منگل، 29 مارچ، 2022

Shortclip- قرآن ہماری زندگی میں کیوں نہیں؟

Shortclip - گمراہی کیا ہے؟

اسلام

 

اسلام

حدیث جبریل جو بخاری شریف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور مسلم شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔تعلیم دین کے بارے میں تین اہم سوال کئے گئے اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جوابات ارشاد فرمائے۔ ’’ایمان اور اسلام عموماً ایک ہی مفہوم زبان سے ہوتا ہے اور ایمان کا دل سے اس کی تائید میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت مسند احمد میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسلام اعلان ہے اور ایمان دل میں ہوتا ہے۔پس مومن وہ ہے جو احکام تسلیم کرے اور دل سے ان پر یقین کر ے ،جبکہ احکام پر مشتمل طریقِ زندگی کو اپنانے والا مسلم کہلاتا ہے اور اس طریقِ زندگی کو اسلام کہا جاتا ہے ۔ ‘‘(عقائد وارکان )
’’اسلام کے اصل معنی ہیں اپنے کو کسی کے سپر د کر دینا اور بالکل اس کے تابع فرمان ہوجانا،اور اللہ کے بھیجے ہوئے اور اس کے رسولوں کے لائے ہوئے دین کا نام اسلام اسی لیے ہے کہ اس میں بندہ اپنے آپ کو بالکل مولا کے سپرد کردیتا ہے،اور اس کی مکمل اطاعت کو اپنا دستور زندگی قرار دے لیتا ہے۔ اور یہی ہے اصل حقیقت دین اسلام کی اور اسی کا مطالبہ ہم سے فرمایا گیاہے ۔ بہر حال ’’اسلام ‘‘ کی اصل روح اور حقیقت یہی ہے کہ بندہ اپنے کو کلی طور پر اللہ کے سپرد کرے اور ہر پہلو سے اس کا مطیعِ فرمان بن جائے۔ پھر انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی شریعتوں میں اسلام کے کچھ مخصوص ارکان بھی ہوتے ہیں ۔جن کی حیثیت اس حقیقت اسلام کے’’ پیکرِ محسوس‘‘کی سی ہوتی ہے۔ اور اس حقیقت کی نشوونما اور تازگی بھی انہی سے ہوتی ہے۔ ظاہری نظر انہیں ارکان کے ذریعہ فرق وامتیاز کرتی ہے، ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اپنا دستور حیات ’’اسلام‘‘کو بنایا اور ان کے درمیان جنہوں نے نہیں بنایا۔ توخاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’اسلام ‘‘کا جو آخری اور مکمل دستور ہمارے پاس آیا ہے ۔اس میں توحیدِ خداوندی ،اور رسالت محمد ی کی شہادت ،نماز ،زکوٰۃ ،روزہ اور حج بیت اللہ کو ارکان اسلام قرار دیا گیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں وارد ہواہے ۔

 بنی الاسلام علی خمس الخ۔

یعنی اسلام کی بنیاد ان پانچ چیزوں پر ہے۔ بہر حال یہ پانچ چیزیں جن کو آپ نے یہاں اس حدیث میں اسلام کے جواب میں بیان فرمایا’’ارکان اسلام ‘‘ہیں اور یہی گویا اسلام کے لیے پیکرِ محسوس (یعنی ظاہری تعارف) ہیں۔ (معارف الحدیث)


پیر، 28 مارچ، 2022

Shortclip - زندگی میں کامیابی کا راز

Shortclip - پریشانی سے سکون کی طرف کیسے جائیں؟

دین کی بنیادی باتیں

 

دین کی بنیادی باتیں

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے،کہ اچانک سامنے سے ایک شخص نمودار ہوا، جس کے کپڑے بہت اجلے سفید ، اور بال بہت ہی سیاہ تھے۔ اس شخص پر سفر کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔لیکن ہم سب اس سے نا آشنا بھی تھے۔یہ (بڑے احترام سے) حاضر ین کے حلقہ سے گزرتا ہوا آگے بڑھا اور حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر دوزانو ہوکر بیٹھ گیا۔ اپنے دونوں گھٹنے حضور کے گھٹنوں سے ملا دیے ،اور اپنے ہاتھ رانوں پر رکھ دیے(یعنی شاگردوں کی طرح ادب سے بیٹھ گیا) اور عرض کیا ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ارشاد فرمائیے کہ اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے تم یہ شہادت دوکہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، ماہ رمضان کے روزے رکھو اور استطاعت کی صورت میں حج بیت اللہ اداء کر و۔ اس نووارد سائل نے آپ کا جواب سن کر کہا۔آپ نے سچ فرمایا۔ (حضرت عمر فرماتے ہیں ) ہم کو اس پر بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی پوچھ رہا ہے اور خود ہی اس کی تصدیق بھی کر رہا ہے۔ اس کے بعد اس اجنبی نے عرض کیا مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : ایمان یہ ہے تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں ،اس کی نازل کردہ کتابوں  اس کے رسولوں اور یومِ آخرت کو حق جانو اور حق مانو ، اور ہر خیر وشر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو (یہ سن کر بھی) اس نے کہا ہے آپ نے سچ فرمایا ۔اس کے بعد اس نے پوچھا ۔مجھے بتلائیے کہ احسان کیاہے؟آپ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ۔ اور اگر تم اس حال کو نہ پاسکو تو اللہ تعالیٰ تو تمہیں یقینا دیکھ رہا ہے۔ اس شخص نے عرض کیا ،مجھے (وقوعِ) قیامت کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : اس کے بارے میں جواب دینے والا سوال کرنے والے سے زیادہ جاننے والا نہیں ہے۔ اس نے کہا تو پھر مجھے قیامت کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے ۔آپ نے فرمایا : جب باندیوں سے انکی مالکہ (اور آقا) پید ا ہوں۔ اور جب تم دیکھو کہ برہنہ تن ، بر ہنہ پا اور تہی دست چروا ہے بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں (اور ان پر اتر انے لگیں ، تو سمجھ لو کہ قیامت قریب ہے) ۔(اس استفسارکے بعد)وہ شخص (اجازت لے کر ) رخصت ہوگیا۔ میں کچھ دیر وہیں رہا ۔ تو حضور نے مجھ سے پوچھا ،اے عمر! تمہیں خبر ہے کہ سوال کرنے والا وہ شخص کون تھا؟ میں نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔آپ نے فرمایا : وہ جبرائیل تھے اور تمہاری اس مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تمہیں تمہار ادین سکھا دیں ۔(بخاری،مسلم)

اتوار، 27 مارچ، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2031 ( Surah Al-Qalam Ayat 45 - 47 ) درس قرآ...

Shortclip - آج کا انسان کیوں پریشان ہے؟

آسودگی

 

آسودگی

حضرت عمر ابن خطاب روایت کرتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا انہوں نے دنبے کی کھال کو اپنی کمر پر لپیٹا ہوا تھا ۔آپ نے فرمایا:اس شخص کی طرف دیکھو جس کے دل کو اللہ نے نورانی بنادیا ہے۔میں نے اس کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جس میں اس کے والدین اس کو سب سے عمدہ کھانا کھلایا کرتے تھے اور سب سے بہتر مشروب پلایا کرتے تھے۔میں نے اس کو وہ جوڑا پہنے ہوئے بھی دیکھا ہے جس کی قیمت دوسودرہم تھی۔اللہ اوراسکے رسول کی محبت میں اس نے سب کچھ ترک کردیا اور فقر و فاقہ نے اس کا جو حال کردیا ہے جو تم لوگ دیکھ رہے ہو۔(طبرانی)حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قباء میں تشریف فرما تھے آپ کے ساتھ چند صحابہ کرام بھی تھے اتنے میں مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ آتے ہوئے دکھائی دیے ۔انھوں نے اتنی چھوٹی چادر اُوڑھی ہوئی تھی جو انکے ستر کو پوری طرح ڈھانپ نہیں پا رہی تھی تمام صحابہ کرام نے سر جھکالیے ۔ مصعب بن عمیر نے قریب آکر سلام کیا ،صحابہ کرام نے انکے سلام کا جواب دیا ۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بڑی تعریف کی اور فرمایا : ’’میں نے مکہ مکرمہ میں دیکھا ہے کہ انکے والدین ان کا خوب اکرام کیاکرتے تھے۔ان کو ہر طرح کی نعمتیں فراہم کیا کرتے تھے اور قریش کا کوئی جوان ان جیسا نہیں تھا ۔لیکن پھر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کیلئے اور اسکے رسول کی اعانت کرنے کیلئے یہ سب کچھ ترک کردیا ۔غور سے سنو ! تھوڑا ہی عرصہ گزرے گا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمہیں فارس اورروم کی فتح عطافرمائے گا۔دنیا کی اتنی فراوانی ہوجائے گی کہ تم میں سے ہر آدمی ایک جوڑا صبح پہنے گا اورایک جوڑا شام کو ۔کھانے کا ایک بڑا اور لبریز پیالہ صبح تمہارے سامنے آئے گا اوراسی طرح شام کو بھی کھانے کا ایک بڑا پیالہ تمہیں ملے گا۔صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم آج بہتر حالت میں ہیں یا اس دن بہتر ہوں گے ۔ آپ نے ارشادفرمایا :نہیں آج تم لوگ بہت بہتر ہو۔ غور سے سنو ! اگر تم لوگ دنیا کے بارے میں وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تمہاری طبیعتیں دنیا سے بالکل سرد ہو جائیں ۔(حاکم) حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،جب حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو انکے پاس صرف ایک کپڑا تھا جو اتنا چھوٹا تھا کہ جب اس کپڑے سے ان کا سر ڈھانپتے تھے تو انکے پائوں کھل جاتے تھے اورجب پائوں ڈھانپتے تھے تو سر کھل جاتا تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کے پیروں پر اذخر (گھا س )ڈال دو۔(الاصابۃ)

جمعہ، 25 مارچ، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2029 ( Surah Al-Qalam Ayat 42 - 43 Part-2 ) ...

