پیر، 31 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1976 ( Surah At-Taghabun Ayat 08 - 09 ) درس ...

Shortclip - کیا صرف دنیا کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے؟

Shortclip-کامیاب انسان کون ہے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 41 part-01.کیا ہمارے دل میں ایمان ک...

اقوالِ صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ(۱)

 

اقوالِ صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ(۱)

٭عاجز ترین وہ شخص ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو اوراگر بہم پہنچے تو معمولی ملال سے اس کو چھوڑدے۔

٭ماں پاب کی خوشنودی دنیا میں موجب دولت اورعاقبت میں باعث نجات ہے۔

٭گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے مگر گناہ سے بچنا واجب تر ہے۔٭جو امر پیش آتاہے وہ نزدیک ہے لیکن موت اس سے بھی نزدیک تر ہے۔

٭شرم مردوں سے خوب ہے مگر عورتوں سے خوب تر ہے۔٭پاک نفس آدمی شہر ت میں عورتوں سے زیادہ شرماتا ہے۔

٭دنیا کے ساتھ مشغول ہونا جاہل کا بد ہے لیکن عالم کا بدترہے۔

٭گناہ، جو ان کا ابھی اگر چہ بد ہے لیکن بوڑھے کا بدتر ہے۔٭بخشش کرنا امیر سے خوب ہے لیکن محتاج سے خوب ترہے۔

٭علم پیغمبروں کی میراث ہے اورفرعون وقارون کی میراث مال ہے۔

٭موت سے محبت کروتو زندگی عطا کی جائیگی۔

٭میری نصیحت قبول کرنے والا دل‘موت سے زیادہ کسی کو محبو ب نہ رکھے ۔

٭دل مردہ ہے اوراس کی زندگی علم ہے۔ علم بھی مردہ ہے اوراس کی زندگی طلب کرنے سے ہے۔ 

٭جو اللہ کے کاموں میں لگ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔

٭دنیا اوردنیا کی چیزیں اس قابل نہیں کہ ان سے دل لگایا جائے اس لئے کہ جو مشغول بہ فانی ہوگیا وہ باقی کے ساتھ محجوب ہوجائے گا۔ 

٭بدبخت ہے وہ شخص جو خود تو مرجائے لیکن اس کا نہ گناہ نہ مرے۔

٭مصیبت کی جڑ اور بنیاد انسان کی گفتگو ہے۔ 

٭خبردار! کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو حقیر نہ سمجھے کیونکہ کم درجے کا مسلمان بھی خد ا کے یہاں بسااوقات بلند مرتبہ رکھتا ہے۔ 

٭وہ علماء حق تعالیٰ کے دشمن ہیں جو امراء کے پاس جاتے ہیں اوروہ امرا‘حق تعالیٰ کے دوست ہیں جو علماء کے پاس آتے ہیں۔

٭بری صحبت سے تنہائی اورتنہائی سے علماء کی صحبت بدر جہا اکبر ہے۔

٭نماز کو سجد ہ سہو پورا کرتا ہے ۔روزوں کو صدقہ پورا کرتا ہے۔حج کو فدیہ قربانی پورا کرتا ہے اورایمان کو جہاد پورا کرتا ہے۔

اتوار، 30 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1975 ( Surah At-Taghabun Ayat 07 ) درس قرآن ...

Shortclip - صاحبِ ایمان کون

Shortclip - کیا ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں؟

حضرت صدیقِ اکبر کا ایک خطبہ

 

حضرت صدیقِ اکبر کا ایک خطبہ

میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ سے ڈرو،اس کی شان کے مطابق اس کی حمد کرو۔اور اللہ کے عذاب خوف تو ہونا چاہیے لیکن ساتھ ساتھ اس کی رحمت کی امید بھی رکھو۔اور اللہ سے خوب گڑگڑا کر مانگو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور انکے گھر والوں کی قرآن میں تعریف فرمائی ہے اور ارشادفرمایا ہے:’’یہ سب نیک کاموں میں تندہی کرتے تھے۔اور امید وبیم کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے خشیت اختیار کرتے تھے‘‘۔(انبیاء ۔۱۹) 

پھر اے اللہ کے بندوں تم بھی یہ جان لوکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بدلے میں تمہاری جانوں کو رہن رکھا ہوا ہے ۔اور اس پر اللہ نے تم سب سے پختہ عہد بھی لیا ہے اور اس نے تم سے دنیا کے قلیل اور ناپائیدار سامان کو آخرت کے کثیر اور دائمی اجر کے بدلے میں خرید لیا ہے۔اور یہ تمہارے درمیان اللہ رب العز ت کی کتاب ہے جس کے عجائب ختم نہیں ہوسکتے ۔اور جس کا نور کبھی بجھ نہیں سکتا لہٰذا اس کتاب کے ہر قول کی تصدیق کرواور اس سے نصیحت حاصل کرو۔اور قبر کے تاریک دن کے لیے اس میں سے روشنی حاصل کرو۔

اللہ نے صر ف تمہیں عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور (نامہ اعمال لکھنے والے)کریم فرشتوں کو تم پر مقرر کیا ہے جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔ تو پھر اے اللہ کے بندوں یہ بھی جان لوکہ تم صبح وشام اس موت کی طرف پیش قدمی کر رہے ہو جس کا وقت مقرر ہے لیکن تمہیں اس سے آگاہ نہیں کیا گیا ۔تم اس بات کی پوری کوشش کرو کہ جب تمہاری عمر کا آخری وقت آئے تو تم اس وقت اللہ کے کسی کام میں مصروف ہواور ایسا تو تم صرف اللہ کی مدد ہی سے کرسکتے ہو۔لہٰذا عمر کے مکمل ہونے سے پہلے تمہیں جو مہلت ملی ہوئی ہے اس میں نیک اعمال میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ ورنہ تمہیں اپنے برے اعمال کی طرف جانا پڑے گا۔ بہت سے لوگوں نے اپنے آپ کو فراموش کررکھا ہے اور اپنی عمر دوسروں کو دے دی ہے یعنی اپنے ایمان و عمل کی انہیں کوئی فکر نہیں میں تمہیں ان جیسا بننے سے سختی سے روکتا ہوں۔(نیکی اختیار کرنے میں )جلدی کرو کیونکہ          تمہارے پیچھے موت کا فرشتہ لگا ہوا ہے جو تمہیں تیزی سے تلاش کر رہا ہے اوراس کی رفتار بھی بہت تیز ہے۔(اور یادرکھو !)اس قول میں کوئی خیر نہیں جس سے اللہ کی رضاء مقصود نہ ہواور اس مال میں کوئی خیر نہیں  جسے اللہ کے رستے میں خرچ نہ کیا جائے ۔اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جس کی نادانی اس کی بردباری پر غالب ہواوراس آدمی میں بھی کوئی خیر نہیں جو اللہ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ڈرے۔(ابو نعیم ،حاکم)


جمعہ، 28 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1973 ( Surah At-Taghabun Ayat 03 Part-2 ) در...

خلیفہ الرسول کا طرز عمل

 

خلیفہ الرسول کا طرز عمل

 حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہء رسول منتخب ہوئے۔اس وقت آپ محلہ سخ میں مقیم تھے۔ بیعت کے بعد آپ چھ ماہ تک وہیں قیام پذیر رہے۔ اکثر صبح پیدل مدینہ منورہ جاتے،کبھی گھوڑے پر بھی سوار ہوجاتے ۔انکے جسم پر ایک لنگی اور گیروے رنگ سے رنگی ہوئی ایک چادر ہوتی ۔عشاء کی نماز کے بعد آپ اپنے اہل خانہ کے پاس واپس آجاتے۔ان کا معمول تھا کہ شام کو اپنی بکریوں کا دودھ نکالتے تواہل محلہ کی بکر یوں کا دودھ بھی دوھ دیتے ۔جب آپکو خلافت تفویض ہوئی۔تو ایک بچی نے کہا اب ہماری بکریوں کا دودھ کون نکال کردیا کریگا۔یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’میری عمر کی قسم یہ کام میں ہی سرانجام دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ خلافت کی ذمہ داری مجھے ان اخلاقِ کریمانہ سے نہیں روکے گی،جو پہلے سے مجھ میں ہیں۔‘‘کبھی کبھی ازرہِ خوش طبعی ،اس بچی سے پوچھتے :اے لڑکی ! تم کیسا دودھ چاہتی ہو جھاگ والا یا بغیر جھاگ کے ،کبھی وہ کہہ دیتی جھاگ والا کبھی کہہ دیتی بغیر جھاگ کے۔آپ خوش دلی سے اس کا مطالبہ پورا کردیتے۔ایک دن وہ تجارت کی غرض سے بازار کی طرف نکلے،توحضرت عمر نے کہا کہ اگر آپ تجارت میں مشغول ہوجائیں گے تو سلطنت کے امور کون انجام دے گا۔ اس پر آپ نے استفسار فرمایا:کہ پھر میری گزر اوقات کیسے ہوگی؟یہ معاملہ شوریٰ کے سامنے پیش ہوا۔شوریٰ نے ان کیلئے اتنا وظیفہ مقرر کردیا جس سے ان کااور انکے اہل خانہ کاایک دن کاگزارہ ہوجائے اوروہ اس وظیفہ سے حج وعمرہ بھی کرسکیں ۔اوریہ روزینہء اتنا ہی تھا جتنا کہ ایک عام مہاجر خاندان کو بیت المال سے میسر آتا۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے اپنے دورانیہ خلافت میں بیت المال سے کل آٹھ ہزار درھم وصول کیے۔جب آپکی رحلت کا وقت قریب آیاتو آپ نے ارشادفرمایا ،ہمارے پاس مسلمانوں کے بیت المال میں سے جو کچھ ہے وہ واپس کردو کیونکہ میں اس وقت اس مال سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔ اور میں آج تک بیت المال سے جتنا مال استعمال کرچکا ہوں۔ اسکے بدلے میں میں نے اپنی فلاں زمین بیت المال کے نام کردی ہے۔چنانچہ آپ کے وصال کے بعد وہ زمین ،ایک دودھ والی اونٹنی ،تلواروں کو تیز کرنے والا غلام اورایک چادر جسکی قیمت پانچ درھم تھی حضرت عمر کی خدمت میں پیش کی گئیں ۔آپ نے یہ دیکھا تو رونے لگے اورفرمایا :ابوبکر اپنے بعد میں آنے والوں کو بڑی مشکل میں ڈال گئے ہیں۔یعنی یہ طرز عمل کہ بغیر شدید ضرورت کے بیت المال سے کچھ وصول نہیں کیا اورجو کچھ حاصل کیا وہ بھی دنیا سے جاتے ہوئے واپس لوٹاگئے۔

