اتوار، 31 مارچ، 2024

حضور ﷺ کی پیش گوئیاں

 

حضور ﷺ کی پیش گوئیاں

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی کریم ﷺ حضرت ام حرام ؓ کے گھر میں تشریف فرما تھے جب آپ ﷺ کی آنکھ کھلی تو آپ مسکرا رہے تھے ۔ حضرت ام حرام نے آپ ﷺ کو خوش ہوتے دیکھا تو خود بھی خوش ہو کر آپ ﷺ سے وجہ دریافت کی ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے میری امت کے وہ غازی دکھائے گئے ہیں جو سمندر میں جہاد کے لیے سفر کریں گے اور وہ اپنے جہازوں پر ایسے بیٹھے ہوئے تھے جیسے باد شاہ تختوںپر بیٹھا ہوتا ہے ۔ ام حرام نے عرض کی میرے لیے دعا فرمائی اللہ مجھے بھی ان میں شام فرمائے ۔ آپ ﷺ پھر لیٹ گئے اور تھوڑ ی دیر بعد پھر مسکراتے ہو ئے بیدار ہوئے اور فرمایا مجھے میری امت کے دوسرے غازی جہازوں پر دکھائے گئے ہیں ۔ ام حرام نے پھر درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا نہیں تو پہلے لوگوں میں سے ہے۔اس پیش گوئی کی تکمیل حضرت امیر معاویہ ؓ کے دور میں ہوئی جب آپ کے حکم پر حضرت عبادہ بن صامتؓ بحری جہاد کو گئے اور ان کی زوجہ ام حرام بھی اپنے شوہر کے ہمراہ گئیں ۔ 
جب حضور نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لا رہے تھے تو کفار نے آپ ﷺ کو پکڑنے پر سو اونٹ کا انعام رکھا ۔ سراقہ بن مالک نے آپ ﷺ کا پیچھا کیا تو قریب آ کر اس کے گھوڑے کے پاﺅں زمین میں دھنس گئے ۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تمہیں کسرٰ ی کے کنگن تیرے ہاتھوں میں ہوں گے ۔ پھر حضور نبی کریم ﷺکی یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ۔ 
حضرت سیدنا فاروق اعظم کے دور خلافت میں ایران فتح ہوا مال غنیمت میں شاہ ایران کسری کے کنگن آئے تو آپؓنے سراقہ بن مالک کو آواز دی اور سونے کے کنگن اس کے ہاتھوں میں پہنائے اور ارشاد فرمایا اے اللہ تیرا شکر ہے تو نے کسری بن ہرمز جو خود کو رب الناس کہلاتاتھا اس سے یہ کنگن چھین لیے اور سراقہ بن مالک کو پہنا دیے ۔ 
جنگ بدر میں حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی چھڑی ہاتھ میں پکڑی اور میدان جنگ کا جائزہ لینے چلے گئے کچھ صحابہ بھی حضور ﷺ کے ساتھ تھے ۔ آپ ﷺ میدان جنگ کا جائزہ لیتے ہوئے چھڑی سے نشان لگا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں اس جگہ ابو جہل قتل ہو گا ، اس جگہ عتبہ قتل ہو گا ، پھر نشان لگایااور فرمایا اس جگہ شیبہ قتل ہو گا ۔ جب جنگ شروع ہوئی تو صحابہ کرام نے دیکھا کہ جس جگہ حضور نبی کریم ﷺ نے نشانات لگائے تھے کفار اسی جگہ ہی واصل جہنم ہو رہے تھے ۔ 

Surah Al-Isra (سورة الإسرَاء) Ayat 11.کیا انسان برائی کو بھلائی پر ترج...

ہفتہ، 30 مارچ، 2024

حضور ﷺ کی پیش گوئیاں

 

حضور ﷺ کی پیش گوئیاں

حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں بہت ساری پیش گوئیاں فرمائیں جن میں سے بہت سی آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی پوری ہو گئیں اور کئی صحابہ کرام کے ادوار میں پوری ہوئیں ۔
اما م بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ارشاد فرما یا کہ آپ کو شہید کیا جائے گا جب آپ ؓ تلاوت قرآن مجید کر رہے ہوں گے ۔ پھر دیکھنے والوں نے دیکھاکہ حضور نبی کریم ﷺ کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو اس وقت شید کیا گیا جب آپ تلاوت قرآن مجید فرما رہے تھے ۔ 
امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ارشاد فرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے آپ مجھ سے ملیں گی۔اور ایسا ہی ہوا کہ آپ ﷺ کے وصال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا وصال ہو گیا اور خاندان نبوت میں سب سے پہلے حضور نبی کریم ﷺ سے جا ملیں ۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک فتنہ فساد نہیں ہو گا جب تک عمر بن خطاب ؓ زندہ ہیں ۔ آپ ﷺکی بتائی ہو ئی پیش گوئی پر صحابہ کرام کو بہت پختہ یقین تھا ۔ حضرت خالد بن ولیدؓ ملک شام میں ایک عظیم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ کسی آدمی نے کھڑے ہو کرکہا کہ اے ہمارے سپہ سالار صبر سے کام لو فتنہ فساد کا آغازہو گیا ہے ۔ آپ نے جواب دیا یہ کس طرح ہو سکتا ہے ابھی تو حضرت عمر ؓ زندہ ہیں ۔ پھر یہ ہی ہوا جب تک حضرت عمر زندہ رہے کوئی فتنہ فساد برپا نہ ہوا ۔ 
مسلم شریف میں حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم عنقریب اس ملک کو فتح کرو گے جس کے سکے کا نام قیراط ہے تم وہاں کے لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا کیونکہ ان کو ذمہ دار اور رحم کے حقوق حاصل ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم دیکھو کہ دو شخص ایک اینٹ برابر زمین پر جھگڑا کریں تووہاں سے چلے آنا ۔ پھر ایسا ہی ہوا مسلمانوں نے مصر کو فتح کیا جس کے سکے کا نام قیراط تھا ۔ حضرت ابو ذر ؓ نے مصرمیں رہائش اختیار کی ۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ حضرت ربیعہ اور حضرت عبد الرحمن بن شرجیل اینٹ برابر جگہ کے لیے لڑ رہے ہیں تو آپ ؓ کو حضور ﷺ کا فرمان یاد آیا اور آپ وہاں سے مدینہ تشریف لے آئے ۔ 

Surah Al-Isra (سورة الإسرَاء) Ayat 09-10 Part-04.کیا ہم نے دنیا کوآخرت...

Surah Al-Isra (سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء) Ayat 09-10 Part-03.کیا ہم ...

جمعہ، 29 مارچ، 2024

Toheed

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (2)

 

  حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (2)

حضرت عائشہؓ نے حضور ﷺ کی رفاقت میں آپ ﷺ کے ایک ایک عمل کو غور سے دیکھا اور دوسروں تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ صدیقہ کی صورت میں امت مسلمہ پر احسان عظیم فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی میں امت مسلمہ کی خواتین کے لیے بہترین نمونہ موجود ہے۔ آپ ﷺ کو متعدد فضیلتیں حاصل ہیں۔ 
حضور نبی کریمﷺ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ ایک بار دوران سفر حضرت عائشہ کا اونٹ بدک کر بھاگنے لگا تو آپ ﷺ بہت زیادہ بے چین ہو گئے۔ حضرت عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور ﷺ سے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ دنیا میں سب سے زیادہ کسے محبوب رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا عائشہ کو ، پھر آپ نے عرض کی کہ مردوں میں سے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ابو بکر صدیق کو۔ ( بخاری )
حضور نبی کریم ﷺ کے اسی انس کی وجہ سے حضرت عمر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔ ایک بار عراق کی فتوحات میں موتیوں کی ڈبیا آئی جس کی تقسیم دشوار تھی۔ حضرت عمر نے صحابہ کرام سے کہا کہ آپ لوگ اجازت دیں تو میں یہ موتی حضرت عائشہ کی خدمت میں پیش کر دوں کیونکہ وہ حضور ﷺ کو بہت زیادہ محبوب تھیں سب نے بخوشی اجازت دے دی۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ عائشہ کو عورتوں میں اس طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح ثرید (ایک کھانا )کو کھانوں پر فضیلت حاصل ہے ( بخاری )۔ آپ ﷺ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ بشارت دی کہ آپ ﷺ حضرت عائشہ سے نکاح فرمائیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیز آپ ﷺ کے سامنے پیش کر رہا ہے آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے تو جواب ملا کہ یہ آپ کی زوجہ محترمہ ہیں جب کھولا تو حضرت عاشہ تھیں۔(بخاری ) 
ایک بار حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک لاکھ درہم بھیجے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شام ہونے سے پہلے پہلے ساری رقم غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دی۔ اس دن آپ ﷺ کا روزہ تھا۔ ایک دن آپ روزے سے تھیں کہ ایک سائل نے سوال کیا۔ گھر میں صرف ایک روٹی تھی آپ نے وہ ہی اٹھا کر سائل کو دے دی۔ خادمہ نے عرض کی آپ شام کو روزہ کیسے افطار کریں گی۔ شام ہوئی تو کسی نے بکری کا سالن بھیجا تو خادمہ سے فرمایا دیکھو یہ تمہاری روٹی سے بہتر چیز ہے۔ سترہ رمضان المبارک کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔

Surah Al-Isra (سورة الإسرَاء) Ayat 09-10 Part-02.کیا ہمارا یوم آخرت پر...

Surah (سورة الإسرَاء) Ayt 9-10 Pt-1کیا ہم اپنے قلب کو سیاہ سےسیاہ تر...

جمعرات، 28 مارچ، 2024

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

 

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہا کی صاحبزادی تھیں ۔ آپ کا نام عائشہ اور لقب صدیقہ ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت پر والد کی طرف سے حضور نبی کریم ﷺ سے ملتا ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے والد محترم کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے مردوںمیں سب سے پہلے اسلام قبول فرمایا ۔ امام بخاری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ میں نے جب سے والدین کو پہچانا ان کو مسلمان پایا ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی رسول خدا ﷺ کے تمام کام اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی تھیں ۔ آپ آٹا پیستی اور گوند کر روٹی پکاتیں۔ آپ ﷺ کا بستر بچاتی ، وضو کے لیے پانی لا کر رکھتیں ۔آپ ﷺ قربانی کے جو اونٹ لاتے ان کے لیے قلاوة بنتی تھیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ کے بالوں میں کنگی کرتیں آپ ﷺ کو عطر لگاتی اور آپ ﷺ کے کپڑے خود دھویا کرتی تھیں ۔ جب آپ ﷺ آرام فرماتے تو مسواک اور پانی لا کر سرہانے رکھ دیتی تھیں ۔ 
ام المﺅمنین حضرت عائشہ ؓ جب گھر میں ہوتیں اور حضور نبی کریم ﷺ مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تعلیم دے رہے ہوتے تو آپ ؓ حجرہ مبارک سے آپ ﷺ کی باتیں دھیان سے سنا کرتی تھیں ۔ اور اگر کوئی بات سمجھ نہ آتی تو اسے بعد میں آپ ﷺ سے پوچھ لیا کرتی تھیں ۔ آپ ؓ ہر مسئلے کے جواب کے لیے پہلے قرآن سے رجوع فرماتی تھیں ۔ آپ ؓ نے تقریبا ۰۱۲۲ احادیث مبارکہ روایت فرمائی ہیں ۔ آپ ؓ نہ صرف احادیث روایت کیا کرتی تھیں بلکہ اس کی تشریح بھی فرمایا کرتی تھیں۔ آپ کا شمار فقہا میں ہوتا ہے اکثر لوگ آپ سے مسئلے پوچھنے او ر فتوی لینے آیاکرتے تھے ۔ 
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نہایت فصیح اللسان ، انداز گفتگو بہترین اور متاثر کن تھا ۔ آپ ؓ کے شاگرد حضرت موسی بن طلحہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے زیادہ فصیح اللسان کسی کو نہیں دیکھا ۔ آپ ؓ کو اللہ تعالی نے تقریر و خطابت کی بہت عمدہ صلاحیت بخشی تھی آپ کی آواز بلند تھی اور سننے والے والے آپ کی آواز کے جلال سے مرعوب ہو جایا کرتے تھے ۔ 
حضرت عائشہ نے حضور نبی کریم ﷺ کی رفاقت میں تقریبا نو سال بسرکیے اور اس عرصہ میں آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ ﷺ سے علم و حکمت کی ایک دنیا حاصل کی ۔ حضور نبی کریم ﷺ کے معمولات ، اخلاق حسنہ ، عادات اور زندگی کے بہت سے شعبوں میں آپ ﷺ کی تعلیمات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ذریعے ہی ہم تک پہنچیں ۔ 

Dunya main kamyabi ka raaz

Surah Al-Isra (سورة الإسرَاء) Ayat 03-08 Part-02.زمین پر خلافت کے حقدا...

Surah Al-Isra (سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء) Ayat 03-08 Part-01.کیا ہم ...

بدھ، 27 مارچ، 2024

حضرت سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا

 

حضرت سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا

ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں ۔ آپؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ تمام مردوں اور عورتوں سے قبل اسلام قبول کیا۔ کسی مرد یا عورت کو آپ پر تقدم فی الاسلام حاصل نہیں۔نبی کریمﷺ نے آپ کو یہ فضیلت بھی عطا کی کہ تما م دنیا کی چار بر گزیدہ خواتین میں آپ کو شامل فرمایا۔
 حضرت سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا مکہ کی سب سے بڑی اور مشہور تاجر تھیں تمام قریش کے اونٹوں پر کس قدر مالہوا کرتا تھا اتنا مال آپ اکیلی کا ہوتا ۔ آپؓ اپنا مال تجارت خود لے کر نہیں جایا کرتی تھیں بلکہ کسی ملازم کو بھیجا کرتیں یا پھر ان کے اوپر کوئی نگران مقرر کر دیتیں۔ ایک مرتبہ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریؓ نے حضور نبی کریمﷺ کودرخواست کی کہ وہ آپؓ کا مال تجارت لے کر جائیں ۔ نبی کریمﷺ نے آپؓ کی درخواست قبول کر لی اور آپؓ کا مال لے کر بصرہ تشریف لے گئے ۔ 
حضور نبی کریمﷺ نے سارا مال فروخت کر دیا اور وہاں سے دوسرا مال خرید کر واپس تشریف لائے ۔ اس مرتبہ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبر یؓکو   دوگنا منافع ہوا اور آپﷺ کی خدمت میں مقررکردہ منافع سے دوگنا پیش کیا ۔ آپ ؓآپؐ سے متاثر ہوئیں اور ایک عورت کے ذریعے آپؐ کو نکاح کا پیغام بھیجا جسے حضور نبی کریمﷺ نے قبول کرلیا۔
ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: وہ مجھ پر ایمان لائیں جب اوروں نے کفر اختیار کیا ، آپ نے میری تصدیق کی جب اوروں نے مجھے جھٹلایا ، اس نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا جب اوروں نے مجھے کسب مال سے روکا۔ خدا نے مجھے اس کے بطن سے اولاد دی جبکہ کسی دوسری بیوی سے نہیں ہوئی ۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس جبرائیل امین تشریف لائے اورکہا یارسول اللہﷺ، حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریؓ تشریف لا رہی ہیں ان کے ہاتھ میں ایک برتن بھی ہے جس میں شوربہ ، کھانے پینے کی کچھ چیز ہے جب وہ تشریف لائیں تو آپﷺ انھیں ان کے پروردگار اور میری طرف سے سلام پیش فرمائیے گا اور ساتھ ہی جنت میں ایک بے جوڑ موتی کے محل کی بشارت بھی سنا دیجیے گا۔ 
 حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریؓ چوبیس یا پچیس سال حضور نبی کریمﷺ کی رفاقت میں رہیں۔ ہجرت سے تین سال قبل پینسٹھ سال کی عمر میں دس رمضان المبارک کو آپؓ کا وصال ہو گیا۔ آپؓ کے وصال پر آپؐکو بہت زیادہ رنج پہنچا ۔ 

Kya humain deen-e-islam par amal ki koi zaroorat hay?

Surah Al-Isra (سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء) Ayat 02 Part-02.کیا ہم دنی...

Surah Al-Isra (سورة الإسرَاء) Ayat 02 Part-01.کیا ہم نے اللہ تعالی کو ...

منگل، 26 مارچ، 2024

معرکہ حق و باطل

 

معرکہ حق و باطل

ابو سفیان نے قافلے کا راستہ تبدیل کیا اور ساحل سمندر سے نکل گیا اور ایک قاصد قریش کی طرف بھیجا کہ وہ واپس آجائیں قافلہ بسلامت پہنچ گیا ہے ۔ مگر ابو جہل نے واپس جانے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ بدر میں تین دن قیام کریں اگر مسلمان کہیں نظر آئے تو ان سے لڑیں گے ۔ اس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی اور ۶ زریں ، ۸ تلواریں ، ۰۷ اونٹ اور ۲ گھوڑے تھے ۔ اسلام کا پرچم مصعب بن عمیر ، عقاب جھنڈا حضرت علی اور دوسرا جھنڈا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم کو عطا ہوا ۔
جنگ کا آغاز اسود بن عبد الاسد سے ہوا ۔ اس کے مقابلے میں حضرت حمزہ ؓ تشریف لائے اور ایک ہی وار میں اسے جہنم واصل کر دیا ۔ اس کے بعد عتبہ اپنے بھائی شیبہ اور اپنے بیٹے ولید کو لے کر میدان میں اترا ان کے مقابلے میں رسول خدا ﷺ نے حضرت علی ، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ کو بھیجا ۔ اللہ کے شیروں نے ان تینوں کو جہنم واصل کیا ۔ اس کے بعد عام جنگ شروع ہوئی کفار اپنی طاقت کے سہارے لڑ رہے تھے اور مسلمان اللہ تعالی کی قوت کا سہار اڈھوند رہے تھے ۔ اللہ تعالی نے اس حق و باطل کے معرکہ میں ملائکہ کے ذریعے مسلمانوں کی مدد فرمائی ۔ حضرت معوذ اور معاذ دونوں بھائیوں نے عہد کیا تھا کہ وہ حضور ﷺ کے دشمن ابو جہل کو واصل جہنم کریں گے ۔ 
حضرت عبد الرحمن بن عوف فرماتے ہیں ایک نے مجھ سے پوچھا ابو جہل کہا ں ہے میں نے کہا کیوں پوچھتے ہو کہنے لگے اللہ سے وعدہ کیا ہے کہ ابو جہل کو جہاں دیکھو ں گا واصل جہنم کروں گا ۔ ابھی جواب نہیں دیا تھا کہ دوسرے نے بھی یہی پوچھا ۔ میں نے کہا کہ وہ ابو جہل ہے میرا بتانا ہی تھا کہ دونوں ابو جہل پر جھپٹ پڑے اور اسے زخمی کر کے زمین پر گرا دیا ۔ اتنے میں ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے حملہ کر کے حضرت معاذ کا بایاں بازوںکاٹ دیا ۔ 
رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ کوئی جاکر ابو جہل کی خبر لائے اس کا کیا انجام ہوا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودگئے تو انہوںنے دیکھا کہ ابو جہل دم توڑ رہا ہے ۔ آپ نے اس کا سر کاٹ کر آپ ﷺ کے قدموں میں رکھ دیا ۔ حضور ﷺ نے تین مرتبہ فر مایا اے اللہ تیرا شکر ہے ۔ اس کے بعد حضور نبی کریم ﷺ سر بسجود ہو ئے اور پھر فرمایا کہ ہر امت میں ایک فرعون ہوتا ہے اس امت کا فرعو ن ابو جہل تھا ۔ 
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ بھی اس جنگ میں شریک تھے اور سب سے سخت جنگ کرنے والے آپ ﷺ تھے ۔ اللہ تعالی نے اس حق و باطل کے معرکہ میں مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی ۔ 

Surah Al-Isra ( الإسرَاء) Ayat 01 Part-04.کیا ہم نے نفسانی خواہشات کو ا...

Surah Al-Isra(سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء)Ayt 1 Part-3.کیا ہم روشنی کا...

پیر، 25 مارچ، 2024

Deen-e-islam kya hay?

معرکہ حق و باطل

 

معرکہ حق و باطل

 ارشاد باری تعالی ہے : اور بیشک مدد کی تھی تمہاری اللہ تعالی نے بدر میں حالانکہ تم با لکل کمزور تھے ۔ پس اللہ سے ڈروتا کہ تم شکر گزار بن جاﺅ ۔ ( سورة آل عمران )

معرکہ حق و باطل جنگ بدر سترہ رمضان المبارک کو لڑی گئی ۔ غزوہ بدر تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان معرکہ ہے جب پہلی بار اسلام اور کفر ، حق اور باطل آمنے سامنے ہوئے ۔اسلام کے مجاہد تعداد میں کفارکے مقابلے میں صرف ایک تہائی تھے اور جنگی سا زو سامان بھی بہت کم تھا ۔ مگر اس کے باوجود دشمنان اسلام کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پرا ۔اور فرزند اسلام نے کفار کی کمر توڑ دی پھر کبھی اسے حق کو للکارنے کی جرات نہ ہوئی ۔ 
اللہ تعالی نے اسے یوم الفرقان یعنی حق اور باطل کے درمیان فرق کا دن قرار دیا ۔ سورة الانفال میں اللہ تعالی فرماتاہے : اور جسے ہم نے اتارا اپنے بندہ خاص پر فیصلہ کے دن ۔ جس روز آمنے سامنے ہوئے تھے دونوں لشکر ۔ مکہ مکرمہ میں رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین مسلسل تیرہ سال کفار کا ظلم و ستم برداشت کرتے رہے ۔ اللہ تعالی نے اہل مدینہ کو اسلام کی طرف مائل کر دیا ۔ اہل مدینہ کی درخواست پر ہجرت مدینہ کا فیصلہ ہوا ۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ پہنچتے ہی مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کردیا ۔ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی طاقت کو بڑھتے ہوئے دیکھ کر کفار مکہ بے چین ہو گئے وہ کبھی بھی اسلام کو پھیلتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے انہوں نے یہود مدینہ اور عبد اللہ بن ابی سے سازباز شروع کر دی اور چراگاہوں سے مویشی چرانے شروع کر دیے ۔ جواب میں مسلمانوں نے ان کی تجارتی شاہراہ جو مدینہ منورہ کے قریب سے گزرتی تھی اس کا کنٹرول سنبھال لیا ۔
حضور نبی کریم ﷺ کو خبر ملی کہ مکہ کا سردار ابو سفیان اسی راستے سامان تجارت لے کر شام روانہ ہو گا ۔ حضور ﷺ اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگے ۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ سے قافلہ یا قریش کے لشکر میں سے کسی ایک پر فتح دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ ابوسفیان کو کسی طرح خبر ملی کہ مسلمان اس پر حملہ کر نے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ اس نے ضمضم غفاری کو ایک ہزار درہم دے کر مکہ بھیجا تا کہ وہ قریش کو مسلمانوں کے ارادہ سے آگاہ کر دے ۔ضمضم غفاری نے مکہ پہنچ کر چلانا شروع کر دیا اور کہا خاندان قریش قافلہ کی مدد کرو ۔ جب ابو جہل نے اس کی آواز سنی تو وہ دوڑتا ہوا آیا ۔ کفار مکہ نے جنگ کی تیاری بڑے زوروشور سے شروع کر دی ابو جہل نے اس تیاری میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس طرح کفار مکہ نے ایک ہزار کا لشکر تیار کر لیا ۔

Surah Al-Isra (سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء) Ayat 01 Part-02.کیا ہم سیر...

Surah Al-Isra (سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء) Ayat 01 Part-01.کیا ہم نے ...

ہفتہ، 23 مارچ، 2024

رمضان المبارک کے مسائل

 

رمضان المبارک کے مسائل

روزہ رکھنے کے لیے سحری کھانا مسنون اور ثواب ہے ۔ سحری آخری وقت میں کھانا اور اول وقت میں افطار کرنا افضل ہے ۔ کھجور سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے۔ تراویح سنت  مﺅکدہ  ہے اور اس ماہ مبارک کی خصوصی عبادت ہے ۔ نماز تراویح کی بڑی فضیلت ہے ۔ نماز عشاءکے بعد وتر سے پہلے تراویح با جماعت پڑھنا اور رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن مجید ختم کرنا مسنون ہے ۔ 
رمضان المبارک کی اہم عبادتوں میں سے ایک عبادت اعتکاف بھی ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے کافی عرصہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی ۔ اعتکاف کے لغوی معنی ہیں ٹھہرنا ۔ شریعت کی روسے اعتکاف یہ ہے کہ عبادت کے مقصد کے لیے کسی قریبی مسجد میں قیام کرنا ۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا پورا اعتکاف افضل اور کامل اعتکاف ہے۔ اس عبادت کا مقصد یہ ہے کہ بندہ دنیاوی معاملات سے دور ہو کر کچھ روز کے لیے اکیلا بیٹھ کر اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو اور اللہ تعالی کے حضور گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔اور یہی توجہ انسان کی زندگی میں تبدیلی لاتی ہے ۔ حالت اعتکاف میں فضول گفتگو اور بحث مباحثے سے بچنا چاہیے ۔ وضو ، فرض غسل کے لیے مسجدسے نکلنا جائز ہے لیکن بلا وجہ مسجد سے باہر جانا منع ہے ۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بندے کا روزہ آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک صدقہ فطر ادا نہ کر ے ۔صدقہ فطر اگرچہ رمضان المبارک گزرنے کے بعد یکم شوال کی عبادت ہے ۔ لیکن حقیقت میں یہ مالی عبادت تکمیل ماہ صیام ، عبادت روزہ کی تو فیق پر اللہ تعالی کی شکر گزاری بھی ہے اس لیے اس کا اہتمام ضروری ہے ۔ صدقہ ہر اس مسلمان پر واجب ہے جونصاب زکوة کا مالک ہو یا زمین جائیداد اور سامان وغیرہ اشیاءکا مالک ہو جو نصاب زکوة کے برابر ہو۔بالغ اور نا بالغ دونوں پر صدقہ فطر واجب ہے ۔نابالغ بچوں کی ملکیت نہ ہو تو ان کیطرف سے صدقہ فطر ان کا والد ادا کرے گا ۔ صدقہ فطر نماز عید ادا کرنے سے پہلے ادا کر دینا چاہیے ۔ صدقہ فطر کی رقم کسی ملازم کی تنخواہ میں دینا یا پھر مسجد کی تعمیر میں دینا جائز نہیں ۔ صدقہ فطر کی رقم غربا ، مساکین ، بیوہ عورتوں اور دینی مدارس کے طلباءجو واقع ہی اس کے مستحق ہو ں ان کو دینا چاہیے ۔ صدقہ فطر کی مقدار رائج الوقت وزن کے حساب سے دو کلو گندم ہوتی ہے ۔ اس سال گندم کے حساب سے صدقہ فطر کی مقدار تقریباً تین سو چالیس روپے فی کس ہے ۔ 

جمعہ، 22 مارچ، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 120-123. کامیابی کا راستہ

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 119. کیا ہم مخلص مومن ہیں

رمضان المبارک کے مسائل(۱)

 

  رمضان المبارک کے مسائل(۱)

روزہ ارکان اسلام میں سے تیسرا اہم رکن ہے جس کی فرضیت کا حکم قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ ابتدائی تاریخ سے لیکر اب تک کوئی شریعت ایسی نہیں جس میں روزے فرض نہ کیے گئے ہوں۔ مسلمانوں پر ہجرت نبوی ﷺ کے دوسال بعد دو ہجری کو روزے فرض کیے گئے۔ حدیث قدسی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ 
روزہ ہر عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ پاگل اور نا بالغ بچے کو اس عبادت سے استثناء حاصل ہے۔ مگر ایسے بچے جو بالغ ہونے کے قریب ہیں ان کو نماز کی طرح روزے کی بھی عادت ڈلوانی چاہیے۔ صوم کے اصل معنی رکنے کے ہیں یعنی شریعت کی اصطلاح میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور شہوات سے بچے رہنا روزہ کہلاتا ہے۔ 
مسافر شرعی اور وہ مریض جس کے روزہ رکھنے سے مرض بڑھ سکتا ہے ، صحت مند ہونے میں دیر لگ جائے ، حاملہ اوردودھ پلانے والی عورتیں جن کو اپنا یا بچے کا اندیشہ ہو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ روزے چھوڑ سکتے ہیں اور عذر ٹھیک ہونے پر ان کی قضا لازم ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی مستند ڈاکٹر اور عالم سے مشورہ کر لیا جائے۔ 
روزہ کی حالت میں اگر قصداً ایسی کوئی چیز کھا یا پی لی جو بطور غذا یا دوا کے لیے استعمال ہوتی ہے یا صحبت کر لی تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی قضا اور کفارہ دونوں ضروری ہیں۔ روزے کا کفارہ لگاتار ساٹھ روزے رکھنا ہے اور اگر درمیان میں کوئی ناغہ ہو گیا تو اس کی ابتدا دوبارہ نئے سرے کی جائے گی۔ ایام حیض میں ناغہ تواتر کے خلاف نہیں لیکن اس سے وہ تواتر باقی نہیں رہتا۔ اگر ساٹھ روزے لگاتار رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دووقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا نقد ہر مسکین کو بقدر صدقہ فطر دیدے۔
اگر ایسی کوئی چیز کھالی ہو جو بطور غذایا دو ا استعمال نہیں کی جاتی تو روزہ کی صرف قضا ضروری ہے کفارہ نہیں۔ ناک یا کان میں دوا ڈالنا ، منہ بھر کے جان بوجھ کے قے کرنا یا ایسی کوئی بھی چیز جس سے دھواں حلق میں چلا جائے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد ہو جائے گا اور قضا لازم ہو گی۔ کفارہ واجب نہیں۔ ٹوتھ پیسٹ ، ٹوتھ پائوڈر کا استعمال کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ مسواک کرنا،تیل لگانا ، سرمہ لگانا ، مہندی لگانا عطر سونگھنا یا بھول کر کچھ کھا پی لینا ، خود سے قے آ جانا یا گرد غبار منہ میں چلے جانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔

Mukhlis koon?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 118.کیا ہم اپنے اوپر بہت بڑا ظلم کر...

Surah An-Nahl Ayat 114-117.کیا حرام اور حلال کا فیصلہ ہم نے اپنے ہاتھو...

جمعرات، 21 مارچ، 2024

مسلمان کی حاجت روائی کی فضیلت

 

مسلمان کی حاجت روائی کی فضیلت

مسلمان کو چاہیے ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی مد د کرے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی معاونت کرو ۔ (سورۃ المائدہ )
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی مدد اور فائدے کے لیے قدم اٹھاتا ہے ، اسے اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے ایسی مخلوق کو پیدافرمایا ہے جن کا کام لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے اور اللہ تعالی نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ انہیں عذاب نہیں کرے گا جب  قیامت کا دن ہو گا ان کے لیے نور کے منبر رکھے جائیں گے وہ اللہ تعالی سے گفتگو کر رہے ہوں گے حالانکہ لوگ ابھی حساب میں ہوں گے ۔ 
نبی کریم ﷺ نے اشاد فرمایا :جو کسی مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے چاہے اس کی حاجت پوری ہو یا نہ ہو اللہ تعالی کوشش کرنے والے کے اگلے پچھلے سب گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے لیے دو باتیں لکھ دی جاتی ہیں جہنم سے رہائی اور منافقت سے برائت ۔ 
حلیہ میں ابو نعیم نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرتاہے میں اس کے میزان کے قریب کھڑا ہوں گا اگر اس کی نیکیاں زیادہ ہوئیں تو ٹھیک ورنہ میں اس کی شفاعت کرو ں گا ۔ 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چلتا ہے تو اللہ تعالی ہر قدم کے بدلے اس کے نامہ اعمال میں ستر نیکیاں لکھ دیتا ہے اور ستر گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ اگر وہ حاجت اس کے ہاتھوں پوری ہو جائے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے آیا تھا اور اگر اسی دوران اس کی موت واقع ہو جائے تو بلا حساب جنت میں جائے گا۔ 
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے کچھ ایسے انعامات ہیں جو ان لوگوں کے لیے مخصوص ہیں جو لوگوں کی حاجت روائی کرتے رہتے ہیں اور جب وہ یہ طریقہ چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالی وہ انعامات دوسروں کو منتقل کر دیتا ہے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو کسی مسلمان کی پریشانی کو دور کرے گا اللہ تعالی قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا ۔ ( مسلم شریف)  

بدھ، 20 مارچ، 2024

تین بد دعائیں (۱)

 

 تین بد دعائیں (۱)

حضرت کعب بن عجرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جائو ہم لوگ منبر کے قریب ہو گئے ۔ جب حضور نبی کریم ﷺ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین ، جب دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین اور جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین۔ جب حضور نبی کریم ﷺخطبہ فرما کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آج ہم نے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی ۔
نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اس وقت جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے تھے ۔ جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا ۔ میں نے کہا آمین۔ جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر مبارک ہو اور وہ آپ ﷺ پر درود شریف نہ پڑھے تو میں نے کہا آمین ۔ اور جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرائیل امین نے کہا کہ ہلاک ہو وہ شخص جو اپنے والدین یا پھر ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پائے اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکے تو میں نے کہا آمین ۔
جبرائیل امین علیہ السلام کی اتنی سخت بد دعا کر نا اور پھر حضور نبی کریم ﷺ کا  آمین کہنا ہمارے لیے بہت سخت وعیدہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ان تینوں کاموں سے بچنے کی تو فیق عطا فرمائے اور ہمیں رمضان المبارک کے روزے رکھنے اس کا ادب واحترام کرنے ، حضور نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ پر کثرت سے درود پاک پرھنے اور اپنے والدین کی خدمت کر نے کی توفیق عطا فرمائے ۔ 
سب سے پہلے جس شخص کا رمضان المبارک کا مہینہ غفلت اور سستی میں گزر جائے اور اس ماہ مقدس میں جب اللہ تعالی کی رحمت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو تو اپنی بخشش نہ کروا سکے تو اس کی مغفرت کے لیے اور کون سا وقت ہو گااور اس کی ہلاکت میں کیا شک ہے ۔ اس ماہ مقدس میں مغفرت کی صورت یہ ہے کہ پورے ادب و احترام کے ساتھ روزے رکھے جائیں ، نماز تراویح ادا کی جائے اور کثرت سے ذکر الہی کیا جائے اور نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ پر کثرت سے درود پاک پڑھا جائے اور اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچا جائے ۔جو شخص اس ماہ مقدس میں ایک فرض ادا کرے اسے ستر فرضو ں کا ثواب ملتا ہے ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے یہ مہینہ غم خواری کا مہینہ ہے اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے تو اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 112-113. کیا ہم اللہ تعالی کی لعنت ...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 110 Part-02.کیا انسان کی کامیابی مش...

معمولاتِ رمضان(۲)

 

معمولاتِ رمضان(۲)

رات کا قیام اورتلاوت قرآن احتساب و استغفار اورتقویٰ کے حصول کے لیے بہت ضروری ہے ۔یہ متقین کی صفت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ متقین وہ ہیں جورات کو کم سوتے ہیں اور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں ۔ماہ رمضان میں تراویح کی نماز قیام اللیل ہی ہے ۔ قیام اللیل کا دوسرا وقت وہ ہے جو آدھی رات کے بعدشروع ہوتا ہے ۔یہی وہ وقت ہے جس میں استغفار کی تاکید کی گئی ہے ۔ اگر سحری کے لیے تھوڑا جلدی جاگ جائیں اورچند رکعت نوافل ادا کر لیں اور اپنے رب کے حضور اپنی جبین نیاز کو جھکا کر اپنی غلطیوں اور گناہوں کی معافی مانگ لیں۔
ذکر اور دعا کا اہتمام پوری زندگی میں ہر وقت ضروری ہے ۔ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتاہواور اسے محبوب ہو ، وہ ذکرہے خواہ وہ دل سے کیا جائے یا پھر زبان سے ۔ روزہ بھی ان معنوں میں ذکر ہے، بھوک پیاس بھی ذکر ہے اور تلاوت قرآن پاک بھی ذکرہے ۔خصوصاً نماز تو ذکر کی اعلیٰ و ارفع مثال ہے ۔لیکن رمضان المبارک میں زبان سے کلمات طیبہ کا ذکر اور دعا کا اہتمام بہت ضروری اور نفع مند عمل ہے ۔ اس سے غفلت دور ہوتی ہے اور رمضان المبارک کی خیر وبرکت حاصل کرنے پر توجہ مرکوز رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بھی مال دیا ہے اس میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ  میں خرچ کرنا چاہیے کیونکہ مال سب سے زیادہ دنیا کی محبوب اور مرغوب چیز ہے اور دنیا کی ساری کمزوریوں کا سر چشمہ بھی ہے ۔ نبی کریمﷺ سارے انسانوں سے بڑھ کر سخی تھے لیکن رمضان المبارک میں آپﷺ کی سخاوت کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کیے گئے ایک ایک دانے اور ایک ایک پیسے پر کم سے کم سات گنا اجر کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے جس کو وہ چاہے گا اس سے بہت زیادہ عطافرمائے گا ۔  
نزول قرآن کے اس ماہ مقدس میں قرآن مجید کے پیغام کو عام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور لوگوں کو اس کی تعلیمات کی دعوت دینی چاہیے ۔ ہم رمضان المبارک میں اپنی عبادات میں مشغول رہتے ہیں اور نیکیاں سمیٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دینی چاہیے اور تا کہ لوگ اللہ کی تعلیمات کو اپنائیں اور ہمارے لیے صدقہ جاریہ بن جائے ۔  

پیر، 18 مارچ، 2024

معمولاتِ رمضان

 

معمولاتِ رمضان

ہمیں رمضان المبارک ایسے گزارنا چاہیے کہ ہم اس کی بابرکت ساعتوں سے پوری طرح مستفید ہو سکیں ۔ اس کے روزوں سے ، اس کی تراویح سے ، تلاوت قرآن سے ، عبادات سے اور اس کی راتوں سے مکمل طور پر استعداد حاصل کر سکیں ۔ان میں سے کچھ اعمال جن پر عمل پیرا ہو کر ہم رمضان اچھے طریقے سے گزار سکتے ہیں درج ذیل ہیں ۔
سب سے پہلے نیت اور پکا ارادہ ہے ۔ نیت شعورا ور احساس پیدا کرتی ہے اور اس کو متحرک کرتی ہے ۔ شعور بیدار ہو تو ارادہ پیدا ہوتا ہے اور ارادہ محنت اورکوشش کی صورت میں ظہور کرتا ہے ۔ کسی کام کے لیے مقصد کے صحیح شعور اور اس کے حصول کے لیے پختہ عزم کی حیثیت وہی ہے جو جسم کے لیے روح کی ہوتی ہے ۔اسی لیے نماز ، روزہ اور عبادت میں نیت کی تاکید کی گئی ہے ۔ لیکن نیت عمل کی روح کا کام اسی صورت کر سکتی ہے جب دل و دماغ میں عمل کا مقصداجاگر کر دے اور دل میں اس مقصد کے حصول کے لیے عزم پیدا کر دے ۔ نیت صحیح اور خالص ہونی چاہیے ۔ ہر کام اللہ تعالی کی رضاکے لیے کرنا چاہیے ۔ 
رمضان المبارک کی مخصوص عبادات یعنی روزے اور قیام اللیل کا قرآن مجید سے گہرا تعلق ہے ۔ رمضان المبارک کا اصل حاصل ہی قرآن سننا ،پڑھنا اور اسے سیکھ کر اس پر عمل کر نے کی کوشش کرنا ہے ۔ ہمیں رمضان المبارک میں اس بات کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ قرآن مجید پڑھ سکیں اور اس کے معانی ومطالب کو سیکھ کر اس پر عمل پیرا ہو سکیں ۔ 
روزہ کا مقصد تقوی پیدا کرنا ہے ۔ اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ رمضان کے علاوہ باقی دنوں میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی جائے ۔صرف اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں دن بھر بھوکا پیاسا رہنا اور اس کے بعد راتوں کو کھڑا ہو کر نماز پڑھنا اور اس کا کلام سننا اس سے ایک خاص ماحول بنتا ہے اور ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔اس ماحول اور کیفیت میں یہ جذبہ زیادہ گہرااورقوی ہو سکتاہے کہ ہم اس چیز اور کام سے بچیں جو اللہ تعالی کی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہو۔ہر لمحہ ہر قسم کی نیکی کی طلب مومن کی فطرت کا لازمی جزو ہے لیکن رمضان المبارک کے مہینہ میں اس کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس مہینہ میں نیکی کا اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے ۔ اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم تکبیر تحریمہ کا التزام کریں اور زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے کی کوشش کریں ۔

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 106-109 Part-01.ایمان باللہ کا مطلب...

اتوار، 17 مارچ، 2024

حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالی عنہا(۲)

 

حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالی عنہا(۲)

ایک دن حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک آزاد کردہ لونڈی نے پوچھا کیا کسی نے فاطمہ ؓ کے لیے پیغام حضور نبی کریم ﷺ کو بھیجا ہے ۔ حضرت علی نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم ۔ اس نے کہا کہ آپ حضور نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہو کر پیغام عرض کریں ۔ حضرت علی نے کہا میرے پاس کیا شے ہے جو میں نکاح کے لیے آپﷺ کو پیغام بھیجو ں۔ 
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا اس کے کہنے پر حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ئے ، لیکن نبوت کے رعب اور فطری حیا کی وجہ سے زبان سے کچھ کہہ نہ سکے اور سر جھکا کر آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے ۔ حضور ﷺ نے خود ہی ان کی طرف توجہ فرمائی اور پوچھا اے علی کیا بات ہے آج خلاف معمول چپ چاپ ہو کیا فاطمہ کا پیغام لے کر آئے ہو ۔ حضرت علی نے عرض کی جی یا رسو ل اللہ ﷺ ۔ حضور ﷺ نے پوچھا تمہارے پاس حق مہر ادا کرنے کے لیے کچھ ہے ؟ 
حضرت علی نے عرض کی یارسو ل اللہ ﷺ ایک زرہ اور ایک گھوڑے کے سوا کچھ نہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا گھوڑا تو لڑائی کے کام آئے گا لیکن زرہ فروخت کر کے اس کی قیمت لے آﺅ ۔ حضرت عثمان غنی نے یہ زرہ خرید لی اور پھر ہدیہ حضرت علی کو واپس کر دی ۔ 
حضرت علی یہ رقم لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقع سنایا تو آپ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے دعا فرمائی ۔ حضرت فاطمہ کی رضا مندی کے بعد آپ ﷺ مسجد نبوی تشریف لائے اور منبر پر تشریف فرما ہو کر فرمایا اے مہاجرین و انصار مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ کر دو ں ۔ پھر حضور نبی کریم ﷺ نے چار سو مثقال چاندی کے عوض حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ پڑھایا ۔ 
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت فاطمہ بہت عبادت کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود گھر کے کاموں میں کبھی فرق نہیں آنے دیا ۔ حضرت امام حسن فرماتے ہیں میری والدہ ماجدہ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ صبح سے شام تک محراب میں اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہتی ۔گریہ و زاری کرتیں اور خشوع و خضوع کے ساتھ حمد و ثناءکرتیں اور دعا مانگتیں امام حسن فرماتے ہیں ایک رات والدہ ماجدہ ساری رات عبادت میں مشغول رہیں اور صبح تک اللہ کے حضور دعائیں مانگتی رہیں ۔ تمام مﺅ منین اور مﺅمنات کے لیے دعا مانگی لیکن اپنے لیے کچھ نہیں مانگا ۔ میں نے عرض کی امی جان آپ نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا تو آپ نے فرمایا : بیٹا پہلا حق باہر والوں کا ہوتا ہے ۔اسی عبات کے شوق کی وجہ سے آپ کا لقب بتول پڑ گیا ۔ 

حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالی عنہا(۱)

 

 حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالی عنہا(۱)

حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا حضور نبی کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا فطری طور پر نہایت متین اور تنہائی پسند تھیں ۔ بچپن میں آپ نے نہ کبھی کھیل کود میں حصہ لیا اور نہ ہی گھر سے باہر نکلیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا سب سے چھوٹی تھیں اس لیے حضور نبی کریم ﷺ آپ سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے ۔ آپؓ بچپن سے ہی اپنے والد گرامی کی عادات و خصائل کا بغور مشاہدہ فرماتیں اور ان کو اپنے دل و دماغ میں منعکس کرتی رہتیں ۔
حضور نبی کریم ﷺ جب گھر تشریف لاتے تو بلند آواز سے السلام علیکم فرماتے ۔ تو سیدہ کائنات دوڑتی ہوئی آتیں اور آپ ﷺ کی انگشت مبارک پکڑ لیتی۔ حضورنبی کریم ﷺ آپ کو گود میں بٹھاتے اور محبت کے ساتھ آپ رضی اللہ تعالی عنہاکی پیشانی مبارک پر بوسہ دیتے ۔ 
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اکثر اپنے والد ماجد اور والدہ ماجدہ سے سوال پوچھتیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک دن آپ نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ اللہ تعالی جس نے ہمیں اور اس ساری کائنات کو بنایا ہے کیا وہ ہمیں نظر بھی آ سکتا ہے ۔ والدہ ماجدہ نے فرمایا : بیٹی اگر ہم دنیا میں اللہ تعالی کی عبادت کریں اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اللہ تعالی کی منع کی ہوئی باتوں سے باز رہیں ، کسی کو اللہ تعالی کا شریک نہ ٹھہرائیں ، اللہ کے آخری رسول ﷺ پر ایمان لائیں تو قیامت کے روز اللہ تعالی کا دیدار نصیب ہو گا ۔ آپ ؓ بچپن سے ہی سادہ زندگی گزارتی تھیں اور زیادہ نمود و نمائش کو پسند نہیں فرماتی تھیں ۔ 
حضرت سیدہ کے بچپن کا زمانہ تھا جب سردار مکہ حضور نبی کریم ﷺ پر ظلم و ستم کرتے تھے ۔ لیکن آپ چھوٹی ہونے کے باوجود کبھی بھی خوفزدہ نہ ہوتی تھیں۔ ہر مشکل وقت میں حضور نبی کریم ﷺ کا ساتھ دیا اور ان کی خدمت کی ۔ کبھی کبھی جذبات کو قابو میں نہ رکھ پاتیں تو رونے لگ جاتیں تو آپ ﷺ فرماتے بیٹی گھبراﺅ نہیں اللہ تعالی تمہارے باپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گا ۔
ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں ابو جہل کے کہنے پر عقبہ بن ابی معیط نے آپ ﷺ پر اونٹ کی اوجڑی رکھ دی ۔ آپ ﷺ اس وقت سجدہ کی حالت میں تھے اوجڑی کی وجہ سے آپ ﷺ کو شدید تکلیف محسوس ہوئی ۔ جب سیدہ کائنات کو پتہ چلا تو بھاگی ہوئی آئیں اور آپ ﷺ کی کمر مبارک سے اوجڑی ہٹا ئی ۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے کفار کو بد دعا دی ۔ 

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 101-105. کیا ہم لوگوں نے جھوٹ پر یق...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 98-100 part-03.کیا ہمارا بھروسہ الل...

جمعہ، 15 مارچ، 2024

روزہ اور اس کے مقاصد(۲)

 

   روزہ اور اس کے مقاصد(۲)

روزے کا پانچواں مقصد ضبط نفس کا حصول ہے۔ بھوک اور جنسی خواہش کے ساتھ تیسری خواہش راحت پسندی بھی اس کی زد میں آجاتی ہے۔ اس لیے کہ تروایح پڑھنے اور سحری کے لیے اٹھنے سے اس پر بھی کاری ضرب پڑتی ہے۔روزے کا مقصد انسان کی ان نفسانی خواہشات کو ختم کر کے اس قابل بنانا ہے کہ زندگی کے مختلف امور میں کامیابی کے لیے اس کا نفس رکاوٹ نہ بنے اور وہ زندگی میں اپنے نفس کا غلام بن کر نہ رہ جائے۔
روزے کا چھٹا مقصد روزہ دار میں بندگی کا احساس اور شعور پیدا کرنا ہے۔ یہ انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے قرار کو مستحکم کرتا ہے تا کہ اللہ تعالی کے احکامات کو بجا لاتے ہو انسان اپنی آزادی اور خود مختاری سے دست بردار ہو جائے۔ روزہ کی حالت میں وہ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے حرام کر لیتاہے اوراس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ میرا رب مجھے کسی بھی قسم کے سکون و آرام چین و راحت اور خواہش کو چھوڑنے کا حکم دے تو میں اس کے لیے ہر وقت تیار ہو ں۔ اس سے انسان میں اطاعت الٰہی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ روزے میں اگرچہ بظاہر دوخواہشات پر پابندی لگائی گئی ہے جو کہ غذا اور جنسی خواہش ہے لیکن اس کی اصل روح یہ ہے کہ انسان ہر اس کام سے باز رہے جس کو شریعت نے منع کیا ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا وہ جان لے کہ اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہے۔ ( بخاری شریف ) 
روزہ کا ساتواں مقصد یہ ہے کہ روزہ انسان کو جسمانی صحت عطا کرتا ہے۔ جس طرح حد سے زیادہ فاقہ اور بھوک جسم کو کمزور کر دیتی ہے اس سے کہیں زیادہ حد سے زیادہ کھانا پینا انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر مسلمان حضور نبی کریم ﷺ کے دین پر مکمل طور پر عمل کرنا شروع کر دیں تو وہ کئی قسم کی بیماریوں سے نجات حاصل کر لیں۔ لیکن آج ہم شریعت کے احکام کو بھلائے بیٹھے ہیں اور اپنے آقا و مولا کی رحمتوں سے محروم ہوئے بیٹھے ہیں۔آج ہماری زندگی طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے اور ہمارا ذہنی سکون تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم نفسانی خواہشات کا غلام بننے کی بجائے احکام الٰہی پر عمل کریں اور اسلامی عبادات اور احکام سے روحانی و نفسانی سکون حاصل کریں۔ اللہ پاک ہم سب کو ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برکتوں سے مالا مال فرمائے۔ آمین۔

جمعرات، 14 مارچ، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 97 part-04.کیا ہمارے دل اللہ تعالی ...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 97 part-03.کیا ہم روئے زمین پر بدتر...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 97 part-02.کیا ہم ایمان والے لوگ ہیں

روزہ اور اس کے مقاصد(۱)

 

روزہ اور اس کے مقاصد(۱)

ارشاد باری تعالی ہے : اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی بن جائو ۔ ( سورۃ البقرۃ ) 
اہل ایمان پر سابقہ امتوں کی طرح  روزے اس لیے فرض کیے گئے ہیں تا کہ وہ متقی اور پر ہیز گار بن جائیں ۔ روزے کا سب سے بڑا مقصد انسان کی سیرت میں تقوی پیدا کرنا اور اس کے قلب و باطن کو پاک اور صاف کرنا ہے ۔ روزہ دار کے باطن میں ایسی تبدیلی آنی چاہیے کہ اس کی زندگی بدل جائے اس کے دل میں گناہوں سے نفرت پیدا ہو اور نیکی کا جذبہ اجاگر ہو جائے اور انسان کے جسم میں موجود نفس امارہ کمزور ہو جائے ۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد بھی اگر انسان کے اندر تقوی کی فضا پیدا نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے روزے اس طرح نہیں رکھے جیسے اللہ تعالی کو مطلوب تھے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کتنے ہی روزے دار  ایسے ہیں کہ جن کو روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ ( مشکوۃ المصابیح)
روزہ کا ایک اہم مقصد مقام شکر کا حصول ہے ۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہنے سے اللہ تعالی کی نعمتوں کا اعتراف دل میں خوب بیٹھتا ہے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کا احساس ہوتا ہے ۔روزہ انسان کے اندر یہ جوہر پیدا کرتا ہے کہ نعمت کے چھن جانے پر اور ہر قسم کی مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت اس کی طبیعت میں ملال اور پیشانی پر شکن کے آثار پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ ہر تنگی کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتاہے ۔
روزے کا مقصد ایک دوسرے کا احساس ہمدردی اور امداد باہمی کی روح پیدا کرنا ہے ۔ روزہ صاحب استطاعت لوگوں میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ فاقہ میں کیسی اذیت اور تکلیف ہوتی ہے اس وقت اسے معاشرے کے غریب اور فاقہ سے نڈھال لوگ یاد آتے ہیں اور ان کی مشکلات اور پریشانیوں کا احساس ہوتا ہے ۔پھر ان کے اندر غربا کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ کیونکہ بھوکا اور پیاسا رہنے والے کو ہی بھوک اور پیاس کا احساس ہوتا ہے۔روزے کا چوتھا مقصد تزکیہ نفس ہے روزہ انسان کے قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف کردیتا ہے۔روزہ جسم کو اپنا پابند بنا کر مادی قوتوں کو لگام دیتا ہے جس سے روح قوی تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ لگاتارروزے رکھنے کی وجہ سے تزکیہ نفس کا عمل تیز ہو جاتا ہے جس سے روح ثقافتوں سے پاک ہو کر بندہ مومن میں قوت پیدا کر دیتی ہے ۔

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 97 part-01.اطمینان والی زندگی آخر کیسے

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 96 part-03.کیا ہم صرف ظاہر کے دیوان...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 96 part-02.کیا ہمیں دنیا جنت سے زیا...

بدھ، 13 مارچ، 2024

Zaahir ki Haqeeqat

رمضان المبارک کے فضائل(۲)

 

   رمضان المبارک کے فضائل(۲)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی ابن آدم کے نیک عمل کو دس سے سات سو گنا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزے کی جزا میں خود دیتا ہوں کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور بندہ اپنی خواہشات اور کھانے پینے کو میرے لیے ترک کر دیتا ہے اور روزہ ، روزہ دار کے لیے ڈھال ہے اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطاری کے وقت اور دوسری خوشی بروز قیامت اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت نصیب ہو گی۔ 
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص رمضان میں روزہ رکھ کر خاموشی اختیار کرتاہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہتا ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کوحرام سمجھتا ہے اور برے کاموں سے اجتناب کرتا ہے تو اللہ تعالی ماہ رمضان المبارک کے اختتام پر اس کے تما م گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ اس کی ہر تسبیح پر اس کے لیے جنت میں سبز زمرد کا ایک مکان بنایا جاتا ہے جس میں سرخ یاقوت کے علاوہ ایک خول دار موتی کا خیمہ ہوتا ہے اس خیمے میں خوبصورت آنکھوں والی اور سونے کے کنگن پہنے ہوئے ایک حور ہوگی جس کے کنگنوں پر سرخ یاقوت ہوں گے جس سے زمین منور ہوتی ہو گی۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب چاند والی رات آتی ہے تو اس کو آسمانوں میں لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات شمار کیا جاتا ہے اور جب عید کے دن صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو زمین پر بھیج دیتا ہے جو آوازیں دیتے ہیں جنہیں انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ 
اے امت محمدیہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف چلو جو بغیر حساب کے عطا فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو معاف فرمانے والا ہے اور جب لوگ عید کی نماز ادا کرنے کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے اے فرشتو کیا اجرت ہے اس مزدور کی جو اپنا کام پورا کر لیتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں باری تعالی اسے وافر مقدار میں اجرت دی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے فرشتو گواہ ہو جائو میں نے صوم اورتراویح کے بدلے میں ان کو اپنی رضا اور مغفرت عطا فرمائی ہے۔ اللہ فرماتا ہے اے میرے بندو مانگو مجھ سے جو مانگنا چاہتے ہو مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم آج دین و دنیا کی جو چیز مانگو گے وہ میں تمہیں عطا کروں گا۔

منگل، 12 مارچ، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 95.کیا ہم نے دنیا کے فائدے کے عوض آ...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 93-94.کیا ہم اور لوگوں کو اپنے عمل ...

Kamyabi ka raaz

رمضان المبارک کے فضائل(۱)

 

رمضان المبارک کے فضائل(۱)

 حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی ہر شب کو تین مرتبہ فرماتا ہے کہ کوئی سائل ہے جسے میں عطا کرو ں کوئی توبہ کرنے والا ہے جس کی میں توبہ قبول کروں ۔ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا جسے میں بخش دوں ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہے کوئی ایسے غنی کو دینے والا جو  محتاج نہیں اور وہ پورا پورا قرض ادا کرنے والا ہے ۔ 
رمضان المبارک میں ہر روز افطار کے وقت اللہ تعالیٰ ایک لاکھ دوزخیوں کو دوزخ سے نجات عطا کر تا ہے جو عذاب کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اور جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ ایسے دس لاکھ دوزخیوں کو دوزخ سے آزاد فرماتا ہے جو عذاب کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اور رمضان المبارک کے آخری دن اتنے ہی جہنمیوں کو جہنم سے آزادی دی جاتی ہے جس قدر پورے رمضان میں بخش دیے گئے تھے ۔
 حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کو ماہ رمضان المبارک میں خاص طور پر ایسی پانچ چیزیں عطا کی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں تھیں ۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: 
۱۔ روزہ دار کے منہ سے آنے والی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے ۔ ۲۔ سحری سے لے کر افطاری تک فرشتے روزہ دار کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں ۔ ۳۔ رمضان المبارک میں سر کش شیطانوں کو قیدکر دیا جاتا ہے اور دوسرے مہینوں میں جس طرح برائیاں کرتے ہیں ماہ رمضان میں نہیں کر سکتے۔ ۴۔ ماہ رمضان میں روزے دار کے لیے جنت ہر روز آراستہ کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ جنت سے ارشاد فرماتا ہے قریب ہے کہ میرے صالح بندے دنیا کی مشقوں سے نجات حاصل کر کے تیری جانب آئیں ۔ ۵۔ رمضان المبارک کی آخری رات روزہ داروں کو بخش دیا جاتا ہے ۔
حضور نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا تمہارے ہاں ماہ رمضان آ گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان المبارک کے روزے فرض کیے ہیں ۔ اس ماہ مبارک میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۔ شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے اور اس ماہ مبارک میں ہزار مہینوں سے افضل رات لیلۃ القدر ہے ۔ 
حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں یہ ہمیں پاک کرتا ہے۔ پورا ماہ رمضان خیرو برکت سے بھرا ہوا ہوتا ہے دن کے روزے اور رات کا قیام اور اس میں خرچ کرنا جہاد میں خرچ کرنے کے مترادف ہے ۔ 

پیر، 11 مارچ، 2024

زکوٰة

 

زکوٰة

زکوة اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے ۔ زکوة کامقصد یہ ہے کہ دولت صرف چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے بلکہ معاشرے میں گردش کرے اور کوئی بھی مفلس یا غریب تنگ دست نہ ہو ۔زکوة ادا کرنے والوں پر رحمت الٰہی کا نزول ہوتا ہے ۔
 ارشاد باری تعالی ہے : اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوة ادا کرتے ہیں ۔ ( سورة الاعراف )۔
سورة المﺅمنون میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتے ہیں اور جوکسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکوة دینے کا کام کرتے ہیں ۔ 
ارشاد باری تعالی ہے : بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے ۔ وہ لوگ کہ ہم اگر انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز قائم رکھیں اور زکوة دیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لیے سب کاموں کا انجام ہے ۔ ( سورة الحج ) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے مال ودولت کا حق ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کے پہلو اور پیٹھ جہنم کے سخت گرم پتھروں سے داغی جائیں گی اور اس کاجسم وسیع کر دیا جائے گا اور جب کبھی اس کی حرارت میں کمی آئے گی اس کو بڑھا دیا جائے گا اور دن اس کے لیے طویل کر دیا جائے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی یہاں تک کہ بندوں کے اعمال کا فیصلہ ہو گا پھر وہ جنت کی طرف اپنا راستہ اختیار کرے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے : 
جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں عذاب الیم کی خوشخبری دے دو ۔جس دن ان کے مال کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ا ن کے پہلوﺅں ‘ پیشانیوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا کہ یہ ہے جو کچھ تم نے جمع کیا تھا اب اپنے جمع کردہ مال کا مزہ چکھو ۔ ( سورة التوبہ) 
قیامت کے دن فقرا اغنیا ءکے بارے میں اللہ تعالی سے عرض کریں گے اے اللہ انہوں نے ہمارے حقوق غصب کر کے ہم پر ظلم کیا تھا ۔ اللہ تعالی فرمائے گا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم آج میں تمہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دوں گا اور نہیں اپنی رحمت سے دور کر دو ں گا ۔ پھر حضور نبی کریم ﷺ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : اغنیائ کے مال میں سائل اور فقراءکا ایک معین حق ہے ۔

اتوار، 10 مارچ، 2024

Surah An-Nahl Ayat 92 Part-02.کیا ہم سب دنیا کے امتحان میں فیل ہونے کے ل...

