اتوار، 31 اکتوبر، 2021

Darsequran Para-05 - کائنات کا واحد مالک کون

Shortclip - دنیا کی حیقیقت

Shortclip - یقین کے مراحل

شیخ عبد القادر جیلانی میدان عمل میں


 

شیخ عبد القادر جیلانی میدان عمل میں

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی عازم بغدار ہونے کے بعد تقریباً سات سال تک پوری تندہی سے حصول علم میں مشغول رہے۔ تکمیل علوم کے بعد اس زمانے کے رحجان کیمطابق ،منصب قضا،تدریس ،یا وعظ وخطا بت کی طرف مائل نہیں ہوئے بلکہ اصلاحِ باطن کی طرف متوجہ ہوئے۔ عبادت ریاضت ،اور مجاہدات کا ایک طویل دور گزارا جو کم وبیش ۲۵ سال کے عرصے پر محیط ہے۔ پہلے شدید علمی انہماک اور پھر عبادت وریاضت کے اس طویل سفر اور انتھک محنت نے آپ کی شخصیت کو ایک ایسا پارس بنادیا۔ جس کی کشش پورے عالم اسلام نے محسوس کی۔ ۴۸۸ ہجر ی میں جب کہ جناب شیخ بغداد میں تشریف لائے امام غزالی کی زندگی میں ایک انقلاب انگیز تبدیلی ہوئی۔انھوں نے جامعہ نظامیہ کی سربراہی سے کنارا کشی اختیار کرلی اور تزکیہ باطن میں مشغول ہوگئے۔امام غزالی نہ صرف خود تبدیل ہوئے بلکہ انھوں نے اس دور کی تصانیف کے ذریعے سے عالم اسلام کے فکری اور نظریاتی دھارے کو بھی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ انھوں نے ایک حکیم دانا کی طرح زندگی کے ایک ایک شعبہ کا مطالعہ کیا۔ انفرادی زندگیوںمیں در آنیوالے امراض کی نشاندہی بھی کی اور نظمِ اجتماعی میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا سراغ لگایا۔ صرف سراغ لگانے پر اور شدید تنقید پر ہی اکتفاء نہیں کیا، امکانی حد تک ان خامیوں اور کوتاہیوں کے تدارک کی تدابیر بھی پیش کیں۔

اب ضرورت اس امر کی تھی کہ امام غزالیؒ کا یہ فکری اور نظریاتی کام ایک عملی منہاج اختیار کرے۔ یہ ایک ایسی شخصیت کا تقاضا کررہا تھا جوہر اعتبار سے ایک جامع الکمالات شخصیت ہو۔ جس کا علمی تبحر بھی مسلّم ہو اور جس کی روحانی عظمت سے بھی کوئی انکاری نہ ہوسکے ، جس کے کلام کا معیار بھی بلند ہو اور جس کی زبان کی تاثیر بھی مسلّم ہو۔اللہ رب العزت نے اس عظیم اصلاحی کارنامے کی توفیق سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کو عطاء فرمائی۔ آپ نے اپنے زمانہ پر ایک گہری نظر ڈالی اور اصلاح وتبلیغ اور تعلیم وتربیت کا ایک ہمہ جہتی کام شروع کیاآپکے پیشِ نظر عوام کی اصلاح بھی تھی۔ حکاّم وامراء کو درست راستہ دکھانا بھی تھا،مخلص علماء کی جماعت تیار کرنا بھی اور عالم اسلام پر کفر کی بڑھتی ہوئی یورش کے سامنے ایک مضبوط بند باندھنا بھی اس مقصد کیلئے آپ نے (۱) عوام کیلئے مجلسِ وعظ کا انعقاد کیا۔(۲) علوم اسلامیہ کی تدریس کیلئے المدرستہ المخزومیہ کی ازسر نو تنظیم کی خود بھی نہایت دلجوئی کے ساتھ تدریس کی اور قابل ترین مدرسین کو اس مجلس میں شریک کیا۔(۳) آپ نے صرف اپنے مدرسہ پر اکتفاء نہیں بلکہ تعلیم وتربیت کے اس عمل کو ایک اجتماعی نظم میں منسلک کیا جس کا مرکز آپ کا اپنا ادارہ تھا۔ (۴) فارغ التحصیل طلبہ کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا اہتمام بھی کیا اور صالحین کی ایک بڑی جماعت تیار کردی۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1883 ( Surah Al-Mujadila Ayat 09 ) درس قرآن ...

جمعہ، 29 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہمارا طرز زندگی غلط ہے

ShortClip - یقین کیسے پیدا ہو؟

سیّد جیلان کی تعلیم وتربیت


 

سیّد جیلان کی تعلیم وتربیت 

سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی انکی نو عمری میں ہی وصال فرماگئے۔اور آپ کی تربیت کی ذمہ داری آپ والدہ سیّدہ فاطمہ ام الخیر اور آپ کے نانا ابو عبداللہ الصومعی الحسینی نے سنبھال لی۔

آپکے اسلاف میں زہد کے اوصاف نمایاں تھے۔ آپ نے اپنے والدین کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’انہوں نے دنیا پر قدرت رکھنے کے باوجوداس سے بے رغبتی اختیا ر کی اور میری والدہ نے اس ضمن میں میرے والد سے موافقت کی اور اس پر رضا مند رہیں۔ دونوں اہل صلاح ودیانت سے تھے اورلوگوں پر شفقت کرتے تھے۔‘‘آپکی والدہ ،اور آپکی پھوپھی سیّدہ ام عائشہ بھی زہد تقویٰ اور صالحیت میں بلند مقام کی حامل تھیں اور احترام کی نظر سے دیکھی جاتی تھیں۔آپکے نانا شیخ ابو عبد اللہ الصومعی کا شمار بھی جیلان کے مشائخ اور عابدین وزاہدین میں کیاجاتا تھا۔خاندان کے علمی ،روحانی اور زہد وتقویٰ سے معمور ماحول میں آپکی اٹھا ن ہوئی۔ اور آکی طبیعت میں بچپن سے ہی للّہیت  ،فقر اور درویشی کے نقوش راسخ ہوگئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم جیلان میں ہی حاصل کی ۔پھر 488ہجری میں تحصیل علم کیلئے بغداد تشریف لے آئے۔اس وقت آپ کی عمر 18سال تھی۔آپکی والدہ نے اپنے ضعف اور بڑھاپے کے باوجود آپ کو اللہ کے دین کی خدمت کیلئے وقف کردیا۔ اور ۴۰دینار کا زادِ راہ آپکو عنایت کیا ۔جوآپکے والد ماجد آپ کیلئے تر کے میں چھوڑ گئے تھے۔اگر چہ اس وقت پورا ملک سیاسی ابتری اور انتشار کا شکارتھا۔ خلافت عباسیہ کی مرکزیت بہت کمزور ہوچکی تھی۔ سلاطین مضبوط ہوچکے تھے اور آپس میں بر سر پیکاربھی رہتے تھے اور مرکزی حکومت اور خلافت پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے۔ سیاسی زوال کے اس عالم میں بھی بغداد اس وقت علماء ،فقہا ،فلاسفہ ومتکلمین کا مرکز تھا۔ اگر چہ ان کے باہمی مخاصمات اور جھگڑوں نے ایک پراگندہ فضا بھی پیدا کررکھی تھی۔

آپ نے اس وقت کے سب سے بڑے مرکز علم جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا۔ جہاں بڑے بڑے قابل اساتذہ موجود تھے۔ جس سال آپ بغداد تشریف لائے، امام غزالی نے اسی سال بغداد کو خیر آباد کہا۔ امام غزالی جامعہ نظامیہ کے وائس چانسلر تھے۔یہ عہدہ چھوڑنے کے بعد انکی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا جس نے پورے عالم اسلام میں ایک خوشگوار فکری لہر پیداکی ۔ جو آئندہ چل کر جناب شیخ کے کارناموں کی بنیاد بھی ثابت ہوئی۔قرآن، حدیث ،ادب اور فقہ حنبلی وشافعی سے کمال  درجہ کی واقفیت کے بعد آپ سلوک وزہد کی طرف مائل ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر ۲۵ سال تھی آپ نے شیخ حما ددبّا س اور شیخ ابو سعید المخزومی سے استفاد ہ کیا۔

جمعرات، 28 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہمیں دنیا کا دھوکا لگ گیا ہے

Shortclip - ہمارا شیطان سے کیا واسطہ ہے؟

Shortclip - دنیا سے محبت کرنے والے کہاں جائیں گے ؟

خدادادقوت

 

خدادادقوت

 رکانہ، عرب کا ایک نامور پہلوان تھا ،جس کی جسمانی طاقت کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ مشہور تھا کہ وہ اکیلا دوسو آدمیوں کا مقابلہ کرکے انہیں پچھاڑ سکتا ہے ۔سنن ترمذی میں ہے:ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے کسی کوہستانی علاقہ سے گزررہے تھے کہ رکانہ سے ملاقات ہوگئی ۔سرور عالم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جو شخص بھی ملاقات کرتا حضور اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت اپنے من موہنے انداز میں ضروردیتے۔چنانچہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ کوبھی دعوت دی کہ تم بت پرستی سے توبہ کرو اوراللہ تعالیٰ جو وحدہ لاشریک ہے اس پر ایمان لے آئو۔اس نے کہا:میں ایک شرط پر آپ کی اس دعوت کو قبول کرنے کو تیار ہوں، اگرآپ مجھے پچھاڑدیں تو میں ایمان لے آئوں گا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے دن اکثر فاقہ کشی سے گزرتے تھے۔کئی کئی ماہ تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ رحمت میں چولہے میں آگ تک نہیں جلائی جاتی تھی، گاہے کھجور کا ایک دانہ منہ میں ڈال کر پانی پی لیا اورشب وروز گزارلئے ، رکانہ توہر روز معلوم نہیں کتنی مقدار گوشت گھی اوردودھ کی استعمال کرتا ہوگا، بایں ہمہ حضورپر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیل تن پہلوان کی اس شرط کو قبول کیا، فرمایا: اے رکانہ! اگر تم اس شرط پر ایمان لانے کا وعدہ کرتے ہوتو میں وہ شرط پوری کرنے کو تیار ہوں۔

 چنانچہ رکانہ لنگوٹہ کس کر میدان میں آکھڑا ہوا۔سرور انبیاء علیہ التحیہ والثناء بھی اکھاڑے میں تشریف لائے۔اس کا بازو پکڑااورایک جھٹکے میں اسے چاروں شانے چت گرادیا۔وہ حیران ومبہوت ہوکر رہ گیا لیکن پھر اٹھااورکہنے لگا کہ میں ابھی سنبھلانہیں تھا، بے دھیانی میں آپ نے مجھ پر غلبہ حاصل کرلیا ہے، ایک مرتبہ پھر آپ مجھے گرادیں تومیں ایمان لے آئوں گا۔اس داعی برحق نے اس کے اس چیلنج کو قبول کیا، حضور اکھاڑے میں تشریف لائے ، اس کا بازو پکڑکر اسے جھٹکا دیا اورزمین پر پٹخ دیا۔اسے سان وگمان بھی نہ تھا کہ اس کو یوں گرادیا جائے گا۔ سراسیمہ ہوکر پھر اٹھا اورتیسری بار پھر کشتی کی دعوت دی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ نہیں کہاکہ دومرتبہ میں نے تمہاری شرط پوری کردی اب تم ایمان نہیں لاتے تو تمہاری قسمت بلکہ حریص علیکم کی جو شان تھی اس کا اظہار فرماتے ہوئے تیسری باربھی فرمایا:تمہارا چیلنج قبول کرتا ہوں۔ پھر اس کو اس طرح جھٹکا دیاکہ وہ چشم زون میں زمین پر آپڑا۔اب اسے یارائے انکار نہ رہا اس نے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا اوراعلان کیا کہ یہ جسمانی قوت نہیں۔آپ نے مجھے اپنی روحانی قوت سے تین بارپٹخا ہے۔یہ تسلیم کرتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔(ضیاء النبی )


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1880 ( Surah Al-Mujadila Ayat 05 ) درس قرآن ...

