ہفتہ، 31 جولائی، 2021

Kya Humari Dunya Main Zindagi Guzarnay Ki Neat Sirf Dunya Hay?

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1790 ( Surah Al-Qamar Ayat 41 - 45 ) درس قرآن...

سعادتِ ایمان اور آزمائش

 

سعادتِ ایمان اور آزمائش 

حضور اکرم ﷺکی بعثت مبارکہ کے بعد سب سے پہلے آپکی تصدیق کا شرف ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا، اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق،حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت زید بن حارثہ ؓاس سعادت سے مشرف ہوئے ان حضرات کے بعد اسلام کی نعمتِ عظمیٰ حضرت عثمان ؓکے مقدر میں آئی۔  اس طرح آپ السابقون الاوّلون میں نمایاں مقام کے حامل ٹھہرے۔ قبولِ اسلام کے بعد انھیں دوسرے مسلمانوں کی طرح ابتلاء اور آلام کے مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا ۔ آپکے خاندان نے آپکے قبولِ اسلام کی سخت مخالفت کی اور آپکو عملاً بھی بڑے جبر وتشد د کا نشانہ بنایا گیا لیکن آپکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی، اور آپ اپنے موقف پر بڑی استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ’’آپکے چچا کا یہ معمول تھا کہ جانور کے کچے بدبودار چمڑے میں انہیں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیتا۔ نیچے سے تانبے کی طرح تپتی ریت اوپر سے عرب کے سورج کی آتشیں کرنیں ۔ اس پر کچے چمڑے کی بدبو ایک عذاب میں اس بڈھے نے بیسوئوں عذابوں کو یکجا کردیا تھا۔ اس طرح اپنے سگے بھتیجے پر وہ دل کی بھڑاس نکالتا پھر بھی دل سیر نہ ہوتا۔‘‘(ضیاء النبی )
مکہ میں آپ کو حضور اکرم ﷺکی دامادی کا شر ف حاصل ہوا۔ بعثت سے قبل حضور کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح ابو لہب کے بیٹوں سے ہوگیا تھا۔ جبکہ رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی۔ آپکی دعوت رسالت کی خبر اس تک پہنچی تو اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ حضور ﷺکی صاحبزادیوں کو طلاق دیدیں ۔ اس طلاق کے بعد حضور اکرم ﷺنے اپنے صاجزادی حضرت رقیہ ؓ کا نکاح حضرت عثمان غنی سے کردیا۔ کہاجاتا ہے کہ یہ مکہ کاخوبصورت ترین ازدواجی جوڑا تھا اور لوگ ان کے باہمی تعلق پر رشک کیا کرتے تھے۔ خود حضور انور ﷺ کو اس جوڑے کی روحانی اور جمالیاتی اہمیت کا بڑا احساس تھا ۔ حضرت اسامہ بن زید ؓکہتے ہیں حضور اکرم ﷺنے مجھے ایک دیگچے میں گوشت دیا اور فرمایا کہ یہ عثمان کے گھر پہنچادو۔ میں انکے گھر میں داخل ہوا  وہاں حضرت رقیہ بھی تشریف فرماتھیں۔ میں نے زوجین میں ان سے بہتر کوئی جوڑا نہیں دیکھا۔ میں کبھی حضرت عثمان کے چہرے کودیکھتا اور کبھی ان کی باوقار اور پرانور اہلیہ کو(اور اس جوڑے کے ملکوتی حسن وتقدس کودیکھ کر حیران ہوتا)جب واپس آئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بڑے اشتیاق سے) مجھ سے پوچھا کیاتم وہاں گئے تھے۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں،آپ نے فرمایا: کیا تم نے ان سے اچھا کوئی جوڑا دیکھا ہے میں نے عرض کیا۔ یارسول اللہ نہیں ۔میں کبھی حضرت عثمان کی طرف دیکھتا اور کبھی حضرت رقیہ کی طرف۔(ابن عساکر)

Shortclip - اعمال صالحہ کی ضرورت

Darsulquran Para-04 - کیا ہم نے آخرت کے عوض دنیا کے مفاد کو ترجیح دے دی ہے

Kya Hum Zindagi Abas Guzar Rahay Hain?

جمعہ، 30 جولائی، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1789 ( Surah Al-Qamar Ayat 33 - 37 ) درس قرآن...

Shortclip - ایمان کے تقاضے

نماز کی تاکید

 

نماز کی تاکید

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور نماز قائم رکھو اورتم مشرکوں میں سے نہ ہوجائو‘‘۔(الروم : ۳۱)’’(جنتی مجرموں سے سوال کریں گے )تم کوکس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟وہ کہیں گے : تم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔(المدثر: ۴۳۔۴۲)

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص اوراس کے کفر اورشرک کے درمیان (فرق)نمازکو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)یعنی نماز کو ترک کرنا کافروں اورمشرکوں کا کام ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے ، اگر وہ مکمل ہوئی تو مکمل لکھی جائے گی اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو کہا جائے گا دیکھو کیا اس کی کچھ نفلی نمازیں ہیں جن سے اس کے فرض کی کمی کو پورا کردیا جائے ، پھر باقی اعمال کا اسی طرح حساب لیا جائے گا۔(سنن نسائی )

 حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل)

 ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، انہوں نے ایک خشک شاخ پکڑ کر اس کو ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے گرنے لگے، پھر انہوں نے کہا: اے ابو عثمان ! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا:آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا، میں آپ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے ایک شاخ کو پکڑکر اسے ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے جھڑنے لگے ، آپ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کیا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے اورپانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گررہے ہیں ،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اوردن کے دونوں کناروں اوررات کے کچھ حصوں میں نماز کوقائم رکھو، بے شک نیکیاں ، برائیوں کو مٹادیتی ہیں ، یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں ‘‘۔(ھود: ۱۱۴)(مسند احمد)


Darsulquran para-04 - کیا زندگی میں آزمائش ضروری ہے

Nafs Ka Tazkya Kaisay Ho Ga?

عظمتیں رفعتیں

 

عظمتیں رفعتیں

٭ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:میرے پانچ نام ہیں،میں محمد اوراحمد ہوں (صلی اللہ علیہ وسلم)میں ماحی (مٹانے والا)ہوں،کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو محوکردے گا۔میں حاشر ہوں(روزحشر)سب لوگ میری پیروی میں ہی اورمیں عاقب (سب سے آخر میں آنے والا)ہوں۔ (بخاری، مسلم)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے گھر اورمیرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ، اورمیرا منبر میرے حوض (کوثر)پر ہے۔(بخاری ،مسلم)

٭ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہوکر خطاب فرمایا، آپ نے اپنے اس دن قیام فرما ہونے سے لیکر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی جس کو آپ نے بیان نہ فرمادیا ہو،جس نے اسے یادرکھا سویاد رکھااورجو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔(بخاری ، مسلم)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو صوم وصال (یعنی سحری وافطاری کے بغیر مسلسل روزے رکھنے )سے منع فرمایا، انھوںمیں سے کچھ نے عرض کیا،یا رسول اللہ ! آپ خود تو صوم وصال رکھتے ہیں،اس پر آپ نے ارشادفرمایا:تم میں سے کون میری مثل ہوسکتا ہے؟میں تو اس عالم میں رات بسر کرتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا بھی ہے اورپلاتا بھی ہے۔(بخاری ،مسلم)

٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ہمایوں میں سورج گرہن ہوا، آپ نے نماز کسوف پڑھائی،صحابہ نے عرض کیا:یارسول اللہ !ہم نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کسی چیز کو پکڑا پھر ہم نے دیکھا کہ آپ قدرے پیچھے ہٹ گئے ۔آپ نے ارشادفرمایا:مجھے جنت نظر آرہی تھی ، میں نے اس میں سے ایک (انگورکا)خوشہ پکڑلیا۔لیکن اگر میں اسے توڑ دیتا تو تم رہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے رہتے (اوروہ کبھی ختم نہ ہوتا)۔(بخاری ، مسلم) 

بدھ، 28 جولائی، 2021

Nafs-e-Ammara Ko Kaisay Qabu Karain?

Nafs-e-Ammara Ko Kaisay Qabu Karain?