Shortclip-مومن کی نشانی

Darsulquran surah al-maeda ayat 38-40.کیا ہمارے دلوں میں ایمان ہے

جمعرات، 27 جنوری، 2022

Shortclip - ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت کا احساس کیسے ہوگا؟

افتخارِ اسلام

 

افتخارِ اسلام

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے زمانہ جاہلیت ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت تھی ۔میں نے اگرچہ ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن آپ سے دلی محبت رکھتا تھا۔ آپ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے مجھے اس دوران میں یمن جانے کاموقع ملا۔ وہاں بازار میں حمیر کے امیر ذی یزن کا جوڑا پچاس درھم میں بک رہا تھا۔اس نے اسے اس نیت سے خرید لیا کہ میں اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ میں وہ جوڑا لے کرمدینہ طیبہ حاضر ہوا اوراسے آپکی خدمتِ اقدس میں پیش کیا لیکن آپ نے اسے قبول نہیں فرمایا،میں نے بہت کوشش کی لیکن آپ رضامند نہ ہوئے اورارشادفرمایا :ہم مشرکوں سے کچھ نہیں لیتے ۔البتہ آپ نے فرمایا :ہاں اگر تم اس کی قیمت وصول کرلو تو ہم اسے خرید لیتے ہیں ۔چنانچہ میں نے قیمت لے کر وہ جوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودے دیا۔ پھر میں نے ایک دن دیکھا کہ آپ نے وہ جوڑا زیب تن فرمالیا  ہے۔اورمنبر پر فروکش ہیں۔آپ اس جوڑے میں اس قدر حسین نظر آرہے تھے کہ میں نے کبھی کوئی شخص اتنا حسین نہیں دیکھا ۔آپ یوں لگ رہے تھے جیسے چودھویں کا چاند۔آپ کودیکھتے ہی بے ساختہ یہ اشعار میری زباں پر جاری ہوگئے۔’’جب ایک روشن اورچمک دارایسی منور ہستی ظاہر ہوگئی ہے۔جس کا چہرہ،ہاتھ ، پائوںسبھی درخشاں ہیں تواب اسکے بعد حکام،حکم دیتے ہوئے سوچیں گے۔ (یعنی اب آپ کا سکہ چلے گا نہ کہ دوسرے حاکموں اورسرداروں کا)‘‘

’’جب یہ حکام بزرگی اورشرافت میں ان کا مقابلہ کریں گے تو یہ اُن سے بڑھ جائیں گے۔کیونکہ ان پر یہ مجدوشرافت اس کثرت سے بہائی گئی ہے ۔جیسے کسی پر پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے ڈول ڈالے گئے ہوں۔ ‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم یہ اشعار سن کرمسکرانے لگے۔ پھر آپ نے وہ جوڑا (آزادکردہ غلام کے بیٹے) اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو عطاء فرمادیا۔جب میں نے اسامہ کو وہ لباس پہنے ہوئے دیکھا توانھیں کہا اے اسامہ (تمہیں خبر ہے)تم نے ذی یزن (بادشاہ)کا جوڑا پہن رکھا ہے۔انھوں نے بڑی رسان سے کہا میں ذی یزن سے بہتر ہوں میرا باپ اسکے باپ سے اورمیری ماں اسکی ماں سے بہترہے۔ جب میں مکہ واپس آیا تووہاں کے لوگوں کو اسامہ بن زید کی بات سنائی وہ ایک آزاد کردہ غلام کے فرزند کے اپنے دین پر ناز اورافتخار سے بڑے حیران ہوئے۔(طبرانی ،حاکم)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1972 ( Surah At-Taghabun Ayat 03 Part-1 ) در...

بدھ، 26 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1971 ( Surah At-Taghabun Ayat 02 ) درس قرآن ...

نعمت اورمصیبت میں مومن کا رویہ

 

نعمت اورمصیبت میں مومن کا رویہ

نبی کریم ﷺکے آزادہ کردہ غلام حضرت ابو رافعؓ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ کہ حضور اکرم ﷺ نے انھیں فرمایا : اے ابو رافع تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب تم فقیر ہوجائو گے۔میں نے عرض کیا میں اس وقت قدرے تونگرہوں کیا اپنا مال صدقہ نہ کردوں اوراپنی آخرت کیلئے زادراہ آگے بھیج دوں(کیونکہ آپ کا فرمان تو بہر صورت پورا ہونا ہے ،اور میں اس وقت نیکی حاصل نہیں کرسکوں گا)۔حضور اکرم ﷺنے استفسار فرمایا اس وقت تمہارے پاس کتنا مال ہے ۔عرض کیا:۴۰ہزار درھم اورمیں چاہتا ہوں کہ تمام اللہ کی راہ میں خرچ کردوں آپ نے ارشاد فرمایا: تمام نہیں،کچھ صدقہ کردو،کچھ اپنے لیے پس انداز کرلو،اور اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرو۔میں نے عرض کیا:کیا ان کا بھی ہم پر اسی طرح حق ہے جس طرح ہمارا ان پر حق ہے۔ارشادفرمایا : ہاں والد پر بچے کا حق یہ ہے کہ وہ اسے قرآن مجید کی تعلیم دے، تیراندازی اور پیرا کی سکھائے اورجب دنیا سے رخصت ہوتوا ن کیلئے حلال اورپاکیزہ مال چھوڑ کر جائے۔ میں نے پوچھا:میں کس زمانے میں نادار ہو جائوں گا۔آپ نے فرمایا :میرے (دنیا سے جانے کے) بعد۔ابوسلیم ؒ (راوی)کہتے ہیں میں نے انھیں دیکھا کہ وہ حضور ﷺکے بعد اتنے فقیر ہوگئے کہ و ہ بیٹھے ہوئے کہاکرتے تھے کہ کوئی ہے جو اس نابینا بوڑھے کا پرسان حال ہو۔جسے حضور نے مطلع کیا تھا کہ وہ انکے بعد فقیر ہوجائیگا اور کوئی ہے جو میری اعانت کرے کیونکہ اللہ کا ہاتھ سب سے اوپر،دینے والے کا ہاتھ درمیان میں،اورلینے والے کا سب سے نیچے ہوتا ہے۔(اورساتھ ہی فرماتے)جو مالدار ہوتے ہوئے بغیر ضرورت کے سوال کریگا۔توا سکے جسم پر ایک بدنماداغ ہوگا جس سے وہ قیامت کے دن پہچاناجائیگا۔مالدار اورایک ایسے شخص کو صدقہ لینا جائز نہیں جسکے تمام اعضاء طاقت ور اوردرست ہوں۔میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے انھیں چاردرھم دیے توانھوں نے اس میں سے ایک درھم اسے واپس کردیا۔اس آدمی نے کہا :اے اللہ کے بندے میرا ھدیہء خلوص واپس نہ کرو، انھوں نے فرمایا: میں نے ایک درھم اس لیے واپس کردیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے مجھے ضرورت سے زیادہ مال رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ابو سلیم کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ وقت نے پھر پلٹا کھایا اوروہ دوبارہ اتنے امیرہوگئے کہ عشر وصول کرنے والا انکے پاس بھی آنے لگا۔لیکن وہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش ابورافع فقیری کی حالت میں مرجاتا۔ انھوں نے حالتِ تونگری میں آخرت کا خیال رکھا،حالتِ فقیری میں صبر اور وقار کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا اور دوبارہ تونگر ہوئے توان کا خلق یہ تھا کہ غلام خریدتے اور اسے زرِ خرید پر ہی مکاتب بنادیتے یعنی اسے کہتے کہ رقم مجھے کماکرادا کردواورآزاد ہوجائو،مجھے اسکے منافع کی ضرورت نہیں ہے۔(ابونعیم)اس حکمت سے بہت سے غلام آزاد ہوگئے ،اوراپنے اپنے روزگار پربھی لگ گئے۔

منگل، 25 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1970 ( Surah At-Taghabun Ayat 01 ) درس قرآن ...

