منگل، 31 مئی، 2022

Shortclip - زندگی میں کامیابی کی ضمانت اور اس کی شرائط

Darsulquran urdu surah Al-An'am ayat 50-52.کیا ہم اندھے ہیں

Shortclip - ہم دنیا میں کیوں آئے ہیں؟

شکر کی حقیقت

 

شکر کی حقیقت

سید سلمان ندوی تحریر فرماتے ہیں؛شکر ایمان کی جڑ ‘ دین کی اصل اوراطاعت الٰہی کی بنیاد ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کی بنا پر بندہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی قدروعظمت اورمحبت پیدا ہونی چاہیے اوراسی قدروعظمت اورمحبت کے قولی وعملی اظہار کا نام شکر ہے‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اگر تم شکر کرو‘ اورایمان لائو تو خدا تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا اوراللہ تو قدرپہچاننے والا اورعلم رکھنے والا ہے‘‘۔(النسائ)

یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے صرف دوباتیں چاہتا ہے‘ شکر اورایمان ‘ ایمان کی حقیقت تو معلوم ہے اب رہا شکر تو شریعت مین جو کچھ ہے وہ شکر کے دائر ے میں داخل ہے‘ ساری عبادتیں شکر ہیں‘بندوں کے ساتھ حسن وسلوک اورنیک برتائو کی حقیقت بھی شکر ہی ہے‘ دولت مند اگر اپنی دولت کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں دیتا ہے تو یہ دولت کا شکر ہے ‘ صاحب علم اپنے علم سے بندگان الٰہی کو فائدہ پہنچاتا ہے تو علم کی نعمت کا شکر ہے ‘ طاقتور کمزوروں کی امداد اوراعانت کرتا ہے تو یہ بھی قوت وطاقت کی نعمت کا شکرانہ ہے‘ الغرض شریعت کی اکثر باتیں اسی ایک شکر کی تفصیلیں ہیں ‘ اسی لیے شیطان نے جب خدا سے یہ کہنا چاہا کہ تیرے اکثر بندے تیرے حکموں کے نافرمان ہوں گے تو یہ کہا :’’تو ان میں سے اکثر کو شکرکرنے والا نہ پائے گا‘‘۔(اعراف)

خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو جزادیتے ہوئے اسی لفظ سے یاد فرمایا:

’’اورہم شکر کرنے والے کو جزادیں گے‘‘۔(آل عمران)

پوری شریعت کا حکم اللہ تعالیٰ ان لفظوں میں دیتا ہے :

’’بلکہ اللہ کی بندگی کر‘ اورشکر گزاروں میں سے ہو‘‘۔(زمر)

شکر کے اس جذبہ کو ہم کبھی زبان سے اداکرتے ہیں کبھی اپنے ہاتھ پائوں سے پورا کرتے ہیں کبھی اس کا بدلہ دے کر اس قرض کو اتارتے ہیں‘ زبان سے اس فرض کے اداکرنے کا نام اللہ تعالیٰ کے تعلق سے قرآن کی اصطلاح میں حمد ہے جس کے مطالبہ سے پورا قرآن بھراہوا ہے اوریہی سبب ہے کہ حمد الٰہی میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ملہ کا ذکر ہوتا ہے جو ان احسانوں اورنعمتوں کی پہلی اوراصلی محرک ہیں‘ اوراسی لیے یہ کہنا چاہیے کہ جس طرح سارے قرآن کا نچوڑ سورئہ فاتحہ ہے ‘ سورئہ فاتحہ کا نچوڑ خدا کی حمد ہے ‘ اسی بناپر قرآن پاک کا آغاز سورئہ فاتحہ سے ‘ اورسورئہ فاتحہ کا آغاز الحمد سے ہے:’’سارے جہاں کے پروردگار کی حمد ہے‘‘۔(فاتحہ :۱)



Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2063 ( Surah Nooh Ayat 08 - 09 ) درس قرآن سُ...

پیر، 30 مئی، 2022

Shortclip - محبت کیوں ضروری ہے؟

بشارت

 

بشارت

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’جبریل علیہ السلام میر ی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے چل رہے تھے ،جب میں ایک ہموار زمین پر پہنچا تو انھوں نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا(اے اللہ کے نبی)خوشخبری سنیئے اور اپنی امت کو بھی سنایئے کہ جس شخص نے ’’لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ‘‘کا اقرار کرلیا ،وہ جنت میں داخل ہوگیا ۔تو میں خوشی سے مسکرایا اور میں نے اللہ اکبر کہا،کچھ دور آگے جاکر جبریل علیہ السلام دوبارہ میری طرف متوجہ ہوئے اورکہا ،آپ خود بھی خوشخبری سنیئے اور اپنی امت کو بھی سنائیے کہ جس شخص نے ’’لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ‘‘کا اقرار کرلیا ،وہ جنت میں داخل ہوگیا اور اللہ نے اُس پر آگ حرام فرمادی ۔تو میں پھر خوشی سے مسکرادیا اور اللہ اکبر کہا،اوراپنی امت کے لیے اس پر شاداں وفرحاں ہوگیا ‘‘۔(الطبرانی ،ابن عساکر)

’’محدثِ کبیر علامہ علی متقی بن حسام الدین ارشادفرماتے ہیں یہ حدیثِ حسن ہے ‘‘۔

٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’جس شخص نے یہ شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں ،نماز قائم کی ،رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اُس کی مغفر ت فرما دیں۔خواہ وہ شخص ہجرت کرے یا اُسی جگہ مقیم رہے جہاں اُس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ (اس پر )آپ کے ایک صحابی نے عرض کیا،یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں میں اس بشارت کا علان نہ کردوں ،آپ نے ارشادفرمایا :نہیں ! لوگوں کو عمل کرنے دو۔بیشک جنت کے سو درجے ہیں ،ہر دودرجوں کے درمیان زمین وآسمان کے فاصلے جتنی مسافت ہے۔اور سب سے اعلیٰ درجہ جنت الفردوس ہے۔اسی پر عرشِ الہٰی قائم ہے اور یہ جنت کے وسط میں ہے۔سو ! جب تم اللہ رب العزت سے کسی چیز کا سوال کروتو جنت الفردوس ہی کاسوال کرو۔‘‘(الطبرانی)

٭ حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’جس کی آرزو ہوکہ وہ جہنم سے بچ جائے اورجنت میں داخل ہوجائے تو اس کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا ہو اور وہ لوگوں سے بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لیے چاہتا ہو۔‘‘(الطبرانی)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2062 ( Surah Nooh Ayat 07 ) درس قرآن سُوۡرَةُ...

اتوار، 29 مئی، 2022

Darsulquran urdu surah Al-An'am ayat 53.کیا ہم اللہ تعالی کے شکرگزار بند...