حضرت عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ)

 

حضرت عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ)

حضور اکرم ﷺکے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفان ؓکی شخصیت اپنے وجود میں ان گنت محاسن کی جامع ہے۔ آپکا شمار ان خوش نصیب افراد میں ہوتا ہے جو انبیائے کرام کے بعد بر گزیدہ ترین ہیں ۔آپکو ہر وہ اعزاز حاصل ہے جو اسلام میں کسی بھی شخص کیلئے فضیلت وتقر ب کا باعث ہوسکتا ہے۔ آپ خلفاء راشد ین میں سے ہیں ، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔ آپکو اصحاب بدر میں شمار کیا گیا۔ بیعت ِ رضوان کے انعقاد کا سبب ہی آپ ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کی دو شہزایوں سے آپکا نکاح ہوا اور آپ ذوالنورین کہلائے۔ آپ کا اسم گرامی عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی ہے۔ عبد مناف پر آپ کا شجر ہ نسب حضور اکرم ﷺ سے مل جاتا ہے۔ آپکا قبیلہ بنو امیہ قریش کا ایک معزز اور بڑا خاندان شمار ہوتا تھا۔ بنو ہاشم کے سوا کوئی اور قبیلہ ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرتا تھا۔ قریش کا مشہور عہدہ ’عقاب‘(یعنی فوجی نشان)کی علمداری اسی خاندان کے پاس تھی۔ حضرت عثمان غنی عام الفیل کے چھٹے سال (ہجرت سے تقریباً ۴۷ سال) قبل پید ا ہوئے ۔بچپن ہی میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیاتھا۔ آپکا ذریعہ معاش تجارت تھا ۔ آپکے والد عفان نے ترکے میں بہت مال ودولت چھوڑا، آپ نے اپنی حکمت اور تدبر سے اپنے کا روبار کو بڑی ترقی دی۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اپنی امانت ، دیانت ، راست گوئی اور حسنِ معاملہ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ دولت وثروت کی وجہ سے غنی کے نام سے مشہور تھے لیکن تمام اسباب ووسائل کا حامل ہونے کے باوجود سیر ت وکردار میں انتہائی پاکیزگی تھی۔ زمانہ جاہلیت کی برائیوں میں سے کوئی بھی آپکی ذات میں نہیں پائی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ بتوں کی پرستش سے بھی ہمیشہ گریزاں رہے۔ کردار کی پاکیزگی کیساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے آپکو نہایت حسین وجمیل صورت سے نوازا تھا۔ سفید رنگت میں سرخی جھلکتی تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی جسے حناء سے رنگین رکھتے تھے۔ چہر ے پر قدرے چیچک کے نشان تھے جو چھال میں اضافے کا سبب بنتے تھے۔ میانہ قد تھے، آپکی ہڈی چوڑی تھی، پنڈلیاں بھری بھری تھیں‘ ہاتھ لمبے لمبے تھے‘ جسم پر بال تھے‘ سر کے بال گھنگھریالے تھے۔ دونوں شانوں میں زیادہ فاصلہ تھا‘ دانت خوبصورت ‘کنپٹی کے بال بہت نیچے تک آئے ہوئے تھے۔ خود حضور اکرم ﷺنے آپکو حضرت ابر اہیم ؑسے مشابہ قرار دیا۔ حضرت عبد اللہ بن حزم کاقول ہے کہ میں نے حضرت عثمان کے بعد کسی بھی مرد اور عورت کو ان سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔ اپنی سلیم الفطرتی کی وجہ سے آپکی مجالست بھی اپنے ہی جیسے لوگوں میں سے تھی ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓسے آپکے بہت گہرے مراسم تھے اور یہی اعتباروتعلق آپکے قبول اسلام کا باعث بنا۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1787 ( Surah Al-Qamar Ayat 23 - 31 ) درس قرآن...

Darsulquran para-04 - کیا ہم دنیا کے دھوکے کا شکار ہوگئے ہیں

Shortclip - اللہ تعالیٰ کی بندگی کیسے ممکن ہے؟

Darsulquran Para-04 - کیا ہم اپنے رسول کی تعلیمات کو عملی طور پر جھٹلا ر...

منگل، 27 جولائی، 2021

Hum Apni Islaah Kaisay Kar Saktay Hain?

آں خنک شہرے ۔۔۔

 

آں خنک شہرے ۔۔۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اہل مدینہ کا معمول تھا کہ جب انکے باغوں میں پہلا پھل پکتا تو اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت میں پیش کرتے ۔حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس پھل کو لے کر اپنی مبارک آنکھوں پر رکھتے اور یوں دعاء فرماتے۔ ’’اے اللہ ! ہمارے پھلوں میں برکت دے اور ہمارے مدینہ میں بھی برکت دے، ہمارے صاعوں میں بھی برکت دے اور ہمارے مدّ میں بھی برکت دے (یعنی پیمانوں اور وزنوں میں) اے اللہ بے شک ابراہیم تیرا بندہ تیرا خلیل اور تیرا نبی تھا اور اس نے مکہ کیلئے دعا ء کی تھی اور میں مدینہ کیلئے تیری بارگاہ میں التجاء کرتا ہوں۔ جس طرح ابر اہیم نے مکہ کیلئے دعاء کی تھی ۔اسکے ساتھ اس کی مثل اور۔ (صحیح مسلم) حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، اور میر ا منبر میرے حوض یعنی حوضِ کوثر پر ہے۔ (صحیح بخاری)٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے احد کا پہاڑ نظر آیا تو آپ نے فرمایا : یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ اے اللہ بے شک ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ مکرّمہ کو حرم بنا یا تھا اور میں ان دوپہاڑوں کے درمیان کو حرم بنارہا ہوں ۔ (سنن ترمذی )امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ یوں دعاء مانگا کرتے تھے۔ ’’اے اللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت نصیب فرما اور مجھے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں موت عطا فرما۔(بخاری)محمد بن مسلمہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کر تے ہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں خلیفہ مہدی سے ملا قات کے لیے گیا تو اس نے کہا مجھے کچھ نصیحت فرما ئیے میں نے کہا : میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس بات کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کے باشندوں ،حضور کے پڑوسیوں کے ساتھ لطف وعنایت سے پیش آئو۔کیونکہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مدینہ میری ہجرت گاہ ہے، قیامت کے روز یہیں سے اُٹھا یا جائوں گا۔ یہاں میری قبر ہوگئی، اس کے باشندے میرے پڑوسی ہیں اورمیری امت پر لازم کہ وہ میرے پڑوسیوں کی حفاظت کرے۔ جو میری وجہ سے ان کی حفاظت کرے گا، میں قیامت کے روز اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا،اور جو میرے پڑوسیوں کے بارے میں میری وصیت کی حفاظت نہیں کرے گا۔ اللہ اسے دوزخ کا نچوڑپلائے گا۔ (ترتیب المدارک ، قاضی عیاض)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1786 ( Surah Al-Qamar Ayat 15 - 22 ) درس قرآن...

Shortclip - ایمان باللہ کے بغیر انسان کی کامیابی ناممکن ہے؟

پیر، 26 جولائی، 2021

Darsulquran Para-04 - کیا ہم بخیل ہیں

Rab Ki Maarfat Kyoon Zaroori Hay?

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1785 ( Surah Al-Qamar Ayat 08 - 14 ) درس قرآن...