Darsulquran Para-05 - کیا ہم سچے مومن ہیں

بدھ، 27 اکتوبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1879 (Surah Al-Mujadila Ayat 01 - 04 Part-2) ...

ShortClip - کیا اللہ تعالیٰ ہی ہماری منزل ہے؟

Shortclip - کیا دنیاوی کامیابی ہی ہماری منزل ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1878 (Surah Al-Mujadila Ayat 01 - 04 Part-1) ...

ایک عظیم مصلح

 

ایک عظیم مصلح

حضرت شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ امت مسلمہ کے نامور افراد میں سے ایک ہیں۔ اسلام کی علمی فکری اور روحانی تاریخ پر آپ کے اثرات بہت گہرے ہیں ۔اسکے ساتھ آپ کی ہمہ گیرشخصیت ہمیں معاصر تاریخی حالات وواقعات میں اپنا بھرپور کردار اداکرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ آپکے کارہانے نمایاں ہمہ جہت ہیں۔آپکی مجلس وعظ لاکھوں گم کردہ راہ افراد کی ہدایت کا سبب بنی، آپ کی تربیت سے ان گنت متلاشیانِ حقیقت منزل آشنا ہوئے۔ آپکی ان تھک تدریسی کاوشوں نے ہزاروں علماء فقہا کو فضیلتِ علمی عطاء کی۔آپ کی تحریریں آج بھی خفتہ دلوں کی بیداری کا سبب ہیں۔ وقت کی سیاست اور معاشرت پرآپ نے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ ایک طرف آپکے فیض یافتہ مجاہدین اور غازیان جواں مرد نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کی قیادت میںصلیبی آویزش کے سامنے بندباندھتے ہوئے نظر آتے ہیںاور قبلہ اوّل کی بازیابی کا سبب بنتے ہیں تو دوسری جانب آپکے گم نام درویش ہیں اجڈ،وحشی اور خون آشام تا تاریوں کو تہذیب آشنا کرتے ہوئے اور انھیں کعبہ کا پاسبان بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ 470ھ 1077/ء  میں جیلان میں پیدا ہوئے۔جیلاں طبرستان سے آگے بحر قزویں کے جنوب میں متفرق آبادیوں کا نام تھا۔ یہ بڑے بڑے شہر نہیں بلکہ پہاڑوں کے درمیان چراگاہوں میں چھوٹے چھوٹے گائوں تھے۔ اسے گیلان اور جیل بھی کہا جاتا تھا۔ والد گرامی کی طرف سے آپ کا نسب حضرت حسن بن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہما سے ملتا ہے۔ اور والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ حسینی سادات میں سے ہیں۔جیلان میں خاندان سادات کی آمد 250ہجری میں ہوئی۔ اس وقت بنوطاہر کی حکومت تھی ۔لوگ ان سے نالاں تھے۔انہوں بنو طاہر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور اپنی سلطنت قائم کرلی ،314ہجری تک یہ اقتدار قائم رہا۔ بعد میں سادات کرام علمی اور روحانی مشاغل کی طرف لوٹ آئے۔ سیّد نا شیخ کے والد گرامی ابو صالح موسیٰ جنگی دوست عابد زاہد اور عالم با عمل تھے ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر شدّت سے گامزن تھے اور کسی کی پروا نہیں کرتے تھے اس بنا پر ’’جنگی دوست‘‘کے لقب سے یادکیے جاتے تھے۔ ایک بار رئیس علاقہ کے محل میں شراب کے مٹکے جاتے دیکھے تو انھیں اپنے عصا سے توڑ دیا۔ پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو فرمایا میں محتسب ہوں، رئیس نے پوچھا آپ کو محتسب کس نے بنایا ہے۔ فرمایا اس رب ذوالجلا ل نے جس نے تجھے حاکم بنایا ہے۔آپکی والدہ فاطمہ ام الخیر ہیں۔ اور ایک چھوٹے بھائی عبداللہ تھے جو جوان عمر ی میں وصال فرماگئے۔

منگل، 26 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم جنت میں بالکل نہیں جائیں گے

ShortClip[ - دنیا کی زندگی کی حقیقت

شانِ عفو

 

شانِ عفو

شعب ابی طالب میں تین سالہ محصوری کے دوران قریش کی کوشش یہ رہی کہ مسلمانوں تک کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پہنچے ۔مکہ میں غلہ یمامہ سے آتا تھا۔ یمامہ کے رئیس ثمامہ بن اثال نے ایسا انتظام کیا کہ یمامہ کے غلے کا ایک دانہ بھی شعب ابی طالب تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ہجرت کے بعد ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ثمامہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیاگیا ۔آپ نے حکم دیا کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دیا جائے۔ ثمامہ نے بڑی لجاجت سے کہا:اے محمد (ﷺ)اگر تم مجھے قتل کروگے تو یہ غلط نہ ہوگا ۔بلاشبہ میں اسی کا مستحق ہوں ۔ اگر احسان کروگے تو ایک شکر گزار پر احسان ہوگا۔ اورفدیہ کے بدلے میری رہائی ہوسکتی ہے ،تو میں زرِ فدیہ اداکرنے کیلئے بھی تیار ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اورمسجد سے تشریف لے گئے۔ دوسرے دن ثمامہ نے پھر یہی بات کی لیکن آپ نے سکوت اختیار فرمایا۔تیسرے دن جب اس نے یہ بات کی توآپ نے حکم دیا،’’اسے آزاد کردو۔‘‘ثمامہ کو اپنی اسلام دشمنی ، ظلم اورزیادتی کا اچھی طرح علم تھا۔ اسے بڑی سخت سزا کا اندیشہ تھا۔ لیکن خلاف تو قع رہائی سے اسے بڑی حیرت ہوئی اس لطف وکرم اورعفو ودرگزر سے بڑا متاثر ہوااور اسی وقت سچے دل سے کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا اورگریہ کناں ہوکر حضور علیہ الصلوۃ التسلیم کی خدمت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ !آج سے پہلے مجھ سے بڑھ کرآپ کا دشمن کوئی نہیں تھا، لیکن اب آپ سے بڑھ کر مجھے کوئی اورمحبوب نہیں ہے۔ اسلام کو میں بدترین مذہب سمجھتا تھا ،لیکن آج یہ میرے نزدیک بہترین دین ہے۔ مجھے مدینہ سے سخت نفرت تھی لیکن آج اس سے زیادہ پسندیدہ شہر میرے نزدیک کوئی اور نہیں ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعدحضرت ثمامہ ؓمکہ معظمہ گئے تو قریش نے انھیں بڑا لعن طعن کیا اورطعنہ دیتے ہوئے کہا، شاید تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی، جو تونے محمد (ﷺ)کا دین اختیار کرلیا ہے۔ ثمامہ نے یہ سنا تو بڑے غضب ناک ہوئے اورکہا اچھا یہ بات ہے تو سنو! خد ا کی قسم اب رسولؐ اللہ کی اجازت کے بغیر غلہ کا ایک دانہ بھی یمامہ سے یہاں نہیں آئیگا۔ انھوں نے مکہ والوں کو غلہ کی ترسیل روک کچھ ہی دنوں میں وہاں غلے کا کال پڑگیا۔قریش کی طبیعت صا ف ہوگئی،انھوں نے ایک وفد سرکار دوعالم ﷺکی خدمت میں بھیجااور گزارش کی کہ سب مرد وزن ، بچے بوڑھے دانے دانے کو ترس گئے ہیں، آپ مہربانی فرمائیں،اورثمامہ کوغلے کی ترسیل کھولنے کا حکم دیں۔حضور رحمت عالم ﷺ نے انکی درخواست قبول فرمالی اورثمامہ کو بندش اٹھانے کا حکم دے دیا۔ 

پیر، 25 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم شیطان کے دھوکے میں آ گئے ہیں

Shortclip - کیا ہمیں روحانی رہنما کی ضرورت نہیں ہے؟

ShortClip - یقین کے مراحل

نصر تِ الٰہیہ

 

