توبہ
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑی خوب بات کہی کہ انسان خطا ء کرتے ہوئے یہ سوچتا ہے کہ یہ چھوٹی سی بات ہی تو ہے ۔ کاش وہ یہ بھی سوچے کہ جس خالق و مالک کے حکم کی سرتابی ہورہی ہے اس کی ذات چھوٹی نہیں ہے ۔ اس مالک الملک کے حکم کو نہ مانتا کتنی بڑی جسارت ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ ارحم الراحمین بھی ہے ۔ اس نے ایک دروازہ کھول رکھا ہے ۔ جسے تو بہ کا دروازہ کہتے ہیں۔ جس طرح گناہوں سے اجتناب کرنے کا حکم ہے اس طرح توبہ کا بھی حکم ہے ۔ اللہ رب العز ت کا ارشاد گرامی ہے :
۱:۔ اے مومنو! اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پائو۔ (النور : ۲۱)
۲:۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کر و۔(ہود : ۳)
۳:۔اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی جناب میں سچے دل سے توبہ کر و ۔( تحریم :۸)
حدیث کے نامور اور مستند امام حضرت محی الد ین ابوز کریا یحیی بن شرف النودی ارشاد فرماتے ہیں ۔
’’علما کہتے ہیں کہ ہر گنا ہ سے توبہ واجب ہے ۔ اگر گناہ کا معاملہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو اور کسی آدمی کے حق سے اس کاتعلق نہ ہو تو اس صورت میں تو بہ کی تین شرطیں ہیں ۔پہلی یہ کہ گنا ہ سے رک جائے ،دوسری یہ کہ گنا ہ پر شرمسار ہو اور تیسری یہ کہ پھر اس گنا ہ کا اعادہ نہ کر نے کا پختہ ارادہ بھی کرے ۔ اگر ان شر ائط میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی گئی تو توبہ صحیح نہ ہوگی۔ اور اگر اس خطاء کا تعلق حقو ق العباد سے ہو تو پھر توبہ کی چار شرائط ہیں ۔ تین شرطیں تو وہی ہیں جو پہلے گزر چکی ہیں۔ چوتھی یہ کہ حق دار کو اس کا حق اداکرے اگر کسی کا مال ہتھیا لیا تھا تو اسے لوٹا دے ۔ اگر کسی پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو اسے اپنے مواخذ ے پر قادر کرے یااس سے معافی مانگ لے ۔ اور ضروری ہے کہ اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر ے اور اگر بعض گناہوں سے توبہ کر ے تو اہلِ حق کے نزدیک وہ توبہ بھی صحیح ہے مگر دوسرے گنا ہ باقی رہیں گے(اور ان سے بھی توبہ واجب ہے) تو بہ کے وجوب پر کتاب وسنت اور اجماع امت کے واضع دلائل موجود ہیں۔ ‘‘ اللہ کے پا ک پیغمبر غلطیوں اور خطائو ں سے پاک ہیں اور گناہوں سے معصوم ہیں ۔ اسکے باوجود بار بار اللہ کی بارگاہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ توبہ کرتے ہیں۔ وہ اپنی عاجزی انکساری اور عرفانِ عبودیت کی بنا پر اپنے کسی عمل کو اللہ کی بارگاہ کے شایانِ شان نہیں سمجھتے تو عام انسان جن سے واقعتا گنا ہ سرزد ہوتے ہیں اللہ کی بارگاہ میں کیوں نہ توبہ کریں ۔ حدیث پاک میں ہے : ’’خدا کی قسم ! میں ایک دن میں سترّ مرتبہ خدا سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘ (بخاری شریف )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں