اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
منگل، 31 مئی، 2022
شکر کی حقیقت
شکر کی حقیقت
سید سلمان ندوی تحریر فرماتے ہیں؛شکر ایمان کی جڑ ‘ دین کی اصل اوراطاعت الٰہی کی بنیاد ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کی بنا پر بندہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی قدروعظمت اورمحبت پیدا ہونی چاہیے اوراسی قدروعظمت اورمحبت کے قولی وعملی اظہار کا نام شکر ہے‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اگر تم شکر کرو‘ اورایمان لائو تو خدا تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا اوراللہ تو قدرپہچاننے والا اورعلم رکھنے والا ہے‘‘۔(النسائ)
یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے صرف دوباتیں چاہتا ہے‘ شکر اورایمان ‘ ایمان کی حقیقت تو معلوم ہے اب رہا شکر تو شریعت مین جو کچھ ہے وہ شکر کے دائر ے میں داخل ہے‘ ساری عبادتیں شکر ہیں‘بندوں کے ساتھ حسن وسلوک اورنیک برتائو کی حقیقت بھی شکر ہی ہے‘ دولت مند اگر اپنی دولت کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں دیتا ہے تو یہ دولت کا شکر ہے ‘ صاحب علم اپنے علم سے بندگان الٰہی کو فائدہ پہنچاتا ہے تو علم کی نعمت کا شکر ہے ‘ طاقتور کمزوروں کی امداد اوراعانت کرتا ہے تو یہ بھی قوت وطاقت کی نعمت کا شکرانہ ہے‘ الغرض شریعت کی اکثر باتیں اسی ایک شکر کی تفصیلیں ہیں ‘ اسی لیے شیطان نے جب خدا سے یہ کہنا چاہا کہ تیرے اکثر بندے تیرے حکموں کے نافرمان ہوں گے تو یہ کہا :’’تو ان میں سے اکثر کو شکرکرنے والا نہ پائے گا‘‘۔(اعراف)
خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو جزادیتے ہوئے اسی لفظ سے یاد فرمایا:
’’اورہم شکر کرنے والے کو جزادیں گے‘‘۔(آل عمران)
پوری شریعت کا حکم اللہ تعالیٰ ان لفظوں میں دیتا ہے :
’’بلکہ اللہ کی بندگی کر‘ اورشکر گزاروں میں سے ہو‘‘۔(زمر)
شکر کے اس جذبہ کو ہم کبھی زبان سے اداکرتے ہیں کبھی اپنے ہاتھ پائوں سے پورا کرتے ہیں کبھی اس کا بدلہ دے کر اس قرض کو اتارتے ہیں‘ زبان سے اس فرض کے اداکرنے کا نام اللہ تعالیٰ کے تعلق سے قرآن کی اصطلاح میں حمد ہے جس کے مطالبہ سے پورا قرآن بھراہوا ہے اوریہی سبب ہے کہ حمد الٰہی میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ملہ کا ذکر ہوتا ہے جو ان احسانوں اورنعمتوں کی پہلی اوراصلی محرک ہیں‘ اوراسی لیے یہ کہنا چاہیے کہ جس طرح سارے قرآن کا نچوڑ سورئہ فاتحہ ہے ‘ سورئہ فاتحہ کا نچوڑ خدا کی حمد ہے ‘ اسی بناپر قرآن پاک کا آغاز سورئہ فاتحہ سے ‘ اورسورئہ فاتحہ کا آغاز الحمد سے ہے:’’سارے جہاں کے پروردگار کی حمد ہے‘‘۔(فاتحہ :۱)
پیر، 30 مئی، 2022
بشارت
بشارت
’’محدثِ کبیر علامہ علی متقی بن حسام الدین ارشادفرماتے ہیں یہ حدیثِ حسن ہے ‘‘۔
٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’جس شخص نے یہ شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں ،نماز قائم کی ،رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اُس کی مغفر ت فرما دیں۔خواہ وہ شخص ہجرت کرے یا اُسی جگہ مقیم رہے جہاں اُس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ (اس پر )آپ کے ایک صحابی نے عرض کیا،یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں میں اس بشارت کا علان نہ کردوں ،آپ نے ارشادفرمایا :نہیں ! لوگوں کو عمل کرنے دو۔بیشک جنت کے سو درجے ہیں ،ہر دودرجوں کے درمیان زمین وآسمان کے فاصلے جتنی مسافت ہے۔اور سب سے اعلیٰ درجہ جنت الفردوس ہے۔اسی پر عرشِ الہٰی قائم ہے اور یہ جنت کے وسط میں ہے۔سو ! جب تم اللہ رب العزت سے کسی چیز کا سوال کروتو جنت الفردوس ہی کاسوال کرو۔‘‘(الطبرانی)