Shortclip - کلمہ طیبہ کا مفہموم

Shortclip - مومن پر اللہ تعالیٰ کا اکرام

سرکاری اہلکاروں کو تلقین

 

سرکاری اہلکاروں کو تلقین

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا امیر مقرر کیا، اس لشکر میں موجوداکابر صحابہ کرام کے بارے میں انہیں یوں نصیحت فرمائی ۔’’میں تمہیں ابو عبیدہ بن جراح (رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کرتا ہوں ، کیونکہ تم جانتے ہو کہ اسلام میں ان کا بڑا مقام ہے‘‘۔حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا:ہر امت کا ایک امین ہواکرتا ہے اور اس امت کے امین، ابوعبیدہ ابن جراح ہیں۔انکے فضائل اوردینی سبقت کا بڑا لحاظ رکھنا اور اسی طرح( حضرت) معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ ) کا خیال رکھنا۔تمہیں خبر ہے کہ وہ نبی کریم ﷺکے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے اورحضور علیہ الصلوٰ ۃ والتسلیم نے انکے بارے میں فرمایا ہے کہ (میدانِ محشر میں )معاذ بن جبل علماء کے آگے ایک اونچی جگہ پر چلتے ہوئے آئیں گے یعنی اس دن علمی فضیلت کی وجہ سے انکی ایک امتیازی شان ہوگی۔تم ان دونوں حضرات کے مشورے کے بغیرکسی بھی کام کا فیصلہ نہ کرنا اور یہ دونوں بھی تمہارے ساتھ خیرخواہی کرنے میں ہر گز کوئی کمی نہیں کریں گے۔حضرت یزید نے کہا :اے خلیفہ رسول ! جس طرح آپ نے مجھے ان دونوں کے بارے میں تاکید فرمائی ہے اسی طرح ان دونوں کو بھی میرے بارے میں تاکید فرمادیں،آپ نے فرمایا :میں ضرور ایسا کروں گا۔ حضرت یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ آپ پر رحم فرمائے اوراسلام کی طرف سے آپکو بہترین اجر عطافرمائے ۔حضرت یزید بن ابوسفیان فرماتے ہیں ،جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے شام کی طرف روانہ فرمایا تو یوں نصیحت فرمائی ’’اے یزید ! تمہارے بہت سے عزیزواقارب ہیں، ہو سکتا ہے کہ تم امیر بناتے ہوئے اپنے رشتے داروں کو دوسروں پر ترجیح دے دو ،مجھے تم سے سب زیادہ اندیشہ اسی بات کا ہے۔لیکن غور سے سنو! جناب رسالت مآب ﷺنے فرمایا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے کسی کام کا ذمہ دار بنا ،پھر اس نے ذاتی میلان کی وجہ سے کسی غیر مستحق کو مسلمانوں کا امیر بنا دیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہوگی،اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفل عبادت قبول فرمائیں گے اور نہ فرض بلکہ اسے جہنم میں پھینک دینگے اورجس نے ذاتی تعلق کی وجہ سے کسی غیر مستحق کو اپنے مسلمان بھائی کا مال دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہوگی یا فرمایا اللہ اس سے بریء الذّمہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لائیں تاکہ وہ اللہ کی حمایت و حفاظت میں آجائیں۔اب جو اللہ کی حمایت وحفاظت میں آچکا ہے ،اس کو جو ناحق بے عزت کریگا اس پر اللہ کی لعنت ہوگی یا فرمایا اللہ اس سے بریء الذّمہ ہوجائے گا۔(کنزالعمال)

بدھ، 23 مارچ، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2027 ( Surah Al-Qalam Ayat 34 - 41 Part-2 ) ...

Shortclip - مومنانہ صفات کیا ہوتی ہیں؟

خلیفہ اوّل کی سرکاری اہلکاروں کو نصیحت

 

خلیفہ اوّل کی سرکاری اہلکاروں کو نصیحت

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر شام کی طرف بھیجنے کاارادہ فرمایا،جب وہ لشکر روانہ ہوا تو آپ ان کی سواری کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ،ان کو نصیحت فرماتے ہوئے کہہ رہے تھے۔

’’اے عمرو! ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہنا کوئی کام چاہے وہ خفیہ ہو یا اعلانیہ اس میں اللہ سے حیاء کرنا کیونکہ وہ تمہیں اور تمہارے تمام افعال کو دیکھ رہا ہے۔ تم دیکھ رہے ہومیں نے تمہیں (عسکری وجوہات کی بنا پر)امیر بنا کر ان لوگوں پر بھی مامور کردیا ہے جو تم سے زیادہ پرانے ہیں، اسلام میں تم سے سبقت بھی رکھتے ہیں اور تمہاری نسبت اسلام اورمسلمانوں کے لیے زیادہ مفید بھی ہیں۔تم آخرت کے لیے کام کرنے والے بنو اور تم جو کام بھی کرومحض اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے کرواور جو مسلمانوں تمہارے ساتھ جارہے ہیں تم ان کے ساتھ ایک باپ کی طرح شفقت کا معاملہ کرنا ،لوگوں کے اندر کی باتوں کو ہر گز افشاء کرنا بلکہ ان کے ظاہری اعمال پر اکتفاء کرلینا ،اپنے کام میں پوری محنت کرنا ،دشمن سے مقابلے کے وقت خوب جم کے لڑنااور بزدل نہ بننا(اگر مالِ غنیمت کے معاملے میں کسی قسم کی خیانت ہونے لگے تو اس )خیانت کو آگے بڑھ کر فوراً روک دینا اور اس پر تادیبی کاروائی کرنا۔جب تم اپنے ساتھیوں میں خطبہ دوتو اسے مختصر رکھنا ،اگر تم اپنے آپ کو ٹھیک رکھو گے تو تمہارے سارے ماتحت تمہارے ساتھ ٹھیک چلیں گے‘‘۔(کنزالعمال)

قاسم بن محمد کہتے ہیں،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دو افراد کو قبیلہ قضاعہ کے صدقات وصول کرنے کے لیے مقرر کیا،انہیں رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ باہر تک آئے اورانہیں یوں نصیحت فرمائی۔

’’ظاہر و باطن میں اللہ سے خوف زدہ رہنا کیونکہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے ہر دشواری سے نکلنے کا راستہ ضرور بنادے گااور اس کو وہاں سے رزق دے گاجہاں سے روزی ملنے کا گمان بھی نہ ہوگااور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اسکی غلطیاں معاف فرمادیگا اور اسے اجر عظیم عطا کرے گا،اللہ کے بندے جن اعمال کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں ان میں سب سے بہترین اللہ رب العزت کا خوف ہے۔تم اس وقت اللہ کے راستوںمیں سے ایک راستے پر ہو،تمہارے اس کام میں حق کی کسی بات پر چشم پوشی کرنے کی اورکسی کام میں کوتاہی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اور جس کام میں تمہارے دین کی بھلائی ہے اورتمہارے کام کی ہر طرح سے حفاظت بھی ہے اس کام سے غفلت برتنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے لہٰذا سست نہ پڑنا اورکسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ کرنا ‘‘۔(طبری،ابن عساکر)

منگل، 22 مارچ، 2022

Shortclip - کلمہ طیبہ کاتقاضہ

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2026 ( Surah Al-Qalam Ayat 34 - 41 Part-1 ) ...

Shortclip - مومن کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟

کامل متقی

 

کامل متقی

وہ چیزیں جن سے دین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے دوطرح کی ہیں۔(۱)حرام اورمعصیت (۲)حلال مگر ضرورت سے زائد،کیونکہ ضرورت سے زیادہ حلال اشیاء میں مشغولیت اور انہماک بھی رفتہ رفتہ گناہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا باعث بن جاتا ہے۔وہ اس طرح کہ ضرورت سے زیادہ حلال اشیاء کے استعمال سے اوران کی عادت ڈالنے سے نفس کی حرص ،اسکی سرکشی اور شہوات زور پکڑتی ہے اور بندہ (بالآخر)گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے جو شخص اپنے دین کو مکمل طور پر محفوظ رکھنا چاہتا ہواس کیلئے ضروری ہے کہ وہ حرام سے بھی اجتناب کرے اورحلال کے اسراف سے بھی پرہیز کرے تاکہ وہ اس اسراف کے ذریعے سے حرام تک نہ پہنچ جائے ۔ اس امر کو جناب رسالت مآب ﷺ نے اس ارشادمبارک میں بیان فرمایا ہے:’’(متقی)فضول حلال سے بھی پرہیز کرتے ہیں تاکہ حرام میں نہ پڑجائیں‘‘۔ گویا کہ تقویٰ کی جامع ترین تعریف یہ ہوئی کہ ’’دین میں ہر نقصان دہ چیز سے اجتناب اور پرہیز کرنا ‘‘۔ علمِ سرّ کے اعتبار سے تقویٰ کی ژ حقیقت یہ ہے کہ ہر اس برائی سے دل کو دور رکھنا جس کی مثل بندے نے پہلے برائی نہ کی ہوتاکہ گناہوں سے دور رہنے کا عزم ،ان سے حفاظت کا ذریعہ بن جائے ۔

یاد رکھو شر دوقسم کا ہے : (۱)شرِ اصلی،اور یہ وہ ہے جس سے شریعت نے صراحتہً منع کیا ہو،جیسے گناہ اور معاصی۔ (۲)شرِ غیر اصلی ،اس شر سے مراد وہ ہے جس سے شریعت نے تادیباً روکا ہواو روہ فضول اور زاہد از ضرورت حلال ہے۔ جیسے وہ عام مباح چیزیں جن کے استعمال سے نفسانی خواہشات کو تقویت ملتی ہے۔

شرِ اصلی سے بچنا فرض ہے نہ بچنے کی صورت میں انسان مستحق عذاب ہوجاتا ہے۔شرِ غیراصلی سے پرہیز  کرنا بہتر اور مستحب ہے۔اجتناب نہ کرنے پر بندے کو میدانِ محشر میں حساب کیلئے روکا جائیگااور اس سے ہر شے کا حساب لیا جائیگااور دنیا میں بلاضرورت امور کے ارتکاب پر اسے ندامت اور عار دلائی جائیگی۔شرِ اصلی سے بچنے والے کا تقویٰ کم درجے کا ہے۔اور یہ طاعت پر استقامت کا درجہ ہے اورشرِ غیر اصلی سے بچنے والوں کا درجہ زیادہ بلند ہے کیونکہ یہ زائد از ضرورت اورمباح کا ترک ہے اور جو شخص دونوں قسم کا تقویٰ اپنے اند ر پیدا کرلے وہ کامل متقی ہے اوریہی وہ شخص ہے جس نے تقویٰ کے پورے حقو ق ملحوظ خاطر رکھے۔ایسا شخص ہی تقویٰ کے پورے فوائد حاصل کرتا ہے اسی کانام کامل ورع ہے جس پر دین کے کمال کا درومدار ہے۔بارگاہِ الہٰی میں حاضری کیلئے جن آداب کی ضرورت ہے ،وہ اسی تقویٰ سے حاصل ہوتے ہیں۔(منہاج العابدین: امام محمد غزالیؒ)

پیر، 21 مارچ، 2022

Shortclip - ہم قرآن سے تعلق کیسے بنائیں؟

تقویٰ کے مراتب

 

تقویٰ کے مراتب 

امام محمد غزالی’’ تقویٰ ‘‘کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں،تقویٰ کے تین مراتب ہیں ۔ شرک سے بچنا، بدعت سے بچنااور گناہوں سے بچنا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ تینوں مرتبے ایک آیت میں بیان فرمادیے ،

’’ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو انھوں نے کھایا جبکہ وہ تقویٰ اختیار کریں ،ایمان لائیں اور اعمال صالحہ بجالایں پھر تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لائیں پھر تقویٰ اختیار کریں اوراحسان کی راہ اختیار کریں‘‘۔

اس آیہ مبارکہ میں پہلے تقویٰ سے مراد ہے ، شرک سے پرہیز کرنا اورایمان سے توحید مراد ہے۔دوسرے سے بدعت سے اجتناب اور اس کے مقابل ایمان سے صحیح اسلامی عقائد ونظریات کا اقرار و اعتراف اور پیروی سنت مراد ہے اور تیسرے تقویٰ سے مراد ہے صغیرہ گناہوں سے بچنا اور اس کے مقابل احسان سے طاعت اور استقامت مراد ہے۔اس وضاحت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس آیت میں تقویٰ کے تینوں درجے بیان کردیے گئے ہیں،یعنی مرتبہ ایمان ،مرتبہ سنت اور اطاعتِ خداوندی پر استقامت ۔

تقویٰ کا ایک اور معنی بھی ہے اور یہ معنی نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی ایک مشہور حدیث مبارکہ میں مروی ہے ۔ ’’متقیوں کو متقی اس لئے کہا گیا ہے کہ انھوں نے اس کام کو بھی ترک کردیا جس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، یہ احتیاط کرتے ہوئے کہ اس (رخصت)کے ذریعہ سے وہ ایسے کام میں نہ پڑجائیں جس میں حرج اورگناہ ہو‘‘۔

مناسب محسوس ہوتا ہے کہ حدیث پاک میں تقویٰ کے وارد شدہ معنی اور علماء کرام کی بیان کردہ تشریح کو جمع کردیا جائے تاکہ تقویٰ کے مکمل اورپورے معنی بیان ہوجائیں۔ تو تقویٰ کے جامع معنی یہ ہوئے ’’ہر اس شے اورکام سے اجتناب کرنا جس سے دین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو‘‘۔

تم جانتے ہو کہ بخار میں مبتلا شخص جب ہر اس چیز سے پرہیز کرے جو اس کی صحت کے لیے مضرہو ،جیسے کھانا پینا اورپھل وغیرہ (اگرچہ وہ لذیذبھی ہوں اور دوسروں کے لیے فائدہ مند بھی) تو اسے اصل پرہیز کرنے والا کہتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص ہر خلاف شرح کام سے اجتناب کرے تو ایسا شخص کی درحقیقت متقی کہلانے کا حق دار ہے۔ (منہاج العابدین)

اتوار، 20 مارچ، 2022

Shortclip - کلمہ طیبہ کا مطلب؟

تقویٰ کا مفہوم

 

تقویٰ کا مفہوم

قرآن مقدس کی رو سے عبادات کی غرض وغایت تقویٰ کا حصول ہے۔امام غزالی رقم طراز ہیں ،تقویٰ ایک نہایت ہی عظیم شے ہے اس کا حصول بہت ضروری ہے اوراس کی معرفت حاصل کیے بغیر چارہ کار نہیں،لیکن ہم جانتے ہیں کہ جس قدر کوئی کام اعلیٰ وارفع ہوتا ہے اور افادیت کا حامل ہوتا ہے اسی قدر اس کی تحصیل دشوار ہوتی ہے ، اتنی ہی زیادہ مشقت اور کوشش کا تقاضا کرتی ہے اور اتنی ہی زیادہ بلند ہمتی چاہتی ہے۔لہٰذا جس طرح یہ تقویٰ ایک اعلیٰ و نفیس چیز ہے اسی طرح اس کو حاصل کرنے کیلئے عظیم مجاہدے اور شدید جدوجہد کی ضرورت ہے ۔نیز اسکے حقوق وآداب کی نگہداشت کی بھی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ درجات مجاہدے کیمطابق عطا ہوتے  ہیں جس درجے کی کوشش کی جاتی ہے اسی درجے کا انعام اورثمرہ ملتا ہے۔اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں :۔’’جن لوگوں نے ہم تک پہنچنے کیلئے پوری کوشش کی ہم انہیں ضرور باضرور اپنی طرف آنیوالے راستوں کی رہنمائی کریں گے اور بیشک اللہ نیک لوگوں کیساتھ ہے ‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ رئوف ورحیم ہے ۔ہر مشکل کوآسان کرنا اس کی دست قدرت میں ہے ۔تقویٰ کی اہمیت اور حقیقت کو نہایت غور وفکر سے سنو تاکہ اس کی حقیقت سے واقف ہونے کے بعد اس کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوسکواور اس کی حقیقت کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے رب قدیر سے مدد طلب کروکیونکہ اصل چیز اللہ ہی کی مدد ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہر ایک کو اپنے فضل وکرم سے ہدایت کی توفیق عطا کرتا ہے۔
کسی نے تقویٰ کا یہ معنی کیا ہے’’تنزیہ القلب عن ذنب لم یسبق عنک مثلہ‘‘۔’’یعنی اس گناہ کو دل سے بچانا جس کی مثل تجھ سے پہلے صادر نہیں ہوا‘‘۔تاکہ تمہارے اندر ترک معاصی کے عزم سے ہر قسم کے گناہ سے حفاظت پیدا ہوجائے ۔تقویٰ’’ وقایۃ‘‘سے ہے۔جس کا معنی ہے بچائو اور حفاظت کا ذریعہ ۔جب بندہ ترک معاصی کا پختہ عزم کرلیتا ہے اوردل کو گناہوں کے ترک پر مضبوط کرلیتا ہے تو ایسے عزم اور ارادے والے شخص کو متقی کہتے ہیں اور اس عزم ومضبوطی کو تقویٰ کہتے ہیں۔قرآن کریم میں تقویٰ کا اطلاق تین معنی میں ہوا ہے ۔۱:۔خوف وہیبت وخداوندی ۔ ۲:۔طاعت وعبادت ۔۳:۔ تنزیہ القلب من الذنوب یعنی دل کو گناہوں سے دور رکھنا ۔
تقویٰ کاحقیقی معنی یہی تیسر ا معنی ہے ۔پہلے دونوں مجازی ہیں۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اوراسکے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اوراللہ سے ڈرتے ہیں اور دل کو گناہوں سے دور رکھتے ہیں ایسے لوگ ہی کامیاب و فائز المرام ہیں۔


جمعہ، 18 مارچ، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2022 ( Surah Al-Qalam Ayat 01 - 06 Part-4 ) ...

Shortclip - ظالم کس پر ظلم کرتا ہے؟

Shortclip ہمیں دین اسلام کی کیا ضرورت ہے؟

تقویٰ کی قدرومنزلت

 

تقویٰ کی قدرومنزلت

حضرت امام غزالی ؒروایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسالت مآب ﷺدنیا کی کسی چیز پر یا کسی انسان (کے مقام ،مرتبے اور دولت پر)تعجب نہیں فرماتے  تھے،مگر صاحبِ تقویٰ پر ۔حضرت قتادہ ؓسے مروی ہے کہ تورات میں مذکور ہے ’’اے انسان !تو متقی بن جاپھر جہاں چاہے استراحت کر۔‘‘حضرت عامر بن قیس کے متعلق شنید ہے کہ آپ موت کے وقت رو پڑے حالانکہ زندگی میں آپ کی حالت یہ تھی کہ ہر روز دن رات میں ایک ہزار نفل پڑھتے تھے پھر جب اپنے بستر پر لیٹنے کیلئے آتے تو بستر کو مخاطب ہوکر فرماتے تھے ،’’اے ہر برائی کی جگہ ! خدا کی قسم میں نے تجھے ایک پلک جھپکنے کیلئے بھی کبھی پسند نہیں کیا(اور باامرمجبوری تجھ پر دراز ہوتا ہوں)‘‘۔جب موت کے وقت آپ روئے تو کسی نے کہا (اس عبادت و ریاضت کے باوجود) آپ کیوں روتے ہیں۔آپ نے جواب دیا میں اپنے پروردگار کے اس قول کو یاد کرکے روتا ہوں ’’اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کی عبادت قبول فرماتا ہے ‘‘(خبر نہیں کہ میرا شمار ان میں ہوتا ہے یا نہیں)ایک اورنکتے پر بھی غور کروجو تمام اصولوں کی اصل ہے وہ یہ کہ ایک مردِ صالح نے اپنے کسی شیخ کی خدمت میں عرض کیا:مجھے کوئی وصیت فرمائیے ،تو شیخ نے ارشادفرمایا:میں تجھے اللہ تعالیٰ کی وہ وصیت یاد دلاتا ہوں جو اس نے تمام اولین وآخرین کو کی ہے ،وہ ارشادفرماتا ہے:۔’’بے شک ہم نے ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتابیں دی گئی ہیں اور تمہیں وصیت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو‘‘۔امام غزالی فرماتے ہیں کہ بندے کی بہتری اوربھلائی کا علم اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا اورکسے ہوسکتا ہے؟حقیقت میں اللہ تعالیٰ بندے کے حق میں سب سے زیادہ خیر خواہ ،سب سے زیادہ رحم فرمانے والا اورمہربان ہے ۔اگر جہان میں بندے کیلئے تقویٰ کے علاوہ کوئی اور چیز مفید ہوتی اور اس میں زیادہ بھلائی ہوتی ،اس کا زیادہ ثواب ہوتا،عبادت میں اسکی زیادہ ضرورت ہوتی تو وہ شان میں تقویٰ سے اوپر ہوتی اوردنیا وآخرت میں تقویٰ سے زیادہ وقعت رکھتی ۔تو اللہ تعالیٰ تقویٰ کی بجائے اپنے بندوں کو اس بات کی وصیت کرتا اوراس کا حکم دیتا، اپنے خواص کو اسی کے التزام کی تاکید فرماتا کیونکہ اسکی حکمت مکمل اوراس کی رحمت وسیع ہے ۔جب اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی تاکید فرمائی اورتمام اولین وآخرین کو اسی کا حکم دیاتو ثابت ہوگیا کہ تقویٰ ہی سب سے اعلیٰ چیز ہے۔ کوئی اورچیز اس سے اعلیٰ نہیں ہے اور نہ اسکے سوا کچھ اور مقصو د ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔ 

الا انما التقوی ھی العزوالکرم  وحبک للدنیا ھوالذل والعدم 

’’سن لو کہ تقویٰ ہی عزت وبزرگی ہے اوردنیا کی محبت تو محض ذلت ومحرومی ہے‘‘۔

جمعرات، 17 مارچ، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2021 ( Surah Al-Qalam Ayat 01 - 06 Part-3 ) ...

Shortclip - دینِ اسلام کوفالو کرنے کی ضرورت کیا ہے؟

تقویٰ کی قبولیت


 

تقویٰ کی قبولیت

امام محمد بن محمد الغزالی تحریر فرماتے ہیں :دنیا اور آخرت کی تمام سعادت مندیاں اوربھلائیاں تقویٰ میں جمع کردی گئی ہیں اس لیے اے عزیز! تو بھی تقویٰ کا راستہ اختیار کراور استطاعت کے مطابق اس میں سے اپنا حصہ حاصل کر ۔تقویٰ کے فوائد میں سے تین امور خاص طور پر عبادت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اوّل:۔ عبادت کی توفیق اور اس میں اللہ رب العزت کی طرف سے اعانت اورتائید ،جیسا کہ اللہ نے ارشادفرمایا : ’’بے شک اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کے ساتھ ہے‘‘ ۔دوم:۔ اعمال کی اصلاح اوردرستگی اورعبادت کی خامیوں کو پورا کردینا ،یہ بات بھی تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔جیساکہ فرمایا : ’’تقویٰ کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح فرمادے گا ‘‘۔سوم:۔قبولیت اعمال کی فضیلت بھی اہل تقویٰ ہی کو نصیب ہوتی ہے،اللہ کریم کا ارشادہے:’’اللہ کی بارگاہ میں اہل تقویٰ کے اعمال ہی مقبول ہوتے ہیں ‘‘۔عبادت کا دارومدار بھی مذکورہ بالا تین امور پر ہے ۔پہلے تو خود توفیق عبادت کا حاصل ہونا تاکہ اللہ رب العز ت کی بندگی کی جاسکے پھر اس میں جو کمی رہ جائے اس کی اصلاح اور تلافی کا مرحلہ اور پھر اس عبادت کا حق تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول و منظور ہونا ،یہ تین امور یعنی توفیق عبادت ،اصلاح اعمال اور قبولیت اعمال ۔وہ محمود باتیں ہیں، جنہیں عبادت کرنیوالے لوگ رب ذوالجلال سے رو رو کر طلب کرتے ہیں اوردعا کرتے ہیں :’’اے ہمارے پروردگار !  ہمیں طاعت کی توفیق دے ہماری کوتاہیوں کو پورا فرمااور ہماری طاعت کو قبولیت سے سرفراز فرما‘‘۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ سے خود ہی بغیر کسی مطالبہ کے ،ان تینوں امور کا وعدہ فرمالیا اور اصحاب تقویٰ کے اعزاز واکرام کا ذکر کیا اس لیے اگر تم رب تعالیٰ کی عبادت و بندگی کرنا چاہتے ہو اور دارین کی ساری سعادتیں سمیٹنا چاہتے ہوتو اپنے وجود میں صفت تقویٰ پیدا کرو۔تو پھر اس اصل پر بھی غور کرو کہ تم ساری عمر عبادت کیلئے مشقتیں اٹھاتے ہو مجاہدے اورر یاضتیں کرتے ہو ۔ یہاں تک کہ تم عبادت کے مقصد کو پالیتے ہو،لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی عبادت دربارِ الہٰی میں مقبول ہی نہ ہوتو پھر تمہاری کوششیں ناتمام رہ گئیں اور تمہارے سارے مجاہدے اکارت گئے ۔لیکن تمہیں معلوم ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کو بشارت دی ہے: ’’اللہ تعالی اہل تقویٰ کی عبادت کو قبول فرمالیتاہے ‘‘۔کسی نے کیا خوب کہا ہے :

لایتبع المرء الیٰ قبرہٖ غیر التقی والعمل الصالح

’’قبر میں انسا ن کے ساتھ صرف تقویٰ اورعمل صالح ہی جاتے ہیں‘‘ ۔

بدھ، 16 مارچ، 2022

Shortclip - سب سے بڑا ظالم کون؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2020 ( Surah Al-Qalam Ayat 01 - 06 Part-2) در...

Shortclip - ہم کس دین کو فالو کررہے ہیں؟

Darsulquran surah al-maeda ayat 80-82.کیا ہم اللہ تعالی پر ایمان رکھنے و...