Shortclip - غافل انسان کی منزل جہنم ہے؟

سورۃ فاتحہ کے اسمائ(۱)

 

سورۃ فاتحہ کے اسمائ(۱)

سورہ فاتحہ قرآنِ مقدس کی عظیم الشان سورت ہے ، کہا جاتا ہے کہ کلام مجید میں جو مضامین تفصیل سے بیان ہوئے ہیں وہ تمام اس مبارک سورت میں اجمالاً بیان کردیے گئے ہیں۔ اس سورت کو قرآن وحدیث میں کئی اسماء سے موسوم کیاگیا ، کسی چیز کے زیادہ اسماء اس کی عظمت وفضیلت اورعزت وشرف پر دلالت کرتے ہیں۔ اسماء کی یہ کثرت سورہ فاتحہ کے مقام ومرتبہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ 

فاتحۃ الکتاب: کلام مقدس کا آغاز اسی سورہ پاک سے ہوتا ہے ، نماز میں قرآت کی ابتداء بھی یہی سورت سے، تعلیم کی ابتداء بھی اسی سے ہوتی ہے، ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے مکمل صورت میں یہی سورت نازل ہوئی ہے،(اس سے قبل آیات نازل ہوئیں جو مختلف سورتوں کا حصہ بنیں)۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس شخص نے فاتحۃ الکتاب کو تلاوت نہیں کیا اس کی نماز (کامل)نہیں ہوئی۔ (ابن ماجہ، ترمذی، احمد)

السبع المثانی: یعنی وہ سات آیات جن کو دہرایا جاتا ہے، یہ اسم مبارک قرآن پاک میں ذکر کیاگیاہے : سورہ الحجر میں ارشادہوتا ہے : ہم نے آپ کو (وہ ) سات آیتیں دی جو دہرائی جاتی ہیں ۔(۸۷)جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں الحمد اللہ رب العالمین ’’السبع المثانی ہے اوروہ قرآن عظیم ہے جو مجھے ودیعت کیاگیا ۔(صحیح بخاری، سنن دارمی ) ’’سبع‘‘سات کو کہتے ہیں ، مثانی کی درج ذیل وجوہات ہیں ۔ (۱)اس سورت کے نصف میں اللہ رب العزت کی حمدوثناء ہے اوردوسرے حصے میں اس کی بارگاہ بے کس پناہ میں دعاء والتجاء ہے۔(۲)ہر دورکعت نماز میں اس کو دومرتبہ پڑھا جاتا ہے ۔(۳)اس سورہ مبارکہ کا نزول دوبارہوا، ایک بار مکہ مکرمہ اورایک بار مدینہ منورہ میں(۵)اس سورت کی تلاوت کے بعد نماز میں دوسری کسی سورت یا آیات کو پڑھا جاتا ہے۔

اُم القرآن : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: الحمداللہ ام القرآن ہے ، اورام الکتاب ہے اورسبع مثانی ہے۔ (دارمی)حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص ام القرآن نہ پڑھے اس کی نماز کامل نہیں ہوتی ۔(صحیح مسلم)کسی چیز کی اصل اوراس کے مقصود کو ’’ام ‘‘کہتے ہیں ، قرآن مجید کا مقصود ہدایت ، الوہیت ، نبوت، معاد (مرکر دوبارہ اٹھنا )اورقضاء قدر ہیں ۔ اوریہ تمام مضامین سورہ فاتحہ میں اجمالاً بیان کردیے گئے ہیں ۔ 


Shortclip - خاص رحمت الٰہی کیا ہے؟

Shortclip - کیا زندگی مختصر ہے؟

ہفتہ، 28 مئی، 2022

Shortclip - رب کی یاد کیا ہے؟

رفاقت اور دوستی کے معیار

 

 رفاقت اور دوستی کے معیار

عر ب کہتے ہیں المرء علی دین خلیلہٖ انسان اپنے دوست کے مسلک ومشرب پر ہوتا ہے ۔اگر انسان کو ایسی رفاقت کی تلاش ہو جو اس کیلئے دین اور دنیا دونوں میں معاونت کا سبب بنے تو اسکے معیا ر کیا ہونے چاہیے، امام غزالیؒ کہتے ہیں اپنے رفیقِ کار (پارٹنر) اور دوست کا انتخاب کرتے ہوئے اس میں پانچ خصلتیں ضرور دیکھو۔ (۱) عقل(۲)حسن خلق(۳)خیر کی صلاحیت (۴) سخاوت   (۵)سچائی۔

(۱)عقل مند شخص کو اپنا دوست بنائو کیونکہ احمق کی دوستی کا کوئی فائدہ نہیں ۔ احمق کی دوستی کا انجام تنہا ئی اور قطع تعلقی پر ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں فائدہ ہو لیکن جہالت کی وجہ سے نقصان پہنچاتا ہے ۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہے ۔ حضرت علی کر م اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔ ’’جاہل سے دوستی مت رکھواور اپنے آپ کو اس سے بچائو پس کتنے جاہل ہیں جنہوں نے حلیم شخص کو ہلاک کر دیا‘‘۔(۲)بدخواور بدخلق کی پہچان یہ کہ غصے اور شہوت کے وقت اس کا نفس اسکے قابو میں نہیں رہتا۔ حضرت علقمہ عطاروی رحمتہ اللہ علیہ نے وفات کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ بیٹا اگر کسی کے دوست بننا چاہتے ہو تو ایسے شخص کی سنگت اختیار کرو کہ اگرتم اس کی خدمت کروگے تو وہ تمھیں محفوظ رکھے اور بچائے گا،اگر اس سے مِلو، توتمھارے اخلاق سنوارے ۔تم اس سے نیکی کرو تو اسے شمار کرے اور یا درکھے اگر تم سے کو ئی فردِ گذاشت ہو جائے تو وہ تم سے در گزر کرے۔(۳) ایسے شخص کا انتخا ب کرنا چاہیے ۔جس کا رحجان طبع خیر کی طرف ہو ۔ یاد رکھو جو شخص اللہ سے نہیں ڈرتا حوادثات زمانہ بھی اسکی اصلاح نہیں کر سکتے ۔ یعنی وہ عبرت پکڑنے کی بجائے مزید فسق وفجور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گنا ہوںپر دلیر ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔’’ اس شخص کی پیروی نہ کر و جس کا دل ہم نے اپنی یا د سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہشات کا پیر وکار ہے۔‘‘(۴) حریص اور لالچی کی دوستی سے بھی اجتنا ب کر نا چاہیے ۔کیونکہ انسانی طبائع ایک دوسرے سے غیر محسوس طور پر متاثر ہوتے ہیں ۔ (۵) جھوٹا شخص سراب کی طرح ہوتا ہے جس سے دور کی چیز یں نزدیک اور نزدیک کی اشیاء دور نظر آتی ہیں۔جھوٹ کا عادی شخص تمھارے وہ خصائل بیان کرے گا جن سے تم خالی ہو اور تمھاری جن غلطیوں کی نشاندہی ضروری ہے محض تمھیں خوش کرنے کیلئے ان سے پہلو تہی کر ے گا۔ہماری روشن اور تابندہ اخلا قی قدروں نے ایک عام دوستی کے لیے کتنے معیار قائم کیے ہیں اور ہم اپنے ماحول معاشرے اور ملت کی ذمہ داریوں کے لیے بھی کسی معیا ر کے قائل نہیں رہے ۔


جمعہ، 27 مئی، 2022

Shortclip -دنیا کی حقیقت" کو کیسے یاد رکھا جائے؟"

حکمت

 

 حکمت 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابو الحسن ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا : آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اوراتنا منہمک نہ ہوں کہ گویا آپ کواس میں کچھ شک ہے) ،اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتاوہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں )اوراپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حتمی نہ سمجھیں )اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے روانہ کردیایا تقسیم کرکے برابرکر دیا یا پہن کر پرانا کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے ابوالحسن ! آپ نے سچ کہا۔(ابن عساکر)

 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوںاورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بربادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)

Darsulquran urdu surah Al'An'am ayat 43-49.کیا ہم نے اپنے رسول کی دعوت ک...