دھیان رکھنے کی سات باتیں

 

دھیان رکھنے کی سات باتیں

فقیہہ ابوللیث سمرقندی فرماتے ہیں: ’’کسی دانا کا قول ہے کہ جواعمال کی بجاآوری میں سات باتوں کا مدنظر رکھنا ضروری ہے ۔جو شخص انھیں دھیان میں نہیں رکھتا اسکے اعمال اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے۔

۱)خوف ہو لیکن احتیاط نہ ہو:۔ ایک شخص یوں توکہتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتا ہوں اوراسکے عذاب سے خوف زدہ بھی ہوں۔لیکن وہ گناہوں سے بچنے میں کوئی احتیاط نہیں کرتا تواسے اس قول کاکوئی نفع نہیں ہوتا ۔۲)بغیر طلب کے امید:۔ کوئی شخص یہ توکہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ثواب کا امید وار ہوں لیکن وہ اعمال صالحہ کے ذریعے ثواب کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو محض امید اجروثواب سے کوئی فائدہ نہیں ہوتاہے۔ ۳)ارادہ کے بغیر نیت :۔ کوئی شخص دل سے کسی نیکی کی نیت توکرے لیکن اسے عملی طور پر کرنے کا کوئی ارادہ نہ کرے تویہ نیت بھی نفع مندنہیں۔۴)دعا ہولیکن عملی کوشش نہ ہو:۔کوئی انسان اللہ رب العزت کے حضورمیں یہ دعا تو کرے کہ اسے عمل خیر کی توفیق مل جائے لیکن عمل خیر کیلئے کبھی کوشش نہ کرے اور موقع ملنے پر بھی جدوجہد سے گریزاں رہے تو ایسی دعا بھی اس کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوسکتی ۔ انسان کیلئے مناسب یہی ہے کہ وہ کوشش کرے تاکہ خداوندِ کریم اسے عمل صالح کی توفیق بھی مرحمت فرمائے ارشادباری تعالیٰ ہے۔ ’’اورجنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ہم انہیں ضرور اپنے راستے دکھادینگے اوربے شک اللہ نیک انسانوں کے ساتھ ہے‘‘ ۔ (العنکبوت ۶۹) یعنی وہ لوگ ہماری اطاعت کی بجاآوری میں کوشاں رہتے ہیں اورہمارے دین میں محنت کرتے ہیں ہم انہیں ایسا کرنے کی توفیق ضرور عطاء کرتے ہیں۔۵) استغفار ہو مگر ندامت نہ ہو:۔ کوئی انسان اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش تو طلب کرتا ہو لیکن اسے اپنے کردہ گناہوں پر کوئی ندامت ،پیشمانی اور تاسف نہ ہوتو یہ بھی کار عبث ہے۔ ۶)ظاہری اعمال کی اصلاح ہولیکن اصلاح باطن سے محروم ہو:۔ یعنی کوئی شخص ظاہری طور پر تو بہت سرگرداں ہو۔ لیکن اسکے اعمال کی باطنی جہت درست نہ ہو اوروہ رضا الہٰی کا خواستگار نہ ہو۔ تو یہ بھی محض اپنے نفس کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ ۷)اعمال توہوں لیکن اخلاص نہ ہو:۔ کسی شخص کے اعمال میں اخلاص نہ ہو تو بغیر خلوص کے کیے جانے والے اعمال بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا :آخری زمانے میں ایسے قومیں نمودار ہوں گی جو دنیا کو دین کے عوض ہڑپ کرینگے۔ایک اورروایت میں آتا ہے کہ وہ دنیا کوحاصل کرینگے۔ انکے لباس اون کی طرح ،انکی زبانیں شکر کی طرح میٹھی اورانکے دل بھیڑیے کی طرح (سخت)ہونگے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے تو فرمائے گا۔ تم میرے ساتھ دھوکے میں مبتلا رہے یا مجھ پر جرأت کرتے رہے۔ (تنبیہ الغافلین)

Shortclip-بندگی کیا ہے؟

ہفتہ، 22 جنوری، 2022

Shortclip - کیا ہماری پیدائش فضول ہے؟

Darsulquran surah al-maeda ayat 35 Part-03.کیا ہماری منزل صرف دنیا ہے

Shortclip - کیا ہم مومن ہیں؟

بہترین عمل کی علامات

 

بہترین عمل کی علامات

فقیہہ ابوللیث نصر بن محمد ابراہیم سمر قندی فرماتے ہیں:۔حضرت شفیق بن ابراہیم سے روایت کیاگیا ہے کہ بہترین اعمال تین باتیں ہیں ۔

۱)ہر عمل کرنے والا یہ باور کرے کہ میرا یہ عمل اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ تاکہ خود بینی کے قریب میں نہ آئے اورخود ستائی کابت پاش پاش ہوجائے۔۲)ہر عمل سے محض اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاء مطلوب ہوتاکہ خواہشات کی بیخ کنی ہوسکے۔

۳)ہمیشہ اللہ رب العزت کی بارگاہ عالیہ سے ہی عمل کے اجروثواب کا طالب رہے تاکہ اہل دنیا سے حرص اورطمع باقی نہ رہے اورریا کاری کے دام میں نہ الجھے ان تین باتوں سے اعمال میں اخلاص پیدا ہوتاہے ۔٭ ’عمل‘اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے باور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اچھی طرح جان لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہی ہے جس نے اسے عمل صالح کی توفیق عطافرمائی ہے۔جس انسان کو یہ علم ہوجائے تو رب تعالیٰ کے شکر کی ادائیگی میں مشغول ہوجاتا ہے اوریہ شغل اسے خودستائی اورخود بینی کے عذاب سے محفوظ رکھنے کا سبب بن جائے گا۔ ٭اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مطلوب ہونے سے مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام اعمال پر غوروفکر کرے اگر تو عمل اللہ کے لیے ہو اوراس میں اللہ تعالیٰ کی رضاء بھی شامل حال ہوتو اسے بجالائے اوراگر علم ہوجائے کہ اس عمل میں اللہ تعالیٰ کی رضاشامل حال نہیں ہے تواس عمل سے اجتناب کرے تاکہ اس کا کوئی کام نفس کی خواہش کے مطابق نہ ہو۔ کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد گرامی ہے’’بے شک نفسِ امارّہ برائی کاحکم دیتا ہے ۔ (یوسف۵۲)اللہ رب العزت کی بارگاہ ہی سے عمل کے اجروثواب کی امید رکھنے سے مقصود یہ ہے کہ انسان کوچاہیے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عمل کرے۔ لوگوں کی نارواباتوں اوران کے طعن وتشنیع کے تیروں کی مطلقاً پروا نہ کرے۔کسی دانا سے روایت کیاگیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں۔’’نیک عمل کرنے والے کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنے عمل میں چرواہے سے ادب سیکھے ۔ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیسے ؟تو انہوں نے کہا ایک چرواہا جب اپنی بکریوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریزی کررہا ہوتا ہے تووہ اپنی نماز پر اپنی بکر یوں کی طرف سے تعریف کا متمنی نہیں ہوتا۔اس طرح ایک عامل کے لیے بھی ازبس ضروری ہے کہ لوگوں کی توجہ اورتعریف وستائش کی بالکل پرواہ نہ کرے اس کا عمل خالص اللہ کے لیے ہو۔خلوت وجلوت اس کے نزدیک یکساں حیثیت کے حامل ہوں۔ اوروہ ہر حال میں اپنے پروردگار ہی سے وابستہ ہو‘‘۔(تنبیہ الغافلین)


جمعہ، 21 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1965 (Surah Al-Munafiqoon Ayat 7-8 Part-2) د...

Shortclip - ہم دنیا میں کیوں آئے ہیں؟

Shortclip - روزِقیامت کن لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 35 Part-02. کیا ہمیں صرف دنیا کی کا...

مصائب اور کفارہ

 

مصائب اور کفارہ

 حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں میں زیادہ بلاء مشقت والے کون ہیں؟تو آپ نے فرمایا:أنبیاء کرام پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ ان کے پیروکار حتیٰ کہ انسان کو اس کے دین کے درجہ اورمقدار کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ اگر اس کا دین مضبوط ہوتو اسکی آزمائش اوربلا بھی اسی قدرزیادہ ہوتی ہے اوراگر اس کے دین میں نرمی اورکچھ کمی ہوتو اس کے حساب سے ہی اس کی آزمائش کی جاتی ہے ۔اللہ کے بندے پر بلاء وآزمائش گزرتی رہتی ہے حتیٰ کہ جب ختم ہوتی ہے تووہ گناہوں سے پاک ہوکر زمین پر چلتا ہے ۔ 
٭ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیہ مبارکہ من یعمل سوئً ا یجزبہ۔’’جس نے جو بھی براکام کیا اسے اس کی جزادی جائے گی۔‘‘کے بعد ہمارا کیا بنے گا کہ ہمیں ہمارے بُرے کام کی سزاملے گی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہاغفراللہ لک یا أبا بکر۔’’ابوبکر!اللہ تجھے معاف کرے‘‘کیا تو مریض نہیں ہوتا ؟کیا تجھے غم وملال نہیں پہنچتا؟تجھے تھکن اورمشقت نہیں ہوتی ؟تجھے پیٹ وغیرہ کا درد نہیں ہوتا؟میں نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ!تو آپ نے فرمایا:یہی تمہاری غلطیوں کی وہ پاداش ہے جو تمہیں دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انسان کا ایک مرتبہ کو نہیں پاسکتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے کسی آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ اس مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ 

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مؤمن اورمؤمنہ کے مال وجان اوران کی اولاد کے سلسلے میں ان پر بلاء وآزمائش جاری رہتی ہے حتیٰ کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتے ہیں توان پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔ 

٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ بخار دوزخ کی دھونکنی ہے توجس مؤمن کواس سے کچھ حضہ پہنچا ،وہ دوزخ کی آگ سے اس کا نصیب تھا۔

٭ حضرت عبدالرحمن بن ازھر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مؤمن بندہ کی مثال جب اسے بخار آتا ہے ،اس لوہے کے ٹکڑے کی سی ہے جسے آگ میں ڈالا جاتا ہے وہ اس کی میل کچیل کو دور کرکے اسے خالص بنادیتی ہے۔(الآداب،بیہقی)

جمعرات، 20 جنوری، 2022

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 35 part-01 . کیا وسیلہ ضروری ہے

Shortclip - ہمیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کیوں بھجوایا ہے؟

خطائوں کی بخشش

 

خطائوں کی بخشش

٭ حضرت عامر بن عنبسہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں مذہبی طور اطوار سے مطمئن نہیں تھااورگمان کیا کرتا تھا کہ لوگ بتوں کی پرستش کی وجہ سے گمراہی پر ہیں اور وہ حقیقت میں کسی بھی دین کے پیروکار نہیں ہیں، مجھے اطلاع ملی کہ مکہ میں ایک شخص ہیں جو لوگوں کو بہت سی باتوں کی خبریں دے رہے ہیں۔ میں سوار ہوکر ان کے پاس پہنچا ، مجھے معلوم ہوا کہ آپ تو اللہ کے رسول ہیں ۔ (ایمان لانے اوراسلام کی بنیادی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد )میں نے عرض کیا :اے اللہ کے پیارے نبی !مجھے وضو کے بارے میں خبر دیجئے، آپ نے ارشادفرمایا:تم میں سے کوئی انسان جب وضوکے پانی کو قریب کرتا ہے ، پھر کلی کرتا ہے اورناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرتا ہے تواس کے چہرے کی خطائیں اس کے منہ اورناک کے اردگرد سے گرجاتی ہیں پھر جب وہ اپنے چہرے کو اللہ کے حکم کے مطابق دھوتا ہے تو اس کے چہرے کی خطائیں پانی کے ساتھ اس کی داڑھی کی اطراف سے گر جاتی ہیں ، پھر ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ ہی ہاتھوں کی خطائیں پوروں کے راستے سے گرجاتی ہیں ، اس کے بعد وہ اپنے سرکا مسح کرتا ہے تو اس کے سرکی خطائیں پانی کے ساتھ بالوں کی اطراف سے گرجاتی ہیں بعدازاں وہ اپنے پائوں کو ٹخنوں سمیت دھوتا ہے تو پائوں کے گناہ پانی کے ساتھ ہی انگلیوں کے پوروں کے راستے سے گرجاتے ہیں تو اب وہ اگر نماز کے لیے قیام پذیرہوا، اللہ رب العزت کی حمد وثناء کی ، اس کی بزرگی بیان کی جس کا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اہل ہے اوراپنے قلب کو دنیوی مشاغل اور وسوسوں سے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے الگ کرلیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو گیا جیسا کہ آج ہی ایسے اس کی ماں نے جنم دیا ہے۔(مسلم)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتائوں، جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اوردرجات کو بلند فرماتاہے ، صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ ضر ور ارشادفرمایئے ، آپ نے فرمایا :مشقت کے وقت کامل وضوکرنا ، مساجد کی طرف قدموں کی کثرت کرنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، تویہ ہے تمہاری جہاد کی تیاری ، یہ ہے تمہاری جہاد کی تیاری ، یہ ہے تمہاری جہاد کی تیاری۔(مسلم، ترمذی ،ابن ماجہ ، نسائی )

بدھ، 19 جنوری، 2022

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 32-34 . کیا ہم فسادی لوگ ہیں

Shortclip - کیا دنیا کی زندگی محض ایک کھیل تماشہ ہے؟

توبہ

 

توبہ

امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑی خوب بات کہی کہ انسان خطا ء کرتے ہوئے یہ سوچتا ہے کہ یہ چھوٹی سی بات ہی تو ہے ۔ کاش وہ یہ بھی سوچے کہ جس خالق و مالک کے حکم کی سرتابی ہورہی ہے اس کی ذات چھوٹی نہیں ہے ۔ اس مالک الملک کے حکم کو نہ مانتا کتنی بڑی جسارت ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ ارحم الراحمین بھی ہے ۔ اس نے ایک دروازہ کھول رکھا ہے ۔ جسے تو بہ کا دروازہ کہتے ہیں۔ جس طرح گناہوں سے اجتناب کرنے کا حکم ہے اس طرح توبہ کا بھی حکم ہے ۔ اللہ رب العز ت کا ارشاد گرامی ہے :

۱:۔ اے مومنو! اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پائو۔   (النور : ۲۱)

۲:۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کر و۔(ہود : ۳)

۳:۔اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی جناب میں سچے دل سے توبہ کر و ۔( تحریم :۸)

حدیث کے نامور اور مستند امام حضرت محی الد ین ابوز کریا یحیی بن شرف النودی ارشاد فرماتے ہیں ۔ 

’’علما کہتے ہیں کہ ہر گنا ہ سے توبہ واجب ہے ۔ اگر گناہ کا معاملہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو اور کسی آدمی کے حق سے اس کاتعلق نہ ہو تو اس صورت میں تو بہ کی تین شرطیں ہیں ۔پہلی یہ کہ گنا ہ سے رک جائے ،دوسری یہ کہ گنا ہ پر شرمسار ہو اور تیسری یہ کہ پھر اس گنا ہ کا اعادہ نہ کر نے کا پختہ ارادہ بھی کرے ۔ اگر ان شر ائط میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی گئی تو توبہ صحیح نہ ہوگی۔  اور اگر اس خطاء کا تعلق حقو ق العباد سے ہو تو پھر توبہ کی چار شرائط ہیں ۔ تین شرطیں تو وہی ہیں جو پہلے گزر چکی ہیں۔ چوتھی یہ کہ حق دار کو اس کا حق اداکرے اگر کسی کا مال ہتھیا لیا تھا تو اسے لوٹا دے ۔ اگر کسی پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو اسے اپنے مواخذ ے پر قادر کرے یااس سے معافی مانگ لے ۔ اور ضروری ہے کہ اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر ے اور اگر بعض گناہوں سے توبہ کر ے تو اہلِ حق کے نزدیک وہ توبہ بھی صحیح ہے مگر دوسرے گنا ہ باقی رہیں گے(اور ان سے بھی توبہ واجب ہے) تو بہ کے وجوب پر کتاب وسنت اور اجماع امت کے واضع دلائل موجود ہیں۔ ‘‘  اللہ کے پا ک پیغمبر غلطیوں اور  خطائو ں سے پاک ہیں اور گناہوں سے معصوم ہیں ۔ اسکے باوجود بار بار اللہ کی بارگاہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ توبہ کرتے ہیں۔ وہ اپنی عاجزی انکساری اور عرفانِ عبودیت کی بنا پر اپنے کسی عمل کو اللہ کی بارگاہ کے شایانِ شان نہیں سمجھتے تو عام انسان جن سے واقعتا گنا ہ سرزد ہوتے ہیں اللہ کی بارگاہ میں کیوں نہ توبہ کریں ۔ حدیث پاک میں ہے : ’’خدا کی قسم ! میں ایک دن میں سترّ مرتبہ خدا سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘ (بخاری شریف )

منگل، 18 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1962 ( Surah Al-Munafiqoon Ayat 02 - 03) درس...

Shortclip - دنیا کی زندگی کی مثال

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 30-31. کیا ہم سیدھے راستے سے بھٹک گ...

تلاشِ حقیقت

 

تلاشِ حقیقت

عمرو بن عتبہ السلمیٰ ؓفرماتے  ہیں میں زمانہ جاہلیت میں بھی اپنے قوم کے معبودوں سے متنفر ہوچکا تھا ایسے بتوں کی پرتش کرنا جو نہ نفع پہنچاسکتے ہوں اور نہ نقصان میرے نزدیک بڑا احمقانہ فعل تھا۔میں نے اہل کتاب کے ایک عالم سے پوچھا :کون سا دین سب سے افضل ہے؟اس نے کہا:کہ عنقریب مکہ میں ایک شخص ظاہر ہوگا جو اپنی قوم کی معبودوں سے بیزاری کا اعلان کریگااور ایک خدا کی عبادت کی دعوت دیگا۔وہ رسولؐ جو دین لیکر آئیگا وہ سب دینوں سے افضل ہوگا جب تم اس شخص کے ظہور کے بارے میں سنو تو فوراً اسکی اطاعت اختیار کرلو۔میں کئی بار مکہ جاکر دریافت کرتا کیا کوئی نیا واقعہ روپذیر ہوا ہے لیکن ہر بار نفی میں جواب ملتا۔آخر ایک روز مجھے ایک شخص نے بتایا کہ ہاں مکہ میں ایک نئی بات ہوئی ہے وہ یہ کہ وہاں ایک شخص ظاہر ہوا ہے جس نے اپنی قوم کے معبودوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور وہ لوگوں کو خدائے واحد کی عبادت کی تلقین کررہا ہے۔یہ سن کر میری خوشی کی کوئی حد نہ رہی گویا کہ مجھے گوہر مقصود مل گیا۔میں فوراً مکہ کیلئے روانہ ہوگیا۔وہاں پہنچ کر میں نے اپنی سابقہ قیام گاہ میں سامان رکھا اور اُس مکرم شخصیت کی تلاش شروع کردی آخر کار میں کامیاب ہوگیا ۔وہ ایک مکان میں خفیہ طورپر لوگوں کو اپنی دعوت پہنچا رہے تھے۔جبکہ قریش اُنکی مخالفت میں دیوانے ہورہے تھے وہاں جاکر سلام عرض کیااوراُن سے پوچھا آپ کون ہیں انھوں نے فرمایا میں اللہ کا نبی ہوں ۔میں نے پوچھا :نبی اللہ کیا ہوتا ہے فرمایا : وہ اللہ کا بھیجا  ہوا ہوتاہے ۔میں نے پوچھا : آپ کو کس نے رسول بناکر بھیجاہے؟فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ۔ اس نے کیاپیغام پہنچانے کیلئے آپکو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا اس نے مجھے اس لیے ارسال فرمایا ہے کہ میں تمہیں یہ باتیں بتاوں کہ صلہ رحمی کیا کرو،خون ریزی سے اجتناب کیا کرو،راستوں کو پرامن رکھا کرو، بتوں کو توڑ دو،اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو۔یہ سن کر میں نے عرض کیا یہ بہترین دعوت ہے اور میں اسے قبول کرتا ہوں ۔پھر میں نے پوچھا میں آ کے پاس ٹھہروں یا واپس اپنے وطن چلا جائوں حضوراکرم ﷺنے فرمایا :لوگ جس طرح ہماری  مخالفت کررہے ہیں وہ تم دیکھ رہے ہو۔سردست تم اپنے گھر واپس چلے جائوجب تمہیں خبر ملے کہ میں مکہ سے ہجرت کرکے کہیں اور چلا گیا ہوں تو پھر میرے پاس آجانا۔جب مجھے ہجرت مدینہ کی خبر ملی تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوامیں نے عرض کیا :کیاآپ نے مجھے پہچان لیا۔ فرمایا: ہاں! تم سلمیٰ ہو ۔میں نے پوچھا :دعاء کی قبولیت کی بہترین گھڑی کون سی ہے؟ فرمایا :نصف رات کا پچھلا حصہ اور نماز کے وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں وہی قبولیت کا وقت ہے۔

پیر، 17 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1961 ( Surah Al-Munafiqoon Ayat 01 ) درس قرآ...

Shortclip - کامیابی کا راستہ

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 27-29.کیا ہم سب نفسانی خواہشات کے پ...

درسِ توحید

 

درسِ توحید

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے مشہور صحابہ میں سے ایک ہیں۔یہ اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہیں بہت ابتداء ہی میں نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوالیکن انکے والدحصین ان سے کچھ دیر بعد مشرف بااسلام ہوئے ۔ ہوا یوں کہ قریش کاایک وفد ان کے پاس آیاسارے قریش ان کا بڑا ادب واحترام کیا کرتے تھے انھوں نے حصین سے کہا :اس شخص نے (حضور علیہ السلام) ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے ہمارے بتوں کی عیب جوئی کرتا رہتا ہے۔ہر لحظہ انہیں برا بھلاکہتاہے تم عقل مند اور زیرک آدمی ہو،انہیں جاکر سمجھائو کہ باز آجائیں۔ چنانچہ حصین اپنی قوم کے ایک وفد کو لے کر حضور کے کاشانہ اقدس پر پہنچا ، دوسرے لوگ باہر ٹھہرے رہے اور حصین خود اند ر چلا گیا۔نبی کریم ﷺنے جب اسے دیکھا تواہل مجلس کو فرمایااپنے سردار کیلئے جگہ کشادہ کرو،عمران بن حصین پہلے سے وہاں موجود تھے ۔ حصین نے کہامجھے آپکے بارے میں بتایا گیا ہے کہ آپ ہمارے خدائوں کو برابھلا کہتے ہیں اورانکی مذمت کرتے ہیں کیا یہ درست ہے۔حضور نے ارشادفرمایا: اے حصین ! تم کتنے خدائوں کی عبادت کرتے ہو،اس نے کہا ہم سات خدائوں کی عبادت کرتے ہیں، جو زمین میں ہیں اور ایک خدا کی جو آسمان میں ہے۔نبی کریم ﷺنے پوچھا :
اگر تمہیں کوئی ضرر اور تکلیف پہنچے تو کس خدا کو پکارتے ہو۔ اس نے کہا :اس خدا کو جو آسمان میں ہے ،پھر پوچھا اگر مال مویشی ہلاک ہو جائے تو پھر کس کو پوچھتے ہو،اس نے کہا آسمان والے ایک خدا کو ۔آپ نے ارشادفرمایا بڑے افسوس کی بات ہے کہ تمہاری دعائیں تو ایک آسمانی خدا قبول کرتا ہے لیکن جب عبادت کا وقت آتا ہے تو تم زمین کے خودساختہ بے فیض خدائوں کی پوجا کرنے لگتے ہو،کیا تم اس شرک کو پسند کرتے ہو۔اے حصین! اسلام قبول کرلو،تاکہ تم عذابِ الٰہی سے بچ سکو۔حضور کی نگاہِ کرم سے حصین کی آنکھوں سے پردے اُٹھ گئے اُس نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ اس کا بیٹا عمران خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا وہ بڑی وارفتگی سے اُٹھا اپنے باپ کے سر کو چوما اور اسکے ہاتھوں اور پائوں کو بوسہ دیا ۔نبی کریم ﷺنے یہ دیکھا آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ،آپ نے فرمایا : ’’میں تو عمران کے طرز عمل سے متاثر ہوکر اشک بار ہوا ہوں۔ حصین جب یہاں آئے تو عمران بیٹھا رہا ،جب یہ مسلمان ہوگئے عمران بے ساختہ دوڑ کر اپنے باپ کے پاس پہنچا اور بڑی محبت کا اظہار کیا‘‘۔حصین واپس جانے لگے تو رسول اللہ ﷺنے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ حصین کو اُنکے گھر تک پہنچاکرآئیں۔ جب انھوں نے دہلیز سے قدم باہر رکھا تو انکے چہرے پر مسرت اور نور کا عالم دیکھ کر گئے قبیلے والے کہ یہ کفر سے رشتہ توڑ چکے ہیں ۔ (السیرۃ الحلبیہ)

ہفتہ، 15 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1959 ( Surah Al-Jumua Ayat 06 - 08 ) درس قرآ...

Shortclip - انسان کی کامیابی کا راز

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 24-26 . کیا ہم ایک نافرمان قوم ہیں

فضائلِ ذکر (۶)

 

فضائلِ ذکر (۶)

٭ذکر قساوت قلبی کا خاتمہ کردیتا ہے ۔ بندے کو چاہئے کہ ذکر الہٰی سے اپنے دل کی سختی کاعلاج کرے ۔ایک آدمی نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے دل کی سختی کاشکوہ کیا۔آپ نے فرمایا:’’ذکرالہٰی سے اسے نرم کرو۔ کیونکہ قساوت قلبی کا سبب غفلت ہے۔ جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو قساوت اس طرح پگھل جاتی ہے جس طرح سیسہ۔‘‘

٭ذکر دل کیلئے شفاء اورعلاج ہے اورغفلت اس کی بیماری ۔پس بیماردلوں کی شفاء اللہ کا ذکر ہے۔

 شیخ مکحول رحمۃ اللہ علی فرماتے ہیں :’’اللہ کے ذکرمیں شفاء ہے اورلوگوں کا ذکر بیماری کا باعث ہے۔‘‘

’’جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو تمہارے ذکر کے ساتھ علاج کرتے ہیں اورجب کبھی ذکر کو ترک کردیں توپھر بیمار ہوجاتے ہیں۔‘‘ ذکر،محبت الٰہی کی بنیاد ہے اورغفلت عداوت پر وردگار کی اصل ہے بندہ اپنے رب کا ذکر کرتے ہوئے اس مقام پر فائز ہوجاتا ہے کہ رب کریم اسے محبت عطاکرکے اپنا دوست بنالیتا ہے۔ اسی طرح جب بندہ اپنے رب سے غافل ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر اسے اپنا دشمن قرار دے دیتا ہے ۔بندے کی اپنے رب سے سخت ترین دشمنی کی علامت یہ ہے کہ وہ اسکے ذکر کو ناپسند اوراسکے ذاکر کو برا جانتا ہے ۔اوراس کا سبب غفلت ہے اور بندہ اسی غفلت کی وجہ سے ذکر اورذاکرین کو ناپسند کرتا ہے ۔اس وقت اللہ تعالیٰ اسے اپنا دشمن بنالیتا ہے ۔جس طرح کہ ذکر کرنیوالے کو اپنا ولی بنالیتا ہے۔ ٭دائمی ذکر کرنے والا مسکراتا ہواجنت میں داخل ہوگا۔ جس طرح ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’وہ لوگ جن کی زبانیں اللہ عزوجل کے ذکر سے تررہیں گی وہ جنت میں مسکراتے ہوئے داخل ہوں گے۔‘‘ ٭ذکر بندے اورجہنم کے درمیان رکاوٹ ہے۔ جب بندہ اپنے کسی عمل کی وجہ سے جہنم کے راستے کی طرف جائیگا۔ تو ذکر اسکے راستے میں رکاوٹ بن جائیگا۔ ذکر جس قدردائمی اورکامل ہوگا اسی قدر رکاوٹ مضبوط اور محکم ہوگی کہ اس میں سے کوئی چیز گزرنہ سکے گی۔ ٭تمام احوال کاحکم ذکر الٰہی کو قائم کرنے کیلئے ہی دیا گیا ہے کیونکہ اصل مقصود ذکر الٰہی ہے جیسا کہ ارشاد رب العلیٰ ہے:۔’’میرے ذکر کیلئے نماز قائم کرو‘‘۔ (طہ: ۱۴)صوفیائے کرام نے اپنے تمام احوال میں ذکر الٰہی پر مواظبت اختیار فرمائی اور ذکر کے فوائد کو محسوس کیا۔ اورپھر یقینی تجربہ کی بنیاد پر اسکے بارے میں گفتگو فرمائی۔ اور دوسرے لوگوںکوبکثرت ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کسی کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہ چیزپسند کرے جو اپنی ذات کے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(بخاری،مسلم)


جمعہ، 14 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1958 ( Surah Al-Jumua Ayat 05 Part-2 ) درس ق...

فضائلِ ذکر(۵)

 

فضائلِ ذکر(۵)

٭ذکر کے درخت کا ثمرہ معارف اوراحوال میں ہے جس کے حصول کیلئے سالکین کو شاں رہتے ہیں۔ ان ثمرات کے حصول کا واحد ذریعہ ذکر کا درخت ہے اور یہ درخت جتنا بڑا، اور اس کی جڑیں جتنی گہری ہوں گی اتنا ہی اس کا ثمرہ عظیم ہوگا۔ ابتداسے لے کر مقام توحید تک تمام مقامات ذکر کا ثمر ہین اورذکر تمام مقامات کی اصل بنیاد ہے ۔جس طرح دیوار بنیادوں پر اورچھت اس دیوار پر تعمیر ہوتی ہے۔ بندہ جب خواب غفلت سے بیدار نہ ہوتو منازل سلوک طے کرنا اس کیلئے ممکن نہیں ہے۔ اوربندہ ذکر سے ہی بیدار ہوسکتا ہے جیسا کہ پیچھے بیان کیاجاچکا ہے ۔اور غفلت دل کی نیند اورموت کا سبب ہوتی ہے۔ ٭ذاکر مذکور کے قریب ہوتا ہے اورمذکور اسکے ساتھ ہوتا ہے اوریہ معیت خاص ہوتی ہے اور یہ معیت قرب،ولایت ،محبت ، نصرت اورتوفیق کی معیت ہے جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے۔ 

’’یقینا اللہ تعالیٰ انکے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اورجو نیک کاموں میں سرگرم رہتے ہیں‘‘۔ (نحل :۱۲۸)’’اوراللہ صبر کرنیوالوں کیساتھ ہے‘‘۔ (انفال:۸۶)

’’مت غمگین ہو۔یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔(توبہـ:۴۰)ذاکر کو اس معیت سے وافر حصہ ملتا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے۔ ’’میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے اور جب اسکے ہونٹ میرے ذکر کیلئے حرکت کرتے ہیں ‘‘۔

دوسری حدیث میں ہے: ’’اہل ذکر میرے ہم نشین ہیں اورمیرا شکر کرنے والے میرے فضل واحسان کے اہل ہیں اورمیری اطاعت کرنیوالے میری جو دوسخاکے قابل ہیں اوراپنی نافرمانی کرنے والوں کو مایوس نہیں کرتا۔اگر وہ توبہ کریں تو میں ان کا حبیب ہوں۔کیونکہ میں توبہ کرنیوالوں اورپاکیزہ بندوں کو پسند کرتا ہوں۔ اگروہ توبہ نہ کریں تو میں ہی ان کا طبیب ہوں۔ ان کو مصائب وآلام میں مبتلا کرتا ہوں تاکہ ان کو گناہوں سے پاک کردوں۔‘‘ذاکر کو حاصل ہونے والی معیت کسی دوسری چیز کے مشابہ نہیں ہوسکتی اوریہ محسن اورمتقی سے حاصل ہونیوالی معیت سے خاص ہے۔ یہ وہ معیت ہے جس کو الفاظ سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا ۔اس کو سمجھنا ذوق پر ہی منحصر ہے۔ 

٭اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ متقی ہے جس کی زبان ہمیشہ ذکر سے تررہے۔ کیونکہ وہ اس کے اوامرونواہی سے ڈرتا ہے اوراس کے ذکر کواپنا شعار بنالیتا ہے تو یہ تقویٰ اس کو جنت میں داخل کردیتا ہے اور جہنم سے نجات دیتا ہے ۔یہ اجر وثواب توا سے ملے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذکر قرب الہٰی کا باعث بھی ہے اور مومن کایہی مقصود ہے۔ 

(علامہ ابن القیم الجوزیہ)

Shortclip - انسان اپنی معراج کو کیسے حاصل کرسکتا ہے؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 23 . کیا ہمارا بھروسہ اللہ تعالی پر...

جمعرات، 13 جنوری، 2022

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 22.کیا ہم ایک مردہ قوم ہیں

Shortclip - یقین کامل حاصل کرنے کا طریقہ

فضائلِ ذکر (۴)

 

فضائلِ ذکر (۴)

٭بندہ دائمی ذکر سے اپنے رب کو بھولنے سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اپنے پروردگار کو بھولنا، اس کے لئے دنیا وآخرت میں بدبختی کا سبب ہے ۔ کیونکہ اگر وہ اپنے رب کو بھول جائے تو وہ اپنی ذات اوراس کے متعلقہ تمام مصلحتوں کو بھول جاتا ہے ۔ ارشاد بار ی تعالیٰ ہے:۔

’’ان (نادانوں )کی مانند نہ ہوجانا جنہوں نے بھلادیا اللہ تعالیٰ کو پس اللہ نے انہیں خودفراموش بنادیا ۔یہی نافرمان لوگ ہیں۔‘‘(الحشر۔ ۱۹)٭ذکر بندے کے عمل کو جاری رکھتا ہے خواہ اپنے بستر میں یا سفر میں، حالت صحت میں ہو یا بیماری میں ۔کوئی عبادت ذکر کی مثل نہیں جو تمام اوقات اوراحوال کو شامل ہو۔حتیٰ کہ وہ بندے کی رفتار عمل کو جاری رکھتا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے بستر پر سویا ہوتا ہے۔ لیکن غافل جاگنے والے سے سبقت لے جاتا ہے ۔ حکایت ہے کہ ایک عبادت گزار بندہ کسی کے پاس بطور مہمان ٹھہرا ۔بندئہ خدا ساری رات عبادت میں مصروف رہا۔ اورمیزبان اپنے بستر پر لیٹارہا۔صبح ہوئی تو عابدنے اسے کہا:’’قافلہ تجھ سے آگے نکل گیا‘‘اس نے جواب دیا:’’یہ توکوئی بڑی بات نہیں کہ انسان ساری رات سفر میں رہے اور علی الصبح قافلے کے ساتھ مل جائے مزہ توتب ہے کہ ساری رات بستر پر سویا رہے اورصبح قافلہ سے آگے ہو۔‘‘ اس قسم کے واقعات کی صحیح توجیہ بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی ،جس نے یہ گمان کیا کہ آرام سے سونے ولا، شب بھر عبادت کرنیوالے سبقت لے جاتا ہے ۔اس کا یہ گمان باطل ہے ا وراسکی یہ بات اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے۔ جس بستر پر سونے والے نے اپنے دل کاتعلق اپنے رب سے ملالیا ہو۔ اور اپنے سویدئہ قلب کو عرش الٰہی سے ملادیا ہو۔اور اس کا دل ساری رات فرشتوں کے ساتھ طواف عرش الٰہی میں مصروف رہا ہو۔ اور دنیا و مافیھا سے بے خبر ہوگیا ہو۔ اوروہ کسی شرعی عذر کی وجہ سے قیام لیل سے محروم ہوگیا ہو اور بستر پر لیٹے لیٹے یاد الٰہی میں مشغول ہوگیا۔ لیکن اسکے مقابلہ میں ایک اور شخص ہے جو شب بھر تونماز اورتلاوت میں مشغول رہا۔ اور اسکے دل میں ریا تکبر ،طلب جاہ اوردیگر آفات تھیں یا اس کا بدن عبادت میں مصروف تھا لیکن اس کا دل غافل تھا تو اسکی عبادت کرنیوالے سے اپنے بستر پر لیٹ کر عبادت کرنے والا کئی درجے بہتر ہے۔ ٭ذکر اصول طریقت کی بنیاد، طریقہ صوفیاء اور جسے ذکر کی توفیق میسر آجائے اس کیلئے بارگاہ خداوندی میں حضوری کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔پاک صاف ہوکر اسے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہیے تاکہ اس کو ہر مراد مل جائے ۔کیونکہ جس نے اپنے رب کو پالیا۔ اس نے ہر چیز کو پالیا۔اور جو اپنے پروردگار تک رسائی حاصل نہ کرسکا وہ ہر چیز سے محروم ہے۔ (علامہ ابن القیم الجوزیہ)


بدھ، 12 جنوری، 2022

Shortclip - کیا ظاہر ہمارا مقصود ہے؟

فضائلِ ذکر(۳)

 

فضائلِ ذکر(۳)

٭بیشک محافل ذکر ،اللہ کے فرشتوں کی محافل ہیں لغو اورباطل امور کی مجالس شیطان کی مجالس ہیں۔ بندے کو ان دونوں سے جواچھی لگے ا سے اختیار کرلے۔ وہ دنیا وآخر ت میں اپنی اختیار کردہ محفل کے ساتھ رہے گا۔ ٭ذکر ،ذاکر اورا سکے ہم نشین کی سعادت مندی کا باعث ہے۔ وہ جہاں بھی ہو گا۔اللہ کی رحمتوں کے نزول کا مرکز ہوگا۔ اللہ کے ذکر سے غفلت غافل اوراس کے ہم نشین کی بدبختی کا سبب ہے۔ ٭ذکر قیامت کے دن بندے کو ندامت اور حسرت سے بچاتا ہے کیونکہ ہر وہ مجلس جس میں بندہ اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا وہ اس کے لئے بروز قیامت حسر کا باعث ہوگی۔٭دوران ذکر خلوت میں رونا، یوم محشر ظل الہٰی کے حصول کا سبب ہے۔٭مشغولیت ذکر ،اللہ تعالیٰ کے جودوکرم میں اضافے کا ذریعہ ہے جیسا کہ گذشتہ بحث میں حدیث گزری ہے۔٭ذکر افضل ترین عبادت ہونے کے باوجود آسان ترین عبادت ہے کیونکہ حرکت لسان باقی اعضاء کی حرکت سے ہلکی اورسہل ترین ہے۔ ایک دن میں زبان کی حرکت کی مقدار کوئی دوسراعضو حرکت کرے توا س کے لئے انتہائی دشوار ہے بلکہ یہ ناممکن ہے۔ ٭ذکر جنت کا پودا ہے ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسراء کی رات میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملا۔انہوں نے فرمایا :’’اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی امت کو میرا سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت کی مٹی بڑی عمدہ اور پانی بڑا میٹھا ہے اور یہ خالی میدان ہے اور اس کے پودے سبحان اللہ ، والحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر ہیں:۔
٭ذکر پر مرتب ہونے والا فضل واحسان ہر عمل سے بڑھ کر ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے دن میں سو مرتبہ کہا :لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ،لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر ۔اس کو دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا سو نیکیاں اسکے نامہ اعمال میں لکھ دی جائیں گی اور ۱۰۰ گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔ شام تک شیطان سے محفوظ ہوجائے گا اور اس سے افضل کسی کا عمل نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ جس نے اس کلمہ کا زیادہ ذکر کیا۔ 

اور جس نے دن میں سومرتبہ کہا۔ سبحان اللہ وبحمدہ اس کی خطائیں معاف کردی جائیں گی۔ اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ کی مانند ہوں۔ (علامہ ابن القیم الجوزیہ)

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 20-21 . کیا ہم یہودیوں کے نقش قدم پ...

