پیر، 14 مارچ، 2022

بابِ جنت

 

بابِ جنت

٭حضرت عبداللہ بن عمربن عاص بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب تعالیٰ کی رضا مندی باپ کی رضا مندی میں ہے اور رب تعالیٰ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی)   یعنی جس پر باپ راضی ہو اس پر خدا راضی ہوتا ہے اور جس پر باپ ناراض ہو اس پر خدا بھی ناراض ہوتا ہے۔٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے باپ کے آگے چل رہا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا: اس دوسرے شخص کے ساتھ تیرا کیا رشتہ ہے ؟ اس نے کہا: یہ میرا باپ ہے توحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اپنے باپ کو اس کے نام سے نہ پکارا کر ، اس کے آگے نہ چلا کر اور نہ ہی اس سے پہلے بیٹھا کر۔ (الادب المفرد)٭ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا: باپ جنت کے دروازوں میں سب سے بہتر دروازہ ہے۔ اگر تو چاہے تو (باپ کی نافرمانی کرکے) اسے ضائع کردے یا چاہے تو (باپ کی فرمانبرداری کر کے) اسے اپنے لئے محفوظ کر لے۔(ترمذی )٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں ۔اس نے دوبارہ عرض کیا : ماں کے بعد کون ہے؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں ۔ اس نے تیسری بار عرض کیا : ماں کے بعد کون ہے؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں ۔اس نے چوتھی بار عرض کیا : ماں کے بعد کون ہے؟ آپ نے فرمایا : تیرا باپ (بخاری) ٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : یارسول اللہ ! میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مکہ فتح کردیا تو میں بیت اللہ میں جاکر اس کی نچلی چوکھٹ کو بوسہ دوں گا۔ آپ نے فرمایا : تم اپنی ماں کے قدم کو بوسہ دے دو ، تمہاری نذر پوری ہوجائے گی۔ (عمدۃ القاری ) ٭ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (کنزالعمال) ٭ ایک شخص اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کررہا تھا ۔اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :نہیں یہ تواس کی ایک بار خندہ پیشانی کا بھی بدل نہیں ہے۔ (مجمع الزوائد)
٭  حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ میری والدہ میرے پاس آئیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں مشرکہ تھیں۔میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! وہ اسلام سے اعراض کرتی ہیں ۔کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟آپ نے فرمایا : ہاں تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔(بخاری ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

حقیقت ِدین

  حقیقت ِدین انسانی زندگی میں اصل حاکم اس کی سوچ اور فکر ہوتی ہے ۔ انسان کے تمام اعمال اس کی سوچ اور فکر کے گرد گھومتے ہیں ۔ اگر انسان کی سو...