Shortclip - زندگی کا مقصد

جمعرات، 26 مئی، 2022

Shortclip - کیا انسان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

بیٹیوں کی تربیت کا صلہ

 

بیٹیوں کی تربیت کا صلہ

حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی    انگلیوں کو جمع کرکے ارشاد فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا اس طرح جنت میں داخل ہوں گے۔ ابو عمران جونی اپنے والد خلیل ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت دائود علیہ السلام کی دعائوں میں یہ پڑھا کہ انہوں نے بارگاہ الہٰ میں عرض کیا میرے مولا:جو تیرے حصول رضا کی خاطر بیوگی اوریتیمی کی زندگی بسر کرے اسکی کیا جزاہے ؟اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اسکی جزایہ ہے کہ جس دن عرش الٰہی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا اس دن میں اسے اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطاکروں گا۔ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ارشادگرامی ہے : جس مسلمان کی تین بیٹیاں ہوں وہ ان کے اخراجات کا بوجھ خوش دلی سے قبول کرے، ان کی تربیت کرے، ان کی شادی کردے تو وہ جہنم سے اس کیلئے حجاب بن جائیں گی۔ ایک عورت نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ, اگر کسی کی دوبیٹیاں ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ وہ بھی جہنم کیلئے حجاب بن جائیں گی۔
حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا کہ میں اور مشقت سے رنگ بدلے ہوئے رخساروں والی عورت اس طرح جنت میں داخل ہوں گے جس طرح دو انگلیاں اکٹھی ہوتی ہیں اور آپ ﷺ کا دونوں انگلیوں سے اشارہ اس عورت کی طرف تھا جس کا شوہر فوت ہوچکا ہو اوراس نے اپنی بیٹیوں کی تربیت کی خاطر خود کو دوسرے نکاح سے روک رکھا ہو۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بیٹیوں کو (عزت و آبرو سے )بیا ہ دے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کوئی شخص بازار سے اپنے بچوں کیلئے کوئی چیز لائے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو صدقہ کی چیز لاکر اس کاصدقہ کرے۔ جب اس چیز کو تقسیم کرنے لگے تو اسے چاہئے کہ وہ بیٹیوں سے ابتدا کرے، بے شک اللہ تعالیٰ بیٹیوں پر خصوصی مہربانی فرماتا ہے ۔ جو بیٹیوں پر مہربانی کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خوف خد اسے روتا ہے اورجو خوف خدا سے رو پڑے ۔اس کے آنسو اس کی بخشش کا سبب بن جاتے ہیں اورجو شخص بیٹیوں پر خوش ہوتا ہے اللہ جل مجدہ غم کے دن اسے خوشیوں سے مالا مال کرے گا۔  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ چھ چیزیں ایسی مہلک ہیں جن میں توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔یتیم کا مال کھانا،پاکدامن خاتون پر گناہ کی تہمت لگانا،لشکر اسلام سے فرار ہونا،جادوکرنا ، شرک کرنا، کسی نبی کو قتل کرنا۔(تنبیہ الغافلین :  فقہیہ ابو اللیث سمرقندی)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2058 ( Surah Nooh Ayat 02 ) درس قرآن سُوۡرَةُ...

Darsulquran urdu surah Al-An'am ayat 39-42.ہمیں کیا اللہ تعالی زبردستی م...

بدھ، 25 مئی، 2022

Shortclip-ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کیسے کرسکتے ہیں

یتیموں کی کفالت اور تربیت

 

یتیموں کی کفالت اور تربیت

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ درج ذیل آیت کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ عنقریب وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ ’’بے شک وہ لوگ جو کھاتے ہیں یتیموں کے مال ظلم سے وہ تو بس کھا رہے ہیں اپنے پیٹوں میں آگ اوروہ عنقریب جھونکے جائیiگے بھڑکتی آگ میں ‘‘۔کہاجاتا ہے کہ آفرین ہے اس گھر پر جس میں یتیم پلتا ہو، یتیم کی حق رسی ہوتی ہواسے شفقت وپیار ملتا ہو اورہلاکت ہے اس گھر کیلئے جس گھر میں یتیم کی دادرسی اوراسکے حق کی پہچان نہیں ہوتی۔  مروی ہے کہ بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں ایک شخص حاضر خدمت ہواعرض کی یا نبی اللہ ﷺ!میں ایک یتیم کی پرورش کرتا ہوں کس حدتک اسکی سرزنش کرسکتا ہوں؟حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ جس حدتک اپنی اولاد کی سرزنش کرتے ہویعنی اسے ادب سکھانے کیلئے سرزنش کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی طرح جس طرح ایک والد اپنی اولادکے ساتھ کرتا ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض ؒفرمایا کرتے تھے کہ بسااوقات یتیم (کی تربیت)کیلئے ایک طمانچہ اس کو حلوہ کھلانے سے زیادہ فائدہ مندہوتا ہے۔ حضرت فقیہ ؒ  فرماتے ہیں کہ اگر پٹائی کئے بغیر تعلیم وادب سکھایا جاسکتا ہے تو پھر یہی مناسب ہے کہ کسی قسم کی سرزنش نہ کرے۔یتیم کو بلاوجہ مارنا عتاب الٰہی کا سبب ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :جب کوئی یتیم کو مارتا ہے تو اس کے رونے سے عرش الہٰی ہل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے اے میرے فرشتوں !اس بچے کو کس نے رلایا ہے جس کے باپ کو سپرد خاک کردیا گیا ہے حالانکہ اللہ جل مجدہ خوب جانتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں یا رب العالمین ! ہم نہیں جانتے ،اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناکر کہتا ہوں کہ جو یتیم کو میرے لئے راضی رکھے گا میں روز قیامت اپنی طرف سے اسے خوشیوں سے مالا مال کردوں گا۔ حضور اکرم ﷺ یتیموں کے سروں پر خصوصی طور پر دست شفقت رکھتے اوران کے ساتھ نرمی برتا کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی حضور نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن ابزیٰ  ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائودعلیہ السلام سے فرمایا : اے میرے نبی دائود !یتیم کیلئے مہربان باپ کی طرح بن جائو،اور خوب جان لو جو بوئوں گے وہی کاٹو گے اوریہ بھی یادرکھونیک اوروفاشعار بیوی شوہر کیلئے اس بادشاہ کی طرح ہے جو سونے کا تاج سجائے خوش باش ہو جب بھی اسے دیکھے اس کی آنکھوں کو تسکین مل جائے اوربری عورت شوہر کیلئے بوڑھے شخص پر ثقیل بوجھ کی طرح ہے۔ (تنبیہ الغافلین :  فقہیہ ابو اللیث سمرقندی)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2057 ( Surah Nooh Ayat 01 Part-2 ) درس قرآن ...

Darsulquran urdu surah Al-An'aam ayat 38.کیا ہم ہدایت خداوندی کے محتاج ن...

منگل، 24 مئی، 2022

Shortclip - انسان اپنی معراج کیسے حاصل کرسکتا ہے؟

یتیم سے شفقت

 

یتیم سے شفقت

حضرت ابوالورقا ء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی یتیم کے سرپر شفقت و پیارسے ہاتھ پھیر االلہ تعالیٰ اس شخص کیلئے ہاتھ کے نیچے آنے والے ہر بال کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتا ہے ،ہر بال کے بدلے ایک گناہ مٹادیتا ہے اورہر بال کے بدلے ایک درجہ بلند فرمادیتا ہے۔ ‘‘

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے یتیم مسلمان بچوں میں سے کسی یتیم کو اپنے ساتھ کھانے ،پینے میں شریک کئے رکھا حتیٰ کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کیلئے جنت کو واجب کردیتا ہے ہاں البتہ کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھے جس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں بخشش نہیں اور جس کی بینائی اللہ تعالیٰ سلب کرلے اوروہ حصول ثواب کیلئے صبر کرے تو ایسے شخص کیلئے بھی اللہ تعالیٰ جنت کو واجب کردیتا ہے مگر ایسے عمل سے گریزاں رہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل بخشش نہیں ۔ اور جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں وہ انہیں ادب سکھائے ،تعلیم وتربیت کرے اوران کے اخراجات کا بوجھ خوشدلی سے اٹھائے حتیٰ کہ انہیں بیاہ دے تواللہ تعالیٰ ایسے شخص کیلئے بھی جنت کو واجب کردیتا ہے مگر اس سے کوئی ایسی بدعملی نہ ہوجائے جس پر وہ عنداللہ بخشش کا حقدار نہ ٹھہرسکے، ایک بدوی نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !دو ہوں تو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا دوبیٹیوں کی بھی احسن انداز میں تربیت کرکے ان کی شادی کردے تو تب بھی وہ جنتی ہے۔ 