منگل، 11 جنوری، 2022

Shortclip - غافل انسان کی منزل جہنم ہے؟

Shortclip کیا اللہ تعالٰی نے ہمیں فضول بنایا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1955 ( Surah Al-Jumua Ayat 02 - 04 Part-2 ) ...

Darsulquran urdu surah al-maeda Ayat 18-19. کیا ہماری بخشش ہو چکی ہے

فضائلِ ذکر(۲)

 

فضائلِ ذکر(۲)

٭اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ذاکر کو اللہ تعالیٰ یاد کرتاہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘اور اگر ذکر کا یہی ایک فائدہ ہوتا تو یہ عظمت وشرف کے اعتبار سے خالی نہ ہوتا۔ 

حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے :’’جو میرا ذکر مجلس میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر افضل گروہ (ملائکہ) میں کرتا ہوں‘‘۔

٭اور یہ حیات قلب کا باعث ہے ۔میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دل کے لئے ذکر ایسے ہے جیسے مچھلی کے لئے پانی اور مچھلی جب پانی سے جدا ہوتو اس کی کیا حالت ہوگی ۔ 

٭ دل کے زنگ کو دور کرتا ہے ۔ہر چیز کو زنگ لگتا ہے اور دل کا زنگ غفلت اور خواہشات نفسانیہ ہیں۔ ذکر ،توبہ اوراستغفار سے زنگ دور ہوجاتا ہے۔ ٭خطا کو ختم کردیتا ہے کیونکہ نیکیاں خطائوں کو ختم کردیتی ہیں اورذکر بہت بڑی نیکی ہے۔ ٭یہ ذکر بندہ ورب کے درمیان اجنبیت کو زائل کردیتا ہے کیونکہ بندہ اوررب کے درمیان اجنبیت صرف ذکر سے ہی دور ہوسکتی ہے۔٭جب بندہ خوشحالی کے دنوں میں رب قدوس کو یادرکھتا ہے تو تنگی کے ایام میں اللہ تعالیٰ اس کی خبر گیری کرتا ہے۔ایک اثر روایت کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اورذکر کرنے والے بندے کو جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے یا بارگاہ الہٰی میں کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو فرشتے کہتے ہیں:’’اے پروردگار!یہ تو معروف بندے کی جانی پہچانی آواز ہے‘‘ جب غافل اورذکر اللہ سے اعراض کرنے والا دعاکرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں :’’یہ کسی اجنبی بندے کی نامانوس آواز ہے ‘‘۔٭اللہ کے عذاب سے نجات دلاتا ہے ۔جیسا کہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے’’ ذکر اللہ سے بڑھ کر عذاب الہٰی سے نجات دلانے والا کوئی عمل نہیں‘‘۔ ٭یہ ذکر نزول رحمت اورسکون واطمینان کا سبب ہے ذاکر کو اللہ کے فرشتے گھیر لیتے ہیں جیسا کہ اس مفہوم کی حدیث گزرچکی ہے ٭زبان کو غیبت، چغل خوری ، جھوٹ ،فحش ااورباطل کلام سے محفوظ کرنے کا سبب ہے۔کیونکہ بندہ کلام اور گفتگو کے بغیر نہیں رہ سکتا اگر اللہ کا ذکر نہیں کریگا تو ا سکی زبان ان لغویات میں مشغول ہوجائے گی۔زبان کو ان سے محفوظ کرنے کا طریقہ صرف اللہ کاذکر ہے ۔یہ آزمودہ چیز ہے کہ جس نے اپنی زبان کو اللہ کے ذکر کا عادی کرلیا اس نے اس کو باطل اورلغو کلام سے محفوظ کرلیا اورجس کی زبان اللہ کے ذکر میں مشغول نہ ہوئی وہ باطل اورلغو کلام میں واقع ہوگئی۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ (علامہ ابن القیم الجوزیہ)


اتوار، 9 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1953 ( Surah Al-Jumua Ayat 01 ) درس قرآن سُو...

Shortclip - کیا ہماری پیدائش باطل ہے؟

Shortclip - رب کی یاد کیا ہے؟

فضائلِ ذکر(۱)

 

فضائلِ ذکر(۱)

علامہ ابن القیم الجوزیہ تحریر فرماتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر الہٰی کے سو سے زائد فائدے ہیں ، ان میں سے کچھ فوائد درج ذیل ہیں :

٭شیطان کو بھگاتا ہے اور اس کا قلع قمع کردیتا ہے۔ ٭ذکر سے رب راضی ہوجاتا ہے۔٭دل سے غم وحزن کو دور کردیتا ہے۔ ٭دل کی مسرت وفرحت کا باعث ہے ۔٭چہر ے اور دل کو منور کرتا ہے۔٭دل وبدن کو قوی کرتا ہے۔٭وسعت رزق کا باعث ہے۔٭ذاکر کو رعب ودبدبہ اور تازگی عطاکرتا ہے۔٭اس محبت کا سبب ہے جو روح اسلام ہے،اور دین کامرکز ہے ۔اور وسعت ونجات کا جس پر دارومدار ہے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب بنایا ہے اوردائمی ذکر کو اپنی محبت کا سبب بنایاہے ۔ جو اللہ کی محبت کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اس کے ذکر میں مشغول ہوجائے ۔ اورذکر ہی محبت کا دروازہ ہے اوراس کی سب سے بڑی علامت اورمضبوط راستہ ہے۔

وہ ذاکر کو مراقبہ کا اہل بنادیتا ہے یہاں تک کہ اسے مقام احسان تک پہنچادیتا ہے ۔اللہ کے ذکر سے غافل کبھی بھی مقام احسان کو حاصل نہیں کرسکتا ، جس طرح آدمی ایک جگہ پر بیٹھ کر گھر نہیں پہنچ سکتا۔

٭اور اللہ کی بارگاہ میں بکثرت رجوع کا سبب ہے ۔اور جو شخص ذکر کے ساتھ اس کی بارگاہ میں بکثرت رجوع کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تمام احوال میں اس کے دل کو اپنی طرف مائل کردیتا ہے اور مصائب وآلام میں اس کے دل کا قبلہ وکعبہ اور ملجائو ماوی خدا وند قدوس کی ذات ہی ہوتی ہے۔ ٭یہ رب قدوس کے قرب کا اہل بنادیتا ہے ۔ اور جس قدروہ اس کا ذکر کرتا ہے اس قدر اسے قرب حاصل ہوتا ہے۔ 

٭اس پر معرفت کا عظیم دروازہ کھل جاتا ہے جس قدر زیادہ ذکر کرتا ہے اسی قدر اسے معرفت خداوندی حاصل ہوتی ہے۔٭ذاکر پر اللہ تعالیٰ کی ہیبت اورجلال طاری کرتا ہے۔ بخلاف غافل کے کہ اس کے دل پر حجاب ہوتا ہے۔ 

حضرت ذوالنورین مصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا کا مزہ اس کے ذکر میں اورآخرت کا مزہ اس کے عفودرگزر میں اورجنت کا مزہ اس کے دیدار میں ہے۔‘‘

حضرت ابو سعید خراز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالی نے اولیاء کرام کی ارواح کواپنے ذکر اورقرب کی لذت سے اوربدنوں کو اپنی مفید اورعمدہ نعمتوں سے نوازااور انہیں ہرشے کا وافر حصہ عطا فرمایا۔ان کی جسمانی زندگی اہل جنت کی مثل اورروحانی حیات ،ربانیین جیسی ہے۔‘‘


ہفتہ، 8 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1952 ( Surah As-Saff Ayat 14 ) درس قرآن سُوۡ...

Shortclip - خشـیت الٰہی کیسے دل میں لائیں؟

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 17.کیا ہم ایک باغی قوم ہیں

ذکر کے آداب

 

ذکر کے آداب 

شیخ عبدالقادر عیسیٰ تحریر فرماتے ہیں ،ذکر دل کی صفائی اسکی بیداری اور اسکو اپنے رب کے ساتھ اُنسیت کا عادی بنانے اسکی مناجات میں مشغولیت اوراسکے قرب کا انتہائی مئوثر ذریعہ ہے۔مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ خلوت میں ذکر کیلئے وقت مختص کرے اورقبل از ذکر اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اپنے عیوب اور خطائوں پر غور وفکر کرے ۔اگر اسے کوئی گناہ نظر آئے تو توبہ کرے،اگر کوئی عیب نظر آئے توا س سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ذاکر کو چاہیے کہ صفات کاملہ کا جامع ہواگر وہ بیٹھ کر ذکر کر رہا ہے تو اسے چاہیے کہ قبلہ رخ ہوجائے اپنے سرکو جھکا کر بڑے سکو ن اور وقار کے ساتھ بحالت عاجزی وانکساری ذکر کرے ۔ اگر اس حالت کے علاوہ کسی اور حالت میں ذکر کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ اسی طرح مجلسِ ذکر صاف اورشوروغل سے خالی ہو کیونکہ یہی ذکر اور مذکور کے اہتمام کیلئے موزوں ہے۔ اسی  وجہ سے مساجد اور بابرکت مقامات میں ذکر کی مدح کی گئی ہے۔اس طرح ذاکر کا منہ بھی صاف ہونا چاہیے جب اسکی ظاہری صفائی اورنظافت مستحب ہے تو دل جبکہ رب کی نظر کرم کا محل ہے،اسکی صفائی زیادہ اہم ہے۔دل کو حسد ،بغض ،کینہ ،رقابت ،بخل ،تکبر ،ریاکاری ، دنیاوی روابط اور مشاغل ایسی نجاسات سے پاک کرنا ضروری ہے تاکہ وہ رب تعالیٰ کی ہم نشینی کا اہل ہوسکے اور فیوضات ربانیہ سے مسفید ہوتا رہے ۔ذکر تمام احوال میں محبو ب وپسندیدہ ہے اور ذکر سے مراد حضور قلب ہے۔ذاکر کو چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے اور ذکر کے معنی میں غور وفکر کرے اگر وہ استغفار کر رہا ہے تو اسے چاہیے تو وہ دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ اور مغفرت کا طالب ہو اور اگر وہ نبی کریم ﷺپر درود پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے قلب میں جناب رسول اللہ ﷺ کی عظمت کو اجاگر کرے اگر وہ لاالہ الا اللہ کا ذکر کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دور کرنیوالی ہر شے کی نفی کرے۔