٭خطائوں کی بخشش

 

٭خطائوں کی بخشش

حضرت عامر بن عنبسہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں مذہبی طور اطوار سے مطمئن نہیں تھااورگمان کیا کرتا تھا کہ لوگ بتوں کی پرستش کی وجہ سے گمراہی پر ہیں اور وہ حقیقت میں کسی بھی دین کے پیروکار نہیں ہیں، مجھے اطلاع ملی کہ مکہ میں ایک شخص ہیں جو لوگوں کو بہت سی باتوں کی خبریں دے رہے ہیں۔ میں سوار ہوکر ان کے پاس پہنچا ، مجھے معلوم ہوا کہ آپ تو اللہ کے رسول ہیں ۔ (ایمان لانے اوراسلام کی بنیادی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد )میں نے عرض کیا :اے اللہ کے پیارے نبی !مجھے وضو کے بارے میں خبر دیجئے، آپ نے ارشادفرمایا:تم میں سے کوئی انسان جب وضوکے پانی کو قریب کرتا ہے ، پھر کلی کرتا ہے اورناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرتا ہے تواس کے چہرے کی خطائیں اس کے منہ اورناک کے اردگرد سے گرجاتی ہیں پھر جب وہ اپنے چہرے کو اللہ کے حکم کے مطابق دھوتا ہے تو اس کے چہرے کی خطائیں پانی کے ساتھ اس کی داڑھی کی اطراف سے گر جاتی ہیں ، پھر ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ ہی ہاتھوں کی خطائیں پوروں کے راستے سے گرجاتی ہیں ، اس کے بعد وہ اپنے سرکا مسح کرتا ہے تو اس کے سرکی خطائیں پانی کے ساتھ بالوں کی اطراف سے گرجاتی ہیں بعدازاں وہ اپنے پائوں کو ٹخنوں سمیت دھوتا ہے تو پائوں کے گناہ پانی کے ساتھ ہی انگلیوں کے پوروں کے راستے سے گرجاتے ہیں تو اب وہ اگر نماز کے لیے قیام پذیرہوا، اللہ رب العزت کی حمد وثناء کی ، اس کی بزرگی بیان کی جس کا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اہل ہے اوراپنے قلب کو دنیوی مشاغل اور وسوسوں سے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے الگ کرلیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو گیا جیسا کہ آج ہی ایسے اس کی ماں نے جنم دیا ہے۔(مسلم)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتائوں، جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اوردرجات کو بلند فرماتاہے ، صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ ضر ور ارشادفرمایئے ، آپ نے فرمایا :مشقت کے وقت کامل وضوکرنا ، مساجد کی طرف قدموں کی کثرت کرنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، تویہ ہے تمہاری جہاد کی تیاری ، یہ ہے تمہاری جہاد کی تیاری ، یہ ہے تمہاری جہاد کی تیاری۔(مسلم، ترمذی ،ابن ماجہ ، نسائی )

منگل، 15 مارچ، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2019 ( Surah Al-Qalam Ayat 01 - 06 Part-1 ) ...

Shortclip کیا ہمارا مقصودِ حیات صرف دنیا کی زندگی ہے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 78-79. کیا ہم نے کافرانہ روش اپنا ل...

اہلِ تقویٰ کو بشارتیں

 

اہلِ تقویٰ کو بشارتیں

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں ،اے عزیز! تجھے اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ تقویٰ ایک نادر خزانہ ہے ،اگر تم اس خزانے کو پالینے میں کامیاب ہوگئے تو تمہیں اس میں بیش قیمت موتی اورجواہرات ملیں گے اور روحانی علم ودولت کا بہت بڑا خزانہ ہاتھ لگے گا۔رزقِ کریم تمہیں میسر آجائے گااور تم بہت بڑی کامیابی حاصل کرلوگے،بہت بڑی غنیمت پالوگے اور ایک ملک عظیم یعنی جنت کے مالک بن جائو گے۔یوں سمجھو کہ دنیا و آخرت کی بھلائیاں تقویٰ میں جمع کردی گئی ہیں ۔قرآن مجید میں غور وفکر کروتو دیکھو گے کہ کہیں ارشادفرمایا ہے:’’اگر تم تقویٰ اختیار کروگے تو ہر قسم کی خیر و برکت کے مالک بن جائو گے‘‘۔ کہیں تقویٰ اختیار کرنے پر اجر وثواب کے وعدے فرمائے گئے ہیں اور کہیں فرمایا گیا ہے کہ سعادت کا ذریعہ تقویٰ اورپرہیز گاری اختیار کرنا ہے۔قرآن حکیم میں تقویٰ کے جو گو ناگوں فوائد بیان کیے ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

۱:۔اللہ تبارک وتعالیٰ خود متقی شخص کی تعریف کرتا ہے ۔’’اگرتم تقویٰ اورصبر اختیار کرو گے تو بیشک یہ باہمت کاموں سے ہے‘‘۔

۲:۔متقی شخص دشمنوں کے شر سے محفوظ ومامون رہتا ہے۔ ’’اگرتم تقویٰ اور صبر اختیار کرو گے تو تمہیں مخالفوں کے مکرو فریب کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔‘‘

۳:۔ اہل تقویٰ کو تائید وایزدی حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے۔جیسا کہ ارشادخداوندی ہے:۔’’بیشک اللہ تعالیٰ متقی اورنیکوکارلوگوں کے ساتھ ہے‘‘۔

دوسری جگہ ارشادہوتا ہے’’ اور اللہ متقیوں کا ولی(حمایتی اورکارساز )ہے‘‘۔

۴:۔ اہل تقویٰ میدان محشر کی ہولناکیوں اوروہاں کے شدتوں سے نجات میں رہیں گے اور دنیا میں انہیں رزقِ حلال و وافر نصیب ہوگا۔اللہ ارشادفرماتا ہے:’’جو شخص تقویٰ اور پرہیز گاری کو اپنا شعار بنالے گا اللہ اس کے لیے کشادگی پیدا کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہوگا‘‘۔

۵:۔تقویٰ کے باعث انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں اعزازواکرام کا مستحق ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں ’’: تم میں سے اللہ کے ہاں وہی زیادہ اکرام کا مستحق ہے جوزیادہ متقی ہے‘‘۔

۶:۔ اہل تقویٰ کو موت کے وقت ایمان اور آخرت میں نجات کی بشارت دی جاتی ہے۔’’جو لوگ ایمان لائے اورتقویٰ کی زندگی اختیار کی انہیں دنیا اورآخرت میں خوشخبری ہے۔‘‘`

پیر، 14 مارچ، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2018 ( Surah Al-Mulk Ayat 28 - 30 ) درس قرآن...

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 77.کیا ہم ایک بھٹکی ہوئی قوم ہیں

Shortclip کیا ہماری اللہ تعالیٰ سے ملاقات ممکن ہے؟

بابِ جنت

 

بابِ جنت

٭حضرت عبداللہ بن عمربن عاص بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب تعالیٰ کی رضا مندی باپ کی رضا مندی میں ہے اور رب تعالیٰ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی)   یعنی جس پر باپ راضی ہو اس پر خدا راضی ہوتا ہے اور جس پر باپ ناراض ہو اس پر خدا بھی ناراض ہوتا ہے۔٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے باپ کے آگے چل رہا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا: اس دوسرے شخص کے ساتھ تیرا کیا رشتہ ہے ؟ اس نے کہا: یہ میرا باپ ہے توحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اپنے باپ کو اس کے نام سے نہ پکارا کر ، اس کے آگے نہ چلا کر اور نہ ہی اس سے پہلے بیٹھا کر۔ (الادب المفرد)٭ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا: باپ جنت کے دروازوں میں سب سے بہتر دروازہ ہے۔ اگر تو چاہے تو (باپ کی نافرمانی کرکے) اسے ضائع کردے یا چاہے تو (باپ کی فرمانبرداری کر کے) اسے اپنے لئے محفوظ کر لے۔(ترمذی )٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں ۔اس نے دوبارہ عرض کیا : ماں کے بعد کون ہے؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں ۔ اس نے تیسری بار عرض کیا : ماں کے بعد کون ہے؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں ۔اس نے چوتھی بار عرض کیا : ماں کے بعد کون ہے؟ آپ نے فرمایا : تیرا باپ (بخاری) ٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : یارسول اللہ ! میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مکہ فتح کردیا تو میں بیت اللہ میں جاکر اس کی نچلی چوکھٹ کو بوسہ دوں گا۔ آپ نے فرمایا : تم اپنی ماں کے قدم کو بوسہ دے دو ، تمہاری نذر پوری ہوجائے گی۔ (عمدۃ القاری ) ٭ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (کنزالعمال) ٭ ایک شخص اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کررہا تھا ۔اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :نہیں یہ تواس کی ایک بار خندہ پیشانی کا بھی بدل نہیں ہے۔ (مجمع الزوائد)
٭  حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ میری والدہ میرے پاس آئیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں مشرکہ تھیں۔میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! وہ اسلام سے اعراض کرتی ہیں ۔کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟آپ نے فرمایا : ہاں تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔(بخاری ) 

اتوار، 13 مارچ، 2022

حسن ِ عمل

 

حسن ِ عمل

٭ حضرت ابو طفیل بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ مقام جعر انہ میں گوشت تقسیم کر رہے تھے اور میں اس وقت نوجوان تھا اور اونٹ کی ہڈیاں اٹھا رہا تھا۔ اس اثنا میں ایک عورت آئی اور نبی کریم ﷺکے قریب ہوئی۔ آپ نے اس کیلئے اپنی چادر بچھا دی جس پر وہ بیٹھ گئی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ آپکی وہ ماں ہے جس نے آپکو دودھ پلایا تھا۔ (ابو داؤد)٭حضور اکرم ﷺ کی رضاعی ماں یعنی حضرت حلیمہ سعدیہ جب تشریف لاتیں تو ہمارے پیارے نبی حضرت ﷺانکے احترام میں کھڑے ہو جاتے ، اپنی چادر بچھاتے اور اس پر اپنی رضاعی ماں کو بٹھاتے۔ایک رضاعی ماں جس نے صرف اپنا دودھ پلایا، اسلام میں اگر اس کا اتنا عظیم مقام ہے تو جو حقیقی ماں ہے اس کا مقام کتنا عظیم ہو گا؟ ٭ حضرت عبداللہ بن عمروبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا : کیا میں جہاد کروں ؟آپ نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا: پھر تم انکی خدمت میں جہاد کرو ۔جب تک جہاد فرض عین نہ ہو جائے اس وقت تک والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک ہونا جائز نہیں ہے۔٭ حضرت مالک بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ بنی سلمہ کے ایک آدمی نے نبی کریم ﷺسے پوچھا : کیا ماں باپ کے فوت ہونے کے بعد بھی انکے ساتھ کوئی نیکی کرنا میرے ذمہ باقی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ان کی نماز جنازہ پڑھنا ،ان کیلئے استغفار کرنا،انکے عہد کو پورا کرنا ،انکے دوستوں کی تعظیم کرنا اور انکے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ۔٭ نبی کریم ﷺنے فرمایا : (قیامت کے دن ) تین قسم کے لوگ میرا چہرہ نہیں دیکھ سکیں گے ان میں سے ایک والدین کا نافرمان ،دوسرا میری سنت کا تارک اور تیسرا جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا۔ ٭ حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضورِ اکرم ﷺ سے پوچھا: والدین کا ان کے بیٹے پر کیا حق ہے؟ حضور ِاکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے والدین تیرے لئے جنت ہیں یا دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ) یعنی والدین کی اطاعت اور خوش نودی بیٹے کو جنت میں لے جاتی ہے اور والدین کی نافرمانی ودِلآزاری بیٹے کیلئے دوزخ کا سبب بن سکتی ہے۔٭حضرت عبدالعزیز کے والد بیان کرتے ہیں کہ پیر اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور جمعہ کے دن انبیاء اور والدین کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، وہ ان کی نیکیوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور انکے چہرے خوشی سے چمک اٹھتے ہیں، پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے مرنے والوں کو اذیت نہ پہنچاؤ۔ (کنزالاعمال )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2017 ( Surah Al-Mulk Ayat 22 - 27 ) درس قرآن...

ہفتہ، 12 مارچ، 2022

صلہ رحمی

 

صلہ رحمی

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوااور عرض کیا: اے اللہ کے پیارے رسول ! میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہوں اوروہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں ۔میں عفو ودرگزرسے کام لیتا ہوں اوروہ مجھ پر ظلم روا رکھتے ہیں ۔میں ان سے حسنِ سلوک سے پیش آتا ہوں اوروہ جواب میں مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں۔کیا میں بھی ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک نہ کروں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :ہرگز نہیں!پھر تو تم بھی ان کے ساتھ ظلم میں شریک ہوجائو گے ان سے صلہ رحمی کرکے فضیلت حاصل کرو جب تک تم اس پر عمل کرتے رہو گے اللہ تبارک تعالیٰ کی مدد مسلسل تمہارے شاملِ حال رہے گی ۔کہا جاتا ہے کہ تین چیزیں اہل جنت کے اخلاق میں سے ہیں اوریہ تینوں چیزیں کسی کریم انسان میں ہی پائی جاسکتی ہیں۔

۱:۔جو احسان فراموش ہواس پر احسان کرنا ۔۲:۔ جو ظلم کرے اسے معاف کردینا ۔۳:۔ جو محروم رکھے اس پر سخاوت کرنا۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:دعائوں سے تقدیر بدل جاتی ہے نیکیوں سے عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔اورگناہوں سے معیشت (رزق) تنگ ہوجاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو اور صلہ رحمی کرتا ہو۔اس کی عمر میں اضافہ جاتا ہے ،رزق میں برکت پیداہوجاتی ہے اوراہل خانہ اس سے انس ومحبت کرتے ہیں۔

فقیہ ابواللیث سمر قندی کہتے ہیں کہ عمر کے زیادہ ہونے کا مطلب کیا ہے؟اس بارے میں صاحبان علم کی رائے مختلف ہے۔بعض نے حدیث کے ظاہری معنی مراد لیتے ہوئے کہا ہے جو صلہ رحمی کرتا ہے اس کی عمر طویل ہوجاتی ہے۔بعض حضرات کا کہنا کہ عمر متعین میں تو اضافہ نہیں ہوتا لیکن عمر کی زیادتی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے ،گویا کہ اس کی عمر میں اضافہ کردیا گیا ہے۔

حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرمایااللہ سے ڈرواورصلہ رحمی کرو۔یہ تمہارے لیے دنیا میں بھی بقا ء کا ذریعہ ہے اورآخرت میں بھی یہی بہتر ہے۔مذکور ہے کہ جب تمہارا کوئی قریبی رشتہ دار ہواورتم اس کی طرف نہ جائو اورنہ ہی اس کی مالی معاونت کرو تو گویا تم نے اس سے قطع تعلقی کرلی ۔

حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ تین باتیں ایسی ہیں جن میں مسلمان اورکافر برابر ہیں ۔۱:۔ جب وعدہ کرو توپورا کرو چاہے مسلمان کے ساتھ چاہے کافرکے ،کیونکہ وعدہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔۲:۔اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو خواہ قرابت دار مسلمان ہوں یا کافر۔۳:۔ امانت اس کے اہل تک واپس لوٹائو ،امانت رکھنے والا چاہے مسلمان ہو غیر مسلم۔(تنبیہ الغافلین)


جمعہ، 11 مارچ، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2015 ( Surah Al-Mulk Ayat 16 Part-2 ) درس قر...

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 76.ہمارے نفع اور نقصان کا مالک کون ہے

Shortclip - دنیا میں کیا ہم جنت کو خرید سکتے ہیں؟

عظمتیں رفعتیں

 

عظمتیں رفعتیں

٭ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:میرے پانچ نام ہیں،میں محمد اوراحمد ہوں (صلی اللہ علیہ وسلم)میں ماحی (مٹانے والا)ہوں،کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو محوکردے گا۔میں حاشر ہوں(روزحشر)سب لوگ میری پیروی میں ہی اورمیں عاقب (سب سے آخر میں آنے والا)ہوں۔ (بخاری، مسلم)

٭ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ،اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فہم عطافرمادیتا ہے اوربے شک تقسیم کرنے والا میں ہی ہوں،اوراللہ عطا فرماتا ہے۔(بخاری ، مسلم)

٭ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہوکر خطاب فرمایا، آپ نے اپنے اس دن قیام فرما ہونے سے لیکر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی جس کو آپ نے بیان نہ فرمادیا ہو،جس نے اسے یادرکھا سویاد رکھااورجو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔(بخاری ، مسلم)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو صوم وصال (یعنی سحری وافطاری کے بغیر مسلسل روزے رکھنے )سے منع فرمایا، انھوںمیں سے کچھ نے عرض کیا،یا رسول اللہ ! آپ خود تو صوم وصال رکھتے ہیں،اس پر آپ نے ارشادفرمایا:تم میں سے کون میری مثل ہوسکتا ہے؟میں تو اس عالم میں رات بسر کرتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا بھی ہے اورپلاتا بھی ہے۔(بخاری ،مسلم)

٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ہمایوں میں سورج گرہن ہوا، آپ نے نماز کسوف پڑھائی،صحابہ نے عرض کیا:یارسول اللہ !ہم نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کسی چیز کو پکڑا پھر ہم نے دیکھا کہ آپ قدرے پیچھے ہٹ گئے ۔آپ نے ارشادفرمایا:مجھے جنت نظر آرہی تھی ، میں نے اس میں سے ایک (انگورکا)خوشہ پکڑلیا۔لیکن اگر میں اسے توڑ دیتا تو تم رہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے رہتے (اوروہ کبھی ختم نہ ہوتا)۔(بخاری ، مسلم) 


بدھ، 9 مارچ، 2022

Shortclip - جنت کی قیمت کیا ہے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 72-75.کیا ہم شرک خفی میں مبتلا ہیں

ذوقِ عبادت

 

ذوقِ عبادت

 حضرت سالم بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں ، ایک شخص نے ، جوراوی کے گما ن کے مطابق بنوخزاعہ سے تھا کہا: کاش میں نماز میں مشغول ہوتا اوراس سے مجھے راحت ملتی۔ لوگوں نے گویا اس کے قول کو معیوب سمجھا تواس نے کہا: میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ فرماتے سنا ہے : اے بلا ل! نماز کے لیے اقامت کہو اوراس طرح ہمیں راحت پہنچائو۔(صحیح مسلم)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، ہم رات (کے کسی حصہ )میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھنا چاہتے تو نماز پڑھتے دیکھ سکتے تھے اوراگرآپ کو ہم (رات کے کسی حصہ میں)سوتے دیکھنا چاہتے تو سوتے بھی دیکھ سکتے تھے۔(صحیح بخاری)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: متاع دنیا میں سے عورتوں اورخوشبوکو میرے لیے محبوب بنایاگیا ہے اورمیری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔(صحیح بخاری)

 حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے تھے ، (یا فرمایا)نماز پڑھتے تھے حتیٰ کہ آپ کے قدم مبارک یا پنڈلیاں سوج جایا کرتی تھیں، آپ کی خدمت میں اس صورت میں حال کے متعلق کچھ عرض کیاجاتا تو آپ فرماتے : کیا میں (اللہ تعالیٰ کا)شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(سنن نسائی)

 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! آپ (کبھی )روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں تویوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ روزوں کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے، اور(کبھی)آپ افطار کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ دوبارہ روزے شروع نہیں کریں گے، سوائے دودنوں کے کہ اگروہ آپ کے معمول کے روزوں کے درمیان آجائیں تو ٹھیک ورنہ آپ ان ایام میں ضرور روزہ رکھتے ہیں ، فرمایا: وہ دن کون سے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : پیر کا دن اورجمعرات کا دن ، فرمایا:یہ دونوں دن ایسے ہیں جن میں اعمال بارگاہ خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں ، اورمیں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال جب بارگاہ خداوندی میں پیش ہوں تو اس وقت میں روزے کی حالت میں ہوں۔(سنن نسائی)


منگل، 8 مارچ، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2012 ( Surah Al-Mulk Ayat 10 - 12 ) درس قرآن...