Shortclip - ہم میں بے نیازی کی صفت کیسے پیدا ہوگی؟

صبر

 



 صبر 

 صبر کا معنی ہے : کسی چیز کو تنگی میں روکنا ، نیز کہتے ہیں کہ نفس کو عقل اورشریعت کے تقاضوں کے مطابق روکنا صبر ہے۔ مختلف مواقع اورمحل استعمال کے اعتبار سے صبر کے مختلف معانی ہیں، مصیبت کے وقت نفس کے ضبط کرنے کو صبر کہتے ہیں ، اس کے مقابلہ میں جزع اوربے قراری ہے اورجنگ میں نفس کے ثابت قدم رہنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں بزدلی ہے، حرام کاموں کی تحریک کے وقت حرام کاموں سے رکنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں فسق ہے، عبادت میں مشقت جھیلنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں معصیت ہے ، قلیل روزی پر قناعت کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں حرص ہے ، دوسروں کی ایذارسانی برداشت کرنے کوبھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں انتقام ہے۔ 

 حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صبر کی دوقسمیں ہیں، مصیبت کے وقت صبر اچھا ہے، اوراس سے بھی اچھا صبر ہے اللہ کے محارم سے صبر کرنا(یعنی نفس کوحرام کاموں سے روکنا)۔(ابن ابی حاتم)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہواتھا، آپ نے فرمایا : اے بیٹے ! کیا میں تم کو ایسے کلمات نہ سکھائوں جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں نفع دے ، میںنے کہا: کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : اللہ کو یاد رکھو ، اللہ تمہیں یاد رکھے گا اللہ کو یاد رکھو تم اس کو اپنے سامنے پائو گے ، اللہ تعالیٰ کو آسانی میں یادرکھو وہ تم کو مشکل میں یادرکھے گا، اورجان لو کہ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے وہ تم سے ٹلنے والی نہیں تھی اورجو مصیبت تم سے ٹل گئی ہے وہ تمہیں پہنچنے والی نہیں تھی اوراللہ نے تمہیں جس چیز کے دینے کا ارادہ نہیں کیا تمام مخلوق بھی جمع ہوکر تمہیں وہ چیز نہیں دے سکتی اورجو چیز اللہ تمہیں دینا چاہے تو سب مل کر اس کو روک نہیں سکتے قیامت تک کی تمام باتیں لکھ کر قلم خشک ہوگیا ہے ، جب تم سوال کرو تو اللہ سے کرو اورجب تم مدد چاہو تو اللہ سے چاہو اورجب تم کسی کا دامن پکڑ وتو اللہ کا دامن پکڑواورشکر کرتے ہوئے اللہ کے لیے عمل کرو اورجان لو کہ ناگوار چیز پر صبر کرنے میں خیر کثیر ہے اورصبر کے ساتھ نصرت ہے اورتکلیف کے ساتھ کشادگی ہے اورمشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ حضرت ابوالحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے خوشی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بہ قدر حاجت رزق دیا اوراس نے اس پر صبر کیا ۔(امام بیہقی ) 

Darsulquran Para-04 - کیا ہم نے آخرت کے عوض دنیا کے فائدے کو ترجیح دے د...

Shortclip - ڈپریشن کا علاج

اتوار، 25 جولائی، 2021

Insaan Ki Haqeeqat?

الطافِ کریمانہ

 

الطافِ کریمانہ 

حضرت ابو سعید خدری ؓ حضور اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں ۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو (جوارِ )بیت اللہ میں سکونت عطاء فرمائی تو حضرت آدم ؑنے عرض کیا۔ (اے پروردگار) بے شک تو نے ہر مزدور کو اسکی اجرت بخش دی۔ لہٰذا مجھے بھی میری اجرت عطاء فرما۔اللہ رب العزت نے وحی فرمائی کہ جب تم اس گھر کا طواف کروگے تو میں تمہاری بخشش کردوں گا ۔ حضرت آدم ؑنے گزارش کی اے میرے رب میری اجرت میں اضافہ فرما۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :تمہاری اولاد میں جو بھی اس گھر کا طواف کریگا میں اس کو بھی بخش دونگا۔ حضرت آدم ؑنے پھر درخواست کی، اے میرے مالک مجھے مزید عطا ء فرما ۔ اللہ کریم نے فرمایا : وہ طواف کرنیوالے جس کی مغفرت چاہیں گے میں اسکو بھی معاف کر دونگا۔ (یہ نوازشات دیکھ کر ) ابلیس کہنے لگا۔ اے خدا تو نے مجھے فنا کے گھر میں ٹھہرا دیا اور میرا ٹھکانہ جہنم بنادیا، اور میرے ساتھ میرے رقیب (آدم ؑ)کو کردیا۔ اس پر ایسی عطاء ، اے رب مجھے بھی عطاء فرما۔ خداوندِ قدیر نے فرمایا : میں نے تجھے ایسا کردیا تو انسان کو دیکھ سکتا ہے ،لیکن وہ تجھے نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے پھر سوال کیا تو ارشاد ہوا: میں نے انسان کے قلب کو تیرا ٹھکانہ بنادیا۔ اس نے مزید تقاضا کیا تو ارشاد ہوا، میں تجھے ایسا بنادیا کہ تو انسان کے رگ وپے اور شریانوں میں دوڑ سکتا ہے۔ راوی کہتے ہیں‘ آدم علیہ السلام نے درخواست کی: اے میرے رب ابلیس کو (ایسی صلاحیت ) مل گئی ہے‘مجھے بھی کچھ عطاء ہو۔ ارشاد ہوا: میں نے تمہیں ایسا کردیا کہ جب تم نیکی کا ارادہ کروگے ، لیکن اسے انجام نہ دوگے، پھر بھی اس نیکی کو تمہارے حق میں لکھ دوں گا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پھر سوال کیا، تو ارشادہوا: اگرتم برائی کا ارادہ کروگے ،لیکن اس پر عمل نہیں کرو گے تو میں تمہارے نامہ اعمال میں اس برائی کو درج نہیں کروں گابلکہ اسکے بدلے میں تمہارے حق میں ایک نیکی لکھوں گا۔ حضرت آدم ؑنے پھر دامن طلب دراز کیا تو اللہ رب العز ت نے ارشاد فرمایا : ایک ایسی شے ہے جو صر ف میرے لیے ہے اور ایک ایسی شے ہے جو میرے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ایک شے تمہارے لیے ہے اور ایک شے ایسی ہے جو میری طرف سے تم پر فضل واحسان ہے۔ وہ چیز جو صرف میرے لیے مختص ہے وہ یہ کہ تم صرف میری بندگی کروگے اور کسی بھی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائو گے، اور وہ چیز جو میرے اور تمہارے درمیان مشترک ہے وہ یہ ہے دعاء تمہاری طرف سے ہوگی ،اور قبولیت میری طرف سے اور وہ چیز جو تمہارے لیے ہے وہ یہ کہ تم ایک نیکی کرو گے تو اسکے بدلے میں دس نیکیوں کا ثواب لکھ دوں گا،اور وہ چیز جو تم پر میری جناب سے محض فضل واحسان ہے کہ تم مجھ سے مغفر ت طلب کرو گے تو میں تمہاری مغفر ت کردونگا ، اور بلاشبہ میں بڑا بخشنے والا اور رحم کرنیوالا ہوں۔ (کنز العمال)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1784 ( Surah Al-Qamar Ayat 01 - 07 ) درس قرآن...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم اللہ تعالی کی بندگی میں مخلص ہیں

ہفتہ، 24 جولائی، 2021

بیت اللہ

 

بیت اللہ

’’کعبہ وہ مقام ہے جو مسلمان عرفاء کے خیال کے مطابق عرشِ الٰہی کا سایہ ہے، اور اسکی رحمتوں اور برکتوں کا سِمتُ القدم ہے۔وہ ازل سے اس دنیا میں خدا کا معبد اور خداپرستی کا مرکز تھا، سب سے بڑے بڑے پیغمبر وں نے اسکی زیارت کی اور بیت القدس سے پہلے اپنی عبادتوں کی سمت اس کو قرار دیا کہ’’ اَوَّلَ بیتٍ وُّ ضِعُ للناس (آل عمران) سب سے پہلا خدا کا گھر جو لوگوں کیلئے بنایا گیا‘‘۔وہ وہی تھا، لیکن حضرت ابراہیم سے بہت پہلے دنیا نے اپنی گمرائیوں میں اس کو بھلا کر بے نشان کردیاتھا۔ حضرت ابر اہیم کے وجود سے جب اللہ تعالیٰ نے اس ظلمت کدہ میں توحید کا چراغ پھر روشن کیا، توحکم ہوا کہ اس گھر کی چار دیواری بلند کرکے دنیا میں توحید کا پتھر پھر نصب کیا جائے۔ چنانچہ قرآن پاک کے بیان کیمطابق (حج ۳،۴)کعبہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں البیت العتیق (پرانا گھر) تھا کوئی نیا گھر نہ تھا۔حضرت ابراہیمؑ اورحضرت اسمعیل ؑ نے مل کر اس گھر کی پرانی بنیادوں کو ڈھونڈ کر نئے سرے سے ان پر چار دیواری کھڑی کی اور فرمایا : ’’اذیرفَعْ ابراہیم القو اعد فی البنیا من البیت‘‘ ابراہیم جب اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے، اس سے معلوم ہواکہ بنیاد پہلے سے پڑی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ نے اس افتادہ بنیاد کو از سرنو بلند کیا‘‘۔ (سیرت النبی جلد ۵ )اہل کتاب کی روایا ت سے معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے اسکی تعمیر آدم علیہ السلام کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی فرشتوں نے کی تھی پھر آدم علیہ السلام نے اسکی تجدید فرمائی ۔یہ تعمیر طوفان نوح تک باقی رہی ،طوفانِ نوح میں منہدم ہوجانے کے بعد سے ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک یہ ایک ٹیلہ کی صورت میں باقی رہی ۔ حضرت ابراہیم واسمعیل علیہماالسلام نے ازسر نو تعمیر فرمائی اسکے بعد اس تعمیر میں شکست وریخت تو ہمیشہ ہوتی رہی ، مگر منہدم نہیں ہوئی ۔ آنحضرت ﷺ کے بعثت سے قبل قریش مکہ نے اس کو منہدم کرکے ازسر نو تعمیر کیا ، جس کی تعمیر میں آنحضرت ﷺنے بھی خاص شرکت فرمائی ۔ (معارف القرآن ) شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی ؒ لکھتے ہیں۔’’جب اللہ تعالیٰ نے پانی پر (فرش زمین ) بچھانے کا ارادہ فرمایا تو جس مقام پر آج بیت اللہ شریف ہے ، وہاں سے ایک جھاگ نمودار ہوئی اور اس نے ٹھوس شکل اختیار کرلی ۔یہ زمین کی تخلیق کا آغاز ہے اس ابتدائی مادہ زمین کو ’’ام الخلیقہ‘‘کہتے ہیں ۔ اسی سے ایک ٹکڑا بہتا ہوا اس جگہ پر قرار پذیر ہوگیا۔ جہاں سرکار ابد قرار ﷺکی آرام گاہ ہے اس لیے مکہ ’’ام القری ‘‘ ہے اور باقی زمین کا سلسلہ تخلیق یہیں سے شروع ہوا،اور یہاں فرشتوں نے سب سے پہلے اللہ رب العز ت کا گھر تعمیر کیا۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1783 ( Surah An-Najm Ayat 59 - 62 ) درس قرآن ...

جمعہ، 23 جولائی، 2021

Shortclip - آج کا مسلمان پریشان کیوں ہے؟

Darsulquran Para-04 - موت کی حقیقت کیا ہے

ذبحِ عظیم

 

ذبحِ عظیم

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل (دوست) ہیں۔ انکی ساری زندگی تسلیم و رضا اور اللہ رب العزت کی ذات پر اعتماد و توکل سے عبادت ہے‘ انھیں بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا، لیکن وہ ہر دفعہ ہر امتحان سے سرخرو اور کامیاب ہوکر نکلے۔ آپ نے جس ماحول اور معاشرے میں آنکھ کھولی وہ کفر اور شرک کی آلودگیوں سے بھرا ہوا تھا لیکن آپ نے بڑی جرأت اور استقامت سے آوازِ حق بلند کی۔ اس مملکت کا بادشاہ نمرود تھا، جسے خود بھی خدائی کا دعویٰ تھا لیکن حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اظہار حق فرمایا‘ آپ کو آگ میں ڈال کر زندہ جلا دینے کا حکم ہوا، لیکن آپکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ اللہ نے اس آگ کو گلزار بنادیا اور آپ سرخرو ہوئے۔ اللہ کی خاطر آپ نے اپنے وطن کو خیرآباد کہہ دیا۔ مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے شام میں آباد ہوئے، یہاں اللہ نے آپ کو بڑھاپے کے عالم میں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد حکم ہوا کہ اپنی اہلیہ (حضرت) ہاجرہ اور اپنے شیرخوار فرزند (حضرت اسمٰعیل علیہ السلام) کو عرب کے لق ودق اور بے آباد صحرا میں چھوڑ آئو۔ آپ نے اور آپ کے مقدس گھرانے نے اس حکم پر عمل کرکے تسلیم ورضا کی ایک عظیم مثال قائم کردی۔ ان دونوں امتحانوں سے گزرے توایک بہت ہی بڑے امتحان کا مرحلہ درپیش تھا۔ حکم ہوتا ہے کہ اپنی اس متاع عزیز (فرزند) کو اللہ کے راستے میں قربان کردو۔ حضرت ابر اہیم علیہ السلام نے اس حکم کے سامنے بھی سر تسلیم خم کیا۔ آپ کے عظیم المرتبت فرزند نے جب یہ حکم سنا تو آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے میرے والدِ گرامی، آپ کو جو حکم ہوا ہے، اس پر عمل کر گزریے‘ ان شاء اللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔ اور یہ صرف زبانی کلامی دعویٰ نہیں تھا بلکہ باپ نے اپنے بیٹے کی مشکیں کس دیں۔ اسے پیشانی کے بل زمین پرلٹا دیا اور ایک نہایت ہی تیز دھار چھری کو اسکی گردن پر پھیر دیا لیکن اللہ کی قدرت کا ایک عظیم الشان کر شمہ ظہور پذیر ہوا ، باوجود پوری طاقت صرف کرنے کے چھری کام نہیں کررہی۔ اللہ کے خلیل حیران ہیں کہ ایسے میں اللہ کی طرف سے بشارت آگئی۔ ’’اے ابراہیم (بس اپنا ہاتھ روک لے) تو نے خواب کو سچ کردکھایا۔ ہم محسینین کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں‘‘۔ (القرآن)۔ قریب ہی اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک مینڈھا کھڑا تھا حکم ہوا کہ اس کو اللہ کے راستے میں ذبح کردو۔ یہ عظیم قربانی اللہ کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہوئی کہ اس نے اسے قیامت تک کیلئے ملّت ابر اہیمی کا ایک شعار قرار دیدیا۔ ہر سال ذی الحجہ کی دس تاریخ کو دنیائے اسلام اسکی یاد کو ازسرنو تازہ کرتی ہے۔ 

منگل، 20 جولائی، 2021

Shortclip - ناکام انسان کون ہے؟

Insaan Ka Maqsad-e-Hayaat Kyoon/Kaisay?

حج

 

حج

اسلامی عبادات میں حج ایک منفرد نوعیت کی عبادت ہے،اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس میں جملہ عبادات ومعمولات کا حسن جلوہ گر نظر آتا ہے۔ یہ بدنی بھی ہے اور روحانی بھی اور مالی بھی، اس میں نماز کی نیاز مندی بھی ہے اور روزے کا ضبط نفس بھی، اس میں زکوٰۃ کا انفاق بھی ہے، اور میدان جہاد کی کلفت ومشقّت بھی ۔حج پورے ہوش وحواس میں رہ کر شریعت مطہرہ کے ضابطوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے،اور اللہ کے گھر میں شوق کی وارفتگی کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ بلکہ جب عشق کا ذوق اور شریعت کا ضابطہ مل جاتا ہے تو حج ہوتاہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگو ں پر اللہ کا حق ہے جوا س کے راستہ کی استطاعت رکھیں اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ سارے جہانوں سے بے نیاز ہے۔‘‘(آل عمران ۹۷)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا گیا کہ کون ساعمل افضل ہے۔ فرمایا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ۔پوچھا گیا :پھر کون سا؟ فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں جہاد ،پوچھا گیا : اس کے بعد؟ فرمایا: حجِ مبرور (یعنی ایسا حج جو کہ نیکی کے حصول کے لیے کیا گیا اور عند اللہ مقبول بھی ہوا) ۔(صحیح بخاری)٭حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ نے عرض کیا،یا رسول اللہ ہم جہاد کو افضل عمل سمجھتے ہیں ، تو کیا ہم جہادنہ کریں۔فرمایا: نہیں (بلکہ عورتوں کے لیے) افضل جہاد حج مبرور ہے۔(بخاری) ٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ بوڑھے، بچے ، کمزور اور عورت کا جہاد حج اور عمرہ ہی ہے۔ (سنن نسائی)’’حج اگر خلوص نیت سے ہو اس میں دنیا وی مفاد یا نمودونمائش شامل نہ ہو اسے ایک فرض سمجھ کر اسی تقد س کے ساتھ ادا کیا جائے جیسا کہ فرائض اداکرنے کا حق ہے تو جنت اس کا بدلہ ہے۔ یعنی ایسا حج کرنے والا جنت کا حق دار ٹھہرنا ہے یہی وہ حج ہے جس کی ادائیگی پرزور دیا گیا ہے اور یہی وہ جزاء ہے جس کے لیے ساری محنت کی جاتی ہے‘‘۔ (عقائد وارکان ) ٭حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  حج اور عمرہ اداکرو اس طرح کہ حج کر لو تو عمرہ اداکر و، عمرہ کر چکو توحج کرو۔ کیونکہ حج اور عمرہ تنگ دستی اور گناہوں کو یوںمٹا دیتے ہیں ۔ جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاند ی کا کھوٹ نکال دیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔ (سنن ترمذی )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1782 ( Surah An-Najm Ayat 55 - 62 Part-3 ) در...

Darsulquran Para-04 - کیا ہم ہدایت الہی کے طلبگار نہیں ہیں

Shortclip - مومن کا طرز زندگی کیا ہونا چاہیے؟

Paighambaron Ka Paigham Kya Hay?

پیر، 19 جولائی، 2021

طاقتور کون؟

 

 طاقتور کون؟

غصہ ضبط کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی غصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اورغیظ وغضب کے اظہار اورسزادینے اورانتقام لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ ضبط کرنے اورجوش غضب ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کی ہدایت دی ہے۔ 

 حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑرہے تھے ۔ ان میں سے ایک شخص بہت شدید غصہ میں تھا اوریوں لگتا تھا کہ غصہ سے اس کی ناک پھٹ جائے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسے کلمہ کا علم ہے اگر یہ کلمہ پڑھ لے گا تو اس کا غضب جاتارہے گا ، حضرت معاذ نے پوچھا کہ رسول اللہ ! وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ کہے اللھم انی اعوذ بک من الشیطن الرجیم ۔

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ہواوروہ کھڑا ہوا ہو تو بیٹھ جائے، پھر اگر اس کا غصہ دور ہوجائے تو فبہاورنہ پھر وہ لیٹ جائے۔

 عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غضب شیطان (کے اثر)سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اورآگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو جب تم میں سے کوئی شخص غضب ناک ہوتو وہ وضو کرلے۔(سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ ضبط کرلیا حالانکہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا، اللہ تعالیٰ اس کو امن اورایمان سے بھردے گا۔ (جامع البیان )

 حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیہ کہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اس کو اختیار دے گا وہ جس حور کو چاہے لے لے۔

 حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے نزدیک پہلوانی کا کیا معیار ہے؟ صحابہ نے کہا جو لوگوں کو پچھاڑنے اوراس کو کوئی نہ پچھاڑ سکے، آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔(سنن ابودائود )

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے غصہ کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے عذاب کودور کردے گا، اورجس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔ (مجمع الزوائد )

 حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتلائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے ، حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم غصہ نہ کرو تو تمہارے لیے جنت ہے۔(مجمع الزوائد)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1781 ( Surah An-Najm Ayat 55 - 62 Part-2 ) در...

اتوار، 18 جولائی، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1780 ( Surah An-Najm Ayat 55 - 62 Part-1 ) در...

فضائل مدینہ منورہ

 

فضائل مدینہ منورہ

مدینہ منورّہ کے باسیوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے دل وجان نچھاور کردیے ۔حضور کی تشریف آوری سے اس شہر کا ماحول ہی بدل گیا۔ پہلے یہاں کی آب وہوا صحت کے لیے سازگار نہ تھی ۔بخار اور دیگر متعدی بیماریاں وباء کی صورت میں پھوٹتی رہتی تھیں ۔ پانی خوش ذائقہ نہ تھا۔ اسی وجہ سے یثرب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے نام ہی تبدیل نہیں ہوا۔ آب وہوا بھی خوش گوار ہوگئی، مزاج بدل گئے۔ دشمن جاں باہم شیرو شکر ہوگئے۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص مدینہ کو یثرب کہے اسے چاہیے کہ یہ وہ اپنی غلطی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے ۔یہ تو طابہ (پاکیزہ ) ہے، یہ تو طابہ ہے یہ تو طابہ ہے۔(امام احمد ) ٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم مدینہ منورہ آئے تو وہ وبائوں والا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کی بیماری کو دیکھا تو(اللہ کے حضور )عرض کیا: اے اللہ ہمارے لئے مدینہ منورّہ ایسا ہی محبوب بنادے جیسا کہ تو نے مکہ مکرّمہ کو بنایا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کوصحت وعافیت والا بنا اور ہمارے صا ع اور مد (پیمانوں اور باٹوں ) میں ہمارے لیے برکتیں عطا فرمادے اور یہاں کے بخار کو جحفہ (کے ویرانے )کی طرف منتقل کردے۔(صحیح مسلم)

حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ مکرّمہ کو حر م بنایا تھا اور یہاں کے رہنے والوں کے لئے دعاء کی تھی تو بے شک میں مدینہ منورہ کو اسی طرح حرم بنارہا ہوں جیسے ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ کر حرم بنایا تھا اور میں نے اس کے صاع اور مد کے لیے دوگنی دعاء کی ہے اسی طرح جیسے ابر اہیم علیہ السلام نے مکہ والوں کے لیے دعا مانگی تھی۔(صحیح مسلم)٭حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مدینہ منورہ کی گھاٹیوں پر فرشتے ہیں ، ان سے نہ طاعون اندر آسکتا ہے اور نہ دجال آسکتا ہے ۔ (صحیح بخاری) ٭حضر ت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔آپ نے فرمایا مدینہ حرم ہے اس جگہ سے اس جگہ تک ،اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں گناہ کیا جائے ،اور جس نے کوئی گناہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ ،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ (صحیح بخاری)


ہفتہ، 17 جولائی، 2021

Allah Tallah Nay Paighambaron Ko Kyoon Bhejwaya Hay?

مجاہد کا اجر

 

مجاہد کا اجر 

 حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا: آج کی رات ہمارا پہرہ کون دے گا؟حضرت انس بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ ! یہ سعادت میں حاصل کروں گا۔آپ نے ارشادفرمایا:تو پھر سوار ہوجائو چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔آپ نے فرمایا : سامنے والی گھاٹی کی طرف رخ کرواوراس کی سب سے بلند چوٹی پر چلے جائو، خوب چوکس ہوکر پہرہ دینا ایسا نہ ہو کہ تمہاری غفلت یا لاپرواہی کی وجہ سے ہمارا لشکر دشمن کے کسی فریب کا شکار ہوجائے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ تعمیل ارشادمیں وہاں چلے گئے ۔جب صبح ہوئی تو آقا علیہ السلام جائے نماز پر تشریف لائے اوردورکعتیں ادافرمائیں پھر آپ نے صحابہ سے استفسار فرمایا:تمہیں اپنے سوارکی کچھ خبر ہے ؟ انھوںنے عرض کی ہمارے پاس ابھی تو کوئی اطلاع نہیں ہے۔اتنے میں فجر کی اقامت شروع ہوگئی صحابہ دیکھ رہے تھے کہ حضور اس دوران بھی گھاٹی کی طرف متوجہ رہے۔نماز کی ادائیگی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشادفرمایا تمہیں مبارک ہوکہ تمہارا سوار آگیا ہے۔
 آپ نے ارشادفرمایا:تم نے آج کی رات اللہ رب العزت کے راستے میں پہرہ دے کر اپنے لیے جنت واجب کرلی ہے لہٰذا اس عمل کے بعد اگر تم کبھی کوئی بھی( نفل)عمل نہ کرو تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔(ابودائود)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1779 ( Surah An-Najm Ayat 44 - 54 ) درس قرآن ...

shortclip - شیطان کی ڈیوٹی نمبر1کیا ہے؟

Darsulquran Para-04 - کیا ہم واضح طور پر گمراہی کا شکار قوم ہیں

جمعہ، 16 جولائی، 2021

Allah Tallah Ki Mohabbat Kyoon Aur Kaisay?

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1778 ( Surah An-Najm Ayat 43 ) درس قرآن سُوۡر...

کعبۃ اللہ

 

کعبۃ اللہ 

ایک شخص نے امام زین العابدین ؒسے پوچھا ، یہ کعبہ کیا ہے اور اس کا طواف کرنے کاحکم کیوں دیا گیاہے؟آپ کے ارشاد گرامی کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرشتوں نے جنابِ باری تعالیٰ میں انسانوں کے بارے میں گزارش کی ،تو انھیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ انہوں نے سوچا کہ ہمیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا ، ممکن ہے مالک ناراض ہوگیا ہو، اس تصور سے انکی جان نکلی جاتی تھی۔ انہوں نے اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے عرش علاٗکا طواف کرنا شروع کردیا ۔ یہ وارفتگی شوق کا اظہار تھا۔اب کریم کی رحمت نے انھیں نوازا ، اور عرش کی سیدھ میں نیچے ساتویں آسمان پر ایک گھر پیدا فرمایا ،اور فرشتوں کو حکم دیا،اس گھرکا طواف کروپس فرشتوں نے اس گھرکا طواف شروع کردیا۔ اس گھر کا نام البیت المعمور رکھا گیا۔ سورہ الطور میں اسکا ذکر موجود ہے۔ (کتا ب الاعلام ، تاریخ قطبی ۳۲ ،بحوالہ کعبۃ اللہ اور اس کا حج ) معراج کی شب کے جو اسرار روایات میں آئے ہیں ان میں سے مسلم شریف کی حدیث ہے۔ پھر ہمارے سامنے البیت المعمور آیا ۔ یہ ایک ایسی زیارت گاہ ہے جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے آتے ہیں ، اور پھر انھیں (کثرت تعداد کی وجہ سے)کبھی دوبارہ آنا نصیب نہیں ہوتا،اور آپ نے (مزید) بتا یا کہ حضرت  ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ البیت المعمور سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں۔ ٭حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد گرامی امامحمد باقر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت فرماتے ہیں ۔ اللہ پاک نے فرشتوں سے فرمایا: میرے لیے اب زمین پر بھی ایک گھر بنائو تاکہ اولاد آدم میں سے جب کسی سے ناراض ہوجائوں تو وہ اسکی پناہ لے سکے اور جس طرح تم نے میرے عرش طواف کیاتھا۔ وہ اسکا طواف کرسکے ،تب میں اس سے بھی راضی ہوجائوں گا۔ جس طرح تم سے راضی ہواتھا۔ چنانچہ فرشتوں نے اس حکم کی تعمیل کی (تاریخ الحرمین : عباس کرار ،بحوالہ کعبۃ اللہ اور اسکا حج) ٭ جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر اترے تو اللہ رب العزت نے انھیں اس گھر کی تعمیر جدید کا حکم دیا۔ تعمیر کعبہ سے فارغ ہوکر جب آدم علیہ السلام نے کعبہ کا طواف فرمایا تو فرشتے انکے پاس آئے اورکہا ، اللہ تعالیٰ آپ کا حج قبول فرمائے ۔ہم نے دوہزار سال پہلے اسکا حج کیا تھا۔ (احیاء العلوم ۔اما م غزالی )دیکھئے کہ اللہ کی شان کریمی کہ انسان کی بودوباش سے بھی پہلے اللہ نے اسکی خطاء کی بخشش کا اہتمام فرمادیا۔ آدم علیہ السلام کے وصال کے بعد کعبہ کی تکریم جاری رہی یہاں تک کہ رفتہ رفتہ کفر کا چلن عام ہونے لگا،اور دنیا کو طوفانِ نوح نے اپنی لپٹ میں لے لیا۔ کہتے ہیں کہ طوفانِ نوح کی وجہ سے کعبہ کی جگہ چھپ گئی،لیکن انبیاء اور عارفین (من جانب اللہ ) اسکی اہمیت سے آگاہ رہے یہاں تک حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ذریعے پھر اس کا اظہار ہوا۔

بدھ، 14 جولائی، 2021

Shortclip - شیطان کن لوگوں کو انکے اعمال اچھے کرکے دکھاتا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1776 ( Surah An-Najm Ayat 33 - 37 ) درس قرآن ...

Kya Hum Allah Say Mohabat Kar Saktay Hain?

نماز کی تاکید

 

 نماز کی تاکید

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور نماز قائم رکھو اورتم مشرکوں میں سے نہ ہوجائو‘‘۔(الروم : ۳۱)’’(جنتی مجرموں سے سوال کریں گے )تم کوکس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟وہ کہیں گے : تم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔(المدثر: ۴۳۔۴۲)

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص اوراس کے کفر اورشرک کے درمیان (فرق)نمازکو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)یعنی نماز کو ترک کرنا کافروں اورمشرکوں کا کام ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے ، اگر وہ مکمل ہوئی تو مکمل لکھی جائے گی اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو کہا جائے گا دیکھو کیا اس کی کچھ نفلی نمازیں ہیں جن سے اس کے فرض کی کمی کو پورا کردیا جائے ، پھر باقی اعمال کا اسی طرح حساب لیا جائے گا۔(سنن نسائی )

 حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل)

 ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، انہوں نے ایک خشک شاخ پکڑ کر اس کو ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے گرنے لگے، پھر انہوں نے کہا: اے ابو عثمان ! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا:آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا، میں آپ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے ایک شاخ کو پکڑکر اسے ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے جھڑنے لگے ، آپ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میںنے ایسا کیوں کیا؟ میںنے عرض کیا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے اورپانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گررہے ہیں ،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اوردن کے دونوں کناروں اوررات کے کچھ حصوں میں نماز کوقائم رکھو، بے شک نیکیاں ، برائیوں کو مٹادیتی ہیں ، یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں ‘‘۔(ھود: ۱۱۴)(مسند احمد)


اتوار، 11 جولائی، 2021

طاقتور کون؟

 

طاقتور کون؟

 غصہ ضبط کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی غصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اورغیظ وغضب کے اظہار اورسزادینے اورانتقام لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ ضبط کرنے اورجوش غضب ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کی ہدایت دی ہے۔ 

 حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑرہے تھے ۔ ان میں سے ایک شخص بہت شدید غصہ میں تھا اوریوں لگتا تھا کہ غصہ سے اس کی ناک پھٹ جائے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسے کلمہ کا علم ہے اگر یہ کلمہ پڑھ لے گا تو اس کا غضب جاتارہے گا ، حضرت معاذ نے پوچھا کہ رسول اللہ ! وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ کہے اللھم انی اعوذ بک من الشیطن الرجیم ۔

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ہواوروہ کھڑا ہوا ہو تو بیٹھ جائے، پھر اگر اس کا غصہ دور ہوجائے تو فبہاورنہ پھر وہ لیٹ جائے۔

 عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غضب شیطان (کے اثر)سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اورآگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو جب تم میں سے کوئی شخص غضب ناک ہوتو وہ وضو کرلے۔(سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ ضبط کرلیا حالانکہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا، اللہ تعالیٰ اس کو امن اورایمان سے بھردے گا۔ (جامع البیان )

 حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیہ کہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اس کو اختیار دے گا وہ جس حور کو چاہے لے لے۔

 حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے نزدیک پہلوانی کا کیا معیار ہے؟ صحابہ نے کہا جو لوگوں کو پچھاڑنے اوراس کو کوئی نہ پچھاڑ سکے، آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔(سنن ابودائود )

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے غصہ کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے عذاب کودور کردے گا، اورجس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔ (مجمع الزوائد )

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتلائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے ، حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم غصہ نہ کرو تو تمہارے لیے جنت ہے۔(مجمع الزوائد)

Darsulquran Para-04 - کیا ہم اللہ تعالی کے غصے کو کما کر آخرت کی طرف جا ...

Shortclip - ہمیں جو کچھ نظر آرہا ہے کیا وہ حقیقت ہے؟

ہفتہ، 10 جولائی، 2021

اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شوق کیسے پیدا ہوگا؟

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

 

 وہ ایک سجدہ۔۔۔۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کررہا ہو پس تم (سجدہ میں )بہت دعاکیا کرو۔(صحیح مسلم،سنن دائود )

 حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جس سے اللہ مجھے جنت میں داخل کردے یا میں نے عرض کیا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے پھر سوال کیا، آپ خاموش رہے ، جب میں نے تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے لیے کثرت سے سجدے کیا کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرو گے تو اللہ اس سجدہ کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹادے گا۔ (صحیح مسلم، ترمذی)

 حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، میں آپ کے وضو اورطہارت کے لیے پانی لایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: سوال کرو، میں نے عرض کیا میں آپ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : اورکسی چیز کا ؟میں نے عرض کیا مجھے یہ کافی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر کثرت سے سجدے کرکے اپنے نفس کے اوپر میری مددکرو۔ (صحیح مسلم ، سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب ابن آدم سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ جاکر روتا ہے اورکہتا ہے ہائے میرا عذاب !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا سواس کو جنت ملے گی، اورمجھے سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا سومجھے دوزخ ملے گی۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعضاء سجود کے جلانے کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔(صحیح بخاری، سنن نسائی)

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ کا جو حال اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے اوراس کا چہرہ مٹی میں لتھڑا ہواہو۔


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1772 ( Surah An-Najm Ayat 29 Part-3 ) درس قرآ...

