اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
پیر، 31 جنوری، 2022
اقوالِ صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ(۱)
اقوالِ صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ(۱)
٭عاجز ترین وہ شخص ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو اوراگر بہم پہنچے تو معمولی ملال سے اس کو چھوڑدے۔
٭ماں پاب کی خوشنودی دنیا میں موجب دولت اورعاقبت میں باعث نجات ہے۔
٭گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے مگر گناہ سے بچنا واجب تر ہے۔٭جو امر پیش آتاہے وہ نزدیک ہے لیکن موت اس سے بھی نزدیک تر ہے۔
٭شرم مردوں سے خوب ہے مگر عورتوں سے خوب تر ہے۔٭پاک نفس آدمی شہر ت میں عورتوں سے زیادہ شرماتا ہے۔
٭دنیا کے ساتھ مشغول ہونا جاہل کا بد ہے لیکن عالم کا بدترہے۔
٭گناہ، جو ان کا ابھی اگر چہ بد ہے لیکن بوڑھے کا بدتر ہے۔٭بخشش کرنا امیر سے خوب ہے لیکن محتاج سے خوب ترہے۔
٭علم پیغمبروں کی میراث ہے اورفرعون وقارون کی میراث مال ہے۔
٭موت سے محبت کروتو زندگی عطا کی جائیگی۔
٭میری نصیحت قبول کرنے والا دل‘موت سے زیادہ کسی کو محبو ب نہ رکھے ۔
٭دل مردہ ہے اوراس کی زندگی علم ہے۔ علم بھی مردہ ہے اوراس کی زندگی طلب کرنے سے ہے۔
٭جو اللہ کے کاموں میں لگ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔
٭دنیا اوردنیا کی چیزیں اس قابل نہیں کہ ان سے دل لگایا جائے اس لئے کہ جو مشغول بہ فانی ہوگیا وہ باقی کے ساتھ محجوب ہوجائے گا۔
٭بدبخت ہے وہ شخص جو خود تو مرجائے لیکن اس کا نہ گناہ نہ مرے۔
٭مصیبت کی جڑ اور بنیاد انسان کی گفتگو ہے۔
٭خبردار! کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو حقیر نہ سمجھے کیونکہ کم درجے کا مسلمان بھی خد ا کے یہاں بسااوقات بلند مرتبہ رکھتا ہے۔
٭وہ علماء حق تعالیٰ کے دشمن ہیں جو امراء کے پاس جاتے ہیں اوروہ امرا‘حق تعالیٰ کے دوست ہیں جو علماء کے پاس آتے ہیں۔
٭بری صحبت سے تنہائی اورتنہائی سے علماء کی صحبت بدر جہا اکبر ہے۔
٭نماز کو سجد ہ سہو پورا کرتا ہے ۔روزوں کو صدقہ پورا کرتا ہے۔حج کو فدیہ قربانی پورا کرتا ہے اورایمان کو جہاد پورا کرتا ہے۔
اتوار، 30 جنوری، 2022
حضرت صدیقِ اکبر کا ایک خطبہ
حضرت صدیقِ اکبر کا ایک خطبہ
میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ سے ڈرو،اس کی شان کے مطابق اس کی حمد کرو۔اور اللہ کے عذاب خوف تو ہونا چاہیے لیکن ساتھ ساتھ اس کی رحمت کی امید بھی رکھو۔اور اللہ سے خوب گڑگڑا کر مانگو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور انکے گھر والوں کی قرآن میں تعریف فرمائی ہے اور ارشادفرمایا ہے:’’یہ سب نیک کاموں میں تندہی کرتے تھے۔اور امید وبیم کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے خشیت اختیار کرتے تھے‘‘۔(انبیاء ۔۱۹)
پھر اے اللہ کے بندوں تم بھی یہ جان لوکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بدلے میں تمہاری جانوں کو رہن رکھا ہوا ہے ۔اور اس پر اللہ نے تم سب سے پختہ عہد بھی لیا ہے اور اس نے تم سے دنیا کے قلیل اور ناپائیدار سامان کو آخرت کے کثیر اور دائمی اجر کے بدلے میں خرید لیا ہے۔اور یہ تمہارے درمیان اللہ رب العز ت کی کتاب ہے جس کے عجائب ختم نہیں ہوسکتے ۔اور جس کا نور کبھی بجھ نہیں سکتا لہٰذا اس کتاب کے ہر قول کی تصدیق کرواور اس سے نصیحت حاصل کرو۔اور قبر کے تاریک دن کے لیے اس میں سے روشنی حاصل کرو۔
اللہ نے صر ف تمہیں عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور (نامہ اعمال لکھنے والے)کریم فرشتوں کو تم پر مقرر کیا ہے جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔ تو پھر اے اللہ کے بندوں یہ بھی جان لوکہ تم صبح وشام اس موت کی طرف پیش قدمی کر رہے ہو جس کا وقت مقرر ہے لیکن تمہیں اس سے آگاہ نہیں کیا گیا ۔تم اس بات کی پوری کوشش کرو کہ جب تمہاری عمر کا آخری وقت آئے تو تم اس وقت اللہ کے کسی کام میں مصروف ہواور ایسا تو تم صرف اللہ کی مدد ہی سے کرسکتے ہو۔لہٰذا عمر کے مکمل ہونے سے پہلے تمہیں جو مہلت ملی ہوئی ہے اس میں نیک اعمال میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ ورنہ تمہیں اپنے برے اعمال کی طرف جانا پڑے گا۔ بہت سے لوگوں نے اپنے آپ کو فراموش کررکھا ہے اور اپنی عمر دوسروں کو دے دی ہے یعنی اپنے ایمان و عمل کی انہیں کوئی فکر نہیں میں تمہیں ان جیسا بننے سے سختی سے روکتا ہوں۔(نیکی اختیار کرنے میں )جلدی کرو کیونکہ تمہارے پیچھے موت کا فرشتہ لگا ہوا ہے جو تمہیں تیزی سے تلاش کر رہا ہے اوراس کی رفتار بھی بہت تیز ہے۔(اور یادرکھو !)اس قول میں کوئی خیر نہیں جس سے اللہ کی رضاء مقصود نہ ہواور اس مال میں کوئی خیر نہیں جسے اللہ کے رستے میں خرچ نہ کیا جائے ۔اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جس کی نادانی اس کی بردباری پر غالب ہواوراس آدمی میں بھی کوئی خیر نہیں جو اللہ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ڈرے۔(ابو نعیم ،حاکم)
جمعہ، 28 جنوری، 2022
خلیفہ الرسول کا طرز عمل
خلیفہ الرسول کا طرز عمل
جمعرات، 27 جنوری، 2022
افتخارِ اسلام
افتخارِ اسلام
’’جب یہ حکام بزرگی اورشرافت میں ان کا مقابلہ کریں گے تو یہ اُن سے بڑھ جائیں گے۔کیونکہ ان پر یہ مجدوشرافت اس کثرت سے بہائی گئی ہے ۔جیسے کسی پر پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے ڈول ڈالے گئے ہوں۔ ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم یہ اشعار سن کرمسکرانے لگے۔ پھر آپ نے وہ جوڑا (آزادکردہ غلام کے بیٹے) اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو عطاء فرمادیا۔جب میں نے اسامہ کو وہ لباس پہنے ہوئے دیکھا توانھیں کہا اے اسامہ (تمہیں خبر ہے)تم نے ذی یزن (بادشاہ)کا جوڑا پہن رکھا ہے۔انھوں نے بڑی رسان سے کہا میں ذی یزن سے بہتر ہوں میرا باپ اسکے باپ سے اورمیری ماں اسکی ماں سے بہترہے۔ جب میں مکہ واپس آیا تووہاں کے لوگوں کو اسامہ بن زید کی بات سنائی وہ ایک آزاد کردہ غلام کے فرزند کے اپنے دین پر ناز اورافتخار سے بڑے حیران ہوئے۔(طبرانی ،حاکم)
بدھ، 26 جنوری، 2022
نعمت اورمصیبت میں مومن کا رویہ
نعمت اورمصیبت میں مومن کا رویہ
منگل، 25 جنوری، 2022
دھیان رکھنے کی سات باتیں
دھیان رکھنے کی سات باتیں
فقیہہ ابوللیث سمرقندی فرماتے ہیں: ’’کسی دانا کا قول ہے کہ جواعمال کی بجاآوری میں سات باتوں کا مدنظر رکھنا ضروری ہے ۔جو شخص انھیں دھیان میں نہیں رکھتا اسکے اعمال اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے۔
۱)خوف ہو لیکن احتیاط نہ ہو:۔ ایک شخص یوں توکہتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتا ہوں اوراسکے عذاب سے خوف زدہ بھی ہوں۔لیکن وہ گناہوں سے بچنے میں کوئی احتیاط نہیں کرتا تواسے اس قول کاکوئی نفع نہیں ہوتا ۔۲)بغیر طلب کے امید:۔ کوئی شخص یہ توکہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ثواب کا امید وار ہوں لیکن وہ اعمال صالحہ کے ذریعے ثواب کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو محض امید اجروثواب سے کوئی فائدہ نہیں ہوتاہے۔ ۳)ارادہ کے بغیر نیت :۔ کوئی شخص دل سے کسی نیکی کی نیت توکرے لیکن اسے عملی طور پر کرنے کا کوئی ارادہ نہ کرے تویہ نیت بھی نفع مندنہیں۔۴)دعا ہولیکن عملی کوشش نہ ہو:۔کوئی انسان اللہ رب العزت کے حضورمیں یہ دعا تو کرے کہ اسے عمل خیر کی توفیق مل جائے لیکن عمل خیر کیلئے کبھی کوشش نہ کرے اور موقع ملنے پر بھی جدوجہد سے گریزاں رہے تو ایسی دعا بھی اس کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوسکتی ۔ انسان کیلئے مناسب یہی ہے کہ وہ کوشش کرے تاکہ خداوندِ کریم اسے عمل صالح کی توفیق بھی مرحمت فرمائے ارشادباری تعالیٰ ہے۔ ’’اورجنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ہم انہیں ضرور اپنے راستے دکھادینگے اوربے شک اللہ نیک انسانوں کے ساتھ ہے‘‘ ۔ (العنکبوت ۶۹) یعنی وہ لوگ ہماری اطاعت کی بجاآوری میں کوشاں رہتے ہیں اورہمارے دین میں محنت کرتے ہیں ہم انہیں ایسا کرنے کی توفیق ضرور عطاء کرتے ہیں۔۵) استغفار ہو مگر ندامت نہ ہو:۔ کوئی انسان اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش تو طلب کرتا ہو لیکن اسے اپنے کردہ گناہوں پر کوئی ندامت ،پیشمانی اور تاسف نہ ہوتو یہ بھی کار عبث ہے۔ ۶)ظاہری اعمال کی اصلاح ہولیکن اصلاح باطن سے محروم ہو:۔ یعنی کوئی شخص ظاہری طور پر تو بہت سرگرداں ہو۔ لیکن اسکے اعمال کی باطنی جہت درست نہ ہو اوروہ رضا الہٰی کا خواستگار نہ ہو۔ تو یہ بھی محض اپنے نفس کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ ۷)اعمال توہوں لیکن اخلاص نہ ہو:۔ کسی شخص کے اعمال میں اخلاص نہ ہو تو بغیر خلوص کے کیے جانے والے اعمال بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا :آخری زمانے میں ایسے قومیں نمودار ہوں گی جو دنیا کو دین کے عوض ہڑپ کرینگے۔ایک اورروایت میں آتا ہے کہ وہ دنیا کوحاصل کرینگے۔ انکے لباس اون کی طرح ،انکی زبانیں شکر کی طرح میٹھی اورانکے دل بھیڑیے کی طرح (سخت)ہونگے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے تو فرمائے گا۔ تم میرے ساتھ دھوکے میں مبتلا رہے یا مجھ پر جرأت کرتے رہے۔ (تنبیہ الغافلین)
ہفتہ، 22 جنوری، 2022
بہترین عمل کی علامات
بہترین عمل کی علامات
فقیہہ ابوللیث نصر بن محمد ابراہیم سمر قندی فرماتے ہیں:۔حضرت شفیق بن ابراہیم سے روایت کیاگیا ہے کہ بہترین اعمال تین باتیں ہیں ۔
۱)ہر عمل کرنے والا یہ باور کرے کہ میرا یہ عمل اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ تاکہ خود بینی کے قریب میں نہ آئے اورخود ستائی کابت پاش پاش ہوجائے۔۲)ہر عمل سے محض اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاء مطلوب ہوتاکہ خواہشات کی بیخ کنی ہوسکے۔
۳)ہمیشہ اللہ رب العزت کی بارگاہ عالیہ سے ہی عمل کے اجروثواب کا طالب رہے تاکہ اہل دنیا سے حرص اورطمع باقی نہ رہے اورریا کاری کے دام میں نہ الجھے ان تین باتوں سے اعمال میں اخلاص پیدا ہوتاہے ۔٭ ’عمل‘اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے باور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اچھی طرح جان لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہی ہے جس نے اسے عمل صالح کی توفیق عطافرمائی ہے۔جس انسان کو یہ علم ہوجائے تو رب تعالیٰ کے شکر کی ادائیگی میں مشغول ہوجاتا ہے اوریہ شغل اسے خودستائی اورخود بینی کے عذاب سے محفوظ رکھنے کا سبب بن جائے گا۔ ٭اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مطلوب ہونے سے مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام اعمال پر غوروفکر کرے اگر تو عمل اللہ کے لیے ہو اوراس میں اللہ تعالیٰ کی رضاء بھی شامل حال ہوتو اسے بجالائے اوراگر علم ہوجائے کہ اس عمل میں اللہ تعالیٰ کی رضاشامل حال نہیں ہے تواس عمل سے اجتناب کرے تاکہ اس کا کوئی کام نفس کی خواہش کے مطابق نہ ہو۔ کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد گرامی ہے’’بے شک نفسِ امارّہ برائی کاحکم دیتا ہے ۔ (یوسف۵۲)اللہ رب العزت کی بارگاہ ہی سے عمل کے اجروثواب کی امید رکھنے سے مقصود یہ ہے کہ انسان کوچاہیے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عمل کرے۔ لوگوں کی نارواباتوں اوران کے طعن وتشنیع کے تیروں کی مطلقاً پروا نہ کرے۔کسی دانا سے روایت کیاگیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں۔’’نیک عمل کرنے والے کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنے عمل میں چرواہے سے ادب سیکھے ۔ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیسے ؟تو انہوں نے کہا ایک چرواہا جب اپنی بکریوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریزی کررہا ہوتا ہے تووہ اپنی نماز پر اپنی بکر یوں کی طرف سے تعریف کا متمنی نہیں ہوتا۔اس طرح ایک عامل کے لیے بھی ازبس ضروری ہے کہ لوگوں کی توجہ اورتعریف وستائش کی بالکل پرواہ نہ کرے اس کا عمل خالص اللہ کے لیے ہو۔خلوت وجلوت اس کے نزدیک یکساں حیثیت کے حامل ہوں۔ اوروہ ہر حال میں اپنے پروردگار ہی سے وابستہ ہو‘‘۔(تنبیہ الغافلین)
جمعہ، 21 جنوری، 2022
مصائب اور کفارہ
مصائب اور کفارہ
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انسان کا ایک مرتبہ کو نہیں پاسکتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے کسی آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ اس مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مؤمن اورمؤمنہ کے مال وجان اوران کی اولاد کے سلسلے میں ان پر بلاء وآزمائش جاری رہتی ہے حتیٰ کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتے ہیں توان پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔
٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ بخار دوزخ کی دھونکنی ہے توجس مؤمن کواس سے کچھ حضہ پہنچا ،وہ دوزخ کی آگ سے اس کا نصیب تھا۔
٭ حضرت عبدالرحمن بن ازھر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مؤمن بندہ کی مثال جب اسے بخار آتا ہے ،اس لوہے کے ٹکڑے کی سی ہے جسے آگ میں ڈالا جاتا ہے وہ اس کی میل کچیل کو دور کرکے اسے خالص بنادیتی ہے۔(الآداب،بیہقی)
جمعرات، 20 جنوری، 2022
خطائوں کی بخشش
خطائوں کی بخشش
بدھ، 19 جنوری، 2022
توبہ
توبہ
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑی خوب بات کہی کہ انسان خطا ء کرتے ہوئے یہ سوچتا ہے کہ یہ چھوٹی سی بات ہی تو ہے ۔ کاش وہ یہ بھی سوچے کہ جس خالق و مالک کے حکم کی سرتابی ہورہی ہے اس کی ذات چھوٹی نہیں ہے ۔ اس مالک الملک کے حکم کو نہ مانتا کتنی بڑی جسارت ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ ارحم الراحمین بھی ہے ۔ اس نے ایک دروازہ کھول رکھا ہے ۔ جسے تو بہ کا دروازہ کہتے ہیں۔ جس طرح گناہوں سے اجتناب کرنے کا حکم ہے اس طرح توبہ کا بھی حکم ہے ۔ اللہ رب العز ت کا ارشاد گرامی ہے :
۱:۔ اے مومنو! اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پائو۔ (النور : ۲۱)
۲:۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کر و۔(ہود : ۳)
۳:۔اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی جناب میں سچے دل سے توبہ کر و ۔( تحریم :۸)
حدیث کے نامور اور مستند امام حضرت محی الد ین ابوز کریا یحیی بن شرف النودی ارشاد فرماتے ہیں ۔
’’علما کہتے ہیں کہ ہر گنا ہ سے توبہ واجب ہے ۔ اگر گناہ کا معاملہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو اور کسی آدمی کے حق سے اس کاتعلق نہ ہو تو اس صورت میں تو بہ کی تین شرطیں ہیں ۔پہلی یہ کہ گنا ہ سے رک جائے ،دوسری یہ کہ گنا ہ پر شرمسار ہو اور تیسری یہ کہ پھر اس گنا ہ کا اعادہ نہ کر نے کا پختہ ارادہ بھی کرے ۔ اگر ان شر ائط میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی گئی تو توبہ صحیح نہ ہوگی۔ اور اگر اس خطاء کا تعلق حقو ق العباد سے ہو تو پھر توبہ کی چار شرائط ہیں ۔ تین شرطیں تو وہی ہیں جو پہلے گزر چکی ہیں۔ چوتھی یہ کہ حق دار کو اس کا حق اداکرے اگر کسی کا مال ہتھیا لیا تھا تو اسے لوٹا دے ۔ اگر کسی پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو اسے اپنے مواخذ ے پر قادر کرے یااس سے معافی مانگ لے ۔ اور ضروری ہے کہ اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر ے اور اگر بعض گناہوں سے توبہ کر ے تو اہلِ حق کے نزدیک وہ توبہ بھی صحیح ہے مگر دوسرے گنا ہ باقی رہیں گے(اور ان سے بھی توبہ واجب ہے) تو بہ کے وجوب پر کتاب وسنت اور اجماع امت کے واضع دلائل موجود ہیں۔ ‘‘ اللہ کے پا ک پیغمبر غلطیوں اور خطائو ں سے پاک ہیں اور گناہوں سے معصوم ہیں ۔ اسکے باوجود بار بار اللہ کی بارگاہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ توبہ کرتے ہیں۔ وہ اپنی عاجزی انکساری اور عرفانِ عبودیت کی بنا پر اپنے کسی عمل کو اللہ کی بارگاہ کے شایانِ شان نہیں سمجھتے تو عام انسان جن سے واقعتا گنا ہ سرزد ہوتے ہیں اللہ کی بارگاہ میں کیوں نہ توبہ کریں ۔ حدیث پاک میں ہے : ’’خدا کی قسم ! میں ایک دن میں سترّ مرتبہ خدا سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘ (بخاری شریف )
منگل، 18 جنوری، 2022
تلاشِ حقیقت
تلاشِ حقیقت
پیر، 17 جنوری، 2022
درسِ توحید
درسِ توحید
اتوار، 16 جنوری، 2022
ہفتہ، 15 جنوری، 2022
فضائلِ ذکر (۶)
فضائلِ ذکر (۶)
٭ذکر قساوت قلبی کا خاتمہ کردیتا ہے ۔ بندے کو چاہئے کہ ذکر الہٰی سے اپنے دل کی سختی کاعلاج کرے ۔ایک آدمی نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے دل کی سختی کاشکوہ کیا۔آپ نے فرمایا:’’ذکرالہٰی سے اسے نرم کرو۔ کیونکہ قساوت قلبی کا سبب غفلت ہے۔ جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو قساوت اس طرح پگھل جاتی ہے جس طرح سیسہ۔‘‘