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 70-71.کیا ہم اندھے اور بہرے بن گئے ہیں

Shortclip - کیا ہم زندگی فضول گزار رہے ہیں؟

سفرِ معراج کے چند مشاہدات

 

سفرِ معراج کے چند مشاہدات

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی قوم کے پاس سے ہوا جن کے سروں کو کوٹا جارہاتھا وہ پھر فوراً پہلے کی طرح درست ہوجاتے۔یہ سلسلہ لگاتار جاری تھا۔ حضور نے پوچھا :اے جبرئیل !یہ کون لوگ ہیں ،اس نے عرض کی یارسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو فرض نماز کی ادائیگی نہیں کرتے۔ پھر ایسی قوم دکھائی جن کے آگے پیچھے چیتھڑے تھے وہ اس طرح چررہے تھے جس طرح اونٹ اوربکریاں چرتی ہیں اورضریع (ایک خاردارکڑوی بوٹی)اورزقوم کھارہے تھے ۔حضور نے پوچھا:اے جبرئیل ! یہ کون ہیں عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ نہیں دیا کرتے اوراللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔پھر ایک ایسی قوم دکھائی دی جن کے پاس ایک ہانڈی میں پکا ہوا لذیذ گوشت ہے اوردوسری میں بدبودار گوشت ہے۔ وہ لوگ پاک اورلذیذ گوشت کو نہیں کھاتے اوراس ردی اوربدبو دار گوشت پر ٹوٹے پڑتے ہیں ،حضور نے انکے بارے میں پوچھا : انہوں نے عرض کی یہ حضور کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب بیویاں ہیں لیکن وہ بدکار عورتوں کے ساتھ رات گزارتے ہیں۔یہی حال اس عورت کا ہوگا جو حلال اورطیب خاوند کی موجودگی میں خبیث آدمی کی طرف رجوع کرتی ہے پھر راستہ میں ایک لکڑی کے پاس سے گزر ہوا جو چیز یا کپڑا اسکے نزدیک ہوتا ہے اس کو وہ پھاڑ دیتی ہے ۔ اسکے بارے میں دریافت فرمایا: جبرئیل نے جواب دیا یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جوراستوں پر کچہری لگاکر بیٹھیں گے اور لوگوں کا راستہ کاٹیں گے پھر ایک آدمی کو دیکھا جو خون کی ایک نہر میں تیررہا ہے اوراسکے منہ میں پتھر ڈالے جارہے ہیں پوچھنے پر جبرئیل نے بتایایہ سود خورہے پھر ایک ایسا آدمی نظر آیا جس نے بڑی بھاری گٹھڑی باندھی ہوئی ہے لیکن وہ اس کو اٹھا نہیں سکتا اوراس گٹھڑی میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہے حضور نے پوچھا :یہ کون ہے ؟فرمایا: یہ حضور کی امت کا وہ آدمی ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں گی اوروہ ان کو ادا نہیں کرے گااور مزید امانتیں رکھنے کا خواہش مند ہوگا پھر یہ ہیبت ناک منظر دکھائی دیا کہ قینچی کے ساتھ ایک قوم کی زبانیں اوران کے ہونٹ کاٹے جارہے ہیں وہ زبانیں اورہونٹ کٹنے کے بعد پھر جوں کے توں ہوجاتے ہیں ۔اوریہ سلسلہ جاری ہے۔حضور نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون ہیں جبرئیل نے عرض کی۔حضور کی امت کے فتنہ باز خطیب ہیں جووہ دوسروںکو کہتے ہیں اس پر خود عمل نہیں کرتے۔‘‘
پھر ایسے لوگ نظر آئے جن کے ناخن تانبے کے ہیں اوروہ اپنے چہروں اورسینوں کو ان سے کھرچ رہے ہیں۔ جبرئیل نے ان کے بارے میں عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں ۔یعنی ان کی غیبت میں مصروف رہتے ہیں اورانکی عزتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں۔(سبل الہدی بحوالہ ضیاء النبی )

ہفتہ، 5 مارچ، 2022

Shortclip - ہمیں دین اسلام کی کوئی ضرورت ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2009 ( Surah Al-Mulk Ayat 03 - 06 ) درس قرآن...

Shortclip - انسان کی کامیابی کا راستہ

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 68-69.کیا ہمارے ایمان کی کوئی حقیقت...

امین الامت

 

امین الامت

امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ شام کے دورے پر تشریف لے گئے ،عوام وخواص نے آپ کا استقبال کیا۔حضرت عمر نے پوچھا :میرا بھائی کہا ں ہے؟لوگوں نے پوچھا وہ کون ہے؟ انھوں نے فرمایا: امین الامت ابو عبیدہ ابن الجراح (رضی اللہ عنہ)۔لوگوں نے کہا :وہ ابھی آپ کے پاس آجائیں گے،کچھ ہی دیر بعد حضرت ابو عبیدہ بھی وہاں پہنچ گئے ۔حضرت عمر نے سواری سے نیچے اتر کر انھیں گلے لگا لیا ،پھر انکے گھر تشریف لے گئے۔آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ گھر میں ایک تلوار ایک ڈھال اورایک کجاوہ موجود ہے۔کجاوے کی چادر بستر کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے اورجس تھیلے میں گھوڑے کا دانہ رکھا جاتا ہے وہی تھیلا بوقت ضرورت تکیہ بنالیا جاتا ہے۔ حضرت عمر نے پوچھا: اے ابو عبیدہ ! آپ کے ساتھیوںنے مکان بنالیے ہیں اور ان میں سامان بھی ڈال لیا ہے۔آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟انہوںنے عرض کیا: اے امیرالمومنین ! قبر تک پہنچنے کے لیے یہ سامان بھی کافی ہے۔
امین الامت ابوعبیدہ ابن الجراح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت ہی جلیل القدر صحابی ہیں ۔ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے ۔یعنی وہ صحابہ کرام جنہیں آپ نے جنت کی بشارت عطافرمائی۔ حضرت حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں کہ نجران کے کچھ لوگ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: ہمارے ہاں کوئی امین آدمی بھیج دیجئے یعنی ایسا آدمی جو ہمارے جھگڑوں کا فیصلہ کیا کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: میں  ضرور تمہاری طرف ایسا امین انسان بھیجوں گا جو واقعی امین ہے ۔آپ نے تین بار اسی طرح فرمایا: جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر صحابہ کرام کو بڑا اشتیاق ہواکہ آپ کسے منتخب فرماتے ہیں۔آپ نے حضرت ابو عبید ہ ابن جراح کو منتخب فرمایا۔(بخاری شریف)

ایک دن حضرت فاروقِ اعظم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: کوئی تمناکرو،ایک شخص نے کہا :میری خواہش ہے کہ یہ دنیا سونے سے بھری ہواور میں اللہ کی راہ میں خرچ کردوں۔

آپ نے فرمایا:پھر تمنا کرو، دوسرے نے کہا: میری خواہش ہے کہ یہ دنیا جواہرات سے معمور ہو اور میں اسے راہِ للہ دے دوں۔آپ نے فرمایا: پھر تمنا کرو،انھوںنے کہا : اے امیرالمومنین ! ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔آپ نے فرمایا:میری تمناتو یہ ہے کہ کاش یہ دنیا ابوعبیدہ ابن جراح جیسے انسانوںسے بھری ہو۔

جمعہ، 4 مارچ، 2022

Shortclip - کون سے لوگوں کو اللہ تعالٰی روزِ قیامت اندھا اٹھائے گا؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2008 ( Surah Al-Mulk Ayat 01 - 02 Part-4 ) د...