نصر تِ الٰہیہ

حضور سیّد عالم ﷺاورآپ کے ساتھیوں نے شعب ابی طالب میں محصوری اوردشواری کے تین سال گزارے، تین سال گزرے تو قدرتِ خداوندی کاایک خوبصورت اظہار سامنے آیا۔ قریش نے قطعِ تعلقی کے جس معاہدے پر اتفاق کیاتھا،اسے بڑی حفاظت سے خانہ کعبہ کے اندر آویزاں کردیا تھا۔ تاکہ وہ لوگوں کی دسترس سے محفوظ رہے ،لیکن وہ اسے اللہ قادروقدیر کی قدرت واختیار سے محفوظ نہیں رکھ سکے ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پر دیمک کو مسلط کردیا۔ جس نے ظلم وستم کی تمام دفعات کو چاٹ لیا۔لیکن جہاں جہاں اللہ کا اسم مبارک تھا، وہ صحیح اورسلامت رہا ۔اللہ رب العزت نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو اس راز سے آگاہ فرمادیا۔ آپ جناب ابو طالب کے پاس تشریف لے گئے اور انھیں مطلع فرمایا کہ جو معاہدہ قوم نے بحفاظت کعبہ کے اندر آویزاں کیا ہے اس کی ساری دفعات کو دیمک نے چاٹ کر صاف کردیا ہے، لیکن جہاں جہاں  اللہ کریم کا اسم گرامی درج ہے وہ جگہ محفوظ ہے ،جناب ابو طالب کو یہ بات سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ جو دستاویزیہاں سے بہت دور بڑی احتیاط سے غلافوں میں لپٹی ہوئی رکھی ہے اورجس کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔ اسکے بارے میں آپ کو کیسے اطلاع مل گئی انھوں نے بڑے استعجاب سے پوچھا کیا یہ بات آپکے رب نے بتائی ہے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا :بے شک! چچانے کہا قسم ہے ،آسمان پر تابندہ تاروں کی آپکے کلام میں کبھی غلط بیانی نہیں پائی گئی۔ چنانچہ وہ قبیلہ کے چند افراد کو ہمراہ لے کر سیدھے حرم میں پہنچے ۔ قریش سمجھے کہ یہ طویل محاصرے سے تنگ آگئے ہیں اورصلح صفائی کیلئے آئے ہیں ۔جناب ابوطالب نے کہا ’’اے گروہ قریش اس طویل مدت میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں ، جن کے بارے میں ہم تمہیں نہیں بتاسکتے ،تم اس صحیفہ کو باہرلے آئے ممکن ہے، ہمارے اورتمہارے درمیان مصالحت کی کوئی صورت سامنے آجائے۔ قریش فوراً اٹھے  اور کعبہ کے اندر گئے اوراس دستاویزکو لے آئے۔اور جناب ابوطالب سے کہا اب وقت آگیا ہے کہ تم لوگ محمد (ﷺ)کی اعانت سے باز آجائو ۔جناب ابو طالب نے کہا آج میں ایک حل لے آیا ہوں۔ میرے بھتیجے نے مجھے ایک خبر دی ہے اور وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتاکہ جو دستاویز تمہارے ہاتھ میں ہے اسے دیمک نے چاٹ لیا ہے سوائے اسم ’’اللہ ‘‘ کے۔ سنو اگر اسکی یہ بات غلط ہوئی ہم اسے تمہارے حوالے کردینگے لیکن اگر سچ ہوئی تو تمہیں اپنے طرزعمل پر نظرِثانی کرنی ہوگی۔جب اس صحیفہ کو کھولا گیا توحضور کی بات حرف بحرف صحیح نکلی ۔ لیکن وہ بدبخت کہنے لگے اے طالب ! یہ تمہارے بھتیجے کے جادو کا کرشمہ ہے۔ لیکن اللہ نے چند سعید لوگوںکو توفیق دی اورانھوں نے یہ معاہدہ چاک کردیا۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1877 ( Surah Al-Hadid Ayat 28 - 29 Part-2 ) ...

اتوار، 24 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم راہ مستقیم سے بھٹک گئے ہیں

Shortclip - شیخ کامل کی ضرورت

Shortclip - شیخ کامل کی ضرورت

ShortClip - یقین کیسے پیدا ہوگا؟

شانِ استقلال



شانِ استقلال

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکی زندگی میں بڑے سخت اورجاں گسل مرحلو ں سے گزرناپڑا۔ نبوت کے ساتویں سال کفار مکہ نے باہم مل کر معاہدہ کیا کہ جب تک بنو ہاشم محمد (ﷺ )کو قتل کیلئے ہمارے حوالے نہ کردیں ،کوئی شخص ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے ،نہ انکے ساتھ رشتہ کرے ،نہ سلام وکلام کرے، نہ انکے ساتھ خرید وفروخت کرے ،نہ اس سے ملے اورنہ انکے پاس کھانے پینے کا سامان جانے دے۔ جب سب لوگ اس معاہدے پر متفق ہوگئے تو انہوں نے اسے ایک صحیفہ میں قلم بندکیا پھر اسکی پابندی کا پختہ وعدہ کیا اور اسے کعبہ مقدسہ کے اندر آویزاں کردیا ۔تاکہ ہر شخص اسکی پابندی کرے۔ یہ معاہد ہ منصور بن عکرمہ نے لکھا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسکی انگلیوں کو شل کردیا ۔ نہ وہ حرکت کرسکتی تھیں نہ ان سے لکھا جاسکتا تھا۔ کفارومشرکین کی سازشیوں کے پیشِ نظر جناب ابو طالب بنو ہاشم اوربنو مطلب کی معیت میں ایک گھاٹی میں منتقل ہوگئے جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی۔یہ گھاٹی انھیں ورثہ میں ملی تھی اور آپکی ملکیت تھی۔ بنوہاشم میں سے ابو لہب وہ بدبخت تھا،جس نے اپنی قوم کا ساتھ دینے کی بجائے کفارومشرکین کا ساتھ دیا۔ شعب ابی طالب کا مرحلہ بڑا ہی سخت اوردشوار تھا، مکہ کے باز ار اور منڈیاں تو ان لوگوں پر بند کر ہی دی گئیں تھیں۔ اگر کوئی قافلہ تجارت باہر سے مکہ مکرمہ آتا تو اس پر بھی پابندی تھی کہ وہ بنوہاشم کے ہاتھ کسی قسم کوئی سامان فروخت نہ کریں ،مکہ کے تاجر آگے بڑھ کر ان سے سارا سامان خرید لیتے ۔ 
اگر مسلمان کسی طرح ان تاجروں تک پہنچ جاتے تو ابو لہب انھیں تاکید کرنا کہ انھیں اتنی زیادہ قیمت بتائو کہ یہ خرید ہی نہ سکیں اگر تمہیں خسارہ ہوا تو اسے میں پورا کرونگا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ محصور ین کو بسااوقات درختوں کے پتے کھا کر گزارا کرنا پڑتا۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان ایّا م میں ایک دفعہ مجھے خشک چمڑے کاایک ٹکڑا ہاتھ آیا ،میں نے اسے دھویا اورجلاکر نرم کرلیا اورپانی کے گھونٹ کے ساتھ نگل کراپنی بھوک مٹائی۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے بلکتے رہتے ۔ لیکن کفار کو کوئی رحم نہ آتا اوروہ خوراک کاایک دانہ بھی وہاں تک نہ پہنچنے دیتے اورانھوں نے اس کام کیلئے باقاعدہ پہریدار مقررکردیے تھے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پکڑا جاتا تو اس کے خلاف سخت کاروائی کی جاتی، ان تمام شدتوں اورتکلیفوں کے باوجود نہ حضور سید عالم ﷺکے پائے ثبات میں کوئی لغزش آئی اورنہ ہی آپ کے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے بھی کسی کمزوری کا مظاہرہ بلکہ حضور اس حال میں بھی قبائل کو پیغام اسلام پہنچاتے رہے اورپورے جوش وخروش سے تبلیغِ اسلام کو جاری رکھا۔

 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1876 ( Surah Al-Hadid Ayat 28 - 29 Part-1 ) ...

ہفتہ، 23 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا شیطان ہمارا ساتھی بن گیا ہے

Shortclip - کیا ہم اپنے رب کے شکر گزار بندے ہیں؟

ShortClip - اِلہٰ کا مطلب

حرمت ِ رسول ﷺ

 

حرمت ِ رسول ﷺ

اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید پر ایمان کے ساتھ اللہ رب العزت کے آخری رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپ کی نبوت دائمی اور عالمی ہے اور آپ خاتم النبین ہیں۔ اس اعتقاد کے بغیر انسان نہ تو مومن کہلا سکتا ہے اور نہ ہی وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے۔ آپکی مطلق وغیر مشروط اطاعت  اور اتباع بھی شرعاً لازم وواجب ہے اور آپ کی تعظیم وتوقیر بھی ۔ آپکی حرمت وناموس کا پاس اور لحاظ اور اسکی خاطر جان و مال قربان کر دینے کا جذبہ  ایما ن کی اسا س ہے۔ایمان کاحقیقی ذوق اور اسکی حلاوت اسی شخص کو حاصل ہوسکتی ہے ،جسے ’’ اللہ اور اس کا رسول تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجائیں۔‘‘(بخاری)  ٭امام نووی ’’حلاوۃِ ایمان ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : انسان کو طاعت (اعمال صالحہ ) بجالانے اور اللہ اور اسکے رسول کی رضاء کی خاطر مشقّت اٹھانے میں لذت محسوس ہواور وہ اسے دنیا کے مال ومتاع پر ترجیح دے۔ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کیلئے بندے کی محبت یہ ہے کہ اسکی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت ترک کر دے، اسی طرح جناب رسول اللہ ﷺکے ساتھ محبت کا معنی بھی یہی ہے ،آپکے احکام کی فرما ں برداری کرے اور اسکی مخالفت سے مجتنب رہے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’ تم لوگ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لائو اور آپ کی اطاعت کرو اور آپکی تعظیم بجا لائو۔(الفتح :۹) ٭دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: ’’ اے حبیب ! آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے والدین اور تمہاری اولادیں اور تمہارے بھائی اورتمہارے کنبے اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور جو تجارت جس کے نقصان سے تم ڈر رہے ہو اور وہ آشیانے جنہیں تم پسند کرتے ہو ۔یہ (سب) تم کو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اسکی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیزِ(خاطر) ہیں۔تو منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔(التوبہ : ۲۴) ٭علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’اس آیت میں اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ محبت کے واجب ہونے کی دلیل ہے اور اس مسئلے میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺکے ساتھ تھے۔  آپ حضرت عمر بن خطاب کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ حضرت عمر نے آپکی خدمت میں اپنی قلبی کیفیت کا اظہار کیا اور کہا یا رسول اللہ آپ اپنی جا ن کے سو ا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں ۔آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک اپنی جان سے بھی زیادہ محبو ب نہ ہوجائوں تم مومن نہیں ہوسکتے ۔حضرت عمرنے عرض کیا : اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تر ہیں ۔ ارشاد ہوا : اے عمر ! اب تمہارا ایمان کامل ہوگیا ہے۔ (صحیح بخاری)

یہ زندگی کا ہنر آپ نے سکھایا مجھے 

خیال و فکر میں عقل وشعور آپ سے ہے

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1875 ( Surah Al-Hadid Ayat 26 - 27 Part-2 ) ...