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم میں بڑا سنگدل ہوں اوراپنی قساوت قلبی پر پریشان ہوں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’اگر تو نرم دل ہونا پسند کرتا ہے تو یتیم کے سرپر شفقت ومحبت کا ہاتھ پھیراور اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہ کون سے ہیں ؟آپ نے ارشادفرمایا کہ کبیرہ گناہ ۹ ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرنا،جان بوجھ کر مومن کو قتل کرنا ،لشکر اسلام میں شامل ہونے سے بھاگنا ،پاکدامن پر گناہ کی تہمت لگانا،یتیموں کا مال ہڑپ کرجانا،سود خورہونا،والدین کی نافرمانی کرنا،جادوکرنا،حرام کو حلال سمجھنا۔(تنبیہ الغافلین :  فقہیہ ابو اللیث سمرقندی)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2056 ( Surah Nooh Ayat 01 Part-1 ) درس قرآن ...

Darsulquran Al-An'am ayat 35-37 . کیا اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے والوں...

پیر، 23 مئی، 2022

Shortclip کیا رضائے الٰہی ضروری ہے؟

عبادت، اعترافِ عجز

 

عبادت، اعترافِ عجز 

کتاب اللہ میں لفظ عبادت ’’تکبر‘‘کے متضاد کے طور پر استعمال ہواہے۔ ٭(ملائکہ ) جو اسکے پاس ہیں ، وہ اُ سکی عبادت سے غرور نہیں کرتے ۔(الا نبیائ۔۲۰)

٭میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیات سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں،اور اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے ۔(السجدہ)٭غرور ،تکبر اور استکبار کے معنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ،احساس ذات ، خدا کے سامنے سرکشی ، اوراسکی بارگاہِ جلالت میں گردن جھکانے سے عاروانکار کے ہیں۔تو اس کے مقابلے میں عبادت اللہ کے سامنے سرجھکانے اور عاجزی اور بندگی کا اعتراف کرنے اور اسکے احکام کے سامنے اظہار اطاعت کے ہیں ۔ اسی طرح کسی شخص سے بظاہر اچھے کام کا صدور تو لیکن اس اچھے کام سے اس مقصد اظہارِ عبودیت یا اطاعتِ خداوندی نہ ہو تو وہ کام عبادت میں شمار نہیں ہوگا۔ کسی بھی اچھے کام کو عبادت میں شمار ہونے کیلئے اس کی نیت کا خالص اور پاک ہونا بے حد ضروری ہے اور یہی وہ نشانِ امتیاز ہے جو عبادت اور غیر عبادت کے درمیان فرق کرتا ہے۔ ارشاد اتِ خداوندی ملاحظہ فرمائیے۔ ٭(اللہ کے مخلص بندے کہتے ہیں)ہم تو صرف اللہ کیلئے  تم کو (کھانا)کھلاتے ہیں۔  (الانسان۱۰) ٭اس پرہیز گار کو دوزخ سے بچا لیاجائے گا جو اپنا مال دل کی پاکیزگی کیلئے  دیتا ہے۔  اس پر کسی کا احسان باقی نہیں،جس کا بدلہ اس کو دینا ہو،بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات اس کا مقصود ہے۔وہ عنقریب خوش ہوجائے گا۔ (اللیل ۔۱۰)٭اور (اے اہل ایمان) تم صرف اللہ (رب العزت کی ذات)کی طلب کیلئے خرچ کرتے ہو۔(البقرہ ۔۳۷)٭پس خرابی ہے ایسے نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز (کی ادائیگی )سے غافل ہیں،وہ جو ریا کاری کرتے ہیں،اور (مانگے بھی)نہیں دیتے روز مرّہ استعمال کی چیزیں۔(الماعون )

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کا جو مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا اس میں پہلی چیز دل کی نیت اور اخلاص ہے۔اس میں کسی خاص کام اور طرزوطریقہ کی تخصیص نہیں ہے، بلکہ انسان کا ہر وہ جائز کام جس سے مقصود خدا کی خوشنودی اور اس کے احکام کی اطاعت ہے۔ وہ ’’عبادت‘‘ہے۔ اگر تم اپنی شہرت کیلئے کسی کو لاکھوں دے ڈالو،تو وہ عبادت نہیں لیکن خدا کی رضا جو ئی اور اس کے حکم کی بجا آوری کیلئے چند کوڑیا ں بھی کسی کو دو تو یہ بڑی عبادت ہے۔ تعلیم محمد ی کی اس نکتہ رسی نے عبادت کو درحقیقت دل کی پاکیزگی ،روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کی غرض وغایت بنادیا ہے اور یہی عبادت سے اسلام کا اصلی مقصود ہے۔‘‘(سیرت النبی )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2055 ( Surah Al-Maarij Ayat 39 - 44 Part-2 )...

اتوار، 22 مئی، 2022

Darsulquran urdu surah Al-An'am ayat 33-34. کیا ہم لوگ اللہ تعالی کے احک...

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2054 ( Surah Al-Maarij Ayat 39 Part-1 ) درس ...

Shortclip - رضاالٰہی کی اہمیت

عبادت

 

عبادت

قرآن مقدس کی رو سے انسان کی تخلیق بے مقصد نہیں ہے بلکہ اسکی زندگی کا ایک واضع اور غیر مبہم مقصد ہے،اور وہ ہے ’’عبادت‘‘۔لفظ ’’عبادت‘‘سے ذہن فوراً کچھ ایسے معمولات کی طرف جاتا ہے ۔ جو عام طور پر عبادت کے حوالے سے ’’متعارف‘‘ہیں ۔ان معمولات کے عبادت میں ہوتے ہیں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں تصور عبادت ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔لغتِ عرب میں انتہائی انکساری اور عاجزی کو ’’عبادت‘‘کہاجاتا ہے۔ امام راغب اضفہانی کہتے ہیں عبادت کا معنی ہے غایۃُ التذلل یعنی انتہاء درجہ کی انکساری ،صاحب لسان العرب ابن منظور لکھتے ہیں :معنی العباد ۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع ۔ عبادت کے معنی ایسی اطاعت کے ہیں جس میں خضوع پایا جائے۔ گو یا کہ لفظ’’ عبادت‘‘ اپنی ذیل میں انتہائی عاجزی ،انکساری اور اظہار فروتنی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مقدس میں عبادت کا متضاد لفظ ’’تکبر‘‘استعمال ہواہے۔ ٭جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ سب جہنم میں داخل ہونگے۔ (المومن 60)٭اور جسے اللہ کی عبادت سے عار ہو اور وہ تکبر کرے تو اللہ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کرے گا۔ (النساء 172)

عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت والفت کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ یعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے ،جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت الفت میں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں : عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں ۔

 کہتے ہیں ’’طریق معبد ‘‘یعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔’’ بعیر معبد ‘‘وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع وفرمابردار بن گیا ہو۔ شریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے ۔ جس میں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔‘‘(تفسیر ابن کثیر )علامہ ابن قیم لکھتے ہیں ۔’’عباد ت کے دوجز ہیں ۔انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ ‘‘۔

گویا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی یاانکساری کا نام نہیں بلکہ دل کے میلان کا نام ہے،جو پورے شعور سے ایک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے ، اس کے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اسکے جلال کی ہیت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اسکے سامنے سر تسلیم خم کردے، اور یہ جذبہء تسلیم ورضا ء چند معمولات ورسومات تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محیط ہے۔ ہروہ عمل جو اللہ کے عطاء فرمودہ ضابطے کے مطابق ہو اور جس کا منشاء ومقصود رضا ئے الٰہی ہو ’’عبادت‘‘ ہے۔ 

Shortclip - زندگی کیا اور کیوں؟

ہفتہ، 21 مئی، 2022

Darsulquran surah Al-An'am ayat 30-32 Part-03.کیا ہم اللہ تعالی کی ملاقا...