٭ذکر دل کیلئے شفاء اورعلاج ہے اورغفلت اس کی بیماری ۔پس بیماردلوں کی شفاء اللہ کا ذکر ہے۔
شیخ مکحول رحمۃ اللہ علی فرماتے ہیں :’’اللہ کے ذکرمیں شفاء ہے اورلوگوں کا ذکر بیماری کا باعث ہے۔‘‘
’’جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو تمہارے ذکر کے ساتھ علاج کرتے ہیں اورجب کبھی ذکر کو ترک کردیں توپھر بیمار ہوجاتے ہیں۔‘‘ ذکر،محبت الٰہی کی بنیاد ہے اورغفلت عداوت پر وردگار کی اصل ہے بندہ اپنے رب کا ذکر کرتے ہوئے اس مقام پر فائز ہوجاتا ہے کہ رب کریم اسے محبت عطاکرکے اپنا دوست بنالیتا ہے۔ اسی طرح جب بندہ اپنے رب سے غافل ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر اسے اپنا دشمن قرار دے دیتا ہے ۔بندے کی اپنے رب سے سخت ترین دشمنی کی علامت یہ ہے کہ وہ اسکے ذکر کو ناپسند اوراسکے ذاکر کو برا جانتا ہے ۔اوراس کا سبب غفلت ہے اور بندہ اسی غفلت کی وجہ سے ذکر اورذاکرین کو ناپسند کرتا ہے ۔اس وقت اللہ تعالیٰ اسے اپنا دشمن بنالیتا ہے ۔جس طرح کہ ذکر کرنیوالے کو اپنا ولی بنالیتا ہے۔ ٭دائمی ذکر کرنے والا مسکراتا ہواجنت میں داخل ہوگا۔ جس طرح ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’وہ لوگ جن کی زبانیں اللہ عزوجل کے ذکر سے تررہیں گی وہ جنت میں مسکراتے ہوئے داخل ہوں گے۔‘‘ ٭ذکر بندے اورجہنم کے درمیان رکاوٹ ہے۔ جب بندہ اپنے کسی عمل کی وجہ سے جہنم کے راستے کی طرف جائیگا۔ تو ذکر اسکے راستے میں رکاوٹ بن جائیگا۔ ذکر جس قدردائمی اورکامل ہوگا اسی قدر رکاوٹ مضبوط اور محکم ہوگی کہ اس میں سے کوئی چیز گزرنہ سکے گی۔ ٭تمام احوال کاحکم ذکر الٰہی کو قائم کرنے کیلئے ہی دیا گیا ہے کیونکہ اصل مقصود ذکر الٰہی ہے جیسا کہ ارشاد رب العلیٰ ہے:۔’’میرے ذکر کیلئے نماز قائم کرو‘‘۔ (طہ: ۱۴)صوفیائے کرام نے اپنے تمام احوال میں ذکر الٰہی پر مواظبت اختیار فرمائی اور ذکر کے فوائد کو محسوس کیا۔ اورپھر یقینی تجربہ کی بنیاد پر اسکے بارے میں گفتگو فرمائی۔ اور دوسرے لوگوںکوبکثرت ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کسی کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہ چیزپسند کرے جو اپنی ذات کے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(بخاری،مسلم)
جمعہ، 14 جنوری، 2022
فضائلِ ذکر(۵)
فضائلِ ذکر(۵)
’’یقینا اللہ تعالیٰ انکے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اورجو نیک کاموں میں سرگرم رہتے ہیں‘‘۔ (نحل :۱۲۸)’’اوراللہ صبر کرنیوالوں کیساتھ ہے‘‘۔ (انفال:۸۶)
’’مت غمگین ہو۔یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔(توبہـ:۴۰)ذاکر کو اس معیت سے وافر حصہ ملتا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے۔ ’’میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے اور جب اسکے ہونٹ میرے ذکر کیلئے حرکت کرتے ہیں ‘‘۔
دوسری حدیث میں ہے: ’’اہل ذکر میرے ہم نشین ہیں اورمیرا شکر کرنے والے میرے فضل واحسان کے اہل ہیں اورمیری اطاعت کرنیوالے میری جو دوسخاکے قابل ہیں اوراپنی نافرمانی کرنے والوں کو مایوس نہیں کرتا۔اگر وہ توبہ کریں تو میں ان کا حبیب ہوں۔کیونکہ میں توبہ کرنیوالوں اورپاکیزہ بندوں کو پسند کرتا ہوں۔ اگروہ توبہ نہ کریں تو میں ہی ان کا طبیب ہوں۔ ان کو مصائب وآلام میں مبتلا کرتا ہوں تاکہ ان کو گناہوں سے پاک کردوں۔‘‘ذاکر کو حاصل ہونے والی معیت کسی دوسری چیز کے مشابہ نہیں ہوسکتی اوریہ محسن اورمتقی سے حاصل ہونیوالی معیت سے خاص ہے۔ یہ وہ معیت ہے جس کو الفاظ سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا ۔اس کو سمجھنا ذوق پر ہی منحصر ہے۔
٭اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ متقی ہے جس کی زبان ہمیشہ ذکر سے تررہے۔ کیونکہ وہ اس کے اوامرونواہی سے ڈرتا ہے اوراس کے ذکر کواپنا شعار بنالیتا ہے تو یہ تقویٰ اس کو جنت میں داخل کردیتا ہے اور جہنم سے نجات دیتا ہے ۔یہ اجر وثواب توا سے ملے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذکر قرب الہٰی کا باعث بھی ہے اور مومن کایہی مقصود ہے۔
(علامہ ابن القیم الجوزیہ)
جمعرات، 13 جنوری، 2022
فضائلِ ذکر (۴)
فضائلِ ذکر (۴)
٭بندہ دائمی ذکر سے اپنے رب کو بھولنے سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اپنے پروردگار کو بھولنا، اس کے لئے دنیا وآخرت میں بدبختی کا سبب ہے ۔ کیونکہ اگر وہ اپنے رب کو بھول جائے تو وہ اپنی ذات اوراس کے متعلقہ تمام مصلحتوں کو بھول جاتا ہے ۔ ارشاد بار ی تعالیٰ ہے:۔
’’ان (نادانوں )کی مانند نہ ہوجانا جنہوں نے بھلادیا اللہ تعالیٰ کو پس اللہ نے انہیں خودفراموش بنادیا ۔یہی نافرمان لوگ ہیں۔‘‘(الحشر۔ ۱۹)٭ذکر بندے کے عمل کو جاری رکھتا ہے خواہ اپنے بستر میں یا سفر میں، حالت صحت میں ہو یا بیماری میں ۔کوئی عبادت ذکر کی مثل نہیں جو تمام اوقات اوراحوال کو شامل ہو۔حتیٰ کہ وہ بندے کی رفتار عمل کو جاری رکھتا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے بستر پر سویا ہوتا ہے۔ لیکن غافل جاگنے والے سے سبقت لے جاتا ہے ۔ حکایت ہے کہ ایک عبادت گزار بندہ کسی کے پاس بطور مہمان ٹھہرا ۔بندئہ خدا ساری رات عبادت میں مصروف رہا۔ اورمیزبان اپنے بستر پر لیٹارہا۔صبح ہوئی تو عابدنے اسے کہا:’’قافلہ تجھ سے آگے نکل گیا‘‘اس نے جواب دیا:’’یہ توکوئی بڑی بات نہیں کہ انسان ساری رات سفر میں رہے اور علی الصبح قافلے کے ساتھ مل جائے مزہ توتب ہے کہ ساری رات بستر پر سویا رہے اورصبح قافلہ سے آگے ہو۔‘‘ اس قسم کے واقعات کی صحیح توجیہ بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی ،جس نے یہ گمان کیا کہ آرام سے سونے ولا، شب بھر عبادت کرنیوالے سبقت لے جاتا ہے ۔اس کا یہ گمان باطل ہے ا وراسکی یہ بات اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے۔ جس بستر پر سونے والے نے اپنے دل کاتعلق اپنے رب سے ملالیا ہو۔ اور اپنے سویدئہ قلب کو عرش الٰہی سے ملادیا ہو۔اور اس کا دل ساری رات فرشتوں کے ساتھ طواف عرش الٰہی میں مصروف رہا ہو۔ اور دنیا و مافیھا سے بے خبر ہوگیا ہو۔ اوروہ کسی شرعی عذر کی وجہ سے قیام لیل سے محروم ہوگیا ہو اور بستر پر لیٹے لیٹے یاد الٰہی میں مشغول ہوگیا۔ لیکن اسکے مقابلہ میں ایک اور شخص ہے جو شب بھر تونماز اورتلاوت میں مشغول رہا۔ اور اسکے دل میں ریا تکبر ،طلب جاہ اوردیگر آفات تھیں یا اس کا بدن عبادت میں مصروف تھا لیکن اس کا دل غافل تھا تو اسکی عبادت کرنیوالے سے اپنے بستر پر لیٹ کر عبادت کرنے والا کئی درجے بہتر ہے۔ ٭ذکر اصول طریقت کی بنیاد، طریقہ صوفیاء اور جسے ذکر کی توفیق میسر آجائے اس کیلئے بارگاہ خداوندی میں حضوری کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔پاک صاف ہوکر اسے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہیے تاکہ اس کو ہر مراد مل جائے ۔کیونکہ جس نے اپنے رب کو پالیا۔ اس نے ہر چیز کو پالیا۔اور جو اپنے پروردگار تک رسائی حاصل نہ کرسکا وہ ہر چیز سے محروم ہے۔ (علامہ ابن القیم الجوزیہ)
بدھ، 12 جنوری، 2022
فضائلِ ذکر(۳)
فضائلِ ذکر(۳)
اور جس نے دن میں سومرتبہ کہا۔ سبحان اللہ وبحمدہ اس کی خطائیں معاف کردی جائیں گی۔ اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ کی مانند ہوں۔ (علامہ ابن القیم الجوزیہ)
منگل، 11 جنوری، 2022
فضائلِ ذکر(۲)
فضائلِ ذکر(۲)
٭اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ذاکر کو اللہ تعالیٰ یاد کرتاہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘اور اگر ذکر کا یہی ایک فائدہ ہوتا تو یہ عظمت وشرف کے اعتبار سے خالی نہ ہوتا۔
حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے :’’جو میرا ذکر مجلس میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر افضل گروہ (ملائکہ) میں کرتا ہوں‘‘۔
٭اور یہ حیات قلب کا باعث ہے ۔میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دل کے لئے ذکر ایسے ہے جیسے مچھلی کے لئے پانی اور مچھلی جب پانی سے جدا ہوتو اس کی کیا حالت ہوگی ۔
٭ دل کے زنگ کو دور کرتا ہے ۔ہر چیز کو زنگ لگتا ہے اور دل کا زنگ غفلت اور خواہشات نفسانیہ ہیں۔ ذکر ،توبہ اوراستغفار سے زنگ دور ہوجاتا ہے۔ ٭خطا کو ختم کردیتا ہے کیونکہ نیکیاں خطائوں کو ختم کردیتی ہیں اورذکر بہت بڑی نیکی ہے۔ ٭یہ ذکر بندہ ورب کے درمیان اجنبیت کو زائل کردیتا ہے کیونکہ بندہ اوررب کے درمیان اجنبیت صرف ذکر سے ہی دور ہوسکتی ہے۔٭جب بندہ خوشحالی کے دنوں میں رب قدوس کو یادرکھتا ہے تو تنگی کے ایام میں اللہ تعالیٰ اس کی خبر گیری کرتا ہے۔ایک اثر روایت کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اورذکر کرنے والے بندے کو جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے یا بارگاہ الہٰی میں کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو فرشتے کہتے ہیں:’’اے پروردگار!یہ تو معروف بندے کی جانی پہچانی آواز ہے‘‘ جب غافل اورذکر اللہ سے اعراض کرنے والا دعاکرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں :’’یہ کسی اجنبی بندے کی نامانوس آواز ہے ‘‘۔٭اللہ کے عذاب سے نجات دلاتا ہے ۔جیسا کہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے’’ ذکر اللہ سے بڑھ کر عذاب الہٰی سے نجات دلانے والا کوئی عمل نہیں‘‘۔ ٭یہ ذکر نزول رحمت اورسکون واطمینان کا سبب ہے ذاکر کو اللہ کے فرشتے گھیر لیتے ہیں جیسا کہ اس مفہوم کی حدیث گزرچکی ہے ٭زبان کو غیبت، چغل خوری ، جھوٹ ،فحش ااورباطل کلام سے محفوظ کرنے کا سبب ہے۔کیونکہ بندہ کلام اور گفتگو کے بغیر نہیں رہ سکتا اگر اللہ کا ذکر نہیں کریگا تو ا سکی زبان ان لغویات میں مشغول ہوجائے گی۔زبان کو ان سے محفوظ کرنے کا طریقہ صرف اللہ کاذکر ہے ۔یہ آزمودہ چیز ہے کہ جس نے اپنی زبان کو اللہ کے ذکر کا عادی کرلیا اس نے اس کو باطل اورلغو کلام سے محفوظ کرلیا اورجس کی زبان اللہ کے ذکر میں مشغول نہ ہوئی وہ باطل اورلغو کلام میں واقع ہوگئی۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ (علامہ ابن القیم الجوزیہ)
پیر، 10 جنوری، 2022
اتوار، 9 جنوری، 2022
فضائلِ ذکر(۱)
فضائلِ ذکر(۱)
علامہ ابن القیم الجوزیہ تحریر فرماتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر الہٰی کے سو سے زائد فائدے ہیں ، ان میں سے کچھ فوائد درج ذیل ہیں :
٭شیطان کو بھگاتا ہے اور اس کا قلع قمع کردیتا ہے۔ ٭ذکر سے رب راضی ہوجاتا ہے۔٭دل سے غم وحزن کو دور کردیتا ہے۔ ٭دل کی مسرت وفرحت کا باعث ہے ۔٭چہر ے اور دل کو منور کرتا ہے۔٭دل وبدن کو قوی کرتا ہے۔٭وسعت رزق کا باعث ہے۔٭ذاکر کو رعب ودبدبہ اور تازگی عطاکرتا ہے۔٭اس محبت کا سبب ہے جو روح اسلام ہے،اور دین کامرکز ہے ۔اور وسعت ونجات کا جس پر دارومدار ہے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب بنایا ہے اوردائمی ذکر کو اپنی محبت کا سبب بنایاہے ۔ جو اللہ کی محبت کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اس کے ذکر میں مشغول ہوجائے ۔ اورذکر ہی محبت کا دروازہ ہے اوراس کی سب سے بڑی علامت اورمضبوط راستہ ہے۔
وہ ذاکر کو مراقبہ کا اہل بنادیتا ہے یہاں تک کہ اسے مقام احسان تک پہنچادیتا ہے ۔اللہ کے ذکر سے غافل کبھی بھی مقام احسان کو حاصل نہیں کرسکتا ، جس طرح آدمی ایک جگہ پر بیٹھ کر گھر نہیں پہنچ سکتا۔
٭اور اللہ کی بارگاہ میں بکثرت رجوع کا سبب ہے ۔اور جو شخص ذکر کے ساتھ اس کی بارگاہ میں بکثرت رجوع کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تمام احوال میں اس کے دل کو اپنی طرف مائل کردیتا ہے اور مصائب وآلام میں اس کے دل کا قبلہ وکعبہ اور ملجائو ماوی خدا وند قدوس کی ذات ہی ہوتی ہے۔ ٭یہ رب قدوس کے قرب کا اہل بنادیتا ہے ۔ اور جس قدروہ اس کا ذکر کرتا ہے اس قدر اسے قرب حاصل ہوتا ہے۔
٭اس پر معرفت کا عظیم دروازہ کھل جاتا ہے جس قدر زیادہ ذکر کرتا ہے اسی قدر اسے معرفت خداوندی حاصل ہوتی ہے۔٭ذاکر پر اللہ تعالیٰ کی ہیبت اورجلال طاری کرتا ہے۔ بخلاف غافل کے کہ اس کے دل پر حجاب ہوتا ہے۔
حضرت ذوالنورین مصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا کا مزہ اس کے ذکر میں اورآخرت کا مزہ اس کے عفودرگزر میں اورجنت کا مزہ اس کے دیدار میں ہے۔‘‘
حضرت ابو سعید خراز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالی نے اولیاء کرام کی ارواح کواپنے ذکر اورقرب کی لذت سے اوربدنوں کو اپنی مفید اورعمدہ نعمتوں سے نوازااور انہیں ہرشے کا وافر حصہ عطا فرمایا۔ان کی جسمانی زندگی اہل جنت کی مثل اورروحانی حیات ،ربانیین جیسی ہے۔‘‘
ہفتہ، 8 جنوری، 2022
ذکر کے آداب
ذکر کے آداب