Darsulquran Para-05 - کیا ہم شیطان کے پیروکار بن گئے ہیں

جمعہ، 22 اکتوبر، 2021

Shortclip - ہمیں سچا شخص کہاں ملے گا؟

خلقِ رسالت

 

خلقِ رسالت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ ایک واقعہ کی روداد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں ایک غزوہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ غزوہ کے اختتام پر میں اپنے اونٹ پر سوار ہوا۔ میں نے محسو س کیا کہ یہ بہت زیادہ تھک چکا ہے اور چند قدم بھی چلنے کے قابل نہیں ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات محسوس کی، آپ میرے قریب تشریف لائے اور مجھ سے استفسار فرمایا تمہارے اونٹ کو کیا ہوا؟میں نے عرض کیا کہ یہ تھک گیا ہے ۔ یہ سن کر آپ قدرے پیچھے ہٹے اور میرے اونٹ کو ڈانٹا اور پھر اس کے لیے دعا فرمائی ۔اس اونٹ کے رگ و پے میں ایک توانا ئی سی دوڑ گئی۔ اور بہت چستی اور طاقت سے چلنے لگا ۔ بلکہ ’’ دوسرے تمام اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ اثنائے راہ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: اب تمہارے اونٹ کا کیا حال ہے۔ میں نے عرض کیا ، یارسول اللہ بہت ہی اچھا ، اور یہ یقیناً آپ کی دعا اور برکت کا اثر ہے کہ اس میں اتنی طاقت و توانائی آگئی ہے۔ آپ نے ارشافرمایا : تم اسے میر ے ہاتھ فروخت کردو میں نے عرض کیا جو آپ کی منشائ، اسے آپ خرید لیجئے ۔لیکن ازراہِ کرم مجھے اس پر مدینہ منورہ تک سوار رہنے دیجئے اور یہ بھی کہ مجھے دوسروں سے ذرا پہلے جا نے کی اجازت مرحمت فرمادیجئے ۔کیونکہ ابھی حال ہی میں میری شادی ہوئی ہے ۔ چنانچہ آپ نے میری دونوں درخواستیں قبول فرمالیں اور مجھے اجازت عطا فرمادی ۔میں دوسرے لوگوںسے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گیا ۔ مدینہ پہنچ کر میری ملاقا ت میر ے ماموں سے ہوئی ۔ انھوں نے مجھ سے اونٹ کے بارے میں سوال کیا ،میں نے ساری روداد ان کے گوش گزار کردی ۔اور انھیں اس بات سے بھی مطلع کر دیا کہ میں نے یہ اونٹ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ فروخت کردیا ہے ۔ انھوں نے مجھے بڑی ملامت کی اور کہا کہ ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا۔ تو نے وہ بھی فروخت کردیا ۔اب ہم سواری اور بار برداری کے لیے کیا انتظام کر یں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے۔ تو میں صبح کے وقت وہ اونٹ لے کر آپ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اس اونٹ کی قیمت ادا فرمادی۔ جب میں نے وہ قیمت وصول کر لی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ بھی مجھے واپس فرمادیا۔ (گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود ہی انکی اعانت اور دستگیر ی تھا) ۔(بخای)

وہ ؐ ابرِ کرم ہیں تو برستے ہی رہیں گے

تبدیل کسی طور بھی فطرت نہیں ہوتی 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1874 ( Surah Al-Hadid Ayat 26 - 27 Part-1 ) ...

جمعرات، 21 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم سرکش شیطان کی امیدوں کے جال میں پھنس چکے ہیں

Darsulquran Para-05 - کیا ہم نے خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے

ShortClip - اصل زندگی میں کامیابی کی شرائط

احساس

 

 احساس

سن۹ ہجری میں جب رومیوں کی جانب سے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ سلطنتِ مدینہ پر یورش کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایاکہ آگے بڑھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے ۔ مسلمانوںنے اس لشکر کی تیاری میں بے سروسامانی کے باوجود بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جو لوگ جنگی مہم میں شریک ہوسکتے تھے سب کو ساتھ چلنے کا حکم ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ شامل نہ ہوسکے ۔ 

 ایک روز شدید گرمی کا عالم تھا ،حضرت ابوخثیمہ اپنے اہل خانہ کے پاس آئے ، انھوںنے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویاں ان کے باغ میں اپنے اپنے چھپڑ میں ہیں، انھوںنے چھپڑ میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکائو کر رکھا ہے، لذیذ کھانے تیار کیے ہوئے ہیں اورپینے کے لیے ٹھنڈا پانی بھی فراہم کررکھا ہے۔ حضرت خثیمہ چھپڑوں کے پاس آکر رک گئے، اپنی بیویوں کودیکھا انھوں نے انکی آرام و آسائش کا جو اہتمام کیا ہوا تھااسے بھی ملاحظہ فرمایاتو ان کی زبان سے بے اختیار نکلا’’اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیارا حبیب تو اس وقت دُھوپ اورلو کے عالم میں ہے اورابو خثیمہ اس خنک سائے میں ہے جہاں ٹھنڈا پانی موجود ہے ،لذیذ اوراشتہا ء انگیز کھانا تیار ہے ، خیال رکھنے والی خوبرو بیویاں ہیں یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے‘‘پھر اپنی خواتین خانہ کو مخاطب کیا اورفرمایا :میں تم میں سے کسی کے چھپڑکھٹ میں قدم نہیں رکھوں گا بلکہ اپنے پیارے آقا کے پاس جائوں گا،میرے لیے فوراً زادِ سفر تیارکرو‘‘۔ان نیک بخت خواتین نے فوراً اہتمام کیا اورآپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر لشکر اسلام کی جستجو میں نکل کھڑے ہوگئے ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے مقام پر پہنچے تو یہ بھی پہنچ گئے ۔حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بھی پیچھے رہ گئے تھے ۔راستے میں ان سے بھی ملاقات ہوگئی تھی ، جب دونوں ایک ساتھ لشکر کے قریب پہنچے تو ابو خثیمہ نے حضرت عمیر سے کہاکہ مجھ سے ایک بڑی کوتاہی سر زد ہوگئی ہے اگر آپ کچھ دیر توقف کرلیں تو میں آپ سے پہلے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضری لگوالوں ۔

 لوگوںنے جب ایک سوار کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی : یارسول اللہ !کوئی شتر سوار ہماری طرف آرہا ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ کرے ، کہ یہ سوار ابوخثیمہ ہی ہو۔جب یہ قریب آئے توصحابہ کرام نے عرض کی:واللہ !یہ سوار تو ابوخثیمہ ہی ہے،انھوںنے اپنی اونٹنی کو بٹھایا اوربارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو خثیمہ !تمہیں مبارک ہو، حضرت ابو خثیمہ اپنے تمام احوال گوش گزار کرنے کے لیے بیتاب تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا تمام ماجراخود ہی بیان فرمادیااوران کے لیے دعائے خیرفرمائی ۔(زاد المعاد،ابن قیم، سیرت حلبیہ)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1873 ( Surah Al-Hadid Ayat 25 Part-2 ) درس ق...

منگل، 19 اکتوبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1871 ( Surah Al-Hadid Ayat 22 - 24 Part-2 ) ...

ShortClip - کیا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا بہت مشکل ہے؟

سراپاحُسن و رعنائی

 

سراپاحُسن و رعنائی

قاضی ابوالفضل عیاض المالکی تحریر کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارکہ اوراسکا جمال اورآپکے اعضاء وقویٰ کے متناسب ہونے کے بارے میں بہت سی صحیح اورمشہورحدیثیں منقول ہیں۔ ان احادیث میں سے ایک حدیث جسے حضرت علی حضرت انس بن مالک ، حضرت ابوہریرہ،  حضرت براء بن عازب ، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت ابن ابی ہالہ ، حضرت ابن ابی حجیفہ ، حضرت جابر ابن سمرۃ ، حضرت ام معبد، حضرت ابن عباس ، حضرت معرض بن معیقی رضوان اللہ علیہم اجمعین اوربہت سے صحابہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ مبارک (گندم گوں) گورا، سیاہ اور کشادہ آنکھیں، سرخ ڈورے والی، لمبی پلکیں ،روشن چہرہ ،باریک ابرو، اونچی بینی ، دندان مبارک چوڑے، گول چہرہ فراخ پیشانی، ریش مبارک جو سینے کو ڈھانپ لے ، شکم وسینہ ہموار سینہ مبارک کشادہ، بڑے کاندھے ، بھری ہوئی ہڈی، بازوپُر گوشت ، کلائیاں ،پنڈلیاں، ہتھیلیاں فراخ، قدم چوڑے ، ہاتھ پائوں دراز، بدن خوب چمکتا ہوا، سینہ سے ناف تک بالوں کی باریک لکیر، میانہ قد نہ زیادہ طویل ، نہ زیادہ قصیر اسکے باوجود جو شخص سب سے زیادہ دراز قد ہوتا اگر آپ کے برابر کھڑا ہوتا تو آپ اس سے بلند معلوم ہوتے ۔یہ آپ کا معجزہ تھا۔آپ کے گیسو مبارک بالکل سیدھے تھے اورنہ مکمل گھنگھریالے جب آپ تبسم فرماتے تو دندان مبارک بجلی کی طرح چمکتے اوربارش کے اولے کی طرح سفید وشفاف دکھائی دیتے۔جب آپ گفتگو فرماتے توایسا معلوم ہوتاکہ نور کی جھڑیاں آپ کے دندان مبارک سے نکل رہی ہیں ۔گردن نہایت خوبصورت ،نہ آپ کا چہرہ بہت بھرا ہوا تھانہ بہت لاغر بلکہ بدن کی مناسبت سے ہلکا گوشت تھا۔ (دلائل النبوۃ)حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی بالوں والے کوکہ اسکے بال کاندھوں تک دراز ہوں۔سرخ پوشاک میں حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا ۔(بخاری) حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ کسی کو حسین وجمیل نہیں دیکھا گویا آپ کے رخسارمیں سورج تیررہا ہے۔ جب آپ مسکراتے تھے تودیواروں پر اس کی چمک پڑتی تھی۔                                                                                                                                    (شمائل ترمذی، ابن حبان ،احمد)حضرت جابر بن سمرۃ سے کسی نے پوچھا کیا آپ کا چہرہ تلوار کی طرح چمکتا تھا۔انہوں نے کہا نہیں بلکہ آفتاب وماہتاب کی طرح روشن اورگول تھا۔(صحیح مسلم) قاضی عیاض مالکی تحریر کرتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کی نظافت بطن اقدس اوراسکے سینے کی خوشبو اوراس کا ہر قسم کی آلودگی اورعیوبات جسمانیہ سے پاک صاف ہونا یہ ہے کہ اسکے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ خصوصیت عطافرمائی ہے کہ آپکے سوا کسی میں پائی ہی نہیں جاتی۔مزید براں یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو شرعی نفاست وپاکیزگی اوردس فطری خصلتوں سے بھی مزین فرمایا ہے،چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دین کی بنیاد پاکیزگی پر ہے۔ (ترمذی)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سی خوشبو سے بڑھ کر کسی عنبر ، کستوری اورکسی بھی چیز کی خوشبو کو نہ پایا۔(صحیح مسلم)

پیر، 18 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم شرک خفی میں مبتلا ہیں

ShortClip - ہم کیسے مقرب الٰہی بن سکتے ہیں؟

سادہ لوح دیہاتیوں سے محبت

 