Shortclip - کیا روحانی نعمتیں باطنی نعمتوں سے زیادہ ہیں؟

انبیائے کرام کی دعوت توحید

 

انبیائے کرام کی دعوت توحید

کائنات کی ابتداء کب ہوئی، اس کا پیدا کرنے والا کون ہے؟اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اس کا انتظام وانصرام کس طرح ترتیب پانا ہے۔اسے کب تک برقرار رہنا ہے؟مدت وحیات کس کے اختیار میں ہے؟ انسان کیا ہے؟اس عظیم تراوروسیع تر کائنات میں اس کی حیثیت کیاہے؟ایسے بے شمار سوالات انسان کو اپنی گرفت میں لیے رہتے ہیں۔کچھ سوالات انسانوں نے مادیت کا سہارا لے کران سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کچھ لوگوں نے اپنے خود ساختہ مجاہدات وریاضات سے نروان کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی،جبکہ کائنات کے خالق اور مالک نے اس سوالوں کا جواب دینے کیلئے اپنی رحمت سے انبیاء ورسل کا سلسلہ جاری کیا۔انبیاء کرام علہیم السلام نے انسان کا یقین دلایا کہ ٭یہ ساری کائنات اللہ نے پیدا فرمائی ہے کہ وہی خالق ہے۔٭اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے کائنات کو کب پیدا فرمایا کہ سلسلہء تخلیق کی ابتداء انسانی مہم کے احاطے میں نہیں آتی، مخلوق کی تخلیق اس کی خالقیت کا اظہار ہے اور جو کچھ موجود ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے۔ اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔٭نظم کائنات اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب تک چاہے گا اسے برقرار رکھے گا۔ ٭انسان خود اسی کی تخلیق ہے۔ یہ شہکار وجور ہے، اس کو پروردگار نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔آنکھ ،کان ،ناک ،دل ودماغ اس کی عطا کا اظہار ہیں کہ ان سے وہ دیکھتے ،سنتے ،سونگھتے محسوس کرنے اور سوچنے کا کام لیتا ہے۔ رب کائنات نے ہی وجود عطاء کیا اور اسی نے اس کو قائم رہنے کی صلاحیت اور سہولت بخشی ،نعمتوں سے فائدہ اٹھا نے کا شعور دیا، تلاش ومحنت سے ایجادات وانکشافات کی صلاحیت دی اور یہ کہ دیگر تمام مخلوق پر فضیلت دی عقل وشعور سے مخفی خزانوں کی دریافت کا حوصلہ دیا اور زندگی کو پر بہار وباوقاربنانے کی ہمت دی۔ ٭انسان صرف جسم کانام نہیں بلکہ جسم کی رونق اسکی قوت سے ہے،جسے روح کہا جاتا ہے ،جسم کی حفاظت وقوت اور برداشت سے زیادہ ضروری روح کا استحکام وجلا ہے۔ احکام خالق کو تسلیم کرنے سے دنیا بھی پر بہار رہتی ہے اور بعد کی یعنی آخرت کی زندگی بھی کامیاب ہوتی ہے۔ (عقائد ارکان) ہدایت ورہنمائی کا یہ سلسلہ انسان اوّل یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوگا، اور اللہ کی رحمت کا ملہ نے ہر قوم اور ہر عہد میں رسول مبعوث کیے۔ حتیٰ کہ انسانیت اس قابل ہوگئی کہ اب اسے دائمی صحیفہ ہدایت اور عظیم تر داعی تھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے نوازا جائے۔ الہامی رہنمائی کی تکمیل ہوئی اور تمام انسانوں کو اسی ہادی اور ہدایت کا پابندکردیا گیا۔ 

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2053 ( Surah Al-Maarij Ayat 35 - 38 ) درس قر...

جمعہ، 20 مئی، 2022

Shortclip - اللہ تعالیٰ کی پہچان کیوں ضروری ہے؟

Shortclip - باطنی نعمتوں کی تفصیل

دین آسان ہے!

 

دین آسان ہے!

 اسلام سلامتی اور خیر خواہی کا دین ہے ،اسلام دین فطرت ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جس طبیعت پر پیدا کیا ہے اُس کا اصل تقاضا دینِ اسلام ہی ہے۔اسلام ہی انسان کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کا کفیل ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے مبلغین اور معلمین کوہمیشہ یہ تاکید فرمائی کہ وہ دین کو پیچیدہ اور دشوار بنا کر پیش نہ کریں۔

 ٭ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرو،ان پر سختی نہ کرو ، لوگوں کو خوش خبری سناؤ اور (انہیں دین سے) متنفر نہ کرو۔ (بخاری)

٭  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فرمایا: اس کو چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دو کیونکہ تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تمہیں تنگی پیدا کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ (بخاری )

٭  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین کے کاموں میں شدت اختیار کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا، لہٰذا تم درست کام کرو اور دین کے قریب رہو اور ثواب کی خوش خبری دو اور صبح و شام اور رات کے کچھ حصہ میں عبادت سے مدد حاصل کرو۔(بخاری)

٭  حضرت عائشہ رضی اللہ عنھابیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آ پ ا ن میں سے زیادہ آسان چیز کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتا اور اگر گناہ ہوتاتوآپ سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے اپنی ذات کے لئے انتقام نہیں لیا لیکن جب کوئی اللہ تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی کرتا تو آپ اس سے اللہ تعالیٰ کے لئے انتقام لیتے۔ (بخاری )

٭  ایک دفعہ نجران کے چودہ عیسائی حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے مدینہ منورہ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایااور انہیں اپنے عیسائی طریقہ کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی۔ چنانچہ عیسائی حضرات نے مسجد نبوی کے ایک کونے میں مشرق کی طرف رخ کر کے اپنی عبادت کی۔(تفسیر قرطبی )


Darsulquran urdu surah Al-An'am ayat 30 part-01.کیا ہمیں اللہ تعالی سے م...

