منگل، 17 مئی، 2022

عبادت

 

عبادت

 قرآن مقدس کی رو سے انسان کی تخلیق بے مقصد نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی کا ایک واضع اور غیر مبہم مقصد ہے،اور وہ ہے ’’عبادت‘‘۔لفظ ’’عبادت‘‘سے ذہن فوراً کچھ ایسے معمولات کی طرف جاتا ہے ۔ جو عام طور پر عبادت کے حوالے سے ’’متعارف‘‘ہیں ۔ان معمولات کے عبادت میں ہوتے ہیں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں تصور عبادت ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔

  لغتِ عرب میں انتہائی انکساری اور عاجزی کو ’’عبادت‘‘کہاجاتا ہے۔ امام راغب اضفہانی کہتے ہیں عبادت کا معنی ہے غایۃُ التذلل یعنی انتہاء درجہ کی انکساری ،صاحب لسان العرب ابن منظور لکھتے ہیں :معنی العباد ۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع ۔عبادت کے معنی ایسی اطاعت کے ہیں جس میں خضوع پایا جائے۔ 

 عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت والفت کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ یعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے ،جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت الفت میں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں : عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں ۔ کہتے ہیں ’’طریق معبد ‘‘یعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔’’ بعیر معبد ‘‘وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع وفرمابردار بن گیا ہو۔ شریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے ۔ جس میں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔‘‘(تفسیر ابن کثیر )علامہ ابن قیم لکھتے ہیں ۔’’عباد ت کے دوجز ہیں ۔انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ ‘‘۔

 گویا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی یاانکساری کا نام نہیں بلکہ دل کے میلان کا نام ہے،جو پورے شعور سے ایک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے ، اس کے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اس کے جلال کی ہیت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردے، اور یہ جذبہء تسلیم ورضا ء چند معمولات ورسومات تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محیط ہے۔ ہروہ عمل جو اللہ کے عطاء فرمودہ ضابطے کے مطابق ہو اور جس کا منشاء ومقصود رضا ئے الہٰی ہو ’’عبادت‘‘ ہے۔ 

ہر جا کہ می رود منِ بے چارہ می روم

باشد عنانِ ما بکفِ اختیارِ دوست

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

حکمت و دانش

  حکمت و دانش حکمت کا ایک کلمہ انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔ دانش کی کہی ہوئی ایک بات انسانی فکر کو تبدیل کر دیتی ہے اوربصیرت بھرا ایک ج...