سادہ لوح دیہاتیوں سے محبت 

دیہا ت میں رہنے والے افراد اکثر اوقات سادہ مزاج اور سادہ لوح ہوتے ہیں۔ انھیں شہر کے تمدن ،آداب روایات کازیادہ ادراک نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات وہ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے شہریوں کے مذاق بلکہ طنزوتمسخر کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ لیکن حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم دیہات سے آنے والے ان بادیہ نشینوں کے لیے سراپا رحمت اورسراپا شفقت تھے۔ انھیں بڑی بشاشت اورکشادہ روئی سے ملتے، بڑی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کرتے، تحمل سے ان کی بات سنتے اورمسکراتے ہوئے بڑی وضاحت سے انکا جواب مرحمت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے صحرانشین بھی آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ 
حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی زاہر بن حرام الاشجی تھے ،جو ایک صحرا میں قیام پذیر تھے۔ ان کا معمول تھا کہ جب بھی بارگاہ رسالت میں حاضری کے لئے آتے ،اپنے ہمراہ صحرا کی عمدہ سبزیاں اورلذیذ پھل لے کرآتے اورآپ کی خدمت میں ہدیہ خلوص پیش کرتے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اب میں انھیں شہر کی مرغوب اورقیمتی اشیاء بطور تحفہ عنایت فرماتے ۔ حضور بڑی خوش طبعی سے فرمایا کرتے تھے کہ زاہر ہمارا صحرا ہے اورہم اس کے شہر ہیں۔ حضور زاہر سے اورزاہر حضور سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ ایک روز حضور بازار تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ زاہر اپنا سامان فروخت کررہے ہیں،حضور ان کی پشت کی طرف سے آئے،ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور خوب بھینچا۔زاہر نے مشام جاں کی خوشبو سے پہچان لیا کہ یہ اللہ کے محبوب ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں حصولِ برکت کے لیے اپنی پشت کو دیر تک آپ کے صدرمبارک سے مس کرتا رہا۔ (ترمذی)دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے انھیں عقب سے اپنے بازوئوں میں کس لیا، اس نے کہا مجھے چھوڑ دوتم کون ہو، پھر توجہ ہوئی کہ یہ تو اس کے آقاء ہیں، جو اس پر لطف وکرم فرمارہے ہیں۔ یہ ادراک ہونے کے بعد وہ بڑی دیر تک آپ کے مبارک لمس سے شاد کام ہوتے رہے ۔آپ نے ان کے ساتھ خوش طبعی فرماتے ہوئے کہا :ہے کوئی جو اس غلام کو خرید لے؟زاہر نے عرض کیا حضور اگر آپ مجھے فروخت کریں گے تو مجھے کھوٹا پائیں گے ۔قدرشنا س رسول نے ارشاد فرمایا :نہیں تم کھوٹے نہیں ہو بلکہ اللہ کی بارگاہ میں بڑے گراں قیمت ہو۔(السیرۃ النبویہ)
عبداللہ نامی ایک صحابی حمار کے لقب سے مشہور تھے ،بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے تو ایک کپی گھی یا شہد پیش کرتے ،بیچنے والا قیمت طلب کرتا تو حضور سے عرض کرتے یہ شہد کا مالک ہے اسے قیمت ادا فرما دیں،آپ بڑے محظوظ ہوتے اور قیمت ادا فرمادیتے ۔ طرفہ نامی ایک صحابی بھی ہر دفعہ کوئی نہ کوئی چیز لے کر آتے اورہدیہ خلوص پیش کرتے ۔ قیمت طلب کی جاتی تو کہتے میرے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ،اس کی قیمت تو رسول اللہ ہی ادافرمائیں گے۔ حضور اس زندہ دلی پر بھی بڑا حظ اٹھا تے اورمسکراکر قیمت ادافرمادیتے۔ 

Shortclip - اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن کا مطلب

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1870 ( Surah Al-Hadid Ayat 22 - 24 Part-1 ) ...

اتوار، 17 اکتوبر، 2021

ShortClip - ایمان باللہ کا مطلب

Darsulquran Para-05 - کیا ہم اللہ تعالی کے راستے پر بالکل چلنا نہیں چاہتے

سب سے محبت

 

سب سے محبت 

اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات میں اس کے پیارے محبوب محمد مصطفیٰ علیہ التحتہ والثنا ء سے بڑھ کر کوئی بھی صاحبِ فضیلت نہیں۔لیکن اس کے باوجود آپ کے مزاج مبارک میں انتہائی عاجزی ،انکساری اور فروتنی تھی، ہر ایک کی عزت افزائی فرماتے اورہر ایک سے محبت کرتے۔ 

ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے جعرانہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جلوئہ افروز دیکھا میں ابھی اس وقت نوعمر تھا، اس اثنا میں ایک خاتون وہاں آئیں اورحضور کے قریب ہوئیں، آپ نے اپنی چادر مبارک بچھا دی اورانھیں اس پر بٹھا دیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کون ہیں؟انہوں نے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ (حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا)ہیں۔جنہوں نے حضور کو دودھ پلایا ہے۔(ابودائود )

امام ابودائود روایت کرتے ہیں ایک روز سرکار دوعالم تشریف فرماتھے کہ آپ کے رضاعی والد حاضر ہوئے۔ آپ نے اپنی چادر کا ایک گوشہ ان کے لئے بچھا دیا وہ اس پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد آپ کی رضا عی والدہ تشریف لائیں ،حضور نے اپنی چادر کا دوسرا گوشہ ان کے لئے بچھا دیا وہ بھی اس پر بیٹھ گئیں پھر آپ کے رضاعی بھائی بھی آگئے ،حضور کھڑے ہوگئے اورانھیں اپنے سامنے بٹھا لیا۔(ابودائود)آپ اپنے صحابہ سے کس طرح محبت سے پیش آئے اورکسی بھی بات پر ناگواری کا اظہار نہ فرماتے (الایہ کہ وہ خلافِ شریعت ہو) اس کا اندازا درج ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے۔ 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ننگی پشت والے گدھے پر سوار ہوکر قبا کی طرف روانہ ہوئے ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ چل پڑے ، حضور علیہ السلام نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا میں تمہیں اپنے ساتھ سوار نہ کرلوں ۔عرض کیا یا رسول اللہ جیسے حضور کی مرضی ۔آپ نے فرمایا: میرے ساتھ سوار ہوجائو۔ انہوں نے سوار ہونے کے لئے چھلانگ لگائی۔ وہ سوار نہ ہوسکے اور بے ساختہ حضور کو پکڑ لیا، یہاں تک کہ وہ دونوں زمین پر آگئے۔ حضور پھر سوار ہوگئے۔ اورحضرت ابوہریرہ سے دوبارہ فرمایا کہ تم بھی سوار ہوجائو۔انھوں نے پھر کوشش کی لیکن اس بار بھی سوار نہ ہوسکے۔ اورحضور کو پکڑ لیا اوردونوں پھر زمین پر آگئے۔حضور تیسری بار سوار ہوئے تو آپ نے حضرت ابوہریرہ کو پھر اپنے ساتھ سوار ہونے کی پیش کش فرمائی۔لیکن انھوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ اب مجھ میں سوار ہونے کی ہمت نہیں۔ میں آپ کو تیسری بار نیچے لانے کا سبب نہیں بن سکتا۔ (محب طبری)

ابو قتادہ کہتے ہیں نجاشی کا وفد حاضر خدمت ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود ان کی خدمت میں مصروف ہوگئے ہم نے عرض کیا حضور ہم کافی ہیں آپ نے فرمایا ’’ان لوگوں نے(ہجرت حبشہ کے دوران) میرے صحابہ کی بڑی تکریم کی تھی، میں چاہتا ہوں خود اس کا بدلہ دوں۔(بیہقی )

Shortclip - نفس کی حقیقت

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1869 ( Surah Al-Hadid Ayat 21 Part-2 ) درس ق...

ہفتہ، 16 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم زندگی اللہ تعالی کی رضا جوئی کے لیے گزار رہ...

ShortClip - اللہ تعالیٰ کو مقصدحیات کیسے بنائیں؟

خلقِ پیغمبر

 

خلقِ پیغمبر

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں اگرکوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرتا تو آپ اپنا گوش مبارک اس سے نہ ہٹاتے جب تک کہ وہ سرگوشی سے فارغ نہ ہوجاتا ۔اگر کوئی آپ کا دست مبارک پکڑتا تو جب تک وہ دستِ مبارک کو پکڑے رہتا حضور خود اپنے دستِ اقدس کو نہ کھینچتے ۔اپنی مجلس میں بیٹھنے والوں سے اپنے گھٹنوں کو آگے نہ کرتے۔ جو شخص بھی آپ سے شرف ملاقات حاصل کرتا ،آپ اسے سلام کہنے میں پہل فرماتے ، اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مصافحہ فرماتے ، اپنے ملاقاتیوں کی عزت افزائی کیاکرتے، بسااوقات ان کے لیے اپنی چادرمبارک بچھا دیتے اوران سے اصرار فرماتے کہ اس کے اوپر بیٹھیں ۔ اگر تکیہ ہوتا تو اپنے مہمان کو پیش فرماتے اوراسے مجبور کرتے کہ وہ اس سے ٹیک لگائے۔ اپنے صحابہ کو ان کی عزت افزائی کہ خاطر کنیت سے مخاطب فرماتے اگرکسی صحابی کے متعدد نام ہوتے تو اسے اس نام سے یاد کرتے جواسے زیادہ پسند ہوتا۔ اگر کوئی شخص گفتگو کررہا ہوتا تو درمیان میں بات نہ کاٹتے ،اگر آپ نماز میں مصروف ہوتے اورکوئی شخص ملاقات کے لیے حاضر ہوتا تو اپنی نماز کو مختصر کردیتے ،اور اس سے ازرہِ لطف ودریافت کرتے کہ وہ کیوں آیا ہے ،جب اس کی حاجت براری سے فارغ ہوجاتے تو دوبارہ نماز میں مشغول ہوجاتے۔ (السیرۃ النبویہ )
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے دلوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور انھیں ایک دوسرے سے متنفر نہیں کیاکرتے تھے۔ اگر کسی قبیلہ کا سردار حاضر خدمت ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تکریم فرماتے اور اس کو (قبول اسلام کے بعد)اسی قبیلے کا سردار مقرر فرماتے ۔ آپ اپنے تمام ہم نشینوں کے ساتھ برابر کا سلوک روارکھتے ۔ آپ کے پاس بیٹھنے والا کوئی شخص بھی یہ گمان نہ کرتا کہ فلاں شخص حضور کی نظر وں میں مجھ سے زیادہ معزز ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ضرورت کے لیے حاضر ہوتا اورحاضر ین کے ہجوم میں قریب ہونے کی کوشش کرتا توحضور اس کو اپنے قریب کرتے اور بڑے صبروتحمل سے اس کی ساری کھتا سنتے ،یہاں تک کہ وہ خود (بات کرکے سیر ہوجاتا اور)واپس چلا جاتا ۔ اگر کوئی شخص آپ سے کوئی حاجت طلب کرتا تو حضور اسے خالی ہاتھ واپس نہ بھیجتے ،اگر (کسی وجہ سے)اس کی حاجت براری ممکن (یا مناسب )نہ ہوتی تو اس کے ساتھ بڑے پیار سے گفتگو فرماتے رہتے یہاں تک کہ وہ خوش وخرم (اورمطمئن )ہوکر واپس ہوتا۔ (الشفائ)