٭ حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’جس کی آرزو ہوکہ وہ جہنم سے بچ جائے اورجنت میں داخل ہوجائے تو اس کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا ہو اور وہ لوگوں سے بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لیے چاہتا ہو۔‘‘(الطبرانی)
اتوار، 29 مئی، 2022
سورۃ فاتحہ کے اسمائ(۱)
سورۃ فاتحہ کے اسمائ(۱)
سورہ فاتحہ قرآنِ مقدس کی عظیم الشان سورت ہے ، کہا جاتا ہے کہ کلام مجید میں جو مضامین تفصیل سے بیان ہوئے ہیں وہ تمام اس مبارک سورت میں اجمالاً بیان کردیے گئے ہیں۔ اس سورت کو قرآن وحدیث میں کئی اسماء سے موسوم کیاگیا ، کسی چیز کے زیادہ اسماء اس کی عظمت وفضیلت اورعزت وشرف پر دلالت کرتے ہیں۔ اسماء کی یہ کثرت سورہ فاتحہ کے مقام ومرتبہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
فاتحۃ الکتاب: کلام مقدس کا آغاز اسی سورہ پاک سے ہوتا ہے ، نماز میں قرآت کی ابتداء بھی یہی سورت سے، تعلیم کی ابتداء بھی اسی سے ہوتی ہے، ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے مکمل صورت میں یہی سورت نازل ہوئی ہے،(اس سے قبل آیات نازل ہوئیں جو مختلف سورتوں کا حصہ بنیں)۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس شخص نے فاتحۃ الکتاب کو تلاوت نہیں کیا اس کی نماز (کامل)نہیں ہوئی۔ (ابن ماجہ، ترمذی، احمد)
السبع المثانی: یعنی وہ سات آیات جن کو دہرایا جاتا ہے، یہ اسم مبارک قرآن پاک میں ذکر کیاگیاہے : سورہ الحجر میں ارشادہوتا ہے : ہم نے آپ کو (وہ ) سات آیتیں دی جو دہرائی جاتی ہیں ۔(۸۷)جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں الحمد اللہ رب العالمین ’’السبع المثانی ہے اوروہ قرآن عظیم ہے جو مجھے ودیعت کیاگیا ۔(صحیح بخاری، سنن دارمی ) ’’سبع‘‘سات کو کہتے ہیں ، مثانی کی درج ذیل وجوہات ہیں ۔ (۱)اس سورت کے نصف میں اللہ رب العزت کی حمدوثناء ہے اوردوسرے حصے میں اس کی بارگاہ بے کس پناہ میں دعاء والتجاء ہے۔(۲)ہر دورکعت نماز میں اس کو دومرتبہ پڑھا جاتا ہے ۔(۳)اس سورہ مبارکہ کا نزول دوبارہوا، ایک بار مکہ مکرمہ اورایک بار مدینہ منورہ میں(۵)اس سورت کی تلاوت کے بعد نماز میں دوسری کسی سورت یا آیات کو پڑھا جاتا ہے۔
اُم القرآن : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: الحمداللہ ام القرآن ہے ، اورام الکتاب ہے اورسبع مثانی ہے۔ (دارمی)حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص ام القرآن نہ پڑھے اس کی نماز کامل نہیں ہوتی ۔(صحیح مسلم)کسی چیز کی اصل اوراس کے مقصود کو ’’ام ‘‘کہتے ہیں ، قرآن مجید کا مقصود ہدایت ، الوہیت ، نبوت، معاد (مرکر دوبارہ اٹھنا )اورقضاء قدر ہیں ۔ اوریہ تمام مضامین سورہ فاتحہ میں اجمالاً بیان کردیے گئے ہیں ۔
ہفتہ، 28 مئی، 2022
رفاقت اور دوستی کے معیار
رفاقت اور دوستی کے معیار