اگر کسی وجہ سے حضور قلب کی کیفیت پوری طرح میسر نہ ہو تو پھر بھی ذکر کو ترک نہیں کر نا چاہیے بلکہ اپنی زبان سے ذکر الہٰی کو جاری رکھنا چاہیے اگر لسانی ذکر بھی ترک کردیا جائے تو زبان غیبت، چغل خوری ،گالی گلوچ اور اس طرح کے دیگر گناہوں میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
عطاء سکندری فرماتے ہیں ،ذکر میں دل حاضر نہ بھی ہو تو اسے ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ذکر سے بالکل ہی غافل ہوجانا زیادہ نقصان دہ ہے،ممکن ہے اللہ تعالیٰ تجھے غفلت والے ذکر سے بیداری کے ذکر سے حضور قلب کی طرف اور پھر حضور قلب سے ایسے ذکر کی طرف منتقل کردے جس میں اللہ کے سواء کسی اور چیز کا تصور تک نہ ہواور ایسا کرنا خدا کیلئے مشکل نہیں ہے۔
(ایقاظ الھمم: علامہ ابن عجیبہ )
جمعہ، 7 جنوری، 2022
دل کی صفائی
دل کی صفائی
جمعرات، 6 جنوری، 2022
اللہ کی پسند
اللہ کی پسند
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ کرام کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے۔اور دریافت فرمایا :کہ کس بات نے تم لوگوں کو یہاں بٹھا رکھا ہے؟انہوں نے عرض کیا کہ ہم اللہ جل شانہٗ ہوکا ذکر کررہے ہیں اور اس بات پر اس کی حمد وثنا ء کر رہے ہیں کہ اس نے ہم لوگوں کو اسلام کی دولت سے سرفراز کیا ہے۔یہ اللہ کا ہم لوگوں پر بڑا ہی احسان ہے ۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا :
قسم بخدا ! کیا تم صرف اسی وجہ سے یہاں بیٹھے ہو؟انہوں نے عرض کیا ،واللہ ! ہم صرف اسی وجہ سے بیٹھے ہوئے ہیں۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے کسی بدگمانی کی وجہ سے تم لوگوں کو قسم نہیں دی بلکہ جبریل علیہ السلام ابھی آئے تھے اور یہ خوشخبر ی سنا گئے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تم لوگوں کی وجہ سے ملائکہ میں فخر فرمارہے ہیں ۔ (مسلم،ترمذی ،نسائی)
حضرت ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ ان لوگوںکو دیکھو، نفس ان کے ساتھ ہے ،شیطان ان پر مسلط ہے ،شہوتیں ان میں موجود ہیں،دنیا کی ضرورتیں ان کاتعاقب کررہی ہیں ، ان سب کے باوجود یہ ان سب کے مقابلے میں اللہ کے ذکر میں مشغول ہیں اور اتنی کثرت سے مزاحمت کرنے والی چیز وں کے باوجود میرے ذکر سے دستبردار نہیں ہوتے ۔(اے ملائکہ )تمہارے لیے چونکہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے ،جو مانع ذکر ہو،لہٰذا ان کے مقابلے میں تمہاراذکر اورتسبیح اُس درجے کی بات نہیں ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ؛ میں نے سنا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرمارہے ہیں :سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تبارک تعالیٰ اس دن اپنی رحمت کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اُس کے سایہ کے سواء کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔۱:۔عادل بادشاہ ،۲:۔وہ نوجوان جو عالم شباب میں اللہ کی عبادت کرتا ہو،۳:۔وہ شخص جس کا دل مسجد میں معلق ہو،۴:۔وہ دو ایسے افراد جن کے درمیان اللہ ہی کے لیے محبت ہو،اسی پر ان کا اجتماع ہواور اسی پر ان کی جدائی ہو،۵:۔وہ شخص جس کوکوئی خوبرو اور باعزت عورت اپنی طرف متوجہ کرے لیکن وہ کہہ دے کہ مجھے تو اللہ کا خوف مانع ہے،۶:۔وہ شخص جو ایسے مخفی طریقے سے صدقہ کرے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو،۷:۔وہ شخص جو اللہ کا ذکر تنہائی میں کرے اور( بے ساختہ)اس کے آنسو بہنے لگیں ۔(بخاری ومسلم)
حضر ت ثابت بنانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :ایک بزرگ کا قول ہے’’مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ میری کون سی دعاء قبول ہوئی ہے ،لوگوں نے پوچھا آپ کو کس طرح خبر ہوجاتی ہے۔فرمانے لگے جس دعا ء میں بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں دل دھڑکنے لگتا اور آنکھوں سے آنسوبہنے لگتے ہیں وہ دعاء ضرور قبول ہوجاتی ہے ۔
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا تعلق سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ جوڑیں۔ تا کہ سیرت مبارکہ ان کے لیے مشعل راہ بنے ا...
-
روزہ اور اس کے مقاصد(۲) روزے کا پانچواں مقصد ضبط نفس کا حصول ہے۔ بھوک اور جنسی خواہش کے ساتھ تیسری خواہش راحت پسندی بھی اس کی زد میں آ...