Darsulquran Para-04 - کیا ہمیں اللہ تعالی کی مدد پر بھروسہ نہیں ہے

Shortclip - کیا صرف دنیا کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے؟

جمعہ، 9 جولائی، 2021

ہمارا تزکیہ نفس کیسے ہو گا؟

صبر

 

صبر 

 صبر کا معنی ہے : کسی چیز کو تنگی میں روکنا ، نیز کہتے ہیں کہ نفس کو عقل اورشریعت کے تقاضوں کے مطابق روکنا صبر ہے۔ مختلف مواقع اورمحل استعمال کے اعتبار سے صبر کے مختلف معانی ہیں، مصیبت کے وقت نفس کے ضبط کرنے کو صبر کہتے ہیں ، اس کے مقابلہ میں جزع اوربے قراری ہے اورجنگ میں نفس کے ثابت قدم رہنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں بزدلی ہے، حرام کاموں کی تحریک کے وقت حرام کاموں سے رکنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں فسق ہے، عبادت میں مشقت جھیلنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں معصیت ہے ، قلیل روزی پر قناعت کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں حرص ہے ، دوسروں کی ایذارسانی برداشت کرنے کوبھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں انتقام ہے۔ 

 حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صبر کی دوقسمیں ہیں، مصیبت کے وقت صبر اچھا ہے، اوراس سے بھی اچھا صبر ہے اللہ کے محارم سے صبر کرنا(یعنی نفس کوحرام کاموں سے روکنا)۔(ابن ابی حاتم)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہواتھا، آپ نے فرمایا : اے بیٹے ! کیا میں تم کو ایسے کلمات نہ سکھائوں جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں نفع دے ، میں نے کہا: کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : اللہ کو یاد رکھو ، اللہ تمہیں یاد رکھے گا اللہ کو یاد رکھو تم اس کو اپنے سامنے پائو گے ، اللہ تعالیٰ کو آسانی میں یادرکھو وہ تم کو مشکل میں یادرکھے گا، اورجان لو کہ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے وہ تم سے ٹلنے والی نہیں تھی اورجو مصیبت تم سے ٹل گئی ہے وہ تمہیں پہنچنے والی نہیں تھی اوراللہ نے تمہیں جس چیز کے دینے کا ارادہ نہیں کیا تمام مخلوق بھی جمع ہوکر تمہیں وہ چیز نہیں دے سکتی اورجو چیز اللہ تمہیں دینا چاہے تو سب مل کر اس کو روک نہیں سکتے قیامت تک کی تمام باتیں لکھ کر قلم خشک ہوگیا ہے ، جب تم سوال کرو تو اللہ سے کرو اورجب تم مدد چاہو تو اللہ سے چاہو اورجب تم کسی کا دامن پکڑ وتو اللہ کا دامن پکڑواورشکر کرتے ہوئے اللہ کے لیے عمل کرو اورجان لو کہ ناگوار چیز پر صبر کرنے میں خیر کثیر ہے اورصبر کے ساتھ نصرت ہے اورتکلیف کے ساتھ کشادگی ہے اورمشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ حضرت ابوالحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے خوشی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بہ قدر حاجت رزق دیا اوراس نے اس پر صبر کیا ۔(امام بیہقی )

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو مسلمان لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اوران کی ایذاء پر صبر کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے مل جل کر نہیں رہتا اوران کی ایذاء پر صبر نہیں کرتا۔(امام بخاری ، ترمذی ، ابن ماجہ )


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1771 ( Surah An-Najm Ayat 29 Part-2 ) درس قرآ...

Darsulquran Para-04 - آج کیا اللہ تعالی کی مدد ہمارے شامل حال ہے

Shortclip - کیا ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں؟

Dunya Main Kaisay Rahain? دنیا میں کیسے رہیں؟

جمعرات، 8 جولائی، 2021

یتیموں کی کفالت اور تربیت

 

یتیموں کی کفالت اور تربیت

حضرت عبداللہ بن عباس ؓدرج ذیل آیت کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ عنقریب وہ جہنم میں داخل ہونگے۔ ’’بے شک وہ لوگ جو کھاتے ہیں یتیموں کے مال ظلم سے وہ تو بس کھا رہے ہیں اپنے پیٹوں میں آگ اوروہ عنقریب جھونکے جائیں گے بھڑکتی آگ میں ‘‘۔کہاجاتا ہے کہ آفرین ہے اس گھر پر جس میں یتیم پلتا ہو، یتیم کی حق رسی ہوتی ہواسے شفقت وپیار ملتا ہو اورہلاکت ہے اس گھر کیلئے جس گھر میں یتیم کی دادرسی اوراسکے حق کی پہچان نہیں ہوتی۔ مروی ہے کہ بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں ایک شخص حاضر خدمت ہوا عرض کی یا نبی اللہ ﷺ!میں ایک یتیم کی پرورش کرتا ہوں کس حدتک اسکی سرزنش کرسکتا ہوں؟حضور نبی مکرم ﷺنے ارشادفرمایا کہ جس حدتک اپنی اولاد کی سرزنش کرتے ہویعنی اسے ادب سکھانے کیلئے سرزنش کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی طرح جس طرح ایک والداپنی اولادکے ساتھ کرتا ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض ؒفرمایا کرتے تھے کہ بسااوقات یتیم (کی تربیت)کیلئے ایک طمانچہ اس کو حلوہ کھلانے سے زیادہ فائدہ مندہوتا ہے۔ حضرت فقیہ ؒ فرماتے ہیں کہ اگر پٹائی کئے بغیر تعلیم وادب سکھایا جاسکتا ہے تو پھر یہی مناسب ہے کہ کسی قسم کی سرزنش نہ کرے۔یتیم کو بلاوجہ مارنا عتاب الہٰی کا سبب ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے :جب کوئی یتیم کو مارتا ہے تو اس کے رونے سے عرش الٰہی ہل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے اے میرے فرشتوں !اس بچے کو کس نے رلایا ہے جس کے باپ کو سپرد خاک کردیا گیا ہے حالانکہ اللہ جل مجدہ خوب جانتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں یا رب العالمین ! ہم نہیں جانتے ،اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناکر کہتا ہوں کہ جو یتیم کو میرے لئے راضی رکھے گا میں روز قیامت اپنی طرف سے اسے خوشیوں سے مالا مال کردوں گا۔ 
حضور اکرم ﷺیتیموں کے سروں پر خصوصی طور پر دست شفقت رکھتے اورانکے ساتھ نرمی برتا کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ؓ  بھی حضور نبی کریم ﷺ کی سنت کیمطابق ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن ابزیٰ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائودعلیہ السلام سے فرمایا :اے میرے نبی دائود !یتیم کیلئے مہربان باپ کی طرح بن جائو،اور خوب جان لو جو بوئوں گے وہی کاٹو گے اوریہ بھی یادرکھونیک اوروفاشعار بیوی شوہر کیلئے اس بادشاہ کی طرح ہے جو سونے کا تاج سجائے خوش باش ہو جب بھی اسے دیکھے اسکی آنکھوں کو تسکین مل جائے اوربری عورت شوہر کیلئے بوڑھے شخص پر ثقیل بوجھ کی طرح ہے۔ ( فقہیہ ابو اللیث سمرقندی)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1769 ( Surah An-Najm Ayat 26 - 28 ) درس قرآن ...