عر ب کہتے ہیں المرء علی دین خلیلہٖ انسان اپنے دوست کے مسلک ومشرب پر ہوتا ہے ۔اگر انسان کو ایسی رفاقت کی تلاش ہو جو اس کیلئے دین اور دنیا دونوں میں معاونت کا سبب بنے تو اسکے معیا ر کیا ہونے چاہیے، امام غزالیؒ کہتے ہیں اپنے رفیقِ کار (پارٹنر) اور دوست کا انتخاب کرتے ہوئے اس میں پانچ خصلتیں ضرور دیکھو۔ (۱) عقل(۲)حسن خلق(۳)خیر کی صلاحیت (۴) سخاوت (۵)سچائی۔
(۱)عقل مند شخص کو اپنا دوست بنائو کیونکہ احمق کی دوستی کا کوئی فائدہ نہیں ۔ احمق کی دوستی کا انجام تنہا ئی اور قطع تعلقی پر ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں فائدہ ہو لیکن جہالت کی وجہ سے نقصان پہنچاتا ہے ۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہے ۔ حضرت علی کر م اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔ ’’جاہل سے دوستی مت رکھواور اپنے آپ کو اس سے بچائو پس کتنے جاہل ہیں جنہوں نے حلیم شخص کو ہلاک کر دیا‘‘۔(۲)بدخواور بدخلق کی پہچان یہ کہ غصے اور شہوت کے وقت اس کا نفس اسکے قابو میں نہیں رہتا۔ حضرت علقمہ عطاروی رحمتہ اللہ علیہ نے وفات کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ بیٹا اگر کسی کے دوست بننا چاہتے ہو تو ایسے شخص کی سنگت اختیار کرو کہ اگرتم اس کی خدمت کروگے تو وہ تمھیں محفوظ رکھے اور بچائے گا،اگر اس سے مِلو، توتمھارے اخلاق سنوارے ۔تم اس سے نیکی کرو تو اسے شمار کرے اور یا درکھے اگر تم سے کو ئی فردِ گذاشت ہو جائے تو وہ تم سے در گزر کرے۔(۳) ایسے شخص کا انتخا ب کرنا چاہیے ۔جس کا رحجان طبع خیر کی طرف ہو ۔ یاد رکھو جو شخص اللہ سے نہیں ڈرتا حوادثات زمانہ بھی اسکی اصلاح نہیں کر سکتے ۔ یعنی وہ عبرت پکڑنے کی بجائے مزید فسق وفجور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گنا ہوںپر دلیر ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔’’ اس شخص کی پیروی نہ کر و جس کا دل ہم نے اپنی یا د سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہشات کا پیر وکار ہے۔‘‘(۴) حریص اور لالچی کی دوستی سے بھی اجتنا ب کر نا چاہیے ۔کیونکہ انسانی طبائع ایک دوسرے سے غیر محسوس طور پر متاثر ہوتے ہیں ۔ (۵) جھوٹا شخص سراب کی طرح ہوتا ہے جس سے دور کی چیز یں نزدیک اور نزدیک کی اشیاء دور نظر آتی ہیں۔جھوٹ کا عادی شخص تمھارے وہ خصائل بیان کرے گا جن سے تم خالی ہو اور تمھاری جن غلطیوں کی نشاندہی ضروری ہے محض تمھیں خوش کرنے کیلئے ان سے پہلو تہی کر ے گا۔ہماری روشن اور تابندہ اخلا قی قدروں نے ایک عام دوستی کے لیے کتنے معیار قائم کیے ہیں اور ہم اپنے ماحول معاشرے اور ملت کی ذمہ داریوں کے لیے بھی کسی معیا ر کے قائل نہیں رہے ۔
جمعہ، 27 مئی، 2022
حکمت
حکمت
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوںاورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بربادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)
جمعرات، 26 مئی، 2022
بیٹیوں کی تربیت کا صلہ
بیٹیوں کی تربیت کا صلہ
بدھ، 25 مئی، 2022
یتیموں کی کفالت اور تربیت
یتیموں کی کفالت اور تربیت
منگل، 24 مئی، 2022
یتیم سے شفقت
یتیم سے شفقت
حضرت ابوالورقا ء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی یتیم کے سرپر شفقت و پیارسے ہاتھ پھیر االلہ تعالیٰ اس شخص کیلئے ہاتھ کے نیچے آنے والے ہر بال کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتا ہے ،ہر بال کے بدلے ایک گناہ مٹادیتا ہے اورہر بال کے بدلے ایک درجہ بلند فرمادیتا ہے۔ ‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے یتیم مسلمان بچوں میں سے کسی یتیم کو اپنے ساتھ کھانے ،پینے میں شریک کئے رکھا حتیٰ کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کیلئے جنت کو واجب کردیتا ہے ہاں البتہ کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھے جس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں بخشش نہیں اور جس کی بینائی اللہ تعالیٰ سلب کرلے اوروہ حصول ثواب کیلئے صبر کرے تو ایسے شخص کیلئے بھی اللہ تعالیٰ جنت کو واجب کردیتا ہے مگر ایسے عمل سے گریزاں رہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل بخشش نہیں ۔ اور جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں وہ انہیں ادب سکھائے ،تعلیم وتربیت کرے اوران کے اخراجات کا بوجھ خوشدلی سے اٹھائے حتیٰ کہ انہیں بیاہ دے تواللہ تعالیٰ ایسے شخص کیلئے بھی جنت کو واجب کردیتا ہے مگر اس سے کوئی ایسی بدعملی نہ ہوجائے جس پر وہ عنداللہ بخشش کا حقدار نہ ٹھہرسکے، ایک بدوی نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !دو ہوں تو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا دوبیٹیوں کی بھی احسن انداز میں تربیت کرکے ان کی شادی کردے تو تب بھی وہ جنتی ہے۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم میں بڑا سنگدل ہوں اوراپنی قساوت قلبی پر پریشان ہوں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’اگر تو نرم دل ہونا پسند کرتا ہے تو یتیم کے سرپر شفقت ومحبت کا ہاتھ پھیراور اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہ کون سے ہیں ؟آپ نے ارشادفرمایا کہ کبیرہ گناہ ۹ ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرنا،جان بوجھ کر مومن کو قتل کرنا ،لشکر اسلام میں شامل ہونے سے بھاگنا ،پاکدامن پر گناہ کی تہمت لگانا،یتیموں کا مال ہڑپ کرجانا،سود خورہونا،والدین کی نافرمانی کرنا،جادوکرنا،حرام کو حلال سمجھنا۔(تنبیہ الغافلین : فقہیہ ابو اللیث سمرقندی)
پیر، 23 مئی، 2022
عبادت، اعترافِ عجز
عبادت، اعترافِ عجز
کتاب اللہ میں لفظ عبادت ’’تکبر‘‘کے متضاد کے طور پر استعمال ہواہے۔ ٭(ملائکہ ) جو اسکے پاس ہیں ، وہ اُ سکی عبادت سے غرور نہیں کرتے ۔(الا نبیائ۔۲۰)
٭میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیات سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں،اور اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے ۔(السجدہ)٭غرور ،تکبر اور استکبار کے معنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ،احساس ذات ، خدا کے سامنے سرکشی ، اوراسکی بارگاہِ جلالت میں گردن جھکانے سے عاروانکار کے ہیں۔تو اس کے مقابلے میں عبادت اللہ کے سامنے سرجھکانے اور عاجزی اور بندگی کا اعتراف کرنے اور اسکے احکام کے سامنے اظہار اطاعت کے ہیں ۔ اسی طرح کسی شخص سے بظاہر اچھے کام کا صدور تو لیکن اس اچھے کام سے اس مقصد اظہارِ عبودیت یا اطاعتِ خداوندی نہ ہو تو وہ کام عبادت میں شمار نہیں ہوگا۔ کسی بھی اچھے کام کو عبادت میں شمار ہونے کیلئے اس کی نیت کا خالص اور پاک ہونا بے حد ضروری ہے اور یہی وہ نشانِ امتیاز ہے جو عبادت اور غیر عبادت کے درمیان فرق کرتا ہے۔ ارشاد اتِ خداوندی ملاحظہ فرمائیے۔ ٭(اللہ کے مخلص بندے کہتے ہیں)ہم تو صرف اللہ کیلئے تم کو (کھانا)کھلاتے ہیں۔ (الانسان۱۰) ٭اس پرہیز گار کو دوزخ سے بچا لیاجائے گا جو اپنا مال دل کی پاکیزگی کیلئے دیتا ہے۔ اس پر کسی کا احسان باقی نہیں،جس کا بدلہ اس کو دینا ہو،بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات اس کا مقصود ہے۔وہ عنقریب خوش ہوجائے گا۔ (اللیل ۔۱۰)٭اور (اے اہل ایمان) تم صرف اللہ (رب العزت کی ذات)کی طلب کیلئے خرچ کرتے ہو۔(البقرہ ۔۳۷)٭پس خرابی ہے ایسے نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز (کی ادائیگی )سے غافل ہیں،وہ جو ریا کاری کرتے ہیں،اور (مانگے بھی)نہیں دیتے روز مرّہ استعمال کی چیزیں۔(الماعون )
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کا جو مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا اس میں پہلی چیز دل کی نیت اور اخلاص ہے۔اس میں کسی خاص کام اور طرزوطریقہ کی تخصیص نہیں ہے، بلکہ انسان کا ہر وہ جائز کام جس سے مقصود خدا کی خوشنودی اور اس کے احکام کی اطاعت ہے۔ وہ ’’عبادت‘‘ہے۔ اگر تم اپنی شہرت کیلئے کسی کو لاکھوں دے ڈالو،تو وہ عبادت نہیں لیکن خدا کی رضا جو ئی اور اس کے حکم کی بجا آوری کیلئے چند کوڑیا ں بھی کسی کو دو تو یہ بڑی عبادت ہے۔ تعلیم محمد ی کی اس نکتہ رسی نے عبادت کو درحقیقت دل کی پاکیزگی ،روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کی غرض وغایت بنادیا ہے اور یہی عبادت سے اسلام کا اصلی مقصود ہے۔‘‘(سیرت النبی )
اتوار، 22 مئی، 2022
عبادت
عبادت
عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت والفت کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ یعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے ،جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت الفت میں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں : عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں ۔
کہتے ہیں ’’طریق معبد ‘‘یعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔’’ بعیر معبد ‘‘وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع وفرمابردار بن گیا ہو۔ شریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے ۔ جس میں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔‘‘(تفسیر ابن کثیر )علامہ ابن قیم لکھتے ہیں ۔’’عباد ت کے دوجز ہیں ۔انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ ‘‘۔
گویا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی یاانکساری کا نام نہیں بلکہ دل کے میلان کا نام ہے،جو پورے شعور سے ایک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے ، اس کے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اسکے جلال کی ہیت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اسکے سامنے سر تسلیم خم کردے، اور یہ جذبہء تسلیم ورضا ء چند معمولات ورسومات تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محیط ہے۔ ہروہ عمل جو اللہ کے عطاء فرمودہ ضابطے کے مطابق ہو اور جس کا منشاء ومقصود رضا ئے الٰہی ہو ’’عبادت‘‘ ہے۔
ہفتہ، 21 مئی، 2022
انبیائے کرام کی دعوت توحید
انبیائے کرام کی دعوت توحید
جمعہ، 20 مئی، 2022
دین آسان ہے!
دین آسان ہے!
اسلام سلامتی اور خیر خواہی کا دین ہے ،اسلام دین فطرت ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جس طبیعت پر پیدا کیا ہے اُس کا اصل تقاضا دینِ اسلام ہی ہے۔اسلام ہی انسان کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کا کفیل ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے مبلغین اور معلمین کوہمیشہ یہ تاکید فرمائی کہ وہ دین کو پیچیدہ اور دشوار بنا کر پیش نہ کریں۔
٭ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرو،ان پر سختی نہ کرو ، لوگوں کو خوش خبری سناؤ اور (انہیں دین سے) متنفر نہ کرو۔ (بخاری)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فرمایا: اس کو چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دو کیونکہ تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تمہیں تنگی پیدا کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ (بخاری )
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین کے کاموں میں شدت اختیار کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا، لہٰذا تم درست کام کرو اور دین کے قریب رہو اور ثواب کی خوش خبری دو اور صبح و شام اور رات کے کچھ حصہ میں عبادت سے مدد حاصل کرو۔(بخاری)
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھابیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آ پ ا ن میں سے زیادہ آسان چیز کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتا اور اگر گناہ ہوتاتوآپ سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے اپنی ذات کے لئے انتقام نہیں لیا لیکن جب کوئی اللہ تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی کرتا تو آپ اس سے اللہ تعالیٰ کے لئے انتقام لیتے۔ (بخاری )
٭ ایک دفعہ نجران کے چودہ عیسائی حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے مدینہ منورہ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایااور انہیں اپنے عیسائی طریقہ کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی۔ چنانچہ عیسائی حضرات نے مسجد نبوی کے ایک کونے میں مشرق کی طرف رخ کر کے اپنی عبادت کی۔(تفسیر قرطبی )
جمعرات، 19 مئی، 2022
حکمت
حکمت
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوںاورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بربادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)
بدھ، 18 مئی، 2022
برکاتِ ایمان
برکاتِ ایمان
منگل، 17 مئی، 2022
عبادت
عبادت
قرآن مقدس کی رو سے انسان کی تخلیق بے مقصد نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی کا ایک واضع اور غیر مبہم مقصد ہے،اور وہ ہے ’’عبادت‘‘۔لفظ ’’عبادت‘‘سے ذہن فوراً کچھ ایسے معمولات کی طرف جاتا ہے ۔ جو عام طور پر عبادت کے حوالے سے ’’متعارف‘‘ہیں ۔ان معمولات کے عبادت میں ہوتے ہیں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں تصور عبادت ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔
لغتِ عرب میں انتہائی انکساری اور عاجزی کو ’’عبادت‘‘کہاجاتا ہے۔ امام راغب اضفہانی کہتے ہیں عبادت کا معنی ہے غایۃُ التذلل یعنی انتہاء درجہ کی انکساری ،صاحب لسان العرب ابن منظور لکھتے ہیں :معنی العباد ۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع ۔عبادت کے معنی ایسی اطاعت کے ہیں جس میں خضوع پایا جائے۔
عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت والفت کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ یعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے ،جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت الفت میں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں : عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں ۔ کہتے ہیں ’’طریق معبد ‘‘یعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔’’ بعیر معبد ‘‘وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع وفرمابردار بن گیا ہو۔ شریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے ۔ جس میں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔‘‘(تفسیر ابن کثیر )علامہ ابن قیم لکھتے ہیں ۔’’عباد ت کے دوجز ہیں ۔انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ ‘‘۔