جمعرات، 19 مئی، 2022

Shortclip - دنیا کی حقیقت

حکمت

 

حکمت

 حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابو الحسن ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا : آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اوراتنا منہمک نہ ہوں کہ گویا آپ کواس میں کچھ شک ہے) ،اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتاوہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں )اوراپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حتمی نہ سمجھیں )اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے روانہ کردیایا تقسیم کرکے برابرکر دیا یا پہن کر پرانا کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے ابوالحسن ! آپ نے سچ کہا۔(ابن عساکر)

 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوںاورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بربادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)

بدھ، 18 مئی، 2022

Shortclip - کیا ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں؟

برکاتِ ایمان

 

برکاتِ ایمان

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ قیامت کے دن میری امت کے ایک فرد کو تمام مخلوق کے سامنے بلایا جائے گا۔ پھر اس کے اعمال ناموں کے ننانوے دفتر اس کے سامنے کھولے جائیں گے۔ ہر دفتر انتہائے نظر تک پھیلا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص سے استفسار فرمائیں گے۔ کیا تو ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے۔ وہ عرض کرے گا، اے میرے رب نہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے پھر فرمائیں گے۔ شاید اعمال نامہ لکھنے والے فرشتوں نے کچھ ظلم کردیا ہو،وہ عرض کر ے گا: اے میر ے پاک پروردگار ایسا بھی نہیں ہوا ۔ اللہ رب العزت فرمائیں گے کیا تیر ے پاس (ان نامہ ہائے اعمال میں موجود لغزشوں کا )کوئی عذر موجود ہے۔ وہ آدمی خوف زدہ ہوکر عرض کر ے گا، اے میر ے مالک میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائیں گے ،لیکن ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے اور آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا،پھر کاغذ کا ایک پرزہ نکالا جائے گا۔ جس پر اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد ا عبد ہ ٗ ورسولہ ٗ درج ہوگا۔ اللہ رب العزت ارشاد فرمائیں گے(یہ تیری اخلاص سے پڑھی ہوئی شہادت ہے)۔ جا اور اس کا وزن بھی کروالے۔ بندہ عرض کرے گا۔ پروردگار اتنے عظیم دفتر وں کے مقابلے میں یہ اتنا سا پرزہ کیا کرے گا۔ کہا جائے گا، آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ اور پھر تما م دفتروں کو ایک پلڑے میں اور اس کاغذ کے پرزے کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔پھر کاغذ کا وہ پرزہ اس قدر وزنی ہوجائے گاکہ اس کا پلڑا جھک جائے گا۔دوسرے دفتروں والا پلڑا بلند ہوجائے گا۔ (بخاری ، احمد ، مستدرک)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )اسلام کے دس حصے ہیں ،اور خائب وخاسر ہو، وہ شخص جس کے پاس کوئی حصہ نہیں۔ پہلا :۔ لاالہ الا اللہ کی شہادت ہے۔ دوسرا :۔ نماز اور وہ پاکیزگی ہے۔ تیسرا:۔ زکوٰۃ ہے اور وہ فطرت ہے۔ چوتھا:۔ روزہ ہے اور وہ جہنم سے ڈھال ہے۔ پانچواں :۔ حج ہے ، اوروہ شریعت ہے ۔ چھٹا :۔ جہاد ہے اور وہ غزوہ (اظہار دین ) ہے ۔ ساتواں :۔ امربالمعروف (نیکی کی تلقین ) ہے اوروہ وفاداری ہے۔ آٹھواں :۔نہی عن المنکر (برائی سے منع کرنا )اور وہ حجّت ہے۔ نواں:۔ جماعت ہے اور وہ الفت ہے۔دسواں :۔ اطاعت ہے اور وہ حفاظت ہے۔(ابونعیم)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2050 ( Surah Al-Maarij Ayat 22 - 25 ) درس قر...

منگل، 17 مئی، 2022

Shortclip - ہم راہ راست پر کیسے آسکتے ہیں؟

عبادت

 

عبادت

 قرآن مقدس کی رو سے انسان کی تخلیق بے مقصد نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی کا ایک واضع اور غیر مبہم مقصد ہے،اور وہ ہے ’’عبادت‘‘۔لفظ ’’عبادت‘‘سے ذہن فوراً کچھ ایسے معمولات کی طرف جاتا ہے ۔ جو عام طور پر عبادت کے حوالے سے ’’متعارف‘‘ہیں ۔ان معمولات کے عبادت میں ہوتے ہیں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں تصور عبادت ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔

  لغتِ عرب میں انتہائی انکساری اور عاجزی کو ’’عبادت‘‘کہاجاتا ہے۔ امام راغب اضفہانی کہتے ہیں عبادت کا معنی ہے غایۃُ التذلل یعنی انتہاء درجہ کی انکساری ،صاحب لسان العرب ابن منظور لکھتے ہیں :معنی العباد ۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع ۔عبادت کے معنی ایسی اطاعت کے ہیں جس میں خضوع پایا جائے۔ 

 عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت والفت کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ یعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے ،جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت الفت میں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں : عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں ۔ کہتے ہیں ’’طریق معبد ‘‘یعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔’’ بعیر معبد ‘‘وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع وفرمابردار بن گیا ہو۔ شریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے ۔ جس میں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔‘‘(تفسیر ابن کثیر )علامہ ابن قیم لکھتے ہیں ۔’’عباد ت کے دوجز ہیں ۔انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ ‘‘۔

 گویا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی یاانکساری کا نام نہیں بلکہ دل کے میلان کا نام ہے،جو پورے شعور سے ایک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے ، اس کے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اس کے جلال کی ہیت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردے، اور یہ جذبہء تسلیم ورضا ء چند معمولات ورسومات تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محیط ہے۔ ہروہ عمل جو اللہ کے عطاء فرمودہ ضابطے کے مطابق ہو اور جس کا منشاء ومقصود رضا ئے الہٰی ہو ’’عبادت‘‘ ہے۔ 

ہر جا کہ می رود منِ بے چارہ می روم

باشد عنانِ ما بکفِ اختیارِ دوست

Shortclip - عرفانِ ذات کیوں ضروری ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2049 ( Surah Al-Maarij Ayat 19 - 21 ) درس قر...

پیر، 16 مئی، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2048 ( Surah Al-Maarij Ayat 17 - 18 ) درس قر...

Darsulquran urdu surah Al-An'am ayat 25-28.کیا ہم سب حق کو قبول کرنے سے ...

Shortclip - کیا ہم سب سیدھے راستے پر ہیں؟

ایمان اور اجر

 

ایمان اور اجر

٭حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ اخلاص کا کیا مطلب ہے؟ارشادہوا وہ کلمہ تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے روک دے۔‘‘(الطبرانی)٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا: ’’لاالہ الااللہ ہمیشہ اپنے کہنے والے کو نفع دیتا رہتا ہے۔جب تک کہ اس کی اہانت نہ کی جائے اور اس کے حق کی اہانت یہ ہے کہ گناہوں کا دوردورہ ہوجائے ،لیکن ان کو روکنے اوربند کروانے والا کوئی نہ ہو۔ ‘‘(الحاکم)

٭حضرت شدّادبن اوس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لاالہ الااللہ نصف میزان ہے اورالحمد اللہ اس کو بڑھا دیتا ہے‘‘۔(کنزالعمال)

٭حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’لاالہ الااللہ اپنے کہنے والے سے مصیبت کے ننانوے دروازے بندکردیتا ہے،جن میں سے سب سے کم رنج والم ہے ۔‘‘(الدیلمی)

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں ، حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ’’قیامت کے دن اللہ رب العزت ارشادفرمائیں گے  لاالہ الااللہ کہنے والوں کو میرے عرش کے قریب کردو، کیونکہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ (الدیلمی)

٭حضرت ابوزر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’یقینا وہ شخص فلاح وکامرانی سے ہمکنار ہوگیا ،جس کا دل ایمان میں مخلص ہوگیا،اور اس نے اپنے دل کو سلیم الطبع کرلیا ،اپنی زبان کو سچ کا عادی بنادیا،اپنے نفس کو مطمئن کرلیا،اپنی روشِ حیات کو درست کرلیا، اپنے کانوں کو حق سننے کا عادی بنادیا ،اور اپنی آنکھوں کو عبرت حاصل کرنے والا بنادیا۔‘‘(مسند امام احمد بن حنبل ) 

٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ تبارک وتعالیٰ کسی مومن کی نیکی کم نہیں فرماتا،بلکہ دنیا میں بھی اس کا بدلہ عطاکرتا ہے اور آخرت میں بھی اس پر ثواب مرحمت فرماتا ہے لیکن کافر کی بھلائیوں کا بدلہ دنیا ہی میں نمٹا دیا جاتا ہے ۔اور جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اسکے پاس ایسی کوئی نیکی نہیں ہوتی ،جس کا وہ اچھا اجر پائے۔‘‘(صحیح مسلم،مسند امام احمد بن حنبل )

Darsulquran urdu surah Al-An'am ayat 22-24 .کیا ہم سب جھوٹ بول رہے ہیں

Shortclip-ہمیں اپنے رب کی پہچان کیسے ہوگی؟

اتوار، 15 مئی، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2047 ( Surah Al-Maarij Ayat 11 - 16 ) درس قر...

