عمل کر اور لوگوں کو علم سکھا۔ آپ  فرماتے ہیں اے میری قوم تمہارے اندر نفاق بڑھ گیا ہے اور اخلاص ختم ہو گیا ہے۔اعمال کے بغیر اقوال کی کثرت ہے ، عمل کے بغیر قول فائدہ نہیں دیتا۔ وہ تیرے حق میں نہیں بلکہ تیرے مخالف دلیل ہے وہ بے جان جسم ہے وہ ایک ایسا بت ہے جس کے نہ ہاتھ نہ پائوں اور نہ ہی اس میں پکڑنے کی صلاحیت ہے۔ تمہارے اکثر اعمال بے روح لاشے ہیں۔ روح کیا ہے ؟ توحید ، اللہ تعالی کی کتاب اور رسول اللہ ؐ  کی سنت پر ثابت قدمی۔

جمعرات، 10 اکتوبر، 2024

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 24.کیا ہم منزل بھٹک گئے ہیں

Surah Al-Noor (سُوۡرَةُ النُّور) Ayat 22-23.کیا ہم حقیقی مومن بننے کے لئ...

حضور سیدنا غوث اعظم رحمة اللہ علیہ (۱)


 

 حضور سیدنا غوث اعظم رحمة اللہ علیہ (۱)

سیدنا غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی محبو ب سبحانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ 470ہجری کو عراق کے شہر جیلان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی شخصیت اور علمی و روحانی کمالات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کے والد ماجد سیدنا ابو الصالح موسی جنگی دوست رحمةا للہ علیہ بہت بڑے عالم و عارف اور اکابر مشائخ میں تھے۔ آپ کے والد ماجد کو جہاد فی سبیل اللہ کا بہت شوق تھا۔ آپ راہ خدا میں لڑتے ، مال خرچ کرتے اور شہادت کی تمنا میں ہر وقت جہاد کے لیے تیار رہتے۔ اسی وجہ سے آپ کالقب ” جنگی دوست “ مشہور ہو گیا۔ آپ کے والد زہد و تقوی اور روحانی اور علمی کمالات کے مالک تھے۔آپ کے والد ماجد نفس کشی اور ریاضت شرعی میں فرد واحد تھے۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے سے نہیں ڈرتے تھے۔
آپ کی والدہ ماجدہ نہایت پرہیز گار اور علوم ظاہری و باطنی سے مرصع و مرقع تھیں۔ آپ قرآن پاک کی حافظہ اور بہت زیادہ عبادت گزار تھیں۔ ایسے متقی و پر ہیز گار والدین کی آغوش میں پرورش پانے والا فرزند کن کن صلا حیتوں کا مالک ہو گا۔
حضور غوث اعظم رحمة اللہ علیہ نے قرآن مجید حفظ و ناظرہ اپنے والدین سے پڑھا اور ابتدائی تعلیم بھی گھر میں حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کو جیلان کے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا گیا۔ آپ رحمة اللہ علیہ فطری طور پربہت زیادہ ذہانت کے مالک تھے اسی وجہ سے آپ نے علم کی منازل بڑی تیزی سے طے کیں۔ ابھی آپ کی عمر مبارک دس برس تھی کہ آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے اٹھا رہ سال تک جیلان میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بغداد تشریف لے گئے۔ رخصتی کے وقت آپ کی والدہ نے آپ کو نصیحت کی کہ کبھی جھوٹ مت بولنا۔ راستے میں ڈاکوﺅں نے قافلے کو گھیر لیا۔ایک ڈاکو نے آپ سے پوچھا آپ کے پاس کیا ہے تو آپ نے فرمایا میرے پاس چالیس دینار ہیں وہ مذاق سمجھ کر چلا گیا۔ اس کے بعد دوسرے نے آکر پوچھا تو آپ نے یہ ہی جواب دیا۔ انہوں نے اپنے سردار کو ساری بات بتائی تو سردار نے آکر آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میری والدہ نے رخصتی کے وقت چالیس دینار میری گدڑی میں سی دیے تھے جب اس کو کھولا گیا تو اس میں واقعی چالیس دینار تھے۔
سردار نے آپ سے پوچھا کہ تمہیں سچ بولنے پر کس نے مجبور کیا تو آپ نے فرمایا کہ میری والدہ نے مجھے نصیحت کی کہ بیٹا کبھی جھوت نہ بولنا۔ تو سردار نے کہا کہ ایک بچہ اپنی والدہ سے کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور ہم کب سے اللہ تعالی سے کیے ہوئے وعدہ سے منحرف ہیں۔ آپ کی سچائی کی وجہ سے ڈاکوﺅں نے توبہ کی اور لوٹا ہوا مال سب کو واپس کر دیا۔

Surah Al Qasas Ayat 10 16 1784