گویا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی یاانکساری کا نام نہیں بلکہ دل کے میلان کا نام ہے،جو پورے شعور سے ایک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے ، اس کے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اس کے جلال کی ہیت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردے، اور یہ جذبہء تسلیم ورضا ء چند معمولات ورسومات تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محیط ہے۔ ہروہ عمل جو اللہ کے عطاء فرمودہ ضابطے کے مطابق ہو اور جس کا منشاء ومقصود رضا ئے الہٰی ہو ’’عبادت‘‘ ہے۔
ہر جا کہ می رود منِ بے چارہ می روم
باشد عنانِ ما بکفِ اختیارِ دوست
پیر، 16 مئی، 2022
ایمان اور اجر
ایمان اور اجر
٭حضرت شدّادبن اوس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لاالہ الااللہ نصف میزان ہے اورالحمد اللہ اس کو بڑھا دیتا ہے‘‘۔(کنزالعمال)
٭حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’لاالہ الااللہ اپنے کہنے والے سے مصیبت کے ننانوے دروازے بندکردیتا ہے،جن میں سے سب سے کم رنج والم ہے ۔‘‘(الدیلمی)
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں ، حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ’’قیامت کے دن اللہ رب العزت ارشادفرمائیں گے لاالہ الااللہ کہنے والوں کو میرے عرش کے قریب کردو، کیونکہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ (الدیلمی)
٭حضرت ابوزر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’یقینا وہ شخص فلاح وکامرانی سے ہمکنار ہوگیا ،جس کا دل ایمان میں مخلص ہوگیا،اور اس نے اپنے دل کو سلیم الطبع کرلیا ،اپنی زبان کو سچ کا عادی بنادیا،اپنے نفس کو مطمئن کرلیا،اپنی روشِ حیات کو درست کرلیا، اپنے کانوں کو حق سننے کا عادی بنادیا ،اور اپنی آنکھوں کو عبرت حاصل کرنے والا بنادیا۔‘‘(مسند امام احمد بن حنبل )
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ تبارک وتعالیٰ کسی مومن کی نیکی کم نہیں فرماتا،بلکہ دنیا میں بھی اس کا بدلہ عطاکرتا ہے اور آخرت میں بھی اس پر ثواب مرحمت فرماتا ہے لیکن کافر کی بھلائیوں کا بدلہ دنیا ہی میں نمٹا دیا جاتا ہے ۔اور جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اسکے پاس ایسی کوئی نیکی نہیں ہوتی ،جس کا وہ اچھا اجر پائے۔‘‘(صحیح مسلم،مسند امام احمد بن حنبل )
اتوار، 15 مئی، 2022
ایمان کا ثمرہ
ایمان کا ثمرہ
ہفتہ، 14 مئی، 2022
ایمان اور اعمالِ صالحہ (۲)
ایمان اور اعمالِ صالحہ (۲)
جمعہ، 13 مئی، 2022
ایمان اور اعمالِ صالحہ
ایمان اور اعمالِ صالحہ
٭حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ حضور نبی ﷺنے ارشادفرمایا: جس نے تین خصلتوں کو جمع کرلیا بلاشبہ اس نے ایمان کی خصلتوں کو (اپنے وجود میں ) جمع کرلیا۔ 1:۔تنک دستی میں خرچ کرنا ، 2:۔ اپنے آپ سے (بھی) انصاف کرنا اور عالم کو سلام کرنا ۔(طبرانی ، بزار ،ابو نعیم )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان صبر اور فیاضی کا نام ہے۔ (مسند ابو یعلی ،طبرانی)
٭محمد ابن نصرالحارثی رحمتہ اللہ علیہ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایمان حرام اشیاء (سے اجتناب )اور نفسانی خواہشات سے عفت وپاک دامنی کا نام ہے۔(ابو نعیم )
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان دونصف حصوں کا نام ہے۔ نصف صبر میں ہے اور نصف شکر میں ۔ (شعب الایمان ۔امام بہیقی )
جمعرات، 12 مئی، 2022
اَلْصَّلَوۃُ