Shortclip - ہماری آخرت کیسی ہوگی؟

ایمان کا ثمرہ

 

ایمان کا ثمرہ

غزوہ تبوک سے واپسی کے ایّا م میں لشکر اسلام میں خوراک کا سامان ختم ہوگیااور لوگوں کو بھوک ستانے لگی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں ایک تجویز پیش کی گئی کہ اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو ہم پانی لانے والے اونٹوں کو ذبح کرلیں۔ ان سے خوراک کا سامان بھی بہم پہنچا ئیں اور روغن بھی حاصل کر یں۔ (اسباب ظاہر کے اعتبار سے اس وقت یہی ممکنہ حل تھا۔لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو قبول فرمایا اور اس تجویز پر صاد کیا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس مشاورت کی خبر ہوئی۔ وہ جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور( بصدادب) گزارش کی،یا رسول اللہ ! اگر ایسا کیا گیا (یعنی اونٹ ذبح کر دیے گئے ) تو سواریاں کم ہوجائیں گی اور اس طویل اور دشوار گزار سفر میں ہمیں بڑی دقّت ودشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ( تو پھر اس کا حل آپ کے خیال میں کیا ہے) انھوں نے اس موقع پر ایک ایسی تجویز پیش کی جس کا تعلق اسبا بِ ظاہر ی کے ساتھ بالکل نہیں تھا بلکہ ایک صاحبِ الہام ’’محدَّ ث ‘‘ کی باطنی بصیرت سے تھا۔ انھوں نے عرض کیا ۔ آپ لوگوں کو ان کے بچے کچھے سامانِ خوراک کے ساتھ بلا لیجئے ۔وہ اسے ایک جگہ جمع کردیں۔ آپ اللہ رب العزت سے اس سامان میں برکت کی دعا فرمائیے ۔اللہ کریم کے بے پایاں کرم سے امیدِ واثق ہے کہ وہ ضرور مہربانی فرمائے گا (اور اپنے حبیب کے دستِ دعا کو سرفراز فرمائے گا)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ٹھیک ہے۔ چنانچہ آپ نے چمڑے کا بڑا دستر خوان طلب فرمایا ، اسے بچھا دیا گیا ۔ پھر آپ نے لوگوں کا بچا کچھا سامانِ خوردنوش طلب فرمایا ،یہ سن کر کوئی آدمی ایک مٹھی بھر چنے لئے آرہا ہے ، کوئی مٹھی بھر کجھوریں،تو کوئی روٹی کا ایک ٹکڑاہی لئے چلا آرہا ہے۔ حتیٰ کہ دستراخوان پر تھوڑی سی مقدار میں یہ چیزیں جمع ہوگئیں ۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی ۔ا سکے بعد فرمایا: اب تم سب اپنے اپنے برتنوں کو بھر لو چنا نچہ سب نے اپنے اپنے برتنوں کو بھرنا شروع کردیا ۔حتیٰ کہ قریباً ۳ ہزار کے اس لشکر میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہا ،جس کے تمام برتن خوراک سے لبریز نہ ہوگئے۔ راوی (حضرت ابوہریرہ ،حضرت ابو سعید خدری)کہتے ہیں کہ سب نے خوب سیر ہوکر کھایا اور پھر بھی بہت سی خوراک فاضل بچ گئی ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اور کوئی بندہ ایسا نہیں جو کامل یقین سے ان دوشہادتوں کے ساتھ اللہ کے سامنے جائے،اور پھر وہ جنت میں جانے سے روک دیا جائے(یعنی اسے ضرور داخلِ جنت کیا جائے گا)۔(مسلم شریف)

ہفتہ، 14 مئی، 2022

Shortclip - دنیا میں آزمائش کیوں؟

ایمان اور اعمالِ صالحہ (۲)

 

ایمان اور اعمالِ صالحہ (۲)

٭اور جو ایمان والے ہیں وہ اللہ( رب العز ت) سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں ۔(البقرہ : 165)٭ حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یقینا ایمان اس شخص کے دل میں ٹھہرتا ہے جو اللہ سے محبت رکھتا ہو۔(الدیلمی ، ابن نجار )٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے لیے محبت کرنے والا نہ بن جائے۔ (مسند امام احمد بن حنبل )٭حضرت ایاس بن سہل الجہنی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایمان کا افضل درجہ یہ ہے کہ تم اللہ ہی کے لیے محبت کرو اور اللہ ہی کے لیے نفر ت کرو اور اپنی زبان کو ہمیشہ اللہ رب العزت کے ذکر سے تر رکھو۔ (کنز العمال )
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور انو رصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی اولاد اس کے ماں باپ اور تمام انسانوں سے زیادہ محبو ب نہ ہوجائوں ۔(بخاری)٭حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی ہوائے نفس میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع نہ ہوجائے۔ (شرح السنۃ)٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے اعلی ایمان یہ ہے کہ انسانیت تجھ سے مامون ہوجائے۔ سب سے اعلیٰ اسلام یہ ہے کہ انسانیت تیرے ہاتھ سے اور تیری زبان سے محفوظ ہوجائے اور سب سے اعلیٰ ہجرت یہ ہے کہ تم برائیوں کو چھوڑدو، اور سب سے اعلیٰ جہاد یہ ہے کہ تم شہید ہو جائو، اور تمہارا گھوڑا زخمی ہوجائے۔ (طبرانی)٭حضرت  عمر بن عبسہ روایت کرتے ہیں۔ حضور انو ر ﷺ نے ارشاد  فرمایا : افضل ایمان اچھا اخلاق ہے۔ (طبرانی) ٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم ﷺنے فرمایا : افضل اسلام والا وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ،اور سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، سب سے اچھی نماز وہ ہے جس میں قیام طویل ہو۔ اور سب سے افضل صدقہ اس شخص کا ہے جو خود تنگ دست ہو۔(کنزالعمال ) ٭حضرت عبادہ ابن صامت روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :سب سے افضل ایمان یہ ہے کہ تمہیں یقین ہوجائے کہ تم جہاں بھی ہوا للہ تمہارے ساتھ ہے۔(ابو نعیم ، طبرانی)

Darsulquran urdu surah Al-An'am ayat 20-21.کیا ہم سب ظالم ہیں

جمعہ، 13 مئی، 2022

Shortclip - دنیا کی حیقیقت

ایمان اور اعمالِ صالحہ

 

ایمان اور اعمالِ صالحہ 

٭حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں ۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان اور عمل دو بھائی دونوں ایک چیزیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ کسی ایک کو دوسرے کے بغیر قبول نہیں فرمائے گا۔ (کنزالعمال )٭حضرت اسید بن عبد اللہ روایت فرماتے ہیں ۔حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ تم میں سے کوئی اس وقت اسکے شر سے محفوظ نہ ہوجائے۔ (ابن عساکر)
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور انور ﷺنے ارشاد فرمایا : بندہ اس وقت تک مشرف با یمان نہیں ہوسکتا ۔ جب تک کہ اس کی زبان اور دل یکساں نہ ہوجائیں،اور جب تک اس کا پڑوسی اس کی تکلیف سے محفوظ نہ ہوجائے اور نہ اس کا عمل اسکے قول کی مخالفت کرئے۔ (ابن نجار) ٭حضرت عمر بن حمق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بندہ حقیقت ایمان تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کی محبت اور نفرت اللہ ہی کیلئے نہ ہوجائے ۔پس جب وہ اللہ ہی کیلئے محبت اور نفرت کا خوگر ہوجائے تو وہ اللہ رب لعز ت کی طرف سے ولایت کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اور میر ے بندوں میں سے میرے اولیاء اورمیری مخلوق میں سے میرے محبوب بندے وہ ہیں جو میرا ذکر کرتے ہیں اور میں ان کا ذکر کرتا ہوں۔ (مسند امام احمد بن حنبل ،طبرانی)