Shortclip - ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت کا احساس کیسے ہوگا؟

بدھ، 7 جولائی، 2021

Dunya Say Khud Ko Dur Kaisay Karain? دنیا سے خود کو دور کیسے کریں؟

یتیم سے شفقت

 

یتیم سے شفقت

حضرت ابوالورقا ء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی یتیم کے سرپر شفقت و پیارسے ہاتھ پھیر االلہ تعالیٰ اس شخص کیلئے ہاتھ کے نیچے آنے والے ہر بال کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتا ہے ،ہر بال کے بدلے ایک گناہ مٹادیتا ہے اورہر بال کے بدلے ایک درجہ بلند فرمادیتا ہے۔ ‘‘

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے یتیم مسلمان بچوں میں سے کسی یتیم کو اپنے ساتھ کھانے ،پینے میں شریک کئے رکھا حتیٰ کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کیلئے جنت کو واجب کردیتا ہے ہاں البتہ کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھے جس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں بخشش نہیں اور جس کی بینائی اللہ تعالیٰ سلب کرلے اوروہ حصول ثواب کیلئے صبر کرے تو ایسے شخص کیلئے بھی اللہ تعالیٰ جنت کو واجب کردیتا ہے مگر ایسے عمل سے گریزاں رہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل بخشش نہیں ۔ اور جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں وہ انہیں ادب سکھائے ،تعلیم وتربیت کرے اوران کے اخراجات کا بوجھ خوشدلی سے اٹھائے حتیٰ کہ انہیں بیاہ دے تواللہ تعالیٰ ایسے شخص کیلئے بھی جنت کو واجب کردیتا ہے مگر اس سے کوئی ایسی بدعملی نہ ہوجائے جس پر وہ عنداللہ بخشش کا حقدار نہ ٹھہرسکے، ایک بدوی نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !دو ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا دوبیٹیوں کی بھی احسن انداز میں تربیت کرکے ان کی شادی کردے تو تب بھی وہ جنتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جب اس حدیث کو بیان کرتے تو فرماتے تھے کہ قسم بخدا یہ عجیب وغریب حدیث مبارک ہے۔ 

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم میں بڑا سنگدل ہوں اوراپنی قساوت قلبی پر پریشان ہوں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’اگر تو نرم دل ہونا پسند کرتا ہے تو یتیم کے سرپر شفقت ومحبت کا ہاتھ پھیراور اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر۔‘‘حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟ آپ نے ارشادفرمایا کہ کبیرہ گناہ ۹ ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرنا،جان بوجھ کر مومن کو قتل کرنا ،لشکر اسلام میں شامل ہونے سے بھاگنا ،پاکدامن پر گناہ کی تہمت لگانا،یتیموں کا مال ہڑپ کرجانا،سود خور ہونا، والدین کی نافرمانی کرنا،جادوکرنا،حرام کو حلال سمجھنا۔ (تنبیہ الغافلین :  فقہیہ ابو اللیث سمرقندی)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1768 ( Surah An-Najm Ayat 24 - 25 ) درس قرآن ...

Darsulquran para-04 - کیا ہم اپنے دین پر کلی طور پر عمل پیرا نہیں ہونا چ...

منگل، 6 جولائی، 2021

Dunya Aik Imtihan دنیا ایک امتحان

پسندیدہ عمل

 

پسندیدہ عمل 

 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز کو وقت پر پڑھنا ، میں نے پوچھا : پھر کون سا عمل ؟ فرمایا : ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا۔ (بخاری ، مسلم)

 حضرت معاویہ بن جاھمہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت جاھمہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے جہاد کا ارادہ کیا ہے ، میں آپ کے پاس مشورہ کے لیے آیا ہوں، آپ نے فرمایا : کیا تمہاری ماں (زندہ )ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : اس کے ساتھ وابستہ رہو، کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔(ابن ماجہ ، نسائی )

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س ایک شخص آیا اوراس نے کہا : میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں اورمجھے اس پر قدرت نہیں ہے، آپ نے فرمایا : کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک ہے؟ اس نے کہا : میری ماں ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ نیکی کرنے کی زیادہ کوشش کرو، جب تم یہ کرلو گے تو تم حج کرنے والے ، عمرہ کرنے والے اورجہاد کرنے والے ہوگے ۔(ابویعلی ، طبرانی)

 اس حدیث پاک میں جہاں والدین کی فرمانبرداری کا پہلو ہے اوراس پر تاکید ہے، وہاں یہ امر بھی مدنظر رہے کہ حضرت امیر المومنین عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ مردم شناسی میں ایک خاص ملکہ رکھتے تھے اگر انھیں اس خاتون کے انتخاب پر اتفاق نہیں تھا تو اس کی کچھ دیگر وجوہات ضرور ہوں گی اوروہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ معاملہ مزاجوں کے تفاوت وغیرہ کی وجہ سے ممکن ہے کسی ناگوار صورت حال کا باعث بنے ۔یہ حکم گویا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بصیرت اورمعاملہ فہمی پر اعتماد کا اظہار ہے ، اس زمانے میں نکاح اورطلاق کے معاملات بہت سادگی سے انجام پایا کرتے تھے ، معاشرے میں بیوہ اورمطلقہ کی دوسری یا تیسری شادی بھی کوئی خاص معاملہ نہیں تھا جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسے حالات نہیں ہیں ۔اس لیے گھریلو اورعائلی معاملات میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے بہت غور وفکر کرنا چاہیے، بالعموم والدین اوراولاد دونوں محض جذباتی رویہ اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان معاملات میں بہت زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔


Shortclip - کیا ہم مومن ہیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1767 ( Surah An-Najm Ayat 19 - 23 ) درس قرآن ...

Darsulquran Para-04 - مومن کو صرف اللہ کی مدد ہی کافی ہے

Shortclip - روزِقیامت کن لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے؟

پیر، 5 جولائی، 2021

Sedhay Rastay Ki Ebteda Kaisay Karain? - سیدھے راستے کی ابتدا کیسے کریں؟

اطعام الطعام

 

اطعام الطعام 

اللہ رب العزت نے اپنے ابرار اورنیکو کار بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا ’’وہ اللہ کی محبت میں ، مسکین اوریتیم اورقیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اورکہتے ہیں)ہم تم کو صرف اللہ کی رضاء کے لیے کھلاتے ہیں ، ہم تم سے اس کے عوض نہ کوئی صلہ چاہتے ہیں اورنہ ہی (کسی قسم کی )ستائش ‘‘(الدھر ۸،۹)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس مسلمان نے اپنی ضرورت کے باوجود کسی برہنہ تن مومن کو کپڑے پہنائے تو اللہ کریم اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا، اورجس مسلمان نے اپنی بھوک کے باوجود کسی مسلمان کو کھانا کھلایا ، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھلوں سے کھلائے گا، اور مسلمان نے خود پیاسا ہونے کے باوجود کسی دوسرے مسلمان کو پانی پلایا ، اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کو جنت کا مشروب پلائے گا ۔(صحیح سنن ابودائود ، صحیح سنن ترمذی ، مسند امام احمد، مسند ابو یعلیٰ ) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اسلام کے کون سے حکم پر عمل کرنا سب سے افضل ہے؟ آپ نے ارشادفرمایا : تم کسی سے واقفیت رکھتے یا خواہ تمہارا اس سے تعارف نہ بھی ہو، اس کو کھانا کھلائو اوراسے سلام کرو ۔ (بخاری، مسلم ، ابودائود، نسائی، ابن ماجہ)حضرت حیان بن ابی جمیلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جو صدقہ سب سے زیادہ سرعت کے ساتھ آسمان پر چڑھتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان بہت عمدہ کھانا تیار کرے اورپھر اپنے (اہلِ ایمان ) بھائیوں کو کھلائے ۔(کنزالعمال )حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کسی بھوکے شکم والے کو سیر ہوکر کھانا کھلانے سے زیادہ کوئی عمل افضل نہیں ہے ۔ (کنزالعمال ، شعب الایمان )حضرت محمد بن منکدر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : مغفرت کے موجبات میں یہ ہے کہ بھوکے مسلمان کو کھاناکھلایا جائے ۔(کنزالعمال ، شعب الایمان ، المستدرک : اما م حاکم)حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس شخص نے کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلایا حتیٰ کہ وہ سیر ہوگیا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو جنت کے دروازوں میں سے اس دروازے سے داخل کرے گا ، جس میں صرف اس جیسے مسلمان داخل ہونگے۔(المعجم الکبیر ، کنزالعمال)


حکمت و دانش

  حکمت و دانش حکمت کا ایک کلمہ انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔ دانش کی کہی ہوئی ایک بات انسانی فکر کو تبدیل کر دیتی ہے اوربصیرت بھرا ایک ج...