اَلْصَّلَوۃُ
’’عبادت ‘‘کی تشریح سے ہم پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی کہ یہ اللہ کے سامنے اعتراف عجز ہے۔ اپنی ذات کی خیالات کی، رائے کی نفی ہے۔جب انسان اپنے خالق کا حکم مان لیتا ہے اور اس کی مرضی اختیار کرلیتا ہے ،اور اس کے بتائے ہوئے طرززندگی کو اپنا لیتا ہے تو وہ عبادت کی شاہراہ پر گامزن ہوجاتاہے۔
اس خالق کی حکمت نے اپنے محمود اعمال میں درجہ بندی فرمائی،کچھ اعمال ایسے ہیں جو مسلمانی کا خاص شعار قرارپائے، انکے بغیر ایمان اور اسلام کا تعارف ہی دشوار ہے۔ان میں اہم ترین ،نمایاں ترین اور سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی عمل ’’الصلوۃ ‘‘یعنی نماز ہے۔
’’صلوٰۃ ‘‘کا لفظی معنی دعاء ،تسبیح ،رحمت یا رحم وکرم کی تمنا ہے درود پاک کو بھی صلوٰ ۃ کہا جاتا ہے کہ یہ بھی رحمت وکرم کی تمنا کا اظہار ہے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق صلوٰۃ ایک مخصوص اور معروف عمل ہے جو خاص اوقات میں اور مخصوص انداز سے ادا کیا جاتا ہے۔ صلوٰ ۃ یعنی نماز ارکانِ اسلام میں دوسرا اور عبادات میں پہلا رکن ہے۔ اس کی بجا آوری ہر باشعور ،بالغ مسلمان (عورت ہو یا مرد) پر فرض ہے۔‘‘(عقائد ارکان )
’’نماز کیاہے مخلوق کا اپنے دل زبان اور ہاتھ پائوں سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار ،اس رحمان اور رحیم کی یا داور اس کے بے انتہاء احسانات کا شکریہ ،حسنِ ازل کی حمد وثنا ء اور اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار ،یہ اپنے آقاء کے حضور میں جسم وجان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرضِ نیاز ہے۔ یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے۔ یہ بے قرار روح کی تسکین مضطرب قلب کی تشفی اورمایوس دل کی آس ہے۔یہ فطرت کی آواز ہے اور یہ زندگی کا حاصل اور ہستی خلاصہ ہے۔ کسی غیر مرئی طاقت کے آگے سرنگوں ہونا ، اس کے حضور میں دعاء فریا د کرنا اور اس سے مشکل میں تسلی پانا۔ انسان کی فطرت ہے ۔قرآن نے جابجاانسانوں کی اسی فطری حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوچھا ہے کہ جب تمہارا جہاز بھنور میں پھنستا ہے تو خدا کے سوا کون ہوتا ہے جس کو تم پکارتے ہو۔ غرض انسان کی پیشانی کو خودبخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے۔ جس کے سامنے وہ جھکے ۔اندرونِ دل کی عرض نیاز کرے اور اپنی دلی تمنائوں کو اس کے سامنے پیش کرے ۔غرض عبادت روح کے اسی فطری مطالبہ کا جواب ہے‘‘۔ (سیرت النبی)
بدھ، 11 مئی، 2022
فضائل قرآن(۵)
فضائل قرآن(۵)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے دل میں قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔(صحیح سنن ترمذی)حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرآن کریم پڑھ کر بھلا دے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے یہاں اس حال میں آئے گا کہ جیسے کوڑھ کے مرض کی وجہ سے اس کے اعضاء جھڑے ہوئے ہوں گے۔(ابودائود)
حضرت عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قرآن کریم کو تین دن سے کم میں ختم کرنے والا اسے اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا۔(ابودائود)
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا : مجھے تو رات کے بدلے میں قرآن مجید کے شروع کی سات سورتیں اورزبور کے بدلے میں’’مئین ‘‘یعنی اس کے بعد کی گیارہ سورتیں اورانجیل کے بدلے میں ’’مثانی‘‘یعنی اس کے بعد کی بیس سورتیں ملی ہیں اوراس کے بعد آخر قرآن تک کی سورتیں ’’مفصل ‘ ‘ مجھے خاص طورپر دی گئی ہیں۔(مسند امام احمدبن حنبلؒ)
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا تعلق سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ جوڑیں۔ تا کہ سیرت مبارکہ ان کے لیے مشعل راہ بنے ا...
-
حضور ﷺ کی شان حضور ﷺ کی زبان سے (۱) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ ن...