 ٭حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ حضور نبی ﷺنے ارشادفرمایا: جس نے تین خصلتوں کو جمع کرلیا بلاشبہ اس نے ایمان کی خصلتوں کو (اپنے وجود میں ) جمع کرلیا۔ 1:۔تنک دستی میں خرچ کرنا ، 2:۔ اپنے آپ سے (بھی) انصاف کرنا اور عالم کو سلام کرنا ۔(طبرانی ، بزار ،ابو نعیم )

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان صبر اور فیاضی کا نام ہے۔ (مسند ابو یعلی ،طبرانی)

٭محمد ابن نصرالحارثی رحمتہ اللہ علیہ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایمان حرام اشیاء (سے اجتناب )اور نفسانی خواہشات سے عفت وپاک دامنی کا نام ہے۔(ابو نعیم )

٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان دونصف حصوں کا نام ہے۔ نصف صبر میں ہے اور نصف شکر میں ۔ (شعب الایمان ۔امام بہیقی )

Darsulquran urdu surah Al-An'aam ayat-19.کیا ہم نے اللہ تعالی کے سوا اور...

جمعرات، 12 مئی، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2044 ( Surah Al-Maarij Ayat 01 - 04 ) درس قر...

Shortclip - ہمارا شیطان سے کیا واسطہ ہے؟

اَلْصَّلَوۃُ

 



اَلْصَّلَوۃُ

 ’’عبادت ‘‘کی تشریح سے ہم پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی کہ یہ اللہ کے سامنے اعتراف عجز ہے۔ اپنی ذات کی خیالات کی، رائے کی نفی ہے۔جب انسان اپنے خالق کا حکم مان لیتا ہے اور اس کی مرضی اختیار کرلیتا ہے ،اور اس کے بتائے ہوئے طرززندگی کو اپنا لیتا ہے تو وہ عبادت کی شاہراہ پر گامزن ہوجاتاہے۔ 

 اس خالق کی حکمت نے اپنے محمود اعمال میں درجہ بندی فرمائی،کچھ اعمال ایسے ہیں جو مسلمانی کا خاص شعار قرارپائے، انکے بغیر ایمان اور اسلام کا تعارف ہی دشوار ہے۔ان میں اہم ترین ،نمایاں ترین اور سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی عمل ’’الصلوۃ ‘‘یعنی نماز ہے۔ 

 ’’صلوٰۃ ‘‘کا لفظی معنی دعاء ،تسبیح ،رحمت یا رحم وکرم کی تمنا ہے درود پاک کو بھی صلوٰ ۃ کہا جاتا ہے کہ یہ بھی رحمت وکرم کی تمنا کا اظہار ہے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق صلوٰۃ ایک مخصوص اور معروف عمل ہے جو خاص اوقات میں اور مخصوص انداز سے ادا کیا جاتا ہے۔ صلوٰ ۃ یعنی نماز ارکانِ اسلام میں دوسرا اور عبادات میں پہلا رکن ہے۔ اس کی بجا آوری ہر باشعور ،بالغ مسلمان (عورت ہو یا مرد) پر فرض ہے۔‘‘(عقائد ارکان )

 ’’نماز کیاہے مخلوق کا اپنے دل زبان اور ہاتھ پائوں سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار ،اس رحمان اور رحیم کی یا داور اس کے بے انتہاء احسانات کا شکریہ ،حسنِ ازل کی حمد وثنا ء اور اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار ،یہ اپنے آقاء کے حضور میں جسم وجان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرضِ نیاز ہے۔ یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے۔ یہ بے قرار روح کی تسکین مضطرب قلب کی تشفی اورمایوس دل کی آس ہے۔یہ فطرت کی آواز ہے اور یہ زندگی کا حاصل اور ہستی خلاصہ ہے۔ کسی غیر مرئی طاقت کے آگے سرنگوں ہونا ، اس کے حضور میں دعاء فریا د کرنا اور اس سے مشکل میں تسلی پانا۔ انسان کی فطرت ہے ۔قرآن نے جابجاانسانوں کی اسی فطری حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوچھا ہے کہ جب تمہارا جہاز بھنور میں پھنستا ہے تو خدا کے سوا کون ہوتا ہے جس کو تم پکارتے ہو۔ غرض انسان کی پیشانی کو خودبخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے۔ جس کے سامنے وہ جھکے ۔اندرونِ دل کی عرض نیاز کرے اور اپنی دلی تمنائوں کو اس کے سامنے پیش کرے ۔غرض عبادت روح کے اسی فطری مطالبہ کا جواب ہے‘‘۔ (سیرت النبی)


بدھ، 11 مئی، 2022

Shortclip - کیا دنیاوی کامیابی ہی ہماری منزل ہے؟

فضائل قرآن(۵)

 

فضائل قرآن(۵)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : اللہ تعالیٰ اتنا کسی کی طرف توجہ نہیں فرماتا جتنا کہ اس نبی کی آواز کو توجہ سے سماعت فرماتا ہے جو قرآن کریم کوخوش الحانی سے پڑھتا ہے۔ ( صحیح مسلم ) حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ  میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن قرآن مجید کو لایا جائے گا اوروہ لوگ بھی لائے جائیں گے جواس پر عمل کیا کرتے تھے، سورۃ بقرہ اورآل عمران (جو قرآن کی سب سے پہلی سورتیں ہیں)پیش پیش ہوں گی۔(صحیح مسلم)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو یعنی گھروں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے آبادرکھو ، جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جاتی ہے ، شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے۔(صحیح مسلم)حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے لئے بعض افراد ایسے ہیں جیسے کسی کے گھر کے خاص لوگ ہوتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: وہ کون افراد ہیں؟ ارشادفرمایا: قرآن مجیدکی تلاوت کرنے والے کہ وہ اللہ والے اوراس کے خاص بندے ہیں۔(مستدرک حاکم)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے دل میں قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔(صحیح سنن ترمذی)حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرآن کریم پڑھ کر بھلا دے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے یہاں اس حال میں آئے گا کہ جیسے کوڑھ کے مرض کی وجہ سے اس کے اعضاء جھڑے ہوئے ہوں گے۔(ابودائود)

حضرت عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قرآن کریم کو تین دن سے کم میں ختم کرنے والا اسے اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا۔(ابودائود)

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا : مجھے تو رات کے بدلے میں قرآن مجید کے شروع کی سات سورتیں اورزبور کے بدلے میں’’مئین ‘‘یعنی اس کے بعد کی گیارہ سورتیں اورانجیل کے بدلے میں ’’مثانی‘‘یعنی اس کے بعد کی بیس سورتیں ملی ہیں اوراس کے بعد آخر قرآن تک کی سورتیں ’’مفصل ‘ ‘ مجھے خاص طورپر دی گئی ہیں۔(مسند امام احمدبن حنبلؒ)


حکمت و دانش

  حکمت و دانش حکمت کا ایک کلمہ انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔ دانش کی کہی ہوئی ایک بات انسانی فکر کو تبدیل کر دیتی ہے اوربصیرت بھرا ایک ج...