Surah An-Nahl Ayat 92 Part-01.کیا ہم سب دنیا کے امتحان میں فیل ہونے کے ...

فضائلِ صدقہ و خیرات

 

فضائلِ صدقہ و خیرات

 نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص حلال کی کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے اپنی برکت سے قبول فرما لیتا ہے پھر اس کی صاحب صدقہ کے لیے پرورش کرتا ہے جیسے تم اپنے بچھڑوں کی پرورش کرتے ہو یہاں تک کہ وہ صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’ کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات لیتا ہے ۔ 
طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : صدقہ مال کو کم نہیں کرتا اور نہ ہی بندہ صدقہ دینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے مگر وہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں جاتا ہے یعنی اللہ تعالی اسے سائل کے ہاتھ میں جانے سے پہلے قبول کر لیتا ہے اور کوئی بندہ بے پروائی کے باوجود سوال کا دروازہ نہیں کھولتا مگر اللہ تعالی اس پر فقر کھول کر دیتا ہے ۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی ایک ایسا نہیں ہے مگر اللہ تعالی بغیر کسی ترجمان کے اس سے گفتگو فرمائے گا آدمی اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو اسے وہ ہی کچھ دکھائی دے گا جو اس نے آگے بھیجا ہے اور اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے مقابل میں آگ نظر آئیگی پس تم اس آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کر کے بچ سکو ۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اے کعب بن عجرہ جنت میں وہ خون اور گوشت نہیں جائے گا جو حرام طریقہ سے حاصل کردہ مال سے پھلا پھولا ہو ، اے کعب بن عجرہ لوگ جانے والے ہیں بعض جانے والے اپنے نفس کو رہائی دینے والے ہیں اور بعض اسے ہلاک کرنے والے ہیں اے کعب بن عجرنماز نزدیکی ہے اور روزہ ڈھال ہے صدقہ گناہوںکو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے چکنے پتھر سے کائی اتر جاتی ہے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اور موت کی زحمتوں کو دور کردیتا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی گئی یا رسول اللہ ﷺ افضل صدقہ کون سا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کم حیثیت شخص کا کوشش سے خرچ کرنا اور اپنے اہل و عیال سے اس کی ابتدا ء کرنا ۔ 
سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : اگر تم اپنے صدقات کو ظاہر کرو تو اچھا ہے اور اگر تم انہیں چھپائو اورفقیر کو دو تو تمہارے لیے بہت اچھا ہے ۔ 

ہفتہ، 9 مارچ، 2024

Kya hum fitrat kay khilaaf zindagi guzaar rahay hain?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 91 Part-02.کیا ہم نے دنیا کو مقصود ...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 91 Part-01.کیا ہم اللہ تعالی سے کیا...

فضیلت مسجد

 

فضیلت مسجد

ارشاد باری تعالی ہے : اللہ کی مساجد کو صرف وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں ۔ ( سورة التوبہ)
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے مسجد بنائی اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں محل بنائے گا ۔
حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی مسجد سے محبت رکھتا ہے اللہ تعالی اس سے محبت رکھتا ہے ۔نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز اداکرے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی فرد جب تک جاءنماز پر رہتا ہے فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے اللہ ! اس پر سلامتی نازل فرما اے اللہ اس پر رحم فرما اور اے اللہ اسے بخش دے ۔ یہ دعائیں اس وقت تک جاری رہتی ہیں جب تک وہ کسی سے بات نہ کرے یا مسجد میں سے نکل نہ جائے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو مسجد میں آنے کا عادی ہو تو اس شخص کے ایمان کی گواہی دو ۔ نبی آخرالزمان ﷺ نے ارشاد فرمایا : الہامی کتابوں میں موجود ہے کہ زمین پر مسجدیں میرا گھر ہیں اور ان کی تعمیروآبادی میں حصہ لینے والے میرے زائر ہیں پس خوشخبری ہے میرے اس بندے کے لیے جو اپنے گھر میں طہارت حاصل کر کے میرے گھر میں میری زیارت کو آتا ہے ۔ لہذا مجھ پر حق ہے کہ میں آنے والے زائر کو عزت و وقارعطا کروں ۔ مسجد میں بیٹھ کر دنیاوی باتیں کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : آخر زمانہ میں میری امت کے کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو مسجدوں میں آئیں گے اور گروہ بنا کر دنیاوی باتیں کرتے رہیں گے اور دنیاکی محبت کے قصے بیان کریں گے ان کے ساتھ نا بیٹھنا اللہ تعالی کو ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ 
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ جوشخص مسجد بیٹھا ہے گویا وہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا ہے لہٰذا اسے چاہیے کہ بھلائی کے سوا کوئی اور بات نہیں کرے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے جو شخص مسجد میں چراغ جلاتا ہے جب تک چراغ کی روشنی سے مسجد منور رہتی ہے عاملین عرش اور تمام فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں زمین کا ہر وہ ٹکڑا جس پر نماز ادا کی جاتی ہے یا اللہ تعالی کا ذکر کیا جاتا ہے وہ اردگردکے تمام قطعات پر فخر کرتا ہے اور اوپر سے نیچے ساتویں زمین تک وہ مسرت شادمانی محسوس کرتا ہے ۔

جمعہ، 8 مارچ، 2024

کیا ہمارا رخِ زندگی اللہ تعالٰی کی طرف ہے؟

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 90.کیا زندگی گزارنے کی ہماری ترجیح ...

Surah An-Nahl Ayat 89 Part-02.کیا ہم نے اللہ تعالی کے احکامات کے سامنے ...

حقوق العباد(۲)

 

 حقوق العباد(۲)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ مجھے ایسا عمل بتائیں جس سے مجھے نفع حاصل ہو۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دیا کرو۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مسلمانوں کے راستے سے کسی ایسی چیز کو دور کر دیتا ہے جس سے انہیں تکلیف ہوتی ہو تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کی نیکی لکھ دیتا ہے اور جس کے لیے نیکی لکھ دیتا اس کے لیے جنت کو واجب کر دیتا ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی طرف اس طرح کا اشارہ کرے جسے وہ پسند نہ کرتا ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان بھائی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ مومن کی تکلیف کونا پسند فرماتا ہے۔ 
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی نازل فرمائی کہ تم تواضع کرو اور ایک دوسرے پر فخر و تکبرنہ کرو ، اگر کوئی دوسرا تم سے تکبر سے پیش آئے تو برداشت کرو چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے ارشاد فرمایا : ” در گزر اپنائیے ، نیکی کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے منہ پھیر لیجیے۔ ( سورة الاعراف ) 
حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور ﷺ ہر مسلمان سے تواضع سے پیش آتے اور بیوہ اورمسکین کے ساتھ چل کر ان کی حاجت روائی کرنے میں عار محسوس نہ فرماتے اور نہ ہی تکبر سے کام لیتے۔ یہ بھی حقوق العباد میں شامل ہے کہ لوگوں کی باتیں ایک دوسرے کو نہ بتلائے اور کسی کی بات کسی دوسرے کو نہ بتائے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔خلیل بن احمد کا قول ہے جو تیرے سامنے دوسرے لوگوں کی چغلیاں کرتا ہے وہ تیری چغلیاں بھی دوسروں کے سامنے کرتا ہے اور جو تجھے دوسروں کی باتیں بتاتا ہے وہ تمہاری باتیں بھی دوسروں کو بتا تا ہو گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا لیکن جب بات حدوداللہ کی ہوتی تو آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بدلہ لیا کرتے تھے۔ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا صدقہ سے ما ل کم نہیں ہوتا ، عفو و درگزر کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان کی عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