اگر کسی وجہ سے حضور قلب کی کیفیت پوری طرح میسر نہ ہو تو پھر بھی ذکر کو ترک نہیں کر نا چاہیے بلکہ اپنی زبان سے ذکر الہٰی کو جاری رکھنا چاہیے اگر لسانی ذکر بھی ترک کردیا جائے تو زبان غیبت، چغل خوری ،گالی گلوچ اور اس طرح کے دیگر گناہوں میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

عطاء سکندری فرماتے ہیں ،ذکر میں دل حاضر نہ بھی ہو تو اسے ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ذکر سے بالکل ہی غافل ہوجانا زیادہ نقصان دہ ہے،ممکن ہے اللہ تعالیٰ تجھے غفلت والے ذکر سے بیداری کے ذکر سے حضور قلب کی طرف اور پھر حضور قلب سے ایسے ذکر کی طرف منتقل کردے جس میں اللہ کے سواء کسی اور چیز کا تصور تک نہ ہواور ایسا کرنا خدا کیلئے مشکل نہیں ہے۔

(ایقاظ الھمم: علامہ ابن عجیبہ )

جمعہ، 7 جنوری، 2022

Shortclip - خشیت الٰہی

دل کی صفائی

 

دل کی صفائی

علامہ محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ تحریرفرماتے ہیں ،بلا شک وریب چاندی اورتانبے کی طرح دل بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے اور اسکی صفائی اللہ کے ذکر سے مطمئن ہے ،ذکر الٰہی دل کو( صیقل کرکے) چمکتے ہوئے آئینہ کی طرح کردیتا ہے اور جب ذکر کو ترک کردیا جاتا ہے تو دل پھر زنگ آلود ہوجاتا ہے جبکہ زنگ لگنے کے دوسبب ہیں: ۱:۔ غفلت ،۲:۔گناہ اور زنگ آلود دل کی بھی صفائی کے بھی دوطریقے ہیں : ۱:۔ استغفار ،۲:۔اللہ رب العزت کا ذکر ۔  کثر ت غفلت سے قلب انسانی پردبیز تہہ جم جاتی ہے اور جب قلب زنگ آلود ہوجاتا ہے تو معلومات کی حقیقی تصاویر اس میں منعکس نہیں ہوتیں۔ پھر اس وجہ سے اسکے نزدیک حق وباطل میں تمیز نہیں رہتی ،وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ کیونکہ جب اس کے دل پر تہہ درتہہ زنگ جم جاتا ہے تو اسکا دل تاریک ہوجاتاہے یہاں تک کہ حقائق کی اصل تصاویر اُس پر ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔پھر مزید سیاہ ہوکر اس پر ’’رین ‘‘جم جاتا ہے۔اس کا تصور اور ادراک فاسد ہو جاتا  ہے۔جس کی وجہ سے وہ نہ تو حق کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی باطل کا انکار کرتا ہے اور یہ دل کیلئے سخت سزا ہے اور اس کا سبب غفلت اور خواہشات نفسانیہ (کی کثرت) ہے۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں دل کے نور کو مٹا کر بصیر ت کو اندھا کردیتی ہیں جیسا کہ اللہ رب العز ت کا ارشاد ہے ’’اور نہ پیروی کیجئے اس (بدنصیب)کی جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اوروہ اپنی خواہش ( نفس )کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے ۔ (الکھف۔۲۸)(الوابل الصیب )
امام فخر الدین رازی تحریر فرماتے ہیں :جہنم میں داخل ہونے کا سبب اللہ کے ذکر سے غفلت ہے اورعذاب جہنم سے چھٹکارا اللہ کے ذکر سے ہی ممکن ہے۔ اصحاب ذوق و محبت فرماتے ہیں ،جب دل اللہ کے ذکر سے غافل ہوجاتا ہے اور دنیا اور اسکی خواہشات کی طرف متوجہ ہوکر حرص وحربان میں پڑجاتا ہے اور پھر وہ ایک رغبت سے دوسری رغبت کی طرف اور ایک طلب کی طرف سے دوسری طلب کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ تاریکیوں میں گر جاتا ہے لیکن جب انسان کے دل پر اللہ کے ذکر اور معرفت کا دروازہ کھولتا ہے تو ان تمام آفات اورمصائب سے نجات مل جاتی ہے۔ اور رب تعالیٰ کی معرفت کا شعور حاصل ہوجاتا ہے۔ (تفسیر کبیر) شیخ احمد بن عجیبہ فرماتے ہیں ،بندے کو مقام رضا تک اس وقت رسائی نصیب ہوتی ہے جب وہ تین مرحلوں سے گزرے ۔۱:۔اللہ کے ذکر میں مستغرق ہو،۲:۔اسے صالح اور ذاکر بندوں کی صحبت نصیب ہو،۳:۔وہ شریعت محمد یہ علی صاحبھا افضل الصلوات والتسلیمات پر سختی سے کاربندہو۔(شرح اجرومیہ )

جمعرات، 6 جنوری، 2022

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1950 ( Surah As-Saff Ayat 10 - 13 Part-4 ) د...

Shortclip - طریقت، خشیت

Darsulquran urdu surah al-maeda ayat 15-16 - کیا ہمیں اندھیرے محبوب ہیں

اللہ کی پسند

 

اللہ کی پسند

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ کرام کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے۔اور دریافت  فرمایا :کہ کس بات نے تم لوگوں کو یہاں بٹھا رکھا ہے؟انہوں نے عرض کیا کہ ہم اللہ جل شانہٗ ہوکا ذکر کررہے ہیں اور اس بات پر اس کی حمد وثنا ء کر رہے ہیں کہ اس نے ہم لوگوں کو اسلام کی دولت سے سرفراز کیا ہے۔یہ اللہ کا ہم لوگوں پر بڑا ہی احسان ہے ۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا :

قسم بخدا ! کیا تم صرف اسی وجہ سے یہاں بیٹھے ہو؟انہوں نے عرض کیا ،واللہ ! ہم صرف اسی وجہ سے بیٹھے ہوئے ہیں۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے کسی بدگمانی کی وجہ سے تم لوگوں کو قسم نہیں دی بلکہ جبریل علیہ السلام ابھی  آئے تھے اور یہ خوشخبر ی سنا گئے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تم لوگوں کی وجہ سے ملائکہ میں فخر فرمارہے ہیں ۔ (مسلم،ترمذی ،نسائی)

حضرت ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ ان لوگوںکو دیکھو، نفس ان کے ساتھ ہے ،شیطان ان پر مسلط ہے ،شہوتیں ان میں موجود ہیں،دنیا کی ضرورتیں ان کاتعاقب کررہی ہیں ، ان سب کے باوجود یہ ان سب کے مقابلے میں اللہ کے ذکر میں مشغول ہیں اور اتنی کثرت سے مزاحمت کرنے والی چیز وں کے باوجود میرے ذکر سے دستبردار نہیں ہوتے ۔(اے ملائکہ )تمہارے لیے چونکہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے ،جو مانع ذکر ہو،لہٰذا ان کے مقابلے میں تمہاراذکر اورتسبیح اُس درجے کی بات نہیں ہے ۔ 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ؛ میں نے سنا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرمارہے ہیں :سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تبارک تعالیٰ اس دن اپنی رحمت کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اُس کے سایہ کے سواء کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔۱:۔عادل بادشاہ ،۲:۔وہ نوجوان جو عالم شباب میں اللہ کی عبادت کرتا ہو،۳:۔وہ شخص جس کا دل مسجد میں معلق ہو،۴:۔وہ دو ایسے افراد جن کے درمیان اللہ ہی کے لیے محبت ہو،اسی پر ان کا اجتماع ہواور اسی پر ان کی جدائی ہو،۵:۔وہ شخص جس کوکوئی خوبرو اور باعزت عورت اپنی طرف متوجہ کرے لیکن وہ کہہ دے کہ مجھے تو اللہ کا خوف مانع ہے،۶:۔وہ شخص جو ایسے مخفی طریقے سے صدقہ کرے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو،۷:۔وہ شخص جو اللہ کا ذکر تنہائی میں کرے اور( بے ساختہ)اس کے آنسو بہنے لگیں ۔(بخاری ومسلم)

حضر ت ثابت بنانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :ایک بزرگ کا قول ہے’’مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ میری کون سی دعاء قبول ہوئی ہے ،لوگوں نے پوچھا آپ کو کس طرح خبر ہوجاتی ہے۔فرمانے لگے جس دعا ء میں بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں دل دھڑکنے لگتا اور آنکھوں سے آنسوبہنے لگتے ہیں وہ دعاء ضرور قبول ہوجاتی ہے ۔