Shortclip - دنیا کے دھوکے سے کیسے نکلیں؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 67.کیا ہم ایک مردہ قوم ہیں

بد گمانی سے بچو

 

بد گمانی سے بچو

صحابہ کرام حضور اکرم ﷺکی ذات والا تبار سے محبت کرتے تھے اور آپکی اطاعت کیلئے کوشاں رہتے تھے ۔ آپکے وجودِ مسعود کو اپنے لیے خیرات وبرکات کا سبب سمجھتے تھے۔ آنجناب بھی انکے جذبہ ء محبت واطاعت کی قدر دانی فرمایا کرتے تھے۔ لیکن اسکے ساتھ آپ انکی تعلیم وتربیت کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں فرماتے تھے۔ اور ایسے باریک معاملات پر بھی نظر رکھتے تھے ، جنہیں عام طرز معاشرت میں اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا۔ ذیل میں شیخین (امام بخاری وامام مسلم) کا روایت کردہ ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے ۔ عتبان بن مالک الانصاری (جو بدری صحابہ کرام میں سے ہیں )حضوراکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ۔ میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں،لیکن اب میری بینائی کمزور ہوگئی ہے، جب بارش ہوتی ہے تو میں مسجد تک نہیں جا سکتا کیونکہ میرے گھر اور اسکے درمیان ایک نالہ حائل ہے جو بہنے لگتا ہے۔ یا رسول اللہ ! میری آرزو ہے کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں اورمیرے گھر میں نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کواپنی مستقل نماز گاہ بنالوں ۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا : انشا ء اللہ تعالیٰ میں ایسا کروں گا۔ عتبان فرماتے ہیں، کہ دوسرے دن صبح کو جب ابھی کچھ دن چڑھا تھا،جنا ب رسول کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیق میرے یہاں تشریف لے آئے اور آپ نے اندر آنے کی اجازت چاہی ،میں نے آپ کو خوش آمدید کہا۔ آپ اندر تشریف لائے توبیٹھے نہیں،بلکہ مجھ سے فرمایا: تم نے اپنے گھر کی کون سی جگہ منتخب کی ہے کہ میں وہاں نماز اداکروں ۔ میں نے ایک جانب نشاند ہی کی ،آپ وہاں کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کردی ہم بھی آپکے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوگئے ۔ آپ نے دورکعتیں ادا فرمائیں اور سلام پھیردیا ۔ ہم نے آپ کو ضیافت کیلئے روک لیا۔ آپکی اطلاع پاکر محلہ والوں میں سے بھی چند افراد جمع ہوگئے، انہی میں سے کسی نے کہا۔ مالک ابن دخشن کہاں ہے؟ انہی میں سے کسی نے تبصرہ کردیا۔’’وہ تو منافق  ہے،اسے اللہ اور اسکے رسول سے کوئی محبت نہیں۔  رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ایسا مت کہو کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ لاالہ الا اللہ کا قائل ہے۔ اور اس سے وہ اللہ کی رضاء ہی چاہتا ہے ۔ اس شخص نے کہا : اللہ اور اسکے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ اسکی خیر خواہی منافقوں کی طرف ہے۔ آپ نے ارشا د فرمایا : یقینا اللہ عزوجل نے دوزخ کی آگ پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جس نے اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہا ہو اور اس کا ارادہ اس کلمہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا مند ی حاصل کر نا ہی ہو‘‘۔مالک ابن دخشن بھی بدری صحابی ہیں ۔رسو ل اللہ نے انکے اخلاص کے پیش نظر انکے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا ۔

جمعرات، 3 مارچ، 2022

Shortclip - زندگی میں کامیابی کیسے ممکن ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2007 ( Surah Al-Mulk Ayat 01 - 02 Part-3 ) ...

Shortclip - ہم مومن بننے کی ضرورت کیسے محسوس کریں گے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 66. کیا ہماری اکثریت برے کام کر رہی ہے

آسودگی

 

آسودگی

حضرت عمر ابن خطاب روایت کرتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا انہوں نے دنبے کی کھال کو اپنی کمر پر لپیٹا ہوا تھا ۔آپ نے فرمایا:اس شخص کی طرف دیکھو جس کے دل کو اللہ نے نورانی بنادیا ہے۔میں نے اس کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جس میں اس کے والدین اس کو سب سے عمدہ کھانا کھلایا کرتے تھے اور سب سے بہتر مشروب پلایا کرتے تھے۔میں نے اس کو وہ جوڑا پہنے ہوئے بھی دیکھا ہے جس کی قیمت دوسودرہم تھی۔اللہ اوراسکے رسول کی محبت میں اس نے سب کچھ ترک کردیا اور فقر و فاقہ نے اس کا جو حال کردیا ہے جو تم لوگ دیکھ رہے ہو۔(طبرانی)حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قباء میں تشریف فرما تھے آپ کے ساتھ چند صحابہ کرام بھی تھے اتنے میں مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ آتے ہوئے دکھائی دیے ۔انھوں نے اتنی چھوٹی چادر اُوڑھی ہوئی تھی جو انکے ستر کو پوری طرح ڈھانپ نہیں پا رہی تھی تمام صحابہ کرام نے سر جھکالیے ۔ مصعب بن عمیر نے قریب آکر سلام کیا ،صحابہ کرام نے انکے سلام کا جواب دیا ۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بڑی تعریف کی اور فرمایا : ’’میں نے مکہ مکرمہ میں دیکھا ہے کہ انکے والدین ان کا خوب اکرام کیاکرتے تھے۔ان کو ہر طرح کی نعمتیں فراہم کیا کرتے تھے اور قریش کا کوئی جوان ان جیسا نہیں تھا ۔لیکن پھر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کیلئے اور اسکے رسول کی اعانت کرنے کیلئے یہ سب کچھ ترک کردیا ۔غور سے سنو ! تھوڑا ہی عرصہ گزرے گا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمہیں فارس اورروم کی فتح عطافرمائے گا۔دنیا کی اتنی فراوانی ہوجائے گی کہ تم میں سے ہر آدمی ایک جوڑا صبح پہنے گا اورایک جوڑا شام کو ۔کھانے کا ایک بڑا اور لبریز پیالہ صبح تمہارے سامنے آئے گا اوراسی طرح شام کو بھی کھانے کا ایک بڑا پیالہ تمہیں ملے گا۔صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم آج بہتر حالت میں ہیں یا اس دن بہتر ہوں گے ۔ آپ نے ارشادفرمایا :نہیں آج تم لوگ بہت بہتر ہو۔ غور سے سنو ! اگر تم لوگ دنیا کے بارے میں وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تمہاری طبیعتیں دنیا سے بالکل سرد ہو جائیں ۔(حاکم) حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،جب حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو انکے پاس صرف ایک کپڑا تھا جو اتنا چھوٹا تھا کہ جب اس کپڑے سے ان کا سر ڈھانپتے تھے تو انکے پائوں کھل جاتے تھے اورجب پائوں ڈھانپتے تھے تو سر کھل جاتا تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کے پیروں پر اذخر (گھا س )ڈال دو۔(الاصابۃ)

بدھ، 2 مارچ، 2022

Shortclip - زندگی کی حقیقت

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 2006 ( Surah Al-Mulk Ayat 01 - 02 Part-2 ) د...

مسلمانوں کا ابتدائی حال

 

مسلمانوں کا ابتدائی حال

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ،میں سردی کے موسم میں صبح کے وقت اپنے گھر سے نکلا،مجھے شدید بھوک بھی لگی ہوئی تھی اور سخت سردی بھی محسوس ہورہی تھی۔ہمارے ہاں بغیر رنگی ہوئی ایک کھال پڑی ہوئی تھی میں نے اسے کاٹ کر اپنے گلے میں ڈال لیا اوراپنے سینے سے باندھ لیا تاکہ اس کے ذریعے سے کچھ تو حدّت حاصل ہو۔اور قسم بخدا ! میرے گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں تھی۔اور اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ اقدس میں بھی کوئی چیز ہوتی تو وہ مجھے مل جاتی۔

میں مدینہ منورہ میں ایک سمت نکل پڑا وہاں ایک یہودی اپنے باغ میں موجود تھا ،میں نے دیوار کے سوراخ سے اسے جھانکا ،اس نے کہا :اے اعرابی! کیا معاملہ ہے ؟کیا تم ایک کجھور کے عوض ایک ڈول پانی نکا لنے پر تیار ہو۔ میں نے کہا: ہاں! باغ کا دروازہ کھولو۔اس نے دروازہ کھول دیا ،میں اندر چلاگیا اور کنویں سے ڈول نکالنے لگاوہ مجھے ہر ڈول پر ایک کجھور دیتا رہا یہاں تک کے میری مٹھی کجھور وں سے لبریز ہوگئی ۔میں نے کہا مجھے اتنی کجھوریں کافی ہیں، میں نے وہ کجھوریں کھائیں ،پانی پیااور پھر وہاں سے مسجد نبوی میں آگیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیٹھ گیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام کی ایک جماعت بھی بیٹھی ہوئی تھی۔اتنے میں حضرت مصعب بن عمیر (رضی اللہ عنہ)بھی حاضر خدمت ہوئے ۔وہ ایک پیوند لگی ہوئی چادر اُوڑھے ہوئے تھے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو آپ کو ان کاناز ونعمت والا زمانہ یاد آگیا( جب وہ مکہ میں مقیم تھے اور نہایت ہی آسودہ حال تھے)۔ اور اب ان کی موجودہ فقر وفاقہ اور عسر ت والی زندگی بھی نظر آرہی تھی ۔اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگے اور آپ رونے لگے ۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(آج تو یہ فقروفاقہ اور تنگدستی کا زمانہ ہے لیکن )اس وقت تم لوگوں کا کیا حال ہوگا جب تم میں سے ایک شخص ایک جوڑا صبح پہنے گا اور ایک شام کو۔ تمہارے گھر وں پر ایسے (دبیز ،خوشنمااور قیمتی ) پردے لٹکائے جائیں گے جیسے کعبہ معظمہ پر لٹکائے جاتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر تو ہم اس زمانے میں زیادہ بہتر ہوں گے۔ہماری ضرورت کے کام دوسرے سرانجام دیا کریں گے۔ ہمیں مصروفیت سے چھٹکارا مل جائے گا،اور ہم اپنے معبود کی عبادت کیلئے فارغ ہوجائیں گے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :نہیں ! آج تم اس دن سے زیادہ بہتر ہو۔(ترمذی)