جمعہ، 15 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم اپنے آپ سے خیانت کر رہے ہیں

ShortClip - ہماری زندگی میں خلوص کب پیدا ہوگا؟

پسندیدہ عمل

 

 پسندیدہ عمل 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز کو وقت پر پڑھنا ، میں نے پوچھا : پھر کون سا عمل ؟ فرمایا : ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا۔ (بخاری ، مسلم)

 حضرت معاویہ بن جاھمہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت جاھمہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے جہاد کا ارادہ کیا ہے ، میں آپ کے پاس مشورہ کے لیے آیا ہوں، آپ نے فرمایا : کیا تمہاری ماں (زندہ )ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : اس کے ساتھ وابستہ رہو، کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔(ابن ماجہ ، نسائی )

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س ایک شخص آیا اوراس نے کہا : میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں اورمجھے اس پر قدرت نہیں ہے، آپ نے فرمایا : کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک ہے؟ اس نے کہا : میری ماں ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ نیکی کرنے کی زیادہ کوشش کرو، جب تم یہ کرلو گے تو تم حج کرنے والے ، عمرہ کرنے والے اورجہاد کرنے والے ہوگے ۔(ابویعلی ، طبرانی)

 اس حدیث پاک میں جہاں والدین کی فرمانبرداری کا پہلو ہے اوراس پر تاکید ہے، وہاں یہ امر بھی مدنظر رہے کہ حضرت امیر المومنین عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ مردم شناسی میں ایک خاص ملکہ رکھتے تھے اگر انھیں اس خاتون کے انتخاب پر اتفاق نہیں تھا تو اس کی کچھ دیگر وجوہات ضرور ہوں گی اوروہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ معاملہ مزاجوں کے تفاوت وغیرہ کی وجہ سے ممکن ہے کسی ناگوار صورت حال کا باعث بنے ۔یہ حکم گویا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بصیرت اورمعاملہ فہمی پر اعتماد کا اظہار ہے ، اس زمانے میں نکاح اورطلاق کے معاملات بہت سادگی سے انجام پایا کرتے تھے ، معاشرے میں بیوہ اورمطلقہ کی دوسری یا تیسری شادی بھی کوئی خاص معاملہ نہیں تھا جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسے حالات نہیں ہیں ۔اس لیے گھریلو اورعائلی معاملات میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے بہت غور وفکر کرنا چاہیے، بالعموم والدین اوراولاد دونوں محض جذباتی رویہ اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان معاملات میں بہت زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1867 ( Surah Al-Hadid Ayat 20 Part-2 ) درس ق...

جمعرات، 14 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم صاحب ایمان لوگ ہیں

Shortclip - کیا ہم نفس کی غلامی سے چھٹکارا پاسکتے ہیں؟

ShortClip - اپنے آپ کو جاننا کیوں ضروری ہے؟

شانِ تواضع

 

شانِ تواضع

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں ایک روز حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے۔ حضرت جبرائیل امین آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھے کہ اچانک آسمان ایک کنارے سے پھٹا۔ دفعتاًؔ ایک فرشتہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا۔ یہ حضرت اسرافیل علیہ السلام تھے جو نہ اس سے پہلے کبھی کسی نبی پر نازل ہوئے اور نہ آج کے بعد کبھی وہ آسمان سے اتریں گے انہوں نے عرض کیا’’یا رسول اللہ آپ پر سلام ہو اور آپ کا پروردگار بھی آپ کو سلام ارشاد فرماتا ہے ۔میں آپ کے رب کی طرف سے آپ کی خدمت میں بحیثیت قاصد حاضر ہوا ہوں۔ اس رب العزت نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو اختیار دوں چاہے تو آپ ایسے نبی بنیں جو ’’عبد ‘‘ ہے اور چاہے تو آپ ایسے نبی بنیں جو بادشاہ ہے جبرائیل پہلے ہی حاضر خدمت تھے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا ۔ انہوں نے تواضع اختیار کرنے کے بارے میں عرض کیا۔ حضور نے حضرت اسرافیل سے فرمایا ’’بل نبیاً عبدًا ‘‘ میں ایسا نبی بننا چاہتا ہوں جو اپنے خالق ومالک کا بندہ ہو اور اے عائشہ اگر میں ایسا نبی بننا پسند کرتا جو بادشاہ ہو تو پہاڑ سونا بن کر میر ے ہمراہ ہوتے ۔ (ابن سعد ، ابو نعیم ،ابن عساکر) ٭حضرت عائشہ فرماتی ہیں ایک روز حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کا شانہ اقدس سے باہر تشریف لے گئے دوش اقدس پر جو عباڈالی تھی ،اس کے دونوں کناروں کو گرہ دی ہوئی تھی۔ایک اعرابی حاضر خدمت ہوا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے ایسی عبا کیوں زیب تن فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا میں نے اس لئے یہ معمولی قبا پہنی ہے تاکہ میں کبر ونخوت کی بیخ کنی کرسکوں ۔(سبل الھدی)٭بزاز کہتے ہیں کہ میں نے غزوئہ خندق کے وقت اللہ کے پیارے رسول اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ خندق کھودتے اور اس کی مٹی کو اٹھا کر باہر پھینکتے ۔ اس مٹی کے گرنے سے سارا شکم مبارک گرد سے رٹ گیا تھا۔(بخاری)

٭حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکیہ لگا کر کھانا تناول فرماتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی حضور دوسروں سے آگے آگے چلنے کو پسند فرماتے تھے۔ 

٭حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور سر ور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جس حجرئہ مبارکہ میں تشریف فرما ہوتے اس کا دروازہ بند نہ کیا جاتا اور نہ اس پر دربان مقرر کیے جاتے جو لوگوں کو آگے بڑھنے سے روکیں ۔جوشخص حضور سے ملاقات کا ارادہ کرتا حضور اس  سے ملاقات فرماتے ۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1866 ( Surah Al-Hadid Ayat 20 Part-1 ) درس ق...

بدھ، 13 اکتوبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1865 ( Surah Al-Hadid Ayat 19 Part-3 ) درس ق...

ShortClip - اخلاص کیا ہے؟

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تواضع

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تواضع

انسان کو اللہ رب العز ت نے تخلیق فرمایا ، اپنی زندگی میں اسے جتنے کمالات نصیب ہوتے ہیں،وہ سب اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے نصیب ہوتے ہیں ۔ لیکن انسان اپنی نادانی کی وجہ سے انھیں اپنا کسبِ کمال سمجھتا ہے۔ غرور وتکبر کو اپنا شعار بنالیتا ہے ۔کسی کو اپنے جیسا نہیں سمجھتا ۔ خدائے بزرگ وبرتر کو انسان کا یہ تکبر سخت نا پسند ہے قرآن نے بڑے واضح الفاظ میں تلقین فرمائی ۔ ’’اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ )اپنا رخ نہ پھیر اور زمین پر اکڑ کر مت چل بے شک اللہ بڑے متکبر ،اتراکر چلنے والے کو نا پسند فرماتا ہے‘‘۔(لقمان ۱۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کریم کی طرف سے معلم رشد وہدایت ہیں آپ نے انسانوں کو عاجزی اور تواضع کی تلقین فرمائی اور جملہ کمالات ظاہری وباطن سے متصف ہونے کے باوجود خود بھی ہمیشہ عاجزی اور تواضع کواختیار فرمایا ۔ آپ اللہ کے فرستادہ رسول ہیں۔ا ور ظاہر میں بھی آپ نے مملکت ِ اسلامیہ کی بنیاد رکھی ۔صحابہ کرام جس انداز میں آپ کی پیروی کرتے، آپ کا احترام کرتے اور پروانہ وار آپ پر نثار ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ، کسی بڑے سے بڑے دنیاوی بادشاہ کے دربار میں اس کی مثال نہیں مل سکتی جیسا کہ حدیبیہ کے موقع پر عرب کے مشہور سردار عروہ بن مسعود ثقفی نے اعتراف واظہار کیا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خلیق اور متواضع تھے۔ مزاج مبارک میں انتہائی سادگی تھی اپنے صحابہ کرام کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتے اور اپنے لیے کسی مخصوص امتیازی نشست یا امتیازی نشان کی قطعاً کوئی ضرورت نہ سمجھتے نہ اس کی اجازت مرحمت فرماتے ۔غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ۔ ان کے ساتھ کھانا تناول فرمالیتے ،مجلس کے دوران کبھی آپ کو پائوں پھیلا کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ غریب سے غریب آدمی کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے ۔ امیرہو یا  غریب بلاتفریق ہر ایک کی دعوت کو شرفِ قبول عطا فرمالیتے ۔ ہر قسم کی سواری حتیٰ کہ گدھے اور خچر پر بھی بخوشی سوار ہوجاتے اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لیتے ،بازار سے گھر کا سودا سلف خود خرید لاتے ۔اپنے جانوروں کو بلا تکلف چارہ ڈالتے۔ انکے بدن پر تیل ملتے گھر کے روزمرہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے اور اپنے کاموں کو امکانی حدتک خود انجام دینے میں بڑی خوشی محسوس فرمایا کرتے تھے۔ اپنے لباس مبارک میں خود پیوند لگاتے حتیٰ کہ اپنا جوتا بھی گانٹھ لیاکرتے تھے۔ گھر کی صفائی ستھرائی بھی فرمالیتے اور جانوروں کا دودھ دوہ لیا کرتے تھے۔ ایک بارسفر میں جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا ،ایک صحابی نے درست کرنے کی پیش کش کی لیکن آپ نے فرمایا :نہیں یہ امتیازی بات مجھے پسند نہیں اور خود ہی جوتی کا تسمہ ٹانگا۔

منگل، 12 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم پکی نیند سو رہے ہیں

Shortclip - مُرشِد کی ضرورت

Shortclip Pashto - انسان دنیا میں کیوں آیا ہے؟

حضور اور ایفائے عہد (۲)

 

حضور اور ایفائے عہد (۲)

جنگ بدر کا موقع تھا ۔کفار کا لشکرِ جرّار سامنے تھا۔ مسلمانوں کی تعداد بھی قلیل تھی اور سامان جنگ بھی بہت ہی محدود تھا ۔ایسے میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو حسیل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ ہم مکہ مکرمہ سے آرہے تھے،راستے میں ہم کفار کے نرغے میں آگئے تھے۔انھوں نے ہمیں گرفتار کرلیا۔ لیکن مذاکرات کے بعد رہا کردیا اور شرط یہ عائد کی کہ ہم لڑائی میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوں۔ ہم نے بامرِ مجبوری عہد کرلیا۔، لیکن (یہ جنگ ہے)ہم کافروں کے لیے خلاف ضرور جہاد کریں گے۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:نہیں ہر گز نہیں تم اپنا وعدہ پورا کرو اور میدانِ جنگ سے واپس چلے جائو۔ ہم مسلمان ہیں اور ہر حال میں اپنا وعدہ پورا کریں ہمیں صرف اور صرف اللہ کی نصرت درکار ہے۔ ٭حضرت عبد اللہ بن ابی الحسماء رضی اللہ عنہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے پہلے کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔’’میں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معاملہ طے کیا اور ان کو کہنا کہ آپ اسی جگہ تشریف رکھیے گا میں ابھی آکر حساب کردوں گا۔ آپ نے وعدہ فرمالیا۔ میں وہاں سے چلا آیا لیکن مجھے واپس جانا یا د ہی نہ رہا۔ تین دن کے بعد یا د آیا تو دوڑا دوڑا اس جگہ پر پہنچا جہاں میں آپ کو بٹھا کر آیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ اسی جگہ پر تشریف رکھتے ہیں۔ میں بڑا شرمسار ہوا اور معذرت کی حضور نے ارشاد فرمایا:میں تین دن سے یہاں پر تمہارا انتظار کررہا ہوں۔اگرچہ تم نے مجھے بڑی ایذاء دی لیکن میں تمہیں معاف کرتا ہوں اللہ بھی تمہیں معاف فرمائے۔
٭صلح نامہ حدیبیہ ہوا تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ کا کوئی شخص اسلام قبول کرلے اور مکہ سے مدینہ منورہ آجائے تو اہل مکہ کے مطالبہ پر اسے واپس مکہ بھیج دیا جائے گا۔ عین اس وقت جب یہ معاہدہ تحریر میں آیا۔ مکہ کا ایک نوجوان ابو جندل رضی اللہ عنہ پایہ رنجیر حالت میں ہا نپتے کانپتے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔انھیں خاندان والوں نے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں قید کررکھا تھا ۔وہ کسی حیلے سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور مسلمانوں کے پاس پہنچ گئے۔ مسلماں نے ان کی حالت زار دیکھی تو تڑپ اٹھے اور ابو جندل کو اپنے پناہ میں لینے کے لیے بے تاب ہوگئے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا :اے ابو جندل ،صبر کر ہم اپنا عہد نہیں توڑ سکتے اللہ تبارک وتعالیٰ جلد ہی تیرے لئے رستگاری کی کوئی اور صورت پید ا کردے گا۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1864 ( Surah Al-Hadid Ayat 19 Part-2 ) درس ق...

اتوار، 10 اکتوبر، 2021

Shortclip - کیا ایمان کا ذائقہ صرف کتاب سے مل سکتا ہے؟

ShortClip - کیا ہمیں اللہ تعالٰی نے فضول (معاذ اللہ) بنایا ہے؟

حضور اور ایفائے عہد (۱)

 

حضور اور ایفائے عہد (۱)

اچھے انسانی خصائل جن کی وجہ سے انسانی معاشرت میں بھائی چارہ کی فضا ء تشکیل پاتی ہے۔ان میں سے ایفائے عہد یعنی اپنے وعدہ کا پورا کرنا ایک اہم خصلت ہے۔ اسلام نے اس پر بہت روز دیا ہے، قرآن وحدیث میں اس بارے میں ہدایات بڑی واضح ہیں۔ اسوئہ رسول ﷺمیں اس کی بڑی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں۔اللہ رب العزت کا حکم ہے:۔’’اور عہد کرکے پورا کرو کیونکہ اب تم اس عہد کے ذمہ دار بن گئے ہو‘‘۔ (۱۷۔۳۷) ٭ حضر ت عبد اللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں جنابِ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ اس سے نازیبا مذاق کرواور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کو پورا نہ کرسکو ۔(ترمذی)٭حضرت ابو رافع ؓقبول اسلام سے پہلے ایک موقع پر قریش کی طرف سے سفیر بن کرمدینہ منورہ آئے۔حضوراکرم  ﷺ کی زیارت کی تو آپکی دلنواز اور دلربا شخصیت سے انتہائی متاثر ہوئے۔ اور کفر وشرک سے متنفر ہوگئے۔حضور پناہِ بے کساں ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:یا رسول اللہ اب میں واپس نہیں جائو ں گا۔ حضورانور ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نہ تو عہد شکنی کرتا ہوں اور نہ سفیر وں کو اپنے پاس روکتا ہوں اس وقت تم واپس چلے جائو۔چاہو تو بعد میں واپس آجانا۔سو وہ سرکار دوعالم ﷺکے حکم کیمطابق واپس چلے گئے اور کچھ عرصہ بعد مدینہ منور میں حاضر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ٭صفوان بن امیہ کا شمار اسلام کے سرگرم مخالفین میں ہوتا تھا۔ ایک موقع پر اس نے عمیر بن وھب کے ساتھ مل کر حضو ر اکرم  ﷺ کو شہید کرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔ لیکن عمیر بن وھب نے اسلام قبول کرلیا،اور یہ منصوبہ پایہ ء تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم  ﷺنے صفوان کو واجب القتل قرار دے دیا تھا۔ مکہ فتح ہوا تو وہ وہاں سے فرار ہوکر جدہ چلا گیا۔ حضرت عمیر بن وھب رضی اللہ عنہ (جو صفوان کے چچا زاد بھائی ہے)نے اسکی سفارش کی،حضور رحمت عالم ﷺنے حضرت عمیر کی خدمات کے اعتراف میں جان کے اس دشمن کو بھی بخش دیا اور وعدہ فرمالیا کہ صفوان یہاں آجائے تو اسے امان عطاء کی جائے گی۔ عمیر جدہ تشریف لے گئے ا ور صفوان کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ صفوان نے پوچھا :کیا آپ نے واقعی مجھے امان دی ہے۔ حضور نے فرمایا :ہاں یہ سچ ہے اور میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔ صفوان نے قبول اسلام کے بارے میں غور وفکر کیلئے درماہ کی مہلت طلب کی ۔آپ نے اسے چار ماہ کی مہلت عطاء فرمائی۔جنگ حنین کے موقع پر وہ حضور کے رحمت وکرم اور لطف وعنائت کو دیکھ کر مدّت ختم ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے۔ (ﷺ)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1862 ( Surah Al-Hadid Ayat 18 ) درس قرآن سُو...

Darsulquran Para-05 - کیا آج بھی ہجرت لازم ہے

ہفتہ، 9 اکتوبر، 2021

Shortclip کیا نیک شخص کی صحبت ہماری ضرورت ہے؟

ShortClip - یقین کے مراحل

صحابہ کرام کا ذوق عبادت

 

صحابہ کرام کا ذوق عبادت

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ ،مبارک اور انسان ساز محبت نے سرزمین عر ب میں ایک روحانی انقلاب پیدا کردیا۔ وہ خطہ زمینی جہاں بتوں کی پرستش ہواکرتی تھی۔اور خد کی یاد یاد تک دلوں سے محو ہوگئی تھی۔اس سرزمین کے باسی عرفان وعبادت کے پیکر بن گئے۔ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا چین یادِ الٰہی وابستہ ہوگیا۔ان کے ہونٹ ذکر سے تر رہنے لگے۔اور ان کے خیالات کا رخ ہمہ وقت رضاء الہی کی طرف ہوگیا۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں ان کے اس ذوق وشوق اور وارفتگی کی خود شہادت دی ہے۔٭ ’’ایسے لوگ جن کو کاروبار اور خرید وفرخت (کی مشغولیت بھی)خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی‘‘۔(نور ۔5)٭(یہ وہ لوگ ہیں)جو اٹھتے ،بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (بھی )اللہ کو یاد کرتے ہیں۔(آل عمران۔ ۲۰۰) ٭(یہ وہ لوگ ہیں)جن کے پہلو (رات کو) خواب گاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں اور وہ خوف اور امید (کی ملی جلی کیفیت)کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔(سجدہ ۔2)٭آپ انھیں دیکھیں کہ (وہ) رکوع میں جھکے ہوئے،سجدہ میں پڑے ہوئے خدا کے فضل اور (اس کی )رضاء کو تلاش کرتے ہیں ۔ (فتح۔4)عرب کے وہ صحرانشین جو بڑے سخت دل تھے، اور کہیں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ان کے دل سوزوگداز سے اس طرح معمور ہوگئے ہیں اور خشیت الٰہی نے ان کے دلوں میں اس طرح جگہ بنالی ہے کہ وہ لوگ کہ جب (ان کے سامنے)خدا کا نام لیا جائے تو انکے دل دہل جاتے ہیں۔(حج۔۵)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت صالحہ کا فیضان تھا کہ مکہ میں جہاں صحابہ کرام کے لیے کھل کر اپنے اعلان کا کرنا بھی دشوار تھا،وہاں بھی تنہائی اور خلوت ڈھنڈتے تھے ،اور اپنے رب کے حضور میں سجدہ ریز ہوجاتے تھے بالعموم اپنی رات کی تنہائیوں کو اللہ کے ذکر سے آباد کرلیتے ۔ ٭آپ کا پروردگار جاتنا ے کہ آپ دوتہائی رات کے قریب اور آدھی رات اور ایک تہائی رات تک (نمازمیں)کھڑے رہتے ہیں اور آپ کے ساتھ (اہل ایمان کی)ایک جماعت بھی اٹھ کر نماز پڑھتی ہے۔ (مزمل۔۲) اہتمام صلوٰ ۃ کی وجہ سے صحابہ کرام طہارت کا اہتمام کرتے اپنے جسم اور لباس کو پاک صاف رکھتے ،قرآن مجید نے ان کے اس ذوق کی تحسین کرتے ہوئے یوں مدح فرمائی:
اس مسجد میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(توبہ۔۱۳)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1861 ( Surah Al-Hadid Ayat 17 ) درس قرآن سُو...

Darsulquran Para-05 - کیا ہم اللہ تعالی کے راستے میں اپنا مال و جان قرب...

جمعہ، 8 اکتوبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1860 ( Surah Al-Hadid Ayat 16 Part-3 ) درس ق...

ShortClip - یقین کیسے پختہ کریں؟

جنت کی نعمتیں

 

 جنت کی نعمتیں

علامہ راغب اصفہانی جنت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’جن ‘‘کا اصل میں معنی ہے: کسی چیز کو حوا س سے چھپا لینا۔ قرآن مجید میں ہے: ’’جب رات نے ان کو چھپالیا‘‘(الانعام : ۷۶)

 جنان ‘قلب کوکہتے ہیں ، کیونکہ وہ بھی حواس سے مستور ہوتا ہے ، جنین ‘پیٹ میں بچہ کو کہتے ہیں وہ بھی مستور ہوتا ہے‘مجن اورجنہ ڈھال کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی حملہ آور کے حملہ سے چھپاتی ہے اورجن بھی حواس سے مستور ہوتے ہیں، اورجنت اس باغ کو کہتے ہیں جس میں بہت زیادہ گھنے درخت ہوں اوردرختوں کے گھنے پن اورزیادہ ہونے کی وجہ سے زمین چھپ گئی ہواوردارالجزاء کا نام جنت اس لیے ہے کہ اس کو زمین کی جنت (گھنے باغ)کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے اگر چہ دونوں جنتوں میں بہت فرق ہے ، یا اس کو اس وجہ سے جنت کہا گیا ہے کہ اس کی نعمتیں ہم سے مستور ہیں ۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیارکی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اورنہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا ہے اوراگر تم چاہوتو یہ آیت پڑھو:’’سوکسی کو معلوم نہیں کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری)

 حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں تمہارے لیے چابک جتنی جگہ بھی دنیا ومافیہا سے بہترہے۔ (صحیح بخاری )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو پہلا گروہ جنت میں داخل ہوگا ان کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگا، نہ وہ اس میں تھوکیں گے نہ ناک سے ریزش آئے گی، نہ فضلہ خارج ہوگا ، ان کے برتن جنت میں سونے کے ہونگے اورکنگھے سونے اورچاندی کے ہوں گے اوراس میں عود کی خوشبو ہوگی، ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبو دار ہوگا، ہر جنتی کو دوبیویاں ملیں گی ، ان کی پنڈلیوں کامغز گوشت کے پار سے نظر آئے گا، یہ ان کے حسن کی جھلک ہے ان کے دلوں میں اختلاف اوربغض نہیں ہوگا، سب کے دل ایک طرح کے ہوں گے اوروہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے۔(صحیح بخاری)


جمعرات، 7 اکتوبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم گمراہ ہوگئے ہیں

ShortClip - یقین کیسے بڑھائیں؟

نماز اور تعمیر شخصیت

 

نماز اور تعمیر شخصیت

نماز کو اگرا س کے صحیح احساس کے ساتھ اداکیا جائے تو وہ بندئہ مومن کی اس شخصیت کی تعمیر کرتی ہے جو اسلام کا مطلوب ومقصود ہے۔ نماز انسان کو سارا دن اپنے خدا سے وابستہ رکھتی ہے،اور مختلف وقفوں کے بعد وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سربسجود ہوجاتا ہے۔اگروہ محض رسم ادا نہیں کر رہا اور کسی کو دکھانے کے لیے عبادت کا ڈھونگ نہیں رچا رہا اور پورے شعور سے اللہ کو اپنا رب مان رہا ہے تو بار بار کا تجدید عہد اس کی زندگی میں مثبت اور معنی خیز تبدیلیوں کا سبب ضرور بننا چاہیے۔ وہ دو نمازوں کے درمیانی وقفے میں بھی اللہ سے اپنے تعلق کا بھرم رکھے اور اگر خدانخواستہ اس سے کوئی فروگزاشت ہوگئی ہے تو نماز کی صورت میں اسکے بعد ایک ذریعہ ہے تو بہ اور استغفار کا ۔ نماز گزشتہ کیلئے استغفار کا ذریعہ بھی ہے اور آئندہ کیلئے استعانت کاوسیلہ بھی ۔یہ انسان کو خدا سے بھی وابستہ رکھتی ہے اور اسکے رسول سے بھی ،کیونکہ نماز حکم خدا کا ہے اور اسکے اداء کرنے کا طریقہ اسکے پیارے رسول نے سکھایا ہے۔ طہارت ،وضوسے لیکر مسجد سے واپسی تک ہر ہر مرحلہ میں خیروبرکت سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح انسان نماز میں موجود برکات کو اور انکے اثرات کو دیکھتا ہے،تو شریعت مطہرہ کے دوسرے احکام کو بھی اپنے لیے خیروبرکت کا موجب سمجھتا ہے۔ اور قدم قدم سنت مطہرہ کی پاسداری کا خیال اسکے دل میں راسخ ہوجاتا ہے۔ نماز کی ادائیگی میں وقت کی پابندگی ایک بنیادی بات ہے ۔اسلام نے بندئہ مومن کو نماز کے ذریعے ایک بڑا خوبصورت نظام الاوقات عطاء کردیا ہے۔ نمازِ پنجگانہ دن کو جن مناسب وقفوں میں تقسیم کردیا ہے ،شاید اس سے بہتر تقسیم ممکن ہی نہیں ہوسکتی ۔انسان فجر کے لیے علی الصبح بیدار ہوجائے۔ نماز پڑھے ،اپنے معمولات و مشاغل سے فراغت پاکر حصول رزق میں اور ادائیگی فرائض میں مشغول ہوجائے ۔دن کے آخر میں نماز عشاء ادا کرے اور آرام کرے ،یہی اوقات انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہیں اور طب وصحت کے حوالے سے بھی اس سے بہتر تقسیم کوئی اور نہیں ہے۔ جتنا ان سے ہم آہنگ ہوگااتنے بہتر نتائج سے ہم کنار ہوگا۔ نماز جہاں مسلمان کو پابندی وقت کا درس دیتی ہے۔ وہیں پر اسے ہر وقت بیدار اور چوکس رہنے کی تربیت بھی فراہم کرتی ہے۔ نماز اپنے آداب میں اقامتِ صلوٰ ۃ کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ اللہ کے حضور ،خشوع ،خضوع اورمکمل توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن یہ مدہوشی اور تغافل ہرگز نہیں ہے۔ یہ پورے ہوش اور مکمل شعور کی اداکی جاتی ہے۔ وضوکرو، جسم کا خیال کرو، لباس کا خیال کرو، نمازکے فرائض وآداب کو دھیان میں رکھو، امام کی اتباع کرو،یہ سب اعمال مسلمان کو چوکس اور متنبہ رہنے کی تربیت دیتے ہیں۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1859 ( Surah Al-Hadid Ayat 16 Part-2 ) درس ق...

Shortclip - قلبِ سلیم کیسے حاصل کریں؟

Darsulquran Para-05 - کیا ہم اپنے نفس کے بندے ہیں

بدھ، 6 اکتوبر، 2021

ShortClip - کیا ہم غافل ہیں؟

نماز کے روحانی اسرار

 

نماز کے روحانی اسرار

 حضرت علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش (۴۰۰ھ۔ ۴۶۵ھ) امت کے مشاہیر میں سے ہیں،آپ کا علمی اور روحانی مقام مسلّم ہے۔ آپکی کتاب کشف المحجوب درجہ استناد رکھتی ہے۔ ذیل میں ہم نماز کے ظاہری وباطنی اسرار کے حوالے سے اسکے اقتسابات نقل کرتے ہیں۔نماز کے معنی باعتبار لغت، ذکر و انقیاد کے ہیں اور فقہاء کے عرف و اصطلاح میں، مقررہ احکام کے تحت مخصوص عبادت ہے۔ جو بفرمانِ الٰہی نمازِ پنجگانہ ہے جنہیں پانچ وقتوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ نماز کی فرضیت کیلئے اسکے وقت کا پہلے داخل ہونا شرط ہے۔ نماز کے شرائط میں سے ایک شرط طہارت ہے۔ جو ظاہری طور پر ناپاکی سے اور باطنی طور پر شہوت سے پاک ہونا ہے۔ دوسری شرط لباس کی پاکی ہے ظاہر طور پر نجاست سے اور باطن طور پر اس طرح کہ وہ حلال کمائی سے ہو۔ تیسری شرط جگہ کا پاک ہونا ہے ظاہر طور پر حوادث و آفت سے اور باطنی طور پر فساد و معصیت سے۔ چوتھی شرط استقبال قبلہ ہے ظاہر طور پر خانہ کعبہ کی سمت اور باطنی طور پر عرشِ معلی اور اس کا باطن مشاہدہ حق ہے۔ پانچویں شرط قیام ہے ظاہری طور پر کھڑے ہونے کی قدرت اور باطنی طور پر قربتِ الٰہی کے باغ میں قیام ہے۔ چھٹی شرط دخول وقت ہے جو ظاہری طور پر شرعی احکام کے مطابق اور باطنی طور پر حقیقت کے درجہ میں ہمیشہ قائم رہنا ہے۔ اور داخلی شرائط میں سے ایک شرط خلوص نیت کے ساتھ بارگاہِ حق کی طرف متوجہ ہونا ہے اور قیام ہیبت و فنا میں تکبیر کہنا، محل وصل میں کھڑا ہونا، ترتیل و عظمت کے ساتھ قرأت کرنا، خشوع کے ساتھ رکوع کرنا، تذلل و عاجزی کے ساتھ سجدے کرنا، دلجمعی کے ساتھ تشہید پڑھنا، اور فنائے صفت کے ساتھ سلام پھیرنا۔ایک بزرگ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حاتم اصم سے میں نے پوچھا آپ نماز کس طرح ادا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ جب اس کا وقت آتا ہے تو ایک ظاہری وضو کرتا ہوں دوسرا باطنی وضو۔ ظاہری وضو پانی سے اور باطنی وضو توبہ سے۔ پھر جب مسجد میں داخل ہوتا ہوں تو مسجد حرام کے روبرو دونوں ابرو کے درمیاں مقام ابراہیم دیکھتا ہوں۔ اور اپنی داہنی جانب جنت کو اور بائیں جانب دوزخ کو دیکھتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ میرے قدم پل صراط پر ہیں اور ملک الموت میرے پیچھے کھڑا ہے۔ اس حال میں کمالِ عظمت کے ساتھ تکبیر، حرمت کے ساتھ قیام، ہیبت کے ساتھ قرأت، تواضع کے ساتھ رکوع، تضرع کے ساتھ سجدہ، حلم و وقار کے ساتھ جلسہ اور شکر و اطمینان کے ساتھ سلام پھیرتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺجب اکل و شرب سے فارغ ہوتے تو کمالِ حیرت کے مقام میں شوق کے طالب ہوتے اور یکسو ہو کر خاص مشرب سے انہماک فرماتے۔ اس وقت آپ فرماتے ’’ارحنا یا بلال بالصلٰوۃ‘‘ اے بلال! نماز کی اذان دے کر ہمیں خوش کرو۔ (